نجات کیسے ملتی ہے

How to be Saved?

Published in Nur-i-Afshan August 18, 1881
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

خداوند عیسیٰ مسیح پر ایمان لا کر تو اور تیرا گھرانہ نجات پاویگا
انجیل شریف: کتاب اعمالرسل  ۱۶۔۳۱

مسیح پر ایمان لانا کیا ہے۔ میں کس طرح سے اُسپر ایمان لاؤں ۔ نجات کس طرح سے حاصل ہوتی ہے۔ اِنکے برابر کوئی سوال ہے ہی نہیں اور وہ علم یا دانائی جو اِنکا  لایق ٹھیک جواب دے سب سے عمدہ اور پسند یدہ ہے کیونکہ ایسے ایسے سوالات کے جواب مین پر انسان کی ابدی نیک بختی و بہبودی موقوف ہے۔

خدا رحیم کے فضل سے اِنکا جواب ملیگا بشرطیکہ سچےّ اور سادہ دلسے اِ س بھارے معاملہ میں کوشش و محنت کریں۔ ہاں تم آسانی سے طریق الحیات کو جان سکتے ہو راہِ زندگی میں قدم بڑھانا مشکل نہیں بلکہ مسافر اگرچہ ناواقف ہو ویں اُسمیں گمراہ نہونگے۔

جب تم ایمان کے ساتھ نجات لینے کے واسطے مسیح پاس آتے ہو تو تمھارا ویسا حال ہو گا جیسا اُس لڑکے کا جو آم یا امرود لینے کو اپنے باپ  پاس دوڑتا  ہے پہلے پہل وہ باپ کی طرف دیکھتا اُسپر جو اُسکے ہاتھ میں ہے سوچتا ہی سوچتا ہی اُس چیز کے حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے لینے کا قصد کر کے وہ فوراً جاتا اور اُس  میوہ کو اپنا کر لیتا ہے بس۔ اُس فعل یا  امر میں اگرچہ کہ ایک پل  ہاٹے بھر کا اِمر نہیں یا تینوں الگ الگ فعل موجود ہیں یعنے سوچ ارادہ  اور لینیے کا قصد ۔ اِسیطرح سے یہہ بات سچ ہے کہ نہ کبھی کو ئی مسیح پر ایمان لایا یا راہِ زندگی میں ایک قدم بھی بڑھایا ہو جب تک کہ مسیح کی خوبیوں پر دل نہ لگایا اور نجات لینے کی خواہش پر عمل  کیا ہو۔ پس اِس بھاری معاملے مین پہلی بات یہہ ہے مسیح  کی طرف دیکھنا نجات  کے تحفے کی طرف رجوع ہونا کیونکہ اگر مسیح اور اُسکی نجات خیال سے دور ہو تو اُن کے لیے خواہش یا ارادہ رکھنا  کہاں۔ اور جس حال میں کہ خواہش نہو لینے کا قصد اور حاصل کرنا کہیں دور ہی  یہہ خوب سمجھنا چاہیے، کہ مسیح اور نجات کے تحفے پر خیال کر کے اُنکے لیے ارادہ ہی رکھتا بس نہیں  بلکہ تعبیر لینے کا قصد یعنے ہاتھ بڑھانا اور سچ مچ لے لینا باطل  دعا اصل ہے  مثلاً اگر لڑکا مذکورہ  آم کی طرف رجوع ہو کے بڑی آرزو کے ساتھ اُسے دیکھا کرتا تھا بس کیا فایدٔہ ۔ وہ کب ہاتھ آتا جو پاس نہ جاتا اور لے لیتا ۔ قید خانہ کے داروغہ پر زرا غور کرؤ۔ اُسکو نجات کی بڑی خواہش و خاطر تھی۔ اِسمیں کچھ شک و شبہ نہیں اور یہہ بھی ظاہر ہے کہ اگر وہ مسیح کی طرف رجوع  نہوتا اُسپر کچھ  سوچ و خیال نہ کرتا  کہ مجھے بذدات گنہگار کو نجات ضرور ہے اور مسیح ہی کے وسلیے سے ممکن بھی ہے تو ارادہ نجات کا   اُسکو نہ ہوتا۔ پھر اگر وہ صرف مسیح پر سوچا کرتا اور نجات کا ارادہ رکھتا تو وہ کبھی نہیں بچتا یہہ اُسنے کیا بے شک اور یہانتک اچھا بلکہ اُسنے اور کچھ بھی کیا فوراً اپنا ارادہ نجات کا عمل مین لایا اور تبھی مسیح کی نجات اُسکی ہوئی وہ بچیگا۔ یہہ نہیں کہا کہ تب مسیح پاس جاؤں جب میرے دل مین ارادہ پختہ و پکا  اور اُسکی مرضی کے مطابق ہو۔ یہہ بھی سوچنا چاہیے کہ اُس گھڑی تک وہ عیسائی مذہب سے کم واقف تھا یہانتک کہ اُنہوں نے یعنے پولوس اور سیلات اُسکو خداوند کا کلام سُنایا یا جو کچھ مسیح نے گناہ اور اُس سے رہائی پانے کی بابت کہا تھا اُسے بتایا لیکن سمجھانے سکھانے مین بہت وقت صرف ہوا کیونکہ لکھا ہے کہ اُس نے رات  اُسی گھڑی اُنہیں لیکے اُنکے ذخم دھوئے اور وہیں اُسنے اور سب نے جو اُسکے تھے بپتمسا پایا۔ مسیح کی تعلیم پانا اُسپر ایمان لانا اُسکا  اِقرار کر کے بپتمسا لینا خدا کے بندونکی پرُ تسّلی اور محبت آمیز خدمت کرنا یہہ سب رات کی اُسی گھڑی کے عرصہ میں واقع ہوا سو بھی ہر کسی گنہگار کے حق میں جو کچھ نجات حاصل کرنے کے لیے درکار ہے اِس  گھڑی میں ہو سکتا ہے۔

