Pink Aster Flower

مسیح کی تسبیح

علامہ کدرناتھ

Glory of Christ

Published in Nur-i-Afshan August 06, 1897
By Rev. Kidarnath

ناظرین! خدا کی پاک روح سے مدد پا کر ہم اس مضمون پر غور کرنا چاہتے ہیں جسکا مسیح کی تسبیح میں سلسلہ پیوستہ ہے۔ یہ وہ تسبیح نہیں ہے جو رومن کتیھلک عیسائیوں کے ہاتھوں میں آپنے دیکھی و گی اور نہ یہ وہ تسبیح ہے جو محمدیوں کے گلوں میں آویزاں رہتی ہے اور نہ ہندؤں کی مالا ہے بلکہ اِس سے خداوند یسوع مسیح کے وہ کُل حالات مرُاد کئے گئے ہیں جو وقت کے سلسلہ میں تواریخ کی صورت رکھتے ہیں شاہد اپ سوال کریں کہ تو پھرا ِس کو مسیح کی تسبیح کیوں کہا؟ اِس لئے کہ چاروں انجیلوں میں جو کچھ خداوند مسیح کی پیدایش سے شروع کر کے ساری زندگی میں موت سے جی اُٹھکر عروج تک واقعہ ہوا خواہ اُس کے فعلوں سے علاقہ رکھتا ہو یا قولوں سے سب قوت اعجازی پنارشتہ پوشیدہ رکھتی ہے یہاں تک کہ اگر کسی ماجرے میں اِس دھاگے کو توڑ دیں تو تسبیح کے دانوں کی صورت کُل تواریخی دفتر پریشان ہو کر گڑ بڑ ہو جائے یہاں معجزانہ صورت گویا دُوراہی اور باقی کُل حالات دانہ ہیں۔ جو اُس کو ڈور سے پرو کے گئے ہیں پس اِس الہامی سر گزشت عیسوی کو مسیح کی تسبیح کہنا نہا یت واجب اور انسب ہے۔

اِس سرگزشت کے مصنف چار شخص ہیں یعنے متیؔ۔ مرؔ قس۔ لوقاؔ ۔ یوحناؔ۔ ان میں سے پہلا اور پچھلا دونوں خدا کے رسول ہیں اور درمیانی دو مرقس و لوقا یقیناً سترَوں میں کہ ہیں اور نیز پطر س اور پولوس کے ہمسفر ۔خداوند یسوع مسیح مسیحت کا بانی بلکہ اِس عمارت کا بنیادی پتھر ہے۔ وہ اور بانیان مزاہب کی مانند مزہب اور بانی مزہب دو جُدا شیٔ نہیں بلکہ ایک ہی ہے۔ جیسا کہ مشہور بات ہے کہ مذہب کے معنے ہیں راہ یعنے وہ راہ جو بہشت کو لیجاتی ہے اُنکو جو اُس پر ٹھیک ٹھیک قدم مارتے ہیں۔ خداوند مسیح نے صاف لفظوں میں فرمایا راہ ، حق اور زندگی میں ہوں۔ پس ہمارا دعویٰ کہ مسیح اور مسیحت ایک ہی بات ہے اِس دلیل سے ثابت ہو گیا۔ اور یہ خاصہ سبب ہوا کہ خدا وند نے کوئی ہدایت نامہ تحریر ی اپنے دست و قلم سے تیار نہیں کیا جیساکہ محمد صاحب نے قران اور رشی نُیوں نے ویدو پوران کیونکہ یہ آخرالزکر اپنے بنائے ہوئے مذہبوں سے سدہاکو س دور رہے ہیں مگر اکیلا یسوع ناصری اپنا مذہب اپ ہی تو پھر کوئی پوچھے کہ یہ مسیح کی تسبیح کیوں پروئی گئی؟ ہم جواب میں عرض کرینگے کہ ضرورت وقت نے ایسا کیا کیونکہ جب مسیح یسوع کے ماننے والے لا تعداد بڑھ گئے اور متفرق مقاموں میں کلیسیائیں قایم ہو گئیں اور اُن میں متفرق اشخاص تعلیم دینے لگیے تو خداوند کی فرمائی ہوئی ہدایتوں اور سولی روایتوں میں گڑ بڑ پڑنے کا اندیشہ پیدا ہوا اِس لئے رسولوں نے حفظ ماتقدم کے لحاظ سے چاہا کہ یہ دانہ ہائے مرداریدا یک رشتہ تحریر میں منسلک کر دئے جائیں اور ایسانہ کرنے میں بڑی قباحت یہ وارد ہوتی کہ ہمارے منجی کی زندگی آپس کے اختلافات سے کایا پلٹ ہو جاتی اور اور مذہبوں کی مانند چند ہی۔ وزمیں اصلی صورت سے بدلکر ہر زمانہ میں نیا رنگ لاتی اور یوں وہ اصلی اور حقیقی راہ جو سیدھی بہشت کوپہنچاتی ہے اختلافات کےجنگل میں گم ہو جاتی اور ہم جو اِس صدی میں ہیں ٹھیک جاتے۔ 

