Blue Mosque Courtyard in Istanbul

فرمان مسیح

علامہ جی ایل ٹھاکر داس

Sayings of Christ

Response to Mirza Gulam Ahmend
Objections to Christianity


Published in Nur-i-Afshan February 21, 1896
By
Rev. G. L. Thakur Das


مندرجہ  متی ۵: ۳۸۔ ۴۲۔ پر۔

مرزا  غلام  احمد  قادیانی  صاحب  کا محاکمہ   اور  پادری ٹھاکر داس کا فیصلہ

وہ تحریر  جو ازیں جانب  بھائی خیر الدین صاحب کے اعتراض کے جواب میں نور افشاں مطبوعہ ۳ جنوری سنہ ۱۸۹۶ء میں شائع  ہوئی ےتھی اس پر مرزا غلام  احمد  صاحب  قادیانی نے ایک محاکمہ  چھا پا ہے اور اُس  میں فرضی  اور بے حقیقت  باتیں سنائی  ہیں۔ میں واجبی تفتیش  کے ساتھ اُس پر فیصلہ دیتا ہوں۔

قولہ۔ پادری ٹھاکر داس صاحب  اس بات پر زور دیتے ہیں کہ  انجیل میں جانی یا مالی  ضرر کی حالت  میں ترک مقابلہ  کے معنے ہیں کہ ظالم سے انتقام   حکومت  ہی لیوے آپ مقابلہ نہ کریں۔ 

اقول۔ میری بات کے یہ معنے  ٹکسال  قادیانی  میں گھڑے گئے ہیں آپ میرا بیان پھر سمجھۓ۔حکومت خود حفاظتی کی ایک صورت  ہے۔  آپ تیسرے صورت  پیش کردہ پر پھر غور کیجئے۔

قولہ۔ غور طلب یہ  امر ہے کہ ترک  مقابلہ  کے کیا معنی ہیں۔ کیا صرف  یہی کہ اگر کوئی  ظالم  آنکھ  پھوڑے یا دانت  نکالدے  تو بتوسط  حکام  اُس کو سزا  دلانی  چاہیے خود  بخود  اُس کی آنکھ  نہیں  پھوڑنی چاہئے  نہ دانت  نکالنے چاہئے۔ اگر یہی معنی  ہیں تو توریت  پر زیارت  کیا ہوئی۔ کیونکہ توریت  بھی تو یہی ہدایت دیتی ہے کہ ظالموں  کو قاضیوں کی معرفت  سزا ملے خروج ۲۱ باب ۔ مگر پادرہ  ٹھاکر داس صاحب  کہتے ہیں کہ انجیل کی تعلیم میں توریت  پر یہ زیارت ہے کہ ایک مظلوم  حکام  کی معرفت  انتقام  لیوے۔ 

اقول مرزا صاحب  آپ کا یہ کہنا درست نہیں  ہے کہ میں اس سے توریت  پر انجیل  کی تعلیم  کی زیارت  بتلاتا ہوں میں نے ہر گز یہ بات نہیں لکھی اور نہ ایسی  کمی  یا زیارت کو پیش ِنظر رکھا تھا۔  اور اس لئے آپ کی ساری تقریر  جو صفحہ  ۲۔ ۳ میں ہے رائیگان ٹھہری۔ آپ نے خود ہی میری طرف سے ایک بات  فرض  کر کے اپنی طرف  سے اُس  پر محاکمہ  بنایا ہے۔ عقلمند وں کی یہ عادت نہونی چاہئے۔ میں اسبات کو خوب  جانتا  ہوں کہ توریت میں انتقام   قاضیوں کے متواسط سے لینے کا  حکم  ہے۔ 

اور انجیل  میں یہ کوئی نئی تعلیم نہیں۔ مگر اس بات سے تو میری کچھ غرض نہ تھی اور جو اصل  غرض تھی اُس کو آپ نے نظر  انداز  کیا اور یا آپکی سمجھ میں نہیں آیا اور اس لئے آٹھ صفحے  محاکمہ میں کالے کر ڈالے۔ پھر دیکھئے کہ میں نے احکام  پیشین اور احکام  انجیل کی بابت یہ لکھا تھا کہ  جس  حال  کہ کسی انسان کا حق  نہیں کہ دوسرے کی جان و مال کو خطرے  میں ڈالے۔ اور جس حال کہ مسیح خداوند  کے احکام  میں وہ اصول موضوع کئے گئے ہیں جو چھ  حکموں  کے تجاوز  کی رغبت  کو دل میں سے اُکھاڑیں جو کسی قسم ی رسمیات ادا کرنے  سے دوُر نہیں ہو سکتے اور یہ نہیں۔ ( یعنے مسیح نے یہ نہیں کیا۔)  کہ ان حکموں  کے زور کو یا اُن  کی تجاوز کی سزا کو موقوف کر دیا ہے۔ ہر گز نہیں بلکہ اُن کو قایم رکھا ہے۔ تو یہ صورت  خود حفاظتی کے لئے سالم   گنجایش دیتی ہے۔ لہذا جو لوگ ظالم اور شرارت  سے باز نہ آویں اور ان مسلیم زریعوں کی قدر و  پروا نہ کریں جو خدا وند  نے باہمی  راستی اور سلامتی  کے لئے فرمائے ہیں تو وہ لوگ  واجبی بدلا پاویں‘‘۔ پھر آپ  اپنے خیال کے موافق  انجیل مقدس کی تعلیم  کو ناقص  ٹھہرانے کے لئے طنزاً لکھتے ہیں کہ۔

قولہ۔ کوئی انسان اپنی آنکھ  ناحق  ضایع کراکر پھر صبر نہ کر سکا اور اپنی قوت انتقام  کو حکام کے زریعہ  سے ایسے وقت  میں عمل میں لایا جو اُس کو کچھ نفع نہیں دے سکتا تھا۔ ایسے عیسائی  سے تو یہودی ہی اچھا رہاجس نے  خود حفاظتی  کوکام  میں لاکراپنی آنکھ  کو بچا لیا۔ 

