انجیل

Gospel
Great Blue Heron

کوئی بغیر وسیلہ میرے باپ پاس جانہیں سکتا

No one can come to the Father
except through me.

Published in Nur-i-Afshan Oct 15, 1897

اے پیارے ناظرین اس امر سے تو آپ عموماً واقف ہونگے کہ یہ دعویٰ کس کا ہے۔ ہاں اگر کلام ہو گا تو اِس بات میں کہ ہم اِس دعویٰ کو قبول نہیں کر سکتے۔ ایسا دعویٰ ہمارے اختیار و طاقت کو محدود کر دیتا ہے۔ ہم خدا کے پاس کیوں نہیں جا سکتے کون سی روک ہے جو ہم کو خدا کے پاس جانے سے باز رکھتی ہے۔ پھر بعض صاحبان یہ فرمائینگے کہ ہمارا بھی ایک وسیلہ ہے اگر عیسائی حضرت مسیح کے وسیلہ سے خدا کی قربت حاصل کرینگے تو ہم بھی اپنے نبی کے وسیلہ سے بہشت کے باغ کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کھائینگے اور میوہ دار درختوں کے سایہ تلے حور ع غلمان سے خدمت لینگے۔ مگر صاحبو خداوند مسیح کے اِس دعویٰ پر اگر آپ غور کریں اور اُس کے صحیح معنی و مطلب کو دریافت کرنا چاہیں تو اپ کو معلوم ہو گا کہ اس میں کسی دوسرے نبی یا وسیلہ کی گنجایش باقی نہیں رہتی اور ہمارے سارے راستہ اور دروازہ مسدود و مسمار ہو چکے ہیں۔ ہم اُن کو پھر ہموار درست کر نہیں سکتے۔ لہذا ہم اس دعویٰ کی صداقت پر کچھ دیر تک غور کریں اور دریافت کریں کہ کن سببوں سے ہم بغیر خداوند مسیح کے وسیلہ باپ کے پاس دخل نہیں پا سکتے۔ ( ۱ ) سبب جس سے بغیر وسیلہ باپ پاس کوئی انسان نہیں پہنچ سکتا اِنسان کی خطا کاری ہی اور اسی نے ہمکو باپ سے جُدا کر دیا اور ہم اُس کی حضوری و قربت سے گرائے گئے۔ کوئی چارہ و علاج گناہ کی برُائی کے مٹانے کا انسان کی دست قدرت میں پاقی نہیں ہے۔ یہی وجہ کہ دُنیامیں آج تک کوئی شخص بے گناہ نہیں ملتا اور جب تک ہم بیگناہ نہوں اُس وقت تک خدا کی قربت دریافت کے لایق نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ رفاقت و قربت دو متحد مزاج اور طبیعتوں میں ہوا کرتی ہے پر ہم میں اور خُدا کی طبیعت میں زمین و آسمان کی دوری سے بھی زیادہ فرق نظر آتا ہے اور جب تک یہ اختلافَ مٹِ نہ جائے عقل ہم کو کسی طرح سے اس امر کا پورا اِطمینان دلا نہیں سکتی کہ ہم اُس کی رفاقت و قربت میں دخل پا سکتے ہیں جو گناہ اور بدی کو دیکھ نہیں سکتا۔ پھر ہمارے بعض بھائی یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم گناہ کو ترک کر دیں اور پا بن جاویں تو کیوں خدا کے پاس براہ راست نہیں جا سکتے اور پھر ہمیں وسیلہ کی کیا ضرورت باقی رہیگی۔ ہاں بھائیوں ایسا خیال کرنا تو ممکن ہے پر محض خیال ہی خیال ہے۔ حقیقت سے بہت دور ہے۔ جب عمل کی راہ پر انکھ کھول کر دیکھا جاتا ہے تو ہم کو وہی بات کہنی پڑتی ہے جو اوپر کہ چکے کہ دُنیا میں معمولی اِنسانوںکو چھوڑ کت انبیاؤں تک عملی راہ سے گمراہ اور بھٹکا ہوا پاتے ہین۔ کسی مذہبی تواریخ مین ( با ستثنأ خداوند یسُوع مسیح ) ایسا ایک شخص بھی نہیں ملتا جو گناہ کے داغ سے صاف و پاک ہو۔ حقیقت ھال یہ ہے کہ زندگی پر گناہ نے کچھ ایسی تاثیر و قبضہ کر لیا ہے کہ اُس کا ظہور وقتاً فوقتاً آزمایش کی حالتوں میں ہوتا رہتا ہے۔ بڑے بڑے دینداروں اور مقدسوں نے اپنے تجربہ میں اس مر کا اظہار و اقرار کیا ہے بلکہ ہم جس قدر پاکیزگی میں بفضل خداوند ترقی کرتے اور گناہ سے نفرت رکھتے ہین اُسی قدر ہم کو اپنی کمزوری اور گناہ کا زور نطر آتا ہے۔ پھر اگر ہم بفرض محال ایک ساعت کے لئے اِس امر کو بھی مان لیں کہ ادمی گنہگار ہو کر بھی پاک و صاف ہو سکتا ہے تو بھی وہ گناہ جو ہم سے گزشتہ زندگی میں ہوئے اُن کی سزا سے رہائی اور معافی کا پیغام ہم کو نہ تو صحیفہ نیچر اور نہ سچے الہام سے بغیر وسیلہ ملتا ہے۔ جس حال کہ آدم کے ایک ہی گناہ نے اُس کو زندگی میں ملعون اور مرنے والا ٹھہرا کر کدا کی نزدیکی و حضوری سے جدُا کر دیا تو جنہوں نے کثرت سے گناہ کئے اُن کی معافی کی نسبت عقل کی رہبری سے کونسا تسلیّ بخش جواب مل سکتا ہے۔

قرضدار ہوں!

