مسیح ابن ﷲ۔خدا۔کفارہ۔ خاتم النبین ہیں

JESUS, THE SON OF GOD

God, Atonement and Last Prophet

Published in Nur-i-Afshan July 1873
By Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

یہ چاروں! تین عیسائیوں کے عقیدہ کی ایک جزو ہیں۔ اور بڑی مشکل ہیں۔ اور  إس لیے ہندو مسلمان وغیرہ اسیں لغزیش کھاتے ہیں او ر  إس پر معترض ہوتے ہیں چند روز ہوئے کہ اخبار منشور  محمدؑی میں بھی ایک مضمون اسی بنا پر ایک شخض مسمٰٖی فک شاہ نے تحریر فرمایا ہے جو کہ محض اُن کی ناواقفی اُور نافہمی کا نتیجہ ہے۔إس واسطے میں إن امور پر اپنی عقل خداوند  کے موافق تحریر کرتا ہوں تاکہ معترض اور نیز متلاشیان دین عیسوی کو إسکے سمجھنے میں مدد ملے۔

ملک شاہ نے اپنے مضمون کا آغاز یوں کیا ہے کہ انجیل کا حال نئی تواریخ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہےکہ یہ مروج اہل کتاب بالکل فاسد اور نکمی ہیں چنانچہ سٹنر کار لائیل کہتے ہیں کہ ترجمہ انگریزی میں  مطلب بالکل فاسد اور  بازار  راستی کا کاسد ہے اور نور کو ظلمت میں اور  سچ کو دروغ پر فوقیت بخشتے ہیں اور علمائے لنکن نے بدرخواست خودگزارش بادشاہ کو کیا تھا کہ ترجمہ انگریزی جیبل کا بہت خراب ہے کہ بعض جگہ بڑھایا گیا اور بعض جگہ گھٹایا گیا اور   بعض جگہ بدلا گیا اور مسٹر براتن نے درخواست کی تھی کہ ترجمہ انگریزی جیبل کا موجودہ انگلستان غلطیوں سے پُرُ ہے اور مسٹر ہرجن نے کہا تھا کہ میں کمی و بیشی اور  افضائے مطلب اور تبدیل رعا کی کیونکر سند دوں غرضکہ انجیل کے رو سے عیسٰی کو خدا کا بیٹا کہنا اور الوہیت اُسکی ثبوت کرتی اور تمام دنیا کے پیغمبر  مبو ث کہنا باطل و عاطل ہے بلکہ اُس میں بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہچنتا ۔ عیسیٰ نے تمثیلاٖ کہا ہوگا کہ ایسا عزیز و برگزیدہ درگا کبریا ہوں جیسا کہ بیٹا باپ کو محبوب اور اُس کی تابع کو مرغوب ہوتا ہے۔ ملک شاہ صاحب معلوم نہیں کہ   آپ نے کونسی  تواریخ سے ثابت کیا ہے کہ انجیل فاسد اور نکمی ہے اُسکا حوالہ تو دیجی۔ یہ ثبوت اور حوالے جو  آپ نے دیے ہیں بالکل فاسد اور نکمے ہیں۔ اسے جامع علم معقول بہتر  ہوتا اگر آپ آغاز مباحثہ سے پہلے اور  شروع اعتراض سے پیشتر  علم منطق اور مناظرہ کا مطالعہ کر لیتے تاکہ آپکو  اعتراض کے کرنے اور ثبوت دینے اور دلیل کے پیش کرنے کا ڈہنگ یاد ہوجاتا اور  اس قسم کی فاش غلطی میں گرفتار نہ ہوتے  چھوڑا کہیں تھا اور جا پڑا کہیں۔ آپ کا دعوٰی ہے کہ انجیل فاسد اور  نکمی ہے اور دلیل اُس کی آپ یہ ہی دیتے ہیں کہ مسٹر  کارنائیل یا کسی اور کے کہنے سے یہ ثابت ہے کہ اُسکا ترجمہ انگریزی بہت خراب ہے۔

