Men Praying, Pakistan

سیدنا مسیح کے اختیارات

جمیل سنگھ

(۱۸۴۳–۱۹۲7)

The Authority of the Jesus Christ

Published in Nur-i-Afshan October 8, 1885
By Jameel Singh

آسمان اور زمین کاسارا اختیار مجھے دیا گیا ہے۔

متی ۲۸ باب ۱۸ آیت۔

تمام دنیا کے لوگ مانتے ہیں  کہ خدا قادر  مطلق ہے اور  جو چاہے سو کر سکتا ہے۔ اور اپنی تمام مخلوقات پر پورا اختیار رکھتا ہے  اور ضرور ہے کہ اُس کا اختیار دنیا کی سب مخلوقات پر ہو کیونکہ  اگر اُسکا اختیار مخلوقات پر نہ ہوتا تو کچھ انتظام اس دنیا پر نہ رہتا اور یہہ دنیا  بالکل  گڑبڑ  اور بدبخت ہوتی۔ جس طر ح جب کسی رعیت پر کوئی بادشاہ نہیں ہوتا تو وہ رعیت  برباد ہو جاتی ہے۔ اور یہہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ ہر ایک کام  کے پورا کرنے میں کچھ نہ کچھ  اختیار  درکار ہے  اگر کچھ اختیار نہ ہو  تو کوئی کام ہر گز ہو نہین سکتا۔ اور جب کو ئی شخص  حاکم کی طرف سے کسی کام کے واسطے  بھیجا جاتا ہے  تو اُسکو اختیار  دیکے بھیجا جاتا ہے اور با اختیار  ہو کے وہ اُس  کام کو باخوبی  انجام کرتا ہے اگر  کچھ ختیار  اُسکو  نہ دیا جاوے تو کس صورت  سے وہ وہاں  جا کر کچھ کاروائی  کریگا۔ خدا کا قادر مطلق  ہونا جس صورت میں نہایت  ضرور  ہے اسی طرح گنہگاروں  کے ہادی اور پیشوا  ہونے اور نجات دہندہ  بننے میں نجات  دہندہ  کو بھی  بااختیار  ہونا چاہئے ۔ اگر نجات  دہندہ کو  اختیار  نہ ہو تو  وہ کسطرح  گنہگار  کے واسطے  کچھ کر سکیگا ۔ خداوند  یسوع مسیح جو اسم با سمیٰ ہے گنہگارونکا  شفیع  و نجات دہندہ  حقیقی ہے۔  اب ہم اسبات کو دیکھنیگے  کہ اُسکو کچھ اختیار  تھا کہ نہیں۔ اور اُسکے اختیار ات  کو مختصر  بیان کرینگے۔

اول۔  اُسکا  شیطان  پر اختیار ۔ تمام  بنی آدم شیطان کے فریب میں آکر  گناہ میں پھنس  گئے ہیں مگر  خداوند  یسوع مسیح نے شیطان  کو  زیر کیا ہے اور اُ سکے اختیار کو  توڑ  کر اپنا اختیار  اُسپر ثابت کیا ۔ شروع مین جب ّدم گنہگار ہو گیا تھا تب خدا نے اُس  سے اُسیوقت  وعدہ  کیا تھا کہ عورت کی نسل شیطان  کا سر کچلیگی ۔ وہ عورت  کی نسل  خداوند  یسوع مسیح ہے۔ اسنے عورت سے پیدا ہو کر شیطان کے سر کو کچلا  جو بنی آدم کا  نہایت زبردست دشمن تھا۔ جب وہ اُس  سے آزمایا  گیا تو اُس نے شیطان  کو مغلوب کیا اور اُسپر  اپنا اختیار  جتایا اور کہا  اے شیطان مجھ سے دور ہو اور شیطان اپسکے پاس سے بھاگا۔  متی ۴۔ باب ۱۰۔  آیت  یِسُو ع نے اُس سے کہا اَے شَیطان دُور ہو کیونکہ لِکھاہے کہ تُو خُداوند اپنے خُدا کو سِجدہ کر اور صِرف اُسی کی عبادت کر۔ اور واضع ہو کہ جب شیطان بہ سبب نافرمانی کے خدا کی حضوری  میں سے  نکالا گیا اُسکے  ساتھ سر کش فرشتے  بھی نکالے گئے جواب اُسکے ساتھ  بنی آدم کو ورغلا کر گناہ میں  ڈالتے ہیں  خدا وند نے  اُنپر بھی اپنا  اختیار جتلایا اور  اُنہیں نکالا جیسا کہ انجیل کے پڑھنے  سے ہمکو معلوم ہوتا  ہے۔ اور ضرور تھا کہ بنی آدم کا بچانے  والا  شیطان کو پہلے مغلوب کرے ور اپنے اختیار کو اُس پر ثابت کرے نہ کہ خود اُسکے بند میں آجاوےجسطرح  کہ دنیا  آگئی۔ اگر ایسا ہی وہ بھی  اُسکے فریب میں آجاتا تو کیونکر  وہ دنیا کو بچا سکتا  لیکن بخوبی ظاہر ہے کہ اُس نے شیطان پر فتح پائی۔

