Göreme

 

حق و َباطَل کی شناخت

اے ونسٹن

کھوج کھوج کر ڈھونڈو گے تب جھوٹ سچ کو جانو گے

فصل اَوّل درز کر آفرِینش


Recognition of Right and Wrong

Comparison of the Bible and the Qur’an

Published in Nur-i-Afshan May 15, 1896

By

A. Winston


توریت

توریت میں زکر آفرینش آد م اس طرح سےلکھا ہے

ابتدا میں خدا نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور جملہ موجودات کو پیدا کر کے آفرینش کے چھٹے دن آدم کو زمین کی خاک سے اﷲ نے اپنی سورت پر بنایا اور اُس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا اور ساتویں دن کو سبت مقرر کیا اور عدن کے پورب طرف باغ لھا کر آدم کو اُس میں رکھا اور آدم کی پسلی سے حواّ کو پیدا کیا اور درخت ممنوعہ کے کھانے سے منع کیا۔ پھر شیطان نے بشکل سانپ حّوا کو بہکایا چطاطچہ درخت ممنوعہ حوّا نے خود کھایا اور آدم کو کھلایا جبکہ آدم کو درخت ممنوعہ کے کھانے سے نیئک و بد کی شناخت ہوگئ تو سمجھا کہ میں ننگا ہوں پھر درختوں کی پتیوں سے اپنا اور اپنی بیوی حوّا کا جسم چھپایا پھر اﷲ نے دونوں کے واسطے طمڑے کے کرتے بنائے اور پہنائے اور درخت ممنوعہ کے کھانے کے قصور میں دونوں بہشت سے نکالے گئے اور شیطان ملعون ہوا۔

قرآن

سورہ الاعراف آیت۱۱۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ اور ہم ہی نے تم کو (ابتدا میں مٹی سے) پیدا کیا پھر تمہاری صورت شکل بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا آدم کے آگے سجدہ کرو تو (سب نے) سجدہ کیا لیکن ابلیس کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں (شامل) نہ ہوا اور سورہ ہجرآیت ۲۶ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ السَّمُومِ اور ہم نے انسان کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے اور جنوں کو اس سے بھی پہلے بےدھوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا اور سورہ عمران ۵۸ آیت۔ إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اس نے (پہلے) مٹی سے ان کا قالب بنایا پھر فرمایا کہ (انسان) ہو جا تو وہ (انسان) ہو گئے۔ اور سورہ علق کی آیت۱ میں ہے خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا سورہ مومنون رکوع ۱۔ ۲۱، ۱۴ آیت۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے پھر اس کو ایک مضبوط (اور محفوظ) جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست) چڑھایا۔اور سورہ سجدہ رکوع۱۔ الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنسَانِ مِن طِينٍ جس نے ہر چیز کو بہت اچھی طرح بنایا (یعنی) اس کو پیدا کیا۔ اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا سورہ ملائک رکوع ۲۔ ۱۲ ۔ آیت اور اﷲ نے تمکو بنایا مٹی سے پھر بوند پائی سے۔ سورہ مومن رکوع ۷۔ ۶۹ وہی ہے جس نے تمکو بنایا خاک سے سورہ ہجرت رکوع ۱۔ اے آدمیوں ہم نے تمکو بنایا ایک نر اور مادہ سے اور رکھی تمہاری ذاتیں اور گوتیں تا آپس کی پہچان ہو۔ سورہ رحمن رکوع ۱۔ ۱۳ آیت بتایا آدمی کھنکھنا تی مٹی سےجیسے ٹھیکری اور بنایا جان کو آگ کی دہک سے سورہ قیامت رکوع۔ ۲۔ ۳۷، ۳۹ پھیلایا ایک بوند مٹی کا جو ٹپکا پھر کیا اُس میں جوڑا نر اور مادہ۔ سورہ دھرَ رکوع ۱۔ آیت ۲ ہم نے بنایا آدم ایک بوند کی لجّیُ سے سورہ عباس رکوع ۱۷۱، ۱۹ ۔ آیت کس چیز سے بنایا اُس کو بنایا اُسکو اندازہ رکھا اُس کو سورہ سجدہ رکوع ۱۔ ۶ آیت اﷲ نے اپنی جان میں سے آدم میں پھونکی۔ سورہحج رکوع ۲ زمین کو پھیلایا ہم نے اور ڈالی اُس پر لوح یعنے زمین مثل بوریہ کے لپٹی تھی اس وجہ سے اسُ پر پہاڑ کی میخ ٹھونکی۔ سورہ سجدہ رکوع ۳۔ میں اﷲ نے زمین و آسمان اور جو کچھ اُسکے بیچ میں ہے چھ دن میں بنایا اور سورہ فضیلت رکوع۔۲۔ ٹھہرادئے ساتھ آسمان اور بنائے دودن میں اور اﷲ عرش پر بیٹھا ہے اورچوکی پر بیٹھا ہے وغیرہ سورہ بقر رکوع ۴۔ ۳۰ آیت اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں سے مجھکو بنانا ہے زمین میں ایک نائب بولے کیا تو رکھے گا اُس میں جو شخص فساد کرے وہاں اور خون کرے۔

حدیث

میں لکھا ہے کہ فرشتوں نے کل آدم کو گوندھا اور خشک کیا کہ مثل کھیر مل کے ہوگئی تھی اور ہو ا چلنے سے بچتی تھی اُس سے آدم کو بنایا اور پھر لکھا ہے کہ تمام روئے زمین کی شور و شیرین مٹی سے آدم بنایا گیا اور چالیس برس آدم کے گارےمین ہوا و حرص خمیر کی گئی اور حیات القلوب جلد اوّل میں لکھا ہے کہ امام زاو عبداﷲبن سلام نے محمد سےپو چھا کہ آدم تمام خاکوں سے بنایا گیا یا ایک خاک سے جواب ملا کہ اگر آدم ایک ہے ہی خاک سے بنایا جاتا تو تمام آدمی ایک صورت کے ہوتے اور شناخت نہ ہوتی عبداﷲ نے کہا کہ اس کی کوئی مثال ہے فرمایا کہ مثال آدم کی خاک ہے کیونکہ خاک میں سفید و سرخ و نیمرنگ وخود رنگ ہیں اور کسی جگہ کی خاک سخت اور کہیں کی نرم ہوتی ہے اسی وجہ سے آدمی سب رنگ کے اور سخت و نرم مزاج ہوتے ہیں۔ اور حوّا آدم کی ہڈی سےبنائی گئی اور امام جعفر سے منقول ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ حوا آدم کی ہڈّی سے بنائی گئی بلکہ آدم بنانے کے بعد جو مٹی بچی تھی اُس سے حّوا بنائی گئی اور حدیث سے واضح ہے کہ گل آدم جب بہشت میں پڑی تھی اُس وقت شیطان مٹی کو لات مار کر کہتا تھا کہ اگر اﷲ مجھسے اس کو سجدہ کروائیگا تو ہر گز ہر گز نہیں کرونگا۔ اور امیر المومنین یعنے علی سے منقول ہے کہ جس وقت اﷲ نے نور محمد ۱ سے ایک گوہر بنایا پھر اُس کے دو ٹکڑے کئے ایک ٹکڑا آب شرین ہو گیا اور دوسرا عرش بن گیا اور عرش کو پالی پر قایم کیا اور پانی کے دہوئیں سے آسمان بنایا اور پانی کی جھاگوں سے رنین بنائی اور پھر ایک فرشتہپیدا کیا اُس نے زمین کو اُٹھا لیا اور پھر اﷲ نے ایک بڑا پتھر بنایا اُس پر فرشتہ کھڑا ہوا اور پھر گاؤ زمین کو بنایا اور سنگ گران کواُس کی پشت پر قایم کیا اور پھر ایک بڑی مچھلی بنائی اُس کی پشت پر گاؤ زمین کو کھڑا کیا۔

مضامین متزکرہ صدر سے یہامر ناظرین کو کامل طور سے واضح ہو گا کہ قرآن توریت کا مخالف ہے مگر بھائی محمد ی یقیناً اس کا یہی ضواب دیں گے کہ وجہ اختلاف یہ ہے کہ توریت تحریف کر دی گئی ہے۔ مگر پھر قرآن توریت کو تصدیق کرتا ہے دیکھو سورہ یونسؔ رکوع ۱۰۔ ۹۵ ۔ فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ

آیت میں وہی قرآن کہتا ہے کہ جو توریت کو نہیں مانتا وہ اﷲ کی باتیں جُٹھلاتا ہے اور توریت محمد کے وقت میں معتبر اور سند ٹھہرائی گئی اور پھر سورہ ہودؔ رکوع ۲۔ میں لکھا ہے کہ توریت کے منکر دوزخی ہو ح گے اور پھر سورہ عمران رکوع ۱۔ میں لکھا ہے کہ توریت و انجیل کلام اﷲ ہیں اور پھر سورہ توبہ رکوع ۱۴ میں لکھا ہے کہ توریت سّچی ہے اور پھر سورہ عمران رکوع ۹۔ ۸۳ آیت کا یہ مضمون ہے کہ کہہ اے محمد کہ ہم ایمان لائے اﷲ پر اور جو اُترا ابراہیم پر و اسماعیل و اسحاق و یعقوب اور اُس کی اولاد پر اور جو ملا موسیٰ و عیسیٰ کو اور سب نبیوں کو اپنے رب سے اور ہم جدا نہیں کرتے اُن میں سے ایک کو فقط ۔ اب ناظرین و محمدصاحب غور فرمائیں کہ ایک موقعہ پر قرآن توریت و انجیل کو تصدیق کرتا ہے۔ اگر حساب دعوی محّبان دین محمدی توریت و انجیل محرّف ہو گئیں یا منسوخ ہو گئیں تھیں تو پھر قرآن اُن کو کیوں تصدیق کرتا ہے اور پھر سنّت وغیرہ کیوں جایز ہے۔ پس واضح ہو کے زمانہ محمد تک توریت و انجیل صحیح اور درست تہیں۔ تو اب محمدی بھائی بتلائیں کہ کتب مقدسہ محرف ہوئیں آیا قبل از عہد محمدی یا آنکہ خاص زمانہ محمد صاحب میں اگر قبل از زمانہ محمد یا آنکہ اُن کے دعوے نبوت کے وقت محّرف ہو گئیں تھیں۔ تو پھرقرآن کیوں تصدیق کرتا ہے اور اگر بعد محمد تحریف کی گئیں تو کب اور کس نے ایسا کیا اور کیا کیا مضامین تبدیل ہوئے ؟ اور زمانہ محمد میں ہزار ہا نسخہ توریت و انجیل کے ملک بملک موجود تھے تو کب ممکن ہے کہ تمام کتب سماوی ایک مقام پر جمع ہوں اور تحریف کر دی جائیں کیا کتب سماوی کعبہ کے بت خانہ میں تھیں جو تحریف کر دی گئیں اور جو کوئی بھی نسخہ صحیح نہیں رہا۔ اس بات کو سوائے محباّن دین محمدی کے کوئی نادان سے نادان شبہ بھی نہیں کر سکتا کہ کتب مقدسہ تحریف کر دی گئیں۔ علاوہ ازیں سورہ یوسف رکوع ۱۱۔ میں قرآن دعویدار ہے کہ قرآن پہلی کتابوں کے موافق ہے جو کچھ بنائی ہوئی بات نہیں ہے فقط قرآن و توریت کی مطابقت کا حال تو ناظرین پر واضح ہو گیا اور حیکہ قرآن توریت کے خلاف ہے تو بموجب اس آیت کے کیوں قرآن بنایا ہوا نہیں ہے۔ اب نفس قرآن میں عرض کیا جاتا ہے دیکھو قرآنی جو اوپر لکھی گئیں ہیں ایک دوسرے کے مخالف ہیں یعنے کہیں یہ زکر ہے کہ آدم کی جان لون کی آگ سے بنائی۔ اور کہیں لکھا ہے کہ آدم میں اﷲ نے اپنی ایک پھونکی اور پھر لکھا ہے کہ زمین کو پھیلایا اور اُس پہاڑ کی میخ ٹھونکی دوسری جگہ یہ زکر ہے۔ کہ اﷲ نے آسمان و زمین اور جو کچھ اُس کے بیچ میں ہے چھ دن میں بنایا اور پھر لکھا ہے کہ سات آسمان دو دن میں بنائے اور پھر سورہ نساؔء رکوع ۱۱ میں لکھا ہے کہ کیا غور نہیں کرتے قرآن کو اگر یہ ہوتا سوائے اﷲ کے کسی اور کا تو پاتے اُس میں تفاوت کا حال واضح طور سے لکھا گیا ہے ۔ پس ظاہری ہے کہ کلام اﷲنہیں بلکہ محمد کا بنایا ہوا ہے اور ثبوت قرآن کی بطلان کا یہ ہے جو روایات اور حدیث اوپر لکھی گئیں ہیں وہ بھی قرآن کے خلاف ہیں۔ دیکھو جس آدم کو اﷲ اشرف المخلوقات پیدا کیا اور جس کے واسطے قرآن میں زکر ہے کہ اﷲ نے آدم کو فرشتوں سےسجدہ کروایااُس کی تمہاری اماموں اور راویوں نے کیسی مٹی خراب کی ہے کہ شیطان اُس کے منہ میں گھس کے مقصد کے راستے سے نکلا کرتا تھا اور اﷲ نے اُس کو تمام شورِ زمین کی خاک سے بنایا اور آفرینش سے قبل ہی اچھی اور برُی اُس کی سرشت میں قایمکر دی ور مخفی نہ رہے کہ توریت و انجیل کو قرآن کی شہادت اور تصدیق کی کچھ ضرورت نہیں ہے کیونہ اگر قرآن کلام اﷲ ہوتا تو ضرور تھا کہ اُس کی تصدیق لازمی ہوتی جیسا کہ جملہ انبیائے بنی اسرائیل نے توریت کو تصدیق کیا اور جملہ صحف انبیا توریت کے موافق ہیں چنانچہ برائے نمونہ مختصراً عرض کیا جاتا ہے دیکھو کتاب پیدایش کے ۱۵ باب کے ۱۲، ۱۳ آیت میں اﷲ نے ابراھیم کو خبر دی تھی کہ تیری اولاد ایک ملک میں جواُن کانہیں ہے پردیسی ہو گی اور وہاں کے لوگوں کی غلام بنے گی اور ساڑھے ۴ سو برس وہ لوگ اُس کو تکلیف دیں گے۔ لیکن میں اُس قوم کی جو کے وہ غلام بنیں گے عدالت کروں گا اور بعد اُس کے بڑی دولت لے کے وہاں سے نکلیگی چنانچہ یہ اولاد ابراھیم کی یعقوب اور یوسف تھیجو مصر میں غلام بنی اور یہ خبر موسیٰ کی تھی کہ اُس نے بنی سرائیل کو مصر کی غلامی سے آزاد کیا اور پھر حضرت داؤد نے مسیح کے ظہور کی خبر دی ہے اور مسیح نےاکثر مقام پر توریت کو تصدیق کیا ہے چنانچہ انجیل یوحنا کے ۵ باب کی ۳۱ آیت می مسیح یہود سے فرماتا ہے کہ دیکھو توریت کو کیونکہ تم سمجھتے ہو کہ اُس مں تمہارے واسطے ہمیشہ کی زندگی ہے۔ وہ ہی میری گو گولی دیتی ہے اور پھراُسی باب ۴۶آیت میں مسیح یہودیوں سے فرماتا ہے کہ اگر تم موسیٰ پر ایمان لاتے تو مجھپر بھی ایمان لاتے کیونکہ اسنے میری گواہی دی ہے فقط پس اِس صورت میں محمدیوں کا دعویٰ کے تحریف ایسا ہے جیسے کہ لولاک لما خلقت الافلاک۔ کے معنی یعنے اس عبارت میں کہیں بھی محمد کا زکر نہیں پایا جاتا ہے مگر محمدی صاحب تو کھینچ کھانچ کے اِس کے معنے یہ کہتےہیں کہ اگر نہ پیدا کیاکرنا زمین و آسمان کو اے محباّن دین محمدیدیکھو تم کو ابھی تک قرآن کی بھی صحت نہیں ہوئی چنانچہ سورہ ناسوزلزلہ کی پیشانی ایسی لکھی کہ مکہ یا مدینہ میں نازل ہوئی پس یہ صحت نہیںہے کہ مکہ میں نازل ہوئی یا خاص مدینہ میں تو پھر تم یہ کیونکر کہ سکتے ہو کہ سب قرآن صحیح اور کلام اﷲ ہے اور پھر جس طرح پر قرآن فراہم ہوا ہے تم کو خوب معلوم ہے میں نظر طوالت قلم انداز کرتا ہوں اور بعد اجتماع قرآن جو قرأت میں اختلافات پیدا ہوئے اور اس وقت بھی موجود ہیں اُس کو تحریف کیوں نہیں سمجھتے ہو اور پھر حدیث و روایات کے اختلاف جو قرآن کے خلاف بیان ہوئے ہیں اُن کی صحت کرو دیکھو آدم کے بہشت سے نکلنے کا حال حدیث و روایات میں بطور کہانی کے لکھا ہے کہ اول شیطان نے مور سے کہا کہ تو بہشت میں جا کے آدم کے سامنے ناچ اور اُس کو محو تماشا کرتاکہ میں آہستہ آہستہ بہشت کی دیوار پر پہنچوں اور پھر سانپ سے کہا کہ اپنے منہ میں بٹھا کے مجھکو بہشت کی دیوار پر پہنچا چنانچہ اسی طرح سے شیطان بہشت کی دیوار پر پہنچا اور وہاں سے آدم و حوّا کو بہکایا اور درخت ممنوعہ کے کھانے کی ترغیب دی حّوا کو اﷲ نے جدہ میں اور شیطان کو جنگل مسان قریب بصرہ اور سانپ اصفہان میں اور آدم ہندوستان میں اور مور کسی اور جگہ نکالے اے بھائیوں یہ داستان اور قصہ تمہارے راویاں مختلف بیان کے سوائے محبان دین محمدی اہل کتاب کیونکر صحیح خیال کر سکتے ہیں۔