واہ صاحب واہ آپ ہی إنصاف فرما دیں کہ یہ دلیل اسی قسم کی نہیں جیسا کہ ہم کہیں قران بالکل فاسد  اور نکما ہے کیونکہ اُس کا ترجمہ اُردو  بہت خراب ہے۔ آپکو معلوم نہیں کہ عیسائیوں کا اعتقاد اور اُنکے عقیدہ کی بنیاد کچھ ترجمہ انگریزی اور اردو  پر نہیں بلکہ اعلی کتاب پر ہے اور نہ کوئی عیسائی ترجمہ کو الہامی کتاب روح القدس کی لکھائی ہوئی مانتا ہے ہم جو کچھ دعویٰ کرتے ہیں  وہ ا صل کتاب کی نسبت ہے نہ ترجمہ کی نسبت اور ترجمہ کی خرابی کچھ اصل کتاب پر نقص نہیں ڈالتی۔ ترجمہ غلط ہے تو غلط سے اُسکی پابندی اور شہادت وہیں تک ہے جہاں تک اصل کے مطابق ہے جیسا کہ آپکے ہاں ہے اور کرجمہ کچھ نوشتہ آسمانی تصور نہیں کیا جا۔ بھلا صاحب آپ ہی کہیں کہ اگر کوئی شخص قرآن کا ترجمہ غلط کرے تو اُس سے قرآن کے مضامین غلط  ٹھر جائینگےنہیں بلکہ ترجمہ کی صحت اور سقم کے ملاحظہ کے واسطے اصل کتاب کی شہادت لیجا دیگی اور اصل کتاب کو معتبر سمجھا جائیگا۔

اور  ابن ﷲ وغیرہ کا لفظ یسوع کی نسبت ترجمہ میں ہی مستعمل ہوا بلکہ اصل کتاب میں آیا ہے اور ہم اصل انجیل کے رو سے ہی اُسکو  خداُ کا بیٹا کہتے ہیں اور اُسی سے اُس کی الوہیت وغیرہ  ثابت کرتے ہیں۔

  • بیشک محمدؐی یسوع کو ابن ﷲ کہنے سے نفرت کرتے ہیں اس پر اعتراض لاتے ہیں لیکن یہ اُن کی غلطی ہے۔
  • ہم یسوع کو جسمانی طور پر خدا کا بیٹا نہیں کہتے جیسا اُن کا خیال ہے بلکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خدا جو رو سے اور بیٹے سے اور جو شخص جسمانی طور پر اُسکو  خدا کا بیٹا قرار دیتا ہے وہ گنہگار اور کافر جہنمی ہے۔

اب ٰإنصاف کو مدنظراور تعصب کو دور فرما کر  ملا حظہ فرمادیں تاکہ آپ کوتاہ فہمی سے إس غلطی اور دھوٰکہ میں پھنسے نہ رہیں کہ ابن ﷲ کل بیبل میں چار اشخاص کی نسبت مستعمل ہوا ہے۔

۱۔    فرشتوں کی نسبت دیکھو ایوب کی کتاب پہلاباب ۶ آیت جہاں لکھا ہے ایک دن ایسا ہوا کہ بنی ﷲ آئے کہ خدا حضور حاضر ہوں۔ پھر ۳۸ باب؛ آیت کتاب صدر  جب صبح کے ستارے ملکے گاتے تھے اور سارے بنی  ﷲ خوشی کے مارے للکارتے تھے اور إس لفظ کا استعمال فرشتوں کی نسبت إس  واسطے ہوا  کے وہ آدمزاد کی مانند بہ توسل ماں اور باپ کے پیدا نہیں ہو ئے بلکہ سارے ایک ہی دفعہ خدا کے حکم سے مبعوث ہوئے۔

۲۔    آدم  کی نسبت دیکھو لوقا کی انجیل تیسرا باب ۳۸ آیت جس میں آدم کو خدا کا بیٹا کہا گیا ہےاور اُس کا سبب بھی یہی ہے کہ وہ بغیر ما ں اور باپ کے صرف خدا قادر مطلق کے حکم سے پیدا ہوا۔

۳۔خدا پرست لوگوں کی نسبت بھی یہ لفظ بیبل میں آیا ہے جیسے اسرائیل اور  افرایم بلکہ اُنکو  پلوٹھے بیٹے کہا گیا ہے۔ دیکھو یرمیاہ نبی ۳۱ باب ۹ آیت اور مسیح پر ایمان لانے والوں کے لیےیہ لفظ مستمعل ہوا ہے ۔ دیکھو انجیل یوحناّ پہلا ۱۲ آیت لیکن جنھوں نے مسیح کو قبول کیا اُس نے اُنھیں اقتدار بخشا کہ خدا کے فرزند ہوں لینے اُنہیں جو اُسکے نام پر ایمان لاتے ہیں پھر  یوحناّ کا پہلا خط تیسرا باب پہلی آیت  دیکھو کیسی محبت باپ نے ہمسے کی کہ ہم خدا کے فرزند کہلائے ۔ اور رومیوں کا خط ۸ باب ۱۴ آیت جتنے خدا کی روح کی ہدایت پر چلتے وہ بھی خدا کے فرزند ہیں۔