دوم۔  اُسکو گناہ معاف کرنے کا اختیار ۔اگر نجات دہندہ کو یہہ اختیار نہ ہو کہ گنہگاروں کے گناہ  بخش سکے تو گنہگار ونکے لئے اور کیا بہتری کر سکیگا اور کس طرح پر  اُنکو بچا سکیگا۔ جب کہ اس علت سے اُنکو صاف نہیں  کر سکتا ۔ خداوند یسوع مسیح کو گناہ معاف  کرنیکا  اختیار تھا جیسا کہ متی ۴ ۔ باب کی ۲ آیت لکھا ہے۔ یسوع نے اُنکا ایمان دیکھکے اُس جھولے کے مارے سے  کا۔  اے بیٹے خاطر جمع رکھ تیرے گناہ معاف  ہوئے  لوگوں نے  اُسپر اعتراض  کیا کہ  گناہ  معاف کرنیکا اختیار  سوا  خدا کے کسی کو نہیں  تب اُس نے کہا کیا کہنا ّسان ہے یہہ کہ تیرے گناہ معاف  ہوئے  یا یہہ  کہ اُٹھ  اور چل ۔ لیکن تاکہ تم جانو کہ ابن آدم  کو زمین پر گناہ  معاف کرنیکا اختیار  ہے اُس نے اُس  جھولے  کے مارے ہوئے سے کہا  اُٹھ  اپنی  چارپائی  اُٹھا لے اور اپنے  گھر  چلا جا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اسکو گناہ معاف کرنیکا  اختیار  تھا اور گنہگاروں  کے گناہ  معاف  کر سکتا ہے۔

سوم۔ اُسکا موت پر اختیار  موت گناہ کا نتیجہ  جب گناہ  کو خدا  خداوند نے مغلوب  کیا تو موت بھی مغلوب  ہوئی۔ اور موت پر بھی اُسکا  اختیار  ہوا۔ اُس نے کہا  کہ مجھے  اختیار  ہے کہ میں اپنی جان دوں  اور مجھے  اختیار  ہے کہ پھر اپنی جان لوں اور اُس نے  اپنے کہنے کو ثابت  بھی کر دکھلایا  وہ مر کر  پھر  تیسرے دن  زندہ ہو گیا  اور قبر  اور موت  پر فتحمند  ہوا۔  اور وہ نہ صرف  آپ  ہی  زندہ  ہوا بلکہ  اُس  نے موت  سے اوروں  کو بھی بچایا۔ اپس نے مرُدوں کو زندہ  کر دکھلایا۔ بیوہ کے لڑکے  کو ناتن  کی رہنیوالی  تھی زندہ  زندہ کر دیا  اور لعزر کو بھی زندہ کیا اس سے ثابت ہوا کہ  اسکا  اختیار موت پر  بھی تھا۔ اور صرف  اُس نے بدنی  موت پر فتح  پائی  لیکن اُس  نے گنہگاروں  کی روحانی  موت  پر بھی  فتحمندی  حاصل  کی اپنی جان سب بدلے میں  فدیہ مین دیدی  اور  کہا کہ  جو کوئی مجھپر  ایمان  لاوے  وہ ہلاک  نہ ہووے  بلکہ ہمیشہ کی زندگی پاوے۔ دیکھو یوحنا ۳ ۔  باب ۱۶ ۔ آیت۔

