Woman and Pigeons in Istanbul

بیش قیمت لہُو

کیدارناتھ

Precious blood


Published in Nur-i-Afshan November 29, 1895
By
Kidarnath


۱۔ پطرس ۱: ۱۸

کیونکہ  تم یہ جانتے ہوکہ وہ خلاصی  جو تم نے پائی  اُن  بیہودہ دستوروں سے جو تمہارے  باپ داداوں کی طرف  سے چلے آئے تھے سو فانی  چیزوں  یعنے سونے روپے  کے سبب نہیں بلکہ مسیح کے بیش قیمت لہوُ  کے سبب سے ہوئی۔ اس آیت میں روح القدس سے الہام   پاکے  ہمارے خداوند یسوع مسیح  کا ( جو سب کا خدا ہمیشہ مبارک ہے آمین) عسول  پطرس  حواری  ہمارے سامنے دو چیزیں رکھدیتا ہے تاکہ  ہم  بڑے غور و فکر سے اُن  کی قیمت دریافت  کریں اور اپنے لئے اُس سے  ممتدبہ فائدہ حاصل کریں۔

پہلی چیز وہ ہے جو دہات سے علاقہ رکھتی ہے جہانتک  مجھکو معلوم ہے دہات  میں زیل چیزیں سب شامل ہیں۔ پوہا۔ سیسہ۔ تانبا۔ چاندی۔ پارہ ۔ سونا ۔ وغیرہ۔

اِن اشیاء کی قیمت  انسانوں نے اُنکی کثرت  اور قلت اور حسب ضرورت ٹھہرائی ہے۔ خدا کی طرف کوئی فہرست ان کی قیمت کی موصول نہیں ہوئی۔

دیکھئے لوہا بکثرت زمین سے نکلتا ہے اور  ہر ایک کام میں اُس کی خاص ضرورت  ہوتی ہے۔ پس اُس کی قیمت بھی  بہت کم ہے کم سے کم    تلے رفی سن اس کی قیمت ہے۔

تانبا بہ نسبت چاندی کے زیادہ دستیاب ہوتا ہےاور چاندی بہ نسبت سونے کے لہذا ان کی قیمت بھی اسی حیثیت سے ٹھہرائی گئی ہے۔

اِبتدا میں خرید و فروخت دادوستد میں پڑی  دقت تھی ایک چیز دوسری  چیز  کے معاوضہ میں مل سکتی تھی مثلاً بڑھی اگر گیہوں خریدنا چاہے تو اب کے حساب  سے ۱۲  سبر گیہوں کے واسطے  ایک روپیہ  کی قیمت کی چار پائی  کے عوض  میں لے سکتا  علیٰ ہذا القیاس۔

جیوں جیوں دنُیا بڑھی عقل بھی زیادہ ہوتی گئی  داناؤں نے رفتہ رفتہ سکہ  کا خیال پیدا کیا۔

معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں تانبے اور چاندی اور سونے کے سکہ بہت بھاری ٹکڑوںسے بنائے جاتے تھے جیسا کی نوابی پیسوں اور قدیم قدیم بعض روپیوں سےمعلوم ہوتا ہے لیکن جب عقل اور بڑھی تب اس میں خوبصورتی پیدا ہو گئی  یہاں تک کہ اگر قدیمی  روپیہ دس گوٹ میں رکھنا مشکل تھا تو اب پچاس روپیہ بسہولیت  تمام رکھے جاتے ہیں۔

اس کی قیمت بھی مختلف  ولایتوں میں مختلف  طور سے مقرر ہوئی مثلاً  آج کل  جو روپیہ  ہندوستان میں جاری ہے۔ اُس کی قیمت  ۱۶ آنہ  ہے مگر امریکہ  کا روپیہ  ہمارے تین روپیہ کے بر ابر ہے۔ اور  ہندوستانی میں دوپہر  کے بادشاہ  نظام سقہ کے چمڑے  کے سکہ اور گورنمنٹ کے جاری کے ہوئے نوٹ  مختلف  اقسام ہمارے اس خیال کو اور بھی زیادہ بڑھا دیتے  ہیں کہ ہر چیز کی قیمت  ہمارے ہی خیال پر موقوف ہے۔  

