Olympic Mountains

 

نُور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی نے اُس دریافت نہ کیا

(یوحناّ ۱ باب ۵ آیت)

 

 


The light shines in the darkness,
And the darkness has not overcome it.

 

 

Published in Nur-i-Afshan April 23, 1897


 

یوحنا ّ رسول نور اور تاریکی کا زکر کرتا ہوا یہ الفاظ کہتا ہے کہ نور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی نے اُسے دریافت نہ کیا ۔ نور ایک ایسی روشنی ہے ۔ جسکا بیان زبان ھال سے نہیں ہو سکتا۔ اور اِسکے بیان کرنے میں زبان عاجز ہے۔ اور نہ قلم سے اِسکا مفصّل حال بیان ہو سکتا ہے۔ کہ قلم قاصر ہے۔ اور نہ اِس حقیقی روشنی کا بیان صفحہ کاغز پر تحریر ہو سکتا ہے۔

تو بھی جس نے اِس حقیقی نور کی تجّلٰی کو دیکھا ہے۔ وہ اسکی تاب نہ لا سکے۔ کیونکہ حقیقی نور کی روشنی ان آنکھوں سے دیکھی نہیں جاتی۔ یہ حقیقی نور صرف خدا کے چہرے سے جلوہ گر ہوتا ہے اور تثلیث الہی میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً جب موسیٰ پیغمبر کوہ طور پر خداوند یہوداہ سے کلام کرنیکے واسطے گیا ۔ اور جب خداوند اُس سے کلام کرنے لگا۔ تو موسیٰ اُس نوری جلال کی تاب نہ لا سکا۔ بلکہ اپنے چہرے پر نقاب ڈال کر خداوند سے ہم کلام ہوا۔

حقیقی روشنی آگ کی روشنی کے مانند نہیں اور نہ آفتاب کی روشنی سے مشابہت دیجاسکتی ہے کیونکہ یہ روشنی جو نور سے برآمد ہوتی ہے۔ سب مصنوعی روشنیوں سے افضل و علیٰ و بالا ہے۔ اور ہتر ایک روشنی سے بنی آدم آنکھ ملا سکتا ہے۔ مگر حقیقی نور کی روشنی کی تاب نہیں لا سکتا۔ جیسے موسےٰ ۔ جیسے دن کیوقت آفتاب کی روشنی درکار ہے کہ ہم لوگ اُسکی روشنی میں اپنے کاروبار کریں۔ اور جیسے رات کے وقت ہمکو گھر میں لمپ کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہم گھر کی سب چیزوں کو دیکھ سکیں جیسے اندھیری رات میں سفر کیواسطے لالٹین کی ضرورت ہے تاکہ ہم ٹھوکر نہ کھاویں بس ٹھیک ویسے ہی ہم کو روحانی آنکھوں ک واسطے اور اندھیرے کے لئے حقیقی نور کی روشنی نہایت ہی ضروری ہے۔ جب تک ہمارے اندھیرے دل میں حقیقی نور نہ چمکے ہم کس طرح سے دریافت کر سکتے ہیں کہ ہمارے دِل میں کیا خرابی ہے۔ اور ہمارا دل جو گناہ کے سبب سے اندھیرا ہو رہا ہے اور بالکل سیاہ پڑگیا ہے۔ کس طرح سے معلوم کریں کہ اس میں کون کون چیز خراب کرنے والی ہے۔ اور کون کون چیز ٹھوکر کھلانے والی ہے اور کون ہمارے دل میں بستا ہے۔ سو از حد ضرورت ہے کہ حقیقی نور ہمارے دل میں چمکے تاکہ ہم دریافت کریں کہ ہمارے دل میں کیا ہے اور ہمارے دل کی حالت کیسی ہے۔ رسول آگے چلکر یہ ہتا ہے کہ حقیقی نور وہ ہے جو دنیا میں آکر ہر ایک ادمی کو روشن کرتا ہے۔ وہ نور مسیح ہے ۔ یوحنا اِصطباغی نور نہ تھا بلکہ اِس حقیقی نور کا گواہ تھا۔ سو اُس نے نور کی بابت اپنی گواہی پوری کی۔ نورکے آنے سے پیشتر لوگ اندھیرے میں تھے ۔

