دُوسِتَی

باجوہ

Friendship

Published in Nur-i-Afshan August 31, 1894
By Bajwa

کوئی آدمی اِس  دُنیا  میں بمشکل ملے گا جس کے دوست  اور دخن نہ ہوں۔  دوست باہمی ہمدردی اور مدد کے واسطے ضرور ہے۔ اور چونکہ انسان کو خدا تعالی نے مدنی الطبع پیدا کیا؟  اسواسطے بغیر دوستوں  کے وہ رہ نہیں سکتا۔ باہمی ایک دوسرے کی مدد کرنا دوستی کی شرایط میں داخل ہے۔ لیکن بغور دیکھو  تو کسی  کی مدد کرنا دراصل اپنی آپ مدد کرنا ہے۔ کلام الہیٰ میں یونتن ؔ اور داؤد کی دوستی غور طلب ہے۔  آخر الزکر اوّل  الزکر  کے مرنے پر کہتا ہے۔ کہ تیری دوستی مجھ کو عورت  کی دوستی سے زیادہ  تھی۔ لیکن سقراط  کہتا ہے کہ جو محبت عورت  سے ہوتی ہے۔ وہ دراصل  محبت نہیں ہے۔ ہمیشہ کلیات  میں مستثنیات ہو ا  کر تی  ہیں ۔ جب ہمکسی دوستانہ مجلس میں  ہوتے ہیں تو جس  قدر جماعت بڑی ہو اُسی قدر عام طور پر موسم و دستور کی گفتگو رہتی ہے۔ یہی حال دو آدمیوں کی  ابتدائے  ملاقات کا ہوتا ہے۔ مگر حکیم ٹلیؔ  کہتا ہے کہ دوستو خوشیکو بڑہاتی ہے۔ اور مصیبت کو کم کرتی ہے۔  اور لارڈ ؔبیکن  کا قول ہے۔ کہ دوستی کے ہزاروں فواید  کے ساتھ یہ ہے۔ کہ دوست مصیبت کو بھی بانٹ لیتا ہے۔ چلیا کے ایک حکیم کا قول ہے۔ کہ میٹھی  باتوں سے بہت دوست  بن جاتے ہیں۔ اِسواسطے سب سے ملکر رہنا چاہئے۔ اور ایک  کو اپنا صلاح کار بنا رکھا چاہئے  دوستی کے لئے سمجھ واقفیت  و عمر و دولت کی مساوات چاہئے ورنہ دوستی قایم نہ رہی گی۔ چاہئے کہ نیکوں کے ساتھ دوستی ہو۔ کیونکہ کون ایسا شخص ہے جو نیکوں  کی صحبت میں رہکر بڑائی  حاصل نہ  کرے۔ پھولکے پتون پر شبنم کو دیکھو شبنم  کے قطرے چمک میں موتی کو بھی مات کرتے ہیں۔ یہ خوبی اُن مین پھولون کی صحبت اور قرابت  سے آگئی ہے۔ ویسے ہی قطرے زمین پر پڑے تھے جو مٹی میں مل گئے۔ دوستی ہمیشہ جوانی  میں ہوتی ہے۔ جب ہر قسم کا جوش  انسان میں ہوتا ہے۔ اور  دراصل  خفیفی دوست بھی وہی ہوا کرتے ہیں۔  نہ بڑی عمر میں نئے دوست پیدا نہیں ہوتے۔ اور پُرانے دوست بعض اوقات بعض  وجوہات سے ضایع ہو جاتے ہیں۔ نہ اُس کا پیشتر باعث یہ ہے۔ کہ باہم ایک دوسرے  کے عیوب سے آگاہ ہوجاتے  ہیں۔ اور سلوک میں کسی طرح سے کمی ہو جاتی  ہے۔ وقت اور مواقع ایسے  نہیں رہا کرتے۔لیکن اگر کو ئی بھاری سبب نہ ہو تو پھر ملاقات سے وے باہم ویسے ہی خوش ہوتے ہیں۔ ایک دانا کا یہ بھی قول ہے۔  کہ جو دوست کی تلاش کرتا ہے وہ اپنےتکلیف  کو بڑہاتا ہے۔کیونکر اُس کے افکار کا حصہ لینا پڑتا ہے لارڈؔبیکن  یہ بھی کہتا ہے کہ کسی شکص کو پہلےمرتبہ ہی بہت کچھ نہ سمجھ لیا جاوے۔ کیونکہ کوئی شخص اُمید کی مقدار  پوری نہیں کر سکتا۔ وشنو کا لڈ۔ کہتا ہے کہ جس وجہ سے ہم نئے دوستوں کو پسند کرتے ہیں۔  وہ اس قدر ہمارے پہلے دوستوں کی طرف  سے دل برداشتہ ہو جانے۔ یا نئی چیز سے لُطف پیدا ہونے کے خیال سے نہیں۔ جسقدر  اس دلگیری کے باعث  ہے۔  کہ جو اُن لوگون سے حسب  و بخواد تعریف  نہ حاصل کرنے کے سبب سے ہوتی ہے۔ جو ہم کو بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ اور اُن لوگوں سے جو ہم کو ایسی اچھی طرح سے  نہیں جانتے زیادہ تعریف حاصل کرنے کی توقع ہوتی ہے۔ ہم جنس اور ہم خیال میں دوستی  ہوا کرتی ہے۔  کم از کم ایک امر میں مماثلت  چاہئے۔ ورنہ ہر گز دوستی نہ ہوگی۔  مطلب کے دوست دُنیا میں بہت ہوتے۔ جب مطلب  نکل  گیا۔  یا مطلب نہیں ہے۔ یا مطلب نکلنے کی اُمید  نہیں ہے۔  تو وہ دوستی اور ملاقات  بھی جاتی رہتی ہے۔ سچ پوچھو تو دنیا میں کوئی  کسی کا دوست نہیں ہے۔ البتہ سچے خدا پرست  خیر خواہ حقیقی  ہیں۔

