نبی معصوم

رسالہ ۔عصمت الانبیاء ۔من تصنیف جناب مولوی غلام  نبی صاحب امرتسری
بجواب رسالہ

Sinless Prophet

Published in Nur-i-Afshan June 26, 1884
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

نبی معصوم ۔  مصنفہ پادری۔ اِی۔ ایم۔ ویری ؔ  صاحب۔ پر ایک نظر

ہمارے  بزرگ اور لائق پادری ای۔ ایم ۔ ویریؔ  صاحب نے کئی  سال ہوئے کہ رسالہ نبی معصوم تصنیف کیا تھا۔ اور جہانتک ہمارا علم ہے اہل اسلام ومسیحی اسباتکے منتظر تھے  کہ اسکا جواب کب اور کسکی طرف سے نکلے  ہمارے کئی ایک ناواقف اور کم علم محمدی احباب نے بھی زبانی یہی کہا تا پورا کرنا  چاہا تھا مگر نہ کر سکے ۔ ہماری دانست میں یہہ پہلا جواب  ہے کہ محمدی صاحبونکی طرف سے اُس  نادر  تصنیف  کے باب میں شایعٔ ہوا ہے۔ ہم اس رسالہ کو  بنظر تعمق دیکھکے حیران ہو گئے کہ مولوی  غلام نبی صاحب نام کے تو مولوی اور اُنکی تصنیف ایسی ۔ ہم اِس رسالہ پر منصفانہ یہہ رائے قایم کرتے ہیں کہ یہہ حقیقی جواب نہیں ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ مخالف  ہماری رائے کو کب ہم مصنف  رسالہ نبی معصوم  پر ہی چھوڑتے  ہیں یا اگر مصنف ِ رسالہ نبی معصوم اسباب میں ہم سے مخاطب  ہوں تو ہم خود ہی ( بشرط فرصت)  دیکھ لینگے  الھال ایک سرسری نظر ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔

ہم مسیحی لاگ انبیا علیہم السلام  کو گناہ سے پاک  تو  نہیں مانتے مگر سمجھتے ہیں پاک کئے گئے ہیں یعنے بذاتہ خود  قدوّس نہیں بلکہ مقدس ہیں۔ اور فرق یہہ ہے کہ گو وہ خدا کے مقرب  ہیں اور اُسکے برگزیدہ وسائل  ہیں جنسے وقتاً فوقتاً خدائے  قدوس  اپنے لوگوں کے ساتھ ہمکلام  ہوا۔ لیکن وہ بھی اپنی ذات میں گناہ  آلودہ اور اُسی آدم کی اولاد ہیں جس سے  کہ سب لوگ پیدا ہوئے۔ مگر جس مسیح کے وسیلہ ہم گنہگار  پاک کئے گئے  ہیں اُسی کے وسیلہ اور اُسی کے کفارہ سے وہ بھی راستباز ٹھہرائے گئے۔ پس اُنکی عصمت  ہماری  ( جوکہ مسیحی ہیں) عصمت سے بدین لحاظ کچھ زیادہ وقعت  نہیں  رکھتی۔ وہ آنے والے مسیح پر نظر  کر کے گناہوں سے مخلصی پا چکے اور ہم  آچکے ہوئے مسیح پر نظر  کر کے معافی حاصل  کر چکے۔ صفحہ ۴ میں مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ الہام  سے علیحدہ انبیاء سے تقاضائے  بشریت لغزش  ہو جایا کرتی ہے۔ ہم بھی اسبات کے قائل ہیں ۔ مگر مولوی صاحب لفظ خفیف پر بہت  ذور دیتے ہیں۔ چنانچہ  صفحہ ۵ سطر ۷ ۔ صفحہ ۱۲ ۔ سطر ۷ ، و ۸ ۔ صفحہ ۲۳ ۔ سطر ۱۱ وغیرہ میں لفظ خفیفؔ پر ٹراز وردیا گیا ہے۔  اور پھر اُنکے گناہونکو  خواہ وہ کیسے ہی قبیح کیوں نہوں لفظ  لغزش سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ہم اُنکی اس رائے کے ساتھ اتفاق نہیں کر سکتے۔

