مرُاسلات

اسحاق یا اسمٰعیل

علامہ اکبر مسیح

Isaac or Ishmael

Published in Nur-i-Afshan October1891
By. Rev. Akbar Masih

دو تین ہفتوں سے نور افشاں  میں بحث ہو رہی ہے کہ حضرت ابراہیم نے اسحاق کو قربانی گزرانا  یا اسمٰعیل کو۔ یہہ امر گو غیر متنازعہ ہے۔ کہ توریت میں حضرت اسحاق  کے قربانی کئے جانیکا بہت مفصّل  مذکور ہے۔ رہا قرآن  کا بیان  اگروہ  مطابق  توریت نہ ہو تو اُسکا نقصان ہے کیونکہ تواریخ توریت قرآن سے تر ہے۔ اُس کے مقابل قرآن  کےسخن کو کسیطرح بھی دقعت نہیں۔  مگر  واقعی یہہ امر بھی تحقیق  طلب ہے کہ قرآن کسکی قربانی کا زکر کرتا ہے۔ اسمٰعیل کی یا اسحاق کی؟

جہاں تک قرآن پر میں غور کرتا ہوں ۔ مجھکو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں اگر حضرت ابراہیم کے کسی لڑکے کی قربانی  کا مذکور ہے ۔ تو وہ اسحاق ہے۔ نہ کہ اسمٰعیل۔ قربانی  کے معاملہ کا تزکرہ قرآن میں سورۃ صافات رکوع  ۰۳  میں آیا ہے اور وہ یوںہے۔ کہ حضرت ابراہیم نے خدا سے دُعا کی کہ ‘‘ اے رب بخش مجھکو کوئی نیک بیٹا  پھر خوشخبری دی ہم اسکو ایک  لڑکے کی۔جو ہوگا تحّمل والا۔ پھر جب پُہنچا  اُسکے ساتھ دوڑنیکو ۔ کہا اے بیٹے میں دیکھتا ہوں خواب میں ۔ کہ تجھکو ذبح کرتا ہوں ۔ پھر دیکھ تو کیا دیکھتا ہے ۔ بولا اے باپ کر ڈال جو تجھ کو حکم  ہوتا ہے  تو مجھکو پاویگا اگر اﷲ نے  چاہا سہارنیوالا۔ پھر جب دونوں  نے حکم مانا ۔ اور پچھاڑا اُسکو ماتھے کے بل۔ اور ہم نے اُسکو پکارا یوں ۔ کہ اے ابراہیم تو نے سچ کر دکھایا خواب۔ ہم یوں بدلہ دیتے ہیں نیکی کرنیوالوں کو۔ بیشک یہی ہے صریح جاچنا اور اُس کا بدلہ دیا ہم نے ایک جانور ذبح کو بڑا اور باقی  رکھا ہم نے اُسپر پچھلی خلق میں کہ سلام ہے ابراہیم پر ہم یوں دیتے ہیں بدلہ نیکی کرنیوالوں کو ۔ وہ ہے ہمارے بندوں ایماندار میں۔اور خوشخبری دی ہم نے اسکو اسحاق کی جونبی ہوگا نیک بختوں میں اور برکت  دی ہم نے اُسپر  اور  اسحاق  پر اور دونوں کی اولاد میں نیکی  والے ہیں۔ اور بدکار بھی نہیں اپنے حق میں صریح ً۔

میرے نذدیک اس بیان سے اسحاق کی قربانی  کا ثبوت بہت وضاحت  کے ساتھ نکلتا ہے ۔ مگر محمدی گمان کرتے ہیں کہ۔ آخر آیت ( اور خوشخبری دی ہم نے اُس کو اسحاق کی جو نبی ہوگا نیک بختوں میں ) میں اسحاق کی  پیدایش کی خبر ہی ۔ جو بعد گذراننے قربانی کے ملی ۔ اور یہاں سے سمجھتے ہیں کہ قربانی قبل ولادت اسحاق واقع ہوئی ۔ پس ضرور اسمٰعیل جو پیشتر اسحاق کے تھے قربان کئے گئے ۔