اشعار

دلی دشمن ہیں دُنیا میں  تیرے دل بند جتنے ہیں
ہیں سارے دوست مطلب کے زن  و فرزند جتنے ہیں
محبت حق سے رکھو اور ملوِاہل محبت سے
ؑزیزو غیر حق سب توڑ دو پیوند جتنے ہیں

مگر یہ سوال ہے کہ حقیقی  خدا پرست کون ہیں؟ وہ نایاب ہیں۔ درخت  اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے ۔ مگر جو زبانی جمع و خرچ  کرتے ہیں۔ اور لفاظ  میں خیر خواہی  جتلاتے ہیں۔ اُنہیں بھی بمشکل ایسا شخص  ملے گا جو خداوند سے محبت رکھتا ہے یا سچا خیر خواہ انسان کا ہے  وعظ  یا اُن کی نرم گفتگو ثبوت اس امر کا نہیں  ہے۔ کہ جیسا وہ کہتے ہیں  فی الحقیقت  ویسے ہی ہیں۔

شعر

واعِظاں کیں جلوہ بر محراب و ممبری کنند
چوں نجلوت می روندآن کارد یگری کنند

وعظ یہ ہے ۔ کہ فریسیوں کے موافق  نہ بنو۔ مگر بیچارے اپنے آپ کو بھول گئے۔ کہ خود فریسیوں  سے زیادہ  مکاّری اور  یا کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سچ مچ وہ یا نو فریب  خوردہ ہیں۔ یا فریب دہندہ ہیں۔ حالت اول میں معذور ہیں۔ مگر یاد  رکھیں۔ کہ دوسری حالت میں وہ اپنے افعال  کے جوابدہ ہیں۔ اکثر دوستوں  سے تکلیفات ہو کرتی ہیں۔ وہ خیالی ہوں یا حقیقی ۔ مگر اُن کی تعداد کم  نہیں ہے۔  وہ تکلیفات بیوفا کہلاتی ہے۔ غالباً فریقین  ایسا سمجھتے ہوں۔ کیونکر اپنے سلوکوں کا اندازہ ہر ایک زیادہ کیا کرتا ہے۔ اس واسطے دوستی کو قایم  رکھنے کے واسطے معافی بہت چاہئے۔ اگر اس میں فیاضی نہ ہو۔ تو دوستی  بہت  دنوں تک قایم نہ رہے گی۔  ایسی حالت میں کسی کا شعر  ہے۔

