July 2016

The Quran in Islam by William Goldsack

इस्लाम में क़ुरआन

فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْن

क़ुरआन कि सेहत व दुरुस्ती कि तहकी़क़

अज़

पादरी डब्ल्यू गोल्डसेक साहब

पंजाब रिलिजस बुक सोसायटी

अनारकली-लाहौर
1952 ईस्वी

William Goldsack

The Qur'an in Islam

Rev William Goldsack

Australian Baptist Missionary and Apologist
1871–1957

इस्लाम में क़ुरआन

तमहीद

दीन-ए-इस्लाम की बुनियाद क़ुरआन शरीफ़ पर है । अहले इस्लाम इस किताब की बदरजा गायत ताज़ीम व तकरीम करते हैं और उन के दर्मियान क़ुरआन शरीफ़ बड़े बड़े आला अलक़ाब से मुलक्क़ब भी है। चुनांचे अज्जुम्ला ,फुर्क़ान, क़ुरआन-ए-मजीद, क़ुरआन शरीफ़ और अल-किताब बहुत बड़े बड़े अलक़ाब हैं । तमाम दुनिया के मुसलामानों का ये एतिक़ाद है कि "क़ुरआन ग़ैर-मख्लूक़ कलाम-ए-ख़ुदा है" जो उस ने जिब्राईल फ़रिश्ते की मार्फ़त अपने बंदे और रसूल हज़रत मुहम्मद पर नाज़िल फ़रमाया।बहुतों का ख़याल है कि क़ुरआन की अरबी बेनज़ीर और मुम्तना उल-मिसाल है। हज़रत मुहम्मद ने ख़ुद कुफ़्फ़ार से कहा कि अगर तुम क़ुरआन को कलाम-अल्लाह तस्लीम नहीं करते और इख्तरा-ए-इन्सानी जानते हो तो तुम भी इस की मानिंद बना कर दिखलाओ। चुनांचे सुरह बक़रा की  23 वीं आयत में मर्क़ूम है :-

وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

यानी अगर तुम शक में हो उस कलाम से जो उतारा हमने अपने बंदे पर तो लाओ एक सूरत इस किस्म की और बुलाओ जिनको हाज़िर करते हो अल्लाह के सिवा अगर तुम सच्चे हो"।

बेशक इस में तो कलाम नहीं कि क़ुरआन के बाअज़ मुक़ामात की अरबी निहायत ही उम्दा और सुस्ताह है और तमाम जहान के मुसलमान उसे निहायत इश्तियाक़ से गा-गा कर पढ़ते हैं।

तमाम क़ुरआन को हिफ़्ज़ करना कार-ए-अज़ीम और कार-ए-सवाब ख़याल किया जाता है।
अगर मतन क़ुरआन पर बग़ौर नज़र की जाये तो साफ़ मालूम हो जाता है कि मज़ामीन मुन्दरिजाह क़ुरआन बहुत ही मुख़्तलिफ़ व मुतशत्ततह हैं लेकिन उस में ज़्यादा तर यहूदी और मसीही अदयान का ज़िक्र है । इन अदयान के बारे में जो कसीर-उल-तादाद हवालेजात पाए जाते हैं इन से साफ़ अयाँ है कि हज़रत मुहम्मद ने अपने तेईं किसी नई मिल्लत का बानी इस क़दर क़रार नहीं दिया जिस क़दर कि पुराने इब्राहिमी दीन का फैलाने वाला। इलावा-बरें आँहज़रत ने दीन-ए-यहूद और दीन-ए-ईसवी के बारे में जो कुछ बयान किया है यहूद नसारा की किताबों के हक़ में जो शहादत दी है इस से बकमाल सराहत ये नतीजा निकलता है कि क़ुरआन, तौरेत व इंजील की तंसीख़ नहीं बल्कि ताईद व तस्दीक़ करता है। क़ुरआन में ऐसी आयात बकसरत मिलती हैं जिनमें तौरेत व इंजील की बड़ी तारीफ़ व तौसीफ़ की गई है और उन को ईमान व इंक़ीयाद की हक़दार क़रार दिया है। लेकिन बड़े ताज्जुब की बात है कि बा-अन्हुमा ज़माना-ए-हाल के मुसलमान बिलाइत्तिफाक़ इन किताबों को मुहर्रफ़ यानी तहरीफ़ शूदा और पाया एतबार से गिरी हुई ख़याल करते हैं । इस का सबब अज़हर-मिन-श्शम्स है क्योंकि अगर मसीही और मुहम्मदी कुतुब-ए-दीन का बग़ौर मुताला व मुक़ाबला किया जाये तो बख़ूबी ज़ाहिर हो जाएगा कि क़ुरआन बावजूद यक  कतुब-ए-साबिक़ा का मुस्दक़  होने का मुद्दई  है उन की तालीमात की बहुत मुख़ालिफ़त करता है । पस अहले इस्लाम ने मजबूरन मुनासिब जाना कि इस मुख़ालिफ़त का कोई माक़ूल सबब तराशें चुनांचे उन्हों ने ये कहना शुरू कर दिया कि तौरेत व इंजील तहरीफ़ शूदा हैं । अगरचे ज़माना-ए-हाल के मुसलामानों ने कभी इस अम्र पर  ग़ौर नहीं किया कि जब रसूल अरबी ने अपनी फ़साहत-ओ-बलाग़त से अहले-अरब के दिलों को खींच लिया था उस वक़्त से अब तक क़ुरआन में कुछ तहरीफ़ व तख़रीब वाक़ेअ हुई या नहीं तो भी अगर अरबी इल्म-ए-अदब व तवारीख़ से थोड़ी सी वाक़फ़ीयत भी हासिल हो तो ये राज़ साफ़ मुनकशिफ़ हो जाता है और यह  हक़ीक़त निहायत वाज़ेह तौर पर अयाँ हो जाती है कि मौजूदा क़ुरआन फ़िल-हक़ीक़त हरगिज़ हरगिज़ बिल्कुल वही और बे कम व कास्त नहीं है जो कि हज़रत मुहम्मद ने अपने मोमिनीन को सिखाया था । इस रिसाले में हम इस हक़ीक़त को बड़े-बड़े मुसन्निफ़ीन व मुफ़स्सरिन-ए-इस्लाम के अक़्वाल और उनकी तहरीरात से साबित करेंगे कि हज़रत मुहम्मद के वक़्त से लेकर क़ुरआन की इस क़दर तहरीफ़ व तख़रीब और कांट छांट होती चली आई है कि अब उस को बिल्कुल सही व सालीम और बिल्कुल आँहज़रत का तालिमकर्दाह क़ुरआन तस्लीम करना अम्रे मुहाल है ।

Commentary on Philippians

فلپیوں

تفسیربرنامہ

پولوس رسول بنام

فلپیوں

مولفہپادری ٹی۔ واکرصاحب ایم۔ اے
کرسچن نالج سوسائٹی انار کلی ۔لاہور۱۹۴۳

Rev. Thomas Walker
(1859–1912)

دیباچہ

۱۔فلپی

فلپی ایک قصبے کانام ہے جس کے اب صرف کھنڈر باقی رہ گئے ہیں۔ مگر جب وہ اپنے عروج کی حالت میں تھا۔ تب اس نے دنیاوی اور دینی باتوں دونوں میں خاصہ اچھا نام حاصل کیا تھا۔ اس کے قریب و جوار میں سونے چاندی کی بڑی مشہور کانیں تھیں ان میں زمانہ قدئم کے اندر وہ محنت کش لوگ جو فیکے کے نام سے مشہور ہیں کام کیا کرتے تھے۔ فیلقوس مقدونیہ کے زمانہ تک ان کانوں کے اندر سے لاکھوں روپیہ کا سونا چاندی نکلتا تھا۔ اس شہر کے اندر سے ہو کر ایک بڑی سڑک گزرا کرتی تھی۔ جس سے اس شہر کے دو حصے ہو جاتے تھے۔ ایک حصہ بالا۔ دوسرا زیرین۔ اس سڑک کا نام سڑک اگنیشئن تھا۔ وہ شہر ہبرس سے لے کر جوصوبہ تھریس میں تھا بخرایڈریاٹک کے ساحل تک پانچ سو میل لمبی سڑک تھی۔ مسافر لوگ یہاں سے سمندر اتر کر ملک اطالیہ میں پہنچ جایا کرتے تھے اس بڑے شاہراہ کے بارے میں مشہور رومی مصنف سسرو نے یہ لکھا ہے کہ وہ ہم رومیوں کی ایک جنگی سڑک ہے جو ہمارے شہر روما کو آبنائے ڈارڈ نلز سی جو یورپ اور ایشیا کے مابین واقع ہے۔ پیوستہ کرتی ہے ماسی جگہ یعنی فلپی کے قریب وہ بڑا خوبصورت میدان بھی ہے جو اپنی زرخیزی کے لئے بڑا مشہور یہاں ہی حضرت مسیح سے بیالیس سال پیشتر وہ آخری لڑائی ہوئی تھی جس میں روما کی سلطنت جمہوری کے جرنیلوں بروٹس اور کاشیس نے قیصر اوگستس اور آنتونی کی فوجوں کا عبث مقابلہ کر کے شکست کھائی تھی۔ مگر ان ساری باتوں سے بڑھ کر اس قصبے کے متعلق یہ امر ہے کہ یہ وہی مقام ہے جس میں غیر قوموں کا بڑا نامی رسول پولوس خدا کی ہدایت سے آیا تھا کہ براعظم یورپ کے اندر اول اول اس مقام پر انجیل کا جھنڈا نصب کرے۔ یہ قصبہ جو بحر یونان کے سرہانے کی طرف واقع تھا اور اس میں جو پولوس مقدس نے مغربی ممالک یعنی یورپ کے اندرانجیل کی بشارت پھیلانے کے لئے رسالت کا اول مرکز بنایا۔ اس سے ایک ملک انگلستان اور ملک ہند ہی کیا بلکہ ساری دنیا کے لوگوں کو جو فائدے اور برکتیں پہنچتی ہیں ان کا بیان کون کر سکتا ہے۔

(۱)   اس قصبے کا موقع یا مقام جغرافیے کے اعتبار سے

فلپی ایک قصبہ تھا جو بڑے شاہراہ گنیشئن پر ایسی جگہ پر واقع تھا کہ جہاں کوہِ بلقان کا مسلسل پہار ایشیا اور یورپ کے براعظموں کے مابین نیچا ہو کر ایک آبناءبن گیا ہے اور ان کے درمیان ایک ایسا قدرتی دروازہ ہے کہ جس میں سے ہو کر ایک براعظم میں سے دوسرے کے اندر جانے کے لئے ایک آسان راہ موجود ہے۔ اس وجہ سے اس مقام کو دونوں براعظموں کے دروازے قفلوں کی کنجی کہنا بالکل درست ہے اور جنگی امور کے اعتبار سے اس مقام کی عظمت ک مقدنیہ کے بادشاہ فیلقوس کی یہ کیفیت تھی تو کیا یہ ایک بڑی مقبول بات نہیں ہے کہ خدا کی روح نے مسیحی منادوں کے سردار پولوس کو ہدایت کی کہ وہ وہاں جائے اگر انجیل کی بشارت نے کوہِ بلقان سے گزر کر آگے کو جانا تھا۔ تو فلپی ہی وہ مقام تھا جس میں سے ہو کر وہاں پہنچنا نہایت آسان تھا۔ بشپ لائیٹ فٹ نے اس خیال کو الفاظ مندرجہ ذیل میں بہت خوب ادا کیا ہے کہ ہم یہاں پہنچ کر ایک ایسے مقام پر کھڑے ہوتے ہیں جہاں گویا پورپ اور ایشیائی زندگی کے دریا کا اتصال ہوتا ہے۔ اور فلپی میں انجیل کا داخل ہونا اس امر کا پیش خیمہ تھا کہ اب دین عیسوی نے مشرق سے مغرب میں گزر کیا۔یہ کہنا درست ہے کہ جس طرح اس زمانے کے مشنری ایشیا سے گزر کر فلپی اور اس کے شاہراہ گنیشئن کے رستے سے یورپ میں داخل ہوتے تھے اسی طرح آج بیسویں صدی کے مشنری یورپ سے روانہ ہو کر نہر سوئز کی راہ سے ایشیا میں آتے ہیں۔

(۲)

اس شہر کا نام فلپی اس لئے تھا کہ سکندر اعظم کے باپ فیلقوس نے اس کی بناڈالی تھی اور اس کا مقصد اس شہر کے بنائے سے یہ تھا کہ اول تو وہ اس بات کا ایک یادگار ہو کہ اس نے اس نئے صوبے کو جس میں یہ شہر بنایا تھا فتح کر کے اپنی قلمرو میں شامل کیا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ تھا کہ وہ سرحد پر ایک قلعہ تعمیر کر ے کہ جس میں فوج رہا کرے تا کہ صوبہ تھریس کے پہاڑی لوگوں کی شورش سے اس کے ملک کی حفاظت رہے۔ جس مقام پر یہ شہر بسایا گیا تھا۔اس کے قریب قدیم زمانے میں ایک اور شہر بستا تھا جس کا نام گرینائڈینر تھا اور اس نام کے معنی یہ تھے چشموں کا مقام۔ کیونکہ اس کے آس پاس بہت سے دریا تھے ان میں سب سے بڑا دریا گینجائی ٹینر تھا جو شہر کی مغرب طرف ایک دو میل کے فاصلے پر بہتا تھا۔ اور دریائے سڑائی مون میں جا کر مل جاتا ہے۔

(۳)

یہ شہر رومیوں کی ایک بڑی بستی تھی۔ قیصر اوگستس نے اس شہر کے قریب اپنے مخالف بروئس پر لڑائی میں ایک بار بڑی بے لاگ فتح حاصل کی تھی۔ اس لئے اس نے یہاں رومیوں کی ایک بستی بنائی تاکہ اس فتح کی ایک یادگار ہے۔ اس سے فلپی کی قدرومنزلت اور بھی زیادہ ہو گئی تھی۔ یہ سلطنت روما کا ایک سرحدی قلعہ تھا اور دارالسلطنت روما کا ایک چھوٹا سا نمونہ تھا۔ جب کبھی رومی لوگ کوئی ایسی بستی بنایا کرتے تھے تو دستور یہ تھا۔ کہ جو رومی وہاں جا کر آباد ہوا کرتے تھے۔ وہ فوج کے قاعدے کے موافق صف باندھ کر جھنڈے لہراتے ہوئے وہاں جایا کرتے تھے۔ اور جس مقام پر وہ قبضہ کرتے تھے۔ اس پر ہل چلا کر اپنا نشان کر دیا کرتے تھے۔ اگرچہ وہ روما کا ایک چھوٹا سا نمونہ تھا۔ جب کبھی رومی لوگ کوئی ایسی بستی بنایا کرتے تھے اس پر ہل چلا کر اپنا نشان کر دیا کرتے تھے۔ اگرچہ وہ روما سے علیحدہ ہو کر باہر کی بستیوں میں سکونت اختیار کیا کرتے تھے۔ تا ہم ان کے نام ہمیشہ رومی رجسٹروں میں درج رہتے تھے اور ان کی بول چال کی زبان اور سکہ رائج الوقت اور قوانین مجریہ سب بالکل لاطینی یعنی رومی ہوا کرتے تھے۔ جو مجسٹریٹ وہاں ہوتے تھے۔ وہ بھی شہر روما کے مجسٹریٹوں کے اختیارات کے موافق بڑے بڑے خطاب اپنے ناموں کے ساتھ لگایا کرتے تھے۔ غرض یہ کہ ہر ایک ایسی چھوٹی بستی گویا روما شہر کا ایک چھوٹا بچہ یا پودا ہوا کرتا تھا جو گویا روما کی زمین سے اکھاڑ کر سلطنت کے کسی دور دراز مقام پر لگایا گیا ہو۔

ان باتوں کے علاوہ فلپی کو سلطنت روما کی طرف سے ایسا ایک حق حاصل تھا کہ اس کو زمین کا محصول بھی معاف تھا۔ جو سارے صوبوں کی زمین پر رہنے والوں کو دینا پڑتا تھا۔ اس کے باعث ہے اس کا مرتبہ ایسا ہی تھا۔ جیسا کہ خود ملک اطالیہ کا تھا۔ اس لےے وہاں کے باشندے ان تین باتوں کے لئے پوری طرح سے حق رکھنے کا فخر کر سکتے تھے جو کہ رومی باشندوں کے بڑے حقوق سمجھے جاتے تھے اور وہ یہ تھے۔

  1. سزائے تازیانہ کے گرفتاری کے قابل نہ ہونا۔
  2. سوا بعض حالتوں کے گرفتاری کا قابل نہ ہونا۔
  3. براہِ راست قیصر کی عدالت کو اپیل کرنے کا حق رکھنا۔

بعض رومی باشندوں نے روما شہر کو جو خاتونِ جہان کے نام سے مشہور تھا اور سلطنت روما کا برا شاندار صدر مقام تھا۔ آنکھوں سے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ لیکن تا ہم جب وہ اس کی طرف آنکھیں پھیر کر اپنے دلوں میں بحیرایڈریاٹک کے نیلگون سمندر کے پار اس کا خیال باندھتے تھے تو ان کے اندر اس بات کے تصور سے ایک فخریہ جوش اٹھنا درست تھا کہ ہم بھی اسی بڑی سلطنت جمہوری کے رکن ہیں اور اس کے حق وحقوق کے حصہ دار اور اس کی شان وشوکت میں شریک ہیں۔

پولوس رسول نے جو اپنے اسی نام کے خط میں تعلیم دی ہے۔ اس میں اس شہر فلپی کی بستی کے خاص موقعہ سے کئی مفید سبق نکالے ہیں۔ اس لئے جب ہم اس خط کی تعلیم کا مطالعہ کریں توان باتوں کو بھی جو یہاں مختصر طور پر بیان کی گئی ہیں۔ یاد رکھیں۔ اس سے ہم کو بہت فائدہ ہو گا اور وہ باتیں یہ ہیں کہ ہر مسیحی بھی ایک بڑی عظیم الشان سلطنت جمہوری کا باشندہ یا رکن ہے اور وہ سلطنت کونسی ہے؟ سلطنت آسمانی۔ پس مسیحی بھی ہرگز شہر روما سے کسی کم درجے شہر کا باشندہ نہیں۔ اور مسیح کا سپاہی ہو کر اور وہ اس ٹیرھی اور گمراہ نسل کے درمیان اپنے خداوند کے لئے اپنے دل اور ایمان کے قلعہ کو سنبھالے رہتا ہے۔ اس لئے اس کا حال وہی ہے جو فلپی کے باشندوں کا تھا کہ وہ بھی سلطنت روما کی نہایت دور دراز سر حد پر وحشی اور غیر قوم لوگوں کے درمیان وہ کر اس سلطنت کی عزت اور آبرو کا قائم رکھنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ہند کے دیسی مسیحی بھی یہ جان کر کہ ان کے چاروں طرف بے شمار ہندو اور مسلمان رہتے ہیں۔ اور خط کی تعلیم سے یہ سبق سیکھیں کہ ہم جو اپنے آپ کو آسمان کا باشندہ کہتے ہیں اس سے ہم کو نہ صرف بعض فق ے اور استحقاق حاصل ہیں۔ بلکہ بعض فرض بھی انجام دینے کے لئے ہم پر لازم آتے ہیں۔

۲۔پولوس سول اور فلپی شہر کی کلیسیا

جیسا کہ رسولوں کے اعمال کے سولہویں باب میں لکھا ہے پولوس رسول فلپی شہر میں اول اول ۲۵ءمسیحی کے قریب اس وقت گیاتھا جب کہ وہ اپنی رسالت کے دوسرے سفر کے وقت دورہ کر رہا تھا۔ اس وقت اس کے ساتھ ایک تو سیلاس تھا۔ دوسرا تیمتھیس تھا اور جس طرح کہ اعمال کے (اعمال۱۶: ۱۰ اور ۱۲ اور ۲۰: ۶) سے مقابلہ کر کے معلوم ہوتا ہے۔ تیسرا شخص اس کے ساتھ اس وقت اس کا پیارا طبیب لوقا تھا۔ مقام تروآس سے کشتی پر روانہ ہوکر وہ ہوا اور دریا دونوں کے موافق حال ہونے کے باعث بہت جلد سفر کر کے نیا پلوس مقا م میں پہنچے۔ یہ جگہ غالباً وہی ہے جو اب ملک ترکی میں کوالو کے نام سے مشہور ہے۔ رسول یہاں سے اتر کر فوراً شاہراہ اگنیشئن پر روانہ ہوئے اور یہ سڑک ایک پہاڑ کے سلسلہ کے اوپر سے ہوتی ہوئی شہر فلپی کی طرف کو جاتی ہے۔ جب پہاڑ کی دوسری طرف اترائی شرو ع ہوئی اور سمندر کا خوشنما نظارہ جو جنوب کی طرف تھا دکھنے سے رہ گیا تو ان کو وہ خوبصورت اور سر سبز میدان اپنے سامنے پھیلا ہوا دکھائی دیا جس میں وہ شہر آباد تھا جس کے بارے میں (اعمال ۱۶: ۱۲)میں یہ لکھا گیا ہے کہ وہ مقدونیہ کا صدر مقام تھا اور رسولوں کا مقصد اس راہ سے وہیں جانے کا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کہ اس شہر میں بہت تھوڑے سے یہودی رہتے تھے۔ شاید اس کا یہ سبب ہو کہ فلپی رومیوں کی بستی تھی اور یہاں ان کی فوج رہا کرتی تھی یہی وجہ تھی کہ انطاکیہ اور اکونیم میں اور مقاموں کی طرح یہودیوں کا کوئی عبادت خانہ نہ ملا جس میں وہ خدا کا کلام سناتا لیکن سبت کے روز ڈھونڈتے ڈھونڈتے اسے ایک چھوٹی سی جماعت ملی جو اپنے غریبانہ مقام عبادت میں دریائے گنگیتی پر شہر کے باہر عبادت ادا کرنے کے لئے جمع ہوا کرتی تھی۔ اعمال کی کتاب میں جو بیان درج ہے۔ اس سے ان واقعات کا صاف صاف احوال معلوم ہوجاتا ہے۔ جو پولوس رسول کے اس مقام پر اول وارد ہونے پر ظہور میں آئے یہاں اس وقت تین شخص مسیح پر ایمان لائے اور یہ تینوں نمونے کے لائق تھے اول شخص تو ایک عورت تھی جس کا نام لڈیا تھا۔ وہ سوداگری کرتی تھی۔ دوسری ایک فالکولڑکی تھی جو لونڈی تھی اور تیسرا ایک رومی داروغہ جیل خانہ تھا۔ یہ سرکار کا ایک ماتحت افسر تھا بشپ لائٹ فٹ صاحب نے اس بارے میں یہ رائے لکھی ہے۔ کہ اس مقام کے ان اول تینوں مسیحیوں کے درمیان خاندان اور شرافت اور دینی تعلیم کے اعتبار سے بڑا فرق ہے اور جس ترتیب کے ساتھ وہ مسیحی ایمان میں شریک ہوئے وہ بھی بڑے غور کے لائق ہے۔ کیونکہ تیسرا رومی تھا۔ یہ اس بات کے نمونے تھے کہ عیسائی مذہب ساری دنیا میں اسی ترتیب کے ساتھ پھیلتا ہے۔

اس مقام سے رسولوں کو یکایک چلاجانا پڑا۔ کیونکہ لوگوں نے ان کے لئے بڑی سخت اذیت برپا کی۔ مگر انجام یہ ہوا کہ انہوں نے اس اذیت سے ایک معجزانہ طور پر رہائی پائی۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب رسول یہاں سے روانہ ہو کر تھسلنیکیوں کی راہ پر چلا جا رہا تھا اس وقت تک بھی فلپی کے لوگ انجیل کی مخالفت کرنے سے باز نہ آئے تھے اور جو لوگ اس شہر میں مسیح پر ایمان لائے تھے ان کو بھی مصیبت اور تکلیف بہت سی اٹھانی پڑی۔ اس کے لئے (۲۔کرنتھیوں۲: ۲۸)کو اور فلپیوں کے (۱: ۲۸۔۲۹۔۳۰) کو دیکھو۔

معلوم ہوتا ہے کہ جب پولوس رسول یہاں سے چلا گیا تو اپنے دوست اور ساتھی لوقا کو اس شہر میں چھوڑ گیا تھا۔ یہ بات (اعمال ۱۷: ۱۔۴)سے ترشح ہوتی ہے۔ کیونکہ لوقا نے یہاں پر اپنے بیان میں صیغہ متکلم کو اڑادیا ہے ۔ ممکن ہے کہ لوقا کے علاوہ یہاں پر تیمتھیس بھی تھا اور وہ وہاں کچھ عرصے تک خداوند کا کام کرتا رہا۔اس وقت کے بعد ٫۵۷رسول نے تیمتھیس اور اراسطوس کو مقدونیہ میں بھیجا تھا ۔ یہ بات (اعمال ۲۲: ۱۹)سے پائی جاتی ہے۔ جب یہ دونوں شخص خداوند کے کام کے لئے مقدونیہ کو گئے ہوں گے۔ تو ضرور ہے کہ انہوں نے فلپی میں بھی اپنی تعلیم سے کچھ فائدہ پہنچایا ہو گا۔ ہم کو اس بات کا بالکل یقین کرنا چاہئے۔ کہ جب ان کے پیارے استاد پولوس نے یہودیہ کے محتاج بھائیوں کے لئے فیاضانہ طور سے مدد کے لئے روپیہ بھیجے کی ان درخواست کی تھی تو فلپی کے مسیحیوں نے اپنی بڑی محبت سے اس کے جواب میں چندہ بھیجنے میں دریغ نہ کیا ہو گا۔اور مقدونیہ کی اور جماعتوں نے بھی ایسا ہی کیا ہوگا۔ اس بات کے ثبوت میں (۲۔کرنتھیوں۸: ۱) تک ملاحظہ کرو۔

(اعمال۲۰: ۱) سے اور(۲۔ کرنتھیوں ۲: ۱۲۔۱۳اور۷: ۵۔۶) اور (۷: ۵۔۶)سے پایا جاتا ہے۔ کہ مسیح کے بعد۵۸ ء کے شروع جاڑے کے موسم میں پولوس رسول خود پانچ سال کی غیر حاضری کے بعد افسس سے روانہ ہو کر اپنی ان کلیسیاﺅں کو پھر دیکھنے کے لئے گیا تھا۔ جو یورپ میں واقع تھیں۔ پس ضرور فلپیوں نے بھی اس موقع پر اس کی محبت آمیز دینی خدمتوں سے فائدہ اٹھایا ہو گا۔ پھر جب پولوس ۵۸ءکے موسم بہار میں کرنتھی سے روانہ ہو کر رستے میں اپنے فلپی شہرکے نومریدوں کے پاس عید فسح منانے کے لئے ٹھہرا تھا تو اس وقت ایک بار پھر تھوڑے سے عرصے کے بعد ان کے درمیان آ کر رہا ہو گا۔ یہ بات (اعمال ۲۰:۶)سے معلوم ہوتی ہے۔اس کے بعد پھر مجھ کو فلپی کے عیسائیوں کی اس وقت تک کچھ خبر نہیں ملتی جب تک انہوں نے اپنی دلی وفاداری سے پولوس کے پاس جو شہر روما میں قید خانے کے اندر پڑا تھا۔ اپفرودتیس کے ہاتھ اپنے دل کی خوشی سے اس کی مدد کے لئے اپنی نذریں بھیجی تھیں۔ اس امر کے ثبوت میں(فلپیوں۲:۲۵۔۳۰)کو (فلپیوں۴: ۱۰۔۱۸)تک کو دیکھو۔ پولوس نے اپنا وہ خط جس کے ہر صفحے سے یہ ظاہر ہوتا ہے۔ کہ اس کو ان کے ساتھ بڑی بھاری محبت تھی اسی معتمد ایلچی کے ہاتھ فلپیوںکے پاس بھیجا تھا۔ اس خط کے (۲: ۱۹۔۲۴) سے معلوم ہوتا ہے کہ پولوس نے اپنے دل میں یہ ارادہ باندھ لیا تھا کہ ان کو ایمان کی باتوں میں مضبوطی بخشے کے لئے نہ صرف تیمتھیس کو ان کے پاس بھیجنے بلکہ خود بھی ایک بار اور ان کے پاس جائے۔ اس بات کے جواب میں کہ آیا پولوس کی یہ امید پوری ہوئی تھی یا نہیں ہم کو (۱۔تیمتھیس۱: ۳اور۲۔تیمتھیس۴: ۱۳۔۲۰)آیتوں کے تاریخی حوالوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے جو ارادہ کیا تھا وہ پورا کیا۔ اور ان سے یہ پایا جاتا ہے۔ کہ اس عرصے کے مابین جب کہ پولوس روما میں اول دفعہ اور پھر دوسری بار قید میں تھا وہ کم از کم ایک بار تو پھر فلپیوں کی ملاقات کے لئے آیا تھا۔

اس بات کے ثبوت میں بہت کچھ بیان ہو چکا ہے کہ پولوس کو فلپی کے عیسائیوں کے ساتھ کمال درجے کی گہری اور دلی محبت ہمیشہ قائم رہی پولوس ان سے ہمیشہ محبت کرتارہا اور ان کے لئے ساری عمر دعا مانگتا رہا۔ اور وہ بھی اپنی وفاداری اور احسان مندی اس کے ساتھ کرنے سے کبھی باز نہ رہے۔

اس کلیسیا کا جو حال اس کے بعد کا ہے اس کا نیان جلد کیا جا سکتا ہے۔ جب ابتدائی کلیسیا کا وہ بزرگ جس کا نام اگنیشئیس تھا ایشیا سے روما کو شہید ہونے جا رہا تھا تو وہ فلپی کے رستے سے گزرا تھا۔ وہاں کے مسیحیوں نے اس کی بڑی خاطر وتواضح کی اور اس کے ساتھ بڑی عزت سے پیش آئے۔ اس بزرگ کا یہاں آنا ایک ایسا یاد گار ہوا کہ اس کی وجہ سے اس کلیسیااور بزرگ پالیکارپ کے باہم جو اگنیشئیس کا دوست اور سمرنا کے شہر کیا اسقف تھا دوستانہ خط کتابت کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ فلپی کے مسیحیوں نے پالیکارپ سے کچھ صلاح اور نصیحت کے بارے میں درخواست کی۔ اس کے جواب میں اس نے ان کو اپنا ایک مشہور خط لکھا اس بزرگ کی تصنیفات میں سے صرف یہی خط اب تک باقی ہے۔ اس میں ایک بات جو اس نے تحریر کی ہے وہ خوشی کی بابت ہے کہ خداوند مسیح کی وجہ سے خوش ہونا چاہئے۔ پھر وہ ان کو تاکید کرتا ہے کہ اپنی زندگی پاکیزگی کے ساتھ گزاریں۔ اور ایمان و محبت اور امید پر بڑا زور دیتا ہے۔ اور بڑے سنجیدہ طور سے ان کو سمجھاتا ہے کہ روپیہ کی محبت میں گرفتار نہ ہو جانا۔ پھروہ ان کو ان کی بیواﺅں اور ڈیکنوں اور پرسبٹروں کے مناسب طرح پر چلنے کے بارے میں نصیحتیں لکھتا ہے۔ اور ان سے یہ فرماتا ہے کہ وہ سب یکساں اس طرح زندگی گزاریں جس سے معلوم ہو جائے کہ وہ خدا کے شہر کے رہنے والے ہیں۔ وہ ان کو اس بارے میں بڑے زور اور تاکید کے ساتھ لکھتا ہے کہ جو اکیلی سچی انجیل یعنی خوشخبری ہے وہ اس کی خدمت اور تابعداری بڑی وفاداری کے ساتھ کریں۔ اور وہ ان کے سامنے ان مقدسوں کا نمونہ پیش کرتا ہے جو راستبازی کی راہ میں چلے اور پھر اپنے آسمانی گھر میں جا پہنچے، اور ان کو یہ فہمایش کرتا ہے۔ کہ ثابت قدم رہو۔ فروتن بنو۔فیاضی اختیار کرو۔ پرہیز گار ہو۔ اس کے ساتھ ہی بڑا افسوس کرتا ہے کہ ایک شخص ویلز نام جو کبھی ان کے درمیان ایک پرسبٹر تھا۔ وہ ظاہراً طمع کا دامن گیر ہو کر ایمان سے گر گیا ہے۔ آخر یہ کہ وہ ان کو خدا کے اور اس کے کلام کے سپرد کرتا ہے۔ اور ان کو حکم دیتا ہے کہ تمام آدمیوں کے لئے دعا مانگیں۔

اس خط کے بعد فلپی کی کلیسیا کا کچھ حال پایا نہیں جاتا بخبر یا تو ایک اتفاقیہ اشارے کے جوٹرٹلئن اور دوسرے مصنفوں کی تحریروں میںا س کی طرف کیا گیا ہے۔ یا کلیسیائی کونسوں کے نوشتوں میں جو فلپی کے کسی کسی اسقف کا نام کبھی کبھی آ جاتا ہے۔ اس کے سو اس کی تاریخ مابعد کے بارے میں ہم کو در حقیقت اس کا کچھ حال معلوم نہیں۔ اس کلیسیا کا شروع تو ایسا ہوا کہ اس سے آیندہ کی رونق کی بڑی امید ہوتی تھی۔ مگر تھوڑے ہی عرصے بعد کی اس رونق گھٹنے لگی اور مدتیں ہو گئی ہیں۔ جب سے کہ اس کی روشنی پر اندھیرا چھا گیا ہے۔ ہماری ہندوستانی جماعتوں کے لئے یہ ہمیشہ ایک عبرت کا مقام ہے۔ کہ خبردار رہیں۔ مبادا حق اور محبت اور مشنری سرگرمی کی راہ سے بھٹک جائیں۔ مگر ہم کو اس کے لئے شکرگزار ہونا چاہئے کہ فلپی کی کلیسیا میں جو ایمان اور محبت شروع زمانے اور ان کو روحانی غذا دینے کے لئے لکھا گیا تھا وہ بھی ہمارے فائدے کے لئے موجود ہے۔

۳۔اس خط کے لکھنے کی تاریخ اور موقع

(۱)یہ کہ یہ خط کہاں لکھا گیا تھا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اس باب میں کچھ شک کی جگہ نہیں کہ یہ خط روما شہر میں اس وقت تحریر ہوا تھا۔ جب کہ لوقا کے احوال کے موافق جو اس نے (اعمال ۲۸: ۳۰)میں لکھا ہے پولوس دو برس تک وہاں قید میں رہا اس سے اس کے تحریر کا زمانہ ۶۱ ٫اور٫۶۳کے درمیان قرار پایا ہے۔ اگرچہ بعضوں عالموں کی رائے یہ ہے کہ یہ خط اس وقت لکھا گیا تھا جب کہ پولوس (اعمال ۲۴: ۲۳۔۲۷) تک کے مطابق قیصریہ میں قید تھا۔ ان عالموں میں سے مئیسر صاحب سب میں مقدم شخص ہے۔ لیکن جو شخص کہ واقعات مندرجہ ذیل خوب غور کریں گے۔ اور ان لوگوں کی دلائل سے کبھی قائل نہ ہوں گے۔

اول

یہ بات کہ (فلپیوں ۴: ۲۲) میں جو قیصر کے گھرانے کی طرف اشاری کیا گیا ہے اس کی مراد خواہ مخواہ روما شہر سے ہے اگر کوئی اس کا تعلق قیصریہ شہر کے ساتھ باندھنا چاہے تو صرف نا حق کی زبردستی سے ہو سکتا ہے۔ اور طرح ممکن نہیں۔

دوم

یہ کہ پولوس نے جو( فلپیوں۱: ۱۳۔۱۸) تک انجیل کی ترقی کا حال بڑی خوشی کے ساتھ لکھا ہے وہ اسی صورت میں صحیح بیٹھتا ہے جب یہ سمجھاجاﺅ کہ وہ روما شہر کی بابت ذکر کر رہا ہے۔ کیونکہ وہ ایک اول درجے کا عظیم الشان شہر تھا اور انجیل کے کام کے حق میں اور مقاموں کے مقابلے میں وہ ایک نیا مقام تھا۔ اور یہ بات مشکل سے یقین کی جا سکتی ہے۔ کہ اس کا اشارہ قیصریہ کی طرف ہو۔ جو کوئی بڑی مشہور جگہ نہ تھی اور اس میں اور لوگ پہلے ہی اچھی طرح سے انجیل کی خوشخبری سنا چکے تھے۔ اس کا ذکر (اعمال۱۰: ۱سے۳۸)تک اور (اعمال۲۱: ۸سے۱۶)تک درج ہے۔

سوم

یہ بات کہ اس خط کے (۱: ۲۶) میں اور (۲: ۲۴) آیت میں رسول اس بات کی امید ظاہر کرتا ہے۔ کہ وہ جلدی رہائی پائے ارادہ کرتا ہے۔ کہ مقدونیہ میں آئے۔ ان دونوں آیتوں کا (فلیمون ۲۲آیت) سے مقابلہ کر کے غور کرو اس کے خلاف جب پولوس قیصریہ میں تھا تو اس کی امید یہ تھی کہ روما کو جائے کیونکہ اس نے قیدی ہو کر قیصر کی عدالت کی طرف اپیل کیا تھا اس امرکے لئے (اعمال۲۵: ۱۱۔۱۲)کو دیکھو۔

چہارم

یہ بات کے(۱: ۱۳) میں جو قیصری سپاہیوں کا ذکر آیا ہے گو اس سے بادی النظر میں ایسا معلوم ہو کہ چونکہ (اعمال ۲۳: ۳۵) میں بھی ہیرودیس کے قلعے یا سپاہیوں کا ذکر آیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ خط قیصریہ میں لکھا گیا۔ مگر درحقیقت اس بات سے بھی اس خط کے روما شہر ہی میں لکھے جانے کو اور زیادہ تر مضبوطی ہوتی ہے کیونکہ حقیقی پڑی ٹورئم پلٹن قیصر کے ارولی سپاہیوں کی جماعت کا مقام شہر روما ہی تھا۔ اور اس ذکر میں جتنی باتیں متعلق ہیں ان کا مطلب اسی سے کھلتا ہے۔

پس ان وجوہات کو بیان کر کے ہم عالموں کی بڑی کثرت رائے کے ساتھ یہی فیصلہ کرتے ہیں کہ اس خط کو پولوس رسول نے روما میں اپنی اول قید کے زمانے میں تحریر کیا تھا۔

(۲)اس خط کے لکھے جانے کی تاریخ۔

عالموں کے درمیان بڑی بحث مباحثہ ہے کہ یہ خط کب لکھا گیا تھا۔ ایک تو اس بات میں بحث ہے کہ آیا پولوس نے یہ خط روما میں اپنی پہلی قید کے ابتدائی زمانے میں لکھا تھایا کہ اس کے پچھلے وقت میں دوسری یہ بات کہ افسیوں اور کلیسوں کے خطوں کے لکھے جانے سے پہلے لکھا گیا تھا یا پیچھے۔ ساری باتوں پر غور کر کے ہم کو ناظرین کے لئے نصاف کی بات یہ معلوم ہوتی ہے۔ کہ جو دلیلیں اس خط کے دیر کے بعد لکھے جانے کی تائید اور نیز مخالفت میں ہیں۔ ان کو ہم ذرا مفصل بیان کر دیں۔

اول

دلیل جو ہم دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ جس حال اس خط کے (۱: ۱۲۔۱۳۔۱۴) میں یہ واقع بیان کیا گیا ہے کہ اس خط کے لکھے جانے سے پیشتر روما میں انجیل جلد جلد پھیلنے لگ گئی تھی۔ اس وجہ سے ضرور ہے کہ اس خط کے لکھے جانے اور روانہ کئے جانے کے لئے اس قدر پیچھے کی تاریخ قرار دینی چاہئے جس قدر کہ ممکن ہے۔ اس کا جواب اور عالموں نے یہ دیا ہے کہ جب پولوس روما میں اول اول آیا تو اس نے دیکھا کہ وہاں ایک بڑی کلیسیا موجود ہے اور اس کی حالت بڑی رونق پر ہے۔ بلکہ وہاں عیسائیوں کی جماعت ایسی بڑی تھی کہ پولوس نے اس سے قریب تین سال پہلے اس بات کی ضرورت معلوم کی تھی۔ کہ اپنے تمام خطوں میں سے سب سے بڑا خط ان کو لکھے۔ اس کے علاوہ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس خط میں جو الفاظ پولوس نے انجیل کی ترقی کے بارے میں اپنی خوشی کی بھری ہوئی امید کے لکھے ہیں ان کے معنی حد سے زیادہ لگانے نہیں چاہئیں۔ کیونکہ ان لفظوں میں صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ روما کے عیسائیوں نے انجیل کا کام نئے سرے سے اور زور شور کے ساتھ شروع کیا تھا۔ اور اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ دیکھا ہو اکہ ان پولوس رسول ہمارے درمیان آیا ہے تو غالباً اس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد انہوں نے یہ کام شروع کیا ہو گا اس سے پہلے کہ اس کے آنے سے جو نیا جوش ان کے دلوں میں پیدا ہوا تھا وہ دیر کے باعث ٹھنڈا پڑ جائے۔

دوسری

دلیل جو عالم لوگ اس بارے میں دیتے ہیں کہ پولوس نے فلپیوں کا خط روما میں قید ہونے کے زمانے کے اول اول وقت میں نہیں بلکہ پیچھے کے وقت میں لکھا تھا۔ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اس خط کے پڑھنے سے رسول کے دل کی اداسی اور فکر معلوم ہوتا ہے جو اس بات کا اشارہ کرتے ہیں کہ اس کو قید سخت معلوم ہوتی ہے اور جان کا خطرہ نظر آیا تھا۔ اس لئے یہ امر قرین قیاس نہیں ہے کہ اس نے یہ خط ان دو برسوں کے ختم ہونے سے پہلے لکھا ہو جس کی بابت لوقا نے (اعمال ۲۸: ۱۶اور۳۰ اور۳۱)میں یہ لکھا ہے کہ پولوس کے وہ دو برس اور زمانے کے مقابلے میں آزادی کے برس تھے۔

اسی زمانے کی تاریخ میں جو حوالے ملتے ہیں ان سے اس دلیل کی اورزیادہ تاکید ہوتی ہے۔ قیصری اردلی گارد کے نرم دل اورنیک بخت حاکم بروس کی جگہ ۶۲ئ میں فنی لُس اوفس اور ٹگلی نس حاکم مقرر ہوئے ان میں سے جو پچھلا شخص تھا وہ ایک چھٹا ہوا بدذات شخص تھا۔ اور مسماة پوپیا جس قدر اس سے ہو سکا ہو گا کہا سنا ہو گا۔ پس ان باتوں سے رسول کو اپنی آئندہ حالت کے بارے میں ضرور فکرواندیشہ رہتا ہو گا جس کے آثاراس خط کی بعض آیتوں میں پائے جاتے ہیں۔

اس تقریر کے متعلق ہم کو یہ بھی یاد رکھنا کہ لوقا نے جوتاریخ نویس ہے۔ پولوس کے ان دونوں سالوں کا حال جہاں تک ہو سکتا تھا نہایت مختصر سا دیا ہے۔ تا ہم وہ ایسا نہیں ہے کہ اس خط کے صورت حال کے موافق نہ ہو۔ اس کے برعکس پولوس جو اس خط کا لکھنے والا ہے وہ اپنی ہر روز کی درو بدل کی حالت کے مطابق اس کے دل کی جیسی کیفیت ہوتی تھی اس کو اپنے خط میں ظاہر کرتا جاتا ہے۔ علاوہ بریں یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے۔ کہ اس خط سے پولوس کی طبیعت کا اداس معلوم ہونا تو رہا درکنااس کے برعکس اس خط کی طرز عبادت سے فی الجملہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اس کا دل خوشی کے جوش میں ابلا جاتا تھا۔ وہ فلپی کے عیسائیوں کو بار بار یہ لکھتا ہے کہ خداوند میں خوش رہو۔ آگے جب ہم اس خط کی تفیسر کریں گے تو معلوم ہو گا کہ خوشی کا لفظ اس میں ایسا مقدم ہے کہ ا س کی خوشبو ہر ایک باب کے مضمون میں مہک مار رہی ہے۔ اس کے قطع نظر یہ بات بھی قرین قیاس نہیں کہ قیصر کے شہنشاہی دربار میں جو ملکی تغیر وتبدل ہوئے ہوں ان سے پولوس جیسے ایک دور کے مقام کے گمنام قید ی کی حالت میں کچھ چنداں فرق پڑا ہو گا۔ وہ ایک ایسے مذہب کا رسول تھا جو اب تک اس قدرمشہور اور بڑا نہ سمجھا جاتا تھا کہ اس سے سلطنت کو کچھ خوف و خطر خیال کیا جائے۔

سوم

اس دلیل پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ ہر چند وہ اس سے پہلی دلیل کے بالکل نامطابق ہے کہ اس خط میں رسول پولوس کی تحریر سے یہ ترشح ہوتا ہے کہ اس کو امید تھی کہ اس کے مقد مے کا فیصلہ فوراً ہونے والا ہے۔ اور وہ اپنی جلد مخلصی کے انتظار میں تھا۔ اس بات کی بنا (۱: ۱۹۔۲۵) اور(۲: ۲۴) ہے۔

مگر صرف اتنی بات کو ہم اس امر کے ثبوت میں قطعی اور ناطق نہیں مان سکتے کیونکہ پولوس دو برس قید رہا۔ اس عرصہ میں اس نے بار ہا امید کی ہوگی کہ میرے مقدمے کی پیشی اب اب ہو۔ اور ایسی حالت میں رومی قیدی کے دل میں طرح طرح کی امیدیں اور نا امیدیاں گزرا کرتی ہوں گی۔ اس کے قطع نظر جو خیالات رسول نے ان آیتوں میں ظاہر کئے ہیں وہ ویسے ہی خیالوں سے جو اس نے (۱: ۲۲) میں لکھے ہیں زیادہ نہیں ہیں۔ اس لئے ایسے موقع پر ان پر اس قدر حد سے زیادہ زور دینے کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔

چہارم

یہ بات پھر دلیل میں لائی گئی تھی کہ جب رسول صدر مقام یعنی روما میں پہنچ گیا تھا تو اس کے بعد جو اس کے اور فلپیوں کے عیسائیوں کے مابین اور بار آمد ورفت اور رسل رسائل کے ذکر اس خط میں پائے جاتے ہیں۔ اور اپفرودیتس کے آنے کے متعلق جو واقعات ہیں ان سب سے یہ لازم آتا ہے۔ کہ بہت سا وقت گزرا ہو گا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اس عرصے میں زیادہ سے زیادہ دو سفر ہوئے ہوں گے دو روما سے فلپی تک اور دو فلپی سے روما تک۔ اس کے علاوہ کچھ عرصہ اس کے لئے سمجھ لو کہ رسول کے روما میں پہنچنے کی خبر فلپیوں تک آئی۔ اور کچھ وقت اس میں بھی لگا ہو گا کہ فلپیوں کا چندہ اپفردویتس کے ہاتھ پولوس کو پہنچا۔ اس کا ذکر (۲: ۲۵اور۴: ۱۸) اور اس میں بھی کچھ وقت صرف ہوا ہو کہ جیسا (۲: ۲۶)میں درج ہے۔ کوئی قاصد روما سے فلپیوں کے اس احوال کو سن کر بڑے فکر مند ہونے کی خبر کوئی قاصد لوٹ کر پولوس کے پاس لے گیا۔

جب ہم روما اور فلپی کے درمیان سفر کی مدت کا حساب اپنی احتیاط کے ساتھ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک دفعہ سفر کرنے کے لئے عموماً ایک مہینہ کافی ہے۔ پس اگر بالفرض چار دفعہ بھی سفر ہوئے تو پولوس کے روما میں پہنچ جانے کے بعد سے اس خط کے روانہ ہونے سے پیشتر صرف چار مہینے یا اس کے قریب کا عرصہ گزرا ہو گا۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ جن چار سفروں کا لوگ یقین کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ چار نہیں بلکہ صرف دو ہی تھے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ فلپیوں نے پہلے ہی سن لیا ہو کہ رسول قید ہو کر روما کو جاتا ہے۔ اور یہ خبر سن کر اپفردوتیس فلپیوں کاچندہ لے کر ایسے وقت روانہ ہوا ہو کہ جب پولوس وہاں پہنچے تو وہ اس کر وہاں ملے۔ مگر خبر جو کچھ ہو سو ہو۔ یہ تو ضرور ہے کہ پولوس نے اپنا خط فلپیوں کو روما میں پہنچ کرکئی مہینوں بعد لکھا ہو گا۔ اور جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیںا س عرصے میں خاطر خواہ وقت مل گیا ہو گا کہ جو سفر اس امر کی حالتوں کے مطابق اُس طرف سے اِس طرف اور اِس طرف سے اُس ہوئے ہوں گے وہ پورے ہو جائیں۔

پنجم

آخری دلیل یہ ہے کہ(اعمال ۲۷: ۲) میں لکھا ہے کہ پولوس رسول کے دریائی سفر میں لوقا اور آرسترخس بھی اس کے ہمراہ تھے اور انہوں نے (کلیسو۴: ۱۰۔۱۴اور فلیمون۱: ۲۴)کے مطابق کلسی کے عیسائیوں اور فلیمون کو پولوس رسول کے سلام کے ساتھ اپنا سلام بھی بھیجا ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پولوس نے جو خط فلپیوں کے نام لکھا ہے اس میں دونوں شخصوں کے نام نہیں پائے جاتے ۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ یہ خط پولوس نے ان دو خطوط کے بعد لکھا ہو گا اور اس عرصے میں اس کے یہ دونوں ساتھی روما سے روانہ ہو کر چلے گئے ہوں گے۔

جو لوگ اس خط کے پہلے جانے کی تائید کرتے ہیں وہ اس دلیل کے جواب میں خیالات مندرجہ ذیل کو پیش کرتے ہیں۔

(الف)

جو دلیل کہ کسی بات کی خاموشی یعنی نہ تحریر کئے جانے سے پیدا ہوا کرتی ہے وہ ہمیشہ اس قدر بے تحقیق ہوا کرتی ہے کہ وہ آپ قطعی نہیں سمجھی جاتی۔ افسیوں کے خط میں نہ ارسترخس کا ذکر آیا ہے۔ نہ لوقا کا اور نہ تیمتھیس کا۔ اگرچہ اس بارے میں سب کا اقرار ہے کہ وہ خط اسی زمانے میں لکھا فیا تھا جبکہ کلیسوں اور فلیمون کے خط لکھے گئے تھے۔

ب

یہ بھی ممکن ہے کہ پولوس کے یہ دونوں ساتھی ان عام سلاموں اور مبارکبادوں کے بھیجنے میں شامل ہوں۔ جن کا ذکر(۴: ۲۱۔۲۲) میں ہواہے۔

ج

یہ بات قرین قیاس ہے کہ ارسترخس جو (اعمال ۲۷: ۲۔۵ اور۶) کے مطابق تھسلنیکیوں کا رہنے والا تھا۔ پولوس سے مقام میرا میں اس وقت علیحدہ ہو گیا ہو جبکہ پولوس کو اسکندریہ کی کشتی میں بٹھا کر روما کی طرف روانہ کیا تھا۔ پھر ارسترخس وہاں سے اپنے گھر کی طرف اسی کشتی میں سوا ر ہو کر چلا گیا ہو۔ اور کچھ عرصے بعد پولوس کے پاس روما میں آ گیا ہو۔ اگر ایسا ہوا تو جس دلیل پر ہم غور کر رہے ہیںاس سے یہ بات ثابت ہو گی کہ یہ خط پولوس کے روما میں قید ہو کر جانے سے پہلے زمانے میں لکھا گیا اس سے پیشتر کہ ارسترخس وہاں پہنچا ہو۔

د

یہ بات بھی ممکن ہے کہ پولوس نے لوقا کو کسی چند عرصے کے کام کے لئے روما سے کسی اور جگہ بھیج دیا ہو۔ جیسا کہ اس نے (۲: ۱۹۔۲۰اور۲۱) کے مطابق تیمتھیس کے بھیجنے کا ارادہ بیان کیا ہے اور اس وجہ سے لوقا اس خط کے لکھنے کے وقت موجود نہ تھا۔

غرض جب ہم ساری دلیلوں اور وجوہات کو میزان عقل میں رکھ کر تولتے ہیں تو جس پلڑے میں پولوس کے روما میں قید ہونے کے ابتدائی زمانے میں اس خط کے لکھے جانے کی دلیلیں آتی ہیں وہ پلڑا جھکتا ہوا معلوم ہوتا ہے یعنی یہ دلیلیں زیادہ تر قوی ہیں اور بشپ لائٹ فٹ صاحب جو ایک بڑے عالم مفسر ہیں انہوں نے بھی بڑے لائق طور پر اسی کی تائید کی ہے۔لیکن ہم ساتھ ہی یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ جو دلائل اس کے مقابلے میں ہیں وہ بھی بالکل بے اثر نہیں ہیں۔ اس رائے کی تائید میں اس بات کا بھی بیان کرنا لازم ہے کہ جب پولوس کے ان خطوں کی طرز تحریر اور مضامین کا مقابلہ جو اس نے اپنی پہلی قید کے درمیان لکھے ہیں۔ اول تو ان خطوں کے ساتھ کیا جائے جو اس کے خطوں کا باب بڑا مرکزی مجموعہ کہلاتا ہے یعنی کرنتھیوں۔گلیتوںاور رومیوںکے خطوں کے ساتھ اور پھر اس کے چوپانی خطوں کے ساتھ۔ تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ فلپیوں کا خط ان دونوںتسموں کے خطوں میں سے پہلی قسم کے خطوں کے ساتھ بہت زیادہ ملتا ہے خصوصاً ان خطوں میں سے سب سے پچھلے خط یعنی رومیوں کے نام کے خط کے ساتھ اس کے مشابہت بہت ہی ہے۔ اور افسیوں اور کلیسوں کے خطوں سے وہ اس قدر نہیں ملتا ہے۔ اس کے برعکس یہ دونوں خط صاف چوپانی خطوں کی مانند ہیں۔ غرض رومیوں کے خط اور فلپیوں کے خط کے باہم مشابہت کی باتیں اتنی اور ایسی قریب کی ہیں کہ ان سے خواہ مخواہ یہ نتیجہ پیدا ہوتا ہے کہ فلپیوں کا خط ایک درمیانی پیوند ہے۔ جو رسول کے ان خطوط کو جو اس نے اپنے تیسرے سفر کے درمیان لکھے تھے ان خطوں سے وصل کرتا ہے جو اس کلیسوں اور افسیوں کے نام لکھے ہیں۔

اس بات میں دلائل کا غلبہ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے ان خیالات کے ساتھ جو ہم نے اب تحریر کئے ہیں اس امر کا قطعی ثبوت ہے کہ فلپیوں کا خط پولوس نے اپنے روما میں قید ہونے کے اول اول زمانے میں لکھاتھا۔

پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ نہایت درجہ قرین قیاس ہے کہ یہ خط ۶۱ ءکے آخر میں یا ۶۲ ءکے شروع میں لکھا گیا تھا۔

۳یہ بات ہے کہ وہ کس موقع پر لکھا گیا ۔

اس امر کی بحث میں یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ کوئی شک کا مقام نہیں ہے کیونکہ اس بات کا فیصلہ خود اس خط کے مضمون اور عبارت سے ہو جاتا ہے۔(۲: ۲۵اور۴: ۱۸) سے یہ صاف ظاہر ہے کہ اپفردوتیس فلپی کے نومرید عیسائیوں کا فیاضیانہ چندہ پولوس رسول کے پاس آپ خود لے گر گیا تھا وہ پولوس کی خدمت ایسا سرگرم تھا کہ اس نے اپنے بدن کی صحت کا بھی کچھ خیال نہ کیا اس لئے وہ سخت بیمار ہو گیا۔پھر (۲: ۲۷سے۳۰) تک یہ ذکر ہے کہ وہ اس بیماری سے ابھی اچھا ہی ہوا تھا کہ اس کو یہ فکر دامنگیر ہوا کہ میری بیماری کی خبر سننے سے جو رنج والم فلپی کے عیسائیوں کو ہوا ہے میں اس کو دور کرنے کے لئے فوراً وہاں واپس چلا جاﺅں۔ اس لئے رسول نے غالباً روح القدس کے الہام سے اور جیسا (۱: ۲۷اور۲: ۲۔۳۔۱۴اور ۴: ۲) سے پایا جاتا ہے۔ کہ رسول کو اس بات کی خبر کی تھی کہ فلپی کے بعض عیسائیوں کی باہم نااتفاقی پھیل رہی ہے کسی قدر اس خیال سے بھی اس موقع پر یہ خط اپفردوتیس کے ہاتھ فلپیوں کے پاس بھیجا۔ اس خط سے رسول کی محبت جو اس کو فلپیوں کے ساتھ تھی اور ان کی روحانی بہبودی کے لئے اس کی دلی خواہش بڑے زور شوو کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ غرض خدا کی کار سازی سے ان باتوں کے باہم جمع ہونے کے باعث فلپیوں کا یہ خط ہم کو نصیب ہوا ہے۔

۴۔اس خط کی تصنیف کی صداقت

اول اس امر کا اندرونی ثبوت۔

یہ بات مشکل سے خیال میں آتی ہے کہ جو شخص اس خط کو بغور مطالعہ کرے وہ اس کی اصلیت کے بارے میں ذرا بھی شک کرے رسول نے اپنے دل کے بڑے گہرے گہرے خیال اور جوش اس طرح بلا تصنع اس خط میں کثرت کے ساتھ داخل کئے ہیں۔ اور اس کی طبیعت اور خصلت جو ہم سب کو اس کے معتبر حالات کے وسیلے سے معلوم ہے اس کی تصویر اس خط میں ایسی صحیح صحیح پائی جاتی ہے کہ اگر اس بات کا گمان بھی کیا جائے کہ یہ خط جعلی یا بناوٹی ہے تو دانستہً حماقت معلوم ہو گی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ یہ خط بناوٹی ہے تو اس کی تحریر کے لئے کوئی وجہ قائم کی نہیں جا سکتی۔ اس لئے باور اور اَور شخصوں نے جو یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ خط دوسری صدی کی بناوٹ ہے۔ ہم کو اس پر کچھ توجہ کرنے کی حاجت نہیں ہے۔ خاص کر اس لئے کہ جو نکتہ چینی انہوں نے کی ہے اس کو ایسی آزادانہ عقل کے عالموں نے جیسے ہل گن فلٹ۔ فلیڈرار۔ رینن اوروٹی شن ہیں جھوٹی جان کر رد کر دیا ہے۔ تا ہم مناسب ہے کہ ہم اس خط کی صداقت کے بارے میں جو تاریخی ثبوت ہیں ان کو مختصر طور پر بیان کر دیں۔

دوئم بیرونی شہادت۔

ہم رسولوں کے زمانے کے بزرگوں کی شہادت پہلے لکھتے ہیں۔ روما کا بزرگ کلیمنٹ نام جو پہلی صدی کے آخر میں تھا اپنی تحریر میں وہ عبارتیں کام میں لاتا ہے۔ جو (فلپیوں ۱: ۱۰اور۲۷) اور مقاموں کی تصویریں معلوم ہوتی ہیں۔ پس یہ امر بہت غالب ہے کہ وہ بزرگ اس خط سے واقف تھا۔

بزرگ اگنےئیش جب ۱۱۰ ٫ میں شہید ہونے کے لئے جا رہا تھا تو اس نے اثنا راہ میں کئی خط لکھے ہیں جن میں فلپیوں کے خط کی طرف ظاہر اشارے کئے ہیں دوسرے باب میں اس نے رومیوں کی طرف یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ میرا خون خدا کے حضور قربانی کے لئے چڑھایا جائے۔ اس بات کا (فلپیوں ۲: ۱۷) سے مقابلہ کرو۔ پھر یہ بزرگ فلدیفیہ کے مسیحیوں کو اپنے خط کے آٹھویں باب میں یہ فرماتا ہے کہ تفرقے کی طبیعت سے کچھ کام نہ کرو۔ اس بات کا (فلپیوں ۲: ۳)مقابلہ کرو۔ پھر وہ سمرنا کے عیسائیوں سے اپنے خط کے چوتھے باب میں یہ کہتا ہے کہ جس حال وہ جو کامل ہے یعنی خداوند مجھے مضبوطی بخشتا ہے تو میں ساری چیزوں کی برداشت کرتا ہوں۔ اس بزرگ کی یہ بات (فلپیوں ۴: ۱۳) کے موافق ہے۔ پھر وہ گیارہویں باب میں انہیں یہ فہمائش کرتا ہے کہ تم کامل ہو کر اپنے دلوں میں بھی کامل بن جاﺅ۔ بزرگ کا یہ خیال (فلپیوں ۳: ۱۵) کے خیال سے ملتا ہے۔

ایک اور بزرگ پالی کارپ نام جو دوسری صدی کے شروع میں گزرا ہے۔اپنے اس خط کے تیسرے اور گیارہویں بابوں میں جو اس نے ان ہی فلپیوں کی طرف لکھا ہے۔ اس بات کا صریح ذکر کرتا ہے۔ کہ پولوس رسول نے تم کو لکھا ہے اور اس کے خط کے مختلف مقاموں سے ویسے ہی الفاظ اور عبارت سننے میں آتی ہے۔ جیسی کہ پولوس کے فلپیوں کے خط میں ہے۔ مثلاً وہ اپنے خط کے پہلے باب میں یہ کہتا ہے کہ میں خداوند میں تمہارے ساتھ بہت ہی خوش ہوا۔ ایسے ہی الفاظ (فلپیوں ۴: ۱۰)میں بھی آئے ہیں۔

پھر دوسرے باب میں پالی کارپ نے یہ لکھا ہے کہ آسمان اور زمین میں ساری چیزیں اس کے تابع کر دی گئی ہیں۔ ایسے ہی الفاظ پولوس (فلپیوں ۲: ۱۰)میں کام میں لایا ہے۔ پھر وہ بزرگ اپنے خط کے پانچویں باب میں یہ لکھتا ہے کہ اگر ہم اس کے لائق ہم شہریوں کی طرح زندگی گزاریں۔ ایسا ہی خیال (فلپیوں۱: ۲۷) میں بھی پایا جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے خط کے بارہویں باب میں یہ لفظ لکھتا ہے کہ صلیب کے دشمن۔ (فلپیوں۳: ۱۸) میں بھی یہی لفظ ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے مقام ہیں جن میں ایک ہی طرح کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔

ڈیوجنی ٹس نے جو ۱۱۷ ٫کے قریب تھا اپنے خط میں یہ الفاظ لکھے ہیں کہ ان کی شہریت یا وطن آسمان میں ہے ان لفظوں کو فلپیوں کے تیسرے باب کی بیسویں آیت سے ملا کر دیکھو۔

جسٹن شہید اور ملیطو اور تھیافلوس بزرگ سب دوسری صدی میں گزرے ہیں اور یہ بھی اپنی اپنی تصنیفوں میں اس خط کے محاورے کام میں لاتے ہیں۔

وئنے اور لیئون کی کلیسیاﺅں کو جو خط کہ ۱۷۷ ٫میں تحریر ہوا تھا۔ اس میں (فلپیوں۲: ۶)کے یہ الفاظ درج ہیں کہ جس نے خدا کی صورت پر ہو کر خدا کے ساتھ برابر ہونے کو کوئی قیمتی بخشش نہ سمجھا۔

قدیم ترجموں میں جن کے درمیان سریانی زبان کا سب سے پرانا ترجمہ بھی داخل ہے۔ یہ خط شامل پایا جاتا ہے۔ اور دوسری صدی کی کتاب مقدس کے مختلف مسلم نخسوں میں بھی وہ موجود ہے۔ آئری نئس جو دوسری صدی میں کچھ عرصہ بعد گزرا ہے (فلپیوں ۴: ۱۸) کو نقل کر کے یہ کہتا ہے کہ یہ پولوس کا کلام ہے فلپیوں کے لئے۔

سکندریہ کا بزرگ کلیمنٹ بھی جو دوسری صدی کے پچھلے زمانے میں گزرا ہے۔ اس خط کی عبارت میں سے کئی بار نقل کر کے اس کی نسبت یہ کہتا ہے کہ یہ رسول یعنی پولوس کے الفاظ ہیں۔ طرطلس جو دوسری اور تیسری صدیوں کے درمیان زندہ تھا(فلیپوں ۳: ۱۱۔۱۲۔۱۳) نقل کرکے یہ کہتا ہے کہ ان کو پولوس نے فلپیوں کے لئے لکھا تھا۔ اور فلپی کے ذکر میں یہ لکھتا ہے کہ وہ ایک ایسی کلیسیا ہے جس کے پاس رسولوں کے اصلی خط موجود ہیں۔ اور مارشئن کے جواب میں (فلپیوں۱: ۱۴تا۱۸اور ۲:۶۔۷۔۸اور۳: ۵۔۱۹اور۲۰۔۲۱) کا صریح طرح سے حوالہ دیتا ہے۔ اور یہ بھی کہتا ہے کہ یہ خط فلپی کی کلیسیا کے درمیان اس کے زمانے تک برابر پڑھا جاتا تھا۔

غرض اس خط کی صداقت کے بارے میں ابتدائی کلیسیا کی ساری کتابوں میں کہیں ذرا شک کا نشان بھی نہیں ملتا۔

۵۔تاریخی اعتبار سے اس خط کی قدرو منزلت

یہ امر ضرور اور واجبی ہے کہ مسیح کی زندگی اور تعلیم کا حال جو شخص مطالعہ کرنا اور جاننا چاہے وہ اپنے اس علم کی بنیاد سب سے اول اور سب سے مقدم چاروں انجیلوں پر قائم کرے۔ اور جو لوگ مسیح کو نہیں مانتے وہ تو خاص کر لیکن جو مسیح کے پیرو ہیں ان میں سے بھی ایسے شخس تھوڑے ہوں گے جو نئے عہد نامہ کے خطوں کو اس خیال سے پڑھتے ہوں گے۔ کہ ان سے انجیل کا حال معلوم کریں۔ لیکن اگر ہمارا یہ خیال ہو کہ انجیلیں جیسی کہ وہ اس وقت ہمارے پاس موجود ہیں۔ اس عرصے تک لکھی نہیں گئی تھیں۔ جبکہ پولوس رسول کے اکثر خط تحریر ہو گئے تھے تو یہ امر ظاہر ہے کہ مسیح کی زندگی اور تعلیم کے بارے میں جو گواہی کہ ان خطوں سے حاصل ہوتی ہے وہ مسیح کے کلام اور کام کے بارے میں تاریخی شہادت کا ایک گراں مایہ اور ضروری حصہ ہے۔

اگر ہم ایک عام بات یہ کہیں تو بجا ہے کہ چاروں انجیلیں ایسی باقاعدہ تصنیفیں ہیں جن میں ان کے مصنفوں نے اس امر کو اپنے مدِنظر رکھا ہے کہ ان میں وہ کلیسیا اور ساری دنیا کے لئے مسیح کی زندگی اور گفتگو کا احوال بیان کریں۔ اس کے برعکس رسولوں کے خط وہ تصنیفیں ہیں جن کے لکھنے کی ضرور ت بعض خاص موقعوں پر پیدا ہوئی تھی۔ اور ان کے لکھے جانے کا مقصد یہ تھا کہ خاص خاص وقتوں پر بعض خاص خاص کلیسیاﺅں میں جو ضرورتیں پیدا ہو گئی تھیںوہ رفع کی جائیں۔ یہ بات ہم ابھی فلپیوں کے خط کے بارے میں بیان کر آئے ہیں۔ پس اگر وہ اتفاقیہ شہادت جو ان اتفاقی تحریروں سے بہم پہنچتی ہے۔ اناجیل اور اعمال کی کتابوں کی گواہی سے کہ جو باقاعدہ نوشتے ہیں مطابق و موافق پائی جائے تو اس صورت میں ان دونوں نوشتوں کی صداقت کی قدرو منزلت تاریخی اعتبار سے اور بھی بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ ہم نے فلپیوں کے خط کی مطابقت کا حال اعمال کی کتاب کے ساتھ تو دیباچے اور توضیع میں کافی طور پر پہلے بیان کر دیا ہے۔ اگر ہم اب ذرا اس کے امر کا کچھ بیان کریں کہ اس خط کو انجیلوں کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ تو وہ فائدے سے خالی نہ ہو گا۔

ہم دبیاچے کے تیسرے باب میں بیان کر آئے ہیں کہ اس خط کو پولوس رسول نے ۶۲ ٫ کے قریب تحریر کیا تھا۔ اور خداوند مسیح ۳۰ ءکے قریب اول مصلوب ہوا اور پھر مردوں میں سے زندہ ہو گیا۔ پس ان دونوں کے درمیان بہ مشکل ایک پشت کا زما نہ گزرا تھا اس لئے بہت سے لوگ زندہ تھے۔ جن کو یا تو ان واقعات اور اقوال کا ذاتی علم تھا جو انجیلوں میں درج ہوئے ہیں یا جنہوں نے ان واقعات کا حال راہ راست ان لوگوں سے سنا تھا جو خود ان باتوں کے گواہ تھے۔ فرض کرو کہ انجیل کے اس بڑے واعظ یعنی پولوس نے جو پہلی صدی کے درمیان انجیل کی منادی کی اس کا ہمارے اس صرف یہی خط ایک تحریری یاد گار ہوتا۔ تو ہم اس سے انجیل کی تاریخ اور تعلیم کا حال کہاں ۱ تک مرتب کر سکتے۔ اور جو نوشتے کہ چاروں انجیلوں کے نام سے مشہور ہیں ان کی کون کون سی باتوں کی مطابقت اس سے ہوتی۔

ہم مسیح کی زندگی کے بڑے بڑے واقعات کو اول لیتے ہیں۔ جس شخص کو کسی اور طرح سے ان حالات کی واقفیت نہ ہو اس کو مسیح کے بارے میں یہ باتیں وہ خدا کی صورت میں اور خدا کی برابر حالت میں موجود تھا۔ اس امر کے ثبوت میں (فلپیوں ۲: ۶) کا(یوحنا ۱: ۱۔۲۔۳اور۱۵ اور۱۸اور۱۳: ۱اور۳اور۱۷: ۵) سے مقابلہ کرو۔ پھر یہ بات کہ اس نے اپنی مرضی سے اس اپنے الٰہی مرتبے سے کام لینے کو درکنار رکھ کر انسانی طبیعت کو اختیار کر لیا۔ اس بات کے لئے (فلپیوں۲: ۷)کو (یوحنا ۱: ۱۴) سے ملا کر دیکھو۔ پھریہ امر کہ مسیح نے دکھ اٹھایا اور صلیب پر جان دی (فلپیوں ۳: ۱۰ اور۲: ۸) سے معلوم ہوتاہے۔ اور یہ بات کہ مردوں میں سے پھر جی اٹھا اور اپنے اصلی بدن کے ساتھ جو اب جلالی ہو گیا تھا آسمان پر سرفراز ہوا (۳: ۱۰ اور۲۱اور۲: ۹) سے ظاہر ہے۔ اور یہ بات کہ اس کو ساری چیزوں پر اختیار حاصل ہے (۳: ۲۱) کا (متی ۱۱: ۲۷ اور ۲۸: ۱۸) سے مقابلہ کر کے معلوم ہو سکتی ہے۔ اور یہ امر کہ خداوندی لقب کے لئے اس کا دعویٰ واجبی ہے۔ (۲: ۱۱) اور (یوحنا ۱۳:۱۳) سے ثابت ہے۔ اور یہ بات کہ وہ نجات دینے والا اور انصاف کرنے والا بن کر پھر آئے گا۔ (۳: ۲۰اور۱: ۶)کو (متی ۱۶: ۲۷)اور (لوقا۲۱: ۲۷اور۲۸) کے ساتھ مقابلہ کر کے دریافت ہو سکتی ہے۔ اب رہی مسیح کی تعلیم۔ اس کے بارے میں اس کتاب کے پڑھنے والے دیکھ لیں کہ خط کے شروع ہی میں پولوس اپنے آپ کو (۱:۱) میں مسیح کا غلام مانتا ہے اور اس سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ مجھے اور دیگر شخصوں کو درکنار رکھ کر صرف اسی کی فرمانبرداری مطلق طور پر کرنی واجب ہے۔ اس امر کے متعلق (متی ۱۰: ۳۷)اور (لوقا ۱۴: ۲۶)بھی پڑھنے کے لائق ہیں۔ پھر یہ امر کہ مسیح کی خاطر دکھ اٹھانا نہایت فخر کی بات ہے۔ (لوقا ۶: ۲۲۔۲۳اورمرقس ۸:۳۵)کا (فلپیوں ۱: ۲۹اور۳: ۷) سے مقابلہ کر کے معلوم ہو سکتا ۲ ہے۔اور یہ بات کہ مسیح کے نمونے پر چلنا سب سے اعلیٰ بات ہے (یوحنا۱۳: ۱۴)اور(فلپیوں۲: ۵) سے عیاں ہے۔ پھر یہ بات کہ خدا جو ہمارا آسمانی باپ ہے اپنے بچوں کو جو اس سے مانگتے ہیں ساری ضروری بخشیں عنایت کرتا ہے اس خط کے (۴: ۶)اور متی ۷:۷تا۱۱)سے ظاہر ہے۔ اور یہ کہ خدا ہمارا آسمانی باپ خاص کر اپنی پاک روح ان کو دیتا ہے جو مانگتے ہیں (فلپیوں ۱۹:۱)اور (لوقا۱: ۱۳) سے ظاہر ہے اور یہ بات کہ خدا کی پرستش مقبولیت کے لائق صرف اس روح ہی میں کی جا سکتی ہے۔ (فلپیوں ۳:۳)اور (یوحنا ۴: ۲۳۔۲۴)سے ثابت ہوتی ہے۔ اور یہ بات کہ مسیحی زندگی انسان میں جب پیدا ہوتی ہے کہ خدا اس کو سنبھالے (فلپیوں۳: ۱۲)اور (یوحنا ۶: ۴۴) سے پائی جاتی ہے اور یہ امر کہ باوجود اس کے یہ بات بھی ضرورمفہوم ہے کہ انسان کو بھی اپنی طرف سے نہایت جانفشانی کے ساتھ اس بات کی کوشش کرنی چاہئے۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ اس زندگی کے درخت میں کچھ پھل نہ لگے گا۔ (لوقا ۱۳: ۲۴) اور (فلپیوں ۲: ۱۲۔۱۳اور۳: ۱۳۔۱۴) سے مترشح ہے۔ اور یہ امر کہ ہر عیسائی کا فرض ہے کہ اپنے ایمان کو پھیلائے اس خط کے (۱: ۲۷)اور (متی ۲۸: ۱۹)سے معلوم ہوتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہر مسیحی کو گندی طبیعت کے لوگوں کے ساتھ جن کی تشبیہہ کتوں سے دی گئی ہے راہ و رسم رکھنے سے خبردار رہنا چاہئے۔ یہ بات اس خط کے (۳: ۲)اور (متی ۷: ۶) سے واضح ہے۔ اور یہ امر کہ مسیحی کو اس کا انعام آئندہ یہ ملے گا۔ کہ وہ اپنے خداوند مسیح کو حاصل کرے گا۔ اور اس کے ساتھ رہے گا۔ اس خط کے (۳: ۸اور۱: ۲۳)سے اور اسی کے مقابلے میں (لوقا۲۳: ۳۹)اور(متی ۲۵: ۳۴)سے معلوم ہوتا ہے۔ اور یہ بات کہ وہ لوگ جو خدا کے لوگوں میں داخل ہوتے ہیں جن کا ذکر اس خط کے (۴: ۳)اور (لوقا۱۰: ۲۰) میں لکھا ہے ان کو لازم ہے کہ وہ اب اس بات کو اپنے باہمی پیارو محبت کے وسیلے ظاہر کریں۔ اس خط کے (۲:۲)اور (یوحنا ۱۳: ۳۵) سے ثابت ہے اور یہ امر کہ وہ اطمینان جو مسیح کے اندر رہنے سے حاصل ہوتا ہے ان کے دلوں میں ہمیشہ رہے گا۔ (فلپیوں ۴: ۷۔۹)اور( یوحنا ۱۴: ۲۷) آیت سے معلوم ہوتا ہے۔

غرض یہ وہ بڑی بڑی باتیں ہیں کہ جو اس مختصر خط میں انجیلی نوشتوں سے صریح ملتی ہیں اس طرح نہیں کہ وہ نقل کی گئی ہوں بلکہ صرف اس طرح کہ وہ ظاہراً ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہیں۔ اگر کوئی شخص غور کے ساتھ ان باتوں کا پولوس کے اور خطوں کے ساتھ مقابلہ کرے گا۔ تو اس کو آسانی سے معلوم ہو جائے گا کہ رسول نے ان ہی باتوں کو اور خطوں میں کس قدر پھیلا کر اور بڑھا کر بیان کیا ہے۔

۶۔اس خط کی خاص علامتیں اور مضامین

جو شخص اس خط کو بغور پڑھے گا۔ اس کو اس کی بڑی بڑی علامتیں فوراً ظاہر ہو جائیں گی۔ جو پیغام اس سے ہم کو ملتے ہیںوہ صاف اور ظاہر ہیں۔ اس کے بڑے بڑے نشان ایسے صاف و صریح طور سے بیان کئے گئے ہیں کہ ان کے سمجھنے میں غلطی نہیں ہو سکتی۔

اول نشان تو اس خط کا یہ ہے کہ اس میں کسی امر کے بحث وتکرار نہیں ہے

پولوس کو فلپی کی کلیسیا میں اس بات کی کچھ ضرورت نظر نہیں آئی جیسی کہ گلیتوں اور کرنتھیوں کی کلیسیاﺅں میں تھی کہ اپنے مخالف دینی معلموں کے مقابلے میں اپنے رسولی اختیار کو قائم رکھنے کی حمایت میں کچھ بحث و مباحثہ کرے فلپی کے مسیحی اپنے اس استاد کی اطاعت اور وفاداری میں بلا انحراف قائم رہے جس نے حیات و آرام جاودانی کی راہ میں ان کی ہدایت کی تھی۔ ان کے دل محبت و احسان مندی کی مضبوط بندشوں سے اس کے ساتھ وابستہ تھے۔ جیسا کہ اس خط کے (۴: ۱۰تا۱۸) سے ظاہر ہوتا ہے۔ انہوں نے اس کی ضرورتوں کے وقت اس کی مدد اور خدمت کر کے اپنی پختہ الفت کا اظہار بار بار کیا۔ جس طرح کہ پولوس نے اس خط کے (۱:۱) فلپی کے مسیحیوں کو خطاب کیا ہے اگر اس کا رومیوں اور اول کرنتھیوں اور دوکرنتھیوں اور گلیتوں کے خطوں کے پہلے بابوں کی پہلی آیتوں کے خطابوں سے مقابلہ کیا جائے تومعلوم ہوجائے گا کہ پولوس نے اسی لئے اس بات کو مناسب نہ سمجھا کہ ان کی طرف مخاطب ہو کر اپنے آپ کو ان کارسول بیان کرے بلکہ ان کو اس طرح خط لکھا ہے کہ جس طرح ایک دوست اپنے دوستوں سے باتیں کرتا ہے اور اپنے دل سے ان کے دلوں کو چھوتا ہے۔

اس کے علاوہ فلپی کے عیسائیوں کی جماعت میں تعلیم و مسائل کی کوئی سخت غلطی برپا نہیں ہوئی تھی جس سے ان کی طبیعتیں الجھتیں اور رسول کو بھی خدشہ پیدا ہوتا۔ وہ اسی ایمان پر پختہ طرح سے قائم تھے جو کہ ہمیشہ کے لئے مقدسوں کو ایک بار سونپا جا چکا ہے۔ اس بات میں یہ خط کلیسوں کے خط سے جو روما کے اسی قید خانے میں سے لکھا گیا تھا اور اسی طرح ان خطوں سے جو رومیوں اور گلیتوں اور کرنتھیوں کے پاس ان سے پہلے بھیجے گئے تھے ایک علیحدہ طرح کا خط ہے۔ یہ بات تو ہے کہ پولوس نے اس خط کے دوسرے باب میں ایک طرف تو یہودی بننے سے خوب متنبہہ کیا ہے اور دوسری طرف ائنٹی نومئن فرقے کے مسائل سے انہیں خبردار کیا ہے۔ تا ہم ہمارے پاس اس بات کے یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان دونوں غلطیوں میں سے کوئی بھی خاص طرح سے ان کے درمیان پھیل رہی تھی شاید یہ بات ہو کہ چونکہ رسول کے دل میں ایسی باتوں کی طرف سے سچا اندیشہ رہا کرتا تھا۔ اس لئے جب اس نے دیکھا کہ ان مضرباتوں کا گھاس پھوس فلپی کی کلیسیا میں پیدا ہونے لگا ہے تو فوراً اس کے اکھاڑ ڈالنے کی کوشش کی۔ غالباً اس نے ان کو اس امر میں نصیحت کے کلمے لکھنا اس وجہ سے مناسب سمجھا کہ اس نے ان کے درمیان تو نہیں بلکہ کہیں باہر اورکلیسیاﺅں میں ایسی غلطیاں دیکھی تھیں ممکن ہے کہ جیسا (فلپیوں ۱: ۱۵اور۱۷) اور (رومیوں۶: ۱اور۲) سے پایا جاتا ہے۔ رسول کے ارد گرد خود روما میں یہ حال تھا۔ پولوس کے ان پیارے شاگردوں کو غلطی کے لے کسی سخت لعن طعن کی ضرورت نہ تھی۔ رسول نے جو اطمینان و خوشی و صلح کا پیغام فلپی کے مسیحیوں کو بھیجا ہے اس کو کسی تکرارو بحث مباحثے کے طوفان سے آسیب نہیں پہنچا ہے۔

دوسرا نشان یہ ہے کہ اس خط میں پولوس کی طرف سے اس کی ذاتی محبت کے اظہار بہ کثرت ہیں۔

(۱: ۳) سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بڑا رسول اپنے فلپی کے دوستوں کا ایمان دیکھ کر بڑا ہی شکر گزار تھا۔چوتھی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کے لئے ہمیشہ بڑی خوشی کے ساتھ دعا مانگتا رہتا تھا۔ پھر آٹھویں آیت سے دریافت ہوتا ہے کہ اس کے دل میں ان سب کے لئے مسیح یسوع کی سی الفت کے ساتھ مفارقت کے باعث سے بڑے جوش کے ساتھ ولولے اٹھا کرتے تھے اور اسی(۱: ۲۳اور۲۶) تک یہ بیان ہے کہ اگرچہ رسول اپنی ذاتی خواہش سے تو یہ مانگتا تھا کہ اس دنیا سے رخصت ہو جائے اور مسیح کے پاس چلا جائے جو بہت زیادہ بہتر بات ہے تا ہم ان کی خاطر وہ اس للچانے والی امید سے دست بردار ہو کر آزمائش اور مصیبت کی حالتوں میں رہنے کے لئے اس وجہ سے خوشی کے ساتھ تیار ہے کہ ان کی خدمت کچھ اور کر سکے۔ (۲: ۱۷) سے ظاہر ہے۔ کہ اگر ضرورت پیش آتی تو رسول ان کے لئے اپنی جان بھی دے دینے کے لئے بڑی خوشی کے ساتھ تیار تھا۔ پھر اسی (۲: ۲۵سے۳۰) تک رسول یہ فرماتا ہے۔ کہ مجھے اس قدر محبت اور دل کے ساتھ ان کا خیال رہتا ہے کہ میں خوشی سے گوارا کروں گا کہ اپنے ایک حقیقی آرام کو ترک کر کے اپفرودتیس کو ان کے پاس واپس جانے دوں۔ اور اسی (۲: ۱۹سے۳۰) تک رسول یہ لکھتا ہے کہ وہ مسیح میںاپنے عزیر بیٹے تیمتھیس کو بھی ان کے پاس بھیج دینے کو تیار رہے پھر (۴: ۱۰سے۱۸) تک رسول کہتا ہے۔ کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم کو معلوم ہو جائے۔ کہ تمہارے محبت آمیز خیال اور بخششوں سے مجھے خوشی کی کس قدر دولت حاصل ہوئی ہے ان کی یہ بخشش اس قدر خوشبو دار تھیں کہ جس قدر نہایت میٹھی خوشبوئیں ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان سے ان کی سچی محبت کی مہکیں نکلتی تھیں۔

غرض کہ یہ سارا خط ایک اعلیٰ دل کی پاک محبت کے عجیب اور از خود جوش سے پھررہا ہے۔

تیسرا نشان اس خط کا یہ ہے کہ وہ مسیحی یگانگت کے لئے ایک چوپانی ہدایت نامہ ہے۔

فلپی کی کلیسیا کی بڑی خوبصورت حالت پر ایک داغ پڑ جانے کا اندیشہ تھا۔ کیونکہ ان کے درمیان ایک کڑوی جڑ ہری ہوتی جا تی تھی۔ جس سے بہتوں کے بگڑ جانے کا واقعی خطرہ تھا۔ وجہ یہ تھی کہ وہاں کی جماعت میں جھگڑالو طبیعت پیدا ہوتی جاتی تھی۔ اور غالباً اس کا باعث یہ تھا کہ وہاں کے لوگوں کے درمیان ذاتی نفاق پڑ گئے تھے۔ (۴: ۲) سے معلوم ہوتا تھا۔ کہ خصوصاً دو عورتیں جن کا نام بوآوڈیا اور سنٹخی تھا ان برے جھگڑوں میں سر غنہ تھیں۔ یہ بیماری ابھی ایک بہت بڑھ نہ گئی تھی کہ رسول نے اس کو کھودینے کی دلی امید سے جھٹ اپنی انگلی سے ٹھیک اسی مقام کو جا چھوا جہاں مواد پک رہا تھا۔ اور ناسور پڑ جانے کا ڈر تھا۔ وہ اس کے خطرے کو بڑی حکمت ودانائی سے بتاتا ہے اور اپنی ہمدردی کی طبیعت کی تمام نرمی کے ساتھ ان کی منت و سماجت کرتا ہے کہ نفاق اور جھگڑوں سے باز آﺅ۔ اور نہایت گہرے درجے کا مسیحی اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرو (۱: ۱۔۴۔۷۔۸) میں رسول کہتا ہے کہ میں تو اپنی طرف سے تم سب کے ساتھ محبت رکھتا ہوں اور ستائیسویں آیت میں ان سے فرماتا ہے۔ کہ تم بھی اپنی طرف سے ایک روح میں مضبوطی کے ساتھ قائم رہو۔ اور سب مل کر انجیلی ایمان کے لئے جانفشانی کرو۔ پھر (۲: ۱سے۴) تک رسول ان سے کہتا ہے کہ اگر تم میرے کو خوش کرنا چاہتے ہو۔ تو ہر طرح کے تفرقے اور جھوٹے فخر کو اپنے درمیان میں سے دور دفع کر کے روح القدس کی یگانگت میں باہم ایک دل ہو جاﺅ۔ پھر پانچویں سے آٹھویں آیت تک وہ انہیں نصیحت کرتا ہے۔ کہ ساری باتون میں مسیح کا مزاج۔ اور خود انکاری اور خود انکساری اور حقیقی فروتنی کی طبیعت پیدا کرو۔ اس کے بعد چودہویں اور پندرہویں آیتوں میں وہ ان سے درخواست کرتا ہے۔ کہ تمام شکایتیں اور تکراریں چھوڑ کر دنیا میں خدا کے نورانی ستاروں کی طرح ایسی روشنی کے ساتھ چمکو۔ جس میں دھندلا پن یا کچھ شک وشبہ پایا نہ جائے۔ پھر (۲: ۳،۴) میں یہ صلاح دیتا ہے کہ جن عورتوں کے باعث سے جھگڑا پیدا ہوا تھا۔ وہ آپس میں میل وملاپ کر لیں۔ اورپانچویں آیت میں یہ نصیحت کرتا ہے کہ جہاں پہلے اپنے اپنے خیال کی پچ میں مخالفت ہوتی تھی اب خود غرضی کو ہٹا کر اس کی جگہ برداشت کا مزاج اختیار کیا جائے۔ اوراسی (۱: ۴سے۱۳) تک رسول کہتا ہے کہ اس طرح سے کلیسیا کو خدا کی خوشی اور اطمینان اور قوت حاصل ہوجائے گی۔

چوتھی بات اس خط میں یہ ہے کہ وہ خاص خاص لفطوں اور خیالوں کے جواہرات سے مرصع ہو رہا ہے۔

اس خط کے پڑھنے سے معلوم ہو جائے گا کہ اس کے اندر بعض الفاظ ایسے پر معنی ہیں۔ کہ ان کواس خط کے وقفوں کی کنجیاں کہنا بجا ہے۔ اور اس میں بعض بعض بڑے موثر مضامین بھی ہیں۔ ان دونوں باتوں سے اس خط کی صورت و شکل وقرار دی جاسکتی ہے۔ جو حق باتیں کہ ان لفظوں کی کنجیوں سے کھل پڑتی ہیں۔ وہ گویا طلاتی زیور کے اندر ہیرے جڑے ہوئے ہیں۔ جو پڑے جھلک رہے ہیں۔ ان کی خوبصورتی سے سارے خط کی رونق دو چند ہو جاتی ہے۔ ان سے طالب علم کے خیال ایسی ایسی طرف دوڑتے اور ان سے کام لینے کے ایسے ایسے طریق اسے سوجھتے ہیں۔ کہ ان سے اس کو کمال درجے کا فائدہ پہنچتا ہے۔ اس بارے میں آٹھواں عنوان نمونے کی طرح پڑھنے کے لائق ہے۔

(الف)یہ خط مسیح کے نام سے بھرا پڑا ہے۔

اس میں لفظ مسیح ۷۳ دفعہ آیا ہے۔ ہر باب میں یہ لفظ صاف صاف اور نمایاں مقام پر نصب ہے بشپ لائٹ فٹ کا یہ خیال درست ہے کہ اس خط کے پڑھنے سے ہمارا دل علم الٰہی اور کلیسیائی مخمصول سے ہٹ کر انجیل کی عین جگری اور مرکزی بات یعنی مسیح کی زندگی کی طرف اور جو زندگی کہ مسیح میں گزاری جاتی ہے۔ اس کی طرف رجوع ہوتا ہے۔ اس میں جو مسیح کا حال درج ہے۔ وہ بذات خود ایک مطالعہ کے لائق امر ہے۔ اور جو شخص غور کے ساتھ اس کا مطالعہ کرے گا۔ اس کو اس سے بڑا بھاری فائدہ ہو گا۔

اس مطالعہ کی مدد سےمسیح کے متعلق بہت سی باتیں ہم کو روشن معلوم ہونے لگتی ہیں۔

مثلاً مسیح کے ساتھ ہمارا تعلق

خواہ ہم اس کے خادم ہوں خواہ اس کے مقدس لوگ خواہ اس کے لئے قیدی خواہ اس کے ایمان کااقرار کرنے والے ہوں۔

پھر یہ کہ مسیح میں ہونے سے ہم کو کن کن چیزوں پر قبضہ مل جاتا ہے۔

فضل۔ صلح۔ آرام۔ خوشی۔ عرفان۔ راستبازی۔ مضبوطی روحانی دولت اور روح کی بخشش پر۔

پھر یہ کہ مسیح کے سامنے ہم کن کن باتوں کے لئے ذمہ دار ہیں۔

پھل لانے کے لئے۔ اس کی منادی کرنے کے لئے۔ اس کی عظمت بڑھانے کے لئے۔ اس کی سی زندگی گزارنے کے لئے۔ اس کی خاطر دکھ اٹھانے کے لئے۔ اس کی سی طبیعت دکھانے کے لئے۔ اس کا کام کرنے کے لئے۔ اس کی صلیب اٹھانے کےلئے اور اس کے ظہور کے منتظر رہنے کے لئے۔ غرض مسیح کے بارے میں یہ اور اور بہت سے حق امر ہیں کہ اس خط کو بغور پڑھنے سے ہم پر خوب طرح واضح ہو جائیں گے اور اس مطالعہ کے بعد ہم دیکھیں گے کہ ہماری روش اور دنیاوی جنگ میں ہم کو اس سے کس قدر مضبوطی ہو گئی ہے اور ہمارے دل کا یہ پختہ ارادہ ہو گیا ہے۔ کہ اس خط کی طرح ہم بھی بالکل مسیح کے بن جائیں اور اسی سے معمور ہو جائیں گویا کہ مسیح ہمارے اندر ایک سرے سے دوسرے سرے تک سرایت کرے۔

(ب)یہ ایک ایسا خط ہے۔ جو خوشی سے مالا مال ہے۔

خوش ہونے کے لئے اس خط میں بار بار تاکید ہو گئی ہے۔ اس ایک مختصر سے خط میں خوشی یا خوش ہونے کا لفظ سولہ دفعہ آیا ہے۔ (۴: ۱)میں ایک دفعہ اٹھارہویں میں دو دفعہ۔ پچیسویں میں ایک دفعہ۔ دوسرے باب کی دوسری آیت میں ایک بار۔ سترہویں آیت میں دو بار۔ اٹھارہویں میں دو بار۔ اٹھائیسویں میں ایک بار۔ اور انتیسویں میں ایک بار۔ تیسرے باب کی پہلی آیت میں ایک دفعہ۔ پھر چوتھے باب کی پہلی آیت میں ایک بار اور چوتھی میں دو بار اور دسویں میں ایک بار۔ ہر ایک باب میں یہ لفظ ہم کو نظر آتا ہے۔ اس خط میں ہم جہاں کہیں پر پھر کے دیکھتے ہیں۔ یہی لفظ ہمارے سامنے آتا ہے۔ غرض کہ پولوس رسول نے جو پیغام اپنے نومرید فلپیوں کے پاس بھیجا ہے۔ اس میں اس کا یہ کلام کہ تم خداوند میں خوشی کرو۔ بار بار آتا ہے۔ اور روح القدس کا پیغام ہم سب کے لئے بھی یہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پولوس کے قید خانے میں سے ایسا ایک خوشی کا پیغام آنا در حقیقت بڑی عجیب بات ہے۔ ایسے وقت میں جب کہ مصیبت اور خطرے کا بادل چاروں طرف سے اس کے اوپر جھوم رہا تھا۔ لیکن کسی شخص کا یہ کیا خوب کلام ہے کہ خدا کے پرندے اندھیرے پنجروںمیں بھی بیٹھے ہوئے خوش الحانی سے گایا کرتے ہیں۔ یہی بات اس موقعہ پر صادق آتی ہے۔ کیونکہ کلام الہام میں جو شاید سب سے زیادہ شریں خوشی کا گیت ہے وہ رومہ کے قید خانے میں سے نکلا ہے۔ ہم سب بھی اس خط سے یہ سبق سیکھیں کہ ہمارے دل اس خوشی سے جو پاک اور در حقیقت الٰہی خوشی ہے ہمیشہ لبریز رہیں۔

(ج )اس خط کا

ایک یہ بھی نشان ہے کہ وہ پاک دلی کے کلام سے پھر رہا ہے۔ اس معنی کے لفظ اس خط میں کل دس دفعہ آئے ہیں۔ (۱: ۷اور۲: ۲۔۳اور۵ اور۳: ۱۵)میں دو بار اور انیسویں میں ایک بار۔ اور (۴: ۲) میں ایک بار۔ اور دسویں میں دو بار۔ اور (۳: ۱۶) میں جو لفظ ہے اس کو ہم سب سے معتبر قلمی نسخوں کے مطابق حساب سے خارج کردیتے ہیں۔ جو لفظ اس خیال کے لئے اصل یونانی میں کام میں آیا ہے۔ اس کے معنی میں دل اور مرضی اور عقل اور خیال ان سب کے عمل داخل ہیں۔ پس رسول کی نیت فلپی کے عیسائیوں کے لئے یہ تھی کہ وہ اپنے دل اور عقل اور مرضی سب کی توجہ پاکیزہ طرح سے اکٹھی کر کے اس ایک بات کی طرف لگائیں کہ ان کے خدا اور منجی کا جلال ترقی پائے۔ اس کی بڑی آرزو یہ تھی کہ مسیح کا سا مزاج یا دل یا طبیعت ان کے دلوں میں پوری پوری طرح پیدا ہو جائے۔ کیونکہ اگر اس معنی میں ان کے مزاج یا دل درست ہوجائیں گے۔ تو ان کی زندگی بھی ضرور درست ہو جائے گی۔ (۳: ۱۹) میں لکھا ہے کہ اور لوگ ہیں۔ جن کا دل دنیاوی چیزوں پر لگا ہوا ہے۔ پس وہ ایسا کریں تو کریں۔ مگر لازم ہے کہ ہر وفادار مسیحی اپنی ساری قوت سے جو خدا کی روح پاک اس کے اندر ڈالتی ہے۔ اپنے دل اور عقل اور مرضی کو مسیح اور اس کی پاکیزگی پر لگائے۔

(د)چوتھا نشان اس خط کا یہ ہے کہ شراکت یا رفاقت کا لفظ بھی اس میں بڑی کثرت سے آیا ہے۔

جب ہم اس خط پر اول اول نظر کرتے ہیں۔ تو حیران ہو جاتے ہیں۔ کہ جس یونانی حرف ربط کے معنی ہیں ساتھ اور جس کا مطلب ہوا کرتا ہے۔ قریب کی رفاقت یا شراکت اور نہایت گہری طرح کی صحبت یا قربت وہ استعارے کے لفظوں کے ساتھ مرکب ہو کر اس خط میں بڑی کثرت سے کام میں آیا ہے ان مرکب مشترک لفظوں کے پڑھنے ہی سے تفرقوں اور پھوٹ کی طبیعت مٹ جانی چاہئے۔ جب ہم ان لفظوں کے معنی پر غور کرتے ہیں۔ تو ہمارے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے۔ کہ جن تعلقات کے رشتوں سے وہ سب جو ہمارے خداوند یسوع مسیح سے صدق دلی کے ساتھ محبت رکھتے ہیں باہم پیوستہ ہیں۔ وہ سب رشتے یا بند کیسے قریب کے اور کیسے سچے بند ہیں۔ان مرکب لفظوں کی فہرست جن کے معنے میں شراکت یا رفاقت کا خیال شامل ہے۔ ذیل میں درج ہے۔

  1. (۷: ۱اور۴: ۱۴) آیتوں میں کسی کام کے کرنے میں ساتھ ہو کر شریک ہونے کا مرکب لفظ اور خیال کام میں آیا ہے۔ پہلے مقام میں تو باہم مسیح کے فضل میں شریک ہونے کا کام ہے اور دوسرے میں باہم ہو کر مسیح کے لئے مصیبتوں میں شریک ہونے کا لفظ ہے۔
  2. پھر (۱: ۲۷اور۴: ۳) میں ایک ساتھ ہو کر لڑنے کا مرکب لفظ آیا ہے۔ یعنی اکٹھے ہو کر مسیح کے لئے لڑنا یا جدوجہد کرنا۔
  3. پھر (۲:۲) میں متفق ہو کر روح میں شریک ہونے کا مرکب لفظ اور خیال واقع ہوا ہے۔ یعنی کہ دل اور روح دونوں کے اعتبار سے مسیح میں باہم ایک یا متحد ہو جانے کا خیال۔
  4. (۲: ۱۷اور۱۸) میں خوشی کرنے میں شریک ہونے کا خیال درج ہے۔ کیونکہ پولوس یہاں فلپیوں کو لکھتا ہے کہ تم بھی میرے ساتھ شریک ہو کر خوشی کرو۔
  5. پھر (۲: ۲۵اور۴: ۳) میں باہم شریک ہو کر کام کرنے والوں کا لفظ ہے۔ کیونکہ ان مقاموں پر رسول یہ خیال ظاہر کرتا ہے۔ کہ فلاں فلاں شخص مسیح کا کام کرنے میں میرے ساتھ شریک ہیں۔
  6. (۲: ۲۵) میں سپاہگری کے کام میں شریک ہونے کا خیال ہے۔ وہاں رسول یہ کہتا ہے کہ فلاں شخص مسیح کے لئے لڑائی لڑنے میں میرے ساتھ شریک ہے۔
  7. (۴: ۳) میں ایک لفظ ہے۔ جو یہ خیال ادا کرتا ہے کہ بعض شخص کسی کام کے اندر مدد دینے میں شریک تھے۔ یعنی مسیح کے لئے بوجھ اٹھانے میں باہم متفق تھے۔
  8. اسی آیت میں ایک اور لفظ جو اٹھانے میں متفق ہونے کا خیال ظاہر کرتا ہے۔ یعنی مسیح کے لئے جوئے کو اپنے کندھے پر رکھنے میں شریک ہونے کا خیال۔

غرض کہ اس خط کا ہر باب مقدسوں کی رفاقت کی نورانی تعلیم سے مجلی ہے۔ اور اس تعلیم کے بیان کرنے والے مرکب لفظ اس خط میں ایسی افراط ہے! جو انجیل جیسی بیش قیمت چیز کو اپنی تحویل میں بڑی حفاظت اور خبرداری کے ساتھ رکھتی اور اس کے علاوہ مسیحی یگانگت کے شاندار لباس سے بھی آراستہ ہے اس خط کے مضامین کی جو تقسیم وتفصیل ہم ذیل میں لکھتے ہیں۔ وہ ہماری رائے میں بہت آسان بھی ہے اور مفید بھی ہے۔

اول۔ دعا اور پولوس کی ذات خاص کے متعلق باتیں

تمہیدی سلام۔ (۱: ۱، ۲)

شکرانہ اور دعا۔

(۱: ۳سے۱۱) تک۔ ذاتی باتیں یا نج کی باتیں۔ مقدس پولوس کی بیڑیاں۔ اس کا کام اس کے مخالف اس کی کش مکش۔ اس کا یقین(۱: ۱۲سے۱۶)تک۔

دوم۔ نصیحت کی باتیں۔ اور پولوس کی ذات سے متعلق بعض باتیں

  1. چال وچلن کی درستی اور ہمواری کی بابت اور دلیری کے بارے میں نصیحتیں (۱: ۲۷سے۳۰) تک۔
  2. اپنی اپنی ذاتی غرضوں کو چھوڑ کر دوسروں کے فائدوں کو ڈھونڈنے کے بارے میں اور یگانگت کی بابت نصیحیتں(۲: ۱سے۴)تک۔
  3. مسیح کی فروتنی کا نمونہ (۲: ۵سے۱۱)تک۔
  4. فرمانبرداری۔ اور پاکیزگی کی نصیحتیں (۲: ۱۲سے۱۶) تک۔
  5. پنج کی باتیں۔ اپنی تجویزوں کابیان۔ تیمتھیس اور اپفرودتیس کے بھیجے جانے کے مقصد(۲: ۱۷سے۳۰ ) تک۔

سوم۔ صلاحیں

  1. یہودی مذہب کی طرف جانے سے خبردار کرنا(۳: ۱سے۱۴)تک۔
  2. ائن ٹی نو مئن فرقے کے عقیدے سے خبردار کرنا(۳: ۱۵سے۲۱)تک۔

چہارم۔ نصیحتیں اور نج کی باتیں۔

  1. یگانگت اور خوشی اور برداشت اور دعا وغیرہ کے بارے میں نصیحتیں (۴: ۱سے۹)تک۔
  2. نج کی باتیں۔ پولوس کا شکرانہ ان کی بخششوں کے لئے۔ اس کا ہر حالت میں خوش رہنا(۴: ۱۰سے۲۰) تک۔
  3. آخری سلام۔ (۴: ۲۱سے۲۳) تک۔

۷۔ہندوستان کی کلیسیا کے لئے اس خط میں کون کون سے سبق یا نصیحیتں نکل سکتی ہیں۔

فلپی کے نومریدوں کی حالتیں آج کل کے ہندوستانی مسیحیوں کی حالتوں سے بہت سی باتوں میں ملتی ہیں۔ وہ بھی بت پرستوں میں سے زندہ خدا کے لوگ بن جاتے کے لئے چنے گئے تھے۔ ان کے چاروں طرف بھی وہ لوگ رہتے تھے جو آسمانی مالک و خالق خدا کو نہیں مانتے تھے۔ بلکہ بت پرستی کی تاریکی میں قائم رہنا پسند کرتے تھے۔ یونانی اور رومی مذہب بھی اپنی اپنی قدامت کے باعث ہے بڑی تعظیم و عزت کے لائق مانے جاتے تھے۔ اور جو مذہب آج کل ہند میں پھیل رہے ہیں۔ ان سے بہت سی باتوں میں مشابہ بلکہ یکساں تھے۔ ان کے حکما کے مسٔلے بھی بڑے گہرے اور عقل کو دنگ کرنے والے تھے۔ ان کی قدیم اور عالمانہ زبانوں میں بھی جو جو کتابیں موجود تھیں۔ وہ بڑی عمدہ اور کثرت سے تھیں۔ وہاں سے تعلیم یافتہ لوگ بھی اپنی بیہودہ مذہبی رسموں اور بتوں کی پرستش سے شرم کھانے لگ گئے تھے۔ وہاں بھی ہر جگہ ایسا وقت آ گیا تھا کہ لوگوں کے خیال بدلنے لگے تھے۔ان باتوں سے سب کو معلوم ہو جائے گا کہ جو حالت ہند کی آج کل ہے وہ بھی ایسی ہی ہے۔ اس لئے ظاہر حال یہ امید کی جا سکتی ہے کہ فلپیوں کے خط کی تعلیم جو ایک ایسی ہی حالت کی نئی کلیسیا کے لئے تھی۔ ہند کے مسیحیوں کی حاجت کے لئے خصوصاً لائق ہو گی۔ اور ہم جو اس وقت اس خط کی تعلیم کی چھان بین اسی نظرسے کر رہے ہیں امید رکھتے ہیں۔ کہ ہمارا یہ مطلب رائےگانہ جائے گا۔ پس ہم یہ دریافت کریں کہ پولوس نے جو یہ چوپانی خط دلی شوق کے ساتھ ایک ایسی جماعت کے نام بھیجا تھا۔ جس کی حالت اور چوگردہ کی کیفیت ہمارے ہند کے مسیحیوں سے اس قدر ملتی جلتی ہے۔ اس سے ہم کو کون کون سے بڑے سبق سیکھنے چاہئیں مسیح کی بادشاہت پھیلانے اور قائم کرنے کے لئے سرگرمی کرنے میں ہم کو اس سے ایک سبق ملتا ہے۔ کیونکہ فلپیوں کے خط کا ایک نشان تو یہ ہے کہ مسیحی بادشاہت کی ترقی کے لئے اس میں بڑی سرگرمی پائی جاتی ہے۔ انجیل پھیلانے کا جوش اس کے ہر صفحے پر گویا جلی قلم کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔ جس شخص کے قلم نے یہ عبارت لکھی ہے وہ ایک ایسا شخص گزرا ہے جس نے اپنی ساری زندگی اور اس کی تمام قوتیں غیر قوموں کی نجات کے کام کو ترقی دینے کے لئے وقف کر دی تھیں۔ اور جو کلمہ کہ تہ دل سے اس کے ورد زبان تھا۔ اور اس کے ہر خط کے عین درمیان میں بڑے موٹے موٹے اور نمایاں حرفوں میں ابھرا ہوا ہے وہ یہ ہے

کہ میں تو ایک کام کے سر ہوں۔

اس کا یہ حال تھا کہ قید خانے میں تو پڑا ہے مگر مسیح کی منادی کئے جاتا ہے۔ جو سپاہی اس کے محافظ ہوتے تھے اور جن زنجیروں سے کہ وہ خود بندھا ہوتا تھا۔ وہی زنجیریں اس کے محافظوں کو بندھی رہتی تھیں۔ کہ وہ کہیںچھٹ کر کہیں بھاگ نہ جائے۔ ان سپاہیوں کو بھی وہ انجیل سنایا کرتا تھا۔ اس کا اثر یہاں تک ہوا کہ مسیح کی پہچان کی عمدہ خوشبو جیسا کہ (۱: ۱۲۔۱۳) سے معلوم ہوتا ہے کہ قیصر کے اردلی سپاہیوں کی ساری بارکوں میں پھیل گئی۔ پولوس کو ہم ایک ایسا مشنری پاتے ہیں کہ جو اپنے بڑی محنت کے کاموں سے اپنے آپ کو آرام نہیں دیتا تھا۔ وہ مسیح کا ایک ایسا سپاہی تھا کہ کبھی اپنا جھنڈا یا وردی لوگوں کے سامنے دکھانے سے باز نہ رہتا تھا۔ اس کے مسیحی جوش کو دیکھ کر اوروں میں بھی جوش پیدا ہو جاتا تھا اس کے نمونے سے روما کے مسیحی بھی بڑے دلیر ہو گئے۔ اور جیسا (۱: ۱۴) سے معلوم ہوتا ہے۔ اپنے خداوند کی گواہی بڑی بہادری سے دینے لگے۔ اور جیسا اسی (۱: ۱۲) سے پایا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انجیل کی بڑی ترقی ہو گئی اور جب کبھی اور جہاں کہیں ایسی صورت پیدا ہو گی کہ خدا کے لوگوں میں انجیل کے پھیلانے کے لئے سرگرمی کی روح جوش مارے گی۔ تو اس سے یہی نتیجہ ہو گا۔ مگر رسول روما کے لوگوں کی یہ سرگرمی دیکھ کر چپکا نہ بیٹھا۔ اس کی بڑی آرزو یہ تھی کہ ساری کلیسیاﺅں میں اسی طرح کی ترقی ہو۔ اس کو فلپی کے نومریدوں سے اس درجے کی محبت تھی کہ وہ ان میں یہ بات دیکھ کر کبھی خوش نہ ہوتا کہ وہ اپنے روحانی فائدوں کے حاصل کر کے آرام سے اپنے ٹھکانے بیٹھ گئے ہیں۔ مگر ان کو اس امر کا کچھ فکر نہیں ہے کہ جو لوگ ان کے آس پاس رہتے ہیں۔ ان کی روحوں کے بچانے میں بھی کوشش کریں اس نے ان کے دلوں میں شروع ہی سے مسیح کی انجیل پھیلانے کے لئے سرگرمی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کا نمونہ اور نصیحت بے فائدہ نہ گئی۔ کیونکہ انہوں نے شروع ہی سے انجیل کے کام میں اس کی مدد کی تھی۔ (۴: ۱۶) سے معلوم ہوتا ہے کہ جب رسول تھسلنیکیوں اور اور مقاموں میں انجیل سناتا پھرتا تھا۔ تو انہوں نے اپنی دعاﺅں اور نذروں سے اس کی بار بار مدد کی تھی۔ تھوڑے ہی دنوں کی بات ہے کہ انہوں نے اپفرودتیس کو اس کے پاس اس لئے بھیجا تھا کہ ان کے عرض میں انجیل سنانے کا کام دے۔ یہ بات (۲: ۳۰) آیت سے ظاہر ہے۔ اور اسی (۲: ۲۵سے۳۰) تک اور(۴: ۱۰سے۱۸)سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ انہوں نے اپفرودتیس کے ہاتھ اپنی اور نذریں بھی پولوس کے پاس بھیجیں اور اس کو اس لئے اس کے پاس بھیجا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ کام کرنے میں اس کی خدمت کرے (۱: ۵) سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس سے بھی زیادہ تر کام کیا۔ کیونکہ ان کا بڑا فخر اور خوشی اس بات میں تھی کہ انہوں نے اپنی ہمدردی اور دعاﺅں اور نذروں اورغالباً اپنی واقعی انجیلی خدمتوں سے اول روز سے لے کر اس روز تک انجیل کے پھیلانے میں رسول کی بڑی مدد کی تھی۔ بڑی خوشی کی بات تھی۔ کہ فلپی کے مسیحیوں میں اپنے بڑے استاد پولوس نے نمونے سے کسی قدر ویسی ہی طبیعت پیدا ہو گئی تھی۔ ان کے دلوں میں آگ تو سلگ گئی تھی۔ اس کو اور بھڑکانے کے لئے پنکھا کرنے کی ضرورت باقی تھی۔ ان کا دل گرما تو گیا تھا۔ مگر پولوس کی بڑی آرزو یہ تھی کہ اس میں اس قدر گرمی پیدا ہو جائے کہ انجیلی جوش کے مارے دہک جائے اس لئے وہ اس الہامی خط میں روح القدس کی قوت سے اپنے بھڑکانے والے جوش کو ان کے اندر پھونکتا ہے۔ وہ ان کو ابھارتا ہے کہ اور بھی زیادہ بہادری سے مسیحی لڑائی لڑیں اور مسیح کی گواہی دیں۔ کیونکہ وہ روما سلطنت کے ہم شہری باشندے ہونے کی وجہ سے اس امر کے ذمہ وار ہیں کہ غیر قوموں اور جنگلی لوگوں کے درمیان سلطنت روم کی عزت کو تھامے رکھیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ وہ آسمانی بادشاہت کے بھی باشندے ہیں۔ اس لئے ان کا فرض ہے کہ مسیح کی ریاست جمہوری کے لئے بھی بڑی جوانمردی سے لڑیں۔ چنانچہ وہ (۱: ۲۷۔۲۸)میں ان سے یہ کہتا ہے کہ تم ایک دل ہو کر انجیل کے ایمان کے لئے جدوجہد کرو۔ اور اپنے مخالفوں سے کسی بات میں نہ ڈرو۔ (۲: ۱۵۔۱۶)میں رسول ان کو اکساتا ہے کہ وہ اپنی سچی مسیحی چال کی تاثیر اور نمونے سے انجیل کے پھیلانے میں کوشش کریں۔ اور ان کو چاہئے کہ ایسی نورانی زندگی گزاریں کہ ان کے وسیلے سے خدا کے کلام کی روشنی دنیا میں پھیلے اور جن لوگوں سے وہ ملیں جلیں ان کو حیات جاودانی کا کلام قبول کرنے کے لئے پیش کریں۔ اور جیسا کہ (۲: ۳۰) سے ثابت ہوتا ہے کہ ان ہی کے شخص یعنی اپفرودتیس نے کیا تھا کہ اپنے خداوند کے جلال اور اپنے ہمجنسوں کی نجات کی خاطر اس کے دل میں مقدس کام کی سرگرمی نے یہاں تک جوش مارا کہ وہ اپنی جان پر کھیل گیا۔ اور مرنے کی حالت کے قریب پہنچ گیا تھا۔ اسی کی ضد وہ بھی کریں۔ غرض ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سارے خط میں انجیل کے پھیلانے کی سرگرم طبیعت جوش مار رہی ہے۔ ایک اور بات اس خط میں یہ دیکھنے میں آتی ہے۔ کہ انجیل سنانے کے متعلق اصطلاحوں اور محاوروں کا ایک پرا ہے۔ کہ ہمارے سامنے کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اس کو ہم ذیل میں بالترتیب بیان کرتے ہیں۔