I Owed


Published in Nur-i-Afshan Feburary 8, 1895
By Kidarnath


جناب اڈیٹر صاحب نہ سمجھنا کہ میں کسی بنئے بقال کا قرضدارہوں کبھی نہیں۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ان سے قرض لینا دعا بندگی کو کبھی جواب دینا ہے۔ بقول سعدی ع سلام  روستائی بیغرض  نیست۔ اور نہ میں کسی بوچڑ کا قرضدار  ہوں۔ اُڑدکی دال کھانا منظور ہے۔ بقول  سعدی ’’بہ تمنائے گوشت مردن بہ۔ نہ تقاضا ئے زشت قصابا‘‘ وہاں اگرچہ میں یونانیوں اور بربریوں۔ داناؤں  اور نادانوں کا قرضدار ہوں۔ لیکن اس وقت تو میں جسم اور روح  کا قرضدار ہوں۔ اِن دونوں  کے تقاضاؤں کا مختصر حال سنُئے ۔ دیکھئے کس صورت سے اُن کو ادا کرتا ہوں۔ اور میں چاہتا ہوں۔ کہ ہمارے  نا ظرین نور افشاں بھی  اندونوں کی ادائیگی قرض  کا فکر  کریں۔ اول  جسمکے تقاضے یہ ہیں۔

۱۔ خداوند خدا نے ہمارے جسموں کو ایسی حالت  پر پیدا کیا ہے۔ اور ایسا اُن کو بنایا ہے۔ کہ کم سے کم دوبارہ روز ہم پر تقاضا رہتا ہے۔ کہ کھانے کو لاؤ۔ کوئی صورت کیوں نہ ہو۔ اس کا پیٹ بھر دو۔ دنیا کے سارے کاروبار پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے۔ کہ بادشاہ سے گدا تک عالم سے جاہل  تک ۔ کالے سے گورے تک سب کے سب  کسی نہ کسی پیشہ یا حرفت۔ کاشف یا ملازمت ۔ دستکاری  یا گدا گری سے جسم کے تقاضے کو رفع کرتے ہیں۔ بادشاہ وزیر۔ امیر ۔ متمول اہل دول  اگر دن  میں چار بار ترنوالوں سے آسودہ ہوتے تو بیچارے مفلس قلاش۔ ٹکر گدے  روکھے سوکھے ٹکڑوں  سے شکم پرُی کر لیتے ہیں۔ آج تک ہر زمانہ  میں عالموں اور داناؤں نے اس امر کی تنیقع کی۔ کہ سب سے  بہتر اور اعلیٰ طریق  روٹی کمانیکا کیا ہے۔ اور آخر ابتک بھی تصفیہ سننے میں آیا ۔ کہ تحصیل  علم  سے برہ کر اور کوئی وسیلہ   معاش عمدہ اور قابل تعریف نہیں۔ اور یوں  نو ڈلیا ڈھونا گویا کتا بھی اپنا پیٹ بھر لیتا ہے۔ متفرق اقسام کے صیغہ معاش اور اُن مین ترقی و تنزل کا سبب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ کہ جب ایک شخص کا پیٹ اُس وسیلہ سے جس کو وہ ابتک استعمال میں لاتا رہا نہ بھرا۔ تب یا تو اُسی میں ترقی کا ڈہنگ ڈالا۔ یا دوسرے وسیلہ کو اختیار کیا ۔ اسی طرھ بقول سعدی ’’ اول بنیاد  ظلم امزک بود۔ ہر کہ آمد براں مذید کر دتابدیں غایت رسید‘‘۔ حتیٰ کہ بعض اشخاص  کم ہمت حرص پسند نے جسم کے اس تقاضاء ناشدنی کے ادا کرنے میں یہاں تک تیز دستی دکھلائی۔ اور بے شرمی اختیار کی۔ کہ وہ وسایل بھی جو عقلاً و مذہباً ہر طرح نجس  اور ناپاک ہیں  استعمال  مین لانے شروع کئے۔  جن کے انسداد کے لئے اب خیر خواہ بنی نوع انسان سر مگربیاں اور دست بزنخداں ہیں۔ پر کیا کیجئے بقول شخصے  ’’مرتا کیا  نہ کرتا‘‘۔

۲۔ ہمارے جسم نہ صرف خوراک چاہتے ہیں۔ بلکہ مرے پر سودُرّئے پو شاک  کا بھی تقاضا کرتے ہیں۔ گرمیوں مین عمل۔ تنزیب ۔ خاصہ۔ نین سکہ۔ شربتی ادھی۔ بک۔ اور جاڑوں میں مخمل۔ بانات۔ فلالین۔ کم سے کم ۱۲ پیسہ گز کی چھینٹ کی توشک۔ لحاف۔ اور اُس کے اندر روئی۔ اور وہ بھی دُہنی ہوئی۔ مجھے جسم کے پوشاکی تقاضا  پر ایک افغانی کا قصہ یاد آتا ہے۔ جس کا لکھنا یہاں  مذاق سے خالی نہوگا۔ کہتے ہیں۔ کہ موسم سرما میں ایک افغانی ہندوستان میں وارد ہوا۔چّلہ کے جاڑے تھے رات کو افغانی ساحب کو سردی سے پالا پڑا ۔ تو یوں دعا مانگنے لگے۔ کہ بار الہاٰ صدقہ اپنے رسول مقبول کا اس جاڑے کو مجھسے دور کر۔ مگر دعا قبول نہوئی۔ ماموں کا واسطہ دیا۔ شہیدوں کو کو درمیان لا یا۔ لیکن دعا جواب  مذارد۔ علی الصباح کسی ہندوستانی  سے  افغانیمذکور نے بیان کیا ۔ کہ رات کو  جاڑے نے مجھے سخت تکلیف دی اور میں خدا سے بھی دعا مانگتا رہا۔ پر لوُ  بر سے صدا سے برنخاست ہندوستانی بولا۔  کہ آغا ! تمھارے پاس کچھ روپیہ بھی ہے؟ وہ بولا۔ اچھا ہے مجھے دیجئے اُس کا ابرا استر  ۔ گوٹ۔ اور روئی لاکر درزی سے سلوا کر دُھنئے  سے روئی دھنوا کر بھروا کر افغانی کو دی۔ تو رات کو افغانی  صاحب  بجائے ہینگ گویا  گھوڑے بیچکر سوئے ۔ صبح کو فرمایا۔ اے جاڑے تجھ پر کدا کی لعنت۔ تو خدا کو بھی نہیں  مانتا۔ اب اس کے قابل روح کے تقاضے  بھی سُنئے۔

