Original Sources of the Qur'an

ماخذ القرآن

شیخ الاسلام حضرت علامہ سینکلر ڈاکٹر ٹسڈل صاحب


THE ORIGINAL SOURCES OF THE QUR'AN

 

BY THE

REV. W. ST. CLAIR TISDALL, M.A., D.D.


SOCIETY FOR PROMOTING CHRISTIAN KNOWLEDGE

LONDON: Northumberland Avenue, W.C.;
43 Queen Victoria Street, E.C.;
BRIGHTON: 129 North Street
NEW YORK: E. S. Gorham
1905

 

فہرست مضامین
صفحہ   ابواب
پہلا باب تمہید ۴
دوسرا باب اسلام پر قدیم عربی عقائد ورسوم کا اثر ۱۲
تیسرا باب اسلام اور صابی ویہودی خیالات ۲۰
چوتھا باب اسلام پر نصرانیت اور عیسائیوں کی مشکوک کتب کا اثر ۶۰
پانچواں باب قرآن واحادیث میں زردشتی عنصر ۹۲
چھٹا باب فرقہ حنیف اوراس کا اثر ابتدائی اسلام پر ۱۱۱

 

ماخذ القرآن

پہلا باب

تمہید

قدیم یونانی حکیم دیمو قریطس  Democritus  ۱   کے اس قول میں بہت کچھ صداقت ہے کہ’’کوئی چیز عدم سے وجود میں نہیں آئی‘‘۔ چنانچہ اس کلیہ سے یقیناً مذہب اسلام بھی مستثنیٰ نہیں،چونکہ اس مذہب نے تاریخ بنی نوع انسان میں نہایت اہم نتائج پیدا کئے ہیں اور اب بھی بہت سے مشرقی ممالک میں اس کا بڑا اثر پایا جاتا ہے۔اس لئے ہر اس شخص کے لئے جو مذہبی،تاریخی یا خالص فلسفیانہ نقطۂ نظر سے تاریخ نوع بشر کی تفتیش وتحقیق کرنا چاہتا ہے،مذہب اسلام کے ماخذ کی تفتیش کرنا ضرور باعث دلچسپی ہو گا۔جرمنی میں اسپرنگر ووِیل  Gustav Weil ۲   اور انگلستان میں سرولیم میور  Sir William Muir  ۳   نے جو کچھ لکھا ہے اس سے ہم کو’’سیرتِ محمدی‘‘ اور تاریخ دنیائے اسلام کے متعلق خاطر خواہ معلومات بہم پہنچتی ہیں۔اس لئے ہم کو یہاں سیرت محمدی اور تاریخ اسلام پر بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ ان کو دین اسلام براہِ ر ا ست محمدﷺ سے پہنچا ہے۔وہ محمدﷺ کو’’خاتم النّبِیِین (خاتم الاَنبیاء)‘‘ اور’’سید المرسلین‘‘ کہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے مذہب کا مدار قرآن مجید ہے۔اس کے علاوہ مسلمان ان احادیث کو بھی اہمیت دیتے ہیں جو بسلسلۂ روایت خاص محمدﷺ تک پہنچتی ہیں اور جنہیں عرصۂ درازبعد قلم بند کیا گیا تھا۔الغرض مسلمانوں کے نزدیک قرآن و حدیث یہی د و چیزیں ہیں جن پر اسلام کی بنیاد قائم ہے۔مسلمان پرانے مفسرین قرآن کو بھی بہت اہمیت دیتے ہیں اور علماو فقہا متقدمین نے فقہ میں جو کچھ استخراج (نکالنا) و استنتاج (نتیجہ نکالنا) ان قدیم تفاسیر سے کیا ہے اسے بھی بہت اہم سمجھتے ہیں۔مگر ہم کو’’ماخذ قرآن‘‘ کی تحقیقات میں موخر الذکر باتوں سے زیادہ تعلق نہیں۔اگر ہے تو صرف اسی قدر کہ ان سے مسلمانوں کے اصلی معتقدات پر کیا روشنی پڑتی ہے۔ہماری تحقیقات میں احادیث کو بھی ثانوی درجہ دیا جائے گا،کیونکہ یورپین نقطۂ نظر سے ان کی صحت بہت مشتبہ ہے۔علاوہ ازیں مسلمانوں کے مختلف فرقے مختلف کتب احادیث کو مستند یا صحیح سمجھتے ہیں ،بلکہ خود جامعین احادیث بھی یہ کہتے ہیں کہ ان کی کتابوں میں بہت سی حدیثیں ایسی ہیں جن کی صحت مشتبہ ہے۔

چونکہ احادیث کا تعلق زیادہ تر محمدﷺ کے اقوال و افعال سے ہے اس لئے ایسی حالتوں میں جہاں ان احادیث سے بعض مواقع پر تعلیم قرآن کی تشریح و توضیح ہوتی ہے،ہم وقتاً فوقتاً ان احادیث کا بھی حوالہ دیں گے۔کیونکہ قرآن مجید میں بعض مقامات ایسے مبہم ہیں جن کی وضاحت و تشریح کے لئے احادیث سے کام لینے کی ضرورت پڑتی ہے،مثلاً قرآن مجید کی پچاسویں سورۃ کا نام’’سورۂ ق‘‘ ہے اور اُسے اسی نام کے عربی حرف یعنی’’ق‘‘ کے ذریعہ لکھا جاتا ہے۔اس لئے یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ اس ’’ق‘‘ کے کیا معنی ہیں تاوقتیکہ احادیث سے کام نہ لیا جائے، کیونکہ انہیں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کوہ قاف کی نسبت جس کا سورۂ مذکور میں ذکر ہے،ان کا کیا خیال تھا۔علاوہ بریں قرآن مجید کی سورۃ نمبر۱۷ کانام’’بنی اسرائیل‘‘ ہے جس کی ابتدائی آیتوں کا مفہوم یہ ہے’’حمدو ثنا اس کی جس نے سیر کرائی اپنے بندہ کو ایک رات میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک وغیرہ‘‘۔ان آیات کے معنی سمجھنے کے لئے ہم کو احادیث کی طرف ر جوع کرنا پڑے گا جو’’معراج محمدی‘‘ کے متعلق پائی جاتی ہیں۔مسلمانوں کے عقائد اور مذہبی رسوم پر بحث کرتے ہوئے ہمارا دستور العمل یہ رہے گا کہ ہم کسی ایسی تعلیم یا رسم سے بحث کریں گے جس کی بابُت ظاہراً یا معناً قرآن کا کوئی حکم موجود نہ ہو یا جس کا ذکر مستند احادیث میں نہ پایا جاتا ہو۔

یہاں یہ امر ظاہر کر دینا مناسب نہ ہو گا کہ اگرچہ صحیح و مستند احادیث کو ایک حد تک وحی کا مرتبہ دیا جائے۔بایں ہمہ ان کا مرتبہ نصوص قرآنی کے برابر نہیں سمجھا جاتا بلکہ ثانوی درجہ دیا جاتا ہے۔اس طرح وحی کی دو قسمیں کر دی گئی ہیں یعنی (۱) وحی متلو اور (۲)وحی غیر متلو۔قرآن مجید کو وحی متلو کہا جاتا ہے کیونکہ مسلمان اسی کو خدا کا کلام سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ قاعدہ مقرر ہے کہ اگر کوئی حدیث خواہ کتنی ہی مستند ہو،قرآن مجید کی کسی ایک آیت کے بھی خلاف ہو،رد کر دی جائے گی۔مسلمانوں کے عقائد پر بحث کرتے ہوئے اس قاعدہ کی پابندی اس لئے مناسب ہے کہ اس طرح ہم احادیث کے صحیح یا موضوع ہونے کی بحث سے بچ جائیں گی۔

تاریخ قرآن کی بابت ہم کو پوری طرح قابل اطمینان معلومات حاصل ہیں۔جہاں کوئی سورۃ نازل ہوئی اور رسول کی زبان سے ادا ہوئی اسی وقت مسلمان کاتبوں نے جن کی تعداد بہت زیادہ تھی فوراً اس چیز پر جو ان کے ہاتھ آئی لکھ لیا۔ محمدﷺ کے زمانہ میں مکہ والے لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔اور بیان کیا جاتا ہے کہ جب کچھ مکہ والے اسیر ہوئے تو ان کو اس شرط پر رہائی دی گئی کہ وہ مدینہ کے کچھ آدمیوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔الغرض خواہ قرآن کی آیتیں اسی وقت لکھ لی گئی ہوں یا نہ لکھ لی گئی ہوں،مگر ان کو فوراًً حفظ کر لیا جاتا تھا اور پھر نماز کے وقت یا دیگر مواقع پر دوسرے مسلمانوں کو پڑھ کر سنا دی جاتی تھیں۔اگر کسی آیت کی صحت کے متعلق کسی قسم کا شک وشبہ واقع ہوتا تو صحابہ محمدﷺ سے دریافت کر لیا کرتے تھے۔احادیث سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ کی زندگی میں ازواج مطہرات کے گھروں میں بعض سورتیں یا آیتیں لکھی ہوئی محفوظ تھیں جن میں سے بعض کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ضائع ہوگئی تھیں اور پھر دستیاب نہ ہوئیں۔وقتاً فوقتاً نبی ہدایت فرمایا کرتے تھے کہ جدید نازل شدہ آیات کو فلاں فلاں سورۃ میں داخل کر دیا جائے اور ان سورتوں کے نام بھی رکھ دیئے گئے تھے جو آج تک اسی طرح چلی آتی ہیں۔مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس باب میں کوئی قاعدہ مقرر نہ تھا کہ ان سورتوں کی ترتیب کس طریقے سے کی جائے۔ہر سورۃ دوسری سورۃ سے کم و بیش بے تعلق اور بذات خود مکمل تھی۔قرآن مجید کی سورتیں حفظ کر لینے سے صرف یہی ظاہر نہیں ہوتا کہ حفاظ اپنے نبی کی محبُت کے باعث اس قدر محنت شاقہ کرتے تھے،بلکہ ان کا یہ عمل سرمایۂ عزت و دولت بھی تھا کیونکہ قرون اولیٰ میں جن لوگوں کو قرآن کی زیادہ آیتیں یا د ہوتی تھیں وہ نماز میں امامت کرنے کے زیادہ مستحق سمجھے جاتے تھے۔علاوہ ازیں ان کو بمقابلہ دیگر مسلمانوں کے مال غنیمت بھی زیادہ ملتا تھا۔

صحیح بخاری سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ کی وفات سے ایک سال بعد قرآن مجید کو سب سے پہلی مرتبہ ایک جگہ جمع کیا گیا۔یہ خدمت ابو بکر کے حکم سے محمدﷺ کے صحابی اور کاتب وحی زید بن ثابت نے انجام دی تھی۔اس جمع القرآن کی وجہ یہ ہوئی کہ جب جنگ یمامہ (۱۲ ہجری) میں بہت سے حفاظ شہید ہوگئے تو عمر بن خطاب کو اندیشہ ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو وحی ربّانی جزواً یا کلاً ضائع ہو جائے۔لہٰذا انہوں نے خلیفۃ الرسول (ابوبکر صدیق) پر زور دیا کہ وہ منتشر سورتوں کے جمع کرنے کا حکم دیں تاکہ انہیں ایک مستند تحریری صورت میں محفوظ کر لیا جائے۔زید بن ثابت نے اس حکم کی تعمیل کرنے میں اول اول تو کسی قدر پس و پیش کیا کیونکہ نبی نے اپنی حیات میں ایسا کرنے کا کوئی حکم نہیں دیا تھا ،مگر بالآخر مان گئے۔خود زید بن ثابت کے الفاظ یہ ہیں:

صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ فضائل قرآن ۔ حدیث ۲۲۲۲

قرآن جمع کرنے کا بیان۔

راوی: موسیٰ بن اسماعیل , ابراہیم بن سعد , ابن شہاب , عبید بن سباق , زید بن ثابت

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَکْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عِنْدَهُ قَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي فَقَالَ إِنَّ الْقَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّائِ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَخْشَی أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّائِ بِالْمَوَاطِنِ فَيَذْهَبَ کَثِيرٌ مِنْ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَرَی أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ لِعُمَرَ کَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عُمَرُ هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي حَتَّی شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِذَلِکَ وَرَأَيْتُ فِي ذَلِکَ الَّذِي رَأَی عُمَرُ قَالَ زَيْدٌ قَالَ أَبُو بَکْرٍ إِنَّکَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُکَ وَقَدْ کُنْتَ تَکْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعْ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ فَوَاللَّهِ لَوْ کَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنْ الْجِبَالِ مَا کَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ کَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ أَبُو بَکْرٍ يُرَاجِعُنِي حَتَّی شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنْ الْعُسُبِ وَاللِّخَافِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ حَتَّی وَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ التَّوْبَةِ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهِ لَقَدْ جَائَکُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَتَّی خَاتِمَةِ بَرَائَةَ فَکَانَتْ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَکْرٍ حَتَّی تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

’’ موسی بن اسماعیل، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، عبید بن سباق، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ یمامہ کی خونریزی کے زمانہ میں مجھ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بلا بھیجا اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں بہت سے قرآن پڑھنے والے شہید ہو گئے ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ بہت سے مقامات میں قاریوں کا قتل ہوگا تو بہت سا قرآن جاتا رہے گا اس لئے میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے جمع کرنے کا حکم دیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تم کیونکر وہ کام کرو گے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا حضرت عمر نے کہا اللہ کی قسم! یہ بہتر ہے اور عمر مجھ سے بار بار اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے میرا سینہ کھول دیا اور میں نے بھی اس میں وہی مناسب خیال کیا جو عمر نے خیال کیا زید کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے کہا کہ تم ایک جوان آدمی ہو ہم تم کو متھم بھی نہیں کر سکتے اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وحی لکھتے تھے اس لئے قرآن کو تلاش کر کے جمع کرو اللہ کی قسم! اگر مجھے کسی پہاڑ کو اٹھانے کی تکلیف دیتے تو قرآن کے جمع کرنے سے جس کا انہوں نے مجھے حکم دیا تھا زیادہ وزنی نہ ہوتا میں نے کہا کہ آپ لوگ کس طرح وہ کام کریں گے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اللہ کی قسم یہ خیر ہے اور بار بار اصرار کرکے مجھ سے کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ اس کے لئے کھول دیا جس کے لئے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینے کھولے تھے چنانچہ میں نے قرآن کو کھجور کے پٹھوں اور پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں ‎‎ (حافظہ) سے تلاش کرکے جمع کرنا شروع کیا یہاں تک کہ سورت توبہ کی آخری آیت میں نے ابوخزیمہ انصاری کے پاس پائی جو مجھے کسی کے پاس نہیں ملی اور وہ آیت یہ تھی (لَقَدْ جَا ءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ) ۹۔ التوبہ : ۱۲۸) سورت براۃ ‎‎ (توبہ) کے آخر تک چنانچہ یہ صحیفے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اٹھالیا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کی زندگی میں پھر حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس رہے۔

’’جمع القرآن‘‘ کے لفظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے قرآن ایک مکمل مجموعی صورت میں نہ تھا اور اس لئے وہ جذبۂ عزت و احترام جو اپنے آقا کے ساتھ زید بن ثابت کے دل میں پایا جاتا تھا،ان کو ہرگز اس بات کی اجازت نہ دے سکتا تھا کہ قرآن کی جو سورتیں انہوں نے حفاظ سے سنیں یا مختلف اشیا پر لکھی ہوئی پائیں،ان میں کسی قسم کی بھی کمی یا بیشی کریں۔یہ واقعہ کہ بہت سی باتیں قرآن میں ایسی بھی موجودہیں جو محمدﷺ کےادعائے )اِدِّعا۔دعویٰ کرنا۔بے دلیل بات کہنا)مامور میں اللہ ہونے کے خلاف ہیں،اس امر کا فیصلہ کن ثبوت ہے کہ زید بن ثابت نے اس کام کو جواُن کے سپرد کیا گیا تھا انتہائی دیانت داری سے انجام دیا۔الغرض زید بن ثابت نے سال دو سال کے عرصہ میں قرآن کی تمام سورتیں جمع کر لیں اور ہر سورت کو علیٰحدہ علیٰحدہ لکھ لیا۔

اس امر کے باور کرنے کےوجوہ ہیں کہ قرآن مجید کی سورتوں کی موجودہ ترتیب اسی زمانہ سے چلی آتی ہے،مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ترتیب کسی اصول یا طریقہ پر قائم کی گئی تھی۔سورۂ فاتحہ کو بے شک بطور مقدمۃ القرآن سب سے پہلے رکھا گیا جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورۃ تمام دنیائے اسلام میں نماز کا جزو تھی اور اس لئے ہر شخص کو اچھی طرح یاد تھی۔دیگر سورتوں کو اس طرح ترتیب دیا گیا کہ سب سے بڑی سورۃ سب سے پہلے رکھی گئی اور سب سے چھوٹی سورۃ بالکل اخیر میں،مگر یہ ترتیب تاریخی ترتیب کے قطعی خلاف ہے۔احادیث سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ اکثر سورتوں کی شان نزول کیا ہے اور کن حالات کے تحت ان سورتوں کی بعض آیات’’بذریعہ وحی‘‘ نازل ہوئی تھیں۔ مگر ہم کو اپنی موجودہ تحقیقات میں اس معاملہ پر بحث کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔زید بن ثابت نے اپنا کام ختم کرکے قرآن کا وہ مخطوطہ جو یقیناً خط کونی میں تحریر ہو گا حضرت ابوبکر کے حوالہ کر دیا،جنہوں نے اس کو اپنی وفات تک محفوظ رکھا۔اس کے بعد وہ قرآن حضرت عمر کی حفاظت میں رہا۔عمر کی شہادت کے بعد ان کی صاحبزاد ی حفصہ کے قبضہ میں جو ا ز و اج مطہرات میں سے ایک تھیں۔اس کے بعد علیٰحدہ علیٰحدہ سورتوں کی نقلیں اس قرآن مجید سے یا ان تحریروں سے کی گئیں جن سے زید نے نقل کی تھی اور اس طرح حفاظ جو قرآن مجید کو پڑھتے تھے اس میں رفتہ رفتہ غلطیاں یا اختلاف قرأت پیدا ہو گیااور ممکن ہے کہ جو سورتیں الگ الگ نقل کی گئی تھیں ان میں یہ بات پیدا ہوگئی ہو۔

اس زمانہ میں عربی زبان کی بہت سی قرأتیں رائج تھیں۔اس لئے اول تو بعض الفاظ کی تشریح و توضیح کرنے کی ضرورت پڑی ہو گی،بعد ازاں یہ بھی اجازت دے دی گئی ہو گی کہ ہر شخص اپنی قرأۃ کے مطابق الفاظ اصلی عبارت میں داخل کر لے۔الغرض بعض محتاط مسلمانوں کو اس سے بہت پریشانی پیدا ہوئی۔بالآ خر عثمان کو جبکہ وہ فتوحات آرمینیا و آذربائیجان میں مصروف تھے،حذیفہ ابن الیمان نے اس خطرہ سے آگا ہ کیا اور کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو،اس طرح اصلی قرآن میں خرابیاں پڑ جائیں۔بخاری میں لکھا ہے کہ حذیفہ نے عثمان سے اس طرح کہا:

صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ فضائل قرآن ۔ حدیث ۲۲۲۳

قرآن جمع کرنے کا بیان۔

راوی: موسیٰ , ابراہیم , ابن شہاب , انس بن مالک

حَدَّثَنَا مُوسَی حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ حَدَّثَهُ أَنَّ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ قَدِمَ عَلَی عُثْمَانَ وَکَانَ يُغَازِي أَهْلَ الشَّأْمِ فِي فَتْحِ إِرْمِينِيَةَ وَأَذْرَبِيجَانَ مَعَ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَأَفْزَعَ حُذَيْفَةَ اخْتِلَافُهُمْ فِي الْقِرَائَةِ فَقَالَ حُذَيْفَةُ لِعُثْمَانَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَدْرِکْ هَذِهِ الْأُمَّةَ قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الْکِتَابِ اخْتِلَافَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَی فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَی حَفْصَةَ أَنْ أَرْسِلِي إِلَيْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُهَا فِي الْمَصَاحِفِ ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْکِ فَأَرْسَلَتْ بِهَا حَفْصَةُ إِلَی عُثْمَانَ فَأَمَرَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَسَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ فَنَسَخُوهَا فِي الْمَصَاحِفِ وَقَالَ عُثْمَانُ لِلرَّهْطِ الْقُرَشِيِّينَ الثَّلَاثَةِ إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِي شَيْئٍ مِنْ الْقُرْآنِ فَاکْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ فَفَعَلُوا حَتَّی إِذَا نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ رَدَّ عُثْمَانُ الصُّحُفَ إِلَی حَفْصَةَ وَأَرْسَلَ إِلَی کُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِمَّا نَسَخُوا وَأَمَرَ بِمَا سِوَاهُ مِنْ الْقُرْآنِ فِي کُلِّ صَحِيفَةٍ أَوْ مُصْحَفٍ أَنْ يُحْرَقَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ قَالَ فَقَدْتُ آيَةً مِنْ الْأَحْزَابِ حِينَ نَسَخْنَا الْمُصْحَفَ قَدْ کُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ بِهَا فَالْتَمَسْنَاهَا فَوَجَدْنَاهَا مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَأَلْحَقْنَاهَا فِي سُورَتِهَا فِي الْمُصْحَفِ

’’موسی ، ابراہیم، ابن شہاب، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حزیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اس وقت وہ اہل شام و عراق کو ملا کر فتح آرمینۃ و آذربائیجان میں جنگ کر رہے تھے قرأت میں اہل عراق و شام کے اختلاف نے حضرت خزیفہ کو بے چین کردیا چنانچہ حضرت حزیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اے امیرالمومنین! اس امت کی خبر لیجئے قبل اس کے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی طرح کتاب میں اختلاف کرنے لگیں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حفصہ کو کہلا بھیجا کہ تم وہ صحیفے میرے پاس بھیج دو ہم اس کے چند صحیفوں میں نقل کرا کر پھر تمہیں واپس کردیں گے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ صحیفے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیج دیئے حضرت عثمان نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سعید بن عاص، عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام کو حکم دیا تو ان لوگوں نے اس کو مصاحف میں نقل کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان تینوں قریشیوں سے کہا کہ جب تم میں اور زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں کہیں ‎‎ (قرآت) قرآن میں اختلاف ہو تو اس کو قریش کی زبان میں لکھو اس لئے کہ قرآن انہیں کی زبان میں نازل ہوا ہے چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ جب ان صحیفوں کو مصاحف میں نقل کرلیا گیا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ صحیفے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بھجوا دیئے اور نقل شدہ مصاحف میں سے ایک ایک تمام علاقوں میں بھیج دیئے اور حکم دے دیا کہ اس کے سوائے جو قرآن صحیفہ یا مصاحف میں ہے جلا دیا جائے ابن شہاب کا بیان ہے کہ مجھ سے خارجہ بن زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول نقل کیا کہ میں نے مصاحف کو نقل کرتے وقت سورت احزاب کی ایک آیت نہ پائی حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا تھا ہم نے اسے تلاش کیا تو وہ آیت مجھے حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری کے پاس ملی ‎‎ (وہ آیت یہ ہے) ‎‎ (مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ الخ) ۳۳۔ الاحزاب : ۲۳) یعنی ایمانداروں سے آدمی ہیں جنہوں نے اللہ سے کیا ہوا وعدہ سچ کر دکھایا تو ہم نے اس آیت کو اس سورت میں شامل کردیا۔

اس کے بعد عثمان نے قرآن کا اصلی نسخہ حفصہ کو واپس کردیا اورجو نسخہ نقل کیا گیا تھا اس کی نقلیں بطورنمونہ ہرجگہ ارسال کردیں اوراس کے سوائے تمام اوراق ومجلدات قرآن کے جلادینے کا حکم صادر فرمادیا   ۴  

ممکن ہے کہ خلیفۂ عثمان کی یہ کارروائی ہم کو قابل اعتراض معلوم ہو۔مگر سچ پوچھئے تو اس کارروائی کی وجہ سے آج تک تمام اسلامی ممالک میں قرآن مجید اپنی اصلی صورت میں موجود ہے اور اب اگر معدودے چند اختلافاتِ قرأت مختلف رائج الوقت قرآنوں میں نظر آتے بھی ہیں تو وہ صرف حروف ’’ت‘‘،’’ی‘‘ اور’’ ن‘‘ کے نقطوں کے مقامات سے تعلق رکھتے ہیں۔کیونکہ خط کوفی کے اندر ان حروف کے لئے کوئی تفریقی نشان امتیاز مقرر نہ تھا۔

لہٰذا اب ہم اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ اس وقت بھی وہی قرآن موجود ہے جو محمدﷺ نے چھوڑا تھا۔لہٰذا ہم قرآن مجید کے متن کی صحت پر کامل یقین رکھتے ہوئے اس کتاب کا مطالعہ اس نظر سے کر سکتے ہیں کہ یہ معلوم کریں کہ محمدﷺ نے کیا تعلیم دی تھی اور اس کا ماخذ کیا تھا۔’’ماخذ القرآن‘‘ پر بحث کرتے ہوئے سب سے پہلے یہ مناسب ہو گا کہ اس باب میں ممتاز و سریر آوردہ علما وفقہا ئےاسلام نے جو کچھ کہا ہے اس پر غور کیا جائے اور تحقیقات کی جائے کہ جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں اس کی تائیدنصوص قرآنی سےبھی ہوتی ہے یا نہیں۔اس کے بعد ہم غور کریں گے کہ ان علما کے بیانات صحیح ہیں یا نہیں اور وہ ہمارے لئے قابل قبول ہو سکتے ہیں یا نہیں۔

دنیا،اسلام کے اس قول سے اچھی طرح واقف ہے کہ’’قرآن خود خدا کا کلام ہے جو آفرینش عالم (پیدائش عالم) سے بھی بہت عرصہ پیشتر پروردگار عالم نے’’لوح محفوظ‘‘پر درج فرما دیا تھا۔اگرچہ خلیفہ المامون کے زمانے میں اور اس کے بعد اس مسئلہ پر سخت جھگڑے ہوئے ،یعنی ایک جماعت تو یہ کہتی تھی کہ قرآن’’ازلی ‘‘ہے اور دوسری یہ کہتی تھی کہ قرآن’’مخلوق‘‘ ہے۔لیکن ہم اس وقت اس بحث میں نہیں پڑتے۔ بہرحال مسلمان ہمیشہ سے یہی کہتے چلےآئے ہیں کہ قرآن محمدﷺ یا کسی دیگر انسان کی تصنیف کردہ کتاب نہیں بلکہ جزواً و کلاً خدا کا کلام ہے اور اس کلام کے پیامبر محمدﷺ تھے۔احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کو جبرائیل امین لیلۃ القدر میں اعلیٰ طبقات آسمانی سے زیریں طبقات تک لائے۔بعد ازاں تمام سورتیں اور تمام آیتیں بتدریج محمدﷺ کے دل میں ڈال کر ان کی زبان سے ادا کرائیں۔لہٰذا قرآن میں کوئی چیز ایسی نہیں جو انسان کی بنائی ہوئی ہو۔وہ بالکل اور قطعی خدا کی طرف سے نازل شدہ کتا ب ہے۔

اس خیال سے کہ لوگوں پر یہ بات پوری طرح روشن ہو جائے کہ واقعی راسخ العقیدہ اور پرانے خیال کے مسلمانوں کا اس معاملہ میں یہی عقیدہ ہے،ہم ذیل میں دو اقتباسات مشہور و معروف مصنف علامہ ابن خلدون   ۵   کی کتاب سے درج کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ:

’’پس جان لو کہ قرآن عربوں کی زبان میں نازل ہوا۔اس کے جملہ اسالیب ِبلاغت عربوں ہی کے ہیں۔وہ سب اس کو سمجھتے تھے۔وہ اس کے تمام مختلف مفرد الفاظ و تراکیب کے معنی سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ ایک کا تعلق دوسرے سے کیا ہے۔قرآن نجماً نجماً نازل ہوتا رہا تاکہ لوگوں کو حسب ضرورت فرائض دینی اور توحید باری تعالیٰ سکھائے۔بعض آیات میں عقائد ایمانی ہیں اور بعض میں دستور العمل کے احکام ہیں ‘‘۔   ۶  

ایک دوسرے مقام پر یہی مصنف لکھتا ہے کہ:

’’یہ سب کچھ تمہارے لئے اس بات کا ثبوت ہے کہ جملہ کتب سماویہ میں صرف قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جو بذریعہ وحی ہمارے نبی پر انہی کلمات اور انہی تراکیب کے ساتھ نازل ہوئی جن میں وہ پڑھا جاتا ہے،برخلاف توریت و انجیل و دیگر کتب سماویہ کے جن کے معانی و مطالب انبیا کو اِلقاکئے گئے تھے جبکہ وہ حالت وحی میں ہوتے تھے اور جب وہ انبیا حالت بشری میں آتے تھے تو وہ اپنی وحی کے معنی و مطالب لوگوں کو سمجھا دیتے تھے ،اپنے الفاظ میں۔پس ان دیگر کتابوں میں کوئی اعجاز نہیں‘‘۔   ۷  

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ علمائے اسلام اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ دیگر انبیا جو قبل از محمدﷺ مبعوث ہوئے تھے وہ انسانوں کے لئے پیغام ربّانی ضرور لائے تھے،مگر بایں ہمہ ان کا دعویٰ ہے کہ قرآن کی وحی اپنے مرتبہ اور قسم میں اس الہام سے مختلف ہے جس کے ذریعہ سے دیگر کتب سماوی مثلاً توریت و انجیل نازل ہوئی تھیں۔ ان کتب کے مصنفین کے دلوں میں کسی طریقہ سے خیالات اِلقا کئے گئے تھے،لیکن جس زبان میں ان انبیا نے ا ن خیالات کو لوگوں پر ظاہر کیا وہ ان کی ذاتی زبان تھی۔پس وہ کتب تصانیف بشری کہے جانے سے زیادہ کسی اور درجہ کی مستحق نہیں ہو سکتیں۔اس کے خلاف محمدﷺ نے جبرائیل کو بآواز بلند یا ایسی آواز میں جو بخوبی سمجھ میں آسکتی تھی،قرآن کا ہر لفظ اسی ترتیب کے ساتھ پڑھتے سنا جیسا کہ وہ آسمان پر’’لوح محفوظ ‘‘ پر لکھا ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ عربی اہل بہشت اور ملائکہ کی زبان ہے۔ ‏پس قرآن میں بجنسہٖ وہی الفاظ ہیں جو خود خدا نے فرمائے تھے۔قرآن کے تمام الفاظ،تما م استعارات،تمام خیالات ،تمام بیانات اور تمام اسالیب کلاًو کاملاً خدا کی طرف سے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ علمائے اسلام کا یہ دعویٰ بالکل بیانات قرآن کے مطابق ہے۔اصلی آسمانی قرآن کو ’’ اُم الکتاب‘‘   ۸   کہا گیا ہے۔علاوہ ازیں قرآن کے مختلف نام اورا س کے مختلف اوصاف دیگر مختلف مقامات پر بیان کئے گئے ہیں،مثلاً ’’یہ ایک برگزیدہ قرآن ہے جو لوح محفوظ پر ہے   ۹  ‘‘ (سورۂ برج)۔خود لفظ’’قرآن ‘‘ کے معنی اس چیز کے ہیں جو پڑھی جائے۔ایک دوسری جگہ یہ لکھا ہے کہ خداوند تعالیٰ نے محمدﷺ کو حکم دیا کہ کہو’’تمہارے اور میرے درمیان خدا شاہد ہے اور یہ قرآن مجھ پر بذریعہ وحی نازل ہوا تاکہ میں تم کو آگاہ کروں   ۱۰   ‘‘ (سورۂ انعام آیت۱۹)۔ اسی طرح سورۃ القدر   ۱۱   میں خدا کو اس طرح کہتا دکھا یا گیا ہے کہ’’ بتحقیق ہم نے نازل کیا اس کو شب قدر میں‘‘۔اسی قسم کی بہت سی آیتیں نقل کی جا سکتی ہیں۔

لہٰذا علمائے اسلام کا عقیدہ ہے کہ اسلام کا ماخذ اور سرچشمہ خود اللہ تعالیٰ ہے اور اسلام کا کوئی حصہ بالواسطہ یا بلا واسطہ سابق الہامات یا دیگر مذاہب سے نہیں لیا گیا۔اگرچہ قرآن مجید ا س لئے نازل ہوا تھا کہ وہ توریت و انجیل کی تصدیق کرے اور اسلام کا دعویٰ ہے کہ وہ اصلی اور بلا تحریف الہامی کتابوں کے موافق ہے   ۱۲   ۔ اسلام کا یہ دعویٰ جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہے اہل فہم حضرات کے نزدیک قابل قبول نہیں، کیونکہ قرآن کی اخلاقیات،اس کا نظریہ د ربار ہ فطرۃ اللہ،اس کے وقائع (واقعات) تاریخی اور بہت سی دوسری باتیں ایسی ہیں جن کی بنا پر ہم اس بات میں ہرگز شبہ نہیں کر سکتے کہ وہ خود محمدﷺ کی تصنیف کردہ کتاب ہے۔ اسی کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ خیالات،وہ بیانات اور وہ اقوال جو محمدﷺ نے اپنے مذہب میں داخل کئے وہ کہاں سے لئے گئے؟کون سی باتیں خود ان کی ایجاد ہیں اور کون سی باتیں دوسرے مقامات سے لی گئی ہیں؟جو لوگ دیگر مذاہب کے پیرو تھے ان کی تعلیمات سیکھنے کے محمدﷺ کو کیا ذرائع حاصل تھے؟اگر محمدﷺ نے کچھ باتیں دیگر مذاہب سے لی ہیں تو وہ کیا ہیں اور کس کس مذہب سے کون کون سی بات لی گئی؟اور جو نتائج دین اسلام نے پیدا کئے ان میں کس قدر اسوۂ محمدی کےاور کس قدر حالت زمانہ کے رہین منت ہیں؟یہ ہیں وہ چند مسائل جو ہم حتی الامکان نہایت وضاحت کے ساتھ اور مدلل طور پر ظاہر کریں گے۔

دوسرا باب

اسلام پر قدیم عربی عقائد و رسوم کا اثر

محمدﷺ کے دل میں اسلام کی تدریجی نشوونما کا خیال کیونکر پیدا ہوا اور اپنی تعلیمات انہوں نے کہاں سے حاصل کیں،یہ معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ان لوگوں کے مذہبی عقائد و رسوم پر غور کیا جائے جن میں وہ پیدا ہوئے تھے۔عرب کے تمام باشندے ایک ہی نسل سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔عرب مصنفین اہل عرب کو دو قسموں میں منقسم کرتے ہیں۔ایک خالص عرب،دوسرے مستعرب (یعنی وہ لوگ جو دوسرے ملکوں سے آکر عرب میں آباد ہوئے اور عربی بن گئے)۔حمیری اور بعض دیگرقبائل کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا بہت کچھ تعلق حبشیوں سے تھا۔بابلستان کے سمیری بادشاہوں نے قدیم زمانہ میں عرب کے بعض علاقے فتح کئے تھے۔ان کے حالات الواحِ خطوطِ میخی میں درج ہیں۔ان کا مطالعہ کرنے، نیز اس واقعہ کو پیش نظر رکھنے کے بعد کہ جزیرہ نمائے سینا اور غالباً بعض شمالی اور مغربی حصص عرب پر قدیم شاہان مصر کی کچھ عرصہ تک حکومت رہی تھی۔اس میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا کہ قدیم زمانہ میں عرب کی آبادی میں حامی ؔاور دیگرغیر ملکی عناصر بھی شامل تھے۔

حکمراں جماعت کے خیالات و عقائد سے محکوم جماعت کا متاثر ہونا ضروری ہے۔اس لئے ظاہر ہے کہ جس زمانہ میں بابلستان پر عظیم الشان خاندان کُش حکمران تھا،اس زمانہ میں اہل عرب بابل کے تمدن اور اس کے مذہبی خیالات سے ضرور متاثر ہوئے ہو ں گے۔ اس کا ثبوت قدیم زمانہ کے عربی کتبوں سے بھی ملتا ہے ،کیونکہ ان میں ایسے دیوتاؤں کے نام بھی پائے جاتے ہیں جن کی پرستش سمیری یا بابلی قوم میں رائج تھی، مثلاً’’سین‘‘  (Sin) ۱۳   یعنی’’ چاند دیوتا‘‘ اور ’’اثّار‘‘  (Aththar) ۱۴   یعنی’’ استارتہ یا اشتار‘‘ وغیرہ۔یہ وہ دیوتا تھے جن کی پرستش پہلے سمیری قوم کیا کرتی تھی اور پھر بابلستان،آشوریہ (اسوریہ)،شام اور بعض ممالک عرب کی سماتیقی قومیں بھی کرنے لگی تھیں۔بایں ہمہ اگرچہ عرب آبادی میں یقیناً حامی ؔعنصر موجود تھا،مگر آبادی کا بڑا حصہ کیا بلحاظ نسل وزبان اور کیا بلحاظ معاشرت و مذہب ہمیشہ سے سماتیقی چلا آتا تھا۔

ابن ہشام ،طبری اور دیگر عرب مورخین نے بعض قبائل عرب کے متعلق جو قدیم روایات قلم بند کی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ جو کچھ اس بارے میں ان لوگوں نے لکھا ہےوہ تقریباً وہی ہے جو ناموس موسیٰ  (Pentateuch) ‏ میں درج ہے۔اور ان بیانات کو دیکھ کر یقین کرنا پڑتا ہے کہ ان قبائل میں سے اکثر قحطان یا اسمٰعیل یا قطورہ زوجۂ ابراہیم کی اولاد کی نسل سے تھے بلکہ جن قبائل کے انساب حقیقتاً ان بزرگوں سے نہیں ملتے تھےوہ بھی محمدﷺ کے زمانہ میں اپنا نسب یہی بتاتے تھے۔قبیلہ ٔ قریش بھی اپنے آپ کو بذریعہ اسمٰعیل حضرت ابراہیم کی نسل سے بتاتا تھا (اگرچہ اس کا ثابت کرنا ناممکن خیال کیا جاتا ہے)،مگر اس واقعہ سے قبیلہ ٔقریش کا خیال یہی تھا ،قدرتاً محمدﷺ کی طرف سے لوگوں کو ہمدردی پیدا ہونا چاہیئے تھی کیونکہ انہوں نے دین ابراہیم ہی کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کا دعویٰ کیا تھا اور یہ ابراہیم وہی تھے جنہیں اہل قریش فخرو ناز کے ساتھ اپنا مورث ِ اعلیٰ سمجھتے تھے۔یہ باور کرنے کی بھی کافی وجوہ ہیں کہ سام کی اولاد کا مذہب ایک خدا کی پرستش کرتا تھا۔اگرچہ قدیم زمانہ ہی سے عرب میں’’شرک‘‘  (Polytheism) ‏ نے راہ پالی تھی،مگر ایک سچے خدا کا عقیدہ لوگوں کے دلوں سے بالکل محو نہ ہوا تھا جس کی وجہ یقیناً وہی غیر ملکی اثر تھا جس کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں اور مختلف قبائل کے درمیان وہی معاہدہ پختہ سمجھا جاتا تھا جو اللہ کی قسم کھا کر کیا جاتا تھا اور ’’دشمن خدا‘‘ کا لفظ بہت بُرا لفظ سمجھا جاتا تھا۔صحیفہ ٔ ایوب کے دیکھنے سے اس بات کا ثبوت مل سکتا ہے کہ اس قدیم زمانہ میں بھی’’میزبان بہشت‘‘  (Host of Heaven) ‏ کی پرستش ملک عرب میں رائج تھی۔ہیرودوتوس   ۱۵   (جلد سوم باب۸) کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں عرب کے لوگ ایک دیوتا اور ایک دیوی کی پرستش کیا کرتے تھے۔وہ لکھتا ہے کہ یہ دیوتا اور دیوی وہی تھے جو یونان میں’’دیونی سوس   ۱۶   ‘‘ (Dionysus) ‏ اور’’اورانیا  ۱۷   ‘‘  (Urania) ‏ کے نام سے موسوم تھے۔ہیرودوتوس لکھتا ہے کہ ان دیوتا او ردیوی کے نام یونانی میں  ’’Οροταλ‘‘‏  اور  ’’Αλιλατ‘‘‏  تھے۔موخر الذکر نام ممکن ہے کہ بابلستان کا ’’الاّت‘‘  (Allatu) ‏ ہو مگر قرآن کا’’اللّٰت‘‘ ضرور ہے۔یہ لفظ’’اللہ‘‘ کی تانیث ہے۔خود لفظ’’اللہ‘‘لفظ’’الالٰہ‘‘  (Al-Ilah) ‏ کا مخفف ہے اور یہی لفظ خفیف تغیرات کے ساتھ تمام سماتیقی زبانوں میں ’’خدا‘‘ کے لئے استعمال ہوتا تھا،جس میں حرف تخصیص’’ال‘‘ شامل کر دیا جاتا ہے۔پس لفظ’’اللہ‘‘یونانی لفظ’’ ہوتھیوس‘‘  (ὁ Θεός) ‏کے برابر ہے اور لفظ ’’Ἀλιλάτ‘‘‏  جو ہیرود وتوس نے بُتایا ہے وہ اسی لفظ کی صحیح اور غیر مخفف تانیث ہے۔

ممکن ہے کہ جن عربوں کا ذکر ہیرودوتوس نے کیا ہے   ۱۸   انہوں نے اپنے خدائے واحد کے لئے اسی طرح ایک بیوی بھی بنا لی ہو جیسے کہ بابلستان کی دیگر سماتیقی اقوام نے کیا تھا۔ان لوگوں کا یہ خیال کرنا بھی درست نہیں کہ تمام عربوں کا عقیدہ یہی تھا اور محمدﷺ کے زمانہ میں تو یقیناً ایسا نہیں تھا کیونکہ اس عقیدہ کا پتہ نہ تو قرآن سے چلتا ہے، نہ عربوں کی قدیم شاعری سے۔اللہ کی نسبت ان کا یہ عقیدہ تھا کہ وہ بالکل الگ تھلگ ہے اور اس تک کوئی پہنچ نہیں سکتا اور مختلف قبائل جو اپنے ادنیٰ درجہ کے بُتوں کی پرستش کیا کرتے تھے وہ اس خیال سے کرتے تھے کہ یہ بُت اللہ کی درگاہ میں شفیع ہوں گے۔یہ ادنیٰ درجہ کے معبود یا بُت بےشمار تھے۔ان میں خاص خاص وُدّؔ،یعوقؔ،ھبلؔ،اللّاتؔ،عُزّیٰؔ اور مناۃؔ تھے۔ان میں موخر الذکر تین دیویاں تھیں۔قرآن میں عربوں کو اس بات پر ملامت کی گئی ہے کہ وہ ان دیویوں کو ’’اللہ کی بیٹیاں‘‘ کہتے ہیں۔

اگر ہم اس زمانہ کی شاعری سے اندازہ کریں تو معلوم ہو گا کہ اس زمانہ کے عرب چنداں پابند مذہب یا دین دار نہیں تھے اور زیاد ہ تر انہیں کم درجہ کے معبودوں کی پوجا پاٹ کیا کرتے تھے۔ہر چند ان کا یہ خیال بھی تھا کہ وہ ان کے ذ ریعہ سے اللہ کی عباد ت کرتے ہیں۔ بڑے خدا کو یہ لوگ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کہا کرتے تھے اور خدا کا یہ خطاب یقیناً بہت قدیم ہے۔

یہ فرض کرنا درست نہیں کہ عربوں کو توحید باری تعالیٰ سے اول اول محمدﷺ نے آشناکیا کیونکہ خود لفظ’’اللہ‘‘ کے حروف تخصیص سے ظاہر کرتے ہیں کہ جو لوگ یہ لفظ استعمال کرتے تھے ان کو کسی حد تک توحید باری کا شعور حاصل تھا۔الغرض لفظ’’اللہ‘‘ خود محمدﷺ نے ایجاد نہیں کیا بلکہ جس وقت انہوں نے اپنی قوم کے سامنے اپنے مامور من اللہ اور نبی ہونے کا دعویٰ کیا،اس وقت یہ لفظ پہلے سے استعما ل ہو تا تھا۔اس کا ثبوت حاصل کرنا چنداں دشوار نہیں۔خود محمدﷺ کے والد جو اپنے بیٹے کی ولادت سے قبل وفات پا گئے تھے’’عبداللہ‘‘یعنی’’اللہ کا بندہ‘‘ نام رکھتے تھے۔ کعبہ یعنی مکہ کا بڑا معبد عرصۂ د راز سے’’بیت اللہ‘‘ (خانۂ خدا ) کہلاتا تھا۔عرب کی قدیم روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عین اسی جگہ جہاں اس وقت خانہ کعبہ ہے، اللہ کی عبادت کے لئے ابراہیم اور ان کے بیٹے اسمٰعیل نے ایک معبد بنایا تھا۔اگرچہ اس بیان کوہم تاریخی حیثیت نہیں دے سکتے تاہم اس روایت سے کم ازکم اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر زمانۂ قدیم سے عبادت ہوتی چلی آتی تھی اور غالباً وہ مقام کعبہ ہی تھا جس کی بابُت دیو دورس سیقولوس  (Diodorus Siculus)   ۱۹  ,   ۲۰   نے لکھا کہ اس مقام پر ایک عبادت خانہ یا مندر ہے جس کا تمام عرب لوگ خاص طور پر احترام کرتے ہیں۔

زمانۂ جاہلیت کی ان نظموں میں جنہیں’’المعلقات‘‘   ۲۱   کہتے ہیں،لفظ’’اللہ‘‘کثرت سے استعمال ہوا ہے۔سب سے پہلی سیرت نبوی کا مصنف ابن اسحٰق تھاجس کی تصنیف کے اوراق منتشر ہم تک پہنچے ہیں۔ ابن ہشام نے ان کی کتاب سے نقل کیا ہے کہ قبائل کنانہ و قریش جب رسم’’اِحلال‘‘  (Ihlal) ‏ ادا کیا کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ کو ان الفاظ سے خطاب کیا کرتے تھے:

’’لبیکَ اللہٰم‘‘ یا اللہ ہم تیری خدمت میں حاضر ہیں۔ہم تیرے حضور میں حاضر ہیں۔تیرا کوئی شریک نہیں سوا اس کے جو تیرے خوف کا شریک ہو۔تو مالک ہے اس کا اور اس تمام کا جس کا وہ مالک ہے‘‘۔

مثال کے طورپر ہم دیوان نابیگاہ کے چند اشعار پیش کرتے ہیں۔

 

لهم شيمة لم يعطها الله غيرهم   من الجود والأحلام غير موازب
محلتهم ذات الإله ودينهم   قويم فما يرجون غير العواقب
(Poem I., ll. 23, 24, ed. Ahlwardt.)

 

ألم تر أن الله أعطاك سورة   ترى كل ملك دونها يتذبذب
بأنك شمس والملوك كواكب   إذا طلعت لم يبد منهن كوكب
(Poem III., ll. 9, 10.)

 

ونحن لديه نسأل الله خلده   يرد لنا ملكاً وللأرض عامراً
ونحن نزجى الخلد إن فاز قدحنا   ونرهب قدح الموت إن جاء قاهراً
(Poem VIII., ll. 5, 6:)

 

ابن اسحٰق نے بالکل صحیح کہا ہے کہ’’خدا کو اس طرح خطاب کرنے سے وہ اللہ کی توحید کا عقیدہ ظاہر کرتے تھے‘‘۔ ابن اسحٰق نے یہ نہیں لکھا کہ’’تیرے خوف کا شریک‘‘ سے کیا مطلب تھا۔مگر قیاس یہ کہتا ہے کہ اس میں کسی قبائلی بُت کی طرف اشارہ ہے۔بہر حال جس دیوتا یا دیوی یا شخص کی طرف اشارہ کیا گیا ہےاس کا درجہ اللہ کے برابر نہیں رکھا جاتا تھا۔الغرض قدیم عربوں کا مذہب اسی قسم کا تھا جیسا کہ یونانی و رومی کلیسیاؤں کی اولیا پرستی۔یہی حال محمدﷺ کے زمانہ میں تھا اور یہی حال باوجود قرآن مجیدکی ممانعت کے مسلمانوں کااس وقت بھی ہے۔مگر اس اولیا پرستی سے یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا کی وحدانیت سے انکار کیا جاتا ہو، بلکہ ان اولیا یا کم درجہ کے معبودوں کی عبادت یا حرمت شفیع کی حیثیت سے کی جاتی ہے۔جو کچھ ہم نے لکھا ہے اس کی تصدیق شہر ستانی کی تحریر سے بھی ہوتی ہےجس نے عہد جاہلیت کے عربوں کے مذہبی خیالات اور رسموں کا حا ل لکھا ہے۔اس مصنف نے عربوں کو مختلف فرقوں میں تقسیم کیا ہے جو اپنے مذہبی خیالات میں ایک دوسرے سے بہت اختلاف رکھتے تھے۔ وہ لکھتا ہے کہ

والعرب الجاهلية أصناف فصنف أنكروا الخالق والبعث وقالوا بالطبع المحيى والدهر المفنى كما أخبر عنهم التنزيل وقالوا ما هى إلا حياتنا الدنيا نموت ونحيا ـ وقوله ـ وما يهلكنا إلا للدهرـ (سورہ الجاثیہ آیت۲۳) ۔وصنف اعترفوا بالخالق وأنكروا البعث وهم الذين اخبر الله عنهم بقوله تعالى ‫ ـ أفعيينا بالخلق الأول بل هم فى لبس ٍ من خلق ٍ جديد ٍـ وصنف عبدوا الأصنام وكانت أصنامهم مختصة بالقبايل فكان وُدّ لكلب وهو بدومة الجندل وسُواع لهذيل ويغوث لمذحج ولقبايل من اليمن ونَسْر لذى الكلاع بارض حمير ويَعوقْ لهمذان واللاّت لثـقيف بالطائف والعُزّى لقريش وبنى كنانة ومَناة للاوس والخزرج وهُبَل أعظم اصنامهم وكان هُبَل على ظهر الكعبة وكان اساف ونائلى على الصفا والمروة وكان منهم من يميل إلى اليهود ومنهم من يميل إلى النصرانيّة ومنهم من يميل إلى الصّابية ويعْتقد فى انواء المنازل اعتقاد المنجمين فى السّيارات حتى لا يتحرك إلاّ بنوء من الأنواء ويقول مطرنا بنوء كذا وكان منهم من يعبد الملائكة ومنهم من يعبد الجنّ وكانت علومهم علم الأنساب والأنواء والتواريخ وتعبير الرؤيا وكان لأبى بكر الصّدّيق رضى الله عنهُ فيها يد طولى۔‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬

ترجمہ: بعض نہ وجود باری کے قائل تھے،نہ بعثت انبیا اور قیامت کے معتقد تھے، بلکہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ قدرت پیدا کرتی ہے اور زمانہ ہلاک کر ڈالتا ہے۔بعض قبائل ایسے تھے جو خدا کے وجود کے توقائل تھے مگر اس بات سے انکار کرتے تھے کہ وہ اپنا ارادہ ظاہر کرنے کے لئے رسولوں کو مامور کرتا ہے۔دیگر قبائل اپنے اپنے دیوتاؤں اور ذاتی بُتوں کی پرستش کیا کرتے تھےمثلاً، قبیلۂ حلب کے لوگ وُدّ اور سواع کی پرستش کرتے تھے اور قبیلۂ مذحج والے یغوث کی پرستش کیاکرتے تھے۔یہی حال بعض قبائل یمن کا تھا۔حمیریوں کا قبیلہ ذو الکلاع نسر کی ،قبیلۂ ہمذان یعوق کی،طائف کا قبیلہ ثقیف اللّٰات اور قبائل بنو کنانہ و قریش اپنی قبائلی دیوی عُزّیٰ کی پرستش کیا کرتے تھے۔قبائل اَوس و خزرج اگرچہ مناۃ کو بھی پوجتے تھے مگر ہُبلؔ کو تمام دیوتاؤں کا سردار سمجھتے تھے۔اس دیوتا کا بُت بامِ کعبہ پر نہایت نمایاں مقام پر رکھا ہوا تھا۔دیگر دیوتا اساف ؔو نائلہؔ تھے۔بعض عرب قبائل ان یہودیوں کے زیر اثر آگئے تھے جو ان کے قریب بس گئے تھے اور انہوں نے کم وبیش یہود کی مذہبی تعلیمات اختیار کر لی تھیں۔بعض قبائل عیسائی ہو گئے تھے اور ان کے ہمسایہ عرب قبائل ان کے معتقدات کی طرف رجحان رکھتے تھے۔بعض قبائل صابئین (صابی کی جمع۔ستارہ پرست) کے زیر اثر تھے۔ان کا مذہب انجم پرستی تھا۔یہ لوگ اپنے تمام امور میں ستاروں کی گردش سے حکم لیا کرتے تھے۔بعض قبائل ملائک پرست تھے اور بعض جنوں یا بھوتوں کی پوجا کیا کرتے تھے۔چنانچہ خود حضرت ابوبکرؓ تعبیر خواب کے فن میں بہت مشہور تھے۔

بہت سے عرب مصنفین نے جن میں بعض مشہور مفسرین قرآن بھی ہیں ،ایک قصّہ بیان کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمدﷺ کے زمانہ میں عرب قبائل (ان میں وہ بھی تھے جو مکہ میں محمدﷺ کے سخت مخالف تھے اور جنہوں نے پہلے مسلمانوں کو بغرض حفظ جان حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کیا تھا) محمدﷺ کے ساتھ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کی پرستش کرنے پر بہت جلدآمادہ ہو گئے تھے۔ واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ:

قدم نفر من مهاجرة الحبشة حين قراء عليه السّلام - والنّجْم إذا هوى - حتّى بلغ - أفَرَأيّتُمُ اللاّتَ والْعُزّى ومَناه الثّالثَة الأُخْرى - ألقى الشيطان فى منيتِهِ ( أى فى تلاوته ) - تلك الغرانيق العلى وإن شفاعتهن لترتجى - فلما ختم الصورة سجد صلعم وسجد معه المشركون لتوهمهم أنه ذكر آلهتهم بخير - وفشى ذلك بالناس وأظهره الشيطان حتى بلغ أرض الحبشة ومن بها من المسلمين عُثمان ابن مظعون اصحابه وتحدثوا أن أهل مكة قد أسلموا كلهم وصلوا معه صلعم وقد آمن المسلمون بمكة فأقبلوا سراعاً من الحبشة.