  1. (۱: ۵) کے یہ الفاظ کہ تم اول روز سے خوشخبری کے پھیلانے میں میرے شریک رہے ہو۔
  2. (۱: ۷اور۱۶) میں یہ لفظ خوشخبری کی ترقی کا باعث اور ثبوت ہیں۔ تم سب میرے ساتھ فضل میں شریک ہو۔
  3. (۱: ۱۲) میں یہ لفظ کہ خوشخبری کی ترقی کا باعث۔
  4. (۱: ۲۷) کے یہ لفظ کہ انجیل کے ایمان کے لئے ایک جان ہو کر جانفشانی کرتے۔
  5. (۲: ۱۵) کے یہ لفظ کہ تم دنیا میں چراغوں کی طرح دکھائی دیتے ہو۔
  6. (۲: ۱۶) کے یہ لفظ کہ تم زندگی کا کلام پیش کرتے ہو۔
  7. (۲: ۳۰) کے یہ لفظ کہ مسیح کے کام کی خاطر۔
  8. (۳: ۱۳) کے یہ لفظ بلکہ میں تو صرف یہ کرتا ہوں۔

اے ہند کے مسیحی بھائیو۔ انجیل کے پھیلانے کے مقدس کام میں جو سرگرمی ہم یہاں دیکھتے ہی۔ ہم بھی ویسی ہی سرگرمی اختیار کریں۔ ہم بھی آسمان کے باشندے ہیں۔ ہم بھی مسیح کی صلیب کے سپاہی ہونے کے لئے بلائے گئے ہیں۔ ایسی کوشش کرو کہ ہند کی کلیسیا ایک انجیل کے پھیلانے والی کلیسیا بن جائے انجیل کی ترقی اس کی اکیلی بڑی غرض ہو۔ اس کی بڑی حرص یہی ہو کہ غیر ایمان کے لوگوں کے سامنے خدا کی حیات جاودانی کا کلام کسی طرح پیش کیا جائے۔اور انجیل کے ایمان کے لئے ایسی سرگرمی کے ساتھ جانفشانی کرے۔ جو کبھی ہلکی نہ پڑ جائے اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جس کلیسیا میں انجیل کے پھیلانے کا کام اور شوق نہیں ہے وہ کلیسیا ٹھٹھر گئی ہے۔ اس پر موت کا فتویٰ صادر ہو چکا ہے اور مرنے کے قریب ہے۔

دوم بات یہ ہے

کہ ہم کو اس خط سے فروتنی کاسبق بھی سیکھنا چاہئے۔ کیونکہ اس خط سے ہم کو یہ تعلیم ملتی ہے۔ کہ انسانی غرور اور خود نمائی سے بڑے بڑے خطرے پیدا ہوتے ہیں۔ اور ان کا صرف ایک حقیقی علاج ہم کو نظر آتا ہے کہ ہم ایمان کے وسیلے وہی طبیعت اختیار کر لیں۔جو یسوع مسیح میں تھی۔ پولوس رسول خود جو ہم کو یہ تعلیم دیتا ہے وہ آپ اس بات کو اپنے نمونے سے ہمیں سکھاتا ہے۔ یہودی خیال کے موافق پیدائش اور تعلیم کے باعث اس کا مرتبہ لوگوں کے درمیان بڑے اختیار اور بزرگی کا تھا وہ یہ دعوےٰ کر سکتا تھا کہ میں امیر خاندان سے پیدا ہوا ہوں۔ اور میری تعلیم و تربیت دین کے صحیح طریق پر ہوئی ہے۔ اور میری حالت ہر طرح سے بے عیب ہے۔ اس کے ثبوت میں (۳: ۴سے۸) تک غور کرو۔ تا ہم پولوس نے ان سارے خاندانی اور قومی نغموں کو جو اور آدمی بڑے فخر کی بات گنتے اس نے مسیح کی خاطر نقصان سمجھا اس کے نزدیک تو بہر حال ذات کا خیال ایک صرف دنیاوی بات تھی پہلے تو وہ اس بات کو کچھ ہی سمجھتا تھا مگر اب تو اس کا خیال اس کی بابت یہی تھا۔ کہ وہ ایک نفسانی بات ہے اور مسیحیت کے بالکل خلاف ہے۔ جب سے اس نے اپنے آپ کومسیح کے حوالے کر دیا تھا۔ اور اس کا غلام بن گیا تھا۔ اس وقت سے اس نے ان خیالات کو اپنے دل میں سے ہمیشہ کے لئے خارج کر دیا تھا۔ اور جیسا کہ اس نے (۳:۳) میں کہا ہے۔ وہ اب خدا کی روح کی ہدایت سے عبادت کرتا۔ اور مسیح یسوع پر فخر کرتا تھا۔ اور جسم پر بھروسہ نہیں کرتا ہے۔ اس نے پیدائشی اور خاندانی غرور کو جس کے لئے کسی حب الوطن یہودی سے بڑھ کر اور کوئی شخص نہ ہو گا اور ذات اور مذہب کے جوش کو جو پہلے اس کے دل میں بڑے زور کے ساتھ تھا۔ اور قومی اور دینی دستوروں پر ہر ایک چھوٹے چھوٹے جزو تک ان لوگوں کی طرح چلتے جو اس بات کا بڑا گھمنڈ کیا کرتے ہیں۔ کہ ہم اپنے مذہب کے بڑے پابند ہیں۔ اور اس کی رسموں کو ذرا ذرا بھی بڑی احتیاط کے ساتھ مانتے ہیں جیسا کہ عبرانی فریسیوں کا قاعدہ تھا اور اپنے دل میں سے ہمیشہ کے لئے اس طرح نکال کر پھینک دیا تھا۔ کہ جیسے کوئی شخص فضلے کو کتوں کے سامنے ڈال دیتا ہے پہلے کی نسبت اب مسیح میں اس کا پیدائشی حق بہت زیادہ تر عمدہ ہو گیا تھا اور اس کا مرتبہ بالا تر۔ اس نے اپنے دل میں یوں سمجھا کہ جب ایک جلالی تاج مجھے مل سکتا ہے۔ تو پھر میں زمین کی خاک کے پیچھے کیوں پڑوں۔ جس حال کہ وہ اب فضل کے وسیلے خدا کا فرزند بن گیا تھا تو پھر آدم کی اولاد کے درمیان قومی بزرگی جیسی ایک خفیف بات کی تلاش کرنے سے کیا حاصل۔ غرض کہ اس نے ان ساری باتوں پر غور کرکے اپنے لئے ایک چیز پسند کر لی تھی۔ اور وہ بھی ہمیشہ کے لئے۔ کیونکہ اس نے اپنے خداوند یسوع مسیح کی پہچان حاصل کرنے کی فوقیت کے سامنے ساری اور چیزوں کو کھو دینا منظور کر لیا تھا۔ اس بات کے پسند کرنے میں جو دانائی اور درستی کہ وہ کام میں لایا۔ اس میں کلام کرنے کی کون جرات کر سکتا ہے۔

غرض جب پولوس نے اپنی قوم اور ذات کے بے فائدہ فخر کو اس طرح ہیچ سمجھ لیا۔ تو پھر وہ صاف دلی سے اوروں کو بھی کہہ سکتا ہے کہ آﺅ تم بھی میری ہی طرح کرو۔ اس لئے وہ (۲: ۳سے۸) تک یہ کہتا ہے کہ ہر ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھے۔ مسیحی مزاج اور دنیاوی مزاج کی باہم ہمیشہ مخالفت ہوتی ہے۔ اگر فلپی کے مسیحی خدا کی مرضی پر چلنا چاہتے تھے۔ تو ان کو ضرور تھا کہ تفرقوں کی طبیعت اور خاص جماعتوں کے رکن ہونے کی شیخی سے کنارہ کریں کیونکہ یہ باتیں خداوند مسیح کی انجیل کے برخلاف ہیں ان کے سامنے پولوس کے نمونے سے بھی ایک بڑھ کر نمونہ موجود ہے۔ پس ان کو لازم ہے کہ جو پرلے درجے کی کسر نفسی خدا کے بیٹے یسوع میں پائی جاتی ہے۔ اسے مد نظر رکھیں اور سوچیں جب تک کہ ان کے دل اس کی تاثیر سے چمک نہ جائیں۔ کیا خداوند یسوع مسیح نے اپنی خودی سے اس وقت انکار نہیں کیا جب کہ انسانی شکل کو اختیار کرتے وقت اپنے ذاتی الٰہی حقوق کو کنارے رکھ دیا۔ اور ان کو اپنے ساتھ اس طرح چمٹا کر نہ رکھا جیسا کہ کوئی شخص ایک نہایت بیش قیمت جواہر حاصل کر کے اپنی مٹھی سے چھوڑنا نہیں چاہتا۔ کیا اس نے اس سے بھی بڑھ کر‘ ایک اور کام نہیں کیا کہ جب گنہگار انسان کی خاطر اپنے آسمانی جلال اور الٰہی شان و شوکت کو اپنی ذات سے اتار رکھ کر اپنے آپ کو جیسا لکھا ہے خالی کر دیا بلکہ اپنے آپ کو اس سے نیچا کر کے یہاں تک فروتنی اختیار کی کہ غلام کی شکل بن گیا اور یہاں تک فرمانبرداری کی کہ صلیبی موت کو اپنے اوپر گوارا کیا جب ہم یسوع مسیح کے اس اعلیٰ کام کی طرف نظر کرتے ہیںکہ اس نے انسان کے لئے اپنے آپ کو اس طرح قربان کر دیا تو پھر دنیاوی بڑائی کے لئے کسی فخر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اس امر کے بارے میں جو تعلیم کہ اس خط میں دی گئی ہے وہ ساف اور قطعی ہے اور اس سے ہمارے دل میں یہ بات تہ نشین ہونی چاہئے کہ ہر طرح کا غرور جو ذات و قوم کے خیال سے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ ہمیشہ کے لئے مٹا دیا گیا ہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے۔ کہ ہند کی کلیسیا میں اب اس سبق کی ضرورت نہیں رہی ہے اور اس سے اور بہت سی خرابیاں بھی ہمیشہ نکلتی رہتی ہیں جو بات بغیر کسی شک و شبہ کے ایسی ہے جس کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے آسمانی باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دنیا کی ہے۔ اس بات کو رہنے دینے کے لئے کوشش کرنا بڑے خطرے اور نقصان کا باعث ہے۔ روحانی نئی پیدائش سے جو حق ہم کو دخل ہو گیا ہے اس کو مستحکم کرنا اور ہر بات کی قدرومنزلت مسیح کی قربانی کے اعتبار سے کرنی ہم کو لازم و مناسب ہے۔ ہم خوب یاد رکھیں کہ رسول نے ہم کو یہ فرمایا ہے کہ تمہارے اندر وہی مزاج پایا جائے جو یسوع مسیح میں بھی تھا اس مزاج کے اندر نہ انسانی غرور کو جگہ ہے اور نہ ذات پات کی جدائیوں کو کچھ دخل ہے۔ یہ باتیں اس مزاج کے بالکل برعکس ہیں۔ پس مناسب ہے کہ ہم جسمانی اور دنیاوی دستوروں سے بالکل برعکس ہیں۔ پس مناسب ہے کہ ہم جسمانی اور دنیاوی دستوروں سے بالکل ہاتھ دھوئیں۔ مسیح کی کلیسیا میں جس قدر انجیل کی مطابقت اور تابعداری پائی جائے گی اور جس قدر کہ اس کے اندر روحانیت کا اثر دور تک پہنچے گا۔ اسی قدر وہ کلیسیا مضبوط اور قوی بنے گی۔ لیکن جب کوئی کلیسیا دنیاوی مزاج پر چلتی ہے۔ تو وہ کمزور اور جسمانی بن جاتی ہے۔

سوم اس خط سے ہم کو فیاضی کا بھی سبق ملتا ہے۔

کیونکہ فلپی کے مسیحی ہونے دینے لینے کے بارے میں ہمارے لئے سخاوت اور فیاضی کا ایک بڑا نمونہ ہیں۔ جیسا کہ مقدونیہ کی اور ساری کلیسیاﺅں نے کیا تھا ویسا ہی انہوں نے بھی خدا کے کام کے لئے اپنے مقدور کے موافق بلکہ اس سے بڑھ کر بھی چندہ دیا۔ یہ بات ہم کو (۲۔کرنتھیوں۸: ۱۔۲۔۳اور۴)سے معلوم ہوتی ہے پھر (فلپیوں ۴: ۱۵،۱۶)سے پایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے پیارے رسول پولس کو اس بات کا ثبوت پر ثبوت دیا کہ وہ انجیل کی ترقی کے لئے اپنے نفس کو مارنے کے لئے راضی تھے۔ پھر (۱: ۵اور۴: ۱۰) سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ان کو ایک نیا موقع ملا تو انہوں نے مسیح اور انجیل کے کام کے لئے اپنی مفلسی کی حالت میں بھی چندہ بھیجا اور خوشی کے ساتھ دیا۔ یہ کوئی نئی کلیسیا نہ تھی جس کی پرورش کے لئے غیر ملکوں کی کلیسیائیں چندہ بھیجیں۔ بلکہ اس کے برعکس معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی جماعت مضبوط اور طاقتور تھی۔ اس کی نگرانی کے لئے اسقف اور اس کے مددگار ڈیکن انتظام کے موافق مقرر تھے۔ اور اس جماعت کا خرچ اپنی ہی آمدنی سے ہوتا تھا۔ اور وہ کسی اور کلیسیا کے بھروسے پر نہ تھی بلکہ اور مقاموں میں انجیل پھیلانے کے لئے بار بار چندے جمع کر کے روپیہ بھیجا کرتی تھی۔

اس سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ فلپی کی کلیسیا جو اس بارے میں دل کو ابھارنے والا نمونہ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔ اس کے مقابلے میں ہند کی کلیسیا میں بڑی کمی ہے۔ اگرچہ ہم کو اس بات کے لئے تو خدا کابڑا شکر کرنا چاہئے کہ انجیل کے کام میں اس ملک کے اندر ترقی ہوئی ہےاور لوگ اس بات کو روز بروز زیادہ تر سمجھتے جاتے ہیں کہ اپنی کلیسیای کا خرچ آپ اپنے ذمہ لینا اور اس کو اوروں کی مدسے آزاد کرنا ہمرا فرض ہے۔ تا ہم حقیقت حال پر لحاظ کر کے ہم کو اقرار کرنا واجب ہے کہ ہمارے درمیان یعنی ویسی کلیسیا میں یہ بات اب تک بہت پھیل رہی ہے۔ اگرچہ افسوس کے لائق تو ہے کہ وہ انسانی طاقت پر تکیہ کرنے اور روپیہ دوسروں کی مدد پر بھروسہ رکھنے کی طرف بہت مائل ہے۔ ہم نے اب تک یہ بات نہیں سیکھی ہے کہ فلپیوں کی طرح خدا کے کا کے لئے اپنی طاقت کے موافق کہ اس سے بھی زیادہ تر روپیہ دیں۔ اب بے شک وہ وقت آ گیا ہے۔ کہ جو غلطیاں ہم نے کیں ان کو خدا کے فضل سے ہم اب بھول جائیں اور بدل ڈالیں۔ ہم بہت عرصہ تک بچے رہے۔ اب ہم کو لازم ہے کہ مردوں کی طرح کام کریں۔ اے ہند کے مسیحی بھائیو۔ ر ضرور ہو تو تم اپنی مفلسی کی حالت ہی میں سے پرانے زمانے کے فلپیوں کی طرح جماعتوں کے خرچ کے لئے اور انجیل کے پھیلانے کے لئے فیاضی کے ساتھ روپیہ خرچ کرو یہ دھبہ اپنے اوپر نہ لگاﺅ کہ یوگنڈا اور اور مقاموں کی نئی نئی کلیسیائیں تو خرچ کے اعتبار سے یورپ کی کلیسیاﺅں سے آزاد ہو گئی ہیں۔ مگر ہند کی کلیسیائیں اب تک اپنا بوجھ اوروں پر ڈالنے سے خوش ہیں۔ ہم خدا پر بھروسہ رکھ کر آگے قدم بڑھائیں۔ ہم اس کام میں اس درجے تک روپیہ خرچ کریں کہ جب تک ہم کو اس کا بوجھ معلوم ہونے لگے۔ ہم کو اس وعدے کی حقیقت معلوم ہو جائے گی جو پولس نے (۴:۱۹) میں فلپی کے فیاض مسیحیوں سے کیا ہے کہ میرا خدا تمہاری ضرورت کو یسوع مسیح کے جلال میں اپنی دولت کے موافق پورا کرے گا۔

چہارم

ہم کو اس خط سے روحانیت کے لئے بھی سبق ملتا ہے۔ کیونکہ پولس رسول کو جو مشکلیں پیش آئیں ان میں سے ایک بڑی مشکل یہ تھی کہ مبادا کلیسیائیں جو ابھی نئی پیدا ہوئی ہیں سچی مسیحیت کی اس بڑی پہچان کو کہ آسمانی باپ کی پرستش روح اور راستی کے ساتھ ہوا کرتی ہے چھوڑ چھاڑ کر ظاہری عبادت کے فریق میں نہ پھنس جائیں۔ اس ستیاناس کرنے والی خرابی کے موجود ہونے اور بار بار سر اٹھانے کا حال اگر ہم اچھی طرح سمجھنا چاہتے ہیں تو ذرا گلیتوں اور کلیسوں کے خطوں کو غور کے ساتھ پڑھیں۔ رسول اس خرابی سے اچھی طرح واقف تھا اس لئے فوراً تاڑ گیا کہ اگر یہ غلطی اس کلیسیا میں پھیلی تو پھر اس میں سچی مسیحی زندگی باقی نہ رہے گی۔ اس لئے اس نے ہمہ تن اس بات کی کوشش کی کہ وہ نہ صرف بڑھنے نہ پائے بلکہ اس کی جڑ تک وہاں باقی نہ رہے۔ اگرچہ اس گمان کے لئے ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں ہے کہ فلپی کی کلیسیا کے کسی ایسے خطرے میں پڑ جانے کا کوئص اندیشہ تھا۔ تا ہم پولس نے اس خط میں ان کو صاف صاف طرح سے اس بات کے لئے خبردار کر دیا ہے۔ کیونکہ (۲: ۲، ۳) میں جو کچھ اس نے لکھا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس بات سے چوکس رہنا۔ اور ان معلموں کو بڑی خبرداری کے ساتھ دیکھتے رہنا جو جسمانی دستوروں پر بڑ ازور دیتے ہیں اور رسموں کے ماننے کے لئے بڑی تاکید کرتے ہیں۔ ہمارا فخر اس میں ہے کہ ہم مسیح کے ہیں اور مسیح ہمارا ہے۔ اور ہم نہ تو جسم کا کچھ بھروسہ کرتے ہیں۔ اور نہ ان ظاہری دستوروں کو مانتے ہیں۔ جن کو بعض شخص اپنا اصل مذہب سمجھتے ہیں۔ رسول نے اس بارے میں یہ باتیں فلپی کے مسیحیوں کو اپنے خط میں تحریر کی ہیں۔ کیونکہ اس کو اپنے ذاتی تجربے سے یہ بات خوب طرح معلوم تھی کہ ظاہری دستور اور رسمیں گو کیسے ہی بھاری اور قدیم اور بڑے کیوں نہ ہوں تا ہم ان کے درمیان اور مسیح خداوند کے ساتھ روح القدس کی مدد سے زندہ لگاﺅ اور رفاقت رکھنے کے درمیان زمین و آسمان کا فرق پڑ جاتا ہے۔ (گلیتوں ۵: ۴) میں اس نے یہ کہا ہے کہ میری رائے میں روحانی مذہب کو چھوڑ کر جسمانی دستوروں میں پھنس جانا ایسا ہے کہ جیسا کہ خدا کے فضل سے منہ موڑنا جو ایک بڑا مہلک امر ہے۔ اس لئے پولس کا فرض تھا کہ خدا کے اپنے نومریدوں کو اپنا حق بڑی وفاداری سے ادا کرنے کے لئے اس خطرے سے ان کو خبردار کر دے کہ یہ بڑے چپکے چپکے حملہ کرتا ہے اور روح کو ہلاک کرنے والی شے ہے اصلی مذہب یہ ہے کہ مسیح کو پوری طرح سے جاننا اور اس کی قیامت کی قوت کو معلوم کرنا اور اس کی مصیبتوں میں اس کے ساتھ شریک ہونا اور ان باتوں کے سوا اور جتنی باتیں ہیں وہ نکمی ہیں۔ جیسا پولس نے گلتیہ اور فلپی اور کلسی کی کلیسیاﺅں کو خبر دار کیا تھا۔ اسی طرح ہند کی کلیسیاءکو بھی کرنا ضرور ہے۔ کیونکہ ہند میں بھی ہندﺅں اور محمدیوں کے مذہبوں کی ظاہری رسموں کا بادل ہمارے چاروں طرف چھا رہا ہے۔ مسلمانوں میں تونماز اور روزے اور ضروری فرائض کے ادا کرنے کے ظاہری روزمرہ دستور ہیں۔ جو خدا باپ اور اس کے بیٹے یسوع مسیح کی رفاقت کی جگہ پھیل گئے ہیں اور ہندوﺅں کے مذہب کی یہ کیفیت ہے۔ کہ ظاہری رسموں کے ایک بڑے بھاری سلسلے اور بت پرستی کے سازو سامان نے لوگوں کے بیرونی حواسوں کو فریفتہ کر رکھا ہے۔ ان دونوں مذہبوں کے طریقوں سے جو خوف و خطرے کہ ہند کے مسیحیوں کو ہیں ان سے ہم کو ہرگز غافل رہنا نہ چاہئے۔ ہم کو بھی فلپی کی کلیسیا کی طرح خبردار رہنا ضرور ہے کہ مبادا ان ظاہری نظر سے چھپا نہ دیں۔ ہماری سچی دانائی اسی بات میں ہے کہ اس ملک کے غیر مسیحی مذہبوں کے جو ظاہر داری کے طریق ہیں اور انجیل کی جو اصل روحانی صورت ہے ان دونوں میں خوب طرح تمیز رکھیں۔ پس لازم ہے کہ ہم مسیحی کلیسیا کے لوگ روحانی مذہب کے جھنڈے کو ہمیشہ بلند رکھیں۔ اور باہر کی علامتوں سے کنارہ کریں جو صرف آنکھوں کو خوبصورت معلوم دیتی اور غیر مسیحی لوگوں کو ارد گرد کی بت پرست قوموں کی ظاہری رسومات جیسی نظر آتی ہیں۔ غرض پولس رسول نے جو کلام ہم کو دیا ہے۔ کہ ہم اس کو ہمیشہ مد نظر رکھیں اس کو قبول کر کے اس پر عمل کریں اور وہ کلام یہ ہے کہ ہم روح میں خدا کی پرستش کرتے اور یسوع مسیح میں خوشی مناتے اور جسم کا بھروسہ نہیں کرتے۔

پنجم سبق جو اس خط سے ہم کو حاصل ہوتا ہے۔

وہ مسیحی زندگی کی موزونی ہے انسان کی طبیعت کا میلان ہمیشہ سے یہ رہا ہے۔ کہ ایمان کچھ اور عمل کچھ اور۔ ہند میں یہ بات جس قدر دیکھنے میں آتی ہے اس قدر اور کسی ملک میں نہ ہو گی۔ یہاں ہندوﺅں میں یہ دستور پشت در پشت چلا آیا ہے۔ کہ جو دینی مسٔلے وہ مانتے ہیں ان سے ان کی زندگی اکثر اوقات مختلف ہوتی ہے۔ ادھرتو ظاہراً صدق دلی کے ساتھ اخلاق کے سکھانے والے شاعروں کی ایسی ایسی نظمیں سناتے ہیں جن میں تب پرستی کی سخت برائی ہوتی ہے۔ ادھر جا کر بتوں کے مندروں میںپوجا کرنے لگتے ہیں۔ یہ انسان کی طبیعت کے ناموزوں ہونے کی ایک عجیب مثال ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آدمی کے عقیدوں کی اصلیت کا کچھ اعتبار نہیں۔

فلپیوں کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی کلیسیا میں بھی اس قسم کی خرابی موجود تھی۔ اس لئے رسول نے اس بارے میں ان کو اپنی صاف اور بے شبہ تحریر سے خبردار کر دیا ہے۔ جیسا کہ (۳: ۱۷سے۱۹) تک ثابت ہوتا ہے کہ فلپی کی کلیسیا میں اور اور کلیسیاﺅں مں بھی پولس رسول کے زمانے میں ایسے شخص تھے اور ان کا شمار کچھ تھوڑا نہ تھا جو مسیحی ایمان کا اقرار تو زبان سے کرتے تھے۔ مگر جس طرح کی زندگی وہ گزارتے تھے۔ اس سے وہ مسیح کا انکار کرتے تھے۔ پولس جب ایسے شخصوں کا حال لکھتا ہے۔ تو رو رو کے بیان کرتا ہے۔ کیونکہ وہ ان ے شمار لوگوں کی نسبت جو کھل کھلا بے ایمان ہیں انجیل کے حق میں زیادہ نقصان پہنچانے والے ہیں۔ ایسے لوگ سب سے بڑھ کر اور بلاشبہ مسیح کی صلیب کے دشمن ہیں۔ ایسے سارے ناپاک مسیحیوں پر ایک بڑی خوفناک سزا آنے والی ہے۔ کیونکہ اس کا انجام ہلاکت ہوگا اگر یہ آئٹی نوئن دھوکے باز پیدا ہی نہیں ہوئے ہوتے تو ان کے لئے بہتر تھا۔

اے ہند کے مسیحی بھائیو۔ یاد رکھو کہ خدا نے ہم کو اس لئے کلیسیا میں بلایا ہے کہ ہم پاکیزگی کی چال چلیں ہم خبردار ہیں کہ ہمارا ایمان کچھ اور اور عمل کچھ اور نہ ہو۔ حقیقت میںکوئی شے اس سے بڑھ کر مسیحیت کے برخلاف نہیں ہے کہ ہم زبان سے تو مسیحی ایمان کا اقرار کریں اور ہماری زندگی ہو مسیحیت کے غیر۔ اس ملک میں جہاں عقیدے اور عمل کے باہم بڑا اور خطرناک فرق ہے لازم ہے کہ مسیحی کلیسیا سارے ملک کے سامنے خدا کی طرف سے سچے مسیحی مذہب کی اصلیت کی گواہ بنی رہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہماری روشنی سب آدمیوں کے سامنے چمکتی رہے تا کہ ان کو معلوم ہو کہ جیسا ہمارا اقرار وعقیدہ ہے ویسے ہی ہم ہیں بھی۔ اور جو ہم زبان سے مانتے ہیں اسی پر عمل بھی ہے۔ ہم لوگوں پر یہ بات ثابت کر دیں کہ ہم کو ایک نئی قوت ملی ہے یعنی خدا کی وہ قوت جس سے ہماری زندگیاں پاکیزہ ہو گئی ہیں۔ اور ہمارے ارادوں کے تصور نئے بن گئے ہیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمارے خداوند کا جلال ہو گا اور دنیا میں خدا کی تعریف کے باعث ہوں گے۔

۸۔اس خط کے مضامین کا خلاصہ غور کےلئے

اس خط کے پڑھنے والوں سے ہماری درخواست یہ ہے کہ وہ اس خط کو کئی مختلف نظر سے غور کے ساتھ پڑھیں تا کہ جو تعلیم اس میں بھر رہی ہے اس کی خوبی ان کی سمجھ میں آئے۔ اس لئے ان کی مدد کے لئے ہم یہاں اس خط کے مختلف مضمونوں کی ایک فہرست لکھ دیتے ہیں۔ جو شخص اس خط کو بغور مطالعہ کرے گا۔ اس کو ان کے سوا اور بھی بہت سی باتیں خیال میں آئیں گی۔ پہلے مضمون کا خلاصہ تو ہم نے کسی قدر طوالت کے ساتھ لکھا ہے تا کہ اس کے نمونے سے فائدہ حاصل ہو۔ مگر باقیوں کو بہت مختصر طور بیان کیا ہے۔ مگر طالب علم اپنی طرف سے آپ اسی طرح پر بڑھا سکتا ہے۔

الف ایک بڑا مضمون اس خط کا یہ ہے

کہ ہم کو مسیح میں خوش رہنا چاہئے۔

اول باب

خدمت کی خوشی۔ اس بات کے لئے خوش ہونا۔ کہ ہم خدا کے خادم ہیں۔

(۱)دعا میں خوش ہونا۔ پہلی آیت سے گیارہویں آیت تک۔

اس میں یہ بات بڑی غور کے لائق ہے کہ خدمت میں دعا کا درجہ پہلے ہے۔ اس مضمون میں اول تو پہلی دوسری آیتوں میں دعائے خیر ہے۔ پھر دوم تیسری آیت سے گیارہویں تک مناجات ہے۔

(۲)قید خانے میں بھی خوشی کرنا۔

بارہویں آیت سے بیسویں آیت تک۔

اول

بیڑیوں میں ہونے کے باوجود۔ بارہویں آیت سے چودھویں تک۔

دوم

مخالفوں کے باوجود۔ پندرہویں آیت سے اٹھاریں تک۔

سوم

آئندہ کے بارے میں کہ کیا حال ہونے والا ہے۔ شک و شبہ میں رہنے کے باوجود۔ انیسویں اور بیسویں آیتیں۔

(۳)اپنے ارادے میں خوش رہنا۔

اکیسویں آیت تک۔

اول

دل میں خوب طرح سوچ کو پسند کرنا۔ اکیسویں سے چوبیسویں تک۔

دوم

خوشی کے ساتھ بھروسہ رکھنا۔ پچیسویں اور چھبیسویں آیتیں۔

سوم

آسمانی باشندوں کی طرح زندگی گزارنا۔ ستائیسویں آیت سے تیسویں تک آسمانی شہر کے باشندوں کا سا چال چلن اوروں کے ساتھ شریک ہوکر کام کرنا۔ ستائیسویں آیت اور انجیل کی خاطر جدوجہد کرنا۔ اٹھائیسویں آیت سے تیسویں آیت تک۔

دوسراباب

قربانی کی خوشی۔ خدا کی قربانگاہ کی خوشی۔ سب سے زیادہ خوشی نیچے درجے تک گھٹانے میں پیدا ہوتی ہے۔

)۱(اپنے آپ سے انکار کرنے کی خوشی۔

پہلی آیت سے گیارہویں تک برکت حاصل کرنے کے لئے دل کی درست حالت ان خوبیوں سے ہوتی ہے۔

اول محبت کا مزاج اور یک دلی۔

پہلی اور دوسری آیتیں۔

دوم فروتن اور غیر مزاج۔

تیسری آیت۔

سوم اوروں کے حال کا فکر رکھنا۔

چوتھی آیت۔

چہارم مسیح جیسا مزاج رکھنا۔

پانچویں آیت سے لے کر گیارہویں تک اس کا اپنے آپ کو پست کرنا۔ چھٹی آیت سے آٹھویں تک۔ اس نے کس طرح اپنے آپ کو درجہ بدرجہ نیچے کیا۔ اول اس نے اپنے نفس سے انکار کیا۔ چھٹی آیت۔ دوم اس نے اپنے آپے کو خالی کر دیا۔ ساتویں آیت سوم اس نے اپنے آپ کو پست کر دیا۔ آٹھویں آیت۔

اس کا سر بلند ہونا نویں آیت سے گیارہویں آیت تک۔ کس طرح وہ درجہ بدرجہ بلند ہوا۔ اول ۔ اونچے درجے کی بلندی۔ نویں آیت۔ دوم۔ سب سے اعلیٰ عزت۔ نویں آیت۔ سوم ساری چیزوں کا اس کے تابع ہوجانا۔ دسویں اور گیارہویں آیتیں۔

۲پولس کا اپنے آپ کو قربان کرنے میں بھی خوش ہونا۔

بارہویں آیت سے اٹھارہویں آیت تک۔

اول نومریدوں کے لئے اس کا فکر۔

بارہویں آیت سے چودہویں آیت تک۔

دوم نومریدوں کا خیال کر کے اس کا دل میں خوش ہونا۔

پندرہویں اور سولہویں آیتوں میں۔

سوم نومریدوں کے لئے اپنے آپ کو قربان کرنا۔

سترھویں اور اٹھارہویں آیتوں میں۔

۳ہمدردی میں خوشی کرنا۔

انیسویں آیت سے تیسویں آیت تک۔

پولس کا نومریدوں کے لئے بڑی دلسوزی کے ساتھ فکر مند ہونا۔ اور اپنے دوستوں کے لئے اس کی محبت۔ اور ان کا ایک دوسرے سے محبت کرنا۔ دو خاص شخص جن کو پولس نے فلپیوں کے پاس انجیل کے کام کے لئے اپنی طرف سے بھیجا۔

اول

تیمتھیس بڑا سرگرم مشنری۔ انیسویں آیت سے چوبیسویں تک۔

اس کے بھیجنے کی تجویز(انیسویں آیت میں) اس کی واقعی ہمدردی ۔ (بیسویں اور اکیسویں آیتوں میں) مشنری کام میں اس کی سرگرمی جو خوب طرح ثابت ہو چکی ہے(بائیسویں آیت سے چوبیسویں تک)۔

دوم

اپفرودتیس۔ پولس کے ساتھ محبت رکھنے والا خادم (پچیسویں آیت میں) اس کی دلسوزی اور بیماری چھبیسویں اور ستائیسویں آیتوں میں) اس کا لائق وفائق ہونا(اٹھائیسویں اور انتیسویں آیتوں میں) اس کی وفاداری کا حال(آیت میں)۔

تیسرا باب روحانی خوشی یعنی وہ خوشی جو خدا کی روح سے پیدا ہوتی ہے۔

(۱)مسیح کی خاطر کل چیزوں کا نقصان گوارا کرنا۔

پہلی آیت سے گیارہویں تک۔

اول ۔ روحانی خوشی (پہلی آیت میں)۔

دوم۔

روحانی مذہب (دوسری آیت سے چوتھی آیت تک)۔

سوم۔

روحانی نفع (پانچویں آیت سے نویں تک)۔

چہارم۔

روحانی امنگ (دسویں اور گیارہویںآیتوں میں)۔

۲انعام کے لئے جد وجہد کرتے ہوئے آگے بڑھتے جانا

(بارہویں آیت سے سولہویں تک)۔

اول ۔

فی الحال کہاں تک پہنچ گیا ہے۔ (بارہویں آیت تک)۔

دوم۔

دانت پیس کر آگے بڑھتے چلے جانا(تیرہویں اور چودھویں آیتوں میں)۔

پیچھے کی چیزوں کو بھول جانا۔ آگے کی طرف تاکنا۔ آگے کی طرف دوڑے چلے جانا۔

سوم۔

کارگرصلاح (پندرہویں اور سولہویں آیت میں)۔

 

(۳)ہمیشہ خداوند کی انتظاری میں رہنا۔

(سترہویں آیت سے اکیسویں آیت تک)۔

 

اول۔

فلپیوں کو نصیحت کہ پاکیزہ طرح سے زندگی گزاریں (سترہویں آیت سے اکیسویں تک)۔

مسیحی چال (سترہویں آیت میں) غیر مسیحی چال۔ (آٹھارہویں اور انیسویں آیتوں میں)۔

دوم۔

کو امنگ کے ساتھ منتظر رہو(بیسویں اور اکیسویں آیتیں)۔

آسمانی شہریت (بیسویں آیت میں) مسیح کے آنے کا انتظار (بیسویں آیت میں) حالت کا بدل جانا(اکیسویں آیت تک)۔

چوتھا باب دل کو آسودہ کرنے والی خوشی۔

دل کے خدا سے آسودہ ہو جانے کی خوشی۔ اس بات کے تین نشان ہیں۔

اول۔

آرام و اطمینان(چھٹی۔ ساتویں اور نویں آیتوں میں)۔

دوم۔

قوت(تیرہویں آیت میں)۔

سوم۔

بہتات (اٹھارہویں اور انیسویں آیتوں میں)۔

(۱)فرمانبرداری میں خوشی کرنا

(پہلی آیت سے نویں تک) یہ امر غور کے لائق ہے کہ سچے مسیحی کی خوشی ذیل کی سات بھاری نصیحتوں سے وابستہ ہے۔

اول۔

خداوند میں مضبوط رہنا(پہلی آیت)۔

دوم۔

خداوند میں ایک دل رہنا(دوسری آیت)۔

سوم۔

انجیل کے کام میں محنت کرنے میں ان کی مدد کرنا (تیسری آیت)۔

(پھر ان سب کے درمیان خوش ہونے کے لئے نصیحت آئی ہے)۔

چہارم۔

تمہاری حلیمی سب پر ظاہر ہو(پانچویں آیت)۔

پنجم۔

کسی بات کے لئے فکر مند نہ ہو(چھٹی اور ساتویں آیت)۔

ششم۔

ان باتوں کا خیال رکھو۔(آٹھویںآیت)۔

ہفتم۔

وہ باتیں کرو۔ جن کی تعلیم تم نے پائی ہے(نویں آیت)۔

(۲)

بہتات کی حالت میں خوشی کرنا(دسویں آیت سے تئیسویں آیت تک)۔

اول۔

اس کا بھید (دسویں سے تیرہویں آیت تک)۔

دوم۔

اس کا میٹھا مزہ(چودہویں آیت سے اٹھارہویں تک) رفاقت (چودھویں آیت سے سولہویں آیت تک)۔ پھل (سترہویں آیت ) دل کی سیری (اٹھاریں آیت)۔

سوم۔

رفع احتیاج(انیسویں اور بیسویں آیتیں) سلام (اکیسویں سے تئیسویں آیت تک)۔

)ب(اس خط کا ایک اور بڑا مضمون یہ ہے کہ مسیحیوں کی شہریت کہاں کی ہے۔

اول باب۔

کس شہر کے باشندے اور ان کی جنگی خدمت (پانچویں۔ ساتویں۔بارہویں۔سترہویں اور ستائیسویں آیتوں کو پڑھو)۔

اس امر کے متعلق یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے۔ کہ جن لوگوں کو رومہ کی شہریت کا حق حاصل ہوتا تھا۔ وہ لڑائی کے وقت جنگی خدمت کے لئے طلب کئے جا سکتے تھے اور ان کو ضرور ہوتا تھا کہ سلطنت کے بچانے میں مدد دیں۔

دوسرا باب

شہر والے اور شہریت کے اعتبار سے اس کا چال و چلن اس امر کے لئے ان میں یہ وصف ہونے درکار تھے۔

اول۔ ایکا(دوسری آیت)۔

دوم۔ فروتنی(تیسری آیت)۔

سوم۔ اپنے نفس کا خیال نہ کرنا(چوتھی آیت)۔

چہارم۔ قناعت (چودہویں آیت)۔

پنجم۔ بیگناہی (پندرہویں آیت)۔

ششم۔بے عیبی (پندرہویںآیت)۔

ہفتم۔ گواہی (پندرہویں اور سولہویں آیتیں)

ہشتم۔ بشاشی (اٹھارہویں۔ اٹھائیسویں اور انتیسویں آیتیں)۔

تیسرا باب شہر کے باشندے اور ان کے خاص استحاق۔

اس کے متعلق یہ یاد رہے کہ رومہ شہر کے باشندے ہونے کا حق تین طریق سے حاصل ہو سکتا تھا۔ اول تو پیدائش سے جیسا کہ پولس رسول کو حاصل تھا۔ (اس کے ثبوت میں اعمال کے بائیسویں آیت کو دیکھو)۔

دوم۔ خریدنے سے جیسا کہ فلپیوں کو حاصل تھا۔ یہ حق ایسا ہوتا تھا جیسا کہ ہم مسیحیوں کو خدا کے متبنیٰ فرزند بن جانے سے حاصل ہوتا ہے۔

یہ بھی یاد رکھنا مناسب ہے کہ رومہ کے باشندوں کو تین بڑے استحقاق ہوا کرتے تھے۔

اول

تو سزا یابی سے بری ہونا جیسا کہ اعمال کے بائیسویں باب کی پچیسویں آیت اور رومیوں کے خط کے آٹھویں باب کی پہلی آیت سے عیاں ہے۔

دوم

قیصر کو اپیل کرنے کا اختیار جیسا کہ اعمال کے پچیسویں باب کی گیارہویں آیت اور اول کرنتھیوں کے چوتھے باب کی تیسری اور چوتھی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے۔

سوم۔

جب قیصر فتح یابی کے بعد بڑی شان و شوکت کے ساتھ رومہ کو واپس آیا تھا اس وقت کی عزت و جلال میں شریک ہونا اس امر کے لئے کلسیوں کے خط کے تیسرے باب کی چوتھی آیت کو دیکھو۔

اب اس باب میں ذیل کی باتوں پر غور کرنا۔

اول۔

رومی عزت کا لباس جو چغہ ہوتا تھا وہ یہاں مسیح کی راستبازی ہے۔ اس کے لئے تیسری اور نویں آیتوں کو دیکھو۔

دوم

قیصر کی فتح یابی کی شان و شوکت کی جگہ یہاں جسم کی قیامت ہے۔ اس کے لئے دسویں۔ گیارہویں اور اکیسویں آیتوں کو دیکھو۔

سوم

جو انعام واکرام رومیوں کو ملا کرتے تھے ان کے عوض میں یہاں وہ انعام ہے جس کا ذکر بارہویں اور چودہویں آیتوں میں آ رہا ہے۔

چوتھا باب شہر کے باشندے اور ان کے خاص فرض۔

اس کے بارے میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ رومہ شہر کے باشندوں کو بعض بعض محصول دینے ہوا کرتے تھے اور سلطنت کے متعلق جو جنگ ہوا کرتی تھی اس کے واسطے چندہ دینا اور سپاہ میں بھرتی ہو کر لڑائی پر جانا ان کے ذمہ ہوا کرتا تھا۔ اس کے عوض میں ان کو تقویت دینے اور سنبھالنے کے لئے قیصر کی قوت اور سلطنت کے سارے سامان ان کی پشت پناہ ہوا کرتے تھے۔

ج۔فلپیوں کے خط کا ایک اور بڑا مضمون مسیحی خصلت ہے

چنانچہ پہلے باب میں تو یگانگت کی طبیعت کا ذکر ہے۔ دوسرے باب میں فروتنی کی طبیعت کا بیان۔ تیسرے باب میں پاکیزگی کی طبیعت کا تذکرہ ہے۔ چوتھے باب میں فیاضی کی طبیعت کا بیان ہے یا اس مضمون کو اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ

اول۔

تو جیسا پہلے باب کی چھٹی اور ساتویں آیتوں سے معلوم ہوتا ہے ایسادل جس کو بھروسے کے ساتھ یقین ہو اور وہ خدا پر اس بات کا تکیہ کرتا ہو کہ جو کام اس نے شروع کیا ہے اسے وہ انجام تک پہنچائے گا۔

دوم۔

ایسا دل کہ جو کل جماعت کے متحد ہو کر ایک بدن بن جانے کا قائل ہے اور سب لوگ خدا کی خدمت کے لئے باہم شریک ہوجاتے ہیں۔ اس بارے میں دوسرے باب کی دوسری آیت اور تیسرے باب کی سولہویں آیت اور چوتھے باب کی دوسری آیت ملاحظہ طلب ہیں۔

سوم۔

وہ دل جس میں مسیح جیسی فروتنی ہو۔ اور اپنے آپ کو خدا کے جلال کی خاطر فروتن کرتا ہو۔ اس کے لئے دوسرے باب کی پانچویں آیت کو دیکھو۔

چہارم۔

ایسا دل جو کہ برابر ترقی کرتا جاتا ہو۔ یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے خدا کے انعام کی حد تک جا پہنچے۔ اس بارے میں تیسرے باب کی تیرہویں چودہویں اور پندرہویں آیتوں کو دیکھو۔

پنجم۔

وہ دل جس میں سخاوت کی عادت ہو اور وہ خدا کے کام کی ترقی کے لئے مدد دیتا ہو۔ اس کے لئے چوتھے باب کی دسویں اور اور آیتوں کو بھی دیکھو۔

فلپیوں کے نام

پولس رسول کا خط

خطاب

اس خطاب کی سب سے پرانی طرز صرف یہ ہے کہ فلپیوں کی طرف یا ان کے نام فلپیوں کے بجائے فلپشیوں کا لفظ آیا ہے۔ اور یہ لفظ کلمہ صفت ہے۔ جو چوتھے باب کی پندرہویں آیت میں آیا ہے۔ اور بزرگ بشپ پالی کارپ نے جو ایک مشہور خط اسی کلیسیا کے نام لکھا تھا اس کی پیشانی میں بھی یہی لفظ کام آیا ہے۔ اس خط کا ذکر ہم نے اپنے دیباچے میں کیا ہے۔

باب اول

آیات ۱۔۲ ان میں ابتدائی سلام درج ہے

۱۔ مسیح یسوع کے بندوں پولس اور تمتھیس کی طرف سے فلپی کے سب مقدسوں کے نام جو مسیح یسوع میں ہیں۔ نگہبانوں اور خادموں سمیت

مسیح یسوع۔

سب سے پرانے قلمی نسخوں کے مطابق اور ان دونوں لفظوں کی یہی ترتیب صحیح ہے۔ اور پولس رسول ان لفظوں کو زیادہ تراسی ترتیب میں استعمال کیا کرتا ہے۔ اس ترتیب میں جو زور کہ لفظ مسیح یعنی مسیح بادشاہ مدد دیا جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم اس کے اختیار پر نظر کریں اور یہ امر اس خیال کے موافق ہے جو آیت سے پیدا ہوتا ہے یعنی اس کا حق ہے کہ اپنے غلاموں پر حکومت کرے۔

بندوں

یعنی غلاموں جیسا کہ (رومیوں ۱:۱اور۲۔کرنتھیوں ۴: ۵اور گلیتوں ۱: ۱۰اور ططس ۱:۱) سے معلوم ہوتا ہے ۔ پولس کو یہ لفظ اپنی بابت کام میں لانا بہت پسند تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے آپ کو اپنے الٰہی مالک خداوند کے قبضہ مطلق میں بالکل سپرد کر دیا تھا۔ اور اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ مسیح کا حق ہے کہ وہ ایسی مطلق بندگی یا خدمت جس کا صرف خدا ہی حق دار ہے حاصل کرے۔ رومیوں کے دستور کے موافق غلام ۱ اپنے آقا کی ملکیت اسی طرح پر ہوا کرتا تھا۔ جیسا کہ اس آقا کا مال و اسباب اس کی ملکیت ہوتا تھا کہ جس طرح اس کی مرضی چاہے اسے کام میں لائے۔ (رومیوں ۶: ۲۱۔۲۲اور۲۱: ۱اور۱۔کرنتھیوں ۶: ۱۹، ۲۰) آیتوں سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ نئے عہد نامے کے بموجب ہر مسیحی اپنے آپ کو مسیحی کی مرضی کے بالکل تابع کر دینا منظور کرے۔

پولس

جیسا کہ تھسلنیکیوں کے پہلے اور دوسرے خطوں میں اور فلیمون کے خط میں ذکر ہوا ہے۔ اور اس خط میں بھی رسول کا لفظ جو پولس کے عہدے کا لفظ ہے

۔ چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پولس کے اختیار کے بارے میں فلپی کی کلیسیا میں کسی کو کلام نہ تھا۔ پس پولس کو ضرورت نہ تھی۔ کہ جب وہ اپنے ایسے وفادار اور محبت کرنے والے دوستوں کے نام خط لکھے تو اپنے منصبی خطاب کے ساتھ لکھے۔ (اعمال۱۳: ۹) کے بعد یہ رسول برابر پولس کے نام سے مشہور ہے۔ یا تو ا کا سبب یہ ہے کہ اس کو یہ نام اس وقت اول اول دیا گیا تھا۔ یا یہ سبب ہو کہ جیسا مقدس اگستین کا خیال ہے کہ اس نے یہ نام اس وقت اپنی عجزو انکساری ظاہر کرنے کے لئے پسند کیا تھا۔ کیونکہ یونانی زبان میں اس لفظ کے معنی ہیں نالائق یا شاید یہ سبب ہو کہ جیسا بزرگ جروم کا یقین ہے کہ جب سر جیوس پولس ایک رومی افسر مسیح پر ایمان لایا تو اس نے اس کا نام یاد گار کی طرح اختیار کر لیا تھا۔ یا یہ سبب ہو جو بہت غالب ہے کہ اس کے بچپن ہی سے اس کے عبرانی نام سالس کے ساتھ یہ غیر قومی نام پولس بھی چلا آتا تھا۔ اور یہ بات یہودیوں کے اس زمانے کے عام رواج کے مطابق تھی۔ پس جس وقت کہ یہ رسول آگے کے لئے خصوصاً غیر قوموں کا رسول ٹھہرا تو اس نے اپنے اس نام کو ترجیح دینا مناسب سمجھا۔

تیمتھیس

یہ نہایت درجے غالب ہے کہ یہ شخص اس وقت مسیح پر ایمان لایا تھا جب پولس رسول اول مرتبہ لسٹرا شہر میں گیا تھااس بارے میں (۲۔تیمتھیس ۳: ۱۰۔۱۱اور ۱۔تیمتھیس ۱: ۲) کا (اعمال ۱۴: ۱۹۔۲۰اور۱۶: ۱، ۲) سے مقابلہ کر کے دیکھو اور (اعمال ۱۵: ۳۹۔۴۰ اور۴۱ )اور (۱۶: ۱، ۲، ۳)سے معلوم ہوتا ہے کہ پولس رسول نے برنباس۔ یا جان مرقس کی جگہ اس شخص کو اپنا ساتھی بنایا۔ اس کو فلپی کی کلیسیا کے ساتھ شروع ہی سے بڑا گہرا تعلق رہا۔ (اعمال ۱۶: ۳۔ ۴۔ ۱۰۔۱۱اور۱۲)سے پایا جاتا ہے۔ کہ جب رسول وہاں اول مرتبہ گیا تو یہ بھی اس کے ساتھ تھا۔ اور پھر (اعمال ۱۹: ۲۲۔۲۰: ۳، ۴اور۶) سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کے بعد کم از کم دو دفعہ پھر وہاں گیا۔ ممکن ہے کہ ان کے علاوہ وہ اور کئی بار وہاں گیا۔ (فلپیوں۲: ۱۹۔۲۲) تک معلوم ہوتا ہے کہ وہ وہاں ایک بار اور جانے کو تیار تھا۔

اس خط کے شروع میں جہاں پولس نے فلپیوں کو سلام کہنے میں تیمتھیس کو اپنے ساتھ شریک کیا ہے۔ اس کے سوا اور جو پیغام اس خط میں رسول نے فلپیوں کو بھیجا ہے اس میں تیمتھیس کا کچھ دخل نہیں ہے۔ بلکہ باقی جس قدر ہے وہ پولس کی عبارت ہے۔ چنانچہ اس نے یہ سب صیغہواحد میں لکھا ہے۔

مقدسوں

جس لفظ کا یہ ترجمہ ہے اس کے اصلی معنی ہیں کسی شے کی تقدیس کرنا یعنی گناہ کی باتوں سے خدا کے لئے علیحدہ کر دینا۔ سارے مسیحی اس لئے بلائے گئے ہیں کہ وہ مقدس بنیں۔ اورنئے عہد نامے میں یہ بات ایسی مان لی گئی ہے۔ کہ گویا وہ ایک صاف حقیقت ہے اور اس میں کسی کو جائے کلام نہیں ہے۔ اور یہی خیال کر کے کہ وہ سب ایسے ہی ہیں۔ جیسا کہ وہ اپنے بارے میں اقراربھی کرتے ہیں ان کو اس لفظ سے خطاب کیا گیا ہے۔ خدا کا جو مطلب اور انتظام ہے اس پر لحاظ کر کے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بات محال ہے کہ کوئی شخص اپنے آپ کو کہے تو مسیحی اور ہو وہ ناپاک اس وجہ سے اس لفظ سے مراد وہ سارے شخص ہیں جنہوں نے خدا کے ساتھ تعلق رکھنے کا عہد کیا ہے۔ بشرطیکہ جیسا وہ زبان سے اقرار کرتے ہیں ویسے وہ دراصل ہوں۔ بھی اگر مسیحی ایمان کو مسیحی عمل سے منقطع کرنے کا ارادہ کیا جائے۔ تو یہ لفظ اور اس کے معنی اس کے مخالف ہیں۔ ہند میں لوگوں کی طبیعت عموماً اس بات پر مائل رہی ہے کہ مذہب کی جو حکیمانہ خاصیت ہے۔ وہ تو بے شک قدرو منزلت کے لائق ہے۔ مگر اس کی اخلاقی اور عملی خاصیتوں پر کچھ لحاظ کرنا ضرور نہیں ہے۔ پس ایسے ملکوں میں مقدس لفظ کا جو اصلی خیال ہے اس پر بڑا زور دینے کی ضرورت ہے۔

مسیح یسوع میں

یہ ہماری پاکیزگی کا چشمہ اور دائرہ بھی ہے۔ ہم صرف اس طرح مقدس ہوتے اور سیکھتے ہیں کہ اس میں جو قدوس ہے زندہ رہیں اور ایمان سے فضل کے وسیلے اس میں قائم رہیں۔ مسیحی مذہب۔ یا مسیحی کلیسیا میں ہونا تو ایک اور بات ہے اور مسیح یسوع میں ہونا ایک اور ہی شے ہے۔

نگہبانوں اور خادموں سمیت

جس قرینے سے رسول نے یہ لفظ لکھے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ کلیسیا میں کسی طرح کا پادریانہ عہدہ رکھتے ہیں۔ ان سے وہ لوگ جو دنیادار ہیں یا دنیاوی کام کرتے ہیں۔ مقدوم ہیں۔ رسول نے پادریوں کو ان سے علیحدہ لکھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ وہ مقدسوں کے لفظ میں تو ان کے ساتھ شامل ہیں۔ تاہم اپنے عہدے کے اعتبار سے وہ ان سے علیحدہ ہیں۔ اس لئے کہ وہ وہ شخص ہیں جو جماعت میں سے اس کام کے لئے چن لیے گئے ہے۔ کہ جماعت کے متعلق جو مختلف خادمانہ کام ہیں ان کو بجا لائیں۔ بعض کا یہ خیال ہے کہ ان کے علیحدہ ذکر کئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ جو چندہ پولس رسول کے پاس روانہ کیا تھا۔ اس لئے کہ وہ کلیسیا کے عہدہ دار تھے مگر یہ خیال بہت متشبہ ہے۔ غالباً اس ابتدائی زمانے میں بشپ یا نگہبان کا لفظ سارے پرسبتروں یعنی کلیسیا کے بزرگوں کے لئے کام میں آتا تھا۔ اس کے لئے (اعمال ۲۰: ۱۷۔۱۸) قابل غور ہیں۔ ڈیکن کا لفظ جس کا ترجمہ ہم نے یہاں خادم کیا ہے۔ اس آیت میں اپنے خاص دینی معنوں میں اول مرتبہ آیا ۳ ہے اگرچہ یہ لفظ نئے عہد نامے میں تیس مرتبہ آیا ہے۔ مگر عہدے کے لقب کے طور پر صرف تین یا چار ہی مرتبہ کام میں آیا ہے اس کے معنی عموماً صرف یہ ہیں کہ کسی دوسرے کی ماتحتی میں خدمت کرنے والا۔

پس اس آیت سے ہماری نظر کے سامنے یہ خیال گزرتا ہے۔ کہ چرچ یا کلیسیا کا انتظام اب درجہ بدرجہ بڑھتا جاتا تھا۔ اور اس سے اس امر کے لئے بھی ایک بڑے ابتدائی زمانے کی شہادت ہم کو ملتی ہے کہ خادمانِ دین کے معین عہدے اس وقت موجود تھے اور جوں جوں زمانہ گزرتا گیا ان کی صورت میں اور ترقی ہو گئی تھی۔

۲۔ ہمارے باپ خدا اور خداوند یسوع کی طرف سے تمہیں فضل اور اطمینان حاصل ہوتا رہے

تمہیں فضل اور اطمینان حاصل ہوتا رہے۔

ان مسیحی دعائیہ لفظوں میں مغرب اور مشرق دونوں کے سلامی کلمے ہمیشہ شامل ہوا کرتے ہیں جو مطلب کہ یونانیوں کا اپنے معمولی سلام کے لفظ فضل سے ہوا کرتا تھا۔ وہ سب بھی اس میں شامل ہے اور جو مطلب کہ ایشیا کے لوگ اپنے معمولی لفظ سلام رکھتے ہیں۔ جس کا مترادف ہم نے یہاں وہ لفظ اطمینان لکھا ہے۔ وہ سب ہمیشہ کے لئے مسیح میں مل جاتا اور پورا ہوتا ہے معلوم رہے کہ جو لفظ مقرر ہوئے ہیں ان سے اس امر کا ایک یقین پیدا ہوتا ہے۔ کہ مشرق اور مغرب ہمارے مشترک خداوند مسیح نجات دینے والے ہیں۔ مل کر ایک ہو گئے ہیں۔ اور وہ اس بات کا بھی نشان ہیں کہ مسیح میں دونوں کے اعلیٰ خیال و خواہش پوری ہو جاتیں اور بخوبی ظہور پاتی ہیں۔ اس سے ہمارے لئے ایک اس بات کا حکم بھی پایا جاتا ہے۔ کہ ہم اپنے اپنے قومی خیالوں اور ملکی تعصبوں کو بالائے طاق رکھ دیں۔ کیونکہ ہم سب مسیح میں مل جاتے اور غلط ملط ہو جاتے ہیں۔ یہ لفظ اس آیت میں اول تو معمولی سلام و دعا کے حکموں کی طرح استعمال ہوئے ہیں۔ دوم یہ بھی ہے کہ جو ان کا اصلی مطلب ہے اس کو بھی وہ بڑے زور کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔

فضل۔

اس سے مراد ہے خدا کی وہ مہربانی جس کے ہم مستحق نہیں ہیں اور جو وہ ان سارے آدمیوں کے ساتھ سلوک کرنے میں دکھاتا ہے۔ جو نکمے اور نالائق ہیں۔

اطمینان

جس لفظ کا ترجمہ اس جگہ اطمینان کیا گیا ہے اس میں خدا کے ساتھ وہ صلح بھی شامل ہے جو مسیح کے وسیلے سے خدا کے ساتھ ہمارا میل ملاپ ہو جانے سے ہم کو حاصل ہو جاتی ہے۔ اس بارے میں (۲۔کرنتھوں ۵: ۱۸سے۲۱اور رومیوں ۵: ۱) کو دیکھو۔ پھر اسی لفظ میں خدا کا وہ اطمینان یا آرام یا سلام بھی داخل ہے جو ان لوگوں کو برابر حاصل ہوتا رہتا ہے جو اس کے ایمان میں زندگی گزارتے ہیں۔ اس بات میں (فلپیوں ۴: ۶، ۷) کو دیکھو۔ یہ امربھی بیان کرنے کے لائق ہے کہ اس خط میں فضل کا لفظ تو انجیل کے کام کے متعلق استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ (۱: ۷) سے ظاہر ہے کہ اور اطمینان کا لفظ اس آرام کے متعلق آیاہے جواُن شخصوںکی روحوںکو درکار ہے۔ جو مسیحی زندگی گزارنے اور مسیح کے لیے محنتیں اٹھانے کی آزمائشوں میں مبتلا ہیں۔ جیسا کہ اس خط کے (۴: ۶، ۷) آیتوں سے ظاہر ہے۔ پس ان لفظوں کے ذریعے سے مسیح کے کارندوں کے واسطے خدا کی طرف سے یہ خاص پیغام آیا ہے کہ تم کو کام کے لئے فضل اور خدمت گزاری میں اطمینان و آرام ملے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔

پہلے باب کی اس فصل کے متعلق امور ذیل کے غور کے لائق ہیں

اول

خادموں اور کارندوں کی بابت صحیح خیال یہ ہے کہ وہ مسیح یسوع میں غلام ہیں اور خداوند نے ان کو اس لئے بلایا ہے۔ کہ وہ خدا کے ورثے یعنی کلیسیا کی خدمت کریں۔ اور نہ کہ اس پر حاکم بن جائیں۔

دوم

سارے سچے مسیحیوں کے بارے میں درست خیال یہ ہے کہ وہ مسیح یسوع میں مقدس لوگ ہیں اور اس لئے بلائے گئے ہیں کہ اپنی زندگی اور خصلت دونوں میں سچی پاکیزگی اختیار کریں۔

سوم

جو مسیحی کہ خادمان دین نہیں ہیں۔ بلکہ دنیا کے کاروبار میں مشغول ہیں ان کے بارے میں صحیح خیال یہ ہے کہ وہ کاہنوں کی ایک مقدس جماعت ہے بمعہ اسقفوں اور ڈیکنوں کے جو ضروری عہدہ دار ہیں اور انہیں لوگوں میں سے ان کے وہ کام جو کلیسیا سے متعلق ہیں کرنے کے لئے چن لئے گئے ہیں نئے عہد نامے کے خیال کے بموجب یہ کہنا بالکل غلط ہے۔ کہ خادم دینوں کی جماعت کلیسیا ہے۔ جیسا کہ(۱۔پطرس ۲: ۹) سے ظاہر ہوتا ہے۔ ہر مسیحی جو دنیاوی کاروبار میں مصروف ہے۔ اس پر فرض ہے کہ ہند میں خدا کی طرف سے گواہی دے۔ اور لوگوں کی شفاعت کرے یعنی ان کے لئے خدا سے دست بدعا ہو اور خدا کا کام کرے۔

۳۔میں جب کبھی تمہیں یاد کرتا ہوں تو اپنے خدا کا شکر بجا لاتا ہوں۔

تیسری آیت سے لے کر گیارہویں تک شکرگزاری اور دعا ہے

ان آیتوں میں یہ باتیں شامل ہیں۔

اول۔

شکرگزاری کے ساتھ یادگاری جیسا کہ تیسری آیت میں۔

دوم۔

خوشی کے ساتھ دعا اور منت جیسا کہ چوتھی اور پانچویں آیتوں میں۔

سوم۔

خوشی کے ساتھ بھروسہ جیسا کہ چھٹی آیت میں۔

چہارم۔

بڑے جوش کی خواہش جیسا کہ ساتویں اور آٹھویں آیتوں میں۔

پنجم۔

دلی دعا جیسا کہ نویں۔ دسویں اور گیارہویں آیتوں میں۔

میں جب کبھی تمہیں یاد کرتا ہوں۔

ان الفاظ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ ان کو کبھی کبھی یاد کرتا تھا۔ اور ان کاموں کے ذریعے سے یاد کرتا تھا جو علیحدہ علیحدہوں بلکہ اس کو یاد کرنے کی ایک عادت ہو گئی تھی۔ اور جو جو موقعے اس کو ان کی بابت یاد آتے تھے ان سب کے لئے وہ اپنے دل میں شکر گزاری کے ساتھ خیال کر سکتا تھا۔ اس کو ساری یاد ان کے بارے میں اس کے دل کو فرحت دیتی اور تازگی بخشتی تھی اور یہ یاد کر کے اس کے دل میں شکر گزاری کا جوش ہوا کرتا تھا۔ کہ اس قدر روحوں نے گناہ اور شیطان کے ہاتھ سے نجات پائی اور اس قدر آدمیوں کی زندگیاں اعلیٰ اور پاکیزہ بن گئیں۔ اور وہ اپنے خداوند کے فرمانبردار اور خدمت گزار بن گئے۔ (رومیوں۱: ۸، ۹اورافسیوں۱: ۱۶اور ۱۔تھسلنیکیوں۱: ۲اور۲۔تیمتھیس ۱: ۳اورفلیمون ۱: ۴) میں بھی شکرگزاری اور یادگاری کے لفظ اکٹھے آئے ہیں۔ مگر وہاں جو خیال ہے وہ اس سے ذرا مختلف ہے۔

تو اپنے خدا کا

یہ الفاظ مزامیر کی کتاب میں ایسے موقعوں پر بار ہا آئے ہیں۔ جبکہ مصنف کا دل دعا کے جوش میں سرشاد تھا۔ مثلاً (زبور ۶۳: ۱اور۴۶: ۲) اور اور مزامیرمیں بھی یہ الفاظ آئے ہیں۔ ان لفظوں سے اس شخص کا خدا کے ساتھ ذاتی تعلق اور دائمی رفاقت بخوبی ظاہر ہوتی ہے۔ پولس (رومیوں۱: ۸۔۱۔کرنتھیوں ۱: ۴۔۲۔کرنتھیوں۱۲: ۲۱اور فلیمون ۱: ۴) میں بھی یہی لفظ پھر کام میں لایا ہے اور (فلپیوں۴: ۱۹)میں بھی یہ لفظ آئے ہیں غرض یہ خط ان ہی لفظوں سے شروع ہوتا ہے۔ اور ان ہی سے ختم بھی ہوتا ہے۔

شکر بجا لاتا ہوں

پولس رسول جب کلیسیاﺅں کے نام خط لکھتا تھا تو ان سب کے لئے شکر بجا لا سکتا تھا۔ بخر گلیتوں کی کلیسیا کے جہاں مسیحی ایمان سے بڑا انحراف ہو گیا تھا۔ اسی شکر گزاری کے بارے میں (رومیوں۱: ۸۔ ۱کرنتھیوں۱: ۴۔ افسیوں۱: ۱۶۔ کلسیوں۱: ۳۔۱تھسلنیکیوں۱: ۲۔ ۲: ۱۳۔ ۲۔تھسلنیکیوں۱: ۳۔ ۲: ۱۳اور فلیمون ۱: ۴) کو دیکھو۔ مگر رسول سب سے زیادہ شکر گزاری مکدونیہ کی کلیسیاﺅں فلپی اور تھسلنیکیوں کی بابت تھا۔ ان کی طرف اس کی محبت اور اس کی شکر گزاری اس قدر تھی کہ جیسا بشپ لائٹ فٹ صاحب اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ پولس رسول اپنے دل کے جوش میں اا کر اس معنی کے لفظ بار بار کام میں لاتا اور ایسے ایسے فقرے جن سے یہی خیال ظاہر ہوتے ہیں گھڑی گھڑی لکھتا ہے۔

۴۔اور ہر ایک دعا میں جو تمہارے لئے مانگتا ہوں ہمیشہ خوشی کے ساتھ تم سب کے لئے درخواست کرتا ہوں۔

ہر ایک دعا میں

جس لفظ کا ترجمہ یہاں دعا کیا گیا ہے۔ اس کے معنی اصل یونانی میں یہ ہیں کہ کسی ضرورت کو واقعی طور سے معلوم کر کے اس کے لئے کسی خاص درخواست کا دل سے اٹھنا۔ یہی لفظ (۱: ۱۹اور۴: ۶)میں آیا ہے۔ بلکہ وہ اول اپنے دل میں خوب طرح نہیں کہ جیسے کوئی دیوانہ شخص ہوا سے لڑتا ہے۔ بلکہ وہ اپنے دل میں خوب طرح سمجھ لیتا تھا کہ انکو ٹھیک ٹھیک کون کون سی چیزوں کی ضرورت ہے اور پھر وہ ان ہی خاص خاص باتوں کے لئے خدا سے دل وجان کے ساتھ یہ دعا مانگتا تھا کہ وہ ان کو وہی ضرورت کی چیزیں بخش دے۔

جو تمہارے لئے مانگتا ہوں

اصل میں یہ یوں ہونا چاہئے تھا۔ کہ میں ہر ایک دعا میں جو تم سب کے لئے مانگتا ہوںفقط پولس رسول کا ان لفظوں (یعنی تم سب کے لئے) کو خوب طرح جان بوجھ کر بار بار کام میں لانا بڑی غور کی بات ہے۔ وہ لفظوںکو (۱: ۴، ۷، ۸، اور۲۵ اور ۲: ۱۷، ۲۶) میں کام میں لایا ہے۔ غالباً اس سے یہ خیال آتا ہے۔ کہ وہ فلپی کی کلیسیا میں تفرقوں کے ہونے کا خیال کر کے ان کو ان الفاظ کے بار بار لکھنے سے ایک طرح کی ہلکی سی ملامت کرتا ہے۔ غرض کہ یہ ہمارا یہ گمان صحیح ہو یا نہ ہو مگر رسول ان سب کے ساتھ بلا تمیز محبت رکھتا اور ان سب کے لئے دعا مانگتا ہے کیا یہ مناسب نہیں ہے۔ کہ تم بھی اس سے یہ نصیحت سیکھیں۔ اگر مسیحی لوگ اپنے سارے مسیحی بھائیوں کے لے خواہ وہ کسی نسل کے کیوں نہ ہوں محبت کے ساتھ دعا مانگیں تو یہ ذات پات کے خیال کو مٹا دینے کا سب سے اچھا علاج ہو گا اور اس عیب کو اس سے بہت کچھ ملامت ہو گی اور وہ اس سے دور و دفع ہو جائے گا۔ لائٹ فٹ صاحب اپنی تفسیرمیں یہ بتاتے ہیں کہ یہ لفظ یعنی تم سب کے لئے رسول کے ان لفظوں کے ساتھ ہیں کہ میںخدا کا شکر کرتا ہوں اور نہ ان لفظوں کے ساتھ کہ میں اپنی ہر ایک دعا میں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ صرف و نحو کی رو سے ان کا تعلق دونوں کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ اور ہر ایک تعلق سے کچھ بامعنی خیال پیدا ہوتا ہے۔

ہمیشہ۔

یہ ہمیشہ کا لفظ پولس کی تحریروں میں کوئی ستائیس بار آیا ہے اور اگر موقع پر جہاں یہ لفظ آیا ہے۔ غور کیا جائے تو فائدے سے خالی نہ رہے گا۔ یہ لفظ چار دفعہ تو اسی خط میں آیا ہے۔

اول

(۱: ۴) میں کہ میں ہمیشہ تم سب کے لئے درخواست کرتا ہوں۔

دوم

(۱: ۲۰)میں جہاں رسول یہ کہتا ہے کہ مسیح کی تعظیم میرے بدن کے سبب سے ہمیشہ ہوتی ہے۔

سوم

(۲: ۱۲) میں جہاں رسول ان کو یہ کہتا ہے کہ تم ہمیشہ فرمانبرداری کرتے آئے ہو۔

چہارم

(۴:۴) میں جہاں رسول فلپیوں کو کہتا ہے کہ خداوند میں ہر وقت۔ یعنی ہمیشہ خوش رہو۔

خوشی کے ساتھ

اصل زبان میں یہ لفظ ایسے موقعے پر آئے ہیں کہ ان سے عبارت کو بڑا زور پہنچتا ہے۔ یعنی کہ خوشی کے ساتھ۔۔۔۔۔درخواست کرتا ہوں بات یہ ہے کہ پولس رسول فلپیوں کے لئے جتنی دعائیں مانگا کرتا تھا ان سب میں خوشی کی روشنی چمکا کرتی تھی۔ ہم دیباچے کے چھٹے باب میں لکھ آئے ہیں کہ یہ لفظ اس خط کے ایک مقتاحی لفظوں میں سے ہے۔ یعنی یہ لفظ ایسے ہیں کہ جن سے اس خط کا مطلب و مقصد کھلتا یعنی معلوم ہوتا ہے۔ یہاں جو یہ خوشی کا لفظ آیا ہے وہ اس خط میں اول موقع ہے۔

درخواست کرتا ہوں

ان لفظوں کا اصل میں مطلب یہ ہے کہ میں وہ درخواست کرتا ہوں۔ جس کا ذکر اسی آیت کے پہلے حصے میں آ چکا ہے۔

۵۔اس لئے کہ تم اول روز سے لے کر آج تک خوشخبری کے پھیلانے میں شریک رہے ہو۔

اس لئے کہ تم اول روز سے لے کر آج تک

(۴: ۱۰۔ ۱۹) پڑھ کر دیکھو کہ وہاں کی عبارت سے ان لفظوں کے معنی کھل جاتے ہیں۔ اول روز سے مراد اگر اس سے پیشتر سے نہیں ہے تو بے شک اس روز سے مراد ہے جب کہ رسول پہلی مرتبہ فلپی سے رخصت ہو کر گیا تھا اور اس وقت فلپیوں نے ایک بڑی معقول رقم پیچھے سے اس کی مدد کے لئے بھیجی تھی۔

آج تک

کے لفظ سے اشارہ ان خاص چندوں سے جو ان کی طرف سے رسول کے پاس رومہ میں ابھی حال میں پہنچے تھے۔ چنانچہ (۲: ۲۵) کودیکھو۔ فلپی کے مسیحی جو مدد کہ فیاضی کے ساتھ انجیل کے پھیلانے میں رسول کو سرگرمی کے ساتھ ہمیشہ دیتے رہے وہ ہمارے لئے بھی جو ہند میں رہتے ہیں ایک نمونے کی طرح کا کام دیتی ہے۔

خوشخبری پھیلانے میں شریک رہے ہو۔

شریک رہنے کے لئے جو لفظ ہے اس کے معنی بعض مقاموں میں جیسے کہ (رومیوں ۱۵: ۲۶ اور ۲۔کرنتھیوں ۹: ۱۳) میں صرف دس روپے کی مدد ہی سے علاقہ رکھتے ہیں۔ اور جیسا کہ اس خط کے (۴: ۱۴سے۱۷) پایا جاتا ہے۔ فلپی کے مسیحیوں نے پولس رسول کی مدد روپے پیسے کے اعتبار سے بہت کچھ کی تھی۔ مگر وہ صرف اسی طرح شریک نہ تھے بلکہ اس کے سوا اور بہت سے طور پر رسول کے کام میں مدد دیتے رہے۔ مثلاً ہمدردی کرنے سے۔ دکھ سہنے سے۔ اور خدمت گزاری سے۔ غرض یہ ہے کہ اس ابتدائی زمانے کے مسیحی مقدس جنگ میں بڑے دل وجان سے مدد دینے والے شخص تھے۔ یہ الفاظ (یعنی خوشخبری کے پھیلانے میں) اور بھی مقاموں پر آئے ہیں۔

اول

تو(۲۔کرنتھیوں ۲: ۱۲اور۹:) میں

دوم

(۲: ۲۲) میں اور یہ لفظ انجیل کے کام کے لئے یاد رکھنے کے لائق ہیں۔

اول

مقام جہاں یہ لفظ آئے ہیں (۲کرنتھوں۲: ۱۲) ۔ وہاں خوشخبری پھیلانے کے لئے سفر کرنے کا ذکر ہے۔

دوم

مقام (۹: ۱۳) ۔ وہاں مسیح کی خوشخبری کا اقرار کر کے اس پر تابعداری کرنے کا ذکر ہے۔

سوم

یہی مقام یعنی فلپیوں کےیعنی (فلپیوں ۱: ۵) میں۔ وہاں خوشخبری کے پھیلانے میں شریک رہنے کا ذکر ہے۔

چہارم

اسی خط کے (۲: ۲۲)میں یہ ذکر ہے کہ خوشخبری پھیلانے میں خدمت کی۔

خوشخبری یا انجیل کا لفظ اس خط میں تو دفعہ آیا ہے۔ (۱: ۵، ۷، ۱۲، ۱۶) ایک ایک دفعہ اور ۷۲آیت میں دو دفعہ اور (۲: ۲۲) میں ایک دفعہ اور (۴: ۳، ۱۵) میں ایک ایک دفعہ۔ پہلے باب میں اس کا بار بار کام میں آنا توجہ کے لائق ہے اور جن الفاظ کے ساتھ وہ کام میں آیا ہے۔ ان کا مقابلہ کرنے سے فائدہ ہو گا۔ ہند کی حالت بہ اعتبار مذہب ایسی ہے کہ وہ گویا ہند کے مسیحیوں کو زور زور سے بلاتی ہے۔ کہ خوشخبری کے پھیلانے میں مدد دو۔

یہ سارا فقرہ رسول کے ان لفظوں کے ساتھ صریحاً شامل ہے۔ جہاں وہ کہتا ہے کہ میں خدا کا شکر کرتا ہوں۔ فلپیوں کا اس کے ساتھ مدد کے لئے عملی طور پر شریک ہونا اس کے لئے ایک خاص شکر گزاری کا باعث تھا۔

۶۔اور مجھے اس بات کا بھروسہ ہے کہ جس نے تم میں نیک کام شروع کیا ہے وہ اسے یسوع مسیح کے دن تک پورا کر دے گا۔

مجھے بھروسہ ہے

ان لفظو سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کے دل کو آپ اس امر کا یقین تھا۔ اور اس یقین کی بنا یہ تھی کہ اس نے آپ پہلے اس بات کا تجربہ کیا تھا جو انجیل کی منادی کرنے میں مشغول ہیں ان کو ان باتوں کابھروسہ رکھنا ضرور ہے۔

اول

جیسا کہ اسی مقام پر رسول نے فرمایا ہے کہ خدا اپنے کام کو کامل اور پورا کرے گا۔

دوم

جیسا (۲۔کرنتھیوں۲: ۳اور۲۔تھسلنیکیوں ۳: ۴) کا منشا ہے کہ جو لوگ انجیل پر ایمان لاتے ہیں وہ سچے اور ایمان دار مسیحی ہوں گے۔

سوم

جیسا کہ (عبرانیوں ۱۳: ۱۸) میں آیا ہے کہ انجیل سنانے والوں کا دل صاف اور خالص ہے۔

چہارم

یہ کہ جیسا (فلپیوں۱: ۲۵) کا مطلب یہ ہے کہ خدا ان کے کام میں ان کی ہدایت کرے گا۔

اس بات کا

جن اصلی لفظوں کا یہ ترجمہ ہے ان کا بعض شخص اس طرح پر ترجمہ کرتے ہیں۔ کہ اسی وجہ سے (میرا بھروسہ) مگر اس فقرے کا مطلب یہ کہتا ہے۔ کہ جس امر کا رسول بھروسہ رکھتا ہے۔ وہ یہ ہے اور نہ کہ اس کے بھروسہ رکھنے کی وجہ یہ ہے۔

کہ جس نے شروع کیا ہے

یعنی جس نے تم میں مسیح پر ایمان لانے کے وقت اپنا کام شروع کیا تھا۔ یہی خاص فعل (گلیتوں۳:۳) میں بھی آیا ہے۔ یونانی لوگ اس فعل کو بعض وقت قربانی چڑھانے کے معنی میں کام میں لایا کرتے تھے۔ اور اس معنی میں وہ اس کام کو ظاہر کیا کرتا ہے۔ جو قربانی شروع کرنے سے متعلق ہے۔

نیک کام

یعنی نجات اور تقدیس کا وہ نیک کام جو انجیل پر ایمان لانے کے وقت شروع ہوتا ہے۔ اس میں اور سارے نیک کام شامل ہیں۔ مثلاً خوشخبری کے پھیلانے میں ان کا مدد دینا۔

پورا کرے گا

اس لفظ کے معنی ہیں کمال کے درجے تک لے جانا۔ (زبور۱۳۸: ۸) میں جو یہی لفظ آیا ہے اس کو اس سے مقابلہ کرو۔ یہ بات غور کے قابل ہے کہ یہ لفظ کبھی کبھی قربانی کے متعلق بھی کام میں آیا کرتا ہے۔ پس قربانی کا جو خیال کہ شروع کے لفظ سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ اس سے پورا ہو جاتا ہے۔

یسوع مسیح کے دن تک

یعنی تقدیس کا کام جو خدا شروع کرتا ہے وہ اس کو اس جلالی وقت تک جس کا حوالہ (۳: ۲۰، ۲۱) میں آیا ہے کرتا رہتا ہے اور اس وقت وہ کامل ہو جائے گا۔ رسول یہ نہیں کہتا ہے کہ وہ اس کام کو ان کی موت کے وقت تک پورا کردے گا۔ کیونکہ مسیحی کلیسیا کی منزل مقصود مسیح کے آنے کا وقت ہے اور نہ وقت۔ اس آیت سے پایا جاتا ہے۔ کہ رسول کو مسیح کی آمد کی امید نزدیک معلوم ہوتی تھی۔

اس آیت میں جو یہ لفظ آئے ہیں کہ یسوع مسیح کے دن تک۔ یہ صرف اسی ایک مقام کے لئے مخصوص معلوم ہوتے ہیں۔ (۱۔کرنتھیوں ۱: ۸) میں یہ خیال ان لفظوں میں ظاہر ہوا ہے کہ ہمارے خداوند یسوع مسیح کادن۔ (۱۔کرنتھیوں۵:۵اور ۲۔کرنتھیوں۱: ۱۴) میں یہ لفظ آئے ہیں۔ کہ خداوند یسوع کا دن۔ اور (فلپیوں ۱: ۱۰اور ۲: ۳: ۱۰) میں لفظ ہیں کہ مسیح کا دن۔ اور (۱۔تھسلنیکیوں ۵: ۲اور ۲۔پطرس ۳: ۱۰) میں یہ لفظ آئے ہیں کہ خداوند کا دن۔ اسی کو پرانے عہد نامے میں نبیوں نے اکثر یہوا کا دن کہا ہے۔

۷۔چنانچہ واجب ہے کہ میں تم سب کی بابت ایس ہی خیال کروں۔ کیونکہ تم میرے دل میں رہتے ہو اور میری قید اور خوشخبری کی جواب دہی اور ثبوت میں تم سب میرے ساتھ فضل میں شریک ہو۔

تم سب کی بابت

یا تم سب کے لئے یا تم سب کے بارے میں۔ چنانچہ یہ خیا ل بھی آ سکتا ہے کہ رسول ان کی وجہ سے اپنے دل میں شکر گزاری معلوم کرتا تھا۔ یہاں دونوں معنی کی گنجائش ہے۔ اور دونوں خیال اس موقعہ پر موزوں ہیں مگر جو معنی کہ متن میں درج ہیں وہ بہت عمدہ ہیں۔ ان سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ رسول خوشی کے مارے ان کی بابت خدا سے سفارش کرتا تھا۔

ایسا ہی خیال کروں

ایسا ہی خیال کروں۔یا ایسا معلوم کروں یعنی جس شکرگزاری کاذکر اوپر آیا ہے۔ اسے دل میں محسوس کروں۔ جیسا کہ دیباچے کے چھٹے باب میں ہم نے لکھا ہے۔ اس خط میں بعض لفظ ایسے مستعمل ہوئے ہیں کہ جن سے اس خط کی کیفیت منکشف ہو جاتی ہے۔ ان میں سے اس آیت میں ایک اور لفظ اول مرتبہ آیا ہے۔

کیونکہ تم میرے دل میں رہتے ہو

ان لفظوں کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم مجھے اپنے دل میں رکھتے ہو۔ مگر جب قرینے پر غور کیا جاتا ہے کہ وہی ترجمہ قطعی درست معلوم ہوتا ہے جو متن میں ہے۔ یہی خیال (۲۔کرنتھیوں ۳: ۲) میں آیا ہے۔ اس کو بھی دیکھو۔ غرض جب بعض شخصوں کو اپنے دلوں میں رکھتے ہیں تو ان سے محبت رکھنی کچھ مشکل بات نہیں ہے۔ اسی طرح اگر ہم خدا کی راہوں یا اس کے کام یا شریعت سے محبت رکھنی چاہتے ہیں تو ہم کو لازم ہے کہ اس کو اپنے دلوں میں رکھیں۔ جیسا (زبور ۸۴: ۵اور رومیوں ۱۰: ۸اور عبرانیوں ۸: ۱۰)میں بھی آیا ہے۔

خادم دین اور اس کی جماعت کے لوگوں میں باہم جو بڑی محبت ہونی چاہیے وہ اس آیت سے ظاہر ہے اور ان لفظوں سے ولایتی مشنریوں اور دیسی پاسبانوں اور مسیحی لوگوں سب کو یکساں نصیحت ملتی ہے۔ غرض یہ ہے کہ سب کے درمیان محبت کا دریا جوش مارنے لگے۔

میری قید یا بیٹریوں میں

(۲۹، ۳۰) آیتوں سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ فلپی کے مسیحی جانتے تھے کہ مسیح کے لئے دکھ اٹھانا کسے کہتے ہیں۔ اور وہ رسول کی طرح جانفشانی بھی کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بعض اپنے ایمان کی خاطر قید بھی ہوئے ہوں۔ خیر یہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو مگر اس میں کچھ کلام نہیں کہ وہ اپنی ہمدری اور مدد گاری کے ذریعے سے رسول کی بیڑیوں میں شریک تھے۔ کیا اس ملک ہند میں ہم مسیحیوں کو اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ مسیح کے لئے صبر کے ساتھ دکھ اٹھانا زیادہ تر منظور کریں اور دنیاوی حاکموں کے پاس استغائے کے لئے اس قدر دوڑ کر نہ جایا کریں؟

خوشخبری کی جواب دہی اور ثبوت میں وغیرہ

یہاںا نجیل کے کام کے دونوں پہلوﺅں کا ذکر ہے۔ یعنی ایک تو جواب دہی یا جب کوئی ہمارے ایمان پر حملہ کرے تو اس کا جواب دینا یا اپنے ایمان کو اس سے بچانے اور حفاظت کرنے کی کوشش کرنی اور دوم اپنے ایمان کو اوروں پر ثابت کرنے کے لئے ان سے گویا لڑنا یا ان پر حملہ کرنا۔ اول کام میں یہ باتیں داخل ہیں کہ مسیحی ایمان کے پھیلنے میں جو رکاوٹیں یا ہرج ہیں ان کو رستے میں سے دور کرنا اور لوگوں کے دلوں میں اس کی طرف سے جو جو تعصب جمے ہوئے ہیں ان کو ہٹانا اور اور مقاموں پر جہاں یہی لفظ آیا ہے ان کا مقابلہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پولس رسول نے اول تو یہودیوں کے سامنے حق کی تائید میں جواب دہی کی جس کا ذکر (اعمال ۲۲: ۱) میں آیا ہے۔ پھر حاکموں کے سامنے ایسا ہی کیا جس کا ذکر(اعمال ۲۵: ۱۶) میں درج ہے۔ پھر جھوٹے معلموں سے حق کی حمایت میں ایسا ہی کیا جس کا ذکر (۱۔ کرنتھیوں ۹: ۳) میں ہے۔ اور رومی شہنشاہوں اور باشندوں کے سامنے بھی جواب دہی کی جیسا کہ (۲۔تیمتھیس۴: ۱۶اور فلپیوں ۱: ۷، ۱۶) سے پایا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ اگر ضرورے پڑے تو ہمارا فرض ہے کہ کلیسیا اور سلطنت کی مخالفت میں بھی حق کی حمایت کریں اور برملا دشمنوں اور جھوٹے دوستوں کی مخالفت میں بھی ایسا ہی کریں اور (۱۔پطرس۳: ۱۵) میں فرماتا ہے کہ ہم سارے آدمیوں کے سامنے اس کی حمایت کریں۔

ثبوت

اس لفظ سے کام کا ترقی پانا اور دانائی کے ساتھ قائم ہو جانا ظاہر ہوتا ہے۔ یہ لفظ صرف (عبرانیوں ۶: ۱۶) میں پھر کام میں آیاہے۔ کافی بیر اور ہوسن مفسروں کی رائے اس کے بارے میں یہ ہے کہ پولس اپنی تعلیم کی جواب دہی تو اپنے کلام سے کرتا تھا اور اس کا ثبوت اپن زندگی سے دیتا تھا۔

تم سب میرے ساتھ فضل میں شریک ہو

اس اصل کا زیادہ لفظی ترجمہ کیا جائے تو یہ ہو کہ میرے فضل میں شریک جیسا کہ تم سب ہو۔ ہم دیباچے کے چھٹے باب میں لکھ آئے ہیں کہ یہ لفظ جس کے معنی ہیں کسی شخص کا کسی کام میں دوسرے کے ساتھ شریک ہونا۔ یہ اس خط میں شراکت کے لفظو میں سے ایک لفظ ہے۔ یہی لفظ تین اور مقاموں میں بھی آیا ہے۔ ان سب کا باہم مقابلہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیحی ذیل کی باتوں میں باہم شریک یا حصہ دار ہوا کرتے ہیں۔

اول

جیسا (رومیوں۱۱: ۱۷) سے پایا جاتا ہے۔ زیتون کے درخت کی جڑ اور چکنائی میں شریک ہونا۔

دوم

جیسا (۱۔کرنتھیوں ۹: ۲۳) سے ظاہر ہوتا ہے کہ انجیل اور اس کی مبارک خدمت میں شریک ہونا۔

سوم

جیسا (فلپیوں ۱: ۷) سے ظاہر ہوتا ہے رسالت کی محنت کے خاص فضل میں شریک ہونا۔

چہارم

جیسا کہ (مکاشفہ ۱: ۹) میں آیا ہے۔ اس زندگی میں مسیح کے ساتھ صلیب اٹھانے میں اور دوسری زندگی میں اس کے ساتھ آسمانی بادشاہت میں شریک ہونا۔

فضل میں شریک ہو۔

اس میں نجات کا فضل۔ تقدیس کا فضل۔ خدمت کا فضل اور رسالت کے حق کا فضل عموماً سب کچھ شامل ہو سکتا ہے۔ مگر (۲۹) آیت میں جو اسی قسم کا لفظ کام میں آیا ہے اس کے لحاظ سے شاید فضل کے معنی اس مقام میں صرف یہ ہے کہ خوشخبری کے ثبوت میں دکھ سہنے کی خاص برکت میں شریک ہونا۔ اس بارے میں (افسیوں۳: ۲، ۸) کو بھی دیکھو۔ یاد رہے کہ ہر کسی کا کام نہیں ہے کہ قید میں پڑنے اور دکھ اٹھانے کو فضل جیسے ایک میٹھے لفظ سے تعبیر کرے۔

۸۔ خدا میرا گواہ ہے کہ میں مسیح یسوع کی سی الفت کر کے تم سب کا مشتاق ہوں۔

خدا میرا گواہ ہے

پولس رسول انجیل کا متاد ہو کر ذیل کی باتوں کے لئے خدا کو اپنا گواہ جانتا اور اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔

اول

جیسا (رومیوں ۱: ۹) میں لکھا ہے۔ اپنی دعا کے لئے تومریدوں کے حق میں۔

دوم

جیسا کہ اسی آیت میں بیان ہے۔ اس کے ان کے لئے مشتاق ہونے کے بارے میں۔

سوم

جیسا کہ (یعقوب۴: ۵) سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی روح اس کی آرزو مند ہوتی ہے کہ میں کسی طرح انسانوں کی روحوں پر قبضہ پاﺅں۔

چہارم

جیسا (۱۔پطرس۲:۲) سے ظاہر ہے کہ مسیحی لوگ خدا کے کلام کے مشتاق ہوتے ہیں۔

۹۔ اور یہ دعا کرتا ہوں کہ تمہاری محبت علم اور ہر طرح کی تمیز کے ساتھ اور بھی زیادہ ہوتی جائے۔

(۹سے۱۱) جو ایک لاثانی دعا درج ہے اس میں ایک خاص مقصد کے لئے درخواست ہے کہ وہ ایک خاص طریق پر حاصل ہو جائے۔

اور یہ دعا کرتا ہوں کہ

اس عبارت میں جس اصل یونانی لفظ کی جگہ کہ کا لفظ کام میں آیا ہے۔ وہ یونان کی قدیم علمی زبان میں تو مقصد کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کے دل میں مانگنے سے کیا مطلب تھا۔ مگر پچھلے زمانے کی یونانی میں وہی اصل لفظ دعا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دل میں دعا مانگنے سے کیا مطلب تھا۔ مگر پچھلے زمانے کی یونانی میں وہی اصل لفظ اکثر مقصد یا مطلب کے معنی دیا کرتا تھا۔ اس لئے ممکن ہے کہ اس جگہ وہ لفظ رسول کی دعا کا مطلب یا خلاصہ ظاہر کرتا ہے۔

کہ تمہاری محبت اور بھی زیادہ ہوتی جائے

یہ رسول کی دعا ہے۔ کہ محبت اپنے نہایت وسیع معنی یہ ہیں۔ یعنی کہ خدا اور انسان دونوں کی محبت اور ضرور بہ لحاظ ان اندرونی تنازعوں اور تکراروں کے جو کلیسیا میں مسیحیوں کے درمیان ہو رہے تھے۔ بڑھتی جائے۔ جب رسول یہ کہتا ہے کہ وہ اور بھی زیادہ ہوتی جائے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اگرچہ ان میں اب بھی کسی قدر محبت تو ہے مگر اس کے کثرت کے ساتھ بڑھ جانے کی ضرورت ہے۔ جب محبت کثرت سے بڑھ جاتی ہے تو ایمان داروں کاشمار بھی ضرور بڑھ جاتا ہے۔ جب محبت کثرت سے بڑھ جاتی ہے۔ تو ذات پات کے خیالات سب مٹ جائیں گے۔

اور بھی

یا روز بروز جس اصل یونانی لفظ کا یہ ترجمہ ہے وہ نئے عہد نامے میں ٹھیک اس معنی میں صرف اسی مقام میں آیا ہے۔ وہ یونانی میں اگرچہ ایسا ہی ہے مگر معنی کے زور کے اعتبار سے کم ہے۔ سوال کا مطلب یہ ہے کہ اگر اور کوئی خوبی زیادہ ہو یا نہ ہو مگر محبت تو بہر حال بڑھتی جائے۔ رسول کے دل میں جو آگ بھڑکتی ہے وہ اس کہنے پر کبھی قناعت نہیں کرتی کہ بس کافی ہے۔ (یہ بنگل مفسر کا خیال ہے)

علم

جس اصل یونانی لفظ کا یہ ترجمہ ہے اس کے معنی ہیں پورا علم۔ اور نئے عہد نامے میں اس لفظ سے مراد ہے روحانی علم زمانہ حال کے ان یورپین دہریوں کے خلاف جو ایگناسٹک کہلاتے ہیں۔ کیونکہ ان کا یہ دعویٰ یہ ہے کہ ہم کو خدا کے بارے میں کوئی بات تحقیق معلوم نہیں ہو سکتی۔ ہم کو چاہئے کہ ہم اپی ناسٹک بنیں یعنی کہ ہم کو خدا کی خصلت اور مرضی کا پورا اور صاف علم روحانی ادراک سے حاصل ہو۔

اس سے ہم کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیحیوں کی آنکھیں بند کر کے اندھوں کی طرح نہ ہونی چاہئے۔ مگر علم و دانائی کے ساتھ ہو۔ جیسا کہ ان کی محبت جن کی دونوں آنکھیں بالکل کھلی ہوئی ہیں۔

ہم کو چاہئے کہ ہم اس روحانی علم میں اور ہندوﺅں کے گیان میں تمیز کریں۔ ہند میں لاکھوں آدمی ہیں جو اس گیان کو غایت درجے کی بھلائی یا سب سے اعلیٰ دینی حاصل خیال کرتے ہیں۔ مگر یہ گیان ایک حکیمانہ علم ہے۔ جو ٹھنڈا ٹھار اور مردہ شے ہے وہ وہمی خیال کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مگر جو علم کہ رسول کہتا ہے وہ الہامی مذہب کی حقیقتوں کا وہ روحانی اکتساب یا ادراک ہوتا ہے کہ محبت کا بھرا ہوا گرم دل الٰہی پیش کش کو روحانی ہاتھ پھیلا کر لے لیتا ہے۔ یہ علم انسان کو ہر طرح سے بہتر بناتا ہے ۔ مگر جیسا کہ آئندہ لفظوں سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کا خاص ظہور یہ ہے کہ انسان میں پاکیزہ زندگی پیدا کرے۔ مسیحیوں کے لئے یہ سچا علم ہی ان کے مقصد اعلیٰ کا ذریعہ ہے اور وہ مقصد یہ ہے کہ ان کی خصلت اور زندگی بالکل بدل کر نئی ہو جائے۔

ہر طرح کی تمیز کے ساتھ

علم کا لفظ جو اس سے اوپر آیا ہے وہ اصول اور قواعد عام سے متعلق ہے۔ لیکن تمیز کا کام ہے ان اصول پر عمل کرنا۔ غرض ہماری محبت ایسے کاموں سے ظاہر ہو جو بڑی نزاکت اور باریکی کے موقعوں پر حکمت عملی اور پاک عقل عامہ کے ساتھ کئے جائیں۔ ہمارا کام ہے کہ مسائل کی تعلیم میں ہو خواہ روزمرہ کے کاموں میں ہو۔ بڑی تیز فہمی کے ساتھ عقل سے دریافت کریں۔ کہ جو بات یا کام ہمارے در پیش ہے اس کے ہر طرف کے قرائن اور اس کی تاثیروں کی رجوع کیسی اور کیا ہے اور جیسا موقع معلوم ہو اسی کے موافق عمل کرنا جانیں۔ یہ تمیز کا لفظ نئے عہد نامے میں پھر کہیں نہیں آیا ہے۔ مگر اس سے ملتی ہوئی شکل کا ایک لفظ (عبرانیوں۵: ۱۴) میں نیک وبد کی تمیز کرنے والے حواس کے لئے کام میں آیا ہے۔

تمیز کے ساتھ جو لفظ

ہر طرح کا آیا ہے۔ اس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس تمیز کی ضرورت کوئی ایک نہیں۔ بلکہ طرح طرح کی مختلف صورتوں۔ حالتوں اور موقعوں کے موافق ہوا کرتی ہے۔ ایسی کار آمد اور عملی کی تمیز کی ہند کی نازک ابتدائی کلیسیا کے معاملات کے فیصلہ کرنے اور غیر مسیحی لوگوں کے درمیان انجیل سنانے کا کام کرنے میں بڑی ضرورت ہے۔

۱۰۔تا کہ عمدہ باتوں کو پسند کر سکو۔ اور مسیح کے دن تک صاف دل رہو اور ٹھوکر نہ کھاﺅ۔

اس سے پہلی آیت میں تو رسول کی دعا تھی۔ اب اس آیت میں وہ بیان کرتا ہے کہ جن باتوں کے لئے میں تمہارے واسطے دعا کرتا ہوں وہ کس طریق سے حاصل ہو سکتی ہیں۔ یعنی جب تم کو کثرت کے ساتھ دانا یا نہ محبت حاصل ہو جائے۔ تو اس کو تمیز کی باتوں میں اور ان چیزوں میں کام لاﺅ جن کو تم نے اچھی طرح دیکھ بھال کے پسند کر لیا ہے۔ اس امر میں وہ مطلب ہو سکتے ہیں جن کو ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں۔

اول

یہ کہ رسول فلپی کے مسیحیوں کے لئے یہ دعا کرتا ہے کہ وہ ان باتوں کو جن میں باہم فرق ہے اس طرح پرکھ سکیں جیسا کہ مقناطیس لوہے اور اور دھاتوں میں فرق دریافت کر لیتا ہے۔یعنی کہ جیسا بشپ مول فرماتے ہیں۔ خوب طرح چھان بین کر کے سچی اور پاک باتوں کو نقلی اور ملمع کی ہوئی باتوں سے الگ کر کے چھانٹ لیں اگر تمیز یا پرکھ اور جانچ کے لفظ کے معنی یہ لئے جائیں توسے معنی یہ لئے جائیں تو اس معنی میں یہ لفظ ذیل کے مقاموں میں بھی کام آیا ہے۔ (لوقا ۱۴: ۱۹) میں۔ (۱۔کرنتھیوں۳: ۱۳اور۱۱: ۲۸ اور ۱۔تھسلنیکیوں ۲: ۴اور۵: ۲۱) میں وغیرہ وغیرہ ۔ اگر اس کا ترجمہ فرق کرنا کیا جائے تو اس کی تائید (۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۴۱اور گلیتوں ۴: ۱) سے ہوتی ہے۔

دوم

ان لفظوں کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رسول ان کے لئے یہ دعا کرتا ہے کہ وہ ان چیزوں کو پسند کریں جو اعلیٰ قسم کی ہیں یا قیاس سے باہر ہیں۔ یعنی کہ وہ ہمیشہ فضل کی اعلیٰ دولت کی طرف اپنا پسند کرنے والا ہاتھ بڑھایا کریں۔ اور نیچے کی دنیاوی چیزوں پر قناعت نہ کریں بلکہ سچی روحانی سمجھ سے ہمیشہ ان چیزوں کو اپنے لئے چنیں اور پسند کریں اور انہیں سے فائدہ اٹھائیں جو زندگی اور خدا پرستی کے لئے اعلیٰ اور پوری بخششیں ہم کو آسان سے عطا کی جاتی ہیں۔ ان کا ذکر (۲۔پطرس ۱: ۳اور افسیوں ۱: ۱۸، ۱۹اور عبرانیوں ۶: ۱) اور اور مقاموں میں بھی ہوا ہے۔ پسند کرنے کے لئے جو لفظ ہے۔ اگر اس کے یہ معنی لئے جائیں تو اس کی تائید (متی۶: ۲۲اور۱۰: ۳۱اور ۱۲: ۱۲اور گلیتوں۲: ۶) سے ہوتی ہے۔

جن عالموں نے انجیل کے ترجمے کی نظر ثانی کی ہے انہوں نے ان دونوں معنوں میں پچھلے معنی کو یعنی پسند کرنے کو ترجیح دی ہے۔ اور بشپ لائٹ فٹ صاحب مفسر نے بھی اس معنی کو بہتر سمجھاہے۔ مگر بات یہ ہے کہ دونوں معنی جو ہم نے اوپر بیان کئے میں کھپ سکتے ہیں۔ اسی کے موافق لفظ (رومیوں۲: ۱۸) میں بھی آیا ہے۔ اس کے بھی یہ دونوں ترجمے ہو سکتے ہیں۔

مسیح کے دن تک

(۲: ۱۶) میں بھی یہی لفظ آئے ہیں۔ہم ان باتوں کو اس وقت بھی اپنے دلوں میں معلوم کریں اور مسیح کے دن کو ہمیشہ اپنے خیال کے سامنے رکھیں۔ ہم کو لازم ہے کہ اس وقت بے داغ اور بے ٹھوکر رہیں تاکہ جب خداوند آئے تو اس سے خوشی کے ساتھ اور بغیر شرم کے ملاقات کر سکیں مسیح کے دن کے بارے میں جو شرح کہ ہم نے (۵: ۶) میں لکھی ہے اس کو پڑھو۔

صاف دل رہو

ان لفظوں میں رسول اس مقصد کا بیان شروع کرتا ہے جو اس کے مد نظر تھا کہ اس کی ترکیب مذکورہ بالا سے حاصل ہوتا ہے یونانی میں اس مقصد کے شروع میں وہ صرف ربط ہے جو مطلب سے پہلے آتا ہے یعنی تاکہ۔ اور مطلب وہ ہیں ایک پاکیزگی اور دوسری وہ زندگی جس میں اچھے کاموں کے پھل کثرت سے لگتے ہیں۔

جس لفظ کا ترجمہ یہاں صاف دل ہوا ہے اس سے مطلب ہے۔ خالص بے میل بے کھوٹ۔ علیحدہ یعنی اچھوتا اور بے داغ۔

اس کے اصل لفظ کے تین مادے خیال کئے جا سکتے ہیں۔

اول

مادہ ایک یونانی لفظ ہے۔ جس کے معنی ہیں۔ فوج یا کمپنی۔ اس سے مطلب ہے۔ وہ لوگ جو باقاعدہ طور پر جنگی صفیں باندھے ہوئے الگ کھڑے ہیں۔ یعنی وہ جوان جو ہیں تو کھڑے ہوئے کھوئے سے کھوا بھڑائے ۔ مگر اور جو ملے جلے لوگ چاروں طرف کھڑے ہیں ان سے وہ علیحدہ ہیں اس میں مسیحی سپاہیوں کے لئے یہ خیال پیش کیا گیا ہے۔ کہ وہ دنیا سے تو علیحدہ رہیں۔ مگر اپنے خداوند کے لئے جو لڑائیاں در پیش ہیں وہ لڑتے رہیں ہم ہند کے مسیحیوں کے لئے اس میں یہ نصیحت ہے کہ ہم بت پرستوںکے درمیان تو بے شک رہنے ہیں۔ مگر چاہئے یہ کہ ہم بت پرستوں اور غلط پرستوں کی باتوں سے علیحدہ رہیں۔ضرور ہے کہ مسیح کی کلیسیا بت پرستوں کے دستوروں اور رسموں کے غلط ملط سے پاک رہے۔

دوم

اس کا مادہ ایک اور یونانی لفظ بھی ہو سکتا ہے جس کے معنی ہیں سورج کی روشنی۔ اس سے جو خیال گزرتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی ایسی چیز جس کو آفتاب کی روشنی نے خوب طرح جانچ پرکھ کر معلوم کر لیا ہو کہ وہ اب پاک صاف ہے۔ اور جو آلائش یا گندگی اس میں تھی وہ نکل آئی اور دور کر دی گئی۔ اس میں مسیحی مقدسوں کے لئے یہ نصیحت ہے کہ آفتاب صداقت نے ان کی خوب طرح چھان بین کر کے پاک صاف کر دیا ہے۔

سوم

اس کا مادہ ایک اور یونانی لفظ فعل ہو سکتا ہے جس کے معنی ہوتے ہیں۔ لڑھکتے جانا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو باہر کی آلائش کسی چیز میں لگ جاتی ہے اس کو زمین پر لڑھکا کر چھڑا دینا اور اس چیز کو اس طرح خالص اور پاک کر لینا۔ اس میں ہم مسیحیوں کے لئے یہ خیال ہے کہ ہمارا دکھ اٹھانا گویا آزمائش کی جھلنی میں پھٹکا جانا ہے جس سے کوڑا الگ ہو جاتا ہے اور گیہوں الگ۔ مسیحی اس ترکیب سے ایسے صاف ہو جاتے ہیں جیسا کہ سونا جب پتھر میں ملا ہوا کان میں سے نکلتا ہے تو کونٹے اور دھونے سے خالص نکل آتا ہے۔

ان تینوں ترجموں میں سے اول ترجمہ عالمانہ اعتبار سے بالکل بے عیب ہے۔

اور ٹھوکر نہ کھاﺅ

جس لفظ کا یہ ترجمہ ہے اس کے دہرے معنی ہیں۔ ایک تو آپ ٹھوکر نہ کھاﺅ اور دوسرے یہ کہ کسی دوسرے کو ٹھوکر نہ کھلانا۔ یہ دونوں معنی اس موقع پر لگتے ہیں۔ مسیحیوں کو خود بھی اس دنیا میں اس طرح چلنا چاہئے۔ کہ بے ایمانی یا نافرمانی جیسے باعثوں سے رک نہ جائیں۔ اور ان کو اس بات کی بھی احتیاط رکھنی ضرور ہے کہ مبادا اپنی بری چاں سے دوسروں کے لئے ٹھوکر کا باعث ہوں۔ اس ملک میں ہندوﺅں اور مسلمانوں کی آنکھیں ہم پر لگی ہوئی ہیں۔ایسا نہ ہو کہ ہماری بد چلنی ان کو خدا کی راہ میں آنے سے روک دے۔

صاف دل رہنے کا لفظ مسیحی خصلت سے متعلق ہے اور ٹھوکر نہ کھانے کا لفظ مسیحی چال سے علاقہ رکھتا ہے۔

۱۱۔ اور راستبازی کے پھل سے جو یسوع مسیح کے سبب سے ہے بھرے رہو تا کہ خدا کا جلال ظاہر ہو اور اس کی ستائش کی جائے۔

راستبازی کے پھل

پھل کا لفظ (گلیتوں۵: ۲۲) میں بھی آیا ہے اور پھر یہی بات (یعقوب ۳: ۱۸) میں بھی آئی ہے اور (عبرانیوں ۱۲: ۱۱) کو بھی پڑھو کہ وہاں بھی یہ لفظ آیا ہے۔ ممکن ہے کہ راستبازی کے پھل کا خیال پرانے عہد نامے کے اس ترجمے کی عبارت سے لیا گیا ہے۔ جس کو ستر ربیوں نے کیا تھا اور (امثال ۱۱: ۲۳اور۱۳: ۲اور(عاموس۶: ۱۲) میں یہ لفظ پائے جاتے ہیں۔ ان لفظوں کی ترکیب کو خیال کر کے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے معنی یا تو یہ ہیں کہ وہ پھل جو خود راستبازی ہے یا وہ پھل جو راستبازی سے پیدا ہوتا ہے۔ مگر (گلیتوں ۵: ۲۲) میں جو روح کے پھل کا ذکر ہے۔ ان سب کے ہم شکل ہونے سے قیاس یہی چاہتا ہے کہ دوسرے معنی صحیح ہیں۔ پس اب اس محاورے کے معنی یہ ہوں گے کہ راستبازی کا پھل یعنی مسیح کی راستبازی جو ایماندار کو منسوب کی جاتی اور اس سے وہ راستباز ٹھہرتا ہے اور روح القدس کے وسیلے سے وہ راستبازی روز بروز اس کے دل میں اثر کر کے اس کی تقدیس کا باعث ہوتی ہے۔ جس کا پھل اس طرح ظاہر ہوتا ہے۔ کہ اس شخص کی خصلت پلٹ کر نئی ہو جاتی۔ اس کا چال چلن خدا کی مرضی کے مطابق بن جاتا وہ دنیا کے سامنے اپنے خداوند کا ایک مبارک گواہ ہو جاتا اور اس کی خدمت و بندگی وفاداری سے بجا لانا ہے۔ اس بارے میں (یسعیاہ ۳۲: ۱۶۔۱۷) کو بھی دیکھو۔

جو یسوع مسیح کے سبب سے

اس پھل لانے کی شرط یہ ہے کہ ایماندار مسیح کے ساتھ ایک رہے (یوحنا ۱۵: ۱سے۱۶) تک جو تقسیم دی گئی ہے وہ سب یہاں چسپاں ہے۔

جب ہم مسیح کے ساتھ ایک ہوتے ہیں اور اس میں قائم بھی رہتے ہیں تو ہم اپنے اندر اس کی زندگی اور روح کے متواتر سرایت کرتے رہنے سے پھل پیدا کرنے بلکہ بہت ساپھل لانے کی قوت حاصل کرتے ہیں۔

بھرے رہو

اصل لفظوں کا مطلب یہ ہے کہ بھرے ہوئے رہ کر۔ یعنی کہ بھری ہوئی حالت جاری رہے۔ جب دل میں سچی پاکیزگی ہوتی ہے تو اس کا نتیجہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ پھل پیدا ہو۔ (۹،۱۰) میں جس ترکیب اور پسند کا بیان ہے اگر اسے پورے درجے کا پھل پیدا نہ ہو تو اس کا مقصد پورا نہ ہوا چاہئے یہ کہ خدا کے لگائے ہوئے درخت ہمیشہ پھل سے لدے ہوئے ہیں۔

تاکہ خدا کاس جلال ظاہر ہو اور اس کی ستائش کی جائے۔

یہی مسیحیوں کی زندگی کا اصل مقصد اور مطلب ہونا چاہئے۔ ہماری زندگی کے پاکیزہ اور پھلدار ہونے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم کو خود آرام و خوشی حاصل ہو۔ بلکہ اس سے صرف خدا کی بزرگی اور ستائش ہو۔ پس مشنریوں کی زندگی اور خدمت کے لئے یہ بات بڑی مقدم ہے اور ان کو اسے ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے۔ ہند کی کلیسیا کی زندگی کا بڑا مقصد بھی یہی ہونا چاہئے کہ اس سے خدا کی بزرگی اور جلال ظاہر ہو اور اس ملک پر کیا حصر ہے بلکہ ساری دنیا کے ملکوں کا یہی بڑا مقصد ہونا چاہئے کہ ان سے خدا کی حمد و بزرگی ہو۔

جلال و بزرگی

جلال و بزرگی سے مطلب یہ ہے کہ خدا کے اوصاف ظاہر ہو جائیں۔

حمد ستائش سے مطلب یہ ہے کہ خدا کی ساری مخلوق اس کے اوصاف کی تعریف اور مبارک بادی بیان کیا کرے۔ اس بارے میں (افسیوں ۱: ۶)۔ کو بھی دیکھو۔

۲۱سے۶۲آیت تک پولس کی ذات خاص کا احوال

یعنی اس کی قید اور اس کے کام وغیرہ کا بیان ہے۔ اس حصے میں یعنی (۱۲سے۱۴) تک پولس اپنے قید میں پڑنے کا حاصل بیان کرتا ہے۔ اور (۱۵سے۱۸) تک اپنے مخالفوں کا ذکر کرتا ہے۔ پھر (۱۹ سے۲۰) میں اپنے حال کے بے تحقیق ہونے کے بارے میں لکھتا ہے۔ اور (۲۱سے ۲۴) تک یہ بیان کرتا ہے کہ میں نے کس بات کو پسند کر کے چن لیا ہے اور آخر (۲۵ ، ۲۶) میں اپنے بھروسے کا بیان کرتا ہے۔

۲۱۔ اور اے بھائیو۔ میں چاہتا ہوں تم جان لو کہ یہ مجھ پر گزرا وہ خوشخبری کی ترقی ہی کا باعث ہوا۔

مجھ پر گزرا

یہی الفاظ (افسیوں۶: ۲۱اور کلسیوں۴: ۷) میں آئے ہیں۔ انسان کی نظر سے اگر پولس کی ان وارداتوں کو دیکھا جائے تو جو نتیجے وہ بیان کرتا ہے کہ ان سے پیدا ہوئے وہ بالکل قرین قیاس نہیں معلوم ہوتے بلکہ اس کے خلاف ہیں۔ مگر چاہئے یہ کہ جتنی وارداتیں صادر ہوتیں ہیں ہم کو ان سب پر ایمان کی نظر سے خیال کیا کریں۔ اور یہ یاد رکھیں کہ خدا اپنے انتظام سے ان سب کی کچھ ایسی شکل پیداکر لیتا ہے کہ اسی کی مرضی پر آئے۔ جیسا کہ (رومیوں۸: ۲۸) سے بھی پایا جاتا ہے۔

خوشخبری کی ترقی ہی کا باعث ہوا

جس لفظ کا ترجمہ یہاں ترقی کیا گیا ہے اس سے خیال سفر بینا کا سا پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اصل میں اس کے معنی ہیں کہ جب کوئی شخص بے راہ جنگل میں گزر رہا ہو تو جو درخت یا ٹیلے اس کی سد راہ ہوں ان کا کاٹتے جانا اس طرح اپنے آگے کا راستہ صاف کر دینا۔ اس لفظ کا اسم تو اسی باب کی پچیسویں آیت میں اور (۱۔تیمتھیس ۴:۱۵) میں آیا ہے۔ مگر اس حرف کا فعل (لوقا ۲: ۵۲، رومیوں ۱۳:۱۲ ،گلتیوں۱: ۱۴اور۲۔تیمتھیس۲: ۱۶،۳: ۹اور۱۳) میں کام میں آیا ہے۔