دوستوں سے اسقدر صدمے اُٹھائے جان پر
دل سے دشمن کی عداوت کا گلہ  جاتا رہا

پس دوستوں  کے برتاؤ  میں ہوشیاری بکار ہے۔ اور جہاں تک ہو سکے ایک دوسرے کو معاف کرے۔ اور اپنی عقل کے اندازہ کے مطابق شناکت بھی کر لے۔ اور اپنی عقل کے اندازہ کے مطابق شناخت بھی کر لے۔ جو اس میں ہوشیار ہیں وہ دغا نہیں کھاتے۔ اُن کے دوست تعداد  میں گو کم ہوں۔ مگر پائیداری  میں مضبوط ہوں گے۔ 

ایک دوستی ریل کے سفر۔ یا کشتی  میں۔ یا راستہ چلتے (یکہّ میں) ہو جاتی ہے۔ وہ صرف اُسی وقت کے واسطے ہے جب ریل سے اُترے ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے۔ اس دنیا  کی دوستی کا بھی قریباً ایسا حال ہے۔ صرف عرصہ کا فرق ہے۔ پس دوستی کم ہو۔ یا زیادہ ۔ صرف وقت کے واسطے ہے۔ وقت پورا ہونے پر نہ وہ ہے۔ نہ یہ ہے۔ مگر خداودن  وفادار ہے۔ وہ آج اور کل یکساں ہے۔ وہ اپنی وفا میں کامل ہے۔ دنیاوی دوستوں کی طرح بدلتا نہیں۔  پس اُسی  پر پنا بھروسا رکھ۔ جس قدر اُس بھروسہ  میں کمی  ہوگی۔ اُسی قدر آزما ئیش اور مصیبت زیادہ ہوگی اور تیری پریشانی بطور سزا کے تجھ کو دبائے گی۔

اس مضمون پر کچھ  خیالات پہلے ظاہر کئے گئے ہیں۔  مگر یہ مضمون ایسا وسیع ہے۔ کہ جس قدر اس پر سوچو یا غور کرو۔ اُسی قدر زیادہ  خیالات  کی جولانی  ہوتی ہے۔ اور پہلے مضمون  کو  بدّنظر  رکھ کر مشکل معلوم ہوتا ہے۔ کہ مختصر  فیصلہ اس کی نسبت کیا ہے۔ اس واسطے چند خیالات  اور اقوال اور ظاہر کئے جاتے ہیں۔ تاکہ ناظرین اپنے واسطے خود  فیصلہ  کر لیں۔

کچھ روز ہوئے ایک طالب علم سکاچ مشن سکول سیالکوٹ  نے اشتہار دیا تھا۔ کہ ’’میں سّچے دوست کی تلاش میں ہوں ۔ وہ مجھ کو مل جاوے‘‘۔ اُس کے جواب میں بہتوں نے خامہ فرسائی  کی۔ اور نائب  تحصیلدار  رعیہ نے ایک شاعر  کا شعر لکھ دیا  جس کواڈمیٹر  اخبار پیسہ اخبار نے آخری  فیصلہ قرار دیا۔ اور وہ یہ ہے۔