مگر یہہ حال  بالکل باطل  ہے۔ کیونکہ اول تو  وہ بیان ایسا  ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بشارت کیوقت  اسحاق  موؔجودتھا۔دویم  توریت میں اور نیز قرآن میں بہت  صاف ذکر ہے کہ ابراہیم کو ولادت  اسحاق  کی خبرنہ بؔعد  قربانی۔ بلکہ قبل  ہلاکت اُمت لوط کے ملی تھی۔ چنانچہ یہہ قصہ سورۃ ہوؔد  و حجؔر و زاریات میں مرقوم ہے۔ کہ جو فرشتے  قوم لوط کو ہلاک کرتے جاتے تھے اثنا راہ میں انہوں نے ابراہیم کی مہمانی قبول کی اور کہا ‘‘ ہم تجھکو خوشی سناتے ہیں ایکم ہوشیار لڑکے کی ’’ ُسنے اور اُسکی بی بی سارہ نے اپنی ضعیفی کا خیال کر کے باور نہ کیا ۔ اور بہت تعجب ہوئے۔ تب فرشتے نے اُن دونوں کا اطمینان کیا ۸ حجررکوع ۳ دیکھو پس یہہ خیال کہ بعد ولادت اسحاق کی خبر دیگئی بالکل باطل ہے یہہ خبر تو اُن کو مدت قبل مل چکی تھی۔

اب دیکھٔے کہ سورہ صافات سے کیونکر قربانی اسحاق کا ثبوت ملتا ہے۔

۱۔ ذبیحاﷲ فرزند موعود حضرت ابراہیم کا تھا۔

اسکے تولد کی بشارت بجواب اُنکی دعا انکو دیگئی ۔قرآن میں وعدہ تولد اسحاق کا بہت ہی صاف الفاظ میں مسطور ہے۔ مگر  تولد اسمٰعیل کی کوئی بشارت قرآن میں نہیں۔ حضرت ابراہیم نے اُس فرزند کو نذر کیا جسکی بشارت انکو دیگئی۔

۲۔ جب حضرت ابراہیم نے دعا کی ‘‘ اے رب بخش مجھکو کوئی نیک بیٹا۔’’ (اسیکو بعدہً اُنہوں نے نذرگزراننا) تو وہ ضرور کو ئی بیٹا اُنکی حقیقی بی بی سارہ کے بطن سے چاہتے تھے کیونکہ یوں تو اُنکے کئی بیٹے تھے ایک ہاجرہ سے ۶ قطورہ سے ۔ مگر یہہ سب حرمون کے بطن سے تھے جنکو وہ مرتبہ نہیں حاصل ہوسکتا تھا۔ جو اسحاق کو حاصل تھا۔

۳۔ اسمیں یہہ بھی لکھا ہے کہ جب ابراہیم نے اپنے بیٹے سے اپنے خواب کا تذکرہ کیا۔ تو اُسنے بڑی خوشی سے اپنی جان خدا کی راہ میں نثار کرنے پر مستعدی ظاہر کی اور کہا ‘‘اے باپ کر ڈال جو تجھکو حکم ہوتا ہے۔ ’’ مفسریں نے اس پر اور ضافہ کیا ہے کہ اس نے اپنے باپ سے یہہ بھی کہا کہ تو میرے ہاتھ پیر باندھ دے۔ تانہ ہو کہ وقت ذبح میرے تڑپنے سے تیرے کپڑے خون آلودہ ہوں۔ اور کہ مجھکو پٹ کراوے ۔ تاکہ میرا چہرہ  دیکھ کر تجھپر مہر پرری غالب نہ ہو۔ اور کہ بعد قربانی واسطے تشفیّ اور کے میرا پیراہن اُسے دیدینا ۔ پس واقعی اگر یہہ سب درست ہے تو اسمیں فرزند موعود یعنی اسحاق کے اوصاف نمایاں ہیں یہہ سب بڑی دانائی و ہوشیاری کی باتیں تھیں۔ ضرور یہہ ذبیح اﷲ وہی ‘‘ ہوشیؔارلڑکا’’  ہے جسکی ولادت کی خبر سارا کو دیگئی تھی۔ علاوہ اس کے ایک اور صنعت بھی اِس ذبیح اﷲ کی بتلائی گئی ‘‘ وہ ہوگا تحّمل والا (حلیم)’’ اِن صفتوں سے ابراہیم کا کوئی لڑکا موصوف نی تھا۔ مگر جسکو قربانی گزرانا۔ اور بھی صفات اسحاق میں ملتی ہیں پس کوئی کلام نہیں کہ یہہ ذبیح اﷲاسحاق ہی تھا جو ‘‘نیک’’ بھی تھا ‘‘ہوشیار’’ بھی تھا۔ اور ‘‘حلیم’’بھی تھا۔ اور بوقت قربانی اِن تمام صفات کا اظہار  ہو گیا۔ برخلاف اسکے اسمٰعیل کی شان میں توریت میں بھی مرقوم ہے کہ وہ ایک وحشی جنگجو شخص ہو گا۔ پیدایش ۱۶۔۱۲۔ پس اسمٰعیل ہر گز حلیم نہ تھا۔ اُسکے ‘‘ حلیم ہوشیار ’’ ہونیکی کوئی خبر ابراہیم کو نہیں دیگئی ۔

