اُلوہیت یسوع مسیح کی کوتوضیح  از کتاب مقدس

The Deity of Christ

Published in Nur-i-Afshan October 26, 1894
By Malik Roshan Khan

(۱ ) پید ۱۸۔۲۔ ۱۷، ۲۸۔ ۱۳، ۳۲۔ ۹، ۳۱ خروج ۳۔ ۱۴، ۱۵، ۱۳۔ ۲۱، ۲۰۔ ۱، ۲، ۲۵۔۲۱، واست ۴۔ ۳۳، ۳۶، ۳۹ نح ۹۔ ۷ تا ۲۸ یہ شخص  یہوداہ کہلاتا ہے ( جو خدا کا اسم زات ہے ) اور ساتھ ہی سا کے اس کو فرشتہ  یا بھیجا ہوا بھی کہا ہے۔ پیدا ۳۱۔ ۱۱، ۱۳، ۲۸،  ۱۵، ۱۶، ہوسیع ۱۲۔ ۲، ۵۔ علاوہ بریں خروج ۳۔ ۱۴ ، ۱۵ بمقابلہ اعم ۷۔ ۳۰، ۳۵ ، کروج ۱۳۔ ۲۱ بمقابلہ  خروج ۱۴۔ ۱۹، نیز خروج  ۲۰۔ ۱، ۲ بمقابلہ اعم ۱۷۔ ۳۸ ، یشع ۶۳۔ ۷، ۹۔

(۲ ) لیکن خدا باپ کسی کو کیسی بشر کے ہر گز نہین دیکھا (یوح ۱۔ ۱۸، ۶۔ ۴۶)  اور نہ وہ فرشتہ یا کسی دوسرے کا بھیجا ہوا ہو سکتا ہے۔  پر خدا کا بیتا دیکھا گیا ( یو ح ۱۔ ۱، ۲)  اور بھیجا بھی گیا ( یوح ۵۔ ۳۶) ۔ 

(۳ ) یہ یہوداہ  جو پرانے عہدنامہ  مین فرشتہ  یا بھیجا ہواکہلایا ہے۔ نبیوں کی معرفت اسرائیل کا منجی اور نئے عہدنامہ کا بانی بھی کہلاتا ہے۔  زکریاہ ۲۔ ۱۰، ۱۱ میں آیا ہے۔ کہ ایک یہواہ نے دوسرے یہواہ کو بھیجا ہے پھر میکہ ۵ ۔ ۲ ، ۳۱ ۔  ۱ میں مذکور ہے کہ خداوند عہد کا رسول اپنی ہیکل میں آئیگا۔ یہ مسیح سے نسبت کیا گیا ہے (مرق ۱۔۲) پہر  زبور۹۷۔ ۷ بمقابلہ عبر ۱۔ ۶ و یشع ۶۔ ۱ تا ۵ بمقابلہ ۔ یوح ۱۲۔ ۴۱۔ 

(۴ ) نئے عہدنامہ کے اکثر اشارے  جو پُرانے عہد نامہ کی طرف کئے گئے اس حقیقت پر صریح  دلالت  کرتی ہیں  زبور ۷۸۔ ۱۵، ۱۶، ۳۵، بمقابلہ ا قر ۱۰۔ ۹۔

(۵ ) کلیسیا تو دونون عہد ناموں میں ایک ہی ہے۔ اور ابتدا سے یسوع مسیح کلیسیا کا نجات  دہندہ  ہے اور سر  یعنے سردار  بھی ! اس واسطے یہ امر نجات کے سلسلہ  مین ان تین اقنوم  آلہٰی کے عہدوں کی نسبت کلام پاک میں ہم پر آشکارا کیا گیا ہے۔ ! ہمارے اُس خیال سے جو یہاں  پیش کیا گیا ہے نجات ہی مطابق ہو جاتا ہے۔ یوح ۸۔ ۵۶، ۵۸ متی ۲۳۔ ۳۷ و الپطر ۱۔۱۰ ، ۱۱۔