اگرچہ رشیوں اورمینوں اور محمد صاحب نے بڑی چالاکی کے ساتھ اپنی ہدایتوں اور روایتوں کو خود ہی اپنی حین حیات قلم بندکر دیا تو بھی چونکہ اُنکو اُس سے یکسانیت کا علاقہ نہ تھا اُنکے پیرو‍ؤں نے ہر زمانہ میں جیسا وقت کا رُخ دیکھا اُس میں رنگ آمیز ی کی مگر مسیحی سر گزشت نے یہ روز بد کبھی نہ دیکھا اور نہ دیکھیگی اس لئے کہ خداوند مسیح اجکل اور ابد تک یکساں ہے اور ہم ثابت کر چکے ہیں کہ مسیح اور اُس کی مسیحیت ایک ہی بات ہے تو بھی یہ صفت اُس کی مسیحیت پر بھی صادق آنا ضرور بات ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ زمانہ نے گرگٹ کی طرھ ہزار بار پلٹا کھایا ہو گا علوم کی ترقی نے انسانی عقلوں کو کچھ کا کچھ کر دیا جس طرح دنیا کی عمر بڑھئی جاتی ہے اُسی طرح اُس کے سارے خدا اور اُن کی قوتیں بھی نشوو نما پائی جاتی ہیں۔ اور اسی تغیر و تبدل نے تمام مذہبوں کو بھی بدل ڈالا وہ ابتدا میں کچھ اور تھے اور حال میں کچھ اور ہیں بقول سر سید بہادر جو کسی نے اپنی کتاب میں اُنہوں نے تحریر فرمایا کہ اصلی مذہب اِسلام روایتوں اور حکایتوں میں یہانتک کُھل مل گیا ہے کہ اب کیسی ہی محنت اور جنفشانی کیوں نہ کیجائے ٹھیٹھ اُسلام کا ہاتھ آنا محال ہے۔ کیا یہی حال ہندو مذہب کا نہیں ہے۔ آج ہندوستان یا فرنگستانی میں کون ہے جو برہمنی مذہب کے جھاڑ جھنکا ر کو ڈکر کے حقیقی اور اصلی بات کو دریافت کرے اگرچہ کڑوڑہا دیا نند رستی آریہ ورت کی خاک سے پیدا ہوں بجز اس کے اور کچھ نہیں کرینگے کہ جن باتوں کو سڑیل اور گندہ بتاتا ہے اور اُن کی کتب دینیہ میں مرقوم ہیں اُن پر تاویلات رکیکہ کا پردہ ڈالکر ہندوؤں کو دھوکا دیا جائے۔

خداوند یسوع مسیح کی سرگزشت اپنے اصلی مرکز پر قایم ہے خواہ سورج زمین کا مرکز ہو یا زمین نظام شمسی کا مرکز ٹھہر ے مسیح نے فرمایا کہ زمین و آسمان ٹل جاینگے پر میری باتیں ہر گز نہ ٹلینگی اِس کا سبب یہی ہے کہ اس تسبیح میں اعجازی رشتہ موجود ہے اور یہ وہ طاقت ہے جو آلہی ہے اِسے کوئی توڑ نہیں سکتا تو پھر مسیحی سرگزشت کیونکر رد و بدل ہو سکتی ہے۔

