دعویٰ بشارات بہ نسبت محمد صاحب توریت و انجیل میں

Does the Torah or Gospel
Mentioned Muhammad?

Published in Nur-i-Afshan August 5, 1876
By Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

دعویٰ بشارات بہ نسبت محمد صاحب توریت و انجیل میں

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ۔ Pakistani School Children سورہ صف آیت ۶ قرآن کی اِن دو آیتوں سے اہل اسلام کے دل میں خیال پیدا ہو ا کہ تورات و زبور و انجیل میں محمد صاحب کی نسبت بشارت کا مذکور صراحتاً اور کنایتہ ہوا ہے اور اِس تہمت سے علماء اِسلامیہ اُن کتب مقدسہ کامطالعہ کر کے بشارات کے تلاش میں مصروف ہوئے اور جبکہ بعد تلاش اور تجسس لبیار کے اُنکو کوئی بشارت نظر نہ پڑی تو بعض کسان نے نہایت تعصب اور بے پرواہی سے کہدیا کے تورات و انجیل و زبور اپنی اصلی حالت پر باقی نہیں رہیں جو آیات اُن میں ازقسم بشارات مذکور ہوئی تھیں اُن کو یہود و نصار یٰ نے ملکر نکال ڈالا یہہ تہمت نہایت سفاہت اور بخیردی پر دلالت رکھتی ہے کیونکہ پہلے تو اِسیطرح کی آیت کو اُن کتب مقدسہ سے نکال ڈالنا ممکن ہی نہ تھا اور اگر اِسیطرح کا تبدل اور تغیر بیبل کی نسخ ستداولہ میں منظور کیا جاوے تو ضرور وہ محمد صاحب کے ظہور کے بعد وقوع اور ظہور میں آیا ہو گا۔ کیونکہ یہہ تو ممکن نہیں ہو سکتا کہ یہودی عیسائی اپنی کتابوں میں سے جنکو وہ پاک اور من عنہ اﷲ سمجھتے تھے اگر اُن کتابوں میں کسی پیغمبر کے مبعوث ہو نے کا مذکور ہوا ہو تو اُس بیان کو وہ نکال ڈالیں بلکہ قریں قباس عقل وقیقہ شفاس کے یہی ہے کہ اُس بشارت کو وہ خوشی کے ساتھ بیان میں لاویں اور سشرلۂ کی انتظار پر آنکھ لگاویں پس اگر ایسا تبدل وقوع میں آیا ہو گا تو سوااِسکے نہیں کہ بعد ظہور محمد صاحب کے آیا ہوگا یہودی ور عیسائی اُن پر ایمان نہیں لائے اور جب انہوں نے اپنی کتابوں کی طرف رجوع کیا اور اُن میں اُن کی نسبت گواہی موجود پائی تب اُنہوں نے غصہ اور حسد سے اُن آیات کو نکال ڈالا تاکہ اُن کا دعویٰ باطل ٹھہرےمیری دانست میں ایسا کہنا بھی ناواقفیت ور نافہمی اور فکر نہ کرنے کا نتیجہ ہے کیونکہ یہہ بھی ممکن نہیں ہو سکتا کہ یہودی اور عیسائی جو آپس میں پرلے درجہ کی مخالفت رکھتے تھے باہم متفق ہو کر اپنی کتابوں کو بدل ڈالیں اور اگر بالفرض کسی وجہ سے متفق کبھی ہو جاویں تو بھی اُن کو کتب مقدّسہ میں تبدیل کرنا حیز امکان سے باہر تھا کیونکہ اُسوقت تورات و انجیل کے صدہا نسخے دنیا کے مختلف ملکوں اور مختلف قوموں اور مختلف فرقوں کے درمیان جو آپس میں اشد مخالفت رکھتے تھےپھیل گئے تھے علاوہ بریں اِسکا ترجمہ بھی مختلف زبانوں میں ہو کر پھیل گیا تھا اب کیونکر یقین لایق ہے کہ اُن سارے نسخوں کو اکٹھا کر کے بشارات کو اُنکے بیچ سے نکال دیا ایسی بات خیال میں ہرگز نہیں آسکتی اور اگر بعض میں تصّور کیا جاوے تو تھوڑے نسخوں میں تبدیل کرنا لاحاصل اور لا طایل ہے کیونکہ باقی نسخوں سے اُن کی خیانت بخوبی دریافت ہو سکیگی تو بھی اگر کو ئی ضدّ و کد سے کہتا رہے کہ اِس قسم کا تبدیل ضرور وقوع میں آیا ہے تو وہ بھی نشان دہی کرے کہ وہ تبدیل کس عہد اور کس کی کتاب میں آیا اور جبتک ایسا ثابت نہ کر سکے تب تک اِس معاملہ میں زبان نہ ہلاوے اور خاموش رہے میری سمجھ میں مناسب یہہ تھا کہ جب کہ محمد صاحب کے حق میں کتب مقدّسہ میں کوئی بشارت اُن کو نہیں ملی تب اُن کتابوں پر الزام لگانے کی جگہ محمد صاحب کے دعویٰ کی تصدیق نے کرتے اور بعض جو زیادہ عقلمند اور فہم اور فراست میں قدم رکھتے ہیں وہ کتب انبیا ء میں تاوملات کر کے محمد صاحب پر لگانے کے لیے کوشش بیفایدہ کر رہے ہیں اُنہیں میں سے حافظ ولی اﷲ لاہوری ا ور سید احمد واعظ دہلوی ہیں سید احمد صاحب کی تقریر کی نظر ثانی میں چند ہفتہ ہوئے اِس اخبار میں درج کتب کر دی ہے اور اُن کے دعویٰ کا بطلان میں نے بخوبی کر دکھایا اُن کی مثل مشہور ہے کہ ڈوبتا تنکی کو پکڑتا ہے بہلا تنکا بیچارہ کس طرح بچا سکتا ہے اب چند روز ہوئے کہ اسی قسم کا ایک مضمون تہذیب الاخلاق جلد ششم نمبر ۸ مورخہ یکم جمادی الاّول سن ۱۲۹۲ہجری میں درج ہوا اور نہایت طویل طویل لکھا گیا اور اِس اخبار کے اڈیٹرصاحب کی دیگر تصنیفات کی مانند یہہ مضمون نہایت تفتیش ور بڑی تلاش سے عالمانہ اور تحقیقانہ مرقوم ہوا اگرچہ اڈیٹر صاحب نے اِسمیں بڑی جان فشانی اور عرق ریزی کر کے اپنے مطلب کو ثابت کرنا چاہا مگر افسوس ہے کہ ایسے محقق اور ایسے بڑے فاضل باوجود ایسی تلاش کامیاب نہ ہوسکے اور یخرتاویلات اور نسویلات کے اُن سے اور کچھ سرسبز نہ ہوا اُنہوں نے تمہیدات مطالب میں وعدہ کیا ہے ( کہ اگر بغیر تعصب اور طرفداری ور ضدّ کے اُنپر غور ہو ور اُن کے معنوں میں تحریف نہ کی جاوے تو وہ صاف ہمارے جناب پیغمبر خدا پر صادق آتی ہیں) اب میں اِسکی نظر ثانوی میں دکھلادونگا کہ یہہ وعدہ مقرون بوفانہ فرمایا ور ثبوت اِسکا زیل میں دیا جاویگا اور صاحب مضمون چند بشارات مسیح جنکا اشارہ انجیل میں پایا گیا بطور نمونہ دکھلاگئے تو میں اِس موقع میں اُن کی تقریر پر بہ نسبت بشارات مذکورہ کے کچھ بیان نہیں کرتا بشرط زندگی آیندہ ا ُسکو ثبوت کی تحقیقات میں اُن کی خصوصیات اور تفاسیر وغیرہ کا بیان اِس اخبار میں کر دکھلا ؤنگا بالفعل محمد صاحب کی نسبت جو بشارات کا ذکر ہوا اُنہیں کی نسبت اڈیٹر صاحب کے ملاحظہ اور غور و انصاف کے لیے پیش کرتا ہوں۔