إن آیتوں سےصاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے بندوں کو  بیبل میں فرزند کہا گیا ہے إسکا کا سبب یہ ہی ہے۔ ۱۔ کہ اُنھوں نے خدا کی پاک روح کی تاثیر  سے نیا جنم حاصل کیا ہے ۔۲۔ کہ خداوند یسوع مسیح پر ایمان لانے سے خدا کے خاندان میں شامل ہوئے جیسا لکھا  ہےنہ لہو سے اور نہ جسم کی خواہش سےنہ مرد  کی خواہش سے مگر خدا سے پیدا ہوئے ہیں اُور فرزندوں کی سی طبیعت اور حق حاصل کیا۔

۴۔ خداوند یسوع مسیح کی نسبت ابن ﷲ کا لفظ بائبل میں آیا ہے دیکھو لوقا کی انجیل پہلا باب    ۳۵ آیت وہ پاک لڑکا خدا کا بیٹا کہلائیگا اور مرقس کی انجیل پہلا باب پہلی آیت خدا کے بیٹے یسوع مسیح کی انجیل کا شروع ۔یوحنا کی انجیل پہلا باب ۳۴ آیت سو میں نے دیکھا اور گواہی دی یہ ہی خدا کا بیٹا ہےیوحنا کا انجیل ۶ باب ۱۹ آیت ہم تہ ایمان لائے اور جان گئےکہ تو زنداہ خدا کا بیٹا ہےاور إسی طرع کم سے کم ۴۵دفعہ لفظ ابن ﷲ  کا بیبل میں مسیح کی نسبت آیا ہےلیکن ہم إس پر اکتفا کرتے ہیں۔ 

اب یہ سوال ہے خداوند یسوع مسیح کو ابن ﷲ کیوں کہا گیا ہے سو إسکا جواب ہم انجیل سے ہی تحریر کرتے ہیں۔

واضح ہو کہ انجیل مقدس میں یسوع مسیح کو ابن ﷲ کہنے کے دو سبب بیان ہوئے ہیں۔ ۱۔ لوقا کی انجیل پہلاباب ۳۵ آیت فرشتہ نے جواب میں اُسے لینے مریم کو کہا کہ روح قدس تجھ پر اُترے گی اور خدائے تعالٰی کی قدرت کا سایۂ  تجھ پر ہوگا إس سبب سے وہ پاک لڑکا خدا کا بیٹا کہلائیگا۔

اِس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہےکہ ہمارا خداوند یسوع مسیح ابنِ آدم ابنِ مریم خدا کا بیٹا کہلایا اِس واسطے کہ اُسکی پیدایش روح قدس سے اور خدا کی قدرت کے سایہ سے بغیر باپ کے ہوئی۔

۱۔ یعنی وہ خدا کی خاص قدرت سے پیدا ہوا اِسواسطے خدا کا بیٹا کہلایا۔

۲۔    دوسری وجہ یسوع مسیح کو  ابن ﷲ کہنے کی یوحنا کی انجیل میں مندرج ہے دیکھو پہلا باب ۱۴ آیت اور  کلام مجسم ہوا اور وہ فضل اور راستی سے بھرپورہو کے ہمارے درمیان اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال اِس آیت کا بیان یوں ہے کہ کلمتہ ﷲ جو  ابتدا میں تھا اور خدا کے ساتھ تھا اور خدا تھا۔ یعنی اِبنﷲ جو زات الوہیت کا دوسرا شخص ہے مجسم ہوا یعنی جسم اختیار کر کے یسوع مسیح میں رہا اور اُس کا جلال اُسمیں ایسا ظاہر ہوا جیسے باپ کے اکلوتے کا جلال اِس سبب سے خداوند یسوع مسیح ابن ﷲ کہلایا یعنی ابن ﷲ اِس میں مجسم ہو کے رہا اور  نجات کے کام کو پورا کیااِسواسطے وہ خدا کا بیٹا کہلایا ۔اور یہی خاص سبب ہے کہ جسواسطے خداوند یسوع مسیح خدا کا اِکلوتا بیٹا کہلایا کیونکہ ابنیت اوروں کی مانند نہیں تھی۔ اور نہ فرشتے اورنہ آدم اور نہ خدا کے بندے اِس سبب سے خدا کے بیٹے کہلائے۔یہ خاص سبب ابنیت کا صرف خداوند یسوع مسیح میں موجود تھااور وہ ہی اکیلا انسان تھا جسمیں الوہیت مجسم ہوئی یعنی ابن ﷲ جو ابتدامیں تھا خدا کے ساتھ تھا خدا تھا اکیلا اُسمیں رہا۔ اِسواسطے خداوند یسوع مسیح خدا کا اکلوتا بیٹا کہلایا ہے۔