اسقف فورس صاحب فرماتے ہیں  کہ یسوع مسیح کی الوہیت کی الوہیت کی دلیلیں  جو بیبل میں پائی جاتی ہیں  کئی  ایک ساف صاف اور کئی ایک شارۃ ً مذکور ہیں اور وہ یہ ہیں۔

الف۔ وہ دلیلیں جو ساف ساف پائی جاتی ہیں۔  یوح ۱۔۱ کلام خدا تھا۔ وہ ابتدا  میں تھا۔ خدا کے ساتھ یوح ۱۔۱۸ مین اکلوتا  بیٹا نہیں بلکہ اکلوتا خدا ( بموجب متن انجیل یونانی) 

یوح ۳۔ ۱۶ وہ خدا کا اکلوتا بیٹا ہے۔ یوح ۱۵۔ ۱۸ اُس کے دشمنوں نے اسپر یہ تہمت  لگائی کہ اپنے تئیں خدا کے برابر ٹھہراتا  ہے اور مسیح نے اس کا انکار نہیں کیا۔ یوح ۶۔ ۴۰ مسیح نے دعویٰ کیا کہ وہ آخری دن مردوں کو جلائیگا۔ اور جو اس پر ایمان  لاوے ہمیشہ کی زندگی  پاویگا۔ یوح ۵۔ ۲۳ اُس نے فرمایا کہ باپ کی مرضی ہے کہ سب بیٹے کی عزت کریں جس طرح باپ کی کرتے ہیں یوحنا ۱۰ ۔ ۳۰ میں اور باپ ایک ہیں  یوح۔ ۱۔ ۵ دنیا کی پیدایش سے پیشتر خدا باپ کے ساتھ جلال رکھتا تھا۔ یوح ۱۴۔ ۶ کہ اُس نے فرمایا۔ کہ راہ۔ حق۔ زندگی۔ میں ہوں ۔ یوحنا ۲۰۔ ۳۱ بلکہ اس انجیل کا مقصد  یہی ہے کہ اس کے پڑھنے والے ایمان لاویں کہ وہ خدا کا بیتا ہے یہ بات نوشتوں کے اور مقاموں سے بھی ظاہر ہوتی ہے مثلاً باقی تین انجیلوں سے ظاہر  ہوتا ہے کہ اُس نے اب اﷲ ہونیکا دعویٰ کیا تو یہودیوں نے اُس پر کفر کا الزام لگایا  متی ۲۶۔ ۶۳، ۶۴  مرق ۱۴۔ ۶۱، ۶۲ لوقا ۲۲۔ ۷۰، ۷۱۔ روم ۹۔۵ مسیح سب کا خدا ہمیشہ مبارک ہو ایوح ۵۔ ۲۰ یوح ۲۰۔ ۲۸ ،  طیط  ۲ ۔ ۱۳ عبر ۱۔ ۸۔

{یہ دلیل اسقف صاحب  ممدوح نے پیش نہیں فرمائی۔ بندہ مبارز ۔۔۔ درمتن قدیم ترین نسخہ  ہائے یانانی لفظ  یاہ بمعنے خدایا فتہ شد۔  واتمطی ۳۔ ۱۶ ، اعم ۲۰۔ ۲۸۔ مسیح کی الوہیت پاک نوشتوں کے مضمون سے ثابت ہے کیونکہ ان میں یہ تعلیم برابر  پائی جاتی ہے کہ ایک ہی خدا ہے اُسی پر اپنا بھروسہ  رکھو وہی نجات دہندہ ہے اور نئے عہد نامہ میں بکثرت  یہ تعلیم موجود  ہے کہ یسوع مسیح پر ایمان لاؤ یہی نجات دہندہ ہے۔ اگر مسیح خدا نہوتا تو ایسی تعلیم اسکی نسبت ہر گز نہ دیجاتی۔