پہلی بشارت محمد صاحب کی نسبت

حضرت موسیٰ کی پہلی کتاب باب ۱۷ آیت ۲۰ میں نے تیری دُعا اسمٰعیل کے حقمیں قبول کی ہاں میں نے اُسے برکت کر دی اور باز اور کیا اور اُسے بہت کچھ فضیلت دی اُس سے بارہ امام پیدا ہوں گئے اور اُسے بڑی قوم کرؤنگا دوسری آیت توریت کی کتاب اول باب اا آیت ۱۲، ۱۳۔ اور خُدا نے ابرہام سے کہا کہ تُجھے اِس لڑکے اور اپنی لَونڈی کے باعِث بُرا نہ لگے ۔ جو کُچھ سارہ تُجھ سے کہتی ہے تُو اُس کی بات مان کیونکہ اِضحاق سے تیری نسل کا نام چلے گا۔ اور اِس لَونڈی کے بیٹے سے بھی مَیں ایک قَوم پَیدا کرُوں گا اِس لِئے کہ وہ تیری نسل ہے۔اِن دو آیتوں کو تہذیب الاخلاق کے اڈیٹر صاحب دست آویز مدعا بنا کر فرماتے ہیں کہ اِسمیں محمد صاحب کے مبعوث ہونے کی بشارت صاف و مصرح ہے میں اِس کلام کو سُنکر نہایت متعجب ہو اکہ میں اِنہیں آیتوں کو اکیس سال برابر پڑھتا اور مطالعہ کرتا رہا لیکن میرے دلمیں ایسا خیال کبھی پیدا نہیں ہو اکہ اِسمیں کسی نبی کے مبعوث ہو نیکی بشارت ہے محمد صاحب کے خیال آنیکا تو کیا ذکر ہے میں یہی سمجھتا رہا اور اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ بنی اِسمٰعیل کے حقمیں خدا کی طرف سے عطا برکت کا بیان ہوا حضرت ابراہیم کی خاطر دار یکو خدا نے اِسمٰعیلکو ابراہیمی عہد سے علیٰحدہ کر دیا تو بھی اُسکو ایک بڑی قوم بنایا اور اُسکے بیچمیں سے بارو سردار پیدا کئے ضرور اِن آیات میں خدا کی برکات کا مذکور ہوا لیکن تصریح نہیں ہوئی کہ وہ برکت روحانی یا جسمانی ہوگی بلکہ پچھلے دو کلام سے کہ اُسکو بڑی قوم بناؤنگا اور اُس سے بارہ سردار نکالونگا صاف ہو یداہے کہ یہہ برکت جسمانی اور دینوی کی نسبت مذکور ہوا اڈیٹر صاحبکا دعویٰ کہ یہہ ایک صاف بشارت محمد صاحب کے پیغمبری کی ہے محض دعوی ہی ہے بشارت صاف آسیکو کہا جاتا ہے جسکو ہر ایک خواندہ سمجھ سکتا ہے لیکن کون کہسکتا ہے کہ اُن آیات کی تلاوت سے پڑھنے والیکو اتنا دریافت ہو جاتا ہے کہ بنی اسمٰعیل سے ایک پیغمبر مبعوث ہوگا اِسمیں یہی ایک عام برکت کا وعدہ ہو بعدازیں اڈیٹر صاحب نے ابراہیم و اِ سحٰقکی نسبت جو برکت کا وعدہ ہوا اُن آیات کو مذکور کیا موسیٰ کی پہلی کتاب سے اول جبکہ حضرت اِسحٰق بیرسبع میں پہنچتے تو خدا تعالیٰ نے خواب میں اُنسے فرمایا کہ میں تیرے باب ابراہیم کا خدا ہوں تو ڈر مت میں تیرے ساتھ ہوں تجھکو برکت دونگا ا وراور اپنے بندے ابراہیم کے سبب تیری نسل کو بہت کرونگا باب ۲۷ آیت ۲۴ ۔ دوم جب حضرت ابراہیم کنعان میں پہنچے تو خدا نے اُنسے کہا کہ یہہ زمین تیری اولاد کو دونگا باب ۱۲ آیت ۷ ۔ سوم جبکہ حضرت لوط حضرت ابراہیم سے جدا ہو گئے تو پھر خدا نے ابراہیم سے کہا کہ آنکھیں کھول اور چاروں طرف دیکھ یہہ تمام زمین جو تو دیکھتا ہے تیری اولاد کو دونگا اور تیری اولاد کو زمین کے ریت کے مانند کرونگا جو کوئی ریت کے زروں کو گن سکے تو تیر ی اولاد کو بھی گن سکیگا باب ۱۳ آیت ۱۴، ۱۵،۱۶۔ چہارم پھر ایک دفعہ خدا نے ابراہیم سے وعدہ کیا کہ تیری اولاد اتنی ہوگی جتنے آسمان کے ستارے جنکو گن نہیں سکتا باب ۱۵ آیت ۵ ۔ پنجم پھر خدا نے اِبراہیم سے ایک اور پختہ وعدہ کیا کہ یہہ زمین مصر دریا سے فرات کے دریا تک تیری اولاد کو دونگا باب ۱۵ آیت ۱۸۔ ششم جب یعقوب بیر سبع سے حاران کیجانب روانہ ہوئے تو ایک مقام پر پتہر سرہانے رکھکر سو رہے خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک سیڑہی زمین سے آسمان تک لگی ہوئی ہے اور خدا کے فرشتے اُسپر اُترتے چڑہتےہیں اُسپر خدا نے کھڑے ہو کر کہا میں تیرے باپ ابراہیم اور اسحٰق کا خدا ہوں یہہ زمین جسپر تو سوتا ہے تجھکو اور تیری اولاد کو دیتا ہوں تیری اولاد زمین کے ریت کے برابر ہوگی اور چاروں طرف پھیل جاویگی باب ۲۸ آیت ۱۲،۱۴،۱۳ اِن آیات کو راقم خطبہ نے انتخاب کیا اور اُنکے الفاظوں کو اُن وعدونکے الفاظوں سے جو اسمعٰیل کے نسبت وقوع میں آئے جنکا بیان صدر میں گزر چکا مقابلہ کر کے دعوی ٰ کیا کہ یہہ الفاظ باہم متناسب اور کسیقدر ملتے ہوئے ہیں اُن الفاظ کے ساتھ جو اسمعیٰل کے حقمیں وارد ہوئے پھر اِسکے اوپر دو سوال وارد کئے ایک یہہ کہ جو وعدے خدا نے ابراہیم کی اولاد میں کئے ہیں وہ وعدے اِسمعٰیل اور اِسحاق دونوں کے حقمیں کیوں نہیں سمجھے جاتے حالانکہ خود خدا نے کہا ہے کہ اِسمٰعیل بھی ابراہیم کی اولاد ہے۔ دوسرا سوال یہہ ہے کہ جو وعدہ خدا نے اسحٰق اور یعقوب کی نسبت کیا تھا یعنی ملک کنعان دنیے اور اولاد زیادہ کرنیکا اُسمیں اُنسے کیا چیز ہے جس وہ روحانی قسم کا سمجھا جاتا ہے اور جو وعدہ اِسمٰعیل کے ساتھ کیا تھا اُسمیں کس چیز کی کمی ہے جس سے وہ جسمانی سمجھا جاتا ہے اِن دونوں سوالونکا جواب اُن آیات میں سے سرنکال کر پُکار رہا ہے جنکو صاحب مضمون قصداً یا سہوا چھوڑ گئے اور مجھکو بڑا تعجب تحیر ہے کہ وہ کیونکر اغماض نظر فرما کر درگزر کر گئے۔

