خَراب دُنیا

جمیل سنگھ

(۱۸۴۳–۱۹۲7)

Sinner World

Published in Nur-i-Afshan April 06, 1894
By Jameel Singh

خداوند  کا رسول  پولس اہل گلا تیہ کو خط لکھئے وقت اُس کط کے دیباجہ میں ہمارے  مضمون کے عنوان کے الفاظ  لکھتا ہے ۔ دیکھو  نامہ گلتیوں کو ۱:۵ ۔ اور اگر ناظرین ذرا سا بھی اِس پر غور و فکر کریں  تو یہ نہایت ہی سچ اور درست معلوم  ہو گی۔ اور کسی کو بھی اس میں کلام نہ ہوگا۔

یہ بات صریح ظاہر ہے کہ جس قدر کاریگر  زیادہ  دانا اور وقلمند ہوتا ہے۔ اُسی قدر اس کی کاریگری بھی عمدہ  اور مضبوط ہوتی ہے۔ اور صنعت اپنے صانع کی قدر اور عظمت ظاہر و آشکار  کرتی ہے  ۔ جتنی صنعتیں ہمارے دیکھنے میں آتی ہیں  دو طرح کی ہیں ۔ اوّل قدرتی ۔ دوم مصنوعی ۔  یہ دنیا کہ جس پر ہم  آباد  ہیں اِن  دو قسم کی کاریگریوں  سے آراستہ اور  پیراستہ  ہے۔ قدرتی  یعنے آسمان و زمین۔ سورجاور چاند۔ دریا۔ و سمندر ۔ حیوانات اور انسان۔ یہ سب قدرتی ہیں۔ اور صنعتی جیسا کہ مکانات ۔ کنوئے۔ سڑکیں۔ پل۔ اور تمام سامان جو انسانوں  کے لئے کار آمد  ہے۔ اور پھر اُن کی تقسیم یوں بھی ہے۔اوّل وہ چیزیں جو آسمانی  ہیں۔ اور دویم وہ چیزیں جو زمیّنی ہیں۔ قدرتی چیزوں کا خالق خدا ہے۔ اور مصنوعی چیزوں کا بنانے والا خاکی  کوتاہ اندیش۔ اور پُراز سہو و خطا  آدمی ہے۔ خالق عالم نے اپنی بےحد حکمت اور دانائی سے کو ئی  شے خراب نہیں بنائی۔ کیونکہ اُس کے کسی  کام میں نقص پایا  نہیں جا سکتا۔ اور جو خراب اور ناقص شے ہے اُسکو خالق کا بنایا ہوا تصور  کرنا آدمی جسیے زی عقل مخلوق  کے لئے بعید از عقل ہے۔ خالقِ مطلق نے پیدایش  کے وقت جب سب کچھ نیست سے ہست کیا آپ  کہا کہ’’ سب بہت اچھا ہے‘‘ تو کیونکر ہوا کہ یہ دنیا جو کالق نے اچھی بنائی تھی اب خراب  ہو گئی؟ اِس کاجاننا آدمی کے لئے ضرور ہے۔

اگر کوئی عام انسان دنیا کو خراب کہے۔ تو اُسکی بات دفعتاً یقین کے لایق نہیں ہو سکتی۔ لیکن جبکہ کلام مقدس بئیبل میں خالق اپنے بندے کی معرفت اِس امر کا اظہار کرے۔ تو یہ بات ضرور قابل تسلیم ہے۔ رسول دنیا کو خراب کہتا ہے۔ تو آسمانی چیزیں اس سے مراد نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ عزازیل  فرشتہ بھی تو آسمانی مکانون کا ساکن تھا۔ اور وہاں بھی خرابی ہوئی۔  تو اُس کاجواب یہ ہے کہ شیطان نے جو نہی  مغروری  اور سر کشی کی وہ وہیں آسمان پر سے گرایا گیا۔ کیونکہ کو ئی ناپاک  چیز وہاں ٹھہر نہیں سکتی۔ اِس لئے وہ وہاں نہ رہ سکا پر زمین پر گرایا  گیا۔ جب کہ دنیا ایک ایسے بڑے دانا  اور عطیم  الشّان خدا سے بنائی گئی۔ پھر وہ کیونکر خراب ہو گئی؟  اِس کا زکر توریت میں صاف صاف  بیان ہوا ہے۔ اِس کی پہلی خرابی  کا سبب انسان کی پہلی  حکم عدولی ہوئی تھی۔جو پہلے انسان یعنے بابا آدم نے باغ عدن میں کی۔ جس سبب سے وہ وہاں سے نکالا  گیا۔ اور قسم قسم کی خرابی اپنے اور اپنی اولاد پر لایا۔ جس کےسبب سے فرمان الہیٰ جاری  ہوا اپنی اولاد  پر لایا۔  جس کے سبب سے فرمان الہیٰ جاری ہوا زمین ’’  تیرے سبب سے لعنتی ہوئی‘‘۔ پیدایش  ۳: ۱۷۔ اب اس سے صاف  ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کی خرابی کا سبب آدم کا گناہ ہے۔ اور پھر تمام دنیا کے آدمزاد  کے بے شمار  گناہ ہیں جو اُس وقت سے اب تک ہوئے اور ہوتے جاتے ہیں۔