ب۔ یسوع مسیح کی الوہیت کی دلیلیں جو بیبل میں اشارۃ ً پائی جاتی ہیں دلایل بالا سے قوی تر ہیں مثلاً گنتی ۲۱۔ ۵ ، ۶ کو اقر ۱۰۔ ۹ سے مقابلہ کرو کہ انہوں نے جس یہواہ کا امتحان  کیا وہ مسیح ہے اور ملاکی ۳۔ ا کو متی ۱۱۔ ۱۰ سے مقابلہ کرو اور یشع ۸۔ ۱۳، ۱۴، ۱۵ کو لوقا ۲۔ ۳۴، روم ۹۔ ۲۳ سے مقابلہ کرو کہ وہ چٹان  اور پتھر  مسیح  ہے اور یشع ۶۔ ا کو یوح ۱۲۔  ۳۸  تا  ۴۱ سے مقابلہ کرو۔ زبور ۹۷۔ ۷، ۲۔ ۱۔ ۲۵۔ ۲۶۔ کو عبرا۔ ۶، ۱۰ کے ساتھ مقابلہ کرو۔

خدا سے خدا ۔ یوح ۱۔۱، ۲۰۔ ۲۸، اعم ۲۰۔ ۲۸ روم ۹۔ ۵، ۲ تسلو ۱۔ ۱۲ ، اتمطی ۳۔ ۱۶ طیط ۲۔ ۳ عبرا۔ ۸،  وا یوح ۵ ۔ ۲۰۔ جو الہٰی صفتیں ہیں وہ بھی مسیح کی طرف منسوب کی گئی ہیں مثلاً مسیح کا ازلی  و ابدی ہونا یوح ۱۔۱، ۲، ۸۔۵۸ ، ۱۷۔ ۵ مکاشفات  ۱۔ ۸، ۱۷، ۱۸، ۲۲۔ ۱۳ ۔ مسیح لاتبدیل ہے عبرا ۱۱،۱۲،۱۳۔ ۸۔ مسیح حاضر و ناظر ہے یوح ۳۔۱۳۔ ابن  ادم آسمان پر ہے۔ یعنے ازرعئے انسانیت ینقو دیموس کے سامنے تھا لیکن ازروے اُلوہیت آسمان پر تھا متی ۱۸۔ ۲۰، ۲۸۔ ۲۰ مسیح ہمہ دان ہی متی ۱۱۔ ۲۷۔ یوح ۲۔۲۳ تا ۲۵، ۲۱، ۱۷  مکا ۲۔ ۲۳۔

مسیح قادر مطلق یوح۵۔۱۷ عبر ۱۔۳ مکا ۱۔۱۸ ، ۱۱۔۱۷

افعال الہیٰ بھی مسیح کی طرف منسوب ہیں مثلاً  مسیح  خالق ہے یوھ ۱۔۳، ۱۰ قلسی ۱۔۱۶، ۱۷۔ مسیح پروردگار اور سنبھالنے والا ہے۔ عبر ا۔۳ قل ۱۔۱۷ متی ۳۸۔۱۸۔ مسیح عدالت کرنے والا ہے۔ ۲ ۔ قر ۵۔۱۰ متی ۲۵۔ ۳۱، ۳۲ یوح ۵، ۲۲۔ مسیح ہمیشہ کی زندگی کا دینے والا یوح ۱۰۔ ۲۸۔