خصوصاً  اجزاء اُن آیات منتخبہ کو جنکو اُنہوں نے استدلالاًپیش کیا وہ آیات یہہ ہیں جب ابرام نناویں برس کا ہوا تب خدا ابرام کو نظر آیا اور اُس کو کہا کہ میں خدائے قادر ہوں تو میرے حضور میں چل اور کامل ہو اور میں اپنے اور تیرے درمیان  عہد کرتا ہوں کہ  میں تجھے  نہایت بڑہا ونگا تب ابرام مُنہ کے بل گرا اور خدا اُس سے کلام ہو کر بولا کہ دیکھ میں جوہوں میرا عہد  تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہوگا اور تیرا نام پھر ابرام نہ کہلایا جاوے گا  بلکہ تیرا نام ابی ہام ہوگا کیوں کہ میں نے تجھے بہت قومونکا باپ ٹھہرایااور میں تجھے بہت برومند کرونگا اور قومیں تجھ سے پیدا  ہونگی اور بادشاہ تجھ سے نکلیں گے اور میں اپنے اور تیرے درمیان ور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان اُن کے پشُت در پشت کے لیے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہے کرتا ہوں کہ میں تیرا اور تیرے بعد تیری نسل کا خدا ہوں گا اور میں تجھ کو اور تیرے بعد  تیری نسل کو کنعان کا تمام ملک جس میں تو پردیسی ہے دیتا ہوں ہمیشہ کے لیے ملک ہو اور میں اُنکا خدا ہوں  گا ۱۷ باب ۔ آیت ایک سے ۸ تک خدا نے کہا کہ بیشک تیری جو رو سارہ تیرے لیے ایک بیٹا جنے گی تو اُس کا نام اسحاق رکھنا اور میں اُس سے اور بعد اُسکی اولاد سے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہے قایم کروں گا  اور اسماعیل کے حق میں مینے تیری سُنی دیکھ میں اُسے برکت دوں گا اور اُسے برومند کروں گا اور اُسے بہت بڑہاوں گا اور اُس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اُس سے بڑی قوم بناؤنگا لیکن میں اسحاق سے جسکو سارہ دوسرے سال  اِسی وقت معین پر جنے اپنا عہد قایم کروں گا  ۱۹ آیت سے ۲۲تک خدا نے ابراہیم سے کہا کہ وہ بات اس لڑکےا ور تیری لونڈی کے بابت تیری نظر میں برُی نہ معلوم ہو ہر ایک بات کے حق میں جو کہ سارہ نے تجھے کہی اُس کی آواز پر کان رکھ کیونکہ تیری نسل اسحاق سے کہلاویگی اور اُس لونڈی کے بیٹے سے بھی ایک قوم پیدا کروں گا اِس لیے کہ وہ بھی تیری نسل ہے اب یہہ تمام وعدے جو کہ خدا نے ابراہیم اور اسحاق اور اسماعیل کی نسبت کئے تھے  ہم نے منتخب کر کہ ہر ایک منصف مزاج پڑہنے والے کے سامنے رکھدتے ہیں تاکہ اُن کو معلوم ہو جاوے کہ وہ وعدے جو کہ خدا نے ابراہیم سے کئے تھے دونوں یعنے اسماعیل واسحاق کے حق میں کیوں نہیں سمجھےجاتے اور یہہ بھی سمجھ میں آجاوے کہ وہ وعدے جو ابراہیم  اسحاق سے کئے تھے کیوں روحانی سمجھے جاتے  ہیں اور اسمعیل کی نسبت جسمانی آڈیٹر صاحب کو بھی یہہ بات روشن ہو جاتی اگر وہ تمام آیات کو انتخاب کرتے یا ا ُن  آیات منتخبہ کو بہ نظر غور ملاحظہ فرمائے پہلی انتخاب یعنے  ۷ا باب کی پہلی آیت سے ۸ آیت میں ابراہیمی عہد کا بیان ہوا  اور ساتویں آیت میں مصرح ہے کہ یہہ عہد میں اپنے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان کرتا ہوں جو ہمیشہ کا عہد ہوکہ میں تیرا اور تیرے بعد تیری نسل کا خدا ہوں  اور اُسی باب کی ۱۹ آیت میں ہے کہ خدا نے کہا کہ بیشک تیری جو رو سارہ  تیرے لیے ایک بیٹا جنےگی  تو اُس کا نام اسحاق رکھنا اور میں اُس سے اور بعد میں اُس کے اُسکی اولاد  سے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہے قایم کروں گا  اور اسماعیل کے حق میں مینے تیری سنے دیکھ میں اُسے برکت دونگا ور اُسے برومند کروں گا اور اُسے بہت بڑہاؤں گا  اور اُس سے بارہ سردار پیدا ہونگے اور میں اُسے بڑی قوم بناؤںگا لیکن میں اسحاق سے جسکو سارہ  دوسرے اِسی وقت معین میں جنے گی اپنا عہد قایم کرونگا۔ دیکھو اِس مقام میں کھلا کھلی بیان ہو ا کہ اسماعیل کو خدا برکت دے گا برومند کریگا اور بڑھاوے  گا لیکن  ابراہیمی عہد میں جو ۱۷باب کے ابتداء میں مفصل  مرقوم ہوا اُس کو کچھ دخل نہوگا وہ فقط اسحاق کا حصہ اور حق پریدار ہوا معلوم نہیں کہ صاحب مضمون نے اس بدی امر پر کیوں نظر نہیں فرمائی پھر یہی دعا اور جگہ سے ثابت ہے دیکھو باب ۲۱ ۔ آیت ۱۲ خدا نے فرمایا کہ وہ بات اس لونڈی اور لڑکے کی بابت تیری نظر میں برُی نہ معلوم ہو ہر ایک بات کے حق میں جو سارہ نے تجھ کو کہی اُس کی  آواز پر کان رکھ کیونکہ تیری نسل اسحاق سے کہلاوے گی اور اُس لونڈی کے بیٹی سے بھی میں ایک قوم پیدا کروں گا کیونکہ وہ بھی تیری نسل ہے اس مقام میں بھی صفائی سے ظاہر رہا ہے کہ اگر چہ اسماعیل ابراہیم ہی کی نسل ہے مگر وہ اُن برکتوں میں شریک اور شامل نہیں ہوا جنکو خدا نے ابراہیم اور اُس  کی نسل  کے لیے مقدر اور مہیا کیا کیونکہ ابراہیم کی نسل اسحاق سے کہلاویگی اور اسماعیل کے واسطے خدا نے الگ اور دوسری قسم کی برکات معین کیں اب میں خیال کرتا ہوں کہ آڈیٹر صاحب پر یہہ امر مخفی نرہا ہو گا کہ کیوں دونوں یعنے اسماعیل و اسحاق اُن برکات سماوی میں جو خدا نے ابراہیم  اور اُس کی نسل کیواسطے معین اور شخص کیں شریک سمجھے گئے اِسکا یہی موجب سمجھیں کہ خدا نے ابراہیم سے فرمایا کہ میں اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہے اسحاق سے اور اُس کے بعد اُس کی اولاد  سے قایم کروں گا اور تیری نسل اسحاق سے کہلاوےگی نہ اسماعیل سے دیکھو باب ۱۷ ۔ آیت ۲۰ ، ۲۱ ۔ اور باب ۲۱ ۔ آیت ۱۲ اور سوال دوم کا جواب ہے ۱۷ باب کی پہلی ۸ آیات سے بھی واضح ہو  کہ وعد ہائے خدا بہ نسبت ابراہیم سارے وعدے روحانی نہیں سمجھے جاتے جیسا کہ آڈیٹر  صاحب نے خیال کیا جن برکتوں کا خدا نے ابراہیم سے وعدہ کیا سب دو قسم کے ہیں جسمانی و روحانی میں اپنے  اور تیرے  درمیان عہد کرتا ہوں  کہ میں تجھے نہایت بڑہاؤں گا تو بہت قومونکا باپ  ہوگا میں تجھے برومند کروں گا  اور قومیں تجھ سے پیدا  ہوں گی اور بادشاہ تجھ سے نکلیں گے اور میں تجھ کو اور تیرے بعد تیری نسل کو کنعان کا تمام ملک جس میں تو پردیسی ہے دیتا ہوں کہ ہمیشہ کے لیے ملک ہو ۔ یے سب وعدے جسمانی ہیں اور خاص کر دنیاوی چیزوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ روحانی وعدے جو خدا نے ابراہیم سے کئے تھے  اُن کو سنۓ میں اپنے اور تیرے درمیان اُنکی پشت در پشت  کے لیے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد  ہو کرنا ہوں کہ میں تیرا اور تیرے بعد تیری نسل کا خدا ہونگا۔  آڈیٹر  صاحب کو دوسرےسوال  کا جواب  بھی پونچایا گیا اور میں اُمید کرتا ہوں کہ وہ بخوبی معلوم کر لیں گے کہ کیوں اسماعیل کی برکت کو دنیاوی پر محمول کیا نہ روحانی پر قبل ازیں کہ میں پہلی بشارت کی نظر ثانوی کو ختم کروں بیانات سابقہ سے ایک اور نتیجہ  نکالتا ہوں کہ وہ دوسری بشارت کے بیان میں مدد گار اور مفید کار ہو گا وہ یہہ ہے کہ بیانات مذکورہ صدر سے صریح و صاف معلوم ہوا کہ بنی اسماعیل  کوئی نبی مبعوث نہوگا ا ور نہ خدا  کا کلام اُن کو بخشا جاوے گا ۔ اُن کی برکت ساری جسمانی ور دنیوی ہے روحانی برکتوں کا مالک اور امانتدار نبی اسحاق جیسا صدر میں مذکور ہوا ہے۔  خدا نے ابراہیم کو فرمایا تھا کہ میرا ہمیشہ کا عہد کہ میں تمہارا ور تمہاری نسل کا خدا ہوں گا میں اسحاق  سے اور بعد اُس کے اُسکی اولاد سے قایم کرونگا نہ اسماعیل سے۔

بشارت دوم قایم کریگا تیرا معبود موجود تیرنےلیےنبی تجھ میں سے تیرے بھائیوں میں سے مجھ سا اُسکو انیو اُنکے بھائیوں سے نبی تیرا ساقایم کروں گا ور اپنا کلام اُس کے منُہ میں دوں گا اور جو کچھ میں اُس سے کہوں گا وہ اُن سے کہہ دے گا توریت کتاب پنجم باب ۱۸ ۔۱۵، ۱۸ آڈیٹر تہذیب الاخلاق کے مدعی ہیں کہ اِن آیتوں میں محمد صاحب کے مبعو ث ہونے کی ایسی صاف اور ایسی مستحکم بشارت ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا خدا نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ نبی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ایک نبی مثل موسیٰ کے مبعوث کروں گا اور کچھ شبہ نہیں ہو سکتا کہ نبی اسرائیل کے بھائی بنی اسماعیل ہیں اور بنی اسمعیل میں بخر محمد صاحب کے اور کوئی نبی نہیں ہوا اور اِس سے صاف ثابت ہو گیا کہ یہہ بشارت ہمارے ہی جناب محمد صاحب کی تھی۔ یہہ دعویٰ کچھ نیا نہیں ہو ا بلکہ اکثر علماء اسلام اِسی قبیل سے کہتے اور لکھتے چلے آئے ہیں اور وہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہہ اُنکا ایک حصن حصین ہے جس میں سے کسی طرح اُنکونکالنا ممکن نہیں اور اِس کے جواب میں بھی بہت کچھ تصنیف ہوا خصوصاً مولوی عماوالدین اور پادری نیوٹن صاحب کی قلم کے وسیلہ سے جو چاہا ہے اُنکی کتابوں کو مطالعہ کرے متعصب اور ناواقف کاروں سے جب اِس قسم کا دعویٰ ظہور میں آتا ہے تو تعجب کا مقام اور موقع نہیں ہوا کہ کرتا مگر آڈیٹر صاحب چونکہ ازبس منصف مزاج اور پرلے درجے کے محقق ہیں اور دلایل کو باہم مقابل کرنے کے عادی تو اُن سے ایسا دعویٰ کہ اِس میں صاف اور مستحکم بشارت محمد صاحب کی ہے باعث کمال حیرت اور تعجب کا ہوا میں دعویٰ کرتا ہوں کہ اُن کا دعویٰ محض غلط اور پادر ہوا ہے اور اُن کی تقریر سے ثبوت کو نہیں پہنچتا اور اُن کی تقریر میں چند باتیں فاحش ہیں جنکی میں پہلے نظر ثانی کر کے پیچھے اُن کے دعوےکی بے بنیاد ظاہر کت دکھلاؤنگا۔