اقول  میں کہتا ہوں کہ اگر  کوئی شخص  اپنی آنکھ  یا دانت  ضایع  کروا کر دوسرے  کی بھی خود ہی خود حفاظتی  کی وجہ سے ضایع  کردے یا حکام  سے چارہ  جوئی کروائے  تو بہر حال  یہ انتقام ٍ اُس کو کیا نفع دے سکتا ہے جبکہ اُس کا اپنا نقصان  ہو ہی گیا  ہے؟ اور اگر ظالم کا مقابلہ  کرنے کے بجائے کوئی عیسائی  مقابلہ  سے پرہیز  کر کے اپنی آنکھ یا دانت بچالیوے  تو اس میں آپکو  کیا تکلیف  ہے یہ حرکت نفسانی  جذبات  پر اثر  کرنے والی  ہو گی اور ایسا  ہی انسان حقیقت  میں نیک بخت ہے جس نے اپنے آپ کو اور دوسرے  کو بھی نقسان  سے بچایا ۔ اور مناسب نہیں کہ اپنی اپنی  شرارتوں کو روا رکھنے کے لئے  اس برداشت  کو بُرا کہا جاوے اور میں نے اپنی پہلی تحریر  میں اسبات  کا صاف  بیا ن کیا تھا کہ خداوند مسیح نے قصاص  کی نوبت کو روکنے  کے واسطے وہ  ہدایتیں فرمائیں  جو آیات  ۳۹۔۴۲ میں مندرج ہیں ۔ کہ ’’چھوٹی چھوٹی  باتیں جیسے گال  پرتھپڑ کھانا یا کپڑے چھنوانا یا  بیگار پکڑے  جانا وغیرہ  بدلا یعنے کے محل نہ سمجھے  جاویں  ایسی حالتوں میں برداشت کرنا  فرض ہے۔ اور یاد رہے  کہ خداوند  اِس  حکم میں اُن حالتوں کو شامل  نہیں کرتا ہے جن میں جان  یا  مال  خطرے میں ڈالے  جاویں جس سے ظاہر  ہے کہ ایسی حالتوں  میں خود  حفاظتی  کے دوسرے  طریق عمل میں لائے جاویں‘‘۔ پس  آپ  کی طنز  بالکل  بیجا ہے۔ 

قولہ۔  شاید پادری  ٹھاکر داس صاحب  یہ کہیں کہ ترک مقابلہ  اُس  حالت  میں ہے جبکہ  کوئی شخص  تھوڑی تکلیف پہنچانا  چاہے  لیکن اگرچہ  سچ سچ  آنکھ  پھوڑنے  یا دانت نکالنے کا ارادہ کرے تو پھر خود حفاظتی  کے لئے  مقابلہ  کرنا چاہئے  تو یہ خیال پادری صاحب  کا انجل کی تعلیم  کے مخالف  ہو گا اُس تعلیم سے تو یہی  ثابت ہوا کہ اگر سچے عیسائی  ہو تو دانت اور آنکھ نکالنے  دو اور مقابلہ  نہ کرو۔ اور اپنی  دانت اور آنکھ کو مت بچاؤ سو وہی اعتراض  انجیل پر ہو گا جو خیرالدین  صاحب  نے  پیش کیا  ہے۔ 

اقوال مسیح خداوند کی تعلیم کا یہ نتیحہ ہرگز نہیں کہ چپ چاپ بیٹھ کےآنکھ  اور دانت نکلوایا  کرو  اور مقابلہ  نہ کرو کیونکہ اُس نے قصاص کا حکم پہلے  جتا دیا  ہے۔  اور اگر خداوند کی مراد ایسی حالتوں  میں بھی ترک  مقابلہ کی ہوتی جب جان کا خوف  ہو تو وہ اُس  کی بابت  صاف  صاف  فرما دیتا  لیکن جو حالتیں  اُس نے بتلائی  ہیں وہ ایسی خطرناک  حالتوں  سے غیر  ہیں۔ اور آپ نے جو تمانچہ  کی شدّت  کا شوخ بیان  کیا ہے کہ اُس سے آنکھ  اور دانت نکل سکتے ہیں تو یہ  نوبت پھر قصاص   کے تحت میں آجاتی ہے۔  اور عیسائی  مرد کایہ  کام ہے کہ اُن باتوں کی برداشت کرے جن کو بڑہانے سے قصاص  کی نوبت پہنچ سکتی ہے۔ جیسے خون کرنے یا کرانے کی نوبت کو روکنے کے لیے غصّہ  اور بدزبانی  وغیرہ  کی ممانعت  فرمائی ہے۔  ( متی ۵: ۲۱۔ ۲۶) اگر لوگ خداوند  کی ہدایتوں  پر عمل کرنا اپنی روز مرّہ  کی عادت کریں تو قتل اور زناکاری  اور انتقام  اور دُشمنی  کی نوبت کبھی نہ پہنچے  ۔ مگر قرآن  نے بھی  تو اپنا گزارہ  کرنا ہوا۔  اور اودھر منو جی بھی بے اُسید نہیں ہونا  چاہتے۔ عیسائیوں  کی تو یہ صاف  حکم ہے کہ اُن کی طرف سے کو ئی چھیڑ چھاڑ نہو وے۔ بلکہ اوروں کی شرارتوں  کی برداشت بھی کریں۔ اور بعض  حالتوں  میں موت تک بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔  ( متی ۱۰: ۲۲۔ ۳۹)

قولہ۔ اور اگر کوئی  عیسائی  کسی ظالم کو حکام کے زریعہ  سے سزا دلائے تو اُسے  یاد رکھنا چاہئے کہ توریت بھی توایسے   موقعہ  پر یہ اجازت نہیں دیتی کہ ایسے مجرم  کی شخص  مظلوم آپ آنکھ پھوڑے دے یا دانت نکالدے  بلکہ ہدایت کرتی   ہے کہ ایسا شخص  حکام کے زریعہ  سے چارہ جوئی  کرے۔ پس اس صورت  میں مسیح کی تعلیم  میں کونسی زیارت  ہوئی یہ تعلیم پہلے  ہی توریت  میں موجود تھی۔۔۔۔۔ مگر متی ۵ باب میں جس طرز  بیان کو آپکے یسوع صاحب  نے اختیار  کیا ہے یعنے توریت کے احکام  پیش  کر کے  جابجا کہا ہے کہ اگلوں  سے یہ کہا گیا ہے کہ مگر میں تمہیں یہ کہتا ہوں ۔ اس طرز سے صاف  طور پر ان کا یہ مطلب  معلوم  ہوتا ہے کہ وہ  توریت کی تعلیم  سے کچھ علاوہ  بیان کرنا چاہتے ہیں۔