گو اِس حقیقی نور کا عکس دنیا میں گاہے گاہے پڑتا تھا۔ مگر اب وہ نور مجسّم ہو کر دنیا میں آگیا تاکہ وے لوگ جو اندھیرے میں ہیں اُنکو روشن کرے۔ اور وے جو موت کے سایہ کی وادی میں سوتے ہیں اُنکو روشن کر کے جگاوے ۔ مگر افسوس کہ تاریکی نے اُسے دریافت نہ کیا۔ مگر جنہوں نے نور کو قبول کیا وے روشنی میں آگئے اور اندھیرے کے کاموں سے توبہ کی۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تاریکی نے اِسے دریافت کیوں نہ کیا۔ جواب یہ ہے کہ کام برُے تھے۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں جو چیز روشنی میں ہوتی ہے وہ سب روشن ہو جاتی ہے۔ اِسی لحاظ سے تاریکی نے خیال کیا کہ اگر میں آنکھ کھولکر دیکھونگی تو میرے سارے کام فاش ہو جاوینگے ۔ اور مجھے شرمندگی اُٹھانی پڑیگی۔ اِسواسطے بہتر ہے کہ میں اپنی آنکھ نہ کھولوں گی۔ تاریکی سے مراد گناہ ہے اور تاریکی میں چلنے والے گنہگار لوگ ہیں جو مسیح سے دور اور اپنے دل کی خواہشوں کے مطابق چال چلتے ہیں وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ایسی تاریکی میں ہم کو گناہ کرتے ہوئے کون دیکھتا ہے۔ اور نور میں وے لوگ چلتے ہیں جنہوں نے اپنے آپکو مسیح حقیقی نور میں لائے ہیں اور نور سے مُنوّر ہوتے ہیں اور زندگی حاصل کی ہے۔ یہ نور ہر ایک کے واسطے چمکتا ہے۔ مگر افسوس کہ تاریکی نے اُسے دریافت نہ کیا۔