ترجمہ:’’ایک روز محمدﷺ کعبہ میں نماز پڑھنے کے لئے گئے اور وہاں انہوں نے سورۂ النجم پڑھنا شروع کی۔جب وہ انیسویں اوربیسیویں آیتیں پڑھ چکے یعنی’’ افرایتم اللّات و العزّیٰ و مناۃ الثالتہ الاخریٰ ‘‘تو کہتے ہیں کہ اس وقت شیطان نے محمدﷺ کو ورغلا کر ان سے یہ الفاظ کہلا دیئے’’ تلک الغرانیق العلی وانّ شفاعتہن لترتجی ‘‘۔یہ الفاظ سنتے ہی تمام عرب جو اس وقت وہاں موجود تھے محمدﷺ کے ساتھ نماز میں مشغول ہو گئے‘‘۔

اس واقعہ کے بعد ہر طرف افواہ اُڑ گئی کہ ان لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔بہر حال یہ واقعہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مخالفین محمدﷺ کو وجود باری تعالیٰ اور اس کی سب پر فوقیت کی تعلیم قبول کرنے میں کوئی مشکل معلوم نہ ہوتی تھی اور وہ چھوٹے دیوتاؤں یا بُتوں کو اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں اپنا شفیع ہونے کی حیثیت سے پوجتے تھے۔یہاں یہ کہنا بھی مناسب ہو گا کہ محمدﷺ نے بہت جلد وہ الفاظ واپس لے لئے جن میں ان دیویوں کے وجود اور ان کے اثر کو تسلیم کیا گیا تھا اور ان الفاظ کی بجائے وہ الفاظ رکھ دیئے جو اس وقت سورۂ النجم میں موجود ہیں یعنی الکم الذکر ولہہ الانثیٰ۔تلک اذاً قسمۃً ضیزیٰ۔ان ھی الاّ اسماءٌ سمیتمو ہاا نتم و آباؤکم‘‘۔

ابن اسحٰق ،ابن ہشام اور تما م عرب مصنفین بیان کرتے ہیں کہ عرب لوگ اور خصوصاً وہ جو حضرت اسمٰعیل کی اولاد ہونے دعویٰ کرتے تھے،صرف وہی ابتداءً خدائے واحد کی پرستش کیا کرتے تھے اور اگرچہ وہ کچھ عرصہ بعد شرک اور بُت پرستی میں پڑ گئے تھے،مگر وہ یہ بات ہمیشہ یاد رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کے جملہ بُتوں سے فائق اور اور ان کا سردار و حاکم ہے۔

جب ہم اس موقعہ پر پہنچیں گے جہاں ہم نے اس امر پر غور کیا ہے کہ یہود و نصاریٰ کے عقائد کا محمدﷺ کی طبیعت پر کس قدر اثر پڑا تھا تو ہم بُتائیں گے کہ واقعی محمدﷺ کے عقیدۂ توحید کو ان مذاہب سے کتنی تقویت پہنچی۔مگر یہ عقیدہ عربوں میں کوئی نیا عقیدہ نہ تھا اور وہ کم ازکم فطری طور پر ضرور اس عقیدہ کے قائل تھے۔بایں ہمہ جن چھوٹے چھوٹے معبودوں کی وہ پرستش کیا کرتے تھے ،وہ بے شمار تھے۔کیونکہ بیان کیا جاتا ہے کہ صرف تین سو ساٹھ بُت خانہ کعبہ ہی میں رکھے ہوئے تھے جو عربوں کے قومی اصنام کی ہیکل بن گیا تھا۔اس میں بھی شک نہیں کہ ان مقامی اور قبائلی بُتوں کی پوجا نے جمہور عرب میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کو پس پشت ڈال دیاتھا۔

یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ پرانے عرب مورخین صحیح یا غلط طور پر یہ بیان کرتے ہیں کہ جب اسلا م شروع ہوا تو عرب کے ان حصوں میں ’’خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے کا عقیدہ‘‘نسبتاً نیا تھا۔حدیث   ۲۲   سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب میں بُت پرستی ملک شام سے داخل ہوئی تھی اور اس حدیث میں ان لوگوں کے نام بھی بتائے گئے ہیں جو عرب میں بُت پرستی لائے تھے۔بیان کیا جاتا ہے کہ یہ واقعہ محمدﷺ سے پندرہ پشت پیشتر واقع ہوا تھا۔مقدس و متبرک پتھروں کا جو احترام کیا جاتا تھا وہ اس سے مستثنیٰ سمجھنا چاہیئے،کیونکہ فلسطین میں عہد شیوخی  (Patriarchal) ‏ کے اندر یہ عام بات تھی اور ممالک عرب میں تو یقیناً زمانۂ غیر معلوم سے چلی آتی تھی۔ابن اسحٰق   ۲۳  نے اس فعل کی توجیہہ کرنے کی کوشش اس طرح کی ہے کہ جب اہل مکہ سفر کرتے تھے تو وہ اپنے ساتھ خانہ کعبہ سے پتھروں کے ٹکڑے لے جایا کرتے تھے اور ان کی پوجا اس خیال سے کیا کرتے تھے کہ وہ’’حرم‘‘ سے لائے گئے ہیں۔اس وقت بھی’’حجر الاسود‘‘ کا بڑا احترام کیا جاتا ہے اور یہ رسم بھی منجملہ دوسری رسموں کے ہے جو عہد نبوی کے قبل کے مذہبی رسوم سے لی گئی ہے۔زمانۂ قبل از محمدﷺ میں اس پتھر کے متعلق بہت سے قصے بیان کئے جاتے تھے او ر ان قصوں کو اب تک پوری طرح صحیح مانا جاتا ہے۔ایک روایت یہ ہے کہ یہ پتھر بہشت سے نازل ہوا تھا۔پہلے یہ پتھر بالکل سفیدتھا مگر اب لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے سیاہ ہو گیا۔بعض کہتے ہیں کہ ناپاک لوگوں کے بوسہ دینے سے سیاہ ہو گیا ہے۔

اسلام نے نہ صرف اللہ تعالیٰ کا عقیدہ اور کعبہ و حجر الاسود کے احترام کی رسم، بلکہ بہت سی دوسری باتیں بھی قدیم زمانہ کے عربوں سے لی ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اکثر وہ مذہبی شعائر جو فی زماننا دنیائے اسلام میں رائج ہیں،بالکل وہی ہیں جو زمانۂ قبل از تاریخ سے ملک عرب میں رائج چلے آ رہے تھے،مثلاً ہیرودوتوس  (Herodotus)  ۲۴   نے بیان کیا ہے کہ اس کے زمانہ میں عرب کنپٹی کے گرد کے بال منڈوا کر باقی کو بہت چھوٹا ترشوا دیا کرتے تھے۔یہی بات بعض ملکوں کے مسلمان اب بھی کرتے ہیں۔مورخ ابوالفدا   ۲۵   نے بعض ایسی مذہبی رسموں کی طرف توجہ دلائی ہے جو عہد اسلام میں بھی رائج رہیں۔وہ لکھتا ہے کہ:

’’ عہد جاہلیت کی بعض باتیں شرع اسلام نے بھی قبول کر لی ہیں،مثلاً عرب لوگ اپنی ماؤں اور بیٹیوں سے نکاح نہیں کیاکرتے تھے اور وہ دو بہنوں سے نکاح کرنا بھی نہایت مذموم سمجھتے تھے اور جو شخص اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کر لیتا تھا وہ اسے ’’ضیزا‘‘ کہہ کر ذلیل کیا کرتے تھے۔وہ کعبہ کا حج اور مقامات مقدسہ کی زیارت بھی کیا کرتے تھے۔وہ احرام بھی باندھتے تھے ،وہ طواف بھی کرتے تھے،صفا و مروہ کے درمیان سعی بھی کرتے تھے،تمام مقامات پر کھڑے ہو کر رمی جمار (کنکریاں پھینکنا) بھی کرتے تھے۔وہ ہر تیسرے سال جنتری میں ایک مہینہ کا اضافہ بھی کیا کرتے تھے (جو بعد میں منسوخ ہو گیا)‘‘۔

اسی طرح اس مورخ نے بہت سی پرانی عربی رسمیں بیان کی ہیں جنہیں اسلام میں بھی مذہبی رسم قائم رکھا گیا ہے،مثلاً ہر قسم کی ناپاکی کے بعد رسمی طور پر دھونا اور غسل کرنا،مانگ نکالنا، مسواک کرنا،ناخن تراشنا وغیرہ وغیرہ۔وہ لکھتا ہے کہ’’چوری کی سزا اب کی طرح پہلے زمانہ (عہد حمورابی)   ۲۶   میں قطع یدتھی‘‘اور یہ بھی لکھتا ہے کہ’’ اگرچہ ختنہ کرنے کا حکم قرآن میں کہیں نہیں ہے ،مگر مسلمان کرتے ہیں۔یہی رسم مشرکین عرب میں بھی موجود تھی‘‘۔اس آخری بیان کی تصدیق برنباس  (Barnabas)  ۲۷   کے خط سے بھی ہوتی ہے جس نے لکھا ہے ’’تمام شامی اور عرب اور بُتوں کے پجاری ختنہ کراتے ہیں‘‘۔یہ بات بھی بخوبی معلوم ہے کہ یہی رسم قدیم مصریوں میں بھی رائج تھی۔ابن اسحٰق   ۲۸   نےبھی قریب قریب وہی الفاظ لکھے ہیں جو ابو الفدا نے تحریر کئے ہیں،مگر اس نے اس قدر اضافہ کیا ہے کہ یہ رسمیں حضرت ابراہیم کے زمانہ سے چلی آ رہی تھیں اور یقیناً یہی واقعہ ختنہ کے متعلق بھی ہے۔مگر یہ بات بمشکل کہی جا سکتی ہے کہ باوجود یکہ ابراہیم کے متعلق یقین کیا جاتا ہے کہ وہ مکہ میں آئے اور جس جگہ کعبہ ہے وہاں انہوں نے عبادت کی،انہیں ان رسموں سے کوئی تعلق تھا۔

جو کچھ ہم نے اب تک تحریر کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام کے مذہبی عقائد و رسوم بہت کچھ عہد نبوی کے، عربوں کے عقائد سے لئے گئے ہیں جن میں کثرت ازدواج اور غلامی کی رسم بھی ہے۔ محمدﷺ نے بعض قصے کہانیاں بھی مشرکین عرب سے مستعار لیں مثلاً عادو ثمود وغیرہ کے قصے جن کے متعلق الکندی کہتا ہے ’’ فإذ ذكرت قصة عاد وثمود والناقة وأصاب الفيل ونظائر هذه القصص قلنا لك هذه أخبار باردة وخرافات عجائز الحى اللواتى كنّ يدرسنها ليلهنّ ونهارهنّ. ‘‘۔ یعنی عادو ثمود،ناقہ،اصحاب فیل وغیرہ کے تمام قصے بالکل مہمل ہیں اور ان کہانیوں سے لئے گئے ہیں جنہیں عرب کی بڑھیاں بیان کرتی تھیں‘‘۔

تیسرا باب

اسلام پر صابی ویہودی خیالات ورسوم کا اثر

جب محمدﷺ بحیثیت ایک نبی کے نمودار ہوئے تو ہر چند اس وقت بہت سی مذہبی رسمیں اور خیالات ایسے تھے جن پر تمام عرب متفق تھے، مگر ان کے یہاں کوئی ایسی کتاب نہیں تھی جس پر وہ الہامی ہونے کا دعویٰ کر سکتے اور جس کی طرف محمدﷺ ان کو مائل کر سکتے۔چونکہ وہاں بعض ایسی جماعتیں بھی تھیں جو الہامی کتابیں رکھنے کی مدعی تھیں ، اس لئے یہ قدرتی امر تھا کہ محمدﷺ اور ان کے پیرو،ان مختلف مذہبی فرقوں کے خیالات و رسوم سے دلچسپی لیتے اور ان کا احترام کرتے۔’’اہل کتاب‘‘ کا خطاب جو قرآن میں خاص طور پر یہودو نصاریٰ کو دیا گیا ہے،ہمارے اس قول کا ثبوت ہے۔اس وقت ملک عرب میں چار جماعتیں ایسی تھیں جو کتابی مذہب رکھتی تھیں۔یہود ،نصاریٰ،مجوسی اور صابئین۔ ان تمام فرقوں کا ذکر قرآن کی سورۃُ الحج کی آیت ۱۷ میں پایا جاتا ہے اور اس میں شک نہیں کہ ان میں سے ہر فرقہ نے اسلام کی نشو ونما پر بہت اثر ڈالا۔سب سے پہلے فرقۂ صابئین کو لیجیے جس کا ذکر قرآن کی سورۃ البقر کی آیت ۵۹ میں بھی موجود ہے۔

اگرچہ صابئین کے متعلق ہم کو بہت کم معلومات حاصل ہیں مگر جتنی حاصل ہیں وہ ہمارے مقصد کے لئے کافی ہیں۔ابو الفدا ء نے ایک پرانے عرب مصنف ابو عیسیٰ المغربی کی کتاب سے صابئین کا حال اس طرح نقل کیا ہے:

’’اہل شام اقوام و مِلَل (ملت کی جمع) عالم میں قدیم ترین ہیں۔حضرت آدم اور ان کے بیٹے سُریانی زبان بولتے تھے اور ان کی مذہبی جماعت کو صا بئین کہتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ان کا مذہب حضرت شیت (سیت) اور حضرت ادریس کا جاری کردہ ہے۔ان کے پاس ایک کتاب ہے جسے وہ حضرت شیث سے منسوب کرتے ہیں اوراس کتاب کا نام انہوں نے’’صحیفۂ شیث‘‘ رکھا ہے۔اس صحیفہ میں اچھے اچھے احکام شریعت درج ہیں جن میں حق گوئی،جرأت و شہا مت،اجنبیوں کی حفاظت وغیرہ کی تلقین کی گئی ہے اور بری باتیں بیان کر کے ان سے پرہیز کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ صابئین کے ہاں بعض مذہبی رسمیں ہیں۔منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ ان کے یہاں دن میں سات اوقات نماز مقرر ہیں۔ان میں سے پانچ وقت مسلمانوں کے پنج اوقات نماز کے مطابق ہیں۔چھٹا وقت نما ز کا ان کے یہاں بوقت طلوع آفتاب ہے اور ساتواں وقت غروب آفتاب سے چھ گھنٹے بعد ہے۔مسلمانوں کی طرح ان کے یہاں بھی نماز میں خضوع و خشوع (عاجزی و فروتنی) کی ضرورت ہے۔نماز پڑھتے وقت ادھر ادھر خیال ہر گز منتشر نہ ہونا چاہیئے۔یہ لوگ نماز جنازہ بغیر رکوع و سجود پڑھتے تھے اور تیس دن روزہ رکھتے تھے اور اگر چاند کا مہینہ چھوٹا ہوتا تھا تو وہ انتیس دن کے روزے رکھتے تھے۔ اپنے روزوں کے سلسلہ میں وہ عید الفطر اور عید ہلال مناتے تھے اور عید الفطر اس وقت منائی جاتی تھی جبکہ آفتاب برج حمل میں داخل ہوتا تھا۔ان لوگوں کا ر وز ہ ر ات چوتھے پہر سے شروع ہوتا تھا اور غروب آفتاب تک رہتا تھا اور جب پنج سیارگان محل شریف میں ہوتے تھے تو وہ تہوار مناتے تھے یا پانچ سیارے زحل،مشتری،مریخ ،زہرہ اور عطارد تھے اور وہ لوگ ’’بیت مکہ‘‘ (یعنی کعبہ) کا بھی احترام کیا کرتے تھے ‘‘۔   ۲۹  

بیان مندرجہ ٔ بالا سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے اس گمنام فرقہ سے بہت سی مذہبی رسمیں لی ہیں ،کیونکہ مسلمان بھی رمضان کے روزے ایک ماہ تک رکھتے ہیں اور ہر روزہ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک رہتا   ۳۰   ہے۔رمضان کے ختم ہونے پر مسلمانوں میں بھی عید الفطر منائی جاتی ہے۔مسلمانوں میں نماز کے پانچ اوقات مقرر ہیں،لیکن ان کے علاوہ دن بھر میں دو وقت نماز کے اَور بھی ہیں ( اشراق و تہجد) جن میں نماز پڑھنا امر اختیاری ہے۔اس طرح مسلمانوں میں بھی بالکل صابئین کی طرح ہفت اوقات نماز موجود ہیں۔مسلمانوں کی نماز میں رکوع و سجود کا حکم ہے ، مگر نماز جنازہ میں رکوع و سجود نہیں ہوتا اور آخری بات یہ ہے کہ مسلمان بھی اب تک کعبہ کا نہایت احترام کرتے ہیں۔ہاں یہ ممکن ہے کہ صابئین کی طرح یہ باتیں قبیلۂ قریش میں بھی موجود ہوں گی اور بعض رسمیں تو یقیناً تھیں۔لیکن اگر سب باتیں ہوتیں تو اس بات کی توجیہہ کرنا مشکل ہو گا کہ جس عرب مصنف کی عبارت ہم نے نقل کی ہے اس نے ایسا لکھنے کی زحمت کیوں گوارا کی۔اس بات کی تصدیق کہ محمدﷺ نے بہت سی مذہبی رسمیں صابئین سے لیں اور صابئین کے مذہب نے عام طور پر ( غالباً اپنی بڑی قدامت کی وجہ سے) اسلام پر بہت کچھ اثر ڈالا،ا س واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ طائف اور مکہ کے قبیلہ ٔ بنو جذیمہ نے خالد کے سامنے اپنے اسلام لانے کا اعلان کیا تو وہ بآواز بلند پکار اٹھے کہ’’ہم صابئین ہو گئے ہیں‘‘۔صابئین کی نسبت خیال کیاجاتا ہے کہ وہ ایک نیم عیسائی فرقہ تھااوربعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ ’’ماندئین‘‘  (Mandaeans) ‏ تھے جن کا مذہب’’ لااَدرِیَّت‘‘  (Agnosticism) ‏ متشککین کا یہ نظریہ کہ ہم خدا کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ انسان کسی صورت میں بھی خدا کا ادراک حاصل نہیں کر سکتا)اور قدیم بابلی اصنام پرستی کا ایک طرفہ معجون مرکب تھا۔علاوہ ازیں انہوں نے مجوسیت،یہودیت اور مسیحیت سے بھی بعض عناصر لے کر اپنے مذہب میں داخل کر لئے تھے۔اگرچہ بحیثیت فرقہ وہ نصاریٰ کے بہت خلاف تھے۔’’ماندئین‘‘ کا نام’’ماندا‘‘ سے نکلا ہے۔یہ ان کا بہت بڑا اوتار تھا۔ان کی مذہبی کتاب’’سدرہ ربّہ‘‘  (Sidra Rabba)‏ میں لکھا ہے کہ’’ماندا ‘‘نے بہت سے اوتار لئے جن میں پہلے تین اوتار ہابیل (ہابل)،شیث اور ادریس تھے اور سب سے آخری اوتاریحییٰ تھےجنہوں نے یسوع کو بپتسما دیا تھا جو ایک ظاہری مصلوبیت کے بعد ’’سلطنت نور ‘‘ کو واپس ہو گئے۔یہ آخر ی خیال قرآن کی سورۂ نسا آیت ۱۵۶ میں بھی ظاہر کیا گیا ہے جس پر ہم آگے چل کر بحث کریں گے۔

چونکہ صابئین کے متعلق ہماری معلومات محدود ہیں اور یہ بھی یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ’’ماندئین‘‘ تھے اس لئے یہ کہنا دشوار ہے کہ ان کااثر اسلام پر اس سے زیادہ اور کن صورتوں سے ہوا۔راڈویل  (Rodwell) ‏اپنی کتاب کے دیباچہ میں قرآن پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:

’’اسلام پر  (Ebionites) ‏ کے عقائد کا بھی بڑ ااثر پڑا ہے،جیسا کہ ایپی فینیس  (Epiphanius) ‏ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے۔اس نے  Morabitis‏, Ebionites‏  او ر Basanitis‏ کے عقائد پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا کہ ان کے یہاں بھی آدم اور عیسیٰ کے متعلق تقریباً بالکل وہی روایت پائی جاتی تھی جو قرآن کی تیسری سورۃ میں درج ہے۔علاوہ اس کے ان کے یہاں ختنہ کا بھی رواج تھا۔وہ رہبانیت کے بھی مخالف تھے اور بیت المقدس ان کا بھی قبلہ تھا (جیسا کہ بارہ سال تک محمد ﷺ کا رہا)وضو و غسل کا بھی وہی طریقہ تھا جو مسلمانوں میں پایا جاتا ہے اور وہ بھی بادل ، تیل اور ہوا وغیرہ کی قسمیں کھاتے تھے (جیسی قرآن میں پائی جاتی ہیں)‘‘   ۳۱  ۔

اب ہم یہود کی طرف رجوع کرتے ہیں جن سے محمد ﷺ نے اپنے مذہب میں اتنا کچھ مستعار لیا کہ اگر ہم اسلام کو یہودیت ہی کی بگڑی ہوئی صورت کہیں تو غالباً غلط نہ ہو گا۔ محمد ﷺ کے زمانہ میں یہودی نہ صرف بلحاظ تعداد بہت زیادہ تھے بلکہ وہ عرب کے مختلف علاقوں میں بہت طاقت ور بھی تھے۔ اس میں شک نہیں کہ جب وہ مختلف فاتحین مثلاً بخت نصر،جانشینان سکند راعظم ،پومیّے، طائیطوس (ططس)، ہیڈرین وغیرہ سے ڈر کر بھاگے (جنہوں نے تمام فلسطین کا پا مال کر دیا تھا) تو وہ با اوقات مختلف عرب میں آکر آباد ہو گئے تھے اور خصوصاً مدینہ کے قرب وجوار میں وہ توبے شمار تھے جہاں ایک وقت وہ بزور شمشیر قابض بھی ہو گئے تھے۔اس وقت مدینہ کے قرب وجوار میں یہودی قبیلے یعنی بنو قریظہ،بنو نذر اور بنو قنیقاع اس قدر طاقت ور تھے کہ جب محمد ﷺ۶۲۲ ء میں ہجرت کر کے مدینہ آئے تو کچھ ہی دن بعد ان لوگوں سے جارحانہ و مدافعانہ معاہدہ کر لیا۔دوسری یہودی آبادیاں خیبر اور وادی القریٰ کے قرب و جوار میں اور خلیج عقبہ کے سواحل پر تھیں۔

چونکہ یہودی صاحبِ کتاب تھے اور وہ یقیناً حضرت ابراہیم کی نسل سے تھے، جن کو قریش اور عرب کے دیگر قبائل بھی اپنا مورث اعلیٰ بتاتے تھے،اس لئے بنی اسرائیل کا عربوں پربڑا اثر تھا اور عرب کی روایات و قصص میں یہودیوں کی تاریخ اور روایات کا شامل ہو جانا تعجب کی بات نہیں۔کعبہ اور اس کے جوار کی تکریم اسی وجہ سے کی جاتی تھی کہ وہ ہاجرہ کے آلام و مصائب کی یاد گار تھا اور متبرک چاہ زم زم ان کے رفع تکالیف کی جگہ ،جس طرح صفا اور مروہ کے درمیان بتلاش آب وہ سر گرداں و پریشاں دوڑی پھرتی تھیں،اسی طرح اس واقعہ کی یاد گار میں حجاج بھی صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے ہیں۔ابراہیم و اسمٰعیل نے خانہ کعبہ تعمیر کیا تھا اور اس کی دیوار میں حجر الاسود نصب کیا تھا اور تمام ملک عرب کے لئے ’’عرفات ‘‘ کا حج قائم کیا تھا۔انہی کی تقلید میں حجاج رمی جمار کرتے ہیں گویا شیطان کو پتھر مارتے ہیں اور حضرت ابراہیم نے جو قربانی کی تھی اس کی یاد گار میں حجاج بھی بمقام منا قربانی کرتے ہیں۔اس طرح خالص عربی رسموں میں یہودی روایات داخل کر لینے سے بہت کم تغیر واقع ہوا ہو گا۔ عربوں نے اسرائیلیات کو بالکل مختلف روشنی میں لیا اور چو نکہ ان کا تعلق ابراہیم خلیل اللہ سے تھا اس لئے انکو مقدس سمجھا گیا۔الغرض اس مشترکہ بنیاد پر محمد ﷺ نے اپنا قدم جمایا اور اپنی قوم کے سامنے ایک نیا اور روحانی نظام اس طریقہ سے پیش کیا کہ اس کی طرف تمام جزیرۃ العرب مائل ہو سکتا تھا۔کعبہ کے متعلق جتنی باتیں تھیں وہ بحال رکھی گئیں اور گو تمام اصنام پر ستانہ شعائر سے پاک ہو کر وہ اب تک چلی آ رہی ہیں۔تاہم اسلام کی زندہ خدا پر ستی کے جسم پر ایک بے معنی نقاب کی کیفیت ضرور رکھتی ہیں۔

جب ابراہیم کی نسل کے مختلف قبائل میں میل جول زیادہ بڑھا تو بقا ئے روح اور حشر بعد الموت کا عقیدہ جاری ہو گیا۔مگر اس میں بہت سے عربی نژاد مضحکہ انگیز خیالات بھی داخل ہو گئے۔جذبۂ انتقام کی تصویر عربی لٹریچر میں اس طرح کھینچی جاتی ہے کہ مقتول کی روح پرندہ بن کر فریاد کر رہی ہےاور بعض اوقات مرنے والے کی قبر پر اس کو چھوڑ دیا جاتا تھا تاکہ جب مالک حشر کے دن زندہ ہو تو اسے اپنی پشت پر سوار کر کے لے جائے۔مختلف طور پر بائبل کی زبان بھی عام طور سے مستعمل تھی،یعنی کم ازکم اس قدر کافی استعمال ہوتی تھی کہ عام طور پر سمجھی جاتی تھی۔ایمان ، توبہ،جنت،دوزخ،شیطان، اخوان الشیاطین،ملائکہ مقربین،جبرائیل الامین، یہ بعض اصطلاحات ایسی ہیں جو رائج تھیں اور یہودی ذرائع سے لی گئیں۔اسی طرح ہبوط آدم،طوفان نوح، شہروں کی تباہی وغیرہ کے قصے بھی عام طور پر مشہور تھے۔الغرض روحانیت کی حد سے ملا ہوا عامیانہ خیالات کا ایک وسیع ذخیرہ محمد ﷺ کے سامنے موجود تھا۔

قدیم عرب مورخین لکھتے ہیں کہ جب محمد ﷺ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو اس وقت یہود ایک مسیح کی آمد کے منتظر تھے اور وہ عموماً اپنے دشمنوں کو ڈرایا کرتے تھے کہ ان کا مسیح بہت جلد آکر ان سے انتقام لے گا۔اس خیال کا یہ اثر ہوا کہ عربوں میں سے بعض لوگوں خصوصاً مدینہ کے بنو خزرج نے (بقول ابن اسحٰق) محمدﷺ کو وہ نبی تسلیم کر لیا جس کے وہ منتظر تھے۔ محمدﷺ نے یہ اعلان کیا کہ وہ نیا مذہب لے کر نہیں آئے ہیں بلکہ لوگوں کو ’’دین ابراہیم‘‘ کی طرف بلانے کے لئےآئے ہیں۔پس یہ قدرتی امر تھا کہ وہ یہودیوں کو اپنا طرف دار بنانے کی سعی کرتے اور یہی کوشش انہوں نے مدینہ میں کی اور کچھ عرصہ تک تو ایسا معلوم ہوتا تھا گویا وہ اپنی سعی میں بہت کچھ کامیاب ہو جائیں گے۔ایک تدبیر جو انہوں نے اس مقصد کے لئے اس وقت کی یہ تھی کہ بیت المقدس یعنی یروشلیم کو اپنے مذہب کا قبلہ بنا لیا،مگر کچھ عرصہ بعد جب محمدﷺ کی یہودیوں سے کھٹک ہو گئی تو انہوں نے عربوں کی تالیف قلوب زیادہ مفیدسمجھی اور کعبہ کو اپنا قبلہ قرار دیا۔

مدینہ پہنچنے کے بعد جب محمدﷺ نے یہودیوں کو ’’یوم عاشورہ‘‘ مناتے دیکھا تو انہوں نے مسلمانوں کو بھی ایسا کرنے کا حکم دے دیا اور اس دن کا وہی نام بھی رہنے دیا جو یہودیوں میں تھا۔اس موقعہ پر جو قربانیاں کی جاتی تھیں وہ یقیناً ان قربانیوں کی جگہ تھیں جو مشرکین عرب حج کے وقت وادی منا میں کیا کرتے تھے۔الغرض جب تک اپریل ۶۲۴ء میں محمدﷺ کا یہودیوں سے جھگڑا نہیں ہو لیا اس وقت تک انہوں نے عید الاضحیٰ کی تقریب قائم نہیں کی۔لیکن انہوں نے ظاہر کیا کہ یہ تقریب اس وقت کی یاد گار ہے جب ابراہیم نے اپنے بیٹے اسمٰعیل کی قربانی کی تھی۔ محمدﷺ نے یہ رسم اپنے یہاں اس طرح جاری کی کہ عید کے روز د وبکرے قربانی کئے۔ایک اپنی قوم کی طرف سے اور دوسرا اپنی طرف سے ، یعنی انہوں نےاس کی ترتیب بدل دی۔یہودی عاشورہ کے روز پہلی قربانی اپنی طر ف سے اور دوسری قربانی اپنی تمام قوم کی طرف کیا کرتے تھے۔معلوم ایسا ہوتا ہے کہ جس وقت انہوں نے یہود کو اپنا طرف دار بنانا چاہا اس وقت ان کی رسمیں اختیار کر لیں اور جب یہودیوں سے کوئی امید نہ رہی تو ان رسموں کی ترتیب بدل دی اور کم و بیش مشرکین عرب کی رسموں کی طرف رجوع کیا۔اگر مسلمانوں کا یہ نظریہ تسلیم کر لیا جائے کہ قرآن بذریعہ وحی خدا کی طرف سے نازل ہوا ہےتو اس واقعہ کی کوئی تو جیہہ نہیں ہو سکتی۔ہجرت سے کچھ دن قبل اور خصو صاً ہجرت کے فوراً بعد جو آیتیں قرآن کی نازل ہوئیں،ان میں بقول احادیث بیشتر ایسی ہیں جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ قرآن تعلیمات انبیا بنی اسرائیل کے مطابق ہے۔لہٰذا یہ فیصلہ کن اور مختتم ثبوت اس بات کا ہے کہ قرآن منجانب اللہ ہے۔اس زمانہ میں جو سورتیں محمدﷺ نے پیش کیں ان میں اسرائیلیات کا حصہ بہت زیادہ ہے، جیسا کہ مکی اور شروع شروع کی مدنی سورتوں کا مقابلہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے۔ محمدﷺ کو یہ بات بہت جلد معلوم ہو گئی تھی کہ یہود باوجود ان سے متاثر ہونے کےان پر ہر گز ایمان نہ لائیں گے۔کیونکہ کوئی سچا اسرائیلی یہ یقین نہیں کر سکتا تھا کہ مسیحا یا کوئی دوسرانبی اسمٰعیل کی اولاد میں سے پیدا ہو گا۔ وہ تلوار کی منطق لے کر یہودیوں کی طرف متوجہ ہوئے۔اگر ہم بعض مصنفین کی یہ بات تسلیم بھی نہ کریں کہ محمدﷺ نے عقیدۂ توحیدیہودیوں کی تعلیمات سے حاصل کیا تھا تو بھی اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں اس عقیدہ کے قائم رکھنے میں ان باتوں سے بہت مدد ملی جو انہوں نے بنی اسرائیل سے سیکھی تھیں۔

اب ہم آگے بڑھ کر یہ بات دکھاتے ہیں کہ قرآن کا بہت بڑا حصہ روایات براہ راست یہود سے ماخوذ ہے۔اگرچہ عرب کے یہودیوں کے پاس ان کی مقدس کتابیں موجود تھیں،مگر وہ علم و فضل میں چنداں ممتازنہ تھے اور بمقابلہ کلام ربانی کے روایا ت ربیوں پر زیادہ توجہ دیتے تھے اور اسی لئے قرآن میں اسرائیلیات کا حصہ بہت زیادہ ہے۔

قصّۂ قابیل و ہابیل

اگرچہ قرآن مجید میں’’آدم کے دوبیٹوں کے نام نہیں آئے ہیں مگر مفسرین قرآن نے ان کے نام قابیل و ہابیل لکھے ہیں۔سورۂ مائدہ کی آیات ۲۷۔۳۵ ان کے حالات اس طرح لکھتے ہیں:

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ إِنِّي أُرِيدُ أَن تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ فَبَعَثَ اللَّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءَةَ أَخِيهِ قَالَ يَا وَيْلَتَا أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَٰذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِيَ سَوْءَةَ أَخِي فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ’’ان لوگوں کو آدم کے د وبیٹوں کے حالات صحیح صحیح بیان کرو، جبکہ انہوں نے قربانی کی۔تب ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قربانی قبول نہ ہوئی۔ ‎‎ (دوسرے نے) کہا کہ’’میں یقیناً تجھ کو قتل کر ڈالوں گا‘‘۔تب پہلے نے کہا کہ’’اللہ تعالیٰ متقیوں کی قربانی قبول کرتا ہے۔ تحقیق اگر تو نے مجھے قتل کرنے کے لئے اپنا ہاتھ پھیلایا تو میں تجھے قتل کرنے کو اپنا ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا۔درحقیقیت میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔میں درحقیقت یہ پسند کرتا ہوں کہ تو اپنا اور میرا دونوں کا گناہ اپنے سر لے کیونکہ اس وقت تُو اصحاب النار میں سے ہو جائے گااور یہی ظالموں کی جزاہوتی ہے۔تب اس ‎‎ (قابیل ) کی روح نے اسے اپنے بھائی کے قتل کی اجازت دی۔پس اس نے قتل کر ڈالا اور اس طرح وہ نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہو گیا۔تب اللہ نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کھود کر اسے یہ بتانے لگا کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیونکر دفن کرے۔اس نے کہا ’’افسوس مجھ پر کیامیں اس کوّے جیسا بھی نہیں کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دوں۔تب وہ نادم ہوا۔اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کے لئے لکھا کہ جو کوئی کسی نفس کو قتل کرے گا،بجز قصاص یا دنیا سے فساد رفع کرنے کے،تو ایسا سمجھا جائے گا گویا اس نے تمام آدمیوں کو قتل کر دیا اور جو کوئی کسی نفس کو زندہ رکھے گا تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو زندہ رکھا‘‘۔

قابیل وہابیل کے درمیان ایک مکالمہ یا بحث  (Targum of Jonathan)  ۳۲   اور  (Targum of Jerusalem)  ۳۳   یہودی روایات میں بھی اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ قابیل نے کہا:

’’ گناہ کے لئے سزا نہیں،نہ نیکو کاری کے لئے کوئی انعام ہے‘‘۔اس کے جواب میں ہابیل نے کہا’’خدا نیکی کا انعام اور بدی کی سزا دیتا ہے‘‘۔اس بات پر خفا ہو کر قابیل نے ایک پتھر لے کر اپنے بھائی پر دے مارا اور اسے قتل کر ڈالا‘‘۔

اس بیان اور اُس بیان میں جو قرآن میں پایا جاتا ہے چنداں مطابقت نہیں ہے،لیکن قرآن کے بقیہ بیان کا ماخذ وہی یہودی روایت ہے جو  Pirke De-Rabbi Eliezer  ۳۴   کے باب نمبر۲۱ میں درج ہے۔ا س کا ترجمہ یہ ہے:

’’آدم اور اس کی مدد گار دونوں بیٹھے ہوئے اس (ہابیل) پر نوحہ و زاری کر رہے تھے اور نہیں جانتے تھے کہ وہ ہابیل کا کیا کریں کیونکہ وہ تکفین و تدفین سے واقف نہ تھے۔ایک کوّا جس کا ایک ساتھی مر گیا تھا آیا۔اس نے اس کو لیا،زمین کھودی اور اسے ان کی (آدم و حوا) کی آنکھوں کے سامنے دفن کر دیا۔آدم نے کہا’’جیسا اس کوّے نے کیا ہے ،ویسا ہی میں کروں گا۔چنانچہ انہوں نے فور اً ہابیل کی لاش لی،زمین کھودی اور اسے دفن کر دیا‘‘۔

جب ہم اس بیان کا قرآن مجید کے بیان سے مقابلہ کرتے ہیں تو صرف اس قدر فرق نکلتا ہے کہ یہودی روایت میں کوے نے آدم کو اور قرآن کی روایت میں قابیل کو دفن کرنا سکھایا۔یہ بھی ظاہر ہے کہ قرآن میں جو کچھ درج ہے وہ کسی یہودی کتاب کا لفظی ترجمہ نہیں ہے بلکہ محمدﷺ نے اپنے کسی یہودی دوست سے جس طرح سنا تھا اسی طرح بیان کر دیا۔ لہٰذا اگر یہ غلطی ہے تو رسول عربی کی نہیں ہے بلکہ ان یہودیوں کی ہے جنہوں نے یہ روایت بیان کی۔

سورۂ مائدہ کی ۳۵ویں آیت میں جو کچھ لکھا ہے اس کا سابقہ آیتوں کے مضمون سے بظاہر کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔اس لئے صاف ظاہر ہے کہ کوئی درمیانی کڑی گم ہے۔اگر اس باب میں ہم  (Mishnah Sanhedrin) ‏کے باب۴ فقرہ۵ کو دیکھیں تو مذکورہ بالا آیت کا تعلق قتل ہابیل کے واقعہ سے بالکل واضح ہو جائے گا۔یہ یہودی مفسر ’’ناموس موسیٰ‘‘ کے ان الفاظ کی تفسیر کرتا ہوا جو خدا نے قابیل سے فرمائے تھے یعنی’’یہ تو نے کیا کیا؟تیرے بھائی کے خون کی آواز مجھے زمین سے پکارتی ہے‘‘ (پیدائش۱۰:۴) (اس عبارت میں لفظ خون عبرانی زبان میں جمع آیا ہے)۔یوں لکھتا ہے کہ:

’’تیرے بھائی کا خون‘‘ نہیں بلکہ’’تیرے بھائی کے خون‘‘ جس سے نہ صرف شخص مقتول بلکہ اس کی اولاد کا خون بھی مراد ہے۔اسی وجہ سے آدم کو تنہا پیدا کیا گیا تھا تاکہ وہ تجھے سکھائے کہ ہر وہ شخص جو بنی اسرائیل میں کسی ایک نفس کو بھی قتل کرتا ہے،وہ کتاب مقدس کے نزدیک تمام دنیا کو قتل کرتا ہے اور جو شخص بنی اسرائیل میں سے ایک نفس کو بھی زندہ رکھتا ہے وہ تمام دنیا کو زندہ رکھتا ہے‘‘   ۳۵  ۔

ہم کو اس تفسیر کی صحت یا غلطی سے کوئی تعلق نہیں،مگر دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ سورۂ مائدہ کی ۳۵ ویں آیت اس اقتباس کا تقریباً لفظی ترجمہ ہے۔قرآن میں مشناہ کے اول حصہ کو حذف کر دیا ہے۔شاید اس وجہ سے کہ محمدﷺ یااس کے بیان کرنے والے نے اسے پوری طرح نہیں سمجھا تھا۔لیکن اگر یہ حصہ جوڑ دیا جائے تو ۳۵ ویں آیت کا آیات ماسبق سے تعلق پورا ظاہر جاتا ہے۔جس یہودی روایت کا ہم نےذکر کیا ہے اس میں ایک لفظ ’’میّاد‘‘ آیا ہے جس کے لفظی معنی ہیں ’’ہاتھ سے‘‘، لیکن اس کامفہوم ’’فوراً‘‘ہو تا ہے۔ تقریباً یہی لفظ’’عن ید‘‘ قرآن کی سورۂ توبہ آیت ۲۹ میں بھی آیا ہے قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ جس کی تفسیر میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔

ابراہیم اور آتش نمرود

قرآن میں یہ قصّہ مسلسل طور پر ایک جگہ بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ تھوڑا تھوڑا کر کے مختلف مقامات پر دیا گیا ہے۔ اس لئے مسلمانوں نے یہ مختلف ٹکڑے ایک جگہ جمع کرکے مفصل قصّہ تیار کر لیا ہے اور گم شدہ کڑیاں احادیث نبوی سے حاصل کر لی گئی ہیں۔جب ہم اس قصّہ کا جو اس طرح مسلسل کر کے مسلمانوں میں مسلّمہ طور پر رائج و قبول ہے،اس بیان سے مقابلہ کرتے ہیں جو یہودیوں کی کتاب’’مدراش ربّہ‘‘  (Midrash Rabba)  ۳۶   میں پایا جاتا ہے،تو ہم کو صاف طو ر پر معلوم ہو جاتا ہے کہ اسلامی قصّہ کاماخذ دراصل وہی یہودی قصّہ ہے۔ناظرین کرام کے ملاحظہ کے لئے پہلے ہم اس قصّہ کا ترجمہ درج کرتے ہیں جومسلمان مصنفین نے لکھا ہے ،بعدازاں یہودی راویوں کا بیان کردہ مختصر اور سادہ قصّہ بیان کریں گے۔پہلے ہم وہ قصّہ لیتے ہیں جو ابو الفداءنے بیان کیا ہے۔اس میں جو حصہ قرآن سے لیا گیا ہے وہ ہم عربی عبارت میں لکھ دیں گے۔ابو لفدا لکھتا ہے کہ:

’’ابراہیم کا باپ آذر بُت بنایا کرتا تھا اور بنا کر ابراہیم کو دے دیا کرتا تھا تا کہ جا کر فروخت کر لائے۔مگر ابراہیم ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ’’ایسی چیز کو کون خریدے گا جو خریدار کو نقصان دے گی اور اسے کوئی فائدہ نہ پہنچائے گی؟‘‘بعد از اں جب اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو توحید کی طرف بلائے تو سب سے پہلے انہوں نے اپنے باپ کو نصیحت کی،مگر اس نے نہ مانا۔پھر انہوں نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی۔ الغرض جب اس دعوت توحید کا معاملہ بڑھتے بڑھتےنمرود بن کُش کے کانوں تک پہنچا جو اس ملک کا بادشاہ تھا۔۔۔ تو نمرود نے ابراہیم خلیل اللہ کو پکڑ کر ایک بہت بڑی آگ میں ڈال دیا۔پس آگ سرد ہو گئی اور اس سے ابراہیم کو کوئی اذیت نہ پہنچی اور وہ کچھ دنوں بعد آگ سے صحیح و سلامت باہر نکل آئے۔تب ان کی قوم کے کچھ آذری ان پر ایمان لائے‘‘۔

ابو الفدا کا مختصر بیان یہی ہے۔اب ہم اس قصّہ کا اہم ترین حصہ درج کرتے ہیں جو’’عرایس المجالس‘‘  ‎'Araisu'l Majalis‏  میں دیا گیا ہے۔اس کتاب میں لکھا ہے کہ ابراہیم کی پرورش ایک غار میں ہوئی تھی اور انہیں سچے خدا کا کوئی علم نہ تھا۔ایک رات جو وہ باہر نکلے اور جگمگاتے ستاروں کی شان دیکھی تو وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے ستاروں کو اپنا خدا تسلیم کر لینے کا ارادہ کر لیا۔اس کے بعد اس قصّہ کی تفصیل حسب ذیل دی گئی ہے جس میں قرآن کی آیتوں کا سلسلہ حتی الامکان قائم کر لیا گیا ہے:

فَلَمَّا جَنَّ عَلَیۡہِ الَّیۡلُ رَاٰ کَوۡکَبًا ۚ قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ۔فَلَمَّا رَاَ الۡقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَئِنۡ لَّمۡ یَہۡدِنِیۡ رَبِّیۡ لَاَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡقَوۡمِ الضَّآلِّیۡنَ۔ فَلَمَّا رَاَ الشَّمۡسَ بَازِغَۃً قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ہٰذَاۤ اَکۡبَرُ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَتۡ قَالَ یٰقَوۡمِ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِکُوۡنَ اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ‘‘ ‎‎ (سورۂ انعام آیات۷۶۔۷۹)۔

کہتے ہیں کہ اُن کے باپ بُت بنایا کرتے تھے اور ابراہیم کو بُت بنا کر دیتے تھے تا کہ فروخت کر لائیں۔ ابراہیم بُت لے کر جاتے اور بآواز بلند پکارتے کہ’’کون خریدے گا ایسی چیز کو جو مضرت پہنچاتی ہے اور کوئی فائدہ نہیں دیتی؟‘‘ پس ان سے کوئی شخص بُت نہ خریدتا۔جب انہوں نے دیکھا کہ وہ بُت بکتے ہی نہیں تو وہ انہیں ایک دریا پر لے گئے۔وہاں انہوں نے ان بُتوں کو مار کر فرمایا کہ’’پیو پانی اے میرے خراب سودے‘‘۔یہ گویا اپنی قوم،ان کے دین باطل اور جہالت پر طنز تھی ۔آخر کار انہوں نے بتوں اور اپنی قوم کا اس قدر مضحکہ اڑایا اور اس قدر طعن و تشنیع کی کہ وہ تما م شہر کے باشندوں اور اپنی قوم میں مشہور ہو گئے۔اس لئے ان کی قوم نے ان سے مذہب کے بارے میں جھگڑا کیا، تب ابراہیم نے اپنی قوم سے کہا:

قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَن يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ‎‎ (سورۂ انعام آیات۸۰۔۸۳)۔

اس طرح انہوں نے اپنی قوم کو قائل کر کے مغلوب کر لیا ااور اپنے باپ آذر کو دعوت دی کہ وہ ان کا دین قبول کر لیں۔چنانچہ انہوں نے اپنے باپ سےاس طرح کہا يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا (سورۂ مریم آیت۴۲)۔

پس ان کے باپ نے اس بات کے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔اس پر ابراہیم نے بآواز بلند اپنی قوم کے سامنے اعلان کر دیا کہ میں تمہارے دین سے بازآیا اور اپنے دین کا اظہار کر دیا:

قَالَ أَفَرَأَيْتُم مَّا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمُ الْأَقْدَمُونَ فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ ‎‎ (سورۂ شعرا آیت ۷۶)۔قوم نے پوچھا’’تم کس کی پرستش کرتے ہو؟‘‘ ابراہیم نے جواب دیا کہ ’’رب العالمین کی۔قوم نے پوچھا ’’کیا تمہار ا مطلب نمرود سے ہے؟‘‘ابراہیم نے کہا’’نہیں! بلکہ اس کی پرستش کرتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا وغیرہ ‘‘۔جب یہ معاملہ ہر طرف پھیل گیا اور نمرود نے بھی سنا تو اس نے ابراہیم کو طلب کر کے ان سے دریافت کیا کہ’’اے ابراہیم کیا تو نے اپنے خدا کو دیکھا ہے جس نے تجھے بھیجا ہے اور جس کی عبادت کی تُو لوگوں کو دیتا ہے،جس کی طاقت تُو بے حد بیان کرتا ہے اور اسی وجہ سے اس کو سب سے بڑا بتاتا ہے؟وہ تیرا خدا کیا ہے؟‘‘ابراہیم نے جواب دیا کہ’’میرا خدا وہ ہے جو زندہ رکھتا ہے اور مار ڈالتا ہے‘‘۔نمرود نے کہا کہ’’میں زندہ رکھتا ہوں اور مار ڈالتا ہوں‘‘۔ابراہیم نے دریافت کیا کہ’’تو کس طرح زندہ رکھتا ہے اور کس طرح مار ڈالتا ہے؟‘‘نمرود نے جواب دیا کہ’’میں اپنی قلمرو سے دو آدمی ایسے لیتا ہوں جو واجب القتل ہیں۔ان میں سے ایک کو قتل کرتا ہوں اور دوسرے کو میں معا ف کر کے چھوڑ دیتا ہوں‘‘۔یہ سن کر ابراہیم نے کہا کہ’’تحقیق اللہ تعالیٰ آفتاب کو مشرق کی طرف سے طلوع فرماتا ہے،پس تو اسے مغرب کی طرف سے طلوع کر کے دکھا‘‘۔اس سوال پر نمرود سٹ پٹایا اور کوئی جواب نہ دے سکا‘‘۔

اس کے بعد قصّہ کا سلسلہ اس طرح جاری رکھا گیا ہے کہ ابراہیم کی قوم میں یہ دستور تھا کہ ہر سال ا یک عظیم الشان تہوار منایا جاتا تھا جس میں ہر شخص کچھ عرصہ کے لئے شہر سے باہر ضرور جاتا تھا۔بیان کیا جاتا ہے کہ شہر سے روانہ ہونے سے پیشتر شہر والے کھانے تیار کرتے تھے اور بُتوں کے سامنے رکھ کر کہا کرتے تھے کہ’’جب ہمارے واپس آنے کا وقت ہوگا تو ہم واپس آجائیں گے اور اس وقت تک دیوتا ہمارے کھانے کو برکت دے دیں گے اور ہم کھانا کھا لیں گے‘‘۔لہٰذا جب ابراہیم نے بُتوں کو دیکھا اور ان کے سامنے کھانے رکھے دیکھے تو انہوں نے ازراہ طنز بُتوں سے کہا’’کیا تم نہیں کھاؤ گے‘‘۔ ’’الاتا کلون‘‘ اورجب ان بُتوں نے کوئی جواب نہ دیا تو ابراہیم نے ان سے کہا ’’مالکم لا تنطقون (تمہیں کیا ہو گیا! تم بولتے کیوں نہیں؟) فَرَاغَ عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِينِ‘‘ (سورۂ الصافات آیت ۹۳) یعنی ابراہیم نے اپنے داہنے ہاتھ میں ایک کلہاڑی لے کر ان کو توڑنا شروع کر دیا، حتّٰی کہ بڑے بُت کے سوائے کوئی بُت باقی نہ رہا اور اس صنم اکبر کی گردن میں ابراہیم نے وہ کلہاڑی لٹکا دی۔بعدازاں وہ باہر نکل گئے۔اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’فجعلہم جذ اذاً الاّ کبیراً لہم لعلّہم الیہہ یرجعون‘‘۔ ‎‎ (پس اس نے صنم کبیر کے سوائے تمام بُتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا کہ شاید وہ لوگ واپس آکر دیکھیں کہ یہ کام اسی بُت نے کیا ہے)۔پس جب لوگ بیرون شہر سے واپس آکر بُت خانہ میں گئے اور انہوں نے اپنے بُتوں کو ایسی حالت میں دیکھا تو ’’قالو ا من فعل ہٰذا باٰلہتنا انہّ لمن الظالمین۔قالو اسمعنا فتیً یذکر ھم یقال لہا ابراہیم‘‘ ‎‎ ( کہنے لگے کہ یہ حرکت ہمارے بُتوں کے ساتھ کس نے کی ہے یقیناً وہ ظالموں میں سے ہے۔وہ کہنےلگے کہ ہم نے ایک جوان مسمی ابراہیم کو ان کا ذکر کرتے سنا ہے۔ہمارے خیال میں یہ وہی شخص ہے جس نے یہ حرکت کی ہے)۔یہ خبر ظالم نمرودکو پہنچی اور اس قوم کے امرا و شرفا نے بھی سنا۔لہٰذا انہوں نے کہا ’’فاتوا بہٖ علیٰ اعین الناس لعلّہم یشہدون‘‘ ‎‎ ‎‎ (لاؤ اس کو ان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے تا کہ وہ گواہی دیں کہ ہاں اسی شخص نے یہ فعل کیا ہے)۔پس جب وہ ابراہیم کو سامنے لائے تو انہوں نے اس سے کہا ’’ءَانت فعلت ہٰذا بآ لہتنا یٰا براہیم‘‘َ۔ کیا اے ابراہیم ہمارے بُتوں کے ساتھ یہ حرکت تو نے کی ہے؟ ’’قال بل فعلہٖ علیٰ کبیر ہم ہذا فسئلو ہم ان کا نواینطقون‘‘۔ ابراہیم نے کہا کہ یہ کام بڑے بُت نے کیا ہے۔پس ان سے دریافت کر لو اگر وہ بول سکیں۔وہ تم لوگوں سے اس بات پر ناراض تھا کہ تم اس کے ان چھوٹے چھوٹے بُتوں کی بھی پوجا کرتے تھے اور چونکہ وہ ان سب سے بڑا ہے اس لئے ا س نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’ابراہیم نے صرف تین مرتبہ جھوٹ بولا اور تینوں مرتبہ اللہ تعالیٰ کی خاطر۔ایک مرتبہ تو اس وقت جب انہوں نے یہ کہا کہ ’’انّی سقیم‘‘ ‎‎ ( میں بیمار ہوں )، دوسری مرتبہ جب انہوں نے یہ کہا کہ ’’قال بل فعلہہ کبیر ہم ہذا فسئلو ہم‘‘ اور تیسری مرتبہ اس بادشاہ کے سامنے جھوٹ بولا جو سارہ کو لے لینا چاہتا تھا اور کہا کہ’’ یہ میری بہن ہے‘‘۔

پس جب ابراہیم نے ان لوگوں سے یہ کہا تو وہ اپنی قوم کی طرف مخاطب ہوئے اور کہنے لگے کہ ’’یقیناً تم نا انصاف لوگ ہو۔یہ موجود ہے وہ شخص جس کی نسبت تم تحقیقات کر رہے ہو اور یہ تمہار ے بُت موجود ہیں جن کے ساتھ اس نے وہ حرکت کی ،جو کی گئی۔لہٰذا تم اپنے بُتوں سے پوچھو‘‘۔ اور یہی بات ابراہیم نے کہی تھی کہ’’تم ان سے دریافت کر لو اگر وہ بول سکتے ہوں‘‘۔ پس ابراہیم کی قوم نے کہا کہ ہمارے نزدیک بھی یہی واقعہ معلوم ہوتا ہے جو اس شخص نے بیان کیا ہے اور ابراہیم نے یہ کہا تھا کہ ’’تم ناانصاف لوگ ہو کیونکہ تم بڑے بُت کے ساتھ چھوٹے بُتوں کی پرستش کرتے ہو‘‘۔پس لوگ ابراہیم کے جواب سے سٹ پٹاگئے ،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ بُت بولتے نہیں اور نہ تشدد آمیز حملہ کرتے ہیں۔پس لوگوں نے ابراہیم سے کہا’’یقیناً تو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں‘‘ اور اس طرح جو حجت ابراہیم نے پیش کی تھی، اس کے لوگ قائل ہوگئے۔اس کے بعد ابراہیم نے کہا کہ’’تو کیا تم اللہ کی بجائے ان چیزوں کی پرستش کرتے ہو جو نہ تم کو قطعی فائدہ پہنچاتی ہیں نہ نقصان؟افسوس ہے تم پر اور اس چیز پر جسے تم خدا کی بجائے پوجتے ہو۔کیا تم اب بھی نہیں سمجھے؟‘‘۔جب وہ اس دلیل سے مغلوب ہو گئے تو وہ اس کا کوئی جواب نہ دے سکے۔انہوں نے کہا کہ اس شخص کو جلادو اور اپنے بُتوں کی مدد کرو اگر تم کام کےآدمی ہو‘‘۔عبداللہ ا بن عمر سے روایت ہے کہ جس شخص نے ابراہیم کو جلا دینے کے لئے لوگوں پر زیادہ زور دیا وہ ایک کُرد تھا۔شعیب الجبائی کی روایت یہ ہے کہ اس کا نام ذینون تھا۔پس اللہ تعالیٰ نے زمین کو شق کر دیا جس میں وہ شخص سما گیا جہا ں وہ تاقیامت رہے گا۔پس جب نمرود اور اس کی قوم کے لوگ ابراہیم کو جلانے کے لئے جمع ہوئے تو انہوں نے ان کو ایک مکان میں بند کر دیا اور پھر ان کے لئے بھیڑو ں کے باڑاکی وضع کا ایک مکان بنایا۔قرآن کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے’’انہوں نے کہا کہ اس کےلئے ایک مکان بناؤ اور اسے شعلہ آتش میں پھینک دو‘‘۔ تب انہوں نے ابراہیم کے لئے کچھ سخت لکڑی اور مختلف قسم کاایندھن جمع کیا۔

جس مصنف سے ہم نے مندجہ بالا عبارت نقل کی ہے وہ بیان کرتا چلا جاتا ہے کہ کس طرح ابراہیم کو آگ میں ڈا لا گیا اور وہ اس آگ میں سے صحیح وسالم نکل آئے۔آخر قصہ میں وہ لکھتا ہے کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ابراہیم کی جان ’’حسبی اللّٰہ‘‘ کہنے سے بچ گئی تھی کیوکہ خدا نے اسی کو سن کر فرمایا تھا ’’یا نار کونی برادوّ۔سلاماً علیٰ ابراہیم ‘‘۔ اب ہم مندرجۂ بالا بیان کا اس قصّہ سے مقابلہ کرتے ہیں جو یہودیوں کی کتاب ’’مدراش ربہّ‘‘   ۳۷   میں تحریر ہے:

וימת הרן על פני תרח אביו - רבי חייא בר בריה דרב אדא דיפו: תרח עובד צלמים היה, חד זמן נפיק לאתר הושיב לאברהם מוכר תחתיו. הוה אתי בר אינש בעי דיזבן והוה אמר לו: בר כמה שנין את? והוה אמר לו: בר חמשין או שיתין. והוה אמר לו: ווי ליה לההוא גברא דהוה בר שיתין, ובעי למסגד לבר יומי?! והוה מתבייש והולך לו. חד זמן אתא חד איתתא טעינה בידה חדא פינך דסולת. אמרה ליה: הא לך קרב קודמיהון. קם נסיב בוקלסא בידיה, ותבריהון לכולהון פסיליא, ויהב בוקלסא בידא דרבה דהוה ביניהון. כיון דאתא אבוה אמר לו: מאן עביד להון כדין? אמר לו: מה נכפר מינך, אתת חדא איתתא טעינה לה חדא פינך דסולת, ואמרת לי הא לך קריב קודמיהון, קריבת לקדמיהון הוה דין אמר: אנא איכול קדמאי! ודין אמר אנא איכול קדמאי! קם הדין רבה דהוה ביניהון, נסב בוקלסא ותברינון. אמר לו: מה אתה מפלה בי, וידעין אנון?! אמר לו: ולא ישמעו אזניך מה שפיך אומר?! נסביה ומסריה לנמרוד. אמר לו: נסגוד לנורא! אמר לו אברהם: ונסגוד למיא, דמטפין נורא. אמר לו נמרוד: נסגוד למיא! אמר לו: אם כן נסגוד לעננא, דטעין מיא. אמר לו: נסגוד לעננא! אמר לו: אם כן נסגוד לרוחא, דמבדר עננא. אמר לו: נסגוד לרוחא! אמר לו: ונסגוד לבר אינשא, דסביל רוחא. אמר לו: מילין את משתעי! אני, איני משתחוה אלא לאור, הרי אני משליכך בתוכו, ויבא אלוה שאתה משתחוה לו ויצילך הימנו. הוה תמן. הרן קאים פלוג, אמר: מה נפשך, אם נצח אברהם, אנא אמר: מן דאברהם אנא, ואם נצח נמרוד, אנא אמר: דנמרוד אנא. כיון שירד אברהם לכבשן האש וניצול, אמרין ליה: דמאן את? אמר להון: מן אברהם אנא. נטלוהו והשליכוהו לאור ונחמרו בני מעיו ויצא ומת על פני תרח אביו, הה"ד (שם יב) וימת הרן על פני תרח וגו:

ترجمہ:’’تیرا ہ  (Terah) ‏ ایک بُت بنانے والا شخص تھا۔ایک مرتبہ وہ کہیں باہر گیا ا ور دوکان پر اپنی بجائے ابراہیم کو بٹھا گیا۔جب کوئی شخص بُت خریدنے آتا تو ابراہیم اس سے کہتا’’تمہاری کیا عمر ہے؟ اور وہ شخص جوا ب دیتا کہ’’پچاس یا ساٹھ سال‘‘۔اس پر ابراہیم اس سے کہتا کہ ’’ افسوس ہے اے شخص تیری حالت پر کہ تیری عمر ساٹھ سا ل ہے اور تو ایک ایسی چیز کی پر ستش کرنا چاہتا ہے جو صرف چند روز ہوئے بنی ہے۔یہ سن کر وہ دوسرا شخص شرمندہ ہو جاتا اور اپنی راہ لیتا۔ایک مرتبہ ایک عورت آئی جس کے ہاتھ میں گیہوں کے آٹے کی ایک تھالی تھی۔اس عورت نے ابراہیم سے کہا’’یہ لو اور بُتوں کے آگے رکھ دو‘‘۔وہ اٹھا اپنے ہاتھ میں ایک ڈنڈا لے کر سب بُتوں کو پا ش پاش کر دیا۔بعد از اں اس نے وہ ڈنڈا سب سے بڑے بُت کے ہاتھ میں رکھ دیا۔جب اس کا باپ واپس آیا تو اس نے ابراہیم سے دریافت کیا کہ’’ان کے ساتھ یہ حرکت کس نے کی ہے‘‘۔ابراہیم نے کہا کہ’’آپ سے کون سی بات پوشیدہ ہے۔ایک عورت یہاں آرد (آٹا) گندم کی تھا لی لے کر آئی اور مجھ سے کہنے لگی کہ’’لو یہ تھالی بُتوں کے آگےرکھ دو‘‘۔میں نے وہ تھالی رکھ دی۔اس بُت نے کہا کہ پہلے میں کھاؤں گا اور ا س دوسرے بُت نے کہا کہ نہیں پہلے میں کھاؤں گا۔یہ بُت جو سب سے بڑا تھا، (اس نے)ڈنڈا لیا اور سب کو توڑ دیا‘‘۔اس نے (ابراہیم کے باپ نے) کہا کہ مجھ سے ایسے جھوٹے قصے کیوں بیان کرتا ہے؟کیا یہ سمجھتے ہیں؟ابراہیم نے اس سے کہا کہ’’جو بات تیرے لب کہتے ہیں کیا وہ تیرے کان نہیں سنتے؟‘‘اس بات پر تیراہ نے ابراہیم کو پکڑ لیا اور نمرود کے حوالہ کر دیا۔نمرود نے ابراہیم سے کہا’’آؤ آگ کی پر ستش کریں‘‘۔ابراہیم نے اس سے کہا کہ’’پانی کی پوجا کیوں نہ کریں جو آگ کو بجھا دیتا ہے‘‘۔پھر نمرود نے کہا کہ’’اچھا آؤ پانی کی پرستش کریں‘‘۔اس پر ابراہیم نے جواب دیا کہ ’’اگر ایسا ہی ہے تو پھر بادل کی پوجا کیوں نہ کریں جو پانی لاتا ہے‘‘۔نمرود نے کہا کہ’’اچھا آؤ بادل ہی کی پوجا کریں‘‘۔اس پر ابراہیم نے کہا کہ’’ اگر ایسا ہے تو پھر ہو ا ہی کی پرستش کیوں نہ کی جائے جو بادلوں کو لے جاتی ہے‘‘۔نمرود نے کہا کہ’’اچھا آؤ ہوا کی پرستش کریں‘‘۔اس پر ابراہیم نے کہا کہ’’پھر انسان ہی کی پوجا کیوں نہ کی جائے جو ہوا کو روک لیتا ہے۔اس پر نمرود نے بگڑ کر کہا کہ’’تو مجھ سے زبان د ر از ی کرتا ہے ،بس میں کسی چیز کی پرستش نہیں کرتا۔صرف آگ کی پرستش کرتا ہوں۔ دیکھ میں تجھے آگ میں ڈالے دیتا ہوں۔دیکھیں وہ خدا جس کی تو پرستش کرتا ہے تجھے آکر کیونکر بچاتا ہے‘‘۔

دونوں بیانات کا مقابلہ کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں والا قصّہ براہ راست یہودی روایت سے ماخوذ ہے اور چونکہ محمدﷺ نے اس قصّہ کو کسی ایک جگہ مسلسل اور مفصل بیان کرنا ضروری نہیں سمجھا اس لئے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصّہ عرب میں بہت پہلے سے مشہور تھا۔ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں ابراہیم کے باپ کا آذر بتا یا گیا ہے،تیراہ (تارح) نہیں جیسا کہ توریت کی کتاب پیدائش میں لکھا ہے۔مگر مشرقی ممالک کے یہودی بعض اوقات اس کانام ذارہ  (Zarah) ‏ بھی لیتے ہیں۔ممکن ہے کہ عربی نام ’’آذر ‘‘ اسی کی بگڑی ہوئی صورت ہو اور یہ بھی ممکن کہ محمدﷺ نے یہ نام ملک شام میں معلوم کیا ہو جہاں سے یوسیبئیس  Eusebius‏ نے اس نام کی صورت  ’’Ἀθάρ‘‘‏ نکالی اور اسے استعمال کیا۔زمانۂ حال کے ایرانی مسلمان اس نام کو ’’آذر‘‘ لکھتے ہیں مگر تلفظ اس کا بالکل اسی طرح کرتے ہیں جیسا کہ عربی میں ہوتا ہے۔اگرچہ اصلی فارسی تلفظ آذھر  (Adhar) ‏ تھا، یعنی تقریباً وہی جو یوسیبئیس نے استعمال کیا ہے۔فارسی زبان میں اس لفظ کے معنی’’آگ ‘‘ ہیں اور دراصل یہ اس موکل یادیوتا کا نام تھا جس کا تعلق آگ سے ہے اور یہ ’’ہورامژدا‘‘ کی اچھی مخلوق میں سمجھا جاتا تھا۔

واقعہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ غالباً اس نیک دیوتا ایزد  (Izad) ‏ کو ابراہیم کا باپ بتا کر ان کے لئے مجوسیوں میں احترام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہو گی۔حالانکہ ابراہیم کو آگ میں ڈالے جانے کا قصّہ بعض یہودی مفسرین کی ایک معمولی سی غلطی سے پیدا ہوا تھا۔لیکن قبل اس کے کہ ہم اس کو ظاہر کریں اس با ب میں مسلمانوں کے ان دلائل کو بیان کر دیں جو اس سلسلہ میں وہ پیش کیا کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ قصّہ دوسری کتابوں میں بھی پایا جاتا ہے تو اس سے قرآن کے الہامی ہونے پر کوئی حرف نہیں آتا۔ایسے قصص کا دیگر کتب سماوی میں پایا جانا اس امر کا بین ثبوت ہے کہ دین اسلام ایک سچادین ہے۔مسلمان کہتے ہیں کہ’’اگرچہ محمدﷺ نے یہ قصّہ یہودیوں سے نہیں لیابلکہ بذریعہ وحی نازل ہوا تھا،تاہم چونکہ یہودیوں نے جوحضرت ابراہیم کی اولاد میں ہیں اس قصّہ کو اپنی روایات کی بنا پر تسلیم کر لیا ہے،اس لئے اس بات سے تعلیم قرآنی کی اور زیادہ تصدیق ہوتی ہے‘‘۔ 