فصل دوم(۲) ۔ درزکر طُوفاَن نوح

توریت

توریت میں طوفان نوح کا یہ زکر ہے کہ نوح کے تین بیٹے حامؔ۔ سامؔ۔ یافتؔ اور اُن کی بیویاں اور نوح اور نوح کی بیوی اور ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں سوارہوئے اور بفضلہ طوفان سے محفوظ رہے اور بعد طوفان حام سے کنعان پیدا ہوا اور کنعان نوح کا پوتا تھا۔

قرآن

زکر طوفان نوح جو قرآن میں ہے۔ سورہ مومنونؔ رکوع ۲۔ پھر ہمنے حکم بھیجا نوح کو کہ ایک کشتی ہمارے آنکھوں کے سامنے بنا اور جب اُبلے تنور تو ڈال لے اس میں ہر قسم یعنے ہر چیز کا جوڑا دوہرا اور اپنے گھرکے لوگ اور سورہ ہود۔ رکوع ۴۔ اور جب جوش مارا تنور نے کہا ہم نے نوح سے لادلے اُس میں ہر قسم کا جوڑا دو ہرا اور اپنے گھر کے لوگ اور پھر پکارا نوح نے اپنےبیٹے کو وہ ہو رہا تھا ڈوبنے والوں میں پھر وہ نہ مانا اور ڈوب گیا سورہ انبیا رکوع ۶۔ نوح کی سب قوم طوفان میں ڈوب گئی۔

حدیث

حیات القلوب جلد اوّل میں بسند حسن حضرت صادق سے منقول ہے کہ نوح نے ۲۲ بر س میں کشتی بنائی اور دو فرشتے کشتی بنانے میں نوح کی مدد کرتے تھے اور کشتی میں نوح کے ساتھ ۸۰ آدمی اور بھی سوار ہوئے تھے اور خدا نے نوح کو وہی بھیجی تھی کہ اپنی عورت اور بیٹے ہو کشتی میں سوار نہ کرنا اور امام زادہ عبدالعظیم لکھتا ہے کہ نوح کی عورت کشتی میں سوار تھی اور محمد باقر لکھتا ہے یہ بات غلط ہے کہ نوح کا بیٹا طوفان میں ڈوب گیا اور قصص الانبیا میں لکھا ہے کہ جو بیٹا نوح کا طوفان میں ڈوبا اُس کا نام کنعان تھا اور گدھے کی دم پکڑ کے شیطان بھی کشتی میں سوار ہو گیا تھا نوح نے شیطان کو کشتی میں سوار ہونے سے منع کیا تھا مگر شیطان نہیںمانا اور کشتی میں جا بیٹھا تھا اور ۸ یا ۱۰ یا ۲۰ آدمی اور بھی نوح کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے تھے اور آدم کی نعش کا صندوق قبر سے نکال کے نوح نے کشتی میں رکھ لیا تھا اور دو گوہر نورانی آسمانی سے کشتی میں آئے تھے وہ چاند و سورج کا کام دئے تھے۔

اور جبکہ کشتی میں غلاظت بہت ہو گئی اور بدبو آنے لگی تو نوح کو وحی آئی کہ ہاتھی کی دم پکڑچنانچہ نوح نے ہاتھی کی دم پکڑی تو اُس میں سے ایک سور ۲ اور سورنی نکلے اور تمام غلاظت کشتی کی کھا گئے اور کشتی میں یہ حکم تھا کہ کوئی جانور اپنے مادہ سے جغت نہو مگر چوہا نہ مانا اور اپنی مادہ سے جغت ہو گیا تو بہت سے چوہے پیدا ہو گئے اور کشتی میں سوراخ کرنے لگے تو خدا نے نوح سے کہا کہ شیر کے سر پر ہاتھ رکھ چنانچہ نوح نے شیر کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو فوراً بلّیاں یعنے گرُبہ پیدا ہوگئیں اور سب چوہوں کو کھا گئیں۔

اور پھر قصص الانبیا میں لکھا ہے کہ عوج آدم ۳ کا نواسہ تھا عوج نے نوح سے کہا کہ مجھکو بھی کشتی میں سوار کر لے مگر نوح نے انکار کیا اور تمام دنیا طوفان میں غرق ہو گئی اور مر گئی مگر عوج نہ مرا اور معالیلم میں لکھا ہے کہ طوفان کا پانی پہاڑوں سے چالیس گز بلند ہو گیا تھا مگر عوج ایسا لمبا تھا کہ طوفان کا پانی اُس کے زانوں تک نہیں پہنچا تھا اُس قد ۳۳۳۳ گز سے زیادہ تھا ور بادل اُس کی کمر تک آتے تھے اور سورج میں مچھلی کباب کر کے کھاتا اور تہ زمین سے مچھلی ہاتھ سے پکڑ لیتا تھا صرف یہ ہی طوفان سے بچا تھا اور موسیٰ نے اُس کو مارا تھا اور اُس کی والدہ ایسی موٹی تھی کہ ایک جریب زمین میں بیٹھا کرتی تھی اور اُس کے ہاتھ کی انگلی تین تین گز کی تھی اور دو دو ناخن مثل و نراتی کے تھے اور جس وقت اُس کو موسیٰ نے مارا تو اُس کی ۳۶۰۰ برس کی تھی۔

اب نہایت ادب سے محباّن دین محمدی کی خدمت میں عرض کی جاتی ہے دیکھو توریت سے واضح ہے کہ نوح اور اُس کی بیوی اور حامؔ سامؔ یافتؔ تین بیٹے اور اُ ن کی بیویاں کشتی میں سوار ہوئیں اور بفضلہ محفوظ رہیں اور قرآن لکھتا ہے کہ نوح کا ایک بیٹا طوفان میں غارت ہو گیا اِس ہی وجہ سے تم کہتے ہو کہ توریت تحریف کر دی گئی مگر تم کو قسم ہے سورج اور چاند اور چڑھتے (یہاں سے فائل ایڈ کرنی ہے)

فصل سوم ۔ در ذکر ابراھیم

توریت

توریت میں ابراہیم کاذکر اِسطرح سے لکھا ہے کہ ابراہیم تارح کا بیٹا تھا اور سارہ ابراہیم کی بیوی جبکہ ایک عرصہ تک سارہ کے اولاد نہیں ہوئی اُسنے اپنی لونڈی ہاجرہ ابراہیم کو دی اُس سے اسمعیٰل پیدا ہوا اور پھر بالہام ربانی سارہ سے اصحاق پیدا ہوا اور وعدہ کا فرزند ہوا اور قربانگاہ پر چھڑھایا گیا اور اسمعیٰل کی نسبت سارہ ابراہیم سے کہا کہ لوندی ہاجرہ اور اُسکے بیٹے کو نکالدے کیونکہ یہ لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اصحاق کےساتھ وارث نہ ہوگا ۔ سارہ کی یہ بات ابراہیم کو ناگوار گزری تو خداوند نے ابراہیم سے کہا کہ سارہ ٹھیک کہتی ہے کیونکہ تیری نسل اصحاق سے ہوگی۔ چنانچہ ابراہیم نے ہاجرہ اوراسمعیٰل کو نکالدیا اور ہاجرہ نے بیرسبع کے جنگل میں جا کر گریہ زاری کی تو فرشتہ نے ہاجرہ سے کہاکہ دلگیر نہ ہو اِس لڑکے کو بڑی قوم بناؤنگا اور اُس کے ہاتھ سب آدمیوں کے خلاف ہونگے اور یہ و حسنی ہوگا۔ چنانچہ اسماعیل بیابان میں رہا اور تیرا نداز بنا اور ہاجرہ نےایک مصری عورت اسماعیل کے واسطے لی اور اُس سے بارہ سردار پیدا ہوئے جنکے نام توریت میں لکھے ہیں۔

قرآن

سورہ انعام رکوع ۹۔ ۷۵ آیت اور جب کہا ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے تو پکڑتا ہے بتوں کو خدا۔ سورہ بقر رکوع ۱۵ آیت ۱۲۵۔ جب ٹھہرایا ہم نے یہ گھر کعبہ اجتماع کی جگہ لوگوں کی اور پناہ اورکھڑا رکھو جہان کھڑا ہوا ابراہیم نماز کی جگہ وغیرہ اور پھر سورہ بقر آیت ۱۲۷۔ اور جب اُٹھانے لگا ابراہیم بنیاد اُس گھر کی اور اسماعیل وغیرہ اور پھر سورہ بقر آیت ۱۳۰۔ اور کون نہ پسند کرے دین ابراہیم کا مگر جو بے وقوف ہے اپنے جی سے فقط اور پھر سورہ بقر رکوع ۱۷ آیت ۱۴۲۔ اب کہیں گے بےوقوف لوگ کا ہے کو پھر گئے مسلمان اپنے قبلہ سے جسپر تھے اور پھر سورہ بقر آیت ۱۴۴۔ اور وہ قبلہ جو ہمنے ٹھہرایا جس پر تو تھا نہیں فقط اور پھر سورہ بقر آیت ۱۴۵۔ اور ہم دیکھتے ہیں پھر پھر جاتا تیرا مُنہ آسمان میں سو البتہ پھر ینگے جس قبلہ کیطرف توراضی ہے اور پھر سورہ بقر آیت ۱۴۶ اور اگر تو لاوے کتاب والوں پاس ساری نشانیاں نہ چلینگے تیرے قبلہ پر اور نا تو مانے اُنکا قبلہ اور نا اُن میں کوئی مانتا ہے دوسرے کا قبلہ اور پھر سورہ بقر آیت ۱۴۷ اور جنکو ہم نے دی ہے کتاب پہنچانتے ہیں یہ بات جیسا پہچانتے ہیں اپنے بتوں کو فقط اور پھر سورہ صفات رکوع ۳ میں ابراہیم نے خواب دیکھا کہ اسماعیل کو قربانی کرتا ہوں چنانچہ اسماعیل کو قربانی کیا اور سورہ انبیا رکوع ۵ میں ابراہیم نے اپنے باپ کے بتوں کو توڑ ڈالا اور اس قصور میں ابراہیم کو آگ میں ڈالا اور وہ آگ برف ہو گئی وغیرہ فقط اور سورہ توبہ رکوع ۵ میں آزر بت پرست کو یہودی اﷲ کا بیٹا کہتے ہیں۔

حدیث

تفسیر مدارک اور معراج و کنز سے واضح ہے کہ بیت المعمور ایک مسجد زمرد دیا قوت کی بی ہوئی آسمان چہارم پر ہے اور وہکعبہ کے مقابل ہے اگر کوئی چیز اس پر سے گرے تو کعبہ کی چھت پر آتی اور طوفان نوح کے وقت سے پیشتر یہ مسجد زمین کعبہ پر تھی طوفان کے وقت آسمان چہارم پر چلی گئی اور بیت المقدس ملک شام میں ایک مسجد ہے اُسکی بُنیاد داؤد نے ڈالی اور سلیمان نے اُسکوتیار کیا اوت یہ اکثر انبیا کا قبلہ تھا اور حیات القلوب میں امام محمد باقر سے منقول ہے کہ بیت المعمور اﷲ نے آسمان چہارم پر فرشتوں کی توبہ کے واسطے بنائی اور کعبہ اﷲ نے اہل زمین کی توبہ کیواسطے بنایا اور ثعلمی سے روایت ہے کہ سلیمان ایک مرتبہ کعبہ کیطرف گئے تو دیکھا کہ اُس میں بہت سے بُت رکھے ہیں تو کعبہ سلیمان کے سامنے بہت رویا۔ سلیمان نے دریافت کیا کہ کیوں روتا ہے؟ کعبہ نےکہا کہ اِسیقدر انبیا گزرے مگر مجھ میں کسی نے نماز نہیں پڑھی۔ اور کتاب بحار الانوار سے واضح ہے کہ ابراہیم کے باپ نام تارخ تھا اور غلط بیان کیا گیا ہے اور حیات القلوب میں حضرت صادق سے منقول ہے کہ اصحاق کو قربانی کیا تھا اور دوُسری حدیث سے بگئ واضح ہے کہ اصحاق قربان ہوا تھا۔ فقط

اب ابراہیم کی پیدایش کا زکر سنو ۔ حسین امام جعفر سے منقول ہے کہ آزر نے نمرود بادشاہ سے کہا کہ ایک لڑکا پیدا ہوگا وہ تیرا دُشمن ہو گا۔ اسوجہ سے نمرود نے حکم دیا کہ کوئی مرد اپنی عورت سے ہمبستر نہ ہو مگر آزر اُسی روز اپنی بیوی سے ہمبستر ہوا اور اُسکے ابراہیم پیٹ میں آگیا ۔ پھر آزر کی عورت نے ابراہیم کو ایک غار میں جا کے جنا اور کپڑے میں لپیٹ کے غار میں بٹھلایا اور ۱۳ برس ابراہیم غار میں رہا اور جب غار سے نکلا تو چاند و سورج و زہرہ کو خدا سمجھا فقط اور حدیث سے واضح ہے کہ ابراہیم آزر کے گھر میں پیدا ہوا تھا جبکہ آزرنے چاہا کہ نمرود کے پاس لیجاوے تو اُسکی مانے غار میں پھینکدیا اور ۱۳ برس تک بقدرت جیتا رہا فقط دوُسری حدیث یہ ہے کہ آزر اور اُسکی جو رو نمرود بادشاہ کے ڈر سے بھاگے گئے تھے راستہ میں ابراہیم پیدا ہو گیا اور اُسیوقت جوان ہو گیا اور اپنے کپڑے اور لکڑی لیکر چلدیا یا فقط غرضکہ صد تماشہ بازی گروں کے سے لکھے ہیں۔ میں نے بہت سی کتابیں محمُدی مزہب کی دیکھی ہیں ہر شخص نے اپنے اپنے طور پر یہ بیان مختلف لکھا ہے اور قرآن کے خلاف۔

