آ نر یبل سیدّ احمد خان بہادر

Are Nature and Islamic beliefs the Same?

Published in Nur-i-Afshan April 24, 1884
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

حال کے سفیر میں  آزبیبل سید نے بمقام لاہور ایک لیکچر محمدیوں کے سامنھے محمدی مذہب کی صداقت پر دیا ہے جو اخبار وں میں چھپ گیا گیا ہے اور بھی بطوررساِلہ بھی نکلنے والا ہے ہم دیکھنا چاہتے  ہیں کہ وہ صداقتیں اور حقیقتیں کہاں تک تسلیم کرنے کے لائق ہیں۔

(۱)  بڑا  زور سیّد صاحب کا اس امر پر ہے کہ نیچراور محمدی  عقا ئد ایک ہیں اور آج کل اسی قسم کے دلائل کی ضرورت ہے ۔ اسپر ہم لیکچر ار  سے سوال کرتے ہیں کہ کیا  ایسے دلائل کی ضرورت  ابھی پیدا ہوئی ہے اور پہلے اس قسم کی ضرورت نہ تھی۔ سید صاحب   فرماتے ہیں کہ وہ ضرورت  ابھی پیدا  ہوئی ہے اورپہلے اس قسم کی ضرورت نہ تھی۔  نیچر تو پہلے بھی تھا  اب بھی پھر کیا وجہ ہے کہ یہہ ضرورت  پہلے نہ تھی جتنے شارح گزرے ہیں کسی کے دل میں یہہ  شرح  نہیں آئی  جواب کی  جاتی ہیں۔ ہم اس امر پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں کہ سید صاحب  جو سب شارحوں کے برخلاف چلتے ہیں وہ اپنے دلائل کو وضاحت کے ساتھ بیان کریں۔

(۲)  لیکچر میں بیان ہے کہ میں جاہل محمدی کی طر ح عقائد اسلام پر قائم ہوں لیکن اسی لیکچر میں یہہ ظاہر کیا ہے کہ میں بطور اجنبی کے اسپر نظر ڈالتا ہوں۔ ناظرین  خود ہی اس تناقص کو پرتال کرلیں۔

(۳)  سید صاحب نے مان لیا ہے کہ محمد صاحب  کی سوسائیٹی چالیس برس تک کن لوگوں کے ساتھ رہی ہم پر کوئی  بدگمان نہ ہو اُس لیکچر میں لکھا ہے کہ چوروں اور لیٹروں کے ساتھ اُنہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ  (اور جوانی کا حصہ) خرچ کیا۔

(۴)  تصدیق  نبوت میں صرف  اسقدر بیان کیا ہے کہ ایسی ساسائیٹی کے شخص نے کسطرح کہہ دیا کہ  لاالہ اﷲ محمد الرسول اﷲ پھر کہتے  ہیں  کہ وہ کسی کالج کے تعلیم یا فتہ  نہ تھے۔ ہم کہتے ہیں کہ  جاہلوں پر غلبہ حاصل کرنے کے واسطے کالج کی تعلیم کی ضرورت نہیں اُنکو قابو کرنے کے واسطے صرف اُنکے خیالات کی تائید کرنی چاہیے اور اُنکے عملوں میں اُنکے ساتھ اپنی شمولیت ظاہر  کرنی چاہیے  سو محمد صاحب نے ایسا کیا ہے ۔ اِس دنیا مین کثرت ازدواج کا فتویٰ دیا  اُس دنیا میں حور اور لونڈوں کا  وعدہ دیا۔ ایک شخص اُنکے پاس آیا جو شتر کو زیادہ پیار کرتا تھا اُسکو  کہا کہ بہشت میں ایسے اچھے اونٹ ہیں کہ سینکڑوں کو س بے آپ چلتے  ہیں اور تھکتے نہیں عورتوں کو بطور ذراعت استعمال کرنے کا حکم دیا۔ افسوس ہے کہ سید صاحب اب تک اُسی اصول کی تعلیم جاری رکھتے ہیں ۔ حضرت جی وہ تو کالج کے تعلیم یافتہ نہ تھے مگر آپ نے تع کالج جاری کیا ہے زرا مہربانی کر کے بتلاؤ تو سہی کہ مرد کی روح اور آزادی کے کسطرح کم ہے۔ اسمین اگر نیچر اور قرآن کو مطابق  کر کے بتلاویں تو ہم بھی اس امر پر غور  کریں کہ آپ اپنی کوشش میں کامیاب  ہونگے یا نہیں۔

(۵)  سید صاحب یہہ بھی بتلاویں کہ کثرت ازدؔواج  جہاؔد۔ کسطرح نیچر کے مطابق ہیں اور عورتوں کو بطور کھیتی استعمال کرنا  کس قانون قدرت کا طریقہ ہے معلوم نہیں کہ آ پ کے انگریزی خوان محمدی کسطرح ان اصول  کو تسلیم کرینگے ۔ حضرت دل میں تو آپ بھی اس اصول کو (غالباً)  نہ مانتے ہوں گے مگر کوئی پولٹیکل حکمت آپ کو ایسا بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتی ۔ کوئی آدمی جوان اصول مقدم الزکر کا  قائل ہو زمانہ حال کے مہذب شخص کے ساتھ ان اصول میں گفتگو نہیں کر سکتا۔

(۶)  لکھا ہے اور محمدی تسلیم کرتے ہیں کہ محمد صاحب کی پیدائش کے وقت کیخسرو کے محل نے جنبش کھائی اور دنیا کے بت  گر گئے اس کو بھی مہربانی  سے زرا نیچر کے مطابق کردیں اور پھر کہ جس کی پیدائش کا یہہ حال  ہے  وہ شخص کس طرح چالیس برس تک ایسی سوسائٹی میں رہا۔