اب ہم اُس سونے روپے کے فائدہ پر غور کریں گے۔  اس سے بہت  فائدہ  ہے لین دین میں بڑی آسانی  ہے قسمقسم کے زیور اس سے طیار ہو سکتے ہیں جس سے ہماری  ہندوستانی  مستورات اپنے ظاہری حسن پر ایک قسم کا ملمع کر سکتی ہیں اس کی بدولت لکھ پتی  کروڑ پتی  بیٹھ سا ہوکار بن جاتے ہی ہر ایک چیز کی بدولت دیتیاب ہو سکتی ہے انسان اس دنیا میں روپے کی بدولت جو چاہے کر سکتا ہے بعض نے تو اُسکو بہت  سر چڑا لیا جیسا ایک فارسی والا کہتا ہے      

؎      اے زر  تو خدا نہ ؤ  لیکن بخدا  ستار عیوب و قاضی  الحاجاتی اور اُردو میں ایک صرب  المثل ہےکہ روپیہ آسمان  پر راہ پیدا کرتا ہے۔ مگر جب انسان ۹۹ کے پھیر میں پڑ جاتا ہے  تو اسی روپے  کی بدولت  روتوں کو نیند نہیں آتی چو رگھر گھیرے  رہتے ہیں معصوم بچّے اسی کی بدولت  آئے  سال مارے جاتے ہیں بہتیری  جانیں اس دولت  کی  بدولت   ڈاکؤں لٹیروں کے نزر ہوتی ہیں اور اگر کسی نہ کسی صورت  سے مرتے  دم تک یہ دولت ساتھ بھی رہی تو آخر کار  بصد حسرت و یاس چھوڑنی پڑتی  ہے وارث  پہلے اس کی فکر کرتے ہیں حالت  شرع میں جب کہ ایک سانس آتی  اور وہ جاتی ہیں اُس وقت گھر کے مالک بھائی بند ماں باپ  جورو بال بچہ خزانوں کے نالوں میں کنجیاں لگاتے پھرتے  ہیں کبھی کبھی بڑے بڑے دولتمند وں کی موت کے وقت سرکاری پہرہ بھی مقرر ہوتے دیکھے گئے ہیں۔

اور اگر اس سونے روُپے سے بہت محبت بڑھ گئی یا عیاش رنڈی  بازی لونڈے بازی صرف بیجا بھی کیا تو لیجئےلینے کے دینے  پڑ گئے ادھر دنیا چھوٹی اُدھر جہنم واصل ہت تیرا بیُرا سونے کا کیسا ضیق میں ڈالا۔

پس وہ لوگ کیسے نادان ہیں جو اُس سونے روپے کی بدولت  خدا سے بہشت خریدنے  کا سودا سر  میں رکھتے ہیں۔

بھائیو جب کہ ہندوستان کا روپیہ  انگلستان میں نہین چل سکتا تو یہ آسمان کی بادشاہت میں کس طرح رواج پا سکتا ہے۔

لہذا س کی قیمت دمڑی  کے برابر بھی نہیں یہ تو محض نکمِی  چیز ہے نہ یہ ساتھ رہے نہ ساتھ جائے جیسا لکھنو کے نہایت نامی گرامی شاعر نے کہا کے۔

ناسخ۔ رہتی نہیں ایک جا یہ  تکبر۔ پھرتی ہے برنگ  نر و گھر گھر۔

اب ہم دوسری چیز یعنی مسیح کے بیش قیمت لہو کی قیمت پر غور کریں۔

خدا کا رسول پطرس ہم سے کہتا ہے کہ یہ لہو بیش قیمت  ہے جس کا مطلب  شاید کیا بلکہ یقیناً  بھی ہے کہ جو قیمت ہم اس کی لگا دیں اُس سے زیادہ ہے۔ مثلاً ہزار روپیہ  نہین کچھ اور بڑھاؤ۔  ۱۰ ہزار نہین اور بڑھاؤ کروڑ روپیہ  نہیں کچھ اور بڑھاؤ۔ ساری دنیا نہیں کچھ اور بڑھاؤ۔ کل سیاہ اور ثوابت نہین کچھ اور بڑھاؤ۔

حقیقت میں جب ایک چیز ایسی  ہے کہ جسکی بابت ہر ایک قیمت پر جو کم کہیں کچھ بڑھانا پڑے تو ضرور وہ بیش قیمت ہے۔ 

