Basilica of the Nativity

 

خدا کے تجسم کی ضرورت


The Need for the Incarnation of God

Published in Nur-i-Afshan Feb 26, 1897


’’ خدا  مجّسم نہیں ہوتا کہ وہ محدود ہو جاتاہے‘‘  ’’اُس کو کیا ضرورت ہے کہ مجسّم ہووے اور دُکھ  سہنے اور مصلوب  ہونے کے بغیر گنُاہ  کی معافی نہیں‘‘ ’’ کیا خدا گناہ بخش نہیں سکتا!‘‘ وغیرہ وغیرہ باتیں اور سوالات غیر مسیحیوں کے ساتھ گفتگو اور محبت کرتے وقت مسیحی مبشروں اور اُستادوں نے اکثر سنے ہونگے۔

حقیقت میں یہ باتیں اور سوالات نہایت عمیق اور گور طلب ہیں اور مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اِن کی نسبت قدرے تحریر کیا جاوے۔ 

واضح ہو کہ مسیحی لوگ بائبل کو جس میں عہد عتیق اور  عہد جدید شامل ہیں خدا کا کلام مانتے ہین اور بائبل کے سوا اور کسی کتاب کو کلام ِ خدا نہیں  سمجھتے۔ 

بائبل کے اظہار سے ثابت ہے کہ الوہیت واحد ہے مگر الوہیت  واحد مین  اقانیم ثلاثہ  ہیں یعنے باپ اور بیٹا  اور روح قدس۔  یہ خدا مبارک ازلی و ابدی ہے جس کی عبادت اور پرستش آدم سے لیکر زمانہ حال تک تمام سّچے انبیاء اور رُسل اور مقُدّس لوگ کرتے ہیں اور کہ اِس  خدا کے سوا کوئی دوسرا خدا  نہیں  نہ معبود مگر  جو ہیں  سب انسان کی عقل کی ایجاد ہیں۔

یہ بائبل کا خدا پرسَنَل (Personal) خدا ہے یعنے نہ وہ ایک  سنٹرل (Central) طاقت ہے اور نہ بے حِس و حرکت اور نہ بے رنگ و روپ اور نہ بے پرواہ  اور نہ  بے ارادہ  و مرضی جیسا دنیا کے مذاہب  اپنے اپنے الہٰوں اور معبودوں  کی شان میں منسوب کرتے ہیں مثلاً اکثر سننے میں آتا ہے کہ خدامیں نہ رنگ ہے نہ روپ۔ نہ خواہش  ہے  نہ اچھیا ۔ نہ پرداہ ہے نہ مرضی اور نہ اراادہ اور نہ اُس کو دنیا کے انتظام  سے کچھ تعلق  ہے کہ جو کچھ کرنا تھا ایک دفعہ کر دیا  اور بس جس میں حس و حرکت ۔ مرضی و ارادہ۔ اِچھیا و پرواہ نہیں اور جس کا نہ رنگ  ہے نہ روپ اور جو عالم  (Universe) کےانتظام سے بے تعُّلق ہے وہ خود  عدؔم اور نیست ہے ہست اوروجود نہیں ۔

بائبل کا خدا تمام و کمال خوبیوں اور اوصاف  کا سر چشمہ ہے۔  اُس کی تمام صفتیں  کامل  اور بے حد ہیں۔ کامل رحم۔ کامل عدل۔ کامل راستی۔  کامل قدرت۔ کامل قدّوسی۔ کامل غیرت۔ غرض ہر صفت میں کامل ہے اور اُس میں نقص نہیں  اور یہ خوبیاں اور اوصاف  اُس کا رنگ وروپ  ہے وہ حکیمِ مطلق اور کامل مرضی اور کامل ارادہ والا خدا ہے۔ تغیرو تبدل کا اُس میں سایہ بھی نہیں۔ اُسکے سارے ارادے اور کام  خوب  و کامل  ہیںاور اُن کا انجام  اور علّت  غائی  اُس کا جلال ہے بائبل سے ظاہر و ثابت  ہے کہ خدا نے انسان کو زی روح فعل مختاراور نتیجھتاً  اپنے خیال و فعل و قول کازمہ دار اور جواب دہ پیدا کیا۔ انسان اپنی فعل مختاری کے بد استعمال  سے حکم عدول  ہوا اور خطا کا ر ٹھہرا اور اپنی خطا کا سزاوار۔