اس کے جواب میں صرف اس قدر کہنا کافی ہے کہ یہ روایت صرف جاہل یہودیوں کی ہے اور پڑھے لکھے یہودی اس کا اعتبار نہیں کرتے۔ عہدابراہیم کے متعلق جتنی قابل اعتبار یہودی روایات ہیں وہ’’ناموس موسیٰ‘‘  (Pentateuch) ‏ میں درج ہیں اور ان میں یہ طفلانہ قصّہ موجود نہیں ہے۔علاوہ اس کے توریت کی کتاب پیدائش سے ظاہر ہوتا ہے کہ نمرود کا عہد ابراہیم سے بہت پہلے گزرا ہے۔یہ صحیح ہے کہ نمرود کا نام قرآن میں نہیں آیا ہے،مگر مسلمانوں کی احادیث،روایات،تفاسیر اور’’مدراش ربہ‘‘ کی روایات میں ضرور پایا جاتا ہے۔علاوہ اس کے نمرود کا یہ تمام قصہ ایک یہودی کی جاہلانہ غلطی پر مبنی ہے۔اسی کی تشریح کے لئے ہم کو  (Targum of Jonathan ben Uzzeil)  ۳۸   کا حوالہ دینا پڑے گا۔اس مصنف نے کلدانیوں کے شہر اُر  (Ur of Chaldees)  ۳۹   کو معلوم کیا۔یہ وہ مقام ہے جس کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ ابراہیم ترک وطن کر کے یہیں آباد ہوئے تھے،یعنی یہ شہر اس جگہ آباد تھا جہاں آج کل مقیر  (Muqayyar)  ۴۰   ہے۔قدیم بابلی زبان میں لفظ اُر یااُرُو  (Ur or Uru) ‏ کے معنی’’ شہر‘‘ کے ہیں۔یہی لفظ’’یروشلیم‘‘ کے نام میں بھی پایا جاتا ہے (عربی میں اسےاب بھی’’اُروشلیم‘‘ کہتے ہیں) جس کے معنی ہیں ’’دارالسلام‘‘ مگر جو ناتھن کو بابلی زبان علم نہ تھا، اس لئے اس نے سمجھا کہ ’’اُور‘‘  (Ur) ‏ کے معنی ضرور وہی ہوں جو عبرانی لفظ’’اُور‘‘  (Or) ‏ کے ہیں یعنی’’نور یا روشنی‘‘۔اسی لفظ کے معنی ارامی زبان میں’’آگ‘‘ کے ہیں۔پس اس مفسر نے کتاب پیدائش۷:۱۵ کے معنی یہ کئے کہ’’میں وہ خدا ہوں جس نےتجھے کلدانیوں کی آگ کی بھٹی سے باہر نکالا‘‘۔اسی طرح کتاب پیدائش باب یاز دہم آیت ۲۸ کی تفسیر میں اس نے لکھا کہ’’جب نمرود نے ابراہیم کو آگ کی بھٹی میں ڈال دیا کیونکہ وہ اس کے بتوں کی پرستش نہیں کرتے تھے،تو ایسا واقعہ ہو اکہ آگ کو اجازت نہیں دی گئی کہ وہ ابراہیم کو مضرت پہنچائے‘‘۔اس طرح صاف طور پر ظاہر ہو گیا کہ یہ تمام قصہ صرف ایک لفظ کے غلط معنی کرنے کی وجہ سے پیدا ہو گیا ورنہ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔رہی یہ بات کہ سب سے پہلے یہ غلطی جوناتھن نے کی تھی صحیح طور پر نہیں کہی جا سکتی۔ممکن ہے کہ اس نے یہ خیال دوسرے لوگوں سے لیا ہو۔بہر حال جو کچھ بھی ہو ،مگر نتیجہ وہی ہے۔

ملکہ ٔ سبا و سلیمان

قرآن میں یہ قصّہ جس طرح بیان کیا گیا ہے اس کے ماخذ کے متعلق ہم کو ذرا سا بھی شک نہیں ہے۔یہ تمام قصّہ خفیف تغیرات کے ساتھ  (Second Targum of Esther) ‏ سے لیا گیا ہے جو  (Miqraoth Gedoloth) ‏ میں چھپا ہوا ہے۔اس میں شک نہیں کہ محمد ﷺ کو یہ یقین تھا کہ یہ قصّہ یہودیوں کی مقدس کتب میں درج ہے اور یہ انہیں اور عربوں کو اس قدر پسند تھا کہ اس کو قرآن میں داخل کر دیا۔ قرآن میں یہ قصّہ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ قَالَ سَنَنظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ اذْهَب بِّكِتَابِي هَٰذَا فَأَلْقِهْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانظُرْ مَاذَا يَرْجِعُونَ قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي مَا كُنتُ قَاطِعَةً أَمْرًا حَتَّىٰ تَشْهَدُونِ قَالُوا نَحْنُ أُولُو قُوَّةٍ وَأُولُو بَأْسٍ شَدِيدٍ وَالْأَمْرُ إِلَيْكِ فَانظُرِي مَاذَا تَأْمُرِينَ قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً وَكَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ وَإِنِّي مُرْسِلَةٌ إِلَيْهِم بِهَدِيَّةٍ فَنَاظِرَةٌ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ فَلَمَّا جَاءَ سُلَيْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللَّهُ خَيْرٌ مِّمَّا آتَاكُم بَلْ أَنتُم بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ ارْجِعْ إِلَيْهِمْ فَلَنَأْتِيَنَّهُم بِجُنُودٍ لَّا قِبَلَ لَهُم بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُم مِّنْهَا أَذِلَّةً وَهُمْ صَاغِرُونَ قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ ۖ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ ۖ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ قَالَ نَكِّرُوا لَهَا عَرْشَهَا نَنظُرْ أَتَهْتَدِي أَمْ تَكُونُ مِنَ الَّذِينَ لَا يَهْتَدُونَ فَلَمَّا جَاءَتْ قِيلَ أَهَٰكَذَا عَرْشُكِ ۖ قَالَتْ كَأَنَّهُ هُوَ ۚ وَأُوتِينَا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِينَ وَصَدَّهَا مَا كَانَت تَّعْبُدُ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ إِنَّهَا كَانَتْ مِن قَوْمٍ كَافِرِينَ قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ ۖ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّن قَوَارِيرَ ۗ قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ:’’سلیمان کے سامنے ان کی فوجیں جو جنوں ،آدمیوں اور پرندوں پر مشتمل تھیں جمع ہوئیں اور انہوں نے پرندوں کا جائزہ لیا اور فرمایا کہ ’’مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں ہُد ہُد کو نہیں دیکھتا۔کیا وہ غیر حاضر ہونے والوں میں ہے؟یقیناً میں اس کو سخت سزا دو ں گا۔یا تو میں اس کو یقیناً قتل کر ڈالوں گا یا وہ یقیناً صاف ثبوت دے گا (اپنے غیر حاضر ہونے کا)۔پس وہ زیادہ عرصہ تک غیر حاضر نہ رہا۔پھر اس نے کہا کہ میں وہ بات جانتا ہوں جو آپ نہیں جانتے اور میں آپ کی خدمت میں پختہ خبر لے کر سبا سے حاضر ہوا ہوں۔تحقیق میں نے ایک عورت دیکھی جو ان لوگوں پر حکومت کرتی ہے۔ اس کوہر چیز کثرت کے ساتھ عطا ہوئی ہے اور اس کے پاس ایک بہت بڑ اتخت ہے۔اور میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم خدا کی بجائے آفتاب کی پرستش کرتے ہیں۔ اور شیطان نے ان کے کام ان کی نظروں میں پسندیدہ کر دیئے ہیں اور انہیں راستہ سے منحرف کر دیا ہے اور سیدھے راستہ پر نہیں چلتے۔اور وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے جو تمام وہ چیزیں لاتا ہے جو زمین اور آسمان میں پوشیدہ ہیں اور جانتا ہے جوچیز تم چھپاتے ہو اور جو چیزتم ظاہرکرتے ہو۔’’اللّٰہ لا الہ اِلآ ہوربّ العرش العظیم‘‘۔ اس نے (سلیمان نے)کہا کہ’’ہم دیکھتے ہیں کہ جو کچھ تو نے کہا،پھر آیا وہ واقعی صحیح ہے یا تو جھوٹ بولنے والوں میں ہے۔تو جا میرا یہ خط لے کر او ر ان لوگوں کے حوالہ کر دے اور پھر وہاں سے واپس آاور دیکھ وہ کیاجواب دیتے ہیں‘‘۔’’ (ملکہ نے) کہا کہ’’اے سردار و یقیناًایک قابل احترام خط مجھ کو دیا گیا ہے۔یہ خط سلیمان کا ہے اور اس کا مضمون یہ ہے’’بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم‘‘۔میرے خلاف سر کشی نہ کرو بلکہ میری خدمت میں عاجزانہ طور پر حاضر ہو جاؤ‘‘۔ ملکہ نے کہا کہ’’اے سردارو! مجھے میر ےمعاملہ میں صلاح و مشورہ دو،کیونکہ جب تک تم لوگ موجود نہیں ہوتے میں کسی بات کا فیصلہ نہیں کرتی ‘‘۔تب سرداروں نے کہا کہ’’ہم طاقتور اور بہادر لوگ ہیں۔حکم آپ کا ہے۔پس آپ دیکھیں کہ آپ کیا حکم دیتی ہیں‘‘۔ملکہ نے فرمایا کہ’’جب بادشاہ کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو وہ اسے برباد کر دیتے ہیں اور وہاں کے بڑے بڑے معزز لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ ایسا ہی کیاکرتے ہیں اور یقیناً میں ان کے پاس ایک تحفہ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ قاصد لوگ کیا جواب لے کر واپس آتےہیں‘‘۔پس جب قاصد سلیمان کی خدمت میں حاضر ہوا تو بادشاہ نے کہا’’کیا تم میری دولت سے مدد کر نا چاہتے ہو؟ مگر جو کچھ اللہ نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تم لوگوں کو دیا ہے،نہیں تم کو اپنے تحفہ پر فخر ہوگا۔جاؤ تم اپنی قوم کے پاس کیونکہ ہم ان کے پاس اس قدر زبردست فوج لے کر آئیں گے کہ وہ اس کی مزاحمت نہ کر سکیں گے اور ہم ان لوگوں کو ذلیل کر کے ملک سے نکا ل دیں گے اور وہ حقیر ہو جائیں گے۔سلیمان نے کہا’’اے سردارو! تم میں سے کون ایسا ہے کہ قبل اس کے کہ وہ لوگ میری خدمت میں عاجزانہ طور پر حاضر ہوں ،میرے پاس اس ملکہ کا تخت لے آئے؟‘‘جنوں میں سے ایک عفریت (دیو)نے کہا کہ میں اس تخت کو اس وقت سے قبل حاضر کر دوں گا کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں۔ اور تحقیق میں ایسا کرنے کے قابل ہوں اور وفادار ہوں‘‘۔ایک شخص نے جسے کتاب کا علم حاصل تھا کہا’’ میں پلک جھپکتے اس تخت کو حاضر کردوں گا‘‘۔جب سلیمان نے اس تخت کو اپنے برابر رکھا دیکھا تو انہوں نے کہا’’یہ خدا کی عنایت ہے میرے حال پر تاکہ و ہ میری آزمائش کرے کہ میں اس کا شکر گزار ہوں یا احسان فراموش۔اور وہ جو شکر گزار ہے وہ درحقیقت اپنے لئے شکر گزار ہے اور جو شخص احسان فراموش ہے، تحقیق میرا اللہ غنی اور کریم ہے‘‘۔’’اور اس نے کہا کہ اس کے لئے اس کا تخت بدل دو۔ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صحیح راستہ پر چلتی ہے یا ان لوگوں میں ہے جو صحیح راستہ پر نہیں چلتے‘‘۔ پس جب وہ آئی تو اس سے دریافت کیا گیا کہ’’کیا تمہارا تخت یہی ہے؟‘‘اس نے جواب دیا’’ایسا معلوم ہوتا ہے گویا وہی ہے اور ہم کو اس سے قبل علم ہو گیا تھا اور ہم نے سر اطاعت خم کر دیا‘‘۔اور جس چیز کی وہ اللہ کی بجائے پر ستش کیا کرتی تھی ،اس نے اسے گمراہ کر دیا تھا۔تحقیق وہ ایک کا فر قوم سے ہے۔پھر اس سے کہا گیا’’محل میں داخل ہو‘‘۔اور جب اس نے اسےدیکھا تو وہ یہ سمجھی کہ وہ ایک وسیع قطعۂ آب ہے اور اس نے اپنے پائینچے چڑھائے اور پنڈلیاں برہنہ کر لیں۔اس نے کہا’’یہ جگہ شیشہ کی ہے‘‘۔تب اس نے کہا’’اے میر ے رب میں نے اپنے اوپر ظلم کیا اور اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی اطاعت کرتی ہوں‘‘۔ (سورہ النعمل آیت ۱۹سے۳ ۴)

اس قصّہ میں بعض ایسی تفصیلات حذف کر دی گئی ہیں جو تارگم میں درج ہیں اور بعض باتوں میں کسی قدر اختلاف بھی ہے۔تارگم میں لکھا ہے کہ:

’’تخت سلیمان کا تھا اور چوبیس عقاب تخت کے اوپر بیٹھے ہوئے اپنا سایہ بادشاہ کے سر پر ڈالتے تھے، جب وہ تخت پر بیٹھتا تھا۔جب کبھی سلیمان کہیں جانا چاہتے تھے تو یہ عقاب ان کے تخت کو اُڑ ا کر پہنچا دیتے تھے‘‘۔

گویا تارگم کی رو سے یہ عقاب سلیمان کے تخت بردار تھے۔مگر قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ کام سلیمان کے لئے ایک عفریت نےصرف ایک مرتبہ کیا تھا اور وہ بھی اس وقت جبکہ تخت خالی تھا۔مگر ملکۂ سبا اور اس کے پاس سلیمان کا بذریعہ ایک چڑیا کے خط بھیجنے کا قصّہ دونوں کتابوں میں حیرت انگیز طور پر یکساں طور پایا جاتا ہے۔فرق صرف اس قدر ہے کہ تارگم میں ہُد ہُد کی بجائے’’ریگستان کا مرغ‘‘ لکھا ہے،بہر حال دونوں باتیں ایک ہیں۔عربی قصّہ سے مقابلہ کرنے کےلئے ہم تارگم کے قصّہ کا بھی ترجمہ ذیل میں درج کئے دیتے ہیں:

’’پھر جب شاہ سلیمان کا دل شراب پی کر مسرور ہوا تو اس نے حکم دیا کہ کھیتوں کے چوپائے ،ہوا کے پرندے ،زمین پر رینگنے والے کیڑےاور جن اور بھوت اور رات کے وقت پھرنے والے چھلاوے (بھوت۔آسیب)لائے جائیں تاکہ وہ اس کے سامنے ناچیں اور اس کی عظمت و جلالت ان بادشاہوں کے سامنے ظاہر کریں جو اس کے آگے سر جھکائے ہوئے ہیں اور بادشاہ کے منشیوں نے ان سب کو ان کا نام لےکر بلایا اور وہ سب جمع ہوئے اور بادشاہ کے سامنے حاضر ہوئے،سوائے قیدیوں کے اور اسیران جنگ کے اور ان لوگوں کے جن کی نگرانی میں وہ لوگ تھے۔اس وقت مرغ صحرا چڑیوں کے ساتھ لطف صحبت اٹھا رہا تھا اور وہ نہ ملا۔ اور بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کو جبراً حاضر کرو اور اسے مارڈالنا چاہا۔مرغ صحرا شاہ سلیمان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا’’سن میرے آقا زمین کے بادشاہ! ذرا کان جھکا کر میری بات سن۔کیا تین مہینہ نہیں ہوئے کہ میں نے یہ عزم بالجزم کیا تھا کہ نہ میں کھاؤں گا ،نہ پانی پیئوں گا،تاوقتیکہ میں دنیا کی سیر نہ کر لوں اور دنیا میں نہ اُڑ لوں۔اور میں نے کہا تھا کہ کون سا صوبہ یا سلطنت ایسی ہے جو میرے آقا کی تابع فرمان نہیں ہے؟میں نے ایک قلعہ بند شہر دیکھا جس کا نام قیطور  (Qitor) ‏ہے اور ایک مشرقی ملک میں واقع ہے۔وہاں کی خاک میں سونا ملا ہوا ہے اور چاندی تو ہر جگہ سڑکوں پر پڑی ہوئی ہے۔ اور وہاں درخت ابتدا ہی سے نصب کئے گئے تھے اور جنت عدن سے وہ لوگ پانی پیتے ہیں۔ان میں تین بڑے بڑے گروہ ہیں جو اپنے سروں پر پھولوں کے ہار پہنتے ہیں، کیونکہ وہاں عدن کے پودے موجود ہیں جو وہاں سے بہت قریب ہے۔وہ کمان سے تیر چلانا جانتے ہیں مگر ان کوتیروکمان کےذریعہ سے کوئی مار نہیں سکتا۔ایک عورت ان سب پر حکومت کرتی ہے اور اس عورت کا نام ملکۂ سبا ہے۔اب اگر خداوندنعمت کی خوشی ہوتو نیاز مند تیار قلعہ قیطور شہر سبا کو جائے،میں ان کے ملوک کو سلاسل (بیڑیاں) سے اور ان کے سرداروں کوزنجیروں سے باندھ لوں گااور انہیں اپنے آقا بادشاہ کے حضور میں لے آؤں گا‘‘۔اس کے یہ کہنے سے بادشاہ بہت خوش ہوا اور بادشاہ کے منشی طلب کئے گئے۔انہوں نے ایک خط لکھا اور وہ خط مرغ صحرا کے پروں میں باندھ دیاگیا اور وہ اڑا اور آسمان کی طرف بلند ہو گیا اور اس نے اپنا نیم تاج اپنے سر پر باندھا اور چڑیوں میں اڑنے لگا اور وہ چڑیاں اس کے پیچھے پیچھے اڑیں اور قلعۂ قیطور شہر سبا میں گئے۔ اور صبح کے وقت ایسا واقع ہوا کہ ملکہ سبا۔۔۔۔۔کرنے کے لئے سمندر کے کنارے گئی تھی۔اس وقت چڑیوں کی کثرت کے باعث آفتاب چھپ گیا اور ملکہ نے اپنا ہاتھ اپنےکپڑوں پر ڈالا اور انہیں پھاڑ ڈالا۔ وہ بہت متحیر اور پریشان ہوئی۔اور جب وہ بہت پریشان ہوئی تو مرغ صحرا اتر کر اس کے پاس آیا اور ملکہ نے اسے دیکھا۔کیا دیکھتی ہے کہ ایک خط اس کے بازو میں بندھا ہوا ہے۔اس نے وہ خط کھول کر پڑھا اور جو مضمون اس میں لکھا تھا وہ یہ ہے’’مجھ بادشاہ سلیمان کی طرف سے سلامتی ہو تجھ پراور سلامتی ہو تیرے سرداروں پر! چونکہ تو جانتی ہے کہ اللہ پاک نے بزرگ ہو نام اس کا،مجھے کھیت کے چوپایوں ،ہوا کے پرندوں ،جنوں، بھوتوں اور رات کے چھلاووں پر بادشاہ بنایا ہے اور شمال و جنوب اور مشرق و مغرب کے تمام بادشاہ حاضر ہو کر میری مزاج پرسی کرتے ہیں۔اب اگر تو اس بات پر رضا مند ہے کہ آئے اور میری مزاج پرسی کرے تو اچھی بات ہے۔میں تجھے ان تمام بادشاہوں سے زیادہ عظمت دوں گا جو آکر میرے سامنے سر نیاز خم کرتے ہیں۔ لیکن اگر تو اس بات پر رضامند نہیں ہے اور یہاں نہیں آتی اور میری مزاج پرسی نہیں کرتی تو تیرے خلاف بادشاہوں کو اور فوجوں کو اور رسالوں (رسالہ۔آٹھ سو یا ہزار گھڑ سوار فوج کا دستہ)کو بھیجو ں گا۔اور اگر تو کہے کہ شاہ سلیمان کے پاس کون سے بادشاہ اور فوجیں اور سوار ہیں؟تو معلوم کر کھیت کے چو پائے بادشاہ کی فوجیں اور رسالے ہیں اور اگر تو کہے کہ سوا رکیسے ہیں؟تو سن کہ ہوا کے پرندے میرے سوار ہیں۔میری فوجیں بھوتوں ،جنات ،چھلاووں پر مشتمل ہیں جو تمہارے گھروں میں گھس کر بستر پر سوتے ہوئے تمہارا گلا گھونٹ دیں گے۔کھیت کے جانور تمہیں کھیتوں میں ہلاک کر ڈالیں گے اور ہوا کے پرندے تمہارا گوشت نوچ کر کھا جائیں گے‘‘۔جب ملکۂ سبا نے اس خط کے مضمون کو سنا اور مکرر (بار بار۔کئی مرتبہ) سنا تو اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے کپڑے پھاڑ لئے۔اس نے آدمی بھیج کر اپنی قوم کے سرداروں اور بزرگوں کو طلب کیا اوران سے اس طرح گویا ہوئی’’اے امرا و اکابر قوم ! کیا تم کو معلوم ہے کہ سلیمان نے میرے پاس کیا بھیجا ہے؟‘‘انہوں نے جواب دیا کہ ’’ہم سلیمان بادشاہ کو نہیں جانتے اور نہ ہم ا س کی سلطنت کی کوئی حقیقت سمجھتے ہیں‘‘۔مگر اس بات سے ملکہ کی تشفی نہ ہوئی اور نہ اس نے ان کے الفاظ کو سنا بلکہ اس نے آدمی بھیج کر سمندر کے تمام جہاز جمع کر ا لئے اور ان میں زیورات و جواہرات اور تحفے بھرے۔اور اس نے سلیمان کے پاس چھ لڑکے اور لڑکیاں ایسی بھیجیں جن کی پیدائش ایک ہی سال ،ایک ہی مہینہ، ایک ہی دن اور ایک ہی گھنٹہ کی تھی۔ان سب کے قدو قامت،صورت و شکل یکساں تھی اور لباس سب کے ارغوانی رنگ کے تھے اور ملکہ نے ایک خط لکھا اور وہ بادشاہ سلیمان کے پاس ان لوگوں کے ہاتھ بھیجا’’قلعہ قیطور سے ملک اسرائیل تک سات سال کا سفر ہے۔اب میں آپ سے التجا کرتی ہوں کہ آپ خدا سے دعا اور درخواست کریں کہ میں آپ کے پاس تین سال میں پہنچ جاؤں‘‘۔اور ایسا واقعہ ہو ا کہ تین سال کے آخر میں ملکۂ سباسلیمان کے پاس پہنچ گئی اور جب سلیمان نے سنا کہ ملکہ سبا آگئی ہے تو انہوں نے اس کے استقبال کے لئے بن ایّا ابن یہیوایا و ہ  (Benaiah son of Jehoiada) ‏کو بھیجا جو حسن و جمال میں مثل صبح صادق کے تھا ،جو فجر کے وقت نمودا ر ہوتی ہے اور صورت شکل میں ایسا تھا جیسے ستارۂ زہرہ جو درخشاں ہو کر ستاروں میں مضبوطی سے قائم رہتا ہے اور نزاکت میں ایسا تھا جیسا نیلو فر جو چشموں کے اندر اگتا ہے۔اور جب ملکۂ سبا نے بن ایاہ ابن یہیو ایاوہ کو دیکھا تو وہ اپنی سواری سے اُتر پڑی۔بن ایاہ نے ملکہ سے کہا’’آ پ سواری سے کیوں اتر گئی ہیں؟‘‘اس پر ملکہ نے کہا کہ’’ کیا آپ بادشاہ نہیں ہیں‘‘۔بن ایاہ نے جواب دیا کہ’’میں بادشاہ سلیمان نہیں ہوں بلکہ اس کا ایک خادم ہوں جو اس کے حضور میں دست بستہ حاضر رہتا ہے‘‘۔ ملکہ نے فوراً اپنا منہ پیچھے کی طرف موڑ لیا اور اپنے سرداروں سے ایک تمثیل کہی’’اگر شیر تم لوگوں کے سامنے نہیں آیا تو تم نے شیر کا بچہ تو دیکھ لیا ہے۔اور اگر تم نے بادشاہ سلیمان کو نہیں دیکھا تو تم نے ایک ایسے شخص کا حسن و جمال تو دیکھ لیا ہے جو اس کی خدمت میں استادہ رہتا ہے‘‘۔اور بن ایاہ ملکۂ سبا کو لے کر سلیمان کے پاس آیا اور جب بادشاہ نے سنا کہ ملکہ آگئی ہے تو وہ اٹھا اور جا کر قصر بلّوریں میں بیٹھ گیا۔اور جب ملکۂ سبا نے بادشاہ سلیمان کو قصر بلوریں میں بیٹھے دیکھا تو اس نے اپنے دل میں سوچا کہ وہ پانی میں بیٹھا ہے۔اس لئے اس نے اپنے کپڑے سمیٹ کر اوپر اٹھا لئے تا کہ پانی سے گزر جائے۔اس وقت سلیمان نے دیکھا کہ ملکہ کی ٹانگوں پر بال ہیں۔یہ دیکھ کر بادشاہ نے اس سے کہا کہ تیر ا حسن و جمال تو عورتوں جیسا ہے مگر تیرے بال مردوں جیسے ہیں۔بالوں کا ہونا حسن مردانہ میں داخل ہے ،مگر عورتوں کے لئے یہ بات قابل شرم ہے‘‘۔اس کے بعد ملکۂ سبا نے بادشاہ سے کہا کہ’’میرے آقا بادشاہ سلامت! میں آپ کی خدمت میں تین سوالات پیش کرتی ہوں ،اگر آپ نے ان کا جو اب دے دیا تو میں جانوں گی کہ آپ واقعی ایک دانش مند ہیں اور اگر نہ دیا تو سمجھوں گی کہ جیسے اور آدمی ہیں ویسے ہی آپ بھی ہیں‘‘۔ (سلیمان نے ان تینوں سوالوں کا جواب دیا)۔پھر ملکہ نے کہا’’پاک ذات ہے اس اللہ تیرے رب کی جس نے تجھے تیری سلطنت کے تخت پر بٹھا کر خوشی حاصل کی تا کہ تو لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کرے‘‘۔اور ملکہ نے بادشاہ کوزر خالص اور چاندی دی۔۔۔اور بادشاہ نے بھی اس کو ہر چیز جس کی اسے خواہش ہوئی عطا فرمائی‘‘۔

اس یہودی قصّہ میں ہم نے دیکھا کہ بعض چیستان یا معموں کا ذکر ہے جو ملکۂ سبا نے سلیمان سے حل کرنا چاہے۔اگرچہ اس بات کا ذکر قرآن میں نہیں مگر اسلامی روایات میں ان معموں کا حال ضرور درج ہے۔ اور چونکہ فرش بلوریں کا ذکر قرآن میں اس قدر مفصل نہیں جیسا کہ تارگم میں ہے، اس لئے بعض مسلمان مصنفین نے یہ تمام تفصیلات بالکل تارگم سے لے کر پوری کر دی ہیں، مثلاً ’’عرایس المجالس‘‘ (صفحہ۴۳۸) میں لکھا ہے کہ:

’’اس نے اپنے ٹانگوں پر سے کپڑا ہٹا لیا تا کہ وہ پانی سے گزر کر سلیمان کے پاس جائے۔اس وقت سلیمان نے دیکھا کہ جہاں تک پنڈلیوں اور پاؤ ں کی ساخت اور تناسب کا تعلق ہے ،وہ جمیل عورت ہے مگر اس کی ٹانگوں پر بال ہیں۔جب سلیمان نے یہ بات دیکھی تو انہوں نے اس کو ٹو کا اور کہا کہ’’تحقیق اس قصر کا فرش بلوریں ہے‘‘۔

فرش بلوریں کا جو ذکر کیا گیا ہے غالباً وہ ہیکل سلیمانی کے ’’بحر گداختہ (پگھلا ہوا)‘‘  (Molten Sea) ‏ کی طرف ایک مبہم سا اشارہ ہے۔اس قصّہ کے بقیہ دیگر عجائبات بھی خالص یہودی خیال آفرینیوں کا نتیجہ ہیں اور تعجب ہوتا ہے کہ محمدﷺ نے اسے کیونکر بالکل سچا واقعہ یقین کر لیا۔مگر بعض امور کی توجیہہ آسانی سے کی جا سکتی ہے،مثلاً یہ خیا ل کہ سلیمان مختلف جنوں اور دیووں پر حکومت کرتے تھے۔عبرانی الفاظ  ’’שִׁדָּה וְשִׁדּוֹח‘‘‏  کے غلط معنی سمجھنے سے پیدا ہوا ہے۔یہ الفاظ بائبل کی کتاب واعظ ۸:۲ میں آئے ہیں۔ان الفاظ کے معنی غالباً’’خاتون اور خواتین‘‘ کے ہیں۔ اور چونکہ یہ الفاظ بائبل میں اور کسی جگہ استعمال نہیں ہوئے، اس لئے مفسرین نے ان کے معنی غلط سمجھے اور ان کی شرح یہ کی کہ یہ ایک خاص قسم کے’’پری زاد‘‘  שֵׁדִים‏  تھے۔یہی وجہ ہے کہ یہودی روایات اور قرآن دونوں میں سلیمان کی نسبت یہ لکھا ہے کہ اس کی فوجیں جنون اور شیاطین پر مشتمل تھیں۔

اس کل قصّہ کی تاریخی بنیاد بائبل کے صحیفہ ۱۔سلاطین۱:۱۰۔۱۰ اور ۲۔تواریخ باب ۹:ا۔۹ میں پائی جاتی ہے۔جس میں سلیمان کی نسبت کوئی بات تعجب انگیز بیان نہیں کی گئی۔نہ و ہاں کوئی ذکر جنوں،عفریتوں اور شیش محل کا ہے۔سیدھا سادہ حال سلیمان اور ملکۂ سبا کی ملا قات کا لکھا ہے۔بائبل کا قصّہ حسب ذیل ہے:

’’ اورجب سباکی ملکہ نے خُداوند کے نام کی بابت سلیمان کی شہُرت سُنی تو وہ آئی تاکہ مُشکل سوالوں سے اُسے آزمائے۔اوروہ بہت بڑی جلَو کے ساتھ یروشلیم میں آئی اوراُس کے ساتھ اُونٹ تھے جِن پر مصالح اور بہت سا سونا اور بیش بہا جواہر لدے تھے اور جب وہ سلیمان کے پاس پہُنچی تو اُس نے اُن سب باتوں کے بارہ میں جو اُس کے دِل میں تھیں اُس سے گُفتگُو کی۔سلیمان نے اُس کے سب سوالوں کا جواب دِیا۔ بادشاہ سے کوئی بات اَیسی پوشِیدہ نہ تھی جو اُسے نہ بتائی۔اورجب سبا کی ملکہ نے سلیمان کی ساری حِکمت اور اُس محل کو جو اُس نے بنایا تھا۔اوراُس کے دسترخوان کی نعمتوں اور اُس کےملازِموں کی نشست اور اُس کے خادِموں کی حاضِر باشی اور اُن کی پوشاک اور اُس کے ساقیِوں اور اُس سیِڑھی کو جِس سے وہ خُداوند کے گھر کو جاتاتھا دیکھا تو اُس کے ہوش اُڑگئے۔اوراُس نے بادشاہ سے کہا کہ وہ سچّی خبر تھی جو مَیں نے تیرے کاموں اور تیری حِکمت کی بابت اپنے مُلک میں سُنی تھی۔تَوبھی مَیں نے وہ باتیں باورنہ کیں جب تک خُودآکر اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ نہ لِیا اور مجُھے تو آدھا بھی نہیں بتایا گیا تھا کیونکہ تیری حِکمت اور اقبالمندی اُس شہُرت سے جو مَیں نے سُنی بہت زیادہ ہے۔خُوش نصیب ہیں تیرے لوگ اور خُوش نصیب ہیں تیرے یہ مُلازِم جو برابر تیرے حضُور کھڑے رہتے اور تیری حِکمت سُنتے ہیں۔خُداوند تیرا خُدا مُبارک ہو جو تجھ سے اَیسا خُوشنُودہُؤا کہ تجھے اِسرؔائیل کے تخت پر بِٹھایا ہے۔ چونکہ خُداوند نے اِسرائیل سے سدا محبّت رکھّی ہے اِس لئے اُس نے تجھے عدل اور اِنصاف کرنے کو بادشاہ بنایا۔اوراُس نے بادشاہ کو ایک سَو بِیس قِنطار سونا اور مصالِح کا بہت بڑا انبار اوربیش بہا جواہِردِئے اورجَیسے مصالِح سباکی ملکہ نے سلیمان بادشاہ کو دِئیے وَیسے پِھر کبھی اَیسی بہتات کے ساتھ نہ آئے‘‘ (۱۔سلاطین ۱:۱۰۔۱۰)۔

اگرچہ قرآن میں اور بہت سے قصے ایسے ہیں جویہودی افسانوں سے لئے گئے ہیں۔لیکن یہاں ان کو مفصل لکھنے کی ضرورت نہیں۔صرف اسی ایک افسانے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہےکہ انبیا کی جو صحیح تاریخ بائبل میں لکھی ہے ا س سے محمد ناواقف تھے اور اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ عرب یہودی جن کو یہ روایتیں یاد تھیں ،زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے اور انہیں بمقابلہ بائبل کے تالمود کی روایات زیادہ معلوم تھیں۔

قصّۂ ہاروت و ماروت

اب ہم ہاروت و ماروت کے قصّہ پر بحث کرتے ہیں۔یہ دو فرشتے تھے جنہوں نے بابل میں گناہ کیا تھا۔یہ روایت بہت دلچسپ ہے کیونکہ اول تو ہم یہ ثابت کر دیں گے کہ قصّۂ مذکور اگرچہ یہودیوں سے لیا گیا ہے،مگر اس کا ماخذ مرکب ہے۔پہلے ہم یہ قصّہ اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ بعد ازاں ہم یہودی اور دیگر روایات بیان کریں گے۔قرآن کی سورۃالبقرہ آیت ۱۰۲ میں لکھا ہے کہ ’’ وَ مَا کَفَرَ سُلَیۡمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ کَفَرُوۡا یُعَلِّمُوۡنَ النَّاسَ السِّحۡرَ ٭ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلَی الۡمَلَکَیۡنِ بِبَابِلَ ہَارُوۡتَ وَ مَارُوۡتَ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنۡ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوۡلَاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ فِتۡنَۃٌ فَلَا تَکۡفُرۡ ‘‘۔

ترجمہ:’’یعنی سلیمان نے کفر نہیں کیا بلکہ شیاطین نے کیا۔جو لوگوں کو سحر سکھاتے ہیں اور ہم نے بابل میں ہاروت و ماروت دو فرشتوں پر نازل نہیں کیاتھا۔اور وہ کسی کو سحر نہیں سکھاتے جب تک وہ دونوں یہ بات نہیں کہہ دیتے کہ’’تحقیق ہم امتحان میں پڑے ہوئے ہیں پس تم کفر نہ کرو‘‘۔

’’عرایس المجالس  ۴۱  ‘‘ میں اسی آیت کی تفسیر کے طور پر ایک قصّہ درج کیا گیا ہے جو احادیث پر مبنی ہے اور وہ یہ ہے کہ:

’’مفسرین قرآن کہتے ہیں کہ جب فرشتوں نے ان لوگوں کے اعمال خراب دیکھے جو بزمانۂ حضرت ادریس آسمان کی طرف چڑھے تھے تو انہوں نے ان کی مذمت کی اور ان پر لعن طعن کیا اور کہا’’خداوند یہ ہیں وہ لوگ جنہیں تو نے پسند فرمایا اور جنہیں تو نے خلیفتہ اللہ فی الارض بنایا اور پھر یہی لوگ ہیں جو تیر ی ناراضی کے کام کرتے ہیں‘‘۔پس اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا’’اگر میں نے تمہیں زمین پر بھیجا ہوتا اور تم میں وہی خواہشات پیدا کر دیتا جو انسانوں میں کی گئی ہیں تو تم بھی وہی کرتے جو انسانوں نے کیا‘‘۔تب فرشتوں نے کہا’’خدا نہ کرے! اے ہمارے رب یہ بات ہماری شان کے خلاف ہے کہ ہم تیری ناراضی کے کام کریں‘‘۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’ تم اپنے میں سے دو بہترین فرشتے منتخب کرو اور میں انہیں زمین پر بھیجوں گا‘‘۔پس انہوں نے ہاروت اور ماروت کو منتخب کیا جو تمام فرشتوں میں بہترین اور سب سے زیادہ متقی و پرہیز گار تھے‘‘۔مگر الکلبی نے لکھا ہے کہ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’تم اپنے میں سے تین فرشتے منتخب کرو‘‘۔پس انہوں نے تین فرشتے منتخب کئے۔ان میں ایک ’’عَزّ ‘ ‘  (Azz) ‏یعنی ہاروت،دوسرا ’’عزابی‘‘  (Azabi) ‏ یعنی ماروت اور تیسرا ’’عزر ائیل‘‘تھا۔ اور تحقیق جب ان فرشتوں نے گناہ کیا تو س نے ان کا نام بدل دیا۔جس طرح اللہ نے ابلیس کا نام بدل دیا تھا جو پہلے ’’عزرائیل‘‘ کہلا تا تھا۔پھر اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں میں وہی خواہشات بھردیں جو اس نے انسانوں کے اندر پیدا کی تھیں اور انہیں زمین پر بھیج دیا اور انہیں حکم دیا کہ ایمانداری کے ساتھ انسانوں کا انصاف کرو۔شرک اور قتل بے جا اور زناکاری اور شراب خوری سے بچو۔مگر عزارئیل نے جب اس کے دل میں خواہشات پیدا ہوئیں تواس نے اپنے رب سے معافی مانگ لی اور درخواست کی کہ اسے آسمان پر بلا لیا جائے۔پس خدا نے اس کو معاف فرما دیا اور اسے آسمان پر اٹھا لیا۔بعد ازاں وہ چالیس برس تک سجدہ میں پڑ ا رہا۔ا س کے بعد اس نے اپنا سر اٹھایا۔مگر شرم کے مارے اللہ تعالیٰ کے سامنے ہمیشہ سر جھکائے رکھا۔اب رہے بقیہ دو فرشتے تو وہ بددستور زمین پر رہے۔وہ دن کے وقت لوگوںکا انصاف کیا کرتے اور جب شام ہوتی تو وہ اسم اعظم پڑھ کر آسمان پر چڑھ جاتے۔قتادہ نے لکھا ہے کہ ابھی ایک مہینہ بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ وہ ترغیب نفسانی میں پڑ گئے اور ا س کاباعث یہ ہوا کہ ایک روز زہرہ جو تمام عورتوں میں سب سے زیادہ حسین و جمیل تھی ان کے پاس ایک مقدمہ لائی۔علی کا قول ہے کہ یہ عورت فارس کی قوم سے تھی اور اپنے ملک کی ملکہ تھی۔پس جب انہوں نے زہرہ کو دیکھا تو وہ دونوں اس پر دل و جان سے شیدا ہو گئے۔اسی لئے ان دونوں نے اس عورت سے اس کا نفس طلب کیا۔اس نے انکار کیا اور چلی گئی۔دوسرے روز وہ پھرآئی اور ان دونوں نے اس سے پھر وہی درخواست کی۔اس نے انکار کیا اور کہا جب تک تم اس کی عبادت نہ کرو گے جس کی عبادت میں کرتی ہوں اور اس بُت کی پوجا نہ کرو گے اور قتل عمد نہ کرو گے اور شراب نہ پیو گے ،تب تک ایسا نہ ہوگا‘‘۔ اس پر ان دونوں نے کہا کہ ’’ہم سے ایسا فعل ممکن نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ نے ا یسے فعل کرنے سے ہم کو منع فرما دیا ہے‘‘۔پس وہ یہ سن کر چلی گئی۔تیسرے دن وہ پھر آئی اور اپنے ساتھ ایک جا م شراب بھی لائی اور اس روز وہ ان کی نظروں میں نہایت دل فریب معلوم ہوئی۔پس انہوں نے اس سے اس کا نفس طلب کیا۔اس نے پھر انکار کیا اور جو شرطیں اس سے پہلے روز اس نے بیان کی تھیں وہی اب پیش کیں۔تب انہوں نے کہا’’اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرنا تو نہایت خوف ناک بات ہے اور کسی کو قتل کرنا بھی خوف ناک بات ہے۔ہاں تینوں شرطوں میں سب سے زیادہ آسان شراب پی لینا ہے‘‘۔پس انہوں نے شراب پی لی اور وہ نشہ میں بد مست ہ وگئے اور اس عورت سے مشغول ہو گئے۔۔۔اسی حالت میں انہیں ایک آدمی نے دیکھ لیا اور انہوں اس آدمی کو قتل کر دیا‘‘۔کلبی بن انس سے روایت ہے کہ ’’انہوں نے بُت کی پوجا بھی کی۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے زہرہ کو ایک ستارہ بنا دیا۔علی ،سعدی اور کلبی سے روایت ہے کہ اس عورت نے کہا کہ ’’تم مجھے اس وقت تک حاصل نہیں کر سکو گے جب تک تم مجھے وہ بات نہ سکھاؤ گے جس کے ذریعہ سے تم آسمان پر چڑھ جاتے ہو۔پس انہوں نے کہا کہ’’ہم اسم اعظم کے ذریعہ سے آسمان پر جاتے ہیں‘‘۔تب اس نے کہا کہ’’پس تم مجھے اس وقت تک حاصل نہیں کر سکو گے جب تک تم مجھے اسم اعظم نہ سکھادو‘‘۔تب ایک فرشتے نے اپنے ساتھی سے کہا’’سکھا بھی دو‘‘۔تب دوسرے فرشتے نے کہا کہ’’تحقیق میں خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہوں‘‘۔اس پر دوسرے فرشتہ نے کہا’’پھر اللہ تعالیٰ کا رحم کس کام آئے گا‘‘۔الغرض انہوں نے اس عورت کو اسم اعظم سکھا دیا۔پس جب اس نے وہ اسم اعظم پڑھا تو وہ آسمان پر چڑھ گئی اور اللہ تعالیٰ نے اسے ایک ستارہ بنا دیا‘‘۔

واضح ہو کہ’’ زُہرہ‘‘سیارہ’’وینس‘‘  (Venus) ‏ کا عربی نام ہے۔اس قصّہ کے مختلف راویوں کے بیانات جو ہم نے درج کئے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ مسلمانوںمیں یہ قصّہ کس قدر عام طور پر مسلّم ہے اور بذریعہ احادیث نبوی ان تک پہنچا ہے۔اس قصّہ میں متعدد باتیں ایسی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصّہ یہودی ذرائع سے ماخوذ ہے۔ان میں ایک تو یہ خیال ہےکہ جو شخص خدا کا ایک خاص نام’’وہ نام جو بتا یا نہیں جا سکتا‘‘  (Incommunicable  Name) ‏ (یہودیوں میں اس کا یہی نام ہے) جانتا ہے وہ بہت بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتا ہے،مثلاً مشہور ہے کہ قدیم زمانہ کے بعض یہودی مصنفین نے یہ کیا تھا کہ یسوع مسیح جو معجزے دکھاتا ہے وہ خدا کا یہی نام  ’’Tetragrammaton‘‘‏  (اسم اعظم) پڑھ کر دکھاتا ہے۔علاوہ ازیں فرشتہ عزرائیل کا نام عربی نہیں بلکہ عبرانی ہے۔مگر ہمارے پاس اس سے بھی زیادہ براہ راست ثبوت اس بات کا ہے کہ یہ قصّہ یہودی ذرائع سے ماخوذ ہے اور وہ ثبوت ’’مدراش یلقوت   ۴۲   ‘‘باب۴۴ میں ان الفاظ میں موجود ہے:

’’ربی یوسف کے شاگردوں نے دریافت کیا کہ ’’عزائیل  (Azael) ‏ کیا ہے؟‘‘اس نے جواب دیا کہ’’جب وہ قوم جو طوفان نوح کے زمانہ میں تھی اٹھی اور فضول پر ستش (یعنی بُت پرستی) کرنے لگی توخدائے قدوس مبارک ہو نام اس کا ،بہت ناراض ہوا۔فوراً دوفرشتے’’شمحا زائی‘‘  (Shemhazai) ‏ اور ’’عزائیل‘‘  (Azael) ‏ اُٹھے اور اس کے حضور میں عرض پرداز ہوئے کہ’’یارب العالمین! جب تو نے اپنی دنیا کو پیدا کیا تو کیا ہم نے تیرے حضور میں عرض نہیں کیا تھا کہ ’’انسان ہے کیا چیز جس کا تو اس قدر خیال ملحوظ رکھتا ہے؟ (زبور ۴:۸) اور خدا نے ان سے کہا ’’اور اگر دنیا رہی تو اس کا کیا حشر ہو گا؟‘‘تب فرشتوں نے عرض کیا کہ ’’یارب العالمین! ہم اس پر حکومت کریں گے‘‘۔تب خدا نے ان سے فرمایا’’مجھ پر یہ بات ظاہر ہے کہ اگر تم کو دنیا پر غلبہ دیا جائے ،تو وہاں خواہشات نفسانی تم پر حاوی ہو جائیں گی اور تم بنی نوع انسان سے بھی زیادہ سرکش ہو جاؤ گے‘‘۔تب انہوں نے عرض کیا کہ’’تو ہم کو اجازت دے تا کہ ہم انسانوں میں جا کر رہیں اور تو دیکھے گا کہ ہم کس طرح تیرے نام کی تقدیس کرتے ہیں‘‘۔خدا نے فرمایا کہ’’اچھا جاؤ اور ان کے ساتھ رہو‘‘۔فو ر اً شمحا زائی نے ایک نوجوان دو شیزہ دیکھی جس کانام استر  (Esther) ‏ تھا۔اُس نے اس لڑکی پر اپنی آنکھیں جما لیں اور کہا’’مجھ پر تلطف (مہربانی۔لطف)کرو‘‘۔اس لڑکی نے کہا کہ’’میں اس وقت تک تیر ی بات ہر گز نہ سنوں گی جب تک تم وہ عجیب نام ( خدا کا) مجھے نہ سکھا دو گے جس کو پڑھ کر تم آسما ن پر چلے جاتے ہو‘‘۔اس نے وہ نام اس کو سکھا دیا۔جب اس نے وہ نام پڑھا تو وہ بھی آسمان پر چڑھ گئی اور ذلیل نہ ہوئی۔خدائے قدوس نے ،مبارک ہو نام اس کا،فرمایا کہ ’’چونکہ اس نے خودکو خطا وقصور سے علیٰحدہ رکھا ہے اس لئے جاؤ اور اسے ہفت کواکب میں داخل کردو تاکہ تم اس کی طرف سے ہمیشہ پاک رہو‘‘۔پس اسے ثریا میں رکھ دیا گیا۔انہوں نے خود کو فوراً بنات حوا کے ساتھ ذلیل کر لیا جو خوبصورت تھیں اور وہ اپنی خواہشات پوری نہ کر سکے۔وہ اٹھے اور انہوں نے بیویاں کر لیں اور دو لڑکے حِوّ ا  (Hiwwa) ‏ او ر حِیّا  (Hia) ‏ جنوائے اور عزر ائیل کے پا س بہت قسم کے زیور ات اور بہت سی قسم کا سامان آرائش و زیبائش تھا جن کے باعث مرد عورتوں پر مائل ہو کر خاطی (خطاکار) ہو جاتے ہیں‘‘۔

آخری فقرہ میں جو لکھا ہے اس کا اعادہ ہم آگے چل کر پھر کریں گے۔یہ بات واضح ہو نی چاہیئے کہ مدراش کا ’’عزرائیل‘‘ وہی ہے جو اسلامی روایت میں ’’عزرائیل‘‘ ہے۔ ناممکن ہے کہ اسلامی اور یہودی روایات کا جب مقابلہ کیا جائے تو یہ نہ معلوم ہو کہ اول الذکر روایت موخر الذکر سے ماخوذ ہے۔لفظ بہ لفظ نہیں بلکہ اس صورت میں جیسے کہ وہ زبانی بیان کی گئی تھی۔مگر اسلامی قصّہ میں چند باتیں ایسی ہیں جن پر اس مسئلہ کی تحقیقات سے قبل کہ’’یہودیوں نے یہ قصّہ کہاں سے سیکھا؟‘‘ غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ان میں ایک بات تو یہ ہے کہ ہاروت و ماروت نام کہاں سے آئے؟ بیان کیا گیا ہے کہ پہلے ان فرشتوں کے نام اور تھے یعنی ایک کا نام’’عزّ‘‘اور دوسرے کانام’’عزابی‘‘ تھا۔ان دونوں ناموں کا مادہ عبرانی اور عربی زبانوں میں ایک ہی ہے۔مگر ’’مدراش یلقوت‘‘  (Midrash Yalkut) ‏ میں ان فرشتوں کے نام جنہوں نے گناہ کیا’’شمحا زائی ‘‘ اور ’’عزرائیل‘‘درج ہیں۔عربی روایت میں لکھا ہےکہ اگرچہ عزرائیل،ہاروت و ماروت کے ساتھ زمین پر اترا تھا اور وہ اس جماعت کا تیسرا رکن تھا۔مگر وہ بعد میں بغیر کوئی گناہ کئے آسمان پر چلا گیا تھا۔ اب مسلمان لوگ اس فرشتہ عزرائیل کو ’’ملک الموت ‘‘ خیال کرتے ہیں اور یہودیوں کے یہاں موت کا فرشتہ ’’سمّائیل‘‘  (Sammael) ‏ ہے۔عربی روایت میں ہے کہ ان فرشتوں کے نام ہاروت وماروت ارتکاب معصیت سے قبل نہیں رکھے گئے تھے۔ اس کے اندر جو معنی پنہاں ہیں وہ اس وقت صاف ظاہر ہو جاتے ہیں جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں نام دو قدیم اِرمن بُتوں کے ہیں جن کی وہ تیسری اور چوتھی صدی میں عیسائی ہونے سے قبل پوجا کرتے تھے۔ارمنی زبان میں ان کے نام ’’ہوروت‘‘  (Harut) ‏ اور’’موروت ‘‘  (Marut) ‏ ہیں۔زمانۂ حال کے ایک ارمن مصنف نے بیان کیا ہے کہ ا س کے وطن کی قدیم خرافیات میں یہ دونوں دیوتا کیا کام کرتے تھے۔وہ لکھتا ہے کہ:

’’ اسپندر امیت  (Spandaramit) ‏ دیوی کے معاونین میں یقیناً ہوروت و موروت کو ہ جودی کے نیم دیوتا اور ’’امینا بیگھ‘ ‘  (Amenabegh) ‏ اور غالباً دیگر دیوتا بھی تھے جن کا نام اب ہم کو معلوم نہیں ہے۔یہ دیوتا زمین کی پیدا وار اور منعفت بڑھانے میں خاص کارکن تھے‘‘۔

آرمینیا کی ’’اسپندرامیت‘‘ وہی ہے جو اَوَستا کی ’’سپنتا آرمیتی‘‘ ہے۔یہ ایک مونث فرشتہ ہے جو زمین کی قوتوں کی ناظم او ر نیک عورتوں کی سر پرست ہے۔ہوروت اور موروت بھی اوستا میں بصورت’’ہوروات‘‘ یا’’ہوروتات‘‘  (Haurvat  or  Havrvatat) ‏ بمعنی ’’کثرت یا افراط ‘‘ اور اَمِرتات  (Ameretat) ‏بمعنی ’’بقا‘‘ موجود ہیں۔یہ امشا سپندوں  (Amesha-Spentas or Amshaspands) ‏ میں جس کے معنی ہیں’’حسین و جمیل لافانی دیوتا‘‘ پانچویں اور چھٹے نمبر پر ہیں۔جن ملائکہ مقربین یافرشتگان اعلیٰ کا’’ امشا سپند ‘‘ کہتے ہیں۔یہ ’’آہورو مژداؤ‘‘  (Ahura Mazda) ‏ ’’خالق خیر‘‘ کے معاونین خاص اور کارکن ہیں یا بالفاظ دیگر’’کارکنان قضا و قدر‘‘ یہی ہیں۔جس طرح خرافیات آرمینیا میں ہوروت و موروت ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے، اسی طرح اوستامیں ہورتات اور امرتات جدا نہیں ہو سکتے۔دونوں ارمن دیوتا تمام عالم نباتات کے رب النوع ہیں۔بعد کو فارسی زبان میں اوستا کے الفاظ کا تلفظ بگڑ کر ’’خورداد‘‘اور ’’مرداد‘‘  (Khurdad, Murdad) ‏ ہو گیا اور انہیں دونوں مبارک دیوتاؤں یا موکلوں کے ناموں پر تیسرے اور پانچویں عجمی مہینوں کے نام رکھے گئے۔مگر یہ الفاظ خالص آریا زبان کے الفاظ ہیں اور سنسکرت میں ان کی اصلی صورت ’’سروتا‘‘  (Sarvata) ‏ اور’’امرتا‘‘  (Amrita) ‏ ہیں۔پہلا نام رگوید میں بصورت’’سرو تاتی‘‘  (Sarvatati) ‏ آیا ہے۔ آریا روایات میں یہ دیوتا زمین کوزرخیزی بخشنے والے ہیں۔ ان کی تشخیص کر کے ان کو’’سپنتا‘‘آرمیتی‘‘ کا نام دیا گیا اور ہر قسم کی پیداوار پر اس دیوی کی سیادت (سرداری) قائم کر دی گئی۔یہ مقدس اور پاک مخلوق تھے اور ان کا زمین پر نازل ہونا ہورامژدا کے حکم سے ہوا تھا، جیسا کہ اسلامی روایت میں ہے۔مگر دراصل ان کے نزول کا مقصد کسی قسم کی معصیت سے متعلق نہ تھا۔ آرمینیا اور ایران قدیم کی خرافیات سے ان کے نام لے کر محمدﷺ (یا ان کے راویوں نے) گڑ بڑ کر دی اور انہیں یہودی خرافیات کے دو گنہگار فرشتے بنا دیا۔آگے چل کر ہم کو معلوم ہو جائے گا کہ محمد ﷺ نے ایرانی اور یہودی ذرائع سے کچھ کم باتیں اخذ نہیں کی تھیں۔ا ور اگرچہ ایرانی اور یہودی روایات بالکل علیٰحدہ علیٰحدہ تھیں مگر پھر بھی ان میں اس قدر کافی یکسانیت تھی کہ محمدﷺ نے ان کو ایک ہی قصّہ سمجھا اور اسی لئے جو قصّہ خاص خاص باتوں میں یہودیوں کی تالمود سے لیا گیا تھا اس کے اندر آریا قوم کے دو دیوتا بھی شامل ہو گئے۔

یہودی روایت میں جس لڑکی کا نام ایستر  (Esther) ‏ بتا یا گیا ہے وہ دراصل قدیم اہل بابل کی دیوی ’’اشتار‘‘  (Ishtar) ‏ تھی جس کی پرستش ممالک شام و فلسطین میں ’’اشتاریت‘‘  (Ashtoreth) ‏ کے نام سے ہوا کرتی تھی۔یہ عشق و محبت کی دیوی تھی۔یونانیوں میں اس کا نام ’’آفردویتہ‘‘  (Aphrodite) ‏ اور رومیوں میں ’’وینس‘‘  (Venus) ‏تھا اور چونکہ اسی دیوی کو سیارۂ’’وینس‘‘  (Venus) ‏ بھی بتایا جاتا تھا جسے اہل عرب ’’زہرہ‘‘ کہتے ہیں ،اس لئے بآسانی خیال میں آسکتا ہے کہ یہ تمام نام ایک ہی ہستی کے ہیں اور یہودی و عربی ناموں میں اگر کچھ فرق ہے تو وہ چنداں اہمیت نہیں رکھتا۔

یہ بھی ہم کو بخوبی معلوم ہے کہ بابلی اور اسوری خرافیات میں اشتار دیوی نے کیا کیا کام کئے تھے۔اس کی عشق بازی کے ایک واقعہ کا ترجمہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں کیونکہ اس سے کسی قدر معلوم ہو گا کہ فرشتوں کی معصیت کا ری کا ماخذ کیا ہے اور اس واقعہ پر بھی کچھ روشنی پڑے گی کہ زہرہ یا ایستر کو آسمان پر چڑھنے کے قابل کیونکر بنا یا گیا اور وہ آسمان پر و اقعی چڑھ گئی۔خرافیات بابل میں بیان کیا گیا ہے کہ اشتار ایک بہادر شخص مسمی گلگامیش  (Gilgamesh) ‏کے عشق میں مبتلا ہو گئی مگر اس شخص نے اپنی چاہنے والی کی طرف التفات نہ کیا۔اشتار نےا پنا تاج پہنا اور گلگامیش کی طبیعت اپنی طرف مائل کرنے کے لئے اشتار دیوی نے اس سے کہا:

’’گلگامیش! تو مجھے پیار کرلے۔اے کاش تو میرا دولہا ہوتا۔لا تو مجھے اپنا پھل بطور تحفہ عنایت کر دے اور کاش تو میرا شوہر اور میں تیری بیوی ہوتی۔اس وقت تو سنگ لاجورد اور زرخالص کی گاڑی میں سوار ہو کر نکلتا۔جس کے پہیے سونے کے ہیں اور جس کے دونوں بم (گھوڑ ا گاڑی کا بانس جس میں گھوڑ ا جوتا جاتا ہے) ہیرے ہیں۔تب تو ہر روز بڑے خچر پر ساز کستا اور ہمارے گھر میں چوب قیدار کی خوشبو سے معطر آتا‘‘   ۴۳  ۔

مگر جب گلگامیش نے اس کا کہنا ماننے سے انکار کر دیا اور اس کے بہت سے پہلے شوہروں کے نام لے کر طعن و تشنیع کی ،جن کا حشر خراب ہو چکا تھا توقصّہ میں لکھا ہے کہ’’اشتار دیوی ناراض ہوگئی اور آسمان پر چلی گئی اور اشتار دیوی خداوندآنو  (Anu) ‏ کے سامنے آئی‘‘۔

واضح ہو کہ بابل کی قدیم ترین خرافیات میں آنو بہشت اور بہشت کا خد ایا دیوتا تھا اور اشتار ا س کی بیٹی تھی۔اس بیان میں اسلامی روایت کی طرح سے اشتار دیوی کا آسمان پر چڑھنا پایا جاتا ہے۔اسلامی روایت میں وہ فرشتوں کو گناہ کرنے کے لئے ورغلاتی ہے ،بالکل اسی طرح سے جیسے کہ بابلی قصّہ میں اشتار نے گلگامیش کو ترغیب دی تھی۔جیسا قصّہ قرآن اور احادیث میں لکھا ہے ویسا ہی ایک قصّہ سنسکرت لٹریچر میں بھی ہے۔یہ مہابھارت میں سُندا اور اُوپسُندا کا قصّہ ہے۔اس قصّہ میں بیان کیا گیا ہے کہ کسی زمانہ میں سُندا  (Sunda) ‏اور اُپسُندا  (Upasunda)  ۴۴   دو بھائی تھے جنہوں نے اس قدر تپشیا یا ریاضت کی اور اس قدر ممتاز و محترم ہو گئے کہ بالآخر زمین و آسمان پر ان کی حکومت ہو گئی۔یہ بات دیکھ کر برہما کو تشویش پیدا ہوئی کہ کہیں ایسا نہ ہو یہ دونوں بھائی اس کی حکومت بھی چھین لیں۔ان دونوں کو ورغلانے کے لئے جو طریقہ برہما نے اختیار کیا وہ یہ تھا کہ اس نے سورگ لوک (جنت) سے ایک خوبصورت دوشیزہ بھیجنا پسند کیا۔قدیم ہندوؤں میں ان بہشتی نازنینوں کانام ’’اپسرا‘‘ہے اور مسلمانوں میں ان کو’’ حور‘‘ کہتےہیں۔

الغرض برہما نے ایک نہایت ہی حسین وجمیل اپسرا پیدا کی جس کا نام ’’تلو تما ‘‘تھا اور اس اپسرا کو اس نے ان دونوں بھائیوں کے پاس بطور ہدیہ بھیجا۔جب انہوں نے اس حسین وجمیل اپسرا کو دیکھا تو سُندا نے اس کا داہنا اور اوپسند نے بایاں ہاتھ پکڑ لیا اور دونو ں کی خواہش یہ ہوئی کہ اُسے اپنی بیوی بنائیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ رشک و حسد کی وجہ سے دونوں بھائیوں میں نفرت اور عداوت پیدا ہوگئی اور انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کر ڈالا۔اس کے بعد تلوتما برہما کے پاس واپس چلی گئی جو اپنےحریفوں کی تباہی و ہلاکت سے اس قدر خوش ہوا کہ اس نے تلو تما کو برکت دی اور کہا کہ’’تمام دنیا میں جس پر آفتاب عالم تاب درخشاں ہوتا ہے تو گردش کرتی رہے گی اور کوئی شخص تیرے حسن و جمال کی جلالت اور تیرے بناؤسنگار کی درخشانی کے باعث تیری طرف نظر جما کر دیکھ نہ سکے گا‘‘۔

اس قصّہ میں بھی اس اپسرا کا آسمان پر چڑھناپایا جاتا ہے۔اگرچہ یہ ہند وانی قصّہ بابلی قصّہ کے مطابق اور اسلامی قصّہ سے محض اس قدر مختلف ہے کہ عورت کاتعلق پہلے ہی ملاءِاعلیٰ (فرشتے) سے تھا کیونکہ اپسرائیں بہشت میں رہتی ہیں،اگرچہ وہ کبھی کبھی زمین کی بھی سیر کرنے آتی ہیں۔اور اشتار دیوی تھی۔ہندوانی قصّہ میں دونوں بھائی پہلے ہی سے زمین پر تھے۔اگرچہ وہ رفتہ رفتہ زمین وآسمان دونوں پرقابض ہو گئے تھے۔اس صورت سے وہ بادی النظرمیں ان دونوں فرشتوں سے مختلف ہیں جو یہودی اوراسلامی روایات کے مطابق آسمان سے اترتے تھے۔لیکن اس بارے میں بھی یہ فرق بہت خفیف ہے کیونکہ ہندوانی قصّہ میں بھی یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ دونوں بھائی دِتی  (Diti) ‏نامی دیوی کی اولاد تھے جو ماروتوں  (Maruts) ‏ کی بھی ماں تھی۔لہٰذا مختلف روایات میں جو یکسانیت پائی جاتی ہے وہ نہایت حیر ت انگیز ہے۔

مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مختلف قصے جوان مختلف قوموں میں رائج تھے ان سب کا ماخذ ایک ہی ہے۔یہودیوں نے اگر پورا قصّہ نہیں تو کم ازکم اس کا بہت کچھ حصہ ،خصوصاً اشتار یا ایستر  (Ishtar or Esther) ‏ کا نام اور بعض دیگر تفصیلات ضرور اہل بابل سے لیں اور اہل بابل نے یہ قصّہ اپنے سے بھی زیادہ قدیم قوم اکادیوں  (Akkadians) ‏ سے لیا تھا۔یہ واقعہ فراموش کرکے کہ قصّہ کا ماخذ ایک بُت پرست قوم کی روایت ہے، یہودیوں نے اسے تالمود میں داخل کر لیا اور یہودیو ں کی سند پر اسے قرآن اور احادیث اسلامی میں جگہ مل گئی۔

معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہودیوں میں اس روایت کی بنیاد ایک عبرانی لفظ کے غلط معنی سمجھنے پر قائم ہوئی۔کتاب پیدائش ۱:۶۔۴ میں ایک عبرانی لفظ’’نیفیلیم‘‘  (Nephilim) ‏آتا ہے ،جس کی نسبت یہ سمجھا گیا کہ وہ فعل ’’نافل‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ’’گرنا‘‘ ہیں۔اسی وجہ سے جوناتھن بن عزّیل نے اپنے تارگم میں’’نیفیلیم‘‘ کے معنی’’مرد ود فرشتے‘‘ لے لئے۔القصّہ یہ کہانی کچھ تو بابلی خرافیات سے جاہل یہودیوں نے لی اور کچھ اپنی طرف سے ایجاد کی۔گویا جس طرح قصّہ ابراہیم میں لفظ ’’اُور ‘‘ کے غلط معنی لے کر ’’کلدانیوں کی آگ کی بھٹی ‘‘ بنا دیا گیا تھا،اسی طرح جو ناتھن نے’’نیفیلیم‘‘ کے غلط معنی لے کر یہ لکھ دیا کہ’’شمحازائی اور عزرائیل‘‘ آسمان سے گرا دیئے گئے تھے اور وہ اس زمانہ میں زمین پر رہتے تھے‘‘۔الغرض ’’مدراش یلقوت‘‘ کا قصّہ جو ہم اوپر بیان کر آئے ہیں وہ اس طرح سے پید ا ہوا۔اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ لفظ ’’نیفیلیم‘‘ اس لفظ سے مشتق ہے جس کے معنی ’’گرنا‘‘ ہیں ،تب بھی اس کی ضرورت نہیں کہ نام کا پیدا ہو نا اس طرح بیان کیا جاتا ہے۔

اونکیلوس  (Onkelos)  ۴۵   نے اپنے تارگم میں زیادہ دانش مندی سے کام لیا ہے۔اس نے سمجھا ہے کہ ’’نیفیلیم‘‘ ان لوگوں کو اس وجہ سے کہا گیا کہ وہ ایسے آدمی تھے جو بے کس و لاچار تھے ،لوگوں پر ’’شدت کے ساتھ پڑتے تھے‘‘۔اسی وجہ سے اس تارگم میں لفظ’’نیفیلیم‘‘ کاترجمہ’’سخت آدمی ‘‘یا ’’ظالم لوگ‘‘ کیا گیا ہے۔زمانۂ حال میں بعض لوگوں نے ’’نیفیلیم‘‘ کا مادہ ’’نافل ‘‘یعنی ’’گرنا‘‘ قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ لفظ مذکور کا سلسلہ عربی زبان کے لفظ’’نبیل‘‘ سے ملاتے ہیں جس کے معنی’’شریف‘‘نیز’’قادرتیرانداز‘‘ کے ہیں۔لیکن جہاں تک ہماراخیال ہے لفظ’’نیفیلیم‘‘ سومیری  (Sumerian) ‏ ماد ہ سے نکلا ہے اور اس کا سماتیقی زبان کے کسی مصدر سے تعلق نہیں ہے۔

چونکہ جاہل یہودی بہت زیادہ عجائب پرست واقع ہوئے تھے،اس لئے آسمان سے گرائے ہوئے فرشتوں کے ارتکاب معصیت کا قصّہ اور بھی زیادہ حیرت انگیز ہو تا گیا۔اول اول تو صرف دو ہی’’اُفتادہ فرشتے‘‘ بیان کئے گئےتھے اور یہ بھی گویا بابلی قصّہ ٔ اشتار و گلگامیش میں ایک اور شخص کا اضافہ تھا،لیکن جوں جوں زمانہ گزرتا گیا یہودی قصّہ میں’’فرشتگان اُفتادہ‘‘ کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔حتّٰی کہ صحیفۂ ادریس  (Enoch)  ۴۶   میں ایسے فرشتوں کی تعداد دو سو ہو گئی اور یہ سب زمین پر اس غرض سے اترے تھے کہ عورتوں کے ساتھ گناہ کریں۔ذیل میں ہم ایک اقتباس درج کرتے ہیں جو اس وجہ سے بہت اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں ان قصوں سے جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں اور بھی زیادہ تفصیل سے کام لیا گیا ہے۔اس بیان کا آخری حصہ بھی قرآن اور مدراش یلقوت کے قصوں کے آخری حصوں سے ملتا جلتا ہے جس پر ہم بہت جلد آگے چل کر بحث کریں گے۔

’’اور ایسا واقعہ ہواکہ جہاں کہیں آدمیوں سے بچے پیداہوئے تو اس زمانہ میں خوبصورت اور خوش شکل لڑکیاں پیدا ہوئیں۔اور فرشتوں نے جو فرزندان بہشت تھے ان لڑکیوں کو دیکھا اور ان کے کے لئے خواہش ظاہر کی اوروہ آپس میں کہنے لگے’’آؤ اور انسانوں میں سے ہم اپنے لئے بیویاں پسند کریں اور ان سے بچے جنوائیں‘‘۔سیمیاذاس  (Semiazas) ‏ نے جوان کا سردار تھاان سے کہا’’مجھے اندیشہ ہے کہ تم لوگ یہ فعل کرنے سے انکار کردو گے اور اس وقت میں تنہا ہی ا س گناہ عظیم کا مرتکب ٹھہرایا جاؤں گا‘‘۔پس ان سب نے اس سے کہا کہ’’تو پھر آؤ ہم سب حلف اٹھائیں اور وعدہ کریں کہ ہم ہر گز اس خیال سے بازنہ آئیں گے جب تک کہ ہم یہ کام پورا نہ کر لیں گے‘‘۔پس ان سب نے حلف اٹھایا اور سخت قسم کھائی‘‘۔

اس کے بعد صحیفۂ ادریس میں باغی فرشتوں کے سرداروں کے نام درج کئے گئے اور پھر قصّۂ کا سلسلہ اس طرح جاری کیا گیا ہے:

’’اور انہوں نے اپنے لئے بیویاں پسند کر لیں اور ہر شخص نے اپنے لئے بیوی پسند کی۔۔۔ اور انہوں نے ان عورتوں کو زہر بنانا،جنتر منتر اور جڑی بوٹیوں کا علم سکھایا۔۔۔عزرائیل نے انہیں شمشیر و سپر،زرہ بکتر اور دیگر اسلحہ بنانا سکھائے۔ان کوفرشتوں کی تعلیمات سکھائیں۔اس نے ان کو دھاتیں دکھائیں اور ان دھاتوں کو صاف کرنا اور ان سے کام لینا بتایا۔انہیں کنگن ،چوڑیاں اور دیگر زیورات بنانا سکھائے۔اُن کو غازہ (اُبٹن۔خوشبودار پوڈر)، ابٹنا، سرمہ،کاجل،مسّی بنانا (ایک قسم کا منجن جسے عورتیں بطور سنگار استعمال کرتی ہیں) اور لگانا سکھایا اور انہیں مختلف قسم کے رنگ سکھائے اور جواہرات کا علم سکھایا‘‘۔

عورتوں کے زیوروں کی ایجاد کا بیان وہی ہے جو مدراش یلقوت میں بیان ہوا ہے۔اس بیان سے آیات قرآنی کے معنی بھی بخوبی سمجھ میں آجاتے ہیں جہاں ہارورت و ماروت کا ذکر کرتے ہوئے محمدﷺ نے قرآن میں یہ بیان کیا ہے کہ ’’ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ‘‘۔

اب ہمارے خیال میں اس بات کا مزید ثبوت دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ قرآن میں ہاروت و ماروت کا قصّہ یہودیوں سے لیا گیا ہے اور فرشتوں کے نام ارمنی ، بابلی اور غالباً عجمی اثر سے داخل ہوئے ہیں۔

طور سینا

اب ہم کچھ مثالیں اور پیش کرتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہودی روایات سے اسلام کس قدر متاثر ہوا ہے۔سورۂ اعراف   ۴۷   میں لکھا ہے کہ:

’’ وَ اِذۡ نَتَقۡنَا الۡجَبَلَ فَوۡقَہُمۡ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ وَّ ظَنُّوۡۤا اَنَّہٗ وَاقِعٌۢ بِہِمۡ ۚ خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّ اذۡکُرُوۡا مَا فِیۡہِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ‘‘

جلالین اور دوسری تفاسیر میں لکھا ہے کہ: ‏

’’خدا نے کوہ طور سینا کو اس کی بنیادوں سے اوپر اٹھا دیا اور اسے بیابان میں بنی اسرائیل کے سروں پراٹھائے رکھا تاکہ اگر وہ احکام توریت کی پابندی نہ کریں تو وہ پہاڑ گرا کر انہیں کچل دیا جائے۔انہوں نے اس سے پیشتر احکام توریت ماننے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ احکام سخت زیادہ تھے۔مگر جب خدا کی طرف سے ان کو یہ تہدید (تنبیہہ) کی گئی تو انہوں نے توریت کو قبول کر لیا ‘‘۔

اور اسی مفہوم کو مذکورۂ بالا آیت میں ظاہر کیا گیا ہے۔اس مسئلہ کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ماخذ یہودیوں کی کتاب ’’عبوداہ ذاراہ‘‘  (Abodah Zarah ch.II)  ۴۸   ہے۔ اس کی عبارت ملاحظہ ہو:

’’خدا نے بنی اسرائیل سے کہا کہ میں نے تم پر پہاڑ اس طرح ڈھک دیا جیسے ڈھکنا‘‘۔علاوہ ازیں ’’سَبَت‘‘  (Sabbath) ‏میں بھی یہ ذکر ان الفاظ میں آیا ہے کہ’’خدائے قدوس نےان پر پہاڑوں کو ہانڈی کی طرح الٹ دیا اور ان سے کہا کہ’’اگر تم شریعت موسوی کو منظور کرتے ہو تو فبہا (بہت خوب۔بہتر) ورنہ تمہاری قبر یہیں بنیں گی‘‘۔

غالباً یہ کہنے کی کچھ ضرورت نہیں کہ ناموس مو سوی میں ایسا قصّہ کوئی نہیں ہے۔ یہ قصّہ ایک یہودی مفسر کی غلطی سے پیدا ہوا جس نے بائبل کے الفا ظ کے غلط معنی سمجھنے۔کتاب خروج ۱۹:۳۲ میں لکھا ہے کہ’’جب موسیٰ دو سنگین لوحیں اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے پہاڑ پر سے اترے تو انہوں نے دیکھا کہ بنی اسرائیل ایک گوسالہ (بچھڑا) کی پرستش کر رہے ہیں۔یہ شرمناک منظر دیکھ کر موسیٰ غضب ناک ہو گئے اور انہوں نے الواح سنگین اپنے ہاتھوں سے ’’زیر جبل‘‘ پھینک کر توڑ دیں‘‘۔اسی کتاب خروج ۱۷:۱۹ میں لکھا ہے کہ’’جب خدا موسیٰ کو شریعت حوالہ کر رہا تھا تو بنی اسرائیل پہاڑ کے حصہ زیریں میں (یا نیچے) کھڑے تھے‘‘۔الغرض دونوں صورتوں میں یہ مطلب ہے کہ بنی اسرائیل دامن کوہ میں تھے۔مگر آخری زمانہ کے عجائب پرست اور یہودیوں نے الفاظ’’زیر جبل‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے پہاڑ کو اٹھانے کی روایت گھڑ لی۔

پہاڑ کے اٹھانے کا قصّہ ایک ہندو روایت میں بھی پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’جب سری کرشن جی مہاراج نے اپنے وطن گوکل کے لوگوں کو ایک شدید طوفان بادو باراں سے محفوظ رکھنا چاہا تو انہوں نے دنیا کا سب سے بڑا پہاڑ جس کا گوبر دھن تھا جڑ سےاکھاڑ لیا اور اسے چھتری کی طرح اپنے ہاتھ کی انگلیوں کے سروں پر سات دن تک لوگوں کے سروں پر تھامے رکھا‘‘۔ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہودیوں نے یہ روایت ہندوؤں سے لی ہے، لیکن قرآن میں جو حصہ درج ہے وہ ضرور یہودیوں سے لیا گیا ہے۔

گوسالہ سامری

صرف یہی ایک عجیب و غریب قصّہ نہیں ہے جو قرآن میں بنی اسرائیل کی نسبت بیان کیا گیا ہے۔اس سے زیادہ عجیب و غریب قصّہ گوسالہ کی نسبت بیان کیا جاتا ہے،جس کی پرستش بنی اسرائیل نے موسیٰ کی غیبت میں کی تھی۔سورۂ طہٰ میں بیان کیا ہے کہ’’جب موسیٰ پہاڑ سے واپس آئے اور انہوں نے گوسالہ پر ستی پر بنی اسرائیل کو برا بھلا کہا تو انہوں نے جواب دیا ’’قَالُوۡا مَاۤ اَخۡلَفۡنَا مَوۡعِدَکَ بِمَلۡکِنَا وَ لٰکِنَّا حُمِّلۡنَاۤ اَوۡزَارًا مِّنۡ زِیۡنَۃِ الۡقَوۡمِ فَقَذَفۡنٰہَا فَکَذٰلِکَ اَلۡقَی السَّامِرِیُّ۔ فَاَخۡرَجَ لَہُمۡ عِجۡلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ فَقَالُوۡا ہٰذَاۤ اِلٰـہُکُمۡ وَ اِلٰہُ مُوۡسٰی ۬ فَنَسِیَ‘‘ سورۂ طہٰ ‎‎ (آیات ۸۷۔۸۸)۔

تفسیر جلالین میں اس پر یہ نوٹ دیا گیا ہے کہ:

’’وہ گو سالہ گوشت اورخون کا بنا ہوا تھا اور بولنے کی قوت رکھتا تھا۔کیونکہ اس میں جان اس طرح پڑ گئی تھی کہ سامری نے ایک مٹھی خاک کی اس جگہ سے اٹھا لی تھی جہاں جبرئیل کے گھوڑے کا پاؤں پڑا تھا اور یہ خاک اس نے گو سالہ کے منھ میں رکھ دی تھی‘‘۔

یہ روایت بھی یہودیوں سے لی گئی ہے جیسا کہ  ’’Pirke De-Rabbi Eliezer‘‘‏  مطالعہ سےمعلوم ہوتا ہے۔اس کی عبارت کا ترجمہ یہ ہے:

’’وہ گوسالہ ڈکارتا ہوانکلا اور بنی اسرائیل نے اسے دیکھا۔ربی یہوداہ کا قول ہے کہ اس گوسالہ کے اندر سمائیل پو شیدہ تھا اور وہی ڈکارہا تھا تا کہ بنی اسرئیل کو دھوکا دے‘‘۔

یہ خیال کہ وہ گوسالہ بولتا تھا غالباً اس مفروضہ سے پیدا ہوا ہے کہ اگرچہ وہ سونے کا بنا ہوا تھا مگر تھا زندہ،کیونکہ آگ سےنکلا تھا۔یہ ایک شاعرانہ طرز ادا ہے جس کے لفظی معنی لے کر یہ قصّہ گھڑ لیا گیا۔صاحب جلالین نے گوسالہ کا’’گوشت اور خو ن‘‘ سے بناہوا ہونا غالباً اس لئے ظاہر کیا کہ وہ بولتا تھا اور سونے کے بنے ہوئے گوسالہ کا بولنا ان کے نزدیک خلاف عقل تھا۔بہر حال یہ روایت بھی یہودیوں سے لی گئی ہے،لیکن معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہودی روایت کے لفظ سمائیل کو اچھی طرح نہیں سمجھا گیا۔یہودیوں کے یہاں ملک الموت کو سمائیل کہتے ہیں اور غالباً سامری اسی کی بدلی ہوئی صورت ہے۔سامری کا لفظ استعمال کرنے کی ایک وجہ اور یہ بھی ہوسکتی ہے کہ محمدﷺ جانتے تھے کہ یہودی قوم سامریوں سے نفرت کرتی ہے۔ (کیونکہ گوسالہ سامری نے بنایا تھا) اور ممکن ہے انہوں نے کہیں یہ بھی سن لیا ہو کہ یربعام  (Jeroboam) ‏نے جوبعد میں سامریہ کا بادشاہ کہلایا،یہودیوں سے گوسالاؤں کی پرستش کرائی تھی۔لیکن لطف یہ ہے کہ جس زمانہ میں گوسالہ کا بنانا ظاہر کیا جاتا ہے اس وقت تک شہر سامریہ آباد بھی نہ ہوا تھا اور غالباً موسیٰ سے کئی سوبرس بعد تک اس کانام بھی یہ نہ رکھا گیا تھا۔اس لئے یہ تاریخی غلطی اورزیادہ دلچسپ ہے۔اگر محمدﷺ روایات بائبل سے زیادہ واقف ہوتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ گو سالۂ طلائی کا بنانے والا ہارون تھا اور بائبل میں نہ’’سمائیل‘‘ کا کوئی ذکر پایا جاتا ہے، نہ ’’سامری‘‘کا۔

خدا کا مشاہدہ

ایک جگہ سورۂ بقر میں لکھا ہے کہ:

’’ وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ‘‘۔

’’یعنی بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا کہ اے موسیٰ ہم تجھ پراس وقت تک ایمان نہ لائیں گے جب تک ہم خدا کو صاف طور سے نہ دیکھ لیں گے (اور جب وہ خدا کے جلوہ کے لئے دیکھ رہے تھے) تو ان پر ایک بجلی گری اور وہ مر گئے۔مگر بعد میں اللہ نے انہیں پھر زندہ کر دیا‘‘۔

یہ فسانہ بھی یہودیوں سے لیا گیا ہے۔کتاب ’’ساہیندرین‘‘  (Sanhedrin) ‏ میں لکھا ہے کہ:

’’وہ خدا کی آو از (رعد کے پردہ میں) سنتے ہی مر گئے۔مگر ناموس موسیٰ نے ان کی شفاعت کی۔اس لئے انہیں پھر زندہ کر دیا گیا‘‘۔

اس فسانہ کی اصلی بنیاد کتاب خروج ۱۹:۲۰ ہے جس میں عبرانیوں کے یہ الفاظ درج ہیں کہ:

’’خدا کو ہم سے نہ بولنے دو کہیں ایسا نہ ہو ہم مر جائیں‘‘۔

لوحِ محفوظ

تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن مجیدآفرینش عالم سے پہلے بھی بہت پہلے’’لوح محفوظ‘‘ پر لکھ دیا گیا تھا۔یہ عقیدہ ان کا سورۂ انبیا کی اُن آیات کی بنا پر ہے جہاں قرآن مجید کو لوح محفوظ پر لکھا ہو نا بیان کیا گیا ہے۔مگر حیرت کی بات ہے کہ مسلمان زبور کو کیوں اتنا ہی قدیم نہیں مانتے حالانکہ اسی سورۂ انبیا میں لکھا ہے کہ ’’وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ ‘‘۔ ’’یعنی یقیناً ہم نے زبور کو لکھ دیا تھا بعد ذکر کے کہ جہاں تک زمین کا تعلق ہے،میرے نیک بندے زمین کے وارث ہوں گے‘‘۔ اس آیت کا اشارہ زبورداؤد ۲۹:۳۷ کی طرف جس میں ظاہر کیا گیا ہے’’صادق زمین کے وارث ہوں گے‘‘۔صرف یہی ایک آیت بائبل کی ایسی ہے جو قرآن میں دی گئی ہے،ورنہ یوں توریت ،زبور وانجیل کے نام اکثر جگہ لئے گئے ہیں اور ہمیشہ عزت و احترام کے ساتھ انکا ذکر کیا گیا ہے۔

اس سلسلہ میں یہ بات قابل غور ہے کہ جب تک کوئی کتاب پہلے سے موجود نہ ہو ،نہ اس کی عبارت نقل کی جا سکتی ہے، نہ اس کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ اس لئے ظاہر ہے کہ بائبل کے صحیفے قرآن کے وجود میں آنے سے پہلے موجود تھے اور تاریخ بھی اس کی شاہد ہے ،پھر مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ قرآن لوحِ محفوظ میں تخلیق عالم سے پیشتر ہی منقوش تھا ،کیا معنی رکھتا ہے اور اگر یہ صحیح ہے تو پھر بائبل وغیرہ اس سے پہلے منقوش ہو چکی ہوں گی، ورنہ ان کا حوالہ قرآن میں کیوں ہوتا۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ احادیث و روایات ’’لوح ومحفوظ‘‘ کے بارے میں کیا کہتی ہیں۔ اس کا جواب ہم کو ’’قصص الانبیا‘‘ جیسی کتابوں سے ملتا ہے۔اس کتاب میں یہ بیان کرتے ہوئے کہ خدا نے تمام چیزوں کو کیونکر پیدا کیا لکھا ہے کہ:

’’عرش اعظم کے نیچے اس نے ایک دانۂ مروارید ‎‎ (موتی۔گوہر) پیدا کیا اور اس مرو ار یدسے اس نے’’لوح محفوظ‘‘ بنائی۔اس لوح کا طول سات سو برس کی راہ او ر اس کا عرض تین سو برس کی ر اہ تھا۔اس کے حاشیہ پر چاروں طرف اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے لعل و یاقوت کے ذریعہ سے نقاش کی تھی۔ بعد از اں قلم کو حکم ہوا کہ’’لکھ اے قلم میری تمام مخلوق کی نسبت اور جو کچھ تاقیامت ہو گا اس کی نسبت میرا علم‘‘۔پہلے قلم نے ’’لوح محفوظ‘‘ پر لکھا ’’بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم‘‘ میں اللہ ہوں اور میرے سوائے اور کوئی معبود نہیں۔جس کسی نے میرا حکم مانا اور جو تکلیف اس کو میری طرف سے پہنچے گی اسے صبر شکر کے ساتھ برداشت کیا اور میری نعمتوں کا شکریہ اد ا کیا ،میں نے لکھ دیا ہے اس کا نام اور وہ صادقین کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اور جوشخص میرے حکم سے خوش نہ ہوا اور جو تکلیف اسے میری طرف سے پہنچی اسے صبر و شکر کے ساتھ برداشت نہ کیا اور میری نعمتوں کا شکریہ اد ا نہ کیا،اسے چاہیئے کہ وہ کوئی د وسرا اللہ تلاش کر لے اور میرے آسمان کے نیچے سے چلا جائے۔پس قلم نے اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں ہر چیز کی نسبت قیامت تک کا حال لکھا،حتٰی کہ درخت کا پتہ ہلنے ،گرنے یا اوپر اڑنے تک کا حال درج کیااور اس نے ایسی تمام باتیں اللہ تعالیٰ کی قدرت سے لکھیں‘‘۔

’’لوح محفوظ‘‘ کا خیال مسلمانوں میں یہودیوں سے لیا گیا ہے۔بائبل کی کتاب استثنا۱:۱۰۔۵میں لکھا ہے کہ:

جب موسیٰ نے خدا کے حکم سے ویسی ہی دو لوحیں پتھرتراش کر بنائیں جیسی انہوں نے توڑ دیں تھیں تو خدا نے ان پراحکام عشرہ تحریر فرمادیئے اور موسیٰ کو حکم دیا کہ وہ ان الواح کو  (Shittim) ‏ یعنی ببول کی لکڑی کے صندوق میں محفوظ رکھے۔اس مقام پر عبرانی زبان میں جولفظ تختی کے لئے لکھا ہے، وہ وہی ہے جو عربی زبان میں ہے اور بائبل کی کتاب ۱۔سلاطین۹:۸ اور صحیفہ عبرانیوں۴،۳:۹ سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں لوحیں صندوقِ میثاق میں’’محفوظ ‘‘ رکھی گئی تھیں جو موسیٰ نےخدا کے حکم کے مطابق بنایا تھا۔

یہ ہے وہ بیان جس کی بنا پر ’’لوح محفوظ‘‘ پر شریعت خداوندی کا خدا کی قدرت سے درج ہونے کا خیال رفتہ رفتہ پہلے یہودیوں میں پیدا ہوا اور بعد ازاں مسلمانوں میں آگیا۔قرآن کی جو آیت’’لوح محفوظ‘‘ کے بارے میں ہے اس میں’’بل ہو قرآنٌ مجید فی لوحٍ محفوظ‘‘لکھا ہے یعنی’’ایک لوح‘‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمد ﷺ کے ذہن میں کم ازکم دو لوحیں ضرور تھیں اور چونکہ یہ لوحوں والا صندوق ہیکل کے اندر رکھا جاتا تھا جواس بات کی علامت تھا کہ خدا بنی اسرائیل کے ساتھ موجود ہے۔لہٰذا ان الواح کی نسبت یہ کہا جانا قدرتی امر تھا کہ وہ ’’ لوحیں خدا کی جناب میں محفوظ ہیں‘‘۔اس طرح سے یہ خیال پیدا ہوا کہ’’لوح محفوظ‘‘آسمان پر ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محمدﷺ نے یہ کیوں بیان کیا کہ قرآن’’لوح محفوظ‘‘ میں درج ہے؟ اس کے جواب کے لئے ہمیں پھر یہودیوں کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور معلوم کرنا ہو گا کہ محمد ﷺ کے زمانہ میں اور اس سے قبل یہودیوں کا اس بارے میں کیا خیال تھا کہ الواح محفوظ پر کیا لکھا ہو اتھا؟باوجود اس کے کہ کتاب استثنا میں صاف لکھا ہوا ہے کہ ان تختیوں پر صرف احکام عشرہ لکھے ہوئے تھے،مگر کچھ عرصہ بعد یہ خیال پیدا ہو گیا کہ عہد نامۂ عتیق کے تمام صحائف معہ تمام تالمود کے یا تو ان تختیوں پر لکھے ہوئے تھے یا ان کے ساتھ خدا نے دیئے تھے۔جب محمد ﷺ نے یہودیوں کا یہ قول اپنی کتب مقدسہ کےبارے میں سنا ہو گا تو یقیناً انہیں بھی خیال ہوا ہو گا کہ جو کچھ ان پر الہام ہوتا ہے ،وہ بھی ضرور ان ’’الواح محفوظ‘‘ میں درج ہوگا۔گمان غالب ہے کہ مسلمانوں نے جو یہ نہ سمجھتے تھے کہ الفاظ’’لوح محفوظ‘‘ سے کس طرف اشارہ ہے، رفتہ رفتہ اس کے متعلق بہت سی عجیب باتیں گھڑ لیں۔اس امر کی تصدیق کے لئے کہ یہودیوں کا خیال ’’الواح محفوظ‘‘ کی تحریر کی نسبت کیا تھا؟ ہم کو رسالہ  (Berakhoth) ‏ کی طرف رجوع کرنا چاہیئے۔وہاں ہم کو ربیّ شمعون بن لاقیش  Rabbi Simeon ben Laqish‏  کا یہ قول ملتا ہے کہ:

’’ وہ کیا ہے جو لکھا ہوا ہے؟‘‘ اور میں تجھےپتھر کی لوحیں اور شریعت اور احکام جو میں نے لکھے ہیں دوں گا تا کہ تو انہیں سکھائے‘‘ (خروج۱۲:۲۴)۔لوحوں سے مراد احکام عشرہ ہیں۔شریعت سے مراد وہ ہے جو پڑھی جاتی ہے اور احکام سے مراد مشناہ ہے اور الفاظ’’جو میں نے لکھا ہے‘‘سے مراد انبیا اور  Hagiographa‏  ہیں ،جن میں یہود کی تمام کتب مقدسہ مثلاً زبور،امثال ،غزل الغزلات،واعظ ،یرمیاہ کا نوحہ،آستر،دانی ایل،عزرا، ایوب، روت اور نحمیاہ وغیرہ سب داخل ہیں )اور الفاظ ’’تاکہ تو ان کو سکھائے‘‘ سے مطلب  (Gemara) ‏ہے۔اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تمام چیزیں موسیٰ کو کوہ طور سینا سے دی گئی تھیں‘‘۔

زمانۂ حال کا ہر فاضل یہودی آیت مذکورہ کی اس تفسیر کو غلط سمجھتا ہے،کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مشناہ کی تالیف ۲۲۰ء میں ہوئی تھی۔یروشلیم کا ’’Gemara‘‘‏  ۴۳۸ء کے قریب لکھا گیا تھا اور بابلی جمارہ (گیمارا) کی تصنیف تقریباً۵۳۰ء میں ہوئی تھی۔مگر چونکہ مسلمانوں کو یہ باتیں معلوم نہ تھیں اس لئے انہوں نے آیت مذکورہ کی مندرجہ بالا تفسیر کو بالکل صحیح سمجھ لیا اور ان کا اطلاق قرآن پر بھی کر دیا۔

دوسرا بڑا ثبوت اس امر کا کہ’’لوح محفوظ‘‘ کا عقیدہ یہودیوں سے لیا گیا  (Pirqey  Aboth) ‏ باب پنجم فصل۶ کا یہ بیان ہے:

’’شریعت کی دونوں الواح نو د وسری چیزوں کے ساتھ آفرینش عالم کے وقت پیدا کی گئی تھیں اور یہ یوم السبت سے قبل کی شام کو ہوا تھا‘‘۔

کوہ قاف

قرآن مجید کی ایک سورۃ کا نام’’سورۂ قاف‘‘ ہے اور وہ حرف ’’ق‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔مسلمانوں کا خیال ہے کہ اس کا اشارہ ’’کوہ قاف‘‘ کی طرف ہے۔تفسیر عباسی میں یہی بات تسلیم کی گئی ہے اور اس کی تائید میں ایک حدیث بیان کی ہے جو ابن عباس سے روایت کی گئی ہے۔ابن عباس فرماتے ہیں کہ:

’’قاف ایک سر سبز و شاداب پہاڑ ہے جو تمام زمین کو گھیرے ہوئے ہے اور آسمان کی سبزی اسی کی وجہ سے ہے اور خدا نے اس کی قسم کھائی ہے‘‘۔

تفسیر جلالین میں لکھا ہے کہ:

’’خدا ہی خوب جانتا ہے کہ’’قاف‘‘ سے کیا مطلب ہے‘‘۔

کتاب عرایس المجالس میں اس کی تشریح زیادہ تفصیل کے ساتھ کی گئی ہے اور لکھا ہے کہ:

’’اللہ تعالی نے ایک بہت بڑا پہاڑ سبز زمرد کا بنایا۔آسمان کی سبزی اسی کی وجہ سے ہے۔اس کا نام قاف ہے اور وہ تمام زمین کو گھیرے ہوئے ہے اور یہی ہے جس کی قسم خدا کھاتا ہے اور قرآن شریف کہتا ہے’’قسم ہے قاف کی‘‘۔

’’قصص الانبیا‘‘ میں لکھا ہے کہ:

ایک روز عبداللہ ابن سلام نے محمدﷺ سے دریافت کیا کہ دنیا میں بلند ترین چوٹی پہاڑ کی کون سی ہے؟ محمدﷺ نے جواب دیا کہ ’’کوہ قاف‘‘۔مزید سوال کیا گیا کہ یہ پہاڑ کس چیز کا بنا ہوا ہے محمدﷺ نے جواب دیا کہ’’سبز زمرد کا اور آسمان کی سبزی اسی کے باعث ہے‘‘۔سائل نے یہ کہہ کر کہ خدا کے رسول نے اس بارےمیں صحیح فرمایا ہے دریافت کیا کہ’’کوہ قاف کی اونچائی کس قدر ہے؟‘‘ محمدﷺ نے جواب دیا کہ ’’اس کی بلندی پانسو (۵۰۰)برس کی ر اہ ہے‘‘۔ عبداللہ نے پوچھا کہ’’ اس کی گولائی کس قدر ہے؟‘‘ جواب دیاگیا کہ’’دو ہزار برس کی راہ‘‘۔

اگر ہم یہ معلوم کرنا چاہیں کہ اس عجیب و غریب سلسلۂ کوہستان کے وجود کی کیا حقیقت ہے تو اس کا جواب یہودیوں کی تفسیر  (Hagigah) ‏ باب۹ فصل۱ میں ملتا ہے۔بائبل کی کتاب پیدائش۲:۱ میں ایک بہت ہی قلیل الاستعمال عبرانی لفظ’’تو ہو‘‘  (Tohu) ‏ آتا ہے۔اس کی تفسیر یہ لکھی ہے کہ’’توہو‘‘ ایک سبز خط ہے جو تمام دنیا کے گرد محیط ہے اور جس کے اندر سے تاریکی نکلتی ہے‘‘۔وہ عبرانی لفظ جس کے معنی ہم نے یہاں ’’خط‘‘ لکھے ہیں’’قاو‘‘ ہے۔ محمدﷺ اور ان کےمتبعین نے یہ عبرانی لفظ تو سن لیا مگر ان کویہ معلوم نہ تھا کہ اس لفظ کے معنی ’’خط‘‘ کے ہیں۔اس لئے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ یقیناً جس چیز کو دنیا کے گرد محیط بتا یا گیا ہے اور جس میں سے تاریکی نکلتی ہے، وہ ضرور ایک بڑا سلسلہ کوہستان ہے جس کا نام’’قاو‘‘ یا ’’قاف‘‘ ہے۔

آسمان وزمین کے ساتھ طبقے

قرآن کی سورۂ بنی اسرائیل کی آیت۴۴ میں لکھا ہے ’’تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ‘‘۔ اور سورۂ الحجر کی آیت۴۴،۴۳ میں تحریر ہے کہ ’’ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ ‘‘۔ یعنی ایک آیت میں سات آسمانوں کا اور دوسری آیت میں دوزخ کے سات دروازوں کا ذکر کیا گیا ہے۔یہ دونوں باتیں یہودی روایات سے ماخوذ ہیں۔پہلی بات  (Hagigah) ‏ باب ۹ فصل نمبر۲ میں اور دوسری بات  (Zohar) ‏باب۲ صفحہ۱۵۰ پر درج ہے۔

یہ امربھی قابل توجہ ہے کہ ہندوؤں کے نزدیک بھی سطح زمین کے نیچے ہفت طبقات سفلی اور زمین کے اوپر ہفت طبقات علوی ہیں اور یہ سب طبقات ایک عظیم الجسامت سانپ کے سر پر قائم ہیں جس کا نام’’شیش ناگ‘‘ ہے۔اس سانپ کے ایک ہزار سر ہیں۔ان ہفت سمٰوات سے غالباً سبع سیارہ کے افلاک یا سالانہ گردش کے راستے مراد تھے۔ محمدﷺ کے زمانہ میں ان اجرام سماوی کی نسبت یقین کیا جاتا تھا کہ وہ زمین کے گرد گردش کرتے ہیں۔مسلمانوں کی روایات میں درج ہے کہ:

ہفت طبقات الارض  (Kajutah) ‏ نامی بیل کے سینگوں کے درمیان قائم ہیں۔ اس بیل کے چار ہزار سینگ ہیں اور ہر سینگ دوسرے سے پانچ سو برس کی راہ کی مسافت پر واقع ہے۔اس کے اتنے ہی کان ،ناک،آنکھیں،منھ اور زبانیں ہیں جتنے کہ سینگ ہیں۔ اُس کے پاؤں ایک مچھلی پر قائم ہیں جو پانی میں تیرتی ہے۔ اس پانی کی گہرائی چالیس برس کی راہ ہے (ملاحظہ ہو عرایس المجالس صفحات۵۔۹)۔

ایک دوسری روایت میں یہ لکھا ہے کہ زمین ایک فرشتہ کے سر پر قائم ہے اور اس فرشتہ کے پاؤں ایک بہت بڑے لعل پر قائم ہیں اور یہ لعل بیل پر ہے۔زمین اور بیل کے تعلق کا خیال غالباً آریا روایات سے ماخوذ ہے۔یہ روایت کہ زمین ہفت طبقات سفلی پر مشتمل ہے غالباً اس خیال سے ہے کہ زمین کو بھی آسمان ہی کے مطابق کر دیا جائے۔غالباً یہ خیال ایک فارسی زبان کے غلط معنی سمجھنے کی بنا پر پیدا ہوا ہے جو اَوَستامیں ایک جگہ لکھا ہے کہ زمین سات Karshvaresپر مشتمل ہے جنہیں فی زماننا’’ہفت اقالیم (اِقلیم کی جمع۔ملک)‘‘ کہا جاتا ہے۔اسی طرح پارسیوں کی کتاب Yesht  ۴۹   باب ۱۹ فصل ۳۱ میں لکھا ہے کہ’’جمشید نے زمین کی ہفت اقالیم پر سلطنت کی اور یہ ایرانی اقالیم ،ہندو جغرافیہ کے  (Dvipas) ‏ کے بالکل مطابق ہے۔

عرش

سورۂ ہود میں اللہ تعالیٰ کے عرش کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ زمین و آسمان کے پیدا کئے جانے سے پیشتر’’اس کا تخت یا عرش پانی پر یعنی ہوا میں تھا‘‘۔اسی طرح بائبل مقدس کی کتاب پیدائش ۲:۱ کی تفسیر کرتا ہوا یہودی مفسر’’رشی‘‘  (Rashi) ‏ ایک مشہور و معروف روایت کی بنا پر لکھتا ہے کہ’’خدا کا تخت جلال ہوا میں قائم اور پانی پر جھکا ہوا تھا‘‘۔

داروغہ جہنم

مسلمان مصنفین بیان کرتے ہیں کہ فرشتہ مالک جس کا نام سورۂ زخرف آیت۷۷ میں آیا ہے ،منجملہ ان انیس فرشتوں (سورۂ المدثر آیت۲۹) کے ہے جو دوزخ کے مہتمم ہیں۔اسی طرح یہودی روایات میں بھی’’شہزادہ جہنم‘‘ کا نام آتا ہے۔لیکن معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے ’’مالک‘‘ کا نام’’مولک‘‘  (Molech  or  Molek) ‏سے لیا ہے جو ایک دیوتا کا نام ہے جس کی نسبت بائبل میں بیان کیا گیا ہے کہ پہلے زمانہ میں اس کی پرستش اہل کنعان کیا کرتے تھے اور یہ لوگ اس بُت کے اعزاز میں زندہ آدمیوں کو جلاتے دیتے تھے۔یہ لفظ عربی اور عبرانی دونوں میں ایک ہی معنی رکھتا ہے یعنی’’مالک‘‘یا ’’فرمانروا‘‘۔

اعراف

سورۂ اعراف میں لکھا ہے کہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک طبقہ ہے جس کا نام ’’اعراف‘‘ ہے اور اس سورۃ کا نام بھی اسی لفظ کی وجہ سے رکھا گیا ہے کہ اس میں طبقہ’’اعراف‘‘ کا ذکر ہے۔آیت یوں ہے ’’وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ ‘‘۔ ’’یعنی ان دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے اور اعراف پر آدمی ہیں‘‘۔یہ خیال غالباً بائبل کی کتاب واعظ ۱۴:۷ سے آیا ہے اورمدراش ‎‎ (تفسیر) سے لیا گیا ہے جہاں اس سوال کا کہ’’جنت و دوزخ کے درمیان کیا ہے؟‘‘ ربی یوحنا نے یہ جواب دیا کہ’’ ایک دیوار ہے‘‘۔ ربی اخاہ  (Akhah) ‏نے کہا کہ ’’ایک وقفہ ہے‘‘اور ربّان  (Rabban) ‏ کہتے ہیں کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے اس قدر قریب ہیں کہ روشنی کی شعاعیں ادھر سے ادھر گزر جاتی ہیں‘‘۔غالباً یہ خیا ل اوستا سے لیا گیا ہے جہاں فر جند  (Fargand) ‏ باب ۱۹ میں جنت و دوزخ کے درمیانی طبقہ کا نام’’مسوانو گاتوش‘‘  (Miswanogatus) ‏ لکھا ہے۔یہ وہ مقام ہے ’’جہاں ان لوگوں کی روحیں رہتی ہیں جن کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہیں‘‘۔پہلوی زبان میں اس مقام کو’’مسوات گاس‘‘  (Miswat-gas) ‏ کہتے تھے۔پیروان زردشت کا قول ہے کہ دوزخ اور جنت کے درمیان وہی مقام ہے جو نورو ظلمت کے درمیان ہے۔یہ خیال کہ جن لوگوں کے اعمال نیک و بد ہوتے ہیں انکے لئے ایک خاص مقام مقرر ہے، دیگر مذاہب میں بھی رائج ہو گیا ہے۔

 شیطان

سورۂ الحجر کی آیت۱۸،۱۷ میں شیطان کی نسبت لکھا ہے کہ ’’وَحَفِظْنَاهَا مِن كُلِّ شَيْطَانٍ رَّجِيمٍ إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُّبِينٌ ‘‘۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان اور دیگر ملائکہ مردود چوری سے ان احکام کو سننے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ آسمان پر فرشتوں کو دیتا ہے۔اسی خیال کی تکرار سورۂ الصافات اور سورۂ الملک میں بھی کی گئی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں یہ خیال یہودیوں سے آیا ،کیونکہ ’’حقیقت‘‘ باب۶ فصل ۱میں لکھا ہے کہ شیاطین آئندہ واقعات کا علم حاصل کرنے کی غرض سے ’’پردہ کے پیچھے سے سنتے ہیں‘‘۔قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ ان شیاطین کو بھگانے کے لئے ان پر شہاب ثاقب مارے جاتے ہیں۔

دوزخ کی آگ

سورۂ قاف آیت ۳۰ میں جہاں قیامت کا ذکرہوا ہے، خدا کو یہ کہتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ’’وہ دن جب ہم دوزخ سے کہیں گے کہ کیا توبھر گئی ہے؟ تو وہ کہے گی کہ’’کیا ابھی کچھ باقی ہے‘‘۔یہ وہی بات ہے جو  (Rabbi  Aqiba) ‏کی کتاب  (Othioth) ‏ باب ۸ فصل۱ میں لکھی ہوئی ہے یعنی ’’دوزخ کا حاکم کہے گا کہ مجھے پیٹ بھر کر خوراک دو‘‘۔

نار التنور

سورۂ ہود اور سورۂ المومنون میں بتایا گیا ہے کہ’’حضرت نوح کے زمانہ میں آگ کی بھٹی ابل پڑی‘‘۔یہ بات یقیناً یہودیوں کی کتاب روایات ’’روش ہشانہ‘‘  (Rosh Hashshanah) ‏ باب۱۶ فصل۲ اور ساہنیدرین با ب ۱۰۸ سے لی گئی ہے جن میں لکھا ہے کہ طوفان نوح کے زمانہ کی قوم کو’’کھولتے ہوئے پانی کے ذریعہ سے سزا دی گئی تھی‘‘۔قرآن کا وہ تمام حصہ جہاں کفار نے نوح سے مذاق کیاہے،یہودیوں کی کتاب’’ساہنیدرین‘‘ اور دیگر تفاسیر سے لیا گیا ہے۔تفسیر جلالین میں اس واقعہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ایک نان بائی کا تنور ابل پڑا اور یہ نوح کےلئے ایک علامت تھی کہ طوفان آنے والا ہے۔

قرآن مجید میں دوسری زبانوں کے الفاظ

اگر اس امر کا مزید ثبوت در کار ہو کہ اسلام پر یہودی روایات کا اثر پڑا ہے ،تو وہ اس واقعہ سے بہم پہنچ سکتا ہے کہ اگرچہ مسلمانوں کو قرآن کے طرز ادا اور اس کی زبان کی پاکیزگی کا بہت بڑا دعویٰ ہے اور وہ اس بات کو قرآن شریف کا ایک معجزہ اور اس کے الہامی ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں ،مگر بایں ہمہ قرآن میں بعض الفاظ ایسے ہیں جو خالص عربی نہیں ہیں بلکہ ار امی اور عبرانی زبانوں سے لئے گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ الفاظ یہ ہیں۔طاغوت،سکینہ،حبر،جہنم،جنت عدن،تابوت،توراۃ،ملکوت،ماعون،فرقان۔ان میں سے بعض الفاظ ایسے ہیں جن کا مادہ تینوں زبانوں یعنی ارامی،عبرانی او رعربی میں ایک ہے ،مگر وہ عربی صرف و نحو کے مطابق مشتق نہیں ہوئے۔مگر عبرانی اور ارامی زبانوں میں وہ بکثرت پائے جاتے ہیں اور اس لئے دراصل وہ انہیں زبانوں کے الفاظ ہیں۔

لفظ’’فردوس‘‘  (Firdaus) ‏آخری زمانہ کی عبرانی زبان سے لیا گیا ہے۔مگر دراصل اس زبان میں بھی یہ قدیم فارسی زبان سے آیا تھا اور فی الحقیقت یہ لفظ قدیم فارسی اور سنسکرت زبانوں کا لفظ ہے۔لفظ’’فردوس‘‘ عربی زبان کے لئے بھی اتنا ہی غیر ہے، جتنا کہ یونانی زبان کے لئے لفظ ’’ Παράδεισος‏  (فردوس) ۔چونکہ مسلمانوں مفسرین ارامی ، عبرانی ،قدیم فارسی او رسنسکرت زبانیں نہیں جانتے تھے اس لئے وہ ان الفاظ کے صحیح معنی نہ بتا سکے۔ جب ہم کو ان الفاظ کے معنی اس طرح معلوم ہو گئے تو ہم دیکھتے ہیں کہ سیاق و سباق میں ان الفاظ کا مطلب صحیح بیٹھتا ہے،مثلاً یہ ایک عام غلطی ہے کہ لفظ’’ملکوت‘‘ سے مطلب مقام ملائکہ یا ان کی حالت سمجھی جاتی ہے۔مگر یہ نہیں خیال کیا جاتا کہ اس لفظ کا مادہ’’ملک‘‘ (فرشتہ) نہیں ہے بلکہ یہ لفظ وہی ہے جو عبرانی میں اس طرح لکھا جاتا ہے  ’’מַלְכוּח‘‘‏  (ملکوت بمعنی سلطنت)۔

طریق عبادت

یہ فرض کرنا تو غلطی ہے کہ مسلمانوں نے سر ڈھک کر نماز پڑھنا،جماعت کے وقت عورتوں کو مردوں سے علیٰحدہ کردینا یا نماز کے وقت جوتا اتار دینا یہودیوں سے سیکھا ہے ،کیونکہ غالباً عربوں اور تمام سماتیقی اقوام میں یہ رواج زمانۂ قدیم سے موجود تھا۔لیکن وضو وغیرہ میں مسلمانوں نے غالباً یہودیوں کی تقلید کی ہے۔گو پوری صحت کے ساتھ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے۔یہ ہم کو معلوم ہے کہ کچھ عرصہ تک مسلمانوں نے یہودیوں کی تقلید میں یروشلیم کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا طریقہ اختیار کیا تھا اور بعد میں مکہ کی طرف قبلہ مقرر کر دیا گیا۔ہم یہ بھی دیکھ چکے رمضان کے روزے رکھنا مسلمانوں نے یہودیوں سے نہیں بلکہ صابئین سے سیکھا تھا۔روزہ کے باب میں ایک قاعدہ البتہ یقیناً یہودی ذریعہ سے لیا گیا ہے۔سورۂ بقرہ میں بوقت شب کھانے کاجہاں حکم دیا گیا ہے وہاں یہ لکھا ہے کہ:

الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ

ان سیاہ و سفید ڈوروں کے رنگ میں امتیاز کرنے کا سوال اس لئے پیدا ہوا کہ مسلمانوں کو طلوع آفتاب سے رات شروع ہونے تک روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس سلسلہ میں یہ جاننا ضروری تھا کہ دن کس وقت شروع ہوتا ہے۔اسی لئے یہ آیت نازل ہوئی ،لیکن یہ ترکیب’’مشناہ بیرا خوث‘‘  (Mishnah Berakhoth) ‏ باب ۱،فصل۲ سے لی گئی ہے جہاں لکھا ہے کہ ’’دن اس وقت شروع ہوتا ہے جب نیلے اور سفید ڈوروں کے رنگ میں امتیاز ہوسکے‘‘۔ہر ملک میں جہاں مسلمان آباد ہیں ان کو ہدایت ہے کہ جس جگہ نماز پنجگانہ کا وقت آئے وہ اسی جگہ خواہ گھر میں ہوں یا مسجد میں یا بازار میں فوراً نما ز پڑھ لیں۔چنانچہ بہت سے مسلمان ایسا کرتے ہیں۔اگر ہم اس طریقہ کا ماخذ معلوم کرنا چاہیں تو ہمیں یہودیوں کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔

وہ یہودی جو محمدﷺ کے زمانہ میں عرب میں رہتے تھے ،ان فریسیوں  (Pharisees) ‏ کی روحانی اور کسی حد تک صلبی اولاد تھے جن کی نسبت انجیل میں لکھا ہے کہ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ روایت پرستیوں سے خدا کے کلام کو باطل کرتے ہیں۔بیان کیا جاتا ہے کہ مسیح کے زمانے میں ان کو اس امر پر برا بھلا کہا جاتا تھا کہ وہ ’’معبدوں اور سڑکوں کے گوشوں میں نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں‘‘تا کہ ان کو عوام سے اپنی پرہیزگاری کی پوری داد ملے۔قدیم زمانہ کے فریسیوں اور زمانہ حال کے مسلمانوں میں اس قدر مشابہت ہے کہ مسلمانوں میں جو لوگ مسیحیت کے مخالف ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ یہی بات اس امر کا بین ثبوت ہے کہ انجیلوں میں تحریف ہو گئی ہے اور کہتے ہیں کہ مندرجۂ بالا آیات اناجیل میں مسلمانوں کی نما زگزاری کا اس قدرٹھیک بیان ہے کہ کسی عیسائی جس نے مسلمانوں کو نماز پڑھتے دیکھا ہو گا اور جو مسلمانوں کی خدمت کرنا چاہتا ہو گا،یہ آیتیں لکھ کر انجیل میں داخل کر دی ہیں۔اگر محمدﷺ اور ان کے پیروؤں نے اس معاملہ میں یہودیوں کی تقلید کی تو ان کے لئے یہ ایک قدرتی امر تھا۔وہ جانتے تھے کہ یہودی حضرت ابراہیم کی نسل سے ہیں اور ’’اہل کتاب‘‘ ہیں۔ پس جب مسلمان ظاہر ی اور فروعی باتوں کو اس قدر اہمیت دیتے تھے تو کوئی تعجب انگیز بات نہیں جو انہوں نے یہودی طریقۂ عبادت کو بالکل صحیح سمجھ لیا ہو۔مگر کہا یہ جاتا ہے کہ نماز پڑھنا جبرئیل نے سکھایا اور آج تک تمام مسلمان رکوع و سجودمیں اسی کی تقلید کرتے ہیں۔

تعدّد از واج

سورۂ نسا میں بیویوں کی تعداد محدود کر دی گئی ہے، یعنی ایک وقت میں ایک مسلمان صرف چار بیویاں رکھ سکتا ہے۔مفسرین بیان کرتے ہیں کہ پہلے بہت سے مسلمانوں کے پاس اس سے زیادہ بیویاں تھیں۔اس قاعدہ کا اطلاق محمدﷺ پر نہیں ہوتا کیونکہ سورۂ احزاب میں لکھا کہ محمدﷺ کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ جتنی بیویاں چاہیں رکھیں۔جس آیت میں بیویوں کی حد مقرر کی گئی ہے وہ حسب ذیل ہے:

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا

اس آیت کی تفسیر مفسرین ہمیشہ یہ کرتے چلے آئے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے ایک وقت میں چار بیویوں سے زیادہ رکھنا منع ہے۔اگرچہ ان کو اس امر میں پوری آزادی حاصل ہے کہ وہ ان بیویوں میں سے کسی کو یا سب کو طلاق دے کر دوسری عورتوں سے نکاح کر کے تعداد پوری کر لیں۔جب ہم اس کی تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں یہی تعلیم یہودیوں کے یہاں بھی ملتی ہے۔ا ن کو ہدایت ہے کہ ایک مرد بہت سی بیویاں کر سکتا ہے،کیونکہ رب کہتا ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے اگر تم ان کا خرچ برداشت کر سکو۔بایں ہمہ عقل مندوں نےاس بارے میں یہ نیک مشورہ دیا ہے کہ ایک مردکو چار بیویوں سے زیادہ شادی نہ کرنا چاہیئے۔

رسول اللہ کا اُمّی ہونا

اس اعتراض کے جواب میں کہ قرآن خد اکا کلام نہیں بلکہ محمدﷺ کا کلام ہےایک جواب یہ بھی دیا جاتا ہے کہ محمدﷺ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے اور اُن کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ عبرانی یا ارامی یا دیگر کتب کا مطالعہ کرتے جن سے ہم نے قرآن کی بہت سی باتیں براہ راست یا بالواسطہ ماخوذ ظاہر کی ہیں۔وہ (مسلمان) کہتے ہیں کہ ’’ایک ناخواندہ شخص کے لئے یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ اس قدر زبانوں کا لٹریچر مطالعہ کرے جن سے فی زماننا بھی بہت کم لوگ واقف ہیں‘‘۔مسلمانوں کا یہ جواب دو باتوں پر مبنی ہے۔اول یہ کہ محمدﷺ نہ لکھ سکتے تھے، نہ پڑھ سکتے تھے۔دوم یہ کہ وہ صرف پڑھنے ہی سے ان روایات کا علم حاصل کر سکتے تھے، جو اس زمانہ میں یہودیوں ،نصرانیوں اور زردتشتیوں وغیرہ میں رائج تھیں۔مگر ان دونوں کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔پہلی دلیل کی تائید میں مسلمانوں کی طرف سے سورۂ الاعراف کی وہ آیت پیش کی جاتی ہے جس میں محمدﷺ کو ’’نبی الاُمّی‘‘ کہا گیا ہے۔مسلمان لفظ’’اُمّی‘‘کے معنی ’’ناخواندہ‘‘ بتاتے ہیں۔مگر ربی ابراہیم گیگر  (Rabbi  Abraham  Geiger) ‏ نے صاف ظاہر کر دیا ہے کہ جس لفظ کے معنی اس آیت میں ’’ناخواندہ‘‘ بتائے جاتے ہیں وہ د رحقیقت ’’غیر یہودی‘‘  (Gentile) ‏کے معنی رکھتا ہے۔ربی مذکور کے اس قول کی تصدیق سورۂ آل عمران کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ’’اُمیئین اور اہل کتاب سے بات کریں‘‘۔’’ وَقُل لِّلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ ‘‘۔ا س آیت میں صاف ظاہر ہے کہ عربوں کو عام طور سے ’’ وَالْأُمِّيِّينَ ‘‘ یعنی غیر یہودی  ’’Gentile‘‘‏  کہا گیا ہے۔علاوہ ازیں سورۂ عنکبوت آیت۲۷ اور سورۂ حم آیت۱۶ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ منصب نبوت اسحٰق و یعقوب کی اولاد کو عطا کیا گیا۔ اسمٰعیل کی اولاد کا ذکر نہیں ہے،اس لئے محمدﷺ نے خود کو دیگر انبیا سے الگ کرنے کے لئے اُمّی یعنی’’غیر یہودی‘‘  (Gentile) ‏ بیان کیا ہے ،کیونکہ دیگر انبیا اسحٰق کی اولاد میں مبعوث ہوئے تھے۔

محمدﷺ کا مطلق بے لکھا پڑھا ہونا جیسا کہ مسلمان عام طور پر سمجھتے ہیں،واقعات سے ثابت نہیں ہوتا، بلکہ بعض احادیث سے اس کی تکذیب ہوتی ہے۔چنانچہ بخاری اور مسلم کی بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب صلح نامہ حدیبیہ کا مسودہ آپ کے سامنے لایا گیا تو آپ نے اسے دیکھ کر حضرت علی سے قلم مانگا اور’’ محمدرسول اللہ‘‘قلم زد (کسی چیز کو مٹا دینا) کر کے ’’ محمدﷺ ابن عبداللہ‘‘ لکھ دیا۔دوسری روایت آپ کے رحلت کے وقت کی ہے کہ آپ نے کچھ ہدایات لکھنے کے لئے قلم و کاغذ طلب کیا،لیکن آپ ایسا نہ کر سکے۔اس کےراوی ابن عباس ہیں اور بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں یہ روایت پائی جاتی ہے۔ 

لیکن اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ محمدﷺ نوشت و خواند (لکھنا پڑھنا) سے واقف نہیں تھے تو بھی اس کا امکان باقی رہتا ہے کہ انہوں نے بہت سی باتیں یہودی اور دیگر ذرائع سے حاصل کی ہوں گی اور قرآن کی آیات اور یہودی تحریروں کا جوہم نے مقابلہ کیا ہے ان سے یہ بات پوری طرح ثابت ہو تی ہے۔لیکن اسی کے ساتھ ایک بات اور بھی ہے ، وہ یہ کہ محمدﷺ کو یہ معلومات زبانی حاصل ہوئی تھیں اور غالباً ایسے لوگوں سے حاصل ہوئی تھیں جن کوکتابی علم بہت کم حاصل تھا۔یقیناً محمدﷺ کے لئے یہ بات متعدد وجوہ کی بنا پر ناممکن تھی کہ وہ ارامی،عبرانی،فارسی یا یونانی کتب کا مطالعہ کرتے،لیکن یہ بات کسی صورت سے بھی ناممکن نہ تھی کہ وہ اپنے یہودی،ایرانی اور نصرانی صحابہ اور شاگردوں سے ان کی روایات سن لیتے۔

محمدﷺ کے مخالفین نے ان کی زندگی ہی میں یہ الزام لگایا تھا کہ وہ قرآن کے بنانے میں لوگوں سے مدد لیتے ہیں اور یہ بات خود قرآن،احادیث اور تفاسیر سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ایسے لوگوں میں ایک وہ یہودی تھا جس کا ذکر سورۂ احقاف میں قرآن و کتب یہود کی موا فقت کے بارے میں بطور ’’گواہ ‘‘ کیا گیا ہے۔تفسیر عباسی اور جلالین میں اس آیت کے متعلق یہ لکھا ہے کہ یہ یہودی شخص عبداللہ ابن سلام تھا جو درحقیقت پہلے ایک یہودی ربی تھا مگر بعد میں اسلام لے آیا تھا ‎‎ (روضتہ الاحباب)۔ سورۂ فرقان میں لکھا ہے کہ محمدﷺ کے مخالفین نے کہا’’واعانہ علیہ قومٌ آخرون‘‘،یعنی اس کی دوسروں نے مدد کی۔اور یہ بھی کہا کہ محمدﷺ نے صرف’’اساطیر الاولین‘‘ ‎‎ (قدیم لوگوں کے قصے)لکھے ہیں جو اسے اس کے رفقا صبح و شام لکھواتے ہیں۔ تفسیر عباسی میں لکھا ہے کہ جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، وہ جبر ایک نصرانی غلام یسار ‎‎ (جس کا نام ابو فقیہ بھی تھا) اور ابو تکبیہ ایک یونانی تھے۔سورۂ النحل میں جب یہ الزام لگایا گیا کہ ’’انمّا یعلّمہ بشر‘‘ تو اس کا جواب یہ دیا گیا کہ جن کی نسبت یہ لوگ اشارہ کرتے ہیں، ان کی زبان عربی نہیں ہے اور قرآن خالص عربی زبان میں ہے۔لیکن اصلی الزام کا کوئی جواب نہیں دیا گیا جو یہ تھا کہ قرآن کی زبان نہیں بلکہ قرآن میں جو قصص درج ہیں وہ محمدﷺ کو بتائے گئے ہیں۔تفسیر عباسی میں لکھا کہ جس ’’بشر‘‘ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، وہ ایک نصرانی مسمی قیس تھا۔تفسیر جلالین میں جبر اور یسار لکھا ہے۔بعض کہتے ہیں سلمان فارسی مشہور صحابی کی طرف اشارہ ہے۔ بعض صحیب بتاتے ہیں اور بعض اس کا نام ردّاس لیتے ہیں۔

اسی سلسلہ میں یہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ خدیجۃ الکبریٰ کے عم زاد بھائی عثمان اور خصوصاً ورقہ اس زمانہ کی نصرانیت اور یہودیت سے واقف تھے اور ان لوگوں کا محمدﷺ کی نبوت کے ابتدائی زمانہ میں اور غالباً اس سے قبل کچھ کم اثر نہ تھا۔زید، محمدﷺ کے متبنیٰ بیٹے کے بقول ابن ہشام ایک شامی تھے جو یقیناً پہلے عیسائی رہے ہوں گے۔ہم آگے چل کر یہ بھی دکھائیں گے کہ محمدﷺ کے صحابیوں میں اور بھی ایسے لوگ تھے جو ان کو یہودی ،عیسائی اور پارسی مذہب کے متعلق بآسانی معلومات بہم پہنچا سکتے تھے ،مگر ان کی صورت اس قدر تبدیل کر دی گئی ہے کہ جن لوگوں سے محمدﷺ نے اپنی معلومات بہم پہنچائی تھیں، ان کو ان کا شناخت کرنا مشکل ہو گیا ہوگا اور اگر انہوں نے شناخت بھی کر لیا ہوگا تو یہ سمجھا ہوگا کہ خدا نے ان کے مذہب کی تصدیق میں نازل کی ہیں۔