ہماری دانست میں لفظ خفیفؔ ایک نسبتی لفظ ہے۔ جیسا کہ لفظ صغیرؔ و کبیرّ کلمہ قاعدہ ہے کہ جتنا زیادہ کسیکو علم  ہوتا ہے اُتنا ہی زیادہ  اُسکا  گناہ قبیح سمجھا جاتا ہے مثلاً سپاہی چوکہ چور کے گرفتار  کرنے کو مقرر کیا گیا ہے اگر خود چوری کرے تو زیادہ سزا یاب ہوتا ہے بہ نسبت اُس شخص  کے جو کہ عام چور ہو۔ ویسا  ہی مہذب اور تعلیم یافتہ شخص اگر کسی جرم کا مرتکب  ہو تو عدالت اور عام  لوگوں کی نظر وں میں  بہ نسبت اُس شخص کے جو نادان  ہے زیادہ حقیر و بے عزت شمار کیا جاتا ہے ۔ اب ظاہر ہے کہ انبیاء خدا کے مقرب اُسکی خوبی قدرت وغیرہ  سے واقف  ہو کے بھی اگر کسی گناہ کے مرتکب  ہوں خواہ  وہ کیسا  ہی خفیف کیوں نہو تو انصاف  کی رو سے اُنکو زیادہ حقارت کے لائق سمجھنا چاہئے۔ پس ہم سمجھ نہیں سکتے کہ لفظ  خفٔیف کا اطلاق  کیوں انپر زیبا ہے اور ہم پر نہیں۔ انصاف نہیں کہ ایک شخص جو کہ خدا سے بہت  کم واقف  ہو اگر زنا کرے  تو اُسکا زنا گناہ  کبیرہ کہا جاعے اور جو شخص  خدا کی حضوری  میں رہے اور زنأ کی بدی سے خوب واقف ہو اگر وہ زنا کرے تو اُسکے اِس فعل کو الفاظ  خفیف سی لغزش سے تعبیر کیا جائے  مصنف صاحب خود دیکھ لیں۔

علاوہ ازیں ہماری  دانست میں گناہ  کو صغؔیرہ یا کؔبیرہ خفیؔف یا قبیحؔ وغیرہ  الفاظ سے تعبیر کرنا ہی نادرست ہے۔ ان الفاظ کا اطلاق ہم انسانی خیال  کیطرف کر کے انکا استعمال  کیا کرتے ہیں ۔ مثلاً  چوری ؔ اور قتلؔ  عمد میں لوگوں کے نزدیک بڑا فرق ہے۔ جھؔوٹھہ اور زؔنا میں بھی بہت فرق کیا جاتا ہے۔  الا خدا کے نزدیک ہم ساف کہہ سکتے ہیں کہ سب گناہ ایک ہی سے ہیں۔ کیونکہ گناہ اُسکے احکام کے خلاف  کرنا ہے۔ جنسے زناؔ کیا  اُنسے بھی اور جو جھوٹھہ بولا وہ بھی برابر عدول حکمی کے سزاوار  ہیں۔ ویسا  ہی سارقؔ وزانی بھی برابر ہے اُسکے حکم کے خلاف کرنے والے ہیں۔ تو مصنف صاحب کی دلیل کا  زور  کہاں گیا۔ وہ خود ہی انصاف کریں۔

بس جن گناہوں کو وہ خفیف سی لغزش کہتے ہیں
وہ فی الحقیقت بڑے بھاری گناہ ہیں

اِس لیے کہ حضرات ِانبیا خدا کےعارف تھے۔
مگر اِس پر ہمکو اور زیادہ کہنا کچھ ضرور نہیں۔

مولوی صاحب کا دوسرا اصول یہہ ہے کہ انبیاؔ اور عالم لوگوں میں فرق یہہ ہے کہ وہ اپنے گناہونسے متنبہ اور خبردار ہو کر تائیب ہوتے تھے اسلیۓ گنہگار نہیں اور عام لوگ ایسا نہیں کرتے۔ ہم صاحب  موصوف سے با ادب التماس کرتے ہیں کہ آپکو یہہ سب لوگوں کا حال کیونکر معلوم ہو گیا۔ بیشتر انسان تو گناہ کو گناہ جانتے  اور اُس سےتنبہ اور خبردار بھی ہو جاتے ہیں تو بھی گنہگار رہتے ہیں۔  اور ہم سمجھ بھی نہیں سکتے کہ کسطرح یہہ ہو سکتا ہے کہ جب کوئی آدمی اپنی بیماری سے واقف ہو جائے تو اُسے تندرست خیال کرنا چاہئے۔ گنہگار خواہ نبی ہو خواہ کوئی اور اگر اپنے گناہ سے واقف ہو تو کس واسطے ضرور ہے کہ اسکا علم ہی اُسکو گناہ سے مخلصی بخشدے۔ ورنہ معاملہ کچھ اور کا اور ہو جائیگا۔ اگر آپ فرمائیں  کہ توبہ کر لی تو ہم اِس پر یہہ عرض کرتے ہیں کہ حضرت توبہ سے یہہ مراد ہوتی ہے کہ پیچھے جو ہوا سو ہوا۔ میں اب اُس سے بچتا ہوں۔ آئیندہ  ایسا نہوگا۔ مگر ہمکو معلوم نہیں کہ گناہونکی مغفرت کا خیال توبہؔ میں کیونکر داخل ہے ۔ روزمرہ کی بات ہے کہ چور گرفتار  ہو کے روتا   بچھپتاتا اور بلُبلاتا اور کہتا کہ توبہ میری اب انسانہ کرونگا۔ کیا اُسکا چھوڑنا عدل کے خلاف نہوگا اسکو ایسے موقعونپر یہہ کہا جاتا  کہ نہ تم ایسا کروگے نہ تم کو سزا ملیگی اب تو سزا لے لو۔ ویسا ہی اگر  اُس حقیقی عادل کے دربار بھی ہو تو کیا اعتراض ہے ہم کہتے ہیں کہ توبہ سفید تو ہے مگر آیندہ گناہوں کیواسطے پچھلے گناہونکی معافی اس سے ہر گز  نہیں ہو سکتی پس جن نبیوں نے گناہ  کئے وہ صرف توبہ کرنے سے ہی راستباز نہ ٹھہرائے گئے بلکہ کسی اور طرح سے۔ اور وہ یہہ ہے کہ اُنکو بھی ایک بیگناہ شفیع کی ضرورت ہے جسکے وسیلہ وہ اپنے گناہوں کی معافی حاصل کریں ہم کہتے اور خدا کا کلام گواہی دیتا ہے کہ وہ  ربنا یسوع مسیح ہے۔