اقول۔  ایسا ہی خیال یہودیوں  نے کہا تھا  جن کے جواب میں  خداوند  نے فرمایا کہ  ’’یہ خیال مت  کرو کہ میں توریت   یا نبیوں  کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا۔ میں منسوخ  کرنے کو نہیں  بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں ‘‘ ( متی ۵: ۱۷) مرزا صاحب آپ بھی اُنہیں  لوگوں  کے خیالوں میں  غوطے کھاتے  ہو۔ کیوں نہیں مسیح کی عبادت  پر  غور کرتے۔  اُس نے اس بات پر کلام نہ بڑھایا تھات کہ توریت  میں مظلوم کو حکام کے زریعہ  چارہ  جوئی کرنے کی کوئی ہدایت  نہیں  اس لئے میں یہ ہدایت کرتا ہوں بلکہ اُس  نے وہی  شرع توریت سے پیش کی جس کو حکام  ہی عمل میں لانے کے مختار  تھے اور مظلوم حق  رسی کے لئے اُن  سے فریاد کر سکتا تھا ( دیکھو  استثنا ۱۷: ۸۔ ۱۳)  اور اُس حکم کے علاوہ یا برخلاف  بیان کرنا نہین چاہا  جیسا آپ نے گمان  کیا ہے۔ آپ نے ساری  تقریر  بے جا کی ہے۔ اول یہ جانو کہ خداوند  نے اس بیان میں اُ س شرع کی طرف رجوع کروایا ہے جو اگلوں سے کہی گئی تھی مگر بر عکس  اس کے لوگ خود ہی انتقام  لیناجایز  کئے ہوتے تھے۔  اور قاضیوں تک جانے کی پرواہ  نہ کرتے تھے۔ اور یوں شریعت  کے حکم کو ٹالتے تھے۔پس مسیح  خداوند نے ایسی نفسانی آزادگی کو روکا   ہے۔ اور دوسری بات  یہ سمجھو کہ جس  طرح  کل تعزیرات کا منشا یہ ہوتا ہے کہ  ظالم  آیندہ  ظلم کرنے سے روکا  جاوے اور ایسا ہی مظلوم  بھی۔ اُسی طرح توریت  کایہ حکم  کہ حکام کے زریعہ  انتقام  لیا  جاوے ظلم کو روکنے اور فریقین کو سُدہارنے  کی غرض رکھتا  ہے اس پر خداوند فرماتا  ہے کہ میں تمہیں کہتا ہوں  کہ ظالم  کا مقابلہ  نکرنا بلکہ ایسے ایسے  نقصان  کی برداشت کرنا تو یہ کسی   قانونی  منشا  کو ایک طرح سے پورا کرنے کی ہدایت ہے یعنے برداشت  کے ساتھ۔ مرزا صاحب  یہ معاملہ  تو بالکل صا ف  تھا  آپ نے آپ نے اُس کو خواہ مخواہ بگاڑا۔ یہ برداشت اُس قصاص کی نوبت  کو روکنے  والی ہے۔

میرے اِس فیصلہ سے آپکا  سارا گندہ اور ناشائیستہ  اور غلط  اظہار جو صفحہ ۴  پر کرتے  ہو غلط  ٹھہرا۔ اور مسیح کی عبادت بے ربط  نہیں ہے بلکہ  ایک صاف حکم ہے۔  مکرّر آپ کو یاد رہے  کہ اِن ہدایتوں سے مسیح خداوند  نے کسی اخلاقی قانون  کو موقوف  نہیں کر دیا  اور قانون قصاص چھٹے حکم کے متعلق  ہے اور اِس مذکور سے  اُس نے اُس کا منشا قایم رکھا ہے۔ یہودیوں  میں قصاص کی وہ خاص  صورت تھی جو مسیح نے بلفظہ پیش کی ہے اور اور مسیحی قوموں  میں بھی  اُس ملکی قانوں کا منشا قایم  رکھا جاتا ہے یعنے خطا کے مناسب عوض دینا۔ اور وہ بھی احکام کے زریعہ سے۔

قولہ۔ پھر پادری ٹھاکر داس صاحب نے جب دیکھا کہ انجیل  کی یکطرفہ  تعلیم پر درحقیقت فعل  اور قانون  قدرت  کا سخت  اعتراض  ہے تو نا چار ایک غرق ہونے والے  کی طرح قرآن  شریف کو ہاتھ مارا ہے تاکہ کوئی سہارا ملے  چنانچہ  آپ  فرماتے ہیں کہ قرآن  جیسی کتاب  میں بھی اُس کی یعنے  انجیل کے حکم  کی تعریف  کی گئی   ہے۔

اقول۔ مرزا صاحب یوں کہا ہوتا کہ ایک غرق ہونے  والے کی طرح ایک تنکے کو ہاتھ مارا ہے۔ آپ کا میری نسبت یہ خیال کرنا درست نہیں ہے۔  کیونکہ میں نے انصاف  کی نظر  سے قرآن کی اچھی بات کو اچھا لکھا ہے کہ اور ایسا ہی دیگر مزہب والوں کی اچھی باتوں کو اچھا   کہا ہے۔ اور اس سے میرا مطلب یہ تھا کہ اگر چہ  گناہ  نے قدرتی انسان کے ہوش بگاڑ  دئے ہیں۔ اِس پر بھی انجیل کی نیک تعلیم کے لوگ قائیل رہے ہیں۔ اس میں قرآن کا سہارا ڈھونڈھنے  کی کوئی حاجت نہ تھی۔ غرض صرف یہ تھی کہ  وہ ایک کتاب  جو انتقام  اور خون  ریزی  سے بھری ہے اس میں بھی  یہ نیک  تعلیم  مانی گئی ہے۔ اور جیسا کہ میں نے غیرقوموں میں اس کی تعلیم  کا پایا  جانا بتلایا  تھا اُس کی چند مثالیں  دیتا  ہوں تاکہ سہلا یکطرفہ نہ رہے دو طرفہ  ہو جاوے۔ 

کانفوشش ؔ کا قول۔ ’’جو کچھ تم نہیں چاہتے کہ تمہارے  ساتھ کیا جاوے  وہ تم  بھی دوسروں کے سااتھ نہ کرو‘‘۔

ارسطوؔ سے پوچھا گیا  کہ ہم اپنے دوستوں کے ساتھ کس طرح پیش آویں۔ جواب دیا کہ ’’جیسا ہم چاہتے ہیں  کہ ہمارے دوست ہمارے ساتھ پیش آویں‘‘۔

سقراطؔ کا قول۔ ’’ کیا ہم یقین جانیں کہ جو کوئی  بے انصافی  کے کام کرتا ہے اُس کے لئے بے انصافی  ایک برُی اور بیعزتی کی بات ہے‘‘؟  ’’ہاں‘‘۔ پس کیا نہ چاہئے کہ ہم  نقصان کریں؟‘‘ ’’بے شک نہ چاہئے‘‘۔ ’’جب ہمارا نقصان  کیا جاتا ہے اُس  کے عوض میں نقصان نہ کریں جیسا بہتیرے  گمان کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں نہین چاہئے  کہ کسی کا نقصان  کریں۔ اس لئے ہمیں  نہ چاہئے کہ بدلا لیویں یا کسی سے بدی کے عوض بدی کریں گو اُس نے ہم سے کیسی ہی بدی کی ہو‘‘۔

اس لئے یہ نہ سمجھا  جاوے کہ قدیم اقوام  میں عداوت  رکھنا اور بدلالینا موقوف  تھا۔ نہیں ۔ بدلا لینا عام رواج تھا اور فرض سمجھا جاتا تھا۔ اور انتقام  لینے کی تاریکی  میں  صبرؔ  کرنا صرف روشنی کی چھوٹی چھوٹی کرِن کا زور لکھتا ہے۔  اوریہی حال قرآن کا ہے۔ پس میرا یہ مدُعا ظاہر  ہے کہ باوجود نفسانی تقاضوں  کے جن کو لوگ فطرتی سمجھتے  رہے ہیں وہ اصلی  اور سچّا فطرتی قانون  مرقومہ متی ۷: ۱۲ میں آدم سے داد پاتا رہا ہے۔  مگر روح القدس کی تاثیر کے بغیر عموماً زور مند نہوا۔