۱۔ ہر ایک بشر کی روح    تقاضا کرتی ہے۔ کہ مجھے میرے خدا کو دکھلاؤ۔ اور یہ تقاضا ایسا سخت ہے کہ اس کے ادا کرنے کے واسطے دنُیا کے جس حصہّ میں جاؤ۔ خواہ عرب کے بدؤوں میں۔ خواہ افریقہ کے ریگستانوں میں یا ہمالہ کے سلسلوں میں۔ یا ہندوستان کے باشندوں میں کسی نہ کسی صورت میں یہ تقاضا  ادا کیا جاتا ہے۔ کتنے ہی جوان گھڑے پتھروں کو خدا سمجھ کر روح  کو آسودہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور کتنے ہیں جو عرب میں کعبہ کے گرد نہایت  زوق شوق  سے ایک  چو کھنٹے  گھر کا طواف دیکر سنگ اسود کو چومکر  روح  کو بہلاتے ہیں۔  وہ روح کو اُس بچہّ کی مانند  خیال کرتے ہیں جو سورہا ہے۔ بہتیرے  ملیں گے  جو ہمارے ہی شہر سے کبھی اجودھیاؔ۔ اور کبھی دوار کاؔ۔ کبھی گیاؔ۔ اور کبھی  ہر دوار کو بھاگے جاتے نظر آتے ہیں۔ ہزارہا پردہ نشیں مستورات ہنود ننگے پانؤں  دو دھ پیتے بچے گود  میں۔ پا پیادہ۔ مُنہ اندھیرے۔ خاوندوں کو گھر سوتا چھوڑ گھر کے کاروبار سے مُنہ  موڑ گنگا  کی طرف بھاگی جاتی  ہیں۔ پر روح کا تقاضا  وہی ہے۔ کہ خدا کو دکھاؤ۔ میری پیاس کو بجھاؤ۔ لیکن ان سارہ کارروائیوں  اور دوڑ دہوپ سے روح کا حال  بجائے  اس کے۔ کہ کچھ آسودگی نظر آتی ہو۔  اُس شخص کا سا نظر آتا ہے۔ جسے استسقا  کی بیماری ہو۔ پر شکر خدا ۔ کہ ایک آیا جو روح  کے تقاضے کو مع سودادا کرتا ہے۔ وہ آپہی  خدا ہے۔ اور خدا  کا فرزند  ہو کر انسان بن گیا۔ اور فیلبوس سے کہا کہ ’’ جس نے مجھے  دیکھا اُس نے خدا  کو دیکھا‘‘۔ ہم نے تو آزمایا۔ پرکھا اور اس سوتے سے پیا۔  جس کے پینے سے نہ صرف  تشنگی  بجھُی۔ بلکہ زندہ  پانی کاسوتا ہم میں ہو گیا۔ جو اوروں تک بھی پہنچتا ہے۔

جس طرح خداوند ہمارے خدا نے بدنوں کو غزا کا محتاج بنایا اس میں اُس کی عجیب حکمت بالغہ کا ظہور ہی کہ اُسی طرح  اُس نے ہمارے عناصر اجسام کی رعایت  سے طرح طرح کے غلہ اور قسم قسم  کے ساگ پات گوشت وغیرہ پیدا کئے یعنے بعض اقسام کے غلوں یا ترکاریوں سے لوہا چونہ وغیرہ یہاں کے عنصر کو پہنچتا ہے  اور بعض  سے کھار علی ہذا القیاس اُسی طرح خدا نے ہماری روحوں کے امانت سے اُن کی خوراک کے واسطے  ایک ایسی عمدہ کامل اور بے عیب خوراک عسامیت فرمائی جس کا بیان نہ قلم  دور دو زبان سے ہو سکتا  ہے  نہ تحریر  میں آسکتا  ہے۔ وہ خوراک بزبان حال  ہماری  گر سنہ  روحوں  سے اس طرح دعوت کر کے فرماتی ہے کہ زندہ روٹی  جو آسمان  سے اُترتی ہے مین ہون مجھے کھائے وہ کبھی بھوکھا نہو  لیکن دنیا کے تمام مزاہب میں ایسی خوراک کا فکر تک نہیں جسمانی خوراک کی بابت البتہ بہت فکر کی گئی اور حرام  و حلال بھی بہت سا بتایا یہ کھانا وہ  نہ کھانا اور اس جسمانی  خوراک کے بتلانے میں بھی اُن سے وہ غلطیاں   ہوئیں  کہ توبہ ہی توبہ  ہمارے ہندوستان کے ادنی  ٰ تٹ پونجیر حکیم اگر بتا دیں کہ اُرد کی دال بغیر  دہوئے بادی ہے نہ کھانا تو در صورت انحراف فوراً  نفخ شکم کا عارضہ عارض ہوجائے  لیکن مسلمانوں کے روحانی  ڈاکٹر کا حکم کہ سور نہ کھانا  اور بیدوں کے  آمتک بید کی یہ آگیا  کہ گائے  نہ کھانا  آپ آزما کر دیکھ لیں بلکہ تھوڑا  تھوڑا کیا حتی کہ شکم سیر  ہو کر کھا لیں  اگر کچھ نقصان  ہو جائے تو ہمارا زمۂ پر تو بھی ہوئی بعض چیزوں کو ناپاک خیال کر کے جسمانی وہم کے مرض میں مبتلا ہیں۔ پھر جس طرح کہ بدن  کا حالت  بیماری میں یہ تقاضا  ہوتا ہے کہ  دوالاؤ ورنہ مرے ہندوستانی بید سے علاج کرو چند روز دوا کھائی  آرام  نہو ا تب  مسلمانی  حکیم  کیطرف رجوع کیا جب وہاں بھی مرض بڑھتا گیا جیوں جیوں دوا کی تب سیدھے  شفا خانہ کو بھاگے ڈاکڑ صاحب دوا دیجئے  ولایت کا کھچا عرق رنگا رنگ سفید شیشوں میں دیکھتے ہی مُنہ میں پانی بھر آیا غٹ غٹ پی گئے وہاں نہ ہندوانی  کا خیال ہے نہ مسلمانی ہے نہ مسلمانی کا وہم خاصہ ہٹےّ کٹّے چنگے ہو کر  گھر کوواپس آئے  دھرم اور مذہب  جیوں کا تیوں بنا رہا  بلکہ بعض سخت بیماریوں میں طاق ہی پردھرا رہا۔ اُسی طرح روح  بھی گنہگاری کے مرض میں چلاتی ہے کہ علاج علاج گنگا اشنان  اور اُس کا جل آچون کرنا ریت پھانکنا گائے کا پیشاب  نوش جان فرمانا گوبر دھن  کی پوجامیں گائے کا گوبر استعمال کرنا گا کالی  کے استھان  پر شراب اُوڑانا حضرت عباس کی حاضری کھا کر شب رات  کا حلوا اور چپاتی سے شکم پری آب زمزم پیکر آنکھوں سے لگانا  وغیرہ مگر روح بیمار ہے اُس  کی وہی پکار ہے  پس کیا لازم نہیں کہ ہندو محمدی  بید اور حکیموں سے مایوں ہو کر خداوند  یسوع مسیح  کے پاس  کمزور لاچار گنہگار روح کو لاویں اور اُس کے خون پاک اور  بیش قیمت  لہو کو اس پر چھڑ کنے سے شفا حاصل  کریں ضرور  بالضرور۔