 

چوتھا باب

اسلام پر نصرانیت اور عیسائیوں کی مشکوک کتب کا اثر

جب محمدﷺ نے نبوت کا دعوی ٰ کیا، اس وقت تک نصرانیت کا عربوں پر اتنا زیادہ اثر نہیں تھا۔سر ولیم میور صاحب نے اپنی کتاب ’’لائف آف محمدﷺ   ۵۰  ‘‘ میں لکھا ہے کہ اگرچہ نصرانیت کی تبلیغ و اشاعت کو پانچ سو برس گزر چکے تھے،بایں ہمہ بہت کم عیسائی عرب میں پائے جاتے تھے،مثلاً نجران میں بنو حارث، یمامہ میں بنو حنیفہ،تیمہ میں بنوطے اوربس‘‘۔بیان کیا جاتا ہے کہ جب محمدﷺ بہت چھوٹےتھے تو وہ شام گئے جہاں انہوں نے نجران اسقف قسّ  (Quss) ‏ کا واعظ سنا،بہت سے راہبوں سے ملاقات کی اور جو لوگ مسیحی مذہب رکھتے تھے ان کو دیکھا۔ محمدﷺ کا یہ سفر قبل از اعلان نبوت بغرض تجارت ہوا تھا۔اس لئے جو کچھ انہو ں نے وہاں دیکھا یا سنا اس کا اثر ان پر بہت کم ہوا اور ایسا ہونا چاہیئے تھا کیونکہ اس وقت عیسائیوں کی اخلاقی حالت بہت گری ہوئی تھی۔

اسحٰق ٹیلر   ۵۱   نے لکھا ہے کہ’’عیسویت ایک ذلیل قسم کی توہم پرستی اور پلید قسم کی بُت پرستی کے سوا کچھ نہ تھی۔ا س کی تعلیمات اس قدر پُر از کبر و طغیان اور وہاں کی رسمیں اس قدر پر از فسق و فجور تھیں کہ انہیں دیکھ کر مستقل مزاج اور غیور عربوں کے دلوں میں یقیناً یہ جوش و خیال پیدا ہوا ہو گا کہ ان کو خدا نے دنیا میں اسی کفر پرست مسیحیت کو مٹانے کے لئے بھیجا ہے۔ جس یونانی راہب نے کتاب’’تاریخ شہادت اتھناسیس  (Athanasius) ‏ ایرانی‘‘ لکھی ہے، اس نے اس زمانہ میں جبکہ بزمانہ محمدﷺ ایرانیوں کا قبضہ قلیل مدت کے لئے فلسطین پر ہوگیا تھا،ان آلام و مصائب کا حال بیان کیا ہے   ۵۲   جو ایرانیوں کے ہاتھوں اہل فلسطین پر ہوتا تھا۔اس نے اس وقت کے عیسائیوں کے فسق و فجور اور بدکاریوں کا حال بھی لکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ انہی سیاہ کاریوں کے باعث خدا نے اہل فلسطین کو ایرنیوں کے حوالہ کر دیا تھا کہ وہ ان پر ظلم کریں اور سزا دیں۔جو باتیں راہب مذکور نے بیان کی ہیں وہی باتیں مکاشفات یوحنا۲۲،۲۱:۹ میں لکھی ہیں۔اسی زمانہ کا حال بیان کرتے ہوئے موشیم  (Mosheim) ‏ نے لکھا ہے کہ’’اس صدی   ۵۳   میں اصل مذہب ،توہم پرستیوں کے انبار کے نیچے دبا پڑا تھا اور اپناسر نہیں اٹھا سکتا تھا۔قدیم زمانہ کے عیسائی صرف خدا اور اس کے بیٹے کی عبادت کیاکرتے تھے۔لیکن جو لوگ اس صدی میں خود کو عیسائی کہتے تھے وہ ایک صلیب کی لکڑی ، اولیا،اللہ کے بُتوں اور مشکوک ہڈیوں کی پرستش کیا کرتے تھے۔قدیم عیسائی لوگوں کے سامنے جنت و دوزخ کے مناظر پیش کیا کرتے تھے ،مگر بعد کے عیسائی صرف ایک آگ کا بیان کرتے ہیں جو لوگوں کی روح کی خامیاں رفع کرنے کےلئے تیار کی گئی ہے۔پہلے زمانہ کے عیسائی یہ سکھاتے تھے کہ مسیح نے اپنی موت اوراپنے خون سے لوگوں کے گناہوں کا کفارہ دیا ہے،مگر آخر زمانہ کے عیسائی یہ کہتے تھے کہ جو شخص عطیات یا چندے دے کر پادریوں یا کلیسیا کو مالا مال کرے گا اس کے خلاف بہشت کے دروازے بندکر دیئے جائیں گے۔پہلے زمانہ کے عیسائی تبن و پاکیزہ زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے تھے ،مگر آخر زمانہ کے عیسائیوں نے فروعی رسموں اور جسمانی ریاضتوں کو ہی اصل مذہب سمجھ لیا تھا‘‘۔

اگرچہ نصرانیت کے متعلق محمدﷺ کا تجربہ محدود تھا مگر قرآن مجید میں مسیحیت کی جو تصویر پیش کی گئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مذہب کے متعلق محمدﷺ کے خیالات کیا تھے۔نصرانیت کے متعلق جو کچھ بھی محمدﷺ نے بیان کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے خیالات پر ’’Orthodox‘‘‏  عیسویت کے معتقدات کا بہت زیادہ اثر پڑا تھا۔یہ جماعت مریم کو ’’خدا کی ماں‘‘ کہتی تھی اور اس نے اللہ تعالیٰ کی بجائے ایک یہودی دوشیزہ کی پرستش کا راستہ کھول دیا تھا۔ا س غلط فہمی کا نتیجہ ابن اسحٰق نے بہت واضح طور پر ظاہر کیا ہے۔اس سفارت کا حال بیان کرتے ہوئے جو ۶۳۲ء میں نجران کے نصاریٰ کی طرف سے محمدﷺ کے پاس بمقام مدینہ آئی تھی اور بقول راوی مذکور’’مذہب شہنشاہ‘‘ کی تھی۔وہ لکھتا ہے کہ’’تمام عیسائیوں کی طرح یہ لوگ بھی کہتے ہیں کہ ’’یسوع خدا ہے،خدا کا بیٹا ہے اوراقانیم ثلاثہ میں سے تیسرا ہے‘‘۔۔۔ان لوگوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ وہ اقانیم ثلاثہ یعنی خدا ،مسیح اور مریم میں سے تیسرا اقنوم ہے‘‘۔یعنی جو الفاظ ان لوگوں نے کہے وہ تو راوی نے صحیح طور پر نہیں لکھے، لیکن اس سے کم ازکم یہ ضرور معلوم ہو سکتا ہے کہ محمدﷺ نے ان نصاریٰ کے عقیدہ کے متعلق کیا سمجھا تھا اور جو کچھ محمدﷺ نے سمجھا تھا وہ قرآن کی مندرج آیات سے صاف طور پر ظاہرہوتا ہے۔ ’’ لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ ‘‘ (سورۂ مائدہ آیت۷۳) یعنی تحقیق ان لوگوں نے کفر کیا جو کہتے ہیں کہ’’اللہ تین میں سے ایک ہے‘‘ اور ’’ وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ‘‘ (مائدہ آیت۱۱۶) یعنی جب اللہ کہے گا کہ’’ یا عیسیٰ ابن مریم کیا تو نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ تم مجھے اور میری ماں کو اللہ کے علاوہ دو خدا سمجھو؟‘‘۔ان آیتوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ محمدﷺ نے اس نصرانیت کو مسترد کر دیا تھا جو ان کے سامنے پیش کی گئی تھی ،لیکن اگر محمدﷺ نے نصرانیت کی پاک رسموں اور خالص تعلیمات کو دیکھا ہوتا اورا س مذہب کی مسخ شدہ صورت ان کے سامنے نہ ہوتی تو یقیناً اپنے ابتدائی زمانہ میں جبکہ وہ سچے دل سے جویائے حق تھے،یسوع کے دین کو قبول کر لیتے۔

یہ خیال کس قدر افسو س ناک ہے کہ شام کے واعظین اور راہبوں نے نصرانیت کی کس قدر خراب اور مسخ شدہ شکل پیش کی اور انجیل کی سادہ جلالت کی بجائے مغالطہ انگیز اور تکلیف دہ شرک کے ساتھ تثلیث کا مقدس مسئلہ پیش کیا گیا اور کنواری مریم کی پرستش کو اس قدر گندہ اور مکروہ صورت میں دکھایا گیا کہ محمدﷺ کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ مریم ایک دیوی خیال کی جاتی ہے۔یقیناً ایسی ہی کفر آمیز فضولیات کی وجہ سے محمدﷺ کا دل اس سچے عقیدہ سے متنفر ہوا اور اسی وجہ سے وہ یسو ع کو صرف’’عیسیٰ ابن مریم‘‘ سمجھنے لگے کیونکہ تمام قرآن میں یسوع کے لیے یہی خطاب استعمال ہو اہے‘‘ (سر ولیم میور لائف آف محمدﷺ)۔اس میں شک نہیں کہ محمدﷺ کو خالص انجیلی نصرانیت سے کبھی واسطہ نہ پڑا تھا اور دیکھا جائے تو نصرانیت کی انہیں غلط صورتوں کی وجہ سے جو اس زمانہ میں عام طور پر رائج تھیں،اسلام پیدا ہوا۔کیونکہ جب نصرانیت کی غلط صورتیں دیکھ کر محمدﷺ کی طبیعت بیزار ہو گئی تو وہ ان حقائق کی تلاش کرنے سے رُک گئے جو انجیل میں ہیں اور اس طرح ان کے دل میں نصرانیت کے خلاف کوئی جدید مذہب جاری کرنے کی تحریک پیدا ہوئی۔

اس امر کا کوئی قابل اطمینان ثبوت نہیں ہے کہ محمدﷺ کے زمانہ میں عہد نامۂ جدید کا کوئی عربی ترجمہ موجود تھا۔خود ’’مشرقی کلیسیا‘‘ میں انجیل کی طرف اس قدر توجہ نہیں د ی جاتی تھی جس قدر کہ اولیا ئےاللہ کی روایات پر اور اس وقت عرب کی حالت یہ تھی کہ وہا ں مختلف فرقوں کے بہت سے ضالّین (گمراہ) جمع ہو گئے تھے اور قرآن کے دیکھنے سے یہ بات صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ بہت سے خرافیاتی قصے جو ساقت الصحت اناجیل  (Apocryphal  Gospels) ‏اور اسی طرح کی دوسری کتاب میں موجود تھے، محمدﷺ کے کانوں تک پہنچے جن کو انہوں نے بالکل صحیح مان لیا۔یہ بات بظاہر تعجب انگیز معلوم ہوتی ہے کہ محمدﷺ نے کیوں یقین کر لیا کہ یہ تما م خرافیات انجیل میں پائی جاتی ہیں ،لیکن دراصل تعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ وہ لوگ جو محمدﷺ پر ایمان لائے تھے ان میں کوئی بھی سچا اور اچھا تعلیم یا فتہ عیسائی نہیں تھا۔نیز یہ کہ وہ لوگ نصرانیت سے اس قدر دلچسپی نہیں رکھتے تھے جس قدر تالمودی یہودیت سے۔قرآن کی وہ آیتیں جن میں بخیال محمدﷺ عیسائی عقائد کی تصریح کی گئی ہے ، اس زمانہ کی ہیں جبکہ اسلام بڑی حد تک پختگی کو پہنچ گیا تھا اور ہم اس میں ایک رسم یاتعلیم بھی ایسی نہیں دیکھتے جو اس زمانہ کی نصرانیت کے عجیب و غریب عقائد پر مبنی ہو یا ان کے رنگ میں خفیف طور سے بھی رنگی ہوئی ہو۔البتہ برعکس اس کے یہودیت کا رنگ اسلام پر چڑھا ہو ا نظر آتا ہے اور بہت سے احکام شریعت اگر اصلی مفہوم میں نہیں تو صورت و وضع میں یہودیت ہی کے ممنون نظر آتے ہیں۔

لیکن چو نکہ محمدﷺ یہ بھی چاہتے تھے کہ یہود و نصاریٰ دونوں دین اسلام قبول کر لیں ‎‎ (اگرچہ عرب میں نصاریٰ بلحاظ تعداد و طاقت اتنے نہ تھے جتنے یہود مگر چونکہ نصرانیت عظیم الشان بازنطینی سلطنت کا مقررہ سرکاری مذہب تھا ،اس لئے وہ محمدﷺ کی نظروں میں ضرور کچھ اہمیت رکھتا ہو گا،خصو صاً اس خیال سے کہ اگر عرب کے نصاریٰ اسلام نہ لائے تو ممکن ہے کہ سیاسی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں)۔ اس خیال سے انہوں نے اپنے مامور من اللہ ہونے کے ثبوت میں انجیل سے بھی کام لیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ مسیح نے ان کی بعثت کی نسبت پیش گوئی کی ہے۔ محمدﷺ نے عیسیٰ کی نسبت الفاظ ’’کلمتہ منّہ اسمہ المسیح عیسیٰ ابن مریم‘‘ اور ’’ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ‘‘ استعمال کئے ہیں۔ مگر وہ یسوع کی الوہیت اور مصلوبیت کے منکر ہیں اور تعلیمات انجیل سے اپنی پوری لاعلمی ظاہر کرتے ہی۔تاہم وہ انجیل کی نسبت عزت و احترام کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور بہت سی آیات میں انجیل کو آسمانی کتاب بیان کیا ہے جو’’عیسیٰ پر آسمان سے نازل ہوئی‘‘ اور یہ بھی لکھا ہے کہ قرآن بھی انجیل کی تصدیق اور اس کی حفاظت کرنے کے لئے نازل ہوا ہے۔

محمدﷺ نے یہ بھی کہا کہ عیسیٰ کنواری عورت کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے۔اورقرآن میں مسیح کے بہت سے معجزات بھی بیان کئے گئے ہیں ،مگر یہ سب کچھ روایتی زبان میں ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ محمدﷺ کو یسوع مسیح اور اس کے حوارین کی نسبت معلوم ہوا وہ سب غیر مستند سنی سنائی باتوں پر مبنی تھا۔ہم آگے چل کر دکھائیں گے کہ جو کچھ قرآن میں لکھا ہے وہ ان بیانات سے بہت کچھ مطابق ہے جو اناجیل مشکوک الصحتہ اور کتب ضالّین میں درج ہے۔اب ہم قرآن کے بعض وہ قصص لیتے ہیں جو نصرانیت سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ دکھائیں گے کہ وہ کن ذرائع سے ماخوذ معلوم ہوتے ہیں۔

قصّۂ اصحاب کہف

یہ قصّہ سورۂ کہف میں اس طرح بیان کیا گیا ہے’’کیا تو نے کبھی اس امر پر غور نہیں کیا کہ اصحاب الکہف و الرقیم ہماری عجیب نشانیوں میں تھے؟جب وہ نوجوان خود کو غارمیں لے گئے تو انہوں نے کہا کہ’’اے ہمارے خدا تو اپنی طرف سے ہم پر رحم فرما اور ہمارے معاملہ میں ہماری رہنمائی کر‘‘۔پس ہم نے غار میں ان کے کانوں کو سننے سے روک دیا (یعنی ان پر نیند کا غلبہ کر دیا) بہر برسوں تک۔بعدا زاں ہم نے ان کو بیدا ر کیا تا کہ معلوم ہو دونوں جماعتوں میں سے کون اس قابل ہے جو صحیح طور پر اس زمانہ کا شمار کرے، جب وہ غارمیں رہے۔ہم تم سے ان کا سچا سچا حال بیان کریں گے’’تحقیق وہ نوجوان تھے جو اپنے خدا پر ایمان رکھتے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا اور ہم نے ان کے دلوں کو تقویت دی، جب وہ اٹھ کھڑ ے ہوئے اور بولے کہ’’ہمارا خدا زمین و آسمان کا خدا ہے۔ہم اس کے سوائے ہر گز کسی دوسرے خدا کو نہیں پکاریں گے کیونکہ اگر ہم نے ایسا کیا تو گویا ہم نے بے انتہا جھوٹ بولا۔اس ہماری قوم نے خدا کے سوائے دیگر معبود قبول کر لئے ہیں۔ وہ لوگ اپنی تائید میں کوئی بین ثبوت کیوں پیش نہیں کرتے۔پس اس سے زیادہ اور کون ظالم ہو گا جو خدا کے خلاف جھوٹ بناتا ہے۔اور جب تم انہیں چھوڑ د و اور ان کے غیر اللہ معبودو کوچھوڑ دو تو تم غار میں چلے جاؤ۔تب تمہارا خدا تم پر اپنی رحمت وسیع کرے گا اور تمہارے معاملہ میں تمہارے فائد ہ کی کوئی بات نکالے گا۔ اورتم دیکھ سکتے ہو کہ سورج بلند ہوتا ہے تو وہ ان کے غار سے داہنی طرف ہو کر نکل جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان کا غار بائیں طرف پیچھے رہ جاتا ہے۔اور وہ اس کے اندر ایک وسیع جگہ میں تھے اور یہ اللہ کی ایک نشانی ہے۔پس اللہ جس کی ہدایت کرتا ہے ،وہ ہدایت پاتا ہے اور جس کو وہ گمراہ کرتا ہے اسے کبھی کوئی سرپرست یا رہنما نصیب نہیں ہوتا۔اور تم سمجھتے ہو گے کہ وہ بیدار ہیں حالانکہ وہ سو رہے تھے اور ہم ا ن کو داہنی اور بائیں طرف کروٹیں دلاتے ہیں۔ اور ان کا کتا دہانہ غار پر اپنے پنجے پھیلائے بیٹھا تھا۔اور اگر تم ان کو دیکھتے تو تم وہاں سے بھاگ آتے کیونکہ تمہارے دلوں پر دہشت طاری ہو جاتی اور بس ہم نے ان کو بیدار کیا تا کہ وہ ایک دوسرے سے دریافت کریں۔تب ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ’’تم یہاں کس قدر عرصہ تک ٹھہرے رہے؟‘‘تب انہوں نے جواب دیا کہ’’ ہم دن بھر یا دن کے کچھ حصے تک یہاں رہے ہیں؟‘‘ دوسروں نے کہا کہ’’تمہارا خدا سب سے بہتر جانتا ہے کہ تم یہاں کتنے عرصے تک رہے۔بس اب تم اپنے میں سے کسی کو اپنا یہ چاندی کا سکہ دے کر شہر بھیجو تا کہ وہ وہاں دیکھے کہ کس شخص کے پاس پاکیزہ ترین کھانا ہے اور وہ اس سے تمہاراسامان خوردو نوش خرید لائے۔ اس کو چاہیئے کہ شہر میں جا کر تہذیب اور آدمیت سے کام لے اور کسی سے تمہارا حال ہر گز بیان نہ کرے۔تحقیق اگر انہوں نے تمہارا پتہ نشان معلوم کر لیا تو وہ تم کو سنگسار کر دیں گے یا جبراً تم سے تمہارا دین چھڑا کر تمہیں اپنے میں شامل کر لیں گے اوراس وقت تم ہر گز کامیاب نہیں ہو سکتے‘‘۔ا ور اس طرح ہم نے لوگوں کو ان کا حال معلوم کرایا تاکہ انہیں معلوم ہو کہ خدا کا وعدہ سچا ہے۔ اور قیامت کے متعلق کوئی بات شبہ کی نہیں اور جب وہ اپنے معاملہ میں باہم بحث کرنے لگے اور کہا کہ’’اپنے اوپر ایک عمارت تعمیر کرلو۔ان کا خدا ان کی نسبت خوب جانتا ہے‘‘۔اور جو لوگ حجت میں غالب آئے انہوں نے کہا کہ’’ہم یقیناً اپنے اوپر ایک مسجد تعمیر کریں گے‘‘۔بعض کہتے ہیں کہ’’ وہ تین ہیں اور چوتھا ان میں ان کا کتا ہے بعض کہتے ہیں کہ کہ وہ پانچ ہیں اور چھٹا ان میں ان کا کتا ہے۔گویا ایک پر اسرار معاملہ کے متعلق وہ خیال آرائیاں کرتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ ’’وہ سات ہیں اور آٹھواں ان میں ان کا کتا ہے‘‘۔تم کہو کہ میرا خدا ہی ان کی تعداد کے بارے میں خوب جانتا ہے۔معدودے چند کے سوائے اس بات کو کوئی نہیں جانتا۔لہٰذا اس بارے میں جھگڑا نہ کرو اور ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی سوال نہ کرو۔ اور کسی بات کی نسبت یہ نہ کہو کہ یقیناً میں اس کام کو کل انجام دوں گا۔تا وقتیکہ اللہ تعالیٰ نہ چاہے اور جب تم بھول جاؤ تو اپنے رب کو یاد کرو اور کہو کہ ممکن ہے میرا رب مجھے اس سے زیادہ قریب کا راستہ بتاد ے۔ اور وہ لوگ غار کے اندر تین سو برس تک رہے اور بعض ان میں نو برس کا مزید اضافہ کرتے ہیں۔تم کہو کہ خدا ہی خوب جانتا ہے کہ وہ کتنے دنوں تک رہے۔وہی آسمان و زمین کے اسرار کو خواب جانتا ہے‘‘۔

اس مذبذب (ڈانوڈول) بیان کو سمجھنے کے لئے مسلمان مفسرین کی طرف رجوع کرنا چاہیئے۔وہ لکھتے ہیں کہ بعض مشرکین عرب یا یہودیوں نے محمدﷺ کا امتحان لینے کے لئے کہ واقعی ان پر وحی نازل ہوتی ہے یا نہیں ،یہ تقاضا کیا کہ اگر وہ سچے نبی ہیں تو اصحاب کہف کا قصّہ سنائیں۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصّہ مختلف صورتوں سے بیان کیا جاتا تھا اور اس باب میں جھگڑا تھا کہ جو لوگ غار میں گئے ،ان کی تعداد کیا تھی۔ محمدﷺ نے جیسا کہ آیت۲۴،۲۳ سے ظاہر ہوتا ہے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس سوال کا جواب کل دیں گے۔مطلب یہ تھا کہ اس اثنامیں وہ اس کے متعلق اپنے کسی صحابی سے دریافت کریں گے۔مگرمعلوم ہوتا ہے کہ انہیں صحیح معلومات حاصل نہیں ہوئیں، اس لئے ان نوجوانوں کی صحیح تعداد کا معاملہ انہوں نے یونہی چھوڑ دیا۔ محمدﷺ نے یہ بھی نہیں بتایا کہ یہ واقعہ کب اور کہاں رونما ہوا تھا۔مگر ہاں واضح طور پر صرف ایک بات بیان کرنے کی جرأت کی ہے اور وہ یہ کہ ان لوگوں کو غار کے اندر ۳۰۹ برس گزرے تھے۔مگر افسوس ہے کہ یہ بھی صحیح نہیں جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہو گا،تاہم محمد کو یہ ضرور یقین تھا کہ جو واقعہ بیا ن کیا جاتا ہے وہ صحیح ہے۔

جیسا کہ ہم ابھی کہہ چکے ہیں یہ قصّہ مختلف صورتوںمیں قبل از محمدﷺ رائج تھا ،اس لئے یہ بات ظاہر ہے کہ جو حالات قرآن کے اندر اس قصّہ کے متعلق بیان کئے گئے ہیں وہ زبانی سنے ہوئے تھے۔ایک شامی مصنف یعقوب سروغی   ۵۴   نے جس کا انتقال ۵۲۱ء میں ہو ا،یہ خرافیاتی قصّہ اپنے ایک مقالہ میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیا تھا   ۵۵  ۔یہ مقالہ’’ایکٹا سینکٹورم‘‘  (Acta  Sanctorum) ‏میں شائع ہو چکا ہے۔ہم کو یہ بھی معلوم ہے کہ ملک شام میں یہ قصّہ مختلف صورتوں سے بیان کیا گیا ہے کہ سونے والے تعداد میں سات تھے اور یورپ میں اصحاب کہف کا قصّہ اسی نام یعنی ’’ہفت خفتگان‘‘  (Seven  Sleepers) ‏کے نام سے مشہور ہے۔لیکن چھٹی صدی کا ایک شامی مخطوطہ برٹش میوزیم میں ایسا ہے جس میں ان لوگوں کی تعداد آٹھ بتائی گئی ہے۔مسلمان مفسرین (صاحب جلالین وغیرہ ) نے اس قصّہ کی تفسیرمیں بعض روایات و احادیث بیان کی ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کی تعداد سات تھی اور بعض کہتے ہیں کہ آٹھ تھی۔

جہاں تک ہم کو معلوم ہے پہلا یورپین مصنف جس نے یہ روایت بیان کی تھی وہ شہر طورس  (Tours) ‏ کارہنے والا گریگوری  (Gregory)  ۵۶   تھا۔اس شخص نے لکھا ہے کہ شہنشاہ ڈیسیس  (Decius) ‏ کے عہد میں ( ۲۴۹ء۔۲۵۱ء) شہر افسُس  (Ephesus) ‏ کے سات عیسائی نوجوان مخالفین کے ظلم و ستم سے تنگ آکر نکل گئے اور ایک غار میں جو شہر سے زیادہ دور نہ تھا پناہ گزین ہوئے۔مگر کچھ عرصہ بعد دشمنوں کو ان کا پتہ معلوم ہو گیا اور انہوں نے یہ تدبیر کی کہ غار کے دہانہ کو بند کر دیا جائےتاکہ وہ فاقہ کشی کر کے ا ند ہی اندر مر جائیں۔ا س سے ۱۹۶ برس بعدجب شہنشاہ ٹھیو ڈوسیس ثانی  (Theodosius  II) ‏ تخت پر متمکن تھا ،ایک چرواہے نے وہ غار پایا اور اس کا دہانہ کھول دیا۔اس وقت وہ ’’ہفت خفتگان‘‘ ا پنے خواب شیریں سے بیدار ہوئے جس میں وہ اس تمام عرصہ تک (جیسا کہ قرآن بھی کہتا ہے) مبتلا رہے تھے۔ اور انہوں نے اپنے میں سے ایک آدمی شہر بھیجا تا کہ کھانا خرید لائے۔جب وہ شخص باہر آیا تو یہ بات دیکھ کر سخت حیران ہوا کہ ہر طرف دین عیسوی پھیلا ہو اہے۔ایک دوکان پر اس شخص نے کھانا خریدا اور شہنشاہ ڈیسیس کے زمانہ کا سکہ نکال کر دیا۔یہ دیکھ کرلوگوں نےا س کو گرفتار کر لیا اور الزام لگایا کہ اس نے کسی جگہ دفینہ پایا ہے۔ اس وقت مجبو ر ہو کر اس نے اپنا اور اپنے ساتھیوں کا حال بیان کیا۔ جب وہ لوگوں کو غار پر لے گیا تو اس کے ساتھیوں کے چہرے ابھی تک آسمانی نور سے درخشاں تھے اور اس واقعہ سے لوگوں کو ان کی بات کایقین آ گیا۔ اس واقعہ کی خبر جب شہنشاہ کو ملی تو وہ بذات خاص ان لوگوں کو غار میں دیکھنے گیا۔ان لوگوں نے اسے بتایا کہ خدا نے ا ن کو محفوظ رکھا تا کہ لوگوں پر روح کا لافانی ہو نا ثابت ہو اور اپنا یہ پیغام دنیا کو پہنچا کر وہ لوگ مر گئے۔

اب اس کے بعدقصّہ کی اس نوعیت پر بحث کرنا فضول ہے جو قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔اگرچہ ا س باب میں محمدﷺ اس قدر مورد الزام نہیں جس قدر وہ جاہل عیسائی جنہوں نے اس قدر وسعت کے ساتھ ا س قصّہ کو پھیلایا۔ تاہم ممکن ہے کہ درحقیقت یہ قصّہ بطور تمثیل یا رمز  (Symbolism) ‏تیار کیا گیا ہو یا غالباً ایک مذہبی رومان (فرضی داستان) سمجھا گیا ہو جس کی تصنیف سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہو کہ نصرانیت اپنی جرأت وفاداری اور شوق شہادت کے سبب سے کس قدر حیرت انگیز تیزی کے ساتھ دنیا میں پھیل گئی۔بہر حال حقیقت جو کچھ ہو یہ روایت محمدﷺ سے بہت عرصہ قبل ممالک مشرق میں اعتبار کی نظر سے دیکھی جاتی تھی۔اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محمدﷺ کے زمانہ میں مکہ والے بھی اس قصّہ کو صحیح مانتے تھے۔اس بارےمیں محمدﷺ کا تعلق صرف اس قد ر ہے کہ انہوں نے ایک ایسے قصّہ کو جو کہانی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا ،صحیح سمجھا۔

کنواری مریم کا قصّہ

قرآن و احادیث میں مریم کی جو تاریخ بیان کی گئی ہے، وہ تقریباً سب کی سب عیسائیوں کی مشکوک الصحت اناجیل اور اسی قسم کی دوسری کتابوں سے لی گئی ہے۔مگر چونکہ محمدﷺ نےا س میں ایک اور بات بھی داخل کر دی ہے جس کا ماخذ ہم اصلی قصّہ پر بحث کرنے سے پہلے بیان کرتے ہیں۔سورۂ مریم آیات۲۸،۲۷ میں لکھا ہے کہ جب مریم کے پیٹ سے یسوع مسیح پیدا ہوا تو وہ اسے لے کر اپنے لوگوں میں آئی، جنہوں نے بچہ کو دیکھ کر کہا کہ’’اے مریم یقیناً تو نے یہ ایک عجیب حرکت کی۔او ہارون کی بہن تیرا باپ بدکار نہیں تھا ،نہ تیری ماں سیاہ کار تھی‘‘۔ ان الفاظ سے یہ صاف ظاہر ہے کہ محمدﷺ کی رائے میں یسوع کی ماں ’’میری‘‘ یا ’’ماریہ‘‘  (Mary) ‏ وہی’’مریم‘‘  (Miriam) ‏ تھی جو موسی ٰ و ہارون کی بہن تھی۔یہ بات سور ۂ تحریم سے اور زیادہ واضح ہو گئی ہے جہاں ’’میری‘‘ کو ’’بنت عمران‘‘ کہا گیا ہے اور عمران وہی شخص ہے جسے ناموس موسیٰ  (Pentateuch) ‏ میں عمرام کہتے ہیں اور جسے ’’ہارون و موسیٰ و مریم کا باپ‘‘ بتا گیا ہے۔علاوہ ازیں کتاب خروج۲۰:۱۵ میں بھی مریم کو ’’ہارون کی بہن‘‘ کا خطاب دیا گیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ محمدﷺ نے یہ بات یہیں سے لی ہے۔اس غلطی کاسبب (جس کی وجہ سے) یسوع مسیح کی والدہ میری کو ایک ایسی عورت بنا دیا گیا جو ولادت مسیح سے۱۵۷۰ برس قبل پائی جاتی تھی، یہ معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان میں’’میری‘‘  (Mary) ‏ اور ’’مریم‘‘  (Miriam) ‏ دونوں ایک ہیں اور ایک ہی صورت یعنی’’مریم‘‘  (Maryam) ‏ کی طرح لکھ جاتی ہیں۔دو جدا جدا شخصوں کو ایک بنا دینے سے جو تاریخی دقتیں واقع ہوئی ہیں، غالباً ان کا احساس محمدﷺ نے نہیں کیا۔اسی غلطی پر ہم کو شاہنامۂ فردوسی کا ایک قصّہ یا د آیا جس میں فردوسی نے لکھا کہ جب فریدوں نے ضحاک کو شکست دی تو اس نے قلعہ میں جمشید کی دو بہنیں پائیں جنہیں اس ظالم نے قید کر رکھا تھا۔فریدوں دیکھتے ہی ان پر فریفتہ ہو گیا۔مگر اسی شاہنامہ کے دیگر مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوشیزگان جمیل ضحاک کے پاس ا س کی سلطنت کی ابتدا سے قید تھیں ، یعنی تقریباً ایک ہزار قبل سے۔

اگر اس غلطی کی مزید چھان بین کی ضرورت ہوتو ا س کا سراغ اس یہودی روایت سے بھی مل سکتا ہے جس میں’’مریم‘‘  (Miriam) ‏کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ’’ملک الموت کو اس پر کچھ اختیار نہ تھا بلکہ وہ ایک ربانی پیار کے باعث فوت ہوئی اور کیڑے اور حشرات الارض کو اس پر کوئی اختیار نہ تھا‘‘۔بہر حال اگر یہ روایت بھی صحیح مان لی جائے تو اس میں یہ کہاں بیان کیا گیا ہے کہ مریم  (Miriam) ‏یسوع کے زمانہ تک زندہ رہی اور نہ یہودیوں کی یہ روایت ہے کہ وہ’’کنواری مریم‘‘ ہی تھی۔

اب دیکھنا چاہیےکہ قرآن و احادیث اوراسلامی روایات میں ’’کنواری مریم‘‘ کی نسبت کیا بیان کی جاتا ہے۔سورۂ آل عمران۳۵،۳۴ میں بیان کیا گیا ہے کہ’’جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے میرے رب تحقیق میں منت مانتی ہوں کہ جو کچھ میرے بطن میں ہے ، وہ تیری نذر کردوں ،پس تو اسے قبول کر کیونکہ تو سننے اور جاننے والا ہے۔پس جب وضع حمل ہوا تو اس نے کہا کہ اے میرے رب یقیناً میں نے لڑکی جنی ہے اور اللہ خوب جانتا ہے کہ اس نے کیا جنا ہے اور میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے۔میں اسے اور اس کی اولاد کو تیری حفاظت میں دیتی ہوں شیطان رجیم سے۔پس اللہ نے اس کو اچھی قبولیت کے ساتھ قبول فرما لیا اور اس نے اس کو اچھی طرح بڑھایا اور زکریاہ نے اس کی پرورش کی۔جب کبھی زکریاہ اس کے پاس عبادت خانہ میں جاتے تو وہ ہمیشہ اس کے پاس کھانے کو پاتے۔اس نے دریافت کیا کہ’’اے مریم یہ کہاں سے آیا تو وہ یہ جواب دیتی ہے کہ ’’یہ میرے رب کی طرف سے ہے۔تحقیق اللہ اس کو رزق پہنچاتا ہے جس کو وہ چاہے اور بغیر حساب دیتا ہے‘‘۔ اس کے علاوہ بیضاوی اور دیگر مفسرین و محدثین نے حسب ذیل باتیں تحریر کی ہیں:

’’عمران کی بیوی عمر رسیدہ اور بانجھ تھی۔ایک روز اس نے ایک چڑیا کو دیکھا جو اپنے بچوں کو دانہ بھرا رہی تھی۔یہ منظر دیکھتے ہی اس کے دل میں بھی ماں بننے کی آرزو پیدا ہوئی اور اس نے خدا سے دعا کی کہ وہ اسے کوئی بچہ عطا فرمائے۔اس نے کہا کہ’’اے میرے رب اگر تو مجھے بچہ دے گا،خواہ لڑکی ہو یا لڑکا،اسے میں تیرے خادم کے طور پر یروشلیم کی ہیکل میں دے دوں گا ‘‘۔خدا نے اس کی دعا سنی اور پوری کی۔چنانچہ اسے حمل ٹھہر گیا اوراس نے ایک لڑکی مریم نامی جنی‘‘۔

جلال الدین کا بیان یہ ہے کہ :

مریم کی والدہ کا نام حنّا  (Hanna) ‏ تھا۔جب وہ مریم کو ہیکل میں لائی اور اسے خدام ہیکل کے سپرد کیا تو انہوں نے اس لڑکی کو قبول کر لیا اور اس کی پرورش کے لئے زکریا کو دے دیا۔ اس نے اس لڑکی کو ایک حجرہ میں رکھا جہاں اس کے سوا اور کوئی جا نہیں سکتا تھا۔مگر ایک فرشتہ اسے روز کھانا دے جاتا تھا‘‘۔

اب ہم قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں۔وہاں سورۂ آل عمران آیات ۴۱۔۴۶ میں لکھا ہے کہ:

وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ قَالَتْ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ ۖ قَالَ كَذَٰلِكِ اللَّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ

’’جب مریم بڑی ہو گئی تو اس کے پاس فرشتے آئے اور کہا ’’اے مریم یقیناً اللہ نے تجھے چن لیا اور تجھے پا ک کر دیا ہے اور تجھے تمام دنیا کی عورتوں پر منتخب کر لیا ہے۔اے مریم تو ہمیشہ اپنے رب کی اطاعت گزار ر ہ اور عبادت کر اور جھک ان لوگوں کے ساتھ جو جھکتے ہیں۔ اور یہ غیب کی خبر ہے جو ہم نے تجھ پر (اے محمدﷺ) بذریعہ وحی نازل کی۔اور تم اس وقت انکے ساتھ نہیں تھے جب انہوں نے اس بارے میں اپنے قلم پھینکے (قرعہ اندازی کی) کہ مریم کو کون پالے۔اور تم اس وقت ان کے ساتھ نہیں تھے جبکہ وہ آپس میں جھگڑا کر رہے تھے۔جب فرشتوں نے کہا کہ’’اے مریم! تحقیق اللہ تجھے مژدہ دیتا ہے اپنی طرف سے ایک کلمہ کا جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہے،وہ اس دنیا اور دوسری دنیا میں قابل وقعت ہو گا اور مقربین باری تعالیٰ میں سے ہوگا۔اور وہ اپنے گہوار ہ ہی میں لوگوں سے گفتگو کرے گا او ر جب بڑا ہو گا اس وقت بھی اور وہ صالحین میں سے ہوگا‘‘۔ مریم نے کہا’’اے میرے رب میرے لڑکا کیسے پیدا ہوگا جبکہ مجھے مرد نے چھوا نہیں‘‘۔اس (فرشتہ) نے کہا’’اسی طرح اللہ پیدا کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔اسے صرف اس قدر کہنا پڑتا ہے کہ’’ ہو جا‘‘ پس وہ ہوجاتا ہے‘‘۔

ان آیات میں’’قلم پھینکنے‘‘ کے بارے میں جلال الدین اور بیضاوی کا بیان ہے کہ زکریاہ اور چھبیس دوسرے کاہنوں میں جھگڑا اٹھا کہ ان میں سے کون مریم کی پرورش کرے۔پس وہ سب لب دریائے یردن  (Jordan) ‏ گئے اور انہوں نے اپنے کِلک (قلم)پانی میں پھینک دیئے۔سوائے کلک زکریاہ کےاور سب قلم ڈوب گئے اور اس طرح وہ مریم کے اتالیق مقرر ہوئے۔اس کے بعد سورۂ مریم آیت۱۶۔۳۴ ملاحظہ فرمایئے جس میں ولادت مسیح کا حال اس طرح لکھا ہے:

’’کتاب میں مریم کا حال بیان کر جبکہ وہ اپنے خاندان سے علیٰحدہ ہو کر ایک مشرقی مقام میں چلی گئی۔تب اس نے ان سے چھپنے کے لئے ایک نقاب ڈال لیا۔تب ہم نے اس کی طرف اپنی رو ح (یعنی جبرئیل) کو بھیجا۔ پس اس نے خود کو ایک اچھے جسم کے مرد کی صورت میں مریم پر ظاہر کیا۔اس (مریم )نے کہا ’’ میں تیرے خلاف اپنے خدا ئے رحمٰن کے دامن میں پناہ لیتی ہوں ،اگر تو خدا سے ڈرنے والا ہے۔اس (فرشتہ )نے کہا کہ ’’میں صرف تیرے رب کی طرف سے بھیجا ہوا ہو ں تاکہ میں تجھے ایک پاک لڑکا دوں ‘‘۔اس (مریم ؔ)نے کہا کہ میرے لڑکا کہا ں سے پیدا ہوگا کیونکہ مجھے کسی مرد نے نہیں چھوا اور نہ میں بے عصمت عورت ہوں‘‘۔ اس نے کہا’’تیرا رب اس طرح فرماتا ہے کہ یہ بات میرے لئے بہت آسان ہے۔ اور ہم اسے لوگوں کے لئے اپنی ایک نشانی اور اپنی ایک رحمت بنانا چاہتے ہیں اور اس بات کا فیصلہ ہو چکا ہے‘‘۔ پس اسے اس بچہ کا حمل رہ گیا اور پھر وہ اس حمل کو لے کر کسی دور مقام پر چلی گئی اور وضع حمل کے وقت جو اس کے درد ہوا تو وہ مجبور ہو کر ایک کھجور کے درخت کے تنا کے پاس گئی۔اس (مریم) نے کہا’’ کاش میں اس سے پہلے ہی مر جاتی اور لوگوں کی یاد سے فراموش ہو جاتی۔تب اس کے نیچے سے ایک آواز نے پکار کر کہا کہ رنج مت کر۔تیرے رب نے ایک چشمہ پیدا کر دیا ہے جو تیرے نیچے بہتا ہے اور تو صرف اپنی کھجور کے درخت کے تنے کو ہلا۔وہ تجھ پر تازہ پکی ہوئی کھجوریں گرائے گا۔ پس کھا اور پانی پی اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا۔ پھر جب تو کسی شخص کو دیکھے تو اس سے کہہ دے کہ تحقیق میں نے خدا کی منت مانی تھی کہ میں روزہ رکھوں گی۔پس میں آج کسی شخص سے بات چیت نہیں کروں گی۔پس وہ اس کو لے کر اپنی قوم کے پاس آئی۔ انہوں نے کہا’’اے مریم یقیناً یہ تو نے ایک عجیب حرکت کی۔اے ہارون کی بہن!تیر ا باپ بد کار نہ تھا نہ تیر ی ماں سیاہ کار تھی‘‘۔ تب اس نے اُس کی طرف اشارہ کیا۔تب انہوں نے کہا کہ ہم گہوراہ کے بچہ سے کیا بات چیت کریں‘‘۔اس (مسیح) نے کہا’’تحقیق میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے اور جہاں کہیں میں ہوں گا ،وہیں مبارک ہوں گا اور اس نے مجھے حکم دیا کہ جب تک میں زندہ رہوں اس وقت تک عبادت کرتا رہوں اور زکوٰۃ دیتا رہو اور اپنی ماں سے اچھا برتاؤ کروں اور اس نے مجھے گستاخ اور شقی نہیں بنایا۔ اور سلامتی ہو اس دن پر جبکہ میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں‘‘۔

مندرجہ ٔ بالا قرآنی بیان کی تفصیل کا ماخذ سراسر عیسائیوں کی مشکوک الصحت اناجیل ہیں۔چنانچہ مندرجہ ذیل اقتباسات سے ناظرین پر خود بخود روشن ہو جائے گا۔کتاب ’’پراٹ ایوینجلیم آف جیمس دی لیس‘‘  (Protevangelium of James the Less) ‏ میں ولادت مسیح کا حال اس طرح لکھا ہے:

’’انّا ( حناّ) نے آسمان کی طرف نظر جما کر جو دیکھا تو اس نے ایک درخت میں آشیانۂ کنجشک (چڑیا) دیکھا اور وہ اپنے دل میں رنج کرنے لگی یہ کہہ کر’’ ہائے! ہائے! مجھے کس نے جنا،افسوس میں کس چیز کی مانند ہوں؟ میں مر غان ہوا کی مانند بھی نہیں ہوں۔کیونکہ اے میرے رب ہوا کی چڑیاں بھی تیر ی نظر وں میں بچے دینے کے قابل ہیں۔۔۔ اور دیکھو خدا کا ایک فرشتہ اس کے قریب کھڑ ا ہوا اوراس سے یہ کہہ رہا تھا’’انّا ! انّا! خداوند نے تیری عرض سن لی،تجھے حمل رہے گا اور تو بچہ جنے گی اور تیری اولاد تمام عالم میں مشہور ہو گی‘‘۔ مگر انّا نے کہا’’میرا خدا زندہ ہے ،اگر میرے لڑکا یا لڑکی کچھ بھی پیدا ہوا تو میں اسے اپنے خد اکی نذر کر دوں گی اور وہ تمام عمر اسی کی خدمت میں لگا رہے گا‘‘۔۔۔لیکن اس کے مہینے پورے ہو گئے اور نویں مہینہ انّا نے بچہ جنا۔۔۔اور اس نے بچہ کو دودھ پلایا اور اس کا نام ’’میری‘‘ رکھا‘‘۔

اس کے بعد اس قصّہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب وہ لڑکی اس قابل ہو گئی کہ اپنی ماں سے علیٰحدہ ہو سکے تو انّا اس کو اپنی منت کے مطابق یروشلیم کی ہیکل میں لے گئی۔اس کے بعد قصّہ یوں بیان ہوتا ہے:

’’ کاہن نے ا س کو لے لیا،اُس کو پیاراور برکت دی اور کہا’’خداوند نے تیر ا نام پشت ہا پشت تک دنیا کے اندر مشہور کردیا اور تجھ پر ختم پر ایام کے بعد خداوند بنی اسرائیل کی نجات ظاہرکرے گا۔۔۔مگر مریم ایک قمری کی مانند تھی جس نے خد اکے گھر میں پرورش پائی تھی۔اور ا سے ہمیشہ فرشتہ کے ہاتھوں کھانا پہنچتا تھا۔مگر جب و ہ بارہ برس کی ہو گئی تو کاہنوں کا ایک مشاورتی جلسہ ہوا،جنہوں نے کہا ’’دیکھو مریم اب بارہ برس کی ہوگئی ہے۔اب ہم اس کو کیا کریں۔۔۔اور دیکھو خد اکا ایک فرشتہ اس کے پاس کھڑ اہوا یہ کہہ رہاتھا’’زکریا! زکریا! جاؤ اور قوم میں جتنے رنڈوے ہیں ان سب کو بلاؤ اور کہو کہ وہ اپنے پنے عصا لائیں۔پس جس کسی کو خداوند خدا اپنا نشان دکھائے گا،وہ اسی کی بیوی بن جائیں۔اور یہودیہ کے تمام ساحل پر نقیب دوڑ گئے، خداوند کا نر سنگھا پھونکا گیا اور وہ سب دوڑے اور  یوسف بھی اپنا بسوا (زمین ناپنے کا ایک پیمانہ) پھینک  ‏کر دوڑ ا۔پھر جمع ہو کر وہ سب لوگ کاہن اعظم کے پاس گئے اور کاہن نے ان کے عصا لے لئے اور ہیکل میں گیا اور دعا مانگی۔دعا ختم کرنے کے بعد وہ باہر آیا اور ہر شخص کو اس کا عصا حوالہ کردیا اور ان میں کوئی نشانی نہیں تھی۔مگر یوسف کو ا س کا عصا سب سے آخر میں ملا اور دیکھو ! ایک قمری اس عصامیں سے برآمد ہوئی اور یوسف کے سر پر اڑی۔ اور کاہن نے اس سے کہا’’تجھے بذریعہ قرعہ اندازی خداوند کی کنواری مل گئی ہے۔پس تو اس کو اپنے ساتھ حفاظت کے لئے لے جا‘‘۔۔۔۔اور یوسف نے خوف کھا کر اس کو حفاظت کے لئے لے لیا۔۔۔مگر مریم ایک گھڑ الے کر اسے پانی سے بھرنے گئی اور دیکھو ایک آواز سنی گئی جو یہ کہتی تھی ’’مبارک ہو ،خدا کی نہایت پیاری! خداوند تیر ے ساتھ ہے۔تو عورتوں میں برکت یافتہ ہے‘‘۔ اور اس نے کبھی داہنے کبھی بائیں طرف دیکھا کہ یہ آواز کہاں سے آتی ہے اور خوف کھا کر وہ وہاں سے اپنے گھر چلی آئی اور اپنا گھڑا رکھا۔۔۔وہ اپنی جگہ بیٹھ گئی۔۔۔اور دیکھو خداوند کا ایک فرشتہ ا سکے پاس کھڑا ہو ا یہ کہنے لگا’’مت ڈرو مریم مت ،کیونکہ تو خدا کی نظروں میں محبوب ہو گئی ہے اور تو اس کے کلام سے حاملہ ہو گی‘‘۔مگر مریم نے یہ سن کر اپنے دل میں غور کیا’’کیا میں اسی طرح حاملہ ہوں گی جس طرح دوسری عورتیں ہوتی ہیں‘‘۔ اور فرشت نے اس سے کہا ’’اس طرح نہیں مریم! کیونکہ خداوند برتر کی قدرت تجھ پر سایہ افگن ہو گی۔ اسی لیے وہ مقدس چیز جو پیداہو گی وہ’’خد اکا بیٹا ‘‘ کہلائے گا اور تو اس کا نام یسوع (عیسیٰ) رکھنا‘‘۔

مریم کے ہیکل میں پرورش ہونے کی روایت بھی بہت سی دیگر مشکوک الصحت اناجیل میں بیان ہوئی ہے،مثلاً قبطی کتاب’’تاریخ دوشیزہ‘‘ History  of  the  Virgin میں لکھا ہے:

’’ اس نے قمریوں کی طرف ہیکل میں پرورش پائی تھی اور خد اکے فرشتے اس کے لئے جنت سے کھا نا لاتے تھے۔وہ ہیکل میں خدمت کیا کرتی تھی اور خدا کے فرشتے اس کے پاس آیا کرتے تھے۔ اور وہ اس کے لئے اکثر شجرۃ الحیٰوۃ کے بھی (پھل) لایا کرتے تھے تا کہ وہ ان کو خوش ہوکر کھائے‘‘۔

ایک دوسری قبطی کتاب ’’قصّۂ وفات یوسف‘‘  (Story of the Decease of Joseph)  ۵۷  میں مندرجہ ذیل عبارت پائی جاتی ہے:

’’مریم ہیکل میں رہا کرتی تھی اور وہاں پاکیزگی اور تقدس کے ساتھ عبادت کیا کرتی تھی۔اور وہاں وہ پرورش پاتی رہی حتٰی کہ وہ بارہ برس کی ہوگئی۔اپنے ماں باپ کے یہاں وہ تین سال رہی تھی اور خداوند کی ہیکل میں وہ نو سال تک رہی ۔پس جب کاہنوں نے دیکھا کہ وہ کنواری عصمت و عفت کے ساتھ رہتی ہے اور خد اکے خوف کے ساتھ زندگی بسر کرتی ہے تو وہ آپس میں کہنے لگے کہ’’ کوئی اچھا آدمی تلاش کر کے اس کی نسبت اس کے ساتھ کر دو۔۔۔۔پس انہوں نے فوراً قبیلہ یہوداہ کو بلایا اور ان میں سے بارہ آدمی بنی اسرائیل کے بارہ قبائل میں سے ایک ایک منتخب کر لئے اور قرعہ میں بوڑھے نیک مرد یوسف کا نام نکلا‘‘۔

اب ہم ’’پراٹ ایوینجلیم‘‘  (Protevangelium)‏ کی طرف پھر رجوع کرتے ہیں جس میں لکھا ہے کہ جب یہ واقعہ لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ مریم حاملہ ہوگئی ہے تو یوسف اور مریم دونوں کو فیصلہ کے لئے کاہنوں کے سامنے لایا گیا۔پھر اس کے بعد اس طرح شروع ہوتا ہے:

’’اور کاہن نے کہا’’اے مریم! یہ تو نے کیوں کیا اور اپنی روح کو ذلیل کیا؟تو خداوند اپنے خدا کو بھول گئی تو جس نے خداوند کی مقدس ہیکل میں پرورش پائی تھی،جس کو خدا کے ہاتھوں کھانا پہنچتا تھا اور جو خد کی تسبیح و تہلیل سنا کرتی تھی۔۔۔ تو نے یہ حرکت کیوں کی؟‘‘ مگر وہ ز ار قطار رو کر کہنے لگی ’’قسم ہے خدائے حی و قیوم کی! میں ا سکی نظروں میں پاک ہوں اور میں کسی مرد کو نہیں جانتی‘‘۔

اس کے بعد لکھا ہے کہ یوسف اور مریم دونوں ناصرۃ سے ہجرت کر کے بیت اللحم کو چلے گئے۔جب وہاں ان کو کاروان سرائے میں جگہ نہ ملی ،وہ ایک غار میں ٹھہرنے کے لئے گئے اور وہاں خداوند یسوع پیدا ہوا۔ مریم اور درخت رطب کا واقعہ جو قرآن میں (سورۃٔ مریم ) بیان کیا گیا ہےوہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ ایک مشکوک الصحت کتاب  (History of the Nativity of the Mary and The Infancy of the Saviour) ‏ سے لیا گیا ہے۔اگرچہ ہم آئندہ ہم چل کر دونوں بیانات کو اور بھی زیادہ قدیم ذرائع سے ماخوذ ثابت کریں گے، جس کتاب کا نام ہم نے اوپر درج کیا ہے اس میں اس واقعہ کا تعلق اس زمانہ سے ہے جبکہ یوسف و مریم مع یسوع ہجرت کر کے مصرجا رہے تھے۔قصّہ میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ مقدس خاندان کس طرح سفر پر رانہ ہوا اور دور وز تک خاموشی کے ساتھ سفر کرتا رہا۔قصّہ کا تسلسل اس طرح ہے:

’’ لیکن سفر پر روانہ ہونے سے تیسرے دن ایسا واقعہ ہو اکہ مریم ریگستان میں بوجہ تمازت آفتاب بے حد تھک گئی۔پس جب اس نے ایک درخت دیکھا تو اس نے یوسف سے کہا ’’ آؤ تھوڑی دیر کے لئے اس درخت کے سایہ میں آرام کریں‘‘۔ اور یوسف جلدی جلدی اس کو اس درخت کے پاس لایا اور اسے جانور پر سے اتا ر ا جس پر وہ سوار تھی۔جب مریم بیٹھ گئی تو اس نے درخت کی چوٹی کی طرف دیکھا اور جب اس نے یہ دیکھا کہ وہ پھل سے لدا ہوا ہے تو اس نے یوسف سے کہا’’میں چاہتی ہوں کہ اگر ممکن ہو سکے تو ا س درخت کا پھل کھاؤں ‘‘۔ اس پر یوسف نے اس سے کہا کہ’’ مجھے تعجب ہے تم اس قسم کی باتیں کرتی ہو کیونکہ کہ تم دیکھتی ہو کہ اس کھجور کے درخت کی شاخیں کس قدر اونچی ہیں۔ البتہ میں پانی کے لئے بہت فکر مند ہوں کیونکہ اب ہمارے مشکیزوں کا پانی ختم ہو گیا ہے اور کوئی جگہ ایسی نظر نہیں آتی جہاں سے پانی بھر کر پیاس بجھائی جائے‘‘۔ اس پر بچہ یسوع نے جو شگفتہ صورت کے ساتھ اپنی ماں کے سینہ سے لپٹاہوا تھا، اس کھجور کے درخت سے کہا’’ اے درخت اپنی شاخیں جھکا دے اور اپنے پھل سے میری ماں کا دل شادکر‘‘۔یہ حکم سنتے ہی اس درخت نے فوراً اپنا سر مریم کے قدموں میں جھکا دیا اور انہوں نے اس کے پھل چن کر کھائے اور تر وتازہ ہو گئے۔اس کے بعد جب درخت کے تمام پھل چن لئے گئے تو وہ درخت اسی طرح جھکا کھڑ ارہا کیونکہ وہ اس کے حکم کا منتظر تھا جس کے حکم سے وہ جھکا تھا۔تب یسوع نے اس درخت سے کہا’’ او کھجور کے درخت اٹھ اور خوش ہو کیونکہ توان درختوں کے ساتھ ہو گا جو میرے باپ کی بہشت میں ہیں۔مگر تو اپنی جڑوں سے وہ چشمہ کھو ل دے جو زمین میں پوشیدہ ہے اور اس چشمہ سے پانی بہنے دے تا کہ ہم پیاس بجھائیں‘‘۔ فوراً وہ کھجور کا درخت سیدھا کھڑ اہو گیا اور نہایت صاف ،سرد اور شیریں پانی کے چشمے اس کی جڑوں سے پھوٹ نکلے اور جب انہوں نے ان چشموں کو دیکھا تو ہ بہت خوش ہوئے اور وہ سب مع اپنے خادموں اور جانوروں کے مطمئن ہو گئے اور خد اکا شکریہ ادا کیا‘‘۔

کھجور کے درخت اور چشمہ کے قصّہ کو اس زمانہ سے متعلق کرنے کی بجائے جبکہ وہ لوگ ہجرت کر کے مصر جارہے تھے ،قرآن نے اس وقت سے متعلق کیا ہے جب عیسیٰ پیدا ہوئے اور یہ بتایا کہ ان کی پیدائش درخت کی جڑ میں ہوئی اور اسی وقت درخت کو حکم دیا گیا کہ وہ مریم کے کھانے کے واسطے اپنے پھل گرائے اور اس کو بہتے ہوئے چشمہ کی بھی اطلاع دی۔چونکہ اس جگہ قرآن اور مشکوک الصحت انجیل کی مطابقت ہوتی ہے،اس لئے قرآنی الفاط کی بھی یہی تاویل زیادہ صحیح ہو گی بجائے اس کے کہ اس قول کو جبرئیل کی طرف منسوب کیاجائے۔

اب ہمیں یہ تحقیق کرنا ہے کہ قرآن نے یہ خیال کہاں سے لیا کہ یسوع ایک درخت کی جڑمیں پیدا ہوا تھا۔نیز یہ کہ وہ روایت کہاں سے آئی جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ درخت جھک گیا اور ماں اور بچہ کو اپنا پھل کھلایا۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان دونوں باتوں کامستند اناجیل میں مطلقاً ذکر نہیں ہے۔ ان دونوں واقعات کا ماخذ بدھ مت کی پالی زبا ن کی کتب میں پایا جاتا ہے۔ہم کو مہاونسو  (Mahavamsa) ‏ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ واقعہ غالباً۸۰ ق م کے   ۵۸   قریب راجہ وتاگامنی  (Vattagamani) ‏ فرمانروائے سیلون کے زمانہ میں قلم بند کیا گیا تھا۔ مگر یہ بہت ممکن ہے کہ ان پالی کتب کا بہت بڑا حصہ اس سے بھی کئی صدری پیشتر قلم بند کیا جا چکا ہو۔ ان کتب میں جو روایات ہیں وہ بہت ہی قدیم زمانہ میں وسعت کے ساتھ نہ صرف ہندوستان اور سیلون بلکہ وسطی ایشیا،چین،تبت اور دیگر ممالک میں پھیل گئی تھیں۔پارسیو ں کی مقدس کتاب’’یشت‘‘  (Yesht) ‏ باب۱۳۔۱۶میں لکھا ہے کہ بدھ مت کے داعی ایران میں عیسیٰ سے دو سو برس قبل پہنچ چکے تھے اور مغربی ،مشرقی،وسطی اور جنوبی ایشیامیں بوذیت سے لوگ بے حد متاثر ہوگئے۔ماتیت  (Manicheism) ‏ ،لااُدریت  (Gnosticism) ‏ وغیرہ قسم کے مذاہب اسی کی وجہ سے ظہور میں آئے تھے اور اسی کے باعث رہبانیت  (Monasticism) ‏ بھی وجود میں آئی تھی۔مشکوک الصحت اناجیل کی بہت سی عبارتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان باطل کتب کے مصنفین کے دلوںمیں بوذیت کےخیالات جا گزیں ہو گئے تھے۔اگرچہ ان کو اس امر کا احساس تک نہ تھا کہ خیالات کہاں سے آئے۔ہم پالی کی کتب کی وہ عبارتیں نقل کرتے ہیں جن میں درخت کے متعلق قدیم روایات موجود ہیں۔

ان میں ایک روایت ’’ندان کتھا جاٹکم‘‘  (Nidanakatha Jathakam) ‏ باب ۱صفحات۵۳،۵۰ پر موجود ہے۔لکھا ہے کہ:

’’ رانی مایا جو گوتم بدھ کی والدہ تھیں،حاملہ تھیں اور جانتی تھیں کہ وضع حمل کا وقت قریب آرہا ہے۔اس لئے اس نے اپنے شوہر راجہ سدھو دھن سے ملکی رسم کے موافق اپنے میکے میں جانے کی اجازت حاصل کرلی تا کہ وہاں پہنچ کر بچہ جنے۔اثنائے سفر میں رانی مایا اور اس کی خواصین ایک خوبصورت اور دلآویز جنگل میں داخل ہوئیں اور رانی نے جو بعض درختوں کو پھولوں سے لدا دیکھا تو وہ بے حد تعریف کر نے لگی‘‘۔

اس کے بعد جو کچھ واقع ہوا وہ کتاب کے الفاظ میں حسب ذیل ہے:

’’جب وہ ایک خوشنما درخت سال (ایک قسم کا درخت جس کی لکڑی کے تختے بنائے جاتے ہیں۔ساکھو) کے نیچے پہنچی تو اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ سال کے درخت کی شاخ پکڑے۔سال کے درخت کی شاخ اس طرح ملائم ہو کر جیسے بھاپ میں پکائی ہوئی لکڑی ملائم ہوجاتی ہے ،نیچے جھکی اور اس قدر قریب ہو گئی کہ کہ رانی ہاتھ بڑھا کر اسے پکڑ سکے۔پس اس نے اپنا ہاتھ پھیلا کر شاخ کو پکڑ لیا۔۔۔۔پس جہاں وہ شاخ پکڑے کھڑی ہوئی تھی وہیں اسے وضع حمل ہوا‘‘۔