قولہ۔ پھر ایک آیت کا غلط  ترجمہ پیش کرتے ہیں کہ اگر بدلا دو تو اس قدر بدلا دو جس قدر تمہیں تکلیف  پہنچتی اور اگر صبر  کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لئے بہتری  ہے۔  اور اِس آیت  سے یہ نتیجہ  نکالنا چاہتے ہیں کہ  گویا یہ انجیلی  تعلیم کے موافق ہے  مگر یہ کچھ تو ان کی غلطی اور کچھ شرارت بھی ہے۔ غلطی اس  وجہ  سے کہ یہ لوگ علم  ءبیت سے محض ناواقف ہیں۔ اور شرارت  یہ کہ آیت  صریح بتلا رہی ہے کہ اس میں انجیل کی طرح صرف ایک ہی پہلو درگزر  اور عضو پر زور نہیں دیا گیا بلکہ  انتقام  کو تو حکم   کے طور  پر بیان کیا گیا اور عضو کی جگہ صبر کا لفظ  ہے۔ ۔۔ ناظرین سوچ لیں کہ اس آیت کا صرف  یہ مطلب  ہے کہ ہر ایک مومن پر یہ  بات فرض کی گئی  ہے کہ  وہ اسیقدر  انتقام  لے جسقدر اُس  کو دکھ  دیا گیا ہے لیکن اگر وہ صبر  کرے  یعنے سزا دینے  میں جلدی نہ کرے ۔۔۔۔۔۔ یعنے سزا دینے کی طرف  جلدی نہ  دوڑیں   اول خوب تحقیق  اور تفتیش کریں اور خوب  سوچ لیں کہ سزا  دینے کا محل  اور موقعہ  بھی ہے یا نہیں۔  پھر اگر موقعہ ہو تو دین ورنہ  رُک جاویں۔

اقول۔ مرزا صاحب  میری کوئی غلطی  نہیں ہے میں نے اپنا ترجمہ پیش  نہیں کیا تھا لیکن شاہ عبدالقادر صاحب  کا ترجمہ  اور سیل صاحب  کا انگریزی  ترجمہ  اس کے مطابق  ہے۔ اور  مجھے تو آپ  نے جو جی میں آیا کہ دیا  مگر آپ نے کوئی  اپنا ترجمہ پیش نہ کیا اور صرف  اپنی تفسیر  اُس آیت کی پیش کر دی ہے۔ اور مجھے افسوس  ہے کہ آپکی  تفسیر سے قرآن  مین رہا سہا صبؔر  بھی خارج ہوا۔ اور صبر کے معنے آپ نے  سزا دینے   کے کئے ہیں مگر زرا ٹھہر کر۔ تاکہ سزا  دینے کا محل   اور موقعہ سمجھ لیں۔ جائے غور ہے کہ اگر سزا دینے کا محل  قایم نہ ہو  تو سزا ناجائز ہے اور صبر  مجبوری ہوا اور کسی نقصان پانے کے سبب نہوا۔ اس حال میں صبر کے معنے  جو  آپنے کئے ہیں غلط ہیں۔  کیونکہ  جب نقصان  ثابت نہیں تو صبر اور عٖضو کا فخر  بیجا ہے۔ لیکن بموجب  آپکی تفسیر کت اگر محل اور موقعہ ثابت کر لیوے تو سزا دینی چاہئے اور  رُکنا نہ چاہئے  یہ فرض ہے۔ اسی کا نام آپ  نے صبر  رکھا ہے۔  معلوم  نہیں  آپ  سچ کہتے   ہیں یا  قرآن ۔ اور یہ صبر وہ  صبر  نہو جو انجیل  میں  فرمایا گیا ہے۔ کیونکہ  اُس کی رو  سے نقصان  اُٹھا   کر دوسرے  کا نقصان  نہ کرنا  صبر ہے۔ پس مرزا  صاحب  قرآن  میں انتقام  ہی انتقام رہگیا اور عضو  کا محل  اور موقعہ  کوئی نہ رہا۔

اور پوشیدہ  نہ رہے  کہ سیل صاحب انگریزی  ترجمہ قرآن  کے  حاشیہ  پر اس آیت  کی تفسیر  میں تقدمین  کی روایت   لکھتے ہیں کہ ’’ یہ آیت  مدینہ میں نازل ہوئی تھی اور موقعہ اُس  کا  جنگ اُحد میں حمزا ( چچا  محمد صاحب ) کا مارا جانا تھا۔ کافروں نےاُس کی انتڑیاں  نکالڈالنے  اور کان اور ناک  کاٹ لینے سے اُس کی لاش  کی بے حرمتی  کی تھی اور جب  محمد نے دیکھا  اُس نے قسم کھائی کہ اگر خدا نے مجھے  فتح بخشی  تو قریش  کے ستّر   (یا تیس۳۰) آدمیوں  پر ان  بے رحمیوں کا بدلا نکالوں گا۔  لیکن اُن الفاظ  کے زریعہ  سے وہ اپنی قسم کو پورا کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ اور اُس کے مطابق  اُس نے اپنی قسم توڑ دی‘‘ مرزا صاحب  کی تفسیر  کے مطابق  محمد صاحب پر فرض  تھا کہ اپنے خون  کی پیا س ضرور بُجھاتے ۔ اور اس سے یہ بھی ظاہر  ہے کہ ہدایت  صبر کرنے کی صرف  محمد صاحب کو ایک خاص  حالت مین کی گئی تھی  نہ کہ ہر مومن کو۔ اور سیل صاحب  بیضاؔوی  سے یہ بھی حوالہ دیتے ہیں ’’ اس جگہ قرآن  خاصکر  محمد کی طرف اشارہ کرتا   ہے‘‘۔

قولہ۔ خدا کے کلام اور خدا  کی کلام کا کامل معانقہ قرآن ہی کرایا  ہے توریت  نے سزاؤں پر زور دیا تھا۔۔۔ اور انجیل  میں عضو اور درگزر  کی تعلیم ہوئی مگر یہ  تعلیم  نفس  الامر  میں عمدہ نہ تھی  بلکہ نظام  الہیٰ کی دشمن تھی۔  ۔  گرچہ انجیل  کی تعلیم بالکل  نکمی  اور  سراسر ہیچ ہے لیکن حضرت مسیح اس وجہ  سے معذور  ہیں کہ انجیل  کی تعلیم ایک قانون  دایمی  اور مستمر  کی طرح  نہیں تھی بلکہ اُس   محدود  ایکٹ  کی طرح کی تھی کو مختص  المقام  اور مختص  الزمان  اور مختص القوم  ہوتا ہے۔ ( صفحہ ۶ اور ۷ میں اسی کے متعلق  مکرّر وہی باتیںواہی  طور پر لکھی ہیں)۔