؎خدا ملے تو ملے آشنا نہیں ملتا

کوئی کسی کا نہیں دوست سب کہانی ہے

اس سے بھی سّچے  دوست کے ملنے کی مشکلات  ہی معلوم ہوتے ہیں۔ سقراط حکیم جس کی دوستی اور مُحبت کے سینکڑوں نہیں ۔ بلکہ ہزاروں خواہاں تھے۔ اُس شخص کو جس نے اُس کے  اتہنؔیز میں ایک  چھوٹا  سا مکان بنانے پر کہا کہ’’یہ مکان چھوٹا ہے ‘‘ کہتا ہےکہ ’’اگر یہ سّچے دوستون سے بہر جوعے تو میں اس گھر کو بڑا عالیشان اور باسامان سمجھوں گا۔’’ اس جواب  سے اُس روشن  ضمیر انسان کی رائے ظا ہر ہوتی ہے۔ کہ اُس کو بھی سچے  دوستوں  کے ملنے کی ایسی توقع نہ تھی۔ کہ وہ تنگ مکان اُن سے بہر جاتا۔ ارسطوؔ کہتا ہے۔ کہ  اگر کسی شخص کو دوستی کی ضرورت  نہ ہو۔ تو وہ انسان  نہیں ہے۔ اپنی خوشی کے لئے ضرور ہے۔ کہ وہ کسی کو اپنا دوست بناوے۔ یہ حکیم اس امر  کا قائیل ہے۔ کہ بعض آدمی ایسے سوچنے والے ہوتے ہیں۔  کہ وہ اپنے واسطے  کافی ہیں۔ اور  ظاہری حالات اُن کے ایسے  ہیں۔ کہ وہ کسی کے محتاج نہیں۔ اس واسطے وہ خدا کی طرف متوجہ  رہتے ہیں۔ مگر افلاطون  اس کے خلاف کہتا ہے۔ کہ ’’ محض تنہائی سے خدائی صفات نہیں آئیں‘‘۔ راہب اس واسطے خلوت گر میں ہوتے ہین۔ کہ خاص مجلس میں بیٹھیں۔ اور خدا سے باتیں کریں۔ مسیحی بزرگوں اور عالموں کی کچھ عرصہ سے یہ رائے  ہے۔ کہ خلوت سے جلوت بہتر ہے۔ کہ اس سے اپنے عیوب معلوم ہوتے ہیں۔ اور انسانوں  کو فیض  پہنچایا  جاتا ہے۔ اسی واسطے بزرگ اگسٹین کہتا ہے۔ کہ ’’راہب نیکیوں کو جنگل میں لے جاتے ہیں۔ اس واسطے شہر نیکی سے خالی ہو جاتے ہیں۔‘‘ دراصل اُس شخص کی تنہائی سب سے زیادہ مصیبت  ناک ہے۔ جس کے سّچے  دوست نہوں کیونکہ سّچے دوستوں کی دُنیا ایک ویران جنگل  ہے۔ دوستی کا سب بڑا پھل بکثرت  رائے یہ بیان کیا جاتا ہے۔ کہ اُس سے دِل ہلکا ہوجاتا ہے۔ جو باتیں دل میں بہری ہوتے ہیں۔ سب زبان پر آجاتی ہیں ۔ کیونکہ سب سے زیادہ تکلیف آدمی کو دل کے ُگھٹنے  سے ہوتی  ہے۔ پس ایسے ہی دل کا حال ہے۔ کہ اگر دوست نہ ہوں ۔ تو بڑا  گھُٹتا  ہے۔  یہ بڑے تعجب کی بات ہے۔ کہ اس دوستی کو شاہان و فرمانردایاں لو لو الغرم اپنی جان  اور شان کو خطرہ میں ڈالکر خریدتے ہیں۔ کیونکہ  بادشاہ اور رعایا کے رُتبہ میں زمین و آسمان  کا فرق ہوتا ہے۔ اس واسطے اُن کو دوست بنانے کے واسطے  ضرور  ہے۔ کہ رعایا میں  سے لوگوں اول  ادنی ٰ درجہ  سے اعلیٰ  پر پہنچایا  جاوے اور پھر ان کو اپنا رفیق بناویں ۔ اور اس کام کے سرانجام  کرنے کے لئے اُن  کو بہت  تکلیفات  اور مصائب  اُٹھانی پڑتی  ہیں۔  بادشاہ  اہل دل۔ بہادر ۔ عاقل سب جانتے ہیں۔ کہ بغیر  دوستوں کے اُن کو آرام  نہیں ملتا۔ اور اُن کے کام ادہورے رہتے ہیں۔ جو تسلّی دوستوں  سے ہوتی ہے۔ وہ بھائی بندوں  سے نہیں  ہوتی۔ یہ بھی حضرت  سلیمان کا قول ہے۔ کہ ’’دوست خوشی کےواسطے۔ اور بھائی مصیبت کے واسطے ہے‘‘۔یہاں سے بھی بّچے دوست کی نایابی ظاہر ہے۔ کیونکہ تکلیف  میں مدد دینے کے واسطے صرف بھائی ہے اور یہ سچ ہے۔