ہند میں انجیل کے اس کام کی ضرورت ہے جس کو سفر مینا کا کام کہنا چاہئے۔ یعنی کہ رستہ صاف و تیار کرنا۔ پس ہم سب کو دعا مانگنی چاہئے۔ کہ انجیل کی ترقی اسی طرح ہو اور اسی مطلب کے لئے کام بھی کرنا چاہئے۔ یعنی کہ ہمارا خداوند جو فتح کرنے والا سردار ہے اس کے آگے بڑھنے کے لئے جو راہ سامنے ہے وہ صاف کر دی جائے۔

باعث ہوا

کے لئے جو لفظ ہے وہ زمانہ قریب کا فعل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ انجیل کی ترقی ہی کا باعث ہوا ہے اور اب تک ہوتا جاتا ہے۔

۱۳۔ یہاں تک کہ قیصری سپاہیوں کی ساری پلٹن اور باقی سب لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ مسیح کے واسطے قید ہوں

قیصری سپاہیوں کی ساری پلٹن

(اعمال۲۸: ۲۳) آیت میں لکھا ہے کہ پولس اپنے کرایہ کے گھر میں رہتا تھا۔ اور اسی جگہ قید تھا۔ پس قیصری پلٹن کے جو سپاہی باری باری سے پہرا دینے اس کے پاس آتے تھے وہ اس سے انجیل کی داستان سنا کرتے تھے اور واپس جا کر اور سپاہیوں کو بھی رسول کا وعظ جہاں تک یاد ہوتا تھا سنایا کرتے تھے۔ اس طرح پر مسیحی الہام کی بڑی بڑی باتیں تھوڑے ہی عرصے میں قیصری پلٹن کے سپاہیوں کو معلوم ہو گئیں۔ اور ہم یقین کر سکتے ہیں کہ ان جوانمرد سپاہیوں میں سے بعض لوگ مسیح کی صلیب کے بڑے مضبوط سپاہی بن گئے تھے۔

اور باقی سب لوگوں میں

ان لفظوں کی توضیح کے لئے (لوقا ۲۴: ۹اور۲۔کرنتھیوں ۱۰: ۵)کو بھی پڑھنا چاہئے۔ کافی بیر اور ہوسن صاحب مفسروں کی رائے یہ ہے کہ ان لفظوں سے مراد قیصر کی پلٹن کے سارے باقی سپاہی ہے اور مول صاحب کا خیال ہے کہ اس سے مراد ہے اور سارے لوگ یعنی رومہ کی خلق اللہ اور بشپ لائٹ فٹ صاحب فرماتے ہیں۔ کہ ان لفظوں کا مطلب ہے عموماً اور سارے لوگ۔ بہر حال ان لفظوں کے معنی میں بہت سے لوگ شامل ہیں اس لئے اس کا ترجمہ بہت کھینچ کر نہیں کرنا چاہتی۔

یہ مشہور ہو گیا کہ میں مسیح کے واسطے قید ہوں

یعنی لوگوں کو صاف طرح معلوم ہو گیا کہ میرا قید میں پڑنا مسیح کی وجہ سے ہے اور اس لئے کہ میں ہمہ تن اس کے ساتھ ہوں اور نہ کسی قومی یا ملکی باعثوں سے۔ پولس رسول کی قید سے یہ نتیجے پیدا ہوئے کہ۔

اول

تو جیسا (اعمال ۱۶: ۲۶) وغیرہ میں لکھا ہے اسی شہر فلپی میں جیل خانہ کا داروغہ مسیح پر ایمان لایا۔

دوم

جیسا (فلیمون ۱۰اور۱۱) آیتوں میں بیان کیا گیا ہے رومہ شہر میں انیسمس ایمان لا کر نجات کا وارث ہوا۔

سوم

یہ کہ (فلپیوں ۱: ۷ ، ۱۳، ۱۴اور۱۷) سے پایا جاتا ہے۔ سارے رومہ شہرمیں انجیل کی منادی خوب طرح سے ہو گئی۔ غرض یہ کہ پولس کی بیڑیوں تک سے مسیح کی منادی اور اس کا کام پھیل گیا۔

۱۴۔ اور جو خداوند میں بھائی ہیں ان میں سے اکثر میرے قید ہونے کے سبب سے دلیر ہو کر بیخوف خدا کا کلام سنانے کی زیادہ جرات کرتے ہیں۔

خداوند میں

اگرچہ ان لفظوں کو دلیر ہونے کے ساتھ بھی لگا سکتے ہیں مگر بہتر یہی ہے کہ ان کا تعلق لفظ بھائی کے ساتھ ہی سمجھا جائے۔ اس بارے میں اس شرح کو بھی دیکھ لو جو ہم (۲:۱۹) کے متعلق لکھی ہے۔

ان میں سے اکثر بھائی

یعنی خداوند میں جس قدر بھائی وہاں تھے ان میں سے زیادہ تر بھائیوں کے دلوں میں تو خداوند کے لئے جوش کی آگ بھڑک گئی مگر تھوڑے جو باقی رہے وہ بے پروا رہے یا تو اس لئے کہ ان کا دل نہ چاہتا تھا۔ یا وہ اس کام کے لئے کچھ دوستی نہ رکھتے تھے۔ یا وہ ڈر پوک تھے۔ (اعمال ۱۹: ۲۳اور۲۷: ۱۲اور ۱۔کرنتھیوں ۱۰: ۵) سے معلوم ہوتا ہے کہ انجیل میں جب اکثر یا زیادہ تر (رومیوںکا ذکر آیا ہے تو وہ بار رہا مخالفت پر پائے گئے ہیں۔ مگر یہاں اس کے برعکس حال ہے۔

میرے قید ہونے کے سبب سے دلیر ہو کر

یعنی میری قید کے باعث سے ان کو دلیری حاصل ہو گئی۔ کافی بیر اور ہوسن صاحب مفسروں کی بھی رائے یہی ہے اور اسی معنی سے رسول کا صحیح مطلب معلوم ہوتا ہے۔ چونکہ رسول کی قید کا باعث ایک بڑا شاندار تھا۔ اور وہ ایک بڑے جلالی شخص کی منادی کرتا تھا۔ اس وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ایک نیا جوش پیدا ہو گیا۔ خاص کر جب انہوں نے یہ دیکھا کہ اس سے انجیل کی صاف طرح ترقی ہوتی ہے۔ پولس ایک ایسا شخص تھا کہ مسیح کے لئے بیڑیاں پہننے میں یعنی بڑی عزت سمجھتا تھا۔ اور ہر چند وہ قید میں پڑا ہوا تھا۔ تا ہم ہ جانتا تھا کہ میرا منجی مسیح ہی فتح مند ہے۔ بلکہ فتح کی نسبت بھی زیادہ تر اقبال مند۔ مسیحی جوش اور بہادری میں یہ اثر ہونا چاہئے کہ سب لوگوں میں سحر کی طرح تاثیر کرے۔

بے خوف

یہ لفظ ایک صفتِ فعل ہے اورا نجیل میں صرف چار دفعہ آیا ہے۔ بعض خادمانِ دین تو ایسے نالائق ہوتے ہیں کہ جیسا (یہوداہ ۱: ۱۲) میں لکھا ہے بے دھڑک اپنا پیٹ بھرتے ہیں مگر اس کے برعکس سچے مسیحی بھی ہوتے ہیں جو (لوقا ۱: ۷۴) کے مطابق بے خوف خدا کی عبادت کرتے ہیںیا جیسا (۱۔کرنتھیوں ۱۶: ۱۰) میں ذکر آیا ہے کہ وہ بے خوف خداوند کا کام کرتے ہیں یا جیسا کہ (فلپیوں ۱: ۱۴) میں لکھا ہے کہ خدا کا کلام بے دھڑک سناتے ہیں۔

خدا کا کلام سنانے

کلام کے بارے میں جو جو مختلف نام انجیل میں آئے ہیں ان پر غور کرنے سے بڑا فائدہ ہو گا۔ اس موقعہ پر جو لفظ ہے یعنی خدا کا کلام وہ تو معمولی ہے (متی ۱۳: ۱۹) میں بادشاہت کا کلام آیا ہے اور (اعمال ۱۵: ۷) میں انجیل کا کام یا خوشخبری کا کلام آیا ہے۔ (۱۔کرنتھیوں ۱: ۱۸) صلیب کا کلام لکھا گیا ہے۔ اور (افسیوں ۱: ۱۳) میں بعض اور مقاموں میں کلام حق مذکور ہوا ہے۔ (فلپیوں ۲: ۱۶اور ۱۔یوحنا ۱:۱) میں زندگی کا کلام آیا ہے۔ (کلسیوں ۳: ۱۶) میں مسیح کا کلام لکھا گیا ہے۔ اور (۱۔تھلسنیکیوں ۱: ۸) میں اور مقاموں میں خداوند کا کلام مذکور ہوا ہے۔ اور بعض اور بھی اصطلاحیں کام میں آئی ہیں۔

زیادہ جرات کرتے ہیں

یعنی کلام سنانے میں پہلے کی نسبت بہت زیادہ دلیری یا جرات کرتے ہیں وہ مسیح کے لئے پہلے کی نسبت زیادہ اکثر اور زیادہ کھل کھلا اور زیادہ دلیری کے ساتھ گواہی دینے لگے۔ مسیحی دلیری یا جوانمردی کے بعض کاموں کے لئے جو یہی لفظ اور مقاموں پر آیا ہے ان پر بھی ذرا غور کریں۔

اول

تو (مرقس ۱۵: ۴۲) میں یہ لکھا ہے کہ یوسف نے جرات سے پیلاطس کے پاس جا کر یسوع کی لاش مانگی۔

دوم

(رومیوں ۵: ۷) میں بعض آدمیوں کے اپنے نیک ہم جنسوں کے لئے اپنی جان تک دے دینے کی جرات کرنے کا ذکر آیا ہے۔

سوم

پھر (۲۔کرنتھیوں ۱۰: ۲) میں معلموں کی غلط تعلیم کی مخالفت پر دلیر ہونے کا ذکر ہوا ہے۔

چہارم

پھر اسی خط کے (۱۱: ۲۱سے۲۷) تک یہ بیان آیا ہے کہ انجیل سنانے والوں کو حق کے لئے کام کرنے اور دکھ اٹھانے میں دلیر ہونا چاہئے اور

پنجم

(فلپیوں۱: ۱۴) میں یہ لکھا ہے۔ کہ ایماندار انجیل سنانے کے لئے دلیر ہو گئے۔

۱۵۔بعض تو حسد اور جھگڑے کی وجہ سے مسیح کی منادی کرتے ہیں اور بعض نیک نیتی سے۔

اس آیت میں دو طرح کے منادوں کا بیان ہے اور دونوں کے منادی کرنے کا باعث علیحدہ ہے رسول کہتا ہے کہ۔

بعض تو حسد اور جھگڑے کی وجہ سے مسیح کی منادی کرتے ہیں

ان لفظوں میں ان آدمیوں کی طرف اشارہ ہے جو رومہ شہر کی کلیسیا میں اس بات کی کوشش میں تھے کہ مسیحیوں کو یہودی شریعت کے طریق کا بنا دیں۔ اسی بات کی طرف رسول نے (۳: ۲سے۱۵) تک پھر اشارہ کیا ہے(رومیوں۲اور۴ باب سے اور اور مقاموں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح کے تھے اور ان کی تاثیر کہاں تک تھی۔ وہ انجیل کو تو مانتے تھے مگر اس بات پر بھی زور دیتے تھے کہ ختنہ کرنا ضرور ہے اور موسوی شریعت پر چلنا ہمیشہ فرض ہے وہ مسیحی تو تھے۔ مگر موسوی کفن کے اندر لپٹے ہوئے تھے اور ان کے اندر ان تفرقوں کی باتوں کا جوش بڑا سخت تھا وہ مسیح کی منادی تو کرتے تھے مگر ان کا مسیح وہ خاص مسیح تھا جو بالکل عبرانی خیال کے موافق تھا۔ ہم جو ہند میں رہتے ہیں اس سے خبردار ہیں کہ مبادا ایسے مسیحیوں کو برپا کریں جو ہند وﺅں اور مسلمانوں کے کفنوں کو پہن کر پھریں۔ یعنی جو جھوٹے مذہبوں کے پرانے مردہ دستور اور خیالات ہیں اور ان کو اختیار کر لیں۔ ذات پات کے خیال میں پڑے رہیں یا قومی دستوروں کو اپنا لباس پہنائیں۔

بعض تو حسد اور جھگڑے کی وجہ سے

اگر اصل کے لفظوں کا یوں ترجمہ کیا جائے تو بہتر ہو کہ بعض واقعی حسد اور تکرار سے ایسا کرتے ہیں اگرچہ یہ کہنا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اس کا یہ مشکل یقین کرے۔ تا ہم یہ بات تھی واقعی۔ حسد سے کرنے کے الفاظ (متی ۲۷: ۱۸اورمرقس ۱۵: ۱۰) آیت میں بھی آئے ہیں۔ ان مقاموں پر بھی ان لفظوں کا آنا قابل افسوس ہے۔ رومہ کی کلیسیا میں جو لوگ ایسا کرتے تھے۔ ان کا باعث یہ تھا کہ وہ پولس رسول کے رسوخ کا حسد کرتے تھے اور اس کے لئے جھگڑتے تھے کہ کسی طرح ہمارے ختنے کے حمایتی فریق کے طرف دار زیادہ ہو جائیں۔ اس ملک میں بھی ضرور ہے کہ ہم ان لوگوں کے حسد سے بری رہیں جو ہماری پیروی نہیں کرتے۔ اور ہم میں یہ تفرقے کا مزاج پیدا نہ ہوجائے کہ ہم کسی خاص ظاہری انتظام کو نجات کے لئے ضروری سمجھنے لگیں۔ کلیسیاﺅں کے باہم جو تفرقے ہیں ان کے لئے ہم سب کو افسوس کرنا اور ان سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ اور اگرچہ ہم کو چاہئے کہ اپنی اپنی کلیسیاﺅں سے ملے رہنے میں وفادار رہیں پھر بھی ہم اس کا خیال رکھیں کہ ہمارا سلوک اوروں کے ساتھ کشادہ دلی اور محبت کے ساتھ ہو۔

اور بعض نیک نیتی سے

جس لفظ کا ترجمہ نیک نیتی کیا گیا ہے۔ وہ انجیل میں یا تو اس معنی میں آتا ہے کہ کوئی شخص وہ کام کرے جو اسے اپنی نظر میں اچھا معلوم ہوتا ہے اس معنی میں یہ لفظ (متی ۱۱: ۲۶اور لوقا۱۰: ۱۹اورافسیوں ۱: ۵ اور۹ اورفلپیوں ۲: ۱۳) میں آیا ہے یا یہ لفظ اس معنی میں آتا ہے کہ کوئی شخص اپنے نیک دل کی مرضی سے کوئی کام کرے اس معنی میں یہ لفظ (رومیوں ۱۰: ۱) میں اور شاید (لوقا۲: ۱۴ اور ۲۔تھسلنیکیوں ۱: ۱۱) میں کام آیا ہے۔ مگر جس مقام کی ہم یہاں شرح لکھ رہے ہیں اس میں یہ لفظ دونوں معنی میں شامل معلوم ہوتا ہے۔

یہ لوگ مسیح کی منادی اپنی پسند اور خوشی کی خاطر کے ساتھ بھی کرتے تھے۔ اور اپنی نیک نیتی سے بھی کیونکہ وہ اپنے ہم جنسوں کو بھی فائدہ پہنچانا چاہتے تھے۔ اور رسول کے دل کو بھی خوش کرنا چاہتے تھے۔ اسی لئے بشپ مول صاحب اس کو وفاداری کی خوش خاطری کہتے ہیں۔

۱۶۔ ایک تو محبت کی وجہ سے یہ جان کر مسیح کی منادی کرتے ہیں کہ میں خوشخبری کی جواب دہی کے واسطے مقرر ہوں۔

خوشخبری کی جواب دہی کے لئے

ساتویں آیت میں بھی یہی لفظ آئے ہیں اس کو بھی پڑھو۔ جن لوگوں کے دلوں میں خدا کی اور انسانوں کی روحوں کی محبت تھی۔ ان سب کے دلوں میں بے شک پولس رسول کی جوانمردی کے کاموں کو دیکھ کر بڑا جوش سے پیدا ہوا ہو گا۔ کیونکہ اگرچہ وہ اکیلا شخص تھا اور قید میں پڑا ہوا۔ تو بھی کسی بہادری سے مسیحی کے قلعے کی حفاظت میں سرگرم تھا جیسا کہ (۲۔سموئیل ۲۳: ۱۱) میں بادشاہ کے سردار شمہ کا ذکر لکھا ہے کہ وہ اکیلا ساری فلستیوں کی فوج کے مقابلے میں اپنی جگہ پر کھڑا لڑتا رہا اور سارے دشمنوں کو اس اکیلے جوان نے تہ تیغ کیا۔ پولس بھی خوشخبری کی جواب دہی اور حمایت میں ساری مخالفین حملہ کرنے والوں سے اکیلا لڑتا تھا۔ ایسے بہادر سپاہی کو دیکھ کر کون لڑنے سے قدم پیچھے ہٹائے گا۔

میں (اس کام کے لئے) مقرر ہوں۔

بشپ مول صاحب ان لفظوں کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ ان سے پاک ایسے سپاہی کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ جس کا پہرہ کسی لڑائی کے خطرناک مقام پر مقرر کیا گیا ہو۔ اور دشمن کے ہاتھ سے لشکر کی حفاظت کے لئے ایک سلسلہ تجاویز ٹھہرا لیا گیا ہو۔ رسول کے یہ لفظ فلپی کے مسیحیوں کے دلوں پر یہ خیال جمانے کے لئے لکھے گئے ہو کہ سرحد پر دشمنوں سے سلطنت کی حفاظت کرو۔

جس اصل لفظ کا ترجمہ مقرر کیا گیا ہے وہ فعل اور مقاموں پر بھی آیا ہے ان کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیحی

اول

تو جیسا کہ (متی ۵: ۱۴) میں لکھا ہے روشنی دینے کے لئے مقرر ہے۔

دوم

جیسا کہ (فلپیوں ۱: ۱۶) آیا ہے کہ وہ خوشخبری کی جواب دہی کے لئے بھی مقرر کیا گیا ہے۔

سوم

جیسا (۱۔تھسلنیکیوں۳:۳) میں مذکور ہے وہ مصیبتیں سہنے کے لئے بھی مقرر ہوا ہے۔ اس بارے میں (لوقا۲: ۳۴) آیت کو بھی دیکھو۔

اس لفظ میں کسی قدر پست ہونے کا بھی خیال گزرتا ہے۔ یعنی اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ خوشخبری کی عمدہ جواب دہی کرنے والے ہوں تو ضرور ہے کہ ہم اپنے آپ کو خاک کی طرح پست کریں۔ جیسا کہ سپاہی بھی جب میدان جنگ میں خواہ دشمن پر گولی چلاتا ہے۔ خواہ دشمن کے نشانے سے اپنے آپ کو بچاتا ہے تو اکثر زمین پر لیٹ کر ایسا کرتا ہے۔

۱۷۔ مگر دوسرے تفرقے کی وجہ سے۔ نہ کہ صاف دلی سے۔ بلکہ اس خیال سے کہ میری قید میں میرے لئے مصیبت پیدا کریں۔

تفرقے کی وجہ سے

جس یونانی لفظ کا ترجمہ ہے اس کے معنی اول یہ ہوا کرتے تھے۔ کہ مزدوری کے لئے محنت کرنا۔ پھر اس کے معنی یہ پڑ گئے کہ کوئی عہدہ حاصل کرنے کی خاطر لوگوں کے پاس جا کر ان کی سفارش اور طرف داری حاصل کرنا۔ ہوتے ہوئے اس کے معنی یہ ہو گئے کہ کسی خاص فرقے کی طرف داری کا مزاج پڑجانا کافی بیر اور ہوسن صاحب مفسر اس کا ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ چپکے چپکے اور فطرت کے ساتھ لوگوں کے ساتھ سازش یا جوڑ توڑ کرتے۔غرض یہ ہے کہ جن لوگوں کا رسول ذکر کرتا ہے کہ وہ مسیحیوں کو پرانے یہودی دستوروں اور شریعت کے پابند رکھنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں میں کمینہ پن کا وہ غصہ اور جھگڑا بھی تھا جو روزینہ دار مزدوروں کے باہم اپنی مزدوری کے بارے میں اکثر ہوا کرتا ہے۔ اور ملکی معاملات کی مجلسوں میں جو لوگ شریک ہونے کی خاطر بڑی جانفشانیاں کرتے اور لوگوں کے پاس جا کر اپنے لئے سفارشیں مانگتے ہیں ان کی سی سرگرمی بھی ان میں تھی۔ یہ لفظ (۲: ۳) میں پھر آیا ہے۔

نہ صاف دلی سے

لفظی معنی یہ ہیں کہ خلوص یا صفائی کے ساتھ نہی۔ یعنی ملے جلے اور گندے ارادوں سے کوئی کام کرنا۔ اس لفظ سے رسول مسیحی کام میں سارے کمینے اور نیچے خیالوں کے ساتھ کام کرنے اور کسی فرقے کے لئے طرف دار ہوجانے کی برائی ظاہر کرتا ہے۔ خدا کی بندگی صرف اس نیست سے کرنی کہ ہم کو اس سے روز گار یا روٹی ملتی ہے۔ یا کہ ہمارے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ صد قدلی کے ساتھ خدا کی بندگی نہیں ہے۔

بلکہ اس خیال سے کہ میری قید میں میرے لئے مصیبت پیدا کریں

اس کی تفسیر بشپ لائٹ فٹ صاحب اس طرح کرتے ہیں کہ جو لوگ رسول کی اس تعلیم کی مخالفت میں کہ مسیحی پرانی شریعت کی رسموں سے آزاد ہیں لوگوں کو ابھارتے اور رسول کے برخلاف اس فرقے کی تعداد کو بڑھاتے ہیں وہ اس میں داخل ہیں اور بشپ مول صاحب کی تفسیر یہ ہے کہ جو لوگ متلاشیوں یا نومریدوں کو رسول کے پاس آنے سے روکتے تھے۔ ان سے مراد ہے۔ کافی بیر صاحب اور ہوسن صاحب کی تفسیر یہ ہے کہ ان لفظوں میں اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو رسول پر یہ الزام لگاتے تھے کہ اس کی تعلیم جھوٹی ہے اور قومی تعلیم کے برخلاف ہے اور اس طرح کو یہودی نسل کے مسیحی رومہ شہر میں رہتے تھے ان کی نظر میں رسول کو ذلیل کرتے تھے۔ غرض یہ کہ ان لفظوں میں رسول کا مطلب ان سب لوگوں سے ہے جن میں یہ ساری باتیں جو یہ مفسر بیان کرتے ہیں۔ پائی جاتی تھیں اور جن کی غرض یہ تھی کہ رسول کو بے عزت کریں اور کلیسیا میں نا اتفاقی پھیلائیں۔ جس لفظ کا ترجمہ یہاں یہ کیا گیا ہے کہ میری قید میں میرے لئے مصیبت پیدا کریں۔ اس کا ترجمہ لائٹ فٹ صاحب یہ کرتے ہیں کہ وہ میری زنجیروں یا بیڑیوں سے میری ٹانگوں کو گھائل بناتے ہیں۔ حقیقت میں جو مصیبت کے لئے یونانی لفظ ہے اس کے اصلی معنی ہیں بھی یہی کہ کسی چیز کو رگڑنا اور دبانا۔

۱۸۔ پس کیا ہوا؟ صرف یہ کہ ہر طرح سے مسیح کی منادی ہوتی ہے بہانے سے ہو۔ خواہ سچائی سے اور اس سے میں خوش ہوں۔ اور رہوں گا بھی۔

پس کیا ہواصرف یہ کہ ہر طرح سے مسیح کی منادی ہوتی ہے

گویا رسول یہ کہتا ہے کہ اس کا کیا مضائقہ ہے؟ میں تو مسیح کا ایک شخص غلام ہوں اور کچھ چیز ہوں نہیں پس میرا اس میں کیا نقصان ہے؟ غرض رسول یہ کہنا چاہتا ہے کہ سب سے بہتر تو یہ بات ہے کہ میں ان کی مخالفت کا کچھ خیال نہ کروں مگر اس کا ایک اثر ضرور ہوتا ہے اور صرف ایک ہی اثر ہے۔ کہ اس سے میرے مالک مسیح کا نام مشہور ہوتا ہے۔ اور اس کے کام کی ترقی ہوتی ہے۔

بہانے سے

جس لفظ کا یہ ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کے اصل معنی ہیں ”دکھانے کے ارادے سے“ یعنی جو ارادہ یا مطلب کہ ظاہر کیا گیا ہے۔ وہ اور منصوبوں کے چھپانے کے لئے پردے کا کام دیتا ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو باتیں نہایت درست ہیں۔ وہ بھی دھوکے بازی کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔ اسی کی مثالیں انجیل میں اور مقاموں پر بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً

اول

تو(مرقس ۱۲: ۴۰اورلوقا۲۰: ۳۷) میں دکھانے کے لئے دعا مانگنے کا ذکر ہے۔

دوم

(اعمال ۲۷: ۲۳) میں بہانے سے کچھ کام کرنے کا بیان ہوا ہے۔

سوم

(۲۔تھسلنیکیوں ۲: ۵) میں اسی جگہ کی طرح بہانے یا دکھاوے کے لئے منادی کرنے کا ذکر ہے۔

چہارم

(یوحنا ۱۵: ۲۲) ناواقفیت کے بہانے یا عذر کا مذکورہے جویونانی لفظ ان سارے مقاموں پر کام آیا ہے۔ وہ ایک ہی ہے۔

منادی

کے لئے جو لفظ اس آیت میں ہے وہ وہی ہے جو (۱۷) آیت میں آیا ہے جس کے معنی ہیں لوگوں میں کسی بات کا اشتہار دینا یا کسی بات کی خبر سنانی۔

اس سے میں خوش ہوں اور خوش رہوں گا بھی

اس کا بہتر ترجمہ یہ ہے کہ میں اس سے خوش ہوتا ہوں۔ ہاں اور ضرور خوش رہوں گا۔ رسول جو یہ بات بیسا ختہ طور پر یکایک بول اٹھا ہے اس سے اس کے دل کے خیالات کی کش مکش پائی جاتی ہے اور یہ بیان کرنا چاہتا ہے کہ میرے دل کے اندر جو دو باتوں کی ردو بدل ہوئی ان کے بارے میں میں نے کس طرح اپنے نفس پر فتح پائی۔ جو شخص کی تابعدار ہے وہ اپنے ملک کی عزت بڑھتی ہوئی دیکھ کر خوشی منا سکتا ہے ہر چند اس سے اس کی اپنی ذات خاص کی بے عزتی ہوتی نظر آتی ہو۔ اس خیال کےمتعلق(یوحنا۳: ۲۹سے۳۰) کو بھی ملاحظہ کرو۔

غرض رسول جب یہ دیکھتا ہے کہ میرے مالک کی بزرگی ظاہر ہونے کاایک نیا موقع ہے تو اپنے دل کے خیالوں کو بالکل دبا دیتا ہے۔ پس اگرچہ یہ لوگ جو اس کے مخالف تھے مسیح کی منادی ایک بڑے نالائق مطلب کے لئے کرتے تھے تو بھی رسول اس میں دل سے خوشی منا سکتا تھا۔ کیونکہ اس بات سے بھی مسیح کی حقیقت غیر قوموں میں ظاہر ہوتی تھی۔ اس بارے میں اب اس کے سامنے یہ سوال پیش نہ تھا کہ وہ ان کے اس مخالف ارادے میں کہ پرانی یہودی شریعت اور دستور مانے جائیں ان باتوں سے انجیل کی تعلیم کے آزاد ہونے کی حمایت کرے۔ جیسا کہ اس نے کلیسیا کو پاک صاف رکھنے کی نیک سرگرمی سے گلیتوں کے بارے میں کیا تھا۔ مگر اس موقع پر غیر قوموں کے درمیان انجیل کی خوشخبری پھیلانے کا صرف ایک امر در پیش ہے۔

۱۹۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تمہاری دعا اور یسوع مسیح کے روح کے انعام سے اس کا انجام میری نجات ہو گا۔

تمہاری دعا سے

یہی لفظ چوتھی آیت میں بھی آیا ہے۔

رسول نے ان کے لئے خدا سے درخواست کی تھی۔ اب ان کی باری تھی کہ وہ بھی اس کے لئے خدا سے درخواست کریں۔ پولس اپنے خطوں میں مسیحیوں سے اکثر یہ استدعا کرتاہے کہ وہ اس کے لئے خدا سے دعا مانگیں۔ مثلاً (رومیوں ۱۵: ۲۳اور افسیوں ۶:۱۸، ۱۹اور کلیسوں ۴: ۲، ۳) آیتوں میں اور بعض اور جگہوں میں بھی۔

یونانی میں جس ترکیب سے یہ لفظ آئے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ روح کا انعام ان کی دعا کے جواب میں دیا گیا ہے معاملہ تو ایک ہی ہے اس کے پہلو دو ہیں۔ ایک تو ان کی طرف کا کام ہے۔ یعنی دعا مانگنا۔ دوسرا خدا کی طرف کا کام ہے۔ یعنی روح کا انعام دینا۔

یسوع مسیح کے روح کے انعام سے

ان لفظوں کی اصل ترکیب پر لحاظ کر کے اس فقرے کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔

اول تو یہ کہ وہ کثیر انعام جو روح دیتا ہے۔ کافی بیر اور ہوسن مفسر ان ہی معنی کو لے کر اس فقرے کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ یسوع مسیح کی روح کے وسیلے سے میری ساری احتیاجیں پوری ہو جائیں گی۔

لیکن اگر دوسرے معنی لئے جائیں تو یہ مطلب ہے کہ وہ کثیر انعام جو روح خود ہے۔ جس کی مراد یہ ہے کہ روح القدس جس کا لقب فار قلیط ہے وہ رسول کی روح کے اندر اور بھی زیادہ کثرت کے ساتھ حاصل ہو گا۔

اس مقام پر یہ دونوں معنی اچھی طرح کھپ سکتے ہیں۔ اگر خدا کا روح ہم کو زیادہ تر پورے طور پر حاصل ہو تو ضرور ہے کہ ہماری ساری احتیاجیں زیادہ تر پورے طور پر رفع ہو جائیں۔ مناسب ہے کہ ہند کا ہر مسیحی روح کے اس کثیرانعام کی تلاش میں رہو تو ضرورہے کہ جیسا (اعمال۱: ۸اور۴: ۳۱، ۳۲، ۳۳) میں لکھا ہے ہم کو قوت اور برکت دونوں حاصل ہوجائیں گی۔

انعام

یونانی میں جو لفظ ہے اس کا مطلب ہے کہ بخشش کا بڑی کشادہ دستی سے دیا جانا۔ یا اور زیادہ تر دیا جانا۔ (افسیوں ۴: ۱۶) میں یہی لفظ پھر آیا ہے۔ اور یونانی میں جو لفظ ہے جس کے معنی ہیں ناچنے گانے کی بڑی تکلیف کی محفلوں کا خرچ اٹھانا۔ اسی لفظ سے نکلا ہوا یہ لفظ ہے۔ مگر اس کے معنی میں بہت زور ہے۔ پولس رسول کو روح کے فضل وقوت کا انعام کثرت کے ساتھ ایک تو پہلے ہی حاصل ہو چکا تھا۔ اب وہ فلپی کے مسیحیوں کی دعا کے جواب میں اور زیادہ بخشش یعنی یسوع مسیح کے روح القدس کے نئے اور کثرت سے انڈیلے جانے کا امیدوار تھا۔ یہ وہ فار قلیط ہے جو یسوع مسیح میں سے صادر ہوتا اور اس کا مکاشفہ ایماندار کے دل میں پیدا کرتا ہے۔

اس کا انجام

اس کا اشارہ رسول کی آزمائش اور دکھ کی موجودہ حالتوں کی طرف ہے۔ یعنی رسول کا زنجیر بند قید خانے میں پڑا ہونا اور اسی کے ساتھ اور جس قدر کڑوی کڑوی باتیں اور مصیبتیں اس کو اٹھانی پڑتی تھیں۔

میری نجات ہو گا

یعنی میرے لئے اس کا انجام نجات یا مخلصی ہو گا یہ الفاظ جو رسول کی زبان سے یہاں نکلتے ہیں اس نے (ایوب ۱۳: ۱۶) سے جیسا کہ ستر ربیوں کے ترجمے میں الفاظ ہیں گویا بے معلوم نقل کئے ہیں۔

نجات کا لفظ اس مقام پر جیسا کہ بعض کا خیال ہے رسول کے بدن کی سلامتی کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔ بلکہ غالباً اس سے مراد ہے آخری یا ابدی نجات اور آسمانی جلال جو اس سے متعلق ہے۔ اسی معنی میں یہ لفظ (۲۸) آیت میں بھی کام میں آیا ہے جو خیال (۳: ۲۰) میں مندرج ہے اس کو بھی دیکھو۔ یہی انجام سچے ایماندار کی باطنی نظر کے رو برو رہنا چاہئے۔ اس بارے میں (رومیوں ۱۳: ۱۱اور ۱۔تھسلنیکیوں ۵: ۸اور عبرانیوں ۹: ۲۸اور ۱۔پطرس۱: ۵) کو بھی ملاحظہ کرو۔ رسول کے اس خیال میں یہ بھی خیال شامل ہے۔ کہ میری مصیبتوں سے جو تعلیم وتربیت مجھے حاصل ہو گی۔ اس سے میری روحانی زندگی کو اور بھی ترقی ہو گی جو فتح یابیاں رسول کو اپنے نفس پر فی الحال حاصل ہو چکی تھیں۔ وہ خدا کی نجات بخشنے والی قوت اور فضل کے نئے ماحصل تھے۔ نجات جیسا کہ اعمال کے نئے ترجمے گے (۲: ۴۷) سے معلوم ہوتا ہے ایک عملی ترکیب بھی ہے اور انجام بھی۔

۲۰۔ چنانچہ میری دلی آرزو اور امید یہی ہے کہ میں کسی بات میں شرمندہ نہ ہوں۔ بلکہ میری کمال دلیری کے باعث جس طرح مسیح کی تعظیم میرے بدن کے سبب سے ہمیشہ ہوتی رہی ہے۔ اسی طرح اب بھی ہو گی۔ خواہ میں زندہ رہوں خواہ مروں۔

چنانچہ میری دلی آرزو اور امید یہی ہے

یعنی روح کا ایسا انعام میری دلی آرزو کے موافق ہے۔ دلی آزرو کے الفاظ (رومیوں ۸: ۱۹) میں صرف ایک بار پھر آئے ہیں اور ان کا مطلب ہے سر کو آگے کی طرف جھکائے ہوئے شوق کے ساتھ کسی شے کی تاک میں رہنا۔ جس طرح کہ کوئی گھوڑوں دوڑ کو سر آگے نکالے ہوئے تاکتا ہے۔ اس خیال میں یہ بھی شامل ہے کہ جو مطلب دل میں سمایا ہوا ہے اس کے شوق میں بالکل غرق رہنا۔ کسی بات کی لو۔ یا۔ دھن لگ جانے کے لئے جیسا کہ یہ محاورہ ہے اور ملنا مشکل ہے۔ جن دومقاموں پر یہ محاورہ آیا ہے ان سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے۔ کہ مسیحی کا سارا دل و جان دو مطلبوں پر لگ جانا چاہئے۔

اول

تو جیسا اسی آیت میں درج ہے ہماری اسی زندگی کے درمیان مسیح کا جلال و بزرگی ظاہر ہونے پر۔

دوم

جیسا (رومیوں ۸: ۱۹) آیت میں آیا ہے آئندہ زمانے میں مسیح کے آنے اور اس کے متعلق ساری برکتوں پر۔

کہ میں کسی بات میں شرمندہ نہ ہوں

کسی بات میں نہیں کے لئے جو لفظ کئی بار اس خط میں آیا ہے اس پر ذرا غور کریں۔

اول

تو اسی مقام پر کہ میں کسی بات میں شرمندہ نہ ہوں۔

دوم

اسی باب کی اٹھائیسویں آیت میں کہ تم کسی بات میں دہشت نہیں کھاتے۔

سوم

(۲: ۳)میں کہ تفرقے اور بیجا فخر کے باعث کوئی بات نہ کرو۔

چہارم

(۴: ۶)میں کہ تم کسی بات کا فکر نہ کرو۔

بشپ مول صاحب مفسر شرمندہ ہونے کے الفاظ کا مطلب اس آیت میں یہ سمجھتے ہیں کہ غلط فہمی کی شرم کے مارے ہراساں ہو جانا۔

بلکہ کمال دلیری کے باعث

دلیری کے لئے جو لفظ ہے اس کے مادے سے یہ خیال پیدا ہوا کرتا ہے کہ بولنے میں دلیر ہونا اور یہ رسول کے دل کا ایک پیارا خیال ہے۔ یہی خیال اس لفظ کا یونان کے پرانے فصیح مصنفوں نے بھی کیا ہے اور یہی خیال انجیل میں (اعمال ۴: ۱۳۔ ۲۹ اور ۳۱ اورافسیوں ۶: ۱۹) اور اور مقاموں پر بھی ظاہر نظر آتا ہے پس جب رسول کو روح کا زیادہ تر انعام ملے تو وہ اس کو مسیح کی گواہی دینے میں زیادہ تر دلیری کے ساتھ کام میں لانا چاہتا تھا۔ دلیری کا لفظ اس مقام میں شرم کے لفظ کے مقابلے میں آیا ہے۔

مسیح کی تعظیم ہو گی۔

یہاں خیال تو یہ گزرتا کہ رسول یہ کہتا کہ کمال دلیری سے فلاں کام کروں گا۔ مگر نہیں۔ پولس اپنے آپ کو چھپاتا ہے تا کہ اپنے خداوند کو دکھائے یہ اس کے قول کی ایک عملی مثال ہے جو اس نے (گلیتوں۲: ۲۰) میں بیان کیا ہے کہ نہ میں۔ بلکہ مسیح اسی خیال کے بارے میں (یوحنا ۳: ۳۰) پر بھی ذرا غور کرو۔ جس ترتیب کے ساتھ یہ لفظ اصل یونانی میں آئے ہیں۔ ا سے یہ خیال زور شور سے پیدا ہوتا ہے۔

میرے بدن کے سبب۔

جیسا (رومیوں۶: ۱۳ اور ۱۲:۱اور ۱۔کرنتھیوں ۶: ۲۰ اور۲۔کرنتھیوں ۴: ۱۰) سے پایا جاتا ہے۔ ایماندار کو لازم ہے کہ اپنا بدن خداکی روح کے نذر کر دے تا کہ وہ اس کے ہاتھ میں کام کرنے کا ایک آلہ بن جائے یہ کیا ہی عمدہ خیال ہے کہ خدائے بریں و قدوس ہمارے ناچیز بدنوں کے وسیلے سے بزرگی و جلال پائے۔ اس تعلیم میں اور ہندوحکما کی تعلیم میں زمین و آسمان کا فرق ہے جو یہ سیکھاتے ہیں کہ جسم برائی کا پتلا ہے۔

خواہ میں زندہ رہوں۔ خواہ مروں۔

ان لفظوں میں رسول کی زندگی کے اس بھاری موقع کی طرف اشارہ ہے۔ جس کے بارے میں اس کو تحقیق معلوم نہ تھا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ مگر وہ اس وقت کے لئے خوشی سے بے خوف تیار ہے۔

۲۱۔کیونکہ زندہ رہنا میرے لئے مسیح ہے اور مرنا نفع ۔

کیونکہ میرے لئے

میرے کے لفظ پر یونانی میں بڑا زور دیا گیا ہے۔ پس اس سے رسول کا یہ مطلب ہے کہ اوروں کے لئے یہ بات کچھ ہی ہو۔ مگر میرے لئے تو جینا مسیح ہی ہے وغیرہ یہ یاد رہے کہ رسول یہاں میرے کا لفظ تعلق کے راہ سے نہیں لکھتا مگر اپنے دل کے ذاتی یقین اور تجربے پر زور دینا چاہتا ہے۔

میرے لئے زندہ رہنا مسیح ہے

اگر اسی بات کو مختصر اور پرزور لفظوں میں بیان کرنا چاہیں جو یہ ہے کہ زندگی مسیح ہے۔ ساری زندگی جس میں اس کا سارا تجربہ اور غرضیں اور شوق اور خواہشیں شامل ہیں۔ ان سب کا خلاصہ ایماندار کے لئے اس ایک لفظ میں آ جاتا ہے جو اس خط میں بار بار آیا ہے۔ یعنی مسیح (گلیتوں۲: ۲۰اور کلسیوں۳: ۴) میں بھی رسول نے یہی خیال درج کیا ہے۔ اسے بھی پڑھ لینا مناسب ہے۔ غرض یہ ہے کہ مسیح سے علیحدہ ہو کر زندہ رہنا زندگی نہیں ہے۔ مسیح کے ساتھ رفاقت رکھنا۔ اس کی خدمت میں لگے رہنا ہر بات میں اسی کو اپنی سب سے بڑی غرض سمجھنا۔ اس کا نام تحقیق زندگی ہے۔ ان الفاظ میں جو فعل کا لفظ ہے اس کی مراد ہے زندگی کے اسی طریق پر برابر جاری رہنا۔

اس بات میں مسیحی مذہب اور سارے مذہبوں سے فرق رکھتا ہے۔ کیونکہ در حقیقت اور کسی مذہب کا ماننے والا اپنی نسبت یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری زندگی میرے زندہ خداوند کی شخصیت کے ساتھ وابستہ ہے۔

اور مرنا نفع۔

یعنی موت نفع ہے۔ پہلے جو جینے کا لفظ آیا ہے اس کے مقابلے میں اب مرنے کا فعل جس زمانے کے صیغے میں آیا ہے۔ وہ غور کے لائق ہے۔ اس کا مطلب یا تو وہ ہے کہ انسان کی زندگی کا وہ بڑا بدلنے والا وقت جو مرنے کی حالت میں آتا ہے یا شاید اس سے یہ مطلب ہو جو اس سے بہتر ہے کہ موت کا نتیجہ یعنی وہ حالت جو موت کے بعد ہو گی جیسا رسول نے تئیسویں آیت میں آگے بیان کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچے مسیحی کے لئے موت کا ڈنک یعنی اس کا ڈر خوف اب جاتا رہا ہے اور وہ اب صرف وہ دروازہ ہے جس میں سے سچے مسیحی داخل ہو کر آسمانی بادشاہ کی عین حضوری میں داخل ہوتے ہیں۔ نفع کا لفظ جو ایک اسم ہے نئے عہد نامے میں صرف تین بار آیا ہے اگرچہ اسی کے مادے کا جولفظ کہ فعل ہے وہ پندرہ دفعہ کام میں آیا ہے ۔ جیسا مثلاً (۳: ۸) میں۔

اول

تو نفع کا لفظ (طیطس ۱: ۱۱) میں لالچ کے باعث سے شرمناک نفع کے لئے آیا ہے۔

دوم

(فلپیوں۳: ۷) میں ان کی محض مذہبی نفع کی باتوں کے لئے جو بے فائدہ ہیں۔

سوم

(فلپیوں ۱: ۲۱) میں یعنی اس مقام پر جہاں ابدی خوشی کے جلالی نفع کا ذکر ہے۔

۲۲۔لیکن اگر میرا جسم میں زندہ رہنا ہی میرے کام کے لئے مفید ہے تو میں نہیں جانتا کہ کسے پسند کروں۔

لیکن اگر میرا جسم میں زندہ رہنا ہی

لیکن اگر میرا جسم میں زندہ رہنا ہی۔ وغیرہ۔ اس آیت کی ترکیب بڑی ٹوٹی پھوٹی ہوئی سی ہے۔ جس سے رسول کے دل کی حالت میں کچھ پریشانی سی پائی جاتی ہے اس آیت کا اصل سے ترجمہ کرنا مشکل ہے اور اس کے کئی ترجمے کئے گئے ہیں۔ جو ترجمہ کے متن میں ہے۔ اس کے علاوہ ذیل کے ترجموں کی طرفداری میں بھی سالموں کی رائے بہت زور کے ساتھ ہے۔

اول

یہ کہ لیکن اگر میرا جسم میں زندہ رہنا ہی میری مخنتوں کے باعث سے پھل لائے تو کیا؟ درحقیقت میں نہیں جانتا کہ میں کس کو پسند کروں؟ یہ بشپ لائٹ فٹ صاحب کا ترجمہ ہے۔ اور اس سے ایک بڑا عمدہ مطلب پیدا ہوتا ہے۔

دوم

یہ ہے کہ اگر جسم میں زندہ رہنا میرا حصہ یا میری قسمت ہو۔ تو یہ میرے کاموں کا پھل ہے۔ اور جو بات کہ میں پسند کرتا وہ میں نے نہیں جانی۔

یہ نئے ترجمے کی وہ عبارت ہے جو حاشیہ میں لکھی گئی ہے۔ اور یہ معنی بھی صاف ہیں اگرچہ کچھ بات جو ان میں نہیں ہے۔ عقل سے لگانی پڑتی ہے۔ اس ترجمے کا مطلب یہ ہے کہ اگر میرے لئے خدا کی مرضی یہ ہو کہ میں جسم ہی میں زندہ رہوں۔ تو میری آئندہ زندگی میں مسیح کی خدمت کرنے اور اس کے لئے پھل لانے کے لئے نئے نئے موقعے پیدا ہوں گے۔ یہ بے شک اچھی بات ہے۔ تاہم اس جہان سے رخصت ہو کر مسیح کے ساتھ رہنا بھی اچھا ہے۔ اس لئے مجھے صاف صاف دکھائی نہیں دیتا کہ میں ان میں سے کس بات کو پسند کروں اصل یونانی میں جو لفظ دکھائی دینے کے لئے ہے اس کے معنی ہیں پہچاننا جیسا کہ جب کوئی اپنے بڑے واقف کار شخص کے چہرے کو دیکھ کر کہتا ہے۔

ان دونوں ترجموں میں سے چاہے جو فسالے لو۔ دونوں کا مطلب در حقیقت ایک ہی ہے اور جو عبارت کہ نئے ترجمے کے متن میں ہے اس سے یہ دونوں صاف معلوم ہوتے ہیں۔ غرض یہ ہے کہ جو زندگی درحقیقت مسیح میں گزرتی ہے اس کا قدرتی ظہور یہ ہوتا ہے۔ کہ ایسے کام کرے جن سے اچھے پھل پیدا ہوں۔

۲۳۔ میں دونوں طرف پھنسا ہوا ہوں میرا جی تویہ چاہتا ہے کہ کوچ کر کے مسیح کے پاس جا رہوں۔ کیونکہ یہ بہت ہی بہتر ہے۔

میں دونوں طرف پھنسا ہوا ہوں

اس کا بہتر ترجمہ یہ ہے کہ یہی نہیں بلکہ میں دونوں طرف یا دونوں پہلوﺅں سے گھیرا ہو یا رکا ہوا ہوں۔ گویا رسول دونوں پہلو سے بھیجا ہوا تھا جیسا کہ کوئی شخص دو دیواروں کے درمیان بند ہو جاتا ہے۔ (گنتی ۲۲: ۲۶) کو دیکھو کہ وہاں بھی یہی خیال ہے غرض یہ ہے کہ پولس رسول دو مشکلوں کے اندر پھنسا ہوا تھا۔ دو باتیں اس کے سامنے تھیں اور دونوں نے حد برکتوں کا باعث تھیں۔ اس کا کام تھا کہ ان دونوں میںسے ایک کو پسند کر لے۔ ایک طرف تو دنیا میں رہ کر مسیح کے لئے پھلوں سے بھری ہوئی زندگی تھی اوردوسری طرف آسمان میں جا کر مسیح کے ساتھ خوشی کی بھری ہوئی زندگی کا لطف حاصل کرنا تھا۔ یہ لفظ جس کے معنی ہیں پھلسا ہوا۔ یا گھیرا ہوا نئے عہد نامے میں کئی بار آیا ہے۔

اول

(متی۴: ۲۴ اور لوقا ۴: ۳۸ اور اعمال ۲۸: ۸) میں جہاں یہ ذکر ہے کہ لوگ بیماریوں اور تکلیفوں میں گرفتار تھے۔

دوم

(لوقا ۸: ۳۷) میں جہاں یہ ذکر ہے کہ گراسین کے ملک کے لوگوں پر بڑی ہیبت چھا گئی تھی۔

سوم

(لوقا ۱۲: ۲۵) میں جہاں مسیح نے کہا کہ مجھے ایک بپتسمہ لینا ہے۔ اور جب تک وہ نہ ہو لے میں کیا ہی تنگ ہو ں گا۔

چہارم

(اعمال ۱۸: ۵) میں یہ لکھا ہے کہ پولس کلام سنانے کے جوش سے مجبور تھا۔

پنجم

یہی فلپیوں کی آیت ہے جہاں پولس دو برعکس خواہشوںکے درمیان سخت طرح پھنسا ہوا ہے۔

میرا جی تو چاہتا ہے

رسول کے دل کی خواہش تو یہی تھی کہ وہ اس جہاں سے رخصت ہو۔ مگر جب وہ یہ دیکھتا تھا کہ میرا فرض کیا ہے۔ تو دوسری طرف کی خواہش پر مائل ہوتا تھا۔ جس لفظ کا ترجمہ خواہش کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے بڑے زور شور کی آرزو۔

کہ کوچ کر کے

اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ اپنا بندھن تڑاکر۔ یہ لفظ اس موقع پر آیا کرتا ہے۔ جب فرج سفر میں ہوتی ہے اور جہاں پڑاﺅ کرتی ہے اس کو دوسری صبح توڑ ڈالتی اور آگے کو روانہ ہوتی ہے۔ اسی طرح جب ڈیرہ تنب ایک جگہ سے اٹھایا جاتا یا جہاز یا کشتی ایک کنارے پر ٹھہرنے کے لئے رسے سے کسی درخت یا ملبے سے باندھ دی جاتی ہے۔ اور پھر روانہ ہونے کے وقت وہ بندش توڑ دی جاتی ہے۔ غرض پولس کے دل کی بڑی آرزو یہ تھی کہ وہ اپنی کشتی کا لنگر اس دنیاکے سمندر سے اٹھائے یا اپنا خیمہ جو اس دنیا کے میدان میں کھڑا کر رکھا ہے۔ اسے اکھاڑ کر دوسری دنیا کی طرف جو اصلی وطن ہے کوچ کرے اور مسیح کے پاس پہنچ جائے۔ اسی بارے میں (۲۔کرنتھیوں ۵: ۱سے۸) تک پڑھو۔ کوچ کرنے کے لئے جو لفظ ہے۔ وہ (لوقا ۱۲: ۳۶) میں صرف ایک جگہ اور آیا ہے یعنی جب خداوند شادی کے لئے ایک دور دراز پردیس کے ملک کو گیا تھا تو وہاں سے روانہ ہو کر یا کوچ کر کے پھر اپنے مقام کو واپس آیا تھا۔ اسی فعل کے مادے کا اسم بھی صرف ایک بار آیا ہے۔ اور وہ (۲۔تیمتھیس۴: ۶) میں ہے اور وہاں بھی جسم سے رخصت ہونے یا کوچ کرنے کا مطلب ہے۔

مسیح کے پاس جا رہوں

جب ایماندار مر جاتا ہے تو سیدھا اپنے خداوند کے سامنے جا حاضر ہوتا ہے۔ جیسا کہ (۲۔کرنتھیوں ۵: ۶سے۸) تک بیان کیا گیا ہے۔ درمیانی حالت کچھ ہی کیوں نہ ہو مگر ایماندار کے لئے یہ بات جو یہاں لکھی گئی ہے ضرور پوری ہوتی ہے۔ جب تک وہ اس جہان میں رہتا ہے۔ تب بھی تو وہ روحانی اعتبار سے ایمان کے وسیلے مسیح کے ساتھ ہی رہتا ہے مگر موت کے بعد وہ اس سے بھی زیادہ صاف اور پاک طرح پر آمنے سامنے مسیح کے ساتھ رہے گا۔ ہندوﺅں کی امید کے مقابلے میں جو ایک بھیانک اور بلا تحقیق بات ہے کہ انسان اپنے اعمال کی سزا اٹھانے کے لئے بے انتہا دفعہ پے در پے جون بدلتا ہے۔ مسیحی ایماندار کی یہ امید کیسی عمدہ ہے کہ جب میری موت آئے گی تو میرے لئے با تلحقیق ایک ایسی حالت تیار ہے جو خوشی سے بھری ہوئی ہے۔ مسیحی امیدوار روائیتوں کے مسئلے کی بھی دھجیاں اڑا دیتی ہے۔ ان کا ایمان یہ ہوتا ہے کہ موت کے بعد ہم اس سب سے بزرگ روح میں محو یا مجذوب ہو جائیں گے جس کو اپنی ہستی کا خود ہوش حواس نہیں ہے۔ اس کو کو میں کو مل میں جانا کہتے ہیں۔

کیونکہ یہ بہت ہی بہتر ہے

یعنی بہت زیادہ بہتر ہے ان الفاظ میں ایک دوسرے پر فوقیت کی تین تفصیلی صفتیں لگی ہوئی ہیں۔ یعنی بہت اور زیادہ اور بہتر۔ پر اگر ہم اس بات کو یاد رکھیں کہ اس دنیا سے گزر کر مسیح کی بار گاہ میں جا حاضر ہونا۔ اس جہان میں رہ کر پاکیزہ کاموں یا پھلوں کی خوشی آمیز زندگی کی نسبت بھی بہت زیادہ بہتر بیان کیا گیا ہے۔ تو اس سے ان دونوں باتوں کے درمیان کے مقابلے کو بہت ہی زور پیدا ہو جاتا ہے۔

۲۴۔ مگر جسم میں رہنا تمہاری خاطر زیادہ ضروری ہے۔

اس کا دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ جسم کے ساتھ یا جسم کے وسیلے سے قائم رہنا یعنی اس موجود زندگی کو اس کی ساری آزمائش اور ترتیب و سیاست کی حالتوں کے ساتھ چمٹے رہنا۔

تمہاری خاطر

یہاں یہ بات بڑی غور کے لائق ہے کہ پولس جو اول درجے کا ایک مشنری گزرا ہے وہ اپنی ذات کے فائدے کا خیال کچھ نہیں کرتا۔ اوروں کا فائدہ اور مطلب اس کی نظر میں سب سے مقدم ہے۔ (۱۔کرنتھیوں ۹: ۲۳) میں تو ذکر آیا ہے۔ کہ خوشخبری یا انجیل کا خاطر۔ اور اس مقام پر پولس کہتا ہے کہ تمہاری خاطر۔

زیادہ ضروری ہے

ایک مقابلہ تو (۲۳) آیت میں ہے اور ایک یہاں ہے ان دونوں میں جو فرق ہے اس کو غور کرو۔ رسول کے لئے تو جانا بہت زیادہ بہتر ہوتا۔ مگر ان کے لئے یا ان کی خاطر اس کا ٹھہرے رہنا زیادہ ضروری ہے۔ یعنی اپنے ذاتی فائدے کا پلڑا تو ایک طرف جھکتا ہے اور ان دونوں کے لئے جو اس کا فرض ہے اس کا پلڑا دوسری طرف جھکتا ہے اور ان دونوں میں سے ضرور ہے کہ پچھلا پلڑا بوجھ کے مارے نیچے کو جھک جائے۔ اور غالب آئے۔

۲۵۔ اور چونکہ مجھے اس کا یقین ہے اس لئے میں جانتا ہوں کہ زندہ رہوں گا۔ بلکہ تم سب کے ساتھ رہوں گا۔ تا کہ تم ایمان میں ترقی کرو اور اس میں خوش رہو۔

اور چونکہ مجھے اس کا یقین ہے

یقین کے لئے یہاں بھی وہی لفظ آیا ہے جو (۶) آیت میں ہے۔ رسول کا یقین اس خط میں غور کے قابل ہے۔ (۱: ۶اور۲۵ ا اور ۲: ۲۴ اور ۳:۳ اور۴) میں یہی خیال درج ہے۔

اس لئے میں جانتا ہوں

یہ دل کے بڑے یقین کے لفظ ہیں (اعمال ۲۰: ۲۵) میں بھی یہی لفظ آئے ہیں مگر یہ بات قابلِ غور ہے کہ وہاں جس یقین کا بیان ہے وہ اس کے برعکس ہے۔ جو امید پولس رسول نے اس مقام پر ظاہر کی ہے وہ (۱۔تیمتھیس ۱: ۳)کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری بھی ہوئی۔ اب رہی وہ دوسری امید کہ جو اسی رسول نے (اعمال۲۰: ۲۵) میں ظاہر کی تھی۔ اس کے بارے میں لائٹ فٹ صاحب اور اور بھی مفسروں کی رائے ہے کہ اس موقع پر ایسی صورتیں پیش آئیں تھیں کہ خدا نے رسول کی امید کو پورا نہ کیا۔ تا ہم ممکن ہے کہ اس صورت میں بھی رسول کی امید کسی ایسے طور پر جس کا حال معلوم نہیں ہوتا پوری ہو گئی ہو۔ اگرچہ اس امر کے لئے جو شہادت ہے کہ رسول اس وقت کے بعد پھر افسس میں گیا تھا قطعی معلوم ہوتی ہے۔ خیر یہ بات کسی طرح پر ہو مگر اس میں تو کچھ شک نہیں کہ اس موجودہ آیت میں جس امید کا ذکر ہے وہ پوری ہوئی تھی۔

کہ میں زندہ رہوں گا بلکہ تم سب کے ساتھ رہوں گا

(۲۴) آیت میں جو ایسا ہی لفظ ہے۔ اس کا ترجمہ توہے رہے جانا آئندہ زمانے تک۔ چنانچہ وہاں یہ عبارت ہے کہ جسم میں رہنا۔ یا۔ قائم رہنا۔ مگر اس آیت میں جو یہ لفظ دو دفعہ آیا ہے اس کے معنی ہیں کہ میں رہوں گا۔ بلکہ تم سب کے ساتھ ساتھ رہوں گا۔ یعنی میں تمہارے ساتھ ساتھ زندہ رہوں گا یا میری زندگی تمہارے ساتھ ساتھ باقی رہے گی۔ ان دونوں فعلوں میں سے جو پچھلا فعل ہے اس کے معنی ہواکرتے ہیں بعض شخصوں کے ساتھ رہنا یا ایک خاص تعلق میں رہنا۔ پس یہاں معنی یہ ہیں کہ میں پولس تمہارے ساتھ معلم مدد گار اور رفیق کی حیثیت سے قائم رہوں گا۔

تا کہ تم ایمان میں ترقی کرو اور اس میں خوش رہو

ترقی کے لئے یہاں بھی وہی لفظ ہے جو (۱۲) آیت میں آیا ہے۔ ایمان کا جو لفظ ہے وہ ترقی اور خوشی دونوں سے متعلق ہے اور اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں۔ جو مسیحی عقیدے کے ہوتے ہیں۔ یا ایماندار کے دلی بھروسے یا یقین سے بھی مراد ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں ان لفظوں کے معنی ہوں گے تا کہ تم بھروسہ کرنے والی زندگی میں اور جو خوشی کہ اس طرح بھروسہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے اس میں ترقی کرو۔ (۲۔تھسلنیکیوں ۱: ۳ اور رومیوں ۱۵: ۱۳ اور ۱۔پطرس ۱: ۸) میں بھی یہی خیال درج ہے ان کو بھی پڑھو۔

اس آیت میں مسیحیوں کی خوشی پر رسول نے پھر زور دیا ہے۔ جس کا ذکر ہم نے دیباچے کے چھٹے باب میں کیا ہے۔

۲۶۔اور جو تمہیں مجھ پر فخر ہے۔ وہ میرے پھر تمہارے پاس آنے سے مسیح یسوع میں زیادہ ہو جائے۔

اور جو تمہیں فخر ہے

فخر کے لئے جو لفظ یہاں ہے وہ (رومیوں ۴:۲اور۱۔کرنتھیوں۶:۵اور۱۵:۹۔ ۱۶اور۲۔کرنتھیوں ۱:۱۴اور۱۲:۵اور۳:۹اور گلیتوں ۴:۶اورفلپیوں۱۶:۲اور عبرانیوں۶:۳) میں بھی آیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم دیکھو کہ میرے اندر اور میرے وسیلے سے خداوند کا فضل ظاہر ہوتا ہے کہ جب تم دیکھو کہ میرے اندر اور میرے وسیلے سے خداوند فضل ظاہر ہوتا ہے تو تم میرے باعث سے خوش ہونے یا فخر کرنے کی وجہ معلوم کرو۔

مجھ پر

یا مجھ میں۔ رسول یہ کہتا ہے کہ مجھے دیکھ کر یا میرا خیال کرکے تمہارے تمہارے پاس جو میرے مشتاق دوست ہو آنے کا موقع دے گا تو تم اس وقت میرے باعث سے بہت خوش ہو گے۔

وہ میرے پھر تمہارے پاس آنے سے

یعنی میرے پھر تمہارے پاس حاضر ہونے سے۔ یاد رہے کہ جو لفظ اس مقام پر حاضر ہونے یا موجود ہونے کے لئے آیا ہے۔ وہ نئے عہد نامے میں عموماً ہمارے خداوند کے دوبارہ آنے کے لئے کام میںآیا کرتا ہے۔ پولس رسول اس لفظ کو ایک بار اور اسی خط کے(۲:۱۲) میں کام میں لایا ہے۔ اور وہاں بھی اس کے معنی اس کے خود حاضر ہونے کے ہیں۔

مسیح یسوع میں

یعنی مسیح یسوع تمہارے خوش ہونے اور فخر کرنے کا دائرہ ہو۔ تمہاری خوشی اور فخر اور اسی سے متعلق رہے۔ رسول پولس ہمیشہ اس بات پر زور دیتا رہتا ہے۔ کہ سارے مسیحی جو کچھ دلوں میں معلوم کریں وہ ایمان کئے وسیلے خداوند مسیح میں پیوند ہونے کی وجہ سے معلوم کریں۔ اس بارے میں جو کچھ ہم نے (۱۹:۲) کے متعلق لکھا ہے۔ وہ بھی دیکھو۔

زیادہ ہوجائے گا

جس لفظ کا ترجمہ زیادہ ہو جانا کیا گیا ہے۔ وہ وہی لفظ ہے جو (۹) آیت میںبھی آیا ہے۔ اور یہ رسول کا ایک دل پسند لفظ ہے وہ اس کو اپنے خط میں ۶۲ دفعہ کام میں لایا ہے۔ اور فلپیوں کے خط میں یہ لفظ پانچ دفعہ آیا ہے (۹:۱ اور۲۶اور۴:۱۲) میں دو دفعہ اور پھر (۱۸:۴) میں۔

۲۷۔ صرف یہ کرو کہ تمہارا چال چلن مسیح کی خوشخبری کے موافق رہے تا کہ میں خوا آﺅں اور تمہیں دیکھوں خواہ نہ آﺅں تمہارا حال سنوں کہ تم ایک روح میں قائم ہو اور انجیل کے ایمان کے لئے ایک جان ہو کر جانفشانی کرتے ہو۔

(۲۷سے۳۰)تک رسول مسیحی چال چلن اور دلیری کے لئے نصیحت کرتا ہے۔

صرف

یعنی خواہ تم مجھے پھر دیکھو خواہ نہ دیکھو۔ صرف کے لفظ کے ساتھ کچھ عبارت مفہوم ہے جو رسول نے چھوڑ دی ہے۔ اسی طریق کی عبارت اسی لفظ صرف کے ساتھ (گلیتوں ۱۰:۲اور۱۲:۶اور۲۔تھسلنیکیوں۲:۷اور شاید ۱۔کرنتھیوں ۷:۳۹) میں بھی آئی ہے۔ ان کو بھی دیکھو۔

کہ تمہارا چال چلن وغیرہ

اس عبارت کا لفظی ترجمہ یہ ہے۔ کہ تم اپنی زندگی اس حیثیت سے کہ رومی شہر کے باشندے ہو۔ اس طرح گزارو کہ مسیح کی انجیل کے لائق ہو۔ اس طرح گزارو کہ مسیح کی انجیل کے لائق ہو۔ چونکہ پولس رسول سلطنت رومہ کے پایہ تخت سے اپنا خط ان مسیحیوں کو لکھ رہا تھا۔ جو ایک رومی بستی کے باشندے تھے۔ اس لئے اس کا ان کو بہ حیثیت رومی شہریوں کے استعارے کے پیرایہ میں یہ لکھنا ایک مناسب بات تھی۔ (۲۰:۳) میں بھی ایسی ہی عبارت آئی ہے۔ اس کو بھی دیکھ لینا۔ یاد ہو گا کہ جب رسول فلپی میں خود تھا تو اس نے اس وقت اپنے لئے بھی اسی بڑے حق کادعویٰ کیا تھا کہ میں ایک رومی باشندوں ہوں چنانچہ (اعمال۱۶: ۳۷سے۳۹تک )دیکھو مسیحیوں کا بھی ایک بڑا دارالسطنت شہر آسمان پر ہے اور ان کے بھی اسی طرح اس بڑے شہر کے باشندے ہونے کے سبب سے بڑے بڑے حقوق اور فرض اور استحاق ہیں۔ (گلیتوں۴:۲۶) کو اس بارے میں پڑھ کر دیکھو۔ جو فعل یہاں استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی یہی ہیں۔ کہ کسی بڑی سلطنت کے باشندے ہونے کے باعث سے جو فرض ہیں ان کا انجام دینا۔ یہی فعل ایک بار اور (اعمال۱:۲۳)میں آیا ہے جہاں اس لفظ کو ایک زیادہ کشادہ معنی میں کام میں لایا ہے یعنی کہ یہودی سلطنت اسی کے رکن ہونے کی حیثیت سے جو فرض ہیں ان کو وفاداری کے ساتھ پورا کرنا۔ اسی فعل کے مطابق ایک اسم بھی ہے۔ جو (اعمال ۲۸:۲۲ورافسیوں۲:۱۲) میں واقع ہوا ہے اور باشندے یا شہری کے لئے جو لفظ ہے وہ (لوقا۱۵:۱۵’ ۱۴:۱۹اور اعمال۳۹:۲۱)میں ا ٓیا ہے اور ہم شہری یا ہم وطن کے لئے جو لفظ ہے وہ (افسیوں۱۹:۲) میں آیا ہے۔ مسیح کی سلطنت کے باشندے ہونے کے باعث مسیحیوں کا بڑا فرض ہے کہ اپنی زندگی دینداری کے ساتھ گزاریں۔ مسیح کا جھنڈا جوانمردی کے ساتھ دکھائیں اور اس کے لئے کام کریں اور دکھ سہیں۔ کافی بیر اور ہوسن مفسروں نے اس عبارت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے۔ کہ تم صرف اس طرح زندگی بسر کرو۔ جیسا کہ مسیح کی خوشخبری کے لائق ہے اس کے متعلق یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ بزرگ پالی کارپ جس نے کچھ عرصے بعد اسی کلیسیا کے نام ایک خط لکھا تھا وہ بھی یہی استعارہ کام میں لایا ہے یعنی اگر ہم اپنے فرض جو مسیح کے بندے ہونے کے متعلق ہم پرواجب ہیں اس طرح انجام دیں جیسا کہ سیدھے سادھے باشندوں کو مناسب ہے تو وہ بھی اپنی سلطنت میں شریک کرنے کی سرفرازی ہم کو دے گا۔

خوشخبری کے موافق

یعنی خوشخبری کے لائق جس سے تمہارے آسمانی باشندے ہونے کا حق پختہ ہو جائے۔ جس صفت فعل کے لفظ کا ترجمہ لائق طور پر ہوا ہے۔ وہ نئے عہد نامے میں چھ جگہ پایا جاتا ہے۔

اول

(رومیوں۲:۱۶) میں جہاں یہ ذکر ہے کہ مسیحیوں کو جو تمہارے جیسے ہیں اس طرح قبول کرو جیسا کہ مقدسوںکو چاہئے یا ان کے لائق ہے۔

دوم

(افسیوں ۱:۴) میں جہاں یہ ذکر ہے کہ جس بلاوے سے تم بلائے گئے اپنی روزانہ زندگی میں اسی کے مناسب یا لائق چلو۔

سوم

جیسا کہ فلپیوں کے اسی مقام پر ہے کہ تمہارا چال چلن آسمانی سلطنت کے باشندوں کی حیثیت سے خوشخبری کے موافق رہے۔

چہارم

(کلیسوں۱۰:۱) میں جہاں یہ بیان ہے کہ تمہارا چال چلن ساری باتوں خداوند کے لائق ہو۔

پنجم

(۱۔تھسلنیکیوں۲:۲۱) میں۔

ششم

(یوحنا ۳:۶) میں جہاں یہ لکھا ہے کہ تم ایسی چال چلو اور ایسی مہمان نوازی پر تو جیسی کہ خدا کے لائق ہے۔

تمہارا حال سنو

لفظی ترجمہ اس کا یہ ہے کہ وہ بائیں جو تمہارے متعلق ہیں سنو۔ یہی عبارت (۲:۱۹’۲۰اور افسیوں۲۲:۶)میں بھی آئی ہے۔

ایک روح میں

بہت سے مفسر اس روح سے انسانی روح مراد لیتے ہیں چنانچہ بشپ لائٹ فٹ صاحب اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ تم سب ایک ہی نیت یا ارادے سے کام کرو۔ مگر جو عبارت یہاں اصل میں ہے وہی (۱۔کرنتھیوں۱۳:۱۲اورافسیوں۱۸:۲) میں بھی آئی ہے اور ان مقاموں میں بیشک اس کا اشارہ خدا کے روح القدس کی طرف ہی ہے لیکن چونکہ خدا کی روح جو ایمان کے وسیلے سے ایماندار کو ملتی ہے اس کے دل کے اندر سکونت کرتی اور اس کی انسانی روح پر اپنا قبضہ کر لیتی اور اس طرح سے اس کی ساری زندگی پر اپنا اثر کرتی ہے۔ اس وجہ سے دونوں معنی جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں آپس میں ملتے ہیں۔ اس مقام پر تو ظاہراً مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ فلپی کے مسیحی اس ایک روح کے وسیلے سے جو اصلی اتحاد اور مضبوطی بخشنے والی ہے یگانگت اور قوت میں باہم خوب مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں۔

قائم رہو۔

جس فعل کا ترجمہ یہاں قائم ہو کیا گیا ہے وہ نئے عہد نامے میں آٹھ جگہ آیا ہے۔ (مرقس۲۵:۱۱) میں تو ظاہراً اس لفظ کے معنی صرف کھڑے ہونے کے ہیں۔ مگر باقی سارے ساتوں مقاموں میں اسکے معنی یہ ہیں۔ کہ مضبوط ہو کر یا جم کر اس طرح کھڑا رہنا کہ جس جگہ یا تو کھڑے ہیں وہاں خوب طرح زمین پر جمے ہوئے ہیں یا یہ کہ کھڑے ہونے والے کے پاﺅں نے زمین پرخوب طرح گرفت کرلی ہے مضبوط اورجم کرکھڑے رہنے کے معنی ہیںیہ فعل۔

اول

تو ایک مطلق طور سے (رومیوں۱۴:۴اور۲۔تھسلنیکیوں۱۵:۲) میں آیا ہے۔

دوم

(۱۔کرنتھیوں۱۳:۱۶) میں ایمان میں قائم رہنے کے معنی ہوں۔

سوم

آزادی کی حالت میں روح میں قائم رہنے کے لئے۔

چہارم

فلپیوں کی اسی آیت میں روح میں قائم رہنے کے لئے۔

پنجم

(فلپیوں ۱:۴اور۱تھسلنیکیوں۸:۳) میں خداوند میں قائم رہنے کے لئے۔

غالب ہے کہ مضبوطی سے کھڑے رہنے یا قائم رہنے کا جو استعارہ رسول کام میں لایا ہے۔ یہ محاورہ اس نے رومیوں کی تماشہ گاہ سے لیا ہے جہاں آدمیوں کو اپنی عزیز جان کے لئے لڑنا ہوا کرتا تھا۔ اس ملک ہند میں انجیل کے پھیلنے کے لئے مسیحیوں کا ان ساری باتوں کے مقابلے میں جو مسیحی دین کے خلاف ہیں مضبوطی کے ساتھ قائم رہنا نہایت ہی ضرور ہے پس ہم سب مسیحیوں کو اس بات کو جھنڈا کھڑا کرنا چاہئے۔ کہ ہم کسی بے دینی کی بات میں ذرا بھی شریک یا خاموش نہ ہوں گے۔

انجیل کا بیان

یعنی وہ ایمان جو انجیل سے تعلق رکھتا ہے اگرچہ ہم کو اختیار ہے کہ اگر مرضی چاہے تو اس کا مطلب یہ سمجھیں کہ انجیلی عقیدہ یا اعتقاد لیکن اس کا اس سے بہتر مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایمان جو انجیل یا خوشخبری کو قبول کر لیتا ہے پس اس آیت سے یہ حکم ہم کو ملتا ہے کہ ہم لوگوں کو انجیل پر ایمان لانے کے لئے جانفشانی کرتے ہیں۔

ایمان کے لئے

لائٹ فٹ صاحب اس کا ترجمہ کرتے ہیں کہ ایمان کے ساتھ ساتھ۔ چنانچہ نئے ترجمے کے حاشئے میں یہ ترجمہ بھی لکھا ہوا ہے۔ اگر یہ معنی لئے جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ ایمان گویا ایک مجسم شے ہے۔ جس کے ہمراہ ہو کر ہم لڑائی میں مصروف ہوں لیکن جب آس پاس کی عبارت پر بھی لحاظ کریں تو تاکید اس بات پر ہے کہ سارے ایماندار ایمان کی لڑائی میں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح رفیق و شریک رہیں۔ جس طرح کہ سپاہی لڑائی میں رہتے ہیں۔

ایک جان ہو کر

یہی عبارت (اعمال۳۲:۴) میں بھی آئی ہے۔ مگر وہاں ایمانداروں کی جماعت کے ایک جان ہونے کا ذکر ہے۔ اور یہاں تک جان ہو کر لڑائی لڑنے کا بیان ہے۔

جان کا لفظ روح کے لفظ کے بعد آیا ہے اور یہ واجبی بات ہے کیونکہ جان روح کے تابع ہے۔ اور اسی سے اپنا زور قوت حاصل کرتی ہے روح وہ شے ہے جس کے اندر انسان کی مرضی۔ دل کے ولولے اور جذبے وغیرہ رہتے ہیں۔ اس لئے روح القدس فلپیوں کی انسانی روحوں میں قوت اور اتحاد پیدا کر کے ان کی مرضی اور محبت اور خواہشوں پر اس طرح اپنی تاثیر ڈالے گا کہ وہ سب ایک ہی طرف کو رجوع کریں گی مول صاحب اس کا مطلب یہ لکھتے ہیں کہ وہ ایک روح جو تم سب کے درمیان اپنا اثر کرتی ہے اس کے باعث سے تم ایک جان اور محبت کے ساتھ کام کرو۔

جانفشانی کرتے ہو

جس لفظ کا یہ ترجمہ ہے وہ نئے عہد نامے میں صرف ایک جگہ اور آیا ہے یعنی اسی خط کے (۳:۴) میں۔ یہ استعارہ رومیوں کے اکھاڑے کی تماشہ گاہ سے لیا گیا ہے۔ جہاں وہ غلاموں اور اور لڑنے والے جوانوں کو جھوٹی لڑائی پٹے بازی وغیرہ میں نہیں بلکہ سچی جانبازی کی لڑائیوں میں تلواروں سے لڑا کر سیر دیکھا کرتے تھے۔ یہاں ان لڑنے والوں کی جان پر بازی لگی ہوا کرتی تھی۔ اس لئے وہ کمال درجے کی جانفشانی کیا کرتے تھے۔ اس آیت میں بھی یہی مطلب ہے کہ مسیحی بھی ان کی طرح دشمنوں کے ہر طرح کے حملے کا اگرچہ مخالف شمار میں کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں خوب طرح جم کر اور بازو بہ بازو پرا باندھ کر مقابلہ کریں۔

۲۸۔اور کسی بات میں مخالفوں سے دہشت نہیں کھاتے یہ ان کے لئے ہلاکت کا صاف نشان ہے لیکن تمہاری نجات کا اور یہ خدا کی طرف سے ہے۔

کسی بات میں

(۲۰)آیت میں بھی یہی لفظ آئے ہیں ان کو بھی دیکھو۔

مخالفوں سے دہشت نہیں کھاتے

دہشت کھانے کے واسطے جو لفظ ہے اس کا ترجمہ لائٹ فٹ صاحب جھجکتا یا چونکنا اور جھجکتے ہیں۔ خدا کے کلام میں یہ لفظ اور کہیں نہیں آیا ہے۔ (اعمال ۱۶) باب کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فلپی خدا کے لوگوں کے لئے ایک بڑے شیطانی طوفان کی جگہ تھی۔

مسیحیوں کے مخالفوں کی وہاں کچھ کمی نہ تھی۔ اس لئے رسول ان کو کہتا ہے کہ تم اپنے مخالفوں کے کسی یکایک حملے یا خطرے سے ڈر کر دلجمعی و خاموشی کے ساتھ بہادری سے مقابلہ کرنے میں گھبرا نہ جانا۔ (لوقا ۹:۲۱ سے ۱۹تک )پڑھو کہ وہاں بھی پندرہویں آیت میں مخالفوں کے لئے یہی لفظ آیا ہے۔ یہی لفظ مخالف کے لئے جس کے لفظی معنی ہیں وہ شخص جو تمہاری مخالفت پر کھڑا ہے انجیل میں اور کئی جگہ بھی آیا ہے۔

اول

(۱۔تیمتھیس۱۴:۵)میں جہاں ہمارے بڑے مخالف شیطان کا ذکر ہے۔

دوم

(۲۔تھسلنیکیوں۴:۲) میں جہاں ہمارے بڑے مخالف و جال کا ذکر ہے۔

سوم

(لوقا۱۷:۱۳اور ۱۵:۲۱)میں ہے اور (۱۔کرنتھیوں۹:۱۶)میں جہاں مسیح اور اس کی خوشخبری کے مخالفوں کا بیان ہے۔

یہ ان کے لئے

یونانی میں اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جس حال وہ ایک ایسی قسم کی بات ہے کہ جس سے فلاں نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ کا اشارہ ظاہراً فلپی مسیحیوں کی دلیری کی طرف ہے جو سچائی کے لئے گواہی ہونے کی برملا دلیل ہے۔ مگر بعض کی رائے میں یہ کا اشارہ مخالفوں کی دشمنی کی طرف ہے جو ان کی آئندہ و ہلاکت کا ایک نشان ہے۔

ہلاکت

یعنی اس نقصان اور بربادی کا جو ہمیشہ تک رہے گی۔ جس طرح کہ ایمانداروں کو بیخوف مقابلہ کرنا ان کے راست امر کا ایک تحقیق ثبوت ہے۔ اسی طرح وہ اس بات کا بھی ایک نشان ہے کہ ان کے دشمنوں کی شکست اور بربادی ہونے والی ہے۔

صاف نشان

اصل یونانی میں اس لفظ کے معنی یا تو انگلی سے اشارہ کر کے بتاناہے کہ کیا ایک یونانی قانون کی اصطلاح ہے کہ کسی شخص کے برخلاف خبر دیتی یا کسی بات کا ثبوت ہونا ہے۔ایک ایسی علامت تھی جو صاف طرح سے ثابت کرتی تھی کہ انجام کار اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ چونکہ وہ بڑی دلیری سے مقابلہ کرتے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ فتح ہماری طرف کی ہوگی۔ پس ہم کو لازم ہے کہ اس ملک میں ہم مسیح کی گواہی اپنے آتشی کے یقین اور بہادر نہ چلن سے اس طرح دیتے رہیں کہ جو مسیحی نہیں ہیں ان کو ثابت ہو سلطنت کرے گا۔ یہ لفظ نئے عہد نامے میں تین جگہ آیا ہے۔

اول

(رومیوں۳: ۲۵۔۲۶) میں۔ جہاں راستبازی ظاہر کرنے کا ذکر ہے۔

دوم

(۲۔کرنتھیوں۲۴:۸)میں جہاں محبت ثابت کرنے کا بیان ہے۔

سوم

فلپیوں کے اسی مقام میں جہاں ہلاکت اور نجات کےنشان کا ذکر ہے۔

نجات

اس لفظ سے مراد ہے وہ نجات جو ایمانداروں کو آخر میں پورے طور سے حاصل ہو گی۔ (۱۹) آیت میں بھی یہی لفظ آیا ہے۔ چونکہ مسیحی اپنے خداوندیسوع مسیح کے جھنڈے تلے جمع ہو کر لڑائی اور فتح کے لئے ساری جان اور روح سے متفق ہوتے ہیں ان کو اپنے دلوں میں ایک نئی گواہی اور یقین معلوم ہوا کرتا ہے جسے وہ اپنے چال چلن سے دنیا پر اس امر کے ثبوت میں ظاہر کرتے ہیں کہ خدا جلال ظاہر ہونے کا وقت قریب ہے اور بہ آواز بلند یہ کہتے ہیں کہ ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلے سے فتح حاصل ہونے کا زمانہ آ رہا ہے۔

اور یہ خدا کی طرف سے ہے

لائٹ فٹ صاحب کی رائے میں یہ کا اشارہ صاف نشان کی طرف ہے۔ یعنی یہ کہ خدا کی طرف سے ایک صاف و صریح نشان ہے وہ فرماتے ہیں کہ جو مسیحی جوان دنیا کے اکھاڑے میں لڑ رہے ہیں۔ وہ رومی نوجوان کی طرح اس بات کی سخت انتظار میں نہیں رہتے  کہ تماشائیوں کا جو مجمع چاروں طرف ہماری سیر دیکھ رہا ہے اور جن کی طبیعت کا کچھ ٹھکانا نہیں کہ وہ کس بات کو پسند کریں۔ ہم کو کیا اشارہ کرتا ہے۔ کہ آیا ہم اپنے مخالف کو جیتا چھوڑیں یا جان سے مار ڈالیں۔ مسیحی مردوں کے ہے ان کے الٰہی سر پنج نے ان کی مخلصی یعنی نجات کو با لتحقیق نشان خود بخود دے دیا ہے۔

مگر یہ بھی درست ہے کہ  یہ کا اشارہ اس سارے خیال کی طرف سمجھیں۔ جو اس سے پہلے آیا ہے یعنی کہ جو مخالفت مسیحیوں کی کی جاتی ہے وہ ان کے ایمان کی تقویت کا باعث ہوتی ہے۔ اس صورت میں یہ کا مطلب ہو گا کہ لڑائی اور بہادری کی یہ حالت خدا کی طرف سے ہے اور نہ اس لئے کہ بعض باتیں اتفاقیہ ایسی واقع ہوتی ہیں کہ ان سے یہ صورت پیدا ہو گئی ہے ۔ خدا نے جو بندوبست کہ اپنی عقل کاملہ سے اپنے لوگوں کے لئے ٹھہرا یا ہے اسی کا یہ بھی ایک حصہ ہے۔

۲۹۔ کیونکہ مسیح کی خاطر تم پریہ فضل ہوا کہ نہ فقط اس پر ایمان لاؤ بلکہ اس کی خاطر دکھ بھی سہو۔

مسیح کی خاطر

حصہ ہے۔مسیح کی خاطر   یہاں جو عبار یونانی میں ہے اس کی ترکیب ایک عجیب ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پولس کا ارادہ اول تو یہ تھا کہ وہ صرف یہ بات بیان کرے کہ تم کو فضل کی راہ سے یہ بات بخشی گئی ہے  کہ تم مسیح کی خاطر دکھ اٹھاؤ۔ مگر اس کے بعد ذرا تامل کر کے اس نے آخر کے الفاظ لکھنے سے پہلے ایک اور خیال بھی اس میں داخل کرو یا جو یہ ہے کہ نہ صرف اس پر (یعنی مسیح پر) ایمان لاؤ بلکہ وغیرہ وغیرہ اس وجہ سے اس آیت میں دکھ سہنے کا جو مقصد ہے وہ دوبارہ آیاہے۔

یعنی ایک تو مسیح کی خاطر۔ اور پھر دوبارہ اس کی خاطر۔ یہ مسیح کی خاطر کا محاورہ اور اور جگہ بھی آیا ہے۔

اول

(۲۔کرنتھیوں ۲۰:۵)جہاں یہ بیان ہے کہ ہم اس کی طرف سے یا اس کی خاطر ایلچی اور وکیل ہیں۔

دوم

وکیل ہیں۔اسی خط کے (۱۰:۱۲) میں جیسا کہ فلپیوں کے اسی مقام میں جہاں یہ ذکر ہے کہ تم اس کی خاطر ایمان بھی لائے ہو اور دکھ بھی اٹھاتے ہو۔

تم پر یہ فضل ہوا

اس عبارت میں بڑا زور فضل ہوا یہ ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ تم کو یہ بات ایک بڑی برکت کی طرح بخشی گئی ہے۔ جب خدا ہم کو یہ بات عنایت کرتا ہے کہ ہم مسیح کی خاطر دکھ اٹھائیں۔ تو یہ اس کے فضل سے ایک بڑا تبرک ہے یعنی جس طرح کہ گناہوں کے قرضے کا بخشا جانا جس کا (لوقا کی انجیل کے ۴۲:۷ اور ۴۳ اور افسیوں ۳۲:۴ اور کلسیوں ۱۳:۲) میں یہ ذکر ہے خدا کے فضل سے ایک بڑی برکت ہے اسی طرح مسیح کی خاطر دکھ اٹھانا بھی ایک فضل کی بات ہے۔ اس لفظ کے بارے میں (فلپیوں ۷:۱) کو بھی دیکھو۔ کامل نجات کی بخشش یا برکت جس کا (رومیوں ۳۲:۸) میں ذکر ہے اور خدا کے روح القدس کا بڑا انعام جس کا (۱۔ کرنتھیوں ۱۲:۲) میں بیان ہے۔ یہ بھی سب خدا کے فضل سے بڑی برکتیں ہیں جو مسیحیوں کو عنایت ہوتی ہیں۔ ان ساری آیتوں میں منجلہ اور مقاموں کے اصل میں یہی فعل آیا ہے۔

اس پر ایمان لاؤ

ایمان لانے کے لئے جو فعل اصل میں ہے وہ زمانہ حال کا صیغہ ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کا مطلب یہ ہے کہ ایمان لانے کا کام برابر مستقل طرح پر جاری رہے۔ کیونکہ ایماندار کو واجب رہے کہ ہر لمحہ ایمان رکھنے کے کام میں قائم رہے۔ اور اس طرح کامل مسیح سے اس ایمان کے وسیلے اپنی ساری ضرورتیں حاصل کرتا رہے۔ اس خیال کے ثبوت میں (۱۔کرنتھیوں ۳۰:۱ اور یوحنا ۱۶:۱) کو دیکھو۔ اصل میں جو لفظ ہیں ان کے معنی یہ ہیں کہ تم اس کے اندر ایمان رکھنے میں قائم رہو۔ ان لفظوں سے یہ پایا جاتا ہے کہ گویا مسیحی شخص کا ایمان اس کے اندر سے نکل کر مسیح کی طرف لگ جاتا ہے اور اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کا بھروسہ جو مسیح پر لگا ہوا ہے۔ روح کے پھل لاتا رہتا ہے اور وہ مسیح کے خزانے میں سے اپنے لئے ساری ضروری برکتیں اپنے دل میں حاصل کرتا رہتا ہے۔ غرض یہ ہے کہ راستباز شروع سے آخر تک ایمان کے وسیلے سے جیتا ہے۔

کہ نہ ۔ فقط اس پر ایمان لاؤ ۔ بلکہ اس کی خاطر دکھ بھی سہو۔

یہ جو الفاظ اس عبارت میں آئے  ہیں کہ نہ فقط یہ بلکہ یہ بھی۔ یہ نئے عہد نامے میں بار بار آئے ہیں۔ ہم اس کے پڑھنے والوں کو صلاح دیتے ہیں کہ وہ ان سب مقاموں کو ملاحظہ کریں اور ان پر غور کریں۔

اول

تو یہ الفاظ (اعمال ۲۹:۲۶اور ۱۔تھسلنیکیوں ۲۵:۱)میں سچے دل سے مسیح کی طرف پھرنے کے متعلق کام میں آئے ہیں۔

دو م

(یوحنا ۹:۱۳ اور رومیوں ۳:۵ اور ۲۔کرنتھیوں ۲۱:۸اور ۲۔تیمتھیس ۲۰:۲ اور ۱۔پطرس۱۸:۲) دل کی تقدیس کے بارے میں آئے ہیں۔

سوم

(متی ۲۱:۲۱ اعمال ۱۳:۲۱ ۲۔ کرنتھیوں ۱۰:۸ اور ۱۲:۹ فلپیوں کے اسی مقام میں اور (۱۔تھسلنیکیوں ۸:۲) میں مسیحی زندگی اور خدمت کی بابت استعمال میں آئے ہیں۔

چہارم

(یوحنا ۹:۱۱ اور ۲۰:۱۷ اور رومیوں ۱۲:۴ ۔ ۱۶۔ ۲۳۔ ۲۴۔ اور ۲۴:۹اور ۱۔تھسلنیکیوں ۸:۱ اور ۱۔یوحنا ۲:۲) آدمیوں کو انجیل کی بشارت سنانے کے بارے میں کام میں آئے ہیں۔

پنجم

(رومیوں ۲۳:۸ ۲۔تیمتھیس ۸:۴ اور عبرانیوں ۲۶:۱۲) میں مسیح کے دوبارہ آنے کی بابت عمل میں آئے ہیں۔

ہم جو اس ملک ہندوستان میں رہتے ہیں اس کو یاد رکھیں کہ ہم بھی نہ صرف اس لئے مسیح کے گلے میں بلائے گئے ہیں۔ کہ مسیح پر ایمان رکھیں اور اس کے روحانی فائدے حاصل کریں بلکہ اس لئے بھی کہ اس کی بندگی کریں اس کے لئے دکھ اٹھائیں اس کی خوشخبری لوگوں کو سنائیں اور اس کے آنے کے منتظر رہیں۔ ہم کو یہ بھی لازم ہے مذہبوں کی طرح صرف ایک عقیدہ ہی نہیں ہے بلکہ خاص کر ایک روحانی قوت ہے اور انسان کے لئے زندگی گزارنے اور عبادت کرنے کے لئے سوا اس قوت کے اور کوئی نہیں ہے۔

اس کی خاطر دکھ بھی سہو۔

جن جن باتوں کے لئے انجیل میں مسیحیوں کے لئے دکھ اٹھانا درست سمجھا گیا ہےان پر غور کرنے سے دل کو نصیحت اور خوشی معلوم ہو گی۔ اسی خط( ۱۰:۳) پر جو شرح ہم نے لکھی ہے اس کو بھی ملاحظہ کر لو نئے عہد نامے میں مندرجہ ذیل باتوں کے لئے مسیحیوں کو دکھ سہنا واجب ہے۔

اول

(اعمال ۱۶:۹) میں ۔ مسیح کے نام کی خاطر۔ 

دوم

(فلپیوں  کے اسی مقام مسیح کی خاطر۔

سوم

(۲۔تھسلنیکیوں۵:۱) میں خدا کی بادشاہت کے  لئے۔

چہارم

(۲۔تیمتھیس ۱۱:۱۔۱۲ ) میں انجیل اور اس کی خدمت کے لئے۔

پنجم

(۱۔پطرس ۱۹:۲ ۔۲۰اور ۱۷:۳ میں نیکی کرنے کے لئے۔

ششم

(۱۔پطرس ۱۴:۳) میں راستبازی کی خاطر ۔

ہفتم

(۱۔پطرس۱۵:۴۔ ۱۶) میں مسیحی ہونے کےلئے۔

ہشتم

(۱۔پطرس ۱۹:۴ ) خدا کی مرضی کے مطابق۔

۳۰۔ اور تم اسی طرح جانفشانی کرتے ہو جس طرح مجھے کرتے دیکھا تھا۔ اور اب بھی سنتے ہو کہ میں ویسی ہی کرتا ہوں۔

ان الفاظ کا رشتہ (جیسا کہ یونانی کی ترکیب سے غالباً معلوم ہوتا ہے) آیات ۲۷،۲۸ کے الفاظ قائم رہو۔’’  جانفشانی کرتے ہو۔ کسی بات میں مخالفوں سے دہشت نہیں کھاتے سے لیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں درمیانی الفاظ گویا بطور جملہ معترضہ کے ہیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان الفاظ کا تعلق قریب یا قبل ‘‘ کیونکہ مسیح کی خاطر تم پر فضل ہوا الخ’’۔ سے ہو۔ اگر چہ اس سے کسی قدر قواعد یونانی صرف و نحو میں بے قاعدگی پیدا ہو جاتی ہے لیکن پولس رسول کے عام انشائے طرز سے اس میں کچھ مناسبت نہیں۔ اس صورت میں ان الفاظ سے یہ امراد لی جا سکتی ہے۔ کہ تم پر فضل ہو اکہ اس پر ایمان لاؤ ۔ اور اس کی خاطر دکھ سہو۔ اور اس طرح میری تکلیفوں میں میری ہم تجربہ ہو’’۔

جانفشانی

جس یونانی لفظ (اگون) کا یہ ترجمہ ہے وہ ‘‘کشتی ’’لو ‘‘کشمکش’’ دونوں کو ظاہر کرتا ہے۔ خاص کر وہ ‘‘کشتی’’ و ‘‘کشمکش’’ جو رومی گلاویٹوریل (یعنی خونی کشتی کی تماشہ گاہ) اور اکھاڑوں میں دو مد مقابل پہلوان دشمن کو زیر کرنے و غلبہ حاصل کرنے کے لئے لڑتے تھے۔ یہ لفظ میدان جنگ اور اکھاڑے دونوں موقعوں کے لئے موزوں ہے۔ مقامات ذیل میں بھی یہی لفظ مستعمل ہوا ہے۔ (کلسیوں ۱:۲ اورا۔ تھلسنیکیوں ۴:۲ اور ۱۔تیمتھیس ۱۲:۴ اور ۲۔تیمتھیس ۴:۷ عبرانیوں ۱:۱۲ ان مقامات کے مطالعہ سے معلوم ہو گا کہ یہ لفظ دعائیں جانفشانی و نیر انجیل کی اشاعت میں جہاد اور مسیحی زندگیوخدمت کی دوڑ  کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے ۔ یہ بات قابل یا رکھنے کے ہے کہ انجیل (لوقا ۴:۲۳) میں صر ف مسیح کا دکھ (اگونیا) کہلایا ہے۔ وہی حقیقت میں خاص جانفشانی ٹھہری۔

جس طرح مجھے  کرتے دیکھا۔

یعنی  رسول اس پہلی مہم فلپی کے موقع پر (اعمال باب ۱۶ سے مقابلہ کرو ۱۔تھسلنیکیوں۲:۲) (جہاں اسی موقع کی طرف ایک اشارہ ہے)  وہاں بھی یہی لفظ جانفشانی کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس حوالہ سے فلپی کا داروغہ قید خانہ بالخصوص قید کی ان سختیوں کو یاد کرنا ہوگا۔ جو رسول نے وہاں برداشت کی تھیں۔

اور اب بھی سنتے ہو کہ میں ویسے ہی کرتا ہوں۔

یعنی رومہ کے قید خانہ کی قید اور سخت تکلیفوں میں۔

باب دوم

آیات ۱۔۱۴ بے غرضی و اتحاد کی نصیحتیں

ان آیات میں ایک زور دار ددرخواست اہل فلپی سے کی جاتی ہے۔ کہ وہ بلحاظ اپنے گہرے مذہبی اعتقادات کے درمیان صلح و اتحاد کو قائم رکھیں اگر روحانی تجربہ کا اثر بردارانہ محبت کا نتیجہ نہیں پیدا کرتا۔ تو اس میں ضرور کوئی نقص ہو گا۔ کیونکہ مسیح کے ساتھ وفاداری اس بات کی مقتی ہے کہ اس کے نئے حکم (یوحنا ۳۱: ۳۴ ،۳۵ ) پر عمل کیا جائے۔

۱۔پس اگر کچھ تسلی مسیح میں اور محبت کی دلجمعی اور روح کی شراکت اور رحم دلی و ہنر مندی ہے۔

مسیح میں تسلی لفظ ’ تسلی ’ جو یہاں ترجمہ ہوا ہے اس کے مفہوم کے لحاظ سے اس سے ۲ مراد لی جا سکتی ہے۔

(۱)۔ اگر لفظ ‘‘تسلی’’ مندرجہ متن کو اس معنی سے لیں کہ اس سے مراد حوصلہ افزائی ہے تو اس کا مطلب ہو گا اگر مسیح میں کوئی حاصلہ افزائی ہے جو ہم میں اس کی ذات کے ساتھ عام اتحاد کے ذریعہ تسلی پیدا کرنے کا باعث ہے تو اس تسلی کے شریک ہونے کےلحاظ سے تم اپنے تفرقوں کو بھول جاؤ اور میری خوشی کو پورا۔

(ب) لیکن اگر اس لفظ کا ‘‘نصیحت’’ ترجمہ کیا جائے (جیسا کہ اعمال ۳۶۔۴باب ۱۵:۱۳ رومیوں ۸:۱۲ ۲۔کرنتھیوں ۷:۸ ۱۔تھسلنیکیوں ۳:۲ ۱۔تھسلنیکیوں ۱۳:۴ عبرانیوں ۱۵:۱۲ ،۱۳ :۲۲ میں یہ لفظ ترجمہ ہوا ہے) تو اس کا مطلب ہوگا کہ اگر مسیح کا کوئی حق نصیحت تم پر (باعث اس کے کہ تم اس کی زندگی و برکتوں کے ہم شریک ہو) پہنچتا ہے۔ اگر وہ فضل جو تم کو اس میں حاصل ہوا ہے کچھ ہی روز تمہارے دلوں میں اثر رکھنا ہے۔ تو جدائیوں سے باز ہو اور میری خوشی کو پورا کرو۔

پہلی صورت میں استعمال کی بنیاد اس ‘‘قوی تسلی ’’ پر ہے جو مسیح میں ہم کو حاصل ہوتی ہے اور دوسری صورت میں اس دلیل پر جو اس یقین سے پیدا ہوتی ہے۔ کہ ہم مسیح کے ساتھ پیوست ہیں۔ دونوں خیال صحیح ہیں۔ کونی بیروہوسن کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر تم ہو مسیح میں منت کی جا سکے۔

محبت کی دلجمعی

اس کے بھی دو معنی لئے جا سکتے ہیں۔

(ا)۔

اگر ہم  لفظ دلجمعی ’ ہی کے ترجمے پر زور دیں تو مطلب یوں ہو گا۔ اگر کوئی ایسی شے ہے جیسی کہ محبت کی درد مندی وہ ہمدردانہ تسلی جو محبت کسی دوست سے پیدا کرتی ہے تو چاہئے کہ اس کو باہم ایک دوسرے کو برتو اور میرے ساتھ بھی۔

(۲)

لیکن اگر ہم دوسرا ترجمہ۔ محرک ۔ ترغیب وہ قبول کریں تو اس کا مطلب یوں ہو گا کہ اگر کوئی ایسی شے ہے۔ جیسے کہ محبت کی ترغیب۔ اگر محبت کوئی تحریکی قوت کا اثر ہم میں پیدا کرتی ہے تو اس اثر پر عمل کرو۔ اور میری خوشی کو پورا کرو پہلی صورت میں دلسوز ہمدردی اور دوسری صورت میں اس کا اثر مراد ہے۔

کونی بیروہوسن اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ اگر تم محبت سے منائے جا سکتے ہو۔

روح کی شراکت

قیاس غالب ہے کہ اس سے مراد ‘‘روح کی شرکت’’ ہے اس صورت میں ان کی باہمی شراکت اس کے فضل اور نعمتوں میں ایک قوی ذریعہ اتحاد کا ہونا چاہئے۔ لیکن اس جملہ سے روح کے ساتھ رفاقت یا مشارکت ۲ ہی مراد لی جا سکتی ہے اس حال میں اس کی محبت ان کو صلح و اتفاق پر مجبوری کا باعث ہوتی ہے۔ اس کے مشابہ (۲۔ کرنتھیوں ۱۴:۱۳) ہے۔

شراکت کا لفظ اسی خط کے (۱: ۵ ،۳ ۔۱۰ میں مقرر آتا ہے۔ اور یہی ۲ خیال یعنی حصہ داری و شراکت’ وہاں بھی پیش نظر میں۔

درد مندی اور رحمدلی

لفظ درد مندی ۸،۱ پر جو شرح ہے اس کو دیکھو  یہ لفظ دل کے جوش محبت اور چاہ کا بھی اظہار کرتا ہے۔ دوسرا لفظ رحمدلی (رومیوں ۱:۱۲ کلیسوں ۱۲:۳عبرانی ۲۸:۱۰ ) میں مقرر آتا ہے۔ یہ یونانی کے ایک لفظ بمعنی ‘‘افسوس’’ اسے مستخرج ہے اور اس آہ دلسوز کو ظاہر کرتا ہے جو دوسروں کے غموں کو محسوس کرنے سے انسان کے دل سے نکلتی ہے عہد جدید میں عموماً بہ حالت جمع مستعمل ہوا ہے اور اس لئے اس کا ترجمہ یوں ہو سکتا ہے۔ رحمدلی کے رقت انگیز احساس اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اپنے اتحاد کی حجت کو ۴ خاص دلیلوں پر قائم کرتا ہے۔

(۱)۔ تمام شراکت کی بنیاد پر جو بے سبب  اس کے ساتھ متحد ہونے کے ہم پر واجب ہے۔

(۲)۔ مسیحی محبت کی مجبور کرنے والی تاثیر جو رقت آور اور اطاعت کی بنا پر ہے۔

(۳)۔ باہمی حصہ داری کی بنا پر جو روح کے فضل و نعمتوں میں ونیز اور اس کی محبت آمیز تا ثیرات میں ان کو حاصل ہوئی ہے۔

(۴)۔ مسیحی ہمدردی اور رحمدلی کی پاک تحریکوں کی رضا مندانہ اطاعت کی بنا پر جو دل میں اٹھتی رہتی ہیں۔

رسول حقیقتاً صرف یہ چاہتا ہے کہ انجیل کی یہ بڑی تعلیم ان کے عمل میں ظاہر ہو اور یہاں ہمارے لئے بھی یہی نصیحت ہے کہ جن سچائیوں کا ہم زبانی اقرار کرتے ہیں ان کو ہم اسی روزانہ زندگی میں برتنے کی کوشش کریں۔ اے کاش ! انجیل کی سچائیاں ہندو ستان  کے مسیحی فرزندوں اور دفتروں کی با ضع زندگی واعمال میں اس طرح ظاہر ہوں کہ ہندوستان ان کو دیکھ سکے۔

۲۔تومیری یہ خوشی پوری کرو کہ ایک دل رہو۔ یکساں محبت رکھو۔ ایک جان ہو۔ ایک ہی خیال رکھو۔

میری خوشی پوری کرو۔ 

خوشی تو اس کو ان میں ایک درجہ تک پہلے ہی سے حاصل تھی دیکھو (۱: ۴) لیکن وہ ان کو متحد دیکھ کر اس خوشی کو بھرپور اور کامل کرنے کا درخواست گار ہے۔ مطلب یہ ہے کہ فلپی کے مسیحی اپنے تفرقوں کو فراموش کر کے گویا اس کی خوشی کے پیالہ کو لبریز کریں۔ رسول اپنے کو ان کے سامنے گویا اس خاص مقصد سے پیش کرتا ہے۔ کہ وہ اس بات کا ملتجی ہے کہ وہ مسیح میں تسلی محبت کی دلجمعی۔ روح کی شراکت اور رحمد لی اور درد مندی جن کی بنا پر وہ آیت میں مخاطب کئے گئے ہیں۔ ان کو اس تک وسعت دیں۔ کیا پولس سے بھی ایک زیادہ بزرگ اپنے لوگوں سے اس بات کا ملتجی نہیں ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کرنے میں میری خوشی پوری کرو(یوحنا ۱۵: ۱۱۔۱۲)۔

کہ یہ کاف غالباً اس مطلب یا مفہوم کا اظہار کرتا ہے۔ جس کا ذکر اوپر ہوا ہے(دیکھو ۹:۱)۔

ایک دل

لفظی ترجمہ کی رو سے ایک ہی چیز کا خیال کرو۔ جب مسیحیوں کے دل اور ارادے اور خیال کو دیکھو دیباچہ (باب۶) ایک ہی طریق پر متوجہ اور ایک ہی مرکز پر سمٹ آتے ہیں تو اس سے اتحاد وقوع میں آتا ہے (۲:۴ ) میں بھی یہی محاورہ آتا ہے۔

یونانی ترکیب سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جملے جو اس کے بعد آتے ہیں۔ اس بڑے خیالی کی گویا ایک تفصیل ہیں۔ اگر ان کے دل کا عام میلان اتحاد مقصد و فوائد کی طرف ہے۔ تو اس کا نتیجہ ‘‘خود بخود’’ یکساں محبت وغیرہ وغیرہ ہو گا۔

یکساں محبت وغیرہ 

مثل ان لوگوں کے جو ایک ہی سر چشمہ سے سیراب ہوئے ہیں۔ اس عظیم خدا کی اس عظیم محبت (رومیوں۵:۵) میں بھرپور ہوں تو باہمی محبت ایک دوسرے سے خود بخود آشکارا ہو جائےگی۔ یہاں آیت مذکور ہ بالا اس محبت کی دلجمعی کی طرف اشارہ ہے۔ جس کا ذکر آیت میں ہے ہم دیکھتے ہیں عام اور باہمی محبت ایک متحد کرنے والی قوت ہے۔

ایک جان رہو۔ 

اس میں احساس اور خواہشات قلبی کا کامل اتفاق لازمی ہے اس کی مثال قوی سپاہیوں سے دی جا سکتی ہے۔ جو سب ایک ہی رشتہ جماعت میں پیوست ہونےکے باعث ایک ہی قسم کے جوش سے بھرپور ہوتے ہیں۔

یہاں ہم کو عام خواہش اور ارادہ کے متحد کرنے والی قوت کا پتہ چلتا ہے۔

ایک دل۔ 

‘‘لفظی ترجمہ ایک ہی چیز کا خیال کرنا’’ مقابلہ کرو (۳۱:۳)۔ یہاں خیال اور منصوبے کے اتحاد کو ظاہر کیا جاتا ہے۔  جس کا ایک ہی مرجع و مقصد ہو۔ یہاں ہم کو عام خیال اور مقصد کے متحد کرنے والی قوت بتائی جاتی ہے۔

اصلی و حقیقی اتحاد یہی ہے کہ دلوں کا عام میلان ایک ہو اور سب ایک ہی رشتہ میں باہم پیوستہ ہوں۔ اسی اور ایک ہی تحریک دینے والی محبت سے سب چلائے جائیں۔ اسی اور ایک ہی دلسوز خواہش اور سرگرمی سے سب اثر پذیر ہوں۔ اسی اور ایک ہی بڑے مقصد اور نشانہ کی طرف سب کوشاں ہوں۔

۳۔ تفرقے اور بیجا فخر کے باعث کچھ نہ کرو۔ بلکہ فرتنی سے ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھے۔ 

تفرقے اور بے جا فخر کے باعث کچھ نہ کرو۔ 

‘‘الفاظ کچھ نہیں’’ سے مراد با لکلیہ اور قطعی ممانعت ہے یعنی کسی حالت و صورت میں تفرقے اور بے جا فخر جائز نہیں ہے ‘‘اس قاعدہ کلیہ کا کوئی استثنا نہیں۔ ’’ ‘‘کچھ نہیں’’ کے متعلق دیکھو (۲۰:۱)۔

تفرقے

۱۷:۱ کو دیکھو۔  جہاں لفظ مستعمل ہوا ہے۔ اس لفظ میں وہ معنی شامل ہو سکتے ہیں۔ یعنی خود مطلبی اور دھڑے بندی اگرچہ دوسرا خیال خاص طور پر مد نظر ہے۔ یہ شخصی خود نمائی اور خود پسندی کا اظہار کرتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ مسیحیوں میں ہمارے تفرقوں کا آخری سبب انہیں دو برائیوں میں سے ایک ہے یعنی دھڑے بندی اور شخصی خود نمائی۔ ہم کو چاہئے کہ ہم اپنی ہندوستانی جماعتوں میں تفرقے اور فرقہ بندی کے روح سے بچیں جس کا باعث خواہ ذات پات کے تعصبات ہوں یا خاندانی رقابت۔ اس ملک کی تاریخ سے ہم کو ان دو برائیوں کے متعلق جو قومی اور خاندانی جھگڑوں کے باعث اٹھا کرتی ہیں ایک خاص سبق ملتا ہے جس کا  نتیجہ یہ ہے کہ آج ہندوستان کے لوگ بہ نسبت ایک متحد ہمجنس قوم ہونے کے زیادہ تر مثل ایک انسانی گلہ کے نظر آتے ہیں۔ ہم کو چاہئے کہ کم از کم مسیحی کلیسیا میں ایک عمدہ طریق و مثال کی پیروی کریں۔

خود مطلبی کی روح سے بھی ہوشیار رہیں جو کلیسیاؤں میں صدر مقام اور کونسلوں میں خاص اثر اور جماعتوں میں اعلیٰ اختیار کی خواہاں وجویاں ہے۔ پادریوں اور اہل جماعت دونوں کو اس بات کی ضرورت ہے۔ کہ اپنے کو غرور سے بچائے رکھیں۔یہ ایک واقعہ ہے کہ اکثر مقامات میں اگر کسی بھائی کی زبان سے دوسرے کی بابت کو ئی سخت یا نالائق لفظ نکل گیا تو اس سے نہ صرف تفرقے بلکہ نامتناہی عناد مسیحی جماعتوں میں قائم ہو جاتا ہے۔ اس لئے ضرور ہے کہ شخصی غرور کے خلاف خاص طور پر زور دیا جائے۔

یہ لفظ فروتنی عہد جدید کے زمانہ سے پیشتر استعمال ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔ غیر مسیحی یونانیوں میں اسی قسم کی فروتنی کا خیال بالکل نا پسندیدہ تھا۔ ان کی مستند کتابوں میں اس قسم کے الفاظ جو فروتنی کا خیال ظاہر کرتے ہیں۔ کمقدری یا ادنیٰ پن پر دلالت کرتےہیں۔ اور ذلت کمینگی اور نیچ پن کا خیال ان سے متصور ہوتا ہے۔ یہ مسیح کا ہی حق تھا کہ اس نے خاکساری و انکساری کو ایک خاص اعلیٰ اخلاقی صفت قرار دیا۔ اور انجیل میں وہ تعلیم ہے جس میں بنی آدم کو یہ سکھلایا گیا ہے کہ سچی اور اعلیٰ شرافت نفس تک پہنچنے کا طریق کامل خود انکاری میں ہے اگر ہم سچی خاکساری حاصل کرنا چاہیں تو ہم کو چاہئے کہ مسیح سے سکھیں جو خود حلیم اور دل کا فروتن تھا۔ وہ شاہراہ جو ہم کے ہر قسم کے فضل اور برکتوں تک پہنچائی ہے۔ یہی فروتنی ہے (یعقوب ۶:۴ ۱۔پطرس ۵:۵) اور اس صفت کی کمی مسیحی زندگی کی ساری ناکامیوں کا سبب ہے۔

ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھے

لفظ‘‘ بہتر ’’ یونانی میں بمعنی بزرگ یا اعلیٰ کے ہے۔ اور (رومیوں ۱:۱۳ ۔ ۱پطرس ۱۳:۲) میں حکام کے لئے مستعمل ہوا ہے جو ہم پر مقرر کئے گئے ہیں۔

یہ (ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھا) نہ تو محض مصنوعی  و رواجی چاپلوسی آداب کےموافق ہو جو اکثر بعض لوگ ایسے جملے لکھنے سے ظاہر کرتے ہیں جیسے آپ کا ‘‘غلام’’ یا ‘‘حقیر’’ یا آپ کا ادنےٰ ترین اور نہ اپنے ذاتی خدا داد اوصاف کو کم قدر فراموش کرنے سے بلکہ حق لحاظ کے موقع پر ہر ایک اپنے بھائی کا خیال و لحاظ اپنے سے مقدم سمجھے۔

یہاں ہم نے ایک بڑے مسیحی اصول کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ جس پر افسوس ہے کہ عموماً بہت کم لحاظ کیا جاتا ہے۔ مقابلہ کرو (رومیوں ۱۰:۱۲ ۔ اگر یورپی اور ہندوستانی پادری اور کیٹی کسٹ وغیرہ اس اصول کے موافق ہمیشہ ان لوگوں کے ساتھ عمل کریں جو ان کے زیر تحویل ہیں اور اسی طرح اہل جماعت بایک دیگر اور نیز اپنے روحانی معلموں کے ساتھ اس اصول کا برتاؤ رکھیں تو مسیحی کلیسیا اس ملک میں ایک زبردست قوت بن جائے۔ اس آیت ہیں اس احسن اصول کی تعلیم ہے جو قومی ذات پات کے تعصبات کی جڑ کا قاطع ہے۔

۴۔ ہر ایک اپنے ہی احوال پر نہیں بلکہ ہر ایک دوسروں کے احوال پر بھی نظر رکھے۔ 

ہر ایک اپنے ہی احوال پر نہیں۔

لفظ ہر ایک یونانی میں  بصیغہ جمع اس موقع پر آتا ہے اور ان فرقوں ودھیڑے بندیوں’ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اس وقت فلپی کی کلیسیا میں موجود تھیں۔ مطلب یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک جماعت اپنے ہی احوال پر نہیں۔

نظر رکھے۔ 

یونانی میں یہ فعل جس لفظ سے مشتق ہے اس کے معنی کسی شے کو مد نظر رکھنے کے ہیں۔ جیسے کہ کوئی نشانہ یا مقصد۔ فلپی کا ہر ایک فرقہ اپنی ہی ترقی اور فائدے کو دوسرے کے نقصان پر مد نظر رکھتا تھا۔ 