اقولہ۔ یہ بات غلط ہے کہ توریت  نے صرف  سزاؤں  پر زیادہ  زور دیا  تھا۔  سزا دینا  اُن  کے حکام  کے اختیار  میں رکھا گیا تھا اور توریت  میں اُن کی ہدایت  کے لئے قوانین فرمائے گئے تھے۔ مگر لوگوں میں باہمیؔ برتاؤ  کا اصلی  قانون اور ہدایت  یہ تھی احبار ۱۹: ۱۸ ۔ اپنی قوم  کے فرزندوں  سے بدلاؔمت  لے اور نہ اُن کی طرف سے کینہ رکھ۔ بلکہ تو اپنے بھائی کو اپنی مانند  پیار کر میں خداوند ہوں‘‘ پھر امثال  ۲۰: ۲۲۔ ’’ تو مت کہہ کہ  میں بدی بدی کا بدلالوں گا پر خداوند  کا انتظار  کر کہ  وہ تجھے  بچاویگا‘‘۔ پھر غیروںؔ کے ساتھ برتاؤ کی یہ ہدایت ہے۔ خروج  ۲۳: ۴۔۵۔۹ ۔ ’’ اگر تو اپنے  دشمن کے بیل یا گدھے  کو بیراہ جاتے دیکھے تو ضرور اُسے اُس  کنے پہنچایو‘‘ وغیرہ ’’ اور مسافر کو بھی تصدیع مت دیجیوُ‘‘ وغیرہ  (اور دیکھو استثنا  ۳۴: ۱۴ ۔ ۳۳) پھر امثال  ۳۵: ۲۱۔ ۲۲۔ ’’ اگر  تیرا دُشمن بھوکھا پو اُسے روٹی  کھانے کو دے اور اگر وہ پیاسا  ہو اپسے پانی پینے کو دے‘‘ وغیرہ۔

مرزا غلام  احمد قادیانی  صاحب  کا محُاکمہ  اور   پادری  ٹھاکر داس کا فیصلہ پھر یہ بھی بالکل  غلط ہے کہ انجیل میں صرف عضو پر زور دیا  ہے۔ نہیں ہر قسم کے سلوک  کے محل  اور موقعہ  بتلا دئیے  ( ۱ ) پہاڑی  وعظ مسیح خداوند اور بادشاہ کی روحانی  بادشاہت  یعنے کلیسیا  کے باہمی برتاؤ کے قوانین شامل کرتی ہے جو متی  ۵:  ۶۔ ۷۔ ایوب  میں مرقوم ہیں ۔ اور مسیحی  کلیسیا  پر افسوس  ہے اگر برداشت  اور محبّت  سے گزر قصاص  اور قتل وغیرہ کی اُس مین نوبتیں پہنچیں۔  جو باتیں منع ہیں اُن کو عمل میں نہیں لانا  چاہئے۔ ( ۲)  اِن میں مخالفوں  اور دشمنوں کےساتھ برتاؤ  کرنے کی دو خاص حالتیں بتلائی ہیں۔ ایک وہ جو  ایمان مسیحی  کی پیروی  میں موت تک  برداشت کرنے  کی بابت  ہے۔  متی ۵: ۱۰، ۱۱، ۱۲  بمقابلہ  ۱۶: ۳۴۔  ۳۶۔  دوسری  دشمنوں کے ساتھ  عام سلوک  کرنے کی بابت  ہے متی ۵: ۴۳۔ ۴۸۔  اسکے ساتھ  دیکھو  روم۱۳: ۱۷ ۔ ۲۱ ۔ انہی  طریقوں  سے ہر ایک انسان کے ساتھ ملے رہ سکتے ہیں ( ۳) عضو کا محل اور موقعہ یہ بتلایا ہے کہ’’ خبردار رہو۔ اگر تیرا بھائی  تیرا گناہ کرے اُسے ڈانٹ  اگر توبہ کرے اُسے معاف کر‘‘  لوقا۱۷: ۳ ۔ اور بھی  متی  ۶: ۱۲ اور ۱۸: ۱۵۔ ۱۷۔ ( ۴) خلق اﷲ میں امن رکھنے  اور شریر ظالموں کو   اصلاح پذیر  کرنے کییہ صورتیں  بتلائی گئی ہیں۔ متی ۵: ۲۱۔ ۳۸۔ اور رومی  ۱۳: ۱ ۔ ۴۔ پس انجیل میں ہر قسم کے سلوک کے لئے صاف صاف محل اور موقعہ  بتلائے گئے ہیں۔

مرزا صاحب  کی باقی عبارت  کے جواب میں یہ کہتا ہوں کہ آپ پھر خیال کریں کہ نکماّ  اور سراسر ہیچ حکم وہ ہو گا جو خود غرضی  اور محض اپنی نقانیت  پر مبنی ہو۔  اور جو ہر قوم  اور ہر زمانہ میں فساد اور دشمنی  کے  اجرا اور دوام کا موجب  ہو۔ پس دیکھئے کہ اس صورت میں قرآن  کا یہ حکم مختص  الزمان القوم  ہے کہ ’’اے ایمان والو نہ پکڑو میرے اور اپنے دشمنوں کو رفیق‘‘ ’’اﷲ تو منع کرتا ہے تم کو اُن سے دوستی  کرنے کو جو لڑے تم سے  دین پر اور نکالتے تمکو تمھارے گھروں سے اور میل  باندھے تمہارے نکالنے پر اور جو کوئی اُن سے دوستی کرے سود ہی لوگ  ہیں گنہگار‘‘ سورہ المتنر رکوع ۱، ۲۰۔ اور یا انجیل کا یہ عالم  گیر حکم کہ ’’جو کچھ  تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں ویسا تم بھی اُن کے ساتھ کرو‘‘۔  متی ۷: ۱۲۔ اور پھر دیکھو کہ خدا کے کام اور خدا کی کلام کاکامل  معانقہ قرآن نے کرایا ہے یا انجیل نے۔ قرآن کہتا ہے سورہ بقر رکوع ۲۴۔ ’’ اور مار ڈالو اُن کو جس جگہ  پاؤ۔ اور نکالدو جہاں سے اُنہوں نے تمکو نکالا ۔ پھر جس نے تم پر زیادتی  کی تم اُس پر زیادتی کرو جیسے اُس نے زیادتی کی تم پر‘‘ میں نہیں  دیکھتا  کہ محمد  صاحب  نے کونسا محل عضو کے لئے چھوڑا ہے۔ اور انجیل کا فرمان یہ ہے کہ  متی ۵: ۴۴، ۴۵۔ ’’ میں تمہیں کہتا ہوں کہ اپنے  دشمنوں کو پیار کرو اور جو تم پر لعنت  کریں ان کے لئے برکت چاہو جو تم سے کینہ رکھیں ان کا بھلاا کرو۔ اور جو  تمہیں  دکھ دیں اور ستاویں اُن کے لئے دعا کرو۔ تاکہ تم اپنے  باپ کے جو آسمان  پر ہے فرزند  ہو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں  اور نیکوں پر اُگاتا ہے اور راستوں اور ناروستوں  پر مینہ برساتا ہے۔‘‘ اور بھی دیکھو  اعمال ۱۴: ۱۵، ۱۷۔ مرزا صاحب  آپنے بے فائیدہ  تین صفحہ قرآن  کی تعریف  میں خواب  کئے کیونکہ ایسی کتاب دنیا  کے لایق نہیں ہے۔ اور مجھے کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح قرآن چاہتا ہے دنیا آگے ہی ویسی ہے۔ اور بہتری  کی صورت اور اُمید  صرف انجیل مقدس سے ہے۔ 