کیدار ناتھ  

اِنجیل عیسیٰ

علامہ احمد شاہ شائق

The Gospel of Jesus

Published in Nur-i-Afshan December 28, 1894
By Allama Ahmed Saha Sahiq

اگر چہ اِس کی بات اور کچھ لکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ اس کے قبل ہی ولایت  میں  وہ رازِ سر بستہ کہل گیا ہے۔  اور ساتھ ہی اس کے حضرات نوٹووچ  کی قلعی بھی کھل گئی۔ کہ وہ کیا ہیں۔ اور ہندوستان کے مشہور و معروف  انگریزی اخباروں نے بھی بڑے زور سے نوٹووچ  کی تردید کر دی۔ اور ان کا اگلا پچھلا حال بھی اپنے ناظرین کو سنا دیا۔ جنہوں نے ماننگ پوسٹ اور پاپونیر  کو برابر  پڑہا ہوگا۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی  آگاہ ہوں گے مگر پھر بھی ہمکو اپنا وہ وعدہ پورا کرنا ضروری ہے۔ جو ہم اپنی تحریر میں  کو ہمس کی خانقاہ سے سرسری طور پر لکھی تھی۔ کیا تھا۔ اور جو نورافشاں مطبوعہ  ۳۱ اگست سن ۱۸۹۴ء میں شایع ہو کر پبلک کے ملاحظہسے گزر چکی ہے۔  اُس کے آخری الفاظ ۔ کہ ’’باقی پھر لکھوں گا‘‘ ہم کو مجبور کر رہے ہیں۔ کہ ضرور کچھ لکھنا  چاہئے۔ اور بعض احباب کی  بھی یہی خواہش ہے جو اکثر  اپنے نواز شناموں میں اس کی بابت اصرار کرتے ہیں۔  لہذا  ؎ خیال خاطرِ احباب  چاہئے ہر دم ۔ انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینو کو۔

ناظرین کا بیش قیمت وقت اور نور افشاں کے قابل قدر کالموں کے وقف  ہونے کے لئے معاف  کیا جاؤں۔ { کپتان ایس ایچ  گاڈ فری  صاحب  برٹش کمشنر  امداخ کی تحقیقات  کا  نتیجہ}صاحب موصوف ۔ نے ہماری  ویزنوریوین مشنری صاحبان کی درکواست پر اس امرمیں بہ حیثیت  کمشنری  تفتیش  شروع  کی۔ اُنہوں نے کپتان رامزی  صاحب  کو جو سابق میں یہاں کے برٹش جائنٹ کمشنر تھے ایک خط بدیں مضمون لکھا۔ کہ ’’کیا  آپ کے زمانے  میں کو ئی شخص نکولس نوٹووچ  لداخ میں آیا تھا؟‘‘ اُنہوں نے اس کے جواب میں تحریر کیا۔ کہ ’’ ہاں سن ۱۸۸۷ ء ماہ اکتوبر میں ایک شخص  اس نام کا آیا تھا، اور وہ دانت  کے درد کی شکایت  کرتا تھا جس کا  معالجہ  ڈاکٹر  مارکس صاحب  نے ( جو اُس وقت امداخ کے میڈیکل  آفیسر  تھے) کیا تھا۔ اُس  کا دانت اُنہوں نے اُکھاڑا تھا۔  اور یہ شخص صرف دو تین  دن لداخ مین رہ کر چلا گیا تھا۔ ‘‘ ڈاکٹر سورج مل جو اُس زمانہ میں یہاں  دربار کشمیر کی طرف سے  گورنر لداخ تھے اُنہوں نے بھی  امن ملت کو تسلیم کیا۔ کہ نوٹووچ لداخ میں سن ۱۸۸۷ ء  میں آیا تھا۔ اور دو تین روز رہکر چلایا گیا تھا۔ ان دونوں  تحریروں سے ہم کو اس قدر تو ثابت ہو گیا ۔ کہ نوٹووچ لداخ تک ضرور آئی۔ مگر اس سے  یہ ہر گز ثابت  نہوگا۔ کہ وہ انجیل  عیسیٰ کو ہمس سے لے گئے۔ اور ابتکر اُس کے لئے بہت کوشش کی گئی۔ کہ کو ئی ثبوت اس امر کا ملے۔ مگر کوئی کامیابی  کی صورت نظر نہیں آتی۔

ہمس کی خانقاہ  کے راہب کو بھی برٹش جائنٹ کمشنر صاحب نے ایک سرشتہ کا خط لکھا۔ کہ آیا تمہارے یہاں  کوئی شخص  کسی وقت اس حالت میں خانقاہ میں رہا۔  کہ ’’ اُس کی ٹانگ ٹوٹی ہو۔ اور تم نے۔ یا تمہارے  اور کسی ساتھی نے اُس کی خدمت  کی ہو۔ اور اگر تمہاری  خانقاہ میں کوئی ایسی  کتاب ہو جس میں یسوع مسیح  کی زندگی کے حالات ہوں۔  یا کوئی دوسری کتاب جو مذہب  عیسوی  سے تعلق رکھتی ہو۔ اس بات کی بھی  اطلاع دو۔ اور یہ بھی بتلاؤ  کہ کیا کسی رُو سے سیاّح۔ یا اور کسی شخص نے تمہارے  خانقاہ  مین رہ کر کسی  کتاب کا  جو ’’عیسی‘‘  سے منسوب ہو ترجمہ کیا ہے‘‘؟ 

اس کے جواب میں و ہاں کے ہیڈؔلامہ  نے جواب دیا۔ کہ ’’ نہ تو کوئی شخص ہمارے یہاں ٹوٹی ہوئی  ٹانگ لے کر آیا۔ کہ ہم نے اُس کی خدمت سے فخر حاصل ہو۔ اور نہ کوئی کتاب  ہماری خانقاہ میں مذہب عیسوی  کے متعلق  ہے۔ اور نہ کسی شخص  کو ہم نے کبھی کو ئی کتاب دی کہ وہ ترجمہ کرتا۔ یہ خلاصہ ہے کمشنر صاحب  کی تحقیقات کا۔ ہم گذشتہ  ہفتہ پہر خانقاہ  ہمس کو گئے تھے۔ اور وہاں کے کل راہبؔوں سے جو شمار میں قریب  پونسو کے ہیں بذریعہ  مترجم دریافت کرتے رہے۔ مگر کسی نے بھی جواب اس بات کا ندیا۔ کہ ان کو اس معاملہ سے کچھ خبر ہے۔ اُن کا بیان ہے۔ کہ ’’ اول تو کوئی ایسا شخص  یہاں آیا ہی نہیں۔ اور اگر انگریز  لوگ خانقاہ  دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ تو خانقاہ کے مکان کے باہر ایک باغ  ہے۔ اُسی مین اپنا خیمہ لگا کر رہتے ہیں۔ کوئی انگریز ۔ یا روسی کبھی خانقاہ  کے اندر نہیں رہا۔ نہ یہ ہمارا دستور ہے۔  کہ کسی کو خانقاہ  کے اندر  آنے کی اجازت دیں۔  اور نہ ہم کسی کو اپنی کتاب چھونے  دیتے ہیں۔  اور نہ کتاب  کو خانقاہ  کے باہر  لیجاتے ہیں۔ اور نہ کسی کو ایسا کر نیکی  اجازت دیسکتے ہیں‘‘۔

