مسیح ابنُ اﷲ

Jesus, Son of God


Published in Nur-i-Afshan June 28, 1895
By Chandar Ghus


مسیح خدا کا  بیٹا ہے۔ جو شخص یہ نہیں مانتا وہ مسیحی نہیں۔ لیکن کیا  خدا بھی آدمیوں کی طرح بیٹے بیٹیاں جنتا ہے اس کا جواب زرہ مشکل ہے۔ اور اکثر  دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے اس مسئلہ پر غیر اقوام  برُا ٹھٹھا کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ جبتک   مسیحی مذہب  میں ایسی لڑکپن اور کم عقلی کی باتیں پائی  جاتی ہیں تب تک  زی عقل  لوگ  اس مذہب کو قبول  نہ کریں گے۔ اب ہم زرہ دیکھیں  کہ آیا  یہ مسئلہ  فی الحقیقت  کم عقل اور لڑکپن  کا نتیجہ  ہے یا  نہیں۔

(۱ ) لفظ  بیٹے سے کیا مراد ہے۔ عام محاورہ  میں جب زید بکر کے تخم سے پیدا ہو تو کہتے ہیں کہ زید بکر کا بیٹا  ہے اس کا مطلب یہ ہے زید کے جسم اور حضایل اور دیگر انسانی صفات اور لوازمات کا ما خز بکر ہے۔ اور جس قدر زید زیادہ  زیادہ  اپنے  والد  بکر کے قد اور اندازے کو پہنچتا جاتا  ہے اس قدر ہم کہتے ہیں زید کی ابنیت  پوری ہوتی جاتی ہے۔  اور جب زید بالغ ہو کر  اپنے والد  کے قد اور صورت اور علم اور عقل کو پہنچ گیا  تو ہم کہتے ہیں کہ فی الحقیقت  یہ بکر کا بیٹا ہے۔ لیکن فرض کرو زید بکر کے تخم  سے تو پیدا ہوا لیکن بڑا ہو کر اس کی صورت شکل اس کا قد اور خصلت بالکل بکر کے خلاف ہوئی اور جس حال کہ بکر رو عالم خوبصورت اور زی عزت  آدمی تھا لیکن زید نے اپنی عمر کا کاتمہ قید خانہ میں کیا کہیں گے کہ اگرچہ یہ شخص بکر کے تخم سے تو تھا تاہم جس قدر وہ بڑا  ہو کر اپنے باپ سے متفرق ہوتا گیا اُسی قدر اس کی انبیت بھی باطل ہوتی گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہم آدمیوں کے درمیان انبیت  کے قایم  کرنے کے لئے صرف جسمانی  تخم  ہی کافی نہیں بلکہ اس سے بڑھکر  ایک اور شے ہے جس کو روحانی  تخم   کہ سکتے ہیں۔ اور اس سے بڑھکر یہ کہ ہم آدمیوں کے نزدیک  بھی جسمانی تخم  اس قدر ضروری نہیں سمجھا جاتا جس قدر روحانی  تخم  ہے چنانچہ اس کے ثبوت  مین اس امر پر غور کرو کہ برُے بیٹے  سے اچھا نوکر بہتر سمجھا جاتا ہے۔ یعنے وہ نوکر جو اپنے آقا کی خصلت روحانیت اور تعلیم  کا اثر  اپنے دل پر ہونے دیتا ہے  ( یعنے جو گویا اپنے آقا  کے روحانی  تخم  کو قبول کرتا ہے) اس بیٹے سے جو اپنے باپ سے تو پیدا ہوا لیکن خصلت میں اپنے باپ سے بالکل جدا بلکہ خلاف ہے اپنے آقائے کا بیٹا سمجھا  جاوے گا باوجود اس امر کے کہ اُس کی پیدایش کسی اور کے زریعہ سے ہوئی۔

(۲ )  اب ہم ایک قدم آگے بڑھیں۔ یہ روحانی  تخم  کس طرح سے ظاہر ہو سکتا  ہے اس کے ظہور کا فقط ایک ہی وسیلہ ہے یعنے آدمی کا کلام ۔ بالکل جسمانی تخم  تو بیٹے کو جسمانی طور پر دیا جاتا ہے۔لیکن روحانی تخم کلام  کے زریعہ  سے پہنچتا ہے۔ اور اگر کسی شخص میں یہ طاقت ہو کہ اپنی مصنفہ کتابوں اور مضامین کو انسانی صورت  میں لکھے یعنے اپنے   زہنی  خیالات کو جو بذریعہ کلام ظہور پاتے ہیں مجسّم کر کے انسانی صورتوں میں دکھاوے تو یہ سب اس کے بیٹے  اور بیٹیاں  کہلانیکے مستحق ہوں گے۔  پس کلام روحانی  تخم  ہے اور اگر بکر کا کلام مجسّم کیا جاوے اور اس میں بکر کی سی جان ڈالی  جاوے اور اُس کا نام زید رکھا جاوے تو یہ زید بکر کا بیٹا  کہلاویگا  خواہ اس زید کے جسم کے پیدا کرنے میں بکر نے کچھ کام نہ کیا ہو۔ چونکہ زید میں بکر کا کلام مجّسم ہوا اس لئے زید بکر کا بیٹا ہے۔