۴۔ اب اور سنئے۔ اگرچہ حضرت ابراہیم بموجب حکم  خدا  بیٹے کو نذر کرنے پر مستعد ہوئے۔ مگر اُس بیٹے نے بھی زیادہ جان نثار ہی دکھلائی۔ کہ خدا کی راہ میں ذبح ہونے سے مطلق ملال نہ کیا مگر اب قرآن میں اِن دونؔوں کے پاس اس بینظیر کام کا صلہ کیا ہے؟ ابراہیم سے تو بعد قربانی کہا گیا ‘‘ باقی رکھا ہم نے اسبر پچھلی خلق میں کہ سلام ہے ابراہیم پر۔ یوں بدلا دیتے ہیں نیکی کرنیوالوں کو۔ وہ ہے ہمارے بندوں ایماندار ہیں’’یہہ صلہ ابراہیم کا ہے ۔ اب ذبیح اﷲ کو اُسکی فرمانبرداری کا کیا اجر؟ اگر  یہہ ذبیح اﷲ اسمٰعیل تھا۔تو مطلق کچھ بھی نہیں۔ اُس کا نام تک یہاں نہیں لیا۔ اسکی کوئی تعریف نہیں۔ حالانکہ لکھا ہے ‘‘ دونوں نے حکم مانا’’۔ سچ تو  یوں ہے کہ ذبیح اﷲ نے ابراہیم سے بھی برھکر کام کیا۔  ابراہیم تو قربان کرنیکے لیے آمادہ ہوئے۔ مگر وہ قربان ہونےکےلیےآمادہ ہوا۔ اور باپ کی آخر تک تسّلی اور تشّفی کرتارہا۔ کیا اسکا کوئی اجر اس جگہ بیان نہ ہو؟ حالانکہ ابراہیم کا اجر مرقوم ہے۔ حقیقت یوں ہے کہ دوسری خوشخبری بعد زکر ابراہیم کے دراصل ذبیح اﷲ اسحاق تھا۔ اور اسکے حق میں کہا گیا ‘‘ اور خوشخبری دی ہم نے اسکو اسحاق کی جو نبی ہوگا نیک بختوں میں اور برکت دی ہم نے اسپر اور اسحاق پر’’ یہہ خبر تولد اسحاق ہرگز نہیں۔ بلکہ صریح خبر نبوؔت اسحاق ہے۔ تولد کی خبر تو ابراہیم اور سارہ مدت قبؔل پاچکے تھے۔ یہاں ذبیح اﷲ کی فرمانبرداری کے صلہؔ میں اسکو نبؔوت عطا ہوئی۔ اور علاوہ اسکے اور بھی برکت ملی۔

۵۔  ایک اور حیلہ اسحاق کاذبیح اﷲ کے ساتھ ملتا ہے اور ابراہیم نے یہہ دعا کی تھی‘‘رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ۔ اے میرے رب! مجھے ایک صالح (لڑکا) عطا کر’’ اس دعا کے جواب میں انکو فرزند عطا ہوا جسے انہوں نے بعدہ نذر گزرانا۔ بعد قربانی کے اسحاق کی بھی صفت بیان ہوئی’’ وہ نبی ہو گا نیک بختوں میں  وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ۔ اور ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی کہ وہ نبی (اور) نیک لوگو ں میں سے ہوگا ’’ کہو یہہ کیسی صریح مطابقت ہے ؟ جس سے ذبیح اﷲ کا اسحاق ہونا بالکل ثابت ہے۔ جو اسحاق کے اوصاف ہیں وہی ذبیح اﷲ کے اوصاف ہیں چنانچہ اسحاق کو ‘‘غلام حلیم ہوشیار لڑکا’’ کہا  ذبیح اﷲ کی یہی صفت ثابت ہے۔ ذبیح اﷲ کو مِّنَ الصَّالِحِينَ کہا اسحاق مِّنَ الصَّالِحِينَ ہے ۔ ابراہیم اوراسحاق دونوں کو نسبت لکھا ‘‘ دونوں نے حکم مانا’’۔یہاں بعد قربانی دونوں  کی فرمانبرداری کو ایک ساتھ یاد کیا اور کہا‘‘برکت دی ہم نے اسپراور اسحاق پر’’۔