خطا اول اول یہودی عیسائی دونوں اسبات کو تسلیم وپذیر ا کرتے ہیں کہ انبیاء بنی اسرائیل پر سوائے احکام عشرہ موسیٰ کے جو وحی آتی تھی اُس کے لفظ وہی نہیں ہیں جو توریت و زبور و صحف انبیاء میں لکھے ہو ئے ہیں بلکہ انبیاء کو صرف مطلب القا ہوا کرتا تھا اور پھر وہ اُس کو اپنی زبان و محاورہ میں لوگوں کے سامنے بیان کرتے تھے۔ یہہ بیان اِن کا بالکل غلط اور قابل سماعت نہیں خبر نہیں یہہ کہاں سے اُنھوں نے پایا جس کی کچھ اصل نہیں برخلاف اس کے بڑے حصہ عیسائی جماعت کا عقیدہ یہہ ہے کہ کل بائیبل کا لفظ تلفظ انہیں لفظوں میں نبیوں اور رسولوں پر الہام ہوا اور اُنہوں نے اُنھیں لفظوں کو بعینہ کہہ سنایا بعضونکا عقیدہ یہہ ہے کہ بائیبل کے الہام کی قسمیں دو ہیں ایک لفظ تلفظ جس طرح روح القدس سے اُنکو پہنچا وہ ایسے مقام مین سمجھے گئے جہان نبیوں نے فرمایا خدا وند یوں فرماتا ہے خدا یوں حکم دیتا ہے دوسرا مطلب اور معانی جس کو مصنفوں میں اپنی زبان اور لفظ سے تعبیر کیا لیکن کوئی عالم عیسائی جماعت میں ایسا نہیں ہوا کہ وہ آڈیٹر صاحب کے بیان کے مطابق عقیدہ رکھتا ہو یہہ میری ہی خیال نہیں اور نہ صرف واسطے نقص کلام خصم کے لکھتا ہوں بلکہ انجیل میں اسی طور مرقوم ہوا دیکھو دوسرا نامہ پطرس باب اول ۔ ۲۱ ثبوت کی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ خدا کے مقدس لوگ روح قدس کے بولائے بولتے تھے۔ پھر پہلا نامہ پولوس کا قرنتیوں کو باب ۲ ۔ ۱۳ یہہ چیزیں ہم انسان کی حکمت کی سکھائی ہوئی باتوں سے بیان کرتے ہیں ۔ باب جس لفظ کا ترجمہ کیا ہے وہ دراصل الفاظ ہے پطرس کا پہلا خط پہلا با ب ۔ ۱۰،۱۱۔آیت سے بھی یہہ بات ظاہر ہوتی ہے اُن آیتوں میں یہہ لکھا ہے اِسی نجات کی بابت اُن نبیوں نے تلاش اور تحقیق کی جنھوں نے اُس نعمت کی پیشین گوئی کی جو تم پر ظاہر ہونے کو تھی وے اُس کی تحقیق میں تھے کہ مسیح کی روح جو اُن میں تھی جب مسیح کے دُکھوں کی اور اُس کے بعد اُس کے جلال کی گواہی دیتی تھی کس وقت اور کس طرح کے زمانہ کا بیان کرتی تھی ۔ اِس جگہ بیان ہے کہ روح القدس مسیح کے دنوں کے نبیوں کی معرفت گواہی دیتی تھی اور اُس گواہی کو نبیوں نے تالیف کیا اور بعد تالیف کے وے خود بھی نہیں سمجھتے تھے کہ روح کس طرح کے زمانہ اور کس طرح وقت کا بیان کرتی تھی کیونکہ پیشین گوئیاں اُسی عبادت اور الفاظ میں تعبیر ہوا کرتی تھیں جو روح قدس اُنکو تعلیم کیا کرتی تھی خود نبیوں کے کلام کی عبادت کو اگر کوئی غور سے ملاحظہ کرے تو اُس کو جگہ جگہ سے یہہ بات ثابت ہو جاوے کہ کلام ثبوت اُنھیں الفاظ سے تعبیر ہوئی جنکو خدا نے اُن پر ظاہر کیا اِسی سبب سے کل بائیبل کو کلام اﷲ کہا گیا ہے۔

دوسری خطا کہ بنی اسرائیل میں کوئی نبی حضرت موسیٰ جیسا پیدا نہیں ہو اکیونکہ حضرت عزیر پیغمبر نے جب توریت کو بعد قید بابل کے تحریر فرمایا تو اُس میں یہہ لکھا ہے کہ اور پھر قایم نہ ہوا کوئی نبی بنی اسرائیل میں موسیٰ کی مانند جس نے پہچانا اﷲ کو رو برو۔ یہہ بیان دعویٰ اُن کا غلط ہے اور جو دلیل لائے وہ بے محل اور سراسر بیجا کیونکہ خداوند یسوع مسیح نے خود اپنی زبان مبارک سے فرمایا میں تم سے کہتا ہوں کہ اُن میں سے جو عورتوں سے پیدا ہوئے یوحنا بپتمسا دینے والے سے کوئی نبی بڑا نہیں لیکن جو کائی خدا کی بادشاہی میں چھوٹا ہے اُس سے بھی بڑا ہے۔ لوقا کی انجیل کا ۷باب ۔ ۲۸وجہ غلط یہہ ہے کہ اِس کا کچھ ثبوت نہیں کہ یہہ آیت قایم نہیں ہوا کوئی نبی بنی اسرائیل میں موسیٰ کی مانند آہ غررا نبی سے مرقوم ہوئی اور اگر فرض کرو کہ غر یر ہی اُس کے قایل ہیں تو اُس کی شہادت سے صرف اِسی قدر ثابت ہو گا کہ بنی اسرائیل میں کوئی نبی موسیٰ کی مانند اس کے قایل غریرتک قایم نہیں ہوا جو کہ حضرت مسیح کے پانچ سو برس کے قریب پیشتر پیدا ہوئے تھے تو یہہ استدال صحیح نہ ہوا۔

تیسری خطا عیسائی منصفوں نے بھی یہہ بات تسلیم کی ہے کہ حضرت محمد مثل حضرت موسیٰ کے تھے مثلاً  مسٹر ریتا ن نے حضرت عیسیٰ کے حالات زندگی کے بیان میں لکھا ہے آہ یہہ قول کہ عیسائی منصفوں نے تسلیم  کیا ہے کہ حضرت محمد مثل حضرت موسیٰ کے تھے بالکل  جھوٹ اور خلاف واقع ہے کہیں کسی مصنف عیسائی نے ایسا نہیں کیا ریتان صاحب کی نظر دکھلانی دروغ باقی اور رات کو دن بتانا ہے صاحب مذکور عیسائی دین سےمنکر اور ملحد محض ہیں تینوں کتب مصنفہ  اُن کی جو دین عیسوی کے بطلان میں لکھ کر یاد گار چھوریں اور یورپ میں اُن کا چرچا ہو رہا ہے اِ س مقال پر گواہی دے رہی ہیں یوں تو میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ بہت سے مصنف مزاج اہل اسلام اقرار کرتے  ہیں  کہ محمد صاحب میں کسی طرح کی فضیلت نہ تھی اور نہ شرف رسالت جیسا لامزہبوں کی زبان سے جا بجا سننے میں آیا ریتان صاحب ایک مشہور لامزہب فرانس کا ہے اُن کی شہادت پیش کر کے کہنا کہ یہہ مصنف مذاج عیسائی کا قول ہے سخت مغالطہ اور دھوکہ دہی ہے میں ایسے قول کا بیان تہزیب الاخلاق کے پرچہ میں دیکھنے کی امید بھی نہیں رکھتا تھا ا ور لایق  اس کے ساتھ کہ منشور محمدی وغیرہ مطابع میں مطبوع ہوا ہوتا نہ کہ تہذیب الاخلاق میں اور دوسری نظر کو اٹرلی ریویو کی جو دی گئی یہہ بھی باعث اضلال عوام ہی ۔ کیونکہ کواٹرلی ریویو ایک ایسی کتاب کا نام ہے جو انگلستان میں ہر سہ ماہہ میں مرتب ہوتی  اور اُس میں ہر قسم کا مضمون علمی دینی انتظام ملکی و دیگر امور کی بابت چھپا کرتا ہے اور نوپسندہ ہر ایک قوم و مذہب کا ہوا  کرتا ہے بلکہ اکثر لامذہب اور ہمیشہ مذہب عیسوی کے منکر اور مخالف ہی ہوا کرتے ہیں عجب نہیں کہ یہہ آرٹیکل جس کو اڈیٹر صاحب نے انتخاب کیا کسی ہندوستانی محمدی مذہب کی قلم سے پیدا  ہوا ہو مثل اڈیٹر صاحب کے کیونکہ اِس قسم کی ضرورت والے اپنا آرٹیکل اُس اخبار کی یہہ حالت ہو تو اُس کے مطبوعہ  آرٹیکل کو نقل کر کے کہنا کہ یہہ کسی مصنف عیسائی کا قول ہے سخت بیجا اور دور ازکار ور وکلائے طرفداری کی مانند ہے ۔