صفہ ۸ ۔ پر مولوی صاحب نجات کو شفاعت یا فضل محض پر موقوف  کرتے ہیں۔ یہی خیال اور موقعوں سے بھی  تشریح ہو تا ہے۔ مگر شاید  محمدی احباب صفت عدل کو خدا کی زات بابرکات کی صفات حمیدہ میں سے بالکل خارج کر دیتے ہیں۔ اور کریں کیوں نہیں سامنے  دوزخ جو نظر  آتا ہے۔ شُترؔمرغ کیطرح شکاری سے بچنے کو جھاڑی میں سے چھپاتے ہیں اے صاحب زرہ شفاعتؔ یا فضلؔ محض کے ساتھ عدل کا بھی خیال رکھئے دوزخ نصیب ہو تو کیا ہے انصاف شرط ہے۔

پس پادری  ویری صاحب  کایہہ اصول باندھنا کہ گنہگار کی شفاعت نہیں کر سکتا اسیطرح درست ہے جسطرح کہ ایک چور دوسرے چور کی ضمانت نہیں دے سیکتا اور پھر یہہ بھی یاد رکھو کہ اگر کوئی دنیاوی حاکم محض سفارش سے کسی مجرم کو رہا کر دے تو بے انصاف اور ظالم ہوتا ہے ویسا ہی احکمالحامین اور سچا عادل کیونکر اپنے عدل اور قدوسیّت کے خلاف محض شفاعت سے گناہ بخش سکتا ہے۔

مزید بران قرآن تو یوں کہتا ہے وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ اور مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ اب اگر آپ  انبیا صالحین وغیرہ پر خواہ نخواہ  شفاعت کا بوجھ ڈالدین تو آپکی مرضی شایدٔ یہہ خیال کیا ہوگا خدا ایک انبوہ کثیر سے ڈرجائیگا۔ یا آکر ایک کا نہیں تو دوسریکا  (علی ہذا القیاس) کہنا ضرور مان لیگا۔ اگر یہہ درست ہے تو اہل ہنود کے بہت سے دیؤتے  بھی یہی کام کرینگے۔

اب حضرات انبیائے و مرسلین کی عصمت پر جو کچھ کہہ سکتے تھے  سو کہہ چکے اور دعوی بلا دلیل  ثابت کر دیا۔ آخر میں اُس قدّوس کی نسبت بھی الزام گناہ عاید کئے۔ اسلیۓ کہ اُنہوں نے یوحناؔ سے بپتسمہ پایا حالانکہ صاف خود ہی قائل  ہیں کہ یوحنا اُنسے بپتسمہ پانے کا  محتاج  تھا دیکھو صفحہ ۲۷۔ سطر ۱۰۔ ہم آپکے ہی انصاف اور عقل پر اس امر کو موقوف کرتے ہیں۔ پھر حضرت مسیح کا گناہ  یوں پیش کرتے ہیں۔ کہ اُنہوں نے یہودیونکو  حرامکار وغیرہ کہا۔ (حالانکہ وہ سچ مچ ایسے ہی تھے)۔ ۲۔ خرید و فروخت کرنے والوں کو ہیکل میں سے نکال دیا ( جہاں اُنکا بازار لگانا گناہ اور ہیکل  کو بیعزت کرنا تھا)۔ ۳۔ سورؤں کو غارت کرنا (جنکا ہونا یہودی زمین پرنا جائیز تھا)۔ ۴۔ انجیرکے درخت  کو سوکھانا (حالانکہ لوگ سیکڑوں درختونکو کاٹ ڈالتے ہیں اور گناہ  نہیں گنا جاتا)  ناظرین خود دیکھ لیں کہ یہہ اُنکے گناہ ہیں سچ ہے چشم معترض کور۔

بخوب ِ طوالت اب ہم اِس مضمون کو ختم  کرتے ہیں اور آخر میں اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ رسالہ نبی معصوم ابتک بیجواب باقی ہے اور اِس لچر اور بے ُتکہ کتاب کی اُس نادر تصنیف کے روبرو کچھ حقیقت نہیں۔ الراقم بندہ حنیف از امرتسر