نہ اِس لیے جیسا کہ ملک شاہ صاحب نے یہ کفر  کا کلمہ کہا کہ خدا کی تین جوروں تھی اور مسیح تیسری جورو کا اکلوتا بیٹا تھا۔

یہ ساری باتیں الہامی ہیں تقریر میں نہیں آسکتیں اُسکی سچائی اُن معجزات سے ثابت ہوتی ہےجو کہ اُس سے ظاہر ہوئے اور نیز اُسکا سمجھنا متعلق مسئلہ تثلیث کے ہے انسان کو پوری سمجھ اِسکی جب آسکتی ہے جبکہ بیان تثلیث کو وہ بخوبی سمجھ لیوئے۔

لیکن اِس جگہ اِسکا بیان ،موافق اِنجیل کے ہوا کہ کس واسطے یسوع کو ابن ﷲ کہا گیا ہے تاکہ لوگ اُس بخوبی سمجھ لیویں۔

چوتھی تہمت عیسائیوں پر نہ رکھیں کہ وہ جسمانی طور پر  خدا کا بیٹا ہے۔

مندرجہ بالا میں خداوند یسوع مسیح کے ابن ﷲ ہونیکا زکر تھا اِس میں اُس کی الوہیت کا بیان اور اُسکی دلائیل مندرج ہیں۔ خداوند یسوع مسیح خدا ہے اِس کلام کے سمجھنے کےلیے یاد رکھنا چاہیے کہ خداوند یسوع مسیح ایک شخص تھا جس میں دو زات موجود تھیں ۔۱۔ انسانیت ۲۔الوہیت ۔ وہ پورا انسان تھا عین اُسیطرح جیسے اُور انسان ہیں جسم اور روح سے بنا ہوا۔ اِسواسطے وہ پیدا ہوا ۔ لڑکپن سے پرورش پائی اِنسان کے موافق کھاتا پیتا رہا اور کام کاج کرتا رہا اور  علم میں بھی اُسنے ترقی کی اور آخر مر گیا صرف ایک بات میں دو آوما  انسانوں سے فرق رکھتا تھا کہ وہ بالکل بیگناہ تھا اور بے نقص اور کامل اِنسان تھا اُسمیں الوہیت موجود تھی یہ الوہیت اِنسانیت سے ملکر یکزات اورمتحد نہیں تھی بلکہ علیحدہ حدسی تھی اور مسیح کو نجات کا کام کرنے میں ہمیشہ مدد دیتی رہی یہ الوہیت اُسمیں اِسطرح موجود نہ تھی جیسا اِس ملک کے بیدانتی لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہر  ایک جیو میں خدا کی زات موجود ہے  یا جیسا خدا ہر جا  موجود ہے ہونیکے سبب سب جگہ اور  سب جیو میں ہے مسیح میں الوہیت اِس طور پر تھی کہ اُسکی الوہیت اور اِنسانیت دونو ملکر وہ ایک شخص بنا اور اُسکے کام و کاج میں خیال و گفتگو میں الوہیت کی صفات ظاہر ہوئیں جسکا ثبوت آیندہ دیا جائیگا۔

مسیح خداوند خدا مجسم تھا یعنی خدا انسان کے پیرایہ میں آیا اور اِس لیے اُسکا ایک نام اِنجیل میں عمانوئیل ہے جسکے معنی ہیں خدا ہمارے ساتھ ۔ وہ پرمیشر  کا اُتار تھا۔ یعنی اُس میں پورا منشکا اور  پرمیشر کا اُنس موجود تھا۔

ملک شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ انجیل سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی۔ کہ خدا کی زات اُس میں موجود تھی یہ بات ٖغلط ہےاِسکا ثبوت اِنجیل میں بےشمار ہے کوئی شخص جو انجیل سے واقف ہو اِس بات سے اِنکار نہیں کر سکتا چنانچہ اِس امر کا ثبوت اور دلائل چار حصوں میں بیان کرتا ہوں۔