بعد ازیں  اڈیٹر صاحب اور موسیٰ کے درمیان ۸ چیزوں میں مناسبت بتائی یعنے ایسی وارداتوں  کا بیان کیا جنکا در حالت زندگی  دونوں  میں فی الجمدمتحقق ہوا اِس طرح کی مناسبات کا ثبوت دینا دو بڑے سردار مختلف قوموں کے درمیان مشکل نہیں اور اِس سبب سے کہ اِس قسم کی مناسبات دونوں میں پائی گئی یہہ ثبوت کو نہیں  ھُنچتاکہ  وہ دونوں رسول اﷲ  ہوں حضرت موسیٰ کی زندگی کے حال میں اور کرشن کی زندگی کے احوال میں بہت چیزوں میں مناسبت نکل سکتی مگر اِس مناسبت سے یہہ لازم نہیں آتا کہ کرشن ہندؤں کا حضرت موسیٰ کی مانند نبی ہے جس کا  ذکر استثنا کے ۱۸ باب میں مرقوم  ہوا فکر و خیال کرنے والا عیسائی موسیٰ اور خدا وند  یسوع مسیح کے درمیان بہت امور میں مناسبات نکالنا ہے چنانچہ میں جبکہ میں اوایل  عمر میں کالج کے درمیان طالب علمی کرتا تھا تو مجھے ایک روز بائیبل کے امتحان میں اِسی سوال کا جواب لکھنا پڑا کہ خداوند یسوع مسیح  کو موسیٰ سے کس چیز  میں مناسبت ہے میں  نے اِس سوال کا جواب لکھا مگر مجھ کو یا میرے متمحن کو ایسا خیال دل میں کبھی نہیں گزرا کہ یہہ مناسبات اِس بات کو ثابت کر رہی ہے کہ ضرور خداوند  یسوع مسیح موسیٰ کی مانند نبی تھا اُس کی نبوت کی دلیل اول پیش کرنی لازم ہے زاں بعد بہ  وجود مناسبات موسیٰ کی اُس دلیل کو مدد دینا اور پختہ کرنا مناسب ہے جیسا میں نے پیشتر بیان کیا کہ ہر ایک دوسردار مختلف اقوام کے درمیان ہر ایک فکر دو ڑانے والا آدمی مناسبات نکال سکتا ہے۔

راقم  مضمون  طول مقال سے جس کی قدر و مقدار  سے وہی لوگ واقف ہیں جو کہ توریت کی اصلی زبان سے آگہی رکھتے ہیں اپنی قوت علمی کا اظہار کر رہے ہیں اُنہوں  نے اپنی تقریر سے یہہ ظاہر کیا کہ کلام تیر ا تیرےدرمیان سے کسی خاص آدمی کے نسبت مستعمل نہیں ہوا  بلکہ ُکل بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے کھا اِس لیے جب لکھا کے تیرے بھائیوں میں سے تو یہی معلوم ہوا کہ وہ بھائی کسی اور قوم سے مراد ہے نہ بنی اسرائیل سے یہہ تقریر نہایت درجہ کی پوچ اور لایعنی ہے اِس کی حقیقت یہہ ہے کہ احکام توریت مفرد پر مخاطب ہو کر اکثر دئے گئے ہیں تاکہ ہر ایک فرد اُن میں کا اپنے آپ کو  شریک جانے اور سمجھے کہ یہہ مجھ پر فرض عین ہے مثلاً خدا نے ساری قوم بنی اسرائیل کو کہا کہ میرے حضور تیرے لیے دوسرا خدا نہو وے تو اپنے لیے کوئی مورت یا  کسی چیز کی صورت  مت بنا میں اتنی بات کو قبول اور منظور کرتا ہوں کہ لفظ تو یا تیرے سے تمام قوم مراد ہے لیکن اِس کو منظور نہیں کرتا بلکہ جھوٹھی  اور اختراعی  تفسیر سمجھتا ہوں کہ لفظ تیرا بھائی یا تیرا پڑوسی اور کسی قوم کے آدمی پر دلالت رکھتا ہو جو قوم یہود سے خارج ہو اِس کی صدہا مثال کتب تورات میں موجود ہیں جو چاہے دیکھ  لے  مثلاً استثنا کی کتاب کا ۱۷ باب ۱۴ و ۱۵  جب تُو اُس مُلک میں جِسے خُداوند تیرا خُدا تُجھ کو دیتا ہے پُہنچ جائے اور اُس پر قبضہ کر کے وہاں رہنے اور کہنے لگے کہ اُن قَوموں کی طرح جو میرے گِرداگِرد ہیں مَیں بھی کِسی کو اپنا بادشاہ بناؤُں۔ تو تُو بہر حال فقط اُسی کو اپنا بادشاہ بنانا جِس کو خُداوند تیرا خُدا چُن لے ۔ تُو اپنے بھائِیوں میں سے ہی کِسی کو اپنا بادشاہ بنانا اور پردیسی کو جو تیرا بھائی نہیں اپنے اُوپر حاکِم نہ کر لینا۔ یہاں ُکل قوم بنی اسرائیل پر مخاطب ہو کر عین اُسی طرح جیسا کہ موسیٰ نے فرمایا  خداوند تیرا خدا  تیرے درمیان سے تیرے بھائیوں سے میرے مانند ایک نبی قایم کریگا حضرت موسیٰ فرماتے ہیں جب تو اُس زمین میں جو خداوند تیرا خدا دیتا ہے داخل ہو اور اُس پر قابض ہو تو تو اپنے بھائیوں میں سے ایک کو اپنا بادشاہ کیجیوکیا یہاں ہم کو سمجھنا چاہیئے حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم کیا کہ جب تم کنعان کے ملک میں جاؤ تو بنی اسرائیل کے درمیان سے کسی کو بادشاہ نہ کیجیو بلکہ بنی اسمعیل سے چُن کر اپنے لیے بادشاہ بنا ئیواور سوا اِس کے اور کچھ معنے اِس حکم کے نہیں ہو سکتے اڈیٹر صاحب کی تفسیر دانی کے مطابق پھر خیال کرو کہ خدا نے کل بنی سرائیل  کو حکم کیا تو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ مت کر تو اپنے پڑوسی پر جھوٹھی گواہی مت دے کیا یہاں پڑوسی بنی اسرائیل مراد نہیں ہے بلکہ صرف اُنہیں اقوام پر دلالت ہے جو بنی اسرائیل کے گردو پیش میں بستی میں بستے تھے پھر دیکھو کتاب استثنا کا ۱۵ باب  ۷ آیت۔  جو مُلک خُداوند تیرا خُدا تُجھ کو دیتا ہے اگر اُس میں کہِیں تیرے پھاٹکوں کے اندر تیرے بھائِیوں میں سے کوئی مُفلِس ہو تو تُو اپنے اُس مُفلِس بھائی کی طرف سے نہ اپنا دِل سخت کرنا اور نہ اپنی مُٹّھی بند کر لینا۔اِس مقام پر صفائی سے ثابت ہے کہ تیرا بھائی سے یہودی یا بنی اسرائیل مراد ہیں نظایراس کی توریت میں بے شمار موجود ہیں جن کا زکر طوالت بے ضرورت ہے واسطے شہادت اِس امر کے تفسیر اڈیٹر صاحب کی ایجاد ی اور اختراعی ہے اِسی قدر کافی سمجھا اب میں اُن آیتوں کا ملاحظہ کرتا ہوں جن کو اڈیٹر صاحب نے بطور شواہد نقل فرمایا اور کہا کہ الفاظ تیرا بھائی بنی اسرائیل کے سوا وروں پر بھی بولا گیا چنانچہ استثنا کے ۲۲باب کے۔  ۷ ، ۸ ۔ ۴ باب کے ۔ ۴ دوسرا باب ۔ ۸  ا یسعیاہ نبی کا  ۲۰ باب ۔ ۱۲ عبدیاہ کا ۔ ۱۰ پیدایش کا ۱۶ باب۔ ۱۲ ۲۵ باب ۔ ۱۸ اِن آیتوں میں سے دو آیت یعنے استثنا کا ۴ باب ۴ اور یسعیاہ کا ۲۰ باب ۔ ۱۲ کلام مناظرہ سے کچھ تعلق نہیں رکھتے کیونکہ اُن میں یہہ الفاظ نہیں پائے معلوم نہیں اِن کی نظر بلاتحقیق کیوں مرقوم ہوئی اِسی طرح عبدیاہ نبی کا قول بے محل لائے ۔