چہارم ۔ روز حشر  کی عدالت کا اُسکو  اختیار ۔ انجیل میں لکھا  ہے کہ  جب ابن آدم  اپنے جلال  سے آویگا اور سب پاک فرشتے اُسکے ساتھ تب وہ  اپنے  جلال کے تخت  پر بیٹھیگا  اور سب قومیں اُسکے سامنھے  حاضر کی جاویں  گی۔ متی ۲۵۔ باب ۱۸۔ آیت  وہ عدالت  کے تخت  پر  جلوس  فرماویگا  اور سب قومونکا  انصاف  کریگا۔ اور ہر ایک کو اسکے اعمال کے مطابق بدلہ دیگا۔لیکن جو اُسپر  ایمان لاکے اُس سے معافی حاصل  کرتے ہیں اور اُسکی  پیروی  کرتے ہیں اُنپر حکم نہ کریگا  کیونکہ اُس  نے اُنکے  لئے  اپنا خون  بہایا ہے اور اُنہوں  نے اُسکے خون پر بھروسا  رکھا ہے اور  اُسکے پیارے  اور فرمانبردار  بنے رہے ہیں وہ اُنپر حکم نہ کریگا بلکہ وہ بادلوں  میں اُسکے  ملنے کے واسطے  جاویں  گے اور اُسکی حضوری  انکو ملیگی  اور عدالت  گاہ میں  اپنے شفیع  کے دہنے ہاتھ  کھڑے  ہونگے اور انکو وہ اپنی ابدی خوشی میں داخل کریگا ۔ لیکن  اگر گنہگار  اب اُسپر  ایمان نہ لاوے  تو وہ  اُسوقت بے سزا  نہ چھوٹیگا اور اُسکی  عدالت  سے نہ بچ  سکیگا کیونکہ وہ ہی اکیلا عدالت کرنیوالا ہے اور لکھا ہے کہ ساری عدالت  بیٹے کو دی  گئی  ہے دیکھو  یوحنا  ۵ ۔ باب ۲۲ ۔ آیت۔

 پنجم ۔ اُسکا اختیار بنی آدم کی  مرحلوں پر۔ انجیل سے ثابت ہوتا ہے کہ کو ئی  مریض  اُسکے پاس نہیں  آیا جو تندرست ہو کے اپنے گھر نہ گیا بلکہ اُس نے ہر طرح  کے بیماروں  کو چنگا کیا  دیکھو متی ۴ ۔  باب ۲۳۔ آیت  اور طرح کی بیماریوں  کو دور کیا جنکا زکر  مختصراً  کرتا ہوں۔

۱۔  مرُد ے زندہ کئے۔  بیوہ کا بیٹا زندہ کیا دیکھو۔ متی ۸۔ باب ۱۱۔ آیت سے ۱۵۔ تک لعزر کو زندہ زندہ کیا  یوحنا ۱۱۔ باب ۳۴۔ آیت جیر س کی بیٹی  کو زندہ کیا۔ مرقس ۵ باب۔ ۴۲۔ آیت۔

۲۔ کوڑھی اچھے  کئے۔ ایک کوڑھی کو چنگا کیا۔  متی ۸۔باب  ۳۔ آیت دس  کوڑھیوں کو پاک و صاف کیا۔  لوقا ۱۷ ۔ باب ۱۴۔ آیت۔

۳۔  اندھوں کو آنکھیں دیں متی ۱۰ باب ۵۲ ۔ آیت ایک جنم کے اندھے کو آنکھیں  دیں یوحنا ۹۔ باب ۷۔ آیت۔

۴۔ جھولے  کے بارے ہوئے کو چنگا کیا۔ متی ۹ باب ۲ ّیت۔سوکھا ہوا ہاتھ چنگا کیا۔ ۔ مرقس ۳ ۔ باب ۵آیت۔

۵۔ تپ والے کو چنگا کیا ۔ پطرس  کی ساس کو چنگا کیا  متی ۸۔ باب ۱۵ ۔ آیت۔

۶۔ بہرے گونگے کا چنگا کیا ۔  ایک  گونگا  چنگا ہوا۔ متی  ۹ ۔ باب ۳۳۔ آیت۔صرف افتاح کہکے ایک گونگے کو چنگا کیا۔ مرقس  ۷ ۔ باب ۳۴۔ آیت۔