گناہ کا اثرمثل زہر قاتل کے انسان کے دلپر ہو ا ہے۔  اور دل کے ناپاک اور نجس  ہونے سے انسان کے تمام  کام خالق  کی نظر میں بطالت کے ہیں۔ اور نہایت نفرتی اور ناکارہ ہیں۔  اگر کوئی ساحب عقل و فہم سچائی  سے اپنے دل کا  حال  لکھے۔ تو وہ ضرور اُس مضمون  کا عنوان ’’ میرا بُرا دل‘‘ رکھے گا۔ واعظ  نے سچ لکھا ہے ’’ بنی آدم کا دل بھی شرارت سے بھرا ہے۔ اور جب تک وہ جیتے ہین ھماقت اُسن کے دل مین رہتی ہے۔ اور بعد اس کے مرُدوں میں شامل ہوتے ہیں۔ واعظ ۹: ۳۔

یہ دنیا امورات زیل کے سبب سے خراب ہے۔

پھلا امر۔ کہ شیطان کی جائے سکونت ہو گئی ہے۔ جس  نے آدم اور حوّا کو نیکی اور مبارک حالت سے گرا کر قہر الہیٰ  اور سزا و عتاب  کا مستحق بنایا۔ اور نہ صرف  اُن  کی بربادی کا سبب ٹھہرا۔ بلکہ  تمام آدمزاد کی۔ اور اس پر اکتفا نہ کر کے  ڈھونڈ ہتا پھرتا ہے۔ کہ کسی کو غافل پاوے۔ اور پہاڑ سے  اور خدا کی فرمانبرداری سے منحرف کر کے اپنے موافق ملعون بناوے۔

دوسرا امر : بُرے آدمیون سے بھر گئی ہے۔ جو بھلوں کو ہر طرح سے تکلیف دیتے ۔ اور ہر قسم کا گناہ کرتے  اور دوسروں کو برائی  کی ترغیب دیتے اور شیطان کے مددگار بنکر خدا کے دشمن ہیں۔ اِس سے ایمانداروں  کو آزمایش  کا برا خطرہ ہے۔

تیسرا امر۔ کہ گناہ کی شدّت اور اُس  کی برُائیوں  کے سبب سے یہ دنیا خراب ہو گئی ہے۔ گناہ انسان کی طبیعت اور خصلت میں آگیا ہے۔ اور اس سبب سے کوئی بشر دنیا میں پیدا ہو کر گناہ سے خالی نہیں رہ سکتا۔

چوتھا امر۔ گناہ کے نتیجے  جو گناہ یا نا فرمانی کے سبب نکلے ہیں۔ مثلاً دُکھ۔ بیماری۔ رنج و فکر۔ اور محنت اور مشقت  اور موت  و غیرہ۔

لیکن شکر کا مقام  ہے۔ کہ اس خراب  دنیا سے چھڑانے  والا جس کا نام اسم  عمانوئیل ہے۔ یعنے نجات دینے والا خدا ہمارے ساتھ ہے۔ نجات دینے والا ربنّا  یسوع المسیح  اِس دنیا میں آیا۔  اور اب اُس کی بشارت عام دی جاتی ہے۔  اور جو چاہے مفت مین نجات حاصل کرے۔

الراقم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمیل سنگہ ۔ از کہنہ