اب یہ کہنا کہ قرآن توریت کے خلاف بیان کرتا ہے کچھ ضرورت نہیں کیونکہ اور بیانات میں توکہیں کہیں قرآن نے توریت سے موافقت کی ہے مگر چونکہ محمد صاحب ابراہیم کے بیٹے بنے ہیں لہذا ابراہیم کا زکر تو مطلقاً توریت کے خلاف بیان کیا ہے۔ پس ہمکو قرُآن ہی میں گفتگو کرنا چاہئے دیکھو قرآن سے واضح ہے کہ ابراہیم آزر بُت پرست کا بیٹا تھا اور کتاب بحار الانوار سے واضح ہے کہ ابراہیم کے باپ کا نام تارخ تھا اگرچہ توریت میں ابراہیم کے باپ کا نام تارح ہے۔ روای صاحب نے صرف ایک نقطہ کا فرق کیا فقط قرآن سے ظاہر ہے کہ ابراہیم نے نماز کعبہ میں پڑھی تھی اسکے خلاف شعلی کہتا ہے کہ کبھی کوئی نبی کعبہ میں نہیں گیا اور کعبہ میں بت تھے فقط یہ بالکل سچ ہے پھر قرآن کہتا ہے کہ کعبہ ابراہیم اور اسمعیٰل نے تعمیر کیا اُسکے خلاف تفسیر مدارک و معراج وکئیر سے واضح ہے کہ قبل از طوفان نوح کعبہ یعنے مسجد کعبہ زمین کعبہ پر تھی مگر طوفان کے وقت آسمان چہارم پر چلی گئی اُسکو بیت المعمور کہتے ہیں۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد نے دین ِ ابراہیم کا پسند کیا تھا اِس کا صلہ دیا گیا ہے کہ ابراہیم کو آزر بُت پرست کا بیٹا قرار دیا اِس کی وجہ یہ ہے کہ محمد کے تمام آباو اجداد بت پرست تھے اِ س لئے واجب ہوا کہ ابراہیم کے باپ کو بھی بُت پرست قرار دیں تاکہ محمد کا سقم ہٹ جائے دوسری یہ ہے جملہ انبیا نسل ابراہیم سے ہوئے ہیں تو کسی کو یہ اعتراض نہ رہے کہ محمد ہی باپ و دادا بُت پرست تھے بلکہ جملہ انبیا کے مورث اعلے یعنے ابراہیم کا باپ بھی بُت پرست تھا فقط قرآن سے ثابت ہے کہ اﷲ نے اوّل قبلہ کو سجود گاہ قرار دیا تھا چنانچہ محمدی و نیز محمد قبلہ کیطرف سجدہ کرتے تھے جسکی وجی بخاری یہ بیان کرتا ہے کہ قبلہ کو سجدہ محمد نے صرف تفریح قلوب یہود کیواسطے کیا تھا یہ غلط ہے۔ کیونکہ یہ مضمون قرآن کے خلاف ہے جسکا زیل میں زکر ہوتا ہے اور جبکہ محمد کو تفریح قلوب یہود منظور تھی انتہا۔ یہ کہ یہود کی خاطر سے خلاف کلام اﷲ قبلہ کو سجدہ کیا تو پھر نبوت کیسے مانی جاتی ہے۔ سورہ بقر آیت ۱۴۴ سے واضح ہے کہ محمد صاحب کے خدا نے قبلہ کو سجود گاہ قرار دیا تھا۔ اور سورہ بقر آیت ۱۴۵ سے صاف ظاہر ہے کہ محمد قبلہ سے راضی نہیں تھا نہیں تھا اور خلاف قرآن کعبہ کو جو اُن کے آباو اجداد کا موروثی تبخانہ تھا اُس کی طرف رجوع تھے اور اول قبلہ کو سجود گاہ قرار دینے کی خاص وجہ یہ تھی کہ بُت پر ستان عرب و نیز محمد کے چچا محمد کو کعبہ میں نہیں آنے دیتے تھے۔ اور جبکہ محمدی نماز کے وقت ازان کہتے تھے تو کعبہ کے پااجاری ازان کے خلاف سنگھ بجاتے تھے چنانچہ مندروںمیں سنگھ بجانے کی رسم جب سے ہی جاری ہوئی ہے۔ اور جبکہ عرب کو محمد نے بزور شمشیر فتح کر لیا تو فوراً کعبہ کو سجدہ گاہ قرار دیدیا۔ چنانچہ سورہ بقر ۱۴۶ ۔ آیت سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ کعبہ صرف محمدی کا قبلہ تھا۔ دیکھو قرآن کہتا ہے کہ اہل کتاب تیرے قبلہ کو ہر گز نہیں مانینگے کیونکہ ابراہیم کا بنایا ہواِ نہیں ہے بلکہ تیرے آباو اجداد کا بتخانہ ہے اور اہل کتاب اِس امر کوخوب جانتے ہیں اور قرآن سے واضح ہے کہ ابراہیم نے اسمعیٰل کو قربانی کیا اور حیات القلوب میں حضرت صادق و روضتہ الاحباب و تفسیر بیضاوی اور نیز حدیث سے ظاہری کہ اصحاق کو قربانی کیا تھا۔ اور یہ امر بھی تمہارے مفسرونکا مسلمہ ہی کہ قبلہ سلیمان کا تعمیر کیا ہواہے اور اُس میں یہودی اور اکثر نصاریٰ بھی جاتے ہیں اور کعبہ میں بجز محمدیوں کے کوئی نہیں جاتا تو کیا اس میں بھی کوئی تحریف ہوئی ہے۔ اے محمدی بھائیو قرض کر لیا جائے کہ یہود نے توریت تحریف ہی کر دی اور یہ ہی وجہ ہے کہ توریت و قرآن میں اختلاف ہے تو پھر تمہاری حدیث و روایات کیوں قرآن کے خلاف ہیں کیا یہاں بھی یہود و نصاریٰ نے تحریف کی ہے۔ اے پیارو توریت و انجیل تو تحریف نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی ہیں بلکہ تمہارا قرآن ہی غلط ہے اور جبکہ اصل ہی میں غلطی ہے تو پھر روایات و حدیث کیونکر درست ہو سکتی ہیں۔ اے نصاریٰ بھائیو دیکھو محّبان دین محمدی کا ادب کہ کعبہ کی چھت کو ادباً نہیں دیکھتے کیونکہ اُسکو ابراہیم نے اینٹ و پتھر سے بنایا ہے اور آسمان و ستارہ جو خاص خدا نے اپنی قدرت کاملہ سے پیدا کئے ہیں اُسکے دیکھنے اُسکے نیچے افعال بد کرنے میں زرا بھی تکلف نہیں کرتے اِسکی وجہ یہ ہے کہ آسمان صانع قدرت نے بنایا ہے اور اُس میں کوئی بھی نقص نہیں ہے اور کعبہ کی چھت میں تمام بتونکی تصاویر ہیں اور اُن کو محمد کے آباو اجداد پوجتے تھے لہذللبحاظ بزرگی آباو اجداد محمد صاحب کے اُن کو دیکھنا گناہ ہے اور دیکھو قرآن کہتا ہے کہ یہودی آزر بت پر ست کو اﷲ کا بیٹا کہتے ہیں۔ حالانکہ توریت میں کہیں آزر کا نام بھی نہیں ہے۔ پس صریح ظاہر ہے کہ قرآن جھوٹھا ہے اور کلام اﷲ نہیں بلکہ کلام محمد ہئ اور یہ تو بہت ہی صاف بات ہے کہ محمد سے تقریباً چار ہزار برس پیشتر ابراہیم کا زمانہ تھا تو اُسوقت تمہارے مورخ کہاں تھے جو تمکو صحیح حالات معلوم ہوتے۔ ظاہر ہے کہ محمد صاحب کو یہود ونصاریٰ برہ تمسخر توریت و انجیل کے بعض مقام صحیح اور اکثر بنظر صحت نبوّت محمد غلط بتلا دیا کرتے تھے اور محمد بیچارے اُمی تھےاُسی بنیاد پر آیات قرآنی نازل کر لیتے تھے چنانچہ اُسکا زکر قرآن میں بھی ہے اور نیز حیات القلوب سے بھی واضح ہے کہ اکثر تمہارے امام اور محدث یہود و نصاریٰ سے دریافت کیا کرتے تھے جیسا وہ بیان کرتے اور کچھ اپنی طرفسے لا کے کتابوں میں لکھدیتے تھے فقط اور پھر قرآن سورہ یونس رکوع ۹ میں یہ لکھا ہے کہ ہم نے حکم بھیجا موسیٰ کوکہ اپنا گھر قبلہ کیطرف بناٍ ؤ اور نماز پڑھو فقط۔ اے محباّن دین محمدی دیکھو یہ آیت سورہ بقر آیت۱۲۵ کے خلاف ہے اُس میں یہ لکھا ہے کہ جب ٹھہرایا ہمنے یہ گھر کعبہ اجتماع کی جگہ لوگونکی اور پناہ اور کھڑا رکھو جہاں کھڑا ہوا ابراہیم نماز کی جگہ فقط اِس آیت سے واضح ہے کہ ابراہیم کے زمانہ میں کعبہ عبادت گاہ قرار پایا اور ابراہیم نے اُس میں نمازی پڑھی تھی اور سورہ یونس سے ظاہر ہے کہ موُسیٰ کے وقت میں کعبہ نہیںتھا اِسلئے موسیٰ کو کہا گیا کہ قبلہ کیطرف گھر بنا کے نماز پڑھ اور یہ امر تمہارے محدثوں کا مسلمہ ہے کہ قبلہ سلیمان کا بنایا ہوا ہے اور سلیمان صدہا سال بعد موسیٰ کے پیغمبر ہوئے تو اُسوقت قبلہ کہاں تھا اور جبکہ کعبہ قبل از زمانہ موسیٰ بموجب قرآن موجود تھا تو پھر موسیٰ کو قبلہ کیطرف گھر بنانے کاکیوں حکم دیا گیا کیامحمد صاحب کے اﷲ کو یہ یاد نہیں تھا کہ ابراہیم کو کعبہ میں نماز وغیرہ ادا کرنے کا حکم ہمنے دیا ہے اور قبلہ جسکا موسیٰ کے وقت میں وجود بھی نہیں تھا اُسکی طرف گھر بنا کے نماز پرھنے کا حکم دیدیا۔ اے پیارے بھائیو یہ تو تمہارے قرآن کی آیات کا مضمون ہے کیاا سکو بھی یہود و نصاریٰ کی تحریک فرماؤ گے۔

علاوہ ازیں دیکھو سورہ بقر ۳۳ میں یہ لکھا ہے کہ جب باہر ہوا تالوت یعنے ساؤل فوجیں لیکر کہا اﷲ تجھکو آزماتا ہے ایک نہر سے پھر جسنے پانی پیا اُسکا وہ میرا نہیں اور جسے نہ چکھا وہ میرا ہے مگر جو کوئی باہر لے ایک چلو اپنے ہاتھ سے پھر پی گئے اُسکا پانی وغیرہ فقط۔ اے برادران دین محمدی دیکھو توریت یہاں محمد صاحب نے پھر غلطی کی ہے یہ زکر جدعون کا ہے مگر اُس میں بھی اختلاف ہے۔ اﷲنے جدعون کے مددگاروں کی آزمائیش نہر پر کہ تھی اور محمد نے اِزکر کو تالوت کے زکر میں شامل کردیا حالانکہ تاتوت کو کبھی بھی یہ اتفاق نہیں ہوا تھا اور جدعون ساؤل سے بہت پیشتر گزرا ہے اور جدعون کے بعد آکر رُوت اور روت کے بعد سموئیل اور سموئیل کےآخر زمانہ میں تاتوت یعنی ساؤل تھا۔

فصل چہارم در زکر یوُسف

توریت

یوسف کے بھائی اُس سے ناخوش تھے ایک مرتبہ اُس کے بھائی وادی سکیم میں گلہ چراتے تھے یعقوب نے یوسف سے کہا کہ اپنے بھائیوں کی خبر لا چنانچہ یوسف گیا تو بھائیوں کو وہاں نہ پایااور یوسف کو ایک شخص ملا اُسنے دریافت کیا کہ کیا دیکھنا ہے یوسف نے کہا کہ اپنے بھائیوں کو تلاش کرتا ہوں اُس نے جواب دیا کہ وادی دو تین میں ہیں جبکہ یوسف اپنے بھائیوں کے پاس آیا تو بھائیوں نے یوسف کو دیکھ کے کہا یہ صاحب خواب آتا ہے اُس کو مار ڈالو یا کوئے میں ڈالدو اُس کے باپ سے کہدینگے کہ اُسکو درندہ لے گیا ہے۔ چنانچہ یوسف کی بوقلمون قبا اُتاری اور یوُسف کو کوئیں میں ڈالدیا اور اُس چاہ میں پانی نہیں تھا تھوڑی دیر بعد دیکھا کہ اسمعٰیلیوں کا قافلہ گرم مصالحہ اور روغن ملبان لیکر مصر کو جاتا ہے یھودا یوسف کے بھائی نے کہا کہ یوسف کو بیچ ڈالو چنانچہ بھائیوں نے یوسف کو چاہ سے نکال کے بعیوص ۲۰؎ اسماعیلیوں کے ہاتھ بیث ڈالا اور یوسف کی قبا یعقوب کو گھر جا کے دی اور کہا یوُسف کو بھیڑیا لے گیا ۔ یعقوب نے بہت گریہ و زاری کی اور اسٰمعیلیوں نے مصر میں جا کے یوسف کو فوطیفار نامی جو فرعون کا ایک امیر تھا اُس کے ہاتھ بیچ ڈالا اُس نے یوسف کو اپنے گھر کا مختار کر دیا چونکہ یوسف نہایت خوبصورت اور نور پیکر تھا لہذا فوطیفار کی عورت یوسف کو چاہنے لگی ایک روز یوسف گھر میں گیا اور اُسوقت وہاں کوئی موجود نہ تھا فوطیفار کی عورت نے یوسف کا پیراہن پکڑ کے خواہش ظاہر کی تو یوُسفنے اِنکار کیا اور پیراہن چھوڑا کر گھر سے باہر بھاگ گیا۔ جبکہ عورت ناکامیاب ہوئی تو چلاّ کے گھر کے آدمیوں سے کہا کہ یوسف نے مجھُ سے گستاخی کی اور جبکہ میں نے غُل کیا تو اپنا پیراہن چھوڑا کے بھاگ گیا اور جب اُس کا شوہر گھر میں آیا تو عورت نے اُس سے یوسف کی شکایت کی۔ پھر اُسکو غُصّہ آیا اور یوسف کو پکڑ کے شاہی قید خانہ میں بھیجدیا۔ اور پھر یوسف نے فرعون کے خواب کی تعبیر کی اور اُسکا مختار ہو گیا فقط۔

قرآن

دیکھو سورہ یوسف ۱، ۲ رکوع یوسف کےبھائیوں نے اپنے باپ سےکہا کہ یوسف کو ہمارے ساتھ بھیجدے اُسنے کہامجھ کو ڈر ہے کہ اس کو کوئی درندہ نہ لیجاوےبھائیوں نےکہا کہ اُسکےہم زمہ دار ہیں پھر یوسف کو لیچلے تو باہم مشورہ کیاکہ یوسف کو کوئیں میں ڈالیں۔ چنانچہ کنوئیں میں ڈالدیا اور شام کو گھر پر آکے کہا کہ یوسف کو بھیڑیا لے گیا اور یوسف کے کرتے میں خون لگا کےیعقوب کو دیا اور ایک قافلہ آیا اُسکے پنسارے نے کوئیںمیں ڈول ڈالا تو یوسف نے ڈول پکڑ لیا پنسارے نے ڈول کھینچ لیا اور جب یوسف کو دیکھا تو بہت خوش ہوا اور کئی پالیوں میں فروخت کر دیا اور اِسی سورہ ۳ رکوع مین اور جس شخص نے یوسف کو خریدا تھا مصر میں اپنی عورت سے کہا کہ اسکو آبرو سے رکھ شایدٔ اُسکو ہم بیٹا بنائیں۔ پھر عورت نے یوسف کو پھُسلایا اور دروازہ بند کرکے بولی کہ شتاب شتاب کر یوسف نےکہا خدا کی پناہ عزیز میرا مالک ہےمیں ایسا نہیں کرونگا توعورت نے دروازہ بند کیا اور پھر دونوں دروازہ کی طرف دوڑے عورت نی چیر ڈالا اُسکا کرُتہ پیچھے سے اور دروازہ پر دونوں عورت کے خاوند سے مل گئے عورت نے کہا اور کچھ سزا نہیں ایسے شخص کی جو چاہے تیرے گھر میں برُائی مگر قید میں پڑے یوسف نےکہا اس عورت نے خواہش کیتھی ایک شخص نے عورت کے گھروالوں میں سے کہا کہ اگر یوسف کا کرُتہ آگے سے پھٹا ہے تو عورت سچی ہے اور اگر اُسکا کرُتہ پیچھے سے پھٹا ہے تو یوسف سچا ہے اور عورت جھوٹی ہے۔ جب عزیز نے دیکھا کہ یوسف کاکرُتہ پیچھے سے پھٹا ہے تو عورت سے کہا تو جھوٹی ہے اور یوسف سے کہا کہ تو جانے دے اور عورت سے کہاکہ تویوسف سے اپناگناہ بخشوا پھر شہر کی عورتوں نے کہا کہ عزیز کی عورت اپنے غلام پر مرتی ہے تو پھر عزیز ی کی عورت نے سب شہر کو عورتوں کو مجلس میں بُلوایا اور سب سے کے ہاتھوںمیں ایک ایک چُھری دی اور یوسف سے کہا کہ نکل آ۔ جبکہ یوسف نکلا تو سب عورتوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے۔ پھر عزیز کی عورت نے کہا کہ یہ وہ ہی ہے جس کا تم نے الزام لگایا کہ غلام نے اُس کی خواہش پوُری نہیں کی اور میں پھر کہتی ہوں کہ اگر وہ میرا کہنا نہ کریگا تو قید میں پڑیگا۔ پھر یوں یوسف نے قید قبول کی اور عورت کا کہنا نہیں کیا۔ اور پھر اُن ہاتھ کئی تعریف عورتوں نے بادشاہ کے سامنے یوسف کی پارسائی کی تعریف کی اور عزیز کی عورت نے اپنا قصور تسلیم کیا۔