تاہم دوستون کا نہونا۔ اور جو تنہائی  بغیر دوستوں کے ہو۔ وہ ایک قسم کی سزا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہ سزا بڑے  مجرموں کو دی جاتی ہے۔  مققدمین کی رائے ہے۔ کہ دوست اپنی زات ثانی ہے۔ اُس کا ایک جسم ہے۔ اس واسطے وہ  (انسان) ایک ہی جگہ موجود ہوتا ہے۔ مگر جس کے دوست ہوں ۔ وہ اِنسان بہت جگہ  کام کر سکتا ہے۔ اگر کسی کی قبضہ  میں ساری دُنیا ہو۔ مگر اُس کا کوئی  دوست  نہ ہو۔ (اول تو ایسے شخص کے قبضہ  میں  کچھ نہیں ہوسکتا نہیں ہو سکتا) تو سب ہیچ ہے۔ مگر مشتبہ دوست سے ایسا خوف ہوتا ہے۔ جو دشمن سے نہیں ہوتا  جو آدمی اپنی زات سے محبت رکھتا ہے۔ لیکن اُس کا کوئی  دوست نہیں۔  وہ نہ صرف الزام کی لایق ہے۔ بلکہ نیکی کے بڑے حصّہ سے محروم  ہے۔ دنیا میں دوستی کا حال  موسم خزاں کے موافق ہے۔ جب تک درخت میں پتوں کے غزا موجود ہے  وہ لگے رہتے  پھر اُسے چھوڑ جاتے  ہیں۔ ایسا ہی حال انسانوں کا ہے۔ کہ جب تک اُن میں طاقت اور دوست موجود ہے۔ تب تک وہ قایم  (دوستی میں) رہتے۔ پھر چھوڑ جاتے ہیں۔

دور کیوں جاتے ہو۔ ایک زمانہ تھا جب پرنس بسمارک وزیراعظم  ملک جرمنی کا تھا۔ ہر ایک ہوشیار شخص  کو اُس سے تشبیہ  دی جاتی تھی۔  مشکل سے کوئی اخبار ہوتا تھا۔ جس میں کچھ نہ کچھ  اُس کا تزکرہ نہ ہوتا  ہو۔ لیکن جب سے وہ عہدے سے برطرف  ہوا کوئی پوچھتا بھی نہیں۔  گویا وہ جیتا ہی مر گیا۔ ایسا حال  ہر روز ہم عہدہ  داران  کا دیکھتے  ہیں۔  جب وہ پنشن  لے لیتے ہیں۔  جو دوستی  اُن سے لوگ کرتے ہیں۔ وہ مطلب کی دوستی تھی۔ جب مطلب نہ رہا۔ تو دوستی بھی نہ رہی۔ مگر جو باہم سّچے دوست ہیں۔ وہ ایسے نہین کسی کا قول ہے۔ کہ دوستی چاند کے گرہن کو دیکھنے کے لئے۔ اور دشمنی پورا چاند دیکھنے کے لئے آنکھیں  بند کر لیتی  ہے۔  اس کا مطلب  یہ ہے۔ کہ دوست دوست کی تھوڑی تکلیف دیکھنے کو راضی نہیں۔ اور دشمن اُس کا پورا جلال نہیں دیکھ سکتا یعنے دشمن دشمن  کی پوری عزت نہیں دیکھ سکتا۔ جو دوستی  دنیاوی  خواہشوں  کے پورا کرنے کے واسطے  نہ ہو۔ بلکہ پاک دوستی براہ  خدا ہے۔ اُس میں موت سے پہلے کمی نہیں ہوتی۔  بلکہ مرنے کے بعد آلایش  سے دوستی  پاک ہو جاتی ہے۔  اور اُس وقت دوست کے عیب نظر نہیں آتے۔ اور اُس کی خوبیاں قبر کی تاریکی میں روشن  نظر آتی ہیں۔ پس اس سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ کہ خداوند کے واسطے انسانوں سے اور دیگر  مخلوقات  سے دوستی کرو۔ اُس کی بنیاد قایم ہے۔ اور خداوند  سے محبت صرف اُس کے واسطے کرو کیونکہ  وہ وفادار ہے۔ ( باقی پھر کسی وقت)

دُوستی  کی نسبت دو ایک آرٹیکل  نور افشاں میں شائع ہو چکے ہیں  جن میں بعض خیالات  عمدہ ظاہر کئے گئے ہیں۔ واقعی یہ مضمون بہت وسیع ہے جہانتک  غور کیا جائے ایک نہ ایک بات نئی  نکل ہی آتی ہے۔ یہ  پیپرز بھی اپنا خیال ظاہر کرنے کی جرات کرتا ہے۔