قولہ۔ خیر الدین صاحب کی یہ غلطی ہے کہ  وہ گمان کرتے ہیں کہ یسوع  انجیلی تعلیم کا پابند تھا۔ اُنہیں  سمجھنا چاہئے  کہ اگر یسوع اُسکی تعلیم کا پابند  ہوتا تو  فقیہوں اور فریسیوں کو بد زبانی  سے پیش  نہ آتا۔ یسوع کے ہاتھ  میں صرف زبان تھی سو خوب  چلائی  کسی کو حرام کار کسی کو کو سانپ کا بچہ کسی کو سُست  اعتقاد قرار دیا گیا اگر کچھ  اختیار  ہوتا  تو خدا  جانے کیا کرتا  ہم اُس کے حکم اور عضو کے بغیر امتحان کے کیونکر  قایل ہو جائیں۔ کہاں یسوع کو یہ موقع  ملا کہ وہ یہودیوں  کے سزا دینے پر قادر  ہوتا اور پھر در گزر کرتا ۔ ہاں یہ اخلاق  فاضلہ ہمارے سید و مالانا فضل  الانبیا  خیر الاصفیا محمد۔۔۔۔ میں چابت ہین کہ آپنے جب مکہ والوں پر فتح  پائی جنہوں  نے آخحصرت کو بہت ستایا  تھا اور صدہا نا حق  کے خون کئے تھے ان سب کو بخشدیا۔ اور کہا کہ جاؤ میں نے سب سب کو آزاد کر دیا۔

اقول۔ مرزا صاحب  کی یہ آخری باتیں ہیں اور سب سے زیادہ کفر اور دروغ گوئی سے پرُ ہیں ۔ اس طور سے تو آپ  سارے انبیاء کو نالایق  اور ناقابل کہ سکتے  ہو۔ اور لایق اور قابل شخص  آپکی نظر میں یشوعہ۔ بخت نصر۔  سکندراعظم ۔ ہانی بال۔ انٹی اوکس ہیرودیس اعظم ۔ محمد اور تیمور وغیرہ جچیں گے۔ جو اپنے اپنے  زمانے میں خون ریزیاں  کرتے رہے  اور کبھی مارتے  کبھی صبر کرتے رہے اگرچہ آپ کی تقریر  نفرت کے لایق ہوتا ہم صبر سے میں آپ  پر سچائی کو روشن کرتا ہوں۔

( ۱) مسیح  خداوند  ا پنی  الہیٰ رسالت  کی وجہ سے حق رکھتا تھا کہ گنہگاروں  اور شریر کا  زبوں  کو ملامت کرے اور اُن سے توبہ طلب کرے  اُس کی رسالت  میں یہ بات مدنظر تھی کہ سچاؔئی پر  گواہی  دیوے اور اُس کو ہر قسم کے آدمی کے سامنے پیش کرنے کے لئے اُس میں یہ الہیٰ وصف  تھی کہ دلوں کا جانچنے والا تھا۔ اور جب اُس نے  اپنا کام اس اصول کی بنیاد پر  شروع  کیا کہ  مبارک وہ جو پاک دل  ہین کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے تو مسیح  ہر طرح سے  لوگوں میں یہ صفائی  طالب کرتا تھا۔ اورکسی حالت  میں اور کسی شخص  میں فریب  اور ریاکاری پر ترس کھاتا تھا۔ اور خواہ لوگ کیسے ہی چھپے بھیس مین اس کے پاس آویں وہ اُن کی خفیہ  غرضوں کو جانتا اور واجبی جواب دیتا اور واجبی ملامت کرتا  تھا۔ اپنے سامعین اور  پیروؤں کو نہ کبھی  دہوکھا دیتا اور نہ دہوکھاکھاتا تھا۔ اور نہ اُن  کی خوشامد کرتا تھا۔ سچؔائی  اور علم غؔیب  اس کے ہتھیار تھے۔ شمعون پطرس کو اُس  کی بیوفائی کی خبر دیتا اور ڈانٹتا ہے۔ یہودا اسقریوطی کو جتاتا ہے کہ  تو مجھے پکرڑائیگا۔ ایک بڑی  بھیڑ کو اپس کی ناقص نیت پر ملامت کرتا ہے۔ اور اس بات کی پروا نہینکرتا کہ وہ لوگ اس کے معجزوں کے سبب اُس کی تعریف  کرتے تھے۔ ( یوحنا ۶: ۲۶) ایک دولتمند  دیندار کا لالچی ہونا اُس پر ظاہر کرتا ہے۔ ( متی ۱۹: ۳۱) فقیہوں اور فریسیوں کی غیر تمندی اور تعصّب  اور دینداری  کا سچّا اندازہ کر کے اُن کو اصل  میں ریا کار قرار دیتا  ہے۔ وہ جو اپنے آپ کو لوگوں میں نیکو کار جتاتے  تھے اُنکو اُنکی  چالاکی  کے سبب سانپوں کے بچے کہتا ہے۔ غرضکہ مسیح خداوند خود سچائی تھا اور سچائی پر گواہی دینے کو آیا تھا اور جہاں کہیں اُس کو بطُلان اور ریاکار ی اور فریب معلوم ہوا اُس نے کسی کا لحاظ  نہ کیا اور لوگوں  کی مخالفت  سے نہ ڈرا اور نہ پروا کی اور نہ خوشامد  کی بلکہ  ملامت کرتا اور سب  سچائی  ہر بات میں طلب  کرتا اور خود سچائی کی کلام اور کام کرتا تھا۔ یہ اخلاق فاضلہ محمد صاحب  میں کہاں تھے؟ لوگوں کے ڈر یا خوشامد کے سبب لاؔت  اور عُزاّ کی تعریف  کر دی تھی۔ بہت پرستوں کی خاطر سنگ پرستی جاری کر دی لوگوں کو نصیحت کرنے کی سلیم چال منسوخ کر کے شمشیر چال اختیار کی۔ یہودیوں سے دہوکھے  کھاتے رہے۔ اسی طرح پریشان سے رہے کہ سچائی کس بات میں ہے۔ لاچاری کے وقت  صبر کرتے رہے جب زور ہوا تو خوب  بدلے لئے اور بھی نقصان سے بڑھکر۔