حدیث

اول شیخ سعدی کہتا ہے۔

زمصرش بوئے پیراہن شمیدی

چراور چاہ کنعاش نی دیدی

اور قصص الانبیا میں لکھا ہے کہ جنگل میں اوّل بھائیوں نے یوسف کو خوب مارا اور پھر ایک چاہ میں جو بیت المقدس کے قریب ہے باندھکر ڈالدیا وہ کنوُا ۷۰ گز گہرا تھا۔ تھوڑی دوُد تک رسی لٹکائی پھر اُسے کا ٹکر نیچے گرا دیا تو فوراً جبرائیل فرشتہ نے نصف کنوئیں میں آکے تھام لیا اور آہستہ آہستہ لیجا کر پتّھر پر بٹھا دیا اور بہشت سے کھانا پانی لا کر دیا کرتا تھا۔پھریوسف کا کرُتہ لیکر بھائی گھر پہنُچے اور یعقوب سے کہا یوسف کو بھیڑیا لے گیا یعقوب نے کہا تم جھوٹے ہو اگر بھیڑیا یوسف کو لیجاتا تو اُسکا کرُتہ چاک ہوتاا تم نے یوسف کے ساتھ فریب کیا ہے اچھا اُس بھیڑئیے کو حاضر کو جس نے یوسف کو کھایا ہے یوسف کے بھائی جنگل سے ایک بھیڑ یا پکڑ لائے۔ بھیڑیئے نےکہا میں نے یوسف کو نہیں کھایا۔ پیغمبر وں کا بدن جانوروں کو کھانا حرام ہے اور یوسف ایک رات دِن یا تین رات دِن یا ساتھ رات دِن کنوئیں میں رہا۔ اور جبکہ قافلہ والے یوسف کو مصر میں نے جاتے تھے توراستہ میں یوسف شتر پر سے کود کر اپنی ماں کی قبر پر رونے کو جاتا تھا تو قافلہ والوں نے اُس کو پکڑکر خوب طمانچہ مارے اور مصر میں جا کر عزیز مصر کے ہاتھ یوسف کو فروخت کیا اور اُس کی قیمت یہ قرار پائی تھی۔ مشرؔفی دس لاکھ۔ شتر نجیؔ ہزار۔ موتؔیوں کے ہار ایکسو۔ روؔپہلے پاندان ہزار۔ شمامہؔ غبرزار۔ خطاؔئی غلام ہزار۔ کافورؔ ہزار من۔ ہتھیؔاروں کے دستہ ہزار۔روُمی ؔ اطس کی پاشاک ہزار اور بحرالمواج میں لکھا ہے کہ یہ قیمت اور دولت دے کے یوسف مالک پر خفا ہوا اور کہا کہ نبی زادہ ہوں مجھے فروخت نہ کر بلکہ مفت عزیز کو بخشدے مالک نے کہا اچھا میں کچھ نہیں لیتا مگر میرے اولاد نہیں ہے تو دعا کر کہ اولاد ہو۔ چنانچہ یوسف نے دُعا کی تو اُس کی عورت حاملہ ہوئی اور ہر حمل میں دو دو بیٹے پیدا ہوئے یا اُسکی لونڈیاں تھیں اُن کے دو دو بیٹے پیدا ہوئے اور پھر زلیخا نے ایک بُت خانہ بنایا اور بُڑھیا سے جوان موئی اور یوسف کے ساتھ شادی کی۔ اور زلیخا یوسف کے عشق میں تمام مصر کی گلیوں میں مثل دیوانوں کے پھرتی تھی وغیرہ اور حیات القلوب میں بردایت امام حضرت صادق لکھا ے کہ جسوقت عزیز کی عورت نے یوسف سے حرام کرانا چاہا تو یوسف کو اُسکا باپ یعقوب اُس مکان میں نظر آیا اور یوسف سےیہ کہا کہ خبردار زنا مت کرنا۔ الغرض ہزار ہا قصہ ایسے لکھے ہیں جس کا جی چاہے حیات القلوب اور قصص الانبیا میں دیکھ لے میں بنظر طوالت اسی پر ختم کرتا ہوں۔

اے محبان دین محمدی توریت اور قرآن میں جو اختلاف ہے اُس کو جواب تو یقیناً تم یہ ہی دو گے کہ یہود منے توریت کو بدل دیا ہے مگر زرا اپنے جی میں انصاف کرو کہ اگر یہود توریت کو بدلتے تو صرف محمد کے حقمیں جو ہوتا اُسی کو بدلتے یوسف جو صدہا سال پیشتر محمد سے ہوا ہے اور اُس کے بعد موسیٰ و جدعونؔ رما روتؔ کا زکر اور پھر سموایل تالوب یعنے ساؤل و داؤدو سلیؔمان و یوحناؔ و مسیحؔ وغیرہ گزرے اور اُس کے بعد محمد صاحب نے دعویٰ نبوت کیا۔تو اُس وقت یہ قرآن اور یہ مضمون مندرجہ قرآن کہاں تھا جو توریت میں تحریف ہوتی۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ اسی توریت کو محمد نے اپنے زمانہ میں صدہا مقام پر اپنی قرآن میں تصدیق کیا ہے جیس کہ اوپر زکر ہو چکاُ ہے تو پھر کب توریت منحرف ہوئی اور اس تحریف کی بحث میں ڈاکڑ وزیر خان اور نیز تمہارے علما نے یہ بحث کیہے کہ تحریف الفاظ کا بدل ڈالنا وہ باعتبار لفظ ہے یا با عتبار معنے۔ دوسرے یہ کہ وہ عمداً ہویا سہواً یا معنی الفاظ کو خلاف بیان کرنا وغیرہ۔ اِس مقام پر تو یہ معاملہ نہیں؟ قرآن کا تمام مضمون توریت کے خلاف ہے تو یہاں تحریف کیسی ہے۔ لہذا بحث تحریف تمہاری ہٹ دھرمی ہے کیونکہ تحریف کا کوئی ثبوت تمہاری طرفسے نہیںپیش ہوا اب ہم منفس قرآن کا زکر کرتے ہیں۔ دیکھو ایک مقام پر قرآن سے واضح ہے کہ جب عورت اور یوسف دونوں اُس کے شوہر سے دروازہ پر مل گئے توعورت نے یوسف کی شکایت کی اور دوسری جگہ اسی قرآن سے واضح ہے کہ عزیز کی عورت نے مصر کی عورتوں کومجلس میں بلایا اور جلسہ عام میں یہ کہا کہ اگر یوسف میری خواہش پوری نہ کریگا تو قید میں پڑیگا تو اُسوقت عورت کے شوہر کو زرا بھی شرم نہ آئی اور اپنی بدچلن عورت کی خواہش پر یوسف کو قید کیا اور جسوقت یوسف قید سے بادشاہ کے پاس پُہنچا تو عزیز کی عورت نے اپنا ناپاک خیال جو یوسف کی طرف تھا ظاہر کیا اس سے کیا غرض تھی اور یہ امر تو مسلمہ ہے کہ تمام عورتیں مصر اور زلیخا کا شوہر زلیخا کی ناپاک کواہش میں شامل تھے۔ دوُسرے قرآن میں یہ لکھا ہے کہ عزیز نےاپنی عورت سے کہا کہ یوسف سے اپناگناہ بخشوا تو کیا مصریوں میں جو عورت خواہش حرام ظاہرکرے اور اُسکا انشا ہو جائے تو یہ رسم باطریقہ ہے کہ خاوند عورت سے کہے تو معافی چاہ۔

محمد صاحب نے تو قرآن میں عزیز مصر اور اُس کی جوروی کو زلیل کیا تھا اور یوسف کو صاف رکھا تھا۔ مگر راوی صاحب نے یوسف کی بھی خبر لی کہ زلیخا سے بُت کانہ بنوا کراﷲ سے ایسی مدد دلیوائی کہ زلیخا کو ضعیف سے جوان بنا کے یوُسف سے شادی کرائی۔ تو اے ناظرین اصول دین محمدی پر غور کرنا چاہئے اور پھر قرآن اور قصص کا مقابلہ کرنیسے ظاہر ہے کہ قرآنسے روایات وغیرہ وغیرہ غلط ثابت ہوتے ہیں اور حدیث و روایات سے قرآن کا بطلان ہوتا ہے۔ اور پھر لطف یہ ہے محمدی صاحب دونوں کو سچا جانتے ہیں۔ اب محمدی صاحب فرمائیں کہ توریت اور قرآن میں جو اختلاف ہے اُس کی تو یہ وجہ ہے کہ توریت منحرف ہوگئی لیکن قرآن و حدیث وغیرہ کیوں قرآن کے خلاف ہیں کیا یہاں بھی یہود اور نساریٰ نے دست اندازی کی ہے اور یہ تو بتلا و کہ جسوقت یوسف عزیز کے مکان میں گیا اور عورت نے اُس پر الزام لگایا تو سوائے عورت اور یوسف کے اور کوئی اُس مکان میں نہیں تھا ۔ چنانچہ یہ امر تمہارے قرآن سے بھی چابت ہے تو پھر حضرت صادق کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ یوسف کا باپ یعقوب اُس گھر میں یوسف کو نظر آیا۔ اور عورت نے بُت پر کپڑا ڈالدیا تھا۔

اےبرادران دین محمدی قرآن میں جو یوسف اور زلیخا کے تعشق کا قصہ محمد صاحب نے لکھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ محمد صاحب خود بھی حسن پرست اور عاشق مزاج تھے چنانچہ اپنے غلام کی عورت جو خوبصورت دیکھی اُس کو اپنی زوجیت میں لے آئے تھے۔ اور علیٰ ہذا القیاس روایت ۴ سے ثابت ہے کہ محمد اپنی جوان (بزرگ) بیٹی فاطمہ کو جو نہایت حسین اورجبین تھی انسان کی صورت میں حور سے نامزد کر کے اپنی گود میں بٹھا کے چومتے اور سونگتے تھےحیات القلوب میں معتبر حضرت صادق وابن عباس سے روایت کرتا ہے کہ ایک روز عایشہ نزدیک حضرت کے آئی کیا دیکھتی ہے کہ محمد نے فاطمہ کو گود میں بیٹھا رکھا تھا اور چومتا تھا۔ عایشہ نے کہا کہ اس بزرگ (جوان) لڑکی کو (انیقدر) اس قدر کیوں چومتا ہے اور کس سبب سے (افراط) کثرت عشق ظاہر کرتا ہے۔ محمد نے جواب میں معراج کا طول طویل بیان بتلا کر یہ کہا کہ جب میں معراج کو گیا تو فرشتوں نے مجھے ایک چھوارا دیا اور اس چھوارے سے لفظ بنا اور جب زمین پر آیا خدیجہ سے نزدیکی کی اُس کو فاطمہ کا حمل ٹھہرا۔ پس فاطمہ حور ہے انسان کی صورت میں جب بہشت کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہ کو چومتا ہوں"۔ یہ جواب محمد کا صرف عایشہ اور محبان دین محمدی کے ایمان لانے کے قابل ہے کیونکہ اگرچہ محمد نے نہایت چالاکی اور ہوشیاری سے جواب کو بنایا پھر بھی اہل دانش و صاحب خرو کے نزدیک محمد کا جواب ہی عایشہ کے ڈانٹنے کی غرض کو ثابت کرتا ہے۔ علاوہ بریں اگر عایشہ محمد کو نا جایز حرکات میں مصروف نہ دیکھتی تو نہ تو اُسکو ڈانٹتی اور نہ حجت ہوتی اور نہ محمد صاحب کو ایسے جواب کے گھڑے کی ضرورت پڑتی۔ دوم۔ اینقدرؔ۔ افارؔط و دخترؔ بزرگ کے لحاظ سے صاف ظاہر ہے کہ اُن حرکات میں اعتدال سے بڑھکر تعشق کی کثرت پائی جائی ہے۔ سوم۔ جب فاطمہ حور قرار دی گئی تو وہاب کس کی حور سمجھی جاوے اور حور کا انسان کی صورت میں اس جہان میں کیا کام ہو سکتا ہے؟

فصل پنجم در زکر موُسیٰ

توریت

جب مصر میں بنی اِسرائیل بکثرت ہو گئے تو فرعون نے کہا ایسا نہ ہو کسی وقت بنی اِسرائیل ہمپر غالب ہو جائیں۔ لہذااُن کے ساتھ عاقلانہ تدبیر کرنا چاہے۔ چنانچہ جنائی دائیوں کو حکم دیا کہ جب عبرانی عورتوں کے لڑکاپیدا ہو تو ہلاک کر دو اور لڑکی ہو تو زندہ چھوڑ و لیکن دائیوں نے خوف خدا ایسا نہیں کیا۔ پھر فرعون نے دائیوں سے دریافت کیا۔ دائیوں نے کہا کہ عبرانی عورتیں مضبوط ہیں دائی پہنچنے سے پیشتر خود جن لیتی ہیں۔ بعدہ فرعون نے اپنے ملازمین کو حکم دیا کہ عبرانیوں کو جو لڑکا پیدا ہو اُسکو دریامیں ڈالدو اور لڑکی زندہ چھوڑ دو۔ یہ لڑکا بہت خوبصورت تھا ۔ اُسکی ماں نے تین مہیںہ تک اُسکو چھپایا جبکہ زیادہ چھپانہ سکی تو سرکنڈہ کے ٹوکرے میں رکھ کے دریا کنارے جھاؤ میں رکھ دیا۔ اور فرعون کی بیٹی دریا پر غُسل کو آئی تو اُس ٹوکرے کو منگوالیا اُس میں لڑکا پایا۔ تو اُسکو رحم آ یا اور کہا کہ کسی عبرانی کا لڑکا ہے۔ تب اُس کی بہن نے فرعون کی بیٹی سے کہا کہ اگر تو اجازت دے تو اسکے دوُدھ پلانے کو ایک عبرانی عورت لے آؤں۔ اُسنے کہا لا۔ پھر وہ اُس لڑکے کی ماں کو لے آئی۔ فرعون کی بیٹی نے لڑکا اُس کو دیا اور کہا اسکی پرورش کر تجھکو درماہا ملیگا۔ چنانچہ اُس نے اُسکو پرورش کیا۔ جبکہ لڑکا بڑا ہوا تو اُسکو فرعون کی بیٹی کے پاس لائی۔ اُسنے اُسکا نام موسیٰ رکھا اور وہ اُسکا لڑکا ٹھہرا ۔ پھر موسیٰ ایک مصری کو جو ایک بنی اِسرائیل پر جبر کر رہا تھا مار کے مصر سے بھاگ گیا اور مدیان کی سات بیٹیاں تھیں اُن میں سے صفورا کے ساتھ شادی کی اور اُس سے لڑکا پیدا ہوا اُس کا نام جیرسون رکھا۔ اور موسیٰ اپنے سسر کے گلہ کو چراتا تھا۔ جبکہ حورب پہاڑ کے نزدیک آ یا تو خداوند کا فرشتہ ایک بوٹے میں آگ کے شعلہ کی مانند ظاہر ہوا۔ اور اللہ نے موسیٰ سے باتیں کیں اور معجزے بخشے ۔ پھر وہ معہ ہارون مصر کو گیا اور بنی اسرائیل کو مصر سےآزاد کرایا فقط۔

قرآن

سورہ قصص ۱۔ رکوع۶ اور ہم نے حکم بھیجا موسیٰ کی ماں کو کہ اُس کو دودھ پلا پھر جب تجھ کو ڈالدے اُس کو پانی میں اور نہ کر خطرہ۔ اُسی سورہ ۷آیت پھر اُٹ لیا اُس کو فرعون کے گھر والوں نے کہ ہو اُسکا دُشمن بیشک فرعون اور ہامان اور اُسے کے لشکر تھے خطا پر اور بولی فرعون کی عورت کی آنکھوں کی ٹھنڈک مجھکو اور تجھ کو اس کو نہ مارو اسکو ہم بیٹا بنا ئینگے۔ اور صبح کو موسیٰ کی ماں کے دل میں قرار نہ رہا قریب تھاکہ ظاہر کر دے بے قراری کو اگر ہم نے نہ گرہ کر دی ہوتی اُسکے منُہ پر اور کہدیا اُسکی بہن کو اُسکے پیچھے چلی جا وہ دیکھتی رہی پیچھے ہو کر اور اُن کو خبر نہ ہوئی۔ اُس نے فرعون کی عورت سے کہا کہ تو کہے تو اُس کے واسطے دائی لاؤں۔ چنانچہ وہ موسیٰ کی ماں کو لائی اور فرعون کی عورت نے موسیٰ اُسکو دیا۔ اُسی سورہ ۲ رکوع ۱۳ آیت۔ جب پہنچا اپنے زور پر تو ہم نے اُسکو حکم دیا اور سمجھ اورآیا شہر میں جسوقت بے خبر ہوئے وہاں کے لوگ پھر لڑتے دیکھے اُسنے دو مرد ایک اُس کے دوستوںمیں سے اور دوُسرا اُسکا دشمن ۔ اُسکے دوست نے فریاد کی اُس کے دشمن کی پھر مکُہ مارا موسیٰ نے دُشمن کے کہ وہ مر گیا۔ پھر موسیٰ نے کہا میں نئ برا کیا۔ پھر میں کبھی گنہگار کا مددگار نہ ہونگا۔ پھر جب صبح ہوئی تو موسیٰ شہر میں ڈرتا ہوا گیا تو پھر اُس شخص دیروزہ نے موسیٰ سے فریاد کی تو موسیٰ چاہتا تھا کہ دشمن کو مارے مگر اُسنے فریاد کی کل تو نے ایک مصری کو مار ڈالا ہے کیا مجھکو بھی ماریگا۔ تو موسیٰ بھاگ گیا اور مدیان میں پہنچ کر اپنی بیوی کے واسطے ٹھ دس برس نوکری کی اور جب وہ مدت پوری کر چُکا تو اپنی بیوی کو لیکرچلا اور راستہ میں ایک آگ دیکھی تو اپنے گھر کے لوگوں سے کہا کہ تم یہاں ٹھہرو میں تمہارے تانپے کے واسطے آگ لاؤں۔ جب اُس آگ کے پاس پہنچا تو اُس میدان کی دہنی طرف برکت والے تخت میں آواز آئی۔ اور سورہ طہ رکوع ۳۔ ۳۹ آیت۔ ہم نے حکم بھیجا موسیٰ کی ماں کو کہ ڈالدے اس کو صندوق میں پھر اُسکو ڈالدے پانی میں پھر اُسکو ڈالے کنارے پر۔