کیا ہندوستان میں ایسی جماعتیں نہیں جہاں روحانی زندگی بہت ہی ادنےٰ نقطہ پر ہے (بلکہ مطلق نہیں) اس لئے کہ بعض جماعت کے لوگ ( جن میں سے بعض کی جڑ ذات پات کی بنیاد میں پائی جاتی ہے) محض اپنے ہی فوائد اور اپنی ہی ٹولی کے شان نمود کے بڑھانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ اور دوسری ذات یا طبقے کے نومریدوں کو اپنے میں داخل کرنا عبث ذلت سمجھتے ہیں؟ یہی نصیحت مشن اور مشنری سوسائٹیوں کے لئے بھی قابل توجہ ہے کہ اپنے اپنے فوائد دوسروں کے نقصان پر مد نظر رکھنے کے باعث ایک نقصانِ عظیم بشارتی کام میں ہو گیا ہے۔

بلکہ ہر ایک دوسروں کے احوال پر بھی 

یہاں بھی لفظ ہر ایک یونانی میں بصیغہ جمع ہے۔ تم میں سے ہر ایک کلیسیا۔ مشن سوسائٹی۔ قوم۔ طبقہ (ونیز ہر فرد) دوسروں کے فوائد کو مد نظر رکھے۔ مسیح کے قانون کا اصول بے غرضی ہے۔

آیت ۵سے ۱۱ مسیح کی حلیمی کا نمونہ۔

یہ وہ آئیتیں جن کو ہم اگر ادب سے اور گھٹنے ٹیک کر پڑھیں تو زیبا ہے خاص کر جبکہ خودی اور فخر کی آزمائش ہم کو آزماتی ہو۔ وہ تمام دلائل جو ذات پات کے امتیاز اور تمدنی خود غرضی کو مفید ثابت کرنے میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ خواہ کیسے ہی ظاہری  طورپر خوشنما معلوم ہوتے ہوں۔ لیکن مسیح کے اعلیٰ نمونے کی صاف روشنی میں وہ مثل کمزور مکڑی کے جالے کے نظر آتے ہیں۔ ان کی اہمیت بیان سے باہر ہے خاص کر مسیح کی کامل الٰہی ذات کی تعلیم کےمتعلق بھی۔

۵۔ ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح یسوع کا بھی تھا۔

یونانی کا لفظی ترجمہ یہ ہے۔

‘‘وہی خیال رکھو اپنے اندر جو مسیح یسوع میں بھی تھا’’۔

آیت ۲میں رسول نے ان کو یہ نصیحت کی تھی کہ ایک ہی خیال رکھو۔ اور یہاں اس ایک ہی کی وہ شرح کرتا ہے کہ وہ کامل خود انکاری کی روح ہے جو مسیح یسوع میں تھی۔

فعل تھا یونانی میں نہیں ہے لہذاہم کو حق نہیں کہ اس خیال کو زمان ماضی سے محدود کریں۔ جیسا کہ تھا ویسا ہی اب بھی مسیح یسوع ہے۔

تم میں 

‘‘یعنی’’ تمہارے وجود باطنی میں صرف اس کے نمونے کی تقلید کرنے کی نصیحت نہیں ہے بلکہ یہ بتایا جاتا ہے کہ عین مسیح کی مزاج و زندگی ایماندار میں روح القدس کی تاثیر کے ذریعہ اور خود خداوند کے ہمارے دلوں میں سکونت پذیر ہونے سے پیدا ہو جائے( افسیوں ۱۷:۳ ۔۱۹) جہاں مسیح ہے وہاں اس کا مزاج بھی ضرور ہو گا۔ مسیحی مذہب محض ایک قانون اخلاق نہیں ہے۔ جو ایک بڑے اور پاک معلم کے لاثانی نمونے پر مبنی ہے بلکہ وہ ایک نجات کا مذہب ہے جو گنہگار انسانوں کو کلوری کی قربانی کے وسیلے سے خدا سے ملاتا ہے اور ان کو ایک قوت یعنی روح القدس کی قوت عطا کرتا ہے۔ جو مسیح کے ساتھ حقیقی اتحاد سے پیدا ہوتی ہے۔ جس کے وسیلے سے وہ گناہ پر غالب آ سکتے اور اپنے پاک خداوند کے نقشِ قدم پر چل سکتے ہیں۔

۶۔ اس نے اگرچہ خدا کی صورت پر تھا خدا کے برابر ہونے کو قبضے میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ 

تھا اس آیت میں ۲ حالتوں کی طرف اشارہ ہے خدا کی صورت پر ‘‘تھا’’ حالت اول کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس سے اس کی ازلیت اور نیز ایک حد تک الہٰہیت کا بھی اشارہ ہے۔

خدا کی صورت 

جس یونانی لفظ (مورنی ) کا ترجمہ ‘‘صورت’’ کیا گیا ہے اس کو لفظ (سیغما)آیت ۸ سے جس کا ترجمہ شکل کیا گیا ہے خاص طور پر تمیز کرنا چاہئے۔ مفسر لائٹ فٹ کا خیال ہے کہ لفظ اول (موروثی) ذاتی حقیقی اوصاف پر دلالت کرتا ہےنہ کہ ظاہری عوارض پر اور مفسر مول نہایت عمدگی سے اس کی تعریف یوں کرتا ہے کہ گویا وہ صورت مظہر حقیقت تھی۔ دوسرے لفظوں میں لفظ صورت سے وہ صورت مراد ہے جو کہ باطنی زندگی اور جوہر کا حقیقی اظہار ہے۔ اگرچہ بادی النظر میں یہ لفظ بذاتہ اس بات کو ثابت نہیں کرتا کہ مسیح میں الٰہی ذات و جواہر ہے تو بھی یہ بات صریحاً اس میں متضمن ہے۔ کیونکہ صورت جو جوہر کا بیرونی مظہر ہے اس سے جوہر کے اندرونی و ذاتی اوصاف کیونکہ علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ ان دونوں کی شراکت اس میں لازم و ملزم ہے۔

پس اس آیت سے ہم سیکھتے ہیں کہ مسیح اپنے وجود ماقبل تجسم میں خدا کی تمام اصلی صفات سے متصف تھا۔ المختصریہ کہ وہ خدا تھا۔

قبضے میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ 

عہد جدید میں سوائے اس جگہ کے اور کہیں میں لفظ نہیں آتا۔ یونانی کی علمی کتابوں میں بھی صرف ایک جگہ ملتا ہے۔ اس کے ۲ ترجمے بتائے جاتے ہیں۔

(الف) ۔ انعام خزانہ(لفظی معنی مال غنیمت) اور یہاں یہی معنی قبول کئے گئے ہیں جس خیال کے اظہار کا منشا یہاں ہے وہ یہ ہے کہ مسیح نے باوجود اپنی مساوات با خدا کے یہ نہیں کیا کہ وہ حالت مساوات کو مثل ایک انعام مقبوضہ کے زور سےپکڑے اور تھامے رہتا۔ بلکہ ایک اعلیٰ ایثار نفس پر عمل کر کے اپنی آسمانی عظمت کو اس نے چھوڑ دیا۔ تا کہ گنہگار انسان کو بچائے۔ یہاں جس خاص بات پر زور ہے وہ خاص حق مقبوضہ برضا و رغبت چھوڑ دیتا ہے۔

(ب)  نوٹ غضب 

اگر یہ ترجمہ لیا جائے تو گویا یہ معنی ہوں گے کہ ہمارا خداوند اپنے حق مساوات با خدا پر بطور ایک حق غیر ممکن الاانتقال ولاینفک کا دعویٰ رکھ سکتا تھا اس طرح گویا اس کی عظمت یا جبروت پر بہ نسبت اس کی حلیمی کے زور دیا جا سکتا ہے۔

لا کلام پہلا ترجمہ سیاق و سباق عبارت کے لحاظ سے زیادہ پسند کے لائق ہے اس لئے ‘‘ انعام’’ پر اس کو پورا حق حاصل تھا کہ وہ جس طرح چاہتا اس کو برتتا۔ بشپ لائٹ فٹ فرماتے ہیں کہ ‘‘ اس نے اپنی الٰہی عظمت کے حق غیر ممکن الانفصال پر مضبوطی سے قابض رہنا نہ چاہا۔

خدا کے برابر ہونے۔ 

اصل یونانی میں صاف طور پر مترشح ہوتا ہے کہ یہ ‘‘مساوات بالصفات’’ کی طرف اشارہ ہے نہ کہ اقانیم تقابل کی طرف۔ الہٰیت کی تقسیم کا یہاں کوئی خیال نہیں۔ بشپ مول فرماتے ہیں کہ وہ جلالی شخص جو مد نظر ہے کوئی ایک دوسرا علیحدہ خدا نہیں جو گویا قدرت اور جلال میں مد مقابل ہے بلکہ خدا کا مسیح ہے۔ جس کی الوہیت اور کاملیت بعینہ وہی ہے جو باپ کی بھی ہے۔

ہم کو دیا رکھنا چاہئے کہ مقدس پولس ان آیا ت کا محرر یہودیوں کے مذہب توحید کی نہایت سخت پابندی کا تعلیم یافتہ تھا۔ اس لئے یہ خیال نہیں ہو سکتا کہ وہ ان الفاظ کو جو بے شک وشبہ مسیح کی الوہیت پر دلالت کرتے ہیں یونہی اور خود اس بات پر ایمان نہ رکھتا ہو کہ وہ حقیقی خدا سے حقیقی خدا تھا۔

۷۔بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہو گیا۔

بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا۔

یعنی اپنی الٰہی شان سے نہ کہ الٰہی ذات سے (کیونکہ یہ ناممکنات سے ہے) بشپ مول فرماتے ہیں کہ ‘‘اپنے حق الہٰہیت کے استعمال اور اظہار سے جو اس کو عرش پر حاصل تھا’’ ابن اللہ کے اس فعل کی تفسیر کے متعلق ہم کو اس بات کی خاص احتیاط کرنی چاہیے کہ کوئی ایسی تفیسر قبول نہ کریں جو اس کے اس فعل خود انکاری سے کسی طرح یہ نتیجہ پیدا کرتی ہو کہ وہ گویا محض انسان اور خطا پذیر ہو گیا۔ کیونکہ کفارہ اس وقت تک صحیح اور مقبول نہیں ہو سکتا۔ جب تک کہ یہ نہ مانا جائے کہ وہ جو صلیب پر مصلوب ہوا نہ صرف اس وقت صلیب کے خاص دکھ کی گھڑیوں میں بلکہ اس کے بعد ابد تک فی الحقیقت کامل خدا تھا۔

مفسر بنگل ان الفاظ کے ظاہری تضاد کو محسوس کر کے فرماتےہیں کہ ‘‘ وہ بھرپور رہا’’۔ (یوحنا ۱: ۱۴) اور تو بھی ا س کا رویہ ایسا تھا کہ گویا وہ خالی تھا۔ لاریب رسول کے ان الفاظ سے مراد  یہ ہے کہ اس نے ‘‘خدا سے خدا’’ اور ‘‘نور سے نور’’ ہوتے ہوئے اپنے کو تجسم میں خالی کر دیا۔ یعنی اپنی الٰہی شان کے حق کو اس خاص کام کے لئے جو اس کے مد نظر تھا برطرف کر دیا۔ تا کہ وہ اس کام کو انجام دے۔ اس نے انسانیت کے تمام لوازمات کو اپنے لئے قبول کیا۔ اور روح القدس پر کامل سہارا کئے ہوئے اس زمین پر رہا۔ دینداری کا راز عظیم ہے۔ (۱۔تیمتھیس۳: ۱۶)۔

یونانی میں لفظ اپنے آپ پر زور ہے جو اس بات پر اشارہ کرتا ہے کہ اس کا یہ فعل بالکلیہ ایک اختیاری فعل تھا۔

کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم کو اس خاص بات میں اس کے نقش قدم پر چلنے کی ایک ہدایت ملتی ہے کہ ہم بھی ان خاص حقوق و مرتبوں سے جو ہم کو حاصل ہوں دوسروں کی خاطر سے اپنے آپ کو خالی کر دیں خواہ وہ افتخارِ خاندان ہو یا دولت یا تعلیم ۔ خدا کی خوشنود اطاعت و رضا میں سب اس کے تابع کر دیں اور سب سے زیادہ یہ کہ ہم ‘‘خودی’’ سے جو مختلف پیچیدہ صورتوں میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ اپنے آپ کو خالی کریں۔

اور خادم کی صورت اختیار کی۔ 

اصل یونانی میں جو مراد ہے وہ بہتر طور پر ان الفاظ میں یوں ظاہر کی جا سکتی ہے کہ اس نے اپنے آپ کو خالی کر دیا خادم کی صورت اختیار کرنے سے۔ یہ دونوں فعل ہم زبان ہیں جیسا کہ فعل زمانہ سے بھی ظاہر ہے۔ حقیقت میں یہ عظیم کام یعنی اپنے کو خالی کر نا اس کے غلام کی صورت اختیار کرنے پر مشتمل تھا۔ اس حیثیت میں روح القدس کی تاثیر کا تابعدار رہ کر اس نے زندگی بسر کی اور عمل کیا؟

لفظ‘‘ صورت’’ یہاں بھی وہی ہے جو آیت ۶ میں آیا ہے اور یہاں بھی اس سے وہی مراد ہے یعنی صفات ذاتی پر زور ہے نہ کہ علامات خارجی پر۔ اس نے غلام ہونے کا صرف ظاہری جامہ ہی نہیں پہنا بلکہ فی الحقیقت وہ غلام ہو گیا۔ دیکھو (۱:۱)۔ یہ غلامی سب سے زیادہ خدا کی غلامی تھی (مقابلہ کرو مزمور ۴۰: ۶۔۸ اور عبرانیوں ۱۰: ۵سے۷) اس نے انسان ہو کر یہ دکھلایا کہ خدا کی حقیقی غلامی کے کیا معنی ہیں۔ بلا شک یہ سچ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو بنی آدم کی خدمت کے لئے بھی پست کیا(متی ۲۰: ۲۷۔۲۸اورمرقس ۱۰: ۴۴۔۴۵ اور یوحنا ۱۲: ۱۔۲۰) لیکن وہ خاص سچائی جس سے یہاں مراد ہے۔ بلا کسی شک و شبہ کے یہ ہے کہ اس نے باپ کی کامل خدمت کی

‘‘حقیقی خدا’’ کی صورت میں اور حقیقی بندہ۔ بندہ کی صورت میں ! ایک سے دوسری حالت میں کیا ہی تفاوت عظیم ہے۔

اور انسانوں کے مشابہ ہو گیا۔

یونانی میں یہ فعل جس زمانہ کو ظاہر کرتا ہے وہ دوسرے فعلوں کے ساتھ ( یعنی اپنے آپ کو خالی کرنا اور غلام کی صورت اختیار کرنا ) ہم زبان ہے۔

انسانوں کے مشابہ

یہ محاورہ اس بات پر اشارہ کرتا ہے کہ گو وہ تمام لوازمات حقیقت انسانی کے اعتبار سے انسانوں کے مشابہ تھا۔ تا ہم وہ انسان سے کسی قدر اعلیٰ تھا ورنہ اس جملہ تشبیہی کا استعمال ضرورت سے زائد ہو جاتا ہے۔ (دیکھو عبرانیوں ۱۲: ۱۴۔۱۸) ‘انسانوں’ صیغہ جمع اس بات کا پر اشارہ کرتا ہے۔  کہ وہ تمام انسانی نسل کا وکیل اور سو ربیر ہو گیا۔


۱. نوٹ:۔

جب ہندوستان کے لوگ پولوس کے خطوں کو بلکہ جب عموماًنئے عہد نامے کی کسی کتاب کو پڑھیں تو ان کو یہ یاد رکھنا ضرور ہے کہ انجیل کے لفظ کے دو معنی ہیں۔ ابتدا میں جس طرح کہ یہ لفظ نئے عہد نامے میں مستعمل ہوا ہے۔ اس کی معنی تھے صرف خدا کی طرف کا وہ پیغام جس کی مسیح اور (باقی صفحہ نمبر ۲۸ پر)

۲. (بقیہ صفحہ نمبر ۲۸) اس کے رسولوں نے منادی کی یعنی اس عجات کی خوشخبری جو خدا کی طرف سے ہے جب مسیح کی زندگی کا تحریری حال کلیسیا میں مسلم ہو کر پھیل گیا تو اس کا نام انجیل پڑ گیا کیونکہ اس میں اس خوشخبری کا بیان درج ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہنا درست ہے کہ جب محمد صاحب نے جن کو مسیحی مذہب کا کچھ نامکمل سا علم تھا کل نئے عہد نامے کو بیان کرنا چاہا تو اس کو وہ نام دیا جو چاروں نہایت مشہور کتابوں کا نام ہے یعنی انجیل کے نام سے ا ن کا ذکر کیا۔ ان کا یہ نام دینا چنداں غلط نہ تھا۔ کیونکہ نئے عہد نامے کی ساری کتابوں کا مضمون یہی نجات کی خوشخبری ہے۔

۳. ۱ نوٹ دائرے کے لفظ سے مراد ہے وہ مقام یا چوگرد جس میں کوئی شخص رہتا ہے۔ (۲۔کرنتھیوں ۳: ۱۷)میں آیا ہے کہ خداوند جس سے مراد ہے مسیح) روح ہے جو زندگی ہمارے اندر اس کے ساتھ ایک ہو جانے سے پیدا ہوتی ہے وہ لا انتہا ہے تاہم وہ ایک شخص یا ایک وجود کے (بقیہ حصہ ۷۶) اندر مقیم ہے اسی شخص کے اندر ہم اس طرح زندہ رہتے ہیں کہ جیسے ایک نئے روحانی ہوا کے کرّہ میں۔

Religion of Islam

Religion of Islam
Religion of Islam

Religion   of   Islam   in   Urdu

مصنف

پادری۔ای۔ایم۔ویری صاحب ڈی۔ڈی

جسکو

منشی محمد اسمعٰیل نے انگریزی زبان سے بامحاورہ اور سلسیس اردو میں ترجمہ کیا

اور

امریکن ٹریکٹ سوسائٹی کی طرف سے شائع ہوا
۱۹۰۵

The  Religion  of  Islam

Rev. Elwood  Morris  Wherry

(1843–1928)

Translated   By

Rev. Munshi  Muhammad  Ismail

دین اسلام

باب اول

تعریفِ اسلام

معمولی مسیحی کے خیال میں اسلام کل کا بچہ ہے۔ اسلام کی نسبت وہ بزرگی وعظمت کا خیال پیدا نہیں ہوتا جو ہندو اور بدھ مذاہب کے حق میں اُن کی قدامت کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہے۔مسیحی کے نزدیک دینِ اسلام عربی نبی کا دین ہے۔ وہ اس میں اپنے یا اپنے آباؤ اجداد کے دین سے کوئی بڑا تعلق نہیں دیکھتا۔ اُس کے نزدیک عقائد اسلامیہ کی خاص باتیں صرف یہ ہیں (۱) اللہ اوراُس کے نبی محمد صاحب پر ایمان لانا(۲) کثیر الازدواجی کی رسم کو برحق جاننا اور (۳) منکروں سے جہاں کرنے میں متعصبانہ جوش دکھانا۔ لیکن مسلمان کے نزدیک صرف اسلام ہی اکیلا سچا مذہب ہے۔ اُس کے خیال واعتقاد کے مطابق یہ وہ مذہب ہے جو پہلے آدم شیت اورحنوک کو پھر ابراہیم  ۔ موسیٰ اور دیگر بزرگوں اور بعد ازاں داؤد اور تمام نبیوں کو اور عیسیٰ اوراُس کے رسولوں کے اور آخرکار خاتم الانبیاء محمد صاحب کو عنایت کیا گیا۔ اُسکے نزدیک اِس دین میں خدا کی مرضی پورے طور سے مشتمل اور متضمن ہے۔ جنِوں اور فرشتوں کا یہی دین ہے اور عاقبت میں بہشت کی خوشیوں میں پہنچ کر اس کا خاتمہ ہوگا۔ علاوہ بریں اسلام اطاعتِ الہٰی کا دین کہلاسکتا ہے۔ چنانچہ علمائے اسلام کہتے ہیں کہ مسلمان وہ ہے جس نے اپنی گردن الہٰی جوئے کے نیچے رکھدی ہے۔

پس اسلام بھی یہودی اور مسیحی دین کی طرح ایک جدا دین ہے۔  وہ کسی دوسرے دین کو سچا نہیں مانتا۔ وہ کسی کو اپنا ہم حیثیت اورہم رتبہ تسلیم نہیں کرتا ۔ بعض مسیحی مصنفین کا خیال ہے کہ دین اسلام اور دین عیسوی اپنے اپنے ایمان واعتقاد کے نشانوں کی بے تعصبانہ تشریح کرنے کے بعد اس خاص غرض سے قائم ہوئے ہیں کہ ہاتھ میں ہاتھ لئے ہوئے نہایت اتفاق سے کفار سے جہاد کریں لیکن یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے۔ ایسا میل ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہ ہمیشہ  ایک دوسرے کے تنزل سے خوش ہونگے۔ جہاں تک مشنری معاملے کا تعلق ہے اُس سے صاف اور صحیح نتیجہ یہی اخذ ہوسکتا ہے کہ ہمیشہ لڑائی جاری رہیگی لیکن یہ لڑائی روحانی ہے جسمانی ہتھیاروں سے کام لینا ٹھیک نہیں۔روح القدس کی تلوار کا اسلامی  تلوار سے مقابلہ ہے اور مناسب ہے کہ ہم اسلامی عقائد کوسمجھنے کی خاطر اسلام کے بنیادی اُصول پر غور کریں۔

مسلمان مصنف اسلام کے چار رکن یا ستون بیان کرتے ہیں۔ (۱)قرآن (۲) احاد یث یا روائتیں (۳)اجماعِ امت یا علماء کی متفق رضامندی اور (۴) قیاس یعنی دلیل جوقرآن واحا دیث اوراجماع پر مبنی ہو ۔ پس اِن ارکان پر جُدا جُدا غور کرنا ضروری معلوم ہوتاہے۔

فصل اول

قرآن

مسلمان اس کو قرآن المجید۔ قرآن الشریف۔ فرقان او رکلام اللہ کہتے ہیں۔ اصل کی نسبت بیان کرتے ہیں کہ خدا کے تخت کے نیچے لوحِ محفوظ پر مرقوم ہے۔ وہاں سے نقل کرکے جبرائیل فرشتہ کی معرفت محمد صاحب پر نازل کیا گیا۔ اِس سے صاف یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ محمد صاحب اپنے معتقدوں کے خیال میں اُن تمام باتوں کو بیان کرنے میں جو اُس نے لوگوں کے سامنے پیش کیں گویا خدا کا ترجمان تھا۔

بہت سے خوش اعتقاد مسلمان بڑے وثوق سے بیان کرتے ہیں کہ محمد صاحب قرآن سنانے کے لئے بلا ئے گئے۔ شہر مکہ کے قریب چند ہفتوں تک خلوت نشین کی طرح ایک غار میں رہا۔ ایک روز نہایت خوف زدہ ہوکر کانپتا ہوئے اپنی بیوی خدیجہ کے پاس گئے اور کہا کہ مجھے چھپادو۔ جب تک اُن کا خوف  موقوف نہ ہوا خدیجہ نے اُنہیں کپڑے سے چھپائے رکھا۔ کچھ دیر بعد محمد صاحب نے تھراتھراتے اور کانپتے ہوئے بیان کیاکہ جبرائیل فرشتہ میرے پاس آیا تھا اورمجھ سے کہنے لگا کہ " پڑھ"  میں نے کہا" میں ان پڑھ ہوں"۔ پھر اُس نے مجھے پکڑا اورمیری برداشت کی حد تک مجھے دبایا اور چھوڑ کر کہا "پڑھ" میں نے کہا " میں ان پڑھ ہوں" ۔ اس پر اُس نے پھر مجھے دبایا اور چھوڑدیا۔ پھر تیسری مرتبہ ایسا ہی کیا اورکہا "پڑھ" اپنے رب کے نام سے جو انسان کا خالق ہے۔ پڑھ کیونکہ تیرا خدا نہایت ہی کریم ہے۔ اُس نے آدمیوں کو قلم کا استعمال سکھایا۔ اُس نے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا"۔

یہ قصہ سن کر وفادار خدیجہ اپنے شوہر کو تسلی دینے کے لئے مستعد ہوئی۔ اُس کے خوف کو دور کرنے کی غرض سے اوراِس لئے کہ کہیں وہ خوف سے مر نہ جائے یا کہیں شیطان کے بس میں نہ ہوجائے وہ یوں کہنے لگی کہ" میں خدا کی قسم کھاتی ہوں کہ وہ کبھی تم کو اُداس یا رنجیدہ نہ کریگا کیونکہ فی الحقیقت تم اپنے رشتہ داروں پر مہربان ہو۔ تم سچ بولنے والے اور امانتدار ہو۔ تم لوگوں کی تکلیفوں میں ہمدرد ہوتے ہو اورکچھ تجارت سے کماتے ہو سب کا سب اچھے کاموں میں صرف کرتے ہو۔مہمان نواز اوراپنے ہم جنسوں کی مدد کرنے والے ہو" ۔ اس کے بعد خدیجہ محمد صاحب کو اپنے عم زاد بھائی ورقہ کے پاس لے گئی۔ ورقہ ایک مقدس آدمی سمجھا جاتا تھا اور یہودی نوشتوں سے واقفیت رکھتا تھا۔ ورقہ نے کہا " اے میرے  بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو"؟ اس پر محمد صاحب نے جو کچھ دیکھا تھا بیان کیا اور ورقہ نے کہا کہ" یہ وہی عزت ہے جو خدا نے موسیٰ کو عنایت فرمائی تھی"۔ اس سے یہ ظاہر کیا کہ اُسے الہام ہوتا ہے۔

محمد صاحب کی نبوت کا شروع یہی تھا۔ اِس وقت سے بیس برس تک برابر اس عجیب وغریب شخص کے اظہار اور بیانات بڑی ہوشیاری سے لکھے گئے اور کلام اللہ کے طورپر پیش کئے گئے ۔ تمام قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا اور نبی کے تجربوں اور مومنین کے حالات کے رنگ میں رنگا گیا۔ قرآن کے مختلف حصوں کا مختلف موقعوں پر حسب ضرورت اظہار اور استعمال کیا گیا۔ جب کبھی نبی کو کوئی ضرورت  پیش آئی اور کوئی ذاتی فائدہ ملحوظ اور مدنظر فوراً   آسمانی  الہام وضع  کیا گیا۔

اس نبوت کی روح کے جوش نے مکہ میں قومی بتوں کے بُت خانہ اور بتوں پر لعنت کی اور خلقت اور انسانی ضمیر کی شہادت سے خدا کی وحدت کو قائم کیا۔ قبیلہ قریش جوشہر مکہ میں ایک نہایت زبردست فرقہ تھا اور کعبہ کے مقدس مقام کا محافظ تھا  اس تبلیغ  سے نہایت ناراض اور برا فروختہ ہوگیا۔ چنانچہ اُنہوں نے محمد صاحب کو پاگل اورمجنوں ودیوانہ سمجھ کر ٹھٹھوں میں اڑایا اوراُس کے تمام پیروؤں کو ستایا۔محمد صاحب کواپنے زبردست رشتہ داروں کے باعث حفظ وامن نصیب ہوا۔ قرآن اِن واقعات کا بڑی خبرداری اور شرح وبسط کے ساتھ بیان کرتاہے اور ستانے والوں کوخوب ملامت کرکے ڈراتا ہے۔ نیز گزشتہ زمانہ کے انبیاء کے حالات کو پیش کرتا ہے کہ کس طرح بے ایمانوں اور کافروں نے اُن کو ستایا اور ٹھٹھوں میں اڑایا۔ کس طرح خدائے کریم نے اُن کو معجزے عنایت کئے اور تمام دشمنوں پر غلبہ عطافرمایا۔لیکن وہ بدبخت سنگدلی کے باعث آنکھیں بند کئے ہوئے ہلاکت کی طرف دوڑے چلے گئے ۔ بعض کی ہلاکت کے لئے زمین متزلزل ہوکر پھٹ گئی اور وہ زندہ درگور سے بدتر ہوکر غرق ہوگئے اور بعض طوفان میں ڈوب مرے۔ بسا اوقات رات کے وقت بادِ سموم چلی اور تمام باشندوں کو ہلاک کردیا۔ خدا کے انبیاء کے دشمنوں پر اُنہیں ہلاک کرنے کے لئے وبائیں آئیں۔ جب یہودیوں نے مخالفت کی تو گذشتہ زمانہ کے منکرین کی ہلاکت وبربادی کے حالات پیش کرکے اُنہیں متنبہ کیا گیا۔

مدینہ میں نبی کی حالت بالکل تباہ ہوگئی اور قرآن الہام کے طرز بیان میں بھی بہت کچھ فرق آگیا۔ شروع میں تونبوت نہایت دلکش تھی۔ یہودیوں کی بہت کچھ چاپلوسی اور خوشامد کی گئی ۔ مسلمانوں کو حکم ملا کہ یروشلیم کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کریں۔ عہد عتیق کے بزرگوں کی بہت کچھ تعریف کی گئی ۔ اس طرح سے محمد صاحب نے بنی اسرائیل کواپنے  ساتھ ملالینے کی کوشش کی لیکن وہ اِس نئے رسول کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ اُنہوں نے اُس کے نبیوں کو ستایا اور قتل کیا۔ بیت المقدس واقعہ یروشلیم کے عوض میں کعبہ قبلہ مقرر ہوا۔ مسلمانوں کو حکم ہوا کہ آئندہ مکہ کی طرف منہ کرکے نماز ادا کیا کریں۔ مسیحیوں کا ذکر نہایت نرمی اور ملائمت سے کیا گیا۔ عیسیٰ کو خدا کا نہایت بھاری اور الوالعزم  نبی تسلیم کیا۔ اُس کے چال چلن کی پاکیزگی اوراُس کے عجیب وغریب معجزات کا ذکر اذکار ہونے لگا۔

اِ س عرصہ میں بہت سے لوگ اِس نئے دین کے پیرو ہوگئے۔ عربی ۔ یہودی اور عیسائی بھی اس میں شامل ہوئے۔ اب ایک  نیا مخالف یعنی عبداللہ نامی ایک شخص برپا ہوا۔ یہ شخص مدینہ کے ایک نہایت زبردست فرقہ کا سردار تھا۔ یہ محمد صاحب کے روز افزوں اقتدار واختیار پر بہت حسد کرنے اور شک کھانے لگا۔

اس وقت سے محمد صاحب کے الہامات نے عبداللہ اوراُس کے فریق کی طرف رُخ کیا۔ الہامات کی ضروریات بہت بڑھ گئیں  اور آنحضرت کے کانوں میں ہر وقت جبرائیل فرشتہ کی آواز سنائی دینے لگی۔ بقول حضرت محمد بعض اوقات تو یہ آواز گھنٹے کی آواز کی سی تھی اور بعض وقت رعد اور گرج کی سی۔اس کی سندمیں ہم ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں۔

راوی : عبداللہ بن یوسف , مالک , ہشام بن عروہ , عروہ , عائشہ

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ کَيْفَ يَأْتِيکَ الْوَحْيُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ فَيُفْصَمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِي الْمَلَکُ رَجُلًا فَيُکَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا۔

ترجمہ: عبداللہ بن یوسف، مالک، ہشام بن عروہ، عروہ، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کبھی میرے پاس گھنٹے کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر بہت سخت ہوتی ہے اور جب میں اسے یاد کر لیتا ہوں جو اس نے کہا تو وہ حالت مجھ سے دور ہو جاتی ہے اور کبھی فرشتہ آدمی کی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور جو وہ کہتا ہے اسے میں یاد کر لیتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے سخت سردی کے دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھا پھر جب وحی موقوف ہو جاتی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا۔(صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ وحی کا بیان ۔ حدیث ۲)

ایک دفعہ کا ذکر کیا جاتاہے کہ جبرائیل آنحضرت کے خادموں میں سے ایک شخص دہیاہ کی مانند ہوکر ایسی آواز سے ہم کلام ہوا جو صاف سنائی دیتی تھی۔ کبھی یہ حکم سنایا گیا کہ کاروانِ مکہ سے جنگ کرو۔ کبھی مسلمانوں کے اپنے معاملات کی نسبت احکام آئے۔ اِن احکام سے غالباً اُن کی باہمی راہ ورسم کا انتظام مقصود تھا۔ شاید اُن کی زوجات اورہمسایوں سے برتاؤں کرنے کے متعلق ہدایات تھیں یا اس امر کی تشریح تھی کہ مومنین آنحضرت سے کیسا سلوک کریں۔ کبھی نماز اور روزوں کی تعلیم دی گئی۔ کبھی اہل عرب کے بعض قدیم دستورات موقوف کئے گئے ۔ مثلاً قدیم دستور کے مطابق کوئی عرب اپنے متنبیٰ بیوی سے نکاح نہیں کرسکتا تھا لیکن جب آنحضرت نے اپنے متنبیٰ زید کی حسین بیوی زینب پر عاشق ہوگئے تویہ دستور منسوخ کردیا گیا۔ زید نے آنحضرت کو زینب کا شیفتہ وفریفتہ دیکھ کر اُس طلاق دیدی۔ اگر چہ آنحضرت طلاق دینے سے زید کو ظاہرا منع فرماتے رہے لیکن بمصداقِ " عشق ومشک را نہتواں نہفتن"۔ چونکہ زید حقیقتِ حال کو تاڑ گیا تھا اس لئے اُس نے آنحضرت کو زینب کی ہم آغوشی سے محروم نہ رکھا۔ اگرچہ محمد صاحب کے محبتی بچے اُن کے اس افعل سے ناخوش نہ تھے توبھی اہلِ عرب کا دستور اس کے خلاف تھا۔ اُن کے نزدیک کسی شخص کا اپنے متنبیٰ کی مطلوقہ بیوی سے نکاح کرنا نہایت ہی مکروہ اور معیوب تھا۔ اس موقعہ پر فوراً وحی آسمانی نے آپ کی حمایت کی۔ فی الفور قرآنی وحی آپ کی بریت کی آیت لئے ہوئے لپکتا ہو آیا۔ آنحضرت نے بیان فرمایا کہ یہ اس لئے ہواہے تاکہ آئندہ کے لئے وہ پرانا نامناسبت دستور جومومنین کواپنے لیپالکوں کی مطلوقہ بیویوں سے نکاح کرنے سے منع کرتا اور روکتاہے موقوف کیا جائے۔ مَّا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا پیغمبر پر اس کام میں کچھ تنگی نہیں جو خدا نے ان کے لئے مقرر کردیا۔ اور جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں ان میں بھی خدا کا یہی دستور رہا ہے۔ اور خدا کا حکم ٹھیر چکا ہے(سورہ احزاب آیت ۳۸)۔

ایک دفعہ مقدس مہینوں میں جنگ کرنے پر فساد بپا ہوا۔ کیونکہ عرب کے قدیم دستور کے مطابق ان مہینوں میں جنگ کرنا بالکل منع اور ناجائز تھا۔ تلواریں میان میں کی جاتی تھیں اور ڈھالیں اور تیروکمان وغیرہ خیموں کے اندر لٹکائے جاتے تھے اور دشمن جان ومال کے خطرہ سے بے خوف ہوکر آپس میں ملتے جلتے تھے۔کسی کے باپ یا بھائی کا خونی بھی انتقام سے بے خوف ہوکر اُسکی صحبت میں رہ سکتا تھا۔ ان مقدس مہینوں کے شروع میں ایسا ہوا کہ مسلمان ڈاکوؤں کی ایک چھوٹی سی جماعت نے یہ دیکھ کر کہ ایک کاروان مکہ ایک چاہ کے قریب نہایت بے فکری اور اطمینان سے خیمہ زن ہے اُس پر فوراً حملہ  کیا اور چونکہ وہ کاروان کسی طرح کے مقابلہ کے لئے تیار نہیں اس لئے بآسانی  مسلمان لٹیروں کا شکار ہوا۔ چنانچہ مومنین تمام مال واسباب لوٹ کر اور غنیمتِ جنگ  کے طورپر اپنا حق سمجھ کر بمصداقِ

چوپیروزشد دزد تیرہ رواں
چہ غم داردانہ گریہ کاروان

خوشی خوشی اپنے مآرب ومراصد کی طرف روانہ ہوئے۔ اس پر تمام منکرین ومنافقین مکہ نے شور مچایا اور مسلمان بھی اس سے بہت شرمندہ ہوئے اور چونکہ  یہ سرق ونہب محمد صاحب کے حکم سے وقوع میں آیا تھا اس لئے آنحضرت پر بھی رہزنی اور لوٹ مار کا الزام لگا اور آپکا اختیار نہایت ہی معرض خطر میں آگیا۔ آپ نے عوام کی تسلی کے لئے ڈاکوؤں کو حراست میں رکھا اور مال غنیمت بھی آسمانی فیصلہ کی انتظاری میں کچھ دنوں تک تقسیم نہ کیا لیکن یہ انتظاری دیر تک نہ رہی ۔چنانچہ جبرائیل فرشتہ فوراً پیغام لایا کہ ان مہینوں میں بھی تمام کافروں اور منکروں کو لوٹنا اور قتل کرنا جائز ہے کیونکہ کفراِن مہینوں  میں جنگ کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔ پس ڈاکوؤں کو آزاد کردیا اور اُنہیں خوب انعامات تحسین وآفرین سے خوش کیا اور تمام مالِ غنیمت  مومنین میں تقسیم کیا گیا۔

پھر ایک موقعہ پر حسب الحکم قرآن یہودیوں پر چڑھائی کی گئی۔ بعض گستاخ عرب غیر مناسب بے تکلفی کے ساتھ محمد صاحب سے ملے اور اس پر فوراً قرآنی آیات نازل ہوئیں اور آنحضرت سے ملاقات کرنے کے طریق اورآپ کے حضور میں حاضر ہونے کے قواعد بیان کئے گئے ۔پھر آنحضرت  کی پیاری بیوی عائشہ پر الزام لگایا گیا اوراس سے سخت بے عزتی اور بدنامی ہوئی لیکن قرآن نے فوراً  عائشہ کو ان الزامات سے بری کردیا اور الزام لگانے والوں اور بدنام کرنے والوں کے لئے سزا تجویز کی گئی۔ وحی قرآن کا یہ ایک خاصہ نظر آتا ہے کہ وہ آنحضرت کی ضروریات اور تمام کارروائیوں کے حسب حال خوب ہی زمانہ سازی کرتاہے۔ قرآنی الہامات اور آنحضرت کی کارروائیوں میں ایک نہایت ہی گہرا تعلق ہے۔ قرآن کو بخوبی سمجھنے کے لئے آنحضرت کے سوانحِ عمری اورحالات زندگی سے واقفیت حاصل کرنا از حد ضروری ہے۔

محمد صاحب کی وفات کے بعد قرآن کے مختلف حصے ایک صندوق میں پائے گئے جو آنحضرت کی زوجات میں سے ایک کے سپرد کیا گیا تھا۔ یہ قرآنی آیات اور سورتیں کھجور کے پتوں اور سفید پتھروں پر مرقوم تھیں۔ اس کے علاوہ بہت سے مسلمانوں کے پاس بھی قرآن کے بعض حصوں کی نقلیں تھیں اور اُن میں سے بعض نے اُن کو ازبرکیا ہواتھا۔ایسے لوگوں کو حافظ کہتے ہیں۔ جنگ وجدل اور کشت وخون سے حافظوں کی تعداد بہت کم ہوگئی۔ آخرالامران ہی وجوہات سے خلیفہ ابوبکر نے زید ابن ثابت کو قرآن کو مرتب کرنے پر مقرر کیا ۔زید نے اس کام کو سرانجام تک پہنچایا اور وہ تمام حصے جو کھجور کے پتوں اور پتھروں پر لکھے ہوئے تھے اور بعض جو مومنین نے حفظ کئے ہوئے تھے نہایت احتیاط اور خبرداری سے مرتب کئے ۔ چنانچہ موجودہ قرآن وہی ہے جو زید ابن ثابت نے جمع کیا تھا۔یہ تو سچ ہے کہ خلیفہ عثمان کے عہد میں بھی قرآن میں کچھ ردوبدل اور تغیر و تبدل ہوا لیکن یہ ردوبدل صرف اس حدتک تھا کہ محاورات واصطلاحات مکی عربی اور قبیلہ قریش کے محاورات کے مطابق ہو۔

کل قرآن میں ایک سوچودہ سورتیں ہیں لیکن اِن ابواب یاسورتوں  کا سلسلہ ترتیب تواریخی نہیں ہے بلکہ کسی قدر یہودی نوشتوں اوراُن کے انبیاء کے صحیفوں کی طرز پر ہے۔ لمبی لمبی سورتوں کوشروع میں درج کیاہے اور چھوٹی چھوٹی سورتیں آخر میں رکھی ہیں۔ تمام سورتوں کے پہلے بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ مندرج ہے اور جو سورت شروع میں رکھی گئی ہے اس کا نام فاتحہ ہے اوراُس کا مضمون دعائیہ ہے۔ چنانچہ وہ سات آیات پر یوں مشتمل ہے۔

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ترجمہ: شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا مہربان ہے۔ سب تعریف واسطے اللہ کے ہے جو پروردگار ہے تمام جہان کا۔ بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا۔ روزجزا کا مالک ۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ ہم کو راہ مستقیم کی ہدایت عنایت کر۔ اُن لوگوں کی راہ پر چلا جن پر تونے فضل کیا ۔ جن پر تو غضبناک ہے اور جوگمراہ ہیں اُن کی راہ سے ہمیں بچالے۔(سورہ فاتحہ)۔

قرآن کا یہ مضمون قرآن کی تمام عبارت سے زیادہ موثر ہے۔ بیس کروڑ (اُس کی وقت آبادی) بنی آدم کے دلوں پر قرآن کے پر تاثیر ثابت ہونے کے کم از کم دو سبب ہیں۔ اول یہ کہ قرآن کی عبارت نہایت عمدہ ہے اور اصل زبان کا لہجہ بہت ہی شیریں  ہے۔ جب کوئی قرآن پڑھتا ہے توسننے والے کو ایسا معلوم ہوتاہے کہ کوئی خوش الحان کوئی دلکش سرودسنا رہا ہے۔ہزارہا لوگ ایسے ہیں جوقرآن کا شاید ایک حرف بھی نہیں سمجھتے لیکن سنتے وقت عبارت ولہجہ کی خوبی کے باعث بالکل مجذوب ہوجاتے ہیں۔ دوم اس کتاب میں توحید پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اورخدا کی وحدت کی سچائی اورنجات کے باب میں خدا پر توکل کرنے کے بیانات عموماً لوگوں کواسلام کی طرف کھینچتے اورمائل کرتے ہیں۔

قرآن کے متعلق جومسلمانوں کا اعتقاد ہے اُس میں یہ تین باتیں قابل لحاظ ہیں:

(۱)قرآن کے ازلی ہونے کی تعلیم۔اس تعلیم کے رو سے قرآن غیر مخلوق ہے۔ کاغذ اورسیاہی وغیرہ اجزائے کتاب مخلوق مانے جاتے ہیں۔ حروف کی شکلیں بھی مخلوق تسلیم کی جاتی ہیں لیکن کلام اللہ جواُس میں اشکال حروف کے وسیلہ سے ظاہر کیا جاتاہے تمام دیندار اورخوش اعتقاد مسلمانوں کے خیال میں ازل ہی خدا کے ذہن میں موجود تھا۔ باعتبار اپنے وجود کے قرآن ازلی ہے اور اگرچہ خدا نہیں لیکن خدا سے جُدا بھی نہیں ہے۔

(۲) اس عقیدہ پر شہادت بھی قرآنی ہے۔ جس تعلیم کا اوپر بیان ہوچکا ہے اُس کی روشنی میں ہم اس بات کوبخوبی سمجھ سکیں گے کہ قرآن کے ایک ایک نقطہ اور شوشہ کی مسلمانوں کے نزدیک کہاں تک قدرومنزلت  ہے۔ صرف پاک اور مطہرہی قرآن کو پڑھ سکتے ہیں۔ کسی آیت میں کسی طرح کی تبدیلی جائز نہیں۔ بہت سے خوش اعتقاد مسلمان قرآن کو حفظ کرتے ہیں اور تمام معتقدات قرآن ہی کی تعلیم سے درست یا نادرست قرار دئیے جاسکتے ہیں۔ مسئلہ ایمان کے لئے ایک ہی آیت کافی ہے۔

(۳) قرآن کی تعلیم میں مسئلہ " ناسخ ومنسوخ" بھی موجو دہے۔ محمد صاحب کے ایام حیات ہی میں اس مسئلہ کا وجود پایا جاتاہے۔ نبوت کے دعاوی کی ضروریات نے اس مسئلہ کو اختراع کیا۔ وقتاً فوقتاً  حالاتِ زمانہ کے مطابق الہامات میں تبدیلیاں واقع ہوئیں اوریہ نیا مسئلہ وضع کیا گیا کہ نیا الہام پُرانے الہام کو اُس کے موافق نہ ہونے کی حالت میں منسوخ کردیتاہے۔

یہ نسخ کی تعلیم ہوتے ہوتے اہل اسلام کے علمِ الہٰی کی ایک شاخ ہوگئی۔چنانچہ اب یہ تعلیم زمانہ حال کے مسلمانوں کے نزدیک اگلی کتابوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مسلمان بے تامل اور بغیر کسی طرح کے پس وپیش کے کہتے ہیں کہ یہ یہودیوں کی کتابیں عیسائیوں کی کتابوں سے منسوخ ہوگئیں  اور پھر اسی طرح عیسائیوں کی کتابوں کوقرآن نے منسوخ کردیا۔

اگر فاخر مسلمان کے ہاتھ میں قرآن ہوتواُسے کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہیں۔اُس کے لئے قرآن میں نہ سچائی ہی ہے بلکہ روایتوں کو شامل کرکے جہاں تک مذہب سے علاقہ ہے اُس میں پوری سچائی موجود ہے۔

خلیفہ عمر کی نسبت یہ قصہ بیان کیا جاتاہے کہ جب اُس سے پوچھا گیاکہ " سکندریہ کے مشہور کتب خانہ کی نسبت کیا کیا جائے  یعنی اُسے تلف کیا جائے یا محفوظ رکھا جائے؟ تو اُس نے جواب دیا کہ اگر وہاں کی کتابیں قرآن سے مطابقت رکھتی ہیں تواُن کی کچھ ضرورت نہیں اور اگر وہ قرآن کے خلاف ہیں تو ضرور اُنہیں برباد کردینا چا ہیے"۔ اس قصہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک عیسائی نوشتوں کی کیا قدرومنزلت ہے۔ جہاں کہیں وہ قرآن سے اتفاق نہیں کرتے فوراً محرف قرار دئیے جاتے ہیں۔اُن کو وہیں تک صحیح تسلیم کیا جاتاہے جہاں تک کہ وہ قرآن سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ باوجود یکہ قرآن بائبل کی صحت ودرستی اوراُس کے منجانب اللہ ہونے پر گواہی دیتا ہے توبھی مسلمان یہی رائے قائم کئے بیٹھے ہیں کہ موجودہ بائبل قابل اعتبار نہیں اور چونکہ اُس میں قرآنی تعلیم کی مخالفت پائی جاتی ہے اس لئے اُسے رد کرنا ضرور ہے۔

فصل دوم

احادیث

اسلام کا دوسرا رکن اگرچہ قرآن سے بہت قریبی رشتہ رکھتا ہے تاہم اسکی نسبت  کچھ متفرق اورمختلف ہے۔ یہ رکن احادیث یا روایات کا ہے۔ احادیث کی آیات کو سنت کے نام سے بھی نامزد کرتے ہیں۔ مختلف معاملات میں محمد صاحب کے کلام واحکام اورکام کا ذکر پایا جاتاہے۔ یہ تمام روایات محمد صاحب کی وفات سے دو تین سوبرس بعد تحریر ہوئے اور اُن تمام باتوں کا بیان مندرج ہے: (۱) وہ باتیں جو محمد صاحب نے کی(۲) وہ باتیں جومحمد صاحب اپنے مریدوں کے سامنے عمل میں لائے(۳) وہ باتیں جو مرید عمل میں لائے اور آنحضرت نے اُن پر کسی طرح سے نامنظوری ظاہر نہ کی اور(۴) وہ باتیں جو مرید آنحضرت کے سامنے عمل میں لائے اور آنحضرت نے اُن کی تردید کی اوراُنہیں ناجائز قرار دیا۔ یہ ُکل مضامین  چھ بڑی بڑی کتابوں میں جمع کئے گئے ہیں اوراُن  کتابوں کو " الصحاح الستہ" یعنی چھ صحیح کتابیں کہتے ہیں۔

صحیح اور وضعی احادیث کے درمیان امتیاز کے قواعد نہایت ہی عجیب وغریب ہیں۔ اِن احادیث کو جمع کرنے والوں نے احادیث کی متعلقہ شہادتوں کو بغور آزمانے اور دیکھنے کی نسبت اُن کے روایوں کا زیادہ خیال رکھاہے۔اگر تمام راوی دیندار مسلمان ۔ دانا۔ صاحب اختیار اور پرہیزگار ودوراندیش تھے توروایت قابل قبول اور حدیث صحیح قرار دی گئی اوراگرایک دوراوی ایسے تھے جن کی شہادت کوہرحالت میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا اور اُن پر اعتماد نہیں ہوسکتا توایسی احادیث کمزور یا مشکوک متصور ہوتی تھی۔ لہذا یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں احادیث کی تفسیر کرنا علمائے اسلام  کے لئے کوئی ہلکا ساکام نہیں ہے۔

اِ س جگہ مثال کے طورپر احادیث کی ایک مشہور کتاب سے جس کا نام ترمذی  ہے خلاصتًہ کچھ درج کیا جاتاہے۔ اِس سے صاف پتہ لگ جائے گا کہ احادیث کا طرزِ عمل بیان کیا ہے اوراُن کی روایات کے سلسلہ کا کیا ڈھنگ ہے۔"ابوکریب نے ہم سے بیان کیا کہ ابراہیم ابن یوسف ابن ابی اسحاق نے ہم سے کہا کہ میرے باپ نے روایت کی ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے روایت کی طلاطہ ابن مصارف سے کہ سنا ابن مصارف نے عبدالرحٰمن سے  یہ کہتے سنا کہ میں نے رسول صلعم سے کہ جوکوئی دودھ دینے والی گائے خیرات کرے گا یا چاندی یا پانی کی مشک خیرات میں دے گا اُسے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملیگا"۔ اس مقام پر یہ بات قابلِ یاد ہے کہ سلسلہ روایت محمد صاحب سے لے کر آخری راوی تک پورے اورکامل طورسے پایا جاتاہے۔

جس طرح قرآن اپنی تعلیم کے لحاظ سے اعلیٰ اعتماد اور خاص اعتبار کا رتبہ رکھتاہے اُسی طرح احادیث روزمرہ کے کاروبار کے عملی عمل کا ایک خاص چشمہ خیال کی جاتی ہے۔ احادیث نہ صرف اُن رسومات اور دستورات ہی سے تعلق رکھتی ہیں جو روزانہ اور مقرر پنجگانہ نمازوں ۔ ماہِ رمضان کے روزوں اور محرم کی تقریب اور خیرات وحج کے بارے میں ہیں بلکہ بیاہ شادی اور پیدائش واموات۔ زیورات وپوشاک اورمجالس ومحافل کے تمام دستورات احادیث میں بالتشریح پائے جاتے ہیں۔ حتی کہ داڑھی تراشنے بالوں کو رنگنے اورمسواک کے لئے خاص قسم کی لکڑی استعمال کرنے کے قواعد بھی مندرج ہیں ۔ طہارت اور غسل کے بارے میں جس قدر مسائل ہیں وہ سب کے سب احادیث ہی سے حل ہوتے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی کتا چاہ میں گر کر ڈوب مرے تو فوراً یہ سوال پیش آتاہے کہ اب چاہ کا پانی کس طرح پاک وصاف کیا جائے؟ ایسے موقعہ پر علما سے صلاح لی جاتی ہے اور وہ کتاب کھول کر بتاتے ہیں کہ اتنے من یا اتنے پیمانے پانی نکال دو۔ اس سے چاہ کا پانی بالکل پاک وصاف ہوجائے گا۔

یہودی فقیہ ہاتھ دھونے اور دیگچیوں کو صاف کرنے کے مسائل کے ثبوت میں اپنے ربیوں اور عالموں کی تعلیم پیش کرکے کبھی اپنی علمیت کا اس قدر اظہار نہیں کرتے جس قدر مسلمان مولوی اس قسم کے چھوٹے چھوٹے امور پر بحث کرتے وقت کرتے ہیں۔

فصل سوم

اجماع

اسلا م کا تیسرا رکن اجماع ہے۔ اہل اسلام کے ذہن میں لفظ اجماع کا مفہوم وہی ہے جو مسیحیوں کے نزدیک بزرگوں کی متفق رائے  Consensus    of    the    Fathers   سے مراد ہے۔ اجماع سے اُن عالموں اور مجتہدین  کی رایوں کا مجموعہ مقصود ہے جومحمد صاحب کے اصحاب اور انصار ومددگار تھے جو آنحضرت کے ایامِ رسالت میں مدینہ میں مسلمان ہوئے۔ان لوگوں کے شاگردوں اور ساتھیوں کی رایوں کا مجموعہ بھی ایسا ہی خیال کیا جاتاہے اوران سب کے حق میں یہ گمان ہے کہ وہ قرآن کا مطلب سمجھنے کی زیادہ قابلیت رکھتے تھے اور خصوصاً آنحضرت کے اقوال یعنی احادیث کو وہی بخوبی سمجھ سکتے تھے باوجود اِس سب کے یہ بات ازحد ضروری ہے کہ اجماع کسی صورت میں قرآن اوراحادیث کی مخالفت نہ کرے اور ہر حالت میں اُن کی تعلیم کے موافق ہو۔اگر اجماع قرآن واحادیث سے متفق ہو تو شرع وتفسیر کے تمام مسائل پر سب سے بڑی شہادت اجماع ہی ہے۔

فصل چہارم

قیاس

اسلام کا چوتھا رکن قیاس ہے اوراس سے علمائے اسلام کی وہ بحث  اور تحقیقات مراد ہے جو قرآن وحدیث اور اجماع کی تعلیم کے مطابق ہو۔ اہل اسلام کے لئے صرف یہی پہلا موقعہ ہے جہاں عقل کو کام میں لانے کی گنجائش ہے لیکن یہ گنجائش بھی بہت ہی کم ہے۔ اسلام کی پہلی تین صدیوں کے علما وائمہ اورمجہتدین  نے چند تقریریں کیں۔ یہ تقریریں قرآن اور احادیث پر مبنی ہیں اور مومنین کی ہدایت کے لئے قلم بند کی گئی ہیں۔ پھر بعد ازاں صدہاں سال تک ان علماء اور ائمہ ومجتہدین کا کوئی جائے نشین نہیں ہوا۔ مسلمان فاضلوں نے یہ دریافت کرنیکی کوشش ہی نہیں کی کہ دراصل قرآن اور احادیث کی تعلیم کیا ہے بلکہ صرف اسی قدر دریافت کرنے پر اکتفا کی ہے کہ قرآن واحادیث کی تعلیم کی نسبت علماء کیا کہتے ہیں ۔ یہ لوگ اپنی عقل سے کچھ کام نہیں لیتے بلکہ ان کے نزدیک عقلی مداخلت ناجائز ہے۔ خودنمائی نے اُنکے دلوں پر ایسا اختیار جمایا ہوا ہے کہ ان علماء وفضلا ء کی حکومت رومی کلیسیا کے پوپ اور بشپ کے اختیار سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے۔ اسلامی امامت دنیاوی حکومت واختیار کے جابرانہ لباس سے ملبس ہوکر اس قابل ہے کہ اُن تمام اشخاص کے لئے جو اسلامی تعلیم اور دینی معاملات کے باب میں کسی طرح کی مخالفت کریں سخت سے سخت سزا تجویز کرے۔ اگراسلام کی اس اصولی تعلیم پر غور کیا جائے تو اس بے حد سختی اور جوروستم کا صاف پتہ لگ جائیگا ورنہ ہرایک بات گویا معدنی صورت اختیار کئے ہوئے ہے اوراُس کے برآمد ہونے کی کوئی اُمید نہیں اوراسلام میں ترقی کی کوئی صورت نہیں رہتی۔مسلمان مولوی ہمیشہ گذشتہ  کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اپنی عقل کا دخل ناجائز سمجھتے ہیں۔ یہ ہرگز نہیں بتاتے کہ اُن کے اپنے خیال میں کتب مقدسہ کی تعلیم کیا ہے لیکن قدیم زمانہ کے فریسیوں کی طرح خوش الحانی سے پڑھ کر صرف وہی بات بتاتے ہیں جو ہزاربرس پیشتر کسی قدیم عالم نے سکھائی تھی۔

ترکی اور ہندوستانی مسلمانوں کے بعض خیر خواہ بڑے وثوق سے اُمید کئے بیٹھے ہیں کہ اہل مغرب سے ملنے جُلنے اوراُن کی شائستگی  سے واقفیت  حاصل کرنے سے اُن کے مذہب میں ضرور اصلاح ہوگی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سرگرم خیر خواہ ہزار برس کی صلح بخش اور امن وچین کی اسلامی سلطنت  کی راہ دیکھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اُس وقت مستورات کی واجبی  عزت ملحوظ رکھی جائیگی۔کثیر الازدواجی  موقوف ہوجائیگی۔ غلام آزاد کئے جائینگے۔ بردہ فروشی  کی لعنتی رسم کا خاتمہ ہوجائیگا۔ عقل وضمیر آزاد ہونگے اورمسلمان اورمسیحی کمال محبت سے بغلگیر ہوکر تخت ورحمت کے سامنے سرنگوں ہونگے۔ ایسے خیالی پلاؤ پکانے والے دین اسلام کی حقیقت کونہیں سمجھتے ۔ جوبرائیاں اسلامی ممالک میں مشہور اوربکثرت پائی جاتی ہیں جن کا ابھی ذکر ہوچکا ہے اُن سب کا رواج اور جواز اسلام ہی کی طرف سے ہے۔ جب تک قرآن کا اختیار باقی ہے تب تک غلامی اور غلاموں کی گریہ وزاری کی ذلت اور کثر الازدواجی  کی قباحت قائم رہیگی۔ جب تک اسلامی علماء احادیث  وروایات  اوراجماع کے بس میں ہیں تب تک اسلامی ممالک میں عقل وضمیر بیکاری اور غلامی کی حالت میں ہیں اور رہینگے۔ جب تک مسلمان بردہ فرشوں اور ترکوں اور عربوں کی بردہ فروشی سے قطعی طورپر باز نہ رکھا جائیگا تب تک افریقہ کے زخم بھر نہیں سکتے۔ اونٹ کٹارے سے انگور توڑنا بالکل ناممکن ہے۔

باب دوم

عقائدِ اسلام

اب ہم اسلامی ایمان واعمال پر نظر کریں جوکہ عقائد اسلام پر مبنی ہیں۔ اسلام کی معتبر شہادتوں کے بموجب اسلامی ایمان میں سات باتیں شامل ہیں اور اُن کو صفاتِ ایمان کے نام سے نامزد کرتے ہیں۔ چنانچہ یوں مرقوم ہے کہ آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ والقدر خیرہ وشرہ والبعث بعد الموت ترجمہ: میں ایمان لاتاہوں خدا پر اُس کے فرشتوں  پر اُس کی کتابوں پر اُس کے رسولوں پر آخری دن پر اندازہ خیروشر پر  اور بعد ازموت زندہ ہونے پر۔

خدا پر ایمان رکھنے سے نہ صرف شخصی خدا کا یقین مراد ہے بلکہ خصوصاً اُس کی کامل وحدانیت بھی ملحوظ ہے اوریہ وحدانیت صرف معبود مِن دُونِ اللَّهِ ہی کی تردید نہیں کرتی بلکہ واحد خدا کے وجود اجتماع اقانیم اور تجسم کے ہرایک خیال کو رد کرتی ہے۔ چنانچہ تثلیث فی التوحید اور مسیح میں خدا کے مجسم ہونیکے مسائل کے بالکل برخلاف ہے۔

پھر خدا کی سات صفات یوں بیان کی ہیں ۱(۱)حی القیوم (۲) علیم(۳) قدیر(۴) سمیع(۵) بصیر(۶)کلیم اور (۷) مرضی۔ اہل اسلام کے نزدیک خدا دانائی اورمحبت کی صفات سے اس قدر متصف نہیں ہے جس قدر کہ لاانتہا اور غیر محدود قدرت کی صفت سے۔ ایک مقام پر یوں مندرج ہے کہ وہ عالموں کا خداوند اور آسمان وزمین کا خالق ومالک ہے۔ اُسی نے زندگی اور موت کوخلق کیا اور کل جہان کی حکومت اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ اُ س سے صبح نمودار ہوتی  ہے اور رات دن کو ڈھانپ لیتی ہے۔ خداوند ہی قادر مطلق اور جلالی تخت کا مالک ہے۔ گرج اُس کے کمالات کا اشتہار دیتی ہے۔ کل زمین  اُس کی مٹھی میں ہے اور آسمان اُس کے دائیں ہاتھ میں طے کئے جائیں گے۔ وہ اپنی قدرت کاملہ سے اُس علم کو اخذ کرتا ہے جو راست اور صحیح مقصد کی طرف اُس کی ہدایت کرتاہے۔ خدائے تعالیٰ عاقل ۔ راست سچا اور اندازہ کرنے میں نہایت ہی تیز ہے۔ وہ تمام بنی آدم کے سارے چھوٹے بڑے نیک  وبداعمال کو جانتاہے اور مومنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔

قادر مطلق کی قدرت کا خیال ایسا وسیع الفضا ہے کہ مخلوق کی مرضی کو ذرہ بھر بھی گنجائش نہیں۔ مسلمانوں کے دلوں پر آخرکار اس قسم کے خیالات مسلط ہوگئے ہیں کہ خدا گویا انسانی مہروں سے شطرنج کھیلتاہے اور مہروں کے ہلاک ہونے یا مارے جانے سے بالکل لاپرواہ ہوکر بازی جیتنے کی کوشش کرتا ہے۔

لیکن ساتھ ہی اس کے برخلاف خدا کو رحیم بھی مانا ہے۔ خدا کو رحیم ماننا اسلام کا اعلیٰ خیال نہیں ہے کیونکہ مسلمان بجائے محبت کی کشش کے زیادہ تر خوف ودہشت سے ہدایت حاصل کرتے ہیں۔اسلام کا خدا تو بیشک سچا خدا ہے لیکن اُس کی ماہیت کے متعلق اسلامی خیالات قابِل اعتراض ہیں۔ ہمارا اعتراض صرف اِسی  بات پر نہیں ہے کہ اسلام تثلیث کو رد کرتا ہے بلکہ اس پر بھی ہے کہ اُس نے خدا کے قادر مطلق ہونے کی صفت پر بہت زور دیا ہے اوراُسے دیگر صفات پر ترجیح دے کر اُس کی پاکیزگی کے درجہ کو گھٹا دیا ہے۔ قرآن میں خدا کی پاکیزگی کی نسبت جو کچھ مندرج ہے وہ ایک مقدس انسان کے حق میں بھی کہا جاسکتاہے۔ خدا کے رحم اور مہربانی کی صرف مسلمانوں کے لئے محدود اور مخصوص  کرنا خواہ اُن کے اعمال کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ کافروں کے بچوں کوبھی دوزخ میں بھیجنا ۔ گناہ کے کفارہ کی ضرورت سے انکار کرنا ۔ اپنی حفاظت اوراسلام کی ترقی کے لئے جھوٹ بولنے کو جائز سمجھنا اور خداکی سچائی کومحدود کرنا وغیرہ ساری باتیں سخت اعتراض کے قابل ہیں۔ اس مقام پر یہ بھی یادر ہے کہ اسلام کا خدا نہ صرف وہ اللہ ہے جس کا قرآن میں بیان پایا جاتاہے بلکہ وہ ووہ خدا ہے جوقرآن کے ہرایک لفظ اور حرف میں بولتاہے۔ قرآن کی تعلیم سے جو خیال خدا کی نسبت پیدا ہوتاہے اُس کو اُس خیال سے جُدا نہیں کرنا چاہیے جو محمد صاحب نے اپنی نفسی یا ملکی مقاصد کی ترقی وتحصیل کے لئے ہمیشہ مدنظر رکھا۔ کیونکہ ازروئے اسلام آنحضرت محض خدا کا منہ تھے۔پس اگر ہم اسلامی اللہ کا صحیح تصور اپنے ذہن میں قائم کرنا چاہیں تونہایت ضروری ہے کہ ساتھ ہی اُن تمام افعال واعمال کا بھی خیال کریں جو محمد صاحب نے اُس قرآنی اللہ کی منظوری سے کئے۔ ایسا کرنے سے صاف ظاہر ہوجائے گا کہ جو کچھ ہم نے کہا ہے اُس میں کسی طرح کا مغالطہ یا زیادتی نہیں ہے۔

جن کتابوں کومسلمان اعتقادی طورپر مانتے ہیں اُن کی نسبت یہ کہا جاتاہے کہ وہ تعداد میں ایک سوچار(۱۰۴) ہیں اورسب کی سب الہامی ہیں۔ وہ سب کی سب وقتاً فوقتاً انبیاء پر نازل ہوئیں اوراُن میں سے سب سے آخری قرآن ہی کہتے ہیں کہ اِن کتابوں میں سے ایک سوغائب ہوگئیں۔ یہ وہی کتابیں ہیں جو آدم۔ شیث۔ حنوک اور ابراہیم کو ملیں۔ جو چار کتابیں ابتک موجود ہیں وہ یہ ہی ہیں۔(۱) توریتِ موسیٰ(۲) زبورِ داؤد(۳) انجیل عیسیٰ اور(۴) قرآنِ محمد۔ قرآن اِن تمام کتابوں کو کلام اللہ مانتاہے اور اُن کی نسبت یوں بیان کرتاہے کہ یہ کتابیں بنی آدم کو نوروہدایت اورنجات بخشنے کے لئےنازل ہوئیں۔ لیکن جیسا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں زمانہ  حال کے مسلمان قرآن کے سوا باقی تمام کتب سماوی کو تحریف شدہ سمجھتے ہیں۔ پس جب کوئی مسلمان کہتاہے کہ " میں کتب یہود ونصاریٰ پر ایمان لاتا ہوں" تویہ کہنے سے اُس کا مطلب صرف یہ ہوتاہے کہ یہ کتابیں کسی زمانہ میں انبیاء پر نازل ہوئی تھیں لیکن اب تحریف وتخریب کی وجہ سے قابل اعتبار نہیں رہیں۔صرف وہ حصص صحیح تسلیم کئے جاسکتے ہیں جن کی قرآن تصدیق کرتا ہے۔

انبیاء کے بارے میں مسلمان خیال کرتے ہیں کہ اُن کا شمار ایک لاکھ چوالیس ہزار ہے۔ لیکن قرآن میں اٹھائیس سے  زیادہ کے نام مندرج نہیں ہیں۔ علاوہ بریں مسلمان یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ تین سو پندرہ(۳۱۵) رسول خاص پیغام کے ساتھ بھیجے گئے۔ ۹  نئے الہٰی احکام کے اجرا کی غرض سے ہادی کے عہدہ پر ممتاز کئے گئے۔ ان میں سے ۶ انبیاء عظام کہلاتے ہیں یعنی (۱) آدم(۲) نوح(۳) ابراہیم(۴) موسیٰ (۵) عیسیٰ اور (۶) محمد۔ اِن میں  سے ہر ایک ایک خاص لقب سے ملقب ومشہور ہے۔ چنانچہ آدم صفی اللہ۔ نوح نبی اللہ ۔ ابراہیم خلیل اللہ اور  موسیٰ کلیم اللہ ۔عیسیٰ روح اللہ اورمحمد رسول اللہ کے لقب سے ملقب ہیں۔اس سلسلہ میں یہ امر نہایت ہی عجیب ہے کہ اگرچہ عام اعتقاد کی رو سے تمام انبیاء بے گناہ اور معصوم ہیں توبھی قرآن اور احادیث کی تعلیم کے لحاظ سے صرف عیسیٰ  ہی اسلام کا اکیلا بیگناہ نبی ہے۔ دیگر انبیاء کی نسبت قرآن میں مرقوم ہے کہ اُنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا اور اُن سے توبہ کی ۔ احادیث سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتاہے ۔ خصوصاً محمد صاحب کو توتوبہ کرنے کا حکم ملا اورآنحضرت نے ایک ہی دن میں ۷۰ مرتبہ اپنے گناہوں کا اقرار کیا۔ لیکن عیسیٰ کے حق میں کوئی اس قسم کی عبارت نہیں پائی جاتی جس سے وہ گنہگار ثابت ہو۔اُس کے توبہ واستغفار کے باب میں کہیں اشارہ تک بھی نہیں ملتا۔ اُس پر کسی صورت میں گناہ کا الزام نہیں لگ سکتا ۔ وہی اسلام کا اکیلا بیگناہ نبی ہے۔

روز قیامت یا روز انصاف کی تعلیم کی مانند اہل اسلام کے دل پر کوئی اور تعلیم موثر نہیں ہوتی۔ اُن کے نزدیک یہ عدالت کا بڑا دن ہے اور کم از کم ہزار برس  کے عرصہ تک رہے گا۔ اس دن کے قریب ہونے پر بہت سے بڑے بڑے نشانات ظاہر ہونگے۔ لوگوں کے ایمان کمزور ہوجائیں گے شرارت اور بدکاری بہت بڑھ جائیگی سب سے رذیل لوگ بڑے بڑے اعلیٰ رتبوں اور عہدوں پر ممتاز کئے جائینگے۔ تمام جہان میں فساد وبغاوت اور طرح طرح کی مصیبتوں کا زور ہوگا۔ آفتاب مغرب سے طالع ہوگا۔ زمین پر ایک حیوان ظاہر ہوگا جوشہر مکہ میں خانہ کعبہ میں نمودار ہوگا۔ اُس کا سرسانڈ کا آنکھیں سور کی ۔ کان ہاتھی کے سینگ ہرن کے ۔ گردن شُتر مرغ کی۔ سینہ شیرببر کا ۔ رنگ چیتے کا ۔ پیٹھ بلی کی۔ دم مینڈھے کی ٹانگیں اونٹ کی اور آواز گدھے کی سی ہوگی۔ اسی زمانہ میں دجال ظاہر ہوگا۔ وہ کانا ہوگا اوراُس کی پیشانی پر کفر کا لفظ کندہ ہوگا۔ وہ بڑے آرام سے ایک گدھے پر سوار ہوکر نکلیگا اور ستر ہزار یہودی اُس کے ساتھ ہونگے ۔ چودہ مہینوں تک بڑی فتحمندی سے تاخت وتاراج کرتا پھریگا۔ آخر کار عیسیٰ آسمان سے اُتر کر اُسے ہلاک کریگا اور دین اسلام کو تمام جہان میں رائج کریگا اوراُس کے بعد امام مہدی ظاہر ہوگا۔ پھر قیامت کے ہولناک دن کے قریب اور بہت سے نشانات اُس دن کی خبر دینگے۔ آخرکار فرشتہ نرسنگا پھونکیگا پہلی آواز سے زمین وآسمان کے تمام رہنے والوں کے دلوں پر ہول چھاجائیگا  اور دوسری آواز سے تمام مخلوقات پر موت وارد ہوگی۔ بعد ازاں پھر وہی فرشتہ زندہ ہوکر تیسری مرتبہ نرسنگا پھونکیگا اور اس تیسری آواز سے تمام مردہ مخلوقات پھر زندہ ہوجائیگی۔ پھر عدالت شروع ہوگی۔ وہ تمام جانور جنہوں نے اس دنیاوی زندگی میں اپنے مالکوں کے ہاتھ دکھ اورظلم وستم کو برداشت کیا ہوگا وہ اپنے  مالکوں کے جسم کو اپنے پاؤں سے کچلیں گے اور پائمال کرینگے۔ تمام شریر لوگ سیاہ روے کرکے عدالت میں حاضر کئے جائینگے۔ چغلخور بندروں کی شکل میں۔ ظالم سورؤں کی شکل میں۔ ریاکارزمانوں کو چباتے ہوئے اورمکار اور شیخی باز رال سے لتھڑی ہوئی پوشاکیں پہن کر نکلینگے ۔ ان سب کو پل صراط سے گذرنا پڑیگا (پل صراط دوزخ پر ایک ایسا پُل بیان کیا جاتاہے جو بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہے بدکار لوگ اس پُل پر سے گذر نہیں سکیں گے بلکہ نیچے دوزخ میں گر پڑینگے۔ راستباز  یعنی ہر زمانہ اور ملت کے ایماندار نہایت بُراق اور نورانی  لباس پہن کر اور سفید پر دار اور زرین کچاووں والے اونٹوں پر سوار ہوکر بڑی عزت کے ساتھ حاضر ہونگے۔ اُن کے لئے فردوس کے پھاٹک کھولے جائینگے۔ وہ اندر داخل ہوکر ریشمی اور قیمتی جواہرات سے مرصع مندوں پر بیٹھ کر گوری اور سیاہ آنکھوں والی حوران بہشتی کی صحبت سے محظوظ ہونگے۔بہشت کے خوشرنگ اور لذیذ پھلوں کو کھائینگے۔ زرین پیالوں میں حوضِ کوثر کا خوشبودار پانی پینگے۔ چنانچہ  اسی عشر تکدہ بہشت کی اُمیدمیں آتش مزاج عرب تاجِ شہادت کوحاصل کرنے کے لئے اپنی جان بلا توقف یقینی  موت کے حوالے کردیتے ہیں اوریہی اُمید افغانستان کے غازیوں اور سوڈان کے دیوانے دوریشوں کی فوج کے دستوں کی بھرتی رہتی ہے۔ اُن کے نزدیک  کافروں  سے لڑنا بڑی فضیلت  کی بات ہے اورایسی لڑائی میں مرنا بہشت میں داخل ہونیکا شاہی پروانہ ہے۔

باب سوم

اسلامی فرائض

اب ہم دین اسلام کے اعمال پر غور کرینگے۔ اسلامی اعمال یا فرائض میں یہ پانچ باتیں شامل ہیں(۱) کلمہ پڑھنا(۲) مقررہ نماز وں کو ادا کرنا(۳) رمضان کے روزے رکھنا(۴) حسب الحکم شریعت خیرات دینا اور (۵) مکہ جاکر کعبہ کا حج کرنا۔

کلمہ پڑھنے سے یہ عقیدہ مراد ہے کہ خدا کے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں اور محمد خدا کا رسول ہے۔ چنانچہ کلمہ کے الفاظ لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ سے یہ بات صاف ظاہرہے کہ کم از کم ایک مرتبہ بلند آواز صدق دل سے کلمہ پڑھنا ضروری ہے۔

فرضِ نماز اس امر کا مقتضی ہے کہ ہرروز نماز پنجگانہ وقت پر ادا کی جائے ۔ علی الصباح طلوعِ آفتاب سے پیشتر موذن نماز فجر کی اذان دیتا ہے۔ پھر بعد از دوپہر نماز ظہر ادا کی جاتی ہے اور نماز عصر قریباً بوقت تین چار بجے قبل از غروب آفتاب پڑھی جاتی ہے۔ پھر آفتاب غروب ہوتے ہی نماز مغرب ادا کی جاتی ہے اور غروب آفتاب کے قریباً دوساعت بعد نماز عشا کا وقت ہوتاہے۔یہ تمام نمازیں عربی زبان میں پڑھی جاتی ہیں اور اگر ممکن ہو تو ہرایک نماز کے لئے مسجد میں جمع ہونا ضرور ی ہے۔ لیکن صرف مرد مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جمع ہوتے ہیں اور عورتوں کومسجد میں حاضر ہونے سے معذور رکھا گیا ہے۔نماز کے وقت جس جگہ مسلمان جمع ہوں وہیں نماڑ پڑھ سکتے ہیں۔ یعنی مسجد سے باہر بھی نماز جائز ہے۔ جب مسلمان نماز کے وقت دنیاوی کاروبار سے دست بردار ہوکر مصلے بچھاکر جائے نماز پر کھڑے ہوتے ہیں تو یہ منظر قابِل دید ہوتاہے۔ برسرراہ اور ریلوے اسٹیشنوں پر بھی مسلمان مسافر نماز پڑھتے ہیں اوراُنہیں اپنے ارد گرد کے لوگوں کا نماز کے وقت کچھ خیال نہیں ہوتا۔اہلِ اسلام کے اعتقاد وایمان کی گواہی بالکل صاف وصریح ہے اور وہ اپنے اعتقاد پر بہت نازاں  ہیں۔ جمعہ کے روز مسلمان جامع مسجد میں جمع ہوکر اپنے مقدس دن کی نماز ادا کرتے ہیں۔ بعض اوقات نماز سے پیشتر یا بعد کچھ دینی گفتگو اور وعظ بھی کرتے ہیں اور جب نماز اور وعظ سے فرصت  وفراغت ہوتی ہے تو پھر اپنے اپنے کاروبار پر چلے جاتے ہیں اور  معمولی دینوی دھندوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔

روزہ رکھنے کا فرض خاص کر کے ماہِ رمضان کے روزوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ماہِ رمضان ایک مقدس مہینہ ہے جس میں ہرایک بالغ اور تندرست مسلمان پر ہر روز طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک روزہ رکھنا فرض ہے۔صبح سے لے کر شام تک پارہ نان یا قطرہ آب روزہ دار کے حلق سے نیچے نہیں اُتر سکتا۔ گرم ممالک میں موسمِ گرما کے لئے لمبے دنوں میں روزوں سے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ چنانچہ بہت سے روزہ دار بیمار ہوجاتے ہیں اور عموماً جانبر نہیں ہوتے۔ بیمار اور کمزور ماہِ رمضان میں روزے رکھنے سے اس شرط پر معذور رکھے جاسکتے ہیں کہ وہ کسی اور موقع پر اسی قدر روزے رکھیں۔ رات کے وقت مسلمان جس قدر چاہیں کھاپی سکتے ہیں ۔ کسی قسم کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔اگر کوئی دینوی طبیعت والا مالدار ہو تو دن کو راست سے تبدیل کرنے سے روزوں کی سختی سے بچ سکتا ہے۔

زکواۃ ایک قسم کا شرعی محصول ہے جو قوم یہود کی دہیکی سے ملتا جلتا ہے۔ زکواۃ دینے والے کی آمد نی کے مطابق  زکواۃ کا وجوب  مختلف طورپر ہے۔ نفع یا آمدنی کا چالیسواں حصہ زکواۃ میں دیا جاتاہے اور دینی امور وغربا پروری میں خرچ کیا جاتاہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ مسلمانوں کی خیرات زکواۃ ہی میں محدود ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں  کہ مسلمان غریبوں کے حق میں بڑے فیاض اور مہربان ہیں۔ پردیسیوں اورمسافروں کی خوب مہمان نوازی کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں میں جب ترکوں اور۔۔کے درمیان لڑائی ہوئی تھی اُس میں ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے بیماروں اورمجروحوں کے لئے چندہ کی ایک بڑی معقول رقم جمع کی تھی۔ ایک تومستورات نے اپنے سونے چاندی کے زیورات کوبھی اُتار کر چندہ کی تھیلی میں ڈال دیا تھا۔

نماز اور روزہ زکواۃ کی طرح حج کعبہ کی بھی قرآن میں تاکید کی گئی ہے کے نمونہ سے اس قرآنی تاکید وتعلیم کی تصدیق ہوگئی ہے۔ جومسلمان تندرست اور دولتمند ہو اور حج کے اخراجات کا متحمل ہوسکتا ہو اُس پر کم از کم  عمرہ ایک مرتبہ اور حج کرنا فرض ہے۔ وہ رسومات جو حج سے تعلق رکھتی ہیں عربی رسومات کی بقیہ معلومات ہوتی ہیں لیکن بُت پرستی کے خیالات سے بالکل پاک ہیں۔ بت پرستی کے قریب قریب ہے وہ سنگ اسود کو چومنا ہے۔ سنگ اسود خانہ کعبہ کے ایک گوشے میں لگا ہوا ہے۔ ایک حدیث میں مرقوم ہے کہ خلیفہ عمر نے اسلام قبول کرنے کے بعد جب پہلا حج کیا تواُس پتھر سے مخاطف ہوکر یوں کہا"

صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ حج کا بیان ۔ حدیث ۱۵۳۴

ان روایتوں کا بیان جو حجر اسود کے بارے میں منقول ہیں ۔

راوی : محمد بن کثیر , سفیان , اعمش , ابراہیم , عابس بن ربیعہ , عمر

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ جَائَ إِلَی الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ فَقَالَ إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ

محمد بن کثیر، سفیان، اعمش، ابراہیم، عابس بن ربیعہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حجر اسود کے پاس آئے اور اس کو بوسہ دیا پھر فرمایا کہ کہ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع پہنچانا تیرے اختیار میں ہے، اگر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو تجھے کبھی بھی بوسہ نہ دیتا۔

باب چہارم

جہاد

اسلام کے جن عملی فرائض کا تیسرے باب میں ذکر ہوا ہے ہم اُن میں جہاد یا جنگ مقدس کا بھی اضافہ کرسکتے ہیں۔یہ فرض محمد صاحب کے زمانہ میں شروع ہوگیا تھا اور دراصل اسی فرض کو ادا کرنے سے آنحضرت کے کاروبار میں اس قدر کامیابی ہوئی۔ اسلام کی تعلیم کے لحاظ سے ہرایک کو چاہیے کہ خدا کی راہ میں لڑنے کے لئے ہمیشہ تیار رہے۔ اسکامطلب یا تویہ ہے کہ دین اسلام کی حفاظت کے لئے جنگ کرے یا یہ کہ کافی ہدایت حاصل کرکے کفارہ کے ساتھ اس غرض سے لڑے کہ وہ اسلام کو قبول کریں اور اگر اسلام کوقبول نہ کریں تونیست ونابود ہوجائیں۔اسی تعلیم کی پناہ میں ہوکر اہل اسلام نے کسی منکر قوم یا فریق پر حملہ آور ہونے کے لئے اپنے آپ کو آزاد سمجھ رکھاہے۔ اسی تعلیم کے سہارے پر عربی بردہ فروش وسط افریقہ میں اپنی خونخوار کاگذاری عمل میں لاتے ہیں اور آرمینیا میں ترک مسیحیوں کو قتل کرتے ہیں۔

آرمینیا میں جوجورجفا اورظلم وستم ترکوں اور کردوں نے مسیحیوں پر کئے ہیں وہ ہمارے سامنے ہولناک بے رحمی اور پرکینہ ظلم اورجدال وقتال کی ایک ایسی عجیب مثال پیش کرتے ہیں جودین کے نام سے جہاد کے ساتھ ایک شرط لازمہ ہے۔ اس میں کچھ شک وشبہ نہیں کہ ملک آرمینیا  کے تمام کشت وخون مذہبی جوش کے بھڑکنے اورسلطان روم اوراُس کے مشیروں کی تحریک سے وقوع میں آئے ہیں۔ ایک محمدی افسر نے اُن تمام مظالم اورکشت وخون کی جوابوکیر اور حارپوت میں ہوئے بڑی تحقیقات  کی ہے اوراُس کے بیان کا خلاصہ ہمارے اس بیان کی تائید کرتاہے۔

اہل آرمینیا نے والیانِ یورپ سے اپنی تباہ حالت کی اصلاح وبہتری کے مضمون پر درخواست کی اورایک شاہی فرمان جاری ہواکہ شاہان یورپ کی صلاح کے مطابق اصلاح کی جائے۔ اس پر اہل ترکستان بہت بگڑے اوراس خیال سے کہ مبادا کہیں آرمینیا کی حکومت قائم ہوجائے اُنہوں نے بیچارے آرمینیوں کی سخت مخالفت کی جو بیچارے چھ سو بیس برس سے برابر اُن کے مطیع اوراُن کے ساتھ صلح سے رہتے چلے آئے تھے۔ ترکوں کے غضب وغصہ کے ساتھ سرکار کی اجازت اور مدد بھی مل گئی۔ پیشتر از انکہ تجاویز اصلاح پر کچھ عمل کیا جائے اور مدد بھی مل گئی۔ پیشتر ازانکہ تجاویز اصلاح پر کچھ عمل کیا جائے تمام ترکستان اس امر پر آمادہ اور کمربستہ ہوگیاکہ ارمنی نام کو صفحہ ہستی سے بالکل بالکل محو اور نیست ونابود کر ڈالے۔ چنانچہ ہزارہا ترکوں نے کُردوں سے مل کر اوراُن ہتھیاروں کو پہن کر جن کی اجازت سوائے فوجی سپاہیوں کے اورکسی کوبھی نہیں ہے ترکی افسروں کی حمایت اورہدایت سے دن کے وقت ارمنی مکانوں۔ دوکانوں۔ گوداموں۔ راہب خانوں۔ گرجوں اور مدرسوں پر علانیہ حملہ کیا اور کشُت وخون کا بازار گرم کردیا۔

اِن مقامات کولوٹنے کے بعد مٹی کا تیل ڈال کے آگ لگادی اور جلا کر راکھ کردیا۔ جن گرجوں کی عمارت سنگین تھی وہ آگ سے نہ جل سکے لیکن اُنہیں اور طرح سے برباد کیا گیا۔بعض گرجے مسجدوں میں تبدیل کئے گئے اوراسلامی عبادت کے لئے مقرر ہوئے۔ مسیحیوں کی مقدس کتابیں پھاڑ کر پُرزہ پُرزہ کی گئیں۔ بہت سے پادری ۔ کلیسیا کے بزرگ ۔ عورتیں اور چھوٹے بچے جبراً مسلمان بنائے گئے۔ مردوں کو سفید پگڑیاں پہنائیں اور عورتوں کے بال کتر کے مسلمان عورتوں کے بالوں کی مانند بنادئیے اوراُن سے جبراً اسلامی نماز پڑھوائی۔ شادی شدہ عورتوں اور لڑکیوں کی خلافِ شریعت بے حرمتی کی۔بعض سے جبراً نکا ح کئے گئے۔ چنانچہ وہ ابتک ترکوں کے گھروں میں موجود ہیں۔ خصوصاً طالو۔ سبودک ۔ ملیشیا ۔ ابوکیر اور چونکو ش میں سپاہی بہت سی عورتوں اورلڑکیوں کوپکڑ کر اپنی بارکوں میں لے گئے اوراُنہیں بے عزت کیا۔بہتوں نے ایسی بے عزتی سے بچنے کے لئے دریا میں ڈوب کر جان دی اور بعض نے اور طریقوں سے خودکشی کرلی۔

جہاد کی اس سینکڑوں برس کی تعلیم کا اثر مسلمانوں کی سخت بے پروائی میں ہرجگہ پایا جاتاہے۔ یہ بات نہایت ہی عجیب ہے کہ شاید چند ہی ایسے مسلمان ہونگے جن کو ایسے کاموں سے کچھ نفرت ہو۔ بہت سے سمجھدار اورتعلیم یافتہ مسلمان اِن کاموں کو بڑے اطمینان سے دیکھتے ہیں۔ آرمینیا کے کشت وخون کے وقت سے لے کر ابتک مسیحیوں کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ مدت سے تمام مسیحی قومیں ان مظالم پر شور مچارہی ہیں مگر ہم نے کسی مسلمان کے منہ سے کبھی اس بے رحمی اور جوروجفا کے خلاف ناراضگی کا ایک لفظ بھی نہیں سنا۔

دین اسلام کی اشاعت وترقی کا عمدہ ذریعہ ہمیشہ یہی رہا ہے۔ جب اسلام کے حامی اسلامی اور مسیحی مشنوں کی ترقی کا باہم مقابلہ کرتے ہیں تواُن پر واجب ہے کہ ٹھیک طور سے اور بڑی ہوشیاری سے مقابلہ کریں اوربے رعایت ہوکر طرفین کے وسائل ترقی کو محققانہ اور منصفانہ جمع کریں اوراُن کے اخلاق اور نتائج کو بھی بنظر غور دیکھیں۔

باب پنجم

اسلامی فرقے اور بدعتیں

دین اسلام اپنے بنیادی اصول کے لحاظ سے ویسا ہی ہے جیسا کہ بیان ہوچکا ہے۔ دیگر ادیان کی طرح اس کے جان نثاروں کے طرز زندگی اور دستورات سے اس پر بھی بہت تاثیر ہوئی ہے۔ چنانچہ دین عیسوی کی طرح دین اسلام میں بہت سے جھگڑے اور جدائیاں ہیں۔

اہلِ اسلام کے کم از کم ایک سو پچاس (۱۵۰) فرقے ہیں۔ اُن میں سے بعض توملکی تدابیر کے لحاظ سے ہیں اور بعض تعلیم یافلسفہ کے لحاظ سے۔سنی اور شیعہ فریق کے درمیان شروع ہی سے بڑا بھاری تفرقہ چلا آتاہے۔ اس تفرقہ کی بنیاد یہ ہے کہ محمد صاحب کی وفات پر اُن کے جانشین یا خلیفہ کے بارے میں جھگڑا ہوا۔ شیعہ چاہتے تھے کہ محمد صاحب کی بیٹی فاطمہ کا شوہر علی خلیفہ مقرر ہو۔ چنانچہ اسی لئے وہ پہلے تین خلیفوں یعنی ابوبکر ۔ عمر اور عثمان کو غاصِب سمجھ کر رد کرتے ہیں۔ ملکی فرقہ بندی کے باعث بہت سی تباہی خیز لڑائیاں  ہوئیں۔ فارس اور ترکستان کا جھگڑا ایسا بھاری ہے کہ ابتک طے نہیں ہوا اورنہ اُس کے طے ہونے کی کچھ اُمید ہی کی جاسکتی ہے۔ ایک جدید اور طاقتور فرقہ وہابیوں کا ہے جنہوں نے عرب اور ہندوستان میں بہت اصلاحوں کی تجویز کی ہیں اور بہت سی خرابیوں کودور کرنے کی کوشش کی ہے اوراسلام کو اُس کی اصل پاکیزگی کی طرف لانا چاہاہے۔محمد علی مرحوم مصری نے اس فرقہ کی ملکی طاقت کو بالکل توڑدیا ہے۔

علم الہٰی کی بنا پر اسلام کے بہت سے فرقے ہیں۔ علی الہٰی فرقہ کے لوگ مانتے ہیں کہ تمام الہامی زمانو ںمیں علی کے زمانہ تک جو کہ آخری تھا خدا مختلف اماموں اور ہادیوں میں مجسم ہوتا چلا آتاہے۔ اہل اسلام خدا کی وحدانیت کے بڑے پکے معتقد ہیں لیکن توبھی یہ معلوم کرنا کہ اُن کے دلوں میں خدا کے مجسم ہونے کا خیال کس طرح داخل ہوا نہایت ہی عجیب معلو م ہوتاہے۔ ایک فرقہ کا یہ اعتقاد تھاکہ خدا انسانی صورت رکھتاہے۔ علاوہ اس کے ایک فرقہ کا اعتقاد یہ بھی ہے کہ اگرچہ خدا انسانی صورت رکھتاہے توبھی اس کا جسم غیر معمولی اور نورانی ہے۔

الہٰی صفات کے اُس مباحثہ سے مذکورہ بالا بدعتیں قائم ہوئیں اور نتیجہً فرقہ معتزلہ پیدا ہوا۔ یہ فرقہ تمام فرقہائے اسلام میں  اکیلا آزاد اور عقلی دلائل کا ماننے والا قرار دیا جاسکتاہے۔ ہندوستان میں بعض عالم اس فرقہ کو بحال کررہے ہیں۔

صوفیوں یا عارفوں  کے فرقے نے ہمہ اوست کے فلسفہ کواختیار کیا ہے اور اسی کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ایک طرف تواعلیٰ درجہ کی روحانی عبادت ہے اور دوسری طرف مسئلہ تقدیر جودہریت تک پہنچاتاہے اسکے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں۔

خاتمہ

مسلمانوں کے دلوں میں ایسی ایسی مختلف راویوں کے خیال کا اثر ایسا ہے جو مسیحی مذہب کوپھیلانے کے لئے قابل لحاظ ہیں۔ اہل اسلام میں قومی جوش کے اصول مسیحی مبشروں کی کوشش کے لئے ایک بھاری امید پیدا کرتے ہیں ۔ علم الہٰی کے لحاظ سے اسلام کو بہت سی علمی کتابوں اورالہٰی عرفان کی باقاعدہ تعلیم سے بہت کچھ مدد ملتی ہے۔ علاوہ اس کے ہزاروں عقلمند مسلمان اپنی زندگی علم الہٰی کے مطالعہ اور دین کی اشاعت میں بسر کرتے ہیں۔ تعلیم کے لئے بڑے بڑے مدرسے قائم کئے گئے ہیں۔ اور شہزادوں اور بادشاہوں کی فیاضی سے اُنہیں بہت مدد ملتی ہے۔عموماً جومسلمان اُن مدرسوں میں تعلیم پاتے ہیں دیگر مذاہب کی تاثیرات سے بچے رہتے ہیں ۔ یہ مذہب کرہ ارض کے آٹھویں حصہ پر حکمراں ہے۔ اور دنیا بھر میں مسیحی مذہب سے دوسرے درجہ پر خیال کیا جاتاہے ۔ مشرقی ممالک میں بڑے بڑے سلاطین اُس کے معتقد اورحامی ہیں۔ جیسا ہم اُوپر ذکر کرچکے ہیں۔ اس مقام پر پھر یاد دلانا مناسب ہے کہ مذہب اسلام ہمارے پاک اور مقدس دین کا اول درجہ کا رقیب ہے۔

پس کیا یہ ایک عجیب بات معلوم نہیں ہوتی کہ ہماری کلیسیاؤں ن جس طرح مارمین اور یہودیوں کے لئے مشن کھولے ہیں۔ مسلمانوں کے لئے اکثر خاطر خواہ انتظام نہیں کیا؟اس میں شک نہیں کہ بہت سے شتری ہندوستان  مصر ترکستان اور فارس میں بھیجے جاتے ہیں جوعموماً مسلمانوں ہی میں کام کرتے ہیں ۔ تاہم ہماری کلیسیاؤں میں مسلمانوں کے لئے مشنریوں کوخاص خیال اور خاص تیاری کی ضرورت ہے۔ جومشنری اسلامی ممالک میں بھیجے جاتے ہیں اُن کا اس قابل ہونا نہایت ضروری ہے کہ وہ محمد صاحب کے پیروؤں کے خیالات اور حالات کو بخوبی سمجھ سکیں اور عقلمندی کے ساتھ اُنہیں انجیل کی سچائی کی طرف جس کی شہادت قرآن میں بھی موجود ہے لانے کی کوشش کریں اور اُس نجات دہندہ کے دعوؤں کی طرف لائیں جواسلام کا اکیلا بے گناہ نبی ہے جس کی نسبت اہل اسلام یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ آسمان پر سرفراز ہے اورخدا کے سچے دین کو مقرر کرنے کے لئے پھر زمین پر آئیگا۔

ہمارے اس مندرجہ بالا بیان سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم مشنریوں کے اُس کام کی جو مسلمانوں میں کیا جاتاہے بے قدری کرتے ہیں۔ ہماری خواہش صرف یہی ہے کہ موجودہ انتظام میں کچھ ترقی کی جائے اور اس امر کا انتظام کیا جائے کہ جو لوگ اہل اسلام میں کام کرنے کے لئے جائیں اُن کی اچھی طرح  سے تربیت اور تیاری میں کامل اور باقاعدہ کوشش ہو۔

بعض اوقات یہ سوال کیا جاتاہے کہ اہل اسلام کے اخلاقی چال چلن پر دین اسلام کی کیا تاثیر ہوتی ہے؟ اِس سوال کے جواب میں اس قدر تو ضرور ماننا پڑتاہے کہ جہاں کہیں اسلام بت پرستوں کواپنی اطاعت کے دائرہ میں لاتاہے اُن کی اخلاقی حالت کو بالکل بدل ڈالتاہے۔ عموماً تواریخ سے اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ حیوانات اورجن بھوت کے پجاریوں ۔ آدم خوروں اور بچہ کشوں میں اسلام کے آنے سے یہ قباحتیں موقوف ہوجاتی ہیں۔ بُت پرستوں کے بداخلاق اور دستورات منسوخ کئے جاتے ہیں۔ سوسائٹی اور سلطنت کے بارے میں چند قوانین جبراً  منوائے جاتے ہیں۔ چوروں اور خونیوں کوسخت سزا ئیں ملتی ہیں۔ منشی اشیاء کا استعمال اگرچہ بالکل موقوف تونہیں ہوتا تاہم بہت کم ہوتاہے۔ بچے کسی قدر تعلیم حاصل کرتے اور سچے خدا کی پرستش  کے لئے تربیت پاتے ہیں۔ عزت اور دلیری اور رریاضت کے کچھ خیالات اُن کے دلوں پر نقش کئے جاتے ہیں۔ اس طرح اخلاقی پیمانہ بہت کچھ  وسیع کیا گیا ہے لیکن پھر بھی اسلامی اخلاق کی ترقی ایک خاص حد تک محدود ہے اورمسیحی اخلاق سے پیچھے ہے۔ کثیر الازدواجی  اورطلاق کے بارے میں قرآن کی اجازت  پر بردہ فروشی اورجہاد کی منظوری اور خود محمد صاحب کا نمونہ اورایسے اصول کا ماننا کہ دین کی خاطر ہر طرح کا جھوٹ اور فریب اور ظلم وزبردستی  سب کی سب ایسی باتیں ہیں جن سے اخلاقی ترقی نہ صرف رُکتی  ہے بلکہ خود اخلاق از بیخ برآوردہ اور تباہ ہوجاتاہے۔ اسلامی اقوام اخلاقی  پاکیزگی کی اُن حدود تک نہیں پہنچ سکتیں جوکہ دین عیسوی میں ادنٰی درجہ کے مسیحیوں کے اخلاق قرار دئے جاسکتے ہیں۔ بداخلاق مسیحی اور بداخلاق مسلمان کا باہمی فریق یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ مسیحی باوجود اپنے دین کی پاکیزگی کے بداخلاق ہیں اور مسلمان اپنے دین کے سبب سے بداخلاق ہیں۔ فی الحقیقت یہی ایک خاص سبب ہے کہ سلاطین اسلام میں تحمل اور بردباری بالکل مفقود ہے اوراُن کی قومی اور مجلسی زندگی مہلک بیماری سے تباہ وخستہ ہورہی ہے۔

پھر بعض اوقات یہ سوال پیش آتاہے کہ اسلام نے دنیا کو کونسا فائدہ پہنچایا ہے؟ اگر اس اصلی اور حقیقی دلیل سے قطع نظر کریں کہ آسمان اور زمین کا کل اختیار سیدنا مسیح کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنی کلیسیا کی بہتری اور بہبودی کے لئے تمام عالم پر حکمران ہے توہماری سمجھ میں یہ بات تورایخ  سے صاف ظاہر ہوتی ہے کہ اگرچہ اسلام نے جس قوم کو فتح کیا اُسے پوری بربادی اور تباہی کا  مود بنایا توبھی دنیا کی روحانی اور ذہنی ترقی کے لئے اسلام خدا کے ہاتھ میں ایک بڑا وسیلہ بنا۔ چنانچہ وہ بُت پرستی کا سخت مخالف رہا خواہ وہ مسیحی کلیسیا میں پائی گئی ہو یا غیر اقوام میں۔ بُت پرست  قوموں میں پُشت  درپُشت  زندہ شخصی خدا کی شہادت دیتا چلاآیا ہے اوراُن کی زبان اور خیالات کو خدا کی وحدانیت کے سانچہ میں ڈھال کر بُت پرستی کی رسوم کو چکنا چور کر ڈالا ہے اورایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خداوند کے لئے راہ تیار کی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خداوند نے اسلام کے ذریعہ سے بھی اپنا مقصد پورا کیا ہے۔ تواریخ کلیسیا کا ہرایک  پڑھنے والا جانتا ہے کہ دینی اصلاح  کی ترقی کس قدر ترکوں کے قسطنطنیہ میں ہونے پر موقوف تھی۔ اسلام گویا قادر مطلق خدا کے ہاتھ میں ایک ہتھوڑا بن کر اُس کے دشمنوں کو مارتا رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ جوقومیں مسلمانوں کی حکومت میں آکر اپنی ناموری کو کھوبیٹھی ہیں بہت جلد مسیحی سلطنتوں کے ماتحت ہوجائینگی۔ اُن کے ہلاک کرنے اور ستانے کی طاقت بہت گھٹ گئی ہے۔ قریباً دنیا کے نصف مسلمان اب مسیحی سلاطین  کی حکومت میں ہیں۔ اُن کے درمیان مسیح کے صلح کل قاصد بے خوف  ہوکر انجیل کی تبلیغ کرتے ہیں۔اکثر ممالک میں جو اسلام کو ترک کرنا چاہتے ہیں وہ بغیر کوڑوں یا موت کے خوف کے مسیح پر ایمان لانے کا اقرار کرسکتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اسلام پر ایسی تاثیرات اثر کررہی ہیں جن کے سبب سے بہت سے مسلمانوں کے دلوں میں شکوک پیدا ہوگئے ہیں۔ مثلاً فارس کے بابیوں اور عرب کے وہابیوں اور ہندوستان کے سید احمدیوں اور مصر اور وسط افریقہ کے مہدویوں کے باہمی جھگڑوں نے اسلام کو بہت کمزور اور خستہ حال بنادیا ہے۔

علاوہ بریں پروٹسنٹ مسیحیوں کی تاثیر بھی جو کے مشنوں اور تعلیمی مدرسوں کے ذریعہ سے ہوتاہے کچھ کم نہیں ہے۔ سوریہ۔ ترکستان مصر اور فارس میں بہت سے سمجھدار مسلمان خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جواگرچہ اس قابل تونہیں کہ اپنے ایمان کا خلاصہ اقرار کریں لیکن دل سے بالکل قائل ہیں۔ ہندوستان میں سینکڑوں مسلمان اسلام کو ترک کرکے مسیحی کلیسیا میں شامل ہوگئے ہیں۔ ہزاروں مسلمان نوجوان مسیحی مدرسوں میں تعلیم پاتے ہیں اوران مندرسوں کے بہت سے اُستاد کلیسیا کے دیسی خادم الدینوں میں سے ہیں جوکسی وقت اسلام کے معتقد  اور عالم اشخاص  میں شمار کئے جاتے تھے۔ اس  گروہ میں مسیحی خمیر نے اپنا کام شروع کردیا ہے اورہمیں پختہ اُمید ہے کہ بہت جلد کل روٹی کو خمیر کردیگا۔

اہلِ اسلام میں ایک روایت ہے کہ "جب مسیح الدجال یعنی مخالف مسیح مسلمانوں کو بہت ستائیگا تویکایک نمازیں شروع ہونگی اور عیسیٰ ابن مریم آسمان سے اُتریگا اور اہل اسلام کا امام یا ہادی بنے گا۔ جب دجال عیسیٰ کودیکھیگا تواُس سے خوف کھائیگا اوراُس نمک کی مانند جوپانی میں گر پڑے گذار ہوجائے گا۔ وہ بیشک ہلاک ہوگا اور عیسیٰ کے ہاتھ سے مارا جائیگا"۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ وہ دن بہت دور نہیں ہے جب عیسیٰ فی الحقیقت ان گروہوں کا ہادی ہوگا اور  مخالف مسیح کی فوجیں نمک درآب کی ماننداس کی روح کی تلوار اوراُس کی آمد کی تجلی سے نیست ونابود ہوجائیگی۔


۱. مسٹر سٹینلے لین پول کی کتاب مسمی بہ سلیکشنز فروم قرآن — Lane's  Selection  From  the  Koran, 1879

Account of the Hafizabad Debate

Religion of Islam

مناظرہ حافظ آباد

An Account of the Hafizabad Debate

مرتبہ

ایم۔ کے ۔ خان

علامہ حاجی پادری عبدالحق صاحب پروفیسر تھیالوجیکل کالج
سہارنپور
اور
علامہ حاجی پادری سلطان محمد خان پال صاحب پروفیسر عربی فورمین کالج لاہور
سے
توحید محضہ اوراسلامی نجات
مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری مدیر اہلحدیث
کے

انکاروفرار کی دلچسپ کیفیت

ایم ۔ کے ۔ خان ۔ مہاں سنگھ باغ ۔ لاہور

M. K. KHAN

MAHAN SINGH BAGH, LAHORE

۱۹۲۸

Religion of Islam

دیباچہ

مسلمانانِ پنجاب میں مولانا ثناء اللہ صاحب کے پایہ کا اور کوئی کہنہ مشق وتجربہ کارمناظر نہیں۔ بجا طورپرآپ کو " شیرپنجاب" کہا جاتاہے۔ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے مباہلہ اور موت نے آپ کی شہرت کو تمام ہندوستان میں عام کردیا اور اس سے مولانا مالا مال بھی ہوگئے۔ پھر مرزا جی کے مرُیدوں نے آپ سے بمقام لدھیانہ شکست  کھاکر آپ کے " فاتح قادیاں" ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ نیز آریوں اور شیعوں کے بالمقابل بھی آپ اکثر ظفریاب رہتے ہیں۔

اب پیرانہ سالی میں آپ کو مسیحیوں سے واسطہ پڑا۔ پادری عبدالحق سے اسلامی توحید پر آپ مناظرہ کرسے ہمیشہ کتراتے رہتے ہیں۔۱۹۲۶ میں پادری سلطان محمد خان صاحب نے اس موضوع پر آپ کو بمقام گوجرانوالہ خاموش کردایا تھا چنانچہ نور افشاں اوراہل حدیث اُس کے شاہد ہیں۔ اب مسلمانان حافظ آباد نے آپ کو بُلایا۔ مگر جب اسلامی معتقدات کو زیر بحث لانے کی نوبت آئی تو آپ نے بحث ہی بند کرادی اور ہزاروں آدمیوں کے ہجوم کو تحقیق مذہبی کے استفادہ سے محروم ومایوس کردیا۔ افغانِ " شیرافگن ۱ " (پادری پال صاحب) نے چیلنج پر چیلنج کیا کہ اسلامی نجات پر مباحثہ کرلو مگر آپ ایسے دہشت زدہ ہوئے کہ پھر کھڑے ہونے کی جرات ہی نہ ہوئی۔ جب آپ طرح بہ طرح کے حیلوں سے بحث سے گریز اور فرار کی تیاریاں کررہے تھے توپادری عبدالحق صاحب نے آپ کو شرائط سے آزاد چیلنج دیا جسے پہلے آپ نے منظور کرلیا مگر جب تاریخ مباحثہ کے  تعین کی نسبت دریافت کیا توآپ نے خاموشی میں پناہ لی۔ " اسلامی نجات" اور" اسامی توحید" حسرت بھی نگاہوں سے آپ کے چہرہ کودیکھتی رہ گئیں مگر آپ اُن کو بیکسی کی حالت میں چھوڑ کر امرتسر آگئے۔ یہاں آکر تحفظ شہرت کی خاطر حافظ آباد کی غلط رپورٹ اہل حدیث میں چھاپی۔ جب ہم  نے پادری صاحب کا جواب آپ کوبغرض اشاعت بھیجا توشائع کرنے سے انکار کردیا۔ اب ہماری کشادہ دلی دیکھئے کہ فریقین کے تمام مضامین اور خطوط وکتابت کو اس رسالہ میں مرتب کردیا ہے تاکہ آپ پبلک یک طرفہ بیان سُنا سُنا کر مغالطہ میں نہ ڈالتے رہیں۔

مولانا صاحب! یہ سب کچھ اس لئے ہواہے کہ آپ حق کی قوت کا اندازہ کریں اور عبرت پکڑیں۔

" سب کو آزمائیں اور بہتر کو اختیار کریں"۔

من از ہمدردیت گفتم ۔ توہم خود فکر کن بارے

خرواز بہرایں روز ست اے داناوہشیارے

(خان)

۸ دسمبر ۱۹۲۸

حافظ آباد پنجاب میں مناظرہ

مابین مسیحیاں واہلحدیثاں

"حافظ آباد کی جماعت اہلحدیث اوراُن کے امام مولوی حافظ عبدالمجید  صاحب بڑے مشتاق وخواہشمند تھے کہ اسلام اور مسیحیت کے متعلق تبادلہ خیالات مناظرہ کی صورت میں ہو۔ چنانچہ و ہ کئی بار پاسٹر کلیسیا حافظ آباد اورمسیحیوں کے پاس آئے اوراُنہیں چیلنج دیاکہ ہمارے ساتھ مناظرہ کی تاریخ مقرر کریں۔اورجہاں تک ممکن ہو جلدی کریں ہر چند کہ اُن کو سمجھایا گیا کہ مناظرہ سے باز رہیں۔ مگر وہ اپنی بات پر اڑے رہے ۔ اورکہا کہ ہم سے ضرور ہی مناظرہ کریں۔خیر ہم نے طوعاً وکرہاً ان کے چیلنج کو منظور کرلیا اور فریقین کی صلاح مشورہ سے ۲ اور ۳ دسمبر ۱۹۲۸ء کی تاریخیں برائے مناظرہ مقرر کی گئیں۔ اور مناظرین کے بلانے کا انتظام کیا گیا۔اور شرائط وغیرہ طے ہوگئیں۔ہم مسیحیوں نے اس بات پر زور دیا کہ دو منصف برائے فیصلہ آریاؤں یا سکھوں سے منتخب کئے جائیں۔ ایک کا نام ہماری جانب سے ہو اور دوسرے کا نام آپ کی جماعت اہلحدیث کی جانب سے پیش کیا جائے۔ پہلے تو وہ منظور کرتے رہے مگر آخر کار کہا کہ فیصلہ پبلک خود کرلیگی ہم کوئی منصف وغیرہ مقرر نہ کرینگے۔

فریقین کی جانب سے مندرجہ ذیل مضامین برائے مناظرہ منظور کئے گئے۔

منجانب مسیحیاں: ( ۱)کیا موجودہ بائبل تحریف وتنسیخ سے مبرا ہے؟ (۲) اثبات التوحید (۳) نبوتِ محمد صاحب۔ (۴) اسلامی نجات۔

بتاریخ یکم ستمبر ۱۹۲۸ء فریقین کے مناظرین بخیریت تمام حافظ آباد پہنچ گئے اور بتاریخ ۲ ستمبر ۱۹۲۸ء بوقت ۸بجے صبح ایم ۔ بی ۔ سکول حافظ آباد کے کمپونڈ میں جلسہ شروع ہوا ۔ سب سے ہمارے مقرر طرار۔ جناب ریورنڈ عبدالحق صاحب فاتح قادیاں پروفیسر تھیولاجیکل کالج سہارن پور مصنف رسالہ" اثبات التثلیث" نے تحریف بائبل کے مضمون پر ایک عالمانہ تقریر بڑی فصاحت وبلاغت سے فرمائی پُرانے نسخہ جات ۔تورایخ عالم ۔ کتبہ جات اور پُرزور دلائل وبراہین سے ثابت کردکھایا کہ موجودہ بائبل تحریف وتنسیخ سے مبُرا ہے۔

بعداز لکچرمولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری معترض ہوکر اٹھے اورسوال کیا کہ سب سے پہلی کتاب کس نے لکھی ہے؟ اوریہ کہہ کر بیٹھ گئے (ان کے لئے ۱۰ منٹ برائے تقریر مقرر تھے)۔

پادری عبدالحق صاحب نے کہاکہ لازم تویہ تھا کہ آپ میری دلائل کو رد کرتے کیونکہ بحث طلب بات یہ ہے کہ موجودہ بائبل محرف ہے؟ اورمیں نے ثابت کیا ہے کہ محرف نہیں ہے۔ لہذا آپ ثابت کریں کہ یہ تحریف شدہ ہے۔

مولوی صاحب۔ بہادر توآپ تب ہونگے اگر نام لینگے کہ پہلی کتاب کس نے لکھی ہے؟ سمجھ کے قدم رکھنا کہ سامنے کون کھڑا ہے۔ اہلحدیث کا زبردست جرنیل ہے۔ اسی طرح کئی دفعہ اٹھ اٹھ کر چند اشعار پڑھ کر اور چند تمسخر  آمیز الفاظ کہہ کر اپنی جماعت کوخوش کرتے رہےمگر مضمون کوچھوا تک نہیں اورنہ کسی آیت کو پیش کیا کہ فلاں فلاں آیت تم لوگوں نے نکال دی ہوئی ہے۔ جیسے کہ اکثر اوقات کہا کرتے ہیں۔ خیر آخرکارپادری صاحب موصوف نے جواب دیا کہ پہلی کتاب حضرت موسیٰ نے لکھی ہے۔ اور پھر مولوی صاحب استشنا ۳۴باب کی ۵تا ۸آیت کو پیش کرکے یوں گویا ہوئے کہ دیکھو بھائیو۔ موسیٰ اپنی موت وغیرہ کا حال خود لکھتا ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ آیات ثابت کرتی ہیں کہ یہ پیچھے بڑھائی گئی ہیں۔ اورحضرت موسیٰ کی تصنیف نہیں ہیں۔ پادری صاحب نے اُن کی تسلی کردی کہ یہ کتاب تتمہ ہے اور عزرا فقیہ نے اس کو الہام سے درج کیا ہے۔ پھر مولوی صاحب نے دوسرا پہلو اختیار کیا کہ رومن کیتھولک لوگوں کی کتابیں اپاکریفل کئی دفعہ بڑھتی گھٹتی رہی ہیں۔

پادری صاحب نے جواب دیا کہ ہم بائبل کی ۶۶ کتابوں کوا لہامی مانتے ہیں آپ اُن میں سے کسی کو تحریف شدہ ثابت کرکے دکھادیں۔

مولوی صاحب نے اصلی مسئلہ زیربحث کو چھوا تک نہیں اور نہ پادری صاحب کی کسی دلیل کا ردکیا اور نہ کچھ بائبل میں سے جعلی اور تحریف شدہ ثابت کرسکے۔ خداوند کے داؤد کے سامنے بیچارہ بڈھا جرنیل مات کھا گیا اور بمشکل تمام اپنا پیچھا چھڑایا۔