{ ریورینڈ ایف بی شاع  اور مسٹر  نوٹو وچ} اخبار ڈیلی نیوز لنڈن  مطبوعہ  ۲ جولائی  سن ۱۸۹۴ء میں پادری یف بی۔ شاع موریوین مشنری لداخ  نے نوٹووچ  صاحب کی تردید میں  ایک خط لکھا۔ کہ ’’ ہمس کی خانقاہ  میں نہ تو کوئی  نسخہ  پالی زبان  میں ہے۔ اور نہ کوئی پالی زبان سے واقف ہے۔ حتی  ٰ کہ کوئی  شخص پالی حروف کو پہچان بھی نہیں سکتا۔  اور نہ کوئی شخص نوٹووث  نام کا ہمس کی خانقاہ میں آیا۔ اور نہ کوئی شخص ٹانگ ٹوٹی  ہوئی حالت میں خانقاہ  ہمس کے راہبوں سے علاج  کیا  گیا۔  اور نہ کوئی ایسا  شخص  کبھی خانقاہ  میں رہا۔ وغیرہ‘‘۔ اس کے جواب میں نوٹووچ  صاحب  تحریر فرماتے ہیں۔ کہ ’’ ضرور  انجیل عیسیٰ ‘‘  کا اصلی  نسخہ  ہمس کی نقاہ مین موجود ہے۔ بشرطیکہ  اُس کو وہاں کے پادریوں نے وہاں  سے علیحدہ  نکر دیا ہو۔‘‘اور ساتھ ہی اس کے یہ بھی لکھا ہے۔ کہ ’’ میں سال آیندہ پھر  لداخ کو جاؤں گا۔ اور ہمس کی خانقاہ  میں اُس نسخہ کو تلاش کروں گا۔ اور اگر وہاں  نہ ملا  تو  لاسہ کی خانقاہ  میں جا کر تفتیش  کروں گا۔‘‘ ہم نوٹووچ  صاحب  کی داد دیتے ہیں کیونکہ انکو سوجھی بڑی دور کی۔ آپ فرماتے ہیں۔ کہ ’’ اگر پادریوں  نے اُس  نسخہ کو وہاں سے الگ نہ کر دیا ہو۔‘‘ اے حضرت  جب آپ خود اُس کے خریدنے میں کامیاب نہوئے اور بقول آپ کے ۔ کہ ’’ ٹانگ کی قیمت دیکر صرف ترجمہ ہی نصیب ہوا۔‘‘  تو پھر بیچارے  پادری  کہاں سے اور کس طرح اُس کے وہاں  سے الگ کرنے میں  کامیاب ہو سکتے ہیں؟ یہ صرف آپ کی بدگمانی ہے۔ جو اپنے جھوٹھ کو لوگوں سے چھپانے کے لئے پیدا کی۔ نوٹووچ  صاحب کے اُس خط کی نقل  ۶ جولائی سن ۱۸۹۴ء  کے ہوم نیوز میں بھی کی گئی ہے اپس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ’’ نوتووچ  صاحب  سال آیندہ  میں پھر لداخ  کو  جائیں گئے‘‘۔  خیر وہ آئیں ۔ ہم بھی اُن کا خیر مقدم  کرنے کو یہاں بیٹھے ہیں۔ مگر ہم کو بھی اس کے لئے منتظر  رہنا چاہئے۔ کہ جلد ہم  اس خبر کو کسی انگریزی  اخبار میں پڑہیں گے۔ کہ نوٹووچ ساحب سخت بیمار ہو گئے۔ یا خدانخواستہ جس طرح  ہمس کی خانقاہ  میں ٹانگ  ٹوٹ گئی تھی۔  اسی طرح  اور کوئی  عضو ناکارہ  ہو گیا۔ اس لئے  وہ اب لداّخ  کو اس سال نہیں جا سکتے۔ کیونکہ اگر وہ یہاں آئیں گے تو بنائیں گے  کیا ’’ انجیل عیسیٰ‘‘ جہاں سے پہلے پیدا کی وہیں جائیں۔ ہمیں اور لاسہ کو جانا فضول ہے۔

{ نوٹووچ  صاحب کا ساف انکار کہ انکی ٹانگ  نہیں ٹوٹی  اور نہ اُنہوں نے نسخہ پالی زبان میں دیکھا۔ بلکہ تبتی زبان میں دیکھا۔}

چونکہ پادری شاع صاحب  نے نوٹووچ صاحب  کی تردید میں لکھا تھا کہ ’’ کوئی شخص ہمس کی خانقاہ میں ٹانگ  ٹوٹنے  کی حالت میں نہیں رہا۔ اور نہ کوئی نسخہ وہاں  زبان پالی میں ہے۔ اور نہ کوئی پالی جانتا  ہے ’’ اس پر نوٹووچ صاحب ایک آرٹیکل ایک فرنچ اخبار میں جو پیرس سے نکلتا  ہے اس طرز  سے لکھا کہ ’’مینے کبھی نہیں کہا۔ کہ میری ٹانگ  ٹوٹی تھی ۔ اور ہمس کے مالکوں نے میری  مدد کی۔ بلکہ میں نے یہ کہا۔ کہ میں بیمار تھا۔ اور اُس بیمار ی کی حالت میں ہمس کی خانقاہ میں  رہا۔  اور وہ نسخہ  پایا۔ اور ترجمہ کیا۔ اور مینے یہ بھی نہیں کہا کہ وہ نسخہ پالی زبان میں مینے دیکھا۔ بلکہ یہ کہ اصل نسخہ پالی زبان کا لاسہ میں موجود ہے۔ اور اُس کا ترجمہ تبتی زبان میں ہمس میں موجود ہے۔‘‘ نوٹووچ صاحب  کا یہ  بیان اخبار

L’INTERMEDICERE جلد ۳۰ نمبر ۶۶۲ مورخہ  ۱۰۔ اگست  سن ۱۸۹۴ ء  میں شایع ہوا ہے۔ اور اپنے بیان میں انجیل عیسیٰ  کے ۱۴۸ صٖفحہ  کا حوالہ دیکر وہی زکر شروع کیا ہے  جو اکثر اردو و انگریزی  اخباروں میں عیسیٰ کی زندگی کے متعلق  شایع ہو چکا ہے۔ اُس کا اعادہ اس جگہ فضول ہے۔ 