حدیث

قصص الانبیاء میں لکھا ہے کہ موسیٰ قاموس یا ولید بادشاہ مصر کے عہد میں پیدا ہوا۔ یہ فرعون یا تو یوسف والا فرعون تھا جو اِس قدر مدت تک جیا یا اُسکا بیٹا تھا آخر کو کافر ہو گیا تھا اور اپنے کو خدا کہتا تھا اور خدا سے فرعون نےدُعا کی تھی کہ مجھ کو سب دُنیا دے مجھ کو آخرت کی کوئی چیز نہیں چاہئے۔ چنانچہ خُدا نے اُسکی دعُا قبول کر کے دریاء نیل اُس کے قابو میں کر دیا تھا ۔ جب وہ کہتا چل تو چلتا اور جب کہتا کہ ٹھہر جا تو ٹھہر جاتا اُسکے پاس ہزار نجومی اور ہزار جادو گر تھے۔ ایک روز نجومیوں نے فرعون سے کہا کہ ایک شخص پیدا ہو گا وہ تجھکو غارت کر دیگا۔ یا فرعون نے اسکا خواب دیکھا اپنے بتوں سے دریافت کرتے تھے کہ وہ لڑکا کب پیدا ہوگا۔ جسوقت خدا نے عرش پر فرشتوں سے کہا کہ میں فلاں تاریخ جمعرات کے دن تین گہری رات گئے اُس کی ماں کے پیٹ میں آنے دوُنگا یہ خبر نجومیوں کے دیوتا آسمان پر سے چُرا لائے اور موسیٰ کے رحم میں آنے کا وقت نجومیوں کو بتا دیا ۔ فرعون نے حکم کہ کوئی بنی اسرائیل اپنی عورت کے پاس اُس جمعرات کو نہ جائے اور عمران موسیٰ کے باپ سے کہاکہ تو میرے دروازے پر پہرہ دے عمران کی عورت بوجاؔ بن اُسکے پاس ۤئی اور عمران سے ہمبستر ہوئی اور حاملہ ہو کر چلی گئی۔ اُسوقت نجومیوں نے غُل کیا کہ دُشمن رحم میں آگیا۔ پھر یہ بندوبست ہوا کہ جو لڑکا بنی اسرائیل میں پیدا ہو مار ڈالا جائے اور لرکی کو جیتی رہے۔ چنانچہ نوہزار لڑکے مارے گئے۔ اور جب موسیٰ پیدا ہوا تو دائیوں نے رحم کر کےچھوڑ دیا۔ اور معالم کہتا ہے کہ موسیٰ کی ماں نے موسیٰ کو صندوق میں رکھ کر دریامیں ڈالدیا وہ بہتا ہوا فرعون کے باغ میں پہنچا وہاں فرعون اور اُسکی بیوی اور لڑکی موجود تھی اُنہوں نے موسیٰ کو پایا اور بیٹا کر کے پالا اور موسیٰ نام رکھا ایک روز موسیٰ فرعون کی گود میں تھا۔ موسیٰ نے فرعون کی داڑھی نوچ لی۔ فرعون نے موسیٰ کےمارنیکاحکم دیا تو فرعون کی عورت نے سفارش کی اور کہا یہ نادان بچہ ہے آگ میں بھی ہاتھ ڈالدیتا ہے۔ پھر فرعون نے آزمائش کی جو اہرات اور آگ موسیٰ کے سامنے رکھی موسیٰ جواہرات اُٹھانے لگا تو جبرائیل نے موسیٰ کا ہاتھ آگ میں دیدیا۔ اور موسیٰ نے آگ منُہ میں رکھ لی تو زبان جل گئی۔ اِسی وجہ سے موسیٰ کی زبان میں لکنت تھی اور ہاتھ میں ید بیضا۔ حیات القلوب میں لکھا ہے کہ موسیٰ کی ماں نے فرعون کے ڈر سے موسیٰ کو تنور میں ڈالدیا تھا اور امام محمد باقر لکھتا ہے کہ اس موسیٰ سے پیشتر چالیس موسیٰ ہو چکے تھے اور حضرت صادق سے منقول ہے کہ موسیٰ کی آلہ تناسل یعنے پیشاب کی جگہ نہیں تھی۔ دوسرا کہتا ہے کہ موسیٰ کیواسطے صندوق آسمان سے جبرائیل لایا تھا۔ کہیں عورتوں کی امذام نہانی کا زکر ہے۔ غرضکہ صدہا قصِٔہ دِل بہلانے کے واسطے لکھے ہیں۔

اے ناظرین سب سے پیشتر میں اُن راویوں کی تعریف کرتا ہوں کہ خوب ہی تحقیقات کی ہے ہندوؤں کے مذہبی مبالغے کو بھی بالائے طاق رکھدیا ہے۔ پھر محمد ی بھائیوں جو آفرین کہتا ہوں کہ نہایت کوش اعتقاد اور بھولے ہیں۔ جو ان کتابوں کو دین ایمان سمجھتے ہیں۔اب خلاصہ کلام بیان کرتا ہوں۔دیکھو قرآن توریت کے بالکل خلاف ہے۔ اسکا تو جواب محمدی یہ دینگے کہ توریت تحریف ہو گئی ہے۔ لیکن واضح ہو کہ آیات قرآنی متزکرہ صدر میں تین چار مقام پر محمدی نے غلطی کی ہے۔ اؤل آیت میں لکھا ہے کہ موسیٰ کی ماں کو حکم دیا کہ موسیٰ کو دوُدھ پلا۔ اور جب ڈر ہو تو موسیٰ کو پانی میں ڈالدے۔ اور پھر سورہ طہ میں لکھا ہے کہ موسیٰ کی ماں کو ہم نے حکم دیا کہ صندوق میں موسیٰ کو رکھ کے دریا میں دریا میں ڈالدے دُوسرے مقام پر اَؤل یہ لکھا ہے کہ موسیٰ مصری کو مارکے پچھتاتااور کہا کہ مھر کبھی کسی گنہگار کی مدد نہ کرونگا دوُسرے ہی دن دوسرے مصری کو مارنا چاہتا تھا۔ تو ایک آیت ضرور غلط ہے۔ دوم حیات القلوب سے واضح ہے کہ جسوقت موسیٰ کی ماموسی کو فرعون کی عورت آسیہ کے ملاحظہ کے واسطے فرعون کے گھر میں لیجاتی تھی تو اُسیوقت ہزار ہا بنی اِسرائیل فرعون کے محل تک بازاروں میں موسیٰ کے واسطے تحفہ اور ہدیہ لاتے تھے۔ تیسرے۔ یہ کہ جب موسیٰ نے ایک بنی اِسرائیل کی مدد کی اور پھر پچھتاتا اور توبہ کی کہ آئندہ پھر کسی گنہگار کی امداد نہ کرونگا۔ تو موسیٰ پر یہ الزام وارد ہوتا ہے۔ کہ اَؤل اُسنے ایک بنی اِسرائیل سے نفرت کی اور خلاف شیتِ ایزدی یہ کلمہ کہا کیونکہ موسیٰ کا پیدا ہونا بنی اِسرائیل کی رہائی کیواسطے مخصوص تھا۔ چوتھے۔ قرآن میں لکھا ہے کہ موسیٰ نے بیوی کیواسطے آٹھ یا دس برس نوکری کی یہ بالکل غلط ہے دیکھو توریت یہ زکر یعقوب کاہے یعنی یعقوب نے اپنی عورت کے واسطے اپنےخُسر کی آٹھ برس نوکری کی یہ بالکل غلط ہے دیکھو توریت یہ زکر یعقوب کا ہے یعنی یعقوب نے اپنی عورت کے واسطے اپنےخُسر کی آٹھ برس نوکری کی تھی۔ علاوہ ازیں ناظرین انساف فرمائیں کہ توریت اور قرآن میں جو تضادت ہے اُسکی نسبت محمدی کہتے ہیں کہ توریت تحریف کر دیگئی۔ تو روایات و حدیث قرآن کے کیوں خلاف ہیں۔ ایک لکھتا ہے کہ اللہ نے عرش پر فرشتوں سے کہا کہ فلُاں جمعرات کو تین گھڑی رات گزرے موسیٰ کو شکم مادرمیں آنے دونُگا اور قرآن سے واضح ہے کہ فرعون کو موسیٰ کے آنے کی خبر نہیں تھی۔ تو پھر قرآن صحیح ہے یا یہ مضمون ۔ اور پھر لکھتا ہے کہ فرعون کے نجومیوں کے دیوتا عرش پر سے موسیٰ کے شکم مادر میں آنے کی خبر چُرالائے تھے۔ اور قرآن سورہ حج رکوع ۲۔ ۱۸ سے واضح ہے کہ شیطان بہشت کی خبر چوری سے لایا کرتا تھا لیکن روای صاحب کی تحقیق قرآن سے بھی مستند ہے جو فرماتے ہیں کہ جادو گروں کے دیوتا عرش پر سے خبر چرُاتے ہیں حالانکہ بوقت معراج محمد بھی وہاں تک نہیں پہنچتے تھے چنانچہ سعدی کا مقولہ ہے۔

اگر یک سرے موئے برتر پرم
فروغ تجلی بسوزد پرم

پھر راوی صاحب کو یہ صحت کیونکر ہوئی کہ دیوتا عرش سے خبریں چرُاتے ہیں۔ تو طاہر ہے کہ محمد سے دیوتا بہت بڑے ہیں جو عرش تک پہنچتے ہیں۔ اور خدا کے عرش پر بڑی غفلت ہے۔ جو اُسکے راز کی مخفی خبریں چوری جاتی ہیں۔ تو پھر ہم کو بموجب عقیدہ محمدی یہ کہتے ہیں کیوں تکلیف ہے کہ محمد کے پاس جو وحی آتی تھی وہ بھی دیوتا لاتے تھے اﷲکو وحی کی خبر بھی نہیں ہوتی تھی اور یہ ہی وجہ ہے کہ قرآن توریت کے خلاف ہے۔ اگر کلام اﷲ ہوتا تو ضرور ہے کہ توریت کے موافق ہوتا قرآن سے ظاہر ہے کہ موسیٰ کو فرعون کی عورت نے پرورش کیا معالم کہتا ہے کہ خود فرعون نے موسیٰ کو پالا۔ اور صندوق جبرائیل آسمان سے لایا تھا۔ اور دیکھو کیسے شرم کی بات ہے جو تمہارے راوی کہتے ہیں کہ موسیٰ کی فرعون کے دروازے پر آکے اپنے شوہر سے ہمبستر ہوئی۔ دوسرا کہتا ہے کہ موسیٰ کی ماں نے فرعون کے ڈر سے موسیٰ کو تنور میں ڈالدیا تھا۔ اور حضرت صادق فرماتے ہیں کہ موسیٰ کے پیشاب کی جگہ نہیں تھی۔دُوسرا کہتا ہے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کےفبرصیں اﷲ نے بند کر دیئے تھے۔ غرضکہ صدہا قصہ قرآن خلاف لکھے ہیں اب محمدی صاحب فرمائیں کہ یہ قصٔے جواد پر لکھے ہیں یہ صحیح ہیں یا قرآن۔ اور منجملہ اُن کے کون کونسے امور یہودیوں نے توریت سے خارج کر دئیے یہ تو اظہر من الشمس ہے کہ قرآن توریت کو غلط قرار دیتا ہے اور پھر وہی قرآن توریت کو تصدیق کرتا ہے۔ دیکھو سورہ بقر ۱۱ رکوع۔ ۸۶ آیت کا یہ مضمون ہے کہ ہم نے دی ہے موسیٰ کو کتاب اور پائدار پائی سچی بعد اُسکے رسول اور عیسیٰ مریم کے بیٹے کو معجزے دئیے اور قوت دی اُسکو روح پاک سے۔ اور پھر اسی سورة رکوع ۳۶ میں لوگو ں کا دین ایک ہے بھیجی اﷲ نے اُنکے ساتح کتاب سچی اور پحر اُسی سورہ رکوع ۳۳ میں یہ سب رسول ہیں برُائی دی ہم نے اُن میں ایک کو ایک سے کوئی ہے کہ کلام کیا اﷲ نے اُس سے اور بلند کیا یعقوب کے فرجے کو اور دی ہم نے عیسیٰ کو نشانیاں اور زور دیا اُسکو روُح پاک سےفقط۔

اب ناظرین اِنصاف فرمائیں کہ قرآن ایک مقام پر توریت کو غلط لکھتا ہے اور دوُسری جگہ اُسکو تصدیق کرتا ہے تو کیونکر کلام اﷲ ہو سکتا ہے اور لطف یہ ہے کہ قرآن کو خود اپنی ہی صحت نہیں ہے ۔ چنانچہ سورہ عمران ۱۔ رکوع ۷ آیت کا یہ مضمون ہے کہ وہی ہے جس نے اتاری ہے تجھ پر کتاب اُس میں بعض آیت پکے ہیں جو جڑ ہیں کتاب کے اور دوُسرے میں کسی طرف ملتی۔ پس واضح ہے کہ سب قرآن ٹھیک نہیں بعض آیات میں جوجڑ ہیں کتاب کے۔ اس کی محمدی صاحب نے صحت نہیں کی وہ آیات کون سی ہیں جو جڑ ہیں کتاب کے۔ اے پیارےمحمدیو محمد ساحب اگرچہ اُمی تھے مگرنہایت ہی ہوشیار تھے۔ دیکھو اِس آیت میں اُنہوں نے صاف لکھدیا ہے کہ اِس کتاب معنی قرآن میں بعض آیات پکی ہیں۔ معنی وہ باتیں جو قرآن میں لکھی ہیں اور توریت و انجیل کے مطابق ہیں صرف وہی ٹھیک ہیں۔ باقی قرآن سب غلط ہے اور اگر محمدی صاحب اسکو خلاف سمجھیں تو بتلائیں کہ وہپکی آیات جو کتاب کی جڑ ہیں کون کونسی ہیں۔

پھر دیکھو کہ تمہارے روای فرعون کو کافر کہتے ہیں مگر اُسکے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ فرعون نے خدا سے دعُا مانگی تھی کہ مجھکو تمام دُنیاوی چیزیں دے۔ بہشت کی کوئی میں نہیں چاہتا۔ چنانچہ یہ دعا فرعون کی اﷲ نے قبول کی تھی اور دریائے نیل اُسکے تابع کر دیا تھا جیسا کہ اوپر زکر ہوُا فقط۔

اے محبان دین محمدی تمہارے عقیدہ کے بموجب منکر خُدا کو کافر کہتے ہیں اور جبکہ فرعون نے خدا سے دُعا مانگی اور وہ قبول بھی ہو گئی۔ تو پھر فرعون کافر کیونکر قرار دیا گیا بلکہ مستجابُ الدعوات تھا۔

فصل ششم در زکر داؤد

توریت۔۔ ظاہر ہے کہ داؤدبنی اسرائیل کے بادشاہ اور نبی تھے۔

قرآن

سورہ ص رکوع ۲۔ آیت ۷۔ اور ہم نے تابع کئے پہاڑ اُس کے ساتھ پاکی بولتے شام کو اور صبح کو۔ اُسی رکوع میں اور اُڑتے جانور جمع ہو کر سب تھے اُس کے آگے رجوع رہتے۔

حدیث

حیات القلوب میں بحوالہ حدیث سادق سے روایت ہے کہ دا‍‍ؤد یکشنبہ کے روز بعارضہ بخار فوت ہوئے تو تمام پرند جانوروں نے اُن کے جنازہ پر اپنے پر‍‍ٔوں کا سایہ کر لیا تھا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ پہاڑ اور جانور دا‍ؤد کے ساتھ پھرتے تھے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ پہاڑو جانور داؤد کے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور گاتے تھےاور اکثر کہتے ہیں کہ پہاڑ و جانور تو داؤد کے ساتھ نہیں بولتے تھے مگر جسوقت داؤد زکر الہی کرتے تھے تو بہاڑ اور جانوروں میں اللہ آواز پیدا کر دیتا تھا اور بعض کہتے ہیں کہ پہاڑ اور جانور وں کو اللہ زبان اور شعور دیتا تھا اُسوقت داؤد سے باتیں کرتے تھے اور او قدزریعہ سے دا‍‍ؤد کوئے اور خزانہ زمین معلوم کر لیتا تھا اور بعض کہتے ہیں کہ داؤد کے ہاتھ میں فولاد مثل موم کے ہو جاتا تھا اور زرہ خود بنا لیتا تھا اور حضرت صادق سے روایت ہے کہ ایک روز داؤد نے بہت خوش الحالی سے زبور کو پرہا تو ایک مینڈ ک نے داؤد سے کہا کہ تو سمجھتا ہے کہ میں بہت اچھی آواز سے زبور پڑھتا ہوں داؤد نے کہا کہ بے شک تو مینڈک نے کہا پھرتجھکو خدا کے یہاں سے کیا ملتا ہے دیکھ میں پانی کے اندر ہر روز ایک ہزاار تسبیح پڑہتا ہوں اور فی تسبیح اللہ کے یہاں سے مجھکو تین ہزار شکریہ آتے ہیں۔ اور قصص الانبیا ء میں لکھا ہے کہ داؤد کے وقت میں یہود کو حکم تھا کہ جمعہ کے دن مچھلی کا شکار نہ کرو مگر یہود نے نہیں مانا تو اللہ نے اُن کو بندر بنا دیا تھا اور بندروں کی نسل اُنہیں سے ہے اور صدہا مضمون لکھے ہیں۔