اس بیان میں اور اس میں جو ولادت عیسیٰ کے بارے میں قرآن کے اندر ہے،بہت خفیف سافرق ہے۔محمد ﷺ نے کھجور کا درخت بیا ن کیا ہے کیونکہ عرب لوگ اسی درخت سے زیادہ مانوس تھے۔علاوہ ازیں ملک عرب میں سال کا ہندوستانی درخت پیدا نہیں ہوتا۔بے شبہ یہ روایت ہندوستان سےعرب تک پہنچتے پہنچتے بدل گئی ہے اور ایسا عموماً ہوتا ہے۔ہندوستانی روایت میں یہ بتایا گیا ہے کہ بدھ کی والدہ نے ان پھولوں کو توڑنے کے لئے جو اس کے سر پر درخت کی شاخ پر کھلے ہوئے تھے کوشش جو کی تو غیر متوقع طور پر وضع حمل ہو گیا۔ یہ بات بالکل فطری ہے۔مگر قرآن میں وضع حمل کا کوئی سبب بیان نہیں کیا گیا کہ کھجور کے درخت کے نیچے کیوں وضع حمل ہوا۔مگر ظاہر ہے کہ دونوں قصے یکساں اور واحد ہیں۔قرآن کی طرح ہندوستانی روایت میں بھی یہ بات موجود ہے کہ درخت نے اپنی شاخیں جھکا دیں تاکہ مایا پھول توڑ سکےیا جیسا کہ قرآن میں لکھا ہے کہ درخت نے اپنے پختہ پھل مریم پر گرا دیئے۔موخر الذکر واقعہ کے متعلق دیگر بیانات جو عیسائیوں کی اناجیل مشکوک الصحت میں بیان کئے گئے ہیں ،وہ اس زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ مریم و یوسف مع مسیح مصر کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔اس وقت مسیح شیر خوار بچہ تھا۔یہ بیان بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ ’’چار یا پٹکم ‘‘  (Cariya Pitaka) ‏ باب ۱،ا۔شلوک۹میں لکھا ہے۔اس میں بیان کیا گیا ہے کہ بدھ اپنے کسی پچھلے جنم میں راجہ و سنترو  (Veesantaru) ‏ کہلاتا تھا۔جب اس راجہ نے اپنی رعایا کو ناخوش کر دیا تو اس نے اسے معزول کر کے ملک سے نکال دیا اور اس کے ساتھ اس کی بیوی اور دو چھوٹے بچوں کو بھی نکال دیا۔جب یہ لوگ پہاڑوں کی طرف جو دور فاصلہ پر نظر آرہے تھے بغرض پناہ گزینی سفر کر رہے تھے تو بچوں کو بھوک معلوم ہوئی۔اس کے بعد بدھ مت کی روایت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے’’اگر بچے اطراف کوہ میں باردار درختو ں کو دیکھتے ہیں تو بچے پھلوں کے لئے روتے ہیں،چنانچہ بچوں کو روتا دیکھ کر بڑے بڑے تنا ور درخت خود بخود جھک گئے اور بچوں کی دسترس سے قریب ہو گئے‘‘۔

صاف ظاہر ہے کہ قرآ ن میں اور ’’تاریخ مریم‘‘ میں یہ روایت غیر شعوری طور پر بدھ مت کی روایات سے لی گئی ہے اور اسی واقعہ سے ان دونوں بیانات کی غلطی ثابت ہوتی ہے۔اگر اس بات کے ثابت کرنے کی مزید ضرورت ہو کہ محمد ﷺ کے زمانہ میں بدھ مت کی روایات مغربی ایشیامیں رائج ہو گئی تھیں اور انہیں مسیحی تاریخ سمجھا جاتا تھا،تو ا س کے ثبوت میں ہم’’ برلعم او ر جوزافث‘‘  (Barlaam & Jusaphat) ‏ کا قصّہ پیش کرتے ہیں۔بعض کا قول ہے کہ یہ روایت چھٹی صدی عیسوی میں بزبان یونانی لکھی گئی تھی۔مگر زیادہ عام طور سےیہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسے خلیفۃ المنصور باللہ کے زمانہ میں (۷۵۳ء۔۷۷۴ء) جاہنیس دمشقی  (Johannes Damascenus) ‏ نےلکھا تھا۔اس کتاب کا عیسائی شہزادہ جوزافث یقیناً خود بدھ ہے اور یہ نام ’’جوزافث ‘‘ دراصل ’’بودھی ستوا‘‘  (Bodhisattva) ‏ کی بگڑی ہوئی صورت ہے جو بدھ کے بہت سے خطابوں میں سےایک ہے۔اس قصّہ کا اصل ماخذ سنسکرت زبان میں بدھ کے متعلق ایک روایتی قصّہ ہے جس کا نام’’للت وستر‘‘  (Lalit Vistara) ‏ ہے۔بایں ہمہ یہی ’’جوزافث‘‘ یونانی و رومی دونوں کلیسیاؤں میں ایک ولی اللہ مانا جاتا ہے جس کے عرس کے لئےیونانیوں میں ۲۶اگست اور رومیوں میں ۲۷ نومبر مقرر ہے۔

عیسیٰ کے بچپن کا قصّہ

اس وقت تک ہم نے جو کچھ لکھا ہے اس میں کسی قدرذکر عیسیٰ کے بچپن کا بھی آگیا ہے۔مگر اب ہم اسی موضوع پر کسی قدر تفصیل کے ساتھ بحث کرنا چاہتے ہیں۔سورۂ آل عمران میں لکھا ہے کہ ولادت عیسیٰ سےقبل فرشتہ نے اس کی نسبت کہا تھا کہ’’وہ گہوارہ میں لوگوں سے باتیں کرے گا‘‘۔ اور سورۂ مریم میں لکھا ہے کہ ’’جب کنواری مریم کی قوم نے اسے لعنت و ملامت کی تو مریم نے بچہ کی طرف اشارہ کیا‘‘۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ اسی بچہ سے دریافت کر لو کہ وہ کیسے پید اہواہے۔ اس پر ان لوگوں نے متعجب ہو کر کہا تھا کہ’’ہم اس سے کیونکر بات چیت کر سکتے ہیں جوابھی گہوارہ میں بچہ ہے‘‘۔ اس پر شیر خوار عیسیٰ نے لوگوں سے کہا کہ’’تحقیق میں خد اکا بندہ ہوں ،اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے‘‘۔

اس روایت کا ماخذ تلاش کرنا چنداں مشکل نہیں ہے۔ ہم اس سے پیشتر دکھا چکے ہیں کہ ایک مشکوک الصحت انجیل میں لکھا ہے کہ جب عیسیٰ عہد طفولیت میں مریم و یوسف کے ساتھ مصر کو جارہا تھا تو اس نے کھجور کے ایک درخت کو خطاب کر کےیہ حکم دیا تھا کہ ’’جھک جائے اور اس کی ماں کو اپنا پھل چننے دے‘‘۔مگر غالباً جس جگہ سے یہ روایت لی گئی ہے وہ’’انجیل الطفولیت‘‘ ہے۔ اس کتاب کے پہلے باب میں لکھا ہے کہ:

’’ہم نے کاہن اعظم جو زیفس  (Josephus) ‏ کی کتاب میں لکھا دیکھا ہے ( جو یسوع کے زمانہ میں تھا اور جسے بعض لوگ کائیفس  (Caiphus) ‏ بتاتے ہیں) کہ یسوع اس وقت بات کرتا تھا جبکہ وہ گہوراہ میں تھا اور اس نے اپنی ماں مریم سے کہا کہ’’تحقیق میں ہوں یسوع ،ابن اللہ ،کلمہ جسے تو نے جنا ،حسب فرمودۂ جبرئیل جس نے تجھے خوشخبری سنائی تھی اور مجھے میرے باپ نے دنیا کی نجات کے لئے بھیجا ہے‘‘۔

یقیناً قرآن میں یہ تو ظاہر نہیں کیا جاسکتا تھا کہ عیسیٰ نے وہ الفاظ کہے جو اس مصنوعی انجیل کے مصنف نے لکھے ہیں، کیونکہ قرآن میں ہر جگہ عیسیٰ کے ابن اللہ ہونے سے انکار کیا گیا ہے۔لیکن اس امر کا یقین کرتے ہوئے کہ عیسیٰ نے گہوارہ میں گفتگو کی،محمدﷺ نے اس کی زبان سے وہ ا لفاظ کہلائے جو ان کے نزدیک مناسب اور اسلام کے موافق تھے،ورنہ قصّہ ایک ہی ہے۔

’’انجیل الطفولیت‘‘ کی عربی زبان اس قدر خراب ہے کہ ہر گز یقین نہیں کیا جا سکتا کہ وہ محمدﷺ کے زمانہ کی لکھی ہوئی ہے مگر آج تک اس کتاب کی نسبت یہ خیال کبھی نہیں کیا گیا کہ وہ عربی زبان میں لکھی گئی تھی۔ جب ہم کتاب مذکورہ کا بنظر غائر مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دراصل یہ کتاب قبطی زبان میں لکھی گئی تھی اور بعد میں اس کا ترجمہ عربی زبان میں کیا گیا۔اور اس واقعہ سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ اس قصّہ کا ماخذ کیا ہے۔کیونکہ یہ مشہور واقعہ ہے کہ والی مصر نے محمدﷺ کی خدمت میں تحفتاً دو قبطی لڑکیاں بھیجی تھیں۔ان میں ایک ’’ماریہ قبطیہ‘‘ تھی جو محمدﷺ کی محبوب حرم بن گئی تھی۔یہ عورت اگرچہ انجیل سے بخوبی واقف نہ تھی ،مگر وہ اس روایت سے ضرور واقف ہو گی جو ’’انجیل الطفولیت‘‘ میں بیان کی گئی ہے اور جو اس زمانہ میں بہت مشہور تھی۔ محمدﷺ نے غالباً یہ قصّہ اسی ماریہ قبطیہ سے معلو م کیا اور یہ یقین کر کے کہ غالباً یہ ان اناجیل میں درج ہو گا جنہیں تمام عیسائی عام طور پر الہامی سمجھتے ہیں، محمدﷺ نے اس قصّہ کو قرآن کے اندر داخل کر دیا۔ممکن ہے کہ ماریہ قبطیہ کے علاوہ اس قصّہ کے راوی اور بھی ہو ں۔مگر راوی کوئی بھی ہو ،یہ بات ظاہر ہے کہ اس کا ماخذ یقیناً وہی ہے جو ہم نے بیان کیا۔واضح ہو کہ کتاب ’’انجیل الطفولیت‘‘ منجملہ ان متعدد کتب کے ہے جو بہت بعدمیں لکھی گئی تھیں اور جنہیں کسی نصرانی فرقہ نے بھی الہامی خیال نہیں کیا تھا۔ اسی قسم کی دوسری کتاب جن کا قرآن پر بہت بڑا اثر ہے وہ یہ ہیں  (Protevangelium of James, Gospel of Thomas the Israelite, Gospel of Nicodemus) ‏ جس کا دوسرا نام  (Gesta Plilati) ‏ بھی ہے اور  (The Narrative of Joseph of Arimathaea)

مندرجہ بالا کتب محض دلچسپ داستانیں ہیں جنہیں لوگ بغیر خیال صحت و عدم صحت کے پڑھتے تھے بلکہ اکثر یہ بھی جانتے تھے کہ یہ پرانے قصے ہیں اور ان کو کوئی تاریخی اہمیت حاصل نہیں۔لیکن بعض کم علم لوگ ایسے بھی تھے جو ان روایات کو صحیح سمجھتے تھے۔

ہم بعض مثالیں ایسی پیش کر چکے ہیں جن میں بعض قصص کا ماخذ بدھ مت کے قدیم قصے ہیں۔یسوع کا عالم طفلی میں جبکہ وہ گہوارہ میں تھا لوگوں سے گفتگو کرنا بھی اسی قسم کا ایک قصّہ ہے۔اسی قسم کا معجزہ ’’للت وستر‘‘  (Lalita Vistara) ‏، بدھ چرت  (Buddha-Carita)  ۵۹   اور دیگر سنسکرت کتب میں بھی بدھ کی نسبت پایا جاتا ہے۔کتاب  (Romantic Legend)  ۶۰   میں ہم کو نہایت متانت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ بدھ پیدا ہوتے ہی’’فوراً سات قدم افق کی ہر سمت چلا اور جو قدم وہ رکھتاتھا،ہر قدم پر اس کے پاؤں کے نیچے کی زمین سے کنول کا پھول پیدا ہو جاتاتھا اور جب وہ نظر جما کر کسی سمت کو دیکھتا تھا تو ا س کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے تھے’’۔۔۔ تمام دنیامیں صرف میں ہی سردار ہوں‘‘۔ایک اور چینی سنسکرت کی کتاب میں بھی یہی قصّہ بیان کیا گیا ہے اور لکھا ہے کہ بدھ کے الفاظ یہ تھے’’یہ جنم بحیثیت بدھ لیا گیا ہے، اس کے بعد میں کوئی نیا جنم نہیں لوں گا۔بس اب میں صرف اسی مرتبہ کے لئے پیدا ہوا ہوں تا کہ تمام دنیا کو نجات دوں‘‘۔

بدھ مت اور نصرانیت کے درمیان جو فرق ہے اگر اس سے قطع نظر کر کے دیکھا جائے تو مندرجۂ بالا عبارت کے آخری الفاظ ان الفاظ سے بے حد مشابہ ہیں جو’’ انجیل الطفولیت‘‘میں پائے جاتے ہیں یعنی ’’میرے باپ نے مجھے دنیا کی نجات کے لئے بھیجا ہے ‘‘۔بلکہ یہ معلوم ہو تا ہے کہ ایک عبارت دوسری کا لفظی ترجمہ ہے۔یہ واقعہ کہ عیسیٰ نے عہد شیر خواری میں گفتگو کی،قرآن کی سورۂ مائدہ کی آیات میں بھی پایا جاتا ہے ،جن کا ترجمہ یہ ہے:

’’جب اللہ کہے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم یا د کر میری ان نعمتوں کو جو میں نے تجھ پر اور تیری ماں پر نازل کیں ،جب میں نے روح القدس سے تجھ کو قوت دی۔تو لوگوں سے گہوراہ میں اور بڑا ہو کر باتیں کرتا تھا اور جب میں نے تجھے کتاب اور حکمت اور انجیل سکھائی اور جب تو نے چکنی مٹی سے میرے حکم سے چڑیا جیسی ایک شکل بنائی ،پھر تو نے اس میں روح پھونکی اور وہ اسی وقت چڑیا بن گئی میرے حکم سے،تو نے اندھوں اور جذامیوں (کوڑھیوں)کو میرے حکم سے شفا دی ،جب تو نے مردوں کو میرے حکم سے زندہ کیا اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روکا۔ اور جب تو ان کے پاس صاف دلائل لے کر پہنچا۔پس ان میں سے جنہوں نے کفر کیا کہا کہ یہ صاف جادو ہونے کے سوا اور کچھ نہیں‘‘۔

یہاں عیسیٰ کا اندھوں ،جذامیوں کو شفا دینا اور مردوں کو زندہ کرنا جو کچھ لکھا ہے وہ بالواسطہ اناجیل اربعہ سے اخذ کیا جا سکتا ہے اور اسی قسم کی باتیں مشکوک الصحت اناجیل میں بھی درج ہیں۔مگر مٹی کی چڑیاں بنانے اور ان میں جان ڈالنے کے بارے میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ مشکوک الصحت کتاب’’انجیل طامس اسرائیلی‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کے دوسرے باب میں یہ لکھا ہے کہ :

’’ یہ لڑکا یسوع جب پانچ برس کا ہو گیا تو وہ ایک چشمہ کے کنارے کھیل رہا تھا۔ اس نے پانی کو گڈھوں میں بھر لیا تھا اور وہ فوراً ایک ہی حکم دے کر ان گڈھوں کو صاف کر دیتا تھا۔اور اس نے کسی قدر باریک مٹی گوندھ کر اس کی بارہ چڑیاں بنائیں مگر جس روز وہ حرکتیں کر رہا تھا وہ یوم السبت تھا۔مگر اس کے ساتھ بہت سے اور لڑکے بھی کھیل رہے تھے۔لیکن ایک یہودی نے دیکھا کہ یسوع کیا کر رہا ہے یعنی سبت کے دن کھیل رہا ہے۔ پس وہ فوراً گیا اور یسوع کے باپ یوسف سے کہا’’دیکھو تمہارا لڑکا چشمہ پر ہے۔اس نے مٹی لے کر اس کی بارہ چڑیاں بنائیں اور اس نے یوم السبت کی بے حرمتی کی۔ یوسف موقعہ پر پہنچا اور دیکھ کر چلایا’’کیوں تو سبت کے دن ایسی حرکتیں کر رہا ہے جبکہ ایسا کرنانا جائز ہے؟‘‘ مگر یسوع نے تالیاں بجا کر چڑیوں کو آواز دی اور ان سے کہا کہ’’ اُڑ جاؤ‘‘ اور وہ چڑیاں اڑیں اور چہچہاتی ہوئی چلی گئیں۔جب یہودیوں نے یہ بات دیکھی تو وہ حیران و ششدر رہ گئے اور انہوں نے جا کر جو کچھ دیکھا تھا اور جو یسوع نے کیا تھا اپنے سرداروں سے بیان کیا‘‘۔

یہ امر قابل توجہ ہےکہ یہ تمام قصّہ عربی کی ’’انجیل الطفولیت‘‘میں دو مرتبہ بیان ہوا ہے ،یعنی ایک مرتبہ باب۳۶ اور دوسری مرتبہ باب۴۶ میں۔ اس کا باعث یہ ہےکہ ا س کتاب کا ایک حصہ ’’انجیل طامس اسرائیلی‘‘ سے لیا گیا ہے۔ یہاں بھی ہم یہ بات دیکھتے ہیں کہ اگر چہ یہ روایت وہی ہے جو قرآن میں مختصراً بیان کی گئی ہے۔مگر معلوم ہوتا ہے کہ محمدﷺ نے یہ مختصر بیا ن کسی تحریر سے نہیں بلکہ اپنی یادداشت سے درج کیا اوراسی لئے انہوں نے بارہ کی بجائے صرف ایک چڑیا کا ذکر کیا ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ اس چڑیامیں یسوع کے حکم سے نہیں بلکہ خود اپنی سانس پھونکنے سے جان پڑ گئی تھی۔قرآن کے مختصر بیان سے نہ صرف یہ ظاہرہوتا ہے کہ یہ قصّہ اس زمانہ میں کافی رائج تھا اور سب اس کو صحیح مانتے تھے بلکہ یہ بھی کہ اس وقت اہل مدینہ کو صحیح اناجیل کا کس قدر کم علم تھا۔کیونکہ ان میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ مسیح نے بچپن میں کوئی معجزہ دکھایا بلکہ بقول یوحنا۱۱:۱ مسیح نے اس وقت تک کوئی معجزہ نہیں دکھا یا تھا جب تک اسے بتیس برس کی عمر کے قریب بپتسما نہیں دیا گیا۔

مائدہ (دستر خوان جس پر کھانا چنا ہو)

عیسیٰ کا یہ مفروضہ معجزہ قرآن کی سورۂ مائدہ آیات ۱۱۲۔۱۱۵ میں اس طرح درج ہے:

إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَن يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ قَالُوا نُرِيدُ أَن نَّأْكُلَ مِنْهَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ أَن قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَكُونَ عَلَيْهَا مِنَ الشَّاهِدِينَ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ قَالَ اللَّهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ فَمَن يَكْفُرْ بَعْدُ مِنكُمْ فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَّا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ

’’ جب عیسی ٰ کے حواریوں نے اس سے کہا کہ یا عیسیٰ ابن مریم! کیا تیرا خداوند ہمارے لئے آسمان سے کھانا نازل کرنا منظور کے لے گا،تو اس نے کہا کہ ڈرو خد اسے اگر تم مومن ہو۔انہوں نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور کہ ہمارے دل مطمئن ہو جائیں اور ہم کو یہ بھی معلوم ہوجائے کہ تونے جو کچھ ہم سے کہا ہے ، وہ بالکل سچ کہا ہے۔ نیز یہ کہ ہم اس کے گواہ ہو جائیں۔ تب عیسیٰ ابن مریم نے کہا کہ اے خدا تو ہمارے لئے آسمان سے ایک خوان (تھال۔طباق) بھیج دے تا کہ ہم میں سب سے اول اور سب سے آخر یعنی سب کے لئے عید ہو جائے اور تیرا نشان ہو اور تو ہم کو رزق بھیج کیونکہ تو بہترین رازق ہے۔اس پر اللہ نے فرمایا’’یقیناًمیں تمہارے پاس کھانا بھیجوں گا۔مگر جو شخص تم میں سے اس کے بعد کفر کرے گا تو میں یقیناًاسے سخت عذاب میں مبتلا کروں گا کہ آج تک کسی کو نہ کیا ہو گا‘‘۔

اس قصّہ کے متعلق اگر ملک حبش کی کوئی روایت ہو تو دوسری بات ہے ، کیونکہ جو لوگ سب سے پہلے اسلام لائے تھے وہ مخالفین کے ظلم و ستم کے باعث ملک حبش کو ہجرت کر گئے تھے۔ اور وہاں سے ممکن ہے وہ کوئی روایت اپنے ساتھ لائے ہوں ،ورنہ یہ بات عہد نامۂ جدید کی عبارت صحیح نہ سمجھنے سے پیدا ہوئی۔انجیل لوقا ۳۰:۲۰میں لکھا ہے مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا ’’تا کہ تم میری سلطنت میں میرے دستر خوان پر کھا پی سکو‘‘۔محمدﷺ کو بے شبہ معلوم تھا کہ نصاریٰ بموجب انجیل متی ۲۰:۲۶۔۲۹،انجیل مرقس باب ۱۴ آیات۱۷۔۲۵ ،انجیل لوقا باب ۲۲ آیات ۱۴۔۳۰اورانجیل یوحنا باب۱۳ آیات ۱۔۳۰ عشائے ربانی کی تقریب مناتے ہیں۔مگر جس چیز کی وجہ سے ان کو یہ خیال پیدا ہوا کہ خوان نعمت آسمان سے نازل ہوا تھا، وہ یقیناً کتاب اعمال باب۱۰ آیات ۹۔۱۶ کا بیان تھا جس میں رویائے پطرس کو اسی طرح بیان کیا گیا ہے:

’’ دوسرے دن جب وہ راہ میں تھے اور شہر کے نزدیک پہنچے تو پطرس دوپہر کے قریب کوٹھے پر دعا کرنے کو چڑھا۔اور اسے بھوک لگی اور کچھ کھانا چاہتا تھا لیکن جب لوگ تیار کر رہے تھے تو اس پر بیخودی چھا گئی۔اور اس نے دیکھا کہ آسمان کھل گیا اور ایک چیز بڑی چادر کی مانند چاروں کونوں سے لٹکتی ہوئی زمین کی طرف اتر رہی ہے۔جس میں زمین کے سب چوپائے اور کیڑے مکوڑے اور ہوا کے پرندے ہیں۔اور اسے ایک آواز آئی کہ اے پطرس اُٹھ ! ذبح کر اور کھا۔مگر پطرس نے کہا اے خداوند! ہر گز نہیں کیونکہ میں نے کبھی کوئی حرام یا ناپاک چیز نہیں کھائی۔پھر دوسری بار اسے آواز آئی کہ جن کو خدا نے پاک ٹھہرایا ہے تو انہیں حرام نہ کہہ۔تین بار ایسا ہی ہوا اور فی الفور وہ چیز آسمان پر اٹھا لی گئی‘‘۔

سورۂ مائدہ کی جن آیات کا ترجمہ ہم نے پیش کیا ہے۔ ان کے آخری الفاظ اس امر کا ثبوت ہیں کہ محمدﷺ کے دل میں عشائے ربانی کا خیال تھا کیونکہ ان الفاظ میں پولس رسول کے اس انتباہ کی جھلک نظر آتی ہے جو عشائے ربانی کو بد تمیزی کے ساتھ کھانے پر کیا گیا ہے۔جس کسی شخص نے عہد نامۂ جدید کو پڑھایا پڑھتے ہوئے سنا ہوگا وہ ہر گز ایسا نہیں کر سکتا کہ پطرس کے رویا اور عشائے ربانی میں غلط مبحث کر دے یا اس رویا کو یہ سمجھ لے کہ عیسیٰ ابن مریم کی زندگی میں کوئی خوان نعمت آسمان سے نازل ہوا تھا ۔یہ مضمون جو ان آیات میں درج ہے اس بات کی ایک دلچسپ مثال ہے کہ روایات کس طرح پیداہوا کرتی ہیں۔

محمدﷺ اور عقیدہ ٔ تثلیث

اس باب کے ابتدائی حصہ میں ہم مختصراً اس مضمون کی طر ف اشارہ کر چکے ہیں۔لیکن باب ہذا کا جو عنوان ہم نے قائم کیا ہے ،اس پر مزید روشنی ڈالنے کے لئے یہ زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر کسی قدر تفصیل کے ساتھ بحث کی جائے۔ محمدﷺ نے جس طرح تثلیث و توحید کے مسیحی عقیدہ کو سمجھا تھا، وہ بالکل اسی طرح تھا جیسے کہ انہوں نے عشائے ربانی کےمعاملہ کو سمجھا۔قرآن کی آیات کا مفہوم یہ ہے:

’’جب اللہ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ ابن مریم کیا تو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ میں اور میری ماں خد اکے علاوہ دو خدا ہیں‘‘۔ ’’اے اہل کتاب تم اپنے دین میں حد سے زیادہ نہ بڑھو اور اللہ کے خلاف جھوٹ نہ بولو بلکہ سچ بولو۔مسیح عیسیٰ ابن مریم صرف اللہ کا ایک بندہ اور اُس کاکلمہ ہے جو ا س نے مریم میں ڈالا اور اُس کی روح ہے۔پس تم ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور مت کہو’’تین‘‘۔باز آؤ اس حرکت سے کیونکہ یہ تمہارے لئے اچھا ہے۔تحقیق اللہ واحد معبود ہے۔یہ اس کی شان کے خلاف ہے کہ اس کے کوئی بیٹا ہو۔جو کچھ آسمانو ں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے ،وہ سب اس کا ہے اور اللہ وکالت کے لئے کافی ہے‘‘ (سورۂ نساآیت ۱۷۱)۔

’’یقیناً وہ لوگ کفر کرتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ تحقیق اللہ تین میں سے تیسرا ہے۔اور کوئی معبود نہیں ہے سوائے اللہ کے۔اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اگر وہ اس سے باز نہ آئیں گے تو یقیناً ایک سخت تکلیف دہ عذاب ان پر نازل ہو گا جو کفر کریں گے‘‘ (سورۂ مائدہ آیت۷۳)۔

جلال الدین اور یحییٰ مفسرین قرآن نے لکھا ہے کہ یہ آیات جواب ہیں ان نصاریٰ کے بیانات کا جو کہتے تھے کہ خدا تین ہیں یعنی خدا باپ ،مریم اور یسوع۔ان آیات سے یہ بات بھی بالکل صاف ظاہر ہوتی ہے کہ یقیناً محمدﷺ کو اس بات کا کامل یقین تھا کہ نصاریٰ کے درس تثلیث میں تین علیٰحدہ علیٰحدہ خدا ہیں اور یسوع و مریم ان میں سے دو ہیں۔لیکن تیسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ محمدﷺ کے خیال میں ان خداؤں کی ترتیب یسوع ،مریم اور خدا یا مریم ،یسوع اور خدا تھی۔

ہم کو افسوس ہے کہ اس زمانہ میں جس صنم پرستانہ طریقہ سے لوگ مریم کی پرستش کیا کرتے تھے اس کی وجہ سے محمدﷺ کو یہ یقین ہو گیا کہ جو لوگ مریم کو ’’بہشت کی ملکہ‘‘ اور ’’ خداکی ماں‘‘ کہتے ہیں، وہ درحقیقت مریم میں شان الوہیت مانتے ہیں۔ان کا یہ خیا ل بالکل صحیح تھا کہ نصاریٰ نے مریم کے مقابلہ میں خدا کو اس کے عرش سے معزول کر دیا تھا۔لیکن اگر محمدﷺ کو یہ معلوم ہوتا کہ نصرانیت کی بنیاد ہی توحید پرہے (استثنا۴:۴اور انجیل مرقس۲۹:۱۲) تو وہ شاید ایسا نہ کہتے۔ محمدﷺ نے مسئلہ تثلیث فی التوحید کی اصلی تفسیر و تشریح غالباً کبھی نہ سنی ہو گی۔ورنہ وہ یہ بات ضرور جان لیتے کہ عیسائی علمائے دین باپ کی نسبت’’تین میں کا تیسرا‘‘ کا لفظ نہیں استعمال کرتے تھے بلکہ  God Head‏ یعنی’’سر چشمۂ الوہیت‘‘ کہتے تھے۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ اگرچہ مریم کی اس طرح غیر ضروری شان بڑھانا جسے دیکھ کر محمدﷺ بائبل کی سچی تعلیم سے منحرف ہو گئے، دین مسیحی کے خلاف ہے۔مگر اس قسم کے باطل خیالات اور رسموں کی بعد کی لکھی ہوئی مشکوک الصحت اناجیل سے بہت کچھ حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ خصوصاً ان اناجیل باطل سے جو محمدﷺ کانصرانیت کے متعلق ذریعہ معلومات تھیں۔یہ بات ہم نے اس لئے ظاہر کردی ہے کہ مسلمان یہ نہ کہنے لگے کہ وہ’’ انجیل الطفولیت‘‘ وغیرہ جیسی کتابوں کی نسبت یہ ثابت کر سکتا ہے کہ وہ بمقابلہ اناجیل مشمولہ عہد نامۂ جدید کے زیادہ مستند ہیں اور انہیں میں ابتدائی دین عیسوی کی تعلیم ہے جو عیسیٰ نے لوگوں کو سکھائی تھی۔ہم کو یہ تجربہ ہے کہ مسلمان لوگ اس قسم کی باتیں اکثر کرنے لگتے ہیں۔

 

مصلوبیت مسیح سے انکار

یہ بات عام طور پر مشہور ہے کہ مسلمانوں نے ابتدا ہی سے اس بات سے انکار کیا ہے کہ مسیح کی وفات صلیب پر ہوئی تھی۔اس بارے میں ان کی دلیل قرآن کی سورۂ نسا کی آیت۱۵۷۔۱۵۸ ہے جس میں یہودیوں کی نسبت لکھا ہے کہ ’’وہ کہتے تھے کہ مسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کو قتل کر دیا۔ اور انہوں نے نہ اس کو قتل کیا، نہ اس کو مصلوب کیا بلکہ وہ اس بارے میں شبہ میں ڈال د یئے گئے اور یقیناً جو لوگ اس بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ اس معاملہ میں شبہ رکھتے ہیں۔انہیں اس معاملہ کا کوئی علم نہیں۔صرف قیاس آرائی ہے اور یقینی طور پر انہیں کچھ معلوم نہیں۔نہیں! اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ طاقتور اور حکمت والا ہے‘‘۔ محمدﷺ نے جو مصلوبیت مسیح سے انکار کیا ا س بارےمیں یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے ایسی مشکوک الصحت اناجیل سے مدد لی جو اس کو بے حد محبوب تھیں۔یہ بھی کہنا غیر ضروری ہے کہ محمدﷺ نے عہد نامہ عتیق اور عہد نامہ جدید دونوں کی مخالفت کی اور غالباً محض اس وجہ سے کہ ان کے نزدیک یہ بات مسیح کی شان کے خلاف تھی کہ اسے صلیب دی جائے اور اس کے دشمن اسے قتل کر دیں۔ محمدﷺ کو اس کا اور زیادہ یقین ہو گیا جب انہوں نے خود اپنے دشمن یہودیوں کو اس بات پر فخر کرتے دیکھا کہ انہوں نے یسوع کو قتل کر د یا تھا۔یہی باعث ہے کہ محمدﷺ نے بعض نصارائے معتزلہ  (Heresiarchs) ‏ کا یہ بیان بڑی خوشی سے قبول کر لیا کہ مسیح کو صلیب نہیں دی گئی۔بہت سے نصارائے معتزلہ نے زمانٔہ محمدﷺ سے بہت عرصہ پہلے اس بات سےا نکار کر دیا تھا کہ مسیح کو تکلیفیں دی گئی تھیں۔آرینیس  (Irenaeus) ‏ نے ایک لااُدری معتزلہ مسمی با سیلدیز  (Basilides) ‏ کی تعلیمات کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ مسیح کے متعلق یہ شخص اپنے گمراہ متبعین کو یہ سکھایا کرتا تھا کہ:

’’اس کو کوئی تکلیف نہیں ہو ئی بلکہ ایک شخص مسمی شمعون  (Simon) ‏ ساکن سائرینیہ  (Cyrene) ‏ کو مجبور کیا گیا تھا کہ وہ مسیح کی بجائے اس کی صلیب اٹھا کر لے چلے۔پس لا علمی اور غلطی کی وجہ سے اسی شخص کو صلیب دی گئی تھی جسے مسیح کی صورت میں تبدیل کر دیا گیا تھا تاکہ لوگوں کو یہ خیال گزرے کہ یہی خود مسیح ہے‘‘۔

اس اقتباس کی عبارت قرآن کی عبارت سے قریب قریب ملتی جلتی ہے۔بایں ہمہ محمدﷺ ہر بات میں باسیلدیزکے ہم خیال نہیں کیونکہ موخر الذکر کے خیال میں مسیح خداکا ’’νοῦς‘‘‏  یعنی ذہن تھا۔لہٰذا اس کو کسی قسم کا صدمہ نہیں پہنچ سکتا تھا کیونکہ وہ اصلی انسانی جسم ہی نہیں رکھتا تھا۔یہ عقیدہ قرآن کے بالکل خلاف ہے کیونکہ یسو ع اگرچہ نبی اور رسول تھا ،مگر پھر بھی وہ جسم انسانی رکھتا تھا ۔عورت کے بطن سے پیداہوا تھا اور اس کے لئے کسی نہ کسی وقت مرنا مقدر تھا۔ محمدﷺ نے باسیلیدیز کے اصول سے مخالفت بھی کی اور اس اصول سے استخراج شدہ نتیجہ کو منظور بھی کر لیا۔

یہ خیال کہ مسیح صرف بظاہر فوت ہو اتھا ،صرف باسیلیدیز تک محدود نہ تھا۔ فا تھیوس  (Photius) ‏ نے اپنی کتاب ’’ ببلیو تیقا‘‘  (Bibliotheca) ‏ میں یہ واقعہ قلم بند کیا ہے کہ ایک مشکوک الصحت کتاب ’’اسفار حوارین ‘‘ میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’مسیح مصلوب نہیں کیا گیا بلکہ اس کی جگہ کوئی دوسرا شخص صلیب دیا گیا تھا‘‘۔مانی  (Mani) ‏ وہ مشہور و معروف شخص جس نے کسی زمانہ میں ایران کے اندر اس قدر زبر دست اثر حاصل کر لیا تھا ،وہ بھی کہتا تھا کہ ’’شاہ ظلمت کو صلیب سے باندھ دیا گیا اور اسی شخص پر کانٹوں کا تاج رکھا گیا‘‘۔بایں ہمہ قرآن کی مختلف آیات میں بہت جگہ یہ لکھا ہے کہ یسوع کی وفات ضرور ہو گی اور جس طرح تمام انسان فوت ہوتے ہیں اسی طرح وہ بھی مرے گا،مثلاً سورہ آل عمران آیت۵۴میں لکھا ہے کہ’’اے عیسیٰ تحقیق میں تجھے وفات دوں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھا لوں گا (یعنی اپنے دربار میں تیرا درجہ بلند کروں گا)اور جن لوگوں نے کفر کیا ان سے تجھے پاک کروں گا‘‘۔ اسی طرح سورۂ مریم آیت ۳۳ میں لکھا ہے ’’ سلامتی ہو مجھ پر اس روز جب میں پیدا ہوا ور اس روز جبکہ میں مروں گا اور اس روز جبکہ میں زندہ اٹھایا جاؤں گا۔

مسلمان مفسرین ان آیات کے معنی پر متفق الخیال نہیں ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ جب یہودیوں نے عیسیٰ کو صلیب دینا چاہا تو انہوں نے عید الفسح سے ایک دن قبل شام کے وقت یسوع اور اس کے حواریوں کو گر فتار کر کے قید کر دیا ،اس ارادہ سے کہ دوسرے روز صبح کو اسے قتل کر دیں۔ مگر رات کے وقت اللہ نے عیسیٰ پر وحی نازل فرمائی کہ ’’تجھے میری وجہ سے ذائقۃالموت چکھنا چاہیے۔ مگر تجھے فوراً ہی میری طرف اٹھا لیا جائے گا اور تو کافروں کی طاقت سے محفوظ ہو جائے گا ‘‘۔پس یسوع مر گیا اور تین گھنٹے تک مردہ رہا۔بعض کہتے ہیں کہ زیادہ عرصہ تک مردہ رہا۔بالآخر جبرائیل آیا اور عیسی ٰ کو کھڑکی کے راستہ سے باہر نکال کر آسمان پر لے گیا۔اور یہ بات کسی نے نہ دیکھی۔ایک کافر یہودی جاسوس کو غلطی سے عیسیٰ سمجھ لیا گیا اور اسے صلیب دے دی گئی۔مگر عام بلکہ دراصل عالمگیر رائے مسلمانوں کی فی زماننا وہ ہے جس کی تائید ’’قصص الانبیا‘‘اور ’’عرایس التیجان‘‘ وغیرہ ایسی کتابوں سے ہوتی ہے۔ان کتب میں بیا ن کیا گیا ہے کہ جب یہودیوں نے اس مکان کا محاصرہ کر لیا جس میں عیسیٰ اور اس کے حوارین تھے تو جبرائیل آکر عیسیٰ کو کھڑکی میں سے یا چھت میں سے زندہ اٹھا کر چرخ چہارم پر لے گئے۔ شیوغ’’ملک البہود‘‘ یا اس کا ایک دوست مسمی فلطیانوس ‎‎ ( Faltianus ‏) یسوع کو قتل کرنے کے لئے جو مکان میں داخل ہو اتو لوگوں نے غلطی سے اسی کو عیسیٰ سمجھ لیا اور قتل ڈالا۔بہر حال عیسیٰ ضرور مرے گا اور اس غرض کے لئے دنیا پر واپس آئےگا کیونکہ آیات مندرجۂ بالا کا مفہوم یہی ہے،نیز سورہ نسا آیت۱۵۹ میں لکھا ہے ’’وان مّن اہل الکتاب الا لئیو مننّ بہٖ قبل سوتہٖ‘‘۔ ’’یعنی تحقیق اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہو گا جو اس پر ا س کی موت سے قبل ایمان نہ لائے گا‘‘۔

اس میں بھی بہت سے مفسرین کے نزدیک وفات مسیح کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جب دجال کا خروج ہو گا اور وہ گمراہ کر کے لوگوں کو کافر بنا لے گا اور جس وقت امام مہدی بہت سے مسلمانوں کے ساتھ بیت المقدس میں ہوں گے ،اس وقت عیسیٰ آئے گا اور دجال سے جنگ کرکے اس کو قتل کرے گا اور نصاریٰ کو دین اسلام کی دعوت دے گا۔عیسیٰ کا مذہب اسلام ہو گا اور جو شخص اسلام لائے گا، اسے وہ پناہ دے گا اور جو شخص اسلام نہیں لائے گا ،وہ قتل کر دیا جائے گا۔وہ مشرق سے لے کر مغرب تک تمام دنیا کو فتح کر لے گا اور دنیا کی تمام آبادی کو مسلمان کرے گا۔اور وہ دین اسلام کی صداقت اس حد تک قائم کرے گا کہ دنیا بھر میں ایک متنفس بھی کافر نہیں رہے گا اور دنیا پوری طرح مہذب و متمدن ہو جائے گی۔ اور اس پر خدا کی کثیر برکتیں نازل ہوں گی اور وہ عدل و انصاف کی تکمیل کرے گا ۔یہاں تک کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پینے لگیں گے اور وہ بدکاروں پر ناراض ہو گا۔اس طرح چالیس برس تک دنیا کو ترقی دینے کے بعد وہ بھی ذائقۃ الموت چکھے گا اور دنیا سے اٹھ جائے گا۔تب مسلمان لوگ اس کو حجرۂ محمد کے قریب دفن کریں گے۔

مسیح کے دنیا میں واپس آنے اور اپنی سلطنت تمام دنیا پر قائم کرنے کا خیال انجیل کے عین مطابق ہے اور اسی سے لیا گیا ہے۔خصو صاً ایسے مقامات سے جیسے کتا ب اعمال باب۱۱:۱،مکاشفہ۷:۱،یسعیاہ ۱:۱۱۔۱۰۔مگر افسوس اسلام کے ہاتھوں سے شمشیر بُرّاں یہاں بھی نہیں چھوٹی،یعنی مسیح آکر بذریعہ نوک شمشیر اسلام پھیلائے گا۔دجال کی شکست کی طرف اشارہ ہے۔ وہ غالباً ۲۔تھسل۲: ۸۔۱۰ اور اسی قسم کی عبارتوں سے ماخوذ ہے۔لیکن تحقیق طلب امر یہ ہے کہ اگر آیات قرآنی مندرجہ بالا کا یہ مطلب ہے کہ مسیح کو موت ضرور آئے گی،جیسا کہ بقی ہی ‏ اور دیگر محدثین کے بیانات سے بھی معلوم ہوتا ہے ،تو یہ خیال کہاں سے لیا گیا جبکہ یہ خیال انجیل کے قطعی خلاف ہے ( ملاحظہ ہو مکاشفہ۱۷:۱۔۱۸)۔

اس کا سراغ بھی ہم کو اناجیل باطلہ میں ملتا ہے۔ایک عربی کتاب میں ‎‎ ( جو غالباً پہلے قبطی زبان میں تھی) جس کا نام ’’ہمارے مقدس باپ بوڑھے یوسف نجار کی وفات‘‘ ہے، ادریس اور الیا س کے بارے میں جو بغیر وفا ت پائے آسمان پر چلے گئے تھے ،یہ لکھا ہے کہ ’’ان لوگوں کو اختتام زمانہ پر ضرور دنیا میں آنا پڑے گا۔جبکہ ہر طرف تکلیف،مصیبت ،خو ف،دہشت اور ظلم و ستم طاری ہوگا اور وہ یہاں آک ضرور مریں گے‘‘۔اسی قسم کی ایک قبطی کتاب اور ہے جس کا نام’’مریم کے سو جانے کی تاریخ ‘‘ ہے۔اس میں بھی قریب قریب یہی الفاظ لکھے ہیں، مثلاً ’’اب رہے دوسرے ‎‎ (ادریس ااور الیاس) ان کےلئے ذائقۃ الموت چکھنا ضروری ہے‘‘۔قرآن میں بھی اس قسم کے جملے پائے جاتے ہیں ’’کلّ نفسٍ ذائقۃ الموت‘‘ یعنی’’ ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا پڑے گا‘‘۔چونکہ محمدﷺ نے ہر جگہ یہ بیان کیا ہے کہ عیسیٰ آسمان پر زند ہ چلے گئے،اس لئے ان کے دل میں یہ خیال قدرتاً پیدا ہونا چاہیئے تھا کہ ادریس و الیاس کی طرح وہ بھی دنیا پر ضرور آکر مرے گا۔مسلمانوں کی روایات میں یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ دنیا میں دوبارہ آکر عیسیٰ اپنی شادی کرے گا۔یہ خیال غالباً مکاشفہ ۷:۱۹۔۹ کو غلط سمجھنے سے پیدا ہوا۔ان آیات میں لکھا ہے کہ:

’’ آؤ ہم خُوشی کریں اور نِہایت شادمان ہوں اور اُ س کی تمجید کریں۔ اِسلئے کہ برّہ کی شادی آپہنچی اور اُس کی بِیوی نے اپنے آپ کو تیاّرکر لِیا۔اور اُس کو چمکدار اور صاف مہین کتانی کپڑا پہننے کا اِختیار دِیا گیا کیو نکہ مہین کتانی کپڑے سے مُقدّس لوگوں کی راست بازی کے کام مُراد ہیں۔اور اُس نے مُجھ سے کہا لِکھ۔ مُبارک ہیں وہ جو برّہ کی شادی کی ضیافت میں بُلائے گئے ہیں۔ پِھر اُس نے مُجھ سے کہا یہ خُدا کی سچی باتیں ہیں ‘‘۔

یقیناً ان آیات میں استعارتاً بات کہی گئی ہے ،جس کا مطلب روحانی امور میں کامل محبُت اور کامل اتحاد ہے جو ا س زمانہ میں مسیح اور اس کی پاک شدہ اور نجات یافتہ کلیسیا کے درمیان ہو گا ( یہ بات مکاشفہ ۲:۲۱ اور افسیوں ۲۲:۵۔۳۲ میں سمجھا دی گئی ہے)۔یہ بات کہ عیسیٰ دنیا میں دوبار آکر چالیس برس تک رہے گا کتاب اعمال۳:۱ کی غلط فہمی سے پیداہوئی ہے،جہاں یہ لکھا ہے کہ یسو ع مردوں میں سے جی اٹھنے اور آسمان پر چڑھ جانے کے درمیان چالیس دن تک اپنے شاگردوں کے ساتھ رہا۔

 

بعثت محمدﷺ کی نسبت عیسیٰ کی پیش گوئی

بائبل مقدس میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جنہیں پیش کر کے مسلمان یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ محمدﷺ کے متعلق پیش گوئیاں ہیں۔قرآن میں ایک جگہ صاف طور پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ عیسیٰ نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ وہ محمدﷺ کی آمد کے منتظر رہیں اور غالباً ان میں انجیل یوحنا کی بعض آیات کی طر ف اشارہ کیا گیا ہے۔ سورۂ الصف آیت ۶ میں لکھا ہے کہ:

’’جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا کہ یا بنی اسرائیل تحقیق میں تمہاری طرف خدا کی طرف سے رسول بھیجا گیا ہوں اور میں تصدیق کرتا ہوں توریت کی جو مجھ سے پہلے تھی اور میں تم کو بشارت دیتاہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا۔اس کا نام احمد ہے‘‘۔

اس میں فارقلیط  (Paraclete) ‏ (تسلی دینے والا)کی آمد کی طرف اشارہ ہے جس کا نام ذکر انجیل یوحنا۱۶:۱۴۔۲۶؛۲۶:۱۵ اور۷:۱۶ میں کیا گیا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ محمدﷺ کو کسی جاہل مگر جو شیلے نو مسلم نے دھوکا دیا جس نے دونوں لفظوں میں غلط مبحث کر د یا، یعنی انجیل یوحنا کی آیات میں لفظ ’’Παράκλητος‘‘‏ استعمال ہوا ہے۔مگر اس نے اس کو ایک دوسرا یو نانی لفظ  ’’Περικλυτός‘‘‏  سمجھا۔ جس کے معنی عربی زبان میں وہی ہیں جو’’احمد‘‘ کے ہیں، یعنی ’’بہت تعریف کیا گیا‘‘۔ مگر جولفظ عیسیٰ نے استعمال کیا ہے اس کے معنی کسی طرح بھی ’’احمد ‘‘ نہیں ہو سکتے۔جو شخص انجیل یوحنا کی مندرجہ بالا آیات کو پڑھے گا ،وہ بخوبی جان جائے گا کہ ان میں کسی بھی آئندہ آنے والے رسول کے متعلق پیش گوئی نہیں ہے اور اس کا اطلاق کسی فرد بشر پر نہیں ہو سکتا۔علاوہ ازیں ہر عیسائی جانتا ہے کہ جو وعدہ ان آیات میں کیا گیا ہے وہ کس طرح اعمال ۱:۲۔۱۱میں پورا ہو چکا۔

قبل اس کے کہ ہم بحث ختم کریں،مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ناظرین پر یہ بات واضح کر دی جائے کہ محمدﷺ ہی پہلے شخص نہیں ہیں جنہوں نے انجیل یوحنا کی ان آیات میں اپنے لئے پیش گوئی ہونے کا دعویٰ کیا۔ محمدﷺ سے پہلے مانی جو ایران کے قصے کہانیوں میں ایک حیرت انگیز مصور کی حیثیت سےمشہور ہے،یہ دعویٰ کیا تھا کہ میں وہی’’شخص‘‘ ہوں جس کی طرف مسیح نے ان آیات میں اشارہ کیا ہے۔مانی کا دعویٰ یہ تھا کہ میں’’فارقلیط‘‘ ہوں جس سے ا س کا مقصد غالباً یہ تھا کہ جاہل عیسائیوں کو اپنا طرف دار بنا لے۔اور یہ امر قابل توجہ ہے کہ اس شخص نے تاریخی یسوع کو تسلیم نہیں کیا تھا بلکہ اپنی طرف ایک ایسا مسیح ایجاد کر لیا تھا’’ جس نے نہ تکلیف اٹھائی نہ وفات پائی‘‘۔ایک اور بات جس میں وہ اور محمدﷺ دونوں برابر ہیں یہ ہے کہ اس نے اپنے لئے’’انبیا کا سردار‘‘ اور ’’سفیر النور‘‘ ہو نے کا دعویٰ کیا تھا اور کہتا تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔یہی دعویٰ محمدﷺ کا بھی ہے مگر وہ شخص محمدﷺ کی طرح خوش قسمت نہیں تھا کیونکہ اسے بہرام اول شاہ ایران کے حکم سے تقریباً۲۷۶ء میں سولی پر چڑھا دیا گیا۔اس شخص نے ایک کتاب پیش کی تھی جسے مشرقی ممالک کے مصنفین’’ارتنگ‘‘یا (ارژنگ) کہتے ہیں۔اس کا دعویٰ یہ تھا کہ اس پر یہ کتاب آسمان سے نازل ہوئی ہے اور لوگوں کے لئے آخری الہام ہے۔

تخلیق آدم و سجدۂ ملائکہ

قرآن کی سورۂ آل عمران آیت۵۸ میں ہے کہ ’’تحقیق اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال ایسی ہے جیسے آدم کی۔اس نے اس کو مٹی سے پیداکیا پھر کہا کہ ہو جا پس وہ ہو گیا‘‘۔آفرینش آدم کے متعلق روایات میں لکھا ہے کہ:

جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کرنا چاہا تو اس نے ملائکہ مقربین میں سے یکے بعد دیگرے ایک ایک کو بھیجا کہ وہ جاکر مٹھی بھر مٹی لائے۔چونکہ زمین جانتی تھی کہ اولاد آدم میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جو جہنم میں ٖڈالے جائیں گے ،اس لئے اس نے ہرفرشتہ سے التجا کی کہ وہ اس میں سے کوئی حصہ نہ لے۔اس لئے وہ سب سوائے آخری فرشتہ کے جو عزرائیل تھا خالی ہاتھ واپس آگئے۔مگر عزرائیل نے مٹھی بھر مٹی اٹھالی اور زمین کی التجا نہ سنی۔بعض کہتے ہیں کہ وہ مٹی اس جگہ سے اٹھائی گئی تھی جہاں بعد میں خانہ کعبہ تعمیر کیا گیا اور بعض کہتے ہیں کہ نہیں تمام سطح زمین سے لی گئی تھی۔الغرض وہ فرشتہ مٹی لے کر اللہ کےپاس آیا اور کہنے لگا’’اے اللہ تو جانتا ہے کہ میں مٹی لے آیا ہوں‘‘۔

ابو الفدا ء بحوالہ کامل ابن اثیر لکھتا ہے کہ:

’’رسول خد انے فرمایا کہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا مٹھی بھر مٹی سے جو تمام روئے زمین سے لی گئی تھی۔۔۔اور تحقیق اس کانام آدم اس لئے رکھا گیا کہ اسے ’’ادیم ‘‘ یعنی سطح زمین سے پیدا کیا گیا تھا‘‘۔

یہ روایت اس وجہ سے اور بھی دلچسپ ہے کہ اس سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اسلام عیسوی معتزلہ کے خیالات کا کس قدر رہین منت ہے۔یہ تمام قصّہ مارسیون  (Marcion) ‏ کی کتاب سے لیا گیا ہے ۔اس کی ایک عبارت ازنیق ارمنی  (Ezniq) ‏کی کتاب ’’تروید معتزلہ‘‘  (Refutation of Heresies) ‏ میں نقل کی گئی ہے۔دوسری صدی عیسوی کے اس رئیس المعتزلہ کا حال بیان کرتے ہوئے ازنیق نے مارسیون کی حسب ذیل عبارت اپنی کتاب میں نقل کی ہے:

’’ اور جب توریت کے خدا نے یہ دیکھا کہ یہ دنیا خوبصورت ہے تو اس نے اس میں سے آدم کو پید ا کرنے کا ارادہ کیا اور اس نے زمین یعنی مادہ میں اتر کر کہا کہ ’’تومجھے اپنے میں سے مٹی دے اور میں اپنےمیں سے روح دوں گا ‘‘۔۔۔۔جب مادہ نے اسے مٹی دے دی تواس نے اسے پیدا کیااور اس میں روح پھونکی۔۔۔اور اس وجہ سے اس کانام آدم رکھا گیا کیونکہ مٹی سے بنایا گیا تھا‘‘۔

اس عبارت کو سمجھنے کے لئے یہ بات یاد رکھنا چاہیئے کہ مارسیون قدیم ایرانی مذہب ثنویت  (Dualism) ‏کا بڑی حد تک قائل تھا اور اس کا عقیدہ تھا کہ علت العلل دو ہیں۔ایک خیر محض اور دوسرا شر محض۔اس کے نزدیک ’’دیمیور گاس‘‘ یعنی اس زیریں دنیا کا خالق  (Demiurgos) ‏ جس کی نسبت اس نے عبارت مندرجہ بالا میں ’’توریت کا خدا‘‘لکھا ہے کیونکہ اس نے یہودیوں کوشریعت موسوی دی تھی،وہ مصنف ہے،نہ بالکل اچھا ہے نہ بالکل برا ہے۔مگر وہ ہمیشہ اصل شر کے ساتھ برسر جنگ رہتا ہے۔ اس لئے یہ سمجھنا چاہیے کہ گویا وہ خدا نہیں بلکہ ایک بڑا فرشتہ ہے اور اسلامی روایت میں بھی وہ ایساہی معلوم ہوتا ہے۔مارسیون کے نزدیک یہ ویمیوگارس پہلے دوسرے آسمان پر رہتا تھا اور اسے ’’اعلیٰ اصول خیر‘‘ کے وجود کا کوئی علم نہ تھا۔مارسیون نے اس اصول خیر کا نام ’’خدائے لا معلوم‘‘  (Unknown God) ‏ رکھا ہے۔جب ویمیو گارس کو اعلیٰ اصول خیر کاعلم ہوا تو وہ اس کا دشمن بن گیا اور اس امر کی کوشش کرنے لگا کہ لوگ اس خد ا کاعلم حاصل کرنے سے باز رہیں تا کہ کہیں ایسا نہ ہو اس کی پرستش چھوڑ کر خدا کی عبادت کرنے لگیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یسوع مسیح کو دنیا میں بھیجا تاکہ وہ توریت کے خدا اور اصول شر کی طاقت کو توڑ دے۔اور لوگوں کو ہدایت کر کے ان کو سچے خدا کا علم حاصل کرائے۔یسوع پر ان دونوں یعنی ویمیو رگاس اور اصول شر نے حملہ کیا۔مگر وہ اس کو ضرر نہ پہنچا سکے کیونکہ وہ صرف ظاہری جسم رکھتا تھا تا کہ لوگوں کو دکھائی دے ،ورنہ اس کے کوئی اصلی جسم نہ تھا ( غالباً اسی خیال کا تتبع (پیروی) کر کے محمدﷺ نے مصلوبیت مسیح سے انکار کیا)۔

جو کچھ مارسیون نے ویمیو ر گاس کی نسبت لکھا ہے اس سے بہت کچھ مسلمانوں کی روایت دربارہ عزازیل ملتی جلتی ہے جو دوسرے آسمان کا باشندہ ہو گیا تھا ( اور بقول بعض تمام آسمانوں کا) اس وقت تک یہ مردود ہو کر نکالا نہیں گیا تھا اور اس کا نام ابھی تک ’’ابلیس‘‘  (Διάβολος) ‏ اور ’’شیطان ‘‘  (Satan) ‏نہیں رکھا گیا تھا۔مگر معلوم ہوتا ہے کہ اب میں مارسیون اور محمدﷺ کے بیانات پارسی روایات سے ماخوذ ہیں جن کو ہم آئندہ باب میں بیان کریں گے۔یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ مارسیون اور اس کے متبعین نے ویمیو ر گاس کو’’رب العالمین‘‘ ،’’خالق المخلوقات‘‘ اور ’’ملک الارض ‘‘ کے خطابات دیئے تھے۔اول دوخطاب دراصل خدا کے ہیں اور یہودی اور مسلمان دونوں فرقے خدا کے لئے یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں۔مگر تیسرا خطاب انجیل یوحنا۳۰:۱۴ سے لیا گیا ہےجہاں وہ شیطان کے لئے استعمال ہوا ہے۔

تخلیق آدم کے سلسلہ میں قرآن نے بار بار بیان کیا ہے کہ خدا نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں،مثلاً سورۂ بقرہ آیت۳۴ میں ہے کہ’’جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو توا نہوں نے سجدہ کیا ،سوائے ابلیس کے‘‘۔اسی طرح اور قریب قریب انہی الفاظ میں سورۂ بنی اسرائیل آیت۶۱،سورہ الکہف آیت ۵۰ اور سورہ طہٰ آیت ۱۱۶ میں بیان کیا گیا ہے۔ مگر یہ خیال تالمود سے ہر گز نہیں ماخوذ ہو سکتا جس میں اگرچہ یہ لکھا ہے کہ فرشتوں نے آدم کی ضرورت سے زیادہ عزت کی۔مگر یہ بھی صاف لکھا ہے کہ انہوں نے غلطی کی۔یقیناً یہ خیال ’’عبرانیوں ۶:۱ ‘‘ کی غلط فہمی سے پیدا ہواہے۔ جس میں لکھا ہے کہ ’’جب وہ پہلوٹا بچہ دنیا میں لایا تو اس نے کہا کہ ’’خدا کے تمام فرشتے اس کو سجدہ کریں‘‘۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ا س آیت میں جو لفظ ’’پہلوٹا‘‘ استعمال ہوا ہے اس کو محمدﷺ نے’’عیسیٰ ‘‘نہیں بلکہ ’’آدم ‘‘ سمجھا یعنی وہ جو سب سے پہلے دنیا میں پیدا کیا گیا۔اور ممکن ہے یہ بات عیسیٰ پرستی کے خلاف کی گئی ہو کیونکہ قرآن میں محمدﷺ نے کہا ہے کہ خد اکی نظروں میں عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے۔بے شبہ اس وجہ سے کہ عیسیٰ کا باپ کوئی انسان نہ تھا ( جیسا کہ عباسی اور جلالین میں بیان کیا گیا ہے)۔

سب کو دوزخ میں جانا ہو گا

یہ عجیب و غریب خیال قرآن کی سورہ مریم آیات ۶۸۔۷۱میں اس طرح ظاہر کیا گیا ہے:

’’پس تیر ے رب کی قسم ہے کہ ہم یقیناً ان کو اور شیاطین کو جمع کریں گے۔پھر ہم یقیناً ان کو جہنم کے گرد لے جا کر دو زانو بٹھائیں گے۔ پھر ہم ہر فرقہ میں سے اس شخص کو لیں گے جو خدائے رحمان کے خلاف سب سے زیادہ باغی ہے۔پھر ہم یقیناً ان لوگوں کو سب سے بہتر جانتے ہیں جو اس میں سب سے زیادہ جلنے کے مستحق ہیں اور تم میں کوئی ایسا نہیں جو اس میں داخل نہ ہو گا۔ یہ تیرے خدا کا اٹل فیصلہ ہے‘‘۔

اس مضمون کے باعث متقی وپرہیز گار مسلمانوںکو سخت پریشانی لاحق ہوتی ہے۔مفسرین نے ان الفاظ کے ظاہری معنی سمجھانے کی سخت کوشش کی ہے (اگرچہ اس بارے میں سب ہم خیال نہیں ہیں)۔ اور کہتے ہیں کہ یہاں صرف یہ مطلب ہے کہ تمام آدمی ،حتٰی کہ سچے مسلمان بھی،آتش دوزخ کے قریب آئیں گے۔یعنی اس وقت جبکہ وہ قیامت کے دن پل (صراط) سے گزریں گے۔اگر یہ معنی تسلیم کر لئے جائیں تو زیادہ مناسب ہو گا کہ اس مسئلہ پر آئندہ یعنی باب پنجم میں بحث کی جائے ،جہاں ہم یہ دکھائیں گے کہ مذہب زرتشت نے اسلام پر کیا اثر ڈالا۔مگر آیات مندرجہ بالا کے الفاظ سے غالب خیال گزرتا ہے کہ محمدﷺ نےیہاں عالم برزخ یعنی مکان تطہیرا لنفس بعد الموت کا عقیدہ ظاہر کیا ہے جسے انگریزی زبان میں  (Purgatory) ‏کہتے ہیں۔اگر یہ صحیح ہے تو ضرور انہوں نے یہ خیال انجیل مرقس ۴۹:۹ اور ا۔کرنتھیوں ۱۳:۳ سے لیا ہے۔صحیفہ ابراہیم میں لکھا ہے کہ ہر شخص کے اعمال آگ کے ذریعہ سے جانچیں جاتے ہیں۔ اگر آگ کسی شخص کے اعمال کو جلا دیتی ہے تودوزخ کے فرشتے اس کو مقام عذاب میں لے جاتے ہیں۔مگر چونکہ قرآن کی ان آیات کا صحیح مفہوم غیر یقینی ہے ،اس لئے ہم ضرورت نہیں سمجھتے کہ عالم برزخ کے عقیدہ کی مزید تحقیق کریں۔