۱۔    انجیل میں خدا کا لفظ مسیح کی نسبت استعمال آیا ہے دیکھو یوحنا کی انجیل پہلا باب پہلی آیت ابتدا ئےمیں کلام  تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ رومیوں کا خط ۹ باب ۵ آیت جسم کی نسبت مسیح بھی باپ دادوں سے ہوا جو سب کا خدا ہمیشہ مبارک ہے پہلا تمتاوُس  ۳ باب ۱۶ آیت اور بلاتفاق دینداری کا بھید بڑا ہے یعنی خدا جسم میں ظاہر کیا گیا اور روح سے راست ٹھہرایا  گیا یہ کلام یسوع مسیح کی نسبت ہے۔ تتسدوسرا باب ۱۳ آیت اور بزرگ خدا اور اپنے بچانے والے یسوع مسیح کے ظہور  جلیل کی راہ تکے ۔عبرانیوں کا خط  پہلا باپ ۸ آیت بیٹے کی بابت کہتا ہے کہ اےخدا تیرا تخت ابد تک ہے راست کا عصا تیری بادشاہت کا عصا ہے۔ یوّحنا کا پہلا خط ۵باب ۲۰ آیت ہم اُس میں جوحق ہی رہتے ہیں یعنی یسوع مسیح میں جو اُس کا بیٹا ہے خدائے برحق اور ہمیشہ کی زندگی اور یسعیاہ نبی کی کتاب ۹ باب ۶ آیت کہ مسیح اِس نام سے کہلاتا ہے عجیب مشیر  اور خدائے قادر۔

۲۔     دلیل اُسکی الوہیت کی یہ ہے کہ خدا کی صفات اُس کی نسبت بیان ہوئیں ۔ اول ازلیت یوّحنا کی انجیل ۱  باب ۲ آیت کلام ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا ، ۸ باب ۵۸ آیت یسوع نے لوگوں  کو کہا کہ پیسشتر  اِسکے کہ ابراہم ہو میں ہوں، ۱۸ باب ۵ آیت اور ائےباپ اب تو مجھے اپنے ساتھ اُس جلال سے جو میں تیرے ساتھ دنیا کی پیدائش سے پیشتر رکتھا تھا جلال دے، مکاشفات پہلا باب ۸ آیت، ۱ ۔ ۱۸ آیت خداوند یوں فرماتا ہے کہ میں الفا اور اومیگااول اور  آخر ہوں میں موا تھا اور زندہ  ہوں میں ابد تک زندہ ہوں ۔

۳۔ بے تبدیلی عبرانیوں کا خط پہلا باب ۱۱۔۱۲ آیت وہ نیست ہوجائینگے پر  تو باقی ہے اور وہ سب پوشاک کی بانند  پورانے ہونگے اور وہ جل جائینگے پر تو وہ ہی ہے۔ اور تیرے برس جاتے نہ رہینگے ۔

پچھلا کلام مسیح کی نسبت۔

۱۳ باب ۸ آیت یسوع مسیح کل اور آج ابد تک یکساں ہے۔

۳۔    ہر جا موجود ہونا،  یوحنا کی انجیل ۳ باب ۱۳ آیت اور کوئی آسمان پر نہیں گیا سوائے اُس شخص کے جو آسمان سے اُترا یعنی ابن آدم جو آسمان پر ہے، متی کی اِنجیل ۲۸ باب ۲۰ آیت مسیح نے اپنے رسولوں کو کہا دیکھو میں زمانہ کے تمام ہونے تک ہر روز  تمھارے ساتھ  ہوں، ۱۸ باب   ۲۰ آیت  جہاں دو یا تیں میرے نام پر اِکٹھے ہوں وہاں میں اُنکے بیچ ہوں۔

۴۔    سب کچھ جاننا۔ یوحنا کی اِنجیل ۲ باب ۲۳ سے ۲۵ آیت تک لیکن یسوع نے اپنے تیئں لوگوں پر چھوڑا اِس لیے کے وہ سب کہ جانتا تھا اور محتاج نہ تھا کہ کوئی اِنسان میں جانتا ہے ۔

مکاشفات ۲ باب ۲۳  آیت ساری کلیسیاؤں کو معلوم ہوگا میں وہی ہوں جو دلوں اور گردوں کا جانچیوالا ہے اور میں تم ہر ایک کو تمھارے کاموں کے موافق بدلہ دوں گا۔

۵۔    قادر مطلق ہونا۔ مکاشفات پہلاباب۸ آیت خداوند یوں فرماتا ہے کہ میں قادر مطلق ہوں، عبرانیوں کا خط ۱ باب ۱۳ آیت اور وہ یعنی یسوع مسیح خدا کے جلال کی رونق اور اُسکی الوہیت کا نقش ہو کے سب کچھ اپنی ہی قدرت کی کلام سنبھالتا ہے۔

