Great Sphinx of Giza

 

دربارہ تحقیقات پیشین گوئی محمد صاحب از قرآن

مولوی ابراہیم


Investigation of the Nature of
the Prophecy of Muhammad in the Qur’an

By

Mulawai Ibrahim

Published in Nur-i-Afshan December 31, 1897

چنانچہ سورہ اعرافؔ میں یہ اظہار صاف مندرج ہے۔ کہ آں جناب محمد صاحب اِس نعمت سے بھی خالی تھے اور وہ آئیت بجنسہِ یہ ہے۔ قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ۔ ترجمہ یعنے تو کہدے اے محمدؐ، ان سے کہو "میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہو تا ہے اور اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا میں تو محض ایک خبردار کرنے والا اور خوش خبری سنانے والا ہوں اُن لوگوں کے لیے جو میری بات مانیں"

ایمان والے لوگوں کو۔ انتہا پس اِس مقام قرآنی سے صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ عطیہ منجانب خدا محمد صاحب کو عطا نہیں ہوا۔ کیونکہ ایت مذکورہ میں اس امر کا امکار ِآفتاب کی مانند موجود ہے۔ بلکہ محمد صاحب بزبان خود یوں اقرار کرتے ہیں۔ کہ اگر یہ علم مجھے حاصل ہوتا تو اپنے لئے خوبیاں کی کثرت جمع کر لیتا۔ چونکہ میں محض اِس عالم سے بے بہرہ ہوں۔ اِسلئے مجھے اپنے نفع و نقصان کی کچھ بھی خبر نہیں ہے۔ پس اگر محمد صاحب کو یہ علم حاصل ہوتا۔ تو بڑی ہی صفائی سے طالبان کو کہتے کہ فلاں فلاں موقعہ پر یوں یوں ظہور پزیر ہو گا۔

لیکن بعض محمدی مرمت کنندہ سورہ روم کو اِس بارہ میں پیش کر کے بیان کرتے ہیں کہ محمد صاحب نے اہل روم کا ایران پر فتح حاصل کرنا بیان کیا تھا۔

اور یہ ایک پیشین گوئی ہے۔ مگر ناظرین کو معلوم ہووے کہ محمدی یہ آیت پیش کر کے محمد صاحب کی پیشین گوئی کو پایۂ ثبوت پر نہیں پہنچاتے بلکہ اپنی کم علمی اور کوتہ ایندشی کو ظاہر کرتے ہیں۔ پس اب ہم تھوڑے دیر کے لئے سورہ روم کی پیشین گوئی کو زیر غور کر کے ناظریں پر اس کی بنیاد ظاہر کرتے ہیں۔ واضح ہے کہ یہ پیشین گوئی کسی قرینہ و پہلو سے نہین ہو سکتی۔ کیونکہ یہ قیافہ و قیاس سے تعلق رکھتی ہے اور نہ پیشین گوئی کی تعریف اِس پر صادق اسکتی ہے اور نہ قرآن سے یہ بات پائہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ محمد صاحب کو خدا نے کبھی اِس نعمتِ عظمیٰ سے معمور کیا ہو۔ البتہ یہ قرانی پیشین گوئی سن ۱۸۵۷ء کے داناؤں کے مقولہ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی ہے کہ جنہوں نے سرکار انگلشیہ کی طاقت کو دیکھا ہوا تھا وے برملا غدر کے ایام میں یہی کہتے تھے کہ کیا ہوا انگریز جا بجا مارے گئے ہیں مگر چند مدت کے بعد پھرسلطنت انگریزوں ہی کی ہو جاوے گی۔ اور یوں ہی ظہور پذیر ہوا۔ پس یہ بات اُن کے قیافہ قیاس سے علاقہ رکھتی تھی۔ ایسا ہی محمد صاحب نے بھی اہل روم کا ایران پر فتح حاصل کرنا بیان کیا ہے۔ کیونکہ وہ بھی اُنکی طاقت و ہمت اور دانائی سے بخوبی آگاہ تھا۔ پس کسی صورت سے قرانی پیشین گوئی سچّے نبی سے نسبت نہین دی جا سکتی ہے۔ کیونکہ بالکل قیافہ و قیاس سے علاقہ رکھتی ہے۔

البتہ محدثین و مورخین اسلام نے اپنی کتب ِتصانیف میں بے شمار پیشین گوئیاں قلم بند کی ہیں۔ جو کہ محمد صاحب سے منسوب کی جاتی ہیں۔ مگر اِن کی کتابیں دربارہ تحقیق نبوت محمد صاحب کے قابل اعتبار نہیں ہیں۔ اس لئے کہ ان میں مبالغہ وایجاد کا احتمال ہے۔ اور اخبار سمعی اور واقعات منقولہ کو بعد مدت مدید کے اپنی کتابوں میں درج کر کے اپنی عزت و نیک نامی کو عوام الناس کے آگے فروغ بخشا ہے۔ پس جب کہ اُنہوں نے مدت مدید کے بعد اِدھر اُدھر سے لیکر کتابوں کا طومار کر دیا تو احتمال مبالغہ اور کمی بیشی کا ضرور پایا جاتا ہے۔ اور درجہ یقین کا حاصل ہونا غیر ممکن ہے۔ اور ناظرین کو یہ نکتہ بھی یاد رہے۔ کہجتنے محمدی فرقہ ہیں اُن کی کُتب تواریخ و حدیث کی جدا جدا ہیں۔ اورجملہ فرقہ محمدیہ کے نزدیک متفق علیہ مانی نہیں جاتی ہیں بلکہ مختلف عنُہ ہیں۔

اور دیگر مقامات جو محمدی پیش کر کے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ محمد صاحب کی پیشین گویاں ہیں۔ مگر وہ کسی وجہ مطلق پیشین گوئیاں کہی نہیں جاسکتی ہیں۔ کیونکہ وے زو معنے بغیر قصہ متکلم و بلا تعین وقت اور زمانہ کے گول گول باتیں ہیں۔ جو کہ بالکل قیاس و فراست پر مبنی ہیں۔ اور اُنکی تصریح و تشریح قرآن سے ثابت نہیں ہوتی ہے۔ اور نہ ہی پیشین گوئی کی تعریف اُس پر صادق آ سکتی ہے۔ پس اِس موقع پر ہمیں پیش گوئی کی تعریف بھی کر دینی مناسب ہے اور یہ ہے۔ کہ اُس میں فراست و چترائی اور تجویز و قیافہ کو مطلق دخل نہ ہو۔ بلکہ اِس مضمون سے صاف ظاہر ہو جاوے کہ متکلم واقع چم دید کی خبر دیتا ہے کہ گویا مخبر واقع میں شریک و موجود تھا۔ یا وہ فعل آیندہ مخبر کے سامنے پیش کیا جاویگا۔ پس بخوبی ظاہرہے کہ اِس قسم کی ایک خبر بھی قرآن میں موجود نہیں ہے۔ اور جو جو باتیں اور افواہیں محمدیوں نے اُن کی نسبت بیان کی ہیں وے سب کی سب اِن اقسام سے معّرا اور خالی ہیں اور نہ اِس تعریف مذکورہ کے مطابق اور موافق ہیں۔ بلکہ وہ باتیں مثل اماّل اور نجومیوں کی باتوں سے بالکل موافقت کھاتی ہیں۔ پس نجوبی ظاہر ہو گیا کہ ازروئے قرآن محمد صاحب پیشینگوئی کی نعمت سے خالی تھے۔

الراقم۔۔۔۔ مولوی ابراہیم ۔ ایس۔ پی۔ جی۔ مشن۔ جمو ں