آپ چاروں انجیلوں میں سے کسی انجیل کو پڑھئے اور اُس کے ساتھ ہی خطوط کو مطالعہ میں لایئے دونوں کے طرز تحریر میں آپ کو ایک فرق ملیگا یعنے آپ فوراً دریافت کر لینگے کہ انجیل نویس ہر ایک واقعہ کو بغیر اس اِرادہ کے کہ اُس کے ثبوت کے لئے دلائیل کا زخیرہ مہیا کریں آب رواں کی مانند لکھتے چلے جاتے ہیں وہ کچھ پرواہ نہیںکرتے کہ پڑھنے والا اِس واقعہ کو اپنی عقل میں نہ آنیکے سبب سے جھٹلا ئیگا ایسا معلوم ہوتا ہےکہ وہ ایک دیانت دار مورخ کی مانند اپنے شم دیدہ معاملات کو رشتہ تحریر میں موتیوں کی صورت پروتے چلے جاتے مگر خطوط کے راقم ایسا نہیں کرتے بلکہ ہر ایک دعویٰ پر دلیلیں ساتھ ساتھ لکھتے ہیں وہ اُن ساری تعلیمات کو جو اُن کی قلم سے نکلتی ہیں ارادتاً دلایل سے مضبوط کرتے جاتے ہین اور یہ فرق اتفاقی نہیں ہے بلکہ جان بوجھکر ایسا کیا گیا ہے۔

اِنؔ چاروں انجیلوں میں ایک اور فرق ہے چنانچہ جو مقاصد اور اُس کے لکھے جانیکی غرض میں آشکار ا ہے چنانچہ۔

متی اپنی انجیل یہودیوں کے واسطے اور لوقا غیر اقوام کے لئے اور مرقؔس ؔ اُن کے واسطے جن کے درمیان اُس کے ہمراہی۔ پطرس رسول نے وعظ کے طور پر مسیحی سر گزشت کو پیش کیا اور یوحناّ منکران الوہیت مسیح کی خاطر اپنے اپنے صحیفوں کی تحریر کرتے ہیں۔ سوائے اِس کے اور تفاوت بھی ہیں جنکا بیان اِس مضمون سے زیادہ تعلّق نہیں رکھتا لہذا قلم انداز کر کے اصلی مطلب کی طرف عِنان قلم کو منعطف کرنا مناسب معلوم ہوا۔

واضح رہے کہ انجیل نویس خداوند مسیح کی سر گزشت کے زمانوں کو اپنے ایجادی دھا گے میں نہیں پروتے ہیں بلکہ اُس میں جو عہد عتیق کے مصنّفوں نے تیار کیا چنانچہ متی رسول اپنی انجیل میں یہودیوں کی خاطر لکھے جانیکی رعایت سے اوّل نسب نامہ دکھاتا ہے اور ا(ُس سے وہ بتایا چاہتا ہے کہ یہ مسیح وہی ہے جو ابن اِبراہام اور ابن داؤد ہے بعد اُس کے وہ کہتا ہے کہ اب یسوع کی پیدائش یوں ہوئی کہ جب اُس کی ماں مریم وغیرہ الخ۔ مگر مجملاً اور اُس کے مولود مقدّس کے دانہ کو اُسی رشتہ میں پر و دیتا ہے جو ۷۵۰ بر پیشتر سے یسعیاہ پیغمبر نے بتا رکھا تھا کہ دیکھو ایک کنواری حاملہ ہو گی اور وہ بیٹا جنیگی۔ پر ظاہر ہے کہ ایسی انوکھی ولادت دنیا میں نہیں ہو سکتی مگر معجزہ کے طور پر فرض کیجئے کہ اگر ہم یا اور کوئی اس اعجازی رشتہ کو توڑدے تو پھر مسیح کی پیدایش ہی کالعدم ہوئی جاتی ہے اور یہ اَنہونی بات ہے کہ دنیا میں یسوع مسیح نہ تھا ہاں شاید ہندوستان میں اکبر نہ تھا یا مقدونیہ میں سکندر اعظم نہ تھا یا شہنشاہ نپولئین بوناپارٹ فرانس میں نہ تھا ۔ مگر یسوع المسیح ضرور تھا کیونکہ نہ صرف ایک ہی مورخ بیان کرتا ہے بلکہ چار چار متواتر گواہی دیتے ہیں اور جو بات کہ تو ا تر کو پہنچ جائے اُسکا انکار بعینہ ایسا ہے جیسے کہ دوپہر کو سورج نہ ہویا سمندر خشکی کا نام ہے الغرض اِس رشتہ اعجازی کو کسی مُنکر کا ہاتھ توڑ نہیں سکتا۔