اگر خدا کا کلام  کی اچھائی تمھارے تمھارے زہن پر ظاہر و روشن ہوئی۔ ہو کہ تم لاچار نکمے گنہگار ہو اپنے آپ کو  بچا نہیں سکتے اور مسیح عیسیٰ تمھارے بچانے پر قادر و راضی ہے بلکہ ہر کسی کو جو چاہتا نجات  دینا ہے اور اگر تمھیں اِسیطور سے بجات پانے کی خواہش ہو تو اِس عمدگی خواہش پر عمل کرنے میں دیری نہ کر و بلکہ اِسی دم مفت میں لے لو بہت لوگ نجات حاصل  کرنے کی تیاری  میں  وقت صرف  کرتے ہیں ۔ مسیح کی طرف رجوع توہیں لیکن ابتسلک اُسپر ایمان نہیں لائے برعکس اُسکے دے ایمان لانے کی فکر و تیاری  میں مشغول  ہو رہے ہیں۔ اُنکو ہر وہ جاننا چاہیے کہ مسیح کی طرف مایل ہونا نجات یا گناہ سے مخلصی اور حیات  ابدی پانے کا ارادہ رکھنا کافی نہیں اُس ارادہ پر عمل کرنا یا اُس خواہش  کی جو کہ مسیح پر دنیا کرنے سے پیدا ہوئی ہے گو کہ پیروی یہہ نجات کے لیے ضرور ہے کلام الہی میں اِس امر کے طرح طرح کے نام ہیں مثلاً مسیح کے پاس آنا اُسکی طرف دیکھنا اُسپر بھروسا رکھنا اپنے آپکو  اُسکے سپرد کر دینا  اُسے اپنا نجات دہندہ جان کے اُسے قبول کرنا۔

پھر وہ مسیح پر تکیہ کرنا اُسمیں آڑلینا کہلاتا ہے ۔ پرُانے عہد نامہ میں وہ ایسے ایسے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے مثلاً  پناہ لینا آڑ کے واسطے کسی کے پاس بھاگناوغیرہ چنانچہ داؤد اپنے تجربہسے اسبات  کا شال دیتا ہے۔ اُسکی یہہ عادت تھی کہ اپنے دشمنوں کی سختی و زبردستی سے پہاڑوں کے کھوہ یا گپھے میں پناہ  لیوے اُنمیں بھاگکر وہ بیخوف و خطر ساتا اور تکیہ کرتا  رہا۔