بعد ازاں جناب مولانا ثناء اللہ صاحب نے تحریف قرآن پر فقط ۱۵ منٹ تقریر فرمائی (حالانکہ ) بیس برائے تقریر مقرر تھے) جس کا لُب لباب یہ تھا کہ موجودہ قرآن متواتر سینہ بسینہ قرآن کے حافظوں کے سینوں میں محفوظ چلا آتاہے۔ اورمحمد صاحب کے زمانہ سے اب تک بغیر کسی قسم کے ردوبدل کے موجود ہے۔

بعد از تقریر جناب پادری مولوی سلطان محمد پال صاحب افغان سلطان المناظرین علامہ دہر معترض  ہوئے کہ موجودہ قرآن حضرت عثمان کا ہے نہ کہ حضرت محمد صاحب کے زمانہ کا کیونکہ پہلے قرآن جو اکٹھے کئے گئے تھے وہ آپس میں متفرق تھے اور حضرت عثمان نے اُن کو جلادیا تھا اوراپنے قرآن کو قائم رکھا تھا۔میں بڑے دعوے اور بڑے زور سے کہتاہوں کہ موجودہ قرآن حضرت محمد صاحب کے زمانہ کا نہیں ہے حضرت محمد کے قرآن کا نام ونشان صفحہ ہستی پر موجود نہیں ہے بلکہ یہ حضرت عثمان کا جمع کردہ ہے دیگر یہ کہ اُس زمانہ کا رسم الخط علیٰحدہ علیٰحدہ حروف میں تھا جیسے کہ انگریزی حروف علیٰحدہ علیٰحدہ چھاپے جاتے ہیں۔ اور بعد ازاں کوفی رسم الخط جاری ہوا۔ اُس زمانہ کے رسم الخط کا کوئی قرآن صفحہ دنیا پر آج کل موجود نہیں ہے۔ بلکہ یہ حضرت عثمان کے زمانہ کا ہے جو کہ تحریف شدہ ہے۔

شیر پنجاب (مولانا ثناء اللہ صاحب) جواب کے لئے اٹھتے تو رہے مگر کابلی شیر (پادری سلطان محمد پال صاحب افغان) کے سامنے اُن کے اشعار کارگر نہ ہوئے۔ اور نہ وہ ثابت کرسکے کہ موجودہ قرآن محمد صاحب کے زمانہ کا قرآن ہے۔ نہ وہ کسی کتبہ ۔پرانے نسخہ یا تاریخِ دنیا کواپنی شہادت میں پیش کرسکے۔ مولانا صاحب کا سب دارومدار بیچارے حافظوں کے سینوں پر تھا کہ حافظوں کے سینوں میں محفوظ چلا آتاہے اوربس۔ دونوں لکچروں کے بعد ہندوپبلک نے فیصلہ دیا کہ " واقعی پادری صاحبان کے دعوے اور دلائل زبردست ہیں۔ اورمولوی صاحب اُن کے مقابلہ میں بالکل عاجز رہ گئے ہیں۔ اور سوائے تمسخر اور شعر گوئی کے اُن کے پلے کچھ بھی نہیں۔

۲ ستمبر شام کی کارروائی۔ ۲ ستمبر کی شام کو مولوی حافظ محمد صاحب گوندلانوالہ نے اثبات توحید پر لکچر دیا(اس نام کا ایک رسالہ مولوی صاحب نے تصنیف بھی کیا ہوا ہے) دورانِ لکچر میں وہ اسلامی توحید کو ثابت تونہ کرسکے فقط تثلیث ہی کارد کرتے ہوئے منطق اور فلسفہ کی اصطلاحیں تومولوی صاحب نے بہت پیش کیں مگر جناب پادری عبدالحق صاحب نے اٹھ کر اُن کی سب اصطلاحات پر پانی پھیر دیا۔ اور بجز نقیوں کے مولوی صاحب کے پلے کچھ نہ رہا۔ اور وہ بالکل ثابت نہ کرسکے کہ اسلامی توحید کیا ہے۔

پادری صاحب موصوف نے ثابت کرکے دکھادیا کہ خدا کی ذات ِ واحد میں کثرت ہے۔

بعد ازاں اثبات التثلیث پر جناب پادری سلطان محمد پال صاحب نے گوہر افشانی کی اور بڑی صفائی اور وضاحت سے اندرونی اور بیرونی دلائلِ قویہ سے تثلیث جیسے اوق مضمون کو روز روشن کی طرح ثابت کردیا اور" رسالہ اثبات التوحید فی ابطال اثبات التثلیث " مصنفہ مولوی حافظ محمد صاحب کی ایسی  دھجیاں اڑائیں کہ خدا کی پناہ۔ طرفہ ترماجرا یہ ہے کہ پادری صاحب موصوف نے مولوی صاحب کے رسالہ ہی سے تثلیث کو ثابت کرکے دکھادیا۔ بیچارے مولوی صاحب سن کر پانی پانی ہورہے تھے اور مناظرہ کے آخرتک سناٹے کے عالم میں رہے۔

بعد ازتقریر مولانا ثناء اللہ صاحب معترض ہوکر اٹھے (مقررہ وقت دس منٹ تھا) اورآنجناب نے یہ سوال کیاکہ کیا آپ مقدس اتھانسیس کے عقیدہ کو مانتے ہیں؟ اور بیٹھ گئے۔

پادری صاحب۔ جنا ب مولانا صاحب !آپ کو لازم تھا کہ میرے دلائل کو رد کرتے مگر خیر میں آپ کو آپ کے سوال کا جواب دئیے دیتاہوں کہ ہم اس عقیدے کوالہامی نہیں مانتے ۔ لیکن آپ اس میں سے جواعتراض پیش کرنا چاہتے ہیں سوکریں۔

مولوی ثناء اللہ صاحب۔ عقیدہ میں لکھا ہے کہ خدا باپ ازلی۔ خدا بیٹا ازلی اور خدا روح القدس ازلی۔ پھر بھی یہ تینوں ازلی نہیں بلکہ ایک ازلی ۔

پادری پال صاحب۔ میں اس کو مانتاہوں کہ مگریہ کہہ سکتاہوں کہ آنجناب کو اس کی سمجھ نہیں آئی ورنہ آپ اسکو تثلیث کے رد میں پیش نہ کرتے پہلے اس کوسمجھئے۔ مولانا صاحب ۔ اس میں تثلیث کا ثبوت ہے نہ کہ رد۔

لیکن مولوی صاحب اپنے وقت میں عقیدہ اتھاناسیس کی تفسیر ہی کو پیش کرتے اور دعویٰ کرتے رہے کہ میں پُرانا جرنیل ہوں ۔ میرے مقابلہ پر کون کھڑا ہوسکتاہے۔؟ مگر افسوس  ہے کہ پُرانے جرنیل صاحب نے میدان جنگ میں سیدنا مسیح کے بہادر سپاہی کے سامنے اپنا کوئی بھی جوہر نہ دکھایا۔ نہ تو پادری صاحب کے دلائل وبراہین کو رد کرسکے۔  اورنہ بائبل یا قرآن کی کسی آیت یا تعلیم کو اس مضمون کے رد میں پیش کرسکے۔مولوی صاحب نے یہی غنیمت سمجھا کہ مقدس اتھاناسیس کے عقیدہ ہی میں پناہ لینی چاہیے۔ اگرمیں اس سے باہر نکلا توخیر نہیں۔ اوریہ بات اُن کی تجربہ کاری اور عقلمندی پر دلالت کرتی تھی۔

اثبات التثلیث اور اثبات التوحید فی الحقیقت دونوں مشکل مضامین تھے۔عوام الناس بہت کم سمجھے مگرجوسمجھتے تھے اُن کا یہ فیصلہ تھاکہ مولوی صاحبان پادری صاحبان کے آگے عاجز رہ گئے۔

۳ ستمبر کی کارروائی۔۳ ستمبر کو مضمون کفارہ مسیح پر جناب پادری عبدالحق صاحب نے سلیس اُردو میں عالمانہ تقریر کی۔ اورنہایت خوبی اور واضح طور سے مضمون مذکور کو ادا کیا اور ثابت کیاکہ تمام بنی نوع انسان گناہ کےلاعلاج مرض میں مبتلا ہیں۔" کوئی نیک نہیں ۔ ایک بھی نہیں" اور کوئی بشر اپنے اعمال حسنہ اور توبہ سے بچ نہیں سکتا۔ فقط سیدنا مسیح کے فضل پر نجات منحصر ہے  کہ سیدنا مسیح کے فدا کار ہونے سے تیار ہوئی ۔ مثال کے طورپر انہوں نے حضرت ابراہیم کو پیش کیا کہ سیدنا مسیح نے اُن کے بیٹے حضرت اضحاق کے بدلے خود فدیہ دیا۔ حضرت ابراہیم نے اپنے مال یعنی بھیڑ بکری سے نہیں دیا۔ بلکہ سیدنا مسیح نے خود فدیہ دیا۔ اسی طرح خدا باپ نے گنہگاروں کے لئے تمام دنیا کا باپ ہوکر اپنے بیٹے سیدنا مسیح کو فدیہ میں دیا ہے تاکہ " جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔

نیز آنجناب نے لفظ کفارہ کی تشریح کی کہ کفارہ کے معنی ڈھانپنا ہے۔ اوراس مضمون کو ایسی خوبی سے پیش کیاکہ سامعین کے ذہن نشین ہوگیا۔ مگر افسوس ہے کہ جب مناظرے کا وقت آیا تو صاحب موصوف کے مقابلہ پرایک ایسے شخص کو کھڑا کردیا جوایک لاعلم شخص تھا اورپادری صاحب کے مقابلہ میں کچھ حقیقت نہ رکھتا تھا۔اُس نے اٹھ کرایک قدم سینکڑوں اعتراضات پیش کردئیے جو کہ مضمون سے بے تعلق تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اُس نے وہ تمام اعتراضات مرزائی صاحبان کی پاکٹ بُک میں سے رٹے ہوئے تھے۔ وہ بیچارہ نہ تو مضمون ہی کو سمجھا اورنہ ہی فن مباحثہ سے واقف تھا۔ وہ صرف اُٹھ کر شورمچانا اور جوکچھ منہ میں آجائے وہ کہہ چھوڑنا ہی جانتا تھا۔

پادری صاحب نے کہا کہ یہ کوئی مناظرہ کا طریقہ نہیں ہے ۔ بلکہ اب میں یہ سمجھونگا کہ انجیل کی تبلیغ کررہا ہوں۔ سوجناب نے تمام اعتراضات کے بعد دیگرے تسلی بخش جواب دے دئیے۔

بعد ازاں مسئلہ نجات پر مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے تقریر فرمائی جس کا لب لباب یہ تھا کہ تمام دارومدار اعمال حسنہ اور توبہ پر ہے۔ آنجناب نے کہا کہ اسلامی نجات قدرتی طورپر علم طب سے موافق ہے کہ جس طرح گرم اشیاء مثلاً گڑ وغیرہ کے کھانے سے اگرگرمی ہوجائے اوراُس پر کوئی سرد چیز مثلاً لسی شربت نیلوفر وغیرہ پی لیں توکسی طرح کی گرمی نہیں رہتی۔ بلکہ خود بخود قدرتی طورپر علاج ہوجاتاہے اسی طرح سے جو بدی اور گناہ ہم سے سرزد ہوتے ہیں اُن کا ازالہ ہماری نیکیوں سے خود بخود ہوتا رہتاہے اور خدا اُن کا حساب نہیں لے گا یعنی ہماری نیکیوں سے ہمارے گناہ دور ہوجاتے ہیں۔

اوراگر کوئی گناہ کبیرہ ہوجائے توپھر توبہ کرلینے سے اُس کی معافی ہوجاتی ہے جیسے کہ اگر بہت ثقیل(سخت) غذاؤں سے پیٹ خراب ہوجائے توپھر جلاب لینے سے صفائی ہوجاتی ہے۔

بعد از الیکچر پادی سلطان محمد پال صاحب نے اسلامی نجات کا طبی اصول قرآن شریف اور حدیث کو پیش کرکے ایسا ردکردیا اور ثابت کردکھایا کہ اسلام میں کوئی نجات ہے ہی نہیں۔ اورکوئی انسان اپنے اعمال حسنہ اور توبہ سے نجات حاصل کرہی نہیں سکتا۔ اور نیز یہ کہا کہ میں بڑے دعوےٰ سے کہتاہوں کہ کوئی شخص دنیا میں ہے جوکہ اسلام میں نجات ثابت کرسکے۔ اگراسلام میں نجات ہوتی تو تومیں کیوں مسیحی ہوجاتا۔

پھر مولوی صاحب نے اٹھ کر کہا کہ میں اس پر مسلسل سارادن بحث کرنے کے لئے تیار ہوں ۔ افغانی شیر نے اپنا کوٹ اُتار کر جواب دیاکہ میں تیار ہوں۔ مولوی صاحب  کہنے لگے کہ کوئی منصف ہونا چاہیے ۔ جوکہ فیصلہ دے۔ پادری صاحب نے فرمایا کہ میں پنڈت رام چندر دہلوی کا نام منصف کے لئے پیش کرتاہوں اگر آپ کہیں تواُن کو آج ہی تار دیدوں اور کل اسی جگہ مناظرہ ہوجائے۔

مولوی صاحب ۔ میں چاہتاہوں کہ منصف برہمو سماج میں سے ہواور مباحثہ تحریری ہو۔

پادری پال صاحب۔ اگرآپ تحریری مباحثہ کرنا چاہتے ہیں تومیرے رسالہ " میں کیوں مسیحی ہوگیا" کا جواب لکھ دیں(یہ کہہ کر رسالہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی جانب پھینک دیا) یہ رسالہ سات سال سے لکھا ہواہے ۔ جب آپ اُس وقت تک جواب نہیں دے سکے تواب کیا لکھیں گے؟

میں چاہتاہوں کہ کہ مناظرہ دونو صورتوں میں ہو۔یعنی تحریری اور تقریری اور دونو کے منصف پنڈت رام چندر دہلوی ہوں اور تقریری مباحثہ اسی جگہ حافظ آباد میں ہو۔

اورمیں یہ بطور چیلنج مولوی ثناء اللہ صاحب کو تحریر کرتاہوں (چیلنج لکھ کر مولوی ثناء اللہ صاحب کو بھیج دیاگیا)۔ اور اگر میں اپنے ثبوت پیش نہ کرسکوں اور پنڈت صاحب موصوف فیصلہ دے دیں کہ میں جواب دینے سے قاصر رہ گیا ہوں تومیں محمدی ہوجاؤنگا۔

مولوی صاحب نے چیلنج منظور کرلیا اور تحریری جواب لکھ کر بھیجدیا کہ مناظرہ تحریری ہوگا ۔ اورآپ کے رسالہ کا جواب لکھ کر پنڈت صاحب موصوف کوبھیج دونگا اور جو فیصلہ وہ دیں گے مجھے منظور ہوگا۔ (مولوی صاحب نے بھی بعد ازاں پنڈت رام چندر دہلوی کا نام بطور منصف منظور کرلیا تھا)پادری صاحب نے تحریری جواب دیاکہ مجھے یہ منظور ہے کہ مناظرہ تحریری اور تقریری ہو۔ اور تقریری بمقام حافظ آباد ہو۔آپ  تقریری سے کیوں گریز کرتے ہیں؟ منصف پنڈت صاحب موصوف ہونگےاورجو وہ فیصلہ دیں گے مجھے منظور ہوگا۔ اوراگرمیں جواب الجواب دینے سے رہ گیا تومیں محمدی ہوجاؤنگا اوراس سے آپ کی بڑی شہرت ہوگی۔ مگر ساتھ ہی ایمانداری اس میں ہے کہ اگر آپ جواب نہ دے سکیں اور پنڈ ت صاحب موصوف کا فیصلہ میرے حق میں ہوتو آپ مسیحی ہوجائیں اور مناظرہ ۱۵ ستمبر ۱۹۲۸ء سے پیشتر ہو۔

اسی اثناء میں پادری عبدالحق صاحب نے بھی ایک چیلنج مولوی ثناء اللہ صاحب کے نام بھیج دیا کہ آپ میرے ساتھ ۵ ستمبر ۱۹۲۸ء سے پیشتر اسلامی توحید پر مناظرہ کرلیں۔

اب تو جناب مولوی صاحب اور جماعت اہل حدیث کے چھکے چھوٹ گئے۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کا معاملہ تھا ۔ جواب دیں توکیا دیں۔ سنگ آمد سخت آمد اب بصد مشکل یہ تدبیر سُوجھی کہ اپنے منبر پر ہی سے جواب دیا جائے اورکچھ نہ کچھ سنادیا جائے۔ لیکن جب اُن سے یہ طلب کیا گیا کہ براہ مہربانی آپ اپنا تحریری جواب بھیج دیں تومولوی صاحب نے یہ کیا نہیں۔ برعکس اس کے نعرہ تکبیر شروع کردیا اور اسلامی دنیا نے تالیاں بجانی اور شور کرنا شروع کردیا جیسے کہ اُن کی عادت ہے اوریوں مولوی صاحب  امرتسری نے اپنا پیچھا چھڑایا اور سب مسلمان میدان چھوڑ کرچلے گئے۔ اس جگہ میدانِ مناظرہ میں اہل حدیث حافظ آباد اوراُن کے بڑے مشہور ومعروف جرنیل مناظرہ جناب مولوی ثنا ء اللہ صاحب امرتسری کوشکستِ فاش ہوئی اورمیرا خیال ہے کہ اگر اُن کو یہ دن یاد رہا توپادری سلطان محمد پال صاحب افغان اور پادری  عبدالحق صاحب کے روبرو آئندہ میدانِ مناظرہ میں کبھی نہ آئینگے۔

شہر حافظ آباد میں اب تک اس مناظرہ کا بہت چرچا ہے اور ہندوپبلک اور غیر متعصب مسلمان یہ کہہ رہے ہیں کہ مولوی صاحبان پادری صاحبان سے شکست فاش کھاگئے اور جواب دینے سے عاجز رہ گئے ۔ یہ فتح ہمارے آقا ومولا سیدنا عیسیٰ مسیح کی ہے۔ اُن کا نام اب سے لے کر ابد تک مبارک ہو۔

خدا کا شکر ہے کہ اس جلسہ میں کسی قسم کا نقص امن نہیں ہوا بلکہ ساری کارروائی دوستانہ اور برادرانہ طور سے ہوتی رہے"۔ (مندرجہ نور افشاں)۔ راقم ۔ بی سیموئیل از حافظ آباد

پادری عبدالحق صاحب کے چیلنج کا اثر

جب جناب پادری عبدالحق صاحب  فاتح قادیاں نے دیکھا کہ مولوی صاحب اس موقعہ پر بحث سے گریز وفرار کی راہیں تلاش کرنے کی خاطر لیت ولعل اور عذروبہانہ کررہے ہیں توآپ نے تمام شرائط کی قیود کو دورکرکے مولوی صاحب کی اُسی وقت مباحثہ کا چیلنج دیا تاکہ اسلامی طریق نجات کی اصلیت اور توحید کی حقیقت اُس مجمع پر واضح ہوجائے۔ چیلنج کی نقل درج ہے۔ (خان)


" جناب مولوی ثناء اللہ صاحب۔ تسلیم۔ میں آپ کو اسلامی مسئلہ توحید کے متعلق چیلنج دیتاہوں کہ آپ اس مبحث پر میرے ساتھ تحریری اور تقریری مناظرہ کرلیں۔ منصف پنڈت رام چندر دہلوی ہونگے"۔

مورخہ ۳ ستمبر ۱۹۲۸ء حافظ آباد ۔

عبدالحق (پروفیسر ) نارتھ انڈیا یونائٹیڈ تھیولاجیکل کالج سہارن پور۔


مولوی صاحب موصوف نے اس کا جواب یہ دیاکہ:

چیلنج منظور


" پادری عبدالحق صاحب ۔ تسلیم۔ آپ نے جو چیلنج دیا ہے منظور مگر آپ نے یہ نہیں بتایا کہ فیصلہ میرے حق میں ہونے کی صورت میں آپ اسلام قبول کرینگے"۔

مورخہ ۳ ستمبر ۱۹۲۸ء حافظ آباد ۔

ابوالوفاء ثناء امرتسری ۔


پادری عبدالحق صاحب موصوف نے اس کا جواب یہ دیا کہ:


" جناب مولوی ثناء اللہ صاحب تسلیم۔ آپ مہربانی فرما کر تاریخ اورجگہ کی بابت فیصلہ کریں۔جگہ حافظ آباد ہوگی اور تاریخ ۱۵ ستمبر سے پیشتر جوآپ چاہیں بالتفصیل تحریر فرمائیں کہ کون سی تاریخ کو تقریری مناظرہ ہوگا اور کونسی تاریخ کو تحریری۔ آپ کے " مگر" کا جواب اُس وقت دونگا جب آپ یہ تحریر فرمائیں گے کہ اگر فیصلہ آپ کے برخلاف ہوگا توآپ مسیحی ہوجائیں گے۔ "۔

مورخہ ۳ ستمبر ۱۹۲۸ء حافظ آباد ۔

عبدالحق (پروفیسر ) نارتھ انڈیا یونائٹیڈ تھیولاجیکل کالج سہارن پور۔


جب مولوی صاحب کو یہ چیلنج پہنچا تو اس قدر گھبرائے اورتمام عذر حیلے بھول گئے کہ اُن کی طرف سے اِس کا جواب ہی نہ آیا۔ ہم مولوی صاحب سے مخلصانہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ نے پادری صاحب کے اس چیلنج کا کیوں جواب نہ دیا؟

اب ہم آپ کے ہی الفاظ میں یہ پوچھتے ہیں کہ آپ نے اور" اہل حدیث کمپنی" نے " صداقت اور دیانت کواُلٹی چُھری سے ذبح کیا یا نہیں؟ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ مباحثہ تو ہو مذہبی مگر اس کے اندر اور باہر جو کارروائی ہو وہ مذہب اور دیانت کے سراسر خلاف ہو"۔

(خان)


حافظ آباد میں مباحثہ عیسائیوں کے ساتھ

اب ہم اخبار اہل حدیث سے وہ روئداد نقل کرتے ہیں جو" اہل حدیث کمپنی" کی طرف سے اس مناظرہ کے متعلق شائع ہوئی تاکہ ناظرین طرفین کے بیانوں کو بغور مطالعہ کرکے خود فیصلہ کرسکیں کہ اہل حدیث کس قد دیانت کا خون کرتے ہیں۔  (خان)


" ضلع گوجرانوالہ پنجاب میں ایک مقام حافظ آباد اس کی تحصیل ہے وہاں متہروں کی ایک جماعت عیسائی ہوچکی ہے۔ اُن کے سمجھانے یا ترقی کرنے کو پادری لوگ آتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں سے بات چیت ہوتے ہوتے مباحثہ تک نوبت پہنچی ۔ مسلمانوں نے مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ صاحب ۔ مولانا حافظ محمد صاحب۔ مولوی احمد دین صاحب  وغیرہ علماء کو تکلیف دی ۔ عیسائیوں کی طرف سے پادری سلطان محمد پال صاحب اور پادری عبدالحق صاحب وغیرہ میدان مباحثہ میں آئے۔ مباحثہ ۲۔ ۳ ستمبر کوتھا۔ اورمضامین میں مباحثہ ۱ تحریف بائبل ۔۲ تحریف قرآن۔ ۳اسلامی توحید۔ ۴تثلیث ۔ ۵کفارہ مسیح۔۶اسلامی راہ نجات۔ ہرایک مضمون کے لئے ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ وقت مقرر تھا۔

پہلا۔ دوسرا۔ چوتھا اور چھٹا مضمون مولانا ابوالوفاء نے بیان کیا۔ تیسرا مضمون حافظ محمد صاحب اور پانچواں مولوی احمد دین صاحب گکھڑی نے بیان کیا۔

پادری صاحب نے پہلی تقریر متعلق بائبل پر کی۔ اوراپنی تقریر میں بڑا زور اس بات پر دیا کہ توریت وانجیل کے پُرانے نسخے مل گئے ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ وہ یہی ہیں جوہمارے پاس ہیں۔ نصف گھنٹہ تک پادری عبدالحق نے یہ تقریر ادا کی ۔ مولانا ابوالوفاء نے نہایت متانت سے کھڑے ہوکر صرف اتنا پوچھا کہ اس توریت کا لکھنے والایا لانے والا کون تھا؟ پہلے تواس کی تحقیق ہولے۔ ایک دومنٹوں میں سوال ختم کرکے بیٹھ گئے ۔ خدا جانے اس سوال میں کیا قوت تھی اور پُرانے مناظر نے اس میں کیا مخفی راز رکھا تھا کہ پادری صا حب نے اٹھ کر بہت لمبی تقریر کی مگر اس سوال کو نہ چھوا۔ پادری صاحب کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ میری پیش کردہ دلیلوں کو مولوی صاحب نے چھوا نہیں ۔ بس ایک سوال کردیا جس کا میں جواب نہ دونگا۔ مولانا ہنستے ہوئے کھڑے ہوئے حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایا بھائیو!میں نے جو سوال کیا وہ چینی زبان میں تھا یا کشمیری میں جس کو پادری نے سمجھا نہیں؟ لیجئے میں پھر دُہراتا ہوں کہ موجودہ توریت کولکھنے والے کون صاحب ہیں؟ پادری صاحب نے دوسری مرتبہ بھی وہی کہا جو پہلی مرتبہ کہا تھا۔ مولانا نے اپنے سوال کو دُہراکر یہ شعر پڑھا ۔

بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ توہے جس کی پردہ داری ہے

مجلس میں عجب سماں تھا۔ لوگ حیران تھے کہ مولانا نے اپنی عادت کے موافق ہنستے ہوئے ایک ایسی چٹکی لی ہے کہ پادری صاحب سخت پیچ وتاب کھارہے ہیں اورجواب نہیں دیتے۔ آخر تنگ آکر جواب دیا کہ تورات کے لکھنے والے حضرت موسیٰ تھے۔ یہ کہنا تھاکہ مولانا نے کھڑے ہوکر تورات ہی سے عبارت پڑھی جس میں مذکور تھا کہ موسیٰ کی مرنے کے وقت ایک سو بیس برس عمر تھی۔ اس کی قبر کا کسی کو پتہ نہیں وغیرہ۔فرمایا اگر حضرت موسیٰ نے یہ کتاب لکھی ہوتی تویہ الفاظ اس میں کیسے ہوسکتے ہیں؟ پادری صاحب نے جواب دیا کہ موسیٰ کی موت کا مضمون یشوع نبی نے پیچھے لگایا ہے۔ مولانا نے فرمایا پیچھے لکھے حصے کو علیحٰدہ کرکے دکھائیے یہاں توکلام برابر متصل جارہا ہے ۔ پھر ہم کیونکر باور کرلیں کہ اتنا حصہ کسی اور کا لکھا ہواہے اور وہ کون ہے۔ اسی پر وقت ختم ہوگیا۔

اس کے بعد قرآنی حفاظت کا مسئلہ تھا جس میں مولانا بحیثیت  مدعی تھی۔ آپ نےفرمایا مسلمانوں میں خدا کے فضل سے ایک جماعت حافظانِ قرآن کی ہے جو آنحضرت تک  برابر اپنا سلسلہ پہنچاتے ہیں۔ اور آنحضرت خود حافظ قرآن تھے۔ بس یہی قطعی دلیل ہے حفاظ قرآن کی۔ اس پر پادری پال صاحب نے بعض روائتیں بیان کیں جن میں ذکر تھا کہ فلاں آئت قرآن میں تھی وہ اب نہیں۔ مولانا نے اس روایت کومطابق کرکے دکھایا اور وقت پورا ہوگیا۔

تیسرا مضمون حافظ محمد صاحب نے بیان کیا ۔ آپ کے جواب دینے کو پادری عبدالحق کھڑے ہوئے دونوں صاحبوں کی تقریر منطقی اصول پر مبنی تھی۔

آپ کے بعد مسئلہ تثلیث پر تقریر کرنے کو پادری پال صاحب کھڑے ہوئے۔مگر سارا وقت آپ نے حافظ محمد کے رسالہ" اثبات التوحید" کی تردید میں خرچ کردیا۔ مسلم پریذیڈنٹ نے آپ کو ٹوکا کہ مضمون تثلیث پر تقریر کیجئے۔ مگر آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے  بزور یہی کہا کہ آپ مجھ کو روک نہیں سکتےمیں جو چاہوں بیان کروں۔جواب کے لئے مولانا ابوالوفاء کھڑے ہوئے آپ نے فرمایا ۔ رسالہ محمدی کا جواب تو یہ ہے کہ مصنف ممدوح اعلان کریں کہ جو چاہے مجھ سے پڑھے۔باقی اصل مضمون کے متعلق پھر ایک ہی سوال کیاکہ تثلیث کے تیسرے رکن مسیح کی حقیقت کیا ہے؟ عیسائیوں کا عقیدہ اتھاناسیس کہ جس طرح جسم اور روح کا مجموعہ انسان ہے اسی طرح خدا اور انسان کا مجموعہ مسیح ہے یہ ہے عیسائیوں کا مذہب کہ مسیح خدا اور انسان سے مرکب ہے۔ اس پر پادری صاحب بہت جھنجھلائے یہی کہتے رہے کہ اس تقریر کا تثلیث سے تعلق نہیں مگر حاضرین نے سارا تعلق سمجھ لیا۔

پانچواں مضمون کہ کفارہ مسیح ثابت کرنے کو پادری عبدالحق صاحب کھڑے ہوئے۔ جن کا جواب مولوی احمد دین صاحب نے اپنے خاص رنگ میں دیا ۔ جس کو دیہاتی حاضرین نے بہت پسند کیا۔

چھٹا مضمون اسلامی راہ نجات مولانا امرتسری نے نصف گھنٹہ بڑی خوبی سے بیان فرمایا آپ نے اپنی تقریر میں اسلامی راہ نجات کو ڈاکٹری اورطبی اصولوں سے عجیب طرز سے مطابق کرکے دکھایا۔ پادری پال صاحب نے جواب میں وہ روایات پڑھیں جن میں ذکر ہے کہ ہر شخص خدا کے رحم کے ساتھ نجات پائے گا عمل سے نہیں ۔ مولانا موصوف جواب کی تقریر کررہے تھے ابھی پانچ منٹ ہوئے اور پانچ باقی تھے کہ عیسائیوں کی طرف سے آواز آئی" وقت ختم ہوگیا" مسلم صدر نے کہا ابھی پانچ منٹ باقی ہیں۔ اس پر تکرار ہونے لگی۔ مولانا توکرسی پر بیٹھ گئے پادری سلطان محمد پال صاحب نے بڑے جوش میں اپنا رسالہ" میں کیوں مسیحی ہوا" مولانا کی طرف پھینک کر کہا کہ مولوی ثناء اللہ اس کا جواب دیں تومیں مسلمان ہوجاؤ نگا۔فیصلہ کے لئے پنڈت رام چندر صاحب آریہ دہلوی کا نام پیش کیا ۔ منصف کی بابت چند منٹ ردوبدل ہوتا رہا آخرکار مولانا نے بلند آواز سے اعلان کردیاکہ میں اس رسالہ کا جواب دونگا ۔ اس کے فیصلے کے لئے پنڈت رام چندر صاحب مجھےمنظور ہیں میں جواب لکھ کر مع رسالہ پنڈت صاحب موصوف کے پاس بھیج دونگا جو فیصلہ آئیگا وہ شائع کردیا جائے گا۔ مولانا کے اس اعلان کا جلسہ پر خاص اثر تھا حاضر ین حق کی قوت کا اندازہ کررہے تھے تاہم جن لوگوں کواسلامی فتح میں کچھ تردد تھا خدا نے اُن کا تردد رفع کرنے کوخاص صورت پیدا کردی پادری پال صاحب اپنے اس بیان سے پھر گئے اوراعلان کیا کہ مولوی صاحب کے جواب کا جواب پھر لکھونگا اور مباحثہ تقریری یہاں ہی ہوگا اور پنڈت جی یہاں مباحثہ میں بیٹھیں گے ۔ جب مسلمانوں نے پادری صاحب کا یہ جواب سنا تو خوشی میں نعرہ تکبیر بلند کیا۔سیکرٹری انجمن اہل حدیث حافظ آباد (اہل حدیث ۴ ستمبر)۔

مولوی ثناء اللہ صاحب نے جس نمبر میں سیکرٹری انجمن اہل حدیث حافظ آباد کی مندرجہ بالا کیفیت درج کی اسی اشاعت میں اپنی طرف سے پادری سلطان محمد خان صاحب کے نام ایک کھلا مکتوب شائع  کیا جسے ہم درج ذیل کرتے ہیں۔ (خان)


کھلا مکتوب

بخدمت پادری سلطان محمد پال صاحب

تسلیم ۔ آپ نے مباحثہ حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ (پنجاب) میں بتاریخ ۳ ستمبر ۱۹۲۸ء  اپنی مذہبی تحقیق کا اظہار کرتے ہوئے اپنا رسالہ " میں کیوں مسیحی ہوا" میری طرف پھینک کر کہا تھا اگرآپ اس کا جواب دیں تومیں مسلمان ہوجاؤنگا۔چنانچہ اُس وقت بہت سی قیل وقال کے بعد تقرر منصف بھی ہوا۔ پھر کیا ہوا؟ میں اس کا ذکر چھوڑتا ہوں تاکہ سلسلہ کلام اور طرف نہ ہوجائے۔ بلکہ درد بھرے دل سے آپ کو مخاطب کرتاہوں اور صرف ایک بات نہایت ہی مخلصانہ رنگ میں پوچھتاہوں کہ آپ اس رسالہ کا جواب پاکر منتہائے کلام قرار دیتے ہیں اور فیصلہ کی صورت کیا فرماتے ہیں؟

میں اُمید کرتاہوں کہ آپ میرے اس محبت نامہ کا جواب مودت کے رنگ میں معقول دینگے"۔

آپ کا باوفاء ابوالوفاء ثناء اللہ " (اہل حدیث ۱۴ستمبر ۱۹۲۸)۔


 


کھلا خط

مولوی ثناءصاحب کے خط کے جواب میں

مولوی ثناء اللہ صاحب نے یہ پرچہ ہمیں بھیج دیا۔ اورہم نے پادری صاحب موصوف کو دیکر درخواست کی کہ اس کا جواب لکھیں تاکہ ناظرین اہل حدیث آپ کے جواب کو بھی ملاحظہ فرمالیں۔پادری صاحب نے فوراً جواب لکھ کر ہمارے حوالہ کیا اورہم نے اس کی نقل ایبٹ آباد سے ۱۹ ستمبر ۱۹۲۸ء کو بذریعہ رسید طلب رجسٹری (نمبر ۶۳) مولوی صاحب کوبغرض  اشاعت بھیجدی۔ جسے ہم لفظ بلفظ ذیل میں درج کرتے ہیں۔ روئداد مندرجہ ذیل کی تصدیق  حافظ آباد کے معزز ہندوؤں نے بھی کی ہے جن کے دستخط ہمارے پاس اصل پر موجود ہیں۔ (خان)

من درگزر میدان وافراسیاب


بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب  امرتسری۔ تسلیم ۔ آپ کا کھلا مکتوب جس کو آنجناب نے اپنے اخبار اہل حدیث مورخہ ۱۴ ستمبر ۱۹۲۸ میں کمترین کے نام شائع کیا ہے نظر سے گزرا جس کو پڑھ کر مجھ کو اس امر کا یقین ہوگیا ہے کہ درحقیقت دنیا سے مسلمانی اٹھ چکی ہے۔ اور بجز چند کرم خوردہ کتابوں کے صفحات اور چند قبرستانوں کی بوسیدہ ہڈیوں میں کہیں بھی اس کا نام ونشان نہیں  ملتا کسی کہنہ مشق اُستاد نے خوب کہا ہے کہ مسلمان درگورو مسلمانی درکتاب  جس مذہب کی یہ حالت ہو کہ اس کے ممتاز وسربرآدروہ پیروؤں کو جھوٹ بولنے میں دریغ نہ ہو اس پر وہ سچائی کا دعویٰ کرنے والا مری ہذا عجیب ۔ آپ جیسے مولوی فاضل فاتح قادیاں مفسرِ قرآن ۔ سرآمد اہل حدیثاں کی جب یہ کیفیت ہے کہ صداقت اور دیانت کے نام سے اس قدر متنفر ہیں جس طرح ہندولحم البقر سے توباقی  عوام کا لانام مسلمانوں سے کیونکر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ  شعائر اسلام کے پابند اور اخلاق محمدی کے مجسم نمونے ہوکر جئیں۔ چنانچہ" اہل حدیث" کے اسی نمبر میں ایک اور" اہل حدیث" کا نمونہ ہمارے سامنے موجود ہے جس نے اس قدر دروغ بانی اور کذب بیانی سے کام لیا ہے کہ مسلم کذاب بھی پناہ مانگتا ہے۔ اور تعجب تویہ ہے کہ یہ شخص کوئی معمولی اہل حدیث بھی  نہیں بلکہ انجمن اہل حدیث حافظ آباد کے سیکرٹری ہیں۔ اس ننگ اسلام کو اس کا بھی خیال نہیں آیاکہ جب  حافظ آباد میں اس کا مضمون پہنچیگا جو سراسر دروغ مصلحت آمیز کا آئینہ ہے تواگرچہ مسلمانانِ حافظ آباد   اسلام کی عزت کے نام پر اس سے چشم پوشی کریں تو اُن ہندوؤں کو کیا منہ دکھائیں گے جو اُن جلسوں میں ازاول تا آخر موجود تھے اور اُن پر اس کھلے جھوٹ کا کیا اثر ہوگا! جناب مسیح نے کیا خوب کہا ہے کہ " درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے"۔ سچ سچ عرض کررہا ہوں کہ اگر اسلام کی بطالت کے لئے میرے پاس ایک بھی دلیل نہ ہوتو آپ دونو کا طرز عمل آپ کے اسلام کے برحق نہ ہونے کے لئے نہایت ہی شافی اورکافی دلیل ہے۔

مطالبہ بیان حلفیہ

اب میں اُن اصلی واقعات کی طرف متوجہ ہوتاہوں جن سے آپ نے دیدہ ودانستہ اغماض کیا ہے اوراپنی ذاتی مصلحت کی بناء پر اُن کی اشاعت سے گریز کیا ہے لیکن قبل اس کے کہ میں ان تمام واقعات کو پوست کندہ بیان کروں اور پبلک کو اس امر کا یقین دلادوں کہ جوکچھ میں لکھ رہا ہوں راست بلاکم وکاست ہے۔ میں آپ ہی کو اس معاملہ میں منصف مقرر کرتاہوں۔ جس کی صورت یہ ہوگی کہ جس جس امر کے متعلق میں نے ذیل کی سطور میں آپ کو بدیں الفاظ مخاطب کیا ہو کہ حلفیہ کہئے کہ یہ

واقع سچ ہے یا جھوٹ

اُس کی نسبت آپ جو فیصلہ دیں اپنے حلف نامہ کے ساتھ جومندرجہ ذیل الفاظ پر مشتمل ہوا اپنے اخبار میں شائع کردیں کہ:

" میں ابوالوفاء۔ مولوی ثناء اللہ مولوی فاضل ۔ شیر پنجاب ۔ فاتح قادیاں ۔ جمیع القاب خود

قرآن مجید کو ہاتھ میں لے کر خدا کو حاضر وناظر جان کر یہ فیصلہ دیتاہوں"۔

میں اس پر آپ ہی کے فیصلہ کو تسلیم کرلونگا۔ ہاں البتہ میں حافظ آباد کے اُن ہندوؤں کے جوجلسوں میں موجود تھے دستخط شائع کراکے دنیا کو یہ دکھادونگا کہ

منصفی دنیا سے ساری اٹھ گئی      اے بُتو ایمان داری اٹھ گئی

جس واقعہ پر آپ نے اپنے خط میں بدیں الفاظ پردہ ڈالنا چاہا ہے کہ" چنانچہ اُس وقت بہت سی قیل وقال کے بعد تقرر منصف بھی ہوا۔ پھر کیا ہوا؟ میں اس کا ذکر چھوڑتاہوں تاکہ سلسلہ کلام اور طرف نہ ہوجائے"۔ اُسی واقعہ کو میں جُو ں کا تُوں  ہدیہ ناظرین کرتاہوں اگرچہ میں بذات خود ہرگز اس کا روادارنہ تھا کہ میں ایک ایسے واقعہ کا ذکر کروں جس سے اس پیرانہ سالی میں آپ کو خفت ہو اورآپ کی شہرت پر بٹہ لگے۔ لیکن آ پ  کے اس طرز عمل نے مجھ کو مجبور کیاکہ اُس غلط فہمی کا ازالہ کیا جائے جس کی آڑ میں آپ اپنی شہرت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

کل کا بدلہ

امر واقعہ یہ ہے کہ حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ میں مباحثہ کے آخری مضامین یہ تھے۔ (۱) مسیحیت میں طریق نجات جس کے مقرر پادری عبدالحق صاحب تھے اور معترض منجانب مسلماناں ایک شخص مسمٰی احمد دین جس کے لب ولہجہ سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ایک دیہاتی اور تہذیب سے فرسخوں دور تھا۔ جب یہ شخص پادری عبدالحق صاحب کی تقریر پر اعتراض کرنے کو کھڑا ہوا توایسا بے سروپا ہانکنے اور مغلظات بکنے لگا جس سے مجھے بہت رنج ہوا اور پادری عبدالحق صاحب سے میں نے کہا کہ اس شخص سے آپ کا مباحثہ کرنا آپ کی ہتک ہے اور پریزیڈنٹ کی اجازت سے میں نے آپ کو مخاطب کرکے کہا کہ مولوی صاحب یہ مباحثہ نہیں ہے بلکہ آپ کل کا بدلہ پادری عبدالحق  صاحب سے لینا چاہتے ہیں اس لئے ایک ایسے شخص کو جو پادری صاحب کے ایک جملہ کو سمجھنے کی بھی قابلیت نہیں رکھتا اُن کے بالمقابل لا کھڑا کردیا۔ اس کی غرض بجز اس کے اورکیا ہوسکتی ہے کہ پادری صاحب کی بے عزتی ہو؟ آپ نے اس کا کچھ بھی جواب نہ دیا اورخاموش بیٹھے رہے۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

ناظرین سطور بالا کوپڑھ کر ضرور معلوم کرنا چاہتے ہونگے کہ" کل کا بدلہ" کیا مطلب رکھتا ہے ۔ بجائے اس کے کہ عین اپنا قلم گندہ کروں ۔ بہتر ہے کہ ناظرین مولوی صاحب کو مجبور کریں کہ وہ خود اس کا مطلب بیان کریں لیکن میں ناظرین کو یقین دلاتاہوں کہ خواہ مولوی صاحب کی جان پر بھی آن پڑے وہ ہر گز ہرگز " کل کا بدلہ" کا ذکر نہیں کرینگے۔

پادری عبدالحق صاحب کی تقریر اور مباحثہ کے بعد خود بدولت" اسلام میں طریق نجات" پر تقریر کرنے کھڑے ہوئے۔ اور بازاری دوا فروشوں کی طرح چلانے لگے کہ" جس طرح ہر مرض کے لئے ایک دوا ہوتی ہے۔ مثلاً بخار کے لئے کونین قبض کے لئے جلاب۔ اسی طرح اسلام میں بھی ہرگناہ کی ایک دوا ہے"۔ جس کی تارپود کو میں نے قرآن مجید واحادیث کے شواہد سے اس طرح بکھیر کر رکھ دیا کہ تمام مسلمانوں کا چہرہ فق اور خود جناب پرایک سکتہ کا عالم طاری تھا۔ جس کی دو دلیلیں ہیں۔ اول یہ کہ جب میں دوسری بار کھڑا ہوا تو تین منٹ تقریر کرنے کے بعد آپ کے پریذیڈنٹ صاحب نے مجھ کو اعتراض کرنے سے روکا اور کہاکہ" وقت ہوچکا ہے اب مباحثہ بند ہے"۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

اہل حدیث کا افترا

اب آپ اپنے مفتری  اور دردغ گو سیکرٹری کا مضمون بھی دیکھ لیں جو اسی نمبر میں شائع ہوچکا ہے کہ کس طرح اس واقعہ کو بالکل برعکس اور سراسر جھوٹ کی صورت میں اس طرح بیان کیا ہے کہ " مولانا موصوف جواب کی تقریر کررہے تھے۔ ابھی پانچ  ہی منٹ ہوئے اور پانچ منٹ باقی تھے کہ عیسائیوں کی طرف سے آواز آئی۔ وقت ختم ہوگیا۔ مسلم صدر جلسہ نے کہا ابھی وقت باقی ہے"۔ مولوی ثناء اللہ صاحب!کیا مسلمانی کے یہی معنی ہیں؟ کیا ایمانداری اسی کو کہتے ہیں ؟ اگرآپ میں ذرہ بھر بھی اسلام کی بُو ہوتی تواس مضمون کو ہرگز ہرگز اپنے اخبار میں شائع نہ کرتے کیونکہ یہ کھلا ہوا جھوٹ ہے اورجب شائع کیا توایمانداری یہ تھی کہ اس کی کذب بیانیوں کی تردید بھی کرتے۔لیکن آپ سے کیا توقع ہوسکتی تھی ! ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔

آپ کی شکست اورحواس باختگی کی دوسری دلیل یہ ہے جس کو آپ کے مفتری سیکرٹری صاحب کے قلم سے حق تعالیٰ نے اس طرح نکلوایا ہے جس طرح نمرود کی آگ سے ابراہیم علیہ السلام کو۔لکھتے ہیں کہ " تاہم جن لوگوں کو اسلامی فتح میں کچھ تردد تھا خدا نے اُن کا تردد رفع کرنے کو خاص صورت پیدا کردی"۔ (اہل حدیث ۱۴ ستمبر ۱۹۲۸ء)۔

مولوی صاحب کیا میں آپ سے پوچھ سکتاہوں کہ اگرآپ شکست یافتہ اورحواس باختہ نہ ہوگئے تھے تواس تردد کے کیا معنی ہیں کیا فتح مندوں کوبھی کچھ دردد ہوا کرتا ہے؟

تین منٹ میں گیارہ بج گئے

اب میں اُس صورت کو پیش کرنا چاہتاہوں جو" خدا نے پیدا کردی تھی"۔ جب مسلمانوں کے صدر نے مجھ کو روکنا چاہا توہمارے صدر صاحب نے اُن کو مخاطب کرکے فرمایا کہ" جناب آپ کیا فرماتے ہیں ابھی توپادری صاحب نے تین ہی منٹ تقریر کی ہے"۔ اس پر مسلمانوں کے صدر نے کہا کہ " مباحثہ کا وقت گیارہ بجے تک تھا۔ اب گیارہ بج چکے ہیں"۔ اس پر میں نے کہا کہ پریذیڈنٹ صاحب!اس حیلے اوربہانے سے کیا ہوتا ہے؟ ابھی تومیں نے صرف ایک ہی حدیث پڑھ کر سنائی ہے۔ آپ صاف طور پر کیوں نہیں کہتے کہ مولوی ثناء صاحب میرے اعتراضات کا جواب نہیں دے سکتے "۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

اختیار راہ فرار

اس پر آپ کے صدر صاحب نے چیں بجیں ہوکر کہا کہ" کیوں مولوی صاحب جواب نہیں دے سکتے؟ اگرآپ کا یہی خیال ہے توچلو آج دن بھر اسی مسئلہ پر مباحثہ سہی"۔جس کو سن کر عیسائی مارے خوشی کے اچھل پڑے اور میں نے کہا کہ مجھے بسروچشم منظور ہے۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

میری منظورمی کو سن کر آپ کا چہرہ زرد ہوگیا اوراپنے پریذیڈنٹ صاحب سے کچھ پھسپھسانے لگے جس کے بعد پریزیڈنٹ صاحب نے کہا کہ دن بھر تومباحثہ نہیں ہوسکتا کچھ وقت مقرر ہونا چاہیے جس  کے جواب میں میں نے کہا کہ پریزیڈنٹ صاحب آپ  کوکم از کم ہندوؤں کو خیال کرنا چاہیے کہ وہ آپ کے اس عمل کو دیکھ کر کیا سوچتے ہونگے۔ کبھی تو آپ مجھ کو روکتے ہیں کہ وقت ہوچکا اورکبھی پورا دن مباحثہ کرنے کو کہتے ہیں اوراب آپ تھوڑا وقت چاہتے ہیں اچھا یہ بھی منظور ہے کہ کم از کم تین گھنٹے اسی مضمون پر مباحثہ ہو۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

کوئی منصف بھی ہو

اس پر آپ نے کھڑے ہوکر فرمایا کہ ایک منصف ہوتاکہ فیصلہ کرے میں نے کہا کہ میں تو خدا سے یہی چاہتا تھا چلو یہ بھی منظور ہے۔ پھر آپ نے کہا کہ اس منصف کا نام لو میں نے کہا پنڈت رامچندر دہلوی منصف ہوں۔ کیونکہ نہ تو وہ عیسائی ہیں اورنہ مسلمان اور نیز عربی دان ہیں اور طرفین کے مذہب سے واقف ۔ اُن کے اخراجات طرفین کے ذمہ ہونگے اگرآپ کو منظور ہے تومیں ابھی ان کو تار دونگا۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

اس پر آپ نے کہا کہ رام چندر ہمیں منظور نہیں بلکہ دیال سنگھ کالج کا کوئی پروفیسر یا کوئی برھمو ہو۔ میں نے کہا کہ مجھ کو یہ بھی منظور ہے بشرطیکہ وہ عربی دان ہو۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

بحث سے گریز

پھر آپ نے اخراجات کی ذمہ داری سے انکار کیا۔ جب ہم نے بہت مجبور کیا توایک مسلمان نے جلسہ میں سے کہا کہ میں مسلمانوں کی طرف سے اخراجات کا ذمہ وار ہوں۔ جب آپ نے دیکھا کہ آپ کی شیخی کرکری ہوئی جاتی ہے۔ تب آپ نے کہاکہ مباحثہ تحریری ہو جس کے جواب میں  میں نے کہا کہ مجھ کو تو تقریری اور تحریری دونوں منظور ہیں لیکن اس وقت تو تقریری مباحثہ پر گفتگو ہے لہذا اول تو تقریری ہو۔ یہ سُن کر آپ کُرسی پر سے اٹھ کر کہیں پیچھے جا بیٹھے۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

مولانا غائب

جب عیسائیوں نے آپ کو پلیٹ فارم سے غائب دیکھا توانہوں نے شور مچایا کہ مولوی ثناء اللہ بھاگ گئے۔ ہم کسی اور سے بات چیت نہیں کرینگے ۔ اُنہی کو بلاؤ۔ اس پر مسلمانوں نے آپ کوسمجھابجھا کر پھر کرسی پر لابٹھایا۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

جب میں نے آپ کو پھر کرسی پر بیٹھا ہوا دیکھا توللکار کر کہا کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ تقریری مباحثہ سے آپ کیوں بھاگتے ہیں ؟ اورآپ یہی کہتے رہے کہ مباحثہ تحریری ہو۔ اس پر میں نے اپنےرسالہ " میں کیوں مسیحی ہوگیا" کوآپ کی طرف پھینک کر کہاکہ اگر آپ کو تحریری مباحثہ کا اس قدر شوق ہے تویہ میرا رسالہ ہے جس میں نجات ہی پر بحث ہے۔ اورسات سال سے آپ کی چھاتی پر مونگ دل رہا ہے۔ آپ  اس کا جواب لکھد یں پبلک خود ہی فیصلہ کریگی۔اگرآپ کا جواب ایسا معقول ہو کہ میرا قلم پھر اس پر نہ اٹھ سکے تومیں مسلمان ہوجاؤنگا۔ لیکن آپ کیا اگردنیا بھر کے مسلمان مل جائیں تب بھی اس کا جواب نہ دے سکیں گے۔ اگرآپ میں کچھ بھی دم ہوتا تو اس سات سال کے عرصہ میں اس کا جواب ضرور شائع کرتے اور آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ آپ اس رسالہ سے بے خبر ہیں کیونکہ آپ کے اخبار میں اس کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ اورمیں نے یہاں سنگھ کے قلعہ میں بھی جوگوجرانوالہ کے متصل ہے آپ کو انہی  الفاظ میں بھری مجلس میں چیلنج دیا تھا جس کے جواب میں آپ آج تک خاموش ہیں ۔ اوریہ بھی کہا تھا کہ دیکھئے مولوی صاحب اس موقعہ کو ہاتھ سے نہ جانے دیں کیونکہ میرے مسلمان بنانے میں آپ کی بے حد شہرت ہوگی اور آمدنی میں اضافہ ۔ اس پر مسلمانوں کی طرف سے ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوا یہ دیکھ کر پادری عبدالحق صاحب نے کھڑے ہوکر یہ کہا کہ ہم ہر کس وناکس سے گفتگو کرنا نہیں چاہتے ہیں اور مولوی ثناء اللہ صاحب سے جب تک کہ اب جو گفتگو ہو وہ قید تحریر میں نہ لائی جائے اورہم بھی جوکچھ کہیں گے لکھ کر دینگے۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

جب ہم نے تحریری گفتگو پر آپ کو بے حد مجبور کیا تب یہ ہزار لیت ولعل اسی جلسہ میں ذیل کا خط آپ کی طرف سے میرے نام موصول ہوا۔

"بخدمت  جناب پادری سلطان محمد پال خان صاحب ۔ تسلیم۔ آپ نے جو رسالہ " میں کیوں مسیحی ہوگیا" کے متعلق تحدی کی ہے کہ مولوی ثناء اللہ اس کا جواب دینگے تومیں مسلمان ہوجاؤنگا اورجواب کی صحت کے لئے پنڈت رام چندر جی دہلوی کو منصف پیش کیا ہے مجھے منظور ہے۔ اس کا جواب لکھ کر پنڈت جی کے پاس بغرض فیصلہ بھیج دونگا۔ اور فیصلہ فریقین کے خرچ سے شائع ہوگا۔ پس آپ بھی اس خط پر دستخط کرکے بھیج دیں۔(ابوالوفاء ثناء امرتسری ۳ ستمبر ۱۹۲۸ء)۔

اس خط کا جواب اسی وقت میں نے لکھ کر آپ کے حوالے کیا جو ذیل  میں درج ہے۔

"بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ۔ تسلیم آپ کا یہ لکھنا کہ آپ نے رسالہ " میں کیوں مسیحی ہوگیا" کے متعلق تحدی کی سراسر غلط ہے اور تعجب ہے کہ اس قدر جم غفیر کے سامنے اس خلاف واقعہ امر کے لکھنے کی جرات ہوئی درحقیقت میرا اپنے رسالہ" میں کیوں مسیحی ہوا" کا دنیا آپ کے چیلنج کا جواب تھا کہ جب آپ نے تقریری مباحثہ سے گریز کیا اور تحریری مباحثہ پر اصرار کیا تب میں نے اس رسالہ کوپھینک کر اس کے ساتھ یہ کہا کہ اگر آپ کو تحریری مباحثہ پر اصرار ہے توآپ اس  رسالہ کا جواب لکھیں پبلک خود فیصلہ کرلیگی۔ اگرآپ کا جواب معقول ہوگا اورمیں جواب نہ دے سکوں تومیں مسلمان ہوجاؤنگا۔ جس پر اب تک قائم ہوں اور تحدی کے ساتھ کہتاہوں کہ جب سات سال سے آپ اس کا جواب نہ دے سکے تو اب کیا دینگے؟ تاہم اگر پنڈت رام چندر دہلوی مجھ کو یہ لکھ دیں کہ وہ میرے جواب الجواب کے بغیر فیصلہ دینگے تو ان کا فیصلہ بھی مجھے منظور ہوگا۔ اب میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ آپ تقریری مباحثہ سے کیوں گریز کرتے ہیں۔میرا چیلنج توآپ کے ساتھ تقریری مباحثہ پر ہے اورپھر میں آپ کو چیلنج دیتاہوں کہ تقریری مباحثہ میں اگر آپ یہ ثابت کرسکیں کہ اسلام میں نجات مکمل طورپر موجود ہے اور پنڈت رام چندر بھی فیصلہ دیں کہ مولوی ثناء اللہ نے اسلام میں نجات ثابت کردی تومیں خوشی کے ساتھ مسلمان ہوجاؤنگا اورمیرے مسلمان بنانے میں آپ کی بڑی شہرت ہوگی اور اگر رام چندر جی فیصلہ دیں کہ ثناء اللہ اسلام میں نجات ثابت کرنے سے قاصر رہے توایمانداری یہ ہے کہ آپ دینِ برحق مسیحیت اختیار کریں اور اسلام کو ترک کریں ۔ پنڈت رام چندر جی کے اخراجات طرفین کے ذمہ ہونگے اور یہ تقریری مباحثہ ۱۵ ستمبر سے پیشتر حافظ آباد میں ہوگا۔

فقط سلطان محمد افغان حافظ آباد ۳ ستمبر ۱۹۲۸ ء

مولانا لاجواب ہوگئے

آپ اس خط کو لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور ہر چند ہم نے اصرار کیا کہ اس کا جواب ہمیں لکھ کر دے جائیے۔ پر آپ نے زبانی یہ کہا کہ ہماری کونسل جواب کی اجازت نہیں دیتی۔ اور چلے گئے۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

جس کے بعد مسیحی بھی " یسوع مسیح کی جے" کے فلک شگاف نعروں کے ساتھ اٹھ کر چلے گئے۔ یہ ہیں وہ واقعات جن کا ذکر آپ چھوڑتے ہیں تاکہ سلسلہ کلام اور طرف نہ ہوجائے" آپ کے سیکرٹری  کا یہ لکھنا کہ " مسلمانوں نے خوشی میں نعرہ تکبر بلند کیا" سراسر جھوٹ ہے بلکہ جب مسیحی " یسوع مسیح کی جے" کے نعرے لگانے لگے تب چند مسلمان جو اِدھر اُدھر کھڑے تھے ہمارے جواب میں چلانے لگے۔

اب انصاف ناظرین اہل حدیث پر ہے کہ وہ واقعات مندرجہ صدر پر غور کرکے فیصلہ دیں۔ والسلام

سلطان محمد افغان لاہور ۱۷ ستمبر ۱۹۲۸ء

تصدیق

اس مضمون میں مبالغہ سے بالکل کام نہیں لیا گیا اور حرف بحرف درست ہے۔ (دستخط)

بیلی رام۔ ہری کشن۔ گوکل چند۔ جیون داس ۔ گیان سنگھ۔ ساکنان حافظ آباد"۔

ہماری درخواست

پادری صاحب کے جواب مذکورہ بالا کے ہمراہ ہی ہم نے مولانا صاحب سے یہ درخواست بھی کردی تھی کہ

"مکرم بندہ جناب مولوی ثناء اللہ صاحب بالقابہ۔ السلام علیکم۔

جناب نے میری معرفت پادری سلطان محمد خان صاحب افغان ۔ مصنف ہمارا قرآن کواپنے اخبار اہل حدیث  مورخہ ۱۴ ستمبر ۱۹۲۸ء کا جوایک پرچہ ارسال بذریعہ ڈاک کیا وہ مل گیا ہے۔ باوجود کثرت مشاغل پادری صاحب موصوف نے آپ کے کھلے مکتوب  اور سیکرٹری صاحب انجمن اہل حدیث حافظ آباد کے بیان مندرجہ اہل حدیث ۱۴ ستمبر کا جواب لکھ کر مجھے بدیں غرض دیا ہےکہ میں اس کی نقل لے کر آپ کو بھیج دوں اور درخواست کروں کہ اسے من وعن اورپہلے ہی ہفتہ میں اپنے اخبار اہل حدیث میں درج کرکے شائع کردیں تاکہ پبلک واقعات سے آگاہ ہوجائے۔ اوراس مضمون کو رجسٹری اس وجہ سے کررہاہوں کہ آپ پر حجت  تمام ہوجائے اور اب ڈاکخانہ کی رسید اور مضمون مندرجہ صدر کی نقل کو اپنی تحویل میں رکھتا ہوا آپ پر نہایت  ہی واضح طورپر جتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر آج کی تاریخ سے پندرہ دن کے اندر اندر آپ کے اخبار میں اسے شائع ہوتے نہ دیکھا تومیں جیسا کہ پادری صاحب موصوف کا ارشاد ہے دوسرے اخباروں میں اس کی نقل شائع کراؤنگا اوراگر مناسب سمجھا تو مستقل رسالہ کی صورت میں شائع کردونگا تاکہ آپ کے کھلے مکتوب کی حقیقت اور سیکرٹری صاحب انجمن اہل حدیث حافظ آباد کے خلافِ واقعہ بیان کی اصلیت دنیا پر ظاہر ہوجائے۔ مہربانی سے فوراً اطلاع دیں کہ مضمون مل گیا اور اشاعت کے لئے آپ کا ارادہ کیا ہے۔ شکر گزار ہونگا۔ فقط ۱۹ جولائی ۱۹۲۸ء

نیاز مند۔ ایم ۔کے۔ خان ۔ مہاں سنگھ باغ لاہور۔

رسید وجواب

ہمارا یہ خط مولوی صاحب کو ۲۱ستمبر  ۱۹۲۸ء کو مل گیا جس کے ثبوت میں ڈاکخانہ کی رسیدیں اور مولوی صاحب کا خط مورخہ ۳ اکتوبر ۱۹۲۸ء موجود ہیں۔ مگر مولوی صاحب نے پادری صاحب کے جواب شائع کرنے کی بجائے اس کی نقل ہمیں واپس کردی۔ ہم نے  اتمام حجت واطلاع کی خاطر نور افشاں مورخہ ۵ اکتوبر میں مندرجہ ذیل "کھلا خط" شائع کرایا۔(خان)

کھلا خط بجواب کھلا مکتوب

بنام
مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری

جناب مولوی صاحب ۔ السلام علیکم۔ آپ کا مرسلہ اہل حدیث مجریہ ۱۴ ستمبر ۱۹۲۸ء مل گیا ۔ جس میں آپ کا ایک "کھلا مکتوب" بنام پادری مولوی سلطان محمد خان صاحب درج تھا۔ پادری صاحب  نے اس کا جواب لکھ کر مجھے دیا۔ اورمیں نے اُن کے ایما سے اس کی نقل جناب کی خدمت میں ۱۹ ستمبر ۱۹۲۸ء کوبذریعہ رسید طلب رجسٹری روانہ کردی۔ ڈاک خانہ کی رسید بھی مل چکی ہے جواس بات کا ثبوت ہے کہ میرا وہ مراسلہ جناب کو وصول ہوگیا ہے۔ میں نے مطالبہ کیا تھا کہ یہ آپ کے "کھلے مکتوب " کا" کھلا جواب" ہے۔ آپ اسے اپنے اخبار میں فوراً شائع کردیں تاکہ ناظرین اہل حدیث جواب سے آگاہ ہوجائیں۔ اوراگرآپ پہلی ہی دواشاعتوں میں اسے درج نہ کرینگے تومیں اسے دوسرے یعنی قادیانی اور آریہ اخباروں میں شائع کرادونگا۔ اور اگر ضرورت ہوئی تو مستقل رسالہ کی صورت میں چھپوا کر تقسیم کراؤ نگا۔

آج اُس کے بعد پہلا پرچہ اہل حدیث ۲۸ ستمبر ۱۹۲۸ء  دیکھا مگر اس میں وہ مراسلہ درج نہیں ہے۔ دوسرا پرچہ ۳ اکتوبر۱۹۲۸ء کو شائع ہوگا۔ اگر اس میں بھی وہ درج نہ ہوگا تومیں سمجھ لونگا کہ آپ اسے چھاپنا نہیں چاہتے چونکہ وقت تنگ ہے ۔ بذریعہ اخبار ہذا جناب کی خدمت میں عرض گزار ہوں کہ اگر چاہیں توایک ہفتہ کی اور مہلت لے لیں اور ۱۰ اکتوبر ۱۹۲۸ء کے اہل حدیث میں اسے شائع کردیں۔ لیکن اگر ۳ اکتوبر ۱۹۲۸ء تک نہ آپ کا جواب آئیگا اورنہ وہ مضمون ہی اہل حدیث میں چھپے گا توجان لیجئے کہ ۱۴ اکتوبر کو میں دوسرے اخباروں میں اسے درج کرانے پر مجبور ہونگا۔اورآپ کو شکایت کی گنجائش نہ ہوگی اورپبلک جان لیگی کہ" شیر پنجاب" میدانِ قرطاس اہل حدیث میں ہی " کھلے مکتوب" کے ہوائی تیر چلاسکتے ہیں۔ مگر " افغان شیر" کے مقابل آنے کی جرات نہیں کرسکتے۔اتمام حجت کی غرض سے یہ اعلان شائع کردایا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ لیکن میں خوب جانتاہوں کہ آپ کُنج خاموشی میں پناہ گزیں ہونے کو ہی ذریعہ عافیت سمجھیں گے اور نہ مضمون کو اخبار میں درج کریں گے اورنہ جواب ہی دینگے اجی حضرت!

نہ خنجر اٹھیگا نہ تلوار اُن سے      یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

(نور افشاں ۵ اکتوبر ۱۹۲۸ء)

(آپ کا خادم ۔ ایم۔ کے ۔ خان)

جب ہم نے دیکھ لیا کہ مولانا صاحب" اسلامی توحید اوراسلامی نجات" کومسیحیوں کی ناقدانہ وعالمانہ ضربِ تحقیق سے بچانے کے لئے ہر ممکن حیلہ وعذر کررہے ہیں توہم نے مندرجہ ذیل چیلنج دے کر اس قضیہ کو ختم کرنے کی تجویز کی۔ چنانچہ ہمارے گمان کے مطابق مولوی صاحب نے اس کا آج تک کوئی جواب نہ دیا اورنہ اُمید ہے کہ دیں گے ۔چلو قصہ ختم۔ (خان)

مکتوب مفتوح

بنام مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری

جناب مولوی صاحب بالقابہ ۔ تسلیم ۔ کمال ادب واحترام کے ساتھ گذارش یہ ہے کہ اوائل ماہ گذشتہ میں آپ حافظ آباد (پنجاب) میں اس غرض سے تشریف فرما ہوئے کہ مسیحیوں سے مباحثہ کریں۔ آپ نے وہاں اسلامی طریق نجات کو پیش کیا اور پادری سلطان محمد خان صاحب پروفیسر عربی نے بھرے جلسہ میں تحدی کی کہ اگر آپ یہ ثابت کردیں کہ اسلام میں نجات ہے تومیں مسلمان ہوجاؤ نگا اورآپ کی تمام ہندوستان میں بہت شہرت ہوجائیگی۔ اس پر آپ نے دور اندیشی اورمصلحت کی راہ سے یہی مناب جانا کہ اسلامی طریقِ نجات پر بحث نہ ہواور طرح طرح کے حیلوں اور بہانوں سے گریز کیا۔ اس پر جناب پادری عبدالحق صاحب نے جن کی تعریف میں آپ کا اخبار کئی سالوں سے لبریز رہتا ہے آپ کو کھلا چیلنج کیا تاکہ کسی طرح سے بھی آپ کو راہ فرار روئے گریز نہ مل سکے۔ مگر دور اندیشی نے آپ کا دامن پکڑا اور مصلحت نے کچھ کان میں کہا اور آپ نے پھر بھی انکار ہی کیا۔ پادریوں کے چیلنج پر چیلنج اورآپ کے گریز وفرار کا مسیحیوں  ہندوؤ ں اور بالخصوص مسلمانوں پر خاص اثرپڑا جس کے ثبوت میں آپ کا اپنا اخبار موجود ہے۔

وہ جب آئینہ دیکھیں گے توہم اُن کو بتادینگے۔ اس پر پادری صاحبان نے آپ سے کہا کہ اسی مقام پر ۱۵ ستمبر ۱۹۲۸ء تک اسی مسئلہ پر آپ مباحثہ کرلیں اورآپ وعدہ کرکے وہا ں سے روانہ ہوئے۔

امرتسر جاکر آپ نے اپنے اخبار اہل حدیث  میں پادری سلطان محمد خان صاحب کے نام ایک" کھلا مکتوب" لکھا جس کا جواب میں نے آپ کی خدمت میں ارسال کرکے درخواست کی کہ اسے اہل حدیث میں چھاپ دیں تاکہ ناظرین اہل حدیث آپ کے "کھلے مکتوب" کا جواب بھی ملاحظہ کرلیں۔مگر آپ نے ابتک اسے شائع نہیں کیا اور لکھ دیا کہ میں اسے شائع نہیں کرسکتا۔ اب میں پبلک کے تقاضا سے تنگ آکر اسکو مستقل ٹریکٹ کی صورت میں شائع کررہا ہوں تاکہ پبلک آگاہ ہوجائے۔ کھُلے گا راز سارا ضبط الفت کے نہ ہونے سے چونکہ نجات کا مسئلہ بنیاد ی مسئلہ ہے۔ اس لئے اس پر فیصلہ کن مباحثہ کرنے سے کروڑوں مسلمانوں اور مسیحیوں کو روحانی فائدہ حاصل ہوسکتاہے۔ پس پادری صاحب کے ایماء اور مشورہ سے جناب سے مطالبہ کرتاہوں کہ آپ اُن سے پنجاب کے کسی بڑے شہر میں اسی موضوع پر تقریری مناظرہ کرلیں اور پنڈت رام چندر دہلوی ثالث ہوں۔ جنہیں آپ منظور کرچکے ہیں۔ چونکہ پادری موصوف  ایف سی کالج میں پروفیسر ہیں ۔ اس لئے اُن تاریخوں میں مناظرہ ہو جن میں کالج مذکورہ بند ہو۔ آپ مدعی  ہونگے کہ اسلام میں نجات ہے۔ مہربانی سے جواب بذریعہ  اخبار ڈاک بھیج کر متشکر فرمائیں۔

(ایم۔کے خان)


(۱)

ویدانت

جملہ مذاہب  کے معتقدات اِس امر میں اتفاق کلی رکھتے ہیں کہ تمام نوع انسان کی طبائع کوکسی نہ کسی طرح سے عرض گناہ عراض ہے۔ اور استقرانی طورپر بھی گناہ کی ہمہ گیری مسلم الثبوت ہے۔ مسئلہ گناہ پر پوری بحث ہم آگے چل کر مناسب مقام پر کریں گے ۔سردست عقیدہ ویدانت کے مطابق گناہ اورنجات پرمختصر طورپر لکھیں گے۔ ویدانتی لوگ گناہ کو اگیان اودیا اوربھرم وغیرہ ناموں سے پکارتے ہیں۔ اوراُن کے مسلمات کے مطابق گناہ یا پاپ ایک اعتباری محض اور عدمی شے ہے۔ اور خارج میں اُس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اوراُس کو محض اگیان یا بھول ہی مانتے ہیں اورگیان پراپتی کوبرہم پراپتی کا سبب مانتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ برہم میں سے پرکرتی یا مایا پیدا ہوئی ۔ اورپرکرتی نے ہی برہم کواپنے جال میں پھنسالیا۔جیسے مکڑی میں سے جالا نکلا اوراُسی نے مکڑی کوپھنسارکھاہے۔ یہ جگت نتھیار (خواب ووہم ) ہے اوربرہم ست(حقیقت ) ہے۔

دراصل برہم اورمایا (مادہ پرکرتی ) کا جوخیال ہے وہ بائبل کی تخلیق آدم وحوا کا ایک بگڑا ہوا اور کسی قدر صاف عکس ہے۔ ہم مان لیتے ہیں کہ آدم برہم تھا اورحوا مایا پرکرتی ہے۔ اورحوا نے آدم میں سے بالکل نکل کر آدم کو ہی اپنے فریب میں پھنسالیا۔ اوراس طرح سے گناہ دنیامیں آیااورسب آدمیوں میں پھیل گیا۔ اورتمام آلام ومصائب گناہ کا نتیجہ ہیں۔ اورپھر وہ مانتے ہیں کہ اگیان (جہالت) کی تاریکی سے نکل کر گیان کوحاصل کرنا ہی مُکتی یا براہم پراپتی ہے۔ اوراس طرح جیو اور مادہ برہم میں لین یا ابھید ہوجاتاہے۔جس طرح صوفی لوگ بھی آخری منزل کو فنافی اللہ ہونا مانتے ہیں یعنی جیو(روح) اوربرہم میں کسی قسم کا تغیرہ وتفاوت نہیں رہتا۔ بلکہ التصاق تام ہوتاہے۔ اور دُوئی کے پردہ کے ہٹ جانے سے ایسا ہی ہوتاہے جیسے ایک حباب یا قطرہ سمندر میں غائب ہوکراپنے خصوصی امتیاز کوکھودیتا اوراُسی کا رُوپ ہوجاتاہے۔ دراصل وہ برہم سے اُوپر کسی اعلےٰ ہستی یا خالق کے قائل ہی نہیں ہیں۔

ہم مانتے ہیں کہ جس طرح گناہ کے باعث انسان کی خداسے جدائی ہوئی اُسی طرح گناہ سے مخلصی حاصل کرکے انسان آدم والی ابتدائی پاکیزہ حالت پر بحال ہوکر پھرتقریب الہٰی حاصل کرتاہے۔ لیکن ہم نجات دہندہ اورنجات یا بندہ کی ہستیوں میں امتیاز کے قائل ہیں۔ اورخالق ومخلوق کوجُدا جُدا متمائز ہستیاں مانتے ہیں۔ یعنی نجات کی حالت میں ہم خدا کی عین ذات نہیں ہوجاتے ۔ بلکہ اوصاف ملکوتیہ کے باعث خداکی مُشابہت قریبی رکھتے ہیں۔ جیسے ابتدا میں خدا نے آدم کواپنی صورت پر ذی ارادہ پاک اور فعل مختار بنایا۔ اُسی طرح دوبارہ شبیہ اللہ کے ساتھ ظلی طورپر ہماری مُشابہت ہوجاتی ہے۔ نہ یہ کہ برہم میں لین ہوجاتے ہیں۔ جب مسیح جوہماری زندگی ہے ظاہر کیاجائےگا توتم بھی جلال میں اُس کے ساتھ ظاہر کئے جاؤگے"(کلسیوں ۳: ۳۔ ۴) ویدانتیوں کا خیال ہے کہ برہم ہی خالق اوربرہم ہی مخلوق ہے۔ مگر اُن کا یہ خیال نادرست ہے کیونکہ خالق ومخلوق ۔ فاعل ومفعول اورصانع ومصنوع میں کوئی امتیاز نہیں رہتا۔ یا توخالق ومخلوق اورکارن وکارج مترادف الفاظ ہوں گے۔جس طرح پیارومحبت ۔ اوررنج وغم مترادف اورہم معنی الفاظ ہیں اور یہ سراسر محال ہے۔ جس طرح ضارب کے بغیر مضروب والد کے بغیر پسر اورکاتب کے بغیر مکتوب کا وجود محال ہے۔ اُسی طرح صانع کے بغیر مصنوع اورکارن کے بغیر کارج کا ہونا ناممکن ومحال ہے۔ ورنہ کارن وکارج وغیرہ توہمات کا ذخیرہ ہوں گے۔

دوم۔ یہ لازمی امر ہے کہ فاعل کا وجود مفعول سے مقدم ہواور مفعول کے فاعل کے ارادہ میں توقدیم ہوسکتاہے ۔ لیکن وجود خارجی کے اعتبار سے مفعول اور فاعل آنِ واحد میں کبھی نہیں ہوسکتے۔ اگریُوں ہوناممکن ہو توپھر کوئی کسی فعل کا فاعل نہیں ہوسکتا۔ ضرور ہے کہ فاعل مقدم اور مفعول موخر ہو۔

سوم۔ برہم ست اور جگت متھیا کا خیال بھی ابتدائی سوء عقیدت اور کورانہ فلسفہ کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ متھیاشئے ست شئے کا جُز نہیں ہوسکتی ۔ کیونکہ کسی شئے کا اپنے نقیض میں سے برآمدہ ہونا محال ہے۔ سورج میں سے تاریکی شہد سے تلخی اور سفید میں سے سیاہی کبھی نکل نہیں سکتی۔ اسی طرح ست برہم میں سے متھیا جگت کابرآمدہونا ناممکن ومحال ٹھہرا۔ ویدانتیوں کا یہ خیال ہے کہ جیسے ایک ہی سوت سے مختلف الوان واشکال کےکپڑے بنتے ہیں۔ اوراُن کے مختلف نام رکھےجاتے ہیں مگر ادُھیڑنے پر وہی سُوت کا سوت رہ جاتاہے۔ اسی طرح ایک ہی برہم ہے جو جگت کی بوقلموں اشیاء میں جُدا جُدا معلوم ہوتاہے۔ اور وہ اشیاء مختلف ناموں سے پکاری جاتی ہیں مگر ہے " سروم کھلودم برہم" لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ سونے کی ایک اینٹ ہے اُس کی ڈھال کر مختلف اطوار اوراشکال کے زیورات  بناکر اُن کے متفرق نام رکھے جاتے ہیں ۔ تاہم وہ سونا زیورات کی صورت میں تبدیل کردینے سے بھی سونا ہی رہے گا۔ پیتل نہیں بن جائے گا اورنہ ہی متھیا ہوگا۔کیونکہ ست میں سے است کبھی برآمد نہیں ہوسکتا۔پس ثابت ہوا کہ برہم ست ہے توجگت بھی ست ہے۔ گرنتھ صاحب کی گواہی بھی یہی ہے کہ" آپ ست کیا سب ست" ۔ علاوہ ازیں اگرسچ مُچ ویدانت کے خیال کے مطابق یہ دنیا محض وہمی وخیالی ہو توچاہیے کہ اگر آگ کوپانی کہاجائے تووہ پانی ہوجائے۔اوراسی طرح اگردن کورات کہہ دیا جائے توفوراً رات ہوجائے۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ پس عالم کی حقیقت ثابت ہے۔ اورجگت متھیا اوربرہم ست کے مسئلہ کا ابطال ظاہر ہے۔

چہارم ۔ عقیدہ ویدانت کے مطابق خدا کامُرکب ماننا پڑتاہے کیونکہ تمام جہادات ۔ نباتات حیوانات اورارواح کا اُسی میں سے برآمد ہوناثابت کرتاہے کہ تمام مادی وغیرہ مادی اشیا برہم کے اجزا ہیں۔ اول تو مادی وغیرہ مادی آپس میں ایک دوسرے کے اجزاء نہیں ہوسکتے۔ اور پھر برہم کے اجزا مانتے سے برہم کوترکیب لازم آتی ہے۔ اور شۓمُرکب اول توحادث ہوتی ہے اوربرہم کا حدُوث ایک اور خالق کو گنجائش دیتاہے۔ جو اُس سے قدیم ہوکر اُس کی بھی علت ٹھہرے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ مُرکب ہونا کوئی اعلیٰ صفت نہیں چاہتا ۔ ترکیب ادنیٰ اجسام کا خاصہ ہے۔ روح اعلیٰ وجود ہے اور وہ غیر مُرکب ہے۔ جسم ادنیٰ شے ہے اور یہ مُرکب ہے۔ پس برہم کا مُرکب ہونا اُس کے متنزل اورادنیٰ ہونے کی دلیل ہے۔

پنجم ۔ ویدانت کے مطابق برہم کو سُگن اور نِرگن مانا جاتاہے۔ یعنی جب اُس کا تعلق تین گنوں ست ۔ رج۔ تم سے ہو تو وہ سگن ہوتاہے اور جب ان تین گنوں سے جدا ہو تو وہ نرگن ہوتاہےاورجب ان تین گنوں سے جدا ہو تووہ نرگن ہوتاہے۔ لیکن اُن کا یہ نظریہ بھی دیگر خیالات کی طرح خلافِ عقل ہے۔ ذات اور صفات آپس میں لازم ملزوم ہیں۔ ذات مجموعہ صفات ہے۔ جس طرح صفات کا وجود بغیر موصوف کے محال ہے۔ اُسی طرح موصوف کا وجود بلاصفات ممکن نہیں۔ برہم کو سگن اورنرگن ماننے کے یہ معنی ہوئے کہ وہ ذی صفات بھی ہے اورلاصفات بھی۔ اس طرح واحد ذات میں دونقیضوں کا اجتماع جائز ٹھہرا کر خداکی ہستی سے منُکر ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی وقت میں ایک شخص عالم بھی ہو اور لاعلم بھی۔زندہ بھی ہو اور مرُدہ بھی ۔ موصوف کے بغیر صفت اور صفت کے بغیر موصوف کا وجود قطعی محال وممتنع ہے۔ مثلاً آگ ذات ہے اور حرارت اُس کی صفت ۔ اگر حرارت نہ رہے توآگ کی ذات کا انکار لازم آئے گا اور اگر آگ نہ ہو توحرارت کا وجود کہاں رہیگا ۔ پس لامحالہ ایک ہی خدا سگن اور نرگن دونوں نہیں ہوسکتا اورمحض نرگن بھی نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ بے صفات شئے اعتباری محض اور عدمی ہوگی نہ کہ نفس الامری اورحقیقی۔ پس یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ خدا ذی صفات(سگن) ہے۔ اس لئے کہ وہ حقیقی وجود ہے۔ اس لئے بھی کہ مخلوقات جواُس سے صادر ہوئی وہ ذی صفات ہے۔(رومیوں ۱: ۱۹سے ۲۰)۔ اگر خالق کو بے صفات (نرگن) مانا جائے اوراُس کی مخلوقات کوذی صفات (سگن) توایک نقیض کودوسرے نقیض کی علت ماننا پڑے گا۔اوریہ محال ہے۔ لہذا خدا الحی ۔ ذی صفات اورحقیقی وجود ہے اور ویدانت کا عقیدہ سراسر باطل ہے۔

رہا یہ خیال کہ جو کچھ نظر آتاہے سب برہم ہے۔ اس کے متعلق یہ اُمور قابل غور ہیں کہ جبکہ کوئی انسان اپنے جسم۔ رنگ۔ شکل وصورت ۔ خدوخال ۔ صحت وسقم ۔ عادات وخصائل اورحُسن وقبح میں کسی دوسرے انسان سے مناسب ومطابقت تام نہیں رکھتا ۔ بلکہ ہر انسان میں ایک دُوسرے ششم ۔ سے نمایاں امتیاز پایا جاتاہے۔ اورجس کے باعث ہم ماں باپ بہن بھائی حاکم محکوم اور دوست ودشمن کو جُدا جُدا پہچانتے ہیں۔ اوران امتیازات کے باعث ہرایک کی شخصیت کے متعلق "میں" کا احساس ہونے پر دیگر افراد سے خودکو ممتاز سمجھتے اوراپنی شے کو" میری" کہتے اور اپنی اشیاومقبوضات کودیگر افراد کی اشیا سے عزیز رکھتے اور اُن کے کھوجانے پر افسوس کرتے ہیں توکس صورت میں تمام خلقت ایک برہم ہوسکتی ہے؟ زید کے مبروص ہونے سے بکر کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ایک کوگیان ہونے سے سب کوگیان نہیں ہوتا۔ ایک سانپ کوماردینے سے تمام سانپوں کا زہر دُور نہیں ہوتا۔ توبھلا اس خیال کی صحت کی کیا دلیل ہوسکتی ہےکہ" سروم کھلودم برہم" بلکہ اس خیال میں ایک بھاری قباحت یہ ہے کہ بہن ۔ بیٹی۔ ماں۔ زوجہ ۔ خالہ اور دادی وغیرہ رشتوں میں کوئی فرق نہ رہنے کے باعث ان سب کوایک ہی نگاہ سے دیکھنا پڑے گا۔اورتمدنی وخاندانی زندگی میں سخت مشکلات پیش آئیں گی۔ اوران تمام رشتوں ناطوں کا باہمدگرممتاز صُورت قائم رہنا بھی اس عقیدہ کے ابطال کی ایک مسکت دلیل ہے۔

ہفتم ۔ اور اگر فی نفسہ یہ تمام جگت ایک ہی برہم ہے۔ توذات پات اور اُونچ نیچ کے مکروہ وناشائستہ خیالات اوراعلےٰ وادنیٰ کے امتیازات کے کیا معنی ہیں؟ ویدانتی بھگتوں کو توکتے بلیوں اور گدھوں کووں کے ساتھ کھانے پینے سے بھی پرہیز جائز نہیں۔ چہ جائیکہ اچھوتوں کے ساتھ چھوجانا بھی زندہ درگور ہونے کا مصداق بنا ہوا ہے۔ اگرسرب جگت کوبرہم ثابت کرنے بیٹھے تھے توپہلے ان معمولی ابتدائی باتوں کی تواصلاح کرلیتے اورکم ازکم چھوت چھات کے قلعہ کو توپہلے سرکرلیتے ۔اگر ویدانت کی یکتائی کی تعلیم کی مثال سوائے ویدانت کی دنیا کے اورکسی بھی مذہب میں موجود نہیں۔ لیکن اگربرہم گیانیوں کے عملی پہلو کو دیکھ جائے تواُن کی سی امتیاز پسندی اورباہمد گرنفرت وجدائی کے خیالات کی کثرت کی مثال بھی کافہ انام پر اورکسی مذہب میں ہرگز ہرگز نہ ملے گی۔ گویا یکتائی توصرف زبان کے لئے ہے اور جدائی عمل کرنے کے لئے ۔ یہ تو اُس شخص کا سا حال ہوا کہ جس کے گھر میں توافلاس کی وجہ سے چوہے بھوکے مرتے ہوں اور زبان سے رٹنا پھرے سونا۔ سونا۔ اگران بھلے آدمیوں سےکوئی پوچھے کہ صاحب ! ایسی زبردست یکتائی کی تعلیم اورپھر ان امتیازات کے معنی؟ توجواب یہ ہوتا ہے کہ ابھی ہم اگیانی ہیں۔جب گیان ہوجائے گا توامتیازات نہ رہیں گے۔ اول توہمیں آج تک کوئی ویدانتی پوُرن گیانی نہیں ملا۔ اگرکوئی ہزار میں سے ایک ہوگا توگیان کی مشین کی سست رفتاری پرشک کی گنجائش نہیں۔ دُوسری بات یہ ہے کہ جوشخص یہ اقرار کرتاہے کہ ابھی مجھے پورا گیان نہیں ہوا جب ہوجائے گا تو امتیازات کوچھوڑدونگا ۔ تواُس کے اس اقرار ہی سے ثابت ہے کہ وہ ان امتیازات کی قباحت سے آگاہ ہے اور اُنہیں مٹانا بھی چاہتاہے توبھلا ا س سے زیادہ گیان اورکیا ہوتاہے۔ سب زبانی جمع خرچ ہے اور حقیقت ندارد۔ اپنی اخلاقی کمزوریوں کی پردہ دری کے لئے اگیانی بن جاتے ہیں۔ ایسی تعلیموں نے ملک کی ذہنیت کوغایت درجہ پست کر رکھا ہے۔ اورجب تک ان خیالات کی جان کا فاتحہ نہ پڑھا جائیگا ہم حقیقی اخلاقی شائستگی ۔ تمدنی آزادی اور رُوحانی ترقی سے بے نصیب رہیں گے۔شُکر کا مقام اورہماری خوش قسمتی ہےکہ مسیحیت نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس قلعہ بطلان پر بمباری کرنے کے لئے میدان کارزار میں ڈیرے ڈال لئے ہیں اور صرف مسیحیت نے ہند میں تمدنی اصلاحات اورمساوات کی تحریکوں کوجنم دیا ہے جس کی تقلید پر آج آریہ۔ سکھ اور مسلمان جھکے ہوئے ہیں۔

پھر کوئی ان ویدانتیوں سے یہ توپوچھے کہ کسی شیر چیتے اور سانپ وغیرہ سے خائف وسہمگیں  ہوکر کیوں بھاگے جبکہ وہ اُسی کا رُوپ ہے ۔ کوئی دویت نہیں۔ اس واجبی اجابت کا جواب اکثر ہمیں یہ دیا جاتا ہے کہ بھرم کے آگے بھرم بھاگتاہے۔ یا یوں کہیں کہ بھرم سے ڈر کر بھرم بھاگ جاتاہے نہ ہشتم کہ ویدانتی ۔ اس مضحکہ خیز جواب سے ہمیں ہنسی آتی ہے۔ اول اس لئے کہ شیر او رویدانتی دونوں حقیقی اور خارجی وجود ہیں کہ نہ وہمی۔ اورپھر دونوں برہم۔ دُوسرے یہ کہ وہم سے وہم کیسے ڈرکر بھاگ سکتا ہے؟ دُوسرے الفاظ میں اُس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک وہم دُوسرے وہم کو دُور کرسکتاہے۔ حالانکہ یہ صریح باطل ہے ۔ دواشیا جواپنی خاصیت میں ایک ہی ہیں وہ ایک دُوسرے کی مدافعت نہیں کرسکتیں ۔ مثلاً سردی  سردی کو اور گرمی گرمی کو اورتاریکی تاریکی کوکبھی دُور نہیں کرسکتی۔کوئی بھی خاصیت اپنی متضاد خاصیت کے وسیلے دُور کی جاسکتی ہے۔ لہذا وہم وہم سے ڈرکر بھاگ نہیں سکتا۔ بلکہ ویدانتی شیر سے ڈر بھاگتاہے۔ اسی سے اُن دونوں میں مغائرت وتفاوت ظاہر ہے ۔پس ثابت ہوا کہ تمام جگت برہم نہیں ہے۔بلکہ خدائے واجب الوجود وفوق الفطرت تمام مصنوعات مرئیہ اور غیر مرئیہ اور سفیلہ وعلویہ کا واحد خالق اورصانع ہے۔ اور وہی تمام کائنات پر حکمران ہے۔ وہ مُرکب نہیں۔ نرگن نہیں ۔ گیان واگیان ہردوکابانی نہیں۔ اُس نے مخلوقات کواپنے میں سے نہیں نکالا اور نہ ہی تمام ممکنات فنا ہوکر اُس میں مل جائیں گی۔ وہ ازلی وابدی غیر مرئی ۔ لطیف الحی ذی صفات خالق مالک رازق فوق الفطرت اور ادراک عقل انسانی سے باہر ہے۔

آتما نیتہ مُکت ۔ ویدانیتوں کا خیال ہے کہ آتما نیتہ مُکت اور برلیب (منزہ عن الخطا)ہے۔ اوراُس پر گناہ مطلق اثر انداز نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ غیر مادی اور غیر متاثر ہے۔ وہ ہمیشہ پاک وصاف رہتی ہے۔ پاپ(اگیان) صرف ستھول دیہہ (کثیف جسم) ہی سے متعلق ہے۔ اوردکھ سکھ کے سب اثرات دیہہ ہی پر ہوتے ہیں۔ رُوح ان کیفیات سے قطعی متکیف نہیں ہوتی۔

اول۔ اگر تنزہ تام روح کا خاصہ ذاتی ہے۔ اورگناہ جسم کا خاصہ ذاتی ہے۔ تواس صورت میں رُوح اورجسم کی طبائع باہمد گرمتضاد ہوئیں۔ اور ضدین کا اجتماع محال ہے۔ اوریُوں انسانی زندگی کا قائم رہنا محال ٹھہرا۔(شائد اسی واسطے جگت کومتھیا سمجھتے ہیں ) لیکن انسانی زندگیاں قائم ہیں۔ پس گناہ کا تعلق روح وجسم دونوں سے ثابت ہوگیا۔

دوم۔ اگر پاکیزگی اورمعصومیت تام روح کا خاصہ ذاتی ہے۔ تو حصول موکھش (نجات) یابرہم پراپتی کی خاطر اس قدر کٹھن ریاضیتیں کرنا فضول اور تحصیل لاحاصل ہے ۔جسم کے فنا ہونے پر آتما پرماتما میں جاملے گی۔ کسی کوتپ جپ سادھن وغیرہ کی مطلق ضرورت نہیں۔ یہ سراسر گمراہ کن عقیدہ ہے۔ دراصل اشرف شئے کے فساد سے ادنیٰ شئے کا فساد لازم آتاہے ۔ اگر اصل الشجر سوُکھ جائے توڈالیاں کبھی قائم نہیں رہ سکتیں۔ برعکس اس کے ڈالیوں کے سُوکھ جانے سے جڑ کا نقصان نہیں ہوسکتا ۔ اسی طرح روح جسم کی بہ نسبت اشرف ہے۔ اگراُس میں بگاڑ پیدا ہوجائے تولازمی امر ہے کہ جسم بھی اُس بگاڑ سے متاثر ہو۔پس اگر جسم میں گناہ موجود ہے توروح میں اُس سے پہلے ہے۔ جب تک رُوح کی اصلاح نہ کی جائے جسم کی اصلاح ناممکن ہے اورجسم مادہ ہے۔ اور مادہ بذاتہ غیر مُدرک اور غیر متحرک ہے۔بغیر روح کے سہارے کے وہ اچھا یا بُرا کوئی عمل نہیں کرسکتا۔ پس ہر طرح سے رُوح پر ہی الزام آتاہے۔ اس لئے آتمانیتہ اور نرلیب ہرگز نہیں ہوسکتی"۔

سوم۔ پس جبکہ رُوح اورجسم دونوں گناہ آلودثابت ہوگئے تواب سوال لازم آتاہے کہ پھر گناہ کا وجود حقیقی ہے یا اعتباری محض۔ اگرکہو اعتباری توامراعتباری کی مدافعت کے لئے خارجی تدابیر جیسے سادھن ریاضت وغیرہ اورکرم دھرم وغیرہ بے سُود وبےکارٹھہرتے ہیں۔ اورجب گناہ مفروض ذہنی ٹھہرا تودکھ جوپاپ کا نتیجہ ہے وہ بھی ناپید ہونا چاہیے۔ اورکوئی بھی دنیا میں دُکھیا اورمصیبت زدہ نہ ہونا چاہیے۔ اوراگر دُکھ اورپاپ کوئی موجود فی الخارج شۓ نہیں توتناسخ کس پرند ے کا نام ہے ۔ اور ویدانتیوں کی جُملہ تدابیر دربارہ مدافعت اگیان اور حُصول موکھش کیا معنی رکھتی ہے؟ یہ تواُس سڑی آدمی کا ساحال ہوا جوبری یا سیمرغ (ایک فرضی عظیم الحبثہ پرندہ جس کی نسبت وہمی لوگوں کا خیال ہے کہ ہاتھی کوپنجوں میں لے کر اڑجاتا ہے)کے خوف سے غاروں میں چھپتا پھرے۔ اور یا حُصول اقبال ودولت کے لئے ہُما کی تلاش میں صحرا نوروی وبادیہ پیمائی کرتاہے پھرے۔حالانکہ یہ دونوں پرندے قوتِ واہمہ کی اختراع کا وہمی نتیجہ ہیں۔ اگرکہو کہ گیان ہونے پر ان وہمی تصورات کا سدباب ہوجاتاہے توکیا اب کس برہم گیانی کو دکھ درد محسوس نہیں ہوتا؟ اگراب محسوس ہوتاہے توپہلے اُس کا وجود حقیقی تھا نہ کہ اعتباری ۔ اوراگر کہو کہ اب بھی دکھ درد محسوس نہیں ہوتا تویہ صریح باطل ہے۔ اگر کوئی روز روشن میں سُورج کے وجود سے انکاری ہو تو اُس کے مخبوط الحواس اور سڑی ہونے میں شک کی گنجائش نہیں۔ چُونکہ دُکھ درد وغیرہ کا وجود دنیا میں بدیہی الظہور ہے اور کسی ثبوت کا محتاج نہیں اور دکھ نتیجہ ہے پاپ کا۔ پس جب دُکھ کا وجُود حقیقی ثابت ہے تواُس کا سبب یا علت یعنی گناہ کیونکر اعتباری ہوگا۔ لہذا گناہ بھرم اور وہم نہ رہا بلکہ حقیقی ٹھہرا اوریہ بالکل صحیح ہے۔

گیان۔ گناہ اوراُس کے نتائج دُکھ درد اور رنج ومحن کا وجود عالم میں بدیہی ہے۔ویدانتیوں کا خیال ہے کہ گیان ہونے پرگناہ (بھول) معُدوم ہوجاتاہے۔ واضح ہو کہ گیان کے معنی علم ہیں۔ کسی بیماری کا محض علم اُس کا علاج نہیں ہوسکتا۔اگربیماری کا علم ہی اُس کا علاج ہوسکتا تو صفحہ ہستی پر ڈاکٹروں اورحکیموں کا وجود ناُبود ہوتا۔کسی مریض کواُن کا منت کش احسان ہونے کی کبھی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ بلکہ اپنے مرض کے محض علم ہی سے شفا ہوجایا کرتی۔ گیان وغیرہ کے بھروسے پر رہ کر گناہ کی طرف سے آنکھیں بند رکھنا سخت نادانی اورکج فہمی ہے۔ گیان یا علم (شرع) سے تومحض گناہ کی پہچان ہوتی ہے۔(رومیوں۳: ۲۰) فرض کروایک شخص اندھیری رات میں ایک ایسے مکان میں سویا ہوا ہے جواندر سے نہایت گندہ اور غلیظ ہے۔ مکڑی کے جالے۔ کوڑا کرکٹ وغیرہ بکھرے پڑے ہیں۔لیکن وہ شخص نہایت اطمینان سے اُس میں شب باش ہے۔ اب ایک دوسرا شخص چراغ لے کر اُس کمرے میں وارد ہوتاہے۔ لیکن چراغ کی آمد سے مکین کی طبیعت میں ایک دم ایک انقلاب پیدا ہوجاتاہے۔ اب وہ پہلے کی طرح مطمئن اورپُرسکون نہیں رہتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ چراغ کی روشنی نے مکان کی غلاظت وگندگی کواُس پر ظاہر کردیا۔ اب وہ ایک لمحہ تک اُس میں رہنا نہیں چاہتا۔ اب وہ چاہتاہے کہ اُس مکان کوفوراً غلاظت سے پاک کیا جائے۔ لیکن ظاہر ہے کہ چراغ اُ س مکان کوہرگز صاف نہیں کرسکتا۔ وہ توصرف اُس کی گندگی کوظاہر کرکے محض اُس کی مدافعت کی طرف مائل ہی کرسکتا ہے۔ اسی طرح گیان (علم شرع) کوایک چراغ سمجھیۓ۔ (زبور ۱۱۹: ۱۰۵)وُہ انسان کے گناہوں کی کراہت کو اُس پر ظاہر کردیتاہے۔ لیکن دُور نہیں کرسکتا۔ البتہ وہ نجات کی ضرورت کومحسوس کرواکے کسی طبیب روحانی کی طرف ترغیب دلاسکتاہے۔اور متلاشی حق بنادیتاہے۔ اور اُن کا یہ خیال بھی عجیب ہے کہ گیان حاصل ہونے پر سادھن (عملی تدابیر) ختم ہوجاتے ہیں۔ جیسے پھل لگنے پر پھُول خود بخود جھڑجاتے ہیں۔ اور مسیحی مسلمات کے مطابق گیان(علم شرع) کے حُصول کے بعداصل سادھن شروع ہوتے ہیں۔ جیسے مرض کا علم ہوجانے پر بُہت سے غذاؤں سے پرہیز رکھنا اور بہت سی دواؤں کا استعمال کرنا پڑتا ہے پُرانی انسانیت کو اُس کےکاموں سمیت اُتارنا پڑتا اور نئی انسانیت کو پہننا پڑتا ہے(کلسیوں ۳: ۹-۱۰) برہم گیانی کو تونیک اور بد دونوں قسم کے کاموں کو تیاگنا پڑتاہے ۔ لیکن انجیل اس کے برخلاف یہ حکم لگاتی ہے کہ "پس جو کوئی نیکی کرنا جانتاہے اورنہیں کرتا اُس کے لئے یہ گناہ ہے"(یعقوب ۴: ۱۷)۔ جب تک خوابیدہ شخص کو گھر میں لگی ہوئی آگ کا علم ہی نہیں وہ اُسےکیسے بجھا ئے گا ؟جونہی اُس کی آنکھ کھلے گی اورمکان کی آتشزدگی کا گیان ہوگا وہ ایک دم عملی تدابیر (سادھن) اُس کے بجھانے کی کرے گا۔ اگر آگ کا گیان ہونے پر بھی اُس کے بجھانے کی ضرورت کا قائل نہ ہو تو اُس کے سڑی ہونے میں کیا شک ہے؟

مکتی ازروئے ویدانت ۔ اوپر ہم واضح طورپر دکھاچکے کہ گیان یا علم محض سے نجات کا حصول ناممکن ہے۔ البتہ گیان گنہگار انسان پر اُس کی گناہ آلودہ اورمکروہ حالت کوپورے طورپر آشکارا کردیتاہے۔ اوراُس سے چھٹکارا ہرگز نہیں کراسکتا۔بلکہ نجات کی ضرورت محسوس کروادیتا ہے۔ اور ویدانتی مکتی کوچار قسم کی مانتے ہیں یا یوں کہیں کہ ازروئے ویدانت نجات کے چار مدارج ہیں۔ یعنی : سلوک۔ سمیت۔ سُروپ ۔سمُجھ۔

اول۔ سلوک ۔ یعنی برہم کے دیس میں رہنا۔ دوم۔ سمیپ ۔ یعنی برہم کی قرُبت میں رہنا۔ سوم۔ سُروپ ۔برہم کے ساتھ مشابہت ومماثلت حاصل کرنا۔

چہارم۔ سمجھ یعنی برہم کی عین ذات ہوجانا۔ جس کی وہ ابھید ہونا یا برہم میں لین ہونا۔ (سما جانا) کہتے ہیں۔ وحدۃ الوجود یعنی سمجھ ہی مُکتی کا کمال ہے۔

اگربغور دیکھا جائے تویہ کوئی کمال کی حالت نہیں بلکہ برعکس اس کے انتہائی زوال اور عدم کی حالت ہے۔ اول توابھید ہونے میں کوئی آنند نہیں کیونکہ تودوئی (دویت) میں ہوتا ہے نہ کہ ادویت میں۔ ایک طرف معبود ہو اور دُوسری طرف عابد اپنے معبود کے وصل سے اپنی مُدتوں کی تشنہ روح کی تشنگی بجھائے اوراُس کے دیدار فیض آثار سے اطمینان قلبی اورسکون باطنی حاصل کرے۔ یک جان دوقلب ہوجائیں تب حقیقی آنند ہے۔ لکن برہم میں فنا ہوجانا کوئی اطمینان کی بات نہیں ہے۔ایسی مکتی نہیں بلکہ انتہائی بے بسی اورلاچاری کی حالت ہے ۔ اورنہ ہی ازروئے عقل یہ ممکن ہے کہ جیو جوا لپگیہ (محدود) ہے۔ برہم میں جوسروگیہ (لامحدود ) ہے کسی صورت ابھید ہوسکے۔ کیونکہ متنا ہی وجود لاانتہا زمانہ تک ترقی کرتے جانے سے بھی کبھی بے حد نہیں ہوسکتا ۔ازیں جہت محدود ولامحدود جو باہم نقیضین ہیں کبھی متحد نہیں ہوسکتے۔ازروئے ویدانت انسان کے  بھلے اور بُرے افعال کی جزاوسزادینے والا کوئی عادل ومصنف خدا نہیں ہے۔ اوربرہم ہی ہر طرح کی نیکی وبدی کا مخرج ومنبع ہے اور دونقیضوں کا علت واحد پر اجتماع جائز سمجھتے ہیں۔ اورپاپ اُن کے نزدیک غیر فطری امر نہیں ہے۔ پاپ کا نتیجہ چوراسی لاکھ جنموں کا چکر اورپاپ کے تیاگ اور گیان پراپتی کا انجام برہم کی ذات میں فنا ہوکر ہمیشہ کے لئے معدوم اورناپید ہوجانا ویدانت  کے مطابق طریق حیات اورنجات وغیرہ کا تصور نہایت گمراہ کن اور ہلاکت آفرین ہے۔اس کے مطابق انسان کو نراچھت (بے خواہش) ہونا نجات کے لئے ضروری ہے ۔ یہ بھی قانون قدرت کے خلاف جہاد ہے کیونکہ انسانی فطرتی طورپر بے خواہش نہیں بلکہ باخواہش پیدا کیا گیا ہے۔ البتہ خواہشات کا نیک ہونا انسانی کمال کا نشان ہے۔ اور عدم خواہش توادنیٰ اجسام کی خاصیت ہے۔ جیسے پتھر ۔دھات اورنباتات وغیرہ میں اچھی یا بُری کوئی بھی خواہش نہیں پائی جاتی۔ ہاں برہم میں فنا ہوجانے سے نیستی ہی ہوگی ۔اورسچ ہے کہ نیستی میں خواہش کا وجود محال ہے۔ جبکہ چوراسی لاکھ جنموں میں سے صرف انسانی جنم ہی اعلےٰ اور بابرکت سمجھا جاتاہے ۔ اورخواہشات کا وجود اور نیک وبد خواہش کا امتیاز بھی اسی جنم میں حاصل ہوتاہے  تولازم تھا کہ اس جنم کا انتہائی کمال یہ سمجھا جاتا کہ اُس میں خواہش کا ظہور اوربھی اعلےٰ ہوتا۔ اور وہ اس صورت میں ہوتا کہ انسان کی خواہشات مفیلہ وذمیمہ معُدوم ہوجاتیں۔ اوربرعکس اس کے خواہشات علویہ وسعیدہ اورجذبات لطیفہ رُوحانیہ میں حد کمال کوپہنچتا۔ لیکن افسوس ! کہ ویدانتی لوگوں نے مُکت جیو کو قطعی بے خواہش مان کرنجات کوایک انتہائی متنزل اور ادنیٰ حالت ثابت کیا ہے۔ تاہم بے خواہش ہونا بھی خلاف واقعہ ہونے کے باعث جہل مرکب ہے۔ کیونکہ یہ امر بدیہی ہے کہ اس ملبوس ہستی میں کوئی انسان بے خواہش ہرگز نہیں ہوسکتا۔ لہذا کسی ویدانتی کومُکتی کی اُمید نہ رکھنا چاہیے۔ پھر برہم گیانی کو کسی کے ساتھ بولنا نہ چاہیے۔ کیونکہ دوسرے کو تو تم اور تمہارے وغیرہ کہنے سے دوئی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ قدرت نے زبان وذہن انسان کواستعمال کے لئے دے رکھے ہیں۔ اور قدرت اپنے قوانین کوجبری طور پر منواتی ہے۔ اوراس لئے ضرور بولنا ہی پڑتاہے ۔ مگر برہم گیانی اپنی اس کمزوری ونقیص کی پردہ داری ایک اور صورت میں کرنا چاہتے ہیں۔ کہ جوگیا سُو(طالب علم ) کوسمجھانے اور تعلیم دینے کے لئے بولتے ہیں ورنہ بولنے کی کوئی اچھیا (خواہش ) نہیں ہے۔ اجی صاحب !جوگیا سُو کواگیان کی تاریکی سے نکالنے اور راہ راست پرلانے کی فکر بھی توایک خواہش ہے ۔ خواہش کے معنی ہیں چاہنا ۔ جب تم چاہتے ہو کہ دُوسروں کو اُپدیش کرکے راہ راست پر لاؤتوخواہش اورکس پرندے کانام ہے۔ ویدانتی فنا ہونے کو مُکتی اعلیٰ حالت سمجھتے ہیں اور زندگی کو لعنت اور بُرے اعمال کا بُرا نتیجہ ۔ ہم زندگی سے خارج ہونے کو ہلاکت اور ابدی زندگی کوخدا کی بخشش اورانعام سمجھتے ہیں۔ اب ناظرین خود دیکھ لیکں کہ کونسا طریق انسان کی فلاح وبہبود جسمانی وروحانی کا آئینہ دار ہے۔ سوء عقیدت مسئلہ ویدانت کا جنم وہ ہے۔ اوراُس کی تقلید سے نہ تو انسان دینوی تہذیب وشائستگی کوحاصل کرسکتا ہے اورنہ ہی اس طبعی موت کے بعد اُس کے لئے حقیقی خوشی اوراطمینان وسکون قلبی کی کوئی اُمید باقی رہتی ہے۔ اور انسان آئندہ زندگی کی سنہری اُمیدوں سے ہاتھ دھوکر یہی کہتاہے کہ "اگر  مُردے نہ جلائے جائیں گے ۔ توآؤ کھائیں۔پئیں ۔ کیونکہ کل تومرہی جائینگے"۔(انجیل شریف۔ ۱کرنتھیوں ۱۵: ۳۲)۔

انجیلی نجات ۔ انجیل کی رُو سے نجات یا بندہ کی مختصر سی تعریف یہ ہے: ۔ پُرانی انسانیت مصلوب ہوکر گناہ کا بدن بیکار ہوجائے۔ آگے کو گناہ کی غلامی میں نہ رہے (رومیوں ۶: ۶) بدن گناہ کے سبب سے مُردہ اور روح راست بازی کے سبب زندہ ہو (رومیوں ۸: ۱۰) ۔

حُصول کمال کی استعداد پیدا ہوجائے (۲کرنتھیوں ۳: ۱۸)۔ آنخداوند مسیح کے ساتھ مشابہت ہوجائے (فلپیوں ۳: ۲۱۔ ۱یوحنا ۳: ۲)خدا کے ساتھ ملاپ(افسیوں ۲: ۱۳۔ ۲۲) سزائے عدالت سے رہائی (رومیوں۸: ۱) اوریہ نجات خدا کی بخشش ہے نہ کہ ہماری کمائی ہوئی(افسیوں ۲: ۸سے ۹) اور یہ نجات ابدی اور لازوال ہے (مکاشفہ ۲۱: ۳۔۷۔ ۲۳: ۲۷۔عبرانیوں ۹: ۱۲)۔

(۲)

روح کے متعلق عقائد

یوں تورُوح کے وجود کے متعلق دنیا میں بے شمار عقائد ہیں۔ اوراُن سب کو بحث میں لانا محال بھی ہے اور غیر ضروری بھی۔ اگر ان تمام عقائد کو اجمالی طورپر دیکھا جائے توتین قسم کے خیال معلوم ہوتے ہیں۔ یعنی ایک خیال کے مطابق رُوح مُرکب امتزاجی ہے۔ دُوسرے خیال کے مطابق ازلی وابدی اور بالذاتہ ناقابل فنا ہے۔ اور تیسرے عقیدہ کے مطابق روح حادث ہے۔ اور اپنی فنا یا بقا کے معاملہ میں ذات واجب کی محتاج ہے۔اب ہم ان ہرسہ عقائد پر مختصر طورپر کریں گے۔

روح مرکب امتزاجی ہندوستان میں چار واکئے اس خیال کے قائل ہیں کہ روح مُرکب امتزاجی ہے۔ اس عقیدہ کا بانی برہسپتی تھا۔یہ لوگ خدا کی ہستی سے قطعی مُنکر ہیں اور اُن کا خیال ہے کہ جسم وروح میں کوئی مغائرت نہیں۔ اجزائے مادی کی ترکیب سے اجسام بنتے ہیں اور وہی اجزاء روح کا مادہ ہے جسم کے فنا ہونے سے رُوح بھی فنا ہوجاتی ہے۔ جیسے ریکارڈ کے ٹوٹنے پر اُس کی آواز بھی مٹ جاتی ہے۔ اگریہ درست مان لیا جائے تورُوح مادی شئے ٹھہری اور روح کی صفت ادراک ہے۔ پس درک مادہ کی صفت میں شامل ہوجائے گا۔ اور کوئی مادی شئے غیر مُدرک نہ رہے گی بلکہ مُدرک وغیرہ مُدرک کی تفریق اُڑجائے گی۔ مندرجہ ذیل دلائل سے بھی اس خیال کا ابطال ظاہر ہوتاہے۔

  1. علم حکمت اس حقیقت پر شاہد ہے کہ سات برس کے بعد جسم کے تمام پُرانے ذرات زائل ہوکر اُن کی جگہ نئے ذرات لے لیتے ہیں اور وہ جسم بالکل نیا جسم ہوجاتاہے۔ اسی طرح اسی برس کی عمر تک گیار دفعہ جسم انسانی قطعی بدل کر ہر دفعہ نئے ذرات سے ایک نیا جسم مرتب ہوتا رہتا ہے۔ اگر ادراک وعلم وغیرہ ذرات مادیہ کی صفت ہوتی تولازم تھا کہ ہرہفت سالہ معلومات پُرانے زائل شدہ ذرات کے ساتھ ہی زائل وناپید ہو جاتیں۔کیونکہ اُن معلومات کے سرمایہ دار جوذرات تھے جب وہ نہ رہے تو معلومات کا قائم رہنا محال ہوتا۔ اوراس طرح چودہ بردس کی عمر کے واقعات اکیس برس کی عمر میں۔اکیس برس کے اٹھائیس برس میں اور اٹھائیس برس کے پنتیس برس میں بھول جانے چاہئیں۔لیکن مشاہدہ اس کے خلاف ہے اوراگر یہ کہا جائے کہ پُرانے ذرات جدید ذرات کواپنے اثرات سپُرد کرجاتے ہیں اور یوں پُرانی معلومات وواقعات یادرہتے ہیں تواس صورت میں کسی بیمار کوکبھی تندرست نہ ہونا چاہیے۔ اور نہ ہی جاہل کو عالم۔لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوتا ۔ پس جسم کے ذرات کے باربار تبدیل وتحلیل ہوتے رہنے ۔ اورکسی عضو کے کٹ جانے کے باوجود بھی جس حقیقت کے علم وادراک وحافظہ وغیرہ میں سرموفرق نہیں آتا وہی روح ہے۔ اور وہ وغیر مادہ ہے۔ جبکہ ذرات کے تحلیل ہونے سے وہ زائل نہیں ہوتی۔ کسی عضو کے کٹ جانے سے کٹ نہیں جاتی۔ تواس میں شک نہیں کہ اگرجسم یکدم فنا ہوجائے توبھی وہ قائم رہے گی۔ پس وہی روح ہے۔ اور غیر مادی ومجرد وجود ہے۔
  2. واحد حقیقی وہ ہے جس کا کسی طرح سے قسمت وتجزیہ نہ ہوسکے اور نفس ناطقہ جسم ہو توجسم قابل قسمت وصاحب تجزیہ ہے۔ اورظاہر ہے کہ محل کی قسمت سے حال کا تقسیم ہونا لازم آتاہے۔ پس جسمیت نفس ناطقہ کی چاہتی ہے قسمت کو اور قسمت نفس ناطقہ کی چاہتی ہے قسمت معنی واحد حقیقی کو۔ اور واحد حقیقی کا انقسام محال ہے ۔ پس ثابت ہواکہ روح جسم نہیں بلکہ غیر مادی شے ہے۔
  3. جسم وہ ہے جو ابعاد ثلاثہ رکھے۔ (یعنی ۔طول۔ عرض وعمق) مگر عقل وعلم جوانسان میں موجود ہیں اُن کی نہ کوئی مقدار ہے اورنہ امتداد۔تمام اجسام مُرکبات قسمت وتجزیہ کوچاہتے ہیں۔ مگرعلم کا تجزیہ وقسمت محال ہے۔ لہذا علم خاصہ جسم نہیں۔ اگر کوئی غیر مادی ظرف ہمارے جسم میں اُس کے قیام کے لئے نہیں ہے توغیر مادی مظروف (علم) کا وجود بھی محال ہوگا۔ پس ثابت ہواکہ جو شئے غیر مادی علم کا ظرف ہےوہ روح ہے ۔لہذا رُوح غیر مادی ہے۔
  4. ترکیب امتزاجی کے اجزا عناصر ہیں۔ اور عناصر ہیں ادراک ۔علم کی استعداد مفقود ہے۔ پس جو صفت اجزا میں موجود نہ ہو وہ مُرکب میں کیسے پیدا ہوجائے گی۔ کوئی مُرکب شئے اپنے اجزا کی کیفیت سے الگ کوئی صفت پیدا نہیں ہوسکتی ۔ اگر پانچ گرم دوائیں ملا کر کسی کو کھلائی جائیں تواُس کے مزاج میں سردی پیدا نہ ہوگی ۔ اورنہ ہی سرد دواؤں کی ترکیب میں گرمی۔ کانچ کے ایک ذرے میں شیرینی نہیں توایک من بھر کا کانچ میں بھی شیرنی نہ ہوگی۔ ایک ریزہ سنگ میں علم نہیں توایک پہاڑ میں بھی علم نہیں ہے۔ درک اور عدم درک آپس میں نقیض ہیں۔ اوراس صورت میں ایک نقیض کودُوسرے نقیض کی علت ماننا پڑے گا۔ اوریہ محال ہے۔ لہذا یہ عقیدہ خلاف عقل اور بے بنیاد ہے۔