(۲ ) ۔ اب سنُئے  کہ مسیح خداوند کے اختیار  میں کیا تھا اور پہلے یہ بات زہن نشین کر لو کہ اُس  بے اپنی پاک خدمت  طرح  شروع کی تھی کہ ’’توبہ کرو کیونکہ  آسمان کی بادشاہت نزدیک آئی ‘‘۔ اور کل عرصہ خدمت میں اُس آسمانی بادشاہت  کی باتیں  سکھلاتا رہا اور یہودیوں  کی اس انتظاری اور شوق کہ نہ پروا کی اور نہ حرص کی کہ مسیح دنیاوی  بادشاہ ہو۔  ( دیکھو یوحنا ۶: ۱۵) اور جب اپنی خدمت  کا کام ختم کرنے پر تھا تو یوں فرمایا کہ ’’ میری بادشاہت  اس جہان کی نہیں  اگر میری بادشاہت  اس جہان کی ہوتی تو میرے نوکر لڑائی کرتے تاکہ میں یہودیوں  کے حوالہ نہ کیا جاتا پر میری بادشاہت یہاں کی نہین ہے‘‘۔ یوحنا ۱۸: ۳۶۔ اب دنیاوی بادشاہت  سے ایسے ساف منع  تعلق کے باوجود دیکھو  دیکھو اُس کو کیا اختیار  تھا۔ وہ مرُدوں کو زندہ کر سکتا تھا اور زندوں کو مرُدے کر سکتا تھا۔ متی ۲۸: ۳۔ ۴۔ اور یوحنا  ۱۸: ۶۔ پھر نبی اسرائیل  کے لئے  بیابان میں خدا  نے آسمان سے منؔ برسایا اور سیر کیا مسیح خداوند نے ویرانوں میں ہزار ہا آدمیوں  کی گروہوں  کو اپنے کلام کی قدرت سے روٹی  سے سیر کیا۔ شیاطین پر اُس کا اختیار  ثابت تھا۔ ہوا اور سمندر اُس کا حکم  مانتے تھےْ بیماریاں اُس کی قدرت سے دور ہوتی تھیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ وہ جسکو جلانے اور آسودہ کرنے اور شفا دینے کی قدرت و اختیار تھا اگر  چاہتا تو ایسے کاموں  کے بجائے موت اور کال اور بیماری جاری نہیں کر سکتا  تھا؟ بے شک کر سکتا تھا اور اپنے ستانے والوں کو بدلا دے سکتا تھا۔ مگر اُس نے ایسا نہ کیا بلکہ ہر حال  میں برداشت کی۔ مگر اُس نے یہ اختیار کیوں نہ جتایا؟ اس کا بڑا بھاری سبب تھا اور وہ یہ ہے کہ

’’جب  وے  دن کہ جن میں وہ اوپر اُٹھایا جائے پورے  ہونے پر تھے اُس  نے یروشلم کو جانے پر اپنا رُخ کیا۔ اور اُس نے اپنے آگے پیغام  دینے والے بھیجے  وےجا کے سامریوں کی ایک بستی میں داخل ہوئے کہ اُس کے لئے تیاری کریں لیکن اُنہوں نے اُس کو قبول نہ کیا  کیونکہ اُس کا مُنہ یروشلم کی طرف  جانے کو تھا۔ اُس کے شاگرد یعقوب اور یوحنا نے یہ دیکھ کے کہا کہ اے خداوند کیا تو چاہتا ہے کہ جیسا الیاس نے  کیا حکم کریں کہ آسمان سے آگ  نازل ہووے اور اُنہیں  جلاوے تب اُس نے پھر کے اُنہیں دہمکایا اور کہا تم نہیں جانتے کہ تم کیسی روح کے ہو۔ کیونکہ ابن آدم  لوگوں  کی جان برباد کرنی تھیں بلکہ بچا لی آیا۔ الخ‘‘ لوقا ۹: ۵۱۔ ۵۶۔ اور بھی دیکھو متی ۲۶: ۵۲۔ ۵۶۔ 

(۳) مکہ والوں  کو محمد صاحب  کا بخشدنیے کی دلیل  نہیں ہے ۔ میں اصل معاملہ ناظرین کو سُناتا ہوں۔

جب محمد صاحب  مکہ چھوڑ مدینے کو چلے گئے تھے کیونکہ لوگوں نے مکہ میں اُنکو چھوٹی چھوٹی باتون سے تنگ کیا تھا۔ اور مدینہ  میں سلیم طور سے  وعظ کرتے رہے۔ مگر اس عرصہ  میں آپ  ایک کمزور آدمی تھے مگر وہ اور اُن کے ساتھ اپنا وطن  مکہ بہت یاد کرتے تھے۔  اور تاکہ یہ کمزوری دور ہو اور غریبی کم ہووے اور آخر  وطن  کو جانے کی صورت نکلے یہ کاروائی شروع  کر دی کہ قریباً ڈیڑھ  برس تک قریش کے قافلے  لوٹنے شروع کر دئے جومکہ  اور شام میں تجارت کرتے تھے۔ اس راہزانی  کی چند نظریں میں تاریخ و اقؔدی کے حصہّ اول سے پیش کرتا ہوں جس کا نام منازی الرسوؔل  ہے۔ اُن سے معلوم ہو جاویگا کہ مرزا صاحب  کی ثناگوئی کی کچھ حاجت  نہیں ہے۔

جنگ بدر کے  راوی نے یہ وجہ لکھی ہے۔ ’’راوی  کہتے ہیں کہ جس وقت رسول خداصلی اﷲ علیہ وآلہ کو معلوم  ہوا کہ قافلہ قریش کا شام سے پھرا ہے تو حضرت  علیہ السلام  نے بہ قصدا اُس قافلے کے اپنے اصحاب  کو جمع کیا اور دس (۱۰) روز پیشتر  اپنے خروج کے مدینے سے ایسا کیا کہ لحلہ بن عبید اﷲ اور سعید بن زیدکو واسطے  تجسّس و تفحص حال قافلہ  کے روانہ کیا ‘‘۔ یہ دونوں گئے اور قافلہ  کا حال دیکھ آئے  اور محمد صاحب  کو خبر دار کیا۔ اُس پر محمد صاحب نے حکم دیا۔ ’’ راوی  کہتے ہیں کہ ان حضرت  علیہ السلام  نے مسلمین کو طلب کیا اور فرمایا یہ قافلہ قریش کا جو آیا ہے اُس مین اُن کا مال کثیر ہے کیا عجب ہے کہ حق تعالیٰ اُس کو تمہارے تئین  غنیمت میں عطا کرے۔ یہ سنکر ہر شخص خروج میں تعجیل  کرنے لگا۔ اور باپ بیٹے میں واسطے خروج کے قرعہ ڈالا جاتا تھا۔۔۔۔ اکثر مردم حضرت  کی ہمراہی سے باز رہے۔۔۔۔اور جو کوئی جانے سے باز رہا وہ ملامت نہیں کیا گیا اس لئے کہ اُس کے  زغم میں لوگ  قتال اور جہاد کے لئے نہیں نکلے  تھے بلکہ  واسطے تاراج قافلہ کے نکلے تھے‘‘ آخر یہ ہو کہ جب وہ قافلہ واپس شام سے آیا  اور قریش مکہ کو بھی خبر ہو گئی تھی۔ تو  لڑائی ہوئی  اور  قافلہ  لوٹا گیا۔  صبر اور قناعت کی یہ عمدہ  نظیر ہے!!!!!