۷۔ لنگڑوں  کو چنگا کیا۔ متی  کا ۲۱۔ باب ۱۴۔ آیت۔

۸۔ جلندھر  کی بیماری  والے کو چنگا کیا۔ لوقا ۱۴۔ باب ۴۔ آیت۔

نہ صرف وہ بدن کی مرضوں  رفع کر نیکو دنیا میں آیا بلکہ وہ روح کی لاحق مرض  کو رفع کرنے کو مجسم  ہوا اور اُس  نےکہا  کہ بھلے چنگوں کو حکیم کی درکار نہیں بلکہ بیماروں  کو میں  میں آیا ہوں کہ کھوئے  ہوں کو ڈھونڈوں اور بچاؤں۔  جس طرحپر اُس نے لوگوں کو بدنی بیماریوں  سے شفا دی اُسی طرح وہ انکی  روحی بیماری کو بھی رفع کرتا ہے اور جو گنہگار اپسکے پاس آتا ہے وہ اُسے  پاک و صاف  بناتا ہے اور موت سے بچا کے زندگی  میں پہنچاتا ہے۔ اور کمزور  گنہگاروں  کو طاقت دیکر گناہ سے بچاتا ہے۔

ششم ۔  اُسکا اختیار آندھی  اور پانی  پر۔ جب وہ اور  اُسکے  شاگرد ناؤ  پر بیٹھے چلے جاتے تھے تو بڑا  طوفان  آیا  اور ناؤ  ڈوبنے لگی اور وہ  سوتا تھا۔ تب شاگروں  نے  اپسے جگا کے کہا  صاحب آیئے صاحب  ہم ڈولے  تب  اُس نے اُٹھکے  لہروں کو دھمکایا تو تھم گئیں اور  نیوا ہو گیا۔ لوقا ۸۔ باب ۲۴ ۔ آیت وہ پانی پر چلا  جسطرح  کہ خشکی  پر چلتے ہیں  پر پانی نے اُسے نہ ڈو بایا یوحنا ۶ باب ۱۴ آیت۔

ہفتم۔  اُسکا اختیار آسمانی  نعمتوں  پر ۔ اُسنے اپنے شاگردوں  کو کہا کہ جو کچھ تم میرے  نام سے مانگوں گے میں وہی کرونگا  تاکہ باپ بیٹے  میں جلال پاوے۔ اگر تم میرے نام سے کچھ مانگو گے میں وہی کرونگا۔ اور اپس مانگنے میں صرف  روحانی  نعمتیں  مراد ہیں کہ  کیونکہ  اُس نے کہا ہے کہ  پہلے خدا کی بادشاہت  ڈھونڈو تب سب چیزیں  تم کو ملینگی۔ پس اگر ہم اُس  سے یہہ برکتیں مانگیں تو ضرور  وہ دے سکتا ہے کیونکہ  اُسکو روحانی اختیار  ہے۔ 

ہشتم۔ اُسکا اختیار  ہمیشہ کی زندگی  پر۔ اُس نے کہا کہ راہ اور حق اور زندگی  میں ہوں کوئی بغیر  میرے وسیلے  باپ کے پاس آ نہیں سکتا۔ یوحنا  ۱۴۔ باب ۶۔ آیت  اس سے معلوم ہوا کہ وہ زندگی  کا مالک ہے اور زندگی صرف اُس ہی سے  ملِ سکتی  ہے اُسی کو زندگی پر  اختیار ہے۔

اے ناظرین ان مندرجہ  بالا باتوں  سے معلوم ہے کہ خداوند  یسوع مسیح  کو نجات کے کاموں میں پورا اختیار  ہے اور جب اُسکو  ہر ایک امر میں  جو نجات کے لئے ضروری  ہے پورا  اختیار اور قابلیت  ہے تو ضرور  وہ نجات کے مشکل کام کو پارا کر سکتا ہے۔  اب ان باتوں سے اے ناظرین  میں تمکو جو ابھی تک اُسکے نجات دہندہ  ہونے کو تسلیم نہیں کرتے واقف  کر کے  یقین  دلاز چاہتا ہوں کہ اس شفیع قادر اور منجی  بااختیار  کو  پوری لیاقت ہو کہ  گنہگار  کو بچاوے اور جو کچھ  گنہگار چاہے اور جن  نعمتونکا  وہ محتاج  ہوا ُسکو  عنایت کرے اب تم اُسپر ایمان لاؤ کیا دیری ہو۔  کیا شک ہے۔  دیر مت کرو وقت کو غنیمت  جانو۔  پیشتر اسکے کہ توبہ  اور معافی  کے مکان سے تم  عدالت کے  لئے  بُلائے جاؤ اُس حاکم روز حشر  کے دوست بنو تاکہ اُس خوفناک  دن میںتم خوف زدہ  نہ ہوا اور شرمندہ نہو ہو بلکہ  خوش و خرم  ہو کے  اُسکی خوشی میں داخل  اور ابدی آرام  پاؤ۔

راقم بندہ جمیل سنگھ واعظ انجیل