لوقا اپنی انجیل میں اِس احوال کو مفصلاً تحریر کرتا ہے اور متی سے بڑھکر نسب نامہ کو ادم تک ملا کر دکھاتا ہے کہ وہی مسیح موعودہ جو یہود یوں کے واسطے نجات دہندہ ہے غیر قوموں کے لئے بھی نور ہے اور لکھتا ہے کہ وہاں یعنی اُس مُلک میں گڈریئے تھے جو میدان میں رہتے اور رات کو باری اپنے جُھنڈ کی چوکی کرتے تھے اور دیکھو کہ خداوند کا ایک فرشتہ اُنپر ظاہر ہوا اور خداوند کا نور اُن کے چوگرد چمکا وغیرہ الخ۔ یہ نورانی دانی بھی شعاع آفتاب کیسی ڈورے میں پروہا گیا ہے جس کے حق میں یسعیاہ نبی یوں فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو تاریکی میں چلتے تھے بڑی روشنی دیکھتے اور اُن پر جو موت کے سائے کے ملک میں رہتے تھے نور چمکتا ۔بالفرض اِس معجزانہ واقعہ کو لوقا کی انجیل سے نکالیں تو پھر گڈریوں کا میدان میں سونا اور اُن کے احوال کا مذکور محض اندھیر ہے کہ نہیںجب تک کہ نور کا چمکنا تحریر نہ ہو لوقا ساطبیب ایسی نادانی کا مرتکب نہیں ہو سکتا پھر بچّونکا قتل جو بیت اللحم اور اُس کی ساری سرحدوں میں ہیرودیس بادشاہ کے حکم سے واقعہ ہوا اُسی کے ضمن میں یہ مورخ ایک معجزانہ بات لکھتا+ ہے کہ دیکھو خداوند کے ایک فرشتہ نے یوسف کو خواب میں دکھائی دیکے کہا کہ اُٹھ اُس لڑکی اور اُسکی ماں کو ساتھ لیکر مصر کے مُلک کو بھاگ جا اور وہاں رہ جب تک کہ میں تجھے خبرندوں کیونکہ ہیرودیس اِس لڑکے کو ڈھونڈیگا کہ مار ڈالے۔

بالفرض اگر یہ معجزانہ حکایت اِس مضمون سے نکال دالی جائے تو ہم کو باور نہیں آتا کہ یوسف نجاّر اِس ظالم بادشاہ اِس کی بدنیتی سے واقف ہو کر مریم کے لڑکے کو قتل سے بچا لیتا کیا وہ خدا تھا نعوز بااللہ ۔ پھر یہ دانہ کسی اور دھاگے میں نہیں بلکہ اُسی میں پرویا گیا جسکا سرا ہو مسیح پیغمبر کے ۱۱ ۔۱ میں ہے۔ جب اسرائیل لڑکا تھا میں نے اُس کو عزیز رکھا اور اپنے بیٹے کو مصر سے بلایا۔

ناظرین اوپر کے چند مذکور اندک ازبسیارے ہیں ۔ یا مُشتے نمونہ از خروارے۔ ورنہ ہم اِس مضمون کو بحر طویل کی مانند یہانتک لمبا کر سکتے ہیں کہ آپ پڑھتے پرھتے تھک جائیں۔ اور جناب ایڈیٹر اخبار ہذا بھی ضرور اُکتا اُٹھیں۔ لہذا اس مثل پر عمل کر کے ختم کر دیا کہ