تین قسم کی دلیلوں سے یہ ظاہر ہے کہ الوہیت کے کام کے کام مسیح میں اور مسیح کے وسیلے سے ظاہر ہوئے۔

۱۔    پیدائش یوحنا کی اِنجیل ۱ باب ۴ آیت سب چیز یں اُس سے وجود میں آئیں اور کوئی چیز موجود نہ تھی جو  بغیر اُس کےہوئی، ۱۰ آیت جہاں اُس سے موجود ہوا۔ کلسیوں کا خط پہلا باب ۱۶ آیت اور ۱۷ آیت   کیونکہ اُس سے ساری چیز یں جو آسمان اور زمین پر ہیں دیکھی اور اندیکھی کیا تخت کیا  حکومتیں کیا ریاستیں کیا مختاریاں پیدا کی گئیں اور ساری چیزیں اُس سے اور اُسکے لیے پیدا ہوئیں اور وہ سب سے آگے ہے اور اُس سے ساری چیز یں بحال رہتی ہیں۔

۲۔    پروردگاری کا کام مسیح کی نسبت بیان ہوا ہے ۔ عبراینوں کا خط پہلا باب ۳ آیت وہ یعنی مسیح اُسکے جلال کی رونق اور اُسکی ماہیت کا نقش ہو کے سب کچھ اپنی ہی قدرت سے سنبھالتا ہے، کلسیوں کا خط پہلا باب ۱۷ آیت اور وہ یعنی مسیح سب سے آگے ہے اور اُس سے ساری چیزیں بحال رہتی، متی کی اِنجیل ۲۸ باب۱۸ آیت اور یسوع نے ان سے کہا کہ آسمان اور  زمین کا سارا اختیار مجھے دیا گیا۔

۳۔    موت اور زندگی پر اختیار ۔ یوحنا کی اِنجیل ۵ باب ۲ آیت جسطر باپ مرُدوں کو اُٹھاتا اور جلاتا ہے بیٹا بھی جنھیں چاہتا ہے جلاتا ہے۔

۴۔    ا ختیار قیامت ۔دوسرا قرنتیوں کا خط ۵ باب ۱۰ آیت ہم سب کہ ضرور ہے کے مسیح کی مسند عدالت کے آگے حاضر ہوویں تاکہ ہر ایک جو کچھ ہمنے کیا ہے بھلا یا برُا موافق اُسکے پائیں۔ متی کی اِنجیل ۲۵، ۳۱، ۳۲ آیت جب اِبن آدم اپنے سے آویگا۔ اور سب پاک فرشتے اُسکے ساتھ ۔ تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا ۔ اور سب قومیں اُس کے آگے حاضر کیجائینگی اور جسطرح گڈریا بھیڑوں کو بکریوں سے جدُا کرتا ہے وہ ایک دوسرے سے جدُا کریگا وغیرہ۔

۴۔    دلیل مسیح کی الوہیت وہ  ہےجس سے یہ ظاہر ہے کہ خدا کی بندگی اور عبادت مسیح کو دینی واجب ہے دی گئی ہے۔

یوّحنا کی اِنجیل ۵ باب ۲۳ آیت سب بیٹے کی عزت کریں گے جسطرح سے باپ کی عزت کرتے ہیں جو بیٹے کی عزت نہیں کرتا باپ کی جسے  اُس نے بھیجا ہے عزت نہیں کرتا، فلپیوں کا خط  ۲ باب ۹ آیت اِسواسطےخدا ہی نے اُسے بہت سرفراز کیا اور اُسکو ایسا نام جو سب ناموں سے بزرگ بخشا تاکہ یسوع کا نام لیکرکیا آسمانی کیا زمینی کیا وہ جو زمیں کے تلے ہیں گھنا بخشیں ۔ عبرانیوں کا خط پہلا باب۶آیت اور جب پلوٹھے کو یعنی یسوع مسیح  کو  دنیا  میں پھر لایاتو کہا کہ خدا کے سب فرشتے اُسکو سجدہ کریں۔