۶۔ اب ایک اور امر غور طلب ہے۔ کہ قرآن اس قربانی کو  ‘‘ صریح جانچنا’’ یعنی برُی آزمایش کہتا ہے۔  اگر دراصل یہہ اسحاق کی قربانی تھی۔ تو یہہ بیشک ‘‘ صریح جانچنا’’ تھا۔ ورنہ نہیں۔ کیونکہ یہہ اسحاق ابراہیم اور سارہ کا ایسا ہی پیار تھا  جیسے یوؔسف یعقؔوب کا۔ یا یحٰؔیی زکریاؔ کا۔ جب ابراہیم اور سارہ دونوں بہت ہی ضعیف ہو گئے تھے۔ اور اولاد کی اُمید اس عمر میں نہیں کیجا سکتی تھی۔ اسوقت نا     اُمیدی میں اسحاق پیداہوا   اور ابھی جوان بھی نہ ہوا تھا۔ کہ اُسکی قربانی کا حکم ہوا۔ اب کہو اِس لخت جگر کو اپنے ہاتھوں ذبح کرنا ۔ اور اپنے شجر اُمید کی جڑ کاٹنا اور  صریح جانچنا ’’ ہو سکتا تھا یا اسمٰعیل سے کیس حرم کے بیٹے کا بحکم خدا نذر گزرانتا؟ جسکی محبت ابراہیم کو اسقدر بھی نہ تھی کہ جب اُنکی بی بی کے اُسکو اور اُسکی ما کو نکال دینے کا قصد کیا تو انکو کوئی بڑا صدمہ ہی ہوتا یا اُسکے نکال دینے میں تامل کرتے۔

۷۔ علاوہ اسکے اس قربانی کا بیان یہودی و عیسائیوں کے روبرو کیا گیا۔ قیاس یہی چاہتا ہے کہ وہ مطابق توریت کے ہو۔ کیونکہ اسحاق کی قربانی کی نسبت نہ عیسائیوں میں اور نہ یہودیوں میں کبھی کوئی تنازعہ رہا۔ اگر محمد صاحب خلاف اُس بیان کے اسمٰعیل کو زبیح اﷲ مانتے تو ضرور وہ روایات سابقہ کا صریح انکار کرتے ۔ جیسا کہ انہوں نے بعض روایات کا درباب تعداد اصحاب کہف کے انکار کیا۔

یہہ چند دلایل قرآنی نسبت قربانی اسحاق کے بیان ہوئیں اب اگر اسمعیٰل کی قربانی مانو  تو اسمٰعیل کی فرمانبرداری کا وہاں کوئی اجر منقول نہیں ہوا۔ نہ اُسکا کوئی زکر آیا۔ اور یہہ بات صریح خلاف انصاف ہے۔ پھر قرآن میں کسی مقام پر اسمعیٰل کے تولد کی کوئی بشارت نہیں ہے۔ حالانکہ ذبیح اﷲ وعدہ کا فرزند ہے۔

اب ناظرین انصاف کریں کہ جب محمد صاحب اسمٰعیل کی قربانی کا کوئی ذکر نہ کریں۔ نہ اِس تعلق میں اسکا نام   لیں۔ اور نہ اسحاق کی قربانی سے کوئی انکار کریں۔ تو دلایل مذکورہ بہ ثبوت قربانی اسحاق۔ اگر قطعی نہیں تو کیا ہیں؟ کو ئی مولوی صاحب قرآن سے اسطرح کے دلایل اسمٰعیل کے زبیح اﷲ ہونیکے باب میں اگر پیش کر سکتے ہیں تو پیش کریں ۔ ہمیں یقین ہے کہ یہہ ‘‘ بھونڈی غلطی’’ مولویوں کی ہے۔ نہ کہ محمد صاحب کی۔ اور اگر محمد صاحب نے ایسی غلطی کی ہے تو ہم افسوس کرتے ہیں۔

راقم ۔ اکبر مسیح مختار باندہ