لیکن  یہ ثابت  کرتا ہے کہ مسیح کا لہو کن دلایل  سے بیش قیمت ہے اُس کے جواب میں اگرچہ بہتری دلیلیں ہمارے پاس ہیں اور سوچتے وقت خیال کا سلسلہ روکنا نہایت مشکل لمعلوم ہوتا ہے تو بھی بہ نظر  اختصار  صرف زیل کی دو دلیلیں  پیش کرنا کا فی  ہونگی۔

دلیل اول جو مسیح کی شخصیت  سے نکلتی ہے۔ خدا کےکلام واضح ہوتا ہے کہ خداوند  یسوع مسیح میں دو  ذائیں ہیں ایک زات انسانی۔ یعنی جسم اور روح اور انسانی کل اوصاف صرف گناہ کو چھوڑ کر۔ اس لئے کہ وہ گناہ سے واقف نہ تھا۔ سوال لازم آتا ہے۔ 

کہ انسان کی قیمت کیا ہے؟

ہر ایک دیدنی دوسری نادیدنی  ایک فانی دوسری غیر فانی  ایک مادّی دوسری غیر مادّی۔

خداوند یسوع مسیح نے فرمایا کہ انسان اگر ساری دنیا کو حاصل کرے اور اپنی جان کو کھودے تو اُسے کیا فائدہ کیونکہ وہ اپنی جان کے بدلے  میں کیا دیگا۔ یہاں خداوند یسوع مسیح  ہمکو یہ بتلاتا ہے کہ جان کھو دینے  پر بھی ساری دنیا حاصل کرنے میں ٹوٹا ہے تو وہی چیز جو ٹوٹے کا سبب ہے جان کاکافی معاوضہ نہیں ہو سکتی۔

پس خود  ہماری جان کی قیمت اس دنیا کی ساری چیزوں سے بدر جہاز بڑھکر ہے۔ 

لیکن تو بھی ایک انسان جان کی قیمت دوسرا کی جان کے  بر ابر ہے اس میں  بچّہ بر ابر ہے جوان کے اور جوان برابر ہے بوڑھے کے اور نہ  اس میں تذکیر و  تانیث کا کوئی فرق ہے پھرؔ باوجود اس کے ہماری انسانیت میں گناہ کی  پچرّ لگی رہی ہے۔  یعنے ہر ایک انسان گنہگار ہے کوئی نیکوکار  نہیں ایک بھی نہیں پس اس دلیل سے بھی مسیح کی انسانیت ہماری انسانیت سے بڑھ جاتی ہے چونکہ ہم نئ دعویٰ کیا کہ مسیح خداوند  کی شخصی  دلیل اُس کے لہُو  کی قیمت کو بڑھا دیتی ہے تو اب ہم ثابت  کرتے ہیں کہ اُس میں یعنے  خداوند یسوع مسیح میں دو زاتیں کیونکر ثابت ہوتی ہیں  خدا کے کلام پر بغور مطالعہ کرنیسے  یہ طاہر ہوتا ہے کہ مسیح کی الہیٰ ذات بیان کرتے ہوئے کبھی کبھی انسانی ذات کا بیان کرتے ہوئے کبھی کبھی الہیٰ صفات یا کام مسیح سے متعلق ہوتے  ہیں دیکھئے اعمال ۲۰: ۲۸ پس اپنی اور اُس سارے  گلے کی خبر داری کرو جس پر روح قدس نے تمہیں نگہبان ٹھہرا کر خدا کی کلیسیا  جسے اُس نے اپنے  ہی  لہُو سے مول کیا چراؤ۔

یہاں خدا کے حق میں خون کا لفظ  استعمال کیا گیا پر ہم جانتے ہیں کہ خدا     روح  کو جسم یا ہڈی نہیں تب خون کہاں سے آیا لیکن یہ کہ یہ لفظ ایک ایسے کے حق میں مستعمل  ہوا جو در حقیقت انسان ہے جس  کو ہمارے ہاتھوں نے چھوُا اور آنکھوں نے دیکھا۔ پھر

ا قرنتی ۲: ۸  جسے اس جہان کے سرداروں میں کسی نے نہ جانا کیونکہ اگر جانتے تو جلال  کے خداوند  کو مصلوب  نکرتے۔ اس آیت میں پولوس رسول خدا سے الہام پا کے خداوند کے حق میں مصلوب کرنے کا لفظ استعمال کرتا ہے جو بالکل غیر ممکن اور خلاف عقل  ہے بھلا کوئی خدا کو مصلوب کر سکتا ہے۔ لیکن یہ ہے وہ جو مصلوب ہوا الہیٰ شخص ہے۔