اسی طرح سے بطور تمثیل کے وہ کھوہ خدا کے بندونکی  سچی پناہ گاہ جو خدا ہی ہے نبگئی چنانچہ ۵۷ زبور مین جسوقت کی داؤد ساؤل کے آگے مغارے میں بھاگے  گیا تھا اُسنے کہا کہ اے خدا مجھ پر رحم کر کیونکہ میری جان کو تیرا بھروسا ہے ہاں میں تیرے پردنکے سائے تلے پناہ لیا رہونگا جب تک یہہ آفتیں ٹل نہ جائیں موسیٰ کے مانند اُس نے یقیناً جانا کہ ابدی خدا تیری پناہ ہے اور اُسکے ابدی بازو تیرے نیچے ہیں ۔ اُسنے اپنے آپکو خدا کے سپرد کردیا اور تب خوشی سے خدا کے ابدی بازو ہر تکیہ کیا۔

نئے عہد نامے میں جو لفظ اِس بھاری مقدمہ کے حقمین اِستعمال آتا ہے۔ اُس سے یہہ معنے نکلتے ہیں مسیح کی خاطر جمعی اُسکی ترغیب کی کوشش کے سبب اپنے تئیں اُسکے ہاتھ میںسونپا جس امر سے (تم یہہ بات یقیناً جانتے ہو) کہ مسیح تمہارا نجات دینیوالا ہونے چاہتا ہے اور تمکو ترغیب دیتا ہے کہ نجات اُس سے قبول کرے۔

اور یہہ وہی بات ہے جسکا زکر اوپر ہوا یعنے مسیح پاس آنا اور اُسپر نجات کے لیے تکیہ کرنا۔ پس ایمان مسیح پر دو طرحسے بیان ہوتا ہے۔ ۱۔ مسیح کے کلام کو یقین کرنا اُسپر بھروسا رکھنا ۔ ۲۔ اپنی دلجمعی کے لیے مسیح پر تکیہ  کرنا  اور اِنکا سمجھنا کچھ مشکل نہیں ۔ مثلاً جب  کبھی تم زمین پر قدم رکھتے یا پانوں پانوں چلتے ہو تو یہہ دونوں  کام تمسے ہوتے ہیں پہلے تم اپنے کو کسی مضبوط پودھے تک بڑھاتے ہو اور تب اُسپر اپنا سارا دباؤ چھوڑ  دیتے ہو بس یہہ ایک قدم ہے۔اگر پانو بڑھاتے کچھ لیکن اُسے پھیر لیتے اور زمین پر رکھنے نہیں دیتے ہو یا اُسپر تکیہ کر کے اپنے کو اُسپر نہ چھوڑتے تو قدم رکھتا کہاں اسیطرح سے تمہارا دل ایمان کا قدم رکھتا ہے۔

جب تم ایمان کے ساتھ مسیح پاس آتے تو تمہارے دل کا ایسا حال ہو گا جیسا اُس شخص کا جو دوڑ  دھوپ کا ستایا ہو ا تھکے ماندے۔ کسی برقرار  و پائدار چٹانکے پاس ہی جگہ پاکے آرام لیتا ہے اور اُسپر تکیہ کر کے سوجانا۔ اُسکے چٹان کے پاس آنے کا ارادہ آرام نہیں اُس سے کچھ بھی تسلّی دولاسے نہیں ہے پاس آنا ضرور ہے بلکہ وہاں تکیہ بھی کرنا چاہیے ۔ سوبھی وہی جو مسیح پاس آکے اُسے قبول کرتا اور اُسے دلی آرام گاہ جانکے اُسپر ٹکتا یا تکیہ کرتا  سچّا آرام ابدی خوشی اور اپنی جان کی نجات  پاتا ہے۔

