دعوٰی پیشین گوئی

Claims of Prophecy

Published in Nur-i-Afshan August 5, 1876
By Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

Isaiah 53:6-12

محمدی بخوبی جانتے ہیں کہ رسول کی رسالت پیشین گوئی سے بھی ثابت ہوتی ہے اور یہہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ محمد صاحب کے حقمیں بہت سی پیشین گوئیاں قدیم کتابوں یعنی توریت اور انجیل میں مندرج ہیں۔ اگر اُنکا یہہ دعویٰ سچ ہے تو ہمکو چاہیئے کہ ہم سب کے سب محمدی ہو جاویں۔ مگر پہلے دریافت کرنا چایئے کہ یہہ اُنکا دعویٰ اُن کتابوں میں لکھا  ہے یا نہیں کیونکہ بغیر دریافت کرنے کے سچ یا جھوٹ معلوم نہیں ہو سکتا ۔ سورۃ الصف کی چھٹویں آیت میں ضرور لکھا  ہے۔وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ  فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ۔ اورجب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل بے شک میں الله کا تمہاری طرف سے رسول ہوں تورات جو مجھ سے پہلے ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور ایک رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہو گا پس جب وہ واضح دلیلیں لے کر ان کے پاس آ گیا تو کہنے لگے یہ تو صریح جادو ہے فقط۔ جب ہم محمدیوں کو کہتے ہیں کہ یہہ بات انجیل میں نہیں ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ اس آیت کو تمنے انجیل سے نکال ڈالا ہے۔ اُن کو چائیےکہ جب تک اِس بات کو ثابت نہ کریں ہم پر کوئی عیب نہ لگاویں ۔پوشیدہ نر ہے کہ اگر چہ یہودی مسیح کو جیسا ماننا چاہیے نہیں مانتے تو بھی اُنہوں نے اُن پیشین گوئیونکو جو مسیح کے حقمیں اُنکی کتابونمیں مندرج ہیں نہیں نکالا۔ اگر وہ اُن پیشین گوئیوں کو نکالنا چاہیں تو عیسائی اُنکو کبھی نکالنے نہ دینگے اور اِس حرکت سے اُنہیں  باز رکھینگے کیونکہ یہہ پیشین گوئیاں اُنکے واسطے نہایت مفید اور اُنکے نزدیک اپنے دین کے سچاّ ہونے کی کامل دلیلیں ہیں۔ اِسیطرح اگر ایسی پیشین گوئی محمد صاحب کے حقمیں توریت یا اِنجیل میں مندرج تھی تو محمد یوں نے اُسکی حفاظت کیوں نہ کی۔ بعضے یہہ بھی کہتے ہیں یہہ آیت برنابؔاس کی انجیل میں موجود ہے اور یہہ ثابت نہیں ہوتا کہ محمد صاحب کیوقت یہہ انجیل عیسایونکے پاس موجود تھی اگر محمد صاحب کیوقت کی کتابوں میں یا اُ س سے پرُانی کتابوں میں ایسی کتاب کا زکر جسمیں یہہ پیشین گوئی سے کسی نے بھی برناباس کی انجیل کا زکر نہیں کیا اور گو ایسی کوئی انجیل اُس وقت موجود نہیں تھی۔

محمدی یہہ بھی کہتے ہیں کہ بیبل میں اور کئی ایک آئیتیں ہیں جو محمد صاحب کی رسالت پر دلالت کرتی ہیں۔ اُن آیتوں میں سے ایک یہہ ہے جو موسیٰ نے کہا کہ میرے میرے پیچھے ایک نبی آویگا ہم اِس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ بیشک موسیٰ نے کہا ۔ لیکن موسیٰ کے بعد بہت سے بنی آئے پھر کس طرح سے معلوم ہوکہ وہ اُنمیں سے کس کا زکر  کرتا تھا ۔ مگر اُن علامتوں سے جنکو موسیٰ نے ظاہر کیا  یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ محمد صاحب کا کا ذکر ہرگز نہیں کرتا تھا کیونکہ اُسنے کہا  کہ خداوند تعالیٰ تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی قایم کریگا ۔ اگر دریافت کرنا ہو تو اِستثناکے اٹھارھویں باب کی پندرھویں آیت پر ملاحظہ  فرماویں۔ اِس آیت سے معلوم ہوتا  ہے کہ وہ نبی جسکا زکر موسیٰ نے کیا اسرائیلیوں میں سے تھا کیونکہ حضرت موسیٰ بنی  اسرائیل سے خطاب کرتا تھا نہ اہل عرب سے۔ پھر کس طرح خیال کیا جائے کہ محمد صاحب  کی طرف اِشارہ ہے۔ واضح ہو کہ یہہ دونوں باتیں تیرےدرمیان   سےتیرے بھائیوں میں سے ایک ہی معنی رکھتی ہیں کچھ فرق نہیں ۔ اگر کوئی کہے کہ یہہ دونوں باتیں یعنے تیرے درمیان  سے تیرے بھائیوں میں سے ایک ہی معنی رکھتی ہیں کچھ فرق نہیں۔ اگر کوئی کہے یہہ دونوں باتیں یعنے تیرے درمیانسے اور تیرے بھائیوں میں سے اِسرائیل کیطرف خطاب نہیں جواب دیتے ہیں کہ توریت میں بہت سی جگہ ایسے الفاظ استعمال کئے گے ہیں۔ اگر استثنا ء کے پندرھویں باب کی سوتویں آیت ملاحضہ فرماویں تو بخوبی معلوم کیونکہ اسمیں لکھا ہے کہ اگر تمھارے بیچ تمھارے بھائیوں میں سے تمھاری سرحد میں کوئی مفلس ہو  تو  اُسکے ساتھ  مہربانی سے سلوک کرو اور اپنے آپ  حتی  المقدر مدد دو۔ پھر اِستثناء کے سترھویں باب کی پندرھویں آیت میں لکھا ہے کہ تو اپنے بھائیوں میں سے ایک کو اپنا بادشاہ کر۔ پھر استثناء کے چوبسیویں باب کی چودھویں آیت  میں لکھا  ہے کہ تو اپنے نوکر پر ظلم نہ کر خواہ وہ تیرے بھائیوں میں سے ہے خواہ کوئی اجنبی۔ اِن آیتوں  سے ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ تیرا بھائی  بنی اسرائیل سے مراد ہے ۔