اب مقام حیرت ہے۔ کہ ابتداء ابتداجب اخباروں میں  یہ خبرمشہور ہوئی۔ تو اُنہیں  دو عنوانوں سے ہوئی تھی۔ اور نوٹووچ  صاحب نے ذرا بہر اس کی مخالفت نہیں کی۔ مگر  جسوقت پادری  شاع  صاحب  کی طرف سے اس پر نوٹس  لیا گیا ۔ تو نوٹووچ صاحب کو یہ سوجھی۔ کہ ان دونوں  باتوں سے انکار کر جاؤ  تو بہتر ہے۔ اور ہم یقینی طور  پر یہ کہتے ہیں کہ ضرور نوٹووچ  صاحب  ہی خود ان مذکورہ بالا خبروں کے مخبر ہوں گے۔ اور بعد کو جب دیکھنا ۔ کہ  جھوٹ کے پاؤں اُکھڑ گئے۔ تو جھٹ یہ سوجھ  گئی۔ اب یا تو نوٹو وچ صاحب  اس بات کی تصدیق  کرائیں۔ کہ کیونکر اخبار نویسوں نے اس خبر کو شایع  کیا۔ اور یا یہ کہیں۔ کہ پہلے مینے اپنی بہادری  دکھلانے کو یہ کہدیا تھا۔  اب میں نے دیکھا۔ کہ اُلٹی  آنتین  گلےمیں پڑیں۔ اس لئے میں اپنے جھوٹ کو مان لیتا ہوں ۔ سب سے اول ولایت کے اخباروں نے نوٹووچ کا ساتھ دیا۔ اور وہیں  سے یہ خبریں ہندوستان  میں پہنچیں  اور ہم آگے  ثابت کر دیں گے۔ کہ نوٹووچ  صاحب کی عادت  جھوٹ  کہنے کی سن ۱۸۸۷ ء  سے ہندوستان میں ثابت  ہے۔ آپ کا یہ کہا۔ کہ ہمس  مین لاسہ والے پالی نسخہ کا ترجمہ ہے۔ آپکی لیاقت کا ثبوت دے رہا ہے۔ کہ آپ نے اُس ترجمہ  کو اصلی  کے ساتھ مقابلہ کرنے سے پہلے ہی درست  و صحیح  قرار دیدیا۔ لاسہ آپ گئے نہیں۔ اصلی نسخہ کو دیکھا  نہیں۔ اور یہ تو بتلائے۔ کہ اُس ترجمہ کا ترجمہ کس کی مدد  سے آپ نے کیا؟  ہم کو ہمس میں ایک بھی  شخص ایسا نظر  نہیں آیا جو آپ  کو انگریزی  یا فرہچ یا اور کسی زبان  میں اُس  ترجمہ  کر کراسکتا۔ شاید آپ نے خود تبتی میں اسقدر  مہارت  پیدا کی ہو گی۔ مگر یہ بھی محال  معلوم ہوتا ہے۔ خیر جو کچھ ہو ہم  دیکھیں گے۔ کہ کس طرح آپ اس کو یہاں آکر ثابت کرتے ہیں۔

{ پروفیسر مکس  مولر ساحب کا مضمون نوٹووچ صاحب کی ’’انجیل عیسیٰ پر‘‘۔}

پروفیسر مکس مولر کے قابل قدر قلم سے ایک مضمون اُنیسویں صدی  بابت ماہ اکتوبر سن ۱۸۹۴ء میں شایع ہوا ہے۔ جس میں اُنہون نے نوٹووچ صاحب کے دعوؤں  کو ہر پہلو  سے جا نچا ہے۔ ہم کو اُمید تھی۔ کہ ضرور نوٹووچ  صاحب پروفیسر مکس مولر صاحب  کی تردید میں کچھ خامہ فرسائی کریں گے۔ مگر ہنوز  انتظار ہی انتظار  ہے۔ اور اُمید  پڑتی  ہے کہ ہمیشہ تک یہ انتظار  باقی رہے گا۔

پروفیسر صاحب نے بہت واضح  دلایل سے ثابت کیا ہے۔ کہ ’’ انجیل عیسیٰ‘‘  ہر گز ہر گز  بودہ  لوگوں کے درمیان نہ کبھی تھی۔ اور نہ اب ہے۔ اور نہ نوٹووچ  صاحب نے کبھی ہمس کی خانقاہ  میں ٹانگ  ٹوٹنے  کی حالت میں پناہ لی اور نہ اس مطلب  کے واسطے  اُنہوں نے کبھی ٹانگ  توڑی کہ ’’ انجیل عیسیٰ‘‘  اُن کو دستیاب  ہو۔ اور اس بیان کی کی تائید میں بہت سے سیاّحوں  اور مشنریوں  کے حوالے دئے ہیں  جو لداخ میں رہتے ہیں اور جولوگ  سیاحوں میں سے ہمس کو گئے۔ ایک لیڈی کے خط کا خلاصہ  جو پروفیسر  ساحب کو ۲۶ جون  کو اُس لیڈی  نے لداخ سے بھیجا  زیل میں  ناظرین کے لئے  ترجمہ کرتا ہوں۔ تاکہ ناظرین کو معلوم  ہو جائے ۔ کہ صرف ہم اور مشنری ہی ایسا نہین کہتے۔ بلکہ اور لوگ بھی جن کو  اس سے کچھ تعلق  نہیں اسبات کی بابت کس قدر تلاش کرتے ہیں اور کیا رائے رکھتے ہیں لیڈی  کے خط کا  خلاصہ:  ’’کیا آپ نے یہ سُنا کہ ایک روُسی جس کو خانقاہ کے اندر جانیکی اجازت نہ ملی تھی تب اُس اپنی ٹانگ  خانقاہ کے  پہاٹک کے باہر توڑ ڈالی۔ اور یون خانقاہ کے اند اُس کو پناہ دیگئی؟  اور اُس کا مطلب اس سے صرف  یہتھا کہ بودہ لوگون کے درمیان  جو یسوع مسیح کی سوانح  عمری ہے اُسکو حاصل کرے۔ اور وہ اسی خانقاہ میں تھی۔ اور اُس کا بیان ہے کہ اُس نے اُسکو حاصل کیا۔  اور اُس کا بیان ہے۔کہ اُس نے  اُسکو حاصل  کیا۔ اور اُس نے اُس کو فرنچ  زبان  میں شایع  بھی کرادیا۔ اس قصّہ کا ہر ایک لفظ  سچائی سے خالی  ہے۔ کو ئی روُسی وہاں  نہیں گیا۔ نہ کو ئی شخص  گزشتہ  پچاس برس  سے ٹوٹی ہوئی ٹانگ  کی حالت میں اُس سیمنری میں داخل ہوا۔  اور نہ مسیح کی کوئی سوانح  عمری وہاں موجود ہے۔ ‘‘ اس راقمہ  کو لداغ  سے کو ئی  تعلق نہیں۔ وہ صرف بطور سیر کے یہاں آئی تھی۔ اور اس حالت میں اُس نے اخباروں  میں اس خبر کو پڑھکر پروفیسر صاحب  کو اس سفید جھوٹ  سے مطلع کیا۔