اب ہم تھوری دیر کے واسطے ہندوستان کی حالت پر غور کرینگے کہ نو ر نے ہندوستان میں کتنا کام کیا ہے۔ ہندوستان کے جنٹلمین خواندہ یہ پُکارتے پھرتے ہیں کہ روشنی کا زمانہ ہے روشنی کا زمانہ ہے۔ وے اِس میں غلطی کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ روشنی کو تو دیکھتے ہیں مگر روشنی کے مرکز کو نہیں دیکھتے کہ روشنی کہاں سے نکلتی ہے۔ جیسے ایک شخص کہے کہ میں دھوپ کو دیکھتا ہوں۔ اگر اُس سے دریافت کریں کہ یہ دُھوپ کِس میں سے نکلتی ہے۔ وہ کہے ک میں نہیں جانتا۔ مگر دُھوپ کو جانتا ہوں۔ یہ کیس جواب ہے۔ ایسے ہی ہندوستان کے جنٹلمین کا حال ہے۔ ہندوستان کے لوگ علم حاصل کر کے علمی روشنی کی بھول میں پڑے ہوتے ہیں اور علمی روشنی کو جو حقیقی نو ر کا سایہ ہے۔ حقیقی نور تصور کرتے ہیں۔ اور روشنی کا زمانہ کہتے ہیں مسیحی مذہب کے آنے سے ہندوستان میں پیشتر بھی علم تھا خواہ فارسی ہو خواہ سنسکرت ہو۔ تو اُس حالت میں روشنی کا زمانہ کیوں نہ کہا گیا۔ تو معلوم ہوا کہ مسیحی مذہب کے انے سے ہندوستان کے لوگ روشنی کو دیکھنے لگے۔ اب زرا نظر انصاف سے دیکھنا کہ جب ہندوستان کے باشندوں نے دیکھا کہ حقیقت میں روشنی کا زمانہ ہے۔ اور نور تاریکی میں چمکتا ہے۔ تو اپنی آنکھیں ضِد سے موند لیں اور اپنے واسطے ایک علیحدہ مصنوعی نور تیار کیا۔ جیسے آریہ سماج نے موم بتّی روشن کر کے کہا کہ یہ ہمارا نور ہے اور آگ میں گھی ڈال کر کہا کہ یہ ہماری روشنی ہے ۔ ہم اِس میں چلینگے اور دیو دھرم نے ٹوٹی ہوئی لالٹین روشن کر کے کہا کہ یہ ہمارا نُور ہے اور کسی نے سنگہ سبھا کی مثال جلا کر کہا کہ ہمارا چانن یہ ہے۔ اور کسی نے سناتن دھرم کا ٹوتا ہوا چراغ جلایا۔ جس میں تیل بھی نہیں ہے۔ اور کہا کہ ہمارا چانن یہ ہے۔ اُدھر محمدی بھائیوں نے داڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ خدا کا نور یہ ہے اور ہمارا محمد صاحب خدا کے نور میں سے نور ہے ہم کو کیا ڈر ہے۔ ہم خون کرنا ثواب اور نور میں کودنا اپنا جواب رکھتے ہیں ۔ ہم کو کچھ پرواہ نہیں اگر آپ ہزار مصنوعی روشنیاں تیار کریں۔ مگر جب آفتاب کی آمد آمد ہوتی ہے۔ اُسوقت سب کی روشنی ماند ہو جاتی ہے۔ اور سب قسم کی روشنیاں بھّدی معلوم ہوتی ہیں۔ اور جب دوپہر ہو جاتی ہے تو سب مصنوعی روشنیاں نکمّی ہو جاتی ہیں۔ اِے پیارے ہندوستانی بھائیو جب اِن مصنوعی روشنیونکا مصالح ہوجاویگا۔ تب سب آپکی محنت بیفائدہ ہوگی مگر حقیقی نور وہ ہے جو کہ دنیا میں آکر ہر ایک ادمی کو روشن کرتا ہت ۔ نور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی نے اُسے دریافت نہیں کیا۔ اب بہتر یہ ہے کہ آپ حقیقی نور میں آجاویں۔

حقیقی نور ہمیشہ سے ہمیشہ تک روشن رہے گا اور جو کوئی اِس میں داخل ہو گا۔ روشن کیا جاویگا۔ اور جو داخل نہ ہو گا۔ وہ باہر اندھیرے میں ڈالدیا جاویگا۔ وہاں رونا اور دانت پیسنا ہوگا۔ کیونکہ اُنہوں نے تاریکی کے کام کئے اور تاریکی دوزخ کی اُنکو کھاویگی۔ اے پیارے ہندوستان کے باشندو نور میں آکر ہمیشہ کی زندگی پاؤ اور خوشی آسمانی حاصل کرو۔ تم حقیقی نور میں اکر دیکھو کہ تمہاری کیسی حالت ہے جیسے آئنہ سے منہ دیکھتے ہو تو تمہاری صورت تم کو معلوم ہو جاتی ہے۔ ویسے ہی روح کا آئینہ نور ہے اور بائیبل مقدّس ہے۔ تم اِس میں اِس ائینہ میں دیکھ سکتے ہو کہ تمہاری روح کا منہ تمہارے گناہ کے سبب کیسا کالا اور سیاہ فام ہو گیا ہے۔ بجز نور میں آنیکے تم کسی طرح تاریکی سے رہائی نہیں پا سکتے۔ تمہارئ سیاہ فام روح کو مسیح اپنے کون سے صاف کرنا چاہتا ہے۔ کاش کہ تمام ہندوستانی جو تاریکی میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ کاش کہ تمام ہندوستان جوتاریکی میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ اِدھر حج اُدھر تیرتھ کو دوڑتا پھرتا ہے۔حقیقی نورمیں آوے اور تسلّی اور اطمینان حاصل کریں۔ خُدا کرے کہ ہر ایک دِل اِس حقیقی نور مسیح کو قبول کرے اور اُس سے زندگی پاوے۔ آمین ثم آمین۔ العبد۔۔۔۔۔ جے۔ کے واعظ انجیل داگہ