اِس سے ساف و صریح ہے کہ مسیح پر ایمان لانے کی دو خاص باتیں ہیں۔ ۱۔اُسے قبول کرنا۔ ۲۔ اُسپر بھروسا رکھنا اُسمیں تکیہ کرنا۔ سو پہلی بات پر غور کریں۔ مگر میں اپنی تجربہکاری سے تمکو اُس خاص کام بافعل جو ایمان ظہور میں آتا ہے بتلانے یا ساتوں مین گو کہ مسیح سے ایسی ایسی باتیں کہتے اِس باتکو تمپر ظاہر کرنے۔ اسے خداوند میں اپنی جان کی نجات تیرے ہی سپرد کر دیتا ہوں چونکہ تو مجھے بچانے چاہتا میں تجھے اور تیری نعمت و بخشش کو بدل و جان قبول کرتا ہوں ۔ میں تیری منوتی و منہائی کے سامھنے کرنے سے باز  آتا اور میری یہہ چاہ دارودہ ہے کہ تو ہی میرے دل میں سکونت و حکومت کر اور اپنے طریقے پر مجھ کم بخت و لاچار کو بچا لے۔اِن باتوں میں نجات کی خواہش پر عمل کرنا ہے ۔ میں مقرر اپنے دل میں ٹھانتا ہوں کہ مسیح میرا  ہے اور میں اُسکا  میں اُسیکو نجات دہندا ماننے پر راضی و خوش ہوں۔  اب مجھ سے ایک خاص کام آیا  مسیح سے قول و قرار (جو زبان سے نہیں تو ضرور دلسے) آیا اُسکی طرف بڑی آرزو کے ساتھ نظر اُٹھانا ہوا ہے جس سے میرے دل کا ارادہ و منصوبہ  آشکار ہوتا ہے۔ چاہے یہی باتیں اِستعمال میں لاؤں چاہے اور جو کچھ ہو شو ہو لیکن یہہ ضرور ہے کہ جو کام یا امر یا فعل اوپر بیان کیا گیا موجود ہو کیونکہ اُسکے بغیر میری نجات ناممکن ہے مجھ پر فرض ہے کہ کسی نہ کسی طور سے مسیح سے اور اُسکی نجات سے اپنی رجامندی طاہر کروں گویا اقرار نامہ  دستخط کرتا اُسپر قبولیت کی چھاپ لگانا جو کہ مسیح سے کہتا کہ میں  تجھ ہی کو اپنا نجات دہندہ مان کے اپنی جان بچانے  کے لیے تیرے سپرد کر دیتا ہوں ۔ جبتک یہہ قوی اقرار تم سے نہ ہوتا ہے دلکو  تسلّی و تشفی نہ ملیگی۔ مسیح سے آرام پانا یا اُسپر تکیہ کرنا اُسکے پاس آنے پر منحصر ہے۔ چنانچہ اُسنے خود کہا میرے پاس آؤ کہ تم کو آرام  ملیگا۔ پس پہلی بات یہہ ہے نجات کے تحفے حاصل کرنے کے واسطے اپنے کو  عیسیٰ مسیح کو سونپنا دوسری بات یعنے اُسپر ٹکنا اُسکے پاس آئے ہو تو اُسکی سچائی و دیانتداری پر کہ وہ ضرور اپنے کہے کے موافق ٹھیک کریگا بھروسا رکھو۔

کیا تمنے کبھی تیرنا سیکھا خیر اگر نہ سیکھا ہو تو کسی کو تیرتے دیکھا ہوگا۔

پس تیرنے والے پر  تو زرا سوچو۔ وہ کیا کیا کرتا ہے ۔ اوّل وہ اپنے کو پانی کی قوت پر سونپتا یا اُسکے حوالے کر دیتا ہے اور  بیحرکت و بیخطرہ  پانی کو اپنا تکیہ نباتا۔ اُسکو کچھ بھی فکر نہیں کہ کس طرحسے اپنے کو سبھالوں بلکہ وہ صرف اتنی کوشش کر رہا ہے کہ بغیر کسی طرح کی حرکت کے پانی پر لیٹا  رہوں تاکہ پانی خود مجھے سنبھالے اپنے سر کو پیچھے کر کے وہ آسمان کی طرف دیکھا کرتا ہے۔ بس ۔

