وہ نجات پائیں

رومیوں ۱۰باب ۱۱

Salvation

Romans 10:11

Published in Nur-i-Afshan April 20, 1894
By Kidarnath

پوری آیت اس طرح پر ہے۔’’ اے بھائیو۔ میری دلکی خواہش ۔ اور خدا سے میری دعا اسرائیل کی بابت یہ ہے۔ کہ وے نجات پاویں‘‘

ناظرین  نورافشاں کو معلوم ہوا۔ کہ ہم مسیحیوں میں یہ دستور العمل ہے۔ کہ نئے سال کے شروع میں  بماہ جنوری ایک ہفتہ برابر مختلف مقاصد و  مطالب پر خدا سےدُعا مانگیں ۔ مثلاً اپنے گناہوں کا اقرار۔ ‘‘ ’’خدا کی نعمتوں کا شکریہ‘‘ ’’روح القدس  کی بھرپوری‘‘ اُس کے کلام کے پھیلائے  جانے کی خواہش‘‘  ’’ حاکموں پر برکت‘‘۔ ہندو مسلمانوں کی نجات وغیرہ‘‘ اسی سلسلہ میں خدا  کی برگزیدہ قوم بنی اسرائیل کے واسطے بھی دُعائیں مانگی جاتی ہیں۔ چنانچہ  ہمارے یہاں فرخ آباد کے گرجہ گھر میں بھی بتاریخ  دہم ماہ جنوری سن ۹۵ء یہ قرار  پایا۔ کہ یہودیوں  کے واسطے  دعا  و مناجات کی جاوے۔  اور تاریخ  مندرجہ  صدر کے واسطے  بندہ قرار  پایا تھا۔  لہذا ۴ بجے شام کو مندرجہ عنوان آیت  پر کچھ  تھوڑی  دیر تک بیان ہوا۔ اور خط  روم ۹ باب پڑھا  گیا۔ اس باب کو پہلی آیت سے پڑھتے ہوئےجب  ۵ویں آیت کے اس آخری فقرہ  پر۔ کہ ’’ جو سب کا خدا ہمیشہ‘‘ ’’ مبارک  ہے‘‘  پہنچا۔ تب بندہ کو خیال ہوا۔ کہ رسول کا اس فقرہ سے کیا مطلب ہے۔ اور خیال  پیدا ہونیکا  سبب یہ تھا۔ کہ عرصہ سے باوقات  مختلف ایک رسالہ  موسومہ الوہیت مسیح معنوتہ و مولفہ مسٹر اکبر مسیح مختار  باندہ بندہ  کے زیر نظر رہتا ہے۔ رسالہ ٔ مذکور میں  بھی صفحہ  ۹۷ پر اسی فقرہ کی بابت کچھ بحث ہے۔ چونکہ مختار صاحب  الوہیت مسیح کے منکر ہیں۔ لہذا اُنہوں  نے اپنے خیال  کی تائید میں پولوس رسول کی  افضل  التفضیل دلیل کو۔ جو بنی اسرائیل  کی فضیلت  اَور  دنیا کی تمام اقوام پر ثابت  کرتی  ہے۔ بحث کی صورت  میں لانا  اپنا فرض سمجھا۔ آپ کی مثال  وہی  ہے جو ایک حکیم  سے نکلی ؟  کہ جس نے بغیر پڑھے اور تعلیم  حاصل  کئے چندجہلا دیہات کو دھوکھا دے رکھا تھا۔ ایک مرتبہ کا زکر  ہے۔ کہ حکومت موصوف کے پاس ایک ایسا مریض لایا گیا۔ جس کی دوا آپ کے زہن شریف میں نہ آسکی۔ اور نہ مرض کی تشخیص  ہوسکی۔  اب  اگر کہتے ہیں۔ کہ اَور حکیم کے پاس جاؤ۔ تو پیٹ کا دھندھا  جاتا ہے ۔ بدنامی ہوتی ہے۔ لوگ کہینگے ۔ کہ پورے حکیم نہیں ہیں۔ پس کچھ سوچ ساچ کر آئیں بائیں  شائیں  تین پڑیاں خاک دُھول  بلا کی بنا کر مریض  کے حوالہ کیں۔ اور فرمایا ۔ کہ ۔ اِن پڑیوں کو استعمال  کرتے ہوئے۔ اونٹ کا خیال نکرنا۔  مطلب یہ۔ کہ اگر مریض  نے کبھی اونٹ دیکھا بھی نہو۔ تو بھی جب ان پڑیوں کے کھانے ا رادہ  کریگا۔ فوراً اونٹ کا خیال پیدا ہوگا۔ غرضیکہ اُن پڑیوں سے مریض کو فائدہ نہوا۔ اس لئے۔ کہ مریض اونٹ کے خیال کواپنے دماغ سے باہر نکر سکا۔ یہی سبب تھا۔ کہ بندہ کو دردپڑھتے ہوئے نھی مختار ساحب  کی دلیل نہ بھولی ۔ بلکہ خود بخود  خیال  سب آموجود ہوئے۔ اور اچھا ہوا۔ کہ ایسے وقت میں خیال پیدا ہوا۔ کیونکہ چند سببوں کا بیان کرنا ضروری تھا۔ تاکہ کل شرکاء ربادت کے دل اس بات پر متوجہ ہوجائیں۔ کہ کیوں بنی اسرائیل کے واسطے  آج دُعا مانگنا چاہئے۔ منجملہ اُن اسباب کے پہلا سبب قوی یہ ہے۔ کہ وے اسرائیلی ہیں۔ اور فرزندی۔ اور جلال۔ اور عیدیں۔ اور شریعت۔ اور عبادت کی رسمیں۔ اور وعدے اُن ہی کے ہیں۔ اور دوسرا سبب یہ ہے۔  کہ باپ دادے اُن ہی میں کے ہیں۔  اور تیسرا سبب یہ ہے۔ کہ جسم کی نسبت مسیح بھی اُنہیں مین سے ہوا۔ لیکن اس تیسرے سبب پر ہم کو اعتراض  ہے۔ اگر جسم کے معنے کچھ اور نہوں۔ اس واسطے۔ کہ باپ دادے۔ یعنے ابراہام ۔ اصحاق۔ یعقوب وغیرہ کیا  جسم نہیں  رکھتے تھے۔ پھر مسیح کو باپ دادوں  سے علیحدہ کر کے بیان کرنے میں رسول کا کیا مطلب ہے؟ مختار صاحب ہم کو سمجھا دیں۔ آیا وہی مطلب ہے۔ جو قرآن کی سورہ انا انزلنا کے اس فقرہ میں ہے ’’ تنزلُ المکایکتہ  والروح‘‘ ( اُترتے ہیں فرشتےؔ اور روؔح) اگر روح سے روح القدس خدا مراد نہیں تو کیا ؟ اگر جبرائیل کا نام روؔح  ہے۔ تو کیا جبرائیل فرشتہ نہیں ہے؟ اور فرشتوں کے اترنے میں جبرائیل  کو اُترا ہوا نہیں سمجہینگے؟ یا اس کا  وہ مطلب ہے۔ جو قرآن  کی ان آیتوں میں ہے۔ فَارَسَلَنا اِلَیھٰارُوحَنا۔ فتضخنا فیھا میں روحنِاَ۔ پس بھیجا ہمنے اُس کی طرف اپنی روح کو۔( پس پھونک دی ہم نے اُس میں اپنی روح میں سے) کیا یہاں ان دونون روحوں میں کچھ مغائرت ہے۔ یا نہیں؟ اگر ہے ۔ تو قرآن  سے خدا کی روح کی شخصیت ثابت ہوگئی۔ اور اگر مغائرت نہیں ہے۔ تو کیا جبرائیل نے جبرائیل  کو پھونک دیا؟ یہ کیسی بات ہے!  ناظرین ناراض نہوں۔ اور نہ کہیں۔ کہ انجیل سے مسیح کی الوہیت کی بحث  میں قرآنی  دلائل ۔ اور خاصکر  روح القدس  کی الوہیت  کا بیان  پیش کرنا چہ معنی؟ جناب من بےمعنی نہیں۔ بلکہ یہ دکھانا چاہا ہے۔ کہ یونی ٹیرین دلایل محمدی دلایل کے سگے بھائی ہیں۔ جو وہاں ہے۔ سو یہاں ہے۔ جو یہاں ہے، سو وہاں ہے۔ لیکن ہمارے اعتراض کا جواب خود پولوس رسول سے ہمکو یہ ملتا ہے۔ کہ پیارے بھائی۔ اگرچہ خداوند مسیح جسم کی نسبت باپ دادوں سے کسچ بھی مغائرت نہیں رکھتا۔ ( اور میرے دوسرے سبب ہی میں یہ تیسرا سبب بھی مل جاتا ہے) پر تو بھی زمانہ آیندہ میں مسیح  کےمخالف کے اُٹھینگے اور لوگوں کے دلوں میں شبہ پیدا کیا کریں گے۔ اس واسطے میں نے تم کو صاف بتا دیا۔ کہ جسم کی نسبت مسیح بھی اُن ہی میں سے ہوا۔ جو سب کا خدا ہمیشہ  مبارک ہے۔ مطلب یہ کہ مسیح خداوند  جب مجسم ہوا۔ تب غیر اقوام  میں نہیں۔ بلکہ خدا کی بر گزیدہ قوم اسرائیل میں۔ کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے۔ اور اگر زیادہ اطمینان خاطر منظور ہو۔ تو مرقس  کی انجیل میں سردار کاہن سے دریافت کرو۔  وہ تمہیں بتادیگا کیونکہ ۱۴۔ ۱۶ میں پھر سردار کاہن نے اُس سے پوچھا۔ کہ کیا تو مسیح اُس مبارک کا بیٹا ہے؟  تب ۶۲ ویں آیت  میں یسوع نے اُس سے کہا۔’’میں وہی ہوں۔‘‘ مختار صاحب  اگر مسیح میں اُلوہیت نہ تھی۔ تو باپ دادوں سے بلاوجہ  موجہ علیٰحدہ کرنا خلل دماغ کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن ملہم شخص کی بابت ایسا بدگمان  نہ تو آپ کر سکتے ہیں۔ اور نہ میں۔ پھر آپکی یہ دلیل ۔ کہ ’’مقدس پولوس نے کس ایک جگہ بھی مسیح کے حق میں یہ خطاب استعمال  نہیں کیا ہے۔ اگر دوسری جگہ بھی انہی  الفاظ  کو استعمال  کرتا۔ تب آپ کیا کہتے؟ اور تیسری جگہ بھی استعمال  کرتا۔ اور چوتھی جگہ بھی استعمال  کرتا۔ تو آپ کیا کہتے؟ پہر آپ ہی تو کہتے ہیں۔ کہ بجنسہ یہ وہی فقرہ ہے۔ جو روم ۱۔۲۵ میں ہے۔ اور کالق کی نسبت لکھا ہے۔ واہ جناب یہی تو دلیل ہے۔  کہ کدا کے کلام میں مسیح کے حق میں اکثر ایسے خطاب پائے جاتے ہیں۔ جو خدا کی نسبت ہیں۔ پس باوجود اُن صفات کے جو کدا کے معُروف ہیں۔ مسیح کی اُلوہیت کو رد کرنا کس قانون کے رو سے درست ہے؟ اب آخری فیصلہ سنئے خدا باپ کی اُلوہیت  کے آپ  بھی قایل ہیں۔ اور روح القدس کی اُلوہیت قرآن سے ظاہر ہو چکی ہے۔ اور مسیح کی الوہیت اس افضل التفضیل دلیل پولوس سے آپ کو دکھائی گئی۔ براہ مہربانی تثلیث  کی پہر  تتفیح فرمائے۔ اور اپنے رسالہ کا جواب جلد چھپوائے۔زیادہ نیاز۔

راقم احقر العباد۔۔۔۔ کیدار ناتھ از فرخ آباد