(۷)  لیکچر میں یہہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ بباعث عمدگی تعلیم خدا تعالیٰ کے بعد یہی شخص ہے۔ سید صاحب بتلاویں توریت کے دس احکام اور مسیح یسوع کے پہاڑ کی تعلیم سے افضل کو نسے احکام محمد صاحب نے بیان کئے ہیں جنکے سبب وہ خدا  سے دوسرے  درجہ پر قبول کرنے کے لائق ہیں۔ کیا وہ بہشت کی تعلیم ہے؟ یا متعلق طلاق اور اُ س خونریزیکے ہے جو دنیاوی سلطنے بڑھانے کیواسطے ہوئی؟

(۸)  بڑی بات اس لیکچر میں یہہ ہے کہ محمدی تعلیم کس علم یا فلسفہ کے خلاف نہیں ہے وہ کونسا علم یا فلسفہ ہے جسکے مطابق  محمدی تعلیم ہے قرآن مین کونسے ہدایات ایسے ہیں جنکے برابر کوئی ہدایت نہیں ہو سکتی ۔ تعجب  کی بات ہے کہ ایک طرف تو سید بہادر تورات انجیل کو خدا کا کلام مانتے ہیں دوسری طرف محمد صاحب کو ایسا شخص  بتلاتے  ہیں جو خدا سے دوسرے درجہ پر ہے اور اُسکی  تعلیمات کو  افضل  بتلاتے ہیں۔ اسکا فیصلہ وہ شخص اچھی طرحسے کر سکتا ہے جو توریت و انجیل اور قرآن کو مقابلہ  کرے۔ سید بہادر کا عقیدہ اور تعلیم صدوقیوں کے  موافق معلوم ہوتا ہے جو حضرت موسیٰ کی پانچ  کتابوں میں استثنا کی کتاب پر زور دیتے اور مانتے تھے مگر قیامت و فرشتے و ارواح کے قائل نہ تھے  ایسا ہی سید صاحب الہامی کتابوں کو مانتے ہیں ( جہانتک اُنکی مرضی ہے)  مگر معجزہ اور فرشتگان کا وجود نہیں مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جسطرح صدوقیوں کا منُہ بند ہے(بمقابلہ تعلیم نصاری) مگر بولتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں (لیکچر میں) کہ کون عیسائی یقین کر سکتا ہے کہ  یو شع کے لیے  سورج تھم  گیا مگر اس کا جواب کیا  ہے کہ محمد صاحب کی پیدائش کے وقت کیخسرو کا محل ہل گیا وغیرہ۔

(۹)  آگے چلکر حضرت سید فرماتے ہیں کہ نماز حجؔ روزہ کے وہ قائل ہیں مگر ہم نے بہت نوٹس کیا کہ وہ خود نماز پنچگانہ پڑھتے ہیں یا نہیں اور ولائت انگلنڈ کو تشریف لے گئے مگر حج نہ کیا اور اُنکا صاحبزادہ ایک بار سے زیادہ مکہّ کے پاس سے گزر گیا مگر حج نہ کیا اس سے نتیجہ یہہ نکلتا ہے کہ وہ زبان سے تو ماشااﷲ  قائل  ہیں مگر عملاً قائل  ہونا حکمت خیال نہیں کرتے۔ غرض اس اظہار سے یہہ ہے کہ غور کرنے والے لوگ (بعض محمدی اور دیگر اقوام کے لوگ) کہتے ہیں ٍجو اظہار رائے تہذیب الاخلاق اور توریت و قرآن کی شرح میں کیا ہے یہہ لیکچر اُسکے خلاف ہے (بعض امور میں) سو یا تو سید صاحب کی رائے بدل گئی ہے یا  عوام اُنکی  تصانیف  اور تالیفات کا مطلب نہیں  سمجھے۔ بہتر ہے کہ سید صاحب  اپنی کتابوں  کی تشریح  لکھیں  اور واضح طور پر اپنی رائے کو ظاہر کریں۔ اب تک جسقدر معلوم ہوا ہے یہہ ہے کہ اُنکی رائے تذبذب ہے یا یہہ کہ اصلی رائے کا  اظہار  خلاف مصلحت عام ہے پس اگر یہہ سچ ہے تو لڑائی حاصل  نہیں ہوئی۔

(۱۰)  جب تک ہم نے دیکھا نہ تھا ہم سمجھتے تھے کہ وہ عمدہ سپیکر ہیں سو وہ بھی ہم نے نہ پایا ہمارا خیال تھا کہ اُنکو لبرٹی  کی طاقت حاصل ہے مگر ہم نے دیکھا کہ آزادانہ اظہار رائے اُنہوں نے نہیں کیا۔ ہمکو معلوم تھا کہ وہ  کل ہندوستان کے  خیرخواہ ہیں مگر بتالہ کے سٹیشن پر اُنہوں نے ظاہر کیا کہ وہ صرف محمدی  گروہ کے خیرخواہ ہیں  ہم مناسب نہین سمجھتے کہ وہ الفاظ  ظاہر کریں جو بٹالہ کے سٹیشن پر اُنہوں نے فرمایا  تھے کیونکہ ہمارا رائے یہہ ہے کہ ملک ہندوستان ہمدردی مین ایک ہو۔ الگ الگ فرقوں کا ہونا طاقت کو کم کرتا ہے اور ہم اخلاقی اور تمدنی ترقی اس حالت میں  حاصل نہیں کر سکتے۔