متی کی اِنجیل ۲۸ باب ۱۹ آیت تم سب قوموں کو شاگرد بناؤ  اُنھیں باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتمسہ دو  اور  اِس حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ باپ بیٹا روح برابر ہیں اعمال کی کتاب ۷ باب ۵۹ اور ۶۰ آیت استیفان یہ کہکے دعا مانگتا تھا کہ ائے خداوند یسوع میری روح کو قبول کر ائے خداوند یہ گناہ اُنکے حساب میں مت رکھ ، دوسرا قرنتیوں کا ۱۳ باب ۱۴ آیت خداوند یسوع مسیح کا فضل اور خدا کی محبت اور روح قدس کی رفاقت سبھوں کے ساتھ ہووئے۔ اِس جگہ یسوع اور روح قدس اور خدا سے برابر دعا مانگی گئی۔

اِن چار قسموں کی دلیلوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خداوند   یسوع مسیح کہ اِنجیل میں خدا کہا گیا ہے ۔ اور خدا کی صفتیں اُس میں موجود تھیں اور الوہیت کا کام و کاج اِس سے ظاہر ہے کہ خدا کی عبادت اُسکو دی گئی البتہ پہلی قسم کی دلیل قطعی نہیں کیونکہ خدا کا لفظ سوائے یسوع کے اور نبیوں اور نیز حکام اوربعض دیگر اِنسانوں کی نسبت بھی بائیبل میں مستمعل ہوا ہے دیکھو یوّحنا کی اِنجیل ۱۰ باب ۳۵ آیت جبکہ اُسنے انھیں جنکے پاس خدا کا کلام آیا خدا کہا اور ممکن نہیں کہ کتاب باطل ہو  خروج کی کتاب ۷ باب ۱ آیت خدا نے موٰسی سے کہا دیکھ میں نے تجھے فرعون کا سا بنایا ۸۲ زبور ۶ آیت میں نے تو کہا کہ تم اِلئہ ہو اور تم سب حق تعالٰی کے فرزند  ہو۔ یہ کلام شیطان کی نسبت بھی مستمعل ہوا۔ دوسرا قرنتیوں کا خط ۴ باب ۴ آیت اِس جہان کے خدا نے اُنکی عقلوں کو جو بے ایمان ہیں تاریک کر دیا اگر صرف یہی دلیل مسیح کی الوہیت کی بیبل میں ہوتی تو ہم کبھی ہم کبھی اُسکو خدا نہ کہتے بلکہ ہم سمجھتے کہ جیسا اگلے زمانہ میں اُن لوگوں کو خدا کہا گیا جنکے پاس خدا کا کلام آیا اُسی طرح خداوند یسوع مسیح کو رسول خدا ہونیکے سبب خدا کہا گیا۔ لیکن مسیح کی الوہیت صرف اسی ایک منحصر نہیں اور نہ اُسکی الوہیت کی یہی خاص دلیل ہے بلکہ یہ ایک چوتھا حصہّ اُسکی الوہیت کی دلیلوں کا ہے اوراُن کے ساتھ ملکر قطعی ہوجاتا ہے ہم نے بیان کیا کہ بائیبل میں خداوند یسوع مسیح کو نہ صرف خدا کہا گیا ہے بلکہ خدا کی صفات اُس میں ظاہر ہوئیں یہ کسی انسان میں کسی پیغمبر  میں کبھی ظاہر نہیں ہوئیں اور یہ بھی بیان ہوا کہ خدا کے کام یعنی وہ کام صرف خدا کر سکتا ہے جیسا پیدایش اور پروردگاری موت و زندگی پر اختیار اور قیامت پر اِقتدار اُسے حصل تھا اور سب سے پیچھے یہ بیان ہوا کہ وہ بندگی اور عبادت جو صرف خدا کو دی گئی اور جو    اُسی کہ دینی واجب تھی مسیح کو دی گئی اور اُسکی نسبت واجب بیان ہوئی اب اِس حال میں ہم کیا کئہ سکتے ہیں سوائے اِس کے کہ بائیبل میں جگہ جگہ اُسکی الوہیت کا بیان ہے اور اِس لیے ہر ایک شخص پر جو اِنجیل  کو الہامی کتاب جانتا ہے اُسکی الوہیت کا اقرار کرنا واجب ہے اِسی لیے مناسب ہے کہ ملک شاہ صاحب یا اور کوئی ہمارا محمدی دوست جو اِنجیل کے الہامی ہونے کا قاہل ہے پیشتر اِس سے کے کہ مسیح کی الوہیت سے انکار کرے اِن آیتوں کا ملاحظہ فرما لے یا اِس اُوپر ثبوت دے کہ یہ آیتیں جو پیش ہوئیں اصل اِنجیل میں مندرج نہیں ہیں اگر ایسا نہ کر سکے تو اُنکا الزام جھوٹا اور باطل ہےاور اُنکو یہ کہنا مناسب نہیں کہ مسیح کی الوہیت اِنجیل سے ثابت نہیں ہوتی۔