استثنا کا ۱۸ باب ۱۵، ۱۸، ۱۹ ۔ خُداوند تیرا خُدا تیرے لِئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائِیوں میں سے میری مانِند ایک نبی برپا کرے گا ۔ تُم اُس کی سُننا۔ مَیں اُن کے لِئے اُن ہی کے بھائِیوں میں سے تیری مانِند ایک نبی برپا کرُوں گا اور اپنا کلام اُس کے مُنہ میں ڈالُوں گا اور جو کُچھ مَیں اُسے حُکم دُوں گا وُہی وہ اُن سے کہے گا۔ اور جو کوئی میری اُن باتوں کو جِن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سُنے تو مَیں اُن کا حِساب اُس سے لُوں گا۔

اول الفاظ تیرا بھائی جیسا صدر میں مذکور ہو ا تین قوم کے اشخاص پر مستعمل ہوا  پہلا(۱) نبی  اسرائیل  دوسرا نبی(۲)  عیثاؤ  تیسرا نبی اسماعیل یہہ توریت کا محاورہ ہے۔ اب دیکھنا چاہیےکہ اِس مقام میں اِن تینوں میں سے کس پر اشارہ ہے۔ پہلے یہہ الفاظ اِس مقام میں بنی اسماعیل پر اشارہ نہیں کر سکتا کیونکہ وہ برکت جسکا بیان اِس بشارت میں مذکور ہوا اُس سے نبی اسماعیل بالکل مستثناکئے گئے ہیں ۔ پیدایش کی کتاب کے ۱۷ باب ۷، ۱۹، ۲۰اور مَیں اپنے اور تیرے درمِیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمِیان اُن کی سب پُشتوں کے لِئے اپنا عہد جو ابدی عہد ہو گا باندھوں گا تاکہ مَیں تیرا اور تیرے بعد تیری نسل کا خُدا رہُوں۔ تب خُدا نے فرمایا کہ بیشک تیری بِیوی سارہ کے تُجھ سے بیٹا ہو گا ۔ تُو اُس کا نام اِضحا ق رکھناا اور مَیں اُس سے اور پِھر اُس کی اَولاد سے اپنا عہد جو ابدی عہد ہے باندھوں گا۔ اور اِسمٰعیل کے حق میں بھی مَیں نے تیری دُعا سُنی ۔ دیکھ مَیں اُسے برکت دُوں گااور اُسے برومند کرُوں گا اور اُسے بُہت بڑھاؤں گا اور اُس سے بارہ سردار پَیدا ہوں گے اور مَیں اُسے بڑی قَوم بناؤں گا۔ باب ۲۱۔۱۲ اور خُدا نے ابرہام سے کہا کہ تُجھے اِس لڑکے اور اپنی لَونڈی کے باعِث بُرا نہ لگے ۔ جو کُچھ سارہ تُجھ سے کہتی ہے تُو اُس کی بات مان کیونکہ اِضحاق سے تیری نسل کا نام چلے گا۔ اِن آیتوں سے بخوبی ظاہر ہے کہ اِسماعیل اور اُسکی اولاد صرف دنیاوی برکت کے مالک ہوئے اور وہ ہمیشہ کا عہد جو خدا نے ابراہیم اور اُسکے بعد اُسکی  نسل کے ساتھ کیا کہ میں تیرا ور تیرے بعد تیری نسل کا خدا ہونگا اُس میں شریک نہ ہوئے اُسکے  وارث  صرف اسحاق اور اُسکی اولاد ہی بنے بنی اسماعیل اِس سے مستثنا ہے بدیں نظر ہر گز ممکن  نہیں کہ کوئی نبی بنی اسماعیل سے مبعوث ہووے یا خدا کی کلام اُس قوم کے کسی آدمی پر نزول کرے۔ دوسرا ِس نبوت کے الفاظ بنی ادوم یا عیثاؤ کی اولاد پر بھی منطبق نہیں ہوسکتے کیونکہ  وہ برکتیں جنکا ذکر اِس نبوت میں آیا  اُنسے بنی عیثاؤ نے اپنے پھلوٹے ہونے کا حق یعقوب کے ہاتھ فروخت کیا اور ابراہیم اور اسحاق کی برکتوں کو حقیر اور ناچیز جانا ۔ اِسواسطے نامہ عبرانیاں میں لکھا گیا نہ ہووے کہ کوئی عیثاؤ کی مانند زانی یا بیدین بنے جس نے ایک خوراک کے واسطے اپنے پھلوٹھے ہونے کا حق بیچ ڈالا کیونکہ تم جانتے ہو کہ اُسکے بعد جب اُس چاہا  کہ برکت کا وارث ہو رد کیا گیا وت اور اُس نے جگہ نہ بائی کہ دل کو بدل دے اگرچہ اُس نے اُسے آنسہوبہا بہا  کت ڈھونڈھا اِس لیے نبوت ملاکی میں خدا کہتا ہے میں نے یعقوب کو پیار کیا اوت میں نے عیثاؤ سے نفرت رکھی اور اُسکے پہاڑوں اور اُسکی میراث کو ویران کر کے دشتی سانپوں کے نصیب کیا بلکہ ا ور اَور  نبیوں کی کتابوں میں بھی بنی عیثاؤ کا زکر خدا کے قہر کے ساتھ ہمیشہ ہوا اور بنی عیثاؤ خدا کے برگزیدہ لوگوں  کے سامنھے ایسے گنے گئے جیسے غیر قوم اور بُت پرست  اُن سے صرف ایک جھوٹی دنیاوی برکت کا وعدہ ہوا ۔ دیکھو پیدایش کی  کتاب ۲۷ باب ۳۹،۴۰ یہاں یوں مرقوم ہے  تب اُس کے باپ اِضحاق نے اُس سے کہا دیکھ! زرخیز زمِین میں تیرا مسکن ہو اور اُوپر سے آسمان کی شبنم اُس پر پڑے۔ تیری اَوقات بسری تیری تلوار سے ہو اور تُو اپنے بھائی کی خِدمت کرے ! اور جب تُو آزادہو تو اپنے بھائی کاجُؤا اپنی گردن پر سے اُتارپھینکے۔

مذکور میں ہے بنی عیثاؤ اُن کے مالک نہیں بن سکتے تیسرا اب رہے بنی اِسرائیل  حقیقت میں وہی اس خدا کی روحانی برکت کے مالک رہے۔ اور بس اسلیے پولوس نامہ رومیوں میں کہہ رہا ہے کہ وے خدا کی کلام کے امانت دار ہوئے اور اور فرزندی اور جلال اور عہد نامہ اور شریعت اور عبادت اور وعدہ اُنہیں کا ہے اور باپ دادے نبی اُنہیں میں کے ہیں اور جسم کی نسبت مسیح بھی اُنہیں میں سے ہوا جو سب کا خدا ہمیشہ مبارک ہے۔ ثبوت اس امر کا نبوت مزکور صرف بنی اسرائیل پر صادق ادیگی اور ماسوا اُنکے اور کسی کے حق میں دوست اور ٹھیک نہیں بیٹھ سکتی اسکے قرینہ اور گردہ پیش پر غور کرنے سے بخوبی ظاہر ہے موسیٰ کو خدا نے مطلع کیا کہ تو بیابان میں اردن کے پورب میں مرجا ویگا اور ملک کنعان میں داخل نہ ہوگا ۔ اِس بات کو سُنکر موسیٰ نہایت غمگین ہوا اور بنی سرائیل کی خیرخواہی کی نسبت فکر مند ہوا اور ساری جماعت بنی اسرائیل کی اکھٹی کر کے اُن کو تعلیم  اور نصیحت  کرنے لگا۔ خصوصاً  اُن کی چال چلن کی بابت جس وقت کہ وہ ملک کنعان میں داخل ہوں اُس نے اُن سے کہا جب تو اُس سر زمین میں جو خداوند تیرا خدا تجھ کو دیتا ہے  داخل ہو تو وہاں کی گروہوں کی کر یہہ  کارمت سیکھو تم میں کوئی ایسا نہ ہو کہ اپنی بیٹی یا بیٹے کو آگ میں گزر کر آوے۔ یا غیب کی بات بناو ے یا جادو گر بنے  اور تم میں سے کوئی افسون گر نہ ہو  نہ دیووں سے جو مسخر ہوتے ہیں سوال کرنے والا اور ساحر اور سیانہ نہ ہو کیونکہ وہ سب جو ایسے کام کرتے ہیں خداوند اُن سے کراہیت کرتا ہے اور ایسی کراہتوں کے باعث سے اُن کو خداوند تیرا خدا تیرے آگے سے دور کرتا ہے تو خداوند اپنے خدا کے آگے کامل ہو کیونکہ وہ گرو ہیں جنکو تو اپنے آگے سے ہالکتا ہے غیب گویوں اور شگونیوں کی طرف کان دھرنے ہیں پر تو جو ہے خداوند تیرے خدا نے تجھ کو اجازت نہیں دی کہ ایسا کرے خداوند تیرا خدا  ۔