نیک نیت پروفیسر  صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں  کہ ’’ ممکن ہے کہ کوٹووچ  نےہمس اور لداخ  کا سفر کیا ہو۔ اور اُن کی  سب باتیں درست ہوں۔  مگر اس کا جواب نوٹووچ  ساحب دیں۔  کہ کیوں ہمس کے راہب لداخ کے مشنریوں  و انگریز ی سیاحوں۔ اور دوسرے لوگوں کو اس بات کی  شہادت  نہیں دیتے۔ کونسا  امر اُن کو مانع ہے؟‘‘ اور ہم یہی پروفیسر  مکس مولر کے ہم زبان ہو کر یہی کہتے ہیں۔ ہم نے بہت سے پوشیدہ وسیلے اس بات کے دریافت کرنے کے لئے  برتے۔  مگر کوئی بات بھی اُس کے متعلق معلوم  نہو ئی  جس  سے یہ گمان کر سکتے کہ نو ٹووش ضرور ہمس میں آئے۔  اور ’’انجیل عیسیٰ‘‘ اُن کو وہاں ملی۔

{پایونیر  کا ایک نامہ نگار نوٹووچ  صاھب کی سن ۸۷ء کی جعلسازی کو ظاہر کرتا ہے۔ }

پایونیر  میں کسی نامہ نگار نے  (نمبر کا پتہ میں نہیں دیکستا۔ کیونکہ جس پرچے میں مینے اُس کو دیکھا اُس میں سے صرف  اُسی قدر حصہ  کاٹ لیا جو نوٹووچ  صاحب  سے متعلق تھا۔ تاریخ و نمر کا خیال رہا۔  غالباً  ۸ اکتوبر کے بعد کسی پرچہ میں  یہ درج ہے) لکھا ہے۔ کہ ’’ آپکے ناظرین مین سے بہتیرے  ایک رُوسی مسمیٰ  نکولس نوتووچ کے نام سے مانوس ہوں گے جو سن ۱۸۸۷ ء کی موسم بہار میں شملہ آیا۔ اور وہاں اس کی زرق برق و طمطراق  کی باعث  اس پر لوگوں کی خاص توجہ مبذول  ہوئی۔ اس نے بیان کیا  ۔ کہ میں روسی اخبار    NOVOC UPENENYZ    (جو رُوس میں بڑا مشہور اخبار ہے) کا خاص نامہ نگار ہوں۔ اور روسی فوج میں عہدہ  کپتانی پر مامور ہوں۔ جس وقت یہ خبر  اخبار  مذکور کے کان تک پہنچی اُس نے بڑی صفائی  کے ساتھ اسکی تردید اپنے کالموں میں کی۔  اور بیان کیا کہ نہ وہ اُن کا نامہ نگار ہے۔ اور نہ کسی روسی فوج کا افسر  ہے اور نہ کسی اور کام  سے روس کے اُس کو تعلق ہے۔ وہ پیرس  کو واپس گیا۔ اور وہاں ایک کتاب یسوع مسیح  کی سوانح  عمری کے نام سے فرنچ زبان میں شایع کی۔ جس میں وہ کچھ کامیاب ہوا۔ اور بہت سے اخباروں کو  دہوکھا دیکر  اپنے ساتھ اس کی تائید کرائی‘‘ نامہ نگار مذکور لکھتا ہے۔ کہ مجھکو  بڑی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے۔ کہ بعض اُن  اخباروں  میں سے ہندوستان کے تھی۔ جن کو اس کی بابت زیادہ باخبر ہونا واجب تھا۔  پہر نامہ  نگار مذکور نے فوٹووچ  کی مترجمہ سوانح عمری الگزینڈر  سویم مرحوم  پر بھی ایک  مزے دار چٹکی لی ہے۔ مگر وہ ہماری بحث  سے خارج ہے اس لئے قلم انداز کئے دیتے ہیں۔

اب  ناظرین  خود فوٹووچ  کی دیانتداری کو میزان انصاف میں تول لیں ۔ ہم اپنی طرف سے کچھ نہ کہینگے۔

{ شملہ پر نوٹووچ  کو پولیٹکل مخبر ہونیکے لئے شبہ کیا جانا اور ان کا فرار ہونا۔}جس وقت ہم سری نگر  سے لداخ کو برٹش  جائنٹ کمشنر  صاحب کے ہمراہ آ رہے تھے۔ تو راستہ میں ہمکو ہمارے  مہربان  کرنل وارڈ صاحب ملے۔  اُن سے اثنائے گفتگو میں نوٹووچ  ۔ اور اُن کی ’’انجیل عیسیٰ‘‘ کا زکر ہوا۔ اُنہوں نے نوٹووچ کا نام  سننے پر تعجب  کیا۔ اور بیان کیا۔ کہ ’’ جب میں سن ۱۸۸۷ ء  میں شملہ پر گورنمنٹ  آف انڈیا کی طرف  سے وہاں کا سپرنٹنڈنگ انجنیر تھا۔ تو مینے نوٹووچ کو دیکھا  تھا۔ اُس وقت وہ ایک روسی افسر کی وردی میں تھا۔ اور مینے اُس کا  فوٹو لیا تھا۔ اور شملہ میں اُس پر شبہ کیا گیا تھا۔ کہ وہ کوئی  روسی پولیٹکل  مخبر ہے۔ اس لئے پولیس اُس کی نگراں رہی۔ اور اُس کو گرفتار کرنا چاہتی تھی۔ مگر وہ عیار پولیس کو جہانسا دیکر نکل گیا‘‘۔ 

اب گمان غالب ہے ۔ کہ ضرور  نوٹووچ  صاحب پولیس کے  ڈر  سے شملہ سے بخط راست لداخ آگئے ہوں۔ کیونکہ شملہ سے لداخ  کو کلو کے راستے بہت آسانی ہوتی ہے۔ اور خصوصاً  ایسے پولیٹکل مخبروں کے لئے عمدہ راستہ ہے۔ کیونکہ صدہامیل تک  آبادی  کا پتہ تک نہیں۔  اور اکثر تجاران  شملہ اسی راستے سے لداخ کو برائے  تجارت آتے ہیں۔  ملتا جاتا ہے۔ کہ وہ  کیا ہین۔ اور ان سب باتوں سے اُن کی ’’ انجیل  عیسیٰ‘‘ کی وقعت بھی ہمکو معلوم ہوگئی۔