روح قدیم وقائم بالذات دوسرے خیال کے مطابق رُوح ازلی وابدی ۔ قائم بنفسہ اور مُتصف بصفاتہ ہے۔ ویدانیتوں کے کئی فرقے ہیں۔ اُن میں سے ایک فرقہ توروُح کے جداگانہ وجود کا قائل ہی نہیں۔ یعنی وہ اربعہ نہیں بلکہ خمسہ عناصر سے الگ کسی لطیف وجود کو نہیں مانتے ۔ اورجو ویدانتی رُوح کی ہستی کے قائل ہیں تووہ کثرت ارواح کے قائل ہی نہیں۔ بلکہ تمام مرئیات وغیرمرئیات میں ایک ہی رُوح مانتے ہیں ۔ اوراُسے برہم (خدا ) کا جزجانتے ہیں ۔ وہ تمام اشیاء مادی وغیر مادی کو خدا میں سے نکالتے ہیں۔ اس خیال کے حامی خدا کو مُرکب ثابت کرتے ہیں۔ چارواکئے وغیرہ توروُح کومُرکب امتزاجی مانتے ہیں۔ اور ویدانتی خدا کو مُرکب مانتے ہیں۔ آریہ لوگ بھی رُوح کوقدیم مانتے ہیں اوراُس کی قدامت کےاثبات میں بہت سے دلائل پیش کیا کرتے ہیں۔ لیکن ہم قدامت رُوح کے عقیدہ کی بطالت کومبرہن کرکے آخری اورصحیح عقیدہ پیش کریں گے۔

  1. امر مسلمہ ہے کہ ہرقسم کا علم وفہم اورعقل وادراک روح ہی کا خاصہ ہے اوریہ خاصہ رُوح کا ذاتی ہے۔ اورخاصہ ذاتی کا انفکاک اپنی ذات سے محال ہے۔ پس اگرروح قدیم ہے تواُس کی اپنی قدامت کا علم ضرور ہونا چاہیے ۔۔ لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کسی کی بھی رُوح کو اپنی قدامت اورازلیت کا نہ تو تفصیلی اورنہ اجمالی علم ہے۔اگر کہا جائے کہ رُوح کو اپنےحدوث کا بھی تو علم نہیں تو وہ حادث کس طرح ہوسکتی ہے۔ تو واضح ہو کہ حدیث و مذامت کا عدم علم ہی تورُوح کے حدوث کی سب سے زبردست اورمسکت دلیل ہے۔ خدامت کے لئے علم لازمی ہے۔ لیکن حدوث کے لئے لازمی نہیں۔ سوامی دیانند کا قول ملاحظہ ہو۔ جو اشیاء بدامی ہیں اُن کی صفات وفعل فطرت مدامی ہیں۔ اورغیدامی جوہروں کے غیر مدامی ہوتے ہیں۔ سوستیارتھ پر کاش ہے۔ صفحہ ۸۱۔ پس اگر رُوح انادی (قدیم )۔ ہے تو اس کا علم وگیان بھی مدامی ہونا چاہئے اورازیں جہت اُس کو اپنی قدامت کا بھی علم ضرور ہونا چاہئے۔ لیکن یہ بات نہیں ہے۔لہٰذا رُوح قدیم نہیں ہوسکتی۔ بلکہ حادث اورمخلوق وجو دہے۔
  2. رُوح کے تمام علوم وافعال تحصیلی (اکتسابی ) محدود متناہی ہیں۔ تو رُوح محل حوادث ہوکر خود حادث ٹھہری۔
  3. اگر کہا جائے کہ مرض نسیان یاجون ہونے پر طفیلی کے حالات یا د نہیں رہتے۔ یا یہ کہ کوئی یہ نہیں بتاسکتا کہ اُس نے گذشتہ سال ماہ مارچ کی دس تاریخ کے ساڑھے دس بجے کیاکیا تھا وغیرہ۔ تواول تو ان دلائل سے خود دیانند صاحب کا مندرجہ بالا قائم کردہ معیار قدامت ٹوٹ جاتا ہے۔ اور دوم یہ کہ ہم تفصیلی علم نہیں بلکہ اجمالی علم کا تقاضا کرتے ہیں۔رُوح کواپنی قدامت یا کم از کم کسی گذشتہ جنم کا اجمالی علم تو ضرور ہونا چاہئے۔ اگرماں کے رِحم میں بچے کو گیان نہیں ہوتا تو اُس وقت رُوح کا تعطل اوربے صفات ہونا ثابت ہے۔ حالانکہ مدامی اشیاء کے صفات وفعل وفطرت بھی مدامی مسلم ہیں۔ اب ذرا انصاف سے کہئے کہ حدوث ِرُوح میں کیا کَسر رہی؟
  4. رُوح کی تمام معلومات اکتسابی اورتحصیلی ہیں۔ یہ نہیں کہ کوئی بلااکتساب علم عالم ہوجائے۔ ہم اس مکتب فطرت میں رُوح کو بتدریج علوم وفنون کی تحصیل کرتے ہوئے پاتے ہیں۔ اُس کا عل لُدنی نہیں بلکہ اکتسابی ہے۔ اگر وہ قدیم ہوتی تو اُس کا علم ضرور لُدنی ہوتا۔ اورعلم لُدنی کی رُو سے جو معلومات ایک رُوح کی ہوتیں وہی فطرتی دلدلی طورپر تمام اَرواح انسانی کی ہوتیں۔ لیکن سب کے خیالات و آراء میں مختلف حقائق کے متعلق اختلاف بدیہی ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ رُوح کا علم لُدنی نہیں اورازیں جہت وہ قدیم بھی نہیں بلکہ حادث ومخلوق ہے۔

رُوح مخلوق وحادث

رُوح کے وجود کے متعلق آخری صحیح عقیدہ کی آئینہ دار بائبل مقدس ہے۔ اور یہ عقیدہ مندرجہ بالا دو عقائد کے بین بین رہتا ہے۔ اگر رُوح کو مُرکب امتزاجی ماننے ہیں تفریط ہے تو اُس کو قدیم اور قائم ماند ماننے اس  افراط ہے۔ اور افراط تفریط معیوب ہے۔ مسیحیت رُوح کو اُس کے اصل منصب ہے نہ تو گراتی ہے۔ اورنہ اُس کے جائزدرجہ سے اُس کو بلند کرنی ہے۔ بلند ہمارے مسلمات کے مطابق رُوح مخلوق وحادث وجود ہے۔ اس لئے کہ میرے حضور رُوح اورجانیں جو میں نے پیدا کی ہیں بیتا ب ہوجاتی ہیں۔ (یسعیاہ ۵۷: ۱۶) اورپھر خُدا کو ارواح کا خالق (پیدا کرنے والا ) ہونے کی حیثیت سے رُوحوں کا باپ کہا گیا ہے۔(عبرانی ۱۲: ۹) اورجیسے وہ خالق ہونے کی جہت سے تمام مصنوعات سفلیہ وعلویہ اورمرئیہ وغیر مرئیہ کا مالک ہے ویسے ہی وہ اَرواح کا بھی مالک ہے۔ خُداوند سارے بشر کی رُوحوں کا خُدا (گنتی ۱۶: ۲۲ ؛۲۷: ۱۶) اور رُوح صرف انسان میں ہے۔ لیکن انسان میں رُوح ہے (ایوب ۳۲: ۸)۔ حیوانات میں رُوح موجود نہیں ہے میصری تو انسان ہیں خُدا نہیں۔ اوراُن کے گھوڑے گوشت ہیں روح نہیں (یسعیاہ ۳۱: ۳)۔ حیوانات صرف جان اورجسم کا مجموعہ ہیں۔ اورانسان کا امتیاز حیوان سے اس طرح ظاہر ہے کہ اُس میں جان وبدن کے علاوہ رُوح بھی موجود ہے(ا۔تھسلینکوں ۵: ۲۳)۔

جس طرح جسم سے جسم پیدا ہوتاہے۔ اُس طرح رُوح سے رُوح پیدا ہوتا ہے۔ یعنی قانون ارثی کے مطابق بچے اپنے والدین سے پیدائش کے لحاظ سے جسم ورُوح دونوں حاصل کرتے ہیں۔ اوررُوح حادث ہے قدیم نہیں۔ یعنی ازلی تو نہیں بلکہ ابدی ہے۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ باازتہ ابدی اورہنفسہ غیر فانی ہے ہرگز نہیں۔ بلکہ اُس کو ابدیت اس صوت میں مانی جاسکتی ہے۔ کہ جس طرح جسم رُوح کے سہارے زندہ رہتا ہے۔ اُسی طرح رُوح خُدا کے سہارے زندہ رہتی ہے جسم ورُوح کی جُدائی کا نام جسمانی موت ہے۔ اوررُوح سے جُداہوکر جسم تو فنا ہوجاتا ہے۔ مگر رُوح قائم رہتی ہے۔ اسی طرح رُوح اورخُدا کی جُدائی کا نام رُوحانی موت ہے۔ اسی کو مکاشفہ ۲۱: ۸ میں دوسری موت کہاگیا ہے۔ اورخُدا سے جُدا ہوکر رُوح فنا ہوجاتی ہے۔ مسیحی مسلمات کے مطابق اَبدی ہلاکت  سے یہی مُراد ہے کہ مخالفین خُدا کی اَرواح بیاعث تناقض وتخالف طبائع اُس سے جُدا ہونے کے باعث معدوم دفنا ہوجائیں گی۔ اسی طرح راستبازوں کی ارواح خُدا کے ساتھ مطابقت و مناسبت طبعی رکھنے کے باعث تاابد زندہ رہیں گی۔ ملاحظہ ہو متی ۲۵: ۳۱- ۴۱ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ادنی ٰ وجود ہمیشہ اشرف وجود کے سہارے قائم وباقی رہتا ہے۔ ادنی ٰ کے فساد فنا سے اشرف کی فنا لازمی نہیں۔ مثلاً پتے اورشاخیں اگرجڑ کے ساتھ قائم رہیں تو فنا نہیں ہوتے۔ اگر الگ ہوجائیں توجڑ تو قائم رہے گی مگر پتے اور شاخیں فنا ہوجائیں گے۔ اسی طرح جڑ اگرزمین میں قائم رہے تو فنا سے محفوظ رہے گی۔ اوراگر الگ ہوجائ تو جڑ توفنا ہوجائے گی مگر زمین قائم رہے گی۔ ایک اورمثال لیجئے۔جسم کے تمام اعضا ء میں دماغ سب سے اشرف مسلم ہے۔ اگر کسی کی ٹانگ بازو ناک وغیرہ کٹ جائیں یا آنکھیں جاتی رہیں یا دانت نکل جائیں تو بھی وہ زندہ رہے گا۔ اورہزاروں لاکھوں لنگڑے ےلوے۔نکٹے اندھے لوگوں کا زندہ اورموجود ہونا بدیہی ہے۔ لیکن کبھی کسی نے کوئی ایسا انسان نہ دیکھا ہوگا کہ جس کا سرکٹ گیا ہو اوروہ بقید حیات ہو۔  اس سے یہ ثابت ہوا کہ اشرف کے فساد فنا سے ادنی ٰ کا فساد لازم آتا ہے نہ کہ اس کے برعکس۔اسی طرح جسم کا وجود منحصر ہے۔ رُوح پر اور رُوح کا قیام خُدا پر اس عام بحث سے نتیجہ یہ حاصل ہوا کہ تبدل پذیر حقیقتیں لاتبدیل وجود کے ساتھ متعلق ہونے سے لاتبدیل اورغیر فانی ہوجاتی ہیں۔ تو ریت شہادت دیتی ہے کہ وادیتی سینا میں جب ایزد تعالیٰ حضرت موسیٰ سے ہمکلام ہوا تو اُس کا ظہور جھاڑی میں لگی ہوئی آگ کی صورت میں ہوا۔اورلاتبدیل وجود خُدا تعالیٰ کی موجودگی کی تاثیر سے جھاڑی آگی سے جل نہیں گئی بلکہ قائم رہی۔ آریہ لوگ اکثریہ معارضہ پیش کیا کرتے ہیں کہ جو پیدا ہوا ہے وہ ضرور مریگا۔اورجس کی ابتد ا ہے اُس کی نیستی ضروری ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ ازروئے منطق جس کی فنا دنیستی ضروری ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ ازروئے منطق جس کی فنا ونیستی ضروری ہے۔ وہ ممتنع الوجود ہے نہ کہ ممکن الوجود واجب الوجود وہ ہے جس کا ہونا ضروری ہے۔ ممتنع الوجود وہ ہے  جس کی نیستی(زہونا) ضروری ہے لیکن ممکن الوجود وہ ہے جس کا نہ عدم ضروری اورنہ وجود ضروری ہے پس ممکنات ومحدثات اپنے وجود عدم کے بارہ میں ذات ِواجب کے محتاج ہیں۔ پس ارواح انسانی ممکن وحادثات اپنے وجود عدم کے بارہ میں ذات واجب کے محتاج ہیں۔پس ارواح انسانی ممکن وحادثات اپنے وجود وعدم کے بارہ میں ذات ِواجب کے محتاج ہیں۔پس ارواح انسانی ممکن وحادثات ہیں۔ اگروہ (خُدا ) اُنہیں قائم رکھنا چاہئے تو وہ قائم رہتی ہیں۔ اوراگر مٹانا چاہئے تومٹ جاتی ہیں۔ خُدا کی رُوح کی تاثیر ممکنات کو ابدیت میں قائم رکھ سکتی اوررکھتی ہے۔ اس کے متعلق کلام ِمقدس کی تائیدبلامقہ ہو۔ تیری نگہبانی نے میری رُوح سلامت رکھی(ایوب ۱۰: ۱۲)۔ اُسی کے ہاتھ میں یہ جاندار کی جان اورکل بنی آدم کا دم ہے (ایوب ۱۲: ۱۰) اگروہ اپنی رُوح اوراپنے دم کو واپس لے لے تو تمام بشر اکٹھے فنا ہواجائینگے (ایوب ۳۴: ۱۴- ۱۵)۔  ااورکوئی رُوح اپنی بقا میں مختار نہیں ہے بلکہ خُدا تعالیٰ کی مریضی کے زیر ہے۔ کسی آدمی کو رُوح پر اختیار نہیں کہ اُسے روک سکے اورمرنے کادن بھی اُس کے اختیار سے باہرہے۔ (واعظ ۸:۸)۔ پھر رُوح کی غیر فانیت وابدیت کے متعلق بھی ملاحظہ ہوتااور خاک خاک  سے جاملے جس طرح آگے ملی ہوئی تھی اوررُوح ِخُدا کے پاس جس نے اُسے دیا تھا واپس جائے (واعظ ۱۲: ۷)۔ اورجناب خُداوند مسیح کے قول سے بھی ثابت ہے کہ رُوح حادث بحدوث بدن نہیں بلکہ غیر فانی وابدی ہے جو بدن کو قتل کرتے ہیں اوررُوح کو قتل نہیں کرسکتے اُن سے نہ ڈرو(متی ۱۰: ۲۸)۔اورسلیمان نبی کا قول بھی دیکھو لیکن صادق مرنے پر بھی اُمیدوار ہے (امثال ۱۴: ۳۲ ایوب ۱۰: ۲۶)۔ اگررُوح کی طبیعت خُدا کی طبیعت سے متضاد ہوتو خُدا اُسے فنا کرسکتا ہے۔ بلکہ اُسی سے ڈر وجو رُوح اوربدن دونو ں کو جنہم میں ہلاک کرسکتا ہے۔ بلکہ اُسی سے ڈرو جو رُوح اوربدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کرسکتا ہے۔ متی ۱۰: ۲۸ ریکارڈنگ کمپنی ماہرین موسیقی کی آوازوں کو ریکارڈوں میں بند کرلیتی ہے۔ آواز غیر مادی شے ہے۔ اگر گویا مر بھی جائے تو بھی ریکارڈ میں اُس کی آواز باقی رہتی ہے لیکن آواز کو ریکارڈ میں بند رکھنا ریکارڈ ساز کی مرضی پر منحصر ہے۔ اگر چاہئے تو اُس کو تادیر قائم رکھے اورچاہے تو ریکارڈ کو توڑ کو ایکد م معدوم کردے۔ اورریکارڈ وہی قائم رکھے جاتے ہیں جن میں بھر ا ہواراگ اصول موسیقی کے فنی نکتہ نگاہ سے درست ہو۔ ورنہ توڑدئے جاتے ہیں۔ پس واجب تعالیٰ ازلی وابدی ہے۔رُوح ازلی نہیں پر صرف ابدی ہے۔ اورجسم نہ ازلی ہے نہ ابدی اور اجسام جو راستباز رُوحوں کو روز ِقیامت حاصل ہونگے۔ وہ زندگی کی اعلیٰ سرشت میں تبدیل ہوکر غیر فانی ہوجائیں گے (ا۔ کرنتھیوں ۱۵: ۵۲- ۵۳)۔ اورخُدا کےسامنے نیستی یاعدم کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔کیونکہ اُس کے نزدیک سب زندہ ہیں(لوقا ۲۰: ۳۸)۔ اورارواح ومادہ کی قدامت خُدا کے خالق ہونے میں کوئی مددگار نہیں ہے۔ بلکہ وہ قادر مطلق اورازلی وابدی خُدا ہے۔ جب اُس نے ایک زمانے میں کائنات کو پیدا کیا اورانسان کو خلاصہ کائنات بنایا تو کیا وجہ ہے کہ وہ مردوں کو زندہ نہ کرسکے۔ جس مادہ کو اُس نے پیدا کیا۔ اُس کو مِٹانا اورقائم رکھنا اُسی کے قبضہ اقتدار میں ہے۔ اُمید ہے کہ ناظرین رُوح کے متعلق اس بیان سے کافی فائدہ اُٹھائیں گے۔

(۳)

تزکہ نفس وریاضت ِبدنی

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمیشہ اشرف کے فساد سے ادنی ٰ کا فساد لازم آتا ہے۔ جیسا ہم اُوپر کے بیان میں ثابت کرچکے ہیں۔ اورفطرت کی صد یا اشیاء غور وفکر کرنے سے ا س امر کی صداقت اوربھی روشن ہوتی ہے۔ اسی طرح رُوح انسانی میں جو جسم کی بہ نسبت اشرف یہ اعلیٰ ہے بگاڑ پیدا ہونے سے جسم میں لازمی طورپر اُس سے متاثر ہوگیا۔ جب گناہ کے باعث انسان خُدا سے جُدا ہوگیا۔ یعنی روحانی متنزل اورموت کے ماتحت آگیا تو جسم بھی موت وتنزل سے مغلوب ہوگیا۔اورا س طرح بنی نوع انسان پر موت نے تسلط جمالیا۔ اب اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ جس سے رُوح بحال ہوسکے۔ تو ضرور جسم بھی فنا کے قبضہ سے چھوٹ کو بقا کو حاصل کرے۔ اسی نکتہ پر پہنچکر انسان میں بھگتی۔ریاضت اورتپسیا کے خیالات پیدا ہوگئے۔ ہندوستان کے علاوہ مغربی ممالک میں بھی رہبانیت نے ریاضت جسمانی کے خیالات کو حد سے زیادہ بڑھا دیا اگرچہ نفسانی خواہشات کو روئے اوردبانے سےروحانی زندگی میں ارتقاء کی کچھ شعاعیں پڑنے لگتی ہیں۔ اورنفس امارہ پر قابو پانے کی کوشش کرنا نیک زندگی گذارنے کے لئے کسی حدتک مفید بھی ہے۔ تاہم یہ سراسر غلط فہمی اورنادانی ہے کہ جسم کوبالکل حقیر اورردی سمجھ کر اُس کی نشوونما اورپرورش کی طرف سے قطعی آنکھیں بند کرلیجائیں۔ جس طرح قیمتی اشیاء کی حفاظت مکان کی پختگی پر منحصر ہے۔ اُسی طرح رُوح کی حفاظت کے لئے جسم کی پرورش جو اُس کا ظرف ہے نہایت ضروری ہے۔ ورنہ خُدا داد اِنعام (جسم ) کی بے قدری وحقارت ہوگی۔ اورخود کشی وریاحیت بدنی ایک ہی مفہوم کے مصداق ہوں گے۔ واضح ہوکہ کھانا پینا اورپہننا کوئی گناہ نہیں اورنہ ہی یہ کوئی نیکی ہے۔ کھانا ہمیں خُدا سے نہیں ملائیگا۔ اگر نہ کھائیں تو ہمارا کچھ نقصان (روحانی نقصان ) نہیں۔ اوراگر کھائیں تو کچھ نفع نہیں (۱۔ کرنتھیوں ۸:۸) کھانے پیٹ کے لئے ہیں اورپیٹ کھانوں کے لئے۔لیکن خُدا ا س کو اور اُن کو نیست کرے گا (ا۔ کرنتھیوں ۶: ۱۳) کیونکہ خُدا کی بادشاہت کھانے پینے پر نہیں بلکہ راستبازی اور میل ملاپ اوراُس خوشی پر موقوف ہے جو رُوح  القدس کی طرف سے ہوتی ہے (رومیوں ۴: ۱۷) اگر کھانا پینا اورپہننا وغیرہ گناہ ہوتو اس گناہ کاباقی خُدا کو ماننا پڑے گا جس نے ہمیں جسم دیا۔ اورجسم بھی ایسا جو خوراک وپوشاک اوردیگر ضروریات کا محتاج ہے۔ جب خُدا رازق ہے اوراُس نے ہماری جسمانی خواہشات کا جواب بھی اسی فطرت کے اندر دیا ہے تو لازمی بات ہے کہ ہم رُوح کے ساتھ جسم کی بھی فکر رکھیں۔ لیکن امور معاشرت میں بھی حداِ اعتدال سے تجاوز کرنا خلاف ِ فطرت ہونے کے باعث جسمانی سزا لازمی ٹھہراتاہے۔ اگر بالکل نہ کھائیں توموت یقینی ہے۔اور اگر حد سے زیادہ کھائیں تو بھی اپنے دانتوں سے اپنی قبر کھودنھے کا مقولہ درست ہے۔ امور ِمعاشرت میں اعتدال مفید ہے اورتجاوز مضُر پیٹ خُدانے خالی رکھنے کے لئے نہیں  بنایا بلکہ اس لئے کہ اس میں کچھ ڈالا جائے۔جسمانی زندگی اسی پر منحصر ہے۔ اگر جیب میں کچھ ڈالنا ہی نہ ہوتا تو اُس کا لگانا بلا مقصد ہوتا۔ اسی طرح جو اعضا ء خُدا نے ہماری جسمانی ساخت میں بنا دئے ہیں وہ کوئی نہ  کو ئی مقصد ضرور رکھتے ہیں۔ اس لئے وہ مٹانے کے لئے نہیں بلکہ قائم رکھنے کے لئے ہیں۔ (دیکھو توڑوں کی تمثیل متی ۲۵: ۱۴- ۳۰)۔

اگر نفسیائی نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو انسان کا دماغ بمنزلہ ایک کپتان کےہے۔ اورجسم کے تمام اعضا ء سپاہی ہیں۔ پیٹ راشن کا گودام اور بھنڈاری ہے۔ اب ظاہر ہے کہ کپتان کی طاقت کا تمامتردار ومدار سپاہیوں کی صحت اورمضبوطی پر ہے۔ اکیلا کپتان کبھی دشمن کی فوجوں کو مغلوب نہیں کرسکتا۔ اسی طرح سپاہیوں کے صنعف وقوت کا انحصار خوراک کی کمی وبیشی پر ہے۔ جس قدر اچھی اورکتفی خوراک کا ذخیرہ پیٹ کے گودام میں ہوگا۔ اوردل کے ذریعے سے دما غ اوردیگر اعضا ء کو وہ خوراک بقدر ضرورت ملیگی۔اُسی قدر دماغ ان اعضا ء سے بہترین خدمات لے سکیگا۔ جب اعضاء کی نشوونما میں لاپرواہی وبے احتیاطی ہوگی اوراُن سے محنت زیادہ لیچا ئیگی تو ہستہ آہستی کمزور ہوتے جائیں گے۔ اوراُن کی کمزور ی وناتوانی سے دماغ بھی ضیعف ونحیف ہوکر بے کار ہوجائے گا۔ اوراس طرح سے جو بہترین خدمات اپنے اعضا ء سے ہم مخلوقات خُدا کی بجالا سکتے ہیں وہ انجام نہ پائیں گی۔ اوریوں انسانی زندگی ایک انتہائی خود غرضی کی زندگی بن جائے گی۔ اورخُدا سے محبت کرنے کا پہلا زینہ ہے مخلوقات سے بھی محبت رکھتا ہے (۱۔ یوحنا ۵:۱) اورتارک الدنیا ہونے سے مخلوقات سے محبت وہمدردی کے مواقع ہی نہیں ملتے۔ اس لئے ان ذرائع سے خُدا کا وصال حاصل ہونا قطعی ناممکن ومحال ہے۔ جو لوگ بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی ومحبت کے خیال کو ترک کرکے براہ ِراست خُدا ہی سے ملاپ کرنا چاہتے ہیں وہ اولا د سے نفرت اوروالد سے محبت رکھنے کو ممکن سمجھتے اور ایک کنارے کے سمندر کے قائل ہیں۔ جیسے ایک کنارے کے دریا کا وجود محال ہے۔ ویسے ہی مخلوقات کو چھوڑ کر خُدا سے محبت رکھنا ناممکن ہے۔

کلام ِالہٰی کا یہ پیغام ہے کہ تم اہویہ نفسانیہ اوراغشیہ  جسمانیہ میں اپنے دلوں کو یہاں تک نہ الجھاو کہ خُدا کی یاد ہی تمہارے دِلوں سے بسر جائے۔ اورتم نِرے نفسانی اوردُنیا پر ست ہی ہوجاو۔ کلام کا فرمان ملاحظہ ہو۔ کیونکہ نہ ہم دُنیا میں کچھ لائے۔ اورنہ کچھ اُس میں سے لیجا سکتے ہیں۔ پس اگر ہمارے پاس کھانے پہننے کو ہے تو اُسی پر قناعت کریں(۱۔ تیمتھیس ۶:۷-۸ کلسیوں ۳: ۲ متی ۶: ۳۳ ) دو مکھیاں ہیں۔ ایک کھانڈ کے شیرہ پر میٹھتی ہے اوراُس میں ایسی پھنستی ہے کہ پھر زندہ باہر نہیں نکل سکتی۔ دوسری مکھی مصری کی ڈلی پر بیٹھتی ہے اورکھا کر خوشی سے اُڑ جاتی ہے۔ مزا تو دونوں نے شیرینی کا لیا مگر ایک کا انجام ہلاکت اوردوسری کا زندگی اورخوشی ہوا۔ اسی طرح لذائدو حظا نفسانیہ کے پوجاری بن جانے سے خُدا سے جُدائی اورہلاکت  لازمی ہے۔ اوراشیائے جسمانیہ کو اپنے غلام بنا کر اُن سے خاطر خواہ کا م لینا خوشی کا موجب ہے۔ امور معاشرت  میں بھی افراط تفریط ہو جب ہلاکت ہے۔ اِن نعمت ہائے گوناگوں کو ٹھکر ادینا کفران نعمت (۱۔ تیمھتیس ۴: ۱- ۵)۔

اکثر سادھو اورتیاگی بیراگی لوگ حظا ئظ  جسمانیہ اورلذائذ نفسانیہ سے منہ موڑ کر تارک الدنیا ہوجاتے ہیں۔ اورویرانوں میں جاکر اپنے جسموں کو نہایت بیدروانہ وجاملا نہ طریقوں سے ریاضت کے شکنجوں میں کھینچتے ہیں۔ قانون مرتے ہیں اُلٹے سرکےبل درخت پر لٹکتے۔ جل دھارے کرتے باہیں سُکھالیتے ہیں تاکہ اُن کی انانیت (خودی ) مٹ جائے۔ لیکن یہ کوئی خودی کشی نہیں بلکہ خود کشی ہے۔ ایسی کٹھن ریاضتوں کے باوجود وہ حقیقی خوشی اورسکون قلبی سے محروم رہتے ہیں۔ اسی واسطے مغربی رہبانیت اورہندوستانی ریاضت جن میں حماقت ایک اُبھرا ہوا عنصر ہے مقبول عام نہ ہوسکے۔ اورمذہبی دُنیا میں اُن کی قدر ومنزلت ان خیالات کے حامیوں کی توقعات کے خلاف ہوئی۔ اوراُن کی تقلید دیر پانہ رہی۔ ہندوستان کے توپتے پتے پر کرم مارگ ،بھگتی مارگ ،گیان مارگ نیستا آہسناپر مودھر ما اور نروان وغیرہ لکھے ہوئے ہیں۔ اورمہا تمابدھ نے تو ان خیالات ہمہ گیر تھے۔ اوراب تک اُن کا بقیہ کم وبیش ہر حصہ دُنیا میں موجود ہے۔ پولوس رسول بدنی ریاضت کوغیر فطری ہونے کے باعث معیوب ٹھہراتا ہے۔ملاحظہ کیونکہ جسمانی ریاضت کا فائدہ کم ہے لیکن دینداری سب باتوں کے لئے فائدہ مند ہے (۱۔ تیمتھیس ۴: ۵۸)(کلسیوں ۲: ۲-۲۳) اگر ترک دنیا اوراس قسم کا تزکیہ نفس رُوحانی کمالیت کے حصول کے لئے ضروری شرط ہو تو ضرور ہے کہ تمام بنی نوع انسان آبادیوں کو چھوڑ کر جنگلوں میں ڈیرے لگائیں۔ کیونکہ جو چیز بذریعہ ترک دنیا وریاضت حاصل ہونے کی اُمید ہے اُس کی ضرورت سے کوئی خالی نہیں۔ پھر جنگلوں میں آباد ہونے سے آبادیاں جنگل ہوجائیں گی۔ اورجس دنیا کو ترک کیا وہی ساتھ جائے گی۔ اوراس طرح دُنیا کے تمام کارخانے بگڑ جائیں گے اورتمدن معاشرت کے عالم میں انقلاب کے طوفان برپا ہونے سے انسانی زندگی نہایت خطرناک ضلالت وگمراہی کے سمندر میں غر قاب ہوجائے گی۔ اورنہ مرض رہے نہ مریض کا مقولہ پورا ہوجائے گا۔

اگرجسمانی اعضا ء اورنفسانی قوی کو مضحمل واز کا ر رفتہ بنا کر اوربدی کے صدور کے امکان کو مٹا کر کوئی بدی سے بچنے اورنیک کر دار ہونے کا دعویدار ہو تو یہ کوئی خوبی اوراخلاقی جرات کا کام نہیں ہے۔ بلکہ انتہائی بزدلی وخنک  طبعی ہے۔ رابرنسن کا قول کیرکٹریا سیر تکی تعریف میں کیا خوب ہے کہ زبر دست جذبات اوراُن پر زبردست قابو کا نام سیرت ہے۔ لیکن اگرکوئی شخص جو گن چشم بعلت مولودی ہو یہ دعویٰ کرکے کہ میں اپنی تمام زندگی پھر کبھی بدنظری کا مرتکب نہیں ہوا تو کونسی خوبی ہے۔ اگر گو نگا کہے کہ میں نے کبھی کسی کو گالی نہیں دی یا کسی کی بدگوئی نہیں کی تو یہ کوئی قابل ِتحسین بات نہیں ہے۔ کوئی بلند مکان کی چھت پر کھڑا ہے اور نیچے زمین پر شیر موجود ہے۔ اگروہ شخص اوپر ہی سے پکارے کہ دیکھو میری بہادری کہ میں شیر سے مطلق خوف نہیں کھاتا تو کون ہے جو اُس کے اس بزدلانہ ومضحکہ خیز دعویٰ پر نہ ہنسے گا؟ ہندوستان میں تیاگی بیراگی لوگوں کا بھی یہی حال تھا اورہے لق ودق صحر ا میں ایک وتنہارہتے ہوئے اول تو اُن کا ماحول ہی اس قسم کا ہوتا ہے کہ عملی بدی کا امکان ہی محال ہوتا ہے بدنظری کریں تو کس پر زنا کریں توکس سے وہاں اُن کے سوااورکوئی نہیں ہوتا۔

اسی طرح چوری جھوٹ اورعداوت وغیرہ کا بھی کوئی امکان وہاں نہیں ہوتا۔کیونکہ وہاں ایسے مواقع ہی ناپید ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اعضا ئے جسمانیہ کو معطل دبے کار کرنے سے بھی نیت میں خواہشات بدکار ریالہرایا کرتا ہے۔ کیونکہ سانپ کے بِل کو مارنے سے سانپ نہیں مرتا۔ اگرچہ عملی گناہوں کا موقع نہیں ملتا اوراُن کا امکان عارضی  طور پر مِٹ بھی جاتا ہے۔ لیکن خیالی گناہ سے رہائی محال ہے۔ جس طرح ایک کوڑھی والدین کا بچہ طبعی موروثی طورپر مبروص ہونے کے باعث دیگر کوڑھیوں سے الگ رکھے جانے پر بھی بُرص کے جراثیم سے آزاد نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اس میں اس مرض موذی کے جراثیم ضرور قائم رہیں گے۔ اُسی طرح ارثی گناہ آلودہ طبیعت ترکِ دُنیا اورتزکیہ نفس سے بحال نہیں ہوسکتی۔ اورگناہ کے موروثی مرض ہونیکی شہادت کلام ِالہٰی یوں پیش کرتا ہے۔ دیکھ ! میں نے صورت پکڑی اور میں گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑا (زبور ۵۱: ۵ رومیوں ۵: ۱۲) کیونکہ میں جانتا تھا کہ تو بالکل بے وفا ہے اوررحم ہی سے خطا کار کہلاتا ہے۔ (یسعیاہ ۴۸: ۴) اورنہ ہی سمادھی لگانے اورمحض ارادہ پرزور دینے سے گناہ سے رہائی ممکن ہے۔کیونکہ اِرادہ تو مجھ میں موجود ہے مگر نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے چنانچہ جس نیکی کا اِرادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا اِرادہ نہیں کرتا وہ کرلیتا ہوں (رومیوں ۷: ۸- ۹۱) پس گناہ کا ازالہ انسانی تدابیر سے مجال ہے۔ گناہ کی علت چونکہ بُری خواہش  ہے اوروہ کسب بد سے پیشتر ہی موجود ہوتی (یعقوب ۱: ۱۴- ۱۵)۔ اورخواہش بد کوئی اکتسابی شے نہیں بلکہ طبعی موروثی ہے۔اس لئے ریاضت وغیرہ سے اُس کا انسداد ازالہ توتب ہی ممکن ہوتا اگروہ کوئی تحصیلی اوراکتسابی شے ہوتی۔ اس لئے مقدس پولوس فرماتا ہے۔ ان باتوں میں اپنی ایجاد کی ہوئی عبادت اورخاکساری۔اورجسمانی ریاضت کے اعتبارسے حکمت کی صورت تو ہے مگر جسمانی خواہشوں کے روکنے میں ان سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا(کلسیوں ۲: ۲۳)۔

قدرت نے جو طاقتیں ہمارے اندر پیدا کردی ہیں وہ بذاتہ بُری نہیں ہیں۔ بلکہ اُن کو اچھا یا بُرا بنا دینا ہماری  نیت کے حسن یا قبح پر منحصر ہے۔ اوران قابلتوں کو مسلوب وبیکار کردینا فطرت کے خلاف جہاد اورخُدا کی مرضی سے بغاوت ہے۔ اسی لئے پولوس رسول نے یہ جانتے ہوئے کہ غصہ ایک فطرتی جذبہ ہے اُس کے متعلق فرمایا کہ غصہ تو کرو مگر گناہ نہ کر و۔سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے (افسیوں ۴: ۲۶)۔ ایک بزرگ جہاندیدہ کا قول ہے کہ وہ بیوقوف ہے جسے کبھی غصہ نہیں آتا۔ اوروہ عقلمند ہے جو غصے کو آنے نہیں دیتا۔

مشہور یونانی حکیم سقراط کی بیوی نہایت بدمزاج اورزور رنج تھی۔ایک دن اُس نے سقراط کوا یک معاملہ پر بہت سخت سست کہا۔ مگر وہ اُس کی بے لگامم زبان کی ہنگامہ خیز روانی کو دیکھ کر دروازے میں چپ چاپ جا بیٹھا۔ اُس کی اِس خاموشی سے وہ اوربھی بھنائی۔اورغص سے برتنوں کا دھوون اُس کے سرپر انڈیل دیا۔ سقراط نے غصہ کو روکتے ہوئے نہایت نرمی اورخندہ پیشانی سے فرمایا کہ اس قدر گرجنے کے بعد برسنا بھی ضروری تھا اورخُداوند مسیح نے سب سے بڑھ کر انتقامی جذبات پر قابو پانے اورصبر وبرداشت کرنے کی عملی مثال صلیب پر دشمنوں کے حق میں معافی وبرکت مانگنے سے پیش کی (لوقا ۲۳: ۳۴)۔ پھر خُداوند مسیح کی شمع محبت کے پروانے مقدس ستفنس نے بھی اپنے پیر طریقت کی طرح بوقت سنگسار ہونے کے اپنے دشمنوں کے حق میں یہ دُعا مانگی کہ اَے خُداوند یہ گناہ ان کے ذمہ نہ لگا (اعمال ۷: ۶۰)۔ ان تمام اِمثلہ توضیحات سے منتہائے مقصود اورخلاصہ المرام یہ ہے کہ فطرتی قویٰ اورپنچرل جذبات و جبلت کو معطل کرنے کی بجائے اُن کو ایک منظم صورت میں بطریق احسن جائز استعمال لانا عین دانائی انسانیت اورخُدا کی فرمانبرداری ہے۔ ہمارے نفسانی وبہمی قویٰ جب بدکرداری ونفسانیت کی طرف مائل ہوتے ہیں تو اُن کی حالت کا خاکہ کچھ اس طرح پر ہوتا ہے۔جیسے ایک گندی بدرروشہر سے تمام گندگی وغلاظت کو لیجا کر باہر ایک بسیط قطعہ اراضی کو دلدل اور تعفن کامرکز بنادیتی ہے۔اور ہر کوئی اُس جگہ سے نفرت کرتا ہے اورکوئی بھی اُس کے پاس سے گذرناپسند نہیں کرتا۔ یہ خاکہ اُس وقت کا ہے جب ہمارے جذبات پر سفلی عنصر غالب ہوتا ہے۔ اب اس تصویر کا دوسرا رُخ جو نہایت حسین اوردلکش ہ ملاحظہ ہو۔ ایک زیر ک ودانا آدمی اُسی قابل صد نفرت وکراہیت قطعہ اراضی کو اس طرح پسند عام وخوشگوار بنادیتا ہے۔ کہ اُس خط میں ایک خوشنما باغ لگادیتا ہ۔ اوراُسی کھادوالے پانی سے اُسے سینچتا ہے۔ اب وہ زمین دیگر قطعات کی بہ نسبت زیادہ زرخیز ہونے کے باعث پودوں کو زیادہ خوراک دیتی ہے۔ اوروہی متعفن وغلیظ جگہ اہل شہر کی دلبستگیوں کا مرکز بن جاتی ہے۔ بھانت بھانت کے میووں کی کثرت فواروں کی سیم ریزی۔شیمیم گل کی عنبر بہتری ظہور کی نغمہ سنجیاں۔بادنسیم کی نطق باریاں گلہائے دلکشائے کے رنگین مرقعے خوش بہار پھولوں کے جمگھٹے زائران ودلدار گان فطرف کی گلگت سے روضہ جنت کا دھوکہ پڑتا ہے اوروہی گھنونی دمکروہ جگہ اپنی رعنائیوں اوردلفریبیوں میں کیف زا اثرات لئ ہوئے شائقین فطرت  کے لطیف جذبات پر کھیلتی ہوئی نظر آتی ہے۔یہی حال ہماری جسمانی قوتوں کا ہے۔ قدرت نے جس خاص مقصد کے ماتحت ان کو پیدا کیا ہے اُس سے تجاوز کرنا الہٰی سرتابی اور قانون قدرت کی خلاف ورزی ہے۔ ان طاقتوں کو معطل کرنا یا اُن کے مخصوص افعال سے باز رکھنا اوردبانا ایسا ہی مضرت رساں ہے جیسا کہ بدررَد کو بند لگا دینے سے شہر میں غلاظت وگندگی کے جمع ہوجانے کے باعث مختلف امراض کے پھیلنے سے نقصان ہوتا ہے۔ ریاضت وغیرہ کے خیالات گناہ کے وجود اوراُس کے باعث انسان کی رُوحانی بے چینی اوراضطراب کے مظہر ہیں۔ اوریہ بھی اظہر من الشمس ہے۔

ان انسانیت سوز طریقوں پر صدیوں عمل در آمد کرتے رہنے کے بعد بھی انسان حقیقی اطمینان قلبی اورسکون باطنی سے بے نصیب ہے۔ وجہ ا سکی یہ ہے کہ مصائب جسمانی و آلام روحانی کے موجبات کا صحیح سراغ لگانے میں لوگ قاصر رہے۔ جب تک کسی مرض کی علت کا علم نہ ہو اُس کے نتائج سے بچنا ناممکن ہے۔ہمیشہ سبب کی مدافعت سے نتیجہ کی مدافعت ہواکر تی ہے۔ جس طرح ہم بار ہاذکر کرچکے ہیں کہ ہمیشہ اشرف کے بگاڑسے ادنی ٰ کی اصلاح ممکن ہے۔ نہ کہ اُس کے برعکس پس گناہ رُوح کو عارض ہے اوربطور نتیجہ اُس کے آثار جسم میں بھی ظاہر ہیں۔ رُوح اورجسم کا تعلق بطور مرُکب کے سمجھیئے۔ یایوں کہیں کہ رُوح ہماری زندگی میں مثل ایک ہاتھ کے ہے۔ اوراعضا ئے جسم اُس کے ہتھیار بقول شخصے۔

جب تک ہے رُوح جسم میں چلتے ہیں دست دیا
دُولھا کے دم کے ساتھ یہ ساری برات ہے

جب رُوح پاکیزہ اوردل عارف کی طرح صاف اورگناہ کے رنگ سے منزہ ومبرہ ہوتی ہے توان ہتھیاروں کو نیک کاموں میں استعمال کرتی ہے۔ اورجب وہ نفس امارہ کے دام تزویر میں مبتلا ہوتی ہے تو ان ہی ہتھیاروں کو بدی کی راہ میں استعمال کرتی ہے۔ مثلاً زید اوربکر کے پاس دو تلواریں ہیں۔ زید نے اپنی تلوار سے کسی بیگنا ہ کا سر قلم کردیا۔ اوربکر نے اپنی تلوار سے ایک شیر کو مار کر چند راہگیروں کی جانیں بچادیں۔ ہر دوصورتوں میں تلوار اچھی یابری نہیں بلکہ تلوار کے استعمال کنندوں کی طبائع نیک یا بد ہیں۔ اسی طرح جو نیک یا بدافعال ہمارے اعضا ء سے صاد ر ہوتے ہیں وہ رُوح کی بدیا نیک خصلت کے آئینہ دار ہیں۔ جب ہماری رُوح کا مطلع صاف نہیں ہوتا اوراُس پر گناہ کے تاریک بادل چھائے ہوئے ہوتے ہیں تو ان ہی اعضا ء سے ہم بُرے کاموں کو انجام دیتے ہیں۔ ہاتھوں سے چوری حق تلفی ظلم اورخون ریزی زبان سے دروغ گوئی دروغ حلفی اورگالی ودشنام آنکھوں سے بدنظری فحش بازاری کُتب کامطالعہ اورعیب بینی کانوں سے ہزلیات بدگوئی نمامی اورنفسانی جذبات کو برانگیختہ کرنے والے قصے سُننا پسند کرتے ہیں۔ دما غ ہمیشہ بدی کے منصوبے باندھتا اورپاوں ٹیڑھی روشیں اختیار کرتے ہیں۔ اورجب ہماری روحانیات پر آفتاب ِصداقت کی ضیاباریاں ہوتی اوررُوح آغوش محبوب کی طرح پاک وبے عیب ہوتی ہے۔ تو اسی دماغ سے جذبات سعیدہ اورخیالات پسندیدہ اُبلے پڑتے ہیں۔ اورلطیف وسحر آگیں پاکیزہ تخیل خندہ سیال کی طرح پھوٹ پھوٹ کر باہر نکلتا ہے۔ زبان سے خُدائے عزہ جل کی تعریف و توصیف کی خراماں موسیقی وکیف زاترئم نکل کر لبوں پرکھلیتا ہے۔ اورغمزدو ںکے لئے تسلی سے بھرے ہوئے فقرے زبان سے نکلا کرتے ہیں۔ ہاتھ خیرات پر مستعد ہونے اورمریضوں کی مرہم پٹی و تمہاداری کے لئے ہروقت تیار رہتے ہیں۔ کان کلام ِالہٰی کی آواز پر چھکتے اوربدگوئی سننے سے نفرت کرتے ہیں۔ اوردل میں شکر گزاری محبت ،نیکی  ،رَحم ،ہمدردی معافی اورخُدا پر ستی کے جذبات وخیالات جوش مارنے میں۔ غیرضیکہ روحانی کمالیت سے ہماری جسمانی زندگی بھی متاثر ہوکر روحانیت میں بیدیل ہوجاتی ہے اورانسان بالکل نیامخلوق بن جاتا ہے۔ پر جس طرح لوہے کی دوکان پر سونا نہیں مل سکتا۔ اسی طرح بغیر خُداوند مسیح کے جو تمام جہان کے طبعیت روحانی ہیں رُوحانی کمالیت اوردلی صحت کاحاصل ہونا قطعی محال ہے شفا خانہ حیوانات میں صرف مویشیوں کا علاج ہوتا ہے انسانوںکا علاج نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ہمارے تمام جسمانی امراض وعوراض کا علاج معالجہ ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ لیکن روحانی مرض (گناہ ) کے علاج کے لئے کوئی شفا خانہ دُنیا میں موجود نہیں ہے۔ مریض روحوں کو حکیم حاذق اورطبیب صادق خُداوند مسیح ہے۔ اُس پر ایمان لانے والے اوردلی توبہ سے اُس کے حضور جانے سے روحانی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ پس تمام ریاضت کرنے والے اورتھکے ماندے اوربوجھ سے دے ہوئے لوگوں کو اطمینان رُوحانی اورسکون قلبی دینے کے لئے خُداوند مسیح دعوت دیتا ہے (متی ۱۱: ۲۸: ۳۰)۔

(۴)

عقل اورمذاہب

مذہب کی ضرورت

انسان فطری طورپر کمزور اوربیکس ہے۔ اور کسی ایسے دستگیر وحاجت روا قادر اورعظیم طاقت کے تحت ہوکر رہنا چاہتا ہے جو اُس کی مشکلات ومصائب کو حل اورحوائج وضروریات کو پورا کرسکے۔ ہر انسان اپنی طبعی کمزوری کے سبب ایک حاجت روا کی ضرورت کا قائل ہے۔ کوئی زبان سے لاکھ انکار کرے لیکن زبانی انکار اُس زبردست حقیقت کے وجدانی احساس کی تسکین کا موجب نہیں ہوسکتا۔ اس عالم اسباب میں اُس فوق الفہم اورغیر مرئی ہستی کے ثبوت کے لئے سب سے بڑی عقلی دلیل استدلال اِنی ہے (یعنی مصنوع سے صانع کا تصور ) اس سے آگے عقل طبعی کی رسائی محال ہے اور انسان محدود العلم اورقاصر العقل عقلی دلائل کے زینے لگا کر وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ جس طرح اس خارجی مادی عالم کے قوانین طبعیہ کے ساتھ اجسام مادیہ کثیفہ کی موافقت ومناسبت رہنے سے اجسام قائم اورزندہ رہتے ہیں۔ اسی طرح رُوح انسانی کے اُس عالم رُوحانی کے قوانین رُوحانیہ کے ساتھ تطابق و توافق کے باعث  رُوح انسانی صحت کی حالت میں برقرار رہتی ہے۔ اگراجسام مادیہ کی عالم خارجی کے ساتھ مطابقت قائم نہ رہے۔ تو وہ فنا ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اگر اَرواح انسانی کی اُس عالم رُوحآنیہ لطیفہ کے ساتھ موافقت قائم نہ رہے تو وہ فنا ہوجاتی ہیں۔ خُدائے قدیر وحکیم نے اپنی قدرت کاملہ اورحکمت بالغہ سے جس طرح ہماری جسمانی پرورش کے لئے اس مادی دنیا میں تمام ضروری اورامکتفی سامان مہیا کردئے ہیں۔ اُسی طرح ہماری رُوحانی پرورش کے لئے بھی اُس نے تمام ضروری سامان پیدا کردئے ہیں۔ اوروہ سامان جو ہماری حوائج رُوحانیہ اورضروریات اخلاقیہ کو پورا کرتا ہے اُسی کانام مذہب ہے۔ بعض لوگ جن کا روحانی معیار اورمذہبی نکتہ نظر بہت پست ہے خواہ مخواہ امور معاشرت اورچند ظاہری نشان وغیرہ رکھنے کوبھی مذہب کا جُز بنائے بیٹھے ہیں۔ معاشرت وسیاست تو جسمانی مذہب ہی کا جُز ہیں۔ رُوحانی مذہب میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ مذہب کا تعلق صرف ہماری رُوحانی زندگی کے ساتھ ہے اوربس۔ پس ثابت ہوا کہ جس طرح جسمانی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے جسمانی اسباب کی ضرورت کا نکار نا ممکن ہے۔ اسی طرح رُوحانی زندگی کے قیام وبقا کے لئے مذہب کی ضرورت کا انکار ناممکن ہے پس یہی مذہب کی ضرورت ہے۔

عدم مذہب سے انسانی زندگی میں بداثرات نظر آنے لگتے ہیں۔ تجربہ شاہد ہے کہ جسم میں صحت مفقود اورعلالت موجود ہوجاتی ہے۔ دیگر صورت میں جب ہم روحانی قوانین سے تجاوز کرتے ہیں تو ہماری رُوح صحت کی بجائے رُوحانی امراض کا شکار ہوجاتی ہے۔ اورروحانی مرض کا نام گناہ ہے۔ خُداوند کریم نے اپنی عنایت بے غایت سے ایسے سامان بھی فطرت میں پیدا کردئے ہیں جن سے ان جسمانی امرا ض کی مدافعت ہوسکے۔ ہر مرض کے علاج کے لئے ہر نوع کی جڑی بوٹیاں اورادویہ کارخانہ فطرت میں موجود ہیں۔ ہر مرض کی تشخیص اورعلاج ومعالجہ کی مفصل تشریحات کُتب ِطب میں موجود ہیں۔ اب جبکہ  خُدائے حکیم قدیر نے انسان کو جسمانی عوارخ سے نجات دلانے کے لئے اس قدر اعلیٰ سامان عطا کئے ہیں تو لازمی امر ہے کہ روحانی امراض (گناہ) کی مدافعت کے لئ نسبتاً اُن سے بھی اعلیٰ سامان عنایت کرے۔ چنانچہ روحانی طب کی کتاب بائبل مقدس ہے جس میں روحانی امراض کی تشخیص اوراُن (گناہوں ) سے نجات حاصل کرنے کے نہایت تیر بہد ف اورلاثانی نسخے مرقوم ہیں۔ جو کوئی مرض گناہ کے شافی وقطعی علاج کا خواہشمندہ ہو وہ بائبل مقدس کی طرف متوجہ ہو۔ پس مذہب کا پہلا کام یہی ہے کہ وہ انسان کی روحانی فطرت کلے فساد کو دور کرکے اُسے اُس کی اصلی فطرت یعنی پاکیزگی پربحال کرے۔ اورجب تک خاطی وعاضی انسان خُدا کی طبیعت پر مطبوع نہ ہوجائے۔ یعنی گناہ سے قطعی مبرہ منزہ نہ ہوجائے اُس کا خُدائے پاک وقدوس کے ساتھ ملاپ ناممکن ہے۔ کیونکہ متضاد طبائع کا اجتماع محال ہے۔ مذہب کا دوسرا کا م یہی ہے کہ وہ انسان کا خُدا تعالیٰ سے میل کروائے۔ گناہ اوراُس کے تمام بدنتائج سے رہائی۔ نیک اورپاک طبیعت کا حصول اورخُدا اورانسان کے مابین ملاپ پیدا کرنے اسی کانام نجات یامکتی ہے۔ لہٰذا مذہب کا کام یہی ہے کہ وہ انسان کو گناہ سے کامل نجات دلائے۔

عقل کاکام

بعض مذاہب محض عقل کی محدود اورکمزور بنیاد پر قائم ہیں۔ اورمجروعقل کی دوڑ دھوپ کے حاصلات کو مذہب حقہ قرار دے کر خُدا کی ہستی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اوربعض جو خُدا کی ہستی اوروجود کے قائل  بھی ہیں تو وہ نیچر ہی کو خُدا سمجھے ہوئے ہیں اور خُدا کو غیر از فطرت یا فوق الفطرت ہستی تسلیم نہیں کرتے۔ ان دونوں سوالات کا خلاصہ یہ ہوسکتا ہے کہ یا تو خُدا کوئی شے نہیں اوراگر وہ کچھ ہے تو یہ ثابت ہے کہ یا تو خُدا اسم بلا مسمی اورقوت واہمہ کی اختراع ہے اور یا خود خُدا ہے۔ مذہب جنسی اعلیٰ وارفع برکت تو خُدا نے اس لئے بخش دی تھی کہ انسان ا سکی پیروی میں اپنی روش کو درست کرے۔ اوراُس کے سانچے میں ڈھل کے حقیقی روحانی اخلاقی شائستگی کو حاصل کرے۔ لیکن فی زمانہ زندہ دل لوگ ا س کو اُلٹے معنوں میں لے رہے ہیں۔ مذہب کو اپنی تقلید پر چلارہے ہیں۔ اوراپنی عقلی ودنیوی شائستگی کے سانچے میں اُس کو ڈھال کر اُس میں جدت طرازیاں کرتے ہیں۔ اورمذہب کو سائنس کی قیود میں ڈال کو تسخیر ہمزاد کی طرح اُس پر غالب آنا چاہتے ہیں۔۔۔آریہ بھائی مذہب کو سائنس کے ماتحت کرکے ریل گاڑیاں اورہوائی جہاز بھی ویدوں میں سے برآمد کررہے ہیں۔حالانکہ سائنس کا تعوزہر۔ ادویات ومحسوسات سے ہے اورمذہب کا تعلق غیر مادی روحانی حقائق سے سائنس کا نکتہ خیال اورہے اورمذہب کل سطح نظر اورسائنس اوراُس کے مادی مشاہدات وتجربات اوراُس کی دیگر معلومات۔۔۔اس مادی وحادث خلقت کا بیان کرتی ہے اورمذہب ا س خلقت کی مادی وغیر فانی حیثیت کے متعلق واقفیت بہم پہنچاتا ہے۔ مذہب کا تعلق طبیعات کی زندگی سے نہیں۔ اس کے برعکس سائنس کا تعلق غیر مرئی۔ فوق الفہم اورلطیف روحانی حقائق سے نہیں ہے۔دونوں کے مقاصد جدا۔خیالات جُدا۔ طریق کا ر مختلف اورنتائج مختلف ہیں۔ جس طرح علم النفس اورعلم اقلیدس دونوں کے اغراض ومقاصد اورنکتہ ہائے نگاہ میں بعد المشر قین ہے۔ اسی طرح مذہب اورسائنس کے مقاصد و نکتہ ہائے نگاہ میں تفادت ہے۔ واضح ہو کہ انسان کے گنہگار ہوکر فطرت کی طبعی مادی حقیقتوں کا علم نہیں کھویا تھا۔ اس واسطےمذہب کا یہ کام نہیں کہ اُس کا قدرتی اشیاء کی ماہیت سے تعارف کروائے۔ بلکہ گناہ کی تازیکی نے اُس کی اصلی روحانی اورپاکیزہ فطرت اورخُدائے تعالیٰ کی صحیح پہچان پرپردہڈال دیا تھا۔ اس واسطے مذہب صرف خُدا شناسی تک پہنچانے اورانسان کو اُس کی اصلی پاکیزہ فطرت کا تصور دلانے کا ضامن ہے۔ اوریہی اُس کا نفس مضمون ہے کشش ثقل کے قانون کی واقفیت انسان کے طبعی بگاڑ کو دور کرکے اُسے پاک دراست نہیں بنا سکتی۔ پس سائنس کا دائرہ عمل اس خارجی مادی عالم کی طبعی حقیقتوں تک محدود ہے۔ اورسائنس کی حدود سے آگے مذہب کی عملداری ہے۔ وہ لامحدود ،غیر مادی ، غیر مرئی رُوحانی حقیقتوں کے علم وعرفان کا سرمایہ دار ہے۔ اگرمذہب کا کام صرف سائنس بیان کرنا ہوتا تو پھر مذہب کی عدم ضرورت ثابت ہے۔ کیونکہ سائنس کی تحقیقات کے نتائج مذہب سے حاصل نہیں ہوئے۔ بلکہ عقل انسانی کے محدود وغور خوخ کا ماحصل ہیں۔ یہ بھاری غلطی مدتوں سے اس واسطے پڑی ہوئی ہے کہ مجرد عقل پر بھروسہ کرکے اصولات عقلیہ اوراُصولات ِدین ومذہب قرار دے کر انسان نے مذہب کو مجردعقل کا مشغلہ اوردماغی ورزش کا تختہ مشق سمجھا ہوا ہے۔ عقل کا کام۔۔۔یہ ہے کہ کسی شئے کا امکان یا ضرورت ثابت کرے۔ اس سے آگے انسان کو۔۔۔ دو و آمیز روشنی میں کچھ نظر نہیں آتا۔ عقل صرف یہ حکم کرتی ہے کہ یہ کارخانہ حیات ایک نہایت اعلیٰ اورنے نظیر صنعت ہے۔ اورکوئی بڑے سے بڑا حکیم فلاسفر یا سائنس دان نیچر کی ادنی ٰ سے ادنیٰ شئے کا مثل بنا نہیں سکتا۔ اس سےآگے عقل یہ کہتی ہے کہ نیچر کی اس بے نظیر کل کے پرزوں کو حرکت دینے والا کوئ انجینئر بھی ایسا ہی بے مثل ہونا چاہئے۔ اوروہی انجینئر مصنوعات فطرت کا صانع بھی ہوگا لیکن یقینی طورپر یہ نہیں کہہ سکتےے کہ کوئی صانع یا کاریگر ہے۔ کیونکہ اگر ہے توعقل کے پاس اُس کا کیا ثبوت ہے ؟ عقل ایسے نادیدہ اورالطف وادق وجود کا کوئی ثبوت جو قابل اشارہ حسی ہودے نہیں سکتی۔ عقل کا جواب یہی ہوسکتا ہے کہ ہونا چاہئےنہ کہ ہے مثلاً ایک خوابیدہ شخص کے پاس سے ایک گدھا گزرتا اورغائب ہوجاتا ہے۔اوربیدار ہونے پردہ اُس کے آثار ِقدیم دیکھتا ہے۔ تو اُس کے دل میں فوراً دوخیال پیدا ہوتے ہیں۔ کہ یا تو کوئی گدھا یہاں سے گذرہے اوریا گھوڑی کا بچھرا۔ کیونکہ ان دونوں کے پاوں کی بناوٹ اورکمیت وکیفیت میں کچھ فرق وامتیاز نہیں ہے۔ اگر گدھے کے نقش ِقدم کہے تو اُس کے پاس کوئی ثبوت نہیں کیونکہ گدھا وہاں موجو د نہیں ہے۔اورنہ ہی بچھرے کے نقش ِپاء کہہ سکتا ہے کیونکہیہ امر یقینی نہیں ہے۔ اورہردو کے سموں میں کوئی مابہ الامتیاز نہیں۔پس ثابت ہوا کہ وہ عقل اس معاملہ میں محض امکان ہی ثابت کرسکتی ہے نہ کہ حقیقت جکہ مجرد عقل فطرت کے روزانہ صدہاواقعات کے یقینی ثبوت کے لئے کوئی قطعی حکم نہیں لگا سکتی تو اُس فوق الفطرت اوربعید از فہم وادراک صانع حقیقی ومالک تحقیقی کو کیسے ثابت کرسکتی ہے۔ اورغیر مرئی رُوحانی حقائق کی تفہیم و تعقیل میں کیسےے کامیاب ہوسکتی ہ۔ اس منزل پر پہچن کر عقل طبعی کے پر جلتے ہیں اور وہ معطل وحیران ہوجاتی ہے۔ کیا تو تلاش سے خُدا کو پاسکتا ہے ؟ کیا تو قادر ِمطلق کا بھید کمال کے ساتھ دریافت کرسکتا ہے (ایوب ۱۱: ۷)۔ خُداوند خُدائے اَ بدی وتمام زمین کا خالق تھکتا نہیں اورماندہ نہیں ہوتا۔ اُس کی حکمت ادراک سے باہر ہے (یسعیاہ ۴۰: ۲۸)۔

عقل کا دائرہ عمل

کو لھو کے بیل کی نقل وحرکت ایک خاص دائرہ تک محدود ہوتی ہے اوروہ اُس مخصوصہ محیط سے باہر نہیں جاسکتا۔ وہی اُس کا دائرہ عمل ہوتا ہے۔ اسی طرح عقل کا دائرہ علم وادراک محض محسوسات ومرئیات تک ہی محدود ہے۔ اورمحسوسات و مادیات کے متعلق ہی عقل کے تجربات قابل ِتقسیم ہوسکتے ہیں۔ اوربدیہی حقائق کی تحقیق وتدقیق کے لئے عقل خالق نے اچھی رہنما بخش دی ہے۔ اوروہ محض ظاہر ی وباطنی حؤاس ِعشرہ کی مدد سے خارجی عالم کی طبعی حقیقتوں کی دریافت کرسکتی ہے۔ حواس ِخمسہ ظاہری یہ ہیں۔ حس مشترک ،خیال ،وہم ،حافظہ ، قوت متصرفہ ،جس طرح ظاہری کی تمام قوی ٰ کی درہ التاج قوت ِباصر ہ ہے۔ اُسی طرح حواس ِباطنی میں قوت متصرفہ سب سے زیادہ کا ر آمد اوراعلی ٰ ہے۔ بس عقل ان ہی حواس عشرہ کے کندھوں پرہاتھ دھرکے چلنے والی ہے۔اور اُن کی محتاج ہے۔ جس طرح ایک جنگی سپہ سالا ر کی کامرانی ونصرت کا تمامتر اِنحصار اچھی ، قابل اورتربیت یافتہ پلٹن اوربہترین اسلاح محاربہ پر ہوتا ہے۔اور بغیر ان کے وہ معطل وبیکار ہوتا ہے۔ اسی طرح عقل اعضا ئے جسمانیہ کی سپا ہ اورحواس عشرہ کے ہتھیاروں کے بغیر محض نکمی اورناکارہ ہے۔ مثلاً اگر آنکھ نہ ہوتی تو حروف ایجادنہ ہوتے۔کتابیں لکھی نہ جاتیں۔پریس اورمطابع کی اختراع نہ  ہوتی۔ فوٹو گرافی،فلم سازی ، رنگریزی ورنگسازی ،نقاشی ومصوری خیاطی ،بخاری ہوائی جہاز ،ریل گاڑی ،اوردیگر ہر قسم کی مشینری کا وجود نہ ہوتا۔ علم النجوم ،علم الاجسام ،علم طب ، علم جغرافیہ ، علم اقلیدس اورخورد بین ودوربین وغیرہ ہر گز معرض ِظہور میں نہ آتے۔غیر ضیکہ انسان علم وفضل اورتہذیب وشائستگی سے قطعی بے بہرہ ہوتا۔ اورانسان وحیوان میں کوئی بالاامتیاز نہ رہتا۔ دیگر حواس پر آنکھ کو ہم نے اسی لئے فضیلت دی ہے کہ وہ عقل کے لئے سب سے زیادہ کار آمد آلہ ہے۔ اسی واسطے جناب خُداوند مسیح نے کیا خوب فرمایا کہ بدن کا چراغ آنکھ ہے۔اگر تیری آنکھ درست ہوتو تیرا سارابدن روشن ہوگا۔ اوراگر تیری آنکھھ خراب ہو تو تیرا سارا بدن تاریک ہوگا۔ پس اگروہ روشنی جو تجھ میں ہے تاریکی ہوتو  تاریکی کیسی بڑی ہوگی (متی ۶: ۲۲-۲۴)۔ لوقا ۱۱: ۳۴-۳۶)۔ پس ثابت ہوا کہ تمام عقلی کارنامے محض حواس کی موجودگی کی برکت ہیں۔ اورجہاں حواس کا م نہ دیں وہاں عقل مجرد بیکار ثابت ہوتی ہے۔ لہٰذا رُوحانی واخلاقی حقائق ودقائق جو کسی حس سے محسوس نہیں ہوسکتے اُن کی تفہیم وتعقیل عقل مجرد سے قطعی ناممکن ہے۔ اورعقلی وعلمی کمالیت سےروحانی واخلاقی ترقی لازم نہیں آتی۔ جب تک اُس میں کوشش نہ کی جائے۔جو شخص کمیسٹری میں باہر اوریگانہ عصر ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ اُسی علم کی روشنی میں الہٰیات کا بھی عالم ہو۔عقلی باتیں تو عقل دریافت کرسکتی ہے۔لیکن فوق العقل حقائق کو کیسے جان سکتی ہے ؟ آگ جلا دیتی ہے برف ٹھنڈی ہوتی ہے۔ پانی ہمیشہ نشیب کی طرف بہتا ہے۔ سورج سے روشنی اورحرارت صادر ہوتی ہے۔ ہوا اوراپانی کے بغیر زندگی نہیں۔ سنکھیا مہلک ہے۔عسل شیریں ہے۔جنظل تلخ ہے۔ جب الملوک دست آور شے ہے۔ دو متوازی خطوط کا اتصال محال ہے۔ دو اوردو چار ہوتے ہیں۔ جو جُز میں ہے وہ کل میں ہے وغیرہ یہ سب بدیہی حقیقیتں ہیں۔ ان پر اورایسے ہی اورہزاروں امور پر تمام افراد ِعالم من حیث الاجتماع اتفاق کلی رکھتے ہیں۔ ا سکی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام حقائق تجارب ِمشہودہ پر مبنی اورحواس سے محسوس ہوسکتے اوربدیہی الظہور ہیں۔ لیکن طبعیات  بدیہیات میں بھی بعض امور ایسے ہیں جن پرسب لوگ اتفاق نہیں رکھتے۔ مثلاً آریہ وغیرہ مادہ واَرواح انسانی کو قدیم مانتے ہیں۔ اورمسیحی ومسلمان اوردیگر بہت لوگ حادث مانتے ہیں۔ حالانکہ مادہ دیدنی کثیف اورعقلیات حسیات سے ہے۔ اورہر انسانی اپنی رُوح کاکم وبیش وجدانی اِحساس رکھتا ہے۔ جب بدیہیات میں ایک عقل دوسری عقل کے مخالف ہے۔ اورعقلی نتائج میں بعد المشہ قین ہے۔ تو عقل روحانی اورغیر مرئی وغیر محسوس حقائق لطیفہ اورامور دقیقہ کی دریافت میں کیسے کامیاب ہوسکتی ہے ؟ اوررُوحانیات ومدہبیات کے متعلق تضاد وتناقض فی العقول بدیہی ہے۔ عالم کا عدم سے بحکم الہٰی موجود ہو جانا۔ اِلہام معجزات ،گناہ اورنجات ،حیات بعد از ممات ،وجود ملائکہ۔ قیامت ، عدالت ، اَبدی سزا اوراَبدی زندگی وجود ایزد تعالیٰ وغیرہ امور سب مزہیبات وایمانیات سے متعلق ہیں۔ اورسب فوق الفہم والعقل حقائق ہیں۔ اورعقل کی رَسائی سے باہر ہیں۔ اور جب تک کوئی صداقت یا حقیقت اپنے علم کا موقع نہ دے عقل خود بخود اُس کا علم حاصل نہیں کرسکتی۔ پس عقل محدود ہے اور محدودات سے باہر اُس کی قوت پر بھروسہ رکھنا لاحاصل ہے۔

ارتقائے عقل

ہم نے نہایت تفصیل کے ساتھ اس امر کو واضح کردیا۔ کہ عقل ِانسانی محدود ہے اوروہ کسی حد کے اندر اندر رہ کرہی اپنا کام کرسکتی ہے اوراس سے آگے نہیں جاسکتی۔درختوں کے اُوپر بیجد خلاء  موجودہے۔ اُن کے آسمان تک بڑھ جانے میں کوئی شئے مانع نہیں۔ تمام فضاء اُن کو آسمان تک بلند ہونے کے لئے دعوت دے رہی ہے۔لیکن دیکھئے کہ وہ اپنی مقررہ حدود تک ترقی کرلینےکے بعد رُک جاتے ہیں۔ اسی طرح طبقہ نباتات ،حیوانات اورانسان کے قدوقامت کے آسمان تک بڑھ جانے میں کوئی شئے محدود مُسد نہیں۔ جہاں تک وہ بڑھنا چاہیں بڑھیں۔ لیکن مشاہد ہ یہ ثابت کرتا ہے کہ کوئی شئے ارتقائی لحاظ سے اپنی مقررہ حُدود سے تجاوز نہیں کرسکتی۔ تو بھلا عقل انسانی اپنی حدود سے کیسے متجاوز ہوسکتی اور کس طرح امور رُوحانیہ اورحقائق لطیفہ وغیر محسوسہ کو جان سکتی ہے ؟ خُدا نے ہر شئے کے ساتھ عقل کی بھی حد ٹھہرائی ہے۔ تُو نے اُس کی حدوں کو مقرر کردیا ہے جنہیں وہ پار نہیں کرسکتا (ایوب ۱۴: ۱۵)۔ تُونے حدباندھ دی تاکہ وہ آگے نہ بڑھ سکے۔(زبور ۱۰۴: ۹، ۱۹۹: ۹۶ )۔ واضح ہوکہ گو خُدا نے عقل کو محدود بنایا ہے۔لیکن جس طر ح تمام اشیاء میں اُس قادر مطلق نے ارتقائی قوت ِفطری طورپر رکھ دی ہے۔اور ہر شئے ابتدائی وسطی اورانتہائی منازل ترقی کو بتدریج طے کرتی جاتی ہے۔ اسی طرح عقل انسانی کے لئے بھی میدان ترقی وسیع ہے۔ ایک بیج جو زمین میں بویا جاتا ہے وہ تہ خاک ہی میں پورا درخت نہیں بن جاتا۔ وہ خاک کے نیچے زیادہ سے زیادہ دو یاتین انچ لمبا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ارتقا ء انتہائی کے تمام سامان زمین کے نیچے موجود ہیں ہوتے۔ پوری ترقی پودا زمین سے باہر نکل کر ہی کرسکتا ہے۔ اسی طرح انڈے کے اندر جو چوزہ ہے وہ اُس خول کے اندر بقدر گنجائش ہی بڑھ سکتاہے۔ لیکن کمالیت اُس خول سے باہر نکل کر ہی حاصل کرسکتا ہے۔ اس بیان سے پودے اورچوزے میں کمالیت کی عدم استعداد مُراد نہیں ،بلکہ ارتقائی صلاحیت واستعداد تو ہوتی ہے پر زمین اورخول بیضہ اُن کی کمالیت کے محدود ہوتے ہیں۔ اورحصول کمال کے تمام وکمال سامان وہاں نہیں ملتے۔ اسی طرح رُوح ِانسانی اسی جسمی خول کے اندر رہتے ہوئے حصول بڑھ سکتی۔ اوررُوح کی قوت ِتعقل کو ترقی کے واقع نہیں ملتے۔ مقدس پولوس رسول نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ اب ہم کو آئینے میں دھندلا سا دکھائی دیتا ہے۔مگر اُس وقت رُو برو دیکھیں گے۔ اس وقت میرا علم ناقص ہے مگر اُس وقت ایسے پورے طورپر پہچانوں گا جیسے میں پہچا نا گیا ہوں (۱۔ کرنتھیوں ۳۱: ۱۲) کیونکہ ہمارا علم ناقص ہے اور ہماری نبوت ناتمام لیکن جب کامل آئے گا تو ناقص جاتا رہیگا (۱۔کرنتھیوں ۱۳: ۹-۱۰) ہماری عقل اس جس میں خول کے اندر رہ کر رُوحانی اورنادیدنی حقائق کو ایمان کی آنکھ سے دُھندلا سادیکھتی ہے۔لیکن ایک وقت آئے گا جب عقل انسانی سے حجاب اُٹھ جائے گا اوراُس وقت وہ رُوحانی حقیقتوں کو رُوبر و دیکھے گی۔ رُوحانی ترقی اس جسم میں شروع ہوجاتی ہے اوربتدریج اس فانی جسم سے آزاد ہوکر وہ ترقی کمال کو پہنچے گی۔ اورہم اُس جلالی صورت میں درجہ بدرجہ بدلتے جاتے ہیں(۱۔ کرنتھیوں ۳: ۱۸) اورہمارے عقلی ورُوحانی قویٰ بقدر متناہ ترقی کرتے کرتے لامحدودنہ ہوجائیں گے۔ کیونکہ محدود شئے ابد تک ترقی کرنے سے بھی لامحدود نہیں ہوسکتی۔

عقل اَور موالید ِثلٰثہ

ماہرین طبعیات تمام موجودات کو طبقات ِثلٰثہ میں منقسم کرتے ہیں جمادات نباتات اورحیوانات اورانسان کو طبقہ حیوانات میں شامل کرکے اُسے حیوان ِناطق کہتے ہیں۔ ان ہرسہ طبقات میں خاصیات وصفات کے لحاظ سے خاص امتیازات نظر آتے ہیں۔ جو ایک طبقہ کو دوسرے سے اشرف یا ادنی ٰ ٹھہراتے ہیں۔ مثلاً جمادات میں فوت ِنامیہ مفقود ہے اورنباتات جسم نامی ہے۔یعنی اُس میں نمو کی قوت موجود ہے۔ ازیں وجہ وہ جمادات سے اعلیٰ ہے۔ پھر نباتا ت میں حس، ارادہ اورحرکت معدوم ہے۔ لیکن حیوانات میں قوت ِنامیہ کے علاوہ حِس ،حرکت ، ارادہ اورجان موجود ہے۔حیوانات حسِاس،متحرک بالا رادہ اورذی جان ہیں۔ اورانسان وحیوان میں وجہ امتیاز نفسِ ناطقہ ہے یعنی انسان ذی جان ہونے کے علاوہ ذی رُوح بھی ہے۔ اوراُس میں ادنی ٰ طبقات ِثلٰثہ کی حیثیتں اُس کے اعلیٰ وافضل مدراج میں پائی جاتی ہیں۔

وہ پتھر لکڑی اورہتھیار کے نقصان سے بھی واقف ہیں۔پھر طبقہ حیوانات کو انسان کی نسبت بہت ہی تھوڑا علم ہے۔گائے بھینس ،بیل ،گھوڑا ، اُونٹ،بھیڑ ،بکری ،گدھا ،کُتا ،طوطا ،مُرغی وغیرہ اپنے مالک کو خُوب پہچانتے ہیں۔ اورغیر آدمی کو غیر سمجھتے ہیں۔ا نسان کے غصہ اورنرمی وہمدردی میں امتیاز کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ بدیہی بات ہے کہ وہ انسان کی حقیقت کو ایسا نہیں جان سکتے جیسا انسان اُن کو جان سکتا ہے۔ انسان جمادات کو جانتا ہے۔ پتھر کوئلے ،سونا ،چاندی ،اوردیگر دھاتوں کے خواص وفوائد سے بخوبی واقف ہے۔ علم طب میں ہرنوع کی جڑی بوٹیوں اورپھولوں پھلوں کی تشریحات موجود ہیں۔ ان کے فوائد اورنقصانات سے کامل ِواقفیت رکھتا ہے۔ حیوانات کا پورا علم رکھتا ہے۔ علم الا جسام، علم خواص الا شیاء،علم الانوار، علم النفس طب اور صد ہا علوم وفنون جوانسانی تحقیقات کا ماحصل ہیں اس حقیقت پر شاہد ہیں۔ کہ انسان ہر سہ ادنی ٰ طبقات کا علم کامل اوریقینی رکھتا ہے۔ برخلاف اس کے ادنیٰ طبقات کو انسان کاکچھ علم نہیں ہے۔پھر طبقہ انسانی میں بھی عقلاء و جُہلا کی تفریق ہے۔ جو کچھ حکما ء وعقلا طبقہ جُہلا ء کے متعلق علم رکھتے ہیں وہ جُہلاء کی تفریق ہے۔ جو کچھ حکما ء و عقلا طبقہ جُہلاء کے متعلق علم رکھتے ہیں وہ جُہلا ء اُن کے متعلق نہیں رکھتے۔ بچے والدین کی نسبت اُس قدر علم نہیں رکھتے جس قدر والدین بچوں کی نسبت۔اسی طرح انسان صنعیف البیان اورناقص العقل ومحدود العلم کی ہستی جس قدر مذکورہ بالا تین طبقوں سے اعلیٰ ہے اُسی قدر بلکہ اُس سے بھی لاکھ درجہ خُدائے تعالیٰ بے حدود بے عد کے بالمقابل ادنی ٰ ہے۔ تو بھلا انسانی عقل کی کیا مجال ہے کہ وہ طبقہ الہٰی اورحقائق رُوحانی ودقائق فوق الفہم کی حیطہ ادراک میں لاسکے۔ عقل انسانی محض من حیث الآ ثار ہی طبقہ الہٰی اوروجود لامتناہی کا کچھ تصور کرسکتی ہے۔ جس طرح حیوانات کا علم انسان کے متعلق بہت ہی معمولی اور ناقص ہے۔ اُسی قدر بلکہ اُس سے بھی بدرجہا کم انسان اپنی عقل مستناہیہ وفہم محدود سے حقائق قُدسیہ الہٰیہ کی تفہیم کرسکتا ہے۔ اوربطور استدلال انی معلول سے علت اورمصنوع سے صانع کا تصور کرسکتا ہے۔ کیونکہ جو کچھ خُدا کی نسبت معلوم ہوسکتا ہے وہ اُن کے باطن میں ظاہر ہے۔(اوروہ بھی ) اس لئے کہ خُدا نے اُس کو اُن پر ظاہر کردیا۔ کیونکہ اُس کی اَن دیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اورالوہیت دُنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعے سے معلوم ہوکر صاف نظر آتی ہیں۔ یہا ں تک کہ اُن کو کچھ عذر باقی نہیں۔ (رُومیوں ۱: ۱۹-۲۰) مشاہد ہ فطرت سے خُدا کا صرف مثالی علم ہی حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اُس کی حقیقت کا یقینی علم محال ہے۔ اگر کائنات کے صرف مشاہدہ ہی سے خالق کایقینی اورصحیح علم حاصل ہونا ممکن ہوتا۔تو دُنیا میں اُس کی ہستی اورماہیت کے متعلق خیالات وآراء میں منافقت نہ مخالفت نہ ہوتی۔پس انسان مجوب الفہم من حیث العقل حقائق الہٰی اوروجود لامتناہی کے صحیح تصور میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ واہ ! خُدا کی ذات اورحکمت اورعلم کیا ہی عمیق ہے۔ اُس کے فیصلے کس قدر ادراک سے پرے اوراُس کی راہیں کیا ہی بے نشان ہیں۔ خُداوند کی عقل کو کس نے جانا۔ یاکون اُس کا صلاح کار ہوا ؟ (رُومیوں ۱۱: ۳۳- ۳۴)۔

عقل کی عدم صحت

واضح ہوکہ عقل طبعی کی کارگزاری کے نتائج عالم میں مختلف ہیں جس سے عقل ناقابل اعتبار ٹھہرتی ہے۔ اسی عقل نے ہزاروں لوگوں کی رہنمائی کی اور وہ خُدا کی ہستی سے منکر ہوگئے اورعقل کفر ولحاد کی موید دبانی ٹھہری۔اسی عقل کی رہنمائی میں لاکھوں انسان بتوں کو خُدا سمجھنے لگے۔ اسی عقل کی روشنی میں بیشمار لوگ بُت پرستی پر آمادہ ہوگئے۔ اسی عقل نے لاکھوں انسانوں کو گمراہ کردیا۔ او ر وہ گور پرستی پیرپرستی،لنگ پرستی، مردم پرستی، عناصر پر ستی،فطرت پرستی اور تناسخ جیسے غیر معقول ومجہول عقائد پر ضمیر فروشی کرنے لگے۔ اسی عقل نے ہدایت کی اورآریہ لوگ مادہ وارواح کو قدیم ماننے لگ۔ اسی عقل نے ہدایت کی اور آریہ لوگ مادہ وارواح کو قدیم ماننے لگے۔ اسی عقل کے اشاروں پر مسیحی ومحمدی مادہ وارواح کی ازلیت وقدامت کی تردید وتکذیب پر جھکے۔ غرضیکہ آج تک تفادت فی العقول بدیہی طورپر ظاہر وبا ہر ہے۔ آخر یہ تمام عقائد یا عقل کے تمام نتائج تو صحیح نہیں ہوسکتے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ پانچ اورپانچ نو ہوتے ہیں۔ دوسرا کہتا ہے گیارہ تیسرا کہتا ہے سات اورچوتھا کہا پانچ نو ہوتے ہیں۔ دوسرا کہتا ہے گیارہ تیسرا کہتا ہے سات اورچوتھا کہتا ہے دس، آخر ان چاروں کے جواب توصحیح نہ ہوں گے۔ ایک ہی جواب درست ہوسکتا ہے۔ جب خُداواحد وبرحق ہے۔ اورتمام عقلیں بھی صحیح ہیں۔ تو مختلف عقائد اورمتضادخیالات کے وجود کے کیامعنی ؟ ایک ہی خُدا اتنے متضاد ومتناقض عقائد کابانی نہیں ہوسکتا۔ پس انسانی عقلوں میں اختلاف وتناقص کی وجہ اُن کی عدم صحت ہے اورعد م صحت کا موجب گناہ۔ اس لئے موضوعات ِعقلیہ کو کوئی حقیقی والہٰی مذہب قرار دینا سراسر جہالت اورکج فہمی ہے۔ عقل کے تمام پُرزوں پر گناہ کا زنگ لگ گیا ہے۔ اس لئے اُس کی رفتار ہیں فرق ہے ۔اوراٗن آدمیوں میں رد وبدل پیدا ہوتا ہے جن کی عقل بگڑ گئی ہے۔ اوروہ حق سے محروم ہیں۔(۱۔ تمتھیس ۶: ۵)۔ کیونکہ اُن کی عقل تاریک ہوگئی ہے۔(افسیوں ۴: ۱۸)۔ یہ ایسے آدمی ہیں جن کی عقل بگڑی ہوئی ہے اور وہ ایمان کے اعتبار سے نامقبول ہیں (۲۔ تمتھیس ۳: ۸) جن کی عقلوں کو اس جہان کے خُدا (یعنی ابلیس ) نے اندھا کر دیا ہے۔(۲۔ کرنتھیوں ۴:۴)۔

میرا مطلب عقل کی عدم صحت سے یہ نہ سمجھا جائے کے گناہ کے باعث عقل کی قوتیں زاہ ہوگی ہیں یا معدوم وناپیدا نہیں ہوگئیں۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ اصلی حالت پر نہ رہیں۔ مثلاً ہمارے سامنے میز پر دس گھڑیاں رکھی جائیں جو بخوبی چل رہی ہیں۔ بظاہر صاف اورصحیح معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن جب اُن میں وقت دیکھا جاتا ہے۔ تو سب میں دس دس،پندرہ پندرہ اوربیس بیس منٹ کا فرق ہے تو آخر کس بناء اُن کی رفتار پر صحت کا حکم لگایا جائے ؟ گھڑیاں ثابت ہیں،پُرزے قائم ہیں۔گھنٹے،منٹ اورسیکنڈ کی سوئیاں حرکت کررہی ہیں۔مگر سب کے اوقات میں مطابقت ویکسانیت نہیں۔ اسی سے اُن کی عدم صحت ثابت ہوگی۔ یہی حالت جمیع عقول انسانی کی ہے۔اس واسطے مجرد عقل کے نتائج وحاصلات کو کسی مذہب کا صحیح قرار دینا ضلالت وگمراہی کو خوش آمدید کہنا ہے۔ عقل کی مذکورہ بالا حالت پر غور کرتے ہوئے ہمیں عقلی ونقلی طورپر عقل کی دوحالتیں معلوم ہوتی ہیں۔ یعنی۔

اول۔ پہلی حالت عقل کی وہ تھی جبکہ وہ کمالیت،صحت اورپاکیزگی کی حالت میں خالق کے ہاتھ سے نکلی۔ اس کے متعلق کلام اللہ کی شہادت یہ ہے اورخُدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا(پیدا ئش ۱: ۲۷)۔ یہا ں خُدا کی صورت سے وجہ اللہ مُراد نہیں ہے بلکہ اس صورت سے مُراد رُوحانی صورت ہے۔ اکثر خبیس الطبع لوگ نادانی سے یہ سوال کیا کرتے ہیں۔ کہ چونکہ انسان خُدا کی صورت پر بنایا گیا ہے اوروہ جسم واعضا ء رکھتا ہے۔ الہٰذا انسان کی طرح خُدا بھی جسم واعضا ء رکھتا ہوگا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر اُن کے اس نامعقول معارضہ کا مدفل جواب لکھا جائے۔ اورگمراہوں کو راہ دکھائی جائے۔ جو لوگ علم تشبیہ واستعارہ سے واقف ہیں وہ ایسا پودا اعتراض نہیں کر سکتے۔واضح ہو کہ ہر جگہ لفظی معنی لینا جائز نہیں۔ اوربالخصوص صحائف مطہرہ کی عبارات کے سمجھنے میں زیادہ احتیاط برتنا چاہئے۔ ایک حکیم کہتا ہے کہ یہ نسخہ ہتیلی پر سرسوں جمانے والا ہے تو اس سے لفظی معنی مُراد نہ ہوں گے بلکہ محض دوا کی زور اثر ہی مُراد ہوگی اورداود ہوگی اورداود نبی خُدا سے یہ التجا کرتا ہے کہ مجھے اپنے پروں کے سایہ میں چھپالے (زبور ۱۷: ۸)۔ تو کیا اس سے خُدا کو پرندہ سمجھا جائے گا؟ ہر گز نہیں بلکہ مُراد یہ ہے کہ اَے خُدا مجھے اپنی پناہ و حفاظت میں رکھ۔ خُدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا اس آیت میں انسان مشبہ حتی ہے۔ خُدا مشبہ بہ عقلی اوروجہ شبہ مرکب عقلی ہے۔ جب مشبہ حسی اورمشبرہ دونوں حسی ہوں تو یہ سوال جائز ہوسکتا ہے۔ لیکن آیت زیربحث میں تشبیہ تمثیل ہے۔ اورتشبیہ تمثیل میں وجہ شبہ مرکب حسی نہیں ہو ا کرتی بلکہ مرکب عقلی ہوتی ہے۔ اور خُدا کے ساتھ انسان کا یہ اشتراک صفائی تشبہی ہے۔ عین مطابقی نہیں۔ اورخلاصہ مطلب یہ ہوا کہ جس طرح خُدا پاک وفاعل مختار ذی عقل اورصاحب ِارادہ ہے۔ اُسی طرح اُس نے انسان کو بھی ان صفات سے متصف فرمایا۔ خُدا کی صورت کے معنی ملاحظہ ہوں (افسیوں ۴: ۲۴،کلسیوں ۳: ۱۰ عقلی طورپر یہ حقیقت اس لحاظ سے درست ہے کہ اگر خُدا نے انسان کو پاک اورکامل نہیں بنایا تھا تو اُس کا گناہ میں گرنا خُدا سے انحراف وبغاوت نہیں۔ نہ ہی الہٰی سرتابی ہے اورخُدا نے اُس سے نیکی پاکیزگی اوراپنی متابعت کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ دوم خُدائے پاک وقدوس سے ناپاک طبعیت کے معلول کا اصدار محال ہے۔پس ثابت ہوا کہ خُدا نے انسان کو پاک وراست بنایا تھا۔ یہ انسانی رُوح اورعقل کی حالت اولہ تھی (واعظ ۷: ۲۹)۔

دوم۔ اورعقل کی حالتِ ثانیہ موجود متنزل اوربگڑی ہوئی حالت ہے۔ اُن کی عقل اور دل دونوں گناہ آلودہ ہیں(۱۔ طیطس ۱: ۱۵ ۲۔ تیمتھس ۳: ۸ ) قتل کے اسی لخطاط وتنزل کے باعث پولوس رسول فرماتا ہے۔ مگر نفسانی آدمی خُدا کے رُوح کی باتیں قبول نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ اُس کے نزدیک بیوقوفی کی باتیں ہیں اور نہ وہ اُنہیں سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ رُوحانی طورپر پرکھی جاتی ہیں(۱۔ کرنتھیوں ۲: ۱۴)۔ خُداوند یسوع مسیح نےجو مسرف بیٹے کی تمثیل (لوقا ۱۵: ۱۱- ۲۳)میں فرمایا ہے وہ انسان کی اِسی دوقسم کی حالت کا مکمل فوٹو ہے۔ مسرف بیٹے کی پہلی حالت جبکہ وہ باپ سے رُخصت ہوا بہت دولتمندی اورخوشحالی و خوشی کی تھی۔ اوردوسری حالت انتہائی تنگدستی۔ ناداری اورکس مپرسی کی تی۔ چنانچہ رُوح وعقل انسانی کی موجود ہ حالت مسرف بیٹے کی حالت ِثانیہ کے مطابق ہے۔اب خُدا جو رحیم وکریم اورسرچشمہ محبت ہے کبھی ہو نہیں سکتا کہ انسان کو ابدتک اس عقلی وروحانی گمراہی میں رہنے دے۔اورہم یہ بھی خوب جان گئے کہ محض عقل سے اوروہ بھی مریض ومتنزل عقل سے خُدائے قادرِمطلق کو جان نہیں سکتے۔ کیونکہ عقل کے بازو ہم نے صدیوں آزمادیکھے۔ اب عقلی مذاہب کے دعوے دار اور عقل کے شیدائی جواُس کو اُس کے اصل مرتبہ سے بہت زیادہ بلند کرکے دکھاتے ہیں خوب غور کرلیں کہ عقل طبعی کس قدر قابلیت کی سرمایہ دار ہے ۔ا ورا ُس کو اُس ک جائز درجہ سے بڑھ کر سمجھنا کس قر کو ر اعتقادی،خوش فہمی اورحقیقت سے روگردانی ہے۔ اب آخری ممکن اور صحیح صورت ہی ہوسکتی ہے کہ خُدا ئے تعالیٰ خود اپنا علم وعرفان انسان کو عطا فرمائے۔ اورکسی طرح سے اپنی ذات وصفات اورمرضی کو اُس پر ظاہر کرے۔ تاکہ انسان عقل کوے پیچھے لگ کر گمراہی سے گمراہی کی طرف نہ بڑھتا چلاجائے۔ اگلے باب میں ہم خُدا کے اُسی ذریعہ ووسیلہ کا بیان کریں گے جس کی وساطت سے ہم خُدا شناسی تک پہنچ سکتے ہیں۔

(۵)

الہام کی ضرورت

جب رُوح انسانی پر انحطاط وتنزل نے قبضہ جمالیا اوراُس کا وہ نور بصیرت جوخُدا نے اُسے بخش دیا تھاگناہ کی تاریکیوں میں بالکل مدھم پڑگیا۔ اورچشم بصیرت پر معصیت کا پَردہ ساچھاگیا۔ تواُس نے گناہ کی تیرگی میں ادھر اُدھر پاو ں مارنے شروع کئے۔ اوراس ظلمت میں جو بھی پگڈنڈی اُسے سوجھی بس اُسی کو تھام لیا جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہار ا مگر راہ ِحق کے حصول میں ناکا م رہی۔ عقل کی اس لاچاری اوربے بسی کی حالت میں خالق نے الہام کی مشعل سے صراط ِ مستقیم کی طرف اُس کی رہنمائی وہدایت فرمائی۔ جس مدعا ومقصد کے حصول میں عقل ِانسانی ناکا م رہی۔ وہ خُدا نے الہام کی وساطت سےعطا فرمایا۔ گویا اُس فوق الفہم وادرا ہستی نے انسان سو والفہم وفاسد العقل اورمحدود العلم پر خود اپنی ذات وصفات اورمرضی کا انکشاف فرمایا۔ کیونکہ اورکوئی صورت ممکن ہی نہ تھی۔

جوڑا اورترقی

یہ بدیہ حقیقت ہے کہ فطرت کی کوئی شئے بغیر جوڑے کے کبھی ترقی نہیں  کرسکتی۔ ہر شئے جوڑے کے ساتھ مل کر بڑھ سکتی ہے۔ ورنہ مجرد ہی رہتی ہے۔ نباتا ت حیوانات اورانسان میں جوڑے کاوجود ترقی کی شرط ہے۔چنانچہ موجودات کی ہر ہر جنس میں مذکرو مونٹ اورنرد مادہ کاوجود اس صداقت پر دال ہے۔ آنکھوں کا جوڑا آفتاب ہے۔اگر آفتا ب نہ ہوتو ہم کچھ بھی دیکھ نہ سکیں۔ کان جوڑا ہوا ہے۔ اگر ہوا نہ ہوتو ہم کو ئی آواز بھی سن نہ سکیں۔ بیج کا جوڑا زمین ہے۔ اگر ایک بیج کو دس سال تک کسی ڈبی میں بند کررکھیں تو وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ لیکن زمین میں بونے سے تیسرے دن اُگ آتا اوربتدریج کمال کو پہنچتا ہے۔ اورایک دانے کے درجنوں دانے ہوجاتے ہیں۔ برقی تار کے دوسرے ہوتے ہیں۔ ایک مثبت اوردوسرا منفی۔ اگران دونوں کو باہم ملایا نہ جائے تو بجلی پیدا نہیں ہوسکتی۔ لیکن ملانے سے فوراً بجلی پیداہوجاتی ہے۔ اسی طرح عقل مجرد کو لھو کے بیل کی طرح ایک ہی مرکز کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ اوراپنی مخصوص حدود سے باہر نہیں جاسکتی۔ پس عقل کا جوڑا الہام ہے۔جب دونوں کا ملاپ ہوتا ہے۔ تو تیسری شئے پیدا ہوتی ہے۔ اوروہ خُدا کی معرفت اورحقیقت کا علم ہے۔ موٹر صرف سمند رکے کنارے تک ہی پہنچا سکتی ہے۔ پار نہیں لے جاسکتی اورممکن ہے کہ موٹر ڈرائیوڑ یہ سمجھے کہ سمندر کے پرے اورکوئی عالم نہیں۔ پس پانی ہی پانی ہے اوراسی طرح دیدانتی کی عقل بھی نیچر کےحالات ِ موجودہ اورتجارب مشہورہ کی بنا پر کہدے کہ اس عالم ناسوت سے پرے اورکوئی رُوحانی عالم نہیں اورخُدا بھی کوئی غیر از نیچر شئے نہیں۔ بلکہ جو کچھ نظر آتا ہے وہی ہے۔ لیکن سمندر کے پار جہاز لے جاتا ہے۔ اورثابت کرتا ہے کہ سمندر کے پار اوربھی دنیابسی ہے۔ اوراُس کی یہ کیفیت ہے۔ جس طرح موٹر اورجہاز دونوں کے ذریعے سمندر پار کی دُنیا کا علم حاصل ہوتا ہے۔اُسی عقل والہام کے ذریعے عام ناسوت سے عالم لاہوت تک پہنچنا اوراُس سے کم وبیش واقفیت حاصل کرنا ممکن ہے ۔اگرانسان میں عقل نہ ہوتی توالہام بے معنی ہوتا۔ اوراگر الہام نہ ہوتا تو عقل رُوحانی اورالہٰی حقائق کے علم سے قاصر رہتی۔ بہرحال دونوں کا وجود ترقی کے لئے ضروری ہے۔ جب انسان اپنی کمزور عقل اورمحدود حواس سے خُدا ئے بیحد کی ہستی کے متعلق صحیح علم حاصل کرنے میں قاصر اورمجبور ثابت ہوتو ایزد تعالیٰ لے اپنی ہستی اورعالم لاہوت کی کیفیت کو اپنی رُوح کے وسیلے بوساطت انبیاء موسلین کے خود اُس پر آشکارا فرمایا۔ جو چیزیں نہ آنکھوں نے دیکھیں نہ کانوں نے سُنیں۔ نہ آدمی کے دل میں آئیں وہ سب خُد ا نے اپنے محبت رکھنے والوں کے لئے تیار کردیں۔ لیکن ہم پر خُدا نے اُن کو رُوح کے وسیلہ ظاہر کیا۔ کیونکہ رُوح (رُوح الہٰی) ساری باتیں بلکہ خُدا کی تہہ کی باتیں بھی دریافت کرلیتا ہے۔۔۔اِسی طرح خُدا کے رُوح کے سوا خُدا کی باتیں کوئی نہیں جانتا (۱۔ کرنتھیوں ۲:۹- ۱۱)۔

رُوح خود ہماری رُوح کے ساتھ مل کر گواہی دیتا ہے (رومیوں ۸: ۱۶) انسانی عقل گویا منفی اورالہام الہیٰ(۲۔ تیمتھیس ۳: -۱۶ ۱۷)۔ مثبت ہے جب ان دونوں کاملِاپ ہوا تو عقل انسانی میں نور آیا۔ اورالہام الہٰی وہ سلسلہ حقائق وددائق لطیفہ رُوحانیہ اورنکات ومعارف قُدسیہ الہٰیہ ہے  جس کے ذریعے خُداتعالیٰ تدریجی طورپر حصہ بہ حصہ اورطرح بہ طرح بنی نوع انسان پر اپنی مرضی ومنشا کا اظہار وانکشاف بذریعہ انبیاء مُہلین کے فرماتا ہے۔ اورخُدا کی رُوح منزل علیہ کے ذہن عقل کو مکاشفہ دینے سے پہلے اس قابل بنا لیتی ہے ۔ کہ وہ پیغام ِالہٰی کو قبول کرکے اُس کے مفہوم کو سمجھنے کی صلاحیت رکھے۔ کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی۔بلکہ آدمی رُوح القدس کی تحریک کے سبب خُدا کی طرف سے بولتے تھے۔ (۲۔ پطرس ۱: ۲۱ ) اورعقل ِانسانی الہام الہٰی کے وصال سے لاا نتہا تورانیت کے عالم میں پہنچ جاتی ہے۔ اورمعرفت ِالہٰی کے اسرار سربستہ ورموز مخفیہ کو سمجھنے کے قابل ہوجاتی ہے۔

عقل الہام کی متقاضی ہے

جس طرح امراض جسمانی وعوارض جسدانی اس دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اورہر شخص اُن کے متعلق ذاتی تجربہ رکھتا ہے اسی طرح عوراض رُوحانیہ بھی ہرشخص میں حقیقتاً اوربدیہی طورپر ظاہر ہیں۔ رُوح وجسم کے اجتماع کا نام انسان ہے۔ رُوح لطیف اوراشرف وجود ہے۔ اورجسم کثیف وادنی ٰ شے ہے۔ چنانچہ رُوح کے بگاڑ سے جسم کا بگاڑ لازم آیا۔ جب رُوح پر مرض گناہ نے ڈیرے ڈال لئے تو جسم پربھی اُس کے آثار ظاہر ہوئے۔ اورجسم بھی طرح طرح کے امراض میں پھنس کر قبضہ موت میں آگیا۔ اب یہ ہر دانشمندپر ظاہر ہے کہ امراض جسمانی کی مدافعت وازالہ کے لئے خُدا نے حکیم وقدیر نے بیشمار ادویہ۔جڑی بوٹیاں وغیرہ پید اکردی ہیں۔ اورماہرین طب اورحکما واطباء نے اُن کے خواص و فوائد کی مفصل تشریحات کتب طب میں فرمادی ہیں۔ یہ خُدا تعالیٰ کا وہ بے نظیر انتظام ہے جس سے جسم کے تما امراض کی مدافعت اورجسمانی زندگی کے استحفاظ واصلاح کے بارے میں اُس کی قدرت وحکمت ظاہر ہے۔ جس حال کہ انسان کی جسمانی زندگی کی صحت وقیام کے با ب میں اُس نے اِس قدرسخاوت کے دریا بہادئے ہیں۔ توبڑے افسوس اورحیرت کا مقام ہو اگر وہ انسان کی رُوحانی زندگی کی بہتری۔ اصلاح اورحفاظت کے با ب میں بخل واغماض سے کام لے۔ بلکہ  جس طرح رُوح بہ نسبت جسم کے اعلیٰ اورانمول شئے ہے اُسی طرح اُس کی صحت وبقا کے لئے فطرہ میں جسمانی اسباب کی بہ نسبت اعلیٰ رُوحانی اسباب ووسائل کا پیدا کرنا اوراعلیٰ قوانین کا نفاذ زیادہ ضروری ولازمی ٹھہرتا ہے۔ چنانچہ خُدا وند کریم نے ایسا ہی کیا اوررُوحانی امراض کی تشخیص ومدافعت کے لئے روحانی حکمت کی کتاب بھی نازل فرمائی۔ اوروہ کتاب بائبل مقدس ہے۔ ہر ایک صحیفہ جو خُدا کے الہام سے ہے تعلیم اورالزام اوراِصلاح اورراست بازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ مند بھی ہے۔ تاکہ مرد خُدا کامل ہے اورہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائے (۱۔ تمتھیس ۳: ۱۶- ۱۷)۔ کیونکہ جتنی باتیں پہلے لکھی گئیں وہ ہماری تعلیم کے لئے لکھی گئیں۔ تاکہ صبر سے اور کتاب ِمقدس کی تسلی سے اُمید رکھیں۔(رومیوں ۱۵: ۴)۔

پس عقل کے اس واجبی تقاضا کو اِلہام ہی پورا کرسکتا ہے۔ اگررُوحانی طب کی کتاب (الہام) اورروحانی اصلاح کے اسباب خُداوند کریم اس دُنیا میں ہمیں نہ بخشتا اورصرف جسمانی اسباب ہی کے دینے پر اکتفا کرتا تو اُس کی قدرت وحکمت پر دھبہ آتا تھا۔ لیکن اُس نے دونو قسم کے انتظام کرکے ہمارے لئے عُذر کی کوئی وجہ نہیں چھوڑی۔

اِلہام اورباطنی شریعت

اِنسان فطِرتا ً عقلی اوراخلاقی وجود ہے اورخُدا نے اُسے اپنی صورت پر پاک وراست صاحب ارادہ۔اورفاعل مختار بنایا۔ اوراپنی مرضی کا اظہار اُس پر فرمایا۔ یعنی اخلاقی شریعت اُس کو بخشی۔ وہ شریعت کسی ظاہر ی وتحریری صورت میں نہ تھی۔ بلکہ انسان کی عقل وضمیر پر مرتسم کی گئی تھی۔ جب انسان نے وہ باطنی اخلاقی شریعت کھودی۔ اورگناہ کی تاریکی میں وہ انمول وبیش بہاشئے گُم ہوگئی۔ اورانسان کے دل سے خُدا کی وہ صورت جس کی مانند وہ بنایا گیا تھا جو ہوگئی تو اس کے لئے یہ مشکل پیش آئی کہ وہ کس طرح اُس گم شدہ الہٰی پاکیزہ صورت کی مانند خود کو پھر سے بنائے۔ کیونکہ جب اصل شئے گم ہوجائے تو نقل کو اُس کے مطابق بنانا محال ہے۔ جب نمونہ نادیدہ ہو تو دیدنی صورت کو اُسکے  مشابہ کرنا مشکل ہے۔ اب اِلہام الہٰی باطنی شریعت کی وہ ظاہری صورت ہے۔ جس کے سانچے میں ڈھل کر انسان کمدر الصورت اورمفصد الطبع پھر سے اصلی پاکیزہ حالات پر آسکتا ہے۔ شریعت الہامی (ظاہری ) شریعت باطنی سے غیر نہیں۔ بلکہ اُسی کا اعادہ ہے ۔الہام کی ضرورت یہی ہے کہ وہ انسان کو اس کی اصلی سرشت کی طرف دوبارہ رجو ع کرائے۔اگر ابو البشر (آدم) باطنی شریعت کو کھونہ دیتا تو کبھی انسان کو ظاہری الہامی شریعت دئے جانے کی ضرورت نہ ہوتی۔ انسان کی اُس شوکت گذشتہ اور جااِلت رفتہ کے آثار کچھ نہ کچھ اب تک موجود ہیں۔ اورہونا بھی یوں ہی چاہئے۔ بقول شخصے۔

از نقش ونگار ور ودیوار شکستہ۔۔۔۔۔۔ آثار پدید ست حنادید عجم را

چنانچہ خلیفہ خُدا (انسان ) کی ابتدائی پاکیزہ حالت اورشرع باطنی کا ثبوت تمام اقوام ِعالم میں نیکی وبدی کا وہ احساس وامتیاز ہے جو وہ خُدا کی ہستی اورالہام کے منکر ہونے کے باوجود فطری طورپر رکھتی ہیں۔جو کچھ خُدا کی نسبت معلوم ہوسکتا ہے وہ اُن کے باطن میں ظاہر ہے (رومیوں ۱: ۱۹)۔ وہ نیکی کو نیکی اوربدی کو بدی کہتی ہیں۔ اگرچہ نیک وبداعمال کے تعین کے متعلق سب کے خیالات میں اتفاق کلی نہیں۔ تاہم نیکی کا خیال اورعلم وعمل اوربدی سے نفرت ہر جگہ ہر قوم میں ظاہر ہے۔ اورباطنی شریعت کا بقیہ ہر  منکر دملحد کے باطن میں موجود ہے۔ اس لئے کہ جب وہ قومیں جو شریعت نہیں رکھتیں اپنی طبعیت سے شریعت کے کام کرتی ہیں۔ تو باوجود شریعت (یعنی الہامی شریعت ) نہ رکھنے کے وہ اپنے لئے خود ایک شریعت ہیں۔ چنانچہ وہ شریعت کی باتیں اپنے دلوں پر لکھی ہوئی دکھاتی ہیں اوراُن کا دل بھی ان باتوں کی گواہی دیتا ہے۔ اوراُن کے باہمی خیالات یا تو اُن پر الزام لگاتے ہیں اوریا اُن کو مغدور رکھتے ہیں(رومیوں ۲: ۱۴ – ۱۵)پس ثابت ہو اکہ الہامی شرع انسان کی ابتدائی شرع باطنی کا اعادہ ہے۔اُس سے علیٰحد ہ نہیں بلکہ اُسی کے مطابق ہے اورالہام کی ضرورت ہی اس لئے ہوئی کہ شرع باطنی کو انسان نے گناہ کی تاریکی میں کھودیاتھا۔ گواُس کا کچھ بقیہ ہر ایک کے دل میں موجود ہے پر وہ انسان کی کامل رہنمائی میں قاصر ہے۔ کیونکہ امتداد زمانہ اوراظاہری وباطنی انقلابات نے اُس میں بہت سی تبدیلی کر دی ہے۔ اب الہام خُدا کی طبیعت۔مرضی اوررحمت ومحبت کا ظہور ہے۔جس کے سانچے میں ڈھل کر انسان محبوب الطبع ومدر الفطرہ پھر ابتدائی پاکیزہ ومبارک حالت پر بحال ہو سکتا اوراپنی بگڑی ہوئی رُوحانی صورت کو آئنیہ الہام میں سنوار کردوبارہ خُدا کی صورت پر بن سکتاہے گناہ کی تاریکی میں انسان خُدا سے بچھڑا گیا اوراپنے محبوب حقیقی کی فرفت سے بے قرار ہو کر اُس کی جستجو وتلاش میں مارا مار اپھراکیا۔ لیکن اُس کے دیدارفیض آثار سے لطف اندوز نہ ہوسکا۔ دل میں آرزوئے دید کروٹیں لے رہی تھی۔ مگر اس حرماں نصیب کو اپنے پردہ نشین نادیدہ اورلامکاں محبوب کی آستاں بوسی کو فخر کبھی حاصل نہ ہوا۔ آخر خُدا نے خطوط اسلات (صحائف مطہرہ) کے ذریعے خود کو اُس پر آشکار افرمایا اوراُس کی خواہشات کا جواب دیا۔ پس الہامی صحائف گویا خُدا کے مکتوب ہیں۔

شخصی مذہب

ہم گذصفحات میں دلیل وبراہین سے یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچا چکے ہیں کہ انسانی عقل محدود ضعیف اوربگڑی ہوئی ہونے کے باعث معرفت حقانیہ اورحقائق رُوحانیہ کے افہام و تفہیم میں قاصر ہے۔ اوریہ بھی دکھا چکے کہ الہام ہی ایک ایسا ممکن اورمعقول ذریعہ ہوسکتا ہے جو عقل ِانسانی پر غیر مرئی اورفوق الفطرت روحانی حقیقتوں کو مُنکشف کرسکتا ہے۔چنانچہ الہام ِالہٰی پہلے شخصی طورپر خاص اشخاص پر نازل ہوا۔ ازمنہ سابقہ میں جبکہ مذہب الہٰی انفرادی صورت میں تھا خُداوند تعالیٰ نے خاص خاص اشخاص کے ساتھ کلام کیا۔ا ور اپنی مرضی ومنشاء کو اُن پر شخصی طور سے ظاہر فرمایا۔ چونکہ تمام دُنیا اُس وقت گناہ کی غلامی اورتاریکی میں مبتلا تھی اس لئے خُدا نے اُس میں سے خاص اشخاص کو انتخاب کرکے صراطِ مستقیم پر قائم کیا۔مثلاً اُس نے ابراہام کو بُت پرستوں میں سےچُن لیا اوراُس سے یوں مخاطب ہوا (الہام دیا) تُو اپنے وطن اوراپنے ناطے داروں کے بیچ  سے اوراپنے باپ کے گھر سے نکل کر اُس ملک میں جاجو میں تجھے  دکھاوں گا۔ اورمیں تجھے ایک بڑی قوم بناوں گا اوربرکت دونگا اورتیرا نام سرفراز کرو ں گا۔ سوتو باعث برکت ہو۔ جو تجھے مبارک کہیں اُن کو میں برکت دُونگا۔ اورجو تجھ پر لعنت کرے اُس پر میں لعنت کروں گا۔ اورزمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے (پیدائش ۱۲: ۱-۳) اورا براہام نے اُسی جگہ پر جہا ں خُدا اُسے کسی دیدنی صورت میں نظر آیا تھا ایک قربا ن  گاہ بنائی اوروہاں خُدا کی عبادت کی (۱۲: ۷-۸) پھر یعقوب کے ساتھ خُدا ہمکلام (الہام) ہوا۔ ملاحظہ ہو(پیدا ئش ۲۸: ۱۳- ۱۵) اوراُس نے بھی اُسی جگہ جہاں خُدا اُس سے ہمکلام ہو ایک پتھر کا مذبح بناکر اُس کا نام بیت ایل (خُدا کا گھر ) رکھا اورخُدا کی عبادت کی ۲۸: ۱۸-۱۹ ) پھر کو ہ ِحورب کے نزدیک خُدا موسیٰ پر ایک جھاڑی میں نگی ہوئی آگ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اوراُس سے کلام کیا۔ اوراُس کے آباو اجداد کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کودوہرا۔اورموسیٰ نے الہٰی حضور کو محسوس کرکے ازراہ ِ تعظیم اپنے پاوں سے جوتی اُتاری اورمُنہ چُھپا یا۔خروج ۳ باب

قومی مذہب

پہلے الہام الہٰی شخصی تھا اور مذہب الہٰی بھی شخصی۔ اس لئے خُدا خاص اورچیدہ اشخاص کے ساتھ تنہائی میں ہمکلام ہوتا اوراُن سے اپنے احکام کی تعمیل طلب کرتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ وہی مذہب الہٰی انفرادی خصوصیت سے نکل کر قومیت میں منتقل ہوگیا۔ اورمذہب الہٰی ایک قومی مذہب اور الہام الہیٰ ایک قومی الہام ہوگیا۔ اورخُدائے تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق جوابراہام سے کیا تھا اُس کی نسل کو جواب ایک قومی صورت اختیار کرچکی تھی چن کر تمام بت پرست اورمشرک اقوام سے الگ کیا۔ اوراپنی خاص قوم بنایا اورفرمایا۔ کیونکہ تُم خُد اوند اپنے خُدا کے لئے ایک مقدس قوم ہو۔ خُداوند تمہارے خُدا نے تُم کو رُوئے زمین کیاورسب قوموں میں سے چن لیا ہے تاکہ تم اُس کی خاص اُمت ٹھرو۔