یہی بات داؤد کے پہاڑی کھوہ میں پناہ  لینے میں ظاہر ہوتی اُسکا پکا بھروسا کھوہ   میں  پناہ لینے اور وہیں اطمینان کے ساتھ بیخوف و خطر رکھنے سے اِن دونوں باتوں سے ثابت ہوتا ہے۔

اُسکی سلامتی نہ سرف کھوہ میں پناہ لینے پر بلکہ اُسی میں سہنے پرع موقوف تھی۔ اور اگر دشمن سے محفوظ ہونے کے واسطے اُس میں بھاگنا ضرور تھا تو کتنا ہی زیادہ وہیں رہنا یا وہاں سے مطلق بھی نہ ہٹنا۔ اِسی طرحسے  تمھاری جان مسیح کے ابدی بازو کے نیچے پناہ لیےی ہے۔ تم اپنے کو نہ صرف اُسکے ہاتھ میں  سونپتے ہو بلکہ وہاں اپنے تئیں چھوڑ دیتے و جان کی اور فکر نہیں رہی۔

اور یہہ سونپنا یہہ سپرد کرنا یا حوالہ کر دینا لمحے بھر یا  ایک سال یا کئی  سال کے واسطے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ اُس گُماشتہ سے کیا فائیدہ یا حاصل جسکی سپردگی مین تم آج اپنے سارے کاروبار  کارخانہ  کر دیتے ہو اور کل اُسی کے مقرری کام میں اپنا  ہاتھ ڈالنے لگے۔ تمثیلاً سمجھ کہ تمھارا باپ بشرطیکہ تم اپنا سارا حساب وغیرہ اُسکے دفتر کی میز پر رکھو تمہارے سارے قرض  کو ادا کرنیکا وعدہ کرتا  ہے اُس شرط کو بجا لاکے اگرچہ باپ کو اپنا وعدہ  پورا کرتے نہیں دیکھتے ہو تو بھی تمکو یقین کا مل  ہے۔ کہ ضرور پورا  کریگا پس تیرا اِسمیں ہاتھ ڈالنا بہت غیر مناسب ہوگا۔ اُسکی سچائی و وفاداری  پر بھروسا کر کے تم اُس قرص کا ادا کرنا خوشی سے اُسکے ہاتھ سونپ دیتے ہو پھر اُسکا کچھ خیال نہ کر کے تم اپنے معمولی کام میں                                                                                                                              

