خیرات

Charity

Published in Nur-i-Afshan February 26, 1885
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

خیرات نیکی ہے جب تک با  موقعہ ہے بے موقعہ  خیرات اکثر  بدی کا باعث  بنجاتی ہے۔ دنیا میں ایسے نیک نہاد آدمی  بہت ہیں جو  محتاجوں  کو خیرات دنیا  اور ہر ایک  سوالی کا سوال  پورا کرنا ثواب  عظیم جانتے ہیں وہ صرف  سوالی کی خوشی پر  جو سوال پورا  ہوتے  وقت اُسکو حاصل  ہوتی ہے نظر رکھتے ہیں یا اپنی خاص خوشی کو جو خیرات  دینے سے پیدا ہوتی  ہے دیکھتے ہیں لیکن خیرات  کے مستحقوں یا غیر مستحقوں میں  کچھ تمیز نہین کرتے  جسکا نتیجہ  یہہ ہے کہ دنیا میں سوالیوں کا تعداد  دن بدن بڑھتا جاتا ہے اور  جماعت انسانی کی پیدا وار  کچھ ایک اندھے کنوئے میں گری جاتی ہیں۔

بہت سا افلاس  اور گناہ جواب موجود ہے پچھلے زمانے کی غلط  خیرات کا باعث ہے کیونکہ اُس نے آبادی کے ایک بڑے حصہ کو غافل  کوتہ اندیش اور  بیکار بنا دیا  ہے  اور بیشمار  خا ندانوں کو جو جماعت انسانی کے مفید ممبر بن سکتے  تھے باتھ پونؤں باندھ کر دوسروں کی  پیدا  کی ہوئی چیزوں پر بیٹھا رکھا ہے۔ پنجاب  میں ڈومؔ  میرانی۔ راولؔ ۔  راونؔت ۔ وغیرہ  گدا  گر فرقوں  کی بناوٹ پر اگر  غور کیجاوئے  تو  غالباً  انکی موجد بھی بیموقعہ  خیرات  نکلیگی سیُد  یپیرزادوں اور برہمن سادھو  سنتوں وغیرہ کی بیکاری اور کام سے بچنے کے لیے اس عذر کی وجہ کہ کام کرنے سے ہماری فضیلت نہیں رہتی محض  یہی بیجا خیرات ہے۔ صبح سے شام جسقدر  فقیر فقرے  گھر گھر  ستیوں کے دروازے  کھٹکھٹاتے  اور اُنکا  ناک میں دم  کرتے ہیں  اسی عام خیرات  سے  دلبر بنے ہوئے  ہیں  بازاروں  اور گلی کوچوں  میں جتنے  بھیک مانگتے  اپنے  پاکھنڈوں  سے لوگوں کو دق کرتے ہیں اسی خیرات  کیوجہ سے اپنی تعداد  میں ترقی پاتے ہیں  غرض  یہہ سب کچھ  اسی غلط  خیرات کے نتا ئج  ہیں  جو ابتک ہمارے ملک میں جاری  ہے۔

فیاضی انسانی جماعت کی اعلیٰ خوبیوں  میں سے ایک ہے اور اپنے آپ میں ایک خاص حکمت رکھتی  ہے جسکے سیکھنے کیواسطے بہت سے آدمیوں کو طفل  مکتب  بننیکی ضرورت  ہے کیونکہ ہر دلعزیز  آدمی  کسیکا بھی عزیز  نہیں  رہتا  وہ اپنی سادگی  کی وجہ  سے غیرونکی  امداد کرنے میں اپنے خوشیونکو  لوٹتا  ہی اور پھر  گدا گر ونکا ساتھی  بنتا ہے جو شخص ھد سے زیادہ مہربان ہے وہ اپنے خاندان  کے حقمیں ظالم  بن سکتا ہے کیونکہ خاندان کے منُہہ سے روٹی چھین کر ان لوگوں کو دیتا ہے جو کھا پی کر محض  ہضم کرتے ہیں  اور کسیکو حتیّ کہ اپنے آپ کو بھی کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔

ہم یہہ نہیں کہتے کہ خیرات نیکی ہے بلکہ ہم ترغیب دیتے ہیں کہ جہاں تک تمسے ہو سکے کماؤ  اور جہاں تک ہو سکے بچاؤ اور پھر جہاں تک ہو سکے  خیرات کرو  کیونکہ جو خدا  کے نام پر دیا جاتا ہے وہ کبھی  کھویا نہیں جاتا بلکہ ایک نہایت  محفوظ بنک گھر میں جمع ہوتا ہے ہم کبھی نہیں چاہتے کہ دولت مند آدمی اپنی دولت کو کنجوس  بخیل کیطرح  زمین میں گاڑ چھوڑے اور اُس سے اپنے آپ یا  اپنی قوم  کو فائدہ  نہ پہنچا وے  لیکن ساتھ ہی ساتھ یہہ بھی نہیں چاہتے کہ مال مفت دل بیرحم  کیطرح  اپنی جھوٹھی تعریف کے واسطے اندھا دھند لٹوادے ۔ نہیں ۔ بلکہ دانائی  کے ساتھ  اپنے خویشوں اور فیقوں کی امداد کرے قوم کا ہمدرد بنے  عام مدارس بنا دے مفید عام کتب  خانے  قائم کرئے  عجائب  خانے  بنادے قومی حرفت اور صنعت  کے لیے نمائشگاہ  کھولے  خیراتی  ہسپتال  جاری کرے  غریبوں کی تعلیم میں زور سے  قلم سے مدد دےایسے مصیبت  زدووں کو جو اپنے اوپر سے کسیطرح  مصیبت  کا بوجھ  اُٹھا نہیں سکتے تکلیف سے چھوڑاوے  لنگڑوں لولوں اپاہجوں اندھوں اور تمام اُن لوگوں کوجو اپنی آپ مدد کرنے میں معزور ہیں مدد کرنا اپنا فرض سمجھے کیونکہ یہی لوگ اصلمیں دولتمند کی خیرات کے مستحق ہیں۔ غرض خیرات کی اصل  خیرات ہونی چاہئے تاکہ اپنے اصل حقداروں کو فائدہ  پہنچاوے اور نہ بناو ٹی  خیرات  کی خیرات پانیوالوں  کے حقمیں  اُلٹا باعث  ضرر بنے۔ کیسا افسوس  ناک یہہ  خیا ل ہے کہ  اب تک اپن لوگوں نے جو صرف نیکی کرنا چاہتے تھے دنیا کو بہت نقصان  پہنچایا ہے اور نیکی کے بجائے بدی کا بیچ بویا ہے۔