تہذیب الاخلاق کی تیسری بشارت کہا خدا  سینا سے نکلا اور سعیرسے تپکا ور فاران کے پہاڑ سے ظاہر ہوا اُسکے دہنے ہاتھ میں شریعت روشن ساتھ لشکر ملائکہ کے آیا  تو ریت کتاب پنجم باب۳۳ ۔ ۲ آئیگا  اﷲ جنوب سے اور قدوس فاران کے پہاڑ سے آسمانوں کو جمال سے چھپا دیا اُسکی ستایش سے زمین  بھر گئی ۔ کتاب حبقوق باب ۳۔ ۳ راقم ابن بشارت کے لکھ رہے ہیں کہ اِن آیتوں میں جو کوہ فاران سے خدا کا ظاہر ہونا اور شریعت کا اُسکے ہاتھ میں ہونا بیان ہو ا  وہ علانیہ محمد صاحب کے مبعوث ہونے اور قرآن مجیدکے نازل ہونیکی کہ وہی شریعت ہے بشارت ہے اور اُسکے ثبوت میں دعویٰ کرتے ہیں کہ یہہ بات عرب کے قدیم جغرافیہ سے اور بڑے بڑے عولموں کی تحقیق اور تسلیم سے اور توریت کے محاورات سے بخوبی ثابت ہو گئی کہ مکہ ہی کہ پہاڑ ونکا نام فاران ہے میں اِس دعویٰ کو سنکر نہایت حیران ہوا کیونکہ یہہ ایک عجیب و غریب مضمون ہے کہ توریت کے دیکھنے والونکے  کےخیا  ل میں  کبھی نہیں گزرا ہوگا اور ایسی جُرأتکے ساتھ دکھایا کہ سننےوالے کے دلمیں پیدا ہوگا کہ یہہ بیان سچائی سے خالی نہوگا۔ اس میں سچائی کچھ نہ کچھ ضرور ہو گی مگر یہہ ایک ایسا بےبنیاد  ہے کہ اِسمیں صداقت کا کہیں نشان و گمان نہیں اور میں حیران ہوں گے کہ اِسکی بطلان کی کونسی دلیل کو پیش لاؤں اور پہلے بیان  کروں اُنسیویں صدی میں عجیب و غریب حکائیتں کثرت سے دیکھنے اور سننے میں آئیں مگر اِس سے بڑھکر غرایب  کہیں نہیں پائی گئی یہہ سب پر سبقت لیگئی اور راقم کی انصاف پروری  اور مبلغ علم کا بڑایا دگار روذگار نا پائدار میں باقی رہا اور اُسکی وجہ ثبوت میں یوں درج تحریر کیا۔

اوّل اکتوبر سن عیسوی ۱۸۶۹  کی کواٹرلی ریولومیں اسلام پر ایک آرٹیکل چھپاہے جو ایک بہت بڑے عالم  یہودی زبان جاننے والیکا لکھا ہوا ہے اُس کے صفحہ ۴۴ میں لکھا  ہوا ہے کہ سیفونے اِن خاص آیتوں کی جسمیں سینا اور سعیر اور فاران کی بشارت مذکور ہے اِسطرح پر تشریح کی ہے کہ خدا سینا سے نکلا  یعنی عبرانی زبانیں شروع دی گئی ( جس سے مراد  توریت ہے) اور سعیر سے چکا یعنی یعنے یونونی زبانیں بھی شریعت دی گئی (جس سے مراد انجیل ہے اور مسلمان کل عیسائیوں کو رومی کہتے ہیں)  اور فاران  کے پہاڑ سے ظاہر ہوا اور اُسکے ہاتھ میں شریعت روشن یعنے عربی زبانیں شریعت دی گئی۔ (جس سے مراد قآن مجید ہے)بس اس عالم کے قول سے ثابت ہو کہ فاران وہی جگہ جہاں سے مذہب اسلام ظاہر ہوا یعنے حجاز یا  مکہ اِس وجہ ثبوت کی نسبت میں اِسقدر کہسکتا ہوں کہ یہہ پوچ و لچر محض بیفائدہ ہے جیسا صدر میں مذکور ہوا کیونکہ کواٹرلی ریویو ایک ایسے اخبار کا نام جو انگلستان میں چار مرتبہ سال میں چھپا کرتا ہے دین عیسوی کے خلاف پراور اُسکے إضامین لکھنے والے اکثر لامزہب اور دین کے منکر ہوا کرتے ہین ایسے اخبار کی رائے دین مخالف امر میں کبھی منظور نہیں ہو سکتی علاوہ اِس کے انگریز ی تعلیم یافتہ مسلمان بھی اُس خبار میں اپنا مضمون چھپوایا کرتے ہیں عجب نہیں کہ یہہ تفسیر اِن آیتوں کی کسی  ہندوستانی مسلمان نے چھپوائی ہو جیسا راقم خطبہ اور اُنکے فرزند سوا اِسکے صرف  اتنا کہنا خدا سینا سے نکلا یعنے عبرانی زبان میں شروع دی گئی جس سے مراد  توریت ہے اور سعیر سے چمکا یعنی یونانی زبانمیں بھی شریعت روشن یعنے عربی زبان میں شریعت دی گئی جس سے مراد قرآن مجید ہی کافی نہیں یہہ عجب رنگ  کی تفسیر ہے کہ جب تک اسکا ثبوت پیش نہو اسکا قبول کرنا ممکن نہیں کیا وجہ ہے جس سے یہہ الفاظ کہ خدا سعیر سے چمکا اور فاران کے پہاڑ سے ظاہر ہوا اِس معنی پر  محول ہو ئی کہ یونانی زبان میں شریعت دی گئی یعنی  انجیل ور عربی زبانیں شریعت دی گئی یعنی قرآن  جبتک اِسکی وجہ معقول ظاہر نہ کیجاوے تب تک اِس عجیب تفسیر کو سوائے راقم خطبہ کے اور کون پزیرا کرے زمانہ ست بچن کا منقضی ہو گیا اور ہانجی  ہانجی کہنے والا کوئی  نرہا اب ایسے بے بنیاد خیلوں کو کون تسلیم کر سکتا ہے۔

دوم اِس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ سینا اور سعیر اکثر بجا ے اِسرائیل اور عیسیٰ کے مستعمل ہوتے ہیں اور ادوم بجاے روم کے اور فاران تو صرف عرب کے لیے مستعمل ہے۔ اِس کلام کے پڑہنے سے ہر ایک ناواقف آدمی کو یہہ معلوم ہوگا یہہ بات ٹھیک اور درست ہوگی بلکہ مسلم الثبوت کہ جسکے واسطے دلیل ا ور نظیر بھی نہیں لائے گویا مثل بد یہی اول کی ہے مگر حقیقت دیکھو تو اِسکے برخلاف ہے یعنے سراسر جھوٹ ناواقفو نکے ٹھگنے کے واسطے دھوکھا دیا ہر ایک مطالعہ کنندہ بائیبل کا اِسکا انکاری ہے کیونکہ عہد عتیق اور عہد جدید کی کتابوں میں سینا ور سعیر بجاے اِسرائیل اور عیسیٰ کے کہیں مستعمل نہیں ہوا یہہ صرف راقم خطبہ کا خیال اور ادعاے شاعر انہ ہے اگر اُنکو کوئی دلیل اور نظیر ہے تو پیش کریں اور تاو قتیکہ پیش نہ کر سکیں انصاف اسی میں ہے کہ یورپ کے جغرافیہ نویس متضق ہو کر جو راے اِس مقام کے واسطے دے چکے اور رہے ہیں اُسکو تسلیم کریں ۔

سوم فرماتے ہیں کہ صرف اِسمیں ہے کہ مکہّ کے گرد کے پہاڑ ونیکا یہہ نام ہے یا نہیں مگر ہم اِس شبہ کو بھی مٹا وینگے ور قدیم جغرافیہ کی تحقیقات سے ثابت کر دینگے کہ مکہّ کے گرد کے پہاڑ بھی فاران ہیں۔

اِس وعدہ کو راقم نے پورا نہ کیا صرف یہہ دکھلایا کہ حضرت اِسمعیل  اور اُنکی ماں ہاجرہ جب حضرت ابراہیم سے  جدُا ہوئے تو اُنہوں نے بیابان فاران میں سکونت کی اور رفتہ رفتہ اُنکی اولاد تمام ملک عرب میں پھیل گئی اِس بات کے بیان میں نہایت لمبی چوڑی تقریر قلم ریز کر کے انجام کو یہہ دہ نتیجے نکالے ایک یہہ کہ حضرت اسمعیل اور اُنکی اولاد عرب میں آباد ہوئی دوسرا یہہ کہ مرکز اِس خاندان کی آبادی کا حجاز تھا جہاں اسمعیل کی مقدم اولاد کا مسکن ہوا تھا اور پھر اُس  مرکز سے اطراف عرب میں پھیل گئے۔