اس مقام پر ہم محمدی صاحبان سے یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ منجملہ ان مضامین کے کون کون سے مضمون یہود نے توریت سے نکال ڈالے ہیں اور اُن کو کیا فائدہ تھا۔ اور پھر تمہارے امام وغیرہ کیوں قرآن کے خلاف کہتے ہیں اور جس وقت اللہ نے جملہ مخلوقات کو پید ا کیا اُس وقت بندر پیدا نہیں کئے تھے اور یہ بندر جو اس وقت موجود ہیں یہ وہی یہودی ہیں جو اللہ نے داؤد کے وقت میں بندر بنائے تھے اور یہ سزا کب تک یہ لوگ پائیں گے کیونکہ ہنود کے عقیدہ کے بموجب جو کوئی جانور ہا انسان مر جاتا ہے تو فوراً دوسرے قالب میں جاتا ہے اور ان بیچارے یہودیوں کو اللہ نے صرف داؤد کی نافرمانی کرنے سے ایسی سخت سزا دی ہے کہ جس کی پاداش میں اس وقت تک مبتلا ہیں اور جو محمدی صاحب شراب خواری و رنڈی بازی وغیرہ کرتے ہیں اور پھر قرآن کو کلام اللہ سمجھتے ہیں اور اُس میں ایسا کرنے کا حکم نہیں ہے تو اُن کو اگر کدا بندر نہیں بنا سکتا ہے یعنے اس وجہ سے کہ پیشتر ایک قوم کو یہ سزادے چکا ہے۔ تو اُن کو اونٹ ہاتھی کیوں نہ بنایا یہود نے تو صرف داؤد کی نافرمانی کی تھی یہ تو حسب عقیدہ دین محمدی خدا کی نافرمانی کرتے ہیں۔

فصل ہفتم در زکر سلیمان

توریت

توریت میں سلیمان کا زکر صرف یہ لکھا ہے کہ بنی اسرائیل بادشاہ نہایت فہیم و دانشمند تھا اور بیت المقدس کو تعمیر کیا۔

قران

سورہ ص کے رکوع ۳ ہمنے تابع ہوا چلتی اُس کے حکم سے نرم نرم جہاں پہنچا چاہتا اور تابع کیا شیطان سارے عمارت کرنے والا اور غوطے لگانے والا۔ سورہ نمل رکوع ۲ ۔ سلیمان اُوڑتے جانوروں کی بولی جانتا تھا ۔ اُسی سورہ کے رکوع ۲۔۱۷ ۔ آیت میں اور جمع کیا سلیمان کے پاس اُس کے لشکر جن و انسان اور اُوڑتے جانور یہاں تک کہ جب پہنچے چینٹیوں کے میدان میں کہا ایک چیونٹے نے۔ اے چیونٹیو گھس جا‍‍ؤ اپنے گھروں میں نہ پیس ڈالے۔ تمکو سلیمان اور اُس کا لشکر اور اُن کو خبر نہ ہو یہ بات سنکر سلیمان ہنسا پھر خبر لی اُڑتے جانورونکی تو کہا کہ کیس سبب ہے جو ہدہد نہیں آیا اُس کو مار ڈالوں گا یا وجہ غیر حاضر ی کی پیش کرے اتنے میں ہُد ہدُ حاضر ہوا اور کہا کہ میں ایک چیز کی خبر لایا ہوں جس کی تجھکو خبر نہیں تھی میں ملک سبا سے آیا ہوں وہاں ایک عورت ہے اُس کا بڑا تخت ہے اور سورج کو پوجتی ہے سلیمان نے کہا کہ ہم دریافت کریں گے کہ تو سچ ہے یا نہیں یہ ہمارا خط لیجا اور وہاں ڈالدے چنانچہ وہ کط ہُد ہُد نے ملکو کے پاس ڈال دیا تو سبا نے اپنے درباریوں سے کہا کہ یہ خط سلیمان کا ہے وہ مجھکو بلاتا ہے تمہاری اس میں کیا رائے ہے سرداروں نے کہا کہ ہم لڑنیوالے ہیں جو تو حکم دے سبا نے کہا کہ میں سلیمان کو تحفہ بھیجتی ہوں دیکھو سلیمان کیا جواب دے سلیمان نے وہ تحفہ نہیں لئے اور کہا میں چیونٹیوں کا لشکر بھیجتا ہوں جو تمکو بے عزت کر کے نکال دیگا پھر سلیمان نے اپنے درباریوں سے کہا کہ تم میں کوئی ایسا ہے جو سبا کا تخت لے آوے تو ایک راکس نے کہا میں لا سکتا ہوں پھر ایک شخص بولا جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہا میں ایک لمحہ لا سکتا ہوں چنانچہ وہ تخت حاضر ہو گیا اور پھر سبا نے اُس کو دیکھا تو کیا کہ وہ بہت گہرا پانی ہے۔ اُس نے اپنی پیڈلیاں کھولیں اور کہا کہ یہ ایک محل ہے وغیرہ۔

حدیث

مؤلف کتاب حیات القلوب لکھتا ہے کہ یہ غلط ہے کہ سلیمان کے قابو میں جن وغیرہ تھے امام محمد باقر منقول ہے کہ سلیمان کے پاس ایک قلعہ شیاطین کا بنایا ہوا تھا اُس میں ہزار حجرے تھے ہر حجرے میں سلیمان کی ایک جورو رہتی تھی اور سلیمان تمام روئے زمین کا بادشاہ تھا اور سات سو برس بادشاہی کی اور مولف کتاب حیات القلوب لکھتا ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ سلیمان روئے زمین کا بادشاہ تھا اور سات سو برس بادشاہ ہی کی اور علی بن ابراہیم سے روایت ہے کہ سبا کے پیروں پر بال بہت تھے سلیمان نے شیطان سے کہا کہ ایسی شے بناؤ جس سے سبا کی پنڈلیوں کے با ل جاتے رہیں چنانچہ شیطان نے نورہ بنایا مولف کتاب حیات القلوب لکھتا ہے کہ یہ غلطی ہے کہ جنہوں نے بلقیس کے واسطے شیشہ کا تخت بنایا تھا بعض نے کہا ہے کہ فرشتہ یہ تخت لائے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ ہوا لائی تھی اور بعض یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے اُس تخت کو یہ معجزہ دیا تھا کہ وہ خود آگیا تھایہ سب سے اچھے رہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اللہ نے اُس تخت کو اپنے مکان میں غایب کر لیا تھا اور پھر اپنی قدرت سے موجود کر دیا تھا ۔ غرضکہ ایسے بازیگروں کے کھیل بہت سے لکھے ہیں جس کو کو شبہ ہو کتاب حیات القلوب جلد اول میں دیکھ لے۔

اب قصص الانبیاء کا حال لکھا جاتا ہے جبکہ داؤ د ضعیف ہو گیا تو جبرائیل ایک صندوق داؤد کے پاس لایا اور کہا کہ تیرے بیٹوں میں جو کوئی بتلاوے کہ اس صندوق میں کیا ہے وہی بادشاہ ہو گا سلیمان نے کہا کہ اس میں انگشتر ی اور ایک کوٹرا ہے اور ایک چھٹی ہے جو کوئی اس انگشتری کو لے گا اُس میں سب قدرت ہو گی اور اُس تازیانہ سے حکومت کرے گا جبکہ صندوق کھولا گیا تو موافق بیان سلیمان کے نکلا اور سلیمان نے چھٹی کے پانچ سوالوں کا جواب بھی دیا مگر نہیں معلوم کیا سوال تھے جبکہ داؤد مرگیا تو سلیمان وہ انگشتری پہن کے بادشاہ ہوا تو تمام مخلوق خدا اُس کے تابع ہو گئی اور سب شان و شوکت اٗس کے پاس تھی اور دریائی گھوڑے بھی تھے اب نہیں معلوم وہ قوم گھوڑوں کی کہاں چلی گئی ایک روز سلیمان گھوڑ دوڑ میں تھا سورج غروب ہو گیا اور نماز نہ پڑھ سکا تو سلیمان نے اُن فرشتوں کو جو سورج پر حاکم ہیں کہا کہ سورج کو اُلٹا کھینچ لاؤ۔ فرشتے سورج کو کھینچ لائے اور سلیمان نے نماز پڑھی اور سلیمان ے بلقیس کو بُلا کر اپنے نکاح میں لیا اور اُس کا ملک اُسی کو دیدیا ہر مہیںہ میں ایک مرتبہ اُس کے ملک میں جاتااور تین روز اُس کے ساتھ رہتا اور ایک لڑکا بھی پیدا ہوا تھا اور بعض کہتے ہیں سلیمان نے بلقیس سے خود نکاح نہیں کیا تھا شاہ ہمدان کے ساتھ اُسکا نکاح کر دیا تھا ور سلیمان نے ایک کافر عورت کے ساتھ نکاح کیا تھا وہ اپنے باپ کی تصویر کی پرستش کیا کرتی وزیر نے اس کی اطلاع کی سلیمان اپنی بیوی کو لاتیں مار کے جنگل میں چلا گیا جس وقت سلیمان طہارت کو جاتا تو وہ انگشتری کو اپنے بیٹے کے سپرد کرتا تھا ایک روز ضخرام جن سلیمان کی شکل بن کے لڑکے سے انگشتری مانگ لے گیا اور بادشاہ ہو گیا اور سلیمان فقیر ہو گیا اور جب لوگوں سے کہتا کہ مین سلیمان ہوں تو لوگ اُس کو گالیاں دیتے تھے آخر کار سلیمان ایک ماہی گیر کا ملازم ہو گیا وہ تنخواہ میں سلیمان کو ایک مچھلی روز دیا کرتا تھا ایک روز وہ جن انگشتری کو دریا میں پھینک کر اُڑ گیا وہ انگوٹھی مچھلی کھا گئی اور وہی مچھلی ،اہی گیر نے پکڑی اور سلیمان کو دی اُس میں وہ انگشتری بر آمد ہو ئی اور سلیمان پھر بادشاہ ہو گیا یہ مصیبت سلیمان پر اس وجہ سے پڑی تھی کہ اُس کی جورو نے چالیس دن اپنے باپ کی تصویر کو پاجا تھا۔

اے ناظرین سلیمان کی عورت نے ۴۰ دن اپنے باپ کی تصویر کی پاجا کی تو یہ آفت آئی اور محمد صاحب نے جو ایک عرصہ تک بتوں کو پاجا تھا ان کی کیا حالت ہوئی ہوگی۔

اس موقعہ پر یہ طاہر کرنا ضروری نہیں ہے کہ توریت اور قران میں کس قدر اختلاف ہے کیونکہ یہ مضمون جو قران میں ہے محمد صاحب کے دل کے اند رکا ہے اور یہودیوں کی حدیث سے لیا ہؤا ہے۔ جو کچھ چاہا قرآن میں کہدیا مگر ناظرین کی خدمت میں اس قدر عرض کیا جاتا ہے کہ قرآن میں جو سلیمان کا زکر ہے اُس کو محمدی کہتے ہیں کہ کلام خدا ہے اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ خدا قادر مطلق ہے مگر ایک بات سخت تعجب کی معلوم ہوتی ہے کہ توریت جو کلام اللہ ہے اور جملہ انبیائے بنی اسرائیل کی مصدقہ اور نیز قران بھی اُس کو تصدیق کرتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ توریت میں یا سلیمان نے کود اپنی کتاب میں یہ نہیں لکھا کہ سلیمان کے تابع ہوا و شیاطین و جن وغیرہ تھے کیا اگر ہم کہیں کہ قرآن میں یہ مضمون غلط ہے تو پیارے محمدی صاحب عداوت و حسد کا اطلاق کریں گے مگر اُن کے راوی و امام و محدث قرآن کو غلط کہتے ہیں۔ اس کی بھی تفصیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ روایت و حدیث قرآن کے محاز مین اوپر لکھ چکے ہیں اُس کو ملاحظہ کرنا چاہئے اے مسلمان بھائیو قرآن و حدیث و روایات کو مقابلہ کر کے صحت کرو کہ قرآن صحیح ہے یا روایت و حدیث اگر قر آن کو صحیح سمجھو تو ان کتابوں کو جو تمہارے قرآن کےخلاف ہیں رد‍ّ‍ و منسوخ کرو اور ایک اشتہار ۔

فصل ہشتم در زکر یوحنا

توریت ( یوحنا کا زکر جو انجیل مقدس میں ہے اس طرح سے لکھا ہے)

انبیاء کے فرقہ میں زکریا تھا اور اُس کی بیوی الیسبات ہارون کی بیٹیوں میں سے تھی اور بانجہ تھی ۔ زکریا نے اللہ سے دعا مانگی کہ مجھکو بیٹا دے چنانچہ اللہ نے زکریا کی دعا قبول کی اور بچے کے پیدا ہونے کی کوشخبری دی اور کہا اُس کا نام یوحنا رکھنا زکریاہ نے کہا کہ مجھکو کیونکر یقین ہو کہ لڑکا ہوگا کہا کہ جب تک یوحنا پیدا نہ ہوگا تب تک گنہگار رہیگا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب تک یوحنا پیدا نہ ہوا زکریاہ گنہگار رہا اور جب یوحنا پیدا ہوا اور اُس کے نام رکھنے کا وقت آیا تو زکریا بولنے لگا اور مولود کا نام یوحنا رکھا۔

قرآن

دیکھو سورہ عمران کے رکوع ۴ میں لکھا ہے کہ جس وقت اللہ نے زکریا کو یوحنا کی خوشخبری دی تو زکریا نے کہا کہ اُس کی نشانی کیو ہو گی فرمایا کہ نشانی یہ ہوگی کہ تو بات نہ کرے گا لوگوں سے تین ۳ تک اور پھر سورہ مریم کے رکوع ۱ میں یہ لکھا ہے کہ نشانی یہ ہو گی کہ تو بات نہ کرے گا لوگون سے تین ۳ رات تک اور پھر سورہ عمران کے رکوع ۴ کی آیت ۳۸ میں لکھا ہے کہ جب زکریا مریم کے حجرہ جاتا تو اُس کے پاس کچھ کھانا پاتا تھا زکریا نے مریم سے دریافت کیا کہ اے مریم یہ کھانا کہاں سے آیا جواب دیا کہ خدا دیتا ہے اور اُسی رکوع ۳۸ آیت میں لکھا ہے کہ وہاں دعا کی زکریا نے کہ مجھکو بیتا عطا کر اور اُسی رکوع کی ۳۹ أیت سے واضح ہے کہ زکریاہ حجرہ میں نماز پڑھ رہا تھا اُس وقت زکریا کو بیٹے کی خوشخبری دیگئی تو کہا یہ وہی حجرہ ہے جس میں مریم کے واسطے آسمان سے کھانا آتا تھا یا اس حجرہ سے مراد یہود کا عبادت کانہ ہے یا یہ کہ جس حجرہ میں مریم کو کھانا آتا تھا وہی عبادت خانہ تھا۔

حدیث

قصص الانبیاء میں لکھا ہے کہ جس وقت یوحنا پیدا ہوا تو اُس وقت زکریا کی عمر ۶۰ یا ۷۰ یا ۷۵ یا ۸۵ یا ۱۲۰ یا ۹۹ یا ۹ برس کی تھی حیات القلوب میں بروئے چند حدیث معتبر حضرت صادق سے منقول ہے کہ جب زکریا کو یوحنا کی بشارت ہوئی تو زکریا کو شک ہوا کہ یہ آواز شیطان کی تھی اور پھر حضرت صادق سے منقول ہے کہ یحییٰ کو حضرت عیسیٰ نے مُردوں میں سے جلایا تھا اور حدیث حضرت رسول سے واضح ہے کہ جب حضرت عیسیٰ آسمان پر گئے اور شمعون کو اپنا جانشین کیا اور جب شمعون نبی مر گیا تو حضرت یحییٰ بن زکریا پیغمبر ہوئے اور مولف کتاب حیات القلوب لکھتا ہے کہ احادیث درباب یحییٰ بہت مختلف ہیں اور امام محمد باقر سے منقول ہے کہ جب یحییٰ پیدا ہوا تو اُس کو آسمان پر لے گئے اور بہشت کے تحفہ تحفہ غذا اُس کو کھلائی جاتی تھیں تو بہشت کیا ہے ہوٹل ہے۔