اب ہم غیر مسیحیوں سے  با ادب سوال کرتے ہیں کہ کیونکر خطا کار انسان قطعی اپنی خطا کی سزا  سے  بری بلکہ بے نقص  ٹھہرایا جاوے اور خدا  اپنی تمام صفات میں کامل اور بجد رہے اور اُس کی صفت خم نہ کھاوے۔  اِس سوال کا تسّلی بخش جواب ہر گز ہر گز نہیں ملتا۔ جوابات جو پیش  کئے جاتے ہیں زیل میں درج ہیں اور بالکل  خاطر خواہ نہیں۔

( ۱) محمد یوں کا جواب ۔ اعمال حسنہ اور محمد صاحب کی شفاعت۔ یہ جواب بالکل اطمینان بخش نہیں ہے کیونکہ کامل اعمال  حسنہ  جو خدا  کو پسند نہیں معدوم  ہیں کہ خراب درخت  کا پھل خراب ہی ہو گا اور  بائبل کے علم سے ہم پر بخوبی روشن ہو گیا ہے کہ گناہ کے سبب انسان کا دل بگڑ گیا ہے اور اُس میں سے برُے خیال برُے اعمال  اور برُے اقوال  برآمد ہوتے ہیں محمد صاحب  کی شفاعت  ایک فرضی  بات ہے کیونکہ  نہ کبھی محمد صاحب نے اِس کادعویٰ کیا  اور نہ یہ  قرآن  میں کہیں مذکور ہے۔ تاہم الغرض  محال اگر تسلیم  کیا  جاوے کہ محمد صاحب نے شفاعت کا دعویٰ کیا اور اُس کا زکر قرآن  میں بھی موجود ہے تو اگر خدا اس شفاعت و سفارش کو قبول کرے اور خطا  کار کو بری اور  بینقص  ٹھہراوے تو خود ملزم ٹھہرتا ہے کہ اُس کی عدالت صدق و قدّوسی پر دہبّہ لگتا ہے۔ پھر اِنسان فقط انسان  کیا طاقت رکھتا ہے کہ دوسرے ایک سان کی بھی شفاعت  کرے کیونکہخود وہ کامل اطاعت اور کامل نیکی کا محتاج ہے اور اگر فرض کیا جاوے کہ محمد صاحب کامل نیک تھے( اور یہ ایک فقط فرضی اور خیالی بات ہی ہے کیونکہ انجیل میں صادق القول گواہ فرماتا ہے کہ کوئی نیک نہیں  مگر ایک یعنے خدا)  تو نتیجہ یہ نکلے گاا کہ اُن کی کامل اطاعت  و نیکی  فقط اُن کے ہی کام آوے کیونکہ خدا ہر ایک  اِنسان سے کامل اطاعت اور کامل نیکی  کا طالب ہے۔ دوسرے کی شفاعت  کرنا ایک محال امر ہے چہ جائے کہ گنہگار انسان دوسرے خطا کار کی  کی شفاعت کرے اور و شفاعت قبول ہو۔ 

(۲)  ہندؤں۔ آریہ۔ برہمو۔ سکھوں۔ جینٔیوں۔ وغیرہ وغیرہ کا جواب فقط ایک ہی ہے یعنے جیس کرنے ویسی  بھرئی اور اِس جواب فقط دل کو مایوسی حاصل ہوتی ہے اور مخلصی  اور برئیت معدوم اور ندار دہی ہے۔

