جہاد قرآنی اور عدالتی انصاف

Islamic Jihad and Justice

Published in Nur-i-Afshan February 14, 1884
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

زمانہ ترقی کرتا ہے اور جو لوگ اُسکی رفتار ترقی کو بہ نظر غور معائینہ کرتے ہیں وہ زمانہ کے ساتھ چلتے ہیں۔ جس قسم کا زمانہ ہوتا جاتا ہے اُسی قسم کی رائیں ظاہر کرتے ہیں اور ایسی پختگی سے قدم رکھتے ہیں ( بزعم خود) کہ گزشتہ زمانہ کے اہل الرائے کو غلط رائے کے ظاہر کرنیوالے بتلاتے ہیں۔

کچھ عرصہ گزرا کہ اہل اسلام کے سربرآور وہ لوگوں نے اِس امر پر کوشش کی (اور کر رہے ہیں) کہ مسئلہ جہاد قرآنی کو دوسری طرز پر ظاہر کیا اورقرآن اور احادیث کے ایسے معنی بتائے کہ وہ صرف دفعیہ اور انتظام مخالفت اوررفع شرکے واسطے جائیز ہی نہ کہ کفّار کو اسلام پر لانے کیواسطے وغیرہ وغیرہ ۔ مگر اُن آیات قرآنی کو نظر انداز کرتے ہیں  جن میں ہدائت ہے کہ مشرکوں کو جہاد پاؤ مارو جبتک کہ وے توبہ کریں اور نماز پڑھیں اور زکوۃ دیں(سورۃ توبہ فَإِذَا انسَلَخَ وغیرہ) اُنکو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن  میں چار قسم کا جہاد قرآنی ہے ۔ (۱) دفعیہ(۲)انتقام (۳) انتظام ترقی سلطنت (۴) جبراً ایمان لانے کے لیےموجود ہ اہل اسلام ایمان بالجبر کو نظر انداز کرتے  ہیں اِسکی وجہ (اگر میں غلطی نہیں کرتا) صرف یہہ ہے کہ وہ اظہار وفاداری کرتے ہیں اور دکھلاتے ہیں کہ ہم اِس مسئلہ کو ویسا تسلیم نہیں کرتے لیکن غلطی اِس میں یہہ ہے کہ وہ معنی جہاد قرآنی کے اپنی طرز پر کرتے ہیں اور وہ ایسے معنی ہیں کہ کسی عالم محمدی نے آج تک نہیں کئے  اور نہ سوائے دو چار باشندگان اہل  ہند کے آجکل کوئی ایسےمعنی لیتا ہے۔ ہم یہہ امر ظاہر کرکے کہ عالمگیرؔ و تیمورؔ و محمودؔ نے کس طرح اِس مسئلہ کا انکشاف اور عمل کیا ایک کثیر گردہ کی دلشکنی کرنا چاہتے صرف یہہ سوال کرتے ہیں کہ عرب و افغانستان و ایران و روم کے عالموں کی کیا رائے ہے آیا وہ  بھی اِس قسم کی رائے کا اظہار کرتے ہیں یا نہیں اگر اُنہیں سےہمارے ملک کے اہل الرائے (سید احمد خان بہادر و مولوی محمد چرغعلجان  بہادر و دیگرصاحبان) کے موافق چند سربرا وروہ صاحبان کی یہہ رائے ہو تو ہم تسلیم کرینگے کہ مسئلہ جہاد ابتک متنازعہ نیہ ہے اور اِس قسم کے مسئلہ میں اہل الرائے کی رائے مختلف ہے۔ کسی کی رائے کسیطرح ہے اور کس کی رائے کسی اور قسم کی ہے لیکن جبکہ تفاسیر اور عالموں کی رائے ایک ہی قسم کی رہی ہے تو اب جو رائے اُسکے برخلاف ظاہر کرتے ہین اُن کی کوئی اور غرض ہو گی جسکو ہم بلحاظ پولٹیکل مسئلہ کے ظاہر نہیں کرتے۔ اگر ہند کے موجود ہ اہل الرائے کو اپنی رائے پر بھروسہ ہے تو بہتر ہے (ابتک کیوں ایسا نہیں کیا)کہ اِس رائے کو فارسی ؔ عربیؔ ترکیؔ میں چھپوا کر ایران وغیرہ ممالک میں بھیجدیں تو ظاہر ہو جاویگا کہ وہاں کے عالمان محمدیکی رائے اِس امر میں کیا ہے۔ ذرہ غور کرنا چاہیے کہ محمدی سلطنتوں میں غیر مذاہب کہ لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے اگر وہ آزادی اور مساوات کو استعمال کرتے ہیں تو ہم مان لینگے کہ جہقابلہاد قرآنی کا مطلب صرف دفعیہ اور انتقام مخالفت اور رفع شرکیواسطے جہاد کرنا ہے اور اگر اِس کے برخلاف  ہے تو اِس رائے ہندوستان کی وقعت ظاہر  ہے کہ کیا ہے ۔ تھوڑے عرصہ کیواسطے آنکھ بند کر کے تسلیم کر لو کہ ابھی ہند میں محمدی سلطنت ہے تو معلوم کروگے کہ آذدای اور مساوات اور مسئلہ جہاد کا کیا حال ہے۔ صاحبان اہل الرائے کو کسی سلطنت اور با اقتدار شخص کا نمونہ پیش کرنا چاہیے کہ دیکھو وہاں اِس مسئلہ پر یہہ رائے اور یہہ عمل ہے۔ صرف چند صاحبان کی رائے بمقابلہ اصلی الفاظ قرآن و احادیث  اور نمونہ موجودہی کے کیا وقعت رکھ سکتی ہے ہاں اگر یہہ اہل الرائے اِس طرحسے بیان کریں کہ یہہ مسئلہ تو اسیطرح سے مندرج ہے اور اسیطرحسے اِسپر گزشتہ زمانی مین (ہند میں) عمل رہا اور اب بھی محمدی سلطنتوں میں اِس کی پیروی ہوتی ہے لیکن ہمارے رائے بلحاظ انسانی ہمدردی اور آزادی کے ویسی نہیں ہے تو  ہم خوشی سے اِسکو مان لینگے لیکن اگر اپنی رائے بھی بدل لو اور پھر جس چشمہ سے وہ رائے  نکالتے ہو صریحاً اُسکے بھی برخلاف چلو تو ہم ہرگز تسلیم نہ کرینگے۔ مولوی محمد حسین اغلب نے اپنے رسالہ اسلام کے ملکی اور عدالتی انصاف میں واقعات گزشتہ (عالمگیر وغیرہ) کی تاویلیں کی ہیں اور محمدی سلطنتوں کے انصاف کو ثابت کرنا چاہا ہے مگر ہم صرف اِس مختصر سوال کا جواب چاہتے ہیں کہ موجودہ سلطنتیں اسلام کی کسطرح انصاف کرتی ہیں۔ اگر اِسکا جواب اثبات میں ہو تو پھر ہم تاویلات مولوی صاحب پر غور کرینگے۔ زمانہ سلف میں صرف اکبر نے بے تعصبی سے کام کیا (ہند میں) لیکن علمائے محمدی کی رائے اُسکی نسبت کیا ہے؟ یہہ کہ وہ محمدی نہیں تھا۔ جدید الرائے صاحبان بجبر ایمان لوانے کے الزام سے قرآن  کو بچانا  چاہتے ہین اور اِسکے ضمن میں عدالتی انصاف محمدی شرع سے بھی ثابت کرانا چاہتے ہیں جو انہونی بات ہے۔اگر انصاف کا زکر ہو تو افغانستان اور ایران عرب کو برکنار رکھ کر ہم روم کی سلطنت پر نظر کرینگے جسکی تقلید اِس ملک کے ریفارمر کرتے ہیں۔ وہاں ہندو تو ہیں مگر بلگیر یا سرویا وغیرہ کے فصاری عایا کے ساتھ کب انصاف ہوتا ہے۔ ہم اِسکی تشریح کر کے اپنے محمدی احباب کو جوش دلانا نہیں چاہتے لیکن اُنہیں پر (اگر انصاف کرنا چاہیں) چھوڑتے ہیں وہ خود ہی دیکھ لیں کہ وہاں کے محمدی سلطنت غیر مذاہب والوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں جولے دے مولوی محمد حسین اغلب نے راجہ  شیوپرشاو پر کی ہے اُسکے ساتھ ہمارا اِسقدرتواتفاق ہے کہ اُنہوں نے ملک ہند کیواسطے  آئیندہ   بہتری کے خیالات ظاہر نہیں کئے لیکن ہم اغلب صاحب کے ساتھ اُن واقعات ماضیہ کی تردید (بتاویلات) میں متفق نہیں ہیں جو معتبر تاریخی کتابوں میں بھری ہوئی ہیں۔ اگر ہم راجہ شیوپرشاد کے ساتھ ایک امر میں متفق نہیں ہیں تو یہہ ضرور اور لازم نہیں کہ حقیقی واقعات سے چشم پوشی کر کے اُنکو ملزم ٹھہرائیں ۔ پس نتیجہ یہہ ہے کہ جہاد قرآنی کافروں (بلحاظ خیال محمدی) اور بیدینوں کے برخلاف جائیز  اور دوا ہی جبتک وہ ایمان نہ لاویں اور نماز نہ پڑھیں اور اُنکا عدالتی انصاف غیر إزہب والونکے ساتھ تعصب کے ساتھ  رہا ہے اور موجودہ سلطنت ہائے محمدی میں اسیطرح جاری ہے اور اِس امر کا ہم جواب دینا  نہیں چاہتے کہ بروئے قرآن و احادیث درخواستیں (گورنمنٹ میں) پیش ہوتی ہیں اور فارن آفس سے آمّنا و صدقنا  کی صدا ئیں آتی ہین اِس کی نسبت صرف اِسقدر کہاجاتا ہے کہ رموز مملکت  خویش خسرواں وانند یہہ صرف تمہید کے طور پر لکھا گیا ہو ارادہ ہے کہ آئیندہ  بحوالہ آیات  قرآن و احادیث اِس امر کو ثابت کر کے دکھلایا جاوے کہ مسلہ جہاد پر جو رائے ظاہر کیجاتی ہے وہ قرآن اور حدیث کے موافق نہیں ہے اگر رائے دہندگان اُسکو اپنی رائے ظاہر کریں تو عزر نہیں پر جو معنی کئے جاتے ہیں وہ برخلاف قرآن ہیں اور اسُطرح کبھی عمل نہیں ہوا اور نہ ہوتا ہے۔