پھر ملاحظہ فرمائے یوحنا ۳: ۱۳ اور کوئی آسمان پر نہیں کیا سوا اُس شخص کے جو آسمان پر سے اُترا یعنی ابن آدم جو آسمان پر ہے یا د رکھنا چاہئے کہ اگر مینے غلطی نکی ہو تو ہمارے نجات دہندہ نے جو ازل سے بنی آدم کا خیر خواہ  اُن کا  مہربان دوست ہے اپنے آپکو ۶۰ مرتبہ اس نام سے ظاہر  کیا بلکہ جب اپنے شاگردوں پر یہ بھید طاہر  کرنا چاہتا تھا کہ اصل حقیقت  اُس کی کیا ہے یعنے کہ وہ خدا کا بیٹا ہو کر خدا کے برابر اور اُس کی زات میں شریک ہے اُس وقت اُس نے نام کے ساتھ اس طرح اُن سے سوال کیا کہ لوگ کہا کہتے ہیں کہ میں جو ابن آدم  ہوں  کون ہوں متی ۱۶: ۱۳ مرقس ۸: ۲۷ لوقا ۹: ۱۸۔

غرض اس سے خداوند کی یہی معلوم ہوتی ہےکہ انسان مشکل سے اس امر پر یقین کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ جو لا محدود ہے۔ کس طرح انسان بن سکتا ہے اور پولوس رسول اس کی دینداری کا بھید بتلاتا ہے دیکھو۔ ا۔تمطاؤس  ۳: ۱۶ اور بلاتفاق دینداری  کا بھید بڑا ہے  یعنے خدا ( یا وہ) جسم میں ظاہر کیا گیا۔ 

اور اُس نے چاہا کہ وہ اس خیال کو کہ خداوند  یسوع مسیح جو زات واحد الہیت دوسرا اقنوم ہے بحیثیت خداوند ی انسانی جسم میں ظاہر ہوا اور وہ فضل و راستی سے بھرپور ہو کے ہمارے درمیان رہا۔ یوحنا ۱: ۱۴۔

اپنے شاگردوں کے الواح دل پر  کا لنقش فی الحجر کر دے۔  اور اُسی کے ساتھ اُس نے یہ بھی بتا دی ا کہ کس طرح سے کمزور نادان انسان اس امر پر یقین کر سکتا ہے چنانچہ جب  شمعون پطرس نے جواب میں کہا تو مسیح زندہ خدا کا بیٹا ہے متی ۱۶: ۱۶ یسوع نے جواب میں اُسے کہا اے شمعون بریونس مبارک تو کیونکہ جسم اور خون نے نہیں بلکہ میرے باپ نے جو آسمان  پر ہے تجھ  پر یہ ظاہر کیا  متی ۱۶: ۱۷ یعنے یہ کہ خدا آپ ہی انسان کے دل میں یہ کام کرتا ہے۔  ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ

اب انصاف سے ملاحظہ فرمائے کہ کوئی شخص جو محض ابن آدم ہو کیونکر  ای ہی وقت میں دو مختلف مقامات میں موجود ہو سکتا ہے دیکھئے جبکہ ابن آدم یہودیوں سے یہ کلام کر رہا تھا وہاں موجود تھا اور اْسی لمحہ آسمان پر بھی یہاں تو کسی منکر الوہیت  مسیح کی کوئی تاویل بھی پیش نہین جا سکتی ہے پس معلوم ہوا کہ وہ جو ابن آدم یعنے انسان ہو کے خدائی صفت  رکھتا ہے یعنے  ایک  ہی وقت میں دو مختلف  مقاموں پر موجود ہے وہ الہیٰ شخص ہے۔ پھر دیکھو یوحنا ۶: ۶۲ پس اگر تم ابن آدم کو اوپر جاتے جہاں وہ آگے تھا دیکھو تو کیا ہوگا۔