مسیح معبود و برحق ہے مثلاًً متی ۲۸۔ ۱۹ یوح ۵۔ ۲۲، ۲۳، ۱۴ ۔ ۱ ، اعم ۷۔ ۵۹ ، ۶۰، اقر۱۔۲، ۲ قر ۱۳۔ ۱۴ فلپ ۲۔ ۹ ، ۱۰۔ ، عبرا۔ ۶ مکا ۱۔۵، ۶، ۵۔۱۱، ۱۲، ۷۔ ۱۰۔ ایک اور بزرگ  نے  عبر۱۔۳ کی یہ تفسیر کی۔ کہ روشنی آگ  مین بھی ہے اور آگ بھی ہے اور آگ روشنی کا سبب ہے اور روشنی آگ  سے جدا نہیں ہو سکتی ہے اور نہ آگ اپنی روشنی  سے جدا ہو سکتی ہے۔ کیونکہ جیسی آگ ہے ویسی ہی اُس کی روشنی ہے۔ پس اگر ہم اپنے حواس سے پہچان سکتےہیں کہ ایک چیز دوسری چیز سے بھی ہو اور اُس چیز  میں بھی ہے۔ تو کیونکر نہ مانیں۔ جیسا کہ رُسول فرماتا ہے کہ خدا کا لوگاس یعنے خدا کا اکلوتا بیٹا متولد بھی ہوا اور ہمیشہ سے اُس شخص  کے ساتھ رہتا ہے کہ جس سے وہ متولد ہوا۔ جیسا جلال ویسی اُس کی رونق۔ جلال ازلی ہے اس لئے وہ رونق بھی ازلی ہوگی۔ اور جیسی روشنی اورآگ کی ایک ہی ماہیت ہے ویسی ہی باپ اور بیٹے کی ایک ہی ماہیت  ہے اور پھر  اُسی آیت میں یہ لکھا ہے کہ وہ یعنے مسیح خدا کی ماہیت کا نقش ہے یہ  ۲ قر ۴۔۴ کے مطابق ہے کہ مسیح خدا کی صورت ہے اور قل ۱۔۱۵  وہ اندیکھے  خدا کی صورت  ہے اور یہ ہمارے  خداوند  کے اُس قول کے مطابق ہے کہ ’’ جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا‘‘۔  ۔۔۔۔۔ جب ہم  مسیح کو خدا کا کلام کہتے ہیں تو ہم یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ازل سے باپ کے ساتھ تھا اور جب ہم اُسے خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک اقنوم ہے  یوح ۱۴، ۱۰۔

جس رسول نےفرمایا کہ خدا نور  ہے ( ا یوح ۱۔۵) اُسی نے یہ بھی فرمایا ہےکہ بیٹاحقیقی  نار ہے ( یوحنا ۱۔۹) یعنے جیسا نار آفتاب  کے ساتھ  جیسے گرمی آگ کے ساتھ جیسے ندی چشمہ کے ساتھ  جیسے خیال  عقل کے ساتھ ایک ہے ویسے  ہی مسیح  کی الوہیت خدا باپ کے ساتھ ایک ہے۔ ایک بزرگ  فرماتے ہیں کہ میں یہ کہتا ہوں کہ بیٹا اور ہے اور باپ اور ہے۔ تو میرا مطلب یہ نہیں کہ دو خدا ہیں۔ مگر یہ کہ جیسے نار سے نور چشمہ سے پانی ۔ سورج سے کرن  ویسا ہی خدا سے خدا  ہے۔ 

اسکندریہ کے کر لاّس صاحب فرماتے ہیں۔ کہ ہمیں ہر گز یہ نہ سمجھنا  چاہیے کہ لوگاس ( کلام یا عقل)  خادم  تھا اور دوسرے کی مرضی کے تابع ہو کر کام کرتا تھا۔ ورنہ وہ  خالق نہ ہوتا۔

انطاکیہ کے تھیؤفلس صاحب  فرماتے ہیں کہ بیٹا آپ سے کچھ نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ اُس  میں ایسی کو چیز  نہیں ہے جو باپ سے الگ اور باپ سے  مختلف  ہے۔ مگر سب باتوں میں اپنے باپ کی مانند ہے۔ اور جیسے اُس کی  وہی ہستی  اور ماہیت  ہے جو باپ کی ہے۔ ویسی اُس کی وہی قوت بھی ہے جو باپ کی بھی ہے اور اس واسطے وہ وہی کام کرتا ہے باپ بھی کرتا ہے۔ اور کوئی کام نہین کر سکتا کیونکہ اُس میں اور کوئی قوت باپ سے بڑہکر نہین ہے۔ کہ انکی ماہیت اور طاقت و کام  ایک ہی ہیں۔ 

قول حضرت عاشق اﷲ صاحب پشاوری۔ فرد
شکل انسان میں خدا تھا مجھے معلوم نہ تھا
دربدر مثل  گدا تھا مجھے معلوم نہ تھا

احقر۔۔۔۔ ملک روشن خان انجیلی  مبارزمن مقام۔۔۔۔۔۔ کلارک آباد