(استثنا ۷: ۶) اوراس خاص قوم (بنی اسرائیل) پر موسیٰ ک وسیلے اپنی مرضی کا اظہار فرمایا۔ اوراپنے اوامر و نواہی کو اُن پر نازل فرما کے اُن پر اُن تفصیل طلب کی۔ اس لئے جو فرمان اورآئین اوراحکام میں آج کے دن تم کو بتاتا ہوں تم اُن کو ماننا اوراُن پر عمل کر نا (استثنا ۷: ۱۶) اوروہ شرع الہٰی تین قسم کی تھی۔ یعنی شریعت ملکی۔شریعت رسمی اورشریعت اخلاقی۔اورملکی ورسمی شرائع کی رُوح رواں اورمرکز شرع ِ اخلاقی تھی۔ اب ہم نہایت مختصر طورپر شرائع ثلاثہ کا جُدا جُدا بیان کریں گے۔

شریعت رسمی

قربانیاں،ختنہ۔عبدیں نئے چاند۔نذریں،حلت وحرمت،طہارت ِبدنی،۔روزہ اورکاہن وسردار کاہن اورلاویوں اورعام قوم کے فرائض وغیرہ سب رسمی شریعت میں شامل ہیں۔ اس شریعت کابیان پیدا ئش کی کتاب کے سوا توریت کی چاروں کتابوں میں موجود  ہے۔

شریعت اخلاقی

اس میں احکام عشرہ موجو د ہیں۔جو خُدا نے پتھر کی دونو لوحوں پر لکھے لکھائے موسیٰ کو سوپنے (خروج ۳۱: ۱۸،۳۲ ۱۵: ۱۶ ؛۳۴: ۲۸) اوریہ دس احکام خروج ۲۰: ۱- ۱۷) میں پائے  جاتے ہیں۔ اور احبار ۱۹ باب اور استثنا کے چند ابتدائی ابواب میں اُن کی مفعقل شرع موجود ہے۔ اواس شرع اخلاقی کا خلاصہ بدیں الفاظ موجود ہے۔ تو اپنے سارے دل اوراپنی ساری جان اوراپنی ساری طاقت سے خُداوند اپنے خُدا سے محبت رکھ استثنا ۶: ۵ یہ دس احکام کی لوح اول کے چار احکام کا خلاصہ ہے۔ اپنے ہمسایہ سے اپنی مانند محبت رکھ (احبار ۱۹: ۱۸) یہ لوح ثانی کے چھ احکام کا خلاصہ ہے۔ اورخُداوندمسیح نے بھی اخلاقی شریعت کو ہرقسم کی شریعت رسمی وملکی کی جان ٹھہرایا۔ اواسی خلاسہ شرع اخلاقی کا اعادہ فرماتے ہوئے یہ کہا کہ ان ہی دوحکموں پر تما م توریت اورانبیاء کے صحیفوں کا مدار ہے (متی ۲۲: ۴۰)۔

ملکی شریعت

اس میں بادشاہوں،قاضیوں اورحاکموں اوررعیت کے فرائض ہیں۔ اورحکام قوم اسرائیل شرائع رسمی اخلاقی کے محافظ تھے۔ شرع کی خلاف ورزی کرنے والے تغریرات ملکی ک ماتحت مختلف سزائیں پاتے تھے۔ تاکہ احکام ِالہٰی کی پابندی کی رُوح اُن میں پیدا ہو۔ اورقوم خُدا کی مرضی ومنشاء کی قدر ومنزلت کو پہچانے۔

اخلاقی وجسمانی ہر دوقسم کے قوانین پہلو بہ پہلو اس قوم میں چلے آئے۔ اوربہت سے انبیاء یکے بعد ویگر ے مختلف زمانوں اورمتفرق حالتوں میں پیغام ِالہٰی لے کر اس قوم میں مبعوث ہوتے رہے۔ اور اپنے اپنے وقت میں قوم کی معاشرتی واخلاقی اِصلاح مختلف طریقوں سے کرتے آئے۔ اورہزاروں برس کے طویل عرصہ میں خُدا کی اس برگزیدہ وچنیدہ قوم کی مذہبی واخلاقی حالت نے کئی رنگ پلٹے۔ کی  بار شرع ِالہٰی سے  تابی وانحراف کرکے مور ورعتاب ٹھہری۔ کئی بار تو بہ و استغفار کے ذریعے بحال کی گئی۔ خُدا کا عادل ہے۔ اوراُس عادل نے قوانین کا نفاذ فرما کے اُن پر اس مخصوصہ گروہ کا مخصوص عمل طلب کیا۔ لیکن اُس نے بجائے فرمانبرداری کے عدول حکمی کی۔ اس لئے خُدا نے عادل ہونے کی حیثیت میں قانون شکن کو سزا دی۔ اورمعیاد تغریرکے اختتام پر اُن کررہائی دیتا رہا۔ اس قوم کا سب سے بڑا گناہ جو خُدا ئ غیور کی غیر ت کو جوش دِلاتا رہا بُت پرستی تھا۔ جب جب اس قوم کو اردگرد کی دیگر بے خُدا اوربُت پرست اقوام ہوئے بغیر نہ رہی۔ اورخُدا نے ان ہی معائب ونقائص کے زنگ کو اُن کو طبائع سے مٹانے کے لئے بار ہا اُنہیں مصیبت کی آگ میں ڈالا۔ تاکہ وہ کندن کی طرح صاف اورخالص ہوجائیں۔ جب وہ مجھے تالے گا تو میں سونے کی مانند نکل آوں گا۔ (ایوب ۲۳: ۱۰،زبور ۶۶: ۵۰)۔

شریعت کا مرکز

بنی اسرائیل قوم کے فرائض مذہبی کی انجام دہی کا مرکز پہلے توخیمہ تھا جس کا مفصل احوال  خروج با ۲۵ میں پایا جاتا ہے۔ خیمہ کو دینی امور کا مرکز اُس وقت اس وجہ سے بنایاگیا۔ کہ ابھی قوم اسرائیل خود آوار ہ غربت تھی۔ اورخیموں میں قیام کرتی تھی۔ اس لئے اُن کی مذہبی ضرورت کو عارضی طورپر پورا کرنے کے لئے خُدا نے خیمہ بنانے کا حکم دیا۔ اورہرقسم کی شرع رسمی۔ ملکی واخلاقی کا تعلق اُسی سے تھا۔ اورجب یہ قوم رفتہ رفتہ ملک موعود کنعان پر قابض ہوئی اوروہاں ہر سکونت کے لئے مکان بنائے اورقصبے وشہر آباد کئے تو عبادت ِالہٰی کے لئے بھی ایک مکان بنایا گیا ۔ اوروہ  ہیکل تھی جو سیلمان بن داود نے شہر  یروشلیم میں کوہ مور یا پر تعمیر کی تھی۔ اورعبادت کے تمام لوازمات واسباب خیمہ موسوی سے اس ہیکل میں منتقل ہوئے اورہیکل کی تعمیرکےمتعلق خُدا نے پہلے ہی اُن کے ایام مسافرت میں فرمای دیاتھا۔ لیکن جب تم یردن پار جا کر اُس ملک میں جس کا مالک خُداوند تمہارا خُدا تم کو بناتا ہے بس جاو۔ اوروہ تمہارے سب دشمنوں کی طرف سے جو گردا گرد ہیں تم کو راحت دے اوتم امن سے رہنے لگو۔ تو وہاں جس جگہ کو خُداوند تمہارا خُدا اپنے نام کے مسکن کے لئےچن لے وہیں تم یہ سب کچھ جس کا میں تم کو حکم دیتا ہوں لے جایا کرنا۔ یعنی اپنی سوختنی قربانیاں اوراپنے ذبیحے اوراپنی دو یکیاں۔اوراپنے ہاتھ کے اُٹھائے ہوئے ہدئے اوراپنی خاص نذر کی چیزیں (استثنا ۱۲: ۱۰ – ۱۱،۱۸، ۲۶)۔

اس ہیکل کے ساتھ قوم بنی اسرائیل کے سوا اورکسی قوم کا کوئی تعلق نہ تھا۔اورنہ ہی عام اجازت تھی کہ غیر اقوام اُس سے تعلق رکھیں۔ اورنہ ہی شرع ِالہیٰ کی نشرو اشاعت کا دیگر اقوام میں حکم تھا۔ ہیکل ایک مختص بالقوم وزمان عبادت گاہ تھی۔ اورقوانین وشرع الہٰی بھی محدود بالقوم ومان تھی۔ مدتوں تک مذہب ِالہٰی اُس خاص قوم کے ساتھ خاص رہا۔ اورقوم اسرائیل کو ختنہ۔قربانی۔روزہ سبت طہارت اورحلت وحرمت کے احکام دینے اوران تمام فرائض کی انجام دہی کا مرکز یروشلیم کی ہیکل کوٹھہرانے سے خُدا کا مقصد یہ تھا کہ ایک تو اردگرد کی تمام دیگر بت پرست اقوام سے قوم مخصوصہ الہٰیہ کا افتراق امتیاز صاف نظر آئے۔ جس طرح فوجی لوگ خاص امتیازی نشانات وعلامات کے باعث بادشاہ کی رعیت کے عام افراد سے جُدا گانہ اورممتاز نظر آتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اُن ظاہری اور رسمی دستورات اور ابتدائی اصولوں کی پابندی سے اُن کے اندر متابعت الہٰی کی بنیاد رکھی جائے۔ تاکہ جہاں وہ اپنے مویشی اورمال واسباب کو عقیدت الہٰی کے مذبح پر قربان کرتے ہیں وہاں کسی وقت اپنی شخصیت کو نثار کرنے میں بھی دریغ نہ کریں۔ چنانچہ خُداوند تعالیٰ نے یہ ابتدائی سبق اُنہیں انبیاء کے ذریعے خوب سکھایا۔ اورا ن رسمی قربانیوں اوردیگر ظاہری اورجسمانی رسومات کی تکمیل وتعمیل کے مطالبہ سے مقصد ِالہٰی یہ تھا کہ فرمانبرداری اوراطاعت کے بیج کو اُن کے دلوں میں بویا جائے۔ اوروہ خاص روحانی مقصدد جوان عارضی وظاہری رسوم کے دائرہ کا مرکزز تھا۔ بدیں الفاظ ظاہر کیاگیا ہے۔ تُو خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اوراپنی ساری طاقت سے محبت رکھ (استثنا ۶: ۵)۔

عہد عتیق  مختص بالقوم اور مختص بالزمان تھا

اگرکوئی متلاشی حق وصدق صاف باطنی سے عہد عتیق کا اول سے آخر تک مطالعہ کرے تو وہ یہ اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ توریت کا مذہب ایک مختص بالقوم ولزمان تھا۔ توریت میں ذاتی طورپر ایک عالمگیر مذہب ہونے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اورنہ ہی اُس کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ہرزمانے اورہرقوم کے لئے دی گئی ہے۔ اُس کے تمام احکام  و شرائع اوردستورات واصولات خاص قوم بنی اسرائیل سے ہی مختص تھے۔ اورشریعت موسوی کی تعمیل وتکمیل کا مرکز تروشلیم کی ہیکل تھا۔ یہودیت کے دائرہ خاص سے باہر نہ تو اُس کی تبلیغ واشاعت کا حکم کہیں موجود ہے۔ اورنہ ہی کبھی یہودی انبیاء نے اُس کو غیر اقوام میں جائز رکھا۔ بلکہ و توبُت پرست غیر اقوام کے درمیان خُدا کا نام لینا بھی خُدا کی بے عزتی وحقارت سمجھتے تھے۔ جب شاہ نبو کدنظر تمام یہودیوں کو اسیر کرکے بابل لے گیا تو اُس وقت اُن کی دینی غیر ت اورخُدا کے نام کی توقیر کا اظہار ان الفاظ سے عیاں ہے۔ ہم بابل کی ندیوں پر بیٹھے۔ اورصیون کو یاد کرکے روئے ۔وہاں بید کے درختوں پر ہم نے اپنی ستاروں کو ٹانگ دیا۔ کیونکہ وہاں ہم کواسیر کرنے والوں نے گیت گانے کا حکم دیا۔ اورتباہ کرنے والوں نے خوشی کرنے کا۔ اورکہاصیون کے گیتوں میں سے ہم کو کوئی گیت سُنا و۔ہم پردیس میں خُداوند کا گیت کیسے گائیں۔زبور ۱۳۷ : ۱- ۴) وہ غیر اقوام میں خُدا کا نام لینا خُدا کو ٹھٹھوں میں اُڑانے کے برابر سمجھتے تھے۔ ملکی ورسمی شرائع بہ نفسہ کمزور اور مختص بالقوم ولزمان تھیں۔ اوراُن میں تمام دُنیا کا دستور العمل ہونے کی صلاحیت ہی مفقو دتھی۔ اورشرع اخلاقی قوم وزمان کی قیود سے آزاد تھی۔ چنانچہ وہ اب تک یہودی مسیحی اورکئی دیگر مہذب اقوام کا دستور العمل بنی ہوئی پہلی آتی ہے۔ عہد عتیق کے انبیاء خود توریت کی قربانیو ں اوردیگر رسموں کو کمزور اورناقص بتاتے گئے ہیں۔ مثلاً سموایل نبی کہتا ہے کہ کیاخُداوند سوختنی قربانیوں اورذبیحوں سے اتنا ہی خوش ہوتا ہے جتنا اس بات سے کہ خُداوند کا حکم مانا جائے ؟ دیکھ فرمانبرداری قربانی سے اوربات ماننی مینڈھوں کی چربی سے بہتر ہے (۱۔ سموایل ۱۵ : ۲۲ ) داود نبی کا قول (زبور ۵۱: ۱۶- ۱۷) سلیمان نبی کا قول (امثال ۲۱: ۳) ہوسیع نبی کا قول (ہوسیع ۶: ۶) دانی ایل نبی کا قول مرادانی ایل ۹: ۲۴- ۲۷) نبی اسرائیل میں قربانیاں چڑھاتے چڑھاتے یہ سُو عقیدت پیدا ہوگئی کہ قربانی کی اصل رُوح اورغر ض وغایت سے لاپرواہ ہوکر گناہ کرنے میں آزاد اوربے خوف ہوگئے۔ اورعمد اً وقصد اً گناہ کرکرکے قربانیوں اوردیگر رسُوم کو رواجی ورسمی پر انجام دینے لگے۔ اور اس بات کو بھول گئے کہ خُدا کی فرمانبرداری قربانی چڑھاتے سے بہتر ہے۔ اُنہوں  نے عمداً گناہ کرکرکے اُن کی تلافی کے لئ قربانیاں چڑھانا ایک دستور العمل ہی بنالیا۔ اوراس لئے خُدا نے انبیاء کے ذریعے اس دستور کو نامقبول ٹھہرا کے تنبیہہ وہدایت فرمائی۔ خُداوند فرماتا ہے لیکن میں اُس شخص پر نگاہ کروں گا۔ اُسی پر جو غریب اورشکستہ دل ہے۔ اورمیرے کلام سے کانپ جاتا ہے۔ جو بیل ذبح کرتا ہے اُس کی مانند ہے جو کسی آدمی کو مار ڈالتا ہے اورجو برہ کی قربانی کرتا ہے اُس کےبرابر ہے جو کتے کی گردن کاٹتا ہے ۔جو ہدیہ لاتا ہے گویا سور کالہوگذرانتا ہے جو لُبان جلاتا ہے اُس کی مانند ہےجو بُت کو مبارک کہتا ہے۔ ہاں انہوں نے اپنی اپنی راہیں چن لیں اوراُن کے دل اُن کی نفرتی چیزوں سے مسرور ہیں (یسعیاہ ۶۶: ۲- ۳ ؛ ۱: ۱۱- ۱۴) یہودی لوگ سال میں تین مرتبہ عیدیں منانے کے لئے یروشلیم میں جایا کرتے تھے۔ اوران تینوں عیدوں یعنی عید فسح۔ عید خیام اور عید پنتیکست کا تعلق ہیکل کے ساتھ تھا۔ اان عیدوں۔قربانیوں اوردیگر تمام مذہبی رسوم کی ادائیگی کا مرکزہیکل تھی۔ اُس کے علاوہ اورکسی جگہ ان فرائض کی انجام دہ ممنوع تی۔ اورخبردار رہنا تا ایسا نہ ہوکہ جس جگہ کو دیکھ لووہیں اپنی سوختنی قربانی چڑھاو بلکہ فقط اُسی جگہ جسے خُداوند تمہارے کسی قبیلہ میں چن لے تم اپنی سوختنی قربانیوں گذراننا اوروہیں سب کچھ جس کا میں تم کو حکم دیتا ہوں کرنا استثنا ۱۲: ۱۳- ۱۴ اورہیکل کا ایک خاص مقام یروشلیم ہی سے متعلق ہونا اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ اُس میں عالمگیر دینی مرکز ہونے کی قابلیت نہ تھی۔ کیونکہ بالفرت اگرتمام دُنیا توریت کی پیروی پر آمادہ ہوتی تو تمام دُنیا کا عیدوں،قربانیوں اوردیگر رسموں کی ادائیگی کے لئے یروشلیم میں سال میں تین مرتبہ حاضر ہونا محال ہوتا۔ اول تواس قدر ہجوم کی وہاں گنجائش ہی نہ ہوسکتی تھی۔ اورجو وہاں نہ جاتا وہ خُدا کا نافرمان ٹھہرتا۔ اور پھر تین مرتبہ سال میں وہاں حاضر ہونا لازمی تھا۔ تو اس صورت میں ہزاروں کو س سے دور دراز ممالک ک باشندے وہاں کیسے پہنچ سکتے۔ اُن کا تو سال بھر آمد ورفت ہی میں ختم ہوجایا کرتا۔ اورپھر ذرائع آمد ورفت کی دشواریاں توریت کی توسیع اشاعت میں سد ِ راہ تھیں۔ اورہیکل کاتمام عالم کے لئے مرجع دینی ہونے سے اُمور معاشرت میں سخت نقصان ہوکر جسمانی زندگی معرض خطر میں پڑجاتی۔ پھر آمدورفت کے بھاری اخراجات ومصارف سے محروم رہنے کے علاوہ خُدا کے مجرم ٹھہرتے۔ اور یہ ایک سخت ترین آسمانی سزا بنی نوع انسان کے لئے ہوتی۔ چنانچہ کعبہ اورتیرتھوں کا وجو داسلام اورہندو از م کے مختص بالقوم وملک ہونے کی ایک بین اورمسکت دلیل ہے۔ ہم پیچھے خوب دِکھا چکے ہیں کہ مذہب الہٰی کس طرح انفرادیت سے قومیت میں منتقل ہوا۔ اب عقل خواہ مخواہ یہ سوال کرتی ہے کہ کیا خُدا صرف ایک خاندان یا ایک قوم ہی کا خُدا ہے ؟ کیا وہ محض یہودی قوم ہی کو اپنے علم وعرفان یا ایک قوم ہی کا خُدا ہے ؟ کیاوہ محض یہودی قوم ہی کو اپنے علم وعرفان  سے ےمستفید فرما کر فقط اُسی سے اپنی عبادت وطاعت اوربندگی کا مطالبہ کرتا ہے ؟ کیا خُدا صرف یہودیوں ہی کا ہے۔ غیر قوموں کا نہیں ؟ بیشک غیر قوموں کا بھی ہے رومیوں ۳: ۲۹ وہ تمام دیدنی ونایدنی عالم کا خالق و رازق ہے۔ اوراُس نے اییک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تمام رُوئے زمین پررہنے کے لئے پیدا کی۔اعمال ۱۷: ۲۶ تُونے آسمان اورآسمانو کے آسمان کو اور اُن کے سارے لشکر کو اورزمین کو اورجوکچھ اُس پر ہے۔ اورسمندر وں کو اورجو کچھ اُن میں ہے بنایا اورتُو سبھوں کا پرور دگار ہے اورآسمان کا لشکر تجھے سجدہ کرتا ہے۔نحمیاہ ۹: ۶ چنانچہ اسی بنا پر وہ تمام دُنیا سے استحقاق عبادت رکھتا ہے۔ اس لئے لازمیی امر ہے کہ اُس کا مذہب انفرادی اورقومی نہ ہو بلکہ عالمگیر ہو۔

توریت میں ایک عالمگیر
نئے عہد کی خبر

عہد عتیق کے حدِ رواج اورمُختص بالقوم وزمان ہونے کا مفصل ذکر ِ ہم نے اُوپر کردیاہے۔ صحائف عتیقہ اپنے حدِ رواج کی خبر کے علاوہ ایک اورعہد کی خبر بھی دئے گئے ہیں۔ تاکہ جب اُس ک رواج کا زمانہ اختتام کو پہنچے تو وہ عہد شروعع ہوجائے۔ اورجس طر ح پہلے پہل مذہب الہٰی انفرادیت کی صورت میں تھا اورپھر قومیت میں بدل گیا تو ضروری گامزن ہو۔ اوربجائے قومی  ہونے کے عالمگیر ہو۔ چنانچہ اُس آنے والے نئے عہد کے متعلق عہد عتیق یہ خبر دیتا ہے۔ دیکھ وہ دن آتے ہیں خُداوند فرماتا ہے جب میں اسرائیل کے گھر انے اوریہوداہ کے گھرانے کے ساتھ نیا عہد باندھوں گا۔ اُس عہد کے مطابق نہیں جو میں نے اُن کے باپ دادا سے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔بلکہ یہ وہ عہد ہے جو مَیں اِن دنو ں کے بعد اسرائیل کے گھرانے سے باندھوں گا۔۔۔۔۔ یر میاہ ۳۱: ۳۱- ۳۴ خط عبرانی کا مصنف اپنے خط میں اسی مقام کو اقتباس کرکے آخر میں فرماتا ہے کہ جب اُس نے نیا عہد کیا تو پہلے کر پُرانا ٹھہرایا۔ اورجو چیز پُرانی اورمُدت کی ہوجاتی ہے وہ مٹنے کے قریب ہوتی ہے۔ عبرانی ۸: ۱۳ اوریہ عہد قومیت کی انقیادی خصوصیت سے آزاد اورعالمگیر بیان کیاگیا ہے۔ جو یسعیاہ نبی نے خُدا سے بذریعہ الہام خبر پا کے اس طرح بیان کیا ہے۔ اوربیگانے کی اُولاد بھی جنہوں نے آپ کو خُداوند سے پیوستہ کیا ہے کہ اُس کی خدمت کریں اورخُداوند کے نام کو عیز یز رکھیں۔اوراُس کےبندے ہوں وہ سب جو سبت کو لفظ کرکے اُسے ناپاک نہ کریں۔ اورمیرے عہد پر قائم رہیں مَیں اُن کو بھی اپنے کو ہ ِمقدس پر لاو ں گا۔ اوراپنی عبادت گاہ میں اُن کو شادمان کروں گا اوراُن کی سوختنی قربانیاں اوراُن کے ذبیحے میرے مذبح پر مقبول ہوں گے کیونیہ میرا گھر سب لوگوں کی عبادت گاہ کہلائے گا۔ خُداوند خُدا جو اسرائیل کے پراگناہ لوگوں کو جمع کرنے والا ہے یوں فرماتا ہے کہ مَیں اُن کے سوا جو اُسی کے ہوکر جمع ہوئے ہیں اَوروں کو بھی اُس کے پاس جمع کروں گا۔ یسعیاہ ۵۶: ۶- ۸ وہ وقت آتا ہے کہ مَیں تمام قوموں اوراہل ِلغت کو جمع کرو ںگا۔ اوروہ آئینگے اورمیرا جلال دیکھیں گے۔۔۔۔۔۔۔ اورخُداوند فرماتا ہے کہ مَیں اُن میں سے بھی کاہن اور لاوہی ہونے کے لئے لوں گا۔۔۔۔ اوریوں ہوگا خُداوند فرماتا ہے کہ ایک نئے چاند سے ددسرے تک اورایک سبت سے دوسرے تک ہر فردِ بشر عبادت کے لئے میر ے حضور آئیگا۔ یسعیاہ ۶۶: ۱۸ ، ۲۱، ۲۳ اورجس طرح عہد عتیق کا بانی اورضامن موسیٰ تھا۔ اُسی طرح اُس نے عہد کے بانی وضامن کی خبر بھی توریت میں بالتصریح وتفصیل موجود ہے۔ ہم توریت ہی کے الفاظ میں اُس کو مفصل طورپر قلمبند کریں گے۔

نئے عہد کے بانی کے متعلق مفصل خبریں

قول المسیح۔ تُم کتاب ِمقدس میں ڈھونڈتے ہو۔ کیونکہ سمجھتے ہو کہ اُس میں ہمیشہ کی زندگی تمہیں ملتی ہے۔ اوریہ وہ ہے جومیری گواہی دیتی ہے (یوحنا ۵: ۳۹)۔

۱۔ وہ یہوداہ کے فرِقہ داود کے خاندان سے ہوگا۔ دیکھ وہ دن آتے ہیں خُداوند فرماتا ہے کہ میں داود کے لئے ایک صادق شاخ پیدا کروں گا۔ اوراُس کی بادشاہی ملک میں اقبال مندی اورعدالت اورصداقت کے ساتھ ہوگی۔ اُس کے ایام میں یہوداہ نجات پائیگااور اسرائیل سلامتی سے سکونت کرے گا۔ اوراُس کا نام یہ رکھا جائے گا خُداوند ہماری صداقت ہے۔یرمیاہ ۲۳: ۵ – ۶ یسعیاہ ۱۱: ۱- ۲ زکریاہ ۱۳: ۱ مطابق یوحنا ۷: ۴۲۔

۲۔ اُس کا ایک پیشر وہوگا۔ دیکھو میں اپنے رسول کو بھیجوں گا اوروہ میرے آگے راہ درست کریگا۔ (ملاکی ۳: ۱) پکارنے واے کی آواز ! بیابان میں خُداوند کی راہ درست کرو۔ صحرا میں ہمارے خُداکے لئے شاہراہ ہموار کر و۔ یوحنا بپتسمہ دینے والا یسعیاہ ۴۰: ۳ مطابق متی ۳: ۱- ۳

۳۔ وہ کنواری سے پیدا ہوگا۔ لیکن خُداوند آپ تُم کو ایک نشان بخشے گا۔ دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگی اوربیٹا پیدا ہوگا۔ اوروہ اُس کا نام عمانوایل رکھیگی۔ یسعیاہ ۷: ۴ مطابق متی ۱: ۲۳۔

۴۔ شہر بیت الحم میں پیدا ہوگا۔ لیکن اَے بَیت الحم افراتا ہ اگرچہ تو یہوداہ کے ہزاروں میں شامل ہونے کے لئے چھوٹا ہے۔ تو بھی تجھ میں سے ایک شخص نکلیگا۔ اورمیرے حضور اسرائیل کا بادشاہ ہوگا۔ اوراُس کا مصدر زمانہ مطابق ہاں قدیم الایام سے ہے۔میکاہ ۵: ۲ مطابق متی ۲: ۱ لوقا ۲: ۴۔

۵۔ اُٗس کو سجدہ کرنے کے لئے مجوسی آئیں گے۔ وہ سب سبا سے آئیں گے اورسونا لوہان لائیں گے اورخُداوند کی حمد کا اعلان کرینگے۔ یسعیاہ ۶۰: ۶ مطابق متی ۲: ۱ -۲

۶۔ مِصر میں پناہ پائیگا۔ جب اسرائیل ابھی بچہ ہی تھا مَیں نے اُس سے محبت رکھی۔ اوراپنے بیٹے کو مِصر سے بلایا۔ہوسیع ۱۱: ۱ مطابق متی ۲: ۱۳- ۱۴۔

۷۔ معصوم بچوں کا قتل۔ رامہ میں ایک آواز سُنائی دی نوحہ اورزار زار رونا۔ راخل اپنےبچوں کو رورہی ہے۔وہ اپنے بچوں کی بابت تسلی پذیر نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ نہیں ہیں۔ یرمیاہ ۳۱: ۱۵ مطابق متی ۲: ۱۶- ۱۸۔

۸۔ وہ رُوح القدس سے ممسوح ہوگا۔ خُداوند خُدا کی رُوح مجھ پر ہے۔کیونکہ اُس نے مجھے مسَح کیا۔ تاکہ خوشخبری (انجیل ) سُناوں۔ یسعیاہ ۶۱: ۱ اورخُداوند کی رُوح اُس پر ٹھہرئے گی۔ حکمت اورخرد کی رُوح مصلحت اور قدرت کی رُوح معرفت اورخُداوند کے خوف کی رُوح۔یسعیاہ ۱۱: ۲ مطابق متی ۳: ۱۶۔

۹۔ قومیں اُس سے برکت پائیں گی۔ اورزمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے۔ پیدائش ۱۲: ۳ مطابق اعمال ۳: ۲۵- ۲۶۔

۱۰۔ گلیل میں اُس کا نام۔ لیکن اندوہگیں کی تیرگی جاتی رہے گی۔ اُس نے قدیم زمانہ میں زبلون اورنفتالی کے علاقوں کو ذلیل کیا۔ پر آخری زمانہ میں قوموں کی گلیل میں دریا کی سمت یردن کے پار بزرگی دے گا۔ جو لوگ تاریکی میں چلتے تھے اُنہوں نے بڑی روشنی دیکھی۔ جوموت کے سایہ کے ملک میں رہتے تھے اُن پر نور چمکا۔یسعیاہ ۹: ۱- ۲ مطابق متی ۴: ۱۲- ۱۷۔

۱۱۔ اُس معجزات۔ اُن کو جو کچھ لے ہیں کہوہمت باندھو مت ڈرو۔۔۔۔۔اُس وقت اندھوں کی آنکھیں دا کی جائیں گی۔ اوربہروں کے کان کھولے جائیں گے۔ تب لنگڑے ہرن کی مانند چوکڑیاں بھر ینگے۔ اورگونگے کی زبان گائے گی۔ یسعیاہ ۳۵: ۴- ۶ مطابق متی ۱۱: ۴ – ۵ اعمال ۲: ۲۲۔۔

۱۲۔ گدھے پر سوا ہوکر یروشیلم میں داخل ہونا۔ اَے دُختر ِیروشلیم خوب للکار۔ کیونکہ دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے۔ وہ صادق ہے اور نجات اُس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ حلیم ہے اور گدھے پر بلکہ جوان گدھے پر سوا ہے۔ زکریاہ ۹:۹ مطابق متی ۲۱: ۵- ۷۔

۱۳۔ یہودو غیر اقوام اُسے رد کرینگے۔ قومیں کس لئے جوش میں ہیں اورلوگ کیوں باطل خیال باندھتے ہیں۔ خُداوند اوراُس کے مسیح کے خلاف زمین کے بادشاہ صف آرائی کرکے اورحاکم آپس میں مشورہ کرکے کہتے ہیں۔۔۔ زبور ۲: ۱-۲ اعمال ۴: ۲۵- ۲۸۔

۱۴۔ اپنے ایک شاگرد کے ہاتھوں گرفتار ہوگا۔ بلکہ میرے دلی دوست نے جس پر مجھے بھروسہ تھا اورجو میری روٹی کھاتا تھا مجھ پر لات اُٹھائی۔ زبور ۴۱: ۹، ۵۵ : ۱۲ مطابق یوحنا ۱۳: ۱۸ ، ۲۶ – ۲۷۔

۱۵۔ تیس روپے میں بیچا جائیگا۔ اوراُنہوں نے میری مزدوری کے لئے تیس روپے تول کردئے۔ اورخُداوند نے مجھے کہا کہ اُسے کمہار کے سامنے پھینک دے۔یعنی اُس بڑی قیمت کو جو انہوں نے میرے لئے ٹھہرائی۔ اور میں نے یہ تیس روپے لے کر خُداوند کے گھر میں کمہار کے سامنے پھینک دئے۔ زکریاہ ۱۱: ۱۲- ۱۳ مطابق متی ۲۶: ۲۷- ۳- ۱۰

۱۶۔ شاگرد اُس سے بیوفائی کرینگے۔ رب الافواج فرماتا ہے اَے تلوار تُو میرے چرواے یعنی انسان پر جو میر ارفیق ہے بیدار ہو۔ چرواہے کو مارکہ گلہ پراگندہ ہوجائے۔ زکریاہ ۱۳: ۷ مطابق متی ۲۶ : ۳۱ ، ۵۶،

۱۷۔ جھوٹے گواہوں کی شہادت۔ جھوٹے گواہ اُٹھتے ہیں اورجو باتیں میں نہیں جانتا وہ مجھ سے پوچھتے ہیں۔ وہ مجھ سے نیکی کے بدلے بدی کرتے ہیں۔زبور ۳۵ : ۱۱ ۱۲، ۲۷ : ۱۲ مطابق مرقس ۱۴ : ۵۵ – ۵۸۔

۱۸۔ اُس کے منہ پر طمانچے مارینگے۔ ہمارا محاصرہ کیا جاتا ہے۔وہ اسرائیل کے حاکم کے گال پر چھڑی سے مارتے ہیں۔ میکاہ ۵: ۱ مطابق متی ۲۷ : ۳۰۔مرقس ۱۵: ۱۹۔

۱۹۔ اُس کے منہ پر تھوکیں گے اورٹھٹھے مارینگے۔ مَیں نے اپنی پیٹھ پیٹنے والوں کے اوراپنی داڑھی نوچنے والوں کے حوالے کی۔ میں نے اپنا منہ رسوائی اورتھوک سے نہیں چھپایا۔ یسعیاہ ۵: ۶ مطابق مرقس ۱۵: ۱۹- ۲۰۔

۲۰۔ وہ تمام اذیتوں کو خاموشی سے سہیگا۔ وہ ستایا گیا تو بھی اُس نے برداشت کی اورمنہ نہ کھولا۔ جس طرح برہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں۔ اورجس طرح بھیڑ بال کُترنے والوں کے سامنے بے زبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا۔یسعیاہ ۵۳: ۷ مطابق متی ۲۷ : ۱۲- ۱۴۔

۲۱۔ اُس کی صلیبی حالت۔ مَیں پانی کی طرح بہ گیا۔ میری سب ہڈیاں اُکھڑ گیئیں۔ میرا دل موم کی مانند ہوگیا۔ وہ میرے سینہ میں پگھل گیا۔ میری قوت ٹھیکرے کی مانند خشک ہوگی۔اورمیری زبان میرے تالو سے چپک گئی۔ اورتونے مجھے موت کی خاک میں ملادیا۔ کیونکہ کتوں نے مجھے گھیر لیاہے۔ بدکاروں کا گروہ مجھے گھیرے ہوئے ہے۔ وہ میرے ہاتھ اورمیرے پاوں چھیدتے ہیں۔ مَیں اپنی سب ہڈیاں گِن سکتا ہوں وہ مجھے تاکتے اورگھورتے ہیں۔زبور ۲۲: ۱۴- ۱۷ مطابق متی ۲۷: ۲۷- ۴۴۔

۲۲۔ اُس کی پوشاک پر قرعہ اندازی ۔ " وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں اور اور میری پوشاک پر قرعہ ڈالتے ہیں۔ زبور ۲۲: ۱۸ مطابق متی ۲۷ : ۳۵۔

۲۳۔ پت اورسرکہ پلانا۔ اُنہوں نے مجھے کھانے کوپت دیا۔ اورمیری پیاس بجھانے کو اُنہوں نے مجھے سرکا پلایا۔ زبور ۲۹: ۲۱ مطابق متی ۲۷ : ۳۴ و یوحنا ۱۹: ۲۸ – ۳۰۔

۲۴۔ وہ چھید ا جائیگا۔ وہ میرے ہاتھ اورمیرے پاوں چھیدتے ہیں۔ زبور ۲۲: ۱۶ اوروہ اُس پر جس کو اُنہو ں نے چھید ا ہے نظر کرینگے۔ زکریاہ ۱۲: ۱۰ مطابق یوحنا ۱۹: ۳۴، ۳۷۔

۲۵۔ اُس کی ہڈی توڑی نہ جائیگی۔ وہ اُس کی سب ہڈیوں کو محفوظ رکھتا ہے۔ اُ ن میں سے ایک بھی توڑی نہیں جاتی۔ زبور ۳۴: ۲۰ مطابق یوحنا ۱۹: ۳۲: ۳۶۔

۲۶۔ برضا ورغبت وفات پائیگا۔ قربانی اورنذر کو توپسند نہیں کرتا۔ تونے میرے کان کھول دئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ کتاِب کے طومار میں میری بابت لکھا ہے۔اَے میرے خُدا میری خوشی تیری مرضی پوری کرنے میں ہے۔زبور ۴۰ : ۶- ۸ مطابق یوحنا ۱۰ : ۱۷ – ۱۸۔

۲۷۔ ہمارے گناہوں کے بدلے مریگا۔ یقیناً اُس نے ہماری مشقتیں اُٹھالیں۔ اورہمارے غموں کو برداشت کیا پر ہم نے اُسے خُدا کا مارا کوٹا اورستایا ہوا سمجھا۔ حالانکہ وہ ہماری خطاوں کے سبب سے گھائل کیاگیا۔ اورہماری بدکرداری کے باعث کچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لئے اُس پر سیاست ہوئی۔ تاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔۔۔۔۔

خُدا وند نے ہم سب کی بدکاری اُس پر لاوی۔یسعیاہ ۵۳: ۴- ۶ دانی ایل ۹: ۲۶ مطابق مرقس ۱۰: ۴۵ ،اعمال ۸: ۳۰ – ۳۵۔۱۔ پطرس ۲: ۲۴۔۔

۲۸۔تیسرے روز قبر سے زندہ ہوگا۔ وہ دو روز کے بعد ہم کو حیات تاز ہ بخشیگا اورتیسرے روز اُٹھا کھڑا کریگا۔ اورہم اُس کے حضور زندگی بسر کریں گے۔ ہوسیع۶: ۲ اسی سبب سے میرا دل خوش اورمیری رُوح شادمان ہے۔میرا جسم بھی امن وامان میں رہیگا۔ کیونکہ تونہ میر جان کو پاتال میں رہنے دے گا نہ اپنے مقدس کو سٹرنے دیگا۔ تو مجھے زندگی کی راہ دکھائے گا۔ زبور ۱۶: ۹- ۱۱ مطابق اعمال ۲: ۳۱- ۳۲ ، ۲: ۲۴- ۲۸،لوقا ۲۴: ۵- ۷۔

۲۹۔ تُوما کو اپنے زخم دکھانا۔ اورجب کوئی اُسے پوچھے گا کہ تیری چھاتی پر یہ زخم کیسے ہیں تو وہ جواب دیگا۔ یہ وہ زخم ہیں جو میرے دوستوں کے گھر میں لگے۔ زکریاہ ۳۱: ۲ مطابق یوحنا ۲۰: ۲۴- ۲۵ ،۲۷۔

۳۰۔ زندہ ہوکر آسمان پر صعود فرمائے گا۔ تُونے عالم ِ بالا کو صعود فرمایا تو قیدیوں کو ساتھ لے گیا۔ زبور ۶۸ : ۱۸ یہواہ نے میرے خُداوند سے کہا تو میرے داہنے ہاتھ بیٹھ جب تک کہ مَیں تیرے دشمنوں کو تیرے پاوں کی چوکی نہ کردوں۔زبور ۱۱۰: ۱ مطابق لوقا ۲۴ : ۵۱ ،اعمال ۱: ۹ ،۲ ۳۴- ۳۵۔

۳۱۔ دوبارہ آئیگا اور تاابد سلطنت کرے گا۔ خُداوند میرا خُدا آئیگا۔ اورسب قُدسی اُس کے ساتھ۔زکریاہ ۱۴: ۵ مطابق ۲۔ تھسلنکیوں ۱: ۷ و،متی ۱۶: ۲۷ ایک شخص آدم زاد کی مانند آسمان کے بادلوں کے ساتھ آیا اورقدیم الایام تک پہنچا۔ وہ اُسے اُس کے حضور لائے۔ اورسلطنت اورحشمت اور مملکت اُسے دی گئی۔ تاکہ سب لوگ اوراُمتیں اوراہل لغت اُس کی خدمت گزاری کریں۔ اُس کی سلطنت ابدی سلطنت ہے جو جاتی نہ رہے گی اور اُس کی مملکت لازوال ہوگی۔دانی ۷: ۱۳- ۱۴ مطابق متی ۲۸: ۱۸ ،یوحنا ۵: ۲۲- ۲۳ ،فلپی ۲: ۹- ۱۱ و۲۔ پطرس ۱: ۱۱۔

اس لئے ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا۔ اورسلطنت اُس کے کاندھے پرہوگی۔ اوراُس کانام عجیب مشیر۔ خُدا ئے قادر ابدیت کا باپ۔سلامتی کا شہزادہ ہوگا۔ اُس کی سلطنت کے اقبال اورسلامتی کی کچھ انتہا نہ ہوگی۔ وہ داود کے تخت اوراُس کی مملکت پر آج سے ابد تک  حکمران رہے گا۔ اورعدالت اورصداقت سے اُسے قیام بخشے گا۔ رب الافواج کی غیوری یہ کرے ےگی۔ یسعیاہ ۹: ۶ مطابق لوقا ۱: ۳۱ – ۲۳۔

عہد عتیق اورعہد جدید
کے بانیوں کی باہمی مشابہت

قول المسیح۔ ضرور ہے کہ جتنی باتیں موسیٰ کی توریت اورنبیوں کے صحیفوں اورزبور میں میری بابت لکھی ہیں پوری ہوں۔لوقا ۲۴: ۴۴۔

ہم اُوپر عہد جدید کے ہونے والے بانی کی تمام زندگی کی مکمل تصویر نبیوں کے صحیفوں اورزبور کی پیشین گوئیوں میں دکھاچکے ہیں۔ اب صرف توریت کی شہادت باقی ہے جو ہم ابھی پیش کرنے والے ہیں۔ تما م الہامی انبیاء اپنے صحائف منزلہ الہٰیہ میں بانی عہد جدید کی تصویر کے جدا جدا پہلو ظاہر کرتے ہیں۔ اگرناظرین مندرجہ بالا اکتیس پیشین گوئیوں میں کھنچی ہوئی تصویر کو بانی عہد جدید کی تصویر کےساتھ جو انجیل مقدس (عہد جدید ) میں موجود ہے ملا دیکھیں تو دونوں میں سِر موفرق نہ پائیںگے۔ وہ تصویر جو موسیٰ اورمابعد کے متعدد انبیاء نے اُس موعود کی کھینچی ہے اُس کے تمام خط وخال خُداوند مسیح کے ساتھ پورے پورے طورپر ملتے ہیں۔ تمام اخبار عتیق واذ کا رسابقہ کا کھوج سوائے سرور کائنات وسرچشمہ حسنات جناب فضیلت مآ ب خُداوند مسیح کی عدیم النظیر اورفقید المثال ہستی کے کسی بھی دوسری ہستی اصلاً نہ ملیگا۔ ہم اپنے اس دعویٰ کی صداقت اورحقیت کو عہد عتیق کے بانی موسیٰ نبی کی زبانی اوربھی زیادہ صفائی سے پایہ ثبوت کو پہنچائیں گے۔ موسیٰ توریت کی پانچویں کتاب میں یوں فرماتا ہے۔ اورخُداوندنے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سوٹھیک کہتے ہیں۔ مَیں اُن کے لئے اُن ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا۔ اوراپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا۔ اورجو کچھ مَیں اُسے حکم دوں گا وہی وہ اُن سے کہیگا۔ اورجو کوئی میری اُن باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سُنے تو مَیں اُن کا حساب اُس سے لونگا۔(استثنا۱۸: ۱۷- ۱۹ اس کے ساتھ مسیح کا قول بھی ملاحظہ ہو۔ کیونکہ اگرتم موسیٰ کا یقین کرتے تو میرا بھی یقین کرتے۔ اس لئے کہ اُس نے میرے حق میں لکھا ہے۔ یوحنا ۵: ۴۶ خُداوند نے موسیٰ سے کہا کہ اُن ہی کے بھائیوں میں تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا۔ یہاں موسیٰ اُس ہونے والے نبی کو اپنی مانند کہتا ہے۔ تواب نبی برپا کروں گا۔ یہاں موسی ٰ اُس ہونے والے نبی کو اپنی مانند کہتا ہے۔ توا ب یہ دیکھنا مناسب ہے کہ موسیٰ اورمسیح میں کن کن باتوں میں مشابہت پائی جاتی ہے۔اور اگر ان دونوں میں خاص خاص صفات مشترک نہ ہو ں تو پائی جاتی ہے۔ اوراگر ان دونوں میں خاص خاص صفات مشترک نہ ہوں تو مشابہت قائم نہیں رہ سکتی۔ اورنہ ہی ہم مسیح پر اس مشین گوئی کو چسپاں کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن اگر مشابہت ثابت ہوجائے تو پھر خُداوند مسیح ہی اس خبر کے مفہوم کا مصداق ہوگا نہ کوئی اورمندرجہ ذیل امور متقابلہ پر غو ر کیجئے۔

۱۔ موسیٰ کی پیدائش کے وقت اسرائیلوں کے لڑکے شاہ فرعون کے حکم سے مروائے جاتے تھے۔ خروج ۱: ۱۵- ۱۶ ،۲۲ ۱۔ مسیح کی پیدائش کے وقت شاہ ہرودیس کے حکم سے لڑکے قتل کروائے گئے۔متی ۲: ۱۶
۲۔ موسیٰ کی بچپن میں خُدا نے عجیب حکمت سے بادشاہ کے دست ِ ستم سے بچایا۔ خروج ۲: ۵- ۱۰ ۲۔ مسیح کو بچپن میں خُدا نے فرشتے کے ذریعے آگاہی دیکر عجیب طورپر شاہ ہرودیس کے دست ِ ستم سے بچایا۔اورلطف یہ کہ موسیٰ نے بھی مصر میں پنا ہ پائی اورمسیح نے بھی مصر ہی میں پناہ پائی۔ متی ۲: ۱۳–۱۵
۳۔ موسیٰ بارہ قبیلوں کا ہادی تھا۔ ۳۔ مسیح کےشاگرد بھی بارہ تھے۔بعدازاں وہ تمام دُنیا کا ہادی ٹھہرا۔
۴۔ موسیٰ کا پہلا معجزہ یہ تھا کہ اُس نے پانی کو خون بنا دیا۔ خروج ۷: ۱۹-۲۰ ۴۔ مسیح کا پہلا معجزہ یہ تھا کہ اُس نے پانی کو مے بنایا۔یوحنا ۲: ۷- ۹
۵۔ موسیٰ نے معجزانہ طورپر بحرِ قلزم کے دو حصے کردئے۔ اور بنی اسرائیل سلامتی سے اُس میں سے گذرگئے اوردریا سے کسی جان کا بھی نقصان نہ ہوا۔خروج ۱۴: ۲۱- ۲۲ ۵۔ مسیح نے اعجازی قوت سے جھیل کے طوفان کو روکا اوراپنے شاگردوں کی جانیں ہلاکت سے بچائیں۔ لوقا ۸: ۲۲- ۲۵ ۶۔ خُداوند مسیح نے فرمایا زندگی کا پانی میں ہو ں۔جوکوئی مجھ سے پیتا ہے وہ کبھی پیا سا نہ ہوگا۔ یوحنا ۴: ۱۴ اورپولوس رسول حورب کی چٹان کو جس سے موسیٰ نے پانی نکالا خُداوند مسیح سے ملاتا ہے۔۱۔ کرنتھیوں ۱۰: ۶
۶۔ موسیٰ نے حورب کی چٹان سے پانی نکالا اورقوم کی پیاس بجھا کر اُنہیں مرنے سے بچایا۔خروج ۱۷: ۳- ۶ ۶۔ خُداوند مسیح نے فرمایا زندگی کا پانی میں ہو ں۔جوکوئی مجھ سے پیتا ہے وہ کبھی پیا سا نہ ہوگا۔ یوحنا ۴: ۱۴ اورپولوس رسول حورب کی چٹان کو جس سے موسیٰ نے پانی نکالا خُداوند مسیح سے ملاتا ہے۔۱۔ کرنتھیوں ۱۰: ۶
۷۔ موسیٰ نے قوم اسرائیلل کو مَن کھلایا جو معجزانہ طورپر آسمان سے نازل ہوتا تھا۔خروج ۱۶ : ۱۴- ۱۵ ۷۔ مسیح  نے ایک دفعہ پانچ ہزار کی بھیڑ اور دوسری دفعہ چار ہزار کی بھیڑ کو معجزانہ طورپر صرف چند روٹیوں سے آسودہ کیا اوربہت روٹی بچ بھی رہی متی ۱۴: ۱۵–۲۱ ، ۱۵۔۳۲- ۳۸اور پھر فرمایا تمہارے باپ دادو ں نے بیابان میں مَن کھایا اورمرگئے۔ میں ہوں وہ زندگی کی روٹی جو آسمان سے اُتری۔اگر کوئی اس روٹی میں سے کھائے توابد تک زندہ رہیگا۔ یوحنا ۶: ۴۹- ۵۱
۸۔ موسیٰ نے اسرائیلوں کو شاہ ِمصر کی غلامی سے چھڑا یا۔ ۸۔ مسیح نے ابلیس ،گناہ اورموت کی غلامی سے ایمانداروں کو آزاد کیا۔یوحنا ۸: ۳۴- ۳۶ ،عبرانیوں ۲: ۱۵
۹۔ موسیٰ نے اپنے مِن جانب خُدا نبی ہونے کو معجزات سے ثابت کیا۔استثنا ۳۴: ۱۰–۱۲ ۹۔ مسیح نے فرستاوہ خُدا ہونے کے ثبوت میں معجزات پیش کئے۔یوحنا ۵: ۳۶ ،اعمال ۲: ۲۲
۱۰۔ موسیٰ چالیس روز تک بغیر  کھائے پیئے خُدا کے حضور میں رہا۔خروج ۳۴: ۲۸ ۱۰۔ مسیح چالیس روز تک بلا خور دنوش جنگل میں خُدا کی قربت میں رہا۔ متی ۴: ۱- ۲
۱۱۔ موسیٰ کا چہر ہ خُدا کےجلال کی تجلی سے چمکنے لگا۔ اوراُس کی صورت تبدیل ہو گئی۔ یہا ں تک کہ لوگ اُس سے ڈرنے لگے۔خروج ۳۴: ۲۹- ۳۵۔۲۔ کرنتھیوں ۳: ۸ ۱۱۔ مسیح کی صورت کوہ حرمون پر تبدیل ہو گئی اور سورج کی مانند چمکنے لگی۔ اوراُس کے شاگرد نہایت خوفزدہ ہوئے اورلطف یہ کہ موسیٰ بھی اُس وقت ایلیاہ کی ہمراہی میں مسیح کے ساتھ پایاگیا۔متی ۱۷: ۲- ۸ ، مرقس ۹: ۲- ۸ لوقا ۹: ۲۸–۳۶ موسیٰ کی صورت کو ہ سینا پر نورانی ہوگئی۔ موسی ٰ کی صورت کوہ سینا پر تبدیل ہوئی اور مسیح کی صورت کوہ ِ حرمون پر نورانی ہوگئی۔ دونوں نظارے پہاڑی ہیں۔
۱۲۔ پرانا عہد موسیٰ کے ذریعے خون سے باندھا گیا۔خروج ۲۴: ۸ عبرانیوں ۹: ۱۸۰۲۰ ۱۲۔ نیا عہد مسیح کے خون سے باندھا گیا۔ لوقا ۲۲: ۲۰۔ا۔کرنتھیوں ۱۱: ۲۵ عبرانیوں ۹: ۱۱–۲۲
۱۳۔ شریعت تو موسیٰ کے ذریعے دی گئی۔ یوحنا ۱: ۱۷ ۱۳۔ مگر فضل اورسچائی یسوع مسیح کی معرفت پہنچی۔یوحنا ۱: ۱۷
۱۴۔ موسیٰ نے آخری وقت یشوع پر ہاتھ رکھ کر اُسے مخصوص کیا۔ اور اپنی جگہ اُسے قوم کا ہادی بنا کر وصیت کی۔گنتی ۲۷: ۱۵- ۲۳ ، استثنا ۳۴- ۹ ۱۴۔ مسیح نے آخری وقت اپنے شاگردوں کو برکت دی۔ اوررُوح القدس سے مَسح کرکے اپنی جگہ قائم مقام بنا کر وصیت کی۔متی ۲۸: ۱۸- ۲۰  ،یوحنا ۲۰ : ۲۱- ۲۳
۱۵۔ موسیٰ کی قبر عدیم الپتہ ہے۔کوئی اُس کی بابت نہیں جانتا۔استثنا ۳۴: ۶ ،خط یہوداہ ۹ آیت۔ ۱۵۔ خُداوند مسیح کی قبر بھی معدو م ہے۔اگر ہے تو خالی ہے۔مسیح زندہ ہوگیا۔ متی ۲۸ : ۵-۷ ،لوقا ۲۴: ۳- ۷، ا۔کرنتھیوں ۱۵: ۲۰ ،اعمال ۲: ۳۴۔

 اُوپر ہم نے پندرہ اُمور میں موسیٰ اورخُداوند مسیح کی مُشابہت دکھائی ہے جس سے ہتمام وکمال طور سے ثابت ہوتا ہے کہ موسی کی وہ خبر جو اُس نے اپنی مانند ایک نبی کے برپا ہونے کے متعلق دی تھی وہ بجز خُداوند کے اورکسی نبی کی بعثت کا اشارہ تک نہیں ہے۔ بلکہ برعکس اس کے یوں لکھا ہے۔ اوراُس وقت سے اب تک بنی اسرائیل میں کوئی نبھی موسیٰ کی مانند جس سے خُداوند نے روبرو باتیں کیں نہیں اُٹھا۔ استثنا ۳۴: ۱ اوراُس کے بعد بھی کسی نبی نے نہ تو بالصراحت اورنہ بالا ِشارت اُ س موعود نبی کے آ چکنے کا کہیں ذکر کیا۔ اس لئے عہد عتیق کے سب سے آخری نبی  نے بھی موسوی شریعت ہی کی طرف قو م کی وجہ جی رہنمائی کی۔اگر وہ موعود نبی اُسکے زمانہ تک آچکا ہوتا تو وہ قوم کی اُس کی طرف توجہ دلاتا نہ کہ موسیٰ کی طرف۔ لیکن وہ شرع موسوی ہی کی یاددہانی کرواتا ہے۔ تم میرے بندے موسیٰ کی شریعت یعنی اُن فرائض واحکام کو جو میں نے حورب پر تمام بنی اسرائیل کےلئے فرمائے یاد دکھو۔ ملاکی ۴:۴ پس ثابت ہوا کہ توریت کے سب سے آخری نبی یعنی ملاکی کے زمانہ تک بھی وہ نبی ظاہر نہ ہوا تھا۔ اس لئے اُس نبی کی کھوج ہمیں ملاکی نبی کے بعد کے زمانہ میں کرنی پڑےگی دریں عالیکہ ملاکی نبی نے بھی اُس موعودہ نبی اور اُس کے پیشرو (یوحنا بیٹسپٹ ) کے ظہور آیندہ کی صریح خبربدیں الفاظ دی۔ دیکھو مَیں اپنے رسول کو بھیجوں گا۔ اورمیرے آگے راہ درست کرےگا۔ اورخُداوند جس کے تم طالب ہو نا گہاں اپنی ہیکل میں آموجود ہوگا۔ ہاں عہد کا رسول جس کے تم منتظر ہوآئے گا۔ رب الافواج فرماتا ہے۔ ملاکی ۳: ۱ مطابق مرقس ۱: ۲ ،لوقا ۷: ۲۷ ،یوحنا ۲: ۱۳ – ۱۷ چنانچہ ملاکی نبی کے بعد کے زمانہ میں خُداوند یسوع مسیح کا ظہور ہوا۔ اوروہ عدیم اُلہیم شخصیت اورفقید المثل ہستی تمام انبیاء کی پیش خبریوں کو پورا کرنے اورقوم کے طویل انتظار کاجواب دینے کے لئے زینت افزائے کا شانہ گیتی ہوئی۔ پُرانے عہد کے ےموعود نبی وبادشاہ اورنئے عہد کے خُداوند مسیح کی فوٹو میں سر فرق نہیں۔ وہ دونوں ایک ہی ہیں۔ ایک جواب ہے تو دوسرا اُس کی تعبیر ہے۔ اگرعہد عتیق انتظار کی دراز تبرہ شب ہے تو عہد جدید اُس انتظار کا جواب اورحصول ِمقصود کا روز ِروشن ہے۔اورخُداوند مسیح نے بارہا اخبار انبیاء سابقہ کو خود اپنی ذات پر چسپاں کیا۔ ملاحظہ ہو لوقا ۲۴: ۴۴، ۴: ۱۷ – ۲۱۔ متی ۲۲: ۴۲ – ۴۶ ،یوحنا ۵: ۳۹۔ پس ثابت ہوا کہ توریت میں جو ایک عالمیگر نئے عہد کی خبر پائی جاتی ہے وہ عہد مسیحیت ہے۔ اورجس بانی عہد جدید کی خبریں عہد عتیق نے دی ہیں۔ وہ بانی خُداوند یسوع مسیح ہے جس نے اس عالم آب دنگل کو اپنےمبارک قدموں کی برکت سے سرفراز فرمایا۔

اِلہام ومذہب الہٰی کی تدریحی کمالیت

اگر صحیفہ فطرت پر ایک خائز اورتحقیقی نظر ڈالی جائے تو ایک قانون نظر آتا ہے جو تمام موجودات عالم میں مشترک طورپر جاری وساری ہے۔ وہ قانون ہے تدریجی ارتقاء ہرشئے ادنی ٰ سے اعلیٰ اورناقص سے کامل کی طرف ترقی کرتی ہوئی صاف نظر آتی ہے۔ یعنی یہ نہیں کہ رات کو جامن کا بیج بویا جائے اورصبح کو وپچاس فُٹ اُونچا درخت ہوکر پھل دینے لگے۔ بلکہ رفتہ رفتہ درجہ بدرجہ ایک مخصوص وقت پر کمال کو پہنچتا ہے۔ ہر شئے کی پیدائش۔،وسطی اورانتہائی حالت اس حقیقت کی تائید وتصدیق کرتی ہے۔جبکہ جسمانی ومادی عالم میں تدریجی ارتقاء کا قانون خالق نے موضوع کردیا ہے۔ تو لازمی امر ہے کہ اخلاقی وروحانی امور میں بھی ایسا ہی ہو۔ کیونکہ صحیفہ فطرت اورصحیفہ الہام دونوں کجا مصنف خُدا تعالیٰ ہے۔ کائنات جس خُدا کا فعل ہے الہام اُسی کا قول ہے۔ لہٰذا دونوں میں مطابقت ومناسبت کا ہونا ضروری ہے۔ عقلی وعلمی ارتقا ء میں بھی تدریجی ترقی وکمالیت کا اٹل قانون وساری نظر آتا ہے۔۔طالب علم جوں جوں عقلی منازل کو طے کرتا جاتا ہے ہر مرحلہ پراُس کےحسب لیاقت کُتب درسی پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ نہیں کہ پہلے ہی روز بچے کے ہاتھ میں گلستان بوستان دے دی جائیں۔ یہی حال نزول الہام الہٰی کا ہے۔ خُدا اہل ِ دُنیا کی حالت اساسی وسطی اورانتہائی کے تناسب سے اپنے مکاشفے والہام نازل فرماتا ہے۔ اُس نے اپنا الہام ومکاشفہ انفرادیت سے شروع کیا۔ اورخاص اشخاص کو چند سادہ احکام وقوانین دے کر اُن سے اُن کی تعمیل طلب کی۔ پھر اُس  نے ایک خاص قوم کو چن لیا اوراپنے احکام وقوانین زیادہ تعداد میں موسیٰ کی معرفت اُن پر نازل کئے۔ اوراُن کی تعمیل وتقلید کی تاکید زمانہ بہ زمانہ طرح بہ طرح انبیاء کی معرفت فرماتا رہا۔ وہ الہام صرف قوم اسرائیل ہی سے متعلق تھا اور مذہب الہٰی قومی مذہب تھا۔اور ضروری تھا کہ مذہب الہٰی انقیادی خصوصیت سے نکل کر عمومیت میں تبدیل ہوجائے۔ اورایسا ہی ہوا جیسا ہم پیشتر یا لتفصیل دکھاچکے ہیں۔ چونکہ خصوصیت عمومیت کی ایک فردہے۔ لہٰذا خُدا نے اپنا الہام ومکاشفہ ابتدائی خاص سے شروع کرکے عام تک پہنچایا۔ پہلے اُس نے خاص افراد کو چُنا۔ پھر اُس نے ایک خاص قوم کو چُن لیا۔ جس طرح خُداوند مسیح نے بھی پہلے بارہ شاگردوں کو چن لیا اوراُنہیں فرمایا  مَیں نے تمہیں چن لیا اورتُم کو مقرر کیا کہ جاکر پھل لاو۔ (ا۔یوحنا ۱۵: ۱۶ ) اوراس عالمیگر مذہب کے بانی نے اپنی خدمت کو اُسی جگہ سے شروع کیا جہاں انبیاء عہد عتیق نے اپنے کام کو چھوڑا تھا۔ یعنی یہودی قوم سے شروع کرکے تمامم اقوام عالم  تک اوریروشلیم سے شروع کرکے تمام دُنیا کی حدود تک اپنی خدمت کو وسعت دی (لوقا ۲۴: ۴۷ ) مرکز سے شروع کرکے محیط کی طرف بڑھنا مسیح کا مقصد تھا۔ اسی لئے آپ نے ایک جگہ فرمایا۔ مَیں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اورکسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔(متی ۱۵: ۲۴ ) یہ ہی تھا مرکز سے شروع کرنا۔ یروشلیم سے شروع کرنا ۔لیکن بعد میں آپ نے فرمایا۔ میری اوربھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانے (قوم اسرائیل ) کی نہیں۔ مجھے اُن کو بھی لانا ضرور ہے اوروہ میری آوا ز سُنیں گی۔ پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی چرواہا ہوگا۔ یہی تھا محیط تک پہنچنا۔ زمین کی انتہا تک گواہ ہونا۔ (یوحنا ۱۰: ۱۶۔اعمال ۱: ۸) دُنیا کی ہرشئے مرکز سے محیط کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اورخُداوند مسیح نے بھی اس مقررہ قانون کے مطابق اپنے کام کو مرکز سے آغاز کرکے دائرہ کی طرف بتدریج بڑھایا۔ اورقومی مذہب کو بتدریج عالمگیر مذہب میں منتقل فرمایا۔ اوالہام الہٰی کی تدریجی کمالیت کے متعلق خط عبرانی کا مصفنف یوں فرماتا ہے۔اگلے زمانے میں خُدا نے باپ دادوں سے حصہ بہ حصہ اورطرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کرکے اس زمانے کے آخر میں ہم سے بیٹے کی معرفت کلام کیا (عبرانیوں ۱: ۲)۔

(۶)

عالمگیر مذ ہب

عالمگیر مذہب  وہ ہوسکتا ہے جو جغرفائی حدود وقیود سے آزاد ہو۔ تمام نسلوں اورقوموں کی روحانی اوراخلاقی زندگی پر یکساں طورپر اثر انداز ہو اورجس میں مِن کُل الوجو ہ ہو۔اور بنی نوع انسان کی اخلاقی ضروریات اور رُوحانی جذبات کی تسکین وسودگی کا ضامن ہو۔ اور کامل تحقیق کے بعد فرد واحد بھی یہ کہنے کی جرات نہ کرسکے کہ اس مذہب میں میری رُوحانی حوائج وضرورت کاجواب نہیں ہے۔ ہم مسیحی مذہب کو اس معنی کا عالمیگر مذہب ادلہ یقینیہ وبراہین شا فعیہ قطعیہ سے ثابت کریں گے۔ ذراء انصاف پروری اورصدق دلی سے تمام دلائل پر غور فرمائے۔

عہد جدید کی بنیاد عہد عتیق پر

عہد جد ید کی بنیاد عہد عتیق پر رکھی گئی ہے۔ اور نئے عہد کے بانی نے پُرانے عہد کے سلسلے کو توڑا نہیں۔ بلکہ اُسی کی بنیاد پر رد سے لگا کر قومی مذہب کی عمارت کو بتدریخ تکمیل تک پہنچا یا ہے۔ اورجہاں عہد عتیق کے  انبیاء نے اپنا کام چھوڑا تھا۔ خُداوند مسیح نے اُسی جگہ سے شروع کرکے اُسے قومی دائرہ سے نکال کو بتدریج عمومیت کی طرف ترقی دی۔ اورجو مخالفین مسیحیت ہٹ دھرمی اورتعصب کی سیاہ عینکیں لگا کر اصل حقیقت کومشکوک نظروں سے دیکھتے اوریہ کہا کرتے ہیں۔ کہ خُداوند مسیح نے توریت کو رد اورباطل کردیا ہے۔یہ اُن کی خوش فہمی ضد اورمحض کو تاہ اندیشی ہے۔ اورحقیقت اس کے برعکس ہے توریت کی خبر ملاحظہ ہو۔دیکھ وہ دن آتے ہیں۔ خداوند فرماتا ہے جب میں اسرائیل کے گھرانے اوریہوداہ کےی گھرانے کے ساتھ نیا عہد باندھوں گا (یرمیاہ ۳۱: ۳۱ ) پھر اس آنے والے عہد کی عمومیت کی خبر ہر غور کرو۔ وہ وقت آتا ہے کہ مَیں تمام قوموں اوراہل لغت کو جمع کروونگا۔ اوروہ آئینگے اورمیرا جلال دیکھیں گے۔ (یسعیاہ ۶۶: ۱۸ ) الفاظ وہ دن آتے ہیں اورو ہ وقت آتا ہے قابل غور ہیں۔ اوریہ اُس آنے والے نئے عہد اوراُس کے ہونے والے بانی کے متعلق صریح پیش خبری ہیں۔ خُدا کے علم وارادہ میں توریت کا حدِ رواج مسیح تک تھا۔ لیکن جب وقت پورا ہوگیا تو خُدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت سے پیدا ہوا۔ اورشریعت کے ماتحت  پیدا ہوا۔ تاکہ شریعت کے ماتحتوں کو مول  لے اورہم کو لے پالک ہونے کا درجہ ملے۔ (گلتی ۴: ۴- ۵) اور لازم  تھا کہ عہد جد ید کابانی شریعت کے ماتحت  پیدا ہو۔ تاکہ شریعت سابقہ کا سلسلہ نہ ٹوٹے۔جو شریعت موسوی کوکامل کرنے آیا تھا وہ پہلے خود اُس کا پابند ہوا۔ چنانچہ آٹھویں روز اُس کا ختنہ ہوا۔ لوقا ۲: ۲۱ مطابق احبار ۱۲: ۳ اورمریم مقدسہ شرع موسوی کے مطابق پاک ہونے کے دن پورے ہونےپر ہیکل میں قربانی چڑھانے گئی۔لوقا ۲: ۲۲- ۲۴ مطابق احبار ۱۲: ۶ -۸ مسیح نے بپتسمہ بھی لیا۔ متی ۳: ۱۳- ۱۷ وہ ہرسال عیدوں کے لئے یروشلیم کو جایا کرتا تھا۔ لوقا ۲: ۴۱- ۴۲ مطابق خروج ۳۰ : ۱۴، ۱۷ وہ ہیکل کا محصول ادا کرتا تھا۔ متی ۱۷ : ۲۴–۲۷ مطابق خروج ۳۰ : ۱۳ یہودی روزہ رکھتے تھے مسیح نے بھی چالیس دن روز ہ رکھا۔متی ۴: ۱ لوقا ۴: ۲ مطابق احبار ۱۶: ۲۹ ،یسعیاہ ۵۸: ۳- ۷ آپ نے ایک کوڑھی کو معجزانہ طور سے شفا دی اوراُسے موسوی دستور کی ہدایت فرمائی۔متی ۸: ۱- ۴ مطابق احبار ۱۴: ۱-۷ اور آپ نے اپنی خدمت کے آغازہی میں فرمایا۔ یہ نہ سمجھو کہ مَیں توریت یانبیوں کی کتابوں کومنسوخ کرنے آیاہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا (کامل) کرنے آیا ہوں۔متی ۵: ۱۷ چنانچہ آپ نے شریعت دی۔اُس کی تردید وتنسیخ نہیں بلکہ تکمیل فرمائی اوراُس کو انقیادی خصوصیت سے نکال کر عمومیت میں تبدیل کیا۔ اورتمام اقوام عالم کادستو ر العمل ہونے کی صلاحیت اُس میں پیدا کردی۔ جس طرح ایک گورنر کا رُعب واقتدار اورحکومت واختیار صرف ایک ہی صوبہ تک محدود ومختص ہوتا ہے۔ اوراُس کے اپنے صوبہ سے باہر اُص کے احکام وقوانین کچھ اثر نہیں رکھتے۔ اسی طرح موسوی شرائع و احکام کا دائرہ اثر صرف یہودی قوم تک ہی محدود تھا۔ اوریہودیت کے باہر انبیاء کے قوانین اوراُن کی آواز کا کچھ اثرنہ  تھا۔ تعزیرات پاک وہند کے قوانین و دفعات صرف ان ممالک کی حدود کے اندر ہی زور رکھتے ہیں۔ اورفرانس جرمنی اورامریکہ کے لوگو ں سے اُن کی تعمیل کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح شریعت موسوی تمام دُنیا کا دستور العمل ہونے کی ہنفسہ کوئی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اورخُدا وند مسیح کی آمد اورظہور کا سب سے اعلیٰ مقصد یہی تھا کہ مذہب الہٰی عالمیگر ہوجاتے۔ چونکہ خُدا تمام دُنیا کا واحد مالک اورشہنشاہ ہے اس واسطے مسیح شریعت کو جو مختص بالقوم والزمان ہونے کے باعث کمزور اور ادھوری تھی کامل کرنے آیا۔ اورفرمایا کہ میں توریت کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا (کامل) کرنے آیا ہوں۔ ہم آگے چل کر اچھی طرح دکھائیں گے کہ توریت کی تکمیل مسیح نے کس صورت میں فرمائی۔ اورکس طرح قومی مذہب کو عالمیگر مذہب کی صورت دے دی۔

توریت کا تجزیہ

توریت کا تجزیہ کیا جائے تواُس میں تین قسم کے مضامین دستیاب ہوتے ہیں۔ اول۔ احکام۔دوم۔اخبار ،سوم تعلیم ، اَحکام کی دو قسمیں ہیں۔ یعنی اَمر اورنہی اَمر وہ احکام ہیں جن پر عمل کرنے کی تاکید پائی جاتی ہے۔ مثلاً توسبت کادن پاک ماننا۔ تُواپنے باپ اوراپنی ماں کی عزت کرنا۔ وغیرہ اس قسم کے تمام احکام کو اوامر کہتے ہیں۔ اورنہی وہ احکام کہلاتے ہیں جن میں کسی کام کےے کرنے کے کی ممانعت پائی جائے۔مثلا ً تُو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بناتا۔ نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اُوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔ تُو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا۔اور نہ اُن کی عبادت کرنا۔ وغیرہ اس قسم کے امتناعی احکام کو نواہی کہتے ہیں۔پھر اخبار تین قسم کی ہیں۔ یعنی حال کی ،ماضی کی ،اورمستقبل کی۔

اول۔ اخبار حال وہ ہیں جو موسیٰ اوردیگر انبیاء نے اپنے اپنے زمانہ میں واقعات موجودہ اورتجارب مشہودہ کی بنا پر لکھیں۔

دوم۔ اخبار ماضی جیسے موسیٰ نے دُنیا کی پیدا ئش۔ آدم کی نافرمانی و استخراج ازجنت العدن اورطوفان نوح کے واقعات لکھے۔ اوراُن اخبار سابقہ کو الہام الہٰی کی روشنی میں قلمبند کیا۔

سوم۔ اخبار مستقبل۔جیسے موسیٰ اوراُس کے ماقبل ومابعد کے انبیاء نے خُداوند مسیح کے متعلق خبریں دیں۔ یہ خبریں انبیاء خُدا سے حاصل کرکے بوساطت الہام لکھتے تھے۔ اور انہیں کو پیشین گوئی کہتے ہیں۔ اوامر ونواہی اوراخبار باقسام ثلٰثہ توتمام صحائف عتیقہ وجدیدہ کومِن حیث المجوعہ شامل ہیں۔یعنی انجیل میں بھی توریت کی طرح موجود ہیں۔ لیکن احکام کی دو اور خاص قسمیں ہیں جو صرف توریت ہی سے متعلق ہیں۔ یعنی :۔ احکام خاص اوراحکام عام۔ اب ہم اُن کا مفصل بیان کریں گے۔

اَحکام خاص

قربانیاں ،ختنہ۔روزہ ،نذریں ،طہارت بدنی ، سبت ، عیدیں اورحلت وخرمت وغیرہ جوھ سب ہیکل کے ساتھ متعلق تھے۔ اوراحکام وقضاۃ وشاہان نبی اسرائیل کے متعلق سیاسی قوانین وفرائض سب احکام خاص میں شامل ہیں۔ اور شرائع رسمی وملکی ان ہی سے متعلق تھیں۔ ان کا تعلق صرف قوم اسرائیل کے ساتھ تھا۔ دیگر اقوام میں نہ تو کبھی ان کی تردیج کی کوشش کی گئی اورنہ ایسا کرنے کا کوئی حکم ہی تھا۔ احکام خاص اپنی ذات اورمقصد میں تمام دُنیا کا دستور العمل ہونے کی صلاحیت ہی نہ رکھتے تھے۔ ان کا تعلق صر ف یہودی مذہب۔تمدن ومعاشرت اورقومیت سے تھا۔ مثلاُعیدیں یہودی تاریخ کے خاص واقعات کی یاد گاہیں تھیں۔

یہودیت سے باہر کی دنیا کو اُن سےکوئی واسطہ نہیں تھا۔ کیونکہ وہ اُس کی تاریخ سے کچھ واسطہ نہیں رکھتیں۔ مثلاً ایک فوجی آدمی اگراپنے لباس پر تمغے لگاتا ہے تووہ اُس کی جنگی زندگی کے واقعات کی یاد گاریں اورنشانیاں ہیں۔ اگر دوسرے لوگ جن کو محاریہ ومکاربر ہ سے کبھی واسطہ ہی نہیں پڑا اُس فوجی کی دیکھا دیکھی اپنے لباس پر تمغے لگالیں۔تو وہ بے مطلب اور بے معنی ہونگے۔فوجی لوگوں کے چند خاص ظاہری امتیازات ہوتے ہیں۔ جن کے باعث وہ عوام الناس سے متماز نظر آتے ہیں۔ اور وہ امتیازی علامات اُن ہی کے لئے خاص ہوتی ہیں نہ کہ تمام لوگوں کے لئے۔اسی طرح توریت کی رسمی وملکی شرائع یہودیت کواُس وقت کی تمام دیگر اقوام سے ممتاز کرتی تھیں۔ اوردوسری وجہ احکام خاص کے نفاذ کی یہ تھی ک ہان ظاہری اورجسمانی قوانین کے ذریعے اُن میں الہٰی متابعت وفرمانبرداری کی رُو ح پیدا کی جائے۔ یہ گویا ایک ابتدائی تربیت تھی۔اور اس تربیت اولہ سے منتہائے مقصود یہ تھا کہ اخلاقی وروحانی شریعت کی پا بندی کرنا سیکھیں۔ جیسے حروف تہجی بچوں کو محض اس لئے کھائے جاتے ہیں کہ اُن کے ذریعے وہ کسی وقت اعلیٰ علمی کتابیں پڑھ سکیں۔ اسی طرح اَحکام خاص بھی اُس قوم کے لئے بطور ابتدائی سبق کے تھے۔ اورجب کوئی طالب علم مولوی فاضل بن جاتا ہے تو پھر اُسے حروف تہجی پر مغز مارنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اورقاعدہ حروف تہجی کے متروک ہونے سے وہ قاعد ہ رد و باطل نہیں ہو جاتا بلکہ جس حدتک پہنچا نا اُس کا مقصود  تھا اُس تک  پہنچ کر اُس کی ضرورت نہیں رہتی۔ اسی طرح احکام خاص اعلیٰ اخلاقی وروحانی شریعت تک پہنچا کر متروک العمل ہوگئے۔ اور پھر  پھر کر اُن کی رَٹ لگانا ایسا ہی عبث ہے جیسے کوئی مولوی فاضل ہوکر دوبارہ حروف ِ تہجی کی مشق شروع کرے۔ چراغ کی ضرورت اُس وقت تک ہوا کرتی ہے جب تک آفتاب طلوع نہ ہو۔لیکن آفتاب کی آمد سے چراغ رد وباطل نہیں ہوجاتا بلکہ اُس کی ضرورت نہیں رہتی۔ پس سورج کی موجودگی  میں مٹی کے چراغ جلانا نادانی ہے ۔اور ہمارے پاس نبیوں کا وہ کلام ہے جو زیادہ معتبر ٹھہرا۔اورتُم اچھا کرتے ہوجو یہ سمجھ کر اُس پر غور کرتے ہوکہ وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ میں روشنی بخشتا ہے۔جب تک پَونہ پھٹے اورصبح کا ستارہ تمارے دلوں میں نہ چمکے۔ (۲۔ پطرس ۱: ۱۹) اوروہ شرعی زمانہ مذہب الہٰی کی طفولیت کا زمانہ تھا۔ اورخُدا  وند مسیح نے اُسی کو شباب کےی عہد تک پہنچایا۔ جب میں بچہ تھا بچوں کی طرح بولتا تھا۔ بچوں کی سی طبیعت تھی۔بچوں کی سی سمجھ تھی لیکن جب جوان  ہوا تو بچپن کی باتیں ترک کردیں(۱۔ کرنتھیوں ۱۳: ۱۱) پس شریعت مسیح تک پہنچانے کو ہمارا اُستاد بنی۔ تاکہ ہم ایمان کے سبب راستباز ٹھہریں۔ مگر جب ایمان آچکا تو ہم اُستاد کے ماتحت نہ رہے۔ (گلیتوں ۳: ۲۴- ۲۵) اب ذرالفصیل کے ساتھ دکھا یاجائے گا کہ کس طرح احکام خاص کا تکملہ عہد جدید میں آکر ہو گیا۔ اورشرع رسمی میں سے چند بڑی بڑی رسوم کو لے کر انجیل مقدس میں اُن کی تکمیل دکھائی جائے گی۔ یعنی اُس کا آغاز کا انجام دکھایا جائے گا۔ اُسی خواب کی تعبیر پیش کی جائے گی۔

قربانیاں

لفظ قربانی کامادہ قرب (نزدیکی ) ہے۔یعنی قربانی ایک ایسا شرعی فعل ہے جس کےذریعے انسان خاطی۔عاصی تقریب الہٰی کوحاصل کرسکے۔ شرع موسوی میں بنی اسرائیل قوم کو قربانی چڑھانے کے خاص احکام تھے۔ اوروہ بموجب فرمان ِ الہٰی پانچ قسم کی قربانیاں گذرانتے تھے۔ احبار کی کتاب میں اُن کا مفصل بیان مل سکتا ہے۔ واضح ہوکہ انسان اس دُنیا کی کسی بھی شئے کا مالک نہیں بلکہ مختار ہے۔اور خُدا سب دُنیا کا واحد مالک ہے۔ زمین اوراُس کی معموری خُداوند کی ہے۔ جہان اوراُس کے باشندے بھی (زبور ۲۲: ۱) اورہزاروں پہاڑوں کے چوپائے میرے ہی ہیں۔ اگر میں بھوکا ہوتا تو تجھ سے نہ کہتا۔ کیونکہ دُنیا اوراُس کی معموری میری ہی ہے (زبور ۵۰: ۱- ۱۲) اورانسان کے قبضے میں ان اشیاء کی ذاتوں کے منافع اور فوائد ہی ہیں۔ اورانسان کو یہی حکم تھا کہ ان جانوروں کی ذاتوں کے فوائد کو قربان کرکے۔ اورچونکہ اُن کی ذآت کے فوائد کوقربان کرنے کے لئے اُن کو ذبح کرنا پڑتا تھا۔ اوربغیر ذبح کئے وہ فوائد عقیدت الہٰی کے مذبح پر قربان نہیں کئے جاسکتے تھے۔ اس واسطے قربانی کے لئے جانور ذبح کئےجاتے تھے۔اور یہ ایک طرح کا ایثار تھا جو وہ خُدا کے حکم کے مطابق اُس کی خوشنودی ورضا جوئی کے لئے کرتے تھے۔ اوراس سے مقصود یہ تھا کہ تقریب الہٰی کے حصول کی خاطر ان معمولی منافع کو قربان کرتے کرتے اُن میں خُدا کی محبت یہاں تک بڑھ جائے کہ کسی وقت وہ اپنی جان بھی اُس کی خاطر قربان کردینے میں دریغ نہ کریں۔ اورایک طرف تو خود انکاری وایثار کی رُوح اُن میں پیدا ہوجائے۔ دوسری طرف وہ یہ احساس کرنے لگ جائیں کہ خُدا کی شریعت کا عدول کرنے سے جو موت اُنہو ں نے کمائی وہ جانورں پر وارد ہورہی ہے۔ اورخُداہماری جانوں کو اس قدر عزیز رکھتا ہے کہ ان بیگنا ہ جانوروں کی جانوں کو ہماری جانوں کا مبادلہ ٹھہراتا ہے۔ تو بھی ممکن نہیں کہ بیلوں اوربکروں کا خون گناہوں کو دور کرے۔(عبرانیوں ۱۰: ۴)۔ بلکہ وہ قربانیاں سال بہ سال گناہوں کو یاد دِلاتی ہیں۔(عبرانیوں ۱۰: ۳)۔ چونکہ خُدا عادل ہے۔اورعدل کا تقاضا ہے کہ جان کے بدلے جان لی جائے۔اس لئے عارضی طورپر یہ حیوانی مجازی قربانیاں مسیح کی حقیقی قُربانی کے انبیاء کے طورپر قائم رہیں۔ اورجب خُداوند مسیح نے حقیقی اوراصلی قُربانی دے دی تو اُن مجازی قربانیوں کا رواج اُسی وقت سے بند ہوگیا۔ اورموسوی قربانیاں مسیح کی قربانی کی ایک تمثیل ہی تھیں۔ کیونکہ شریعت جس میں آئندہ کی اچھی چیزوں کا عکس ہے اوراُن چیزوں کی اصلی صورت نہیں۔ عبرانیوں ۱۰: ۱۔

اگر بالفرض محال حیوانی قربانی عدل الہٰی کے تقاضا کو پورا کرسکتی ہے تو سوال لازم آتا ہے کہ قربانی سے عابد کو فائدہ پہنچتا ہے یا معبود کو اوریا مذبوح کر؟ اگرکہا جائ کہ عابد کو تو یہ خلاف انصاف ہے۔کیوننکہ مجرم کو فائدہ پہنچاتا عدل نہیں۔ بلکہ ازروئے عددل مجرم کو خسارہ کا متحمل ہونا لازمی ہے۔ اورجبکہ گناہ کے باعث مجرم انسان سزائے موت کا مستحق ہے۔(رومیوں ۶: ۲۳) تو اُس کی جان کا مبادلہ حیوان کیسے ہوسکتا ہے ؟ یہ بھی عدل کو پورا نہیں کرتا۔ او ر پھر جانور کسری طورپر قربان کیا جاتا ہے۔ اورفعل کسری نہ تو نیک ہوسکتا ہے نہ بد۔ یہ تو ایسا ہی ہوا کہ ایک خونی کی جان کے عوض میں سرکار کو ایک بکرابا بیل پیش کیا جائے۔ اوراگر کہاجائے کہ قربانی سے خُدا کو فائدہ پہنچتا ہے تو یہ اُس کی ذات بے نیاز ، لااحتیاج کے منافی ہے۔ اُس میں کوئی کمی نہیں۔ وہ غنی ہے اس لئے اُس کو کسی فائدہ کے حصول کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ غنی ہے اس لئے اُس کو کسی فائدہ کے حصول کی ضرورت ہی نہیں۔ اوراگر کہا جائے کہ جانور کی ذات کو فائدہ پہنچتا ہے۔ تو یہ خلاف عقل ہے۔کیونکہ ہلاکت کسی ذی جان کے لئے فائدہ مند ہونہیں سکتی۔ اوراگر کہاجائے کہ قربانی سےکسی کو بھی کو فائدہ نہیں ہوتا۔ تواس صورت میں قر  بانی ایک فضول اوربے بنیاد کا م ٹھہرتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ حیوانی قربانی اگر خُدا وند مسیح کی حقیقی واخلاقی قربانی کی علامت نہ سمجھ جائے تو وہ ظلم وتشد د کے سوا کچھ نہ تھی۔ اورخُداوند مسیح کی آمد پر قربانیوں کے رواج بند ہوجانے کی خبر خود عہد عتیق میں موجود ہے۔ ملاحظہ ہو۔ اور باسٹھ ہفتوں کے بعد مسیح تقل کیا جائے گا۔ اوروہ ایک ہفتہ کے لئے بہتوں سے عہد قائم کرے گا۔ اورنصف ہفتہ میں ذبیحہ اورہدیہ موقوف کرے گا۔(دانی ایل ۹: ۲۶- ۲۷) جس طرح  موسم برسات کی بافراط وبہتات بارشیں فصلوں کو چاہی آبپاشی کی طرف سے بے نیاز کردیتی ہیں۔ اورپھر آبیاشی کے محدود انسانی ذرائع بند ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح مسیح کی حقیقی اورکامل قربانی کے بعد پھر کسی حیوانی قربانی کی ضرورت نہ رہی۔ جانور کی قربانی کسری اورمجہول ہوتی تھی۔ اورخُداوند مسیح کی قربانی اختیاری اورمعلوم قربانی ہے۔ آپ کا فرمان ملاحظہ ہو۔

باپ مجھ سے اس لئے محبت رکھتا ہے کہ مَیں اپنی جان دیتاہوں۔ تاکہ اُسے پھر لے لوں۔ کوئی اُسے مجھ سے چھینتا نہیں۔ بلکہ مَیں اُسے آپ ہی دیتا ہوں۔ مجھے اُس کے دینے کا بھی اختیار ہے۔ اوراُسے پھر لینے کا بھی اختیار ہے۔ یہ حکم میرے باپ سے مجھے ملا (یوحنا ۱۰: ۱۷- ۱۸)۔

ختنہ

ختنہ کا آغاز ابراہام سے ہوا۔ خُدا تعالیٰ نے اُس کے ساتھ عہد باندھا تھا۔ اورختنہ اُس عہد کے لئے بطور ایک نشان کے ٹھہرایا۔خُداوند نے ابراہام سے فرمایا۔ اورمیرا عہد جو میرے اورتیرے درمیان اورتیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے۔ اورجسے تُم مانو گے سویہ ہے کہ تُم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے۔ اورتُم اپنے بدن کو کھلڑی کا ختنہ کیا کرنا۔ اوریہ اُس عہد کا نشان ہوگا جو میرے اورتمہارے درمیان ہے۔ (پیدائش ۱۷: ۱۰-۱۱) اورختنہ کاحکم صرف بنی اسرائیل کے ساتھ ہی خاص تھا۔ ابرہام کی نسل سے باہر کسی اور قوم کو اُس کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ اورظاہر ہے کہ تمام اقوام عالم ابراہام کی نسل سے نہیں ہیں۔ بلکہ اقوام کی تفریق تو نوح کے بیٹوں سمِ۔حام اوریافت ہی سے ہوجاتی ہے۔ صرف یہودی قوم ہی ابراہام کی نسل تھی۔ اس لئے ختنہ کا حکم صرف اُ سی کے لئے دیا گیا تھا۔ اوراس رسم کاروحانی مطلب بھی توریت میں بدیں الفاظ موجود ہے۔ اس لئے اپنے دلوں کا ختنہ کرو اورآگے کو گردن کش نہ رہو (استثنا ۱۰ : ۱۶) اورخُداوند تمہارا  خُدا تمہارے اورتمہاری اولا د کے دل کا ختنہ کرے گا۔ (استثنا ۳۰: ۶ ،یرمیاہ ۴: ۴) اگرچہ وعدے ک ینسل ہونے کے سبب سے یہودی قوم کے لئے ختنہ لازمی تھا۔ لیکن اگر تمام دُنیا کی اقوام کے لئے ختنہ کا حکم خُدا  دیو سے تو وہ روحانی معنی میں ہی ہوسکتا ہے۔ اورختنہ کا روحانی مفہوم ہی دل کی غلاظت کو کاٹ پھینکنا تھا۔ روحانی مفہوم ومطالب کا محسوسات وجسمانیات کے پیرایہ میں متمثل ہونا کوئی امر جدید اوردور ازفہم بات نہیں۔ پولوس رسول فرماتا ہے۔ کیونکہ وہ یہودی نہیں جو ظاہر کا ہے۔ اور نہ وہ ختنہ ہے جو ظاہر ی وجسمانی ہے۔ بلکہ یہودی وہ ہے جو باطن میں ہے۔ اورختنہ وہی ہے جو دل کا اورروحانی ہے نہ کہ لفظی (رومیوں ۲: ۲۸ )نہ ختنہ کوئی چیز ہے نہ نامختونی بلکہ نئے سرے سے مخلوق ہونا (گلیتوں ۶: ۱۵۔۱۔ کرنتھیوں ۷: ۱۹ گلیتوں ۵: ۲-۳ کلیسوں ۲: ۱۱ ) ختنہ بعض حافتوں میں  طبی لحاظ سے مفید ہوتا ہے لیکن اس سے کوئی روحانی فائدہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔ مختون اورنامختون ہر دوقسم کے لوگ دنیا میں موجود ہیں اور دونوں فریق گناہ کے ماتحت ہیں۔ اگرختنہ سے روحانی اخلاقی زندگی کی اصلاح وبہبود ممکن ہوتی تو لازم تھا کہ مختون بلحاط روحانیت وپاکیزگی کے نامختونوں سے بدرجہا افضل ہوتے۔ لیکن مشاہد ہ اس کے خلاف ہے۔ خُداوند مسیح کا ختنہ ابراہام کی نسل ہونے کے سبب ہوا لیکن غیر یہودی چونکہ ابراہام کی نسل سے نہیں ہیں اس لئے اُن پر ختنہ کر وانا لازمی نہیں ہے۔ اسی واسطے مسیحیت کے قیام پر ختنہ موقوف ہوگیا۔ اوراُ س کی جگہ نئے عہد میں بپتسمہ کی رسم قائم ہوئی(متی ۲۸: ۱۹)۔

سبت

آفزنیش عالم کےی عظیم الشان اورلاثانی واقعہ کی یاد گار کے طورپر سبت کو مقدس ٹھہرا گیا۔ اُس روز خُد ا نے تمام بے جان اورجاندار۔دیدنی اورنادیدنی اشیاء کو بنا کر فراغت پائی (پیدا ئش ۲: ۳) اورخُدا نے سبت کا دن شریعت میں دو جوہات کے ماتحت شامل کیا۔

اول۔ سبت کو آفرینش عالم کی یاد گار ٹھہرانے ےاورشریعت میں داخل کرنے سے خُدا کا ایک مقصد یہ تھا کہ لوگ مابعد زمانوں میں اس دُنیا کی علت فاعلی کسی وہمی ہستی کو نہ ماننے لگ جائیں۔ اورخیالات باطلہ و توہمات مظنونہ میں نہ پھنس جائیں۔ بلکہ جب جب سبت کومنائیں تو یہ یاد کریں کہ یہ وہ دن ہے۔ جس میں خُدا نے تخلیق عالم سے فراغت پائی تھی۔ ایمان ہی سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ تمام عالم خُدا کے کہنے سے ہے ہیں۔ یہ نہیں کہ جو کچھ نظر آتا ہے ظاہری چیزوں سے بنا ہو۔(عبرانیوں ۱۱: ۲)۔

دوم۔ سبت کے دن کو مقدس ٹھہرانے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ قوم اسرائیل دُنیوی دھندوں اورفکروں و الجھیڑوں میں یہاں تک نہ پھنس جائے کہ خُدا ک یادی ہی بسر جائے۔ اس واسطے مصلحناً پابند ی اورعبودیت کی رُوح اُن میں پیدا کرنے کے لئے یہ خاص دن اُن کے واسطے جسمانی دھندوں سے قراغت پانے اورعبادت میں صرف کرنے کے لئے مقرر کیا گیا۔لیکن جو شخص سیدھی اورصاف نیت سے خُدا کی عبارت نہیں کرتا اُس کے لئے سبت اورباقی سب دن برابر ہیں۔ یہودیوں میں سبت کے متعلق ایسی سو ء عقیدت پیدا ہوگئی کہ وہ اُس روز میں نیکی کرنا بھی گناہ سمجھنے لگے۔ اسی واسطے خُداوند مسیح نے بارہا اُن کے اس غلط خیال کی اصلاح کی کوشش کی۔ اورایک دفعہ فرمایا۔ میں تم سے پوچھتا ہوں کہ آیا سبت کے دن نیکی کرنی روا ہے یا بدی کرنا ؟ جان کو بچانا یا ہلاک کرنا۔(لوقا ۶: ۹) اورجب آپ نے اُس مریض کو تندرست کردیا تو وہ آپے سے باہرہوکر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ہم یسوع کے ساتھ کیا کریں؟ (آیت ۱۱) ایک اورموقع پر مسیح نے سبت کے روز ایک کبڑی عورت کوجو ۱۸ برس سے کسی بدروح کے باعث  مریض تھی شفا بخشی توعبادت خانے کاسردار ناراض ہوکر کہنے لگا۔ چھ دن ہیں جن میں کام کرنا چاہئے۔پس اُن ہی میں آکر شفا پاو نہ کہ سبت کے دن۔ لوقا ۱۳: ۱۴) وہ سبت کیے روز سوئی تک کو ہاتھ لگانا بھی گناہ سمجھتے تھے۔ اُن کی سُو عقیدت اورفضول نمائش کو مٹانے کےلئے  مسیح کے زندہ ہوکر صعود فرمانے کے بعد رسولی عدہ میں سبت کی جگہ ہفتے کا پہلا دن (اتوار ) مقرر ہوا۔ اور جس طرح سبت آفرینش عالم کے عدیم النظیر واقعہ کی یاد دلاتا ہے۔ اسی طرح ہفتے کا پہلا دن مسیح کے گناہ موت اور قبر پر فوق الفطرت طاقت سے غالب آنے کی فقید المثل واقعہ کی یادگار ٹھہرا۔ سبت وہ دن ہے جوتمام دنیا میں زندگی کا مبداء سمجھا جاتا ہے۔ یعنی اُس روز خُدا تعالیٰ نے قالب گیتی میں رُوح پھونکنے کے کام کو تمام کیا۔ اورہفتے کا پہلا دن وہ ہے جس میں انسان بلکہ تمام مخلوقات کو گناہ موت اوربطالت وفنا کے قبضہ سے چھڑا کر کھوئی ہوئی زندگی کو پھر سے سبحال کیاگیا۔(رومیوں ۸: ۲۰-۲۱) اورخُدا وند مسیح نھے فرمایا۔ سبت آدمی کے واسطے بناہے زآدمی سبت کے واسطے۔پس ابن ادم سبت کا بھی مالک ہے (مرقس ۲: ۲۷- ۲۸ ) اورصرف سبت کے روز ہی عبادت کوکافی نہیں ٹھہراتا بلکہ فرمایا۔ ہر وقت دُعا مانگتے رہنا اورہمت زبانی چاہئے۔ لوقا ۱۸: ۱ اور ہروقت اورہر طرح سے روح میں دُعا اور منت کرتے رہو۔ اوراسی غرض سے جاگتے رہو کہ سب مقدسوں کے واسطے بلاناغہ دُعا مانگا کرو(افیسوں ۶: ۱۸) اگر اب کوئی سبت کے دن کو دُنیا کی تخلیق کی یاد گار سمجھ کر اُس کی تعظیم کرے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ پر یہودیوں کی طرح اُس کی سطحی وظاہری پابندی جس میں نیکی کرنا بھی گناہ میں داخل ہے سراسر معیوب ہے۔ اس لئے سبت تمام عالم کا دستور العمل ہونے کے ناقابل ہے۔اسی لئے پولوس رسول فرماتا ہے۔ پس کھانے پینے یا عید یا نئے چاند یاسبت کی بابت کوئی تم پرالزام نہ لگائے۔کیونکہ یہ آنے والی چیزوں کا سایہ ہیں۔ مگر اصل چیزیں مسیح کی ہیں۔ (کلسیوں ۲: ۱۶ ،گلتیون ۴: ۹-۱۰) خُداوند مسیح نے سارے دن پاک رکھنے اوراُن میں عبادت کرنے کی تاکید فرمائی۔ پس سبت کی کوئی خصوصیت نہ رہی۔

ظاہری طہارت

شریعت موسوی میں بدنی طہارت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ (گنتی ۱۹: ۷- ۲۲) اوراس ظاہری وجسمانی طہارت سے منشائے الہٰی یہ تھا کہ وہ لوگ باطنی اورروحانی پاکیزگی کے طالب ہوں۔ اور اُس کے لئے کوشش کریں۔ اگرچہ جسمانی صفائی ، تندستی وصحت کے زایہ نگا۔ سے نہایت ضروری ولازمی ہے۔ اورایسی صفائی سے خُدا نارواض نہیں ہوتا۔ اورنہ ہی خوش ہوتا ہے۔ تاہم روحانی زندگی کے ارتقاء میں اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ باطنی پاکیزگی وہ ہے جس کے لئے داود نبی خُدا سے یوں التجا کرتا ہے۔

اے خُدا ! میرے اندر پاک دل پیدا کر اور میرے بالن میں ازسر تو مستقیم رُوح ڈال۔ (زبور ۵۱: ۱۰) اگرچہ ہندو لوگ تیرتھوں پر جاکر باطنی پاکیزگی کی بے کار اورموہوم اُمید پر اشنا ن وغیرہ کرتے ہیں۔ تو بھی تیر تھ اشنا ں کرنے والوں  اورنہ کر نیو الوں میں بلحاظ پاکیزگی کوئی مابہ الامتیاز نظر نہیں آتا۔ بلکہ ہر دوقسم کے لوگ گناہ کی غلامی میں خوب  پھنسے ہوئے ہیں۔ کہنیوں تک ہاتھ دھونے ،وضو کرنے۔اور اشناں کرنے سے باطنی طہارت ناممکن ہے۔اسی واسطے ظاہر دار فقیہ وفریسی خُداو ندمسیح کے سامنے اُس کے شاگردوں کی بوں شکایت کرنے آئے کہ۔تیرے شاگرد بزرگوں کی روایت کو کیوں ٹال دیتے ہیں کہ روٹی کھاتے وقت ہاتھ نہیں دھوتے۔(متی ۱۵: ۲) تو خُداوند مسیح ن اُنہیں یوں جواب دیا کہ۔جو چیز منہ میں جاتی ہے وہ آدمی کو ناپاک نہیں کرتی۔مگر جو منہ سے نکلتی ہے وہی آدمی کو ناپاک کرتی ہے۔(آیت ۱۱) اورشاگردوں کی فرمائش پر اپنے جواب کی یوں تفصیل فرمائی جو کچھ منہ میں جاتا ہے وہ پیٹ میں پڑتااور پاخانے میں نکل جاتا ہے۔ مگر جو باتیں منہ سے نکلتی ہیں وہ دل سے نکلتی ہیں۔ اوروہی آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔ کیونکہ برے خیال  ،خون ربزیاں ، زناکاریاں حرام کاریاں ،چوریاں ،جھوٹی گواہیاں ،بدگوئیاں دل ہی سے نکلتی ہیں۔ یہی باتیں ہیں جو آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔ مگر بغیر ہاتھ دھوئے کھاناکھانا آدمی کو ناپاک نہیں کرتا۔(متی  ۱۵ : ۱۷- ۲۰ ،مرقس ۷: ۱۷- ۲۲) اور فقہیوں اورفریسیو! تُم پر افسوس ہے کہ پیا لے اوررکابی کواوپر سے صاف کرتے ہو۔ مگر وہ اندر بوت اورناپرہیز گاری سے بھر ے ہیں(متی ۲۳: ۲۵ ) (۲۶- ۲۸) تمام اناجیل باطنی طہارت اوراندرونی پاکیزگی کی تعلیم وتلقین سے ملو ہیں۔ بلکہ اگر یوں کہیں تو زیادہ حق ہوگا کہ مسیح کی تعلیم کا تماتر مقصد د مدعا ہی باطنی پاکیزگی تھا۔ پس مسیح کی کامل شریعت کی آمد سے توریت کی ظاہری اور اُدھوری شریعت خود بخود متروک ہوگئی۔ اورجس اعلیٰ مقصد کی انجام دہی کے لئے خُدا نے وہ ابتدائی اورناکامل شریعت دی تھی اُس نے مسیح کی مال واکمل شریعت کے ذریعے تکمیل پائی۔ اوروہ مختص بالقوم وزمان شرع (احکام خاص ) عالمیگر اورابدی ودائمی شرع کی آمد پر متروک العمل ہوگئی۔ کیونکہ وہ صرف کھانے پینے اورطرح طرح کے غسلوں کی بناء پر جسمانی احکام ہیں جو اصلاح کے وقت تک مقرر کئے ہیں۔ عبرانیوں ۹: ۱۰ خُداوند مسیح کی کامل شریعت کا حکم طہارت باطنی کے متعلق ملاحظہ ہو۔ پس اَے عزیزو ! چونکہ ہم سے ایسے وعدے کئے گئے۔ تو آو۔اپنے آپ کو ہر طرح کی جسمانی اورروحانی آلودگی سے پاک کریں۔ اور خُدا کے خوف کے ساتھ پاکیزگی کو کمال تک پہنچائیں۔ (۲۔ کرنتھیوں ۷: ۱)۔

حدتِ وحُرمت

توریت میں بعض اشیاء کھانے پینے کے لحاظ سے حلال اور بعض حرام ٹھہرائی گئی تھیں۔ (استثنا ۱۴: ۳- ۲۱ ) امُور ِ معاشرت میں حلال و حرام اورپاک وناپاک کے متعلق اومرونواہی خُدا نے دو اعلیٰ رُوحانی مقاصد کے تحت فرمائے۔اول یہ کہ وہ منازل جسمانیہ سے شروع کرکے بتدریج منازل رُوحانیہ کی طرف قد م اُٹھائیں۔ ادنی ٰ سے آغاز کرکے اعلیٰ کی طرف بڑھنا سیکھیں۔ اورجسم سے شروع کرکے روح کی طرف بڑھیں۔حرام کا رُوحانی مفہوم گناہ اورحلال کاروحانی مطلب نیکی وپاکیزگی ہے۔ بَدی سے نفرت رکھو نیکی سے لپٹے رہو۔ (رومیوں ۱۲: ۹) دوم یہ کہ خُدا کی برگزیدہ قوم اورغیر اقوام میں امتیاز نظر آئے۔ اوررفتہ رفتہ رُوحانی واخلاقی امتیاز جسمانی اورمعاشرت امتیازات کی جگہ لے لے۔ اورکسی وقت وہ روحانی امتیاز خصوصیت کی قیود سے نکل کر عمومیت میں منتقل ہوجائے۔ تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے۔ تاکہ لوگ تمہارے نیک کامون کو دیکھ کر تمہارے باپ کی جوآسمان پر ہےبڑائی کریں۔(متی ۵: ۱۶ ) بے ایمانوں کے ساتھ ناہموار جوئے ہیں نہ جتو۔ کیونکہ راستبازی اوربے دینی میں کیا میل جول ؟ یا روشنی وتاریکی میں کیا شراکت؟ مسیح کو بلی یعل کے ساتھ کیا موافقت ؟ یا یماندار کا بے ایمان کے ساتھ کیا۔ اورخُدا کے مَقِد س کو بتوں سے کیامناسبت ہے ؟ (۲۔ کرنتھیوں ۶: ۱۴- ۱۶ ) یہ امتیاز تھا جو اُس معاشرتی وجسمانی امتیازات کی جگہ لینے والا تھا۔ اسی واسطے جلت وحرمت کے قومی اورزمانی اَحکام کا باطنی اوررُوحانی مفہوم خُدا وند مسیح نے یوں ظاہر فرمایا۔ جو چیز منہ میں جاتی ہے وہ آدمی کو ناپاک نہیں کرتی۔ مگر جو منہ سے نکلتی ہے وہی آدمی کو ناپاک کرتی ہے۔(متی ۱۵: ۱۱ ) مقدس پطرس رسول نے بھی توریت کے حکم کے مطابق خُدا کی اُتاری ہوئی چیزوں میں حلال وحرام کا امتیاز ظاہر کیا تھا۔ لیکن خُدا نے فرمایا۔ کہ جن کو خُدا نے پاک ٹھہرایا ہے تو اُنہیں حرام نہ کہہ۔ (اعمال ۱: ۱۱- ۱۵) ۔ قابل غور امر یہ ہے کہ جب خُدا خود پاک ہے تو اُس نے ناپاک چیزیں کیسے پیدا کردیں؟ کیا کبھی سورج سے تاریکی برآمد ہوسکتی ہے ؟ ایک نقیض دوسرے نقیض کی علت ہوسکتا ہے ؟ ہر گز نہیں لہٰذا جب خُدا پاک ہے تو اُس نے کوئی شے بذاتہ ناپاک پیدا  نہیں کی۔ اورحلت وحرمت کے احکام کا نفاذ محض  فرمانبرداری اورپابندی کی رُوح بنی اسرائیل میں پیدا کرنے کی غرض سے ہوا تھا۔ مقدس پولوس رسول فرماتا ہے۔ خُدا کی پیدا کی ہوئی ہرچیز اچھی ہے۔ اورکوئی چیز انکار کے لائق نہیں۔ بشر طیکہ شکرگزاری کے ساتھ کھائی جائے۔ (ا۔ تمتھیس ۴: ۴) کوئی بذاتہ حرام نہیں۔ لیکن جو اُ س کو حرام سمجھتا ہے اُس کے لئے حرام ہے۔ (رومیوں ۱۴: ۱۴ ) پھر فرما تا ہے۔کھانا ہمیں خُدا سے نہیں مِلائے گا۔ اگر نہ کھائیں تو ہمارا کچھ نقصان نہیں اوراگر کھائیں تو کچھ نفع نہیں۔ (ا۔ کرنتھیوں ۸: ۸ ) کیونکہ خُڈا کی بادشاہت کھانے پینے پر نہیں بلکہ راستبازی اورمیل ملاپ اوراُس خوشی پر موقوف ہے جو رُوح القدس کی طرف سے ہوتی ہے۔ (رومیوں ۱۴: ۱۷ ) البتہ اگر ہمارے کھانے پینے سے کسی کے جذبات کو ٹھیس لگنے کا اجتمال ہو تو اس نیت سے کہ کسی کوٹھوکر نہ لگے اورمحبت کا قاعدہ نہ ٹوٹے احیتاط لازمی ہے۔(رمیوں ۱۴: ۱۵ ؛ ۱۔کرنتھیوں ۸: ۱۳ ) کیونکہ ساری شریعت پر ایک ہی بات سے پورا عمل ہوجاتاہے۔یعنی اس سے کہ تُونے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ (گلتیوں ۵: ۱۴ )۔

روزہ

جس روحانی مقصد سے روز کا حکم قوم یہود کو دیاگیا وہ بہت گہرا تھا۔ اس میں اییک توعابد کے جسمانی ایثار کی علامت پائی جاتی ہے۔کہ عابد اپنے معبود حقیقی کے عشق ومحبت میں یہاں تک محو ہوجائے کہ کوئی جسمانی فکر اُس کی اس عقید ت ومحبت پر غالب نہ آسکے۔ بلکہ اگر اُس کو اپنی تمام لذایذ وحظا یظ نفسانی اورآرئش وزیبا ئش جسمانی اپنے محبوب حقیقی کی قربان گاہ عقیدت ومحبت پر نثار کرنی پڑھائیں تو مطلق دریغ نہ کرے۔ اوروہ یہ سمجھنے لگ جائے کہ آدمی صرف روٹی سے جیتا نہیں رہتا۔ بلکہ ہر بات سے جو خُدا کے مُنہ سے نکلتی ہے (متی ۴: ۴) دوم یہ کہ بعض دفعہ عابد اپنے معبود کی طبیعت اورمرضی کے خلاف کوئی گناہ کرکے اُس کی ناراضگی کو محسوس کرتا ہے۔ اور اُس کی ناراضگی کے باعث طبیعت میں بے چینی۔اضطراب اور قلق اس درجہ بڑھ جاتا ہے۔ کہ کھانا پینا قدرتی طورپر اچھا نہیں لگتا۔اور انسا ن خور د ونوس اورآسائش وزیبا ئش کو یکسر ترک کرکے سوگوار حالت میں بیٹھتا ہے۔ جیسے داود نبی سے جب خلاف مرضی خُدا گناہ سرزد ہوا ور اُس نے خُدا کی ناراضگی کو محسوس کیا تو نہایت غمگین اوربے چین ہو کر روزہ رکھا اورتخت کو چھوڑ کر ٹاٹ اوڑھا اورفرض پر پڑا رہا۔ (۲۔ سموایل ۱۲: ۱۶- ۱۷ ) یوناہ ۳: ۵) سوم۔ حضرت ابوالبشر (آدم ) کے گناہ میں گر جانے کے باعث تمام بنی آدم مورثی ناپاکی میں مبتلا ہیں۔ اورگناہ تمام دُنیا پر مرض کی طرح غالب ہے۔ اوراس مرض نے زندگی کے شیریں چشمہ کو کڑوا کردیا ہے۔ اورانسان اپنی ذاتی کوشش وتدبیر سے پاک بننے میں قطعی قاصر ہے۔ اس واسطے جب تک اُن کے اس مرض روحانی کاکوئی حکیم وشافی ظاہر نہ ہو تب تک مریضان گناہ کا غمگین حالت میں رہنا  اورروزہ رکھنا ضروری ہ۔ اورمرض کی حالت میں ویسے بھی کھانا پینا اچھا نہیں لگتا۔ اورخُداوند تعالیٰ نے زکریاہ نبی کی معرفت گویا مرض ِ گناہ کے حکیم حاذق خُدا وند مسیح کی خبردی اورفرمایا۔ کہ چوتھے اورپانچویں اورساتویں اوردسویں مہینے کا روزہ بنی یہوداہ کے لئے خوشی اورخُرمی کا دن اور شادمانی کی عید ہوگا (زکریاہ ۸: ۱۹) اوریوحنا کے شاگرد اورفریسی جو روزہ کے بڑے پابند تھے مسیح کے شاگردوں کی شکایت کرنے لگے کہ وہ روزہ کیوں نہیں رکھتے ؟ خُداوند مسیح نے اُنہیں جواب دیاکہ۔ کیا بَراتی جب تک دُولھا اُن کے ساتھ ے روزہ رکھ سکتے ہیں؟ (مرقس ۲: ۱۹) گویا مسیح کی آمد سے مریضان گناہ کے دلوں میں ایک زبردست اُمید اس بات کی جھلک رہی تھی کہ اب غم کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ہمارے گناہوں کو مِٹانے والا ظاہر ہوگیا ہے۔ اب کیوں مایوس رہیں۔یسوع نے سُن کر اُن سے کہا تندرستوں کوحکیم درکار نہیں۔ بلکہ بیماروں کو میں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو بلانے آیا ہو ں(مرقس ۲: ۱۷) یہودی لوگ دیگر دینی رسوم کی طرح روزہ کی رَسم پر بھی ظاہرداری اورریاکاری کی رنگ آمیزی کو چکے تھے۔ اس لئے خُدا نے اُنہیں یوں ملامت کی۔ اورروزہ کی اصل غایت کو اُن پر بدیں الفاظ ظاہر فرمایا۔ کیا یہ وہ روزہ ہے جو مجھ کو پسند ہے ؟ ایسا دن ہ اُس میں آدمی اپنی جان کو دیکھ دے۔ اوراپنے سَر کو جھاوکی طرح جھکائے۔ اوراپنے نیچے ٹاٹ اورراکھ بچھائے ؟ کیا تو اس کو روز ہ اورایسا دن کہیگا جو خُداوند کا مقبول ہو؟ کیاوہ روزہ جو مَیں چاہتا ہوں یہ نہیں کہ ظلم کی زنجیریں توڑیں اورجوئے کے بندھن کھولیں۔ اورمظلموں کو آزاد کریں۔ بلکہ ہر ایک جوئے کو توڑ ڈالیں ؟ کیا یہ نہیں کہ تُو اپنی روٹی بھوکون کو کھلائے اورمسیکنوں کو جوآوارہ ہیں  اپنے گھر میں لائے اورجب کسی کو ننگا دیکھے تو اُسے پہنائے۔ اورتُواپنے ہم جنس سے رو پوشی نہ کرے (یسعیاہ ۵۸: ۵- ۷) اورخُدا وند  مسیح نے بھی فرمایا۔ اورجب تم روزہ رکھو تو ریاکاروں کی طرح اپنی صورت اُداس نہ بناو۔ کیونکہ وہ اپنا مُنہ بگاڑتے ہیں تاکہ لوگ اُنہیں روزہ دار جانیں۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اَجر پاچکے بلکہ جب تو روزہ رکھے تواپنے سر میں تیل ڈال اور مُنہ دھو۔ تاکہ آدمی نہیں بلکہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں ہے تجھے روزہ دار جانے۔۔۔(متی ۶: ۱۶- ۱۸) انجیل ِ مقدس میں روزہ کےمتعلق نہ تو تاکید ہے اور نہ امتناع بلکہ عابد کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ جب ایسے حالات پیش  آئیں جن سے روزہ کی نوبت پہنچے توروزہ رکھے۔ اورایسا ہی ہوتا بھی ہے  پر کسی خاص دن یا مہینہ یا موسم کی تخصیص کی کوئی ہدایت نہیں اورنہ ہوتی چاہئے۔ روزہ ایمانداروں کی تمام زندگی پر حادی ہے۔ پس نئے عہد کی کامل شریعت میں آکر روزہ لازمی حکم نہ رہا اختیاری امر ہوگیا۔

عیدیں

یہودیوں کے لئے تین عیدیں مقر رتھیں۔ تُوسال بھر میں تین بار میرے لئے عہد منانا (خروج ۲۳: ۱۴ ) اوریہ عید یں اُن کی گذشتہ تاریخ کے واقعات کی یادگاریں تھیں۔