آجکل کے زمانہ میں اگر حقیقی  دوست کی تلاش کی جائے  تو اس میں کامیابی کی اُمید اگر ناممکن نہیں  تو مشکل  ضرور  ہے کیونکہ آدمی یسا کہ ظاہری صورت  میں ایک دوسرے سے فرق رکھتے ہیں ویسا ہی سیرت میں بھی۔ جہاں دو کی طبیعت  ایک طرح کی مل گئی وہاں ہی دوستی کی بنیاد یہی پڑ گئی۔ اس میں نہ دولت  و ثروت کوئی  رکاوٹ ہو سکتی  ہے نہ علم و ہنر  کوئی سدِراہ۔ 

حقیقی دوستی وہی ہے جب ایک دوست دوسرے  دوست  کی مصیبت و تکلیف کو یہ سمجھے  کہ یہ تکلیف و مصیبت میرے دوست پر نہیں آئی ہے بلکہ مجھ پر  ۔ اور اسکا بوجھ ہلکا کرنے میں حصہ  لے مگر عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ جہان دوست پر مصیبت آئی باتیں تو بہت سی بنائی جاتی ہیں۔ دلجمی  کی جاتی ہے تسلی یہ دی جاتی ہے مگر محض بے سود جہاں کسی قسم کی امداد کی استدعا  کی گئی سینکڑوں  عزر بہانے  بنائے جاتے ہیں اور رو پوشی  اختیار  کی جاتی ہے اور آخر کو یہ بھی خیال  نہیں رہتا کہ اس شخص  سے  کبھی ہماری ملاقات تھی بقول حضرت سفیر ؔ

دنیا پر ست دیکھنے والے ہوا کے ہیں اور جہاں کہین راستہ پر آمنا سامنا ہو یہی گیا۔ تو نظر تک اُٹھا کے نہیں دیکھتے  بات چیت کرنا تو درکنار ۔

؎ سچ تو یہ ہے کہ بُرا  وقت نہ دکہلائے خدا۔ دوست پھر جاتے ہیں  دشمن کی شکایت کیا ہے۔  حقیقی دوستی میں دوست کی مصیبت  دیکھی  نہیں جاتی۔ جبتک کہ وہ مصیبت اس پر سے ٹل نہ جائے دوست کی طبیعت  بر ابر  بے چین  رہتی ہے۔ مصیبت زدہ دوست کی امداد  کرنے کو دل خواہ مخواہ  تحریک کرتا ہے۔  اُبھارتا ہے۔ شوق دلاتا ہے اور یہ فرض منصبی ایک گونہ راحت معلو م  ہوتا  ہے۔  سینکڑوں  تدبیریں سوچی جاتی ہیں  کہ کسیطرح  دوست  کی مدد ہو کسی نے خوب  کہا ہے۔

درپریشاں  حالی دور ماندگی، مگر یہ امداد  و ہمدردی کا اظہار بےغرض و بے لوث  ہونا چاہئے  تب ہی حققی  دوستی کی بنیاد  قایم رہتی ہے مگربہت لوگ ایک شخص کی مصیبت مین اُس کی امداد کرنے سے اس پر ایک طرح کا دبوو ڈال کر اپنا  کوئی  مطلب نکالنا  چاہتے ہیں ہمارے تجربہ میں  کئی شخص اس قسم کے آئے۔ اُن کے واسطے یہی کہا جا سکتا ہے۔ شعر جستجوئے دگرے داشت چو پر سیدم ازو  منفعل  گشت  وبمن  گفت ترامی خواہم۔  اور اس پر طرہ یہ ہے کہ جب اپنا مطلب  نکلتا نہیں  دیکھتے تو دشمن ہو جاتے  ہیں ۔ دوست کی پہچان میں کسی کا مقولہ ہے کہ دوست کو آدہی رات کو جگا کر اُس سے کوئی رقم بطور  قرضہ  مانگی جائے۔ 