بائبل میں مذکور ہے کہ جو انسان  سے نہ ہو سکا خدا سے ہوا کہ اُس  نے اپنے بیٹے کو جہان میں بھیجا  کہ گناہ  کا کفارہ  اورفدیہ دیوے اور بیٹے  نے پاک انسانیت  کو اختیار  کر کے  اُس بھاری کام کو سر انجام دیا جو کسی اور مخلوق سے نہ ہو سکتا تھا کہ اپنی موت سے خدا اور انسان میں صلح کر دائے  اب جو کوئی خدا کی اِس تجویز کو قبول کرتا اور ایمان  سے بیٹے کے ساتھ پیوند ہو جاتا ہے اور نتیجتاً بیٹے کی زندگی حاصل کر کے روح سے متحرق ہو کر زندگی بسر کرتا ہے جسمانی مزاج آدمی نہین رہتا بلکہ روحانی انسان ہو جاتا ہے اُس کی مخلصی اور نجات اور اُس  کا بہشت یہاں ہی شروع ہو جاتا ہے اور وہ خداوند  یسوع کا چھوٹا بھائی بن کر خدا کے فرزندوں میں داخل ہوتا اور اُس پر روح اقدس کی مہرُ لگ جاتی  ہے اور وہ ابد الآباد  محفوظ رہتا ہے۔ اِس تجویز سے خدا کے عدل کا تقاضا خداوند یسوع نے اپنی موت سے تکمیل  تک پہنچایا اور خدا راست اور پاک  ٹھہرا اور اُس کی رحمت خداوند  یسوع کے وسیلہ اُن پر نازل ہوتی ہے جو اُس کے ساتھ پیوند ہو جاتے ہیں اِس طرح خدا کی تمام صفات کامل اور بے خم رہتی ہیں۔ اِس تجویز کے سوا اور کوئی طریق نجات نظر  نہیں آتاا اور ہمارا اس پر توکل ہے جو چاہے اعمال حسنہ پر فخر کرے اور گنہگار انسان کی شفاعت اور سفارش پر بھروسہ رکھتے ۔ جو چاہے تناسخ کو مانے اور جو چاہے خدا کی صفات کا لحاظ نہ کر کے اور خصوصاً اُس کی عدالت کو نظر انداز کر کے اُس کی رحمت پر تکیہ کرے مگر ہم تو خدا کے کو نظر انداز کر کے اُس کی رحمت پر تکیہ کرے مگر ہم تو خدا کے بیٹے کی موت پر بھروسہ  رکھکر  روح سے زندگی بسر کرنا نجات سمجھتے ہین مگر لوگ اس پر اعتراض پیش کرتے ہیں۔

(۱ ) کیا خدا جو کامل رحم والا خدا ہے گنہگار کو بغیر خداوند یسوع کیموت و کفاّرہ کے معاف کر کے بہشت  میں نہیں لے سکتا؟

جواب۔ مطلق نہیں۔ خدا کی کوئی صفت شکست یا خم نہیں  کھاتی وہ کامل  صفات والا خدا ہے اس میں کوئی نقص نہیں یہ محال مطلق ہے کہ خدا اپنی عدالت و صدق و قدّوسی کو شکست اور خم دیوے اور رحمت کو اجراء۔

(۲ ) بھلا اگر یہ  محال مطلق ہے کہ اپنی کسی صفت کو شکست یا خم دیوے تو کیا بہتر نہ ہوتا کہ کوئی نیک انسان کوئی مہاتما پرش گنہگاروں کے عوض  دُکھ  سہتا اور مارا جاتا اور نہ خداوند یسوع جو خدا کا اکلوتا بیٹا کہتے ہو۔

جواب۔ یہ بھی ہر گز نہیں ہو سکتا۔ کوئی نیک نہیں مگر ایک  یعنے ایک خدا۔ آدم سے لیکر قیامت تک ایک ایک بھی انسان نظر نہ آویگا جو بے گناہ اور بے نقص پایا جاوے سب نے حکم عدولی کی ہر کسی نے کم  کسی نے زیادہ سب خدا  کے قہر و غضب  کے تحت ہیں۔ سب شفاعت کے محتاج ہین چہ جائے کہ کوئی اُن میں سے کسی دوسرے کی شفاعت کرے۔