اے محبان دین محمدی دیکھو انجیل سے واضح ہے کہ زکریا تا تولد یوحنا گونگا رہا اور قرآن کی سورہ عمران میں لکھا ہے کہ زکریا صرف تین دن گونگا رہا اور سورہ مریم سے ظاہر ہے کہ زکریا تین رات گونگا رہا روایت و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زکریا کو جس وقت یوحنا کی خوشخبری دی گئی تو زکریا نے خیال کیا کہ یہ شیطان کی آواز ہے دوسرا کہتا ہے کہ یوحنا کوعیسیٰ نے مرُدوں میں سے جلایا تھا تیسرا لکھتا ہے کہ جس وقت حضرت مسیح آسمان پر گئے تو شمعون کو اپنا جانشین مقرر کیا اور جبکہ شمعون بھی مر گیا تو یوحنا پیدا ہو اور ایک راوی صاحب کی روایت سے واضح ہے کہ ان کو زکریا کی عمر کی بھی صحت نہیں ہوئی اور ایک لکھتا ہے کہ یوحنا کو بہشت میں تحفہ تحفہ غذائیں کھانے کو ملا کرتی تھیں اس موقعہ پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ تو کارزمیں رانیکو ساختی کہ بر آسمان نیز پرواختی۔

اے پیارے بھائیو قرآن کی آیات میں تو صرف رات و دن ہی کا فرق ہے لیکن حدیث و روایت میں تو آسمان و زمین کے قلابہ ملائے گئے ہیں اب آپ لوگوں سے یہ امر دریافت کیا جاتا ہے کہ یہ روایت سب صحیح ہیں یا کوئی غلط ہے اور منجملہ ان کےکیا مضمون کتب مقدسہ سے تحریف کئے گئے اور اس تحریف میں کیا فائدہ ہو سکتا ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے کہ حضرت عیسیٰ نے یوحنا کو مرُدوں میں سے جلایا تھا اے بھائیو یہ امر تمہارے ہی غور کے لایق ہے کہ مسیح کے چھ سو برس کے بعد تو محمد ہوئے اور قریب قریب سو ڈیڑہ سو برس کے بعد یہ تمہارے راوی پیدا ہوئے اور یہ امہ مسلمہ ہے کہ زمانہ محمدی سے قبل عام عرب بت پرست تھے تو پھر راویوں کو جو لکھتے ہیں بسند معتبر وہ سند کہاں سے حاصل ہوئی تمام مضمون سے واضح ہوتا ہے کہ جیسا مبالغہ بت پرست کرتے ہیں وہی طریقہ تمہاارے راوئیوں کا پایا جاتا ہے اس وجہ سے نہ قرآن منجانب اللہ ثابت ہوتا ہے اور نہ حدیث و روایت قابل اعتبار ہیں کیونکہ قرآن روایت و حدیث کے خلاف بیان کرتا ہے اور حدیث و راوی قرآن کے خلاف کہتے ہیں اور انجیل مقدس سے واضح ہے کہ حضرت مسیح اور یوحنا کاایک زمانہ تھا بلکہ مسیح نے یوحنا کے ہاتھ سے اصطباغ پایا اور مسیح کے عہد میں قتل کیا گیا۔

فصل نھمؔ دربیاَن عیسیٰ

توریت

مسیح کا زکر بموجب انجیل مقدس اس طرح طرھ سے ہے کہ زکریا کی بیوی الیزبست کے حاملہ ہونے کے چھٹے مہیںے جبرائیل فرشتہ مریم کے پاس ایا اور کہا اے پرُفضل تو ھاملہ ہو گی اور بیٹا جنے گی اُس کا نام عیسیٰ رکھنا اور وہ خدا کا بیٹا کہلائے گا ۔ مریم نے فرشتہ سے کہا کہ یہ کیونکر ہو گا کیونکہ میں مرد سے واقف نہیں ہوں۔ فرشتے نے کہا کہ روح القدس تجھ پر اوتریگی اور خدا تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا تجھپر سایہ ہو گا اس سبب سے وہ قدوس جو پیدا ہوگا خدا کا بیٹا کہلائیگا۔ پھر فرشتہ چلا گیا۔ اور مریم پہاڑوں پر بہوداکے شہر میں گئی اور زکریا کے گھر میں داخل ہو کر الیزبت زکریا کی بیوی کو سلام کیا تو الزبیت کے شکم میں یوحنا اُچھلا اور الیزبیت روح القدس سے بھر گئی اور کہا کہ یہ کیونکر ہوا کہ میرے خداوند کی ماں میرے گھر میں آئی پھر مریم تین مہیںہ تک وہاں رہی اور بعد اپنے مکان کو واپس آئی اور اپنے شوہر یوسف کے ساتھ نام لکھا نیکو یہودا کے بیت اللحم میں گئی اور وہاں خداوند مسیح کا تولد ہوا۔ پھریہودا اسکر یوتی گیارہویں شاگرد مسیح نے بہ طمع زر مسیح کو یہود کے ہاتھ میں گرفتار کروا دیا پھر پلا طوس حاکمنے مسیح کے صلیب کا ھکم دیا چنانچہ کلوری کے پہاڑ پر مسیح مصلوب ہوا اور یہود نے اُس کا ٹھٹھا کیا اور اُس کے پیراہن مبارک پر قرعہ ڈال کے آپس میں تقسیم کیا اور تیسرے روز مسیح پھر زندہ ہوا اور آسمان پر گیا اور پھر حسب وعدہ حواریوں پر روح القدس نازل ہوئی۔

قرآن

سورہ عمران کے ۴۵ آیت ۔ اللہ نے مریم کو اپنے حکم کی بشارت دی جس کا نام مسیح مریم کا بیتا ہے۔ سورہ مریم کے ۲ رکوع میں مریم نے کھجور کی جڑ میں عیسیٰ کو جنا اور عیسیٰ کی گود میں باتیں کرے گا اور پھر لکھا ہے کہ مریم کے بیٹے عیسیٰ نےاپنی ماں کی گود میں باتیں کر کے مریم کی صفائی کی اور سورہ عمران کے ۵ رکوع کی ۴۸ أیت میں مسیح نے مٹی کے جانور بنا کے زندہ کئے اور اُسی رکوع میں کہ فریب کیا اُن کافروں نے اور غریب کیا اللہ پر اور سورہ نسا کے ۲۲۔ رکوع میں مسیح کو صلیب نہیں دیا گیا اللہ نے دوسرا آدمی عیسیٰ کے بدلے میں صلیب پر بٹھایا تھا اُس کو صلیب دیا گیا۔ اور سورہ مائدہ کے ۱۰۔ رکوع میں بے شک کافر ہوئے جنہوں نے کہا مسیح وہی ہے خدا مریم کا بیٹا فقط۔

حدیث

حیات القلوب جلد اول علی بن ابراھیم سے روایت ہے کہ جبرائیل فرشتہ نے مریم کے گریبان میں پھونکا اُسی رات کو مریم حاملہ ہو گئی اور صبح حضرت عیسیٰ پیدا ہو گئے اور مولف کتاب حیات القلوب لکھتا ہے کہ شاید یحییٰ پیدا ہوا ہوا اور راویوں نے عیسیٰ کا شبہ کیا ہو یا یہ کہ مادہ حمل چھ۶ مہینہ پیشتر سے مریم کے شکم میں موجود ہو فرشتہ کے پھونکنے سے حمل ظاہر ہوا ہوا اور امام محمد باقر لکھتا ہے کہ جبرائیل فرشتہ نے مریم کے پیراہن میں پھونکا اور حضرت عیسیٰ امام حسین کی قبر کے پاس پیدا ہوئے تھے اور امام جعفر لکھتا ہے کہ ناصرت کے پاس ایک موضع ہے وہاں حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے تھے اور امام موسیٰ رضا سے روایت ہے کہ جبرائیل فرشتہ مریم کے واسطے بہشت سے فرما لایا تھا وہ مریم نے کھایا تھا جب حاملہ ہوتی تھی اور قطب راوندی بسند حضرت صادق روایت کرتا ہے کہ مریم کی عمر ۵۰۰ برس کی تھی جب حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے تھے مولف کتاب حیات القلوب لکھتا ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ مریم کی عمر ۵۰۰ برس کی تھی اور حدیث سے واضحہے کہ عیسیٰ چھ مہیںہ میں پیدا ہوا تھا اور حیات القلوب جلد اول کے ۶۹۱ صفحہ میں بہ حدیث موثق امام رضا سے منقول ہے کہ کسی پیغمبر کا مرنا مشتبہ نہیں ہے سوائے حضرت عیسیٰ کے کس واسطے کہ اُس کو زمین پر سے تو زندہ آسمان پر لے گئے مگر اُس کی روح کو زمین اور آسمان کے درمیان میں قبض کیا اور جو آسمان پر پہنچا تو حق تعالیٰ نے اُس کی روح کو پھر اُس کے بدن میں بھیجدیا چنانچہ حق تعالیٰ فرماتا ہے یہ آیت قرآن کی ہے۔

قصص الانبیاء کے بیان سنو۔ مریم ۔ ۱ یا ۱۳ بر کی تھی اُس وقت حاملہ ہوئی تھی اور اُس کی خبر جو زکریا نے سنی تو تعجب کیا پھر مریم جنگل میں نکل گئی اور شہر اٹلیا کہ جو چھ کوس بیت اللحم سے ہے وہاں جا کے عیسیٰ کو جنا اور وہاں چشمہ جاری ہو گیا اور عیسیٰ کی عمر یا تو ایک دن کی یا چالیس دن کی تھی جب اُسنے اپنی ماں کی گود میں باتیں کی تھیں اور عیسیٰ نے چار مرُدے جلائے تھے منجملہ اُن کے سام نوح کا بیٹا تھا جو چار ہزار برس کا مرُدہ تھا وہ زندہ ہو کر اُسی وقت مر گیا اور عیسیٰ آسمان سے کھا نا منگواتا تھا۔ اور ایک بھنی ہوئی مچھلی اور نمک و ترکاری وغیرہ آسمان سے آتے تھے اور عیسیٰ کی بددعا سے ۳۳ یا ۳۳۳ آدمی سئور بن گئے اور گندگی کھا کے تین روز بعد مر گئے اور عیسیٰ نے کہا کہ توریت منسوخ ہو گئی تو یہود نے عیسیٰ اور مریم کو گالیاں دیں اس قصور میں اللہ نے جو ان یہودیوں کو بند ر اور اُن کے بچوں کو بد جانور بنا دیا اس وجہ سے یہودی بہت ہی دشمن ہو گئے تو پھر حیلہ سازی سے عیسیٰ کو پکڑا اور تمام رات ایک گھر میں قید رکھا صبح کو سب دروازے پر جمع ہوئے اور اُنکا سردار اندر گیا تو وہاں عیسیٰ کو نہیں پایا وہ خود عیسیٰ کی صورت بنگیا جبکہ وہ باہر نکلا تو کہا کہ عیسیٰ گھر میں نہیں ہے تب سب نے اُس کو پکڑ ا اور کہا کہ توہی تو ہے اُس نے کہا کہ میں نہیں ہوں مگر یہود نے نہیں مانا اُس کو صلیب دیدیا پھر اپنے سردار کی تلاش میں مصروف ہوئے مگر کہیں نہیں پایا تو کہا کہ سردار مارا گیا اور عیسیٰ اوڑ گیا یا تو عیسیٰ کی جان خدا نے قبض کی اور سات گھنٹے کے بعد اُسے آسمان پر لے گیا یا عیسیٰ سو گیا تھا نیند میں خدا نے اُسے اُٹھا لیا یا بادل آیا اور اُسے لیگیا مگر جاتے وقت مریم عیسیٰ سے لپٹ گئی تھی پس وہ قیامت کی ملاقات کا وعدہ کر کے مریم کو چھوڑ گیا اور مسیح کی صورت آسمانی ہو گئی جسمانی نہیں رہی۔

اب محمدی صاحب خود فرمائیں کہ انجیل مقدس میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ نےماں کی گود میں باتیں کیں یا آکے مسیح نے مٹی کے جانور بنائے اور اپنی قدرت سے اُن کو زندہ کیا پس ظاہر ہے کہ محمد صاحب نے قرآن میں یہ دونوں باتیں غلط لکھی ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ نصاریٰ نے انجیل سے یہ باتیں علیحدہ کر دیں تو کیوں اس میں نصاریٰ کا کیا فائدہ ہے کہ ایسے اعلیٰ درجہ کے معجزے انجیل مقدس سے علیحدہ کر دیتے اور اس میں محمد کی بطلان نبوت کیونکر ہوتی اور پحر دوسرے موقعہ پر قران بتلاتا ہے کہ مسیح کو صلیب نہیں دیا گیا بلکہ دوسرے آدمی کی شکل اللہ نےمسیھ کی سی بنا دی تھی اے محمد ی بھائیو اس قول سے اللہ پر یہ الزام وارد ہوتا ہے کہ اللہ نے یہودیوں سے دغابازی کی دوسرے یہ کہ غیر شخص اللہ نے مسیح کے عیوض صلیب دلوا دیا یہ بات اُس کے انصاف سے خلاف ہے اور کیا ضرورت تھی کہ اللہ غیر شخص کو مسیح کے عیوض صلیب دلوا دے۔ اور پھر وہی قرآن کہتا ہے کے منجانب اللہ ہو سکتے ہیں اور اب روایت و حدیث کے اختلاف کو تم خود ملاحظہ کرو کہ سب کے سب مختلف البیان ا اور قرآن کو غلط قرار ہیں دیکھو حیات القلوب جلد اول صفحہ ۶۹۱ میں بحدیث موثق امام رضا منقول ہے کہ عیسیٰ کی روح زمین و آسمان کے درمیان قبض کی گئی اور اُسی موقع پر آیات قرآنی لکھی ہیں جو اس قول اس قول کو تصدیق کرتی ہیں پس فرماؤ کہ کیوں قرآن غلط نہیں ہے اور ایک لکھتا ہے کہ مسیح نے بددعا کر کے یہودیونکو سٔور اور بندر بنوا دیا تھا دوسرا لکھتا ہے کہ عیسیٰ تو گھنٹہ کے اندر پیدا ہو گیا حدیث سے واضح ہے کہ عیسیٰ چھ مہیںہ شکم اور میں رہا غرض کہ صدہا قصۂ طبعی لکھے ہیں افسوس ہے کہ تم قرآن اور حدیث کو نہیں دیکھتے اور یہود اور نصاریٰ پر محض جھوٹھا الزام تحریف کا لگاتے ہوا اے پیارو اس خیال کو چھوڑو دو کہ تمکو بہشت میں حوریں اور شیرو شہد کی ندیاں ملیں گی ذرا کتب سماوی کو دیکھو کہ کس طرح نجات مل سکتی ہے ۔

دیکھو اور دریافت کرو کہ مسیحکے مصلوب ہونے کے اُول یہودی خود مقر ہیں دوسرے یہ کہ حضرت دا‍ؤد نے صدہا سال پیشتر مسیح کے مصلوب ہونے اور تکلیف اُٹھانے کی خبر دی۔ دیکھو ۲ زبور میں لکھا ہے کہ مسیح کے برخلاف مشورہ کرتے ہیںکہ اُسے پکڑ کے مار ڈالیں اور پھر ۲۲ زبور میں لکھا ہے کہ مسیح مصلوب ہو گا اور اُس کے ہاتھ ع پیروں میں سوراخ کئے جائینگے اور اُس کے پیراہن مبارک کو آپس میں تقسیم کریں گے اور پھر ۴۵ زبور میں لکھا ہے کہ صلیب پر یہود حضرت مسیح کو سر کہ پلائینگے اور پھر انجیل میں مفصل حال لکھا ہے ۔ اِن نوشتوں کے موافق مسیح مصلوب ہوا ہے یہ تمہاری روایت و حدیث و قرآن نہیں ہے کہ جس میں اختلاف ہو۔ اور یسعیاہ نبی کے ۵۳ باب کو دیکھو مسیح کا تکلیف پانا اور مسلوب ہونا کیسا مفصل اور مشرح لکھا ہے۔

فصل دھم در ثبوت تثلیث

توریت

اس میں کچھ بھی شبہ نہیں ہے کہ مسیحی تثلیث فی التوحید و تو حید فی التثلیث مانتے ہیں۔

قرآن

قران کی سورہ توبہ کے ۵ رکوع میں یہ لکھا ہے کہ یہودی آزر بُت پرست کو اللہ کا بیٹا ٹھہراتے ہیں اور نصاریٰ نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے اور سورہ مائدہ کے رکوع ۱۰ کی ۷۷ آیت کا یہ مضمون ہے کہ بے شک کا فر ہوئے جنہوں نے کہا اللہ ہے تین میں کا ایک اور کچھ نہیں مسیح مریم کا بیٹا مگر ایک رسول ہے۔