یہہ بھی واضح ہو کہ خدا تعالیٰ نے ابراہیم سے وعدہ کیا کہ تجھ سے ساری دنیا برکت پاویگی۔ پھر اصحاق اور یعقوب سے بی یہی وعدہ  کیا گیا اگر دریافت کرنا منظور ہو تو پیدایش کت اٹھارھویں باب کی اٹھارھویں آیت چھبیسویں باب کی  چودھویں آیت اٹھائیسویں باب کی چودھویں آیت پر ملاظہ فرماویں ۔ سب بنی اصحاق  سے لیکر آج  تک جو دنیا میں آئے ۔ سب کے سب اِسی فرقے اور اِسی خاندان میں سے تھے ۔ کوئی  نبی۔ہؔندؤ۔ چیؔنی ۔ انگؔریز۔  عرؔبی وغیرہ فرقوں میں سے نہ تھا۔ انجیل سے  صاف صاف  پایا جاتا ہے  کہ وہ پیشین گوئی جو موسیٰ نے کی تھی سب عیسٰی میں پوری ہوئی ۔ اعمال کے تیسرے باب کی بوئیسویں آیت اور ساتویں باب کی سینتیویں  آیت پر ملاحظہ فرماویں اگر کوئی کہے کہ موسیٰ کی مانند عیسیٰ کس طرح ہو سکتا ہے  تو اُسکا جواب یہہ ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام سے عیسیٰ  علیہ السلام بہت سی باتوں میں ملتا ہے خاص کر کے درمیانی ہونے میں یعنے جیسا حضرت موسیٰ بنی اِسرائیل سے  اور خدا کے درمیان تھا۔ ویسا  ہی عیسیٰ ہمارے اور خدا کے درمیان ہے۔ اور موسیٰ نے جو بنی اسرائیل سے کہا  کہ خدا ایک ایسا نبی تم میں سے قایم  کر یگا جیسا تم نے چاہا اِس سے مراد یہہ ہے کہ وہ نبی درمیانی ہوگا ۔ کیونکہ بنی اسرائیل جب کوہ سینا کی خوفناک  آوازوں سے خوف میں تھے تو اُنہوں نے کہا کہ ہم خداوند اپنے خدا کی آواز سُن نہیں سکتے یعنے کہ اُنہوں کوئی درمیانی چاہا جو خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق   ہر ایک بات سے اُنکو آگاہ کرے۔  بیشک مسیح سچّا اور زندہ درمیانی ہے ۔ علاوہ اِسکے انجیل میں بھی لکھا ہے کہ ایک ہی خدا ہے اور ایک ہی خدا بیچ درمیانی  یعنے مسیح ۔ اکثر محمدی کہتے ہیں کہ یو حناکی انجیل کے پہلے باب ۱۹ ۔ آیت سے لیکر۲۹ محمد صاحب کا زکر ہے ۔ لیکن اُس جگہ یہہ لکھا ہے کہ جب یہودیوں کے کاہنوں اور لاویوں نے یوحّنا  بپتمسا دینے والے سے پوچھا کہ تو کون ہے اُس نے کہا اور اقرار کیا کہ میں مسیح نہیں ہوں۔ تب انہوں نے پوچھاکہ تو الیاس ہے اُس نے کہا میں نہیں ہوں۔ پس آیا وہ نبی ہے ۔ اُس نے جواب دیا نہیں۔ تب انہوں نے اُسے سے کہا  کہ تو اور کون ہے اور اپنے  حق میں کیا کہتا ہے ۔ اُسنے کہا کہ میں جیسا یسعیاہ نبی نے کہا بیابان میں ایک پُکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خدا کی راہ درست  کرو۔ انہوں نے اُس  سے سوال کیا اور کہا اگر تو نہ مسیح ہے اور نہ الیاس اور نہ وہ نبی پس کیوں بپتمسا دیتا ہے ۔ یوحنّا نے جواب میں  اُسے کہا  کہ میں پانی سے بپتمسا دیتا ہوں پر درمیان تمہارے ایک کھڑا ہے جسے تم نہیں جانتے یہہ وہی ہے جو میرے پیچھے آنے والا تھا اور مجھ سے مقدّم تھا جس کی جوتی کا  تسمہ میں کھولنے کے لایق نہیں ہوں ۔ چاہے کہ وہ لوگ اِسی انجیل کے چھبیسویں باب کی چودھویں آیت کو دیکھیں۔ اُس میں لکھا ہے لوگوں نے یہہ معجزہ جو یسوع نے  دکھلایا تھا دیکھ کر کہا کہ فی الحقیقت دہ نبی جہان میں آنے والا تھا یہی ہے اِن آیتوں سے صرف یہہ ثابت ہوتا ہے کہ یہودی لوگ اپنے نبیوں کی پیشین گوئیوں کو اچھی طرح نہیں سمجھتے تھے اور ہر ایک مضمون پر اتفاق نہ کرتے تھے ۔ ایک اور دلیل جس سے رسول کی رسالت ثابت ہوتی ہے اچھی تعلیم ہے۔ محمدی اقرار کرتے ہیں کہ جس طرح انجیل توریت کے قائم مقایم ہے ۔ اُسیطرح  قرآن انجیل کا قایم مقام ہے۔ مگر واضح ہو کہ ہر ایک بادشاہ جو دانا اور دور اندیش ہے وہ  پرُانے قانون کو منسوخ اور نئے قانون کو جب جاری کرتا ہے کہ پُرانے کی نسبت نیا اُسکو اچھا معلوم دیتا ہے ۔ پس اگر قرآن حقیقتاً انجیل کے قایم مقام ہے۔ رو بیشک اُسکی تعلیم  انجیل کی تعلیم افضل ہو گی ۔ مقابلہ سے معلوم ہوگا اور اہل اسلام یہہ سے بھی دعویٰ کرتے ہیں  کہ اصلی انجیل کو عیسائیوں نے بگاڑ دیا ہے۔  جب انجیل کی یہہ حالت ہے بیشک انجیل اور قرآن میں زمین و آسمان کا فرق ہوگا ۔ جب کبھی عیسائی انجیل اور قرآن کے حکموں کا مقابلہ کرتے ہیں تو محمدی انجیل کو چھوڑ کر توریت کی طرف متوجہ  ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ توریت میں دیکھو کیا لکھا ہے ۔ بھلا یہہ بھی کو ئی بات ہے کہ قرآن کو انجیل کے قایم مقام ٹھرانا اور  توریت سے مقابلہ کرنا ۔ چاہئے کہ قرآن ا ور انجیل کا  آپس میں مقابلہ کریں ور سب کو معلوم ہے کہ توریت عیسائیوں کی خاص کتاب نہیں ہے مگر انجیل۔ پس اُس کتاب کا قرآن سے مقابلہ کرنا چاہیے جو خاص عیسائیوں کی ہے۔ یہہ بھی ظاہر ہو کہ شروع  موسوی سے کامل شائیستگی کل واقفیت اور پوری دانائی حاصل نہیں کر سکتے مگر انجیل سے۔ ور بیشک وہ تمام اور کتابوں پر نہایت فوقیت اور ترجیح رکھتی ہے ۔ پولوس رسول فرماتا ہے جب میں لڑکا تھا تب لڑکے کی مانند بولتا تھا اور لڑکے کی مانند خیال کرتا تھا اور لڑکی مانند حجّت کرتا تھا پر جب  جوان ہوا تب میں لڑائی سے ہاتھ اُٹھایا ۔ ایسی ہی توریت کی حالت ہے یعنی وہ ہمکو ایسا شایستہ اور دانا نہیں بنا سکتی جیسا انجیل ۔ پس اگر وہ قرآن کی تعلیموں کو  انجیل  کی تعلیموں سے مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ تو کیوں توریت کی طرف پھرتے  اور قرآن کی تعلیم نہ صرف توریت کی نسبت  بلکہ انجیل کی نسبت زیادہ تر اچھی ہونی چاہئے کیونکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انجیل کے قایم  مقام ہے۔