عقل مند کو اشارہ کافی ہے

جو اصحاب اعلیٰ دماغ رکھتے ہیں اور جنکی طبیعتیں رسا ہیں ہمارے خداوند کی زندگی کے کُل حالات کا مؤازنہ اِس طرز پر کر کے دیکھ سکتے ہیں اور اُسن کو معلوم ہو سکتا ہے کہ ابتدا سے انتہا تک قدرت اعجازی جلوہ گرہے اور مبارک منجی کا کل کام اور کلام اس رشتہ مین پرویا ہوا ہے ۔

آخر میں ایک اور مروارید حیات پیش کرنیکے لائق ہے جسے نہ صرف ایک یا دو ہی مور خان جو ہر شنماس نے رشتہ اعجاز رقمی میں پرویا ہے بلکہ چاروں جو ہریان الہام نے اِس مالائے حیات ابدی کو زیب گلوئےجہانیاں کیا ہے یعنے خداوند یسوع مسیح کی موت کا بیان نہایت سادگی اور صفائی اور طوالت کے ساتھ چاروں انجیلوں میں مندرج ہے اور جس طرح اُس کی پیدائیش معجزانہ اور عجیب ہے اُسی طرح اُس کی موت بھی اعجازانہ اور نادر اور غریب واقع ہوئی ہے ادم سے لیکر اب تک حتی کہ قیامت تک بڑے بڑے نامور بادشاہ اور ہر ملک کے سے برآمد وہ اشخاص خواہ جنہوں نے مذہب بنایا یا کسی بنے ہوئے مذہب کی تائید اور تقلید میں زندگی بسر کی سب کے سب معمولی طور پر پیدا ہو کر معمولی طور سے مر گئے اور مرینگے ۔ یہاں تک کہ عرب کا پیغمبر اور ہندوستان کا رام چند جو نہایت مشہور و معروف ہوئے اور جن کی ابتدائی حالت اور زندگی کے کارنامہ اُن کے مورخوں نے بہت ہی نمک مرچ لگا جلدوں کی جلدوں میںہمارے ملاحظہ کے واسطے لکھ مارے مگر آخری موت کی بابت صرف ایک ہی فقرہ میں اپنے طویل مضمون کو ختم کر گئے۔ مگر اِن کے بر خلاف جلیل کے مچھوےمحصول لینے والے طبابت کرنے والے مسیح کے کم علم اور بے مایہ شاگردوں نے مسیح کی زندگی لکھنے میں ان اُس کی موت کا ایسا مفصل بیان کیا ہے کہ بادی النظر میں انجیل کے پڑھنیوالے شاید اُسے فضول سمجھیں ۔ خاص کر بدّ و مزاج ناظر ضرور گھبرا کر پھینک دے۔ فی الحقیقت اصلی حقیقت جو انجیلوں میں مندرج ہے تسبیح کی رعایت سے مسیح کی موت کا واقعہ ایسا ہی جیسےمسلمانوں کی تسبیح میں امام یا ہندوں کی سمرنی میں سُمیر جسے عابد خواہ دانوں کے شمار میں نہ سمجھے مگر بغیر اُس کے تسبیح یا سمرنی محض ناکارہ ہے۔ لہذا ضرور تھا کہ جس کی پیدایش عجیب طور سے ہو یہاں تککہ بعض وہمی انکار تک کر بیٹھیں اُسی طرح لازمی اور واجب تھا کہ اُس کی موت بھی ساری مخلوقات کی موت سے الگ اور نرالی اور غریب واقع ہو اگرچہ عربی پیغمبر سا عقل مند انکار کیوں نکرے لیکن چونکہ ثابت کر چکےہیں کہ یہ رشتہ وہی ہے جو پورانے عہد نامہ کے مصنفوں نے تیار کیا تھا اور اُسی رشتہ میں راقمان اِنجیل نے اس دانہ کو بھی پرویا ہے تو ضرورتاً اس کا تورنا بھی یسوع ناصری کے سارے حالات زندگی کو بکھیر دینا ہے مگر ہم ایسا نہیں کر سکتے پس اُس پر ایمان لاکے ہمیشہ کی زندگی گویا ہمارا روزانہ وظیفہ ہے جو خدا اُنکو جو اُس پر ایمان لاتے ہیں روزانہ خوراک کی مانند عطا کرتا ہے+

راقم کیدار نارتھ، گنج ضلع فرخ آباد