اب میں مسیح کی الوہیت کی گواہی پیش کرتا ہوں جو کہ اُن لوگوں پر بھی اثر کرتی ہے جو کہ اِنجیل کے الہامی ہونیکے قابل نہیں اور صرف اُسکو تواریخی کتابوں کے موافق سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ مسیح خداوند نے الوہیت کا دعوٰی کیا اور اپنے کلام کے ثبوت میں معجزہ دکھایا  الوہیت کا بیان پیشتر منفصل ہوُچکا اب صرف بطور یاد داشت کہ ایک دو آیتں بیان کی جاتی ہیں مرقس کی اِنجیل ۲باب ۵ آیت یسوع نے کہا اے بیٹے تیرے گناہ معاف ہوئے یہ بات سنُ کر  لوگ کڑُ کڑُئےاور بولے کہ خدا کے سوا کون  گناہ معاف کر سکتا ہے مسیح نے کہا ۱۰ آیت سے ۱۲ تک تاکہ ہم جانو کہ ابن آدم زمین پر گناہوں کے معاف کرنیکا اختیار رکھتا ہے میں تجھے کہتا ہوں ائے مفلوج اُٹھ اور کھٹولا اُٹھا کے اپنے گھر کو جا اور فی الفور وہ اُٹھا اور  اپنا  کٹھولا اُٹھا کے سب کے سامنے چلا گیا سب دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ متی کی انجیل ۱۸ باب ۲۰ آیت جہاں دو یا تین میرے نام پر  اِکھٹے ہوں وہاں میں اُن کے بیچ میں ہوں، یوّحنا کی اِنجیل ۱۸ باب ۵۸ آیت پیشتر  اِس کے کہ ابراہم ہو میں ہوں، ۱۸ باب ۵ آیت ائے باپ اب تو مجھے اپنے اُس جلال سے جو میں دنیا کی پیدایش سے پیشتر رکھتا تھا بزرگی دے ، تیسرا باب ۱۳ آیت کوئی شخص آسمان پر نہیں گیا سو ائے اُس کے جو آسمان پر سے اُترا  یعنی ابن آدم جو آسمان پرہے ، یوّحنا کی اِنجیل ۱۰ باب۲۵ آیت میں نے تمہیں کہا اور تم نے یقین نہ کیا جو کام یعنی معجزہ کہ میں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں یہ میرے گواہ ہیں ۵ باب ۳۲ آیت یہ کام جو میں کرتا ہوں یہ میرے گواہ ہیں کہ باپ نے مجھے بھیجا ہے یوّحنا کی اِنجیل ۱۰ باب ۳۰ آیت میں اور باپ ایک ہیں یہ سنُ کے یہودیوں نے کہا کہ تو  کفر  کہتا ہے اور انسان ہو کے اپنے تئیں خدا بتاتا ہے ۳۳ آیت اِن آیتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے الوہیت اور اُسکی صفات کا دعویٰ کیا اور اُس کے ثبوت میں معجزہ دکھایا اب ہم جانتے ہیں کہ خدا کسی جھوٹے یا فریبی آدمی کو   معجزہ کرنیکی طاقت نہیں دیتا اِس لیے ضرور خداوند یسوع مسیح کے معجزہ  صاف اِس امر کو ظاہر کرتے ہیں کہ اِسمیں الوہیت موجود تھی اور وہ الوہیت کی صفات رکھتا تھا ۔ اگر کوئی کہے کہ وہ معجزہ شیطان کی مدد سے کرتا تھا تو یہ نہایت اُن کی سمجھ کی غلطی ہے کیونکہ شیطان کبھی کسی کو اپنی بادشاہت دورکرنے کے لیے مدد  نہیں دیتا اور یسوع مسیح کے معجزہ  اِ س قسم  کے تھے کہ شیطان کی بادشساہت کو نیست و نابود کرتے تھے اِس لیے ہر صورت سے خواہ اِنجیل کہ الہامی مانو  یا اُس کو تواریخی کتاب سمجھو  ثابت ہے کہ خداوند یسوع مسیح میں زات و صفات خدا کی موجود تھیں اب اگر زندگی باقی ہے تو  آئیندہ اخبار میں اُن آیتوں کا ملاحظہ کیا جائیگا جو بائیبل میں ظاہر اًمسیح کی الوہیت کے خلاف معلوم ہوتی ہیں۔