اِس آیت میں بھی خدا کا کلام مسیح کی انسانیت کے زکر میں اُس کی الہی صفت کا بیان کرتا ہے کیونکہ انسان اپنے پیدا  ہونےسے پہلے کہیں نہیں ہو سکتا ہے پس وہ جو آگے ہے سو خدا ہے لیکن ہمارے خداوند کا یہ کلام اُس حالت میں تھا  جبکہ وہ انسانی وجود میں اسی پروہ زمین پر موجود تھا اب اس حالت میں  خیر اُس کے الہیٰ شخص ہونے کے اور کوئی تفسیراس کلام کی نہیں ہوسکتی۔

دلیل دوم

جو انبیا اور بزرگوں کی شہادت سے نکلتی ہے۔   

ہمارے خداوند یسوع المسیح نے ریا کار فقیہوں اور فریسیوں پر افسوس کرتے ہوئے اپنی زبان معدلت بیان انصاف  ترجمان  سے یوں فرمایا دیکھو انجیل متی۲۳ : ۲۶ اے ریا کار فقیہوں اور فریسیوں  تم پر افسوس  کیونکہ نبیونکی قبریں  بناتے اور راستبازوں  کی گوریں سنوارتے  ہو اور کہتے اگر ہم اپنے باپ دادوں کے دنوں میں ہوتے  اور کہتے اگر ہم اپنے باپ دادوں کے دنوں میںہوتے تو نبیوں کے خون میں اُن کے شریک نہ ہوتے اسی طرح تم اپنے پر گواہی دیتے ہو کہ تم نبیوں کے قاتلوں کے فرزند ہو پس اپنے باپ دادوں کا پیمانہ بھرو۔ اے سانپو اور اے  سانپ کے بچو تم جہنم کے عذاب سے کیونکر بھوگو گے اس لئے دیکھو میں نبیوں اور داناؤں  اور فقیہوں کو تمہارے پاس بھیجتا ہوں تم اُن میں سے بعضوں کو قتل کرو گے اور صلیب پر کھینچو گے اور بعضوں  کو اپنے  عبادت خانوں میں کوڑے مارو گے۔  اور شہر نشہر ستاؤ گے تاکہ  سب راستبازوں  کا خون جو زمین پر  بہایا گیا  تم پر آوے۔ ہابل  راستباز  کے خون سے برخیاہ کت بیٹے زکریاہ  کے خون تک جسے تم نے  ہیکل اور قربانگاہ  کے درمیان  قتل کیا ۔ متی ۲۳: ۳۵ ؞

اور اس خونریزی انبیا کا سبب استفنس شہید اپنے درس میں یہ بتلاتا ہے دیکھو اعمال ۷: ۵۱۔ ۵۲۔

اے سر کشو اور دل اور کان کے نامختونو تم ہر وقت روح القدس کا سامنا کرتے ہو جیسے تمھارے باپ دادے تھے ویسے ہی تم بھی ہو۔ نبیوں میں سے کسی کو تمھارے باپ دادوں نے نہ ستایا ہاں اُنہوں نے اُس راستباز کے آنیکے خبر دینیوالوں کو قتل کیا جس کے اب تم  پکڑنیوالے اور خونی ہوئے۔ 

یعنے اگلے انبیا کے قتل کا سبب یہ تھا کہ وہ خداوند  یسوع مسیح کے کفارہ اور اُس کے خون بہائے جانے کی خبر دیتے تھے۔

چنانچہ ہابل راستباز صرف اسی خطا پر اپنے برادر کش بھائی قائن کے ہاتھ سے مقتول ہوا کہ وہ اپنی پلوٹھی اور موٹی بھیڑ بکریوں میں سے لایا۔ اور برّہ کا خون بہا کر اسبات پر گواہی  دی کہ خدا کا برّہ ہر ایک  گنہگار  کے واسطے اپنا کون سلیب پر بہائیگا۔ پھر نوح نے طوفان سے بچکر خداوند کے لئے  ایک مزبح بنایا اور سارے پاک چرندوں اور پاک پرندوں میں سے لے کر اُس مذبح پر سوختنی  قربانیاں چڑہائیں۔ اسبات سے نوح نے اشارہ کیا کہ میں جو اپنے خاندان  سمیت طوفانب سے بچایا گیا اُس کا سبب صرف  خداوند یسوع  المسیح  مصلوب کا کفارہ ہے اور کشتی  خود  مسیح  کی علامت ہے۔

یسعیاہ نے جو انجیلی نبی کہلاتا ہے بہت کچھ مسیح مصلوب کی مصلوبی اور اُس کے خون بہائے جانے کا زکر کیا۔