{نوٹووچ صاحب کی تصویر  فوجی وردی میں}

پال مال  نجٹ جلد ۲۶ نمبر ۱۳۵۸ مورخہ ۱۴ ۱کتوبر  سن ۱۸۹۴ء میں نوٹووچ صاحب کی تصویر شایع ہوئی ہے۔ جس کی بابت ایڈیٹر مخبر ہے ۔ کہ یہ وہ تصویر  ہے جو نوٹووچ صاحب کے ہند مین موجود ہونے کے وقت لی گئی ۔ اور یہ بھی کہ صرف دو سال ہوئے جب یہ تصویر ہندوستان میں اُتاری گئی تھی۔ اس سے نوٹووچ ساحب  کا عنقریب سن ۱۸۹۲ء  تک ہندوستان ہی میں  موجود ہونا ثابت ہے۔ تصویر بالکل فوجی وردی میں ہے۔ بڑے بڑے تمغے  لگائے ہوئے ہیں۔ تلوار زیب کمر ہے۔ تصویر دیکھنے  سے بالکل گبرو جوان معلوم ہوتے ہیں۔ مگر  روسی اخبار تردید کر رہا ہے۔ کہ وہ روس کی کسی  فوج میں کوئی عہدہ نہیں رکھتا۔ پس ثابت ہوا ۔ کہ صرف  عوام کو دھوکہ دہی کی  غرض  سے یہ وضع تراشی تھی۔ اور یوں ہی ’’ انجیل عیسیٰ‘‘ کا ڈہکو سلا پیرس  میں جا کر بگہارا۔ نہ اس تصویر سے ہمکو اپنے مہربان کرنل وارٔڈ صاحب کا فرمانا یاد آیا۔ کہ اُنہوں نے نوٹووچ کو شملہ پر فوجی وردی میں دیکھا تھا۔

{ نوٹووچ  ساحب کی ’’انجیل  عیسی‘‘کی طبع سویم اور انگریزی ترجمہ}

کسی اخبار میں ہمنے پڑہا۔ کہ نوٹووچ  ساحب کی ’’ انجیل عیسیٰ‘‘ ہارمویم طبع  ہو چکی  یعنے فرنچ زبان میں۔ اور بہت  جلد انگریزی  ترجمہ پبلک کے پیشکش  کیا جائیگا۔ اس سے اس قدر تو ہم بھی سمجھ گئے۔ کہ نوٹووچ  صاحب کا مقصد  خاطر خواہ  پورا ہو گیا ۔ اور کچھ عجب نہیں۔ کہ یہی مطلب ان کو مجبور کرے کہ ہمس کی خانقاہ  سے اس کا برآمد ہونا حتی الوسع کر ہی  دکھائیں۔ اور ایسے بہروپئے کے نزدیک  یہ کوئی  مشکل  امر نہیں  ہے۔  مگر ساتھ اس کے ہمکو یقین کامل  ہے۔ کہ ہمس سے تو اُس کا برآمد  ہونا مشکل ہے۔ مگر نوٹووچ نے اس کی بھی پیشبندی  کر لی ہو۔ وہ ہوم ؔنیوز ۔ اور ڈیلی ؔنیوز میں لکھتے ہیں۔ کہ علاوہ ہمس کے اور بھی خانقاہوں میں اُس کی نقلیں ہونگے۔ یہ صرف اسی سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ اگر ہمس سے اس کا برآمد کرنا ناممکن  ہو۔ تو اور کسی  جگہ سے کسی کو کچھ لے دیکر اس کو بر آمد کر دیں۔ 

ہم کو افسوس ہے۔ کہ باوجود اس قدر تردید کے جو ولایت  کے انگریز ی اخبارون میں ان کی انجیل کی بابت ہو چکی ہے۔ پھر بھی اس جعلی انجیل کی مانگ بدستور ہے۔ لوگ نہ معلوم کیوں اس کے شیدا ہیں۔ ہمارے خیال میں شیطان  اپنے ایجنٹوں کی معرفت لوگوں کو ترغیب  دے رہا ہے۔ کہ وہ ضرور اُس کو جوان کے لئے زہر ہلاہل کا اثر کہتی ہے خرید کر اپنی روحوں  کو ہلاک کریں۔ ہر ایک نئی شے کی قدر انگلنڈ  میں بڑے  تپاک سے کی جاتی ہے۔  اور ان لوگوں کے لئے جو مذہب عیسوی  کے مخالف  ہیں مسٹر  نوٹووچ اور ایم پال  اسٹنڈاف  جن کے مطبع مین یہ کتاب شایع ہوئی ہے اپنے خیال میں ایک عمدہ اور زار تیار کر رہے ہیں۔ مگر آخر کو یہ اوزار  ناکارہ  ثابت ہو چکا اور ہو جائیگا۔ گو اس وقت نوٹووچ اور اُن کے مطبع والوں کی چاندی ہو رہی ہے۔ مگر خدا نے تعالیٰ کو اپنی اِن کرتوتوں کا جواب ضرور دینا ہوگا ۔ ہمارے خیال میں مسٹر کوئیلم ۔ کرنل الکاٹ۔ مسٹر الگزینڈرردیب۔ اور اپنی سینٹ سے نوٹووچ زیادہ ہی لے نکلیں گے۔ مگر ان کو خیال کرنا چاہئے کہ انسان اگر ساری دنیا کو کماوے اور اپنی روح کو ہلاک  کرے تو اُس کو کیا حاصل  ‘‘؟

اب ہم اس کا فیصلہ ناظرین پر چھوڑتے ہیں۔ کہ وہ ’’انجیل عیسیٰ‘‘ک بابت کیاخیال کریں۔ اور اُن اُردو اخبارات کو اپنی طرف سے مودبانہ صلاح دیتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے اخباروں میں نوٹووچ ی انجیل کو اصلی  خیال کر کے اُس پر لمبے چوڑے حاشیہ  چڑہائے تھے۔ کہ اب اپنے اپنے اخباروں میں صرف اسی قدر لکھدیں کہ نوٹووچ  کی انجیل ابتک زیر بحث ہے۔ اُس  کا اصلی ہونا ابتک ثابت نہیں ہوا۔ اور سال آیندہ میں جب فوٹووچ  صاحب یہاں آکر  اس کو اصلی ثابت کر دیں اُس وقت جا چاہیں سو لکھیں اُس وقت ہم بھی اُن کی بڑی ادب سے سنیں گئے۔ اگر حق کا پیاس ہوگا تو ضرور ہماریاس آخری مختصر تحریر  کو اپنے اپنے اخباروں میں جگہ دیں گئے۔  باقی رہے انگریزی  اخبار، سو بعض میں میں  تو تردید ہو چکی۔  اور جن میں ابتک نہیں  ہوئی  اُن میں ہمخود سمجھیں گے۔

راقم ۔۔۔احمد شاہ ، شایق  از لداخ

Pages