حقیقی دوست کی پہچان  ایک یہ بھی ہے کہ دوست  کے عیوب آئینہ  کی ما نند  روبرو صاف  و صریح  ظاہر کروگے مگر تجربہ میں ایسا بھی ہوتا کم دیکھتے  میں آیا ہے مل  کہ اس کے برعکس  تعلق و  چاپلوسی کو کام میں لایا جاتا ہے جھوٹی خوشامد سے آسمان  پر چڑہا دیا جاتا ہے  آپ ایسے  آپ ویسے  آپ کے باپ ویسے  آپ کے دادا ویسے۔  تملق و خوشامد  کی عادت جس میں ہو اُس کی دوستی کا اظہار  قابل اعتماد نہیں۔

دوستی کے خاص آئین  میں جن کا لحاظ  رکھنا واجبات سے ہے۔ رشک و حسد  کو پاس  نہ پھٹکے  دے  غیبت  کے عادی نہ ہونا چاہیئے۔ دوست کی عزت آبرو و خیر خواہی مدِنظر رہے۔

؎ خیال خاطرِ احباب چاہئے ہر دم۔ انیس  ٹھیس نہ لگجائے  آہیگنوں کو ۔ صاف باطنی و سینہ بے کینہ ہونا چاہئے ۔ تحمل بردباری  و برداشت کی عادت ہونا چاہئے  وغیرہ وغیرہ۔ ان ہی پر دوستی کے قایم  رہنے کا دارومدار موقوف ہے۔

دوستی وہ ہی سچی  ہوتی ہے  جو دیر میں پیدا ہو۔ چٹ روٹی پٹ دال سے کام نہیں چلتا اور یہی سبب ہے کہ دوستوں سے اکثر ٹھوکریں  پہنچتی ہیں۔

؎ دوستوں سے اس قدر صدمے  اُٹھائے  جان پر ۔ دل سے دشمن کی عداوت کا گلہ جاتا رہا۔  کسی نے کہا ہے دیر آمد درست آمد۔  جو  چیز  جلد گرم  ہوجاتی  ہے وہ ٹھنڈی  بھی جلد ہوتی ہے۔ مگر جو دیر میں گرم ہوتی ہے وہ دیر میں  ٹھنڈی ہوتی ہے۔  اگر دوستی میں  یہ باتیں  ہیں  تو وہ دوستی  کہلائیگی ورنہ  یہ شعر  بجا کہا جا سکتا ہے۔

؎ خدا ملے  تو ملے  آشنا نہیں ملتا۔ کوئی کسی کا نہیں دوست سب کہانی ہے۔ یوں تو مطلب کے یار بہت مل جاتے ہیں۔ اور آخر یہی ہوتا ہے سلفی یار کس کے ۔ دم  لگایا اور کہسکے۔

دوستی کے مختلف مراتب ہیں ایک وہ جس کو انگریزی  میں اینٹی میسی (intimacy) کہتے ہیں  جس میں ایک دوست دوسرے  دوست کا ہمدم  و ہمراز ہوتا ہے دوسرے کو فراینڈشپَ (Friendship)  کہتے ہیں جس میں زرہ کھل کر برتاؤ  ہوتا ہے۔  تیسرے کو ایکونٹنس (acquaintance)  کہتے ہیں یعنے  جان پہچان  جس میں معمولی  علیک سلیک ہی ہوتی ہے۔ زیادہ بے تکلفی  نہیں ہوتی۔ واضح رہے کہ لوِو (love) عشق دوسری بات ہے۔

دُنیوی دوستی تو صرف دنیا ہی کے واسطے ہے عاقبت  میں کام  آئیگی  لازم ہے کہ عاقبت کے واسطے بھی ایک  حقیقی  دوست  ڈہونڈہنا چاہیں جو کہ ایک  مقدم امر ہے۔ پس خدا سے لوو لگانا چاہئے اور اُس کے اکلوتا بیٹے کو اپنا  ہمراز بنانا چاہئے ۔

مضمون کو حتی المقدور  مختصر  لکھا گیا ہے تاکہ ناظرین  کا  بیش قیمت وقت  زیادہ ضایع نہ ہو۔

راقم۔۔۔

ہماری لخت جگر اُٹھ کے دیکھ لو تم بھی
زمانہ اور ہے یہ رنگ بھی نظر میں رہے