اس موقعہ پر پھر قرآن ؔ توریت ؔ اور انجیل ؔ کے کلاف ہے اوع غلط قرار دیتا ہے مگر خود غلط توریت و انجیل میں کسی موقعہ پر یہ زکر نہیں ہوا کہ آزر بُت پرست خدا ہے اور پھر وہی قران انجیل کو تصدیق کرتا ہے۔ چنانچہ سورہ مائدہ کے رکوع ۱۱ میں لکھا ہے کہ تو پاوے گا سب سے زیادہ نزدیک محبت والوں میں۔ مسلمانوں کے وے لوگ جو نصاریِ ہیں کیونکہ اُس میں عالم اور درویش ہیں۔ اور اوپر لینے سورہ مائدہ کے ۱۰ رکوع میں لکھا ہے کہ تثلیث کے پا نے والے کافر ہیں اور وہی قران تثلیث کو تسلیم کرتا ہے چنانچہ سورہ عمران کے رکوع۴ میں لکھا ہے کہ فرشتوں نے زکریا سے کہا کہ اﷲ مجحکو خوشخبری دیتا ہے۔ یحییٰ ؔ کی جو گواہی دیگا اللہ کے ایک حکم کی اورمُی سورہ کے رکوع ۵ میں لکھا ہے کہ اے مریم تجھکواللہ بشارت دیتا ہے ایک اپنے حکم کی جس کا نام مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا۔ اور پھر سورہ بقر کے ۱۱ رکوع میں۔ وہی ہمنے موسیٰ کو کتاب اور پے درپے بھیجے اُس کے پیچھے رسول اور دیا عیسیٰ مریم کے بیٹے کو معجزہ صریح اور قوت دی اُس کو روح پاک سے پھر سورہ نسا کے رکوع ۳۳ میں لکھا ہے کہ مسیح جو ہے عیسیٰ مریم کا بیٹا رسول ہے اللہ کا اور اُس کا کلام جو ڈال دیا مریم کی طرف اور روح ہے اُس کی یہاں کی اور سورہ مائدہ کے رکوع ۱۵ میں اور جب کہیگا اللہ اے مریم کے بیٹے یاد کر میرا احسان اپنے اور اپنی ماں پر جب مدد دی تجھکو روح پاک سے تو کلام کرتا تھا لوگوں سے ماں کی گود میں۔ اے ناظرین ایات صدر اخز کر میں اگرچہ محمد نے مسیح کو ہر مقام پر مریم کا بیٹا کہا ہے لیکن معنے کلام کو مطلق نہیں سمجھا اور تثلیث کو تسلیم کر لیا چناچہ سورہ عمران رکوع ۴،۵ میں مسیح کو اللہ کا حکم لکھا ہے اور سورہ نساء کے ۳۳ رکوع اور سورہ مائدہ کے ۱۵ رکوع میں روح پاک سے زور دنیا لکھا ہے۔ پس قرآن سے یہ ثابت ہو گیا کہ مسیح کیا ہے یعنے کلام اورخدا اور روح پاک بھی اُس کو دیا گیا تو پھر کیوں خؔدا و کلامؔ و پا ک روحؔ نہیں ہے۔ اور اگر محمدی صاحب یہ کہیں کہ اللہ ایک ہے اور پاک اور وہ کسی سے پیدا نہیں ہے یہ اُسکی صفات ہیں اور چوتھا فقرہ جو یہ کہتے ہیں کہ اُس سے کوئی پیدا نہیں ہے یہ غلط ہے۔ اگر خداوند اپنے میں سے کچھ پیدا نہیں کر سکتا تو وہ قادر نہیں ہو سکتا اور جبکہ مسیح کو اپنا کلام کہتا ہے تو واضح ہے کہ کلام بغیر متکلم کے نہیں ہو سکتا تو ظاہر ہے کہ کلام اللہ میں سے پیدا ہوا تو پھر صفت لم ؔ یولد کی معدوم ہو گئی پس ظاہر ہے۔ ( کہ قُل ھوُ اللہ احداللہالصمد ولم یلدولم یولد) خدا کاکلام نہیں ہے بلکہ محمد کا قول ہے کہ اللہ کو مجسم قرار دیتا ہے اور لم یولد کے معنے یہ بناتا ہے کہ اگر اللہ سے کوئی پیدا ہو تو توبہ توبہ اللہ جورو والا ٹھہریگا اور محمدی اگر قرآن کے اس مقولہ کو صحیح کہتے ہیں تو بتلائیں کہ خدا کیا وکلام کیا اور روح پاک کیا ہے اور ایسا تو ہند و بھی کہتے ہیں ( نرنجن نراکار جوتی سروپ ہے) اگر وہ نہیں دیکھتا اور نہ اُس کا نسان تو پھر جوتی سروپ کیونکہ ہو سکتا ہے۔

اللہ احداللہالصمد ولم یلدولم یولد) خدا کاکلام نہیں ہے بلکہ محمد کا قول ہے کہ اللہ کو مجسم قرار دیتا ہے اور لم یولد کے معنے یہ بناتا ہے کہ اگر اللہ سے کوئی پیدا ہو تو توبہ توبہ اللہ جورو والا ٹھہریگا اور محمدی اگر قرآن کے اس مقولہ کو صحیح کہتے ہیں تو بتلائیں کہ خدا کیا وکلام کیا اور روح پاک کیا ہے اور ایسا تو ہند و بھی کہتے ہیں ( نرنجن نراکار جوتی سروپ ہے) اگر وہ نہیں دیکھتا اور نہ اُس کا نسان تو پھر جوتی سروپ کیونکہ ہو سکتا ہے۔

کیونکہ جوتی سروپ کے معنے ہیں پاکیزہ روشنی ہے تو روشنی میں دونوں صفات ہیں یعنے نظر بھی آتی ہے اور اور فشاں بھی معلوم ہوتا ہے پس اگر نرنجن تراکار ہے تو جاتی سروپ نہیں ہو سکتا اور جو جوتی سروپ ہے تو نرنجن نرا کار نہیں اور یہ بھی صفات ہیں کہ نہیں دیکھتا اور نہ اُس کا نشان ہے اور پاکیزہ روشنی ہے۔ اور پھر قرآن کے سورہ عمران کے رکوع ۶- ۵۸ آیت کا یہ مضمون ہے کہ عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک ایسے جیسے مثال آدم کی بنایا اُسکو مٹی سے اور پھر اُسکو ہو جادہ ہو گیا۔

اے ناظرین حسب آیات قرآنی یہ بات ثابت ہو گئی کہ مسیح کلام اللہ ہے اور روح پاک بھی اُس کو دیا گیا تو تین بات قرار پائیں یعنے ( خدا) (کلمہ) ( روح پاک) اور یہ تینوں ایک ہیں کیونکر کلام تکلم سے جدا نہین ہو سکتا اور روح قوت کلام ہے تو تثلیث فی التوحید ق توحید فی التوحید فی التثلیث قرآن سے بھی ثابت ہے۔ علاوہ ازیں خدا کو آفرینش آدم سے اس وقت تک کسی نے نہیں دیکھا اور وہ آپ ہی آیا اورکلام سے ظاہر ہوا اوراپنے آپ کو خدا کہا پس یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ خدا کلام ہے جو شروع میں آدم اور بعد اُس کے انبیاء اورہم کو پہنچا ہے اور یہی عقیدہ نصاریٰ ونیز دیگر اہل کتاب کا ہے چنانچہ آدم کو پیدا کرکے خدا نے کہا کہ درخت ممنوعہ سے نہ کھانا اور پھر پیدائش کے ایک باب کی ۲۹ آیت میں خدا نے آدم سے کہا کہ کیا تونے اُس درخت سے جس کو میں نے منع کیا تھا کھایا اس سے اُس کی وحدانیت ثابت ہے۔

اورپھر پیدائش کے باب کی ۲۶آیت میں جو خدا کہتاہے کہ ہم آدم کو اپنی صورت اورمانند بنائیں اورپھر پیدائش کے ۳باب کی ۲۲آیت میں خدا کہتاہے کہ دیکھو آدم نیکی او ر بدی کی شناخت میں ہم میں سے ایک کی مانند ہوگیا اس سے واضح ہے کہ اللہ میں تین اقنوم ہیں توپھر مسیحی اگر تثلیث فی التوحید وتوحید فی تثلیث مانتے ہیں توکیا گناہ کرتے ہیں مسیحی کا یہ عقیدہ بروئے کتب سماوی ہے کہ مسیح میں خدائیت اور آدمیت دونوں یعنی جسم مثل آدمیوں کے تھا مگر وہ کلام خدا جو اُس میں تھا وہ خدا تھا چنانچہ اس کا ذکر واضح طورپر کیا گیا ہے اور مسیحیوں کا بموجب کتب سماوی یہ عقیدہ سچا ہے کہ اللہ جل شانہ نے اولاد آدم کی نجات کے واسطے اپنی قدرت کا ملہ سے وہ کلام جو خدا کے ساتھ ہے قالب انسان میں ظاہر کیا اُس کی مثال یہ ہے کہ جب آفتاب کی طرف دیکھا جاتاہے تواُس کی کرنیں ہم تک برابر پہنچتی ہیں اورہم کو بھی بخوبی نظر آتی ہیں مگر ہم اُن کی گرفت نہیں کرسکتے اورنہ آفتاب سے علیحدہٰ ہیں پس یہی صورت اللہ کی مسیح کے ساتھ ہے اوردیکھو انجیل میں جس وقت اللہ نے مریم کو مسیح کی بشارت دی توفرشتہ نے مریم سے کہا کہ یہ مبارک جوتجھ سے پیدا ہوگا خدا کا بیٹا کہلائے گا۔ اوراُس کی تصدیق حضرت داؤد مسیح کے صدہا سال پیشتر فرماتے ہیں دیکھو دوسرے زبور میں یہ لکھا ہے کہ خداوند نے مجھ سے کہا کہ تو میرا بیٹا ہے میں نے تجھ کو مولود کیا اور زمین کے بادشاہ سامنا کرتے ہیں اور سردار متفق ہوکر خداوند اوراُس کے مسیح کے خلاف مشورہ کرتے ہیں اپناحکم ظاہر کرونگا اور ۱۱۰ زبور میں حضرت داؤد مسیح کی نسبت لکھتا ہے کہ خداوند نے میرے خداوند سے کہا کہ تومیرے داہنے ہاتھ بیٹھ۔

میرے پیارے مسلمان بھائیوں یہ منقول ہے جس کی تصدیق انبیائے بنی اسرائیل کرتے ہیں مسیحی توبہ توبہ ہرگز یہ نہیں کہتے کہ مسیح بطور جسمانی خدا کا بیٹا ہے۔ یا نعوذ باللہ بی بی مریم خدا کی جورو تھی یہ تمہارے راویوں کی مختلف روایات وعقیدہ ہیں جو اللہ کو ایسا خیال کرتے ہیں ہم نے بہت سے مسلمانوں سے تحقیق سنا ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ محمد کا سایہ نہیں تھا ا س وجہ سے کہ محمد پر سایہ خدا کا تھا اورسایہ کے سایہ نہیں ہوتا توظاہر ہے کہ تم خدا کو مجسم مانتے ہو اور اُس کا ثبوت یہ دیتے ہو کہ محمد کے سایہ نہیں تھا توظاہر ہے کہ خدا کے سایہ ہے اور وہ سایہ محمد تھا ضرور اللہ مجسم ہے اورکچھ روایات پر ہی منحصر نہیں ہے خاص قرآن میں ہے اللہ کی نسبت اکثر مقامات پر وہ کلمات وارد ہوئے ہیں جو کسی کتب سماوی میں نہیں دیکھے جاتے ۔ چنانچہ برائے نمونہ اس موقعہ پر بھی بیان کیا جاتاہے۔ دیکھو سورہ آل عمران کے ۵ رکوع کی ۵۳آیت میں قرآن اللہ کو فریبی کہتاہے اور وہ فریب کس کے مقابلہ میں انسان کے اس صفات کے خدا کو اہل کتاب خدا نہیں کہہ سکتے ہیں جو دغا باز اور فریبی ہو۔ اے ناظرین قرآن اللہ کو فریبی کہتاہے۔ مگر حیات القلوب میں امام رضا اللہ کو جھوٹا بتاتا ہے اس کا یہ مضمون ہے کہ امام رضا سے پوچھا کہ ایسا ممکن ہے کہ خدا کسی پیغمبر کو کچھ خبر دے اورپھر وہ نہ ہو۔ جواب دیا کہ ممکن ہے۔ اور واضح رہے کہ قرآن میں اگرچہ روح القدس برائے نام لکھی مگر کسی مسلمان راوی سے اُس کی صحت نہیں ہوئی ہے چونکہ روح القدس تثلیث کا تیسرا کلمہ ہے لہذا اس مقام پر اُس کا ذکر کرنا امر لازمی ہے دیکھو حیات القلوب فارسی جلد دوم ۶۱۹ صفحہ میں یہ لکھا ہے کہ روح القدس ایک روح ہے جو خدا نے پیدا کرکے اور عیسیٰ میں پھونکی تھی اور بعض کہتے ہیں کہ روح القدس جبرائیل سے مراد ہے اور بعض کا قول ہے کہ روح القدس اسم اعظم ہے اور حدیث سے واضح ہے کہ روح القدس ایک خلقت ہے بزرگتر از جبرائیل ومیکائیل اور تمام فرشتوں سے آئی۔ برداران اسلام اب آپ فرمائیں کہ کس کا قول صحیح ہے اور دوسری حدیث یہ ہے کہ محمد نے جبرائیل فرشتہ سے دریافت کیاکہ تو وحی کہاں سے لاتاہے (سوال تواچھا ہے) جواب دیا کہ اسرافیل سے پھر دریافت کیاکہ اسرافیل کہاں سے لاتاہے جواب دیا کہ عالم ارواح سے پھر دریافت کیاکہ عالم ارواح کہا ہے جواب دیاکہ وہ سب سے بالاتر ہے۔

معزز قارئین قصہ تمام ہوگیایعنی محمد کے پاس جبرائیل وحی لایا کرتا تھا اورجو جبرائیل کہتا تھا وہی محمد کو معلوم ہوتا تھا اور عالم ارواح کا حال جبرائیل کوخود بھی معلوم نہیں تھا تومحمد کو کیا بتلاتا اورمحمد صاحب ہماری روح القدس کوکیا بتاتے علی ہذا لقیاس بیچارے امام او رراوی روح القدس کو کیا سمجھتے۔ مگر غنیمت ہے کہ اُنہوں نے اپنے قیاسات سے کچھ لکھ تو دیاہے۔


۱. نوٹ: محمدی کہتے ہیں کہ نور محمد سے ایک گوہر بنایا اُس سے زمین و آسمان بنائے۔ ہندو کہتے ہیں انڈے میں برہما نے پرمیشر کا جپ کیا اور انڈا دو ٹکڑے ہوا۔ نصف سے آسمان اور نصف سے زمین بنائی گئی۔ اب ناظرین غور فرماویں کہ محمد اور ہنود میں کیا فرق ہے چونکہ تمام عرب بت پرست تھے اس وجہ سے ہنود کے مسئلہ کو محمد پر سادق کرلیا ہے

۲. نوٹ۔ اے ناظرین جس وقت تمام مخلوقات کو اﷲ نے پیدا کیا تھا تو یہ دو جانور یعنے خوک اور گرُبہ پیدا نہیں ہوئے تھے حسب ضرورت اﷲ نے اُنکوکشتی میں پیدا کیا اور چونکہ محمدی مذہب میں فیل حرام ہے اور سور اُس سے پیدا کیا گیا لہذا وہ بھی حرام کر دیا گیا اور اعلیٰ ہذا القیاس شیر بھی حرام ہے تو بلیّ بھی حرام ہوئی مگر حنفی مذہب بلی کو حلال کہتے ہیں یہ بھی ایک مثلہ ہے۔

۳. نوٹ۔ اے ناظرین تفصیل توراوی صاحب نے خوب لکھی مگر دو بات راوی صاحب بھول گئے اوّل یہ کہ عوج کی تاریخ تولید نہیں لکھی گئی دوسرے یہ کہ تعداد قد ک قدیم کر دی فقط۔اے برادران دین محمدی تمہارے لوی تو ہنود سے بھی بڑھ گئے مگر ہاںایسا ہونا چاہئے کیونکہ محمد کے آباو اجداد بھی تو وہی بت پرست تھے تو خلقی بات کیونکر جا سکتی ہے اگر کوئی محمدایضا ہمارا بیان غلط یا مبالغہ تصور کریں تو اپنی کتابیں جنکا ذکر ہم کرچکے ہیں مطالعہ کریں۔

۴. نوٹ ہم نے یوسف کے زکر کے متعلق اس آخری حصہ کو درج کرنا چھوڑ دیا تھا اس خیال سے کہ شاید راقم مضمون نے حیات القلوب کی اس روایت کے حوالے میں غلطی نہ کھائی ہو۔ اب ہم نے اس روایت کی نسبت تحقیق کر لی ہے جو کتاب حیات القلوب حصہ اول جلد دوم کے صفحہ ۵۴۱ میں پائی جاتی ہے اور معہ اُن نتایج کے جو کہ صاحب مضمون نے نکالے درج کرتے ہیں۔ ایڈیٹر