اب اس میں غور طالب امر ہے سو یہ ہے کہ جب اُس مصلوب کے کون بہائے جانیکی  خبر دینے والوں کے خون کا خون بہا یہ ہے کہ پشت  در پشت خداوند انتقام لیتا ہے یعنے اول تو  جس خاص شخص نے کسی خاص نبی کو قتل کیا اُس کے کون کا مواخذہ  دار اور  زمہ دار ہے دوم کل  آنیوالی پشتیں بھی اُسی دم میں شریک متصور ہو کر سزا یاب ہونگی۔

تب اُس شخص کے کون کی قیمت کیا ہوگی کہ جس کے سبب سے اِن کا خون ایسا قابل قدر و قیمت ٹھہرا۔ 

پس اس دوسرے اصل سے بھی ساف چابت ہو گیا کہ ضرور با لضرور خداوند یسوع مسیح کا  لہو بیش قیمت ہے۔

اب ہمدیکھیں گے کہ اس بیش قیمت لہو کے فائدہ کیاہیں۔ 

اوّل۔ وہ ایمان لانے والے کو گناہ کی سزا سے بچاتا ہے۔

دوم۔ کہ ایمانداروں  کو اس دنیا کی ساری مصیبتوں میں  غم سے چھڑاتا ہے۔

دیکھئے بنی اسرائیل ملک مصر میں کیسی سخت غلامی میں مبُتلا  تھے اور دیکھئے کہ مصریوں کے کل پہلوٹے ہلاک  و برباد ہوئے۔

مگر بنی اسرائیل کا کوئی پہلوٹا ہلاک نہوااس کا کیا سبب تھا یہ کہ اُنہوں نے خداوند کے حکم کے مطابق برّہ  کا خون اپنے دروازوں پر لگایا جو علامت تھا مسیح کا خون  کی حقیقت کا۔ 

سدرک میسکاور عبدنجو کس طرح آگ میں جلنے سے  محفوظ  رہے  اور کس نے ان کو ایسی دلیری بخشی  کہ وہ بیخوف ہو کر بادشاہی حکم کو رد کر کے آگ میں پڑنے کے سزاوار ہوں اور زرا بھی نہ گھبراویں۔ جواب یہ ہے کہ مسیح کے خون نے۔

تواریخ  کلیسیا مین بزرگوں کا ھال پرھئے کہ وہ کیسی کیسی سخت  ازیتوں میں پڑے درندوں سے پھڑوالے گئے زندہ جلوائے گئے۔ جیتے جی شکنجوں میں کھنچوائے گئے بعض پر آرے چلوائے گئے لیکن اُنہوں نے اپنی ہمتوّں کو نہ چھوڑا  فرمائے تو کہ کون اُن کو ایسا استقلال بخشتا تھا۔ جواب مسیح   کا لہو۔

ہمارے زمانہ چند روزہ عذر سن ۵۷ء میں ایمنداروں کے مصائب  اور ان کی ثابت قدمی بھی پکارتی  تھی کہ مسیح کا لہو۔ ہمیں سارے دکھوں سے بچاتا ہے۔

ایک اور ایمندار   ہزپر پنجاب نےبذریعہ  نور افشاں ہمکو اطلاع دی کہ ۱۵ ماہ  کے سیلاب غم میں مسیح  کا لہو کفایت کرتا ہے۔ س

الغرض بعد اس تمام گفتگو کے ہم  کو اس بیان سے یہ سیکھنا  چاہئے کہ مسیح کا بیش قیمت لہو ہمارے لئے بھی کافی ہے کیا خداوند  مسیح بدل گیا نہیں مسیح کل آج  اور ابدتک یکساں ہے۔

دنیا کے تمام دُکھوں اور رنج  کے سیلابوں عزیز وا قارب کی دشمنیوں میں بھی مسیح کا بیش قیمت لہوں ہمارے سہارا ہے۔ 

اے خداوند ہماری دُعا نوحیہ ہےکہ تمام عیسائی اور سچے متلاشی اپنے خیال کو ہمیشہ اپنے  میں جگہ دیں اور مسیح کے بیش قیمت لہو سے ہمیشہ سہارا پا کر اُس کی خدمت میں آگے  کو بڑھتے رہیں۔ آمین