مشغول ہوتے ہو بس۔ اِسیطور پر تم اپنا مسیح پر  ایمان ظاہر کرتے ہو۔ دعا اور منت کے وسیلے سے تم اپنی جان کا بھاری قرض اور ضرورت اُسکے سامنھے پیش لاتے ہو اُسے کچھ کرتے نہیں دیکھتے ہو تو تم بھی یقیناً جانتے ہو کہ وہ مجھے یاد کیا کرتا اور اپنے وعدیسے نہ کبھی غافل رہیگا نہ اُسے بھولیگا پس اپنا سب کچھ اُسکے ہاتھ  میں سونپ کر اور اُس سے فضل پا کے شکر گزاری و فر مانبردرای  کے ساتھ اُسکی مرضی بجا لانے پر مُستعد ہو۔ اُسکا یہہ ارادہ  ہے کہ جو بھروسا تم کرتے  ہو سو تمہارا دل و جان و مال اسباب اُسی کے سپرد  کرنے سے ظاہر ہو شاید تم اُس سے کوئی کوئی نشان نئی  خوشی یس خاص ارادہ بطور ثبات کے تم  اُسکے ہوا اور اُسے قبول ہوئے ڈھونڈھتے ہو وہ ا،سکی یاد میں کہتا ہے اے جان خاطر جمع رکھو جس نے وعدہ کیا وفادار ہے  وہ اپنا پورا کریگا اُسکا کلام سچا ہے اور کبھی بدلنے کا نہیں ۔ اُسنے کہا ہے کہ جو کوئی نجات کے لیے مجھ پر بھروسا کرتا ہے میں ضرور اُسے بچاؤنگا۔ خدا کا کلام اُسکی زات و صفات  پر موقوف ہے۔ وہ ہمیشہ کا پس  اُسکا کلام ابدلا باد سچاّ ٹھریگا قادر مطلق پرُ رحیم و پُر دانا  خدا اپنے کو کبھی جھوٹا نہیں کر سکتا پس  اُس شخص کی وہ کیسے ہی لاچار نکما گنہگار  کیوں نہو جو مسیح عیسیٰ پاس آکے اُسپر تکیہ کرتا ہے ابدی نجات کی بابت  کچھ بھی  شک و شبہ نہیں ہو سکتا ہے۔ اِن باتوں  سے یہہ صحیح و صریح ہے کہ مسیح پر ایمان  ایسی کوئی پوشیدہ و پنہان  بات نہیں ہے جیسا بعض لوگ اپسے سمجھنے چاہتے ہیں لیکن ہر طرحسے صاف و صحیح بلکہ عقلی اور درست ہے جو معنے اِیمان  کے اوپر  دئے گئے   سو عام لوگون کی سمجھ میں آتے  ہیں۔ دنیاوی لین دین کاروبار مین اپسکے یہی معنے  ہیں۔ بلکہ یعنے کلام الہیٰ عام لفظوں کو اِستعمال  میں لاتا ہے تاکہ عام لوگ اپسکے معنے بخوبی سمجھیں لہذا جب خدا کاکلام فرماتا ہے کہ عیسیٰ مسیح پر ایمان لاؤ یا اُس پاس آنا اُسپر تکیہ کر کے آرام پاتا ہے کوئی کیسا ہی جاہل یا نا خواندہ کیوں نہ ہو اُسکے کہے کو سمجھ سکتا ہے اور ہر ایک ایماندار کو یقین ہے کہ وہ روح القدس کی تاثیر و قوت سے نجات بخش ایمان لاتا ہے۔ بے شک یہہ ہو سکتا ہے کہ کوئی دھوکھا کھا کے کسی بددیانت و بیوفا پر بھروسا کر کے بلکہ بہتوں نے ایسا ہی کیا تو اِس  بھاری معاملے میں ہوشیاری و تیزفہی چاہئے کہ بھول نہ جاویں کیونکہ پکے ایمان میں کچھ عیب یا نقص نہیں آیا جھوٹھے یا سچےّ پر  یا دیانتدار یا بددیانت ہو ایمان ایک ہے مثلاً دور بین آ یا لال  یا سفید تارے کی طرف  لگائی جائے ایک ہی ہے اُسکی زات ایک ہی سی  بنی رہتی ویسا ہی ایمان ہی میں کچھ ضل نہیں۔ ہمیں سچےّ اور جھوٹھے میں امتیاز کرنا ہے اور اِس امر میں خدا کے کلام پر پکا بھروسا کرنا۔ اُسکے وسیلے بشرطیکہ ہم روح کی ہدایت پاویں ساری مشکلات حل ہو جائینگی۔ آخرش اے پڑھنیوالے اپنے ایمان  پر نہیں لیکن مسیح عیسیٰ پر تکیہ کرتے رہو۔ روح القدس تمکو اِسبات میں ترغیب دینا ہے۔ مسیح پر ایمان کی آنکھ لگا جس طرحسے کہ لرکا مدد کے لیے اپنی ما کی طرف دیکھتا ہے۔ جس طرح  کہ سرخ روٹی کے لیے  وکیل  شفا  و صحت کیواسطے طبیب کو  اور ہدایت و راہبری کے لیے ہادی یا رہبر کو  اپنے تئیں سونپتے ہو اُسی طرح حیات ابدی یا اپنی جان کی بھلائی و چنگائی  و رہبری کے لیے اپنے کو مسیح عیسیٰ کے سپرد کر رکھو اور تم ہمیشہ کی زندگی پاؤ۔