(۳ ) اگر یہ حال ہے کہ ایک بھی کامل نیک نہیں تو کیا بہتر نہ ہوتا  کہ خدا کسی نئے انسان کو جو آدم کی نسل سے نہ ہوتا برپا کر کے اِس اشدبھاری اوع ضروری مطلب  کے سر انجام کے لئے مقرر کرتا اور وہ دُکھ پاتا اور ماراجاتا اور خدا کا بیٹا نہ مرتا۔

جواب۔ یہ بھی ممکن نہیں ۔ کیونکہ ایسا نیا انسان جو آدم کی نسل سے نہہوتا اگر فرج کر لیا جاوے کہ گناہ سے مبّرہ اور پاک اور بے نقص رہتا اور کامل نیک ہوتا جیسا کہ  خود آدمتھا پیشتر اُس کے کہ اس نے حکم عدولی کی تو نتیجہ صرف یہ نکلیگا کہ انسان کہ وہ فقط انسان ہی ہے کامل نیکی اور کامل فرمانبرداری  اک زمہ دار اور جواب دہ ہے اس کی کامل نیکی اور کامل فرمانبرداری  اس ہی کے کام آتی اور بس کیونکر خدا انسان سے کامل نیکی اور کامل فرمانبرداری  طلب کرتا ہے۔

( ۴) ہمارا دل قبول نہیں کرتا کہ خدا کا بیٹا دُکھ پاوے اور مارا جاوے۔ کیا خدا کسی فرشتہ کو کہ فرشتہ  تو گناہ سے پاک ہے دنیا میں بھیجکر اِس اہم کام کو سر انجام  نہین دے سکتا تھا؟

جواب۔ یہ بھی محال مطلق  ہے۔ کیونکر فرشتہ اگرچہ بے گناہ  تو ہے اور نتیجتاً خدا کی خوشی اور آرام  میں شریک ہے کہ اُس نے حکم عدول نہیں کیا مگر پھر بھی مخلوق اور بندہ اور اور کامل نیکی اور کامل فرمانبرداری  کا زمہ داری اور جوابدہ ہے اور  خدا اُس سے بھی کامل نیکی اور کامل فرمانبرداری طلب کرتا ہے اُس کی اطاعت اُس ہی کے لئے بس و کافی  ہے چہ جائے کہ دوسرے کی شفاعت و وکالت کرے۔ علاوہ اِس کے فرشتہ کی اصل و نسل اور ہے اور گنہگار انسان کی جو شفاعت کا محتاج  ہے اور ہے۔ فرشتہ مخلوق ہے اور نتیتجاً محدود اور نجات کا کام غیر محدود کام کو کیونکر پورا کرے دہنے ہاتھ پر بٹھایا اور اُس کو ایسا نام اور عزّت بخشی کہ  ہر ایک کیا  آسمان پر کیا زمین پر یا زمین کے نیچے یسوع کے نام پر گھٹنہ ٹیکے اور ہر ایک زبان اقرار کرے کہ یسوع خداوند ہے تاکہ خدا باپ کا جلال ظاہر کرے۔ گناہ خلقت میں ایک ایسی برُی  شےُ  ہے کہ خدا اُس کی کبھی ہر گز ہر گز برداشت نہیں کر سکتا اور علاج اُس کا اور رفع کرنا  اُس کا فقط خدا کے بیٹے سے ہوا۔ خدا مجسم ہوا اور گنہگاروں کے بدلے کفاّرہ اور فدیہ میں مصلوب ہوا۔ اے گنہگار کیا تو پھر بھی سنگ دل رہے گا تیرا خون تیری گردن پر خدا نے ہو سکتا تھا کیا اگر تو ہلاک  ہو جاوے تو تیرا ہی قصور ہے  تو دوزخ میں بھیپکار پکار کر کہیگا کہ خدا اپنی تمام صفات میں کامل اور خوب ہے۔