اِس  بیان پر میرا کچھ اعتراض نہیں اگرچہ  اسکی  صحت پر کوئی دلیل پیش نہیں ہوئی راقم خطبہ صرف یہی لکھتے  ہیں کہ قدیم جغرافیہ سے یہہ امر ثبوت کو پہنچا لیکن اُس قدیم جغرافیہ اور اُسکے کھنے والے کے نام و نشان سے آگہی نہیں بخشی قرنیہ سے دریافت ہوا کہ شاید کوئی اہل اِسلام میں سے ہی کیونکہ اہل اسلام کا عقیدہ یہی ہے کہ حضرت اسمعیل نے حجاز میں سکونت کی اور خانہ کعبہ اُنہیں کی تعمیر ہر اور  میں اِس خیال پر کچھ اعتراض نہیں  کرتا بلکہ تسلیم کرتا ہوں کہ ملک عرب بنی اسمعیل  سے آباد ہوا ور حصہ حجاز ا ور حصوں  سے بڑھکر مشہور ہوا لیکن اِس سے یہہ ثابت نہیں ہوسکتا  کہ بیابان فاران جہاں حضرت اسمعیل ور ہاجرہ سکونت  پزیر ہوئی حجاز ہے یا اُنکی اولاد اُنکے حین حیات ا ِسطرح سارے ملک میں پھیل گئی بلکہ برخلاف اِس خیال کے تورات میں مصرح ہو کہ اسمعیل  اور انکے بیٹے نزدیک ملک کنعان اور مصر ا کے آباد ہوئے ُسوقت جبکہ تورات جمع ہوئی دیکھو پیدایش کی کتاب باب ۲۵ ۔ ۱۸ ہے (یعنی اسمعیل ور انکے  بیٹے) ہویلا سے صور  تک جو مصر کیطرف  اسور کی راہ میں  ہے بستے تھے۔ 

وہ اپنے سب بھائیو ں سے پورب طرف  ڈیرہ کرتے تھے اِس سے بخوبی ثابت ہوا کہ اسمعیل اور اُنکے بیٹونکی سکونت کہ جگہ بنی اسرائیل کے پورب طرف تھے اُسور کے بیابان کے نزدیک نہ جیسا  کہ راقم خطبہ نے دعویٰ کیا کہ وادی حجاز میں جوکہ کنعان سے سیکڑوں کوس  کے فاصلے  پر واقع ہے اور بنی اسرائیل کے جنوب کیطرف ہے انکی تقریر اسمقام پر ایسی ہے کہ کوئی کہے کہ نوحکی اولاد سارے جزیروں اور ملکوں میں زمیں کے پھیل گئی۔ اور اُن کے پھیلنے کا مرکز بیابان بابل تھا اِس سے ثابت  ہوا  کہ حضرت نوح اپنی اولاد کت ساتھ بابل کے میدان پر نہیں  گئے  اِسیطرح خیال کرو کہ اگر چہ اسمعیل کی اولاد ُکل ملک عرب مین پھیل گئی اور اُنکے پھیلنے کا مرکز ور اوّل اولاد کا مسکن وادی حجاز ہوا ا ِس سے ثابت  سے یہہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت اسمعیل کا مسکن  وادی حجاز رہے۔

اور فرض کرو کہ اسمعیل کی جائے سکونت کبھی حجاز بھی ہوا لیکن اِس سے کیونکر ثابت کروگے کہ بیابان فاران اور حجاز مین آیسے ہوں یعنے اپنی حیات کے مختلف وقت میں ان دونوں مقام میں بودوباش کی ہو مثلاً توریت کے ایکمقام میں یوں ثابت ہوا کہ براہیم  کالد یونکی آر میں بستے تھے پھر دوسری جگہ سے پایا گیا کہ بیر شبع کے میدان میں سکونت کی کیا  اِس سے یہہ نکلا کہ بیر شبع اور کالدیونکا آر ایک ہی مکان کا نام ہرگز نہیں لیکن راقم خطبہ کی تقریر سے یہی نتیجہ پیدا ہو رہا ہے۔

چہارم دلیل میں کہتے ہیں کہ سامری توریت کے عربی ترجمہ میں جسکو ارکیونن نے سن عیسوی ۱۸۵۱ میں مقام میں بمقام گلدونی شا ورم چھاپا فاران کو حجاز بتلایا ہے چنانچہ اُس ترجمہ کے بعینہ یہہ عبارت ہے و سکن فی مرتبہ قرآن (الجہاز) وا خدت لا مہ امرہ من ا رض مصر یعنے اور ٹھرافاران کے بیابان میں (یعنی حجاز) اور لی اُسکے واسطے اُسکی مانے ایک عورت مصر کی زمین سے ۔

میں کبھی یہ عربی ترجمہ سامری تو رات کا نہیں دیکھا اُسکی معتبر یکے بابت کچھ کہہ نہیں سکتا لیکن اتنا تو خواب صفائی سے ظاہر  ہو رہا  ہے کہ لفظ الجہاز مترجم کا زلید کیا ہوا ہے  نشان براکٹ اس بات پر دلالت کرتا ہے اصلی کتاب کا لفظ نہیں کیا راقم خطبہ کو اُس  نشانکے  معنے سے واقفیت  نہیں ہا دانستہ دھوکہ دہی کر رہیئےہیں صاف معلوم ہوتا ہے کہ اور شک کا مقام نہیں کہ عربی مترجم نے جو اہل اسلام میں سے  تھے اس لفظ کو اپنے خیال کے مطابق بنا لیا لیکن چونکہ وہ دیانت  داتھا اسکو بریکٹ میں رکھدیا تا کہ کوئی  پڑھنے والا دھوکہ نہ کہاوے لیکن اگر یہہ لفظ اصلی سامری توریت ہی میں  بھی  ہوتا تو بھی اِس  راقم خطبہ کا مطلب ثبوت کو نہیں  پہنچتا کیونکہ سامری توریت یہودی اور عیسائیونکے درمیان معتبر نہیں گنی جاتی یہہ بات راقم خطبہ پر پوشیدہ نہیں اور اُنکو  بخوبی معلوم ہے کہ سامری ایک قوم بت پرستی اصل میں باشندہ بابل تھی لیکن بادشاہ کے حکم سے ملک کنعان میں یعنی آبسی تھی۔ اور کچھ رسم رواج کی اختیار کر کے عمل میں لایا کرتی۔  اس قوم  اور یہود  کے درمیان سخت مخالفت رہی ہے یہود اُنسے نفرت  رکھتے تھے۔ اور یہہ اہل کتاب میں کبھی  شامل نہیں ہوئی اگر اُنکو کتاب میں توریت کا  کوئی غلط حوالہ  ہو تو کچھ عجیب وغریب نہیں اور وہ قابل سندنہیں بن سکتی اب میں اس مقام پر دکھلاتا ہوں کہ بیابان فاران اور کوہ  فاران وادی حجاز میں اور مکہ کے گرد نواحمیں نہیں ہو سکتے یہہ بات توریت کے مطالعہ کرنے والوں پر بخوبی روشن ہے اور ہر ایک جغرافیہ کے پڑھنے والے اور نقشہ کے دیکھنے والوں  کو دریافت ہو سکتا ہے اُسکو ٹھیک طرح  سے یہہ سمجھانے کے لیے زیل میں لکھی ہوئی باتوں کا بخوبی یاد رکھنا چاہیئے۔

پہلا نبی اسرائیل ملک مصر کنعان میں آرہے تھے  اُنکے راستے فلیج سویز جو کہ دریائے قلزم کی ایک شاخ ہی واقع ہے اِس خلیج سے وہ پار ہو کر جزیرہ نمائی سینا  ہے جہاں خدا نے حضرت موسیٰ کو ا حکام  شریعت عنایت کئے بعد شریعت ملنے کے بنی اسرائیل ملک کنعان کو چلے گئے۔

دوم شہر مکہ کوہ سینا سے قریب آٹھ سو میل کے فاصلے پر جنوبی مغرب کی طرف میں واقع ہے اور وادی حجاز اور جزیرہ نمائی سینا میں خلیج مکا وہ حائل ہے اور دونوں مقام یعنے مکہ ور حجاز عین برخلاف اُس راستہ کے ہے جو کوہ سینا سے ملک کنعان کو جاتا۔

سوم ملک کنعان کوہ سینا ور جزیرہ نمائی سینا کے شمالمیں واقع ہے کوہ سینا سے صرف دو سو میل کے فاصلے پر اب خلاصہ بیان یہہ ہے کہ بیابان فاران بیابان سینا اور ملک کنعان سے زیادہ نزدیک ہے نسبت کوہ سینا کے کیونکہ توریت سے اسیطرح ثابت ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل دریا سے نکل کر اوّل کوہ سینا پر آئے اور وہاں سے۔