(۳ )مقدّس یوحنا  خداوند مسیح کے شاگردوں میں سب سے گہرے عقل رکھتے تھے اور اُن کو خداوند مسیح سے خاص محبت  تھی چنانچہ وہ اپنی انجیل میں اپنا نام نہیں لکھتے بلکہ اپنا زکر اسطرھ کرتے ہیں کہ وہ شاگرد جسے خدواند  پیار کرتا تھا۔ وہ اپنی انجیل کے شروع ہی میں مسیح کی بابت لکھتے ہیں کہ اِبتدا میں کلام  تھا۔ وغیرہ مسیح کی ابنیت کا فقط اسی بات پر انحصار  ہے کہ وہ کلمتہ اﷲ تھا۔ لیکن یہاں ایک بات یاد رکھنا چاہئے۔ انسان کا کلام  تو ایسا ہے کہ منُہ سے نکلا  اور ختم ہوا۔ لیکن خدا کا کلام ایسا  نہیں۔ وہ اپنے میں وہی الہیٰ زندگی رکھتا ہے جس زندگی  سے خدا خود  زندہ ہے۔ یعنے خدا کا کلام  خود ایک خدا ہے اور پاک تثلیث میں اقنوم ثانی کا مرتبہ رکھتا ہے۔ وہ ایسا نہین کہ پورے طور  پر ایک بیجان کتاب کے زریعہ سے  دنیا میں ظہور پاسکے  بلکہ وہ دنیا میں انسانی  صورت میں مجسم ہوئے بغیر اپنا پورا ظہور ہم کو نہ دے سکتا تھا۔ اِبتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ  تھا اور کلام خدا تھا سب چیزیں اُس سے پیدا ہوئیں اور کلام مجسمّ ہوا  خدا کا کلام مثل خدا کے ایک علیحدہ شخصیت  رکھتا  ہے۔ وہ خدا ہے اور خدا کے ساتھ ہے۔ اور بحیثیت کلام ہونے کے خدا کا بیٹا یعنے ابن وحید  ہے۔ یہی کلام بزریعہ  کنوری مریم  مجسم  ہوا اور مسیح  اور عیسیٰ کہلایا اور اس کو ہم مسیحی مسیح خدا کا بیٹا کہرتے ہیں شاید اتنا تو ثابت ہوا کہ جب کوئی مسیحی مسیح کو خدا کا بیٹا کہتا ہے تو وہ کوئی ایسی بیہودہ بات  نہیں کہتا جو قابل مضحکہ ہو۔ بلکہ یہ ایک بڑا عظیم الشان اور عمیق مسئلہ ہے۔ اور اس پر فقط شیطان الرّحیم  ہنس سکتا ہے۔

( ۴ ) ابنیت  مسیح پر اہل اسلام بہت ہنستے  ہیں اور لم یلد ولم یولد کا مقولہ  پیش کرتے ہیں۔ ہم یہاں ثابت کریں گے کہ محمد صاحب  نے قرآن میں بڑی غلطی  کی ہے یعنے جب وہ مسیح  کا کلمتہ اﷲ اور روح اﷲ مان چکے تھے تو اُن  کا کچھ حق نہ تھا کہ قرآن  میں لم یلد ولم یولد کے الفاظ داخل کرتے۔ یا وہ  تولد کے ان حقیقی اور گہرے معنوں سے واقف نہ تھے جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں۔  

قرآن  اِس با کا اقراری ہے کہ مسیح کلمتہ اﷲ تھے۔  لیکن کلمتہ اﷲ کسے کہتے ہیں۔ اس بات کے تو سب اقراری  ہیں کہ دنیا میں جو چیز  ہے وہ خدا   کے کلام سے پیدا ہوئی ہے گویا دنُیا میں ہر شے  خدا کے کلام کا ظہور ہے۔ اور اگر اس کے مطابق جب قرآن نے عیسیٰ کا کلمتہ اﷲ کہا اور اِس سے فقط یہی مراد رکھی  کہ اور آدمیوں اور نبیوں اور چیزوں کی طرح  وہ خدا کے کلام کے زریعہ سے پیدا ہوئے تو یاد رہے جو خاص خطاب یا القاب انبیا  سابقین میں سے چند کو دے گئے ان میں کسی نہ کسی خاص  کی طرف  اشارہ تھا۔ یہ تو ہو نہیں سکتا  کہ خدا  کسی نبی کو ئی خطاب  دیوے اور اس خطاب میں کوئی خاص بھید  اور معنے نہوں۔ ابراھیم خلیل اﷲ کہلائے یوں  تو ہزاروں آدمی خدا سے محبت رکھنے والے تھے اور میں توکیا  سب خلیل اﷲہیں۔ موسیٰ کلیم اﷲ کہلائے۔ یوں ساری دنیا بزریعہ دعا اور تلاوت  کلام ربّانی خدا سے باتیں کرتی ہے تو کیا سب کلیم اﷲ ہیں۔ ہر گز نہیں۔ ابراہیم  کو کوئی خاص محبّت خدا سے تھی جس کے باعث   اُس کی ساری تسلیّ مخصوص ہو گئی موسیٰ کے تکلم  میں کوئی خاص راز تھا جس کے باعث وہ کلیم اﷲ کہلائے تو  کیا جب عیسیٰ کلمتہ اﷲ کہلائے تو اس میں کوئی راز نہیں یوں تو پھّتر  بھی خدا کے کلام سے پیدا ہوئے  ہیں تو کیا پتّھر بھی کلمتہ اﷲ ہیں۔ سب انسان خدا کی کلام سے پیدا ہوئے تو کیا وہ سب کلمتہ اﷲ ہیں۔ ہر گز نہیں  کلمتہ اﷲ کہلانیکا وہی باعث ہے جو یوحنا نے بیان کیا ہے یعنے اِبتدا میں کلام  تھا وغیرہ پس قرآن  سے بھی ابنیت  مسیح ثابت ہوئی ہے اور اشارہ کے طور  پر الوہیت مسیح بھی چابت ہوتی ہے۔ کیونکہ خدا کا کلام خدائی  کا درجہ رکھتا ہے۔

چندر گھوش