پھر غزوہ فتح مکہّ کا احوال یہ ہے کہ محمد صاحب نے ازخود ہی اپنے لشکر کو مکہ کی طرف خروج کرنے  کا حکم دیا اور مکہ کے لوگ اس چڑہائی سے ناواقف  تھے اور مقابلہ کے لئے تیار بھی نہ تھے۔ اور جب خفیہ طور سے کسی نے خبر بھیجی  تو محمد صاحب  کو پتہ لگ گیااور وہ  خط واپس پکڑ منگوایا۔ لشکر اسلام کا شمار نو ہزار پانچسو  تھا۔ اور مکہ والوں سے انتقام  کی وجہ یہ بیان ہوئی کہ ’’حضرت نے ابوسفیان سے فرمایا ہاں میں  راضی ہوں اُن مردوں سے جنہوں نےمیری تصدیق کی اور مجھے اپنے یہاں جگہ  دہ اور میری نصرت کی بجائے مردمان میری قوم کے جنہون نے میری تکزیب  کی اور مجھکو  نکالدیا اور میرے شہر سے مجھکو خارج کر دیا اور میرے نکالدینے پر سب نے باہم اتفاق کیا۔‘‘ (غور کرنا چاہئے کہ مکہ کے لوگوں نے حضرت  کو کوئی ایسی  تکلیف نہ پہنچائی تھی جس کے بدلے آپ سارے شہر کی بربادی پر کمر بستہ  ہو کر دس ہزار فوج لیکر آگئے تھے۔ وہ پرانا کینہ دل سے گنوایا تھا بلکہ قریش کو اس سے بڑھکر ستاتے رہے اور اُن کے قافلہ  راستوں پر لوٹ لیتے رہے۔   

اور اسپر بھی صبر  نہ آیا اور اب  قابو پا کر اُن لوگوں کو برباد کرنے  کے درپے ہوئے اور پھر دیکھو کہ کیاکیا شرایط مکہ والوں کے امن کے لئے پیش کی تھیں اور یونہی در گزر  نہ کی تھی)۔ ’’حضرت علیہ السلام نے فرمایا ہاں اور جو کوئی اپنا دروازہ  بند کرے گا وہ بھی امن پائے گا اور جو کوئی کعبے کی طرف توجہ کرے گا اور ہتھیار اپنے ڈال  دے  گا وہ بھی پناہ پاویگا‘‘۔ اور ابو سفیان  محمد کا فر ستادہ  مکہ میں پکار کرتا تھا کہ ’’ اے آل  غالب  اسلام  لاؤ تو سلامت  رہو گے۔۔۔۔ اور آں حضرت ﷺکو یہ خبر پہنچی  کہ اہل  مکہ البتہ  سب اسلام  لائے مگر تھوڑے جو ساتھ مقیس  کے ہیں۔ تب آپ  نے نبی خزاعہ کو حکم کیا کہ  اُن لوگوں کی طرٖف  دوڑ ماریں  اور جو اُنسے لڑیں  اُن کے سوائے اوروں کو قتل نہ کریں  اور نہ اُن چند آدمیوں  کو ماریں جن کا نام اُن کو بتا دیا‘‘ وغیرہ  خالد ابن ولید نے ایک قبیلہ  کو جو جزیمہ  کہلاتے تھے قتل  کر ڈالا اگر چہ اُن لوگوں نے اسلام قبول کیا اور ہتھیار  رکھ دئے  اور پہاڑ سے نیچے اُتر آئے  اور یہ شرط امان کی سنائی  گئی تھی۔   جب محمد صاحب کو خبر پہنچی  تو خالد کو سخت  ملامت کی مگر خالد نے یوں جواب  دیا اُن کی تسلیّ  کر دی کہ ’’یا رسول اﷲ خدا مجھےآپ پر قربان کرے آپ مجھے ملامت نہ کیجئے کہ ہم  نے اُن کو بموجب  اُس آیت کے قتل کیا ہے جسکو خدا نے آپ پر نازل  فرمائی ہے کہ  قاتلو ھم یعذ بھم اﷲ بایدیکم  ویخز ھم ویصرکم علیھم ( وغیرہ) یعنے تم اُن کو قت کرو  کہ حق تعالیٰ اُن کو تمہارے  ہاتھوں   عذاب کرے گا اور خوار  کرے گا  اور تم کو اُن پر گالب کریگا اور مومنین  کے دلوں کو تسکین و تسلیّ دے گا۔ پس حق تعالیٰ  جانتا ہے  کہ بر شک میں مومنین میں سے ہوں اور  ہر آئینہ  اُس قوم نے مجھ سے کینہ  کشی کی تھی پس حق تعالیٰ نے اُن کی طرف سے میرے سنیےکوتسلّی  بخشی‘‘۔پس طاہر  ہے کہ کس سبب سے مکہ پر چڑہائی ہوئیاور کن کن شرطوں  اور کیسے  کیسے کشت و خون کے بعد مکہ کے لوگوں کا پیچھا چھوڑا تھا اور اس  کار گزاری  کا نام مرزاصاحب  نے بخشدینا اور آزاد  کرنا رکھا ہے ۔ میں اسسے بہتر نظریں کئی بادشاہوں اور سرداروں کی پیش کر سکتا ہوں جنہوں نے دشمنوں کو  رہا کر دیا اور ان تکلیفوں  اور خون ریزیوں کی پروا نہ کی۔ جو اپنے اوپر  وارد کی گئی  تھیں۔ مرزا  صاحب  چاہئے تھا کہ ایسی کا  ر روائی  کے سبب آپ  شرمندہ  رو رہتے جنکی تعریف کر رہے ہو۔ اور میں اُمین کرتا ہوں کہ اس فیصلہ سے آپ کو اور ناظرین کو سارا معاملہ خوب سمجھ میں آجاوے گا۔ اور خداوند مسیح کا فرمان اور اُس کی زندگی  قابل  پسند رہیں گے۔