  • پہلی عید فسح تھی جو مارچ یا اپریل میں ہوتی تھی۔ یہ بنی اسرائیل کے مصر کی غلامی سے چھٹکارے کی یاد گات تھی۔ اس موقع پر بھنا ہوا گوشت بے خمیری روٹی اورکڑوی ترکاری کے ساتھ کھانے کے حکم تھا(خروج ۱۲: ۸) اس کے بعد ہی مسات روز تک خمیر کو گھروں سے جُدا کرنے کا حکم تھا۔ اسی واسطے اس کو عید فطیر بھی کہاگیا۔ کڑوی ترکاری کھانے سے مراد یہ تھی کہ جب جب یہ عید مَنائی جائے مصر کے گذشتہ دکھوں کو یاد کیاجائے۔ اورخمیر کو جُدا کرنے سے مراد تھی کہ گناہ وشرارت کو اپنے دلوں سے نکالیں۔عین اُس وقت جبکہ عید فسح کا موقع تھا خُداو ند مسیح نے اپنی جان تمام جہان کے اسیران گناہ کی خاطر دے کر انہیں شیطان اورگناہ کی شیدید غلامی سے آزاد فرمایا۔ (عبرانیوں ۲: ۱۴–۱۵) اوریہودی عید فسح کا تکملہ مسیح کی قربانی میں ہوگیا۔ اور کڑوی ترکاری کھانے کی رسم اوربھُنا ہوا گوشت کھانے میں مسیح کے صلیبی دُکھوں اوراُس کے جسمانی ورُوحانی صدمات کی پیشین گوئی موجود ہے۔پھر اُس نے روٹی لی اورشُکر کرکے توڑی اوریہ کہہ کر اُن کو دی کہ یہ میرا بدن ہے۔ جو تمہارے واسطے دیا جاتا ہے۔میری یادگاری کے لئے یہی کیاکرو۔ اسی طرح کھانے کے بعد پیالہ یہ کہہ کر دیا کہ یہ میرے اُس خون میں نیا عہد ہے جو تمہارے واسطے بہایا جاتا ہے۔ (لوقا ۲۲: ۱۹–۲۰)۔ جس طرح فسح کی عید یہود کے لئے مصر کی غلامی سے آزاد ہونے کی یاد گاری تھی۔ اُسی طرح پاک عشا ء ربانی کی رسم ابلیس وگناہ کی غلامی سے چھٹکارے کی ابدی اوردائمی یادگار ٹھہری مقدس پولوس رسول فرماتا ہے۔ پرانا خمیر نکال کر اپنے آپ کو پاک کرلو۔ تاکہ تازہ گندھا ہوا آٹا بن جاو۔ چنانچہ تُم بے خمیر ہو۔ کیونکہ ہمارا بھی فسح یعنی مسیح قربان ہوا۔ پس آو عید کریں نہ پرانے خمیر سے اورنہ بدی وشرارت کے خمیر سے بالکل صاف دلی اور سچائی کی بے خمیر روٹی سے (۱۔ کرنتھیوں ۵: ۷- ۸) اوریوں ہو مختص بالقوم و زمان یادگار ایک عالمگیر اوردائمی روحانی عید میں منتقل ہوگئی۔
  • عید پنتی کوست یاہفتوں کی عید۔ یہ عید مصر کی غلامی سے چھٹکارے کے پچاسویں دن قائم ہوئی۔ ماہ مئی یا جون کے درمیانن میں ہوتی تھی۔ یہ ایک طرف مصر سے آزادی کی اوردوسری طرف شریعت الہٰی  کے دئے جانے کی یادگاری تھی۔ اس میں یہودی لوگ اپنے گہہوں اورجو کے پہلے پھل خُدا کی لئے نذر کرتے تھے۔ یہ عید روح ہے وہاں آزادی ہے۔ (۲۔کرنتھیوں ۳: ۱۷ ) چنانچہ خُداوند مسیح کے صعود کے دس روز بعد روح القدس اسی عید کے موقع پر نازل ہوا تھا۔ اورروحانی معنی میں پہلے پھل وہ تین ہزار مرد تھے جنہو ں نے اپنے آپ کو خُدا کے نذر کردیا(اعمال ۲: ۴۱) انجیل میں اپنی شخیصت کو نذر کرنے کا حکم ہے (رومیوں ۱۲: ۱؛ کلیسوں ۱:۱ ؛ عبرانیوں ۱۳: ۱۵) عید پنتی کوست کا تکملہ رُوح القدس کے نزول پر ہوگیا اورروح القدس اُن پر آگ کی پھٹی ہوئی زبانوں کی صورت میں نازل ہوا۔ اور وہ غیر زبانیں بولنے لگے۔ ہر ایک اپنے اپنے مُلک کی بولی وہا ںسنتا تھا۔ یہ گویا الہٰی اشارہ تھا کہ خُدا کا مذہب قومی دائرہ سے نکل کر تمام اہل لغت کا دستور العمل بن جائے۔ اورپاک صحائف کے تراجم تمام دُنیا کی زبانوں میں ہوجائیں ۔تاکہ سب قومیں بلا امتیاز وخصوصیت اُن سے فائز المرام ہو سکیں۔ اورمذہب ِالہٰی تمام دُنیا کا مذہب ہوجائے۔
  • عید ِخیام یہ عید قوم یہود کی غریب الوطنی اوردشت نور دی کی یادگار تھی۔ستمبر یا اکتوبر میں ہوتی تھی۔ اُ ن کی مسافرت کے ایام اورخیموں کی سکونت کے دوران میں فیوض الہٰی وبرکات سمادی کے نزول کی یادگار تھی۔ آخر اُن کی دشت گردی اوربادیہ پیمائی ملک کنعان کی مستقل سکونت پر منتج ہوئی۔ اگرچہ اُن کی مسافرت کانشانہ ملک کنعان تھا۔ مگر حقیقت میں وہ ایک بہتر۔ یعنی آسمانی ملک کے مشتاق تھے۔ (عبرانیوں ۱۱: ۱۶ ) اور تمام ایمانداروں بندوں کا بھی وہی نصبت العین ہے۔ مقدس پولوس رسول فرماتا ہے۔ جب تک ہم بدن کے وطن میں ہیں خُداوند کے ہاں سے جلاوطن ہیں۔(۱۔ کرنتھیوں ۵: ۶)۔

کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جب ہمارا خیمے کا گھر جو زمین پر ہے گِرا یا جائے گا۔ تو ہم کو خُدا کی طرف سے آسمان پر ایک ایسی عمارت ملے گی جو ہاتھ کا بنایا ہوا گھر نہیں۔ بلکہ ابدی ہے(۲۔کرنتھیوں ۵: ۱ ) اوراُسی آسمانی وطن کی بابت خُداوند مسیح نے فرمایا۔ میرے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں۔ کیونکر میں جاتا ہوں تاکہ تمہارے لئے جگہ تیار کروں (یوحنا ۱۴: ۲) مقدس پطرس رسول فرماتا ہے اپنے آپ کو پردیسی اورامُسافر جان کراُن جسمانی خواہشوں سے پرہیز کرو جو رُوح سے لڑائی دیکھتی ہیں (۱۔ پطرس ۲: ۱۱) ان تین بڑی عیدوں کے علاوہ دو اورچھوٹی عیدیں بھی تھیں۔ یعنی عید پوریم اورعید تجدید۔لیکن یہ خُدا کی مقرر کردہ نہ تھیں۔ بلکہ ایک ملکہ آستر کے زمانے میں اوردوسری یہوداہ مکابی کے وقت میں یہودیوں نے خود مقر ر کرلی تھیں۔ ان دونوں موخرا لذ کر عیدوں کا یروشلیم کی ہیکل سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ سب عیدیں جن واقعات کی یادگاریں تھیں وہ صرف بنی اسرائیل کی تاریخ سے متعلق تھے۔اور تمام دُنیا کے ساتھ اُن کا کوئی تعلق نہ تھا۔اس لئے وہ تمام دُنیا کا دستور العمل ہونے کے قابل نہ تھیں۔ اس لئے وقت پورا ہونے اوراپنے حد رواج کے اختتام پر وہ بند ہوگئیں۔ اورہیکل کے بغیر اُن پر عمل کرنا ہی ناممکن تھا۔ اس لئےجب ہیکل نہ رہی تو عید یں کیسے وہ سکتی تھیں۔ خُداوندمسیح کی قربانی اورمحبت کا تعلق تمام دُنیا کے ساتھ ہے (انجیل یوحنا ۳: ۱۶ ،خط ،۱۔ یوحنا ۲: ۲) الہٰذا اُس کے متعلق تمام واقعات کا تعلق عام طور پر تمام افراد عالم کے ساتھ ہے۔

طریق ِعبادت

ہم  پیچھے کئی بار ذکر کر چکے ہیں کہ یہودی مذہب کا مرکز ہیکل تھی۔جس میں اُن کی تمام مذہبی رسوم اورعبادت قومی صوررت میں انجام پاتی تھیں۔ اورخُدا کا یہ حکم تھا کہ اگر تم غیر معبودوں اوربتوں کی پرستش کروگے اورنیک نیتی سےمیری عبادت بجانہ لاوگے۔ تو مَیں اِس ہیکل کو گرادوں گا اور تمہیں اس زمین سے نکال دوں گا۔ (۱۔ سلاطین ۹:۶-۹) اوراس انتظام سے اُن کے اندر عبادت الہٰی کی خالص رُوح پیدا کرنا مقصود تھا۔ اورجب وہ خُدا کی خالص عبادت کے کھنڈرات پر بت پرستی کی عمارت اُٹھانے لگے۔ اور غیرمعبودوں ک طرف مائل ہوئے۔ تو خُدا نے بھی اُنہیں ترک کردیا۔ اورایک بُت پرست کسدی بادشاہ نبوکدنظر کے ذریعے اسری ہوکر بابل لے جانے گئے۔ اورمقدس ہیکل بھی برباد کی گئی (یرمیاہ ۵۲: ۱۳) ایماندار یہودی اُس غریب  الوطنی اوراسیری کے زمانہ میں بھی خُدا کو نہ بھولے اورکثرتین مرتبہ دن میں یروشلیم کی طرف رخ کرکے نماز کیا کرتے تھے۔ اورجب دانی ایل نے معلوم کیا کہ اُس نوشتہ پر دستخط ہوگئے۔ تو اپنے گھر میں آیا۔ اوراپنی کوٹھڑی کا دریچہ جو یروشلیم کی طرف تھا کھول کردن میں تین مرتبہ حسب معمول گھٹنے ٹیک کر خُدا کے حضور دُعا اوراُس کی شکر گذاری کرتا رہا۔ (دانی ایل ۶: ۱۰ ؛۱۔سلاطین ۸: ۴۸)اس بیان سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ ہیکل کے رُخ پر تین دفعہ دن میں نماز پڑھتے تھے۔ اوبانی اسلام نے رُخ کعبہ پر نماز گنا رنا یہودیوں سے سیکھا۔ اورکئی ماہ تک بیَت المقدس (ہیکل ) کے رُخ پر نماز ادا کرتے اورکرواتے رہے۔ اوریہود کی نماز عبرانی زبان میں ہوتی تھی۔ اہل اسلام بھی عربی زبان کے سِوا اورکسی زبان میں نماز پڑھنا جائز نہیں سمجھتے۔ اس سے  اِسلام کا ایک قومی مذہب ہونا ظاہر ہے۔ بھلا اہل عرب تو اپنی ملکی زبان عربی میں نماز پڑھیں۔ دیگر ممالک کے مسلمان تو عربی نہیں ہیں۔ اُن پرعربی زبان کی قید لگانا کیوں ضروری سمجھا جاتا ہے ؟ کیا خُدا سوائے عربی زبان کے او رکوئی زبان نہیں جانتا ؟ مسیحیت کی عمومیت اور عالیگر ی کی یہ کیسی بین دلیل ہے کہ مسیحی ہر زبان میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔اور تما دُنیا کی زبانوں میں انجیل کا رواج پایا جاتا ہے۔یہ صرف مقدان آخداند کی کوئی اپنی ایجاد کردہ تجویز نہ تھی جس پر اُنہوں نے عمل کر لیا۔ بلکہ رُوح القدس ک ہدایت کے ماتحت انجیل مقدس کے دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمے کئےگئے (اعمال ۲: ۳-۸) اورزبان کی تخصیص کسی مذہب کے عالمگیر ہونے کی محدود مانع ہے۔اسی واسطے مقدس پولوس رسول بیگانی زبان میں دُعا مانگنے اورکلام کرنے و معیوب ٹھہراتا ہے۔ (۱۔ کرنتھیوں ۱۴: ۱-۲۳) یہودی ہیکل کے رُخ پر نماز پڑھتے تھے اور اہل اسلام کعبہ کے رُخ پر۔ لیکن خُداوند مسیح نے تخصیص جہت وسمت کا جھگڑا ہی ختم کردیا۔ جس میں ظاہرداری کا بھی امکان نہیں رہتا۔(ملاحظہ ہومتی ۶: ۵- ۶) یعنی کوٹھڑی کا دروازہ بند کرکے پوشید گی میں دُعا مانگنے کا حکم دیا۔ شریعت موسوی پر عمل درآمد کے لئے ہیکل کا وجود لازمی تھا۔ اوربغیر ہیکل کے یہودی مذہب ایک قالب بے جان کی مثال تھا۔ خُداوند مسیح چونکہ عالمگیر مذہب کابانی ہوکر آیا تھا۔ اس لئے جب ایک دفعہ اُس کے شاگردوں نے ہیکل کی زیارت کے لئے اُس سے سوال کیا تو اُس نے فرمایا۔ میں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہیگا جو گرایا نہ جائے۔ (متی ۲۴: ۲) اور پھر سامری عورت نے آپ سے کہا کہ۔ہمارے باپ دادوں نے اس پہاڑ پر پرستش کی۔اور تُم کہتے ہو کہ وہ جگہ جہاں پر ستش کرنی چاہئے یروشلیم میں ہے۔ یسوع نے اُس سے کہا اَے عورت میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تُم نہ تو اس پہاڑ پر باپ کی پرستش کروگے اور نہ یروشلیم میں۔۔۔مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش رُوح اورسچائی سے کریں گے۔ (یوحنا ۴: ۲۰-۲۳) اورایمانداروں کےدلوں کو خُدا کا مَقِدس (ہیکل ) کہا گیا۔ (۱۔ کرنتھیوں ۳: ۱۶- ۱۷) اورآپ کے قول کے مطابق ہیکل سلیمانی ۷۰ عیسوی میں برباد ہوگئی اور مذہب الہٰی خصوصیت کی قیود سے آزاد ہوگیا تاکہ کُل دُنیا کا دستور العمل بن سکے۔

ہم بالتفصیل دکھاچکے کہ کس طرح اورکن معنوں میں خُداوند مسیح نے شریعت موسوی کی تکمیل فرمائی۔ اوراحکام خاص کس طرح اورکیوں متروک العمل ہوگئے۔ رد نہیں کئے گئے بلکہ اُن کی ضرورت نہ رہی۔ شباب کی آمد سے طفلی رد نہیں ہوجاتی بلک شباب کی کمالیت میں گُم ہوجاتی ہے۔جب بنیاد پر رد ے لگا کر عمارت کو انجام تک پہنچا یا جاتا ہے تو بنیاد رد نہیں ہو جاتی بلکہ چھپ جاتی ہے۔ توریت کی ناکامل شریعت مسیح کی کامل شریعت (یعقوب ۱: ۲۵) کی آمد پر رد وباطل نہیں ہوئی بلکہ اُس کی کمالیت میں چھپ گئی۔ اس واسطے کامل اورعالمگیر شریعت کےی رواج پانے سے موسوی ناکمل شریعت ایسے ہی غائب ہوگئی جیسے آفتاب کے طلوع ہونے پر چراغ گُل کردیا جاتا ہے۔ خُداوند مسیح نے شرع اِلہٰی کے حقیقی اورباطنی معنوں کی روشن کر دیا۔ اوراُس کے قالب میں ایک نئی رُوح پھونک کر اور اُس کے حجاب خصوصیت کو اُتار کر عمومیت کے وسیع میدان میں بے نقاب کرکے اورتمام دُنیا کے لئے نور ہدایت بنا کر دکھ دیا ہے۔ اب اس متروک شُدہ شرع موسوی احکام خاص پر عمل کرنے کے خلاف انجیل مقدس کی تعلیم ملاحظہ ہو۔ مگر اب جو تم نے خُدا کو پہچانا۔ بلکہ خُدا نے تُم کو پہچانا تو اُن ضیعف اورنکمی ابتدائی باتوں کی طرف کس طرح پھر رجوع ہوتے ہوجن ک دوبار ہ غلامی کرنا چاہتے ہو۔تُم دنوں اورمہینوں اورمقررہ وقتوں اوربرسوں کو مانتے ہو۔ (گلیتوں ۴: ۹- ۱۰) پس کھانے پینے یا عید یاکئے چاند یا سبت کی بابت کوئی تُم پرالزام نہ لگائے۔ کیونکہ یہ آنے والی چیزوں کا سایہ ہیں۔ مگر اصل چیزیں مسیح کی ہیں (کلسیوں ۲: ۱۶- ۱۷) جب تُم مسیح کے ساتھ دُنیوی ابتدائی باتوں کی طرف سے مرگئے تو پھر اُن کی مانند جو دُنیا میں زندگی گزارتے ہیں۔ آدمیوں کے حکموں اورتعلیموں کے موافق ایسے قاعدوں کے کیوں پابند ہوتے ہو۔ کہ اسے نہ چھونا اُسے نہ چکھنا اوراُسے ہاتھ نہ لگانا (کلسیوں ۲: ۲- ۲۱) اوراُس عالمگیر نئے عہد کی آمد اوراُس کی شرع کامل کے رواج پانے پر نہ یونانی رہانہ یہودی۔نہ ختنہ نہ نامختونی نہ وحشی نہ سکوتی۔نہ غلام نہ آزاد صرف مسیح سب کچھ اور سب میں ہے (کلیسوں ۳: ۱۱) جیسے ایک معمار جب امکان کی محراب بناتا ہے اوراُس کے نیچے اینٹوں کا ایک عارضی سہارا لگاتا ہے اورجو نہی وہ محراب پختہ ہوجاتی ہے وہ ماتحت قالب کوگراد یتا ہے۔ اسی طرح توریت کے احکام خاص کامل مذہب اورکامل شریعت کے قیام پر متروک العمل ہوگئے۔

اَحکام عام

اخلاقی شریعت کے احکام عشرہ جو خُدا نے موسیٰ کو لکھے لکھا ئے سونپے (خروج ۳۱: ۱۸) اُنہیں کو احکام عام کہا جاتا ہے۔ اوریہ احکام ہیں جو ہرزمانے میں متبوع اورمطالعہ ہے اوررہیں گے۔ یہ احکام خاص کا مرکز اوررُوح رواں تھے۔ اور اِن میں تمام دُنیا کا دستور العمل ہونے کی کامل صلاحیت موجود ہے۔جس طرح انسان کی جسمانی زندگی کے لئے خُدا تعالیٰ کے عطا کردہ طبعی وفطری سامان کافی ودانی ہیں۔ اسی طرح ہماری روحانی اورمجلسی زندگی کے لئے یہ احکام نہایت ضروری اورمفید ہیں۔ اِ ن اَحکام کا بیان (خروج ۲۰: ۱-۱۷ ) اورمفصل تشریض (احبار با ب ۱۹) میں موجود ہے۔ اورخُداوند مسیح نے ان کاخلاصہ بدیں الفاظ پیش کیا ہے۔ خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دل اوراپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔ بڑا اورپہلا حکم یہی ہے۔ اوردوسرا ا  س کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ انہی دو حکموں پر تمام توریت اورانبیاء کے صحیفوں کا مدار ہے۔ (متی ۲۲: ۳۷- ۴۰) جیسے توریت کے احکام خاص ظاہر بات سے تعلق رکھتے تھے۔اُسی طرح احکام عام انسان کی باطنی زندگی کے ساتھ وابستہ ہیں۔مسیح کی تمام تعلیم باطنیت سے متعلق ہے۔تمام مامور ان ربانی اورداعیان حقانی ایک ہی قومی مرکز کے گرد چکر لگاتے رہے۔ اوراپنی قومی حدود سے نہ تو وہ خود آگے بڑھے اورنہ ہی اُنہیں خُدا کی طرف سے ایسا ختیار ہی دیا گیا تھا۔ لیکن عہدجدید کے بانی ومبدا نے تمام دُنیا کو اپنا دائرہ عمل بنایا۔ اورتوریت کے قومی مذہب کی معیاد کو یوحنا تک محدود ٹھرایا۔ کیونکہ سب نبیوں اورتوریت نے یوحنا تک نبوت کی (متی ۱۱: ۱۳) شریعت اورانبیاء یوحنا تک رہے اُس وقت سے خُدا کی بادشاہت کی خوشخبری دی جاتی ہے۔(لوقا ۱۶: ۱۹) اورشریعت اخلاقی (احکام عام ) کے متعلق فرمایا۔آسمان اورزمین کاٹل جانا شریعت کے ایک نقطے کے مٹ جانے سےآسان ہے۔(لوقا ۱۶: ۱۷ ،متی ۵: ۱۸- ۱۹) اورجس طرح ایک گورنر کے اختیارات کا زور صرف ایک ہی صوبے تک محدود ہوتا  ہے۔اسی طرح انبیائے توریت کا اختیار اورمنصب قوم یہود سے باہر اثر انداز نہ ہوسکتا تھا اور نہ ہوا اُن کا یہ سلسلہ یوحنا اصططاﷺی ایک اُسی خصوصیت سے چلا آیا۔ ایک شہنشاہ کے اختیارت ایک گورنر کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ ہیں۔ چنانچہ اسی طرح عالمگیر عہد کے بانی کے اختیارات اورذاتی قابلیت انبیاء عہد عتیق سے بہت زیادہ ہونی چاہئے۔ اوردرحقیقت ایسا ہی ہے۔آپ نے اپنے آپ کو تمام انبیاء سابقہ سے بہر صورت افضل ظاہر کیا۔ مثلاً یہاں وہ ہے جو یونس سے بھی بڑا ہے۔(متی ۱۲: ۴۱) یہاں وہ ہے جو سلیمان سے بھی بڑا ہے (آیت۴۲) داود سے بڑا ہونا (متی ۲۲: ۴۲- ۴۵) یہاں وہ ہے جوہیکل سے بھی بڑا ہے (متی ۱۲: ۶) پیشترع اس سے کہ ابراہام پیدا ہوا مَیں ہوں۔ (یوحنا ۸: ۵۸) موسیٰ پر فضیلت (عبرانیوں ۳: ۳-۶) فی الحال ہم مسیح کے فضائل کے متعلق ان چند امثلہ پر اکتفا کرتے ہیں۔ کسی مُناسب مقام پر مفصل بیان کریں گے۔

واضح ہوکہ خُداوند مسیح نے اپنی مختصر سی زمینی زندگی میں عالمگیر مذہب کی صرف بنیاد ہی رکھی۔ اورجس طرح توریت کا زمانہ مذہب کی ابتدائی حالت کا زمانہ تھا۔ اُسی طرح مسیح کا زمانہ مذہب الہٰی کی وسطی حالت کا زمانہ تھا۔ اورجس طرح توریت کے تمام انبیاء مسیح کی آمد اورنئے عہد کی عالمیگر وسعت کی خبردے گئے تھے ،اُسی طرح خُداوند مسیح بھی اپنے بعد ایک دوسرے مددگار کے نزول وظہور کی خبردے گئے۔مجھے تُم سے اوربھی بہت سی باتیں کہنی ہیں۔ مگر اب تُم اُن کی برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا رُوح آئے گا تو تُم کو تمام سچائی کی راہ دِکھائےگا۔۔۔۔ وہ میرا جلال ظاہر کرگے گا۔ اس لئے کہ مجھ ہی سے حاصل کرکے تمہیں خبریں دے گا۔ (یوحنا ۱۶: ۱۲- ۱۴ ، ۱۵: ۲۶ ) اور مذہب الہٰی کو انتہائی کمالیت تک پہنچا نا رُوح القدس کا کام تھا۔جس کا خُداوند مسیح نے وعدہ فرمایا تھا۔ مذہب کی ارتقائی حیثیت سے توریت کا زمانہ ابتدائی مسیح کی زمینی زندگی کا زمانہ وسطی۔ اوررُوح القدس کا زمانہ انتہائی کمالیت کا زمانہ ہے۔ خُداوند نے اپنی زمینی زندگی میں عالگیر مذہب کی صرف بنیادیں رکھیں۔ اورکسی قدر خصوصیت سے نکال کر عمومیت میں بدل دیا۔ مثلاً یہودی قوم تمام دیگر غیر اقوام کا نامختون بے دین۔ لامذہب اورگمراہ سمجھ کر اُ ن سے قطعاً کوئی تعلق نہ رکھتی تھی۔ اوربالخصوص یہودی لوگ سامریوں سے بہت زیادہ متنفر تھے۔ اور اُنہیں حقیر اورناچیز جانتے تھے۔ مگرمسیح نے سامریوں کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کیا۔ اور اُن کی قدر کی یہود کو اُن کی ظاہری داری۔خود پرستی اورتعصب پر بارہا ملامت کی۔ایک رَحم دلِ سامری کی تعریف کی اورمغرور کاہن اورخود سرلادی کو ملامت کی (لوقا ۱۰: ۲۵- ۳۷) پھرایک دفعہ دَس کوڑھی آپ سے شفا پاکر گئے۔ اُن میں سے ایک نے جو سامری تھا لَوٹ کرخُداوند کی شکر گزاری ک۔آپ نے اُس کے ایمان کی تعریف کی (لوقا ۱۷: ۱۵- ۱۹)۔ ایک دفعہ جب سامریوں نے آپ  کو اپنے گاوں میں ٹکنے نہ دیااورشاگردوں کا پارہ طیش بہت چڑھ گیا اور اُس گاوں پر آسمان سے آگ برسانا چاہتے تھے توآپ نے شاگردوں کو جھڑکا اورفرمایا ابن آدم لوگوں کی جان برباد کرنے نہیں بلکہ بچانے آیا ہے۔(لوقا ۹: ۵۱- ۵۶) اورپھر یوحنا ۴: ۷- ۲۶) میں سامری عورت کا مشہور قصہ سب جانتے ہیں۔ کہ مسیح نے کیسے محبت سے اُس کے ساتھ برتاو کیا تھا۔ اورسُورفینکی عورت جو غیر قوم تھی مسیح کے پاس آئی۔ آپ نے اُس کی مُراد کوپورا کرنے کے علاوہ اُس کے ایمان کی تعریف کی (متی ۱۵: ۲۱- ۲۸) اورایک دفعہ جب ایک غیر قوم صوبہ دار کے نوکر کو آپ نے شفا دی تو اُس صوبہ دار کے ایمان کی بدیں الفاظ تعریف کی۔میں نے ایسا ایمان اسرائی میں بھی نہیں پایا (لوقا ۷: ۹) اورآپ نے ایک جگہ جو انگور ی باغ کے ٹھیکداروں کی تمثیل کہی ہے۔اُس میں باغ سے مُراد یہودی قوم اور ٹھیکیداروں سے مُراد اُس کے رہبر اورکرتا دھرتا یعنی فقیہہ اورفریسی۔ اورباغ کو اُن ٹھیکیداروں سے چھین کر اَوروں کو دے دینے مُراد غیر اقوام کو دینے سے ہے۔ یہ مذہب کی عالمگیر ہی کی ایک تمثیلی پیشین گوئی تھی۔ (لوقا ۲۰: ۹- ۱۸ ،تمی ۲۱: ۳۳- ۴۵) پھر آسمان کی بادشاہت کورائی کے دانہ اورخمیر سے تشبیہہ دے کر مسیحیت کی عمومیت و ہمگیری کی خبردی (متی ۱۳: ۳۱-۳۳) غیرضیکہ مسیح نے ہر پہلو اورہر صورت سے شریعت کو کامل کیا۔ اورعالمگیر مذہب کی بنیادیں پختہ کرکے اُن پرعملی طورسے کام بھی کیا۔اگرچہ اس عظیم مہم کی راہ میں حاسداورمخالف طاقتیں دیوار بن کر حائل ہوئیں۔ مگر آپ کے عزم  آہنی نے اپنی مقدس خدمت کے لے اس خادزار میں رستہ تلاش کرہی لیا۔ اوربے پنا ہ نفرت کے جنوبی دھارے جو یہود کے اعصا  ب میں تیر رہےتھے۔ اورمخالف ومنافرت کا مہیب سمندر جواُن کے اعماق قلب میں طوفان خیز تھا آپ کے لئےپائے استقلال کو مثل نہ کرسکا۔ اگرچہ وہ ہمیشہ آپ کی شدید مصیبت مظلومیت اورموت میں اپنے سارہ اقبال کی فال نکالتے تھے۔ اوراُس نور کے سامنے اپنی پوشید ہ ذلتوں کو مجوب مصائب ونقائص کو بے نقاب دیکھ کراُس کو بجھا دینے کے ہر وقت درپے رہتے تھے۔ اوراپنی اِن مکروہ مساعی میں کامیاب بھ ہوئے لیکن پھر بھی جس پتھر کو معماروں نے رَدکیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوا۔ اُس نئے عہد کے بانی کونئے عہد کی بنیاد رکھنھے کے لئے اپنی جان دینی پڑی۔ اس لئے پہلا عہد بھی بغیر خون کے نہیں باندھا گیا۔ (عبرانی ۹: ۱۸ ) مطابق خروج ۲۴: ۱۸) ذر شریعت موسوی کی تکمیل کا تمام ترد اردمدار آپ کی پاک اور بے عیب عالمگیر قربانی پر تھا۔ اسی واسطے آپ مذہب الہٰی کو عالمگیر  کی انتہائی حدود تک اپنی زمینی زندگی میں پہنچا نہ سکے۔ بلکہ انتہائی کمالیت کی ابتداء آپ کی موت قیامت اورصعود کے بعد ہوئی۔ کیونکہ آپ کی قربانی کے بغیر شریعت عتیقہ کا مل نہ ہوسکتی تھی۔ اور وہ آپ کی صلیب پر کامل ہوئی۔اور آپ نے کہا۔ پورا ہوا۔ اور سرجھکا کرجان دے دی۔ (یوحنا ۹: ۳۰) اورقبر دعوت پر کامل فتح پاکر اپنے حواریوں کو یہ وصیت کی کہ  آسمان اورزمین کا کُل اختیار مجھے دیاگیا ہے۔ پس تُم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناو۔اور اُنہیں باپ اور بیٹے اوررُوح القدس کے نام پر بپتسمہ دو۔ اوراُنہیں یہ تعلییم دو کہ اب سب باتوں پر عمل کری ں جن کا میں ن تُم کو حکم دیا۔ دیکھو میں زمانے کے آخر تک ہمیشہ تمارے ساتھ ہوں (متی ۲۸: ۱۸-۲۰) اوراُس نے اُن سے کہا کہ تُم تمام دیان میں جاکر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو۔ جو ایمان لائے اوربپتسمہ لے وہ نجات پائے گا۔ اورجو ایمان  نہ لائے وہ مجرم ٹھہرایا جائے گا(مرقس ۱۶: ۱۵-۱۶) اوراُن سے کہایوں لکھا ہے کہ مسیح دُکھ اُٹھائے گا۔ اورتیسرے دن مردوں میں سے جی اُٹھیگا۔اوریروشلیم سے شروع کرکے ساری قوموں میں توبہ اورگناہوں کی معافی کی منادی اُس کے نام سے کی جائے گی (لوقا ۲۴: ۴۶- ۴۸)۔

رُوح الُقدس کا نزول اور مذہب الہٰی کی
انتہائی کمالیت

ہم پیچھے دکھاچُکے کہ عہد عتیق نے مسیح کی آمد اورنئے عہد کی عمومیت کی خبریں دیں چنانچہ وقت پورا ہونے پر خُداوند مسیح آیا۔ اوراُس نے اُسی مذہب کی ابتدائی حالت سے اُٹھا کر وسطی حالت تک پہنچایا۔ اوراپنی جان تمام جہان کے گناہوں کے لئے دے کر شریعت کی تکمیل فرمائی۔ لیکن دُنیا کی حدود تک اُس مذہب کو وسعت نہ دے سکے۔ بلکہ آپ نے بھی اپنے ایک اور قائم مقام یعنی رُوح القدس کے نزول کی خبر اپنے شاگردوں کو دی۔اور مذہب کو وسطی حالت سے نکال کر انتہائی کمالیت تک پہنچانا اپنے ہونے والے قائم مقام کے لئےچھوڑ گئے۔ اورزندہ ہوکر اپنے شاگردوں کو یہ وصیت کی۔اوردیکھو جس کا میرے باپ نے وعدہ کیا ہے مَیں اُس کو تُم پر نازل کروں گا۔ لیکن جب تک عالم ِبالا سے تُم کو قوت کا لباس نہ ملے اس شہر میں ٹھہرے رہو۔ (لوقا ۲۴: ۴۹) اورقبر سے زندہ ہوکر چالیس دن تک اُن پر طرح بہ طرح ظاہر ہوتے رہے۔ لیکن صعود فرمانے سے پہلے پھر اُسی خبر کو دہرایا۔ لیکن جب رُوح القدس تُم قوت پاو گے۔ اوریروشلیم اورتمام یہودیہ اورسامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہوئے (اعمال ۱: ۸) آپ کے ان الفاظ سے خوب روشن ہے کہ آپ نے مذہب الہٰی کی ہمہ گیر وسعت کو رُوح القدس کے نزول کے ساتھ مشروط ٹھہرایا۔ اورحسب وعدہ اپنے صعود کے دس روز بعد ہی رُوح القدس کو اُن پر عید پنتی کو ست کادن آیا تو وہ سب ایک جگہ جمع تھے۔ کہ یکایک آسمان سے ایسی آیا جیسے زور کی آندھی کا سناٹا ہوتا ہے۔ اُس سے سارا گھر جہاوہ بیٹھے تھے گونج گیا۔ اور اُنہیں آگ کے شعلے کی سی پھٹتی ہوئی زبانیں دکھائی دیں اوراُن میں سے ہرا یک پر آٹھہریں۔ اور وہ سب رُوح القدس سے بھر گئے اورغیر زبانیں بولنے لگے۔ جس طرح رُوح نے انہیں بولنے کی طاقت بخشی (اعمال ۲: ۱-۴) اوردیگر غیر مسیحی لوگوں نے جو لاکھوں کی تعدا د میں اُس وقت وہاں عید کے لئے جمع تھے یہ تمام ماجرا دیکھا۔ اورسب حیران اورمتعجب ہوکر کہنےلگے۔ دیکھو یہ بولنے والے کیا سب گلیلی نہیں ؟ پھر کیو نکر ہم سے ہر ایک اپنے اپنے وطن کی بولی سنتا ہے ؟(اعمال ۲: ۷- ۸) اوررُوح القدس نے نازل ہوکر اُسی وقت لوگوں کی ایک کثیر تعداد مسیح پر ایمان لے آئی۔ پس جن لوگوں نے اُس کا کلام قبول کیا اُنہوں نے بپتسمہ لیا اوراُسی روز تین ہزار آدمیوں کے قریب اُن میں ہل گئے۔(اعمال ۲: ۴۱) اورمقلدان مسیح کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ مگر کلام کے سننے والوں میں سے بہترے ایمان لائے۔ یہاں تک کہ مردوں (عورتوں کا شمار شامل نہیں ) کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہوگئی (اعمال ۴: ۴) اوررُو ح القدس نے جو اُن کو ملک ملک کی غیر زبانیں بولنے کی قوت بخشی۔ تویہ گویا خُدا کا ایک صاف وصریح اشارہ اس امر کا تھا کہ کلام ِ مقدس کے ترجمے دُنیا کی تمام زبانوں میں کردئے جائیں تاکہ کوئی بشر خُدا کی رُوحانی برکتوں سے محروم نہ رہ جائے۔چنانچہ خُدا کی اسی ہدایت کے ماتحت مسیح کی شمع عشق کے پروانوں کے انجیل جلیل کے ترجملے دُنیا کی ہر زبان میں کردئے۔ اوریسعیاہ نبی کی وہ پیشین گوئی پوری ہوئی کہ۔وہ وقت آتا ہے کہ مَیں تمام قوموں اوراہل لغت کو جمع کروں گا۔ اوروہ آئیں گے  اورمیراجلال دیکھیں گے (یسعیاہ ۶۶: ۱۸) اورجس طرح یہودیوں نے خُدا وند مسیح کو دُکھ دیا اورستایا تھا اُسی طرح اب اُس کے شاگردوں کو ستانے لگے۔ اُن کو قیدوں میں ڈالنے اورطرح طرح سے ایذائیں دینے لگے۔تاکہ وہ مسیح کےنام کی منادی بند کردیں۔ لیکن مسیح کی محبت کا شعلہ اُن کے دل کے مذبح پر اور بھی تیزی سے جلنے لگا۔ اورسب سے پہلے مسیح کےخادم ستفنس نے جام شہادت نوش کیا۔ تاہم خُدا کا کلام پھیلتا رہا۔ اور یروشلیم مَیں شاگردوں کا شمار بہت ہی بڑھتا گیا۔ اورکاہنوں کا بڑا گروہ اس دین کے تحت میں ہوگیا (اعمال ۶:۷) اوروہ ہیکل میں اورگھروں میں ہرروز سکھانے اوراس بات کی خوشخبری دینے سے کہ یسوع ہی مسیح ہے باز نہ آئے۔(اعمال ۵: ۴۲)۔

مسیحیت غیر اقوام میں

آخر وہ وقت آگیا کہ یروشلیم سے شروع کرکے ساری قوموں میں توبہ اورگناہوں کی معافی کی منادی اُس کے نام سے کی جائے(لوقا ۲۴: ۴۷) چنانچہ شاگردوں نے یروشلیم میں اپنی خدمت کو شروع کیا۔ اوررُوح القدس کی طاقت سےمعمور ہوکر بہت کا میابی حاصل کی۔ اب وہ یروشلیم سے باہر نکلتے ہیں۔ سامریہ میں جاتا ہے اورسامری لوگ اُس کے کلام سے بہرہ اندوز ہوتے ہیں(اعمال ۸: ۴-۸) پطرس بھی غیر قوموں میں منادی کرنے لگا اوراُن پررُوح القدس نازل ہوا (اعمال ۱۰: ۴۵) اوراُنہوں نے بپتسمہ لیا۔ (آیت ۴۸) مگر جب رسولوں نے غیر اقوام کی طرف رُخ کیا اور اُنہیں خُدا کی بادشاہت کشادہ دلی سے شامل کرنےلگے تو یہودی مسیحی اُن پر اعتراض کرنے ہے اوراُن میں بڑی بحث ہوئی (اعمال ۱۱:۱-۲) اورپطرس نے دُن کو یوں جواب دیا۔ پس جب خُدا نے اُن کو بھی وہی نعمت دی جو ہم کوخُدا وند یسوع مسیح پر ایمان لاکر ملی تھی تو مَیں کون تھا کہ خُدا کوروک سکتا۔ وہ یہ سُن کر چپ رہے اورخُدا کی بڑائی کرکے کہا۔ توبےشک خُدا نے غیر قوموں کو بھی زندگی کے لئے توبہ کی توفیق دی ہے (اعمال ۱۱: ۱۷- ۱۸) اوجب یہودیوں کی مخالفت ومخاصمت اوربغض و حسد کا پیمانہ لبریز ہوکر چھلکنے لگا تو پولوس اوربرنبادلیر ہوکر بولے۔ کہ ضرور تھا ہ خُدا کا کلام پہلے تمہیں سُنا یا جائے۔لیکن چونکہ تم اُسے رد کرتے ہو اور اپنے آپ کو ہمیشہ کی زندگی کے ناقابل ٹھہراتے ہو۔ تودیکھ ہم غیر قوموں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں (اعمال ۱۳: ۴۶) چنانچہ اُس وقت سے رسول دلیرانہ طورپر غیر اقوام میں مسیح ک گواہی دینے گئے اورپولوس رسول اپنے آپ کو غیر قوموں کا رسول کہتا ہے (اعمال ۱۸: ۶ ،رومیوں ۱۱: ۱۳،گنتی ۲: ۸- ۹۔ افیسوں ۴: ۱، ۸) اورخُدا وند مسیح کا وہ قول پورا ہوکہ۔۔جب رُوح القدس تُم پر نازلل ہوگا تو تم قوت پاوگے۔ اوریروشلیم اورتمام یہودیہ اورسامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہوگئے۔

(اعمال ۱: ۸) اورمذہب الہٰی کی ہمہ گیر وسعت اورانتہائی کمالیت کا زمانہ رُوح القدس کے نزول سے لے کرقیامت کے دن تک وسیع ہے۔ چنانچہ پہلی صدیی عیسوی سے لے کر آج تک جو عالمیگر ترقی مسیحیت نے کی ہے وہ کسی منطقی دلیل سے ثابت کئے جانے کی محتاج نہیں۔ عیاں راچہ بیاں۔ قالب ِ دُنیا کے اعضائے رئیسہ اسی کے حلقہ بگوش ہیں۔ علمی ،عقلی ، مذہبی اورمالی ہر قسم کی ترقی بھی اُنہی کے ہاتھوں کو چوم رہی ہے۔ اورہر ملک وقوم میں مسیح کے گواہ تمام زبانوں میں انجیل مقدس کا اشتہار نہ لے رہے ہیں۔ خُدا وند تعالیٰ نے اپنے مذہب کی حقانیت اور صداقت کو تمام رُوئے زمین پر پھیلانے کے لئے اپنی قدرت کاملہ وحکمت بالغہ سے ذرائع وہ وسائل بھی ایسے زبردست مہیا کردے ہیں کہ اُس کی نشر واشاعت باآسانی تمام ہوسکے۔ مثلاً اُس نے اپنے خادموں کو پریس اورمطابع ایجاد کرنے کی حکمت بخشی۔ تاکہ وہ انجیل کو ہرزبان میں بہ تعداد کثیر تھوڑے عرصہ میں چھاپ کر تیار کریں۔ اورموٹر وریل گاڑی اورہوائی جہاز اوربحری جہاز وتاربرقی کے ذریعے انجیل ِمقدس دُنیا کے ہر حصے میں پہچا سکیں۔ ذرائع آمد ورفت کی آسانیاں ، اورپریس کی اختراع کچھ ایسے خُداداد عجیب وغریب سامان ہیں کہ جن سےبڑھ کر انجیل کی ترویخ وتوسیع اشاعت کے معاون بلنے محال ہیں۔ ریڈیو کی دریافت نے مبشران ِکلام کے حوصلوں کی اوربھی بلند کردیا ہے۔یہ ہیں وہ ذرائع جو مسیحیت کی ترویج اورتشہیر عامہ کے لئے خُدا تعالیٰ کی حکمت ودانش پر دلالت کرتے ہیں۔ آج اقوام ِعالم اورادیان دہر تمام امور میں مسیحیت کی تقلید پر جھکے ہوئے ہیں۔ اگرچہ زبان سے مسیح اورمسیحیت کو طعن ودشنام کرتے ہیں مگر باطن میں اُس کی تایثر سحرِ تخمیر کوخوب محسوس کرتے ہیں۔ اورمسیحیت کے آفتاب ِصداقت کے سامنے تمام دیگر مذاہب کے چراغ گل ہوئے جاتے ہیں اور وہ وقت آنے والا ہے کہ سب اپنے اپنے مدھم عارضی چراغوں کو پھونک مار کے کر بھجادیں گے۔اور مسیحیت کے نیودرخشاں کی  ضیا باریوں سے بہر ہوں گے۔ اورخُداوند مسیح کو جو تمام دُنیا کے پیر طریقت میں اپنے دلوں کےپرسریر آرا فرمائیں گے۔ تاکہ یسوع کے نام پر ہر ایک گھٹنا ٹکے۔ خواہ آسمانیوں کو خواہ زمینوں کا۔خواہ اُن کا جو زمین کے نیچے ہیں۔ اورخُدا باپ کے جلال کے لئے ہر ایک زبان اقرار کرے کہ یسوع مسیح خُداوند ہے۔(فلپوں ۲: ۱۰-۱۱)۔

مسیحیت ہند میں

اس وقت متعد و مذاہب پاکستان  ہندوستان میں نظر آتے ہیں۔ اورروز بروز بہت سے مذہبی فرقے برپا ہوتے جاتے ہیں۔ ڈر ہے کہ کہیں مذاہب اورہر فرقہ یہی دعوے ٰ کرتا ہے کہ وہ واحد عالمگیر الہیٰ مذہب ہے  اوردوسرے مذاہب باطل اورانسانی اختراع ہیں۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ جب خُدا واحد مسلم ہے تو وہ ایک ہی خُدا اتنے متناقض ومتضاد مکاشفے کیسے دے سکتا ہے ؟ اگر تمام مذہبی کتابیں الہامی مان لی جائیں توماننا پڑیگا۔ کہ اُن سب کا الہام خُدا کی طرف سے نہیں ہوا۔ اورتعجب انگیز امریہ بھی ہے کہ عام طورپر مسیحیت کے باہر تمام مذاہب امور معاشرت کو بھی مذہب کا جز بنائے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ کھانا پینا۔ پہننا اورچند امتیازی علامتیں رکھانا سب جسمانی باتیں ہیں۔ آج جو لوگ اپنے اپنے مذاہب کی عالمگیر ی کے دعویدارہیں۔وہ محض مسیحیت کی تقلید پر خالی ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ اورعالمگیر مذہب جیسا ہم ثابت کرچکے مسیحیت سے باہر اورکوئی نہیں۔ انجیل ہی کے آفتاب فیضان صداقت کی ضیا بارویوں سے دُختر کشی۔رسم متی۔اورغلامی نسواں و یردہ فروشی کی ستم رانیوں کو سرپرپاوں رکھ کر بھاگنا پرا۔ اوروہی رسوم بوجو کو تاہی نظر وفکر وارخساست وانقباض طبائع مجموبہ عندالخواص نا باعث صداافتخار ومباہات اورموجب حسنا ت سمجھی جاتی تھیں۔ آج مسیحیت خواض عجیبہ اورتایثرات غریبہ کے طفیل معیوب ومذموم سمجھی جاتی ہیں۔اگرتُم تھا تو اس قدر کہ آہنسا پر مودھر ما کے خیالا ت مروج تھے۔ اوراگر ظلم تھا تو اس انتہا کا کہ ستی اوردختر کُشی کی قبیح رسُوم کو ثواب ِ عظیم سمجھا جاتا تھا۔ اوررحم وقہر کی ضدین پر بطور افراط وتفریط عمل در آمد ہوتا تھا۔ مسیحیت نے ہر شبعہ انسانیت میں مِن  کل الوجود اعتدال ومیانہ روی کی عملی صورت میں رواج دیا۔ راجہ رام موہن رائے جب یونانی وعبرانی کی تعلیم حاصل کرنے کےلئےسیرا مپور گئے تو وہاں ولیم کیئری صاحب نے ستی کی رسم کے خلاف اُن کو اُبھارا اورآخر کار اُن دونوں کی کوشش سے سرکار اس رسم کے خلاف قانون نافذ کرنے پر مجبور ہوئی۔اورولیم کیئری صاحب کے تبلیغی اثر سے سرکار ہند نے ہندوستان کی قبیح رسُوم کو مثلاً دُختر کُشی وغیرہ کو قانو ناً بند کیا۔ جس طرح مکان کے اندر چراغ کے داخل ہونے سے چھت کے جالے۔دیواروں کی گرد آلودگی و گندگی شہتیروں کی بوسیدگی اورفرش کی ناہمواری وغلاظت صاف نظر آتی اور صاحب ِخانہ کو اپنے مکان کی ایسی ردی حالت سے نفرت وکراہیت پیدا ہوکر اُس کی قطع وبُرید اورصفائی کا فوری خیال پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح مسیحیت جو ایک چرا غ معرفت الہٰی اورمفارق سفید ی وسیاہی ہے۔جب ظلمت کوہ ہند میں داخل ہوا تو ہر مذہب کو اپنے اپنے معائب ونقائس صاف صاف نظر آنے لگے۔ اوراُس چراغ ِمعرفت وحقیقت اورشمع فیضان صداقت کی آمد سے ہر کسی کو ا پنے اپنے گھر کی پڑگئی۔ اورمسیحیت کے اخلاق فاضلہ اورشمائل ِحسنہ کی روشنی میں ہر مذہب وملیت نے اپنے اپنے مذہبی عقائد ورسوم اوراخلاق وآداب کی کنز پیونت اورنئی نئی تاویلیں وتشریحیں کرکے مسیحیت کے سانچے میں ڈھالنا شروع کردیا۔ اورتمام ہندوستان میں سوشل ریفرمیشن کے آثار نظر آنے لگے۔ اورمسیحیت نے نہ صرف پاکستان وہندوستان کے خارستان کو گُل وگُلزار بنایا بلکہ ہمہ اقوام عالم ہیں باوجود انتہائی مشکلات کے اپنی ترویخ واشاعت کےلئے میدان تلاش کرلئے۔ اس وقت انجیلِ مقدس کے تراجم قریب نوصد (۹۰۰) زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ اوریہ ترجمے وتفسیریں دوسری صدی عیسوی سے ہی ہوتے آئے ہیں کوئی آج کی بات نہیں ہے۔ آج مسیحیت کی تقلید برقرآن شریف بھی چند زبانوں میں چھپنے لگاہے تاکہ مسیحیت کی طرح اپنی عالمیگری کا دعوےٰ کرسکے۔ اورویدہ وغیرہ اول توجرمنی علماء کی جاز کاہیوں اورویدہ ریزیوں سے انگریزی اورچند دیگر زبانوں میں نظر آئے۔ اوراب چند مشرقی زبانوں میں بھی ملبس نظر آنے لگے ہیں۔ یہ سب مسیحیت کی خوش چینوں کے نتائج ہیں۔ آج سے پیشتر کبھی دیدوں نے سوائے سنسکرت کے کسی اورزبان کا منہ بھی دیکھا؟ کبھ یادنیٰ اقوام میں اُن کی منادی کی گئی ؟ اوراچھوتوں کی وید کے واعظ ہونے کا حق دیاگیا ؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ اُ ن کو وید سُنا نا گناہ کبیرہ سمجھا گیا۔ آج کیوں اچھوتوں کو وید پڑھنے سے منع نہیں کیا جاتا ؟ آج کیوں گھر گھر میں وید پڑے ہیں ؟ آج کیوں شدھی سنگٹھن قائم ہیں ؟ صرف مسیحیت کی نظر فیض اثر ک نتائج ہیں۔ مسیحیت بغیر کسی سیاسی غر ض کے صرف خُداوند مسیح کے ارشادِ فیض بنیاد کی تعمیل کی خاطر اچھوت وپسماندہ اقوام کو وقت قابلیت اورسم وزر خرچ کرکے اپنے میں ملا کر اونچ نیچ کے مذموم امتیازات کو علام رہی ہے۔ ہندومسلم اقوام دوبڑے درخت ہیں۔ اورپسماندہ گروہ چھوٹی کمزور پودجو اُن کے سایہ میں صدیوں رہ کر نشوونما پانے کے قابل رہی مسیحیت اس کمزور اورنیم جان یود کو اُن کے نیچے سے اُکھاڑاُکھاڑ کر علیٰحدہ لگاتی اورتعلیم وتہذیب کے پانی سے سینچتی ہے۔ تاکہ وہ بھی اُن تناور درختوں کی طرح پرورش پاکے سر بلند سرفراز ہوجائے۔ انجیل تمام اقوام ِعالم کو ایک دوسرے کے بھائی اورایک ہی نسل وخاندان کے آدمی بیان کرتی ہے۔ اوراُس (خُدا ) نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تما م رُوئے زمین پر رہنے کے لئے پیدا کی۔ (اعمال ۱۷: ۲۶ ؛کُلیسوں ۳: ۱۱ ؛گلتیوں ۳: ۲۷- ۲۸) اورمسیحیت ہی واحد عالمگیر مذہب ہے۔ اورتمام دُنیا کا دستور العمل ہونے کی کامل اوراکمل۔قابلیت وصلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے۔کھانے پینے پہننے کے متعلق کوئی قید نہیں لگاتا۔ ذات پات کے مُنافرت ومخاصمت کے برخلاف سخت ِ امتناعی اَحکام لگاتا ہے۔مسیحیت ایک خورشید رخشاں ہے اورتمام دیگر مذاہب ستارے۔مسیحیت ایک بحڑ بیکراں ہے اورتمام دیگر مذاہب ندی نالے۔ آخر ان سب ندی نالوں اوردریاوں اورنہروں کو اُسی ایک سمندر (مسیحیت ) میں آکر گِرنا ہے۔ پھر ایک ہی گلہ اورایک ہی چرواہا ہوگا(یوحنا ۱۰: ۱۶ ؛فلپیوں ۲: ۱۰- ۱۱، افیسوں ۱: ۱۰ ؛متی ۲۸: ۱۸- ۱۹؛ اعمال ۴: ۱۲)۔

لوگ مذہب سے کیوں بیزار ہیں

آج کل لاکھوں مذہب سےبیزار نظر آتے ہیں اورایسے حضرات تمام خرابیوں کی جڑ مذہب کو قرار دیتے ہیں۔ اورمذہب کی جان کا فاتحہ پڑھنا چاہتے ہیں۔ اوراس بیجا ئیت کی اولیت کا سہرا بالخصوص اُن سیا سی پاریٹوں اورتحریکوں کے سر ہے جنہوں نے اس بیسویں صدی کے آغاز سے آج تک جنم لیا ہے۔ اوربالعموم ہندومذہب کی ناستک تعلیمات کے سر ہے۔ جس نے لوگوں کو خُدا اورمذہب کی طرف سے لاپرواہ کردیا ہے۔ اورتیسری وجہ مذہب سے بیزاری کی مغربی خیالات ونظر یا ت کی ہند ترویخ ہے۔ مذہب توانسانی فطرت کا ایک جُز وغیر منفک ہے۔ اوراُٗس سے پیچا چھڑانا فطرۃ کے خلاف جہاد ہے۔البتہ یہ بات سوفیصدی درست ہے کہ نقلی مذاہب جولوگوں کے خود ساختیں ضرور موجود انحطاط وتخریب کے ذمہ دار ہیں۔ اوراُن کا استیصال ہی تعصب۔ مخاصمت ومنافرت۔حسد وکنیہ اورخود غرضی کےوجود کے لئے جو اس وقت انسانیت کے شرائین میں خون حیات بن کر تیر رہے ہیں موت کا پیغام ہوسکتا ہے۔ لیکن اس اقدا سے پہلے نقلی واصلی مذاہب کی تحقیق ضروری ہے۔ ہم آگے چل کر مناسب مقام پر اس موضوع کو چھیڑ یں گے۔ فی الحال انسان کی مذاہبی بیزاری کے موجبات کا سُراغ لگانا ! نسب اورضروری ہے۔

وجہ اول

لوگ چاہتے ہیں کہ خُدا ہماری حسب منشاء ہو۔ جو ہم چاہیں وہ فوراً کرے۔ اورجدھر چاہیں اُسے پھیرلیں۔ وہ ہماری جائز وناجائز خواہشات کے پورا کرنے میں ذرا پس وپیش نہ کرے۔ اگر آدھے لوگ چاہیں کہ بارش نہ ہو اورآدھے چاہیں کہ بارش ہوتو خُدا اُن واحد میں ان دونوں کی خواہش کو پورا کرے۔ لوگو ں نے خُدا کو لیجسلیٹو اسمبلی کا ممبر سمجھ رکھا ہے۔جس کا انتخاب رائے عامہ پرمنحصر ہے۔ اورجس کی عبادت مشروط اس بات سے ہے کہ پہلے وہ اُن کی ہر طرح کی نیک وبدخواہشات کوبلاحیل وحجت پورا کرے۔ چونکہ حرص وہا کے بندوں کی نفسانی خواہشات کاجواب خُدا کی طرف سے دیا نہیں جاتا۔ اس لئے وہ جھٹ ایسے یک طرفہ خُدا سے مُنکر ہوکے کسی ایسے نئے خُدا کو ایجاد کرنا چاہتے ہیں جو ہر وقت اُن کی ہاں میں ہاں ملایا کرے۔

وجہ دوم

مذہب کی پابند ی نفسانیت اوردُنیا داری سے روکتی ہے۔ (متی ۱۰: ۳۷- ۳۸) اورایک ہی وقت میں انسان خُدا اوردولت دُنیا وک پیار نہیں کرسکتا۔(متی ۶: ۲۴) اوربنی آدم کا دل اُن میں بدی پر بشدت مائل ہے۔ (واعظ ۸: ۱۱) چونکہ مذہب کی پیروی  میں رخارف ِدُنیا اورحیفہ جہان کو ٹھکرانا پڑتا ہے۔ اورلوگ اس وقت اس دلفریب ودلآ ویز دُنیا کے تیر نگا ہ کے زخم خوردہ ہیں۔ اورمذہب کی بُنیاد پر دولت پر ستی۔ اقبال؛ وکامرانی ،نفسانیت وعشرت پرستی اور حکومت وسیاست کی نظر فریب عمارتیں اُٹھاچکے ہیں۔ اوران دلکش مگر فانی عمارتوں کو ڈھانا اورمذہب کی محبت کو دل میں بٹھانا اُن کے لئے جوئے شیر کے لانے سے زیادہ محال معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے وہ مذہب کو اپنی نفسانی خواہشات کی راہ میں سد سکندری سمجھ کر اُسے اُٹھا پھینکنا چاہتے ہیں۔ مذہب اورنفسانیت دو متضاد اشیاء ہیں۔ اورایک ہی وقت میں  ایک شخص ان دونوں کی پیروی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ جسم رُوح کے خلاف خواہش کرتا ہے۔ اوررُوح جسم کے خلاف اوریہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ تاکہ جو تم چاہتے ہووہ نہ کر و۔(گلیتوں ۵: ۱۷ ؛ ا۔کرنتھیوں ۲: ۱۴)۔

وجہ سوم

مذہبی احکام اورتعلیمات کا رُوحانی نکتہ نگاہ بہت بلندو بالا ہے۔ اسل ئے عامتہ الناس اُن تعلیمات کوصرف سُن اورپڑھ کر ہی محظوظ ہونا چاہتے ہیں۔ اُن پر عمل پیرا ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو اکہ انسان کا عملی پہلو بہت پست اورکمزور ہوچکا ہے۔ اب ان مذہبی درس وتدریس اورقوانین پر عمل کرنا محال وناممکن سمجھ کر مذہب سے بیزاری کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہتے کہ مذہب کا نکتہ نظر نہایت اعلیٰ وارفع ہے اورکاش ہم اُس تک پہنچ سکتے۔ اس صورت میں مذہب کا نکتہ نظر نہایت اعلیٰ وارفع ہے اورکاش ہم اُ س تک پہنچ سکتے۔ اس صورت میں مذہب کی فضیلت کا اقرار اوراپنی قابلیت کا انکار ہوتا۔ لیکن یہا ں مذہب کا انکار اوراپنی قابلیت کا اقرار کیاجاتا ہے۔ یہ تو اُس شخص کا ساحال ہوا۔ جو کسی اُستاد کامل کے آگے زانوئے شاگردطے کرنے سے توعار کرے اورجب علم حاصل نہ ہوسکے  تو کہے کہ علم فضول شے ہے اواس کاوجود و عدم برابر ہے۔

وجہ چہارم

لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں خُدا دِکھاو بغیر دیکھے ہم اُس کوکیسے مان لیں؟ اگر خُدا اپنی شان ِکبریائی والوہیت کےساتھ نادیدہ وپوشیدہ اورفوق افلیم وادراک رہے تو لوگ اُس کو کسی دیدنی وظاہری صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اگر وہ دیدنی صورت میں ظاہر نہ ہو تو اُس کی ہستی کے متعلق شکوک میں پڑاکر آخر اُس سے مُنکر ہوجاتے ہیں۔ اوراگروہ کسی دیدنی مظہر میں تجسم اختیار کرکے مرئی ومجسم ہوجائے اورانسان کی فہم وسمجھ کے مطابق اُس کی خُدا بینی کی خواہش کا جواب دے تولوگ اُس کو محض ایک خُدا رسیدہ اور راستباز آدمی سمجھ کر اُس کی الوہیت وخُدا ئی کا یکسر انکار کرتےہیں۔ اب تبائے ان دوصورتوں کے علاوہ اورکونسی تیسری صورت ممکن ہے جس سے خُدا انسان کی آرزوں کو پورا کرسکے۔

وجہ پنجم

درحقیقت لوگ مذہب سے بیزار نہیں بلکہ مذہب ومعاشرت کے معجون مُرکب سے بیزار ہیں۔ آپ یہ خوب ذہن نشین کر لیجئے کہ امور معاشرت ہرگز مذہب کا جُز نہیں ہیں۔ جس طرح لوہا زر نہیں اورنہ زر لوہا ہے۔ اسی طرح معاشرت مذہب نہیں اور مذہب معاشرت نہیں ہے۔ روٹی سے بھوک مٹتی اورپانی سے پیس تو بجھتی ہے مگر جس طر ح روٹی سے پیاس نہیں بجھ سکتی اورپانی سے بھوک دور نہیں ہوسکتی۔ اُسی طرح معاشرت کو مذہب کا درجہ نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اور نہ ہی مذہب معاشرت کی جگہ لے سکتا ہے۔ دونوں کے اغراض ومقاصد میں بعد المشر قین ہے۔ کھانا پینا اورپہننا (امور معاشرت) حوائج جسمانیہ ونفسانیہ کی آسودگی کے لئے ضروری ہے۔ اورمذہب حوائج رُوحانیہ وخواہشات اخلاقیہ کی تسکین وآسود گی کا ذمہ دار ہے۔ دونوں کے مقاصد میں مغائرت وتفادت اظہر ہن الشمس ہے۔ خُدا کا کوئی کام حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہے۔ اس لئے خُداوند نے ہر ایک چیز خاص مقصد کے لئے بنائی (امثال ۱۶: ۴) دراصل امُور معاشرت کو غلطی سے مذہب کا جز سمجھ کر لوگوں نے تمدنی معاشرتی اورسیاسی اغراض کے حصول کی خاطر مذہب کی آڑ میں جھگڑے کھڑے کرکے مذہب کو بدنام کررکھا ہے۔ اوراسی قسم کے جھگڑے ہمارےملک میں لا انتہا قتل خون اور غارت گری اورمنافرت کا صریح سبب ٹھہرےہیں۔ خون کرواتے ہیں۔ ان میں سے ایک سور اورگائے کا مسئلہ ہے حیوانی جانوں کی حفاظت کی خاطر انسانی جانوں کو ہلاک کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ؟ اگرحیوان کو ن مارنا گناہ صغیرہ ہے تو انسان کو مارنا گناہ کیسی نامعقول فلاسفی ہے۔ جب تک کھانے پینے اورمختلف ظاہری امتیازی نشانات رکھنے کو مذہب کا جُز سمجھا جائیگا تب تک ہماری سرزمین پر خون کی ندیاں بہتی رہیں گی۔ اوراتحاد تعاون واشتراک کے الفاظ ایک قالب ِمردہ کی طرح رُوح ِمعافی سے تاابدخالی رہیں گے۔ ان الفاظ کو اگر شرمندہ معانی بنانا مقصود ہے تو معاشرت کو مذہب سے جُدا کرکے دونوں میں امتیازی حدولگادو۔ افسوس کا مقام ہے کہ غیر مسیحی اکثریت کا ظالمانہ دُنیوی اقتدار انجیل کے ہمہ گیر وہمہ رَس رُوحانی مذہب کو گوشہ لحد میں لٹادینے کے لئے محض اس واسطے تُلا ہوا ہے کہ وہ معاشرت کو مذہب کو جُز نہ سمجھتے ہوئے دونوں کو الگ الگ رکھتا ہے۔ انجیل کا فرمان ملاحظ ہو۔ کھانا ہمیں خُدا سے نہیں ملائیگا۔ اگر نہ کھائیں تو ہمارا کچھ نقصان نہیں۔ اوراگرکھائیں تو کچھ نفع نہیں (۱۔ کرنتھیوں ۸: ۸؛۱۳) کوئی چیز بذاتہ ِ حرام نہیں۔ لیکن جو اُس کو حرام سمجھتا ہے اُس کے لئے حرام ہے۔ اگر تیرے بھائی کو تیرے کھانے سے رنج پہنچتا ہے تو پھر تو محبت کے قاعدے پر نہیں چلتا۔(رومیوں ۱۴: ۱۴- ۱۵) کیونکہ خُدا کی بادشاہت کھانے پینے پر نہیں بلکہ راستبازی اورمیل ملاپ اوراُس خوشی پر موقوف ہے جو رُوح القدس کی طرف سے ہوتی ہے (رومیوں ۱۴:۱۷) کیونکہ خُدا کی پیدا کی ہوئی ہر چیز اچھی ہے۔ اورکوئی چیز انکار کے لائق نہیں۔ بشر طیکہ شکر گزاری کے ساتھ کھائی جائے۔(۱۔ تمیتھیس ۴:۴)۔

جب تُم مسیح کے ساتھ دُنیوی ابتدائی باتوں کی طرف سے مرگئے تو پھر اُن کی مانند جو دُنیا میں زندگی گُزارتے ہیں۔ آدمیوں کے حکموں اورتعلیموں کے موافق ایسے قاعدوں کے کیوں پابند ہوتے ہو۔ کہ اسے نہ چھونا اُسے نہ چکھنا۔ اُسے ہاتھ نہ لگانا۔(کُلسیوں ۲: ۲۰- ۲۱) پھر ختنے کے امتیازی نشان کے متعلق یہ فرمایا ہے۔ نہ ختنہ کوئی چیز ہے۔ نامختونی بلکہ خُدا کے حکموں پر چلنا ہی سب کچھھ ہے (۱۔ کرنتھیوں ۷: ۱۹ ؛کلسیو ں۳: ۱۱) طبی نُکتہ نگا ہ سے گائے وسور کے گوشت اورحقہ نوشی کے فوائد یا نقائص کچھ ہی ہوں پر۔طبعی ومعاشرتی معاملات پر رائے زنی کرنا مذہب کاکام نہیں۔ شراب کو اگر مذہب ناجائز قرار دیتاہے تومحض اس لئے کہ اُس کے معائب ونقائص کا پلڑا اُس کے فوائد کی بہ نسبت بہت بھاری ہے۔ انسان شرابی ہوکر بدکلامی کرتا۔ گالیاں دیتا لڑائی دنگا کرتا۔ اورمدہوش ہوکر خُدا کی عبادت سے اضطراری طورپر غافل ہوجاتا ہے۔ لیکن گوشت خوری وحقہ نوشی سے نہ تو مدہوش ہوکر عبادت میں غفلت کرسکتا اورنہ ہی اُن سے کسی قسم کی بے ہوشی طاری ہوکر کسی ناجائز حرکت یا فعل کے صدور کا امکان ہوتا ہے۔اگر شراب نیک نیتی سے حالات پیش آمد ہ کے مطابق جائز فائدہ کے حصول کے لئے (مثلاً نمونیہ ) استعمال کی جائے۔ تو کم ازکم مسیحیت اُس کی مخالف نہیں ہے۔ دیکھئے سنکھیا شراب کی بہ نسبت زیادہ خطرناک اور مہلک شئے ہے۔ لیکن ہر مذہب کا مریض اطباء سے دوا کے طورپر لے کر استعمال کرتا ہے۔ صرف نیت کی نیکی یا بدی کی بات ہے۔ اگر کوئی نیک نیتی سے سنکھیایا استعمال کرےتو مرض سے شفا پاتا ہے۔ اوراگر بدنیتی(خود کُشی کے لئے ) سے استعمال کرے تو نتیجہ ہلاکت ہوتی ہے۔ اوریہی گناہ ہوتا ہے۔ یہی حال شراب کا ہے ہر شئے میں حدس ے تجاوز کرنا مضرت رساں ہے۔اور امور معاشرت میں یہ اصول بالکل درست ہے۔ پھر ذات پات اوراُونچ نیچ کے امتیازات مسیحیت کے باہر تمام مذاہب میں خاص اُبھری ہوئی جگہ رکھتے ہیں۔ اس امتیاز پسندی کے اختلال وخبط نے مذہبی دیوانوں کے دما غ کے ساتھ بہت بُرا سلوکک کیا ہے۔ اورہر منصف مزاج شخص اپنی ضمیر سے جنگ کئے بغیر ان کو انسان نمادرندے کہہ سکتا ہے۔ دُنیا کے اس حرماں نصیب برصیغر کی تباہ حالی۔ عدم تعاون عدم ، اشتراک اورعدم مساوات کی حمایت کرنے والی یہی ذات پات کی واہیات ریت ورسوم ہیں۔ یہاں ہر پیشہ ایک مستقل مذہب کا قائم مقام ہے۔ یہ سب معاشرتی امُور ہیں۔ مذہب کے اند ان کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اورمسیحیت واحد حقیقی مذہب ہے جو ذات پات کے امتیازات کی جان پر ذاتحہ پڑھنے میں نہایت سنگدل واقع ہوا ہے۔ ملاحظ ہو۔ اُٗس (خُدا ) نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہرایک قوم تمام رُوئے زمین پر رہنے کے لئے پیدا کی (اعمال ۱۷: ۲۶) نہ یہودی رہانہ یونانی نہ ختنہ نامختونی نہ وحشی ، نہ سکوتی نہ غلام نہ آزاد۔ صرف مسیح سب کچھ اور سب میں ہے۔(کلسیوں ۳: ۱۱ ) اورتم سب جتنوں نے مسیح میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا مسیح کو پہن لیا۔ نہ کوئی یہودی رہا نہ یونانی۔نہ کوئی غلام نہ آزاد نہ کوئی مُروز عورت کیونکہ تم سب مسیح یسوع میں ایک ہو(گلتیوں ۳: ۲۷- ۲۸) مسیحیت کے علاوہ کوئی دوسرا مذہب آقا وغلام اورمحمود ایاز کو سلک ِاتحاد واشتراک میں منسلک کرکے ایک ہی ضف میں کھڑا کرنے کی مجال نہیں رکھتا۔ البتہ آج ہر مذہب مسیحیت کی اُٗدھوری اورناتمام سی نقل ضرور اُتا ر رہا ہے۔ تاہم نقل نقل ہی ہے اوراصل اصل۔

کچھ سال ہوئے ایک شخص میرے ساتھ مذہب کے متعلق بات چیت کرنے آیا۔ اور اُس نے حسب معمول گوشت خوری کے جواز وعدم جواز کے متعلق گفتگو چھیڑوی۔ مَیں اُس بحث کا خلاصہ ! اس جگہ پیش کرتا ہوں تاکہ معاشرت و مذہب کے موضوع پر زیادہ روشنی پڑے۔

ہندو صاحب۔ صاحب تُم لوگ گوشت کھاتے اور جیو ہتیا جیسے مہاں باپ کے مرتُکب کیوں ہوتے ہو۔

راقم۔ پہلے میرے سوالات کا جواب دیں۔ پھر مَیں آ پ کے سوال کا ہعقول اورتسلی بخش جواب دوں گا۔

ہندوصاحب ۔بہتر ! فرمائے۔

راقم۔ آپ انسانی اجسام۔حیوانی اجسام اورنباتی اجسام میں کیا فرق مانتے ہیں ؟

ہندوصاحب۔ انسانی اجسام کو ہم ارواح کے اصلی گھر مانتے ہیں۔ اور حیوانی ونباتی اجسام کو قید یں۔۔ یا یوں سمجھیں کہ جسم انسانی کرم حونی اورجسم حیوانی ونباتی بھوگ جونی ہیں۔ جب رُوح انسانی جسم میں رَہ کر بُرے اعمال کرتی ہے۔ تو وہ اُن کا پھل بھوگنے کے لئے حیوانی ونباقی اجسام (قیدوں ) میں ڈالی جاتی ہے۔

راقم۔ بہت خوب ! مَیں نے آپ کا مطلب سمجھ لیا ہے۔ اب مجھے یہ بتائے  کہ کسی قیدی کو قید سے رہا کر نا یا کروانا رَحم میں داخل ہے یا نہیں ؟

ہندو صاحب۔ جی ہاں ! قیدیوں اورمظلوموں پر رَحم کرنانہایت مستحسن فعل ہے۔ اسی واسطے ہم لوگ اندھوں لیگڑوں اورپاہجوں اور حیوانا ت پررحَم کرتے ہیں۔ ہمارے گئو شالہ اوریتیم خانے اس بات کا بین ثبوت ہیں۔

راقم۔ بہت بہتر ! تو اب اپنے سوال کاجواب سنئے۔ ہم نباتا ت کو کھاتے ہیں تاکہ قیدی ارواح کو نباتی اجسام سے آزاد کریں۔ لیکن وہ ارواح نباتی قیود سے چھوٹ کر فوراً حیوانی اجسام میں داخل ہوجاتی ہیں۔

ہماری ہمدردی یہ گوارا نہیں کرسکتی کہ اُٗنہیں حیوانی قیود میں رہنے دیں۔ چنانچہ ہم حیوانات کوکھا لیتے ہیں۔ حیوانی قیود سے نکل کر ارواح انسانی قالبوں میں یعنی اپنے اصلی گھر وں میں آجاتی ہیں۔ اب ظاہر ہے۔ کہ ہم انسانوں کو نہیں کھاتے ہم اُن قیدیوں کو آزاد کرکے اُن کے اصلی گھر وں میں پہنچا کروم لیتے ہیں۔ آپ بھ یاس پَر م پکار میں ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔ یعنی نباتات کو کھاتے ہیں۔ لیکن پہلی ہی منزل پر ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ اورہم اُن کی آزادی کی خاطر ایک اورکٹھن منزل کو طے کرتے ہیں۔ کہو صاحب پھر گوشت کھانا کیسے پا پ ٹھہرا ؟

ہندو صاحب۔ واہ صاحب ! آپ نے نئی فلاسفی سے اس مسئلہ کو حل کیا۔ لیکن میرا دل قائل نہیں ہوا۔ ہم تو آہنسا پر مود ھرما کلے قائل ہیں۔

راقم۔ خیر آپ قائل رہیں۔ لیکن اس مسئلہ کی حمایت سے آپ کی مشکلات بہت بڑھ جائیں گی۔

ہندوصاحب۔ وہ کیسے ؟

راقم۔ اول تو یہ بُدھ مت کی تعلیم ہے۔ اورویدوں کے صریح مخالف ہے۔ ویدوں میں اسومیدھ یگ گئو میدھ یگ اورنرمیدھ یگ(انسانی قربانی ) کے احکام صاحب موجود ہیں۔ اوراُن پر صدیوں عمل در آمد ہو تا رہا ہے۔ مغربی مسیحی علما ء کے علاوہ ڈاکٹر راجندرلال مترجیسے وحدی العصر اوریگانہ روز گار سنسکرت عالم نے بھی ویدوں کی کامل تحقیق موشگافی کے بعد صاف اقرار کیا۔ کہ ویدوں میں جانورں کی قُربانی کا ویسا ہی حال ہے جیس اتوریت کی کتاب احبار ہیں( دیکھو ڈاکٹر مذکور کی تصنیف انڈو آرنیس ) بُدھ مذہب کے عروج اورہمہ گیروہمہ ہیں رسوخ واثر نے ان ویدوں کی تعلیم کو زوا پہنچایا۔ اُسی وقت سے یہ قُربانیاں توبند ہوچکیں۔ لیکن ویدو ں میں اُن کے احکام اب بھ یاُصی طرح موجود ہیں۔

دوم۔ لیکن اب بُدھ کی تقلید سے بھی آپ کادامن چھوٹ نہیں سکتا۔ یعنی آہنسا پر مودھر یا کے اصول پر عملدر آمد قطعاً محال ہے۔ دیکھئے پانی اورہوا اور نباتا ت میں بیشمار جیو موجود ہیں لیکن آپ ان کو استعمال کرتے ہیں۔ پلیگ کے دنوں میں کروڑوں چوہے عدم آباد پہنچائے جاتے ہیں۔جراثیم کی برکت سے ملیریا اورہیضہ وتپ دق وغیر امراض لاحق ہوتے ہیں۔ ایسے امراض میں مریض کو دوادینے یا ٹیکہ کرنے سے یہی مقصد ہوتا ہے کہ بیماری کے جراثیم دوا  کے زہر سے ہلاک ہوجائیں۔ کپڑوں یا بالوں میں جوئیں پڑجائیں یا گند ے پانی پر مچھر پیدا ہوجائیں۔ یا مکھیاں ہیضے کے ایام میں بڑھ جائیں تو اُن کو فنا کردیا جاتا ہے۔ زہر یلے جانوروں کو ہلاک کیاجاتا  ہے۔ ٹڈی دل کلے انڈوں بچوں کو زندہ دبا دیا جاتا ہے۔ کیا کوئی آریہ یا ہندو ڈاکٹر اس خلاف فطرہ اصول پر عمل کرسکتا ہے ؟ ہاں ! اگر حکمت وطبابت کو بند کردیا جائے۔ اور انسانی زندگی کی قیمت ایک صفر کے برابر سمجھی جانے لگے تو یہ ہوسکتا ہے۔

سوم۔ آپ رُوح کو قدیم اورناقابل فنا سمجھتے ہیں۔ اس صورت میں گوشت خوری سے جیو ہتیا تو نہیں البتہ پر کرتی (مادہ ) ہتیا ہوسکتی ہے۔ پھر آپ پر کرتی کو بھی قدیم اورغیرفانی مانتے ہیں۔ تو اس صورت میں جیو ہتیا پر کرتی ہتیا دونوں ناممکن ہیں۔ کیونکہ ارادہ وراواح ناقابل فناہیں۔

چہارم۔ جیو ہنسا خلاف  فطرہ نہیں بلکہ موافق فطرہ ہے۔ ایک زندگی کا قیام دوسری زندگی کی فنا پر منحصر ہے۔ مثلا ً بڑی مچھلیاں چھوتی مچھلیوں کو کا کر جیتی ہیں۔ اس طرح تمام موجودات پر غور فرما لیجئے۔

پنجم۔ اگر کہو کہ یہ قانون صرف حیوانات کے لئے ہے انسان کے لئے نہیں۔ تو اول تو اس میں یہ قباحت آئے گی کہ انسان بھی حیوانات میں شامل ہے۔ وہ حیوان ناطق مسلم ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر یہ امر قابل غور ہے۔ کہ دُنیا کے بعض حصص ایسے سرد ہیں کہ وہاں نباتی زندگی قطعی ناپید ہے۔ مثلاً سائبیریا کے میدان کے باشندے اوراسکمیو لوگ صرف گوشت کھاتے اورکھالیں پہنتے ہیں۔ اب اپ کا یہ استقرا ٹوٹ گیا کہ انسان کے لئے گوشت کھانا گناہ ہے۔ کُل انسانوں کے لئے گوشت خوری گناہ ہے یہ غلط ہے۔ اگر کُل کی جگہ بعض استعمال کریں تو خیر ہ بعض انسانوں سے ہندو آریہ مُراد لے لیں گے۔ یعنی انسان کُلی کے بعض افراد (ہندو) کے لئے گناہ ہے۔ اگر آہنسا پر مود ھر ما۔ خُدا کا ایک عالمگیر قانون ہے۔ تو ا س پر عمل در آمد ناممکن ہے۔ اورنیچر کی یہ کیا دل لگی ہے کہ بعض اقوام (اسکیمو وغیرہ) کاجینا صرف گوش خوری ہے۔ مسیحی کھانے پینے کو مذہب کو کوئی حصہ نہیں سمجھتے۔ مذہب رُوحانی زندگی سے متعلق ہے ہ کہ جسمانیات سے۔ اگر ہم گوشت کھائیں تو مذہب کی خلاف ورزی  نہیں اور اگر نہ کھائیں تو مذہب کی اطاعت نہیں۔ حکم دوطرح کے ہوتے ہیں۔ ایک امر دوسر انہی  جیسے گناہ نہ کر و یہ نہی نہے۔ نیکی کر و یہ امر ہے۔ لیکن گوشت کے متعلق یہ دونوں قسم کے حکم نہیں ہیں۔ اس لئے امور معاشرت اختیاری باتیں ہیں اورمذہب کاجُز نہیں ہیں۔ پس تُم کھاو یا پیو یا جو کچھ کرو۔ سب خُدا کے جلال کےلئے کر و(۱۔ کرنتھیوں ۱۰: ۳۱)

وہ صاحب ان دلائل سے قائل ہوکر چلے گئے۔ اورپھر کبھی درشن نہ دئے۔ میرا مقصد یہ نہ تھا کہ اُس کو دلائل سے ہرادوں۔ بلکہ صرف اظہار ِحق سے غر ض تھی۔ا ور مَیں چاہتا تھا کہ وہ معاشرت ومذہب کی تفادت ومغائرت کو سمجھ لے۔ اب مَیں پھر۔ پہلے جملے کو دوہر اتا ہوں کہ لوگ مذہب سے بیزار نہیں بلکہ مذہب ومعاشرت کے معجون ِمرکب سے بیزار ہیں۔

ششم۔ حضور خُداوند مسیح نے آخری وقت اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ تُم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناو۔(متی ۲۸: ۱۹) اورکہ تُم زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہوگئے۔(اعمال ۱: ۸) جب اُس قادر ہستی نے یہ حکم د یا تو اس کی تعملی کے لئے اس قسم کی آسانیاں بھی بہم پہنچادیں کہ جن سے مذہب الہیی کی تردیج واشاعت ہر جگہ بلاوقت ہوسکے۔ اورمبشر ان انجیل کے ذہنوں کو اس قدر روشن کردیا کہ وہ دنیا کے گمنام حصص اوردردراز اقالیم وممالک کی دریافت میں کامیاب ہوگئے۔ اورتمام ملکوں کے راستے کھل گئے اور ذرائع آمدورفت نہایت آسان ہوگئے۔ اورچھاپہ کی مشین کی ایجاد سے انجیل کی اشاعت کو بہت مدد ملی۔ اورچھاپہ کی ایجاد سے وہ تمام مشکلات جو مختلف فلسفوں کی تردیج وتشہیر عامہ کی سیدراہ تھیں مکیسر دور ہوگئیں۔ اورذرائع سفر کی آسانیاں ایک ملک کے فلسفوں وخیالوں کو دوسرے ملکوں میں لے گئیں۔ پہلے ایک دوفلسفوں سے ایک ذ ہن آشنا ہوتا تھا۔ کیونکہ ہاتھ کی لکھی ہوئی کتابیں ایک توگِراں قیمت پر مکتی تھیں۔ اورپھر دوسرے ممالکک کے راستے نامعلوم ہونے کے باعث ہر جگہ مروج نہ ہوسکتی تھیں۔ اس لئے بہت کم لوگ اُن سے واقف ہوسکتے تھے۔ اورلوگ غیر ممالک کے مذہبی فلسفوں سے نابدوبے نصیب رہتے تھے۔ اب سینکڑوں فلسفوں اورنظریوں نے دماغ کو متعدد مختلف خیالات کی گھڑ دور کا میدان بنارکھا ہے۔ اورمختلف  فلسفوں اورعلوم نے باہم اخذاب وتجذیب اورئاثر وتاثیر کرکے ایک نیا خمیر اُٹھایا ہے جس کو مذہب سے بیزاری کہنا درست ہے۔ اب لوگ اس شش وپنج میں ہیں کہ کس خیال یا نظر یہ کو اپنائیںاور کس کوتر ک کردیں۔ اتنے کثیر خیالات کاموازنہ ومقابلہ کرکے کسی صحیح عقیدہ کی بنیاد رکھنا لوگوں کے لئے مشکل ہورہا ہے۔ آخر انسان کامحدود دماغ کیا کرے۔ اس ذہنی کشمکش وبے چینی سے لاچار ہوکر لوگ مذہب سے بیزار ہو رہے ہیں۔ عقائد کی روز افزوں کثرت بھی مذہب کی بے قدری کو موجب ہے کیونک جب قدر کسی چیز کی زیادتی ہواُسی قدر لوگ اُس کی بے قدری کرتے ہیں۔

مذہبی بیزاری کا علاج

ہم ماس بیان کے آغاز میں ذکر کرچکے کہ مذہب انسان کی فطرت کا جزو اعظم ہے۔ اوراُس سے دامن چھڑانا مشکل ہے۔ جب لوگ خُدا کو چھوڑ دیتے ہیں تو اُن کو ایک عوضی معبود ایجاد کرنا پڑتا ہے۔ ویو سماجیوں نے خُدا کو چھوڑا تو اُنہیں ستیہ نند اگنی ہو تری موجد یود سماج کے منگین مجسمہ پر جبین نیاز رگڑنی پڑی۔ اسی طرح بُت پرستوں نے خُدا کی جگہ عوضی  بُت بنا کر اُن کی پرستش کرنی شروع کردی۔ اس سےثابت ہوتا ہے کہ مذہب انسان کی فطرت ہے۔ اوراُس کی قیود سے آزاد ہونامحال۔ جب مذہب کی ضرورت ثابت ہوگئی تو اب موازنہ مذاہب سے اس امر کا کھوج لگانا ضروری ہے کہ کونسا مذہب خُدا کا عطاکرد ہ ہے۔ ہم عقل اورمذہب کےبیان میں بخوبی ثابت کرچکے کہ خُدا ایک ہے اورا ُس کا مذہب بھی ایک ہے۔ اب ہمایک سادہ سامعیار پیش کریں گےجس سے ناظرین کو مذہب الہٰی اورانسان کے اختراعی مذاہب میں نمایاں امتیاز نظر آئے گا۔ یہ ایک بدیہی امر ہے کہ عقلمند والدین اپنے بچوں کو ہمیشہ وہ چیز دیتے ہیں۔ جس کی اُن کےپاس کمی ہو۔ اورضرورت بھی اُسی شئے کی ہوتی ہے جس کی کمی ہو۔ تُم میں ایسا کونسا آدمی ہے کہ اگر اُص کا بیٹا اُس سے روٹی مانگے تو وہ اُسے پتھر دے۔یا اگر مچھلی مانگے تو اُسے سانپ دے۔ پس جبکہ تُم بُرے ہوکر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتا ہو۔ تو تُمہارا آسمانی باپ جو آسمان پر ہے اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں کیوں نہ دیگا ؟(متی ۷:۹-۱۱) اگر ایک بچے کے پاس دس جوڑی کپڑے ہوں۔ اوروہ پاوں سے بالکل ننگا ہو۔ اور اُس کے والدین اُس کو کپڑے دوجوڑی اوربنادیں مگر جُوتی نبوا کر نہ دیں۔ تو کیا اُس بچے کی ضرورت پوری ہوجائے گی۔؟ ہر گز نہیں جس چیز (جوتی ) کی ضرورت اورکمی تھی وہ اُسے دی نہیں گئی اورجس شے کی کمی نہ تھی بلکہ افراط تھی وہ دے دی گئی۔ لہٰذا وہ اُس کی ضرورت پوری نہ ہوئی۔ایک اورمثال تھی وہ دے دی گئی۔ لہٰذا وہ اُس کی ضرورت پوری نہ ہوئی۔ ایک اور مثال لیجئے۔ فرض کیجئے ایک شخص فاقہ زدہ گرسنگی سے لاچار ہوکر لب دریا بیٹھا ہوا ہے۔ اس حالت میں اگر کوئ ازراہ ِرحَم پانی کا گلاس اُسے لاکر دیوے تو کیا اُس کی ضرورت پوری ہوجائے گی ؟ ہر گز نہیں۔ کیونکہ پانی کی توا ُس کےپاس پہلے ہی قلت نہیں بلکہ افراط ہے۔ اورروٹی جس کی سخت حاجت تھی وہ اُسے ملی نہیں۔ اورضرورت اُس شئے کی ہوتی ہے جس کی کمی ہو۔ خُدا دُنیا کا با پ ہے وہ بھی دُنیا کو ایسا ہی مذہب دیتا ہے جس کی دُنیا کو ضرورت ہو۔ اس وقت دُنیا میں نااتفاقی۔عداوت۔خصومت فساد تکبر۔ خود غرضی لنبع وتپر کی محبت اورسیاسی وتمدنی مخصوں کی کثرت ہے۔ اب اگر کوئی مذہب دُنیا کو یہی چیزیں دیوئے تو ظاہر ہے کہ ان کی توآگے ہی کیا کمی ہے۔بلکہ اُن کی کثرت نے اہل دنیا پر عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے۔ اب دیکھیئے۔ کہ دُنیامیں کمی کس شئے کی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ محبت اورمیل ملاپ کا اس وقت قحط پڑا ہوا ہے۔ لہٰذا خُدا کا عطا کردہ مذہب وہ ہوسکتا ہے جس میں میل ملاپ اوررمحبت ک تلقین ہو۔ اوردشمنی عداوت اورشمیشر زنی کے خلاف سخت امتناعی احکام ہوں۔کیونکہ معاشرت وسیاست ہوگز مذہب کے جُز نہیں ہیں۔ اب مختلف مذاہب کی تعلیمات کو  اس معیار پر رکھ کر دیکھ لیجئے۔ کرشن بھگوان گیتا میں ارجن سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں۔ اَے ارجن جو تُو بدھ بکھے لڑکر مریگا تو سُرگ کوجائے پر اپت ہوگا۔ اورجوجیتے گا تو راج کے بھوگے گا۔ اس کا رن سے اُٹھ کر بدھ کر لابھ  اورہان اورسُکھ اوردُکھ اورجیت ہار کر سمان جان کر بُدھ کر (بھگوت گیتا دوتیہ ادھیائے آیت ۳۷ ،۳۸) یہاں سُرگ اورراج کے بھوگوں کی تحریص دلا کر ارجن کوجنگ وجدل کے لئے اُبھاا جاتا ہے۔ حالانکہ شمیشر زنی اورقتل وغارت کا انعام سُرگ نہیں ہوسکتا۔ محض ودُنیوی اغراض کے حصو ل کی خاطر سُرگ کا لالچ دیکر شمیشر زنی وخون ریزی پر آمادہ ودلیر کیاگیا ہے۔ لٰہذا گیتا نے دُنیا کو وہ چیز دی جس کی دُنیا میں پہلے ہی کثرت تھی۔ اور سیاست کو مذہب کے ساتھ ملا دیا۔ اب قران شریف کی تعلیم پر غور فرمائیے جو گیتا کے مندرجہ بالا خیال کےساتھ ہو بہوملتی ہے۔ جب تُم کافروں سے بھڑوتو اُن کی گردنیں مارو۔ یہاں تک کہ جب تُم اُن میں خوب خون ریزی کو چکو تو اُن کی مشکیں باندھ لو۔ اس کے بعد یا تو احسان کرکے چھوڑ دو۔ یا فدیہ لے کر۔ یہاں تک کہ لڑائی اپنے اہتھیار رکھ دے۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے اُن کے اعمال وہ ہرگز نہ کھوئے گا۔ اُنہیں ہدایت کرے گا اوراُن کا ال درست کرے گا۔ اوراُنہیں بہشت میں داخل کرے گا۔ جس کابیان اُس نے اُن کے لئے کردیا ہے (سورۃ محمد ۴- ۷ آیت وبقر ۱۸۶- ۱۸۹، ۲۱۲ ) جولوگ ایمان لائے اورگھر چھوڑ آئے اورلڑ ے اللہ کی راہ میں۔ اورجن لوگوں نے جگہ دی (نبی کو پناہ دی ) اوراُس کی مدد کی وہی ہیں مسلمان ٹھیک۔ اُن کو بخشش ہے اورروزی عزت کی۔ (سورۃ انفال آیت ۷۵) قرآن شریف نے بی شمیشرزنی اوردشمنی و خون ریزی کو مذہب کو جُز بنادیا۔ اورجنگ وجدل کے ساتھ بہشتی خوشیوں کو مشروط ٹھہرایا۔ الہٰذا قرآن نے دُنیا کی ضرورت کو پورا نہیں کیا۔ سکھ ازم اگرچہ ویدک دھرم کی ایک شاخ ہے۔ تاہم اُس کی تعلیم بھی اس بارہ میں ہم پیش کرتے ہیں۔ ملاحظہ ربیہ راس مُکھ واک پادشاہی دس۔

ہمرے دُٗسٹ سبھی تُم گھادو۔۔۔۔ آپ ہاتھ دے سوہے کرتارا
موراچھا نج کَردے کرئے۔۔۔ سب بیرن کو آج سنگھر یئے
پُورن ہوئے ہماری آسا۔۔۔ توربھجن کی رہے پیاسا
تُمھیں چھاڈ کو اورنہ دھیاوں۔۔۔ جو بَرچا ہوں سو تُم نے پاوں
سیوک سکھ ہمارے تاریئے۔۔۔ چُن چُن سِترہ ہمارے ماریئے
وسٹ جیتے اُٹھوت اٗتپاتا۔۔۔ سگل ملیچھ  کر ورَن گھاتا
اپنا جان مجھے پرت پرئیے۔۔۔ چُن چُن سترو ہمارے مرئیے
ویگ تیغ جگ میں دود چلے۔۔۔ راک آپ ہو ہے اورنہ دلے۔

ناظرین  خودغور کر کے دیکھ لیں کہ سِکھ ازم کس حدتک دُنیا کی ضرورت کو پرار کتا ہے تیغ وتبر کی ہدایات اوردُشمنوں کے حق میں بددعائیں مانگنے سے میل ملاپ اورباہمی محبت ہرگزترقی نہیں کرسکتی ۔ اب ہم انجیل ِمقدس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اورابتداہی میں نہایت عجزو انکسار سے گذراش کرتے ہیں کہ انجیل ِجلیل کےکُل ۲۷ صحیفوں میں باوجود گہری تحقیق وتدقیق کے ہمیں ایک بھی آیت  ایسی نہیں ملی جو مندرجہ بالاتین کتابوں کی مذکورہ آیات وتعلیمات کے ساتھ کسی قسم کی مماثلت ومشابہت رکھتی ہو۔ اگر ایک بھی آیت ایسی مل جاتی تو ہم اُس کو ایماندار سے پیش کردیتے ۔ اگر اورکوئی مسیحی یا غیر مسیحی صاحب انجیل ِمقدس سے کوئی ایک بھی آیت جس میں عداوت شمیشر زنی۔ خون ریزی اورخود غرضی سکھائی گئی ہوپائیں تو راقم کومطلع فرما کر مشکوری کاموقع دیں ۔اب ہم انجیل کی وہ امتیازی تعلیم جو مسیحیت کو تمام دیگر مروجہ مذاہب ِعالم سے ممتاز کردیتی ہے پیش کرنے پر مجبور ہیں ۔ذرا صدق دلی اور انصاف پروری سے ملاحظہ فرمائیں۔ سب سے پہلے ہم انجیل سے وہ تعلیم پیش کریں گے جو شمیشر زنی وخون ریزی کے خلاف ہے ۔ جب خُداوند مسیح کو گرفتار کیاگیا تو آپ  کے ایک حواری پطر س نے تلوار سے سردار کاہن کے نوکر ملخس کا کان اُڑادیا۔ یسوع نے اُس سے کہ اپنی تلوار میان میں کرنے ۔کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلا ک کئے جائیں گے۔ (متی ۲۶: ۵۲؛ مکاشفہ ۱۳: ۱۰) خُداوند مسیح نے مذہب کی مختصر سی تعریف اس طرح پیش کی ہے ۔ خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دل اوراپنی ساری جان اوراپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے ۔ اوردوسرا اُس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔ ان ہی دوحکموں پر تمام توریت اورانبیاء کے صحیفوں کا مدار ہے ۔(متی ۲۲: ۳۷- ۴۰) خُدا محبت ہے ۔ اورجو محبت میں قائم رہتا ہے وہ خُدا میں قائم رہتا ہے۔ اورخُدا اُس میں قائم رہتا ہے ۔(۱۔ یوحنا ۴: ۱۶) اگرکوئی کہے کہ مَیں قائم رہتا ہے ۔ اورخُدا سے محبت رکھتا ہوں ۔ اوروہ اپنے بھائی سے عداوت رکھے تو جھوٹا ہے ۔ کیونکہ جو اپنے بھائی سے جسے اُس نے دیکھا ہے محبت نہیں رکھتا وہ خُداسے بھی جسے اُس نے نہیں دیکھا محبت نہیں رکھ سکتا(۱۔ یوحنا ۴: ۲۰) اورخُدا اوراپنے ہم جنس مخلوقوں کی محبت کو لازم ملزوم ٹھہرایا گیا ہے ۔جو کوئی والد سے محبت رکھتا ہے  وہ اُس کی اولاد سے بھی محبت رکھتا ہے (۱۔ یوحنا ۵: ۱) قول المسیح '' مَیں تم سے یہ کتہا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو ۔ اوراپنے ستانے والوں کے لئے دُعا مانگو۔۔ اگر تُم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارے لئے کیا اجر ہے ؟ کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرے (متی ۵: ۴۴، ۴۶ ) اگرتیرا دُشمن بھوکا ہو تواُس کو کھانا کھِلا ۔ اگرپیا سا ہوتو اُصے پانی پلا (رومیوں ۱۲: ۲۰) محبت کی جامع تعریف ملاحظہ ہو(۱۔کرنتھیوں ۱۳ باب ) محبت کا مفصل بیان دیکھئے (اول خط یوحنا تمام )۔

ایک دفعہ ایک اچھے تعلیم یافتہ غیر مسیحی شخص سے میری گفتگو ہورہی تھی ۔ اور ہماری گفتگو کا موضوع مذہب اورمحبت تھا۔ جب مَیں نے محبت کے متعلق انجیلی تعلیم کوپیش کیا۔ تو وہ فرمانے لگے کہ بھئی وہ کونسا مذہب ہے جو محبت کی تعلیم  نہیں دیتا ؟ اروکس مذہب میں شمیشر زنی وخونریزی جائر ہے ؟ مَیں نے کہا کہ انجیل کے باہر تمام مذاہب میں (یہاں سے یہ گفتگو مکالمہ کی صورت میں چلیگی )

سائل ۔ اگرمَیں اپنی مذہبی کتا ب میں سے وہ آیات پیش کردوں جن میں محبت کرنے کی تعلیم ہے تو پھر کیا کہو گے ؟

راقم ۔ آخر ایسی کتنی آیات پیش کروگے ؟

سائل ۔ خواہ دوتین ہی ہوں۔ آخر خُدا ہی کی دی ہوئی ہوں گی۔

راقم ۔ ہاں سچ ہے کہ آپ کی کتاب میں دو تین سے زائد آیا ت محبت کی تعلیم نہیں دیتیں ۔ پر اس سے آپ کامذہب محبت پر مبنی ثابت نہ ہوجائیگا۔

سائل ۔ کیوں نہیں ؟ آخر وہ تین آیات بھی تو خُدا کے الہام سے ہیں۔
(اُن کی منطق دیکھئے) آپ کے قائم کردوہ معیار کے مطابق جس کتاب میں محبت کی تعلیم ہو وہ الہامی ہوسکتی ہے ۔ میری کتاب کے اندر (نہ کہ باہر) محبت کی تعلیم ہے ۔ لہٰذا وہ خُدا کی دی ہوئی کتاب اور دُنیا کا مذہب ہے ۔

راقم ۔ واہ صاحب ! آپ کا فلسفیانہ استدلال خوب ہے ۔دیکھئے اگرکنکروں کے بڑے سے ڈھیر میں تین چار گندم کے دانے پڑ ے ہوں توکیا وہ گندم کا ڈھیر کہلائے گا۔ ؟ ہر گز نہیں ! اسی طرح جس کتاب میں معرکہ آرائیوں نبرد آزمائیوں اورجدال وقتال کی تعلیم کا حصہ غالب ہو۔ اورمحبت کی تعلم محض تین چار آیات تک محدود ہو وہ ہر گز محبت کی تعلیم نہیں ہوسکتی اورنہ ہی وہ خُدا کی عطا کردہ کتاب اوردُنیا کا روحانی دستور العمل ہونے کے قابل ہے ۔ اب انجیل شریف میں متی سے لے کر مکاشفہ تک ۲۷ صحائف میں ایک بھی آیت تلوار ۔ خون ریزی اورعداوت کی موید نہیں ہے ۔ اوراُس کی تمام تعلیم میل ملاپ ،محبت ،برداشت وصبر ،حلِم و فروتنی ۔خود انکاری وایثار ، ہمدردی اورنیکی وپاکیزگی سے بھری پڑی ہے ۔ اس لئے مسیحیت ہی واحد عالمگیر الہٰی مذہب ہے ۔

سائل ۔ گیارھویں صدی سے تیرھویں صدی عیسوی تک مسیحیوں نے مسلمانوں کے سات  جنگیں کیں جن کو '' صلیبی  جنگ '' کہا جتا ہے ۔ تو آپ کس صورت میں ا س داغ کو مسیحیت کے پاکیزہ دامن سے دھو سکتے ہیں۔ کیونکہ تاریخی واقعات کاانکار اہل دانش سے بعید ہے ۔

راقم۔ چونکہ مسلمانوں نے عمداً وقصد اً مسیحیوں کے معابدمقاسہ اورمقامات متبرکہ پر قبضہ جماکر اوراُن کی زیارت وعبادت پر ناحق پابندیاں لگا کر مسیحیوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا۔ اوراُن کی امن پسندی ۔ صرب پروری اورشرافت سے ناجائز فائدہ اُٹھایا اس لئے اگرمسیحی اپنے جائز مطالبات کے حصول کی خاطر لڑے تو محض اس لئے کہ مسلمانوں نے اپنی تحریصات ِنفسانیہ اوراغراض جسمانیہ کے زیر اثر خود اُن کو اس قسم کا قدم اُٹھانے پر مجبور کیا۔

دوم۔ حروب ِصلیبیہ کی علت غائی ملک گیری نہ تھی۔ اورنہ دولت وثروت اوربیگانی عورتیں چھیننے یا بلاوجہ جہاد کرنے کی ہو س نے اُن کے جذبات کو جنگ کے لئے متحرک کیا۔ جیسا کہ مسیحیت کے باہر تمام دیگر اقوام میں ہمیشہ یہ ہوتا آیا ہے ۔

سوم۔ ہندو مسلمان اقوا  نے حق تلفی وظلم  اورمحاربہ ومکابرہ کرکے ہمیشہ اپنی مذہبی کُتب کے فرامین کی تعمیل کی ہے ۔ لیکن مسیحیوں نے صلیبی جنگوں کے ذریعے انجیل  ِمقدس کی خلاف ورزی اورمخالفت  کی ۔ کیونکہ انجیل میں ایک بھی ایسا حُکم نہیں جو جو حروب صلیبیہ کا محرک وہودی ہو۔ بلکہ صاف لکھا ہے ۔تُم جانتے ہو کہ غیر قوموں کے سردار اُن پر حکومت چلاتے اورامیر اُن پر اختیار جتاتے ہیں۔ تُم میں بڑا ہونا چاہئے وہ تمہارا خادم بنے ۔ اورجوتم میں اول ہونا چاہئے وہ تمہاراغلام بنے (متی ۲۰: ۲۵- ۲۷) کیونکہ ہم اگرچہ جسم میں زندگی گزارتے ہیں۔ مگر جسم کے طورپر لڑتے نہیں ۔ اس  لئے کہ ہماری لڑائی کے ہتھیار جسمانی نہیں (۲۔ کرنتھیوں ۱۰: ۳- ۴ ،افیسوں ۶: ۱۰–۱۸)

چہارم۔ اگرکوئی شخص نسخہ استعمال نہ کرے اورمرض سے صحت یاب نہ ہو تو اس سے کُتب حکمت کانقص ثابت نہ ہوگا ۔ اسی طرح اگرکوئی مسیحی لڑائی جھگڑے کرے تو اُس کی اس کجروی کی علت انجیل کی تعلیم کو قرار دینا محض خوش فہمی اورضدہے ۔
جنگی ہتھیاروں کی موجودگی محبت پر دلالت نہیں کرتی ۔ بلکہ زور اورزبردستی پر ۔ اورخُداوند مسیح نے فرمایا۔ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ تلوار ہی سے مارے جائیں گے(متی ۲۶: ۵۲) ''مَیں تُم سے کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اُس کی طرف پھیرے دے ۔ (متی ۵: ۳۹) اگر اہل دُنیا مسیح کے ان اقوال کی تعمیل کرنے لگ جائیں تو آج یہی خارستان (دُنیا ) جنت کا نمونہ بن جائے۔ سائل ۔ پُرانے عہد نامے میں یہودیوں نے مختلف قوموں کے ساتھ متعدد لڑائیاں لڑیں۔ اورتوریت میں جنگ کے خلاف امتناعی احکام کا وجود نابود ہے ۔

راقم۔ توریت کا مذہب مذہب الہٰی کی ناقص حیثیت تھا۔ خُداوند مسیح عہد جدید کے بانی ہوکر اُسی کو کامل کرنے آئے تھے۔ ہرشے کاکمال یہ ثابت کرتا ہے ۔ کہ وہ کسی وقت ناقص اورادھوری تھی۔ مسیحی مذہب توریت کے ناقص مذہب ہی کی کامل حالت ہے  ۔اس لئے انجیلی کامل مذہب کے مقابلے میں توریت کے ناکامل مذہب کو رکھ کر اُس کے نقائص بیان کرنا تحصیل لا حاصل ہے ۔ جس طرح ایک گُنبد کو تعمیر کرنے کے  لئے اُس کے نیچے انیٹوں کا عارضی ساسہارا لگایا جاتا ہے ۔ اور جونہی وہ گُنبد مکمل ہوجاتا ہے تو اُس ماتحت قالب کو  گِرا دیاجاتا ہے ۔ اسی طرح عہد عتیق میں معاشرت ومذہب مخلوط صورت میں تھے۔ عہد جدید میں آکر مذہب الہٰی کمالیت کو پہنچا اورمعاشرت کو اُس سے جد کیاگیا ۔جس طرح پھول اورپھل ایک خاص معیاد تک اکٹھے رہتے ہیں۔ اورجونہی پھل ترقی کرنے لگتا ہے پھول کود بخود جھڑ جا تا ہے ۔ اسی طرح عہد عتیق میں معاشرت ومذہب مخلوط صورت میں تھے۔ اورخُداوند مسیح نے دونوں کویکسر جُدا کردیا۔ اس لئے اس قسم کا اعتراض کرنے سے پہلے انجیل ِمقدس کی پوری واقفیت حاصل کرلینا ضروری ہے ۔ یہ بھی غلط ہے کہ توریت میں خُون ریزی کے خلاف حُکم نہیں ۔ لکھا ہے ۔تو خون نہ کر۔

دوم ۔ ہم لوگ یہودی یا موسائی نہیں بلکہ مسیحی ہیں۔

سوم۔ یہ مانا کہ پُرانے عہد میں یہود کے قومی جنگوں کا ذکر موجود ہے مگر اُن جنگوں کی نوعیت قرآن اورویدک محاربات سے غیر ہے ۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ یہود نے کبھی بھی اپنے مذہب کی جبری اشاعت کی غرض سے دیگر اقوام سے جنگ نہیں کی ۔ اگرمذہبی اشاعت اُن کی جنگوں کی علت غائی تھی تو آپ بائبل مقدس میں سے کوئی ایسا مقام پیش کرکے ثابت کریں۔ اوردوسری بات قابل غور یہ ہے کہ کبھی ان جنگوں کے صاد میں خُدا نے اُنہیں بہشت کی خوشیاں عطاکر نے کا وعدہ نہیں کیا۔ جیسے کہ قرآن وید اورگیتا میں نہایت کھلے الفاظ میں ایسے انعامی اشتہار خُدا کی طرف سے موجود ہیں۔ یہودیوں نے صرف تمدنی وسیاسی اغراض کے حصول کی خاطر غیر اقوام سے محاربے کئے ۔  پس جس سے کی کمی ہو اُسی کی ضرورت ہوا کرتی ہے ۔ دُنیا میں محبت کا سخت افلاس بلکہ قحط ہے ۔ اورمسیحیت صرف یہی شے دُنیا کو بخشسی ہے ۔ اس واسطے وہ دُنیا کی سب سے بڑی روحانی واخلاقی ضرورت کو پورا کرتی اورجنت کے دروازے اُس کے لئے کھولتی ہے ۔اَے منکراِ ن مذہب ! مسیحیت کے حلقہ بگوش ہوکر اطمینان قلبی اورسکون باطنی کوجلد حاصل کریں۔ مذہب سے بیزاری کی وجوہات بیان کردی گئیں۔ اوراُن کا شافی اوربے خطا علاج بھی ہم نے لکھ دیا۔ اب یہ آپ کا اختیار ہے کہ اُس سے فائدہ اُٹھائیں یا نہ اُٹھائیں۔

مطلب ۔ ہر اعلیٰ سے اعلیٰ چیز ہر عزیز سے عزیز ہستی جس سے تمہیں جُدا ہونا پڑے اس دنیا میں کسی نہ کسی شکل میں اُس کو عوض مل سکتا ہے ۔ لیکن یاد رکھو اگر اللہ سے جُدا ہوجاو گے تو اُس کا بدل کہیں نہیں پاو گے۔

مسیحیت کی مخالفت

لوگ مسیحیت پر واہبات اعتراضات کی بوچھاڑ کرکرے اُس کی شان کو گھٹانے کی ہمیشہ اس لئے کوشش کرتے ہیں ۔ کہ ۔

اول ۔ وہ جانتے  ہیں کہ مسیحیت کا معیار روحانی بہت بلند ہے ۔ جب وہ اپنے مذہبی اصولوں کو مسیحیت کی لاثانی تعلیمات کے مقابلہ میں کمزور اورحقیر دیکھتے ہیں تو اُن کو جھٹ یہی تجویز سوجھتی ہے کہ چونکہ ہمارے اصول تومسیحیت کی بلند ی تک پہنچے سے قطعی قاصر ہیں۔ اس لئے کس طرح انجیلی اصولوں کی جاو بیجا تاویلیں کرکے اوراُن کو گھٹا کرا پنے برابر کرلیں۔ وہ مسیحیت کے ججج قطعیہ اوربراہین شافیہ کے بالمقابل مشککا نہ دلائل سے صف آراء ہیں۔ لیکن مسیحیت کے نور کر پھونکوں سے بھجنا  محال ہے ۔

دوم۔ وہ مسیحیت کو ایک بدیشی مذہب سمجھتے ہوئے بدیشی حکومت کی طرح اُس سے بھی دامن چھڑانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ مذہب صرف حوائج روحانیہ واخلاقیہ کی تسکین وآسودگی کا ذمہ داری ہے ۔ اورحکومت محض جسمانی ونفسانی خواہشات کو پورا کرنے کا ذریعہ ہے ۔ جس قدر رُوح جسم سے اعلیٰ ہے اُسی قدر مذہب کا نکتہ نظر حکو مت سے بدرجہا اعلیٰ وارفع ہے ۔ ایسے لوگوں کو خوب جان نینا چاہئے کہ مسیحیت مغربی مذہب نہیں بلکہ ایشیائی ہے ۔یعنی اُس نے جنم ایشیا میں لیا تھا تاکہ کُل دُنیا کا دستور العمل ہوکر اپنی روحانی واخلاقی برکات وحسنا ت کو من حیث الاجتماع تمام صفحہ گیتی پرپھیلادے ۔ اورتمام اقوام عالم کو واحد برداری بنا کر ذات پات اوررنگ ونسل کے امتیازات کی جان فاتحہ پڑھ دے۔

سوم۔ لوگ مسیحیت کے اس لئے بھی مخالف ہیں کہ مسیحی مذہب ادنی ٰ واعلیٰ کے امتیازات کی نفی کو ایک آنکھ دیکھ نہیں سکتا ۔ اورمسیحیت کا سب سےبڑا مدعایہی ہے کہ آقا وغلام اورمحمود وایاز کو ایک ہی سلک اتحاد واشتراک میں منسلک کرکے دنیا کو ایک واحد برداری بنادے ۔تُم سب جتنوں نے مسیح میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا مسیح کو پہن لیا۔ نہ کوئی یہودی رہانہ یونانی ۔ نہ کوئی غلام نہ آزاد ۔ نہ کوئی مرد نہ عورت کیونکہ تُم سب مسیح یسوع میں ایک ہو(گلتیوں ۳: ۲۷- ۲۸ ؛کلسیوں ۳: ۱۱) چونکہ اس قسم کے مسادات کے قیام کادوسرا نام اعلیٰ اقوام کی امتیازی عظمت اوربزرگی کی نفی ہے ۔اس لئے لازمی امر ہے ۔ کہ وہ مسیحیت کی پنپتی ہوئی دیکھ کر گل حکمت کی ہنڈیاں کی طرح اندر ہی اندر چرغ کھایا کریں۔ اس کامقاطعہ کریں اورا سکی جلاوطنی کی دعائیں مانگا کریں لیکن اگردعائے فطلاں مستجاب بودے یک معلم درعالم زندہ نہ ماندے۔

چہارم۔ جب ایک ڈاکٹر مریض پر جراحی عمل کرتا ہے ۔ توشدت درد کے باعث مریض اکثر بے اختیار ہوکر ڈاکٹر کو کوستا ہے ۔ اورڈاکٹر کو اپنا دشمن سمجھتا ہے تاہم ڈاکٹر مریض کی بھلائی کی خاطر اس طعن وتشنیع کی مطلق پرواہ نہیں کرتا۔ اسی طرح روحانی مریضوں کو مرض عصیاں اورعارضہ جہالت سے آزاد کرنے کے لئے جو عمل مسیحیت کررہی ہے وہ ہے تو اُن کے لئے کثیر المنفعت لیکن عارضی طورپر  وہ بلاوجہ مسیحیت کے خلاف شور مچار رہے ہیں۔ لیکن مسیحیت کروڑوں جانوں کی سلامتی اوربہتری کی اُمید پر اس تمام مخالفت ومخاصمت اورمُنافرت کی طرف سے آنکھیں بند کرچکی ہے ۔

ہم تو سمجھتے ہیں کہ مخالفین مسیحیت معازنین مسیحیت ہیں۔ اگروہ منفی ہیں تو مسیحیت مثبت ،برق ہمیشہ منفی ومثبت کے اتصال ہی سے پیدا ہوتی ہے ۔ جس قدر مخالفت شدید اوراُس کے خطرات عظیم ہوتے ہیں۔ اُسی قدر خود حفاظتی اورمقابلہ کے سامان عظیم ہوتے ہیں۔ اگر مخالفت اورخطرہ نہ ہوتو مضبوطی اوراستقلال کی نفی ہوگی ۔ ہم مشکور ہیں اُن مخالفین کے جو مسیحیت کے لئے وجہ استحکام ہیں۔

Pages