المیزان

قرآن میں کئی جگہ المیزان یعنی ترازو کا ذکر آیا ہے جس میں حشر کے دن سب کے برے اور بھلے اعمال تو لے جائیں گے۔قرآن کی خاص خاص آیتیں اس بارے میں حسب ذیل ہیں:

’’وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ ۚ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ‘‘ ‎‎ (سور ہ الاعراف آیت۸)۔

ترجمہ: ’’اس روز صحیح تول تولا جائےگا۔پس جس شخص کے نیک اعمال کا پلّہ بھاری ہوگا وہی شخص کامیاب ہوں گے۔

اللَّهُ الَّذِي أَنزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ ترجمہ:’’اللہ وہ ہے جس نے کتاب نازل کی سچائی کے ساتھ اور میزان‘‘ ‎‎ (سورہ الشوریٰ آیت۱۷)۔

’’ فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَّاضِيَةٍ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ ‘‘۔

ترجمہ: ’’پس جس کے نیک اعمال کا وزن بھاری ہو گا وہ عیش میں رہے گا اور وہ جس کے نیک اعمال کا وزن ہلکا ہو گا اس کی ماں سب سے نیچے کا طبقۂ جہنم ہو گا‘‘ (سور ہ القارعہ آیات۶۔۹)۔

مفسرین قرآن نے بر بنائے احادیث ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے یہ بتایا ہےکہ حشر کے دن اللہ تعالیٰ دوزخ اور جنت کے درمیان ایک ترازو کھڑی کراگا جس میں ایک کانٹا اور دو پلے ہوں گے۔یہ میزان اس لئے مخصوص ہو گی کہ ا س میں لوگوں کے نیک و بداعمال یا ان کے اعمال نامے تولے جائیں گے۔جو لوگ مومن ہیں وہ دیکھیں گے کہ وہ پلہ جس میں ان کے نیک اعمال رکھے جاتے ہیں، دوسرے پلہ سے جھک جائے گا جس میں ان کے برے اعمال ہیں۔مگر جس پلہ میں کافروں کے نیک اعمال رکھے جاتے ہیں ،وہ اس پلہ سے ہلکا رہے گا جس میں ان کے برے اعمال رکھے گئے ہیں۔مومن کا رتی بھر بھی نیک عمل نہ چھوڑا جائے گا اور نہ اس کے بد اعمال میں رتی بھر اضافہ کیا جائے گا۔وہ لوگ جن کے نیک اعمال کا پلہ بھاری ہے وہ جنت میں چلے جائیں گے ،مگر وہ لوگ جن کے نیک اعمال ان کے اعمال بد سے ہلکے ہوں گے وہ آتش دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے۔لوگوں کے اعمال وز ن کئے جانے کا خیال یہودیوں کی تالمود یعنی’’روش ہشاناہ‘‘  (Rosh Hashshanah) ‏ باب ۱۷ میں موجود ہے۔ممکن ہے کہ اس میں یہ خیال کتاب دانی ایل ۲۷:۵ سے لیا گیا ہو۔لیکن اس صورت میں بیلشضر  (Belshazzar) ‏ بادشاہ کا ’’وزن‘‘ کیا جانا حشر کےدن یا بعد الموت نہیں قرار پاتا بلکہ اس زندگی ہی میں ہوتا ہے۔لہٰذا محمد ﷺ کے خیال کا ماخذ ہمیں کسی دوسری جگہ تلاش کرنا پڑے گا اور یہ بات ہم کو مشکوک الصحت کتاب’’صحیفہ ابراہیم‘‘ میں ملتی ہے۔یہ کتاب غالباً ملک مصرمیں لکھی گئی تھی اور دوسری یا تیسری صدی عیسوی میں ایک یہودی نے جو عیسائی ہو گیا تھا، تحریر کی تھی۔اس کتاب کا ترجمہ عربی زبان میں بھی موجود ہے۔اس کتاب کی بعض عبارتوں اور قرآن کی بعض آیتوں نیز محمدﷺ کی احادیث اس قدر زیادہ مطابقت پائی جاتی ہے کہ اس واقعہ کو محض اتفاقی نہیں کہا جا سکتا اور خصوصاً جو کچھ’’صحیفہ ابراہیم‘‘ میں ’’میزان‘‘ کے متعلق کہا گیا ہے ،وہ تو خاص طور پر قابل توجہ ہے۔

لکھا ہے کہ جب ملک الموت خد اکے حکم سے ابراہیم کی روح قبض کرنے آیا تو انہوں نے اس سے درخواست کی کہ مجھے آسمانوں اور زمین کے عجائبات دیکھنے کی مہلت دی جائے۔چنانچہ یہ اجازت دے دی گئی اور وہ اس فرشتہ کے ساتھ آسمان پرچڑھے اور دیکھنے کے قابل چیزیں دیکھیں۔ جب وہ دوسرے آسمان پر پہنچے تو وہاں انہوں نے میزان دیکھی جس میں ایک فرشتہ لوگوں کے اعمال تولتا تھا۔صحیفہ مذکور کی عبارت حسب ذیل ہے:

’’دو پھاٹکوں کے درمیان ایک تخت بچھاتھا۔۔۔ اور اس پر ایک عجیب و غریب شخص بیٹھا تھا اور اس کے سامنے ایک بلو ر کی طرح چمک دار میز بچھی ہوئی تھی جو سونے اور باریک کتان کی تھی۔ اور اس میز پر ایک کتاب رکھی ہوئی تھی جو چھ ہاتھ موٹی اور اس کی چوڑائی دس ہاتھ تھی۔ اور اس میز کے داہنے اور بائیں دو فرشتے استادہ تھے جن کے ہاتھوں میں قلم ،رشنائی اور کاغذ تھا۔اور میز کے سامنے ایک روشنی بردار فرشتہ اپنے ہاتھ میں ایک ترازو لئے بیٹھاتھا اور بائیں طرف ایک آتشین فرشتہ بیٹھا تھا جو قطعی بے رحم اور سخت دل تھا۔اور اس کے ہاتھ میں ایک تھا جس میں وہ سب کو جلا دینے والی آگ رکھتا تھا،یہ گنہگاروں کی آزمائش تھی۔اور وہ عجیب و غریب آدمی جو تخت پر بیٹھا تھا وہ خود روحوں کی جانچ کر رہا تھا اور داہنے اور بائیں جو دو فرشتے تھے وہ لکھتے جاتےتھے۔داہنی طرف والا فرشتہ نیک اعمال اور بائیں طرف والا فرشتہ گناہ درج کرتا تھا اور وہ فرشتہ جو میز کے سامنے تھا جس کے ہاتھ میں میزان تھی ،وہ روحوں کو تول رہا تھا اور وہ آتشیں فرشتہ جو آگ لئے ہوئے تھا، وہ ان روحوں کی جانچ کر رہا تھا۔ تب ابراہیم نے میکائیل ان کے بڑے سردار سے دریافت کیا’’یہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں کیاہے؟‘‘سردار نے جواب دیا’’مقد س ابراہیم! جو کچھ دیکھتا ہے وہ حساب اور جزاو سزا ہے ‘‘۔   ۶۱  

اس کے بعد قصّہ میں لکھا ہے کہ ابراہیم نے دیکھا کہ ہر وہ روح جس کےنیک وبد اعمال برابر ہیں۔وہ نہ نجات یافتہ میں داخل کیا گیا ،نہ معتوبین ‎‎ (معتوب کی جمع۔جس پر عتاب کیا گیا ہو) میں بلکہ وہ ان دونوں طبقات کے درمیان جا کھڑا ہو گیا۔یہ آخری بات مسلمانوں کے اس عقیدہ کے بالکل مطابق ہے جو سورہ اعراف میں ظاہر کیا گیا کہ ’’وبینہا حجاب،وعلی الاعراف رجالٌ‘‘۔ ’’اور ان دونوں کے درمیان پردہ ہے اور اعراف پر آدمی ہیں‘‘۔اسی مضمون کی حدیثیں بھی ہیں۔اب اس بات میں کسی قسم کا شک و شبہ کرنا قطعی ناممکن ہے کہ محمدﷺ نے یہ خیال یعنی میزان کا قصّہ براہ راست یا بالواسطہ صحیفہ ابراہیم سے لیا تھا۔ اور یہ خیال جو دراصل ملک مصر سے آیا تھا،ا س زمانہ میں بہت کم رائج تھا۔گمان غالب یہ ہے کہ محمدﷺ نے یہ بات ’’ماریہ قبطیہ‘‘ سے سیکھی ہوگی جو ان کی مصری حرم تھی۔ایسی ترازو کا عقیدہ جس میں لوگوں کے نیک وبد اعمال تو لے جائیں قدیم مصر میں بہت پراناتھا۔قدیم مصریوں کی’’کتاب الموتی‘‘ ‎‎ ( Book of the Dead ‏) کی بہت سی جلدیں قدیم مصری مقبروں میں دستیاب ہوئی ہیں۔میزان کا قصّہ اس کتاب کےاس حصہ میں درج ہے جس میں ’’یوم الحساب‘‘ کا منظر دکھایا گیا ہے۔ اس کتاب کے متعلق ڈاکٹر بج ‎‎ ( Budge ‏) کا قول ہے کہ ’’یہ امر قطعی یقینی ہے کہ’’کتاب الموتیٰ‘‘ اپنی مسلسل صورت میں اتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ مصری تمدن۔ اور جن ذرائع سے وہ کتاب ماخوذ ہے وہ اس قدر پردہ ٔقیامت میں پوشیدہ ہیں کہ ان کی نسبت کوئی تاریخ مقرر نہیں کی جاسکتی۔’’کتاب الموتیٰ‘‘ کی تاریخ میں ہم کو ٹھو س تاریخی باتیں شاہان مصر کے قدیم خاندانوں میں نظر آتی ہیں۔ اور اگر ہم اس روایت کا اعتبار کریں جو مصر میں مسیح سے اڑھائی ہزار سا ل قبل رائج تھی تو ہم یہ یقین کرنےمیں بالکل صحیح ہوں گے کہ اس کتاب کے بعض حصص جیسے کہ وہ موجودہ صورت میں ہیں ،پہلے فرمانروا خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ‘‘۔   ۶۲  

اس امر کے متعلق کہ یہ کتاب کس شخص کی تصنیف ہے ،ڈاکٹر مو صوف فرماتے ہیں کہ’’ زمانہ نا معلوم سے ثوث یاتھوتھ  (Thoth) ‏دیوتا ،جو دیوتاؤں کا میر منشی  (Scribe of the Gods) ‏اور عقل ربانی  (Divine Intelligence) ‏یا علم الہٰی بھی تھا جس نے بوقت آفرینش عالم وہ ا لفاظ کہے تھے جنہیں پتاہ  (Ptah) ‏ اور خنیمو  (Khnemu) ‏ نے صورت عمل دی تھی، وہ اس کتاب الموتیٰ کی تصنیف سے واقف تھا۔مصریوں کی حنوط شدہ لاشو ں کے ساتھ اس    ’’کتاب الموتیٰ‘‘ کا ایک نسخہ اس خیال سے دفن کر دیا جاتا تھا کہ مردہ اس کتاب سے ہدایت حاصل کرے اور وہ طریقے بھی سیکھ لے جن پر عمل کر کے وہ ان مختلف خطرات سے محفوظ رہے گا جو اسے دوسری دنیا میں پیش آئیں گے۔ ’’کتاب الموتیٰ‘‘ سے ہم کو قدیم مصری مذہب کے متعلق بہت کچھ معلومات حاصل ہوتی ہیں۔اس کتاب میں’’عدالت خانہ‘‘ کی ایک تصویر بھی ہوتی تھی، جو اگرچہ مختلف کتابوں میں مختلف ہوتی تھی مگر عام خاکہ سب کا ایک ہی سا ہوتا تھا۔اس تصویر میں جو عموماً پائی جاتی ہے، یہ دکھایا جاتا ہے کہ دو دیوتا ہوروس  (Horus) ‏ اور انوبیس  (Anubis) ‏ ترازو تول رہے ہیں۔ایک پلہ میں انسان کا دل رکھا ہوا ہے اوردوسرے میں حق و صداقت کی دیوی مات  (Maat) ‏ کا بُت ہے۔ ایک تیسرا دیوتا  (Thoth) ‏ ایک کاغذ پر مردہ کے اعمال کا حساب لکھ رہا ہے۔ترازو پر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے :

’’او سیرز (اوسیرس) کا عدل و انصاف ہو کر رہتا ہے۔خد اکے ایوان عدالت میں تراز و اپنے مقام پر متوازن قائم ہے ۔وہ کہتا ہے’’اب رہا اس کا دل تو اس کے دل کو اپنے مقام پر اوسیریز عادل میں داخل ہونے دو‘‘۔طیہوتی  (Tehuti) ‏شہر حسرت  (Heseret) ‏ کے صنم کبیر مالک بلدہ ٔ ہرسوپولس ،طیہوتی کے الفاظ کے مالک کو یہ کہنے دو‘‘۔

مردہ کو اپنے ذاتی نام کے علاوہ (جس کے لئے ایک خالی جگہ چھوڑ دی جاتی تھی) اوسیریز کا نام دینا یہ معنی رکھتا تھا کہ حساب کتاب میں ٹھیک اترنے کے بعد وہ بڑے دیوتا اوسیریز کی ذات میں شامل ہو جاتا ہے۔ جو قدیم مصریوں کا سب سے بڑا دیوتا تھا اور اس طرح اس مردہ کی روح خبیث طاقتوں کےحملہ سے مامون و مصنون ہو گئی۔ دیوتاؤں کے میر منشی طیہوتی کی تصویر کے سامنے ایک خوفناک جانور کھڑا ہوتا ہے جو صورت و شکل میں کتے سے ملتا جلتا ہوتا ہے۔ اس جانور کی نسبت یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ بدکاروں کو کھا جاتا ہے۔اس جانور کے سر پر یہ لکھا ہوا ہوتا ہے’’دشمنوں کو نگل کر انہیں مفتوح کرنے والی ملکہ جہنم کا کتا‘‘۔اس جانور کے قریب ایک قربانگاہ ہوتی ہے جس پر بہت سا پرشاد یا تبرک چڑھا ہوتا ہے اور یہ قربانگاہ اندرونی مندر کے دروازہ کے سامنے قائم ہوتی ہے۔مندر کے اندر ایک تخت پر خود اوسیریز متمکن ہوتا ہے۔اس کے ایک ہاتھ میں عصا اور دوسرے میں تازیانۂ عذاب ہوتا ہے۔یہ دیوتا بحیثیت ایک مصنف کے بیٹھا ہوتا ہےاور جب طیہوتی مردہ کے دل کو میزان میں تول کر نتیجہ درج کر لیتا ہے تو اسی کے مطابق اوسیریز مردہ کی روح سے معاملہ کرتا ہے۔اوسیریز کے سامنے ایک کتاہوتا ہے جس میں اس کے بعض خطابات درج ہوتے ہیں۔یہ عبارت اس طرح ہوتی ہے’’ اوسیریز نیک ہستی،معبود،مالک حیات،صنم کبیر،مالک عقبیٰ،فردوس اور دوزخ کا بادشاہ،معبود اعظم،شہر عبط  (Abt) ‏ کا مالک ،ازل کا بادشاہ،معبود‘‘۔ اس کے نیچے کئی مرتبہ الفاظ’’زندگی اور صحت ‘‘درج ہوتے ہیں۔

اس تصویر کا اگر میزان کے اس بیان سے مقابلہ کر کے دیکھا جائے جو’’صحیفۂ ابراہیمی‘‘ اور قرآن کے اندردرج ہے تو صاف ظاہرہوجاتا ہے کہ قرآن اور احادیث اور مسلمانوں کی روایات میں جس میزان کا ذکر کیا گیا ہے وہ قدیم مصری خرافیات سے لی گئی ہے اور یہ عقیدہ ان مسیحی خیالات کے ذریعہ سے پہنچا ہے جو صحیفہ ابراہیمی میں درج ہیں اور جو مصر میں پشت ہا پشت سے رائج تھے۔

بہشت میں آدم کی خوشی اور غم

قرآن کی سورۂ ’’بنی اسریٰ‘‘ کی پہلی آیت میں محمدﷺ کی معراج کا مختصر سا بیان ہےاور مسلمانوں کی روایات و احادیث اس کے مفصل اور وسیع حالات سے بھری پڑی ہیں۔ معراج کی آیت حسب ذیل ہے:

’’ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ‘‘۔ ترجمہ:’’تعریف ہے اس خدا کی جس نے ایک رات میں سفر کرایا اپنے بندہ کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے احاطہ کو ہم نے برکت دی ہے تاکہ ہم اسے اپنی ایک نشانی دکھائیں‘‘۔اس واقعہ کو واقعہ ٔ معراج محمدی کہتے ہیں۔اور اس پر ہم آئندہ باب میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ بحث کریں گے۔یہاں ہم نے اس واقعہ کا ذکر محض اس غرض سے کیا ہے کہ اس مشہور سفر کے متعلق جو ایک حدیث ہے اس کی سیر ہم اپنے ناظرین کو کرائیں۔کتاب ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘میں ایک منظر درج ہے جو محمدﷺ نے سات آسمانوں میں سب سے نیچے کے آسمان میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ لکھا ہے کہ:

’’پس جب اس نے ہمارے لئے سب سے نیچے کاآسمان کھول دیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی بیٹھا ہے۔اس کے داہنے اور بائیں ہاتھ کی طرف سیاہ صورتیں تھیں۔جب وہ اپنی داہنی طرف دیکھتا تھا تو ہنستا تھا اور جب وہ اپنی بائیں طرف دیکھتا تھا تو روتا تھا۔۔۔ میں نے جبرئیل سے پوچھا’’یہ کون ہے؟جبرئیل نے کہا’’ یہ آدم ہے اور اس کے داہنے اور بائیں ہاتھ کی طرف جو سیاہ صورتیں ہیں، وہ اس کی اولاد کی روحیں ہیں۔جو روحیں اس کی داہنی طرف ہیں وہ جنتی ہیں اور جو روحیں بائیں طرف ہیں وہ د وزخی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ اپنی داہنی طرف دیکھتا ہے تو ہنستا ہے اور جب اپنی بائیں طرف دیکھتا ہے تو روتا ہے‘‘۔

یہی روایت مشکوک الصحت کتاب’’صحیفۂ ابراہیمی‘‘ میں بھی ہے۔جیسا کہ مندرجہ ذیل اقتباس سے ثابت ہو گا:

’’میکائیل نے سواری کو موڑ ا اور ابراہیم کو جانب مشرق آسمان کے پہلے دروازہ پر لے گیا اور ابراہیم نے دوراستے دیکھے۔ایک راستہ ٹیڑھا اور تنگ اور دوسرا وسیع اور چوڑا تھا۔اور وہاں اس نے دو پھاٹک دیکھے یعنی ایک چھوٹا جو تنگ راستہ پر تھا اور دوسرا چوڑا جو وسیع راستہ پر تھا۔اور دونوں پھاٹکوں کے باہر کی طرف میں نے ایک آدمی کو تخت پربیٹھے دیکھا اور یہ تخت سونے سے منڈھا ہو اتھا اور اس آدمی کا چہرہ ایسا ہو لناک تھا جیسا خداوند کا چہرہ۔ اور میں نے دیکھا کہ بہت سی روحوں کو فرشتے ہانکے لئے جارہے تھے اور ان کو بڑے پھاٹک سے لے جایا جا رہا ہے۔ اور میں نے دوسری روحیں بھی دیکھیں ،مگر چند، جنہیں فرشتے تنگ راستے سے لے جارہے تھے اور جب اس عجیب وغریب آدمی نے جو طلائی تخت پر بیٹھا تھا تنگ راستہ سے کم اور بڑے راستہ سے زیادہ روحوں کو جاتے دیکھا تو اس نے فوراً اپنے سر کے بال اور اپنی داڑھی پکڑ لی اور خود کو تخت سے زمین پر گرادیا اور فریاد و زاری کرنے لگا۔اور جب وہ چھوٹے پھاٹک سے بہت سی روحوں کو داخل ہوتے دیکھتا تھا تو وہ زمین پرسے اٹھ کر اپنے تخت پر بیٹھ جاتا تھا اور بہت خوش ہوتا تھا اور خوشی کے مارے پھولا نہ سماتا تھا۔ابرہیم نے سپہ سالار سے دریافت کیا کہ’’اے میرے آقا سپہ سالار اعظم یہ عجیب و غیریب آدمی کون ہے جس پر اس قدر عظمت و شان برس رہی ہے اور جو ایک وقت فریاد و زاری کرتا ہے اور دوسرے وقت مسرور و شادماں ہوتا ؟‘‘تب اس ہستی بے جسم (میکائیل) نے کہا کہ’’یہ آدم ہے جو پہلا انسان ہے ،جسے پیدا کیا گیا ،جو ا س قدر عظمت و جلال کے ساتھ بیٹھا ہے اور وہ دنیا کو دیکھتا ہے کیونکہ سب آدمی اسی کی اولاد ہیں۔جب وہ بہت سی روحوں کو چھوٹے پھاٹک سے داخل ہوتے دیکھتا ہے تو وہ اٹھ کر اپنے تخت پر بیٹھ جاتا ہے اور مسرور و شادماں ہوتا ہے۔کیونکہ چھوٹے راستہ سے نیک اور عادل روحیں داخل ہوتی ہیں اور یہ راستہ حیات کی طرف لے جاتا ہے۔اور جو لوگ اس راستہ سے جاتے ہیں وہ جنت میں داخل ہو تے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آدم جوسب سے پہلا مخلوق شدہ انسان ہے، خوش ہوتا ہے کیونکہ وہ روحوں کو نجات پاتے ہوئے دیکھتا ہے۔ اور جب وہ بہت سی روحوں کو بڑے پھاٹک سے داخل ہوتے دیکھتا ہے تو وہ اپنے بال اکھاڑتا ہے اور خود کو تخت سے زمین پر گرا دیتا ہے اور بری طرح گریۂ بکا کرتا ہے کیونکہ بڑا پھاٹک گنہگاروں کا راستہ ہے جو تباہی اور عذاب ابدی کی طرف لے جاتا ہے   ۶۳  ‘‘۔

ماخوذات از عہد نامۂ جدید

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب محمدﷺ نے مشکوک الصحت نصرانی ذرائع سے اس قدر کثیر مواد لیا ہے تو کیاانہو ں نے عہد نامۂ جدید سے کچھ نہیں لیا ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ واقعی محمدﷺ نے عہد نامۂ جدید سے بہت کم مواد لیا ہے۔ یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ محمدﷺ نے بالواسطہ یہ باتیں سیکھی تھیں کہ عیسیٰ کا باپ کوئی بشر نہیں تھا،عیسیٰ مامور من اللہ تھا ،وہ معجزے دکھاتا تھا،اس کے بہت سے حواری تھے اور وہ آسمان پر چڑھ گیا تھا۔مگر محمدﷺ نے الوہیت مسیح سے انکار کیا، مسیح کی موت کو بنی آدم کے گناہوں کا کفارہ نہیں مانا (اور اسی وجہ سے مسیح کے نشر ثانیہ سے انکار کیا)۔ مگر بایں ہمہ قرآن اور احادیث میں عہد نامہ جدید کے بعض مقامات سے استفادہ کیا گیا ہے ،مثلاً قصّہ مائدہ یعنی مسیح اور اس کے حواریوں پر آسمان سے خوان نعمت کا نازل ہونایا محمدﷺ کےمتعلق انجیل میں پیش گوئی ہونا۔ان میں ایک خیال بہت نمایاں طور پر براہ راست انجیل سے لیا گیا ہے۔

یہ سورۂ الاعرف کی آیت ۴۰ ہے:

’’ إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ ‘‘۔

(ترجمہ)’’یقیناً جن لوگوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلا یا اور غرور تکبر کے ساتھ ہماری نشانیوں کی طرف سے ہٹ گئے ،ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھلیں گے اور وہ جنت میں داخل نہ ہوں گے تا وقتیکہ اونٹ سوئی کے ناکہ سے نہ گزر جائے ‘‘۔

یہ آیت انجیل لوقا۲۵:۱۸ کا لفظی ترجمہ ہے، جو یہ ہے ’’اونٹ کا سوئی کے ناکہ میں نکل جانا زیادہ آسان ہے بمقابلہ اس کے کوئی دولت مند آدمی خداکی سلطنت میں داخل ہو‘‘۔اسی کے قریب قریب الفاظ انجیل متی۲۴:۱۹ اور انجیل مرقس ۲۵:۱۰ میں بھی ہیں۔

احادیث میں بھی ایک نمایاں مثال اس عبارت کی ہے جوخط (انجیل کی کتاب)  (Epistle) ‏ سے لی گئی ہے۔یہ حدیث اکثر صاحب فکر مسلمانوں کی زبان پر رہتی ہے۔مگران کو اس کا مطلق علم نہیں کہ یہ مضمون بائبل سے لیا گیا ہے۔ابو ہریرہ نے محمدﷺ سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’میں نے اپنے نیک اور متقی بندوں کے لئے جوچیزتیار کی ہے ،جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ، نہ کسی کان نے سنا اورنہ کسی انسان کے دل میں آئی‘‘۔ہر شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ یہ عبارت ۱۔کر نتھیوں ۹:۲ سے لی گئی ہے۔ابو ہریرہ زیادہ ثقہ راوی نہیں مانے جاتے۔مگر سورۂ قیامت آیات۲۳،۲۲ کا مضمون ’’وجوہٌ یو مئذٍ نا ضرۃٌ،الیٰ ربھّا ناظرۃٌ‘‘، یعنی اس روز بعض چہرے منور ہو ں گے جو اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔ یقیناً انجیل یوحنا ۲:۳ اور ۱۔کرنتھیوں۱۲:۱۳ سے لیا گی اہے اور یہ بات وہی ہے جسے ابو ہریرہ نے محمدﷺ سے روایت کی ہے۔

 

پانچواں باب

قرآن واحادیث میں زر دشتی عنصر

عرب اوریونانی مصنفین کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ محمدﷺ کے زمانہ میں اور اس سے پیشتر جزیرہ نمائے عرب اور گردونواح کے ممالک پر ایرانیوں کا بہت بڑا اثر تھا۔ابو الفدا نے لکھا ہے کہ ساتویں صدی کے اوائل میں خسر و نوشیرواں (جسے اہل عرب کِسریٰ کہتے ہیں )زبردست ایرانی فاتح نے سلطنت حیرہ پر جو دریائے فرات کے کنارے واقع تھی ،حملہ کیا تھا اور وہاں کے بادشاہ حارث کو تخت سے اتار دیا۔اور اس کی جگہ اپنا ایک آوردہ (لایا ہوا۔سفارشی) منذماء السما تخت نشین کر دیا۔اس کےکچھ ہی دن بعد نو شیرواں نے یمن میں ایک فوج بھیجی جس کی کمان جنرل بہروز  (Vahraz) ‏کے سپرد تھی۔ اس مہم کا مقصد یہ تھا کہ وہاں سے حبشیوں کو نکال دے اور وہاں کا تخت و تاج ابو سیف یمنی کے حوالہ کر دے کیونکہ وہ اس کاا ٓبائی تخت تھا۔مگر ایرانی سپاہ ملک یمن میں قائم رہی اور بالآٓخر اس فوج کا جنرل ہی تخت پر بیٹھ گیا اور اسی کی نسل میں سلطنت جاری ہو گئی۔

ابو لفدا نے لکھا ہے کہ خاندان منذر کے ملوک جو اس کے بعد تخت حیرہ پر بیٹھے اور جن کی حکومت عراق عرب پر بھی تھی، وہ در اصل شاہا ن ایران کی طرف سے بطور گورنر کام کرتے تھے۔یمن کے متعلق یہ مورخ بیان کرتا ہے کہ محمدﷺ کی حکومت قائم ہونے سے پیشتر یمن میں چار حبشی اور آٹھ ایرانی فرمانروا ؤں نےسلطنت کی تھی۔مگر اس زمانہ سے بھی بہت عرصہ قبل شمال مغربی اور مغربی عرب کے تعقات سلطنت ایران سے قائم تھے۔بیان کیاجاتا ہے کہ نوفل اور مطلب جو محمدﷺ کے بزرگ تھے،وہ قبیلہ قریش کے ممتاز سردار تھے۔انہوں نے ایران سے ایک معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے تجار مکہ کو عراق اور فارس میں تجارت کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔۶۰۶ء میں یااسی کے لگ بھگ مکہ کے سوداگروں کی ایک جماعت زیر قیادت ابو سفیان دارالحکومت ایران میں گئی اور شہنشاہ ایران کی خدمت میں حاضر ہوئی۔

جب محمدﷺ نے ۶۱۲ء میں نبوت کا دعویٰ کیا تو اس زمانہ میں ایرانیوں نے تمام ملک شام ،ایشیائے کوچک اور فلسطین پر کچھ دنوں کے لئے قبضہ کر لیا تھا۔۶۲۲ء میں جب محمدﷺ نے ہجرت کی تو شہنشاہ ہرقل  (Heraclius) ‏ نے سلطنت باز نطینی کے ازدست رفتہ علاقے واپس لینا شروع کر دیئے تھے ، جس کے بعد ایرانیوں کو صلح کی درخواست کرنا پڑی تھی۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب یمن کے ایرانی گورنر بثیرن کو وطن کی طرف سے امداد پہنچنےکی کوئی امید نہ رہی تو وہ ۶۶۸ء میں محمدﷺ کی اطاعت کرنے اور خراج دینے پر مجبور ہو گیا۔بعد ازاں محمدﷺ کی وفات سے چند سال بعد عربی فوجوں نے تمام ایران کو فتح کر لیا اور وہاں کی بہت بڑی آبادی کو بنوک شمشیر مسلمان بنا لیا۔

جب کبھی ایسی دو قومیں جن میں سے ایک تمدن و شائستگی میں بہت زیادہ ترقی یا فتہ ہو اور دوسری نسبتاً جاہل ہو ،آپس میں مل جاتی ہیں توترقی یافتہ قوم دوسری قوم پر ہمیشہ بہت بڑا اثر ڈالتی ہے۔تمام تاریخ اس حقیقت سے معمور ہے۔ محمدﷺ کے زمانہ میں عرب لوگ بہت ہی کم تعلیم یافتہ اور مہذب تھے۔حتّٰی کہ خود عرب مصنفین عرب کے زمانہ قبل از اسلام کو’’زمانۂ جاہلیت‘‘ کہتے ہیں۔دوسری طر ف جیسا کہ ہم کو ’’اَوَستا‘‘ دار یوس و کنحیرو کی میخی تحریروں پر سی پولیس (قدیم پایہ تخت ایران ) کے آثار قدیمہ اور یونانی مصنفین کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے، ایرانی قوم بہت ہی قدیم زمانہ سے نہایت ترقی یافتہ اور شائستہ تھی۔بس یہ قدرتی امر تھا کہ عربوں پر اس قوم کا بہت اثر پڑتا۔ عرب مورخین، قرآن کے بیانات اور مفسرین قرآن کی تحریروں سے ظاہرہوتا ہے کہ ایران کے رومانی قصص اور عجمی شعر شاعری نے محمدﷺ کے زمانہ میں عربوں میں بہت کچھ ہر دلعزیزی حاصل کر لی تھی۔قریش میں یہ ایرانی قصے اس قدر زیادہ مشہور تھے کہ محمدﷺ کے مخالفین نے ان پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے قرآن میں ایرانی قصص سے موادلیا ہے یا نقل اتاری ہے،مثلاً ابن ہشام نے بیان کیا ہے کہ:

’’ایک روز محمدﷺ نے لوگوں کو جمع کیا اور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا۔انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اور ڈرایا کہ جو قومیں ایمان نہ لائیں گی ان کا کیا حشر ہوگا۔اس وقت نضربن حارث جو محمدﷺ کے ساتھ مجمع میں گیا تھا،اٹھا اور اس نے رستم و ستان،اسفند یار اور شاہا ن ایران کے قصے سنائے اور پھر یوں کہاکہ’’قسم خدا کی محمدﷺ مجھ سے اچھا داستان گو نہیں ہے اور اس کی تقریر میں اساطیر الاولین کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جس طرح میں نے یہ قصے بنا کر سنائے ہیں اسی طرح محمدﷺ نے بھی بنائے ہیں‘‘۔

اسی شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ’’وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا قُلْ أَنزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا‘‘ (سورۂ فرقان آیات ۶،۵)۔اور اسی شخص کی وجہ سے یہ آیت بھی نازل ہوئی تھی ’’ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ‘‘۔ یعنی جب ہماری آیتیں اس کو سنائی جاتی ہیں تو وہ انہیں پرانے لوگوں کے قصے کہتا ہے ‎‎ (سورۂ قلم آیت ۱۵)۔ اور یہ آیت بھی اسی شخص کی وجہ سے نازل ہوئی تھی۔ ’’ وَيْلٌ لِّكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ يَسْمَعُ آيَاتِ اللَّهِ تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ‘‘۔ یعنی افسوس ہے ہر اس گنہگار جھوٹے پر جو سنتا ہے اللہ کی آیتوں کو جب اسے سنائی جاتی ہیں اور پھر اس طرح سے اکڑتا ہے گو یا اس نے سنی ہی نہیں۔ پس تم اسے ایک تکلیف دہ عذاب کی خبر سنا دو‘‘ ‎‎ (سورہ ۴۵آیات۸،۷)۔

’’رستم و اسفند یار‘‘ اور’’ملوک فارس‘‘ کے قصے جن کا ذکر نضربن حارث نے کیا تھا یقیناً ان قصص میں شامل ہیں جو کچھ عرصہ بعد ایران کے مشہور رزمیہ شاعری فردوسی نے شاہنامہ میں نظم کئے اور جن کی نسبت وہ بیان کرتا ہے کہ ایک ایرانی دہقان سے سنے گئے تھے۔یقیناًیہ قصے کسی نہ کسی صورت میں بہت قدیم تھے۔مگر ہم اپنی بحث میں شاہنامہ کے قصوں کا حوالہ نہیں دیں گے کیونکہ وہ محمدﷺ سے بہت زمانہ پہلے کی تصنیف ہے۔ اس لئے ہم جو کچھ لکھیں گے وہ اوستا کے حوالہ سے لکھیں گے کیونکہ پارسیوں کی اس کتاب کی قدامت پر کوئی شخص اعتراض نہیں کر سکتا۔یہ بات صاف ظاہر ہے کہ چونکہ عربوں کو رستم و اسفند یار اور ملوک عجم کے قصوں سے اس قدر دلچسپی تھی تو انہوں نے جمشید کا قصّہ بھی ضرور سنا ہوگا۔اور یہ امر بھی قرین قیاس ہے کہ انہوں نے ارو ادیراف اور اس سے پیشتر خود زردشت کے آسمان پر جانے کے ایرانی قصص متعلق بہ فردوس،پل چنوات  (Chinvat) ‏اور درخت ہواپہ  (Hvapah) ‏ وغیرہ بہت سے عجیب و غریب دلچسپ قصے عربوں کو ضرور معلوم ہوں گے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ اس قسم کے خیالات کا قرآن اوراحادیث اور مسلم روایات پر کہاں تک اثر پڑا۔ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ نہ صرف اس صورت میں بلکہ بعض مثالوں میں یہ ایرانی قصص آریا روایات پر مبنی ہیں،سامی الاصل نہیں اور یہ قصص خفیف سے تغیر کے ساتھ ہندوستان میں بھی پائے جاتے ہیں۔اور درحقیقت یہ قصص دونوں قوموں کے مذہبی اور علمی ورثہ کا ایک جزو تھے۔اور جب آریا قوم کی ایرانی اور ہندوستانی شاخیں اپنے قدیم وطن واقع’’ایریانم وائجو‘‘  (Airyanem  Vaejo) ‏ متصل ہرات سے جدا ہو کر ایران اور ہندوستان میں آباد ہوئے تو یہ تمام قصص ان کو یاد تھے۔اور ممکن ہے کہ بہت سے خیالات زمانۂ مابعد میں ایران کے اندر پیدا ہوئے ہوں اور کچھ عرصہ بعد ہندوستان آگئے ہوں۔ہم یہ بات دکھائیں گے کہ واقعی یہ ایرانی قصص ضرور محمدﷺ کے گوش گزار ہوئے تھے اور ان کا قرآن اور احادیث پر ضرور بالضرور اثر پڑا۔یہ احادیث مسلسل رایوں کے ذریعہ سے خود محمدﷺ تک پہنچتی ہیں۔

شب معراج

پہلی بات جس پر ہم یہاں بحث کریں گے وہ محمدﷺ کی شعب معراج کاحال ہے اور مسلمانوں میں یہ واقعہ بہت ہی مشہور ہے۔یہ واقعہ سورۂ بنی اسرئیل کی آیت ۱ میں بیان ہوا ہے جو حسب ذیل ہے:

’’ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ‘‘۔ ’’تعریف اس اللہ کی جس نے ایک رات میں سفر کرایا اپنے بندہ کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے احاطہ کو ہم نے برکت دی ہے تاکہ ہم اسے اپنی نشانی دکھائیں‘‘۔

یہ بھی معلوم ہے کہ مسلمان مفسرین اس آیت کی تفسیر میں متفق الخیال نہیں ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ محمدﷺ کو یہ معراج خواب میں ہوئی اور بعض اس کے لفظی معنی لے کر جسمانی معراج کہتے ہیں اور بعض اس کے تمثیلی معنی لیتے ہیں،مثلاًً ابن اسحاق بہ حوالہ حضرت عائشہ زوجۂ رسول لکھتا ہے کہ’’رسول خدا کا جسم غائب نہیں ہوا بلکہ اللہ ان کی روح کو رات وقت سفر پر لے گیا‘‘۔ایک اور حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ محمدﷺ نے خود کہا کہ’’ میری آنکھیں سور ہی تھیں اور میرا دل بیدار تھا‘‘۔ مشہورو معروف مفسر محی الدین نے تمام قصّہ استعارتاً لیا ہے۔مگر چونکہ ہم کو یہاں اس سے زیادہ بحث نہیں ہے کہ اس شب معراج میں دراصل کیا کیا واقعات رونما ہوئے تھے ،اس لئے ہم اس مسئلہ پر اس نقطہ ٔ نظر سے مزید بحث نہیں کریں گے۔یہ صحیح ہے کہ مسلمان مفسرین اور محدثین کی غالب اکثریت یہ یقین کرتی ہے کہ محمدﷺ واقعی مکہ سے بیت المقدس کو گئے ،انہوں نے آسمانوں کی بھی سیر کی اور جو کچھ محمدﷺ نے وہاں دیکھا وہ لوگ اس کے متعلق نہایت طویل اور دلچسپ باتیں بیان کرتے ہیں۔ اور ہم کو انہی احادیث سے بحث کر کے بتانا ہے کہ اس واقعہ کی خاص خاص باتیں قدیم روایات سے کس حد تک لئ گئی ہیں۔

اب ہم سب سے پہلے معراج کے متعلق وہ بیان درج کرتے ہیں جو ابن اسحٰق نے لکھا ہے کیونکہ اس بارے میں قدیم تر بیان یہی ہے۔یہ حالات ابن ہشام نے جو ابن اسحٰق کی کتاب کامدیر اور اس کی تکمیل کرنے والا تھا یوں لکھے ہیں کہ:

’’معراج کی شب جبرئیل نے دو مرتبہ آکر محمدﷺ کو جگایا تا کہ معراج کے سفر پر چلے مگر محمدﷺ دونوں مرتبہ سو گئے‘‘۔

اس کے بعد اس قصّہ کا سلسلہ مصنف مذکور نے محمدﷺ کی زبان سے اس طرح پیش کیا ہے:

’’ پس وہ (جبرئیل) میرے پاس تیسری مرتبہ آیا۔اور اس نے مجھے اپنے پاؤں سے چھوا اور میں اُٹھ بیٹھا۔اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں اس کے پاس اٹھ کھڑا ہو گیا۔بعد ازاں وہ مسجد کے دروازہ پر گیا۔کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سفید جانور جو صورت شکل میں ایک خچر اور گدھے کے مابین تھا، کھڑا ہوا ہے۔اس کے دونوں پہلوؤں پر دو بازو تھے جن سے وہ اپنی ٹانگوں کی نقل و حرکت کو بھی قابو میں رکھتا تھا۔ وہ اپنا اگلا پاؤں حد نظر تک رکھتا تھا۔اس نے مجھےاس جانور پر سوار کرایا اور بعدا زاں وہ مجھے لے کر روانہ ہوا۔لیکن اس طرح سے کہ نہ وہ مجھ سے آگے بڑھتا ہے ،نہ میں اس سے آگے چلتا ہوں۔۔۔۔جب میں اس (جانور) کے پاس سوار ہو نے کے لئے پہنچا تو وہ چراغ پا ہو گیا۔پس جبرئیل نے اپنا ہاتھ اس کے ایال (گھوڑے یا جانور کی گردن کے لمبے بال) پر رکھا اور کہا’’ اے براق! تجھے شر م نہیں آتی کہ تو کیا کررہا ہے؟وا للہ اے براق ! تجھ پر محمدﷺ سے پہلے کوئی بندہ خدا ایسا سوار نہیں ہوا جس کی عزت و احترام اللہ کے نزدیک محمدﷺ سے زیادہ ہو‘‘۔یہ سن کر براق اس قدر شرمندہ ہوا کہ مارے شرم کے عرق عرق ہو گیا۔پس وہ ساکت و ساکن کھڑا ہو گیا حتّٰی کہ میں اس پر سوار ہوا‘‘۔

الحسن سے حدیث مروی ہے کہ:

’’ رسول اللہ تشریف لے گئے اور جبرئیل بھی ان کے ساتھ گیا ،حتٰی کہ وہ ان کے ساتھ بیت المقدس (یروشلیم )پہنچا۔وہاں انہوں نے انبیا کے ایک گروہ میں ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیکھا۔پس رسول اللہ نے ان کے ساتھ نماز پڑھی اورجماعت کی امامت کی۔اس پر جبرئیل دو ظرف لایا۔ایک برتن میں شراب اور دوسرے برتن میں دو دھ تھا۔پس رسول اللہ نے دودھ کا برتن لے کر اس میں سے پیا اور شراب کا برتن چھوڑ دیا۔پس جبرئیل نے رسول اللہ سے کہا کہ’’اے محمدﷺ تیری رہنمائی فطرت کی طرف سے ہوئی اورتیری امت کی رہنمائی بھی فطرت کی طرف سے ہوئی۔اور شراب تمہارے لئے ممنوع قرار دی گئی‘‘۔پس رسول اللہ رخصت ہوئے اور جب صبح ہوئی تو وہ قریش کے پا س گئے اور ان کو جا کر یہ تمام حال سنایا۔یہ سن کر بہت سے آدمیوں نے کہا کہ’’واللہ مکہ سے ملک شام تک پہنچنےمیں کارواں کو ایک مہینا لگتا ہے اور ایک مہینہ واپس ہونے میں لگتا ہے۔کیا یہ شخص محمدﷺ ایک ہی رات میں وہاں پہنچ کر مکہ کو واپس آسکتا ہے‘‘۔

مندرجۂ بالا بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محمدﷺ مکہ سے یروشلیم گئے اور وہاں سے پھر مکہ کو ایک ہی رات میں واپس آگئے۔اس کے بعد کی روایات میں اس واقعہ کی تفصیلات بہت طویل دی گئی ہیں۔مگر سب میں یہ بیان گیا ہے کہ یہ واقعات خود محمدﷺ نے اپنی زبان سے بیان کئے تھے۔کتاب ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘میں مسلسل راویوں کے حوالہ سے حسب ذیل حدیث بیان کی گئی ہے:

’’رسول اللہ نے فرمایا۔۔۔کہ جس وقت میں سو رہا تھا۔۔۔ایک آنے والا میرے پاس آیا۔پھر اس نے کھولا جو کچھ اس کے اور اس کے درمیان تھا۔۔۔ اور اس نے میرا دل باہر نکال لیا۔ تب میرے پاس ایمان سے لبریز ایک پیالہ لایا گیا۔ میرا دل دھو یا گیا اور اسے پھر اس کی جگہ رکھ دیا گیا۔ پھر میں ہوش میں آگیا۔۔۔پھر میرے پاس ایک جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا اور رنگ اس کا سفید تھا۔ اس کو بُراق کہتے ہیں اور وہ اپنا اگلا پاؤں حد نظر سے بھی آگے رکھتا ہے۔پھر مجھے اس جانور پر بٹھایا گیا اور جبرئیل مجھے لے گیا حتّٰی کہ میں سب سے نیچے والے آسمان تک پہنچا۔یہاں پہنچ کر اس نے آسمان پر داخل ہونا چاہا،تو دریافت کیا گیا کہ تو کون ؟ اس نے کہا کہ میں جبرئیل ہوں۔پھر پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ محمدﷺ ہے۔پھر پوچھا گیا کہ اسے طلب کیا گیا تھا؟اس نے کہا کہ ہاں۔ا س پر کہا گیا کہ’’اہلاً سہلاً مرحبا،خوش آمدید‘‘۔تب ایک نے دروازہ کھولا۔پس جب میں اندر داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں حضرت آدم موجود ہیں۔ جبرئیل نے کہا کہ یہ تیرے باپ آدم ہیں پس تم انہیں سلام کرو۔ پس میں نے اس کو سلام کیا۔ تب اس نے کہا کہ’’خوش آمدید اے میرے اچھے بیٹے اور اچھے نبی ‘‘۔

الغرض یہ قصّہ یونہی بہت کچھ تکلیف دہ تواتر کے ساتھ چلا جاتا ہے،جس میں بیان کیا گیا کہ کس طرح جبرئیل محمدﷺ کو ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر لے گیا اور ہر جگہ وہی سوال و جواب ہوئے جو پہلے آسمان میں داخل ہونے کے وقت ہوئے تھے۔دوسرے آسمان پر محمدﷺ کی ملاقات یحییٰ اور عیسیٰ سے کرائی گئی۔تیسرے آسمان پریوسف سے ،چوتھے آسمان پر ادریس سے،پانچویں آسمان پر ہارون سے اور چھٹے پر موسیٰ سے۔موسیٰ ، محمدﷺ کو دیکھ کر رودیئے اور جب اس رونے کا سبب دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ میری اُمت کے مقابلہ میں محمدﷺ کی امت کےزیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ساتویں آسمان پر محمدﷺ کی ملاقات ابراہیم سے ہوئی اور وہاں بھی حسب سابق صاحب سلامت ہوئی۔اس کے بعد مجھے اٹھا کر’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘تک پہنچایا گیا۔کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے پھل اس قدر بڑے تھے جیسےکہ کسی کمہار کی ہانڈیاں اور اس کے پتے اس قدر چوڑے تھے جیسے کہ ہاتھی کے کان۔اس نے کہا کہ’’یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے‘‘۔ پھر کیا دیکھتا ہوں کہ چار دریا بہہ رہے ہیں جن میں دو اندرونی اور دو بیرونی ہیں۔میں نے جبرئیل سے دریافت کیا کہ یہ دو دریا کون سے ہیں؟اس نے جواب دیا کہ دو اندرونی دریا جنت کے ہیں اور دو بیرونی دریا رود نیل اور نہر فرات ہیں‘‘۔اسی طرح اس حدیث میں بہت سے حالات سفر بیان کئے گئے ہیں۔منجملہ ان کے آدم کا ہنسنا اور رونا بھی جس کا ذکر ہم اس سے قبل کر چکے ہیں۔جب جبرئیل سدرۃالمنتہیٰ تک پہنچا۔جس سے آگے بڑھنے کی وہ جرات نہیں کر سکتا تھا تو اسرافیل فرشتہ نے آکر محمدﷺ کو اپنے ساتھ لے لیا اور انہیں اپنے حدود اختیار کے اندرسیر کرائی۔ جہاں سے رسول اللہ آگے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے عرش تک پہنچے۔پھر چند تفصیلات کے بعد بیان کیا جاتا ہے کہ محمدﷺ پردہ کے اندر داخل ہو گئے اور خدا نے ان سے کہا’’یانبی السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ‘‘وغیرہ وغیرہ۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ معراج کے حالات کہاں سے لئے گئے ہیں۔ممکن ہے کہ سب سے پہلے جو حالات خود محمدﷺ نے معراج کے بیان کئے ہوں گے ان کی بنیاد خواب پر ہوگی۔ اور غالباً اس میں آسمانوں پر جانے کا کوئی ذکر نہ ہو گا،بشرطیکہ سورۂ النجم کی آیات۱۲۔۱۷ کو بعد کی وحی سمجھا جائے۔ مگر ہمیں تو اس بیان سے بحث ہے جو احادیث میں درج ہے اور جن میں معراج کا حال نہایت تفصیل کے ساتھ دیا گیا ہے۔ہم یہ دکھائیں گے دوسری باتوں کی طرح یہ روایت بھی صرف یہ ظاہر کرنے کے لئے ایجاد کی گئی تھی کہ محمدﷺ کو بمقابلہ دیگر انبیا کے خدا کے دربار میں بہت زیادہ رسائی حاصل تھی اور وہ دیگر انبیا کے مقابلہ میں اللہ کے زیادہ محبوب تھے۔یہ بھی ممکن کہ مختلف روایات سے کانٹ چھانٹ کر کے اسلامی روایت گڑھ لی گئی ہو۔مگر اس کا ماخذ زیادہ تر ارداویرف پارسی کی معراج کے حالات معلوم ہوتے ہیں جو پہلوی (پرانی ساسانی عہد کی فارسی زبان ) زبان کی ایک کتاب’’ارداویراف نامک‘‘  (Arta' Viraf Namak)  ۶۴   میں درج ہیں۔یہ کتاب محمدﷺ سے تقریباً چارسو برس قبل زبان پہلوی میں بعہد ارد شیر بابکان شاہ ایران لکھی گی تھی۔

کتاب’’ارداویرف نامک‘‘ میں لکھا ہے کہ جب مقتدایان دین زردشت نے یہ دیکھا کہ سلطنت ایران کے لوگوں کے دلوں سے دین زردشت کا اثر بہت کچھ زائل ہو گیا ہے تو مجوسی علمائے دین نے یہ فیصلہ کیاکہ جس مذہب کو اردشیر بابکان کے جوش مذہبی نے ازسر نو پھیلانا چاہا تھا،اس میں تازہ شہادتوں کے ذریعہ پھر جان ڈالنا چاہیئے۔لہٰذا انہوں نے ایک نہایت متقی و پرہیزگار اور جوان عالم مذہب کو منتخب کیا جس کی تمام زندگی نہایت پاک بازانہ اور زاہدان مرتاض کی طرح گزری تھی۔ اور پاکیزگی و طہارت کے متعلق بہت سی رسمیں اد ا کرنے کے بعد انہوں نے اس نوجوان کو آسمان پر جانے کے لئے تیار کیا تاکہ وہ وہاں جا کر دیکھے کہ وہاں کیا ہے۔اور واپس آکر اطلاع دے کہ جو کچھ اس نے وہاں دیکھا وہ مجوسیوں کی مذہبی کتب کے مطابق ہے یا نہیں۔بیان کیا جاتا ہے کہ جب اس نوجوان مسمی ارداویراف پر عالم بے خودی طاری ہو اتو اس کی روح ایک مقرب فرشتے سروش کی رہنمائی میں آسمانوں پر پہنچی۔ایک منزل سے دوسری منزل تک گزرتی چلی گئی۔اور رفتہ رفتہ اسی طرح اسے معراج حاصل ہوتی رہی حتّٰی کہ وہ خود ہر مزد کی جناب میں پہنچی۔جب ارداویراف آسمانوں کی تمام چیزیں دیکھ چکا اور یہ بھی دیکھ چکا کہ ساکنان افلاک کی زندگی نہایت عیش و مسرت کے ساتھ گزرتی ہے ،تو ہر مزد نے اس کوحکم دیا کہ اب وہ اس کے رسول کی حیثیت سے زمین پر جائے اور جو کچھ اس نے دیکھا ہے وہ سب حال پیروان زردشت سے بیان کرے۔الغرض جو کچھ اس نے دیکھا تھا وہ تمام حالات’’ ارداویراف نامک‘‘ میں درج ہیں۔تمام باتیں لکھنا تو غیر ضروری معلوم ہوتا ہے مگر بعض اقتباسات کے دیکھنے سے یہ بخوبی روشن ہو جائے گا کہ معراج کی روایت گڑھنے میں اس سے کتنا کام لیا گیا۔کتاب’’ ارداویراف نامک‘‘ باب۷پیرا۱۔۴ میں لکھا کہ:

’’ میں ’’ہُمت‘‘  (Humat) ‏ منزل کواکب میں پہلا قدم بڑھاتا ہوں۔۔۔ اور میں ان مقدس لوگوں کی روحیں دیکھتا ہوں جن سے نور اس طرح نکل کر پھیلتا ہے جیسے کسی درخشاں ستارہ سے۔اور وہاں ایک تخت ہے، ایک نشست گاہ ،بہت درخشاں اور بلند اور رفیع المنزلت۔تب میں نے پاک سروش اور آذر فرشتہ سے دریافت کیا کہ’’یہ کون سا مقام ہے اور یہ کون لوگ ہیں؟‘‘

 عبارت مندرجہ بالا کی تصریح کرتے ہوئے یہ بیان کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ’’منزل کواکب‘‘ یہی مقام ہے جو دین زردشت میں زیریں یا اولین طبقۂ بہشت کہلاتا ہے۔آذر فرشتہ’’موکل آتش ‘‘ ہے۔سروش’’اطاعت کا فرشتہ ‘‘ہے اور وہ ’’مقدسین ازلی ‘‘یعنی ’’Eternal Holy Ones‘‘ ‏ (امیشا سپنتا یا امشا سپند) دین زردشت کے ملائکہ مقربین میں داخل ہے۔جس طرح جبرئیل نے محمد کو سیرکرائی اسی طرح سروش نے بھی اردویراف کو مختلف آسمانوں کی سیر کرائی۔

اس کے بعد قصّہ کا سلسلہ اس طرح جاری ہوتا ہے کہ کس طرح ارداویراف پہلے منزل قمر یعنی دوسرے آسمان پراور بعد ازاں منزل شمس میں پہنچا جو قصور آسمانی میں تیسرا قصر ہے۔اسی طرح وہ بتدریج ہر آسمان پر لے جایا گیا حتّٰی کہ وہ ہر مزد کے حضور میں پہنچا دیا گیا۔جہاں اس کی ہر مزد سے اس طرح گفتگو ہوئی جو کتاب’’ ارداویراف نامک‘‘ کے باب۱۱ میں بایں الفاظ درج ہے:

’’اور آخر میں اپنے تخت پرسے جس پر سونا چڑھا ہوا تھا سردار فرشتہ بہمن اٹھا اور اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے ہُمت  (Humat) ‏ اور ہُخت  (Hukht) ‏ اور ہو راست  (Hurast) ‏ میں لے گیا جہاں ہر مزد اور ملائکہ مقربین اور دیگر مقدسین اور زردشت پاک باطن کی روح۔۔۔اور دیگر ایمانداران و سرداران دین زردشت موجود تھے جن سے بہتر ادر نورانی ترین میں نے کوئی چیز نہیں دیکھی۔اور بہمن نے کہا’’یہ ہر مزد ہے‘‘۔اور میں نے اس کو سلام کرنا چاہا اور اس نے مجھ سے فرمایا’’سلام تجھ پر او، ارداویراف! خوش آمدی وصفا آور دی!تو اس دنیا ئےفانی سے اس پاک اور نورانی مقام میں آیا ہے‘‘۔ پھر اس نے پاک سروش اور فرشتہ آذر کو حکم دیا’’ ارداویراف کو لے جاؤ اور اسے عرش دکھاؤ اور دکھاؤ کہ پاکبازوں کو کیا جزا اور بدکاروں کو کیا سزا ملتی ہے‘‘۔بالآخر پاک سروش اور فرشتہ آذر نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے گئے اور میں نے ان ملائکہ مقربین اور دیگر فرشتوں کو دیکھا‘‘۔

اس کے بعد طویل تفصیلات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ارداویراف نے بہشت و دوزخ کی کس طرح سیر کی اور وہاں اس نے کیا کیا دیکھا۔دوزخ کا حال بیان کرنے کے قصّہ کا سلسلہ اس طرح شروع ہوتا ہے:

’’بالآخر پاک سروش اور فرشتہ آذر نے میرا ہاتھ پکڑ اور وہ مجھے اس ظلمت کدہ ،خوفناک اور دہشت انگیز مقام سے نکال لائے۔اور مجھے مقام نورانی اور ہر مزدو ملائکہ ،مقربین کی مجلس میں لے گئے۔تب میں نے ہر مزد کی خدمت میں سلام عرض کرنا چاہا اور وہ بہت مہربان ہوا۔اور اس نے کہا کہ’’اے وفادار بندے مقدس ارداویراف،پرستار ان ہرمزد کے پیغمبر ،اب تو مادی دنیا میں جا اور وہاں کی مخلوق سے سچ سچ بیان کر جو کچھ تو نے یہاں دیکھا ہے اور جو کچھ معلوم کیا ہے کیونکہ میں جو ہر مزدہوں،یہاں موجود ہوں۔جو شخص سچ سچ اور صحیح بولتا ہے ،وہ میں سنتا اور جانتا ہوں۔پس تو بھی دانش مندوں کے سامنے تمام حال بیان کر‘‘۔اور جب ہر مزد نے اس طرح سے کیا تو میں حیران و ششدر ہ گیا کیونکہ میں نے صرف ایک نور دیکھا اور کسی شخص کو نہیں دیکھا۔اور میں نے ایک آواز سنی اور میں جانتا تھا کہ وہ ہر مزد ہے‘‘ْ۔

اس بیان سننے کے بعد یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ارداویراف کے بیان اور معراج محمدی کے حالات میں کس قدر مطابقت موجود ہے۔ کتاب’’زردشت نامہ‘‘میں جو غالباً تیرہویں صدی عیسوی میں لکھی گئی تھی،ایک روایت بیان کی گئی ہے کہ ارداویراف سے بھی صدیوں پیشتر خودزردشت آسما ن پر گیا اور بعد میں اسے دوزخ کی سیر کرنے کی بھی اجازت مل گئی۔وہاں ا س نے اہرمن کو دیکھا جو قرآن کے ابلیس سے بہت زیادہ مطابق ہے۔

اس قسم کی روایات آریا دنیا میں صرف ایران تک محدود ہیں۔سنسکرت زبان میں بھی اس قسم کےقصص موجود ہیں جن میں ایک قصّہ ’’اندر لوک گمانم‘‘  (Indralokagamanam) ‏ یعنی ’’اندر کی دنیا کاسفر‘‘ہے۔اندر فضا یا عالم بالاکا دیوتا ہے۔اس قصّہ میں بیان کیا گیا ہے کہ مشہور و معروف سورما ارجن آسمانوں پرگیا جہاں اس نے راجہ اندر کا بہشتی محل’’وائونتی ‘‘  (Vaivanti) ‏ دیکھا جو’’نندیم باغ‘‘  (Nandam) ‏ میں بناہوا ہے۔ہندو کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ اس خوبصورت مقام میں جس قدر ہرے بھرے پودے پیدا ہوتے ہیں انہیں ہمیشہ جاری رہنے والے آب رواں کے چشمے سیراب کرتے ہیں ۔اور اس مقام کے درمیان میں ایک درخت لگا ہوا ہے جس کو ’’پکش جتی‘‘  (Pakshajati) ‏کہتے ہیں۔اس درخت پر’’امرت پھل‘‘یا ’’ثمرۃ الحیاۃ‘‘ لگتا ہے۔اسی کو شعرائے یونان قدیم نے اپنے یہاں ’’ἀμβροσία‘‘‏ لکھاہے۔خواص اس پھل کے یہ ہیں کہ جو کوئی اسے کھا لیتا ہے وہ کبھی نہیں مرتا۔اس درخت پرگونا گوں خوبصورت پھول لگے ہوئے ہیں اور جو شخص اس درخت کے زیر سایہ آرام کرتا ہے اس کے دل کی ہر خواہش پوری ہو جاتی ہے۔ پارسیوں کے یہاں بھی ایک عجیب و غریب درخت کا وجوہ پایا جاتا ہے۔جس کا نام اوستا میں ’’ہواپہ ‘‘ پہلوی میں ہمایا ہے۔دونوں صورتوں میں اس کے معنی’’اچھے پانی والا‘‘ اور ’’شاداب‘‘ ہیں۔وندیداد  (Vendidad) ‏ میں اس کا حال بالفاظ ذیل لکھا ہے:

’’پاکیزگی اور صفائی کے ساتھ ’’پوئی ٹیکا‘‘  (Puitika) ‏ کے سمندر سے ’’واؤ رکشا‘‘  (Vourukasha) ‏ کے سمندر میں اور وہاں سے درخت ’’ہواپہ‘‘تک پانی بہتے ہیں۔تمام پودے اورہرقسم کے پودے وہاں پیدا ہوتے ہیں‘‘۔

ہواپہ اور’’پکش جتی‘‘ دونوں مسلمانوں کی بہشت کے درخت طوبیٰ ہیں۔جس کا حال بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔لفظ طوبیٰ کے معنی’’نیکی کا درخت ‘‘ ہیں۔یہاں یہ واضح کر دینا بھی بے محل نہ ہو گا کہ اسی قسم کی روایات بعض مشکوک الصحت عیسائی کتب میں بھی پائی جاتی ہیں خصوصاً’’ویزیو پالی‘‘  (Visio Pauli) ‏ اور ’’صحیفۂ ابراہیمی‘‘۔موخر الذکر کتاب کا حوالہ ہم کئی جگہ دے چکے ہیں۔’’ویز یو پالی‘‘میں لکھا ہے کہ پولولس (پولس) آسمانوں پر گیا اور اس نے بہشت کے چار دریا دیکھے اور ’’صحیفۂ ابراہیمی ‘‘ میں لکھا ہے کہ ابراہیم نے آسمانوں کے عجائبات دیکھے۔ اور جس طرح ارداویراف اور محمدﷺنے دنیا میں آکر وہا ں کے حالات بیان کئےاسی طرح ان دونوں نے بھی وہاں کے حالات بیان کئے تھے۔ابراہیم کی نسبت لکھا ہے کہ:

’’میکائیل فرشتہ آسمان سے اترا اور ابراہیم کو ایک کروبی مرکب  (Cherubic Chariot) ‏ میں سوار کر کے آسمان پر لے گیا۔اور اس نے اسے آسمان کے ایتر  (Ether) ‏ میں اٹھا لیا اور اسے اورساٹھ فرشتوں کو ابر پر لایا اور ابراہیم ایک سواری میں بیٹھا ہوا تمام آباد زمین پر بیٹھا ہوا تھا‘‘۔

جس سواری کو یہاں’’مرکب کروبی‘‘ لکھا ہے اس کی مسلم روایت میں دوسری صورت ہے۔کیونکہ مسلمانوں کے یہاں لکھا ہے کہ محمدﷺ نے براق نامی جانور پر سورای کی تھی۔یہ بھی یاد رہے کہ شہسواری عربوں کے نزدیک زیادہ مرغوب چیز تھی۔لفظ براق غالباً عبرانی لفظ’’باراق‘‘  (Baraq) ‏ سے مشتق ہے جس کے معنی ’’بجلی‘‘ ہیں اور عربی زبان میں ’’بجلی ‘‘کو ’’برق‘‘ کہتے ہیں۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ لفظ براق پہلوی زبان سے مشتق ہو۔یہ بھی واضح ہو کہ کتاب’’صحیفۂ ادریس‘‘ میں بھی زمین ،آسمان اور دوزخ کے بہت عجیب و غریب حالات درج ہیں جو اس نے اپنے رویا میں دیکھے تھے۔اور غالباً ’’رویائے پولولس‘‘  (Visio  Pauli) ‏ اور صحیفۂ ابراہیمی پر اسی کتاب کا اثر پڑاتھا۔اور گویا اس طرح بالواسطہ اسلامی روایت پر اثر پرا۔لیکن یہ خیال ہمارے دل میں ہر گز نہیں آسکتا کہ اس کااثر ’’ارداویراف نامک‘‘ پر بھی پڑا تھا۔

جنت عدن میں شجرۃ الحیواۃ کے متعلق بھی یہودیوں کے یہاں بہت سی عجیب و غریب روایات موجود ہیں۔ جو غالباً  (Accadian) ‏ روایات دربارہ’’مقدس درخت اریطو‘‘سے لی گئی ہوں گی۔یہ قدیم روایات مقام ’’نیپور‘‘  (Nippur) ‏ کے قدیم ترین کتبوں میں درج ہیں۔جن کاانکشاف ڈاکٹر ہلپر یخت  (Hilprecht) ‏ نے کیا تھا۔آسمانی بہشت کے متعلق مسلمانوں کے یہاں جو روایات ہیں ان پر یہودی روایات کا ضرور اثر پڑتا تھا کیونکہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ جنت عدن آسمان پر ہے۔لہٰذا جو کچھ یہودیوں نے ارضی جنت کے متعلق بیان کیا تھا اس کو مسلمانوں نے بہت کچھ آسمانی جنت کی طرف منتقل کر دیا۔اس بارے میں مسلمانوں کو غالباً نصاریٰ کی مشکوک الصحت مذہبی کتب سے دھوکا ہوا کیونکہ چار دریاؤں کا ذکر ضرور’’رویائے پولوس‘‘ سے لیا گیا ہے۔اور یہ بیان کرنےکی کچھ ضرورت نہیں کہ ان مشکوک الصحت کتب کو نصاریٰ کے کسی فرقہ نے کبھی قابل اعتماد نہیں سمجھا۔اگرچہ کسی زمانہ میں وہ جہلا کے درمیان بہت زیادہ رائج تھیں۔بہر حال مسلمانوں نے شجر طوبیٰ کا بیان خواہ زردشتیوں سے لیا ہو یا یہودیوں یا دونوں سے،مگر جو چار دریا آسمان پر محمدﷺ نے دیکھے تھے وہ ضرور ’’رویائے پولوس‘‘میں سے لئے گئے ہیں اور اس میں یہ بیان کتاب پیدائش کے باغ عدن سے لیا گیا ہے۔

یہاں یہ سوال پید اہوسکتا ہے کہ ادریس ،الیاس اور عیسیٰ کے آسمان پرچڑھ جانے کا حال جو بائبل میں دیا گیا ہے یا اس شخص کو پکڑ کر تیسرے آسمان پر اٹھا لینے کا جو حال درج ہے جس کو بعض لوگ پولوس خیال کرتے ہیں،کیا انہی حالات سے مندرجہ بالا روایت ماخوذ نہیں ہیں؟ اسلامی اور یہودی روایات کی نسبت تو یہ خیال ضرور پیدا ہو سکتا ہے ،مگر ایرانی اور ہند وستانی روایات کی نسبت ایسا خیال کرنا بالکل فضول ہے۔بہر حال اگر ایسا ہے تو دیگر اسلامی روایات کی طرح معراج محمدی کی روایت بھی ارداویراف کی معراج کے نمونہ پر مسلمانوں نے اس غرض سے ایجاد کی کہ اگرچہ محمدﷺ بعض صورتوں میں عیسیٰ اور دیگر انبیا ئےبنی اسرائیل کی مانند تھے مگر بعض صورتوں میں وہ ابنیا ئے سابق پر بہت کچھ فوقیت رکھتے تھے۔

جنت اور حوریں

جنت اور حوروں کے ساتھ جنات،ملک الموت اور ذرات الکائنات کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔قرآن کی جن آیات میں جنت کے حالات بیان کئے گئے ہیں انکا مفہوم یہ ہے:

’’یعنی اس کے لئے جو اپنے رب کے سامنے (عدالت میں) کھڑا ہوتا ڈرتا ہے،دو باغ ہیں ،جن میں مختلف قسمیں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک میں دو چشمے جاری ہیں اور ان میں سے ہر ایک پھل کی دو دو قسمیں ہیں۔لیٹے ہوئے ہیں پلنگوں پر جن کی چادریں ریشمی کشیدہ کاری کی ہیں اور دونوں باغوں کے میوے دسترس کے اندر ہوں گے۔ان کے اندر وہ ہوں گی جو  کنکھیوں  ‏ سے دیکھتی ہیں ،جن کو ان سے قبل نہ انسان نے نہ جنوں نے چھو ا ہو گا۔گویا وہ یاقوت اور موتی ہیں۔کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوائے اور کچھ ہے؟اور ان کے علاوہ دو باغ اور ہیں ،گہرے سبز۔ان میں سے ہر ایک میں دو چشمے ہیں جن کا پانی زو ر سے ابل کر بہتا ہے۔ان میں سے ہر ایک میں میوے ہیں اور کھجوریں اورانار۔ہر ایک میں اچھی اچھی حسین و جمیل حوریں ہیں جو خیموں کے اندر ہیں جنہیں ان سے قبل کسی انسان یا جن نے نہیں چھوا۔وہ لیٹے ہیں سبز تکیوں اور خوبصورت غالیچوں پر‘‘ (سورۂ رحمان)۔

علاوہ ازیں قرآن کی سورۂ واقعہ آیات۱۱۔۳۸ میں اصحاب المیمنتہ (داہنے ہاتھ کے اصحاب)کے لئے جنت کی نعمتوں اور مسرتوں کی تصویر بھی اس طرح کھینچی گئی ہے (اصحاب المیمنتہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو حشر کے روز جنتی قرار پائیں گے) قرآن میں لکھا ہے کہ:

’’یہ وہ لوگ ہیں جو قریب لائے گئے ہیں (اللہ کے) پر از مسرت جنتوں میں۔۔۔ جو اہر نگار تختوں پر۔لیٹے ہوئے ہیں ان پر ایک دوسرے کی طرف منھ کئے ہوئے۔ا ن کے گرد گھومتے ہیں نو خیز لڑکے (غلمان) جن کی عمریں نہیں بد لتیں۔ان کے ہاتھوں میں پیالے اور جام اور ایک پیالہ چشمۂ شراب کا ہو گا۔ ان کے پینے سے ان کے نہ سر میں درد ہو گا ،نہ ان پر بد مستی غالب ہو گی۔اور میوے جیسے وہ پسند کریں گے اور پرندوں کا گوشت جیسا وہ چاہیں گے۔اور پاک خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں جو چھپے ہوئی موتی کی طرح ہوں گی۔ یہ ان کے اعمال کی جزا ہو گی اور وہ اس میں کسی قسم کی بیہودہ باتیں نہ سنیں گے اور نہ گنہگاروں کی باتیں سنیں گے ،سوائے الفاظ ’’سلام۔سلام‘‘کے۔ اور اصحاب الیمین! تم جانتے ہو کہ یہ کون ہیں؟ سدرہ کے بے خار درختوں میں اور پھولوں سے لدے ہوئے ببولوں میں اور پھیلے ہوئے سایہ میں اور آب رواں میں۔ اور کثرت میوہ جات میں جو نہ روکے گئے ہیں نہ ممنوع ہیں اور رفیع و بلند پلنگوں پر۔یقیناً ہم نے ان کو (حوروں کو) ایک خاص طور پر مخلوق کیا ہے۔پس ہم نے ان کو باکرہ بنایا جو اپنے ہم عصروں سے محبُت کرتی ہیں۔اصحاب الیمین کی خاطر‘‘۔

آپ دیکھیں گے مسلمانوں کی جنت کا یہ دلچسپ حال بہت کچھ ایرانی اور ہندو خیالات سے ماخوذ ہے۔حوروں کا خیال قدیم ایرانی روایات دربارہ  (Pairakas) ‏ سے لیا گیا ہے جنہیں فی زماننا اہل ِ ایران’’پریاں‘‘ کہتے ہیں۔پیروان زردشت کے نزدیک یہ مونث ار واح یا دیویاں ہیں جو ہوا میں رہتی ہیں اور نور اور ستاروں سے ان کا بہت گہرا تعلق ہے۔وہ اس قدر حسین و جمیل ہیں کہ ان کو دیکھتے ہی انسان کا دل فریفتہ ہو جاتا ہے۔لفظ حور جو قرآن میں ان حسین وجمیل دو شیزگان جنت کے لئے استعمال ہوا ہے ،اس کی نسبت سے عام طور سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ عربی مصدر سے مشتق ہے اور ’’سیاہ چشم ‘‘معنی رکھتا ہے۔ممکن ہے ایسا ہو۔ مگر ہمارے خیال میں یہ لفظ غالباً فارسی مصدر سے مشتق ہےاور اس لفظ سے نکلا ہے جسے اَوَستا میں’’ہورا‘‘  (Hvra) ‏ لکھا ہے،اسی کو پہلوی زبان میں’’ہور‘‘ اور موجودہ فارسی میں’’حور‘‘ لکھتے ہیں جس کے معنی دراصل نور یا روشنی یا دھوپ اور مجازاً آفتاب کے ہیں۔

جب عربوں نے اہل ایران سے ان درخشاں اور نورانی باکرہ عورتوں کا خیال لیا تو غالباً انہوں نے اپنی زبان میں وہ فارسی لفظ بھی لے لیا جس سے ان نازنینوں کا صحیح مفہوم ظاہر ہوتا تھا۔خود لفظ فردوس  (Paradise) ‏ فارسی لفظ ہے ،اور اسی طرح قرآن میں بہت سے الفا ظ فارسی اور غیر زبانوں کے آئے ہیں۔لفظ’’حور‘‘ سے جس قسم کی مخلوق کا خیال ظاہر کیا جاتا ہے، وہ دراصل آریا ماخذ سے لیا گیا ہے اور یہی حال ’’غلمان‘‘ کا ہے۔ہندوؤں میں دونوں قسم کی مخلوق کا عقیدہ موجود ہے۔حوریں سنسکرت زبان میں’’ اسپرائین‘‘ اور ’’غلمان‘‘ سنسکرت زبان میں’’گندھرب‘‘ کہلاتے ہیں۔ا ن کی نسبت یہ خیال ہے کہ وہ آسمان میں رہتے ہیں اگرچہ اکثر زمین کی سیر کرنے بھی آجاتے ہیں۔

مسلمان مورخین نے بہت سے قصے بیان کئے ہیں جن میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ جنت میں حوروں سے ہم آغوش ہونے کے شوق میں بہت سے نوجوان مسلم مجاہدین میدان جنگ میں دلیرانہ کود پڑے اور شہید ہو گئے۔یہ خیال قدیم آریا خیال سے ملتا جلتا ہے جو یہ تھا کہ جو شخص میدان جنگ میں اس طرح مرتا ہے کہ تمام زخم اس کے جسم پر سامنے کی طرف ہوں تووہ دیوتاؤں کے ہاتھوں انعام پاتا ہے۔منوجی مہاراج نے دھرم شاستر میں تحریر فرمایا ہے کہ:

’’ جب دنیا کے راجہ میدان جنگ میں لڑتے ہیں، اس شوق میں کہ ایک دوسرے کو قتل کریں اور ہر گز سامنے سے منھ نہیں ہٹاتے،وہ اپنی شجاعت کی وجہ سے بہشت میں جاتے ہیں‘‘۔

اسی طرح ’’نلو پکھیا نم ‘‘  (Nalopakhyanam) ‏ اندر بہادر نل سے کہتا ہے:

’’زمین کے عادل محافظ ( راجہ) وہ جنگ آزما جنہوں نے جان (کی امید) چھوڑ دی ہے ،جو منھ موڑے بغیر ہاتھ میں ہتھیار لے کر فنا ہو جاتے ہیں، ان کے لئے لافانی دنیا موجود ہےیعنی اندر کی سوگ‘‘۔

اس قسم کے خیالات صرف ہندوستان ہی تک محدود نہ تھے بلکہ بُت پرستی کے زمانہ میں شمالی یورپ کے باشندے بھی اس قسم کا عقیدہ رکھتے تھے کہ آسمان کے ’’والکائری‘‘  (Valkyries) ‏ یعنی’’مردوں کے منتخب کرنے والے‘‘میدان جنگ میں آتے ہیں اور وہاں سے’’اودھن‘‘  (Odhin) ‏ کی بہشت  (Valhalla) ‏ یا’’ایوان شہدا‘‘میں ان بہادر جنگ آزماؤں کی روحوں کو لے جاتے ہیں جو جنگ میں کام آئے ،جنکے متعلق مسلمانوں کا عقیدہ ہےکہ وہ ایک قسم کی خبیث اور موذی روحانی مخلوق ہے جس کو بہت بڑی طاقت حاصل ہوتی ہے۔دنیائے اسلام کے بہت سےعلاقوں میں لوگ ان سے بہت ڈرتے ہیں۔اس سے قبل ہم یہ دکھا چکے ہیں کہ وہ سلیمان کے تابع تھے اور قرآن میں انکا ذکر بہت آتا ہے۔جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ فرشتوں اور شیاطین کی طرح جن بھی ایک آتشی مخلوق ہے۔لفظ جن بھی فارسی کا لفظ معلوم ہوتا ہے اوستامیں’’جینی ‘‘  (Jaini) ‏ کے معنی شریر مونث روح کے ہیں۔

مسلم روایت دربارہ ’’میزان ‘‘پر بحث کرتے ہوئے ہم نے یہ دکھایا تھا کہ معراج محمدی کے متعلق جو روایت ہےاس میں بیان کیا گیا ہے کہ محمدﷺ نے آسمان پر آدم کو دیکھا کہ وہ روتا ہے، جبکہ وہ ان سیاہ صورتوں کو دیکھتا ہے جو ا س کے بائیں ہاتھ کی طرف ہیں۔اور ہنستا ہے جب وہ ان صورتوں کو دیکھتا ہے جو اس کے داہنے ہاتھ کی طرف ہیں۔یہ سیاہ صورتیں (الاسودہ) آدم کے وہ اخلاف (بعد کی نسل)ہیں جو ہنوز پید ا نہیں ہوئے۔ا ن کو عام طور پر ’’ذرات الکائنات‘‘ کہا جاتا ہے۔صحیفۂ ابراہیمی میں جس مخلوق کا ذکر کیا گیا ہے، ان سے یہ ’’ذرات الکائنات‘‘ اس بات میں مختلف ہیں کہ صحیفۂ ابراہیمی میں ابراہیم نے اپنے ان اخلاف کی ارواح کو دیکھا تھا جو مر چکے تھے۔مگر مسلمانوں کی روایت میں آدم ان لوگوں کی ارواح کو دیکھتا ہے جو ہنوز پیدا بھی نہیں ہوئے ہیں یعنی بصورت’’ذرات الکائنات‘‘۔اسلامی روایت میں ا س مخلوق کا جو نام ہے وہ یقیناً خالص عربی ہے۔ مگر یہ خیال پارسیوں کی روایات سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے جن کے یہاں اس مخلوق کو ’’ فروشی‘‘  (Fravashis) ‏ بیان کیا گیا ہے۔یہ اوستا کا لفظ ہے ،پہلوی زبان میں ان کو ’’فروہر‘‘  (Feruhars) ‏ کہتے ہیں۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایرانیوں نے یہ خیا ل قدیم مصریوں سے لیا تھا۔ مگر یہ قرین قیاس نہیں ہے۔بہر حال ایسا ہو یا نہ ہو مگر مسلمان اس عقیدہ میں کہ لوگوں کی روحیں پہلے سے پیدا شدہ موجود رہتی ہیں،مجوسیوں کے رہین منت ہیں۔

مسلمان بھی ملک الموت کا حال قریب قریب اسی طرح بیان کرتے ہیں جیسے یہود۔فرق صرف اس قدر ہے کہ یہودیوں میں ا س فرشتہ کا نام ’’سمائیل‘‘  (Sammael) ‏ ہے اور مسلمانوں میں ’’عزرائیل‘‘  (Azrail) ‏۔مگر اسلامی نام اس فرشتہ کا عربی نہیں بلکہ عبرانی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابتدائی اسلام پر یہودیوں کا کس قدر غالب اثر تھا۔چونکہ اس فرشتہ کانام بائبل میں کہیں نہیں لکھا ہے ،اس لئے صاف ظاہر ہے کہ جو کچھ بھی یہودی اور مسلمان اس فرشتہ کے بارے میں کہتے ہیں، وہ ضرور با لضرور کسی دیگر ذرائع سے ماخوذ ہے۔یہ ذریعہ ایرانی ہے کیونکہ اوستا میں ایک فرشتہ بیان کیا گیا ہے جس کانام ’’استو وید ھوتش‘‘یا ’’وید ھاتُش‘‘  (Astovidhotus  or  Vidhatus) ‏ ہے جس کے معنی ہیں ’’تقسیم کرنے والا ‘‘یعنی جسم وروح کو جدا کرنے والا۔اگر کوئی شخص آگ میں جل کر یا پانی میں ڈوب کر مر جاتا تھا تو زردشتیوں کے نزدیک اس کی موت کا باعث آگ یا پانی نہیں سمجھا جاتا تھا کیونکہ ان کے نزدیک یہ عناصر اچھے ہیں،انسان کو نقصان پہنچانے والے نہیں ہیں۔یہ کام دراصل ملک الموت’’ویدھاتُش‘‘ کا ہے۔

عزازیل کا دوزخ سے آسمان پر جانا

مسلمانوں کی روایت کی رو سے شیطان یا ابلیس کا اصلی نام عزازیل تھا۔یہ نام عبرانی زبان کا ہے اور کتاب احبار ۱۰،۸:۱۶۔۲۶میں آیا ہے۔مگر اس کی اصلیت یہودی نہیں بلکہ ایک حد تک زردشتی معلوم ہوتی ہے۔قصص الانبیا میں لکھاہے کہ:

’’اللہ تعالیٰ نے عزازیل کو پید ا کیا۔ عزازیل نے ایک ہزار برس تک سجّین (دوزخ کی ایک گھاٹی) میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی۔اس کے بعد وہ زمین پرآیا ۔یہاں بھی اس نے ہر طبقہ پر ایک ہزار سال تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی حتّٰی کہ وہ سطح پر آگیا (یعنی سب سے اوپر کا طبقہ جہاں آدمی رہتے ہیں)۔تب اللہ تعالیٰ نے اسے زمرد کے دو بازو دیئے جن کے ذریعہ سے اڑ کر وہ آسمان اول پر پہنچا۔یہاں اس نے ہزار سال تک عبادت کی اور اس طرح آسمان دوم تک پہنچا اوراسی طرح ہر منزل پر ایک ہزار سال تک عبادت کرتا ہوا چڑھتا چلا گیا۔ اور ہر طبقہ کے ملائکہ نے اس کو علیٰحدہ علیٰحدہ نام دیا۔پانچویں آسمان پروہ سب سے پہلے عزازیل کہلایا۔اسی طرح وہ چھٹے اور ساتویں آسمان پر پہنچا۔اور اس نے اس قدر عبادت کی تھی کہ تمام آسمانوں اور زمین میں ہتھیلی بھر زمین بھی ایسی نہ بچی تھی جہاں اس نے سجدہ نہ کیا ہو۔اس کے بعد روایت میں بیان کیاگیا ہے کہ ابلیس آدم کو سجدہ نہ کرنے کے گناہ میں بہشت سے نکا ل دیا گیا‘‘۔

کتاب’’عرایس المجالس‘‘میں لکھا ہے کہ اس وقت اس کا نام ابلیس ہوا اور وہ در جنت پر ایک ہزار برس تک اس امید میں پڑا رہا کہ کسی طرح آدم و حو اکو کوئی نقصان پہنچائے ،کیونکہ ان دونوں کی طرف سے اس کا دل بغض و حسد سے بھرا ہوا تھا۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ مجوسیوں کی کتاب’’ بندہ ہشینہٖ‘‘  (Bundahishnih) ‏ جو بزبان پہلوی لکھی ہوئی ہے اور جس کے نام کے معنی ’’آفرینش‘‘ ہیں،اسی بارے میں کیا کہتی ہے۔ واضح ہو کہ پہلوی زبان میں’’روح خبیث‘‘ یا شیطان کو اہر من کہتے ہیں۔جو لفظ ’’آنر ومینیوس‘‘  (Anro  mainyus) ‏ سے مشتق ہے۔اوستا میں شیطان کے لئے یہی لفظ استعمال ہو اہے اور اس کے معنی ’’تباہ کرنے والا دل‘‘ ہیں۔کتاب ’’بندہ ہشینہٖ‘‘ کے باب اول و دوم میں لکھا ہے کہ:

’’اہرمن تھا اور ہے ظلمت میں اور علم ماضی ،خواہش ضرررسانی اورہاویہ  (Abyss) ‏میں۔۔۔اور وہ ضرر رسانی اور وہ تاریکی بھی ایک مقام ہیں جسے وہ طبقۂ ظلمات کہتے ہیں۔ہر مزد چونکہ عالم بکل شئیٍ ہے ،اس لئے وہ جانتا تھا کہ اہرمن کا وجود ہے کیونکہ وہ (اہرمن) خود کوہیجان میں لاتا ہےاور دم آخر تک خود کو جذبۂ بغض و حسدمیں شامل کر دیتا ہے۔۔۔وہ (ہرمزد واہرمن) تین ہزار برس تک روح میں رہے یعنی ان میں کوئی نقل وحرکت نہیں تھی۔۔۔موذی روح ،بوجہ اپنے علم ماضی کے ،ہر مزد کے وجود سے آگاہ نہ تھی۔بالآخر وہ اس غار تاریک یا ہاویہ سے اٹھتا ہے اور عالم نورمیں آتا ہے اور جب اس نے ہر مزد کے درخشا ں نور کو دیکھا تو۔۔۔۔ اپنے جذبۂ ضرررسانی کی وجہ سے اور اپنی حاسدانہ طبیعت کے باعث وہ تخریب و تباہ کاری میں مصروف ہو گیا‘‘۔

ثنویت پرست مجوسیوں اور توحید پرست مسلمانوں کی روایات میں کچھ نہ کچھ فرق ہونا لازمی تھا۔یہی باعث ہے کہ مجوسیوں کی روایت میں’’مبدأ شر‘‘  (Evil  Principle) ‏ ہر مزد کی مخلوق نہیں ہے اور وہ پہلے ہر مزد کے وجود سے آگاہ نہیں ہے۔مگر اسلامی روایت میں وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔اسلامی روایت میں وہ اپنے زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت کے ذریعہ سے بتدریج عروج حاصل کرتا ہے۔اور مجوسی روایت میں ریاضت وعبادت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔مگر دونوں روایتیں اس بارے میں متفق ہیں کہ وہ ’’روح شریر‘‘تاریکی اور جہالت میں رہتی تھی اور پھر عالم نور میں آئی اور د ونوں صورتوں میں وہ بوجہ بعض و حسد مخلوق خدا کی تباہی و ہلاکت میں مصروف ہو گئی۔مجوسیوں کی روایت کے بموجب اس ’’روح شریر‘‘ کے جو بارہ ہزار سال مسلسل جنگ مابین خیر شرمیں گزرے ان کو تین تین ہزار سال کے چار ادوارمیں تقسیم کیا گیا ہے۔اسلامی روایت میں بھی عزازیل (یا ابلیس) نے تین ہزار سال کا ایک دور دوروازہ ٔ بہشت کے باہر پڑے پڑے گزارا تا کہ آدم کی تخریب و تباہی کا کوئی موقعہ ملے۔

قبل ازیں کہ ہم اس مضمون کو ختم کریں ،یہ ظاہر کر دینا مناسب معلوم ہوتاہے کہ اسلامی اور مجوسی دونوں روایات میں طاؤس کا روح شریر سے کچھ تعلق ضرور ہے۔قصص الانبیا میں بیان کیا گیا ہے کہ جب ابلیس بہشت کے دروازہ پر تاک لگائے بیٹھا تھا کہ اندر داخل ہو کر آدم و حوا کو کسی طرح ورغلا کر ان سے گناہ کرانے کا موقعہ ملے،تو اس زمانہ میں طاؤس فصیل پر بیٹھا ہوا تھا جس نے ابلیس کو نہایت خضوع و خشوع کے ساتھ اسم اعظم پڑھتے دیکھا۔اس قدر زہد و اتقا ابلیس کا دیکھ کر طاؤس کا دل بہت متاثر ہوا اور اس نے یہ معلوم کرنا چاہا کہ یہ زاہد مرتاض کون ہے۔ابلیس نے جواب دیا کہ’’میں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں میں سے ایک ہوں‘‘۔طاؤس نے دریافت کیا کہ ’’تم یہاں کیوں بیٹھے ہو‘‘۔ ابلیس نے کہا کہ میں بہشت کی طر ف دیکھ رہا ہوں اور اندر داخل ہو نا چاہتا ہوں ‘‘۔چونکہ طاؤس فصیل جنت پر بطور پاسبان تعینات تھا اس لئے اس نے جواب دیا’’ مجھے حکم نہیں ہے کہ جب تک آدمی بہشت کے اندر ہے اس وقت تک کسی کو اندر داخل نہ ہونے دوں ‘‘۔مگر ابلیس نے اسے ورغلایا اور کہا کہ اگر اس نے اسے بہشت میں داخل ہو نے دیا تو وہ اس کو ایک ایسی دعا سکھادے گا جس کو پڑھنے سے وہ کبھی بوڑھا نہ ہوگا، نہ کبھی خد اکی نافرمانی کرے گااور نہ کبھی بہشت سے نکالا جائےگا۔یہ سن کر طاؤس فصیل پر سے اڑ کر نیچے پہنچا اور جو کچھ اس نے سنا تھا وہ سب حال سانپ سے بیان کیا۔اس طرح گویا حوا کو اور بعدازاں آدم کو ورغلایا گیاجوان کے ہبوط کا باعث ہوا۔پس جب اللہ تعالیٰ نے آدم ، حوا،ابلیس اور سانپ کو بہشت سے مردود کیا تو ان کے ساتھ طاؤس کو بھی زمین پر پھینک دیا گیا۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ مجوسیوں کے عقیدہ میں بھی اہرمن اور سانپ کے درمیان کچھ تعلق تھا۔ارمنی مصنف ازنیق  (Ezniq) ‏ لکھتاہے کہ اس کے زمانہ میں مجوسی لوگ یہ کہتے تھے کہ اہرمن نے کہا’’یہ نہیں کہ میں کوئی عمدہ چیز نہیں بنا سکتا مگر میں بنانا نہیں چاہتا اور اپنے قول کا ثبوت دینے کے لئے اس نے طاؤس کو بنایا‘‘۔اگر مجوسی روایت میں طاؤس ،اہرمن کی پیدا کردہ مخلوق ہے تو پھر کیا تعجب ہے کہ اس نے اسلامی روایت میں ابلیس کی مدد کی اور اس کے ساتھ خود بھی جنت سے نکالا گیا۔

نور محمدی

اگر چہ قرآن میں نور محمدی کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے مگر روایات و احدیث میں اس نور کا بہت کچھ ذکر ہے جو کہ محمدﷺ کی پیشانی پر چمکتا تھا اور جوان کے وجود سے قبل پیدا کر دیا گیا تھا۔’’روضتہ الاحباب‘‘جیسی کتب میں نور محمدی کی روایات پر صفحے کے صفحے بھرے پڑے ہیں۔چنانچہ کتاب مذکور میں لکھا ہے کہ:

’’جب آدم کو پیدا کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے وہ نور اس کی پیشانی میں رکھا اور فرمایا’’اے آدم یہ نور جومیں نے تیر ی پیشانی میں رکھا ہے ،یہ تیرے شرف اور افضل بیٹے کا نور ہے۔اور یہ ان تمام انبیا کے جو زمین پر مبعوث کئے جائیں گے ،سردار کا نور ہے‘‘۔

اس کے بعد اس روایت کا سلسلہ اس طرح جاری ہوتا ہے کہ وہ نور محمدی آدم سے شیت (سیت) کو اور شیت سے ان کے شریف ترین بیٹے کو نسلاً بعد نسلٍ (پشت در پشت)منتقل ہوتا رہا حتی ٰ کہ وہ عبداللہ بن عبد المطلب تک پہنچا۔عبدا للہ سے وہ نور آمنہ کومنتقل ہوا جب وہ حاملہ ہوئیں۔ممکن ہے کہ نور محمدی کی روایت بنانے سے مسلمانوں کا یہ منشا ہو کہ جو کچھ عیسیٰ کی انجیل یوحنا ۵،۴:۱ میں بیان کیا گیا ہے اس سے بھی زیادہ وہ اپنے نبی کی شان میں بیان کریں اور ممکن ہے انہوں اپنی روایت کی بنیاد کتاب پیدائش ۳:۱ پر رکھی ہو۔اسی کے ساتھ ناظرین کو یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ مجوسی کتب سے جو اقتباسات ہم ذیل میں درج کرتے ہیں انہیں سے اسلامی روایات کی تفصیلات لی گئی ہیں۔

پہلوی زبان کی کتاب ’’مینو خرد‘‘ میں جو ایران میں ساسانی خاندان کے ابتدائی بادشاہوں کے زمانہ میں لکھی گئی تھی،یہ لکھا ہے کہ ہر مزد نے اس دنیا ،ملائکہ مقربین ،عقل آسمانی کو’’ذروانِ اقران‘‘کی تعریف کے ساتھ خاص اپنے نور سے پید ا کیا۔لیکن اس سے بھی زیادہ ایک قدیم کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کی حکایت یا روایت ایران میں موجود تھی۔یعنی پارسیوں کی مذہبی کتاب اوستا میں بھی بسلسلہ حالات’’یم کھشیت‘‘  (Yima Khshaeta) ‏ یا’’یم نورانی‘‘جسے بعد کے زمانہ میں’’جمشید ‘‘کہا گیا ہے،اسی قسم کی روایت لکھی ہے۔ایران کا’’جمشید ‘‘ یا’’جم‘‘ وہی ہے جو سنسکرت زبان کا ’’یم ‘‘یا ’’جم‘‘ ہے۔رگوید میں اس کو سب سے پہلا آدمی بیان کیا گیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی بہن’’یمی‘‘ نے اس کو گناہ کرنے کی بے نتیجہ ترغیب دی۔اب یم کی حکومت’’پاتال‘‘یا ’’عالم رفتگان‘‘ پر ہے۔ مگر ایرانی روایات میں’’یم ‘‘ اور’’جم‘‘ تمدن ایرانی کا بانی ہے۔اس کے باپ کا نام ’’وائو نہوت‘‘  (Vivanhvat) ‏ تھا اور یہ وہی ہے جو ہندوستانی روایت میں ’’ویو سوت‘‘  (Vivasvat) ‏ یعنی سورج ہے۔ اور یہ ’’یم‘‘ کا باپ ہے۔یم کی پیشانی پر’’کویم ہورینو‘‘  (Kavaem Hvareno) ‏ یعنی’’شاہی نور ‘‘چمکتا تھا جو گویا ’’پرتو یزدانی‘‘تھا۔مگر جب یم گناہ کا مرتکب ہو اتو وہ نور زائل ہو گیا۔ اوستا میں یہ قصّہ اس طرح دیا ہے:

’’عرصہ دارز تک ایک زبردست شاہی نور جمشید ،اعلیٰ درجہ کے گروہ مواشی کے مالک کے ساتھ رہا جبکہ وہ دنیا کی ہفت کشور پر سلطنت کرتا تھا یعنی دیویوں،انسانوں ،ساحروں،پریوں ،کاہنوں او ر جادو گروں اور ارواح خبیثہ پر حکومت کرتا تھا۔۔۔ مگر جب اس کے دل میں وہ لغو اور باطل لفظ آیا تو وہ نور جو نظر آتا تھا اس کے پاس سےایک چڑیا بن کر اڑ گیا۔۔۔وہ جو جمشید ہے ،اعلیٰ درجہ کے گروہ مواشی کا مالک،جم ، جب اس نور کودرخشاں نہیں دیکھتا تو رنجیدہ ہوتا ہے اور اس نے پریشان ہو کر زمین پرعداوت وجنگ کرنا شروع کر دی۔ پہلی مرتبہ وہ نور رخصت ہوا۔وہ نور جمشید سے رخصت ہوا،وہ نور جم پسروائو نہوت ایک پھڑپھڑاتے ہوئے پرندہ کی طرح رخصت ہوا۔۔۔مترا نے وہ نور لیا۔جب دوسری مرتبہ وہ نور جمشید سے رخصت ہوا ،وہ نور جم پسروائو نہوت سے رخصت ہوا تو وہ ایک پھڑ پھڑاتے ہوئے پرند کی طرح اڑ گیا۔فریدوں نے جو قبیلۂ بہادر قبیلہٌ آثویانی کی نسل سے ہے ،وہ نو ر لےلیا کیونکہ وہ تمام فتح مند آدمیوں میں سب سے زبردست فاتح تھا۔۔۔جب تیسری مرتبہ وہ نور جمشید سے رخصت ہوا ، تو وہ نور جم پسروائو نہوت سے رخصت ہوامانند ایک چڑیا کے تو کریسا سپ نے وہ نور لے لیا کیونکہ وہ زبردست آدمیوں میں سب سے زبردست آدمی تھا‘‘۔

روایت مندرجۂ بالا میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی روایت میں جس طرح وہ نور نسلاً بعد نسل ٍ سب سے زیادہ قابل اور شاندار آدمی کی طرف منتقل ہوتا چلا گیا تھا، اسی طرح مجوسی روایت میں منتقل ہوتا چلا گیا۔چونکہ مجوسی روایت میں وہ لوگ سورج کی اولاد یا بقول سنسکرت’’سورج بنسی ‘‘تھے اس لئے قدرتی بات تھی کہ وہ نور نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہوتا چلاجاتا۔ علاوہ وہ نور علامت بادشاہی تھا۔مگر اسلامی روایت میں آدم ؔ سے لے کر محمد تک نور کا نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہوتا چلا آنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔سوائے اس کے کہ جس طرح قدیم ایرانی روایت میں پرانے ایرانی بہادروں کی شان بڑھائی گئی تھی ،اسی طرح مسلمانوں نے اپنے نبی کی شان کو چار چاند لگائے۔علاوہ بریں مجوسی روایت میں ہم دیکھتے ہیں کہ جمشید ’’دیووں، انسانوں، ساحروں،پریوں ،ارواح خبیثہ،کاہنوں اور جادوگروں پر حکومت کیا کرتا تھا‘‘۔با لکل اسی طرح سے جیسے کہ قدیم یہودی اور اسلامی روایات میں سلیمانؔ کے متعلق مذکور ہے۔یقیناًیہودیوں نے یہ روایت مجوسیوں سے لی تھی اور یہودیوں سے چل کر وہ مسلمانوں میں آگئی۔اسلامی روایت میں جو یہ بات بیان کی گئی ہے کہ نور محمدی کو چار حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا جن سے دنیا کی تمام مختلف چیزیں پیدا ہوئیں ،اسی قسم کا ایک قصّہ مجوسیوں کی ایک کتاب موسوم بہ’’دساتیر آسمانی ‘‘میں زردشت کی نسبت بیان کیا گیا ہے اور غالباًمسلمانوں میں یہ خیال اسی روایت سے لیا گیا ہے۔خصوصاً جبکہ وہی خیا ل اور زیادہ قدیم کتاب’’منیوخرد ‘‘میں موجود ہے۔

صراط

’’الصراط‘‘راستہ کو کہتے ہیں۔اس عجیب وغریب راستہ کے بارے میں بہت سی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔کہتے ہیں کہ یہ راستہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے۔یہ راستہ براہ راست قعر (بڑا گڑھا۔گہرائی)جہنم پر قائم ہے اور ہر شخص کو زمین سے آسمان پر جاتے ہوئے بروز قیامت اسی پر سے گزرنا پڑے گا۔سب کو حکم ہو گا کہ وہ اس کو عبور کریں۔نیک مسلمان بلادقت فرشتوں کی رہنمائی میں گزر جائیں گے ،لیکن کفار عبور نہیں کر سکیں گے اور آتش جہنم میں گر پڑیں گے۔اگرچہ قرآن میں لفظ صراط بمعنی راہ استعارتاً استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ ’’صراط المستقیم ‘‘ (راہ راست)میں۔مگر گمان غالب یہ ہے کہ یہ لفظ قطعی عربی نہیں ہے۔اس لفظ کے اشتقاق سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اصلی ماخذ کیا ہے۔ لفظ’’صراط‘‘کسی عربی یا دیگر سماتیقی زبان کے مادہ سے مشتق نہیں ہے بلکہ یہ دراصل عربی حروف میں فارسی لفظ ’’چنوت‘‘  (Chinvat) ‏ہے۔چونکہ عربی میں حرف ’’چ‘‘نہیں ہے اس لئے اہل عرب کسی ’’چ‘‘والے حرف کو معرب کرتے ہوئے حرف ’’چ‘‘کو’’ص‘‘سے بدل دیتے ہیں۔جیسے ’’صراط‘‘۔فارسی زبان میں لفظ’’چنوت‘‘کے معنی’’جمع کرنے والا ‘‘یا’’حساب لینے والا ‘‘ ہیں۔پس عربی لفظ’’صراط ‘‘مخفف ہے فارسی لفظ’’چنوت ‘‘کا اور ’’چنوت ‘‘ مخفف ہے اوستا کی اصطلاح’’چنو تو پرتیش‘‘  (Chinvat Peretu) ‏کا جس کے معنی ہیں ’’اعمال نیک و بد شمار کرنے والے کاپل‘‘۔ ایرانیوں کے عقیدہ میں یہ پل کوہ البرز سے چل کر دوزخ پر سے گزرتا ہو امقام ’’چکات دائی  تیہہ‘‘  (Chakat Daitih) ‏ تک پہنچتا ہے۔جب مردہ کی رسوم تجہیز و تکفین ختم ہو چکتی ہیں تو ا س کی روح پُل پر پہنچتی ہے اور بہشت میں داخل ہونے کے لئے اسے پُل عبور کرنا پڑتا ہے۔جب وہ روح پُل عبور کر چکتی ہے تو اس کے نیک اعمال کا حساب مترا ،رشنو اور سروش کرتے ہیں۔اگر اس شخص کے نیک اعمال زیادہ ہیں تو اس کے لئے بہشت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔اگر اس کے بد اعمال زیادہ ہوتے ہیں تو اسے دوزخ میں ڈال دیاجاتا ہے۔لیکن اگر اس کے نیک و بد اعمال بدرجہ مساوی ہیں تو اسے آخری فیصلہ ’’ویدائتی‘‘  (Vidaiti) ‏ تک ٹھہر نا پڑے گا۔ جو ہرمزد و اہر من کے درمیان آخری فیصلہ جنگ کے بعد شروع ہو گا۔

نہ صرف عربی لفظ’’صراط‘‘ بلکہ اس بارے میں تمام اسلامی عقیدہ کا ماخذ دکھانے کے لئے اس قدر کافی ہوگا کہ ذیل میں پہلوی زبان کی کتاب الموسوم بہ’’دینکارت‘‘  (Dinkart) ‏ کی ایک مختصر عبارت کا ترجمہ درج کر دیا جائے:

’’ میں زیادہ گناہ سے بھاگتا ہوں اورمیں اپنے شش قوائے حیات یعنی فعل ،قول ،فکر ، فہم، ذہن اور عقل کو ،تیری مشیت سے اور نیک اعمال کی توفیق دینے والے،پاک رکھ کر اپنے چال چلن کو پاک رکھتا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں تیری عبادت نیک خیال ، نیک قول اور نیک عمل کے ساتھ کرتا ہوں تاکہ میں روشنی کے راستہ میں رہوں جو نگہتوں سے معطر ،مسرتوں سے قطعی معمور اور ہمیشہ پر نور رہتا ہے‘‘۔

اوستا میں بھی اسی قسم کے خیالات موجود ہیں۔ منجملہ دیگر مقامات کے مندر ج عبارت ملاحظہ ہو جس میں نیک عورتوں اور مردوں کی نسبت کہا گیا ہے کہ ’’ انہیں بھی میں تم جیسے آدمیوں کی دعاؤں کے ذریعہ سے لے جاؤں گا اور تمام برکتوں کے ساتھ پل چنوت تک ان کی رہنمائی کروں گا‘‘۔اگر اس امر کا مزید ثبوت درکار ہو کہ مسلمانوں کے اس عقیدہ کا ماخذ اصلی آریا ذرائع ہیں تو یہ عرض کر دینا بے محل نہ ہوگا کہ ممالک ناروے اور سویڈن کی قدیم خرافیات میں ایک چیز ’’بفروست‘‘ کا ذکر آتا ہے جسے عام طور پر’’دیوتاؤں کا پُل ‘‘ کہتے ہیں۔جب دیوتا لوگ اپنے آسمانی مقام ’’آسگردھ‘‘  (Asgardh) ‏ سے زمین پر نازل ہوتے ہیں تو وہ اسی پُل پر سے گزرکر آتے ہیں۔یہ قوس و قزح ہے۔اس سے اصلیت کا پتہ چل سکتا ہے جس پر پُل کی روایت قائم ہے،روایت بہت قدیم ہے،کیونکہ ان ممالک کے باشندے آریا نسل سے ہیں اور وہ ان عقائد کو اپنے ساتھ یورپ میں لائے تھے۔ اس طرح گویا کسی زمانہ قدیم میں یہ خیال ناروے ،سویڈن اور ایران میں ترک رہا ہوگا۔یونان میں آکر قوس قزح دیوتاؤں کا قاصد بن گئی اور پُل کا خیال جاتا رہا۔

دیگر ایرانی خیالات

مندرجۂ بالا امور کے علاوہ بہت سی دیگر مجوسی باتیں بھی ایسی ہیں جن کا اثر اسلام پر پڑا ہے اور جو کچھ ہم نے اب تک لکھا ہے وہ ہمارے مقصد کے لئے کافی ہے۔تاہم دو باتیں اور سن لیجیئے۔مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ہر نبی نے قبل از وفات اپنے بعد آنے والے نبی کی نسبت پیش گوئی کر دی تھی۔بائبل سے تو اس عقیدہ کی تائید کہیں نہیں ہوتی۔بائبل میں آئندہ آنے والے مسیحا کی نسبت پیش گوئیاں ضرور ہیں مگر ان میں ایسی کوئی بات نہیں جن سے یہ اسلامی عقیدہ ماخوذ ہو سکے۔مسلمانوں کا یہ عقیدہ غالباً زردشتیوں کی کتاب’’دساتیر آسمانی‘‘ سے لیا گیا ہے۔یہ کتاب بہت ہی قدیم بتائی جاتی ہے اور زمانۂ حال کے بہت سے پارسیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ کتاب’’اہل بہشت کی زبان میں لکھی گئی تھی‘‘۔کتاب کے اصلی متن کے بین السطور قدیم فارسی زبان دری ترجمہ دیا گیا اور یہ کتاب ملّا فیروز ساکن بمبئی کے زیرادارت شائع ہوئی ہے۔ کتاب مذکور پندرہ رسالوں کا مجموعہ ہے جن کی نسبت یہ خیا ل ہے کہ وہ بذریعہ الہام پندرہ رسولوں پر یکے بعد دیگرے نازل ہوئے تھے۔سب سے پہلے رسول کا نام’’مہ آباد ‘‘  (Mahabad) ‏ اور سب سے آخری رسول کا نام’’ساسان‘‘  (Sasan) ‏ لکھا ہے۔ یہ غالباً وہی ساسان ہے جس سے ایران کے ساسانی بادشاہوں کے خاندان کا سلسلہ جاری ہوا تھا۔دری زبان کا جو ترجمہ کتاب مذکور میں بین السطور دیا گیا ہے،وہ خسرو پرویز شاہ ایران (۵۹۰ء۔۵۹۵ء) کے وقت کا بتایا جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اصل کتاب بہت زیادہ پرانی ہے۔کتاب کے اول چودہ رسالوں میں خاتمہ کے قریب ایسی عبارت درج ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آئندہ آنے والے رسول کی نسبت پیش گوئی ہے۔اس کا مقصد صاف ظاہر ہے۔ بہت سے پارسیوں کے نزدیک یہ کتاب معتبر نہیں ہے مگر مسلمان اس ’’آیندہ آنےوالے نبی‘‘ کے خیال سے اس قدر خوش ہوئے کہ انہوں نے اسے اپنے معمولی عقائد میں داخل کر لیا۔دوسری بات قابل غور اس کتاب میں یہ ہے کہ ہر صحیفہ کی دوسری آیت یوں درج ہے:’’بنام ایزد۔بخشا نیدہ بخشا یشگر ، مہربان،دادگر‘‘۔ان الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا قرآن کے الفاظ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ سے کس قدر گہر اتعلق ہے۔انہی الفاظ یعنی’’بسم اللہ‘‘ سے قرآن کی ہر سورۃ سوائے سورۃ ۹ کے شروع ہوتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ الفاظ قرآن میں پارسیوں کی کتاب سے داخل ہوئے ،پارسیوں کی کتاب میں قرآن سے نہیں لیے گئے۔پارسیوں کی کتاب’’بندہ ہش نیہ‘‘میں اسی قسم کی عبارت ہے یعنی ’’بنام یزداں آفرید گار‘‘۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قرآن کے مندرجہ بالا الفاظ یعنی ’’ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ یہودیوں سے لیے گئے ہیں۔چنانچہ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک حنیف (جس کا ذکر ہم آئندہ باب میں کریں گے) مسمی اُمیّہ نے جو شہر طائف کا ایک شاعر تھا، یہ کلمہ یعنی’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ اہل قریش کو سکھایا تھا۔ اور اس نے خود اسے اپنے سفر ہائے شام و دیگر ممالک میں یہودیوں اور نصاریٰ سے میل جول کر کے سیکھا تھا۔ اگر محمد ﷺ نے یہ کلمہ اس طرح سے سنا اور اسے قبول کر لیا تو یقیناً انہوں نے اس میں کسی قدر تغیر و تبدل کر دیا ہوگا۔لیکن اغلب خیال یہ ہے کہ اس کلمہ کا ماخذ یہودی نہیں بلکہ مجوسی ہے اور امیہ نے یہ کلمہ ایران میں پارسیوں سے اس وقت سیکھا ہو گا جبکہ وہ بغرض تجارت بلاد ایران میں گیا تھا۔

ہم صفحات بالامیں دیکھ چکےہیں کہ محمد ﷺ کے زمانہ میں ملک عرب پر ایران کا کس قدر وسیع اثر تھا۔لہٰذا جو باتیں ہم نے درج کی ہیں ان کی بنا پر ہم بلا دقت اس نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں کہ منجملہ دیگر ذرائع کے مجوسی خیالات اور روایات سے اسلامی لٹریچر بہت متاثر ہو اہے اور خود اسلامی روایات سے اس کا امکان ثابت ہوتا ہے کیونکہ مسلمانوں کی کتاب’’روضتہ الاحباب‘‘ میں لکھا ہے کہ محمد ﷺ کے پاس مختلف اقوام کے جو لوگ آیا کرتے تھے وہ انہی کی زبان میں ان سے چند الفاظ بولاکرتے تھے اور چونکہ محمد ﷺ نے ایک دو مرتبہ اپنے پاس آنے والوں سے فارسی زبان میں بھی گفتگو کی تھی، اس طرح عربی زبان میں فارسی کے بھی چند الفاظ داخل ہو گئے۔اگرچہ اس بیان میں روایات کو بہت کچھ دخل ہے مگر اس لحاظ سے یہ بہت اہمیت رکھتاہے کہ اس سے اس واقعہ کا ثبوت ملتا ہے کہ محمد ﷺ کو فارسی زبان کا کسی قدر علم ضرور حاصل تھا خواہ دیگر زبانوں کا نہ ہو۔ علاوہ ازیں کتاب’’سیرۃ الرسول ‘‘مصنف ابن اسحٰق و ابن ہشام سے ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ محمد ﷺ کے صحابیوں میں ایک شخص سلمان نامی تھا،جو ضرور تعلیم یافتہ اور قابل آدمی ہو گا کیونکہ جب ماہ فروری۶۶۷ءمیں اہل قریش اور ان کے خلفا نے شہر مدینہ کا محاصرہ کیا تو اسی سلمان کے مشورہ اور جنگی تجربات کی بنا پر شہر کی حفاظت کے لئے مشہور و معروف خندق کھودی گئی جس سے ’’غزوہ خندق ‘‘مشہور چلا آتا ہے۔ اس وقت سے پیشتر مدافعت کا یہ طریقہ عربوں نے کبھی استعمال نہیں کیا تھا۔یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اسی سلمان کے مشورہ سے محمد ﷺ نے ۶۳۰ء میں اہل طائف کے خلاف منجنیق سے کام لیا تھا۔بعض کہتے ہیں اگرچہ سلمان ہمیشہ ’’فارسی‘‘ کہلاتا تھا اور لوگ اسے عموماً ’’سلمان فارسی ‘‘ کہتے تھے مگر وہ دراصل عیسائی تھا جسے عراق سے گرفتار کر کے لے گئے تھے۔ممکن ہے کہ یہ بات غلط ہو اور اگر غلط ہے تو گمان غالب ہے کہ یہ سلمان فارسی ہی وہ شخص تھا جس کی نسبت محمد ﷺ کے مخالفین کہاکرتے تھے کہ وہ قرآن کے بنانے میں محمد ﷺ کا معاون ہے۔ قرآن کی سورۂ النحل میں اسی واقعہ کی طرف اس طرح اشارہ کیا گیاہے:

’’ وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِّسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ ‘‘۔ یعنی تحقیق ہم جانتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ ’’ اسے ایک بشر سکھاتا ہے ‘‘۔جس شخص کی طرف یہ لوگ اشارہ کرتے ہیں، اس کی زبان عجمی ہے اور یہ ‎‎ (قرآن ) صاف عربی زبان میں ہے۔

اگر سلمان ،فارس کا رہنے والا نہیں تھا تو آیت مندرجہ بالا کے الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہےکہ محمد ﷺ کے صحابیوں میں کوئی فارسی ضرور تھا جس کی نسبت لوگوں کو گمان تھا کہ وہ محمد ﷺ کو بعض باتیں ’’سکھاتاہے‘‘ جسے قرآن میں شامل کر دیا جاتا ہے اور یہ حکایات و روایات اس زمانہ میں عربوں کو ا س قدر کافی طور پر معلوم تھیں کہ جب انہیں قرآن میں داخل کیاگیا تو عربوں نے فوراً شناخت کر لیا۔علاوہ ازیں آیت مندرجہ بالا میں محمد ﷺ نے اپنے الزام لگانے والوں کو کوئی قابل اطمینان جواب نہیں دیا کیونکہ ان لوگوں کا الزام یہ تھا کہ وہ شخص آیات کا مضمون سکھاتا ہے،یہ الزام ہر گز نہیں تھا کہ وہ محمد ﷺ کو عربی زبان سکھاتا ہے۔ الزام قرآن کے مضامین پر تھا ،قرآن کی زبان پر نہیں تھا۔علاوہ ازیں ہم ثابت کر چکے ہیں کہ محمد ﷺ نے یہودیوں اور مشرکین عرب کی روایات سے بہت کچھ لیا پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ مجوسی ذرائع سے بھی کچھ اخذ نہ کرتے۔

چھٹا باب

فرقۂ حنیف اور اس کا اثر ابتدائی اسلام پر

محمد ﷺ ہی پہلے وہ شخص نہ تھے جنہوں نے اپنے زمانہ کے عربوں کا عام مذہب دیکھ کر اس کی حماقتوں اور لغویتوں کا احساس کیا اور اپنی قوم کے مذہب کی اصلاح کرنا چاہی۔قدیم زمانہ کے مصنفین جنہوں نے محمد ﷺ کی سوانح عمریاں لکھی ہیں ،یہ بیان کرتے ہیں کہ محمد ﷺ کے دعویٰ نبوت سے پیشتر بہت سے آدمی مدینہ،طائف ،مکہ اور غالباً دیگر مقامات عرب میں ایسے نمودار ہو چکے تھے جنہوں نے عام شرک اور بُت پرستی سے اظہار بیزاری کیا اور مذہب حق تلاش کرنے کی کوشش کی۔خواہ یہ تحریک یہودیوں کی طرف سے پیدا ہوئی ہو،جیسا کہ گمان غالب ہے یا کسی اور طرف سے ،مگر جن لوگوں کا ہم ذکر کر رہے ہیں انہوں نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت قائم کی جائے اور اس کی جگہ جو چھوٹے چھوٹے بُتوں کی پرستش نے لےلی ہے، اسے موقوف کیا جائے۔علاوہ ازیں بہت سی ایسی مخرب اخلاق رسموں کو بھی موقوف کیا جائے جو نہ صرف ضمیر انسانی بلکہ خود انسانیت کے بھی خلاف تھیں۔

خواہ یہ لوگ اس قدیم روایت سے متاثر ہوئے ہوں کہ ان کے مورث اعلیٰ ابراہیم صرف ایک سچے خدا کی عبادت کیا کرتے تھےیا اس بارے میں یہودیوں کے خیالات نے اثر کیا ہو ،بہر حال ان مصلحین مذہب کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ’’دین ابراہیم‘‘ کے جو یا ں ہیں۔چونکہ یہودی ہمیشہ دیگر فرقوں سے الگ تھلگ رہتے تھے اس لئے ممکن ہے کہ غیور عربوں کو ان کی یہ نخوت (تکبر۔غرور) ناگوار گزری ہو اور اس وجہ سے انہوں نے دین موسوی قبول کرنا گوارا نہ کیا ہو۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ قومی غیرت اور خاندانی افتخار ان کو اغیار و اجانب کا دین قبول کرنے سے مانع آیا ہو۔کیونکہ یہودی مذہب میں حد درجہ کی لغویتیں اور توہمات بھرے ہوئے ہیں۔دوسری طرف نصاریٰ کا الزام یہود پر یہ تھا کہ انہوں نے ان کے مسیحا کو قبول نہ کیا اور اسے قتل کر ڈالا۔علاوہ ازیں نصاریٰ یہ بھی کہتے تھے کہ مصلوبیت مسیح کا ہی عذاب یہود پر نازل ہوا ہے کہ وہ اس قدر ذلیل حالت میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ممکن ہے کہ ان باتوں نے بھی ان مصلحین کو تالمودی یہودیت قبول کرنے سے روکا ہو۔بہر حال خواہ کوئی بھی سبب ہو ،یہ مصلحین محض جویائے حق تھے،یہودی یا عیسائی مبلغین کی حیثیت سے نہیں اٹھے تھے۔ان مصلحین میں جو زیادہ مشہو ر تھے ان کے نام بھی ہم کو معلوم ہیں۔یعنی مدینہ میں ابو عامر،طائف میں اُمیہ بن الصّلت، مکہ میں ورقہ ،عبید اللہ ،عثمان،اور زید ابن عمر۔ا ن کے علاوہ اور بھی لوگ تھے جو مندرجہ بالا لوگوں سے ہم دردی رکھتے تھے۔اگرچہ ان لوگوں کے پیرو یا مرید بہت زیادہ نہ تھے۔

چونکہ ان مصلحین نے ہمارے لئے اپنے عقائد کے متعلق کوئی تحریر نہیں چھوڑی، سوائے ایک نظم کےاس لئے مناسب ہو گا کہ جو کچھ بھی ہم ان لوگوں کے بارے میں لکھیں کسی سند کا حوالہ دے دیں۔اس بارے میں ہمارے لئے خاص سند ابن ہشام کی کتاب ہے۔یہی شخص سب سے پہلا مصنف ہے جس نے’’سیر ت الرسول ‘‘لکھی۔ وہ پہلا مصنف جس نے محمد ﷺ کی سوانح عمری قلم بند کی تھی اس کا نام زہری  (Zuhri) ‏ ہے جس نے ۱۲۴ء میں وفات پائی ۔اس کی تمام معلومات ان لوگوں کی روایات پر مبنی تھی جنہوں نے خودمحمد ﷺ کی زبان سے باتیں سنی تھیں یا جنہوں نے محمد ﷺ کو دیکھا تھا۔ان میں خاص راوی عروہ ہے جو ام المومنین عائشہ کا رشتہ دار تھا۔اس میں شک نہیں کہ اس قدر عرصہ کے بعد روایات میں غلطیاں اور مبالغہ ضرور داخل ہوگیا ہوگا۔بایں ہمہ اگر زہری کی کتاب فی زماننا مل سکتی تو وہ بہت مفید ثابت ہوتی۔مگر ہاں یہ بات ضرور ہے کہ زہری کے شاگرد ابن اسحٰق نے جس کی وفات ۱۰۱ءمیں واقع ہوئی،اپنی سیرت الرسول مرتب کرنے میں اس کتاب سے استفادہ کیا ہوگا۔بہر حال ابن اسحٰق نے اپنی کتاب میں اور بھی بہت سی باتیں غلط ہوں یا صحیح ،دیگر ذرائع سے حاصل کر کے اپنی کتاب میں داخل کی ہوں گی۔مگر افسوس ہے کہ ہم تک ابن اسحٰق کی کتاب بھی مکمل اور علیٰحدہ طور پر نہیں پہنچی۔اگرچہ اس کا بہت بڑا حصہ ان اقتباسات کی صورت میں محفوظ ہے جو ابن ہشام (المتوفی۲۱۳ء) نے اپنی کتاب ’’سیرت الرسول‘‘ میں بکثرت دیئے ہیں۔ اگرچہ اسی نام کی بے شمار کتابیں موجود ہیں مگر ابن ہشام کی کتاب سب سے زیادہ پرانی ہے۔ محمد ﷺ اور اس کے زمانہ کے حالات معلوم کرنے کے لئے یہ کتاب نہایت اہم ہے کیونکہ یہ اپنی قسم کی دیگر کتابوں کے مقابلہ میں روایات اور حکایات سے بہت کم معمور ہے۔

ابن اسحٰق اور ابن ہشام نے جو کچھ ان پرانے عرب مصلحین کے بارے میں لکھا ہے، وہ اس وجہ سے اور بھی زیادہ قابل قدر ہے کہ ان مصنفین کو اپنے نبی کے مقابلہ میں ان عرب مصلحین کی تعریف کرنے یاان کے حالات میں مبالغہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔نیز ان مصنفین کو یہ بھی خیال کبھی نہ آیا ہوگا کہ جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں اس سے کبھی مخالفین محمد ﷺ بھی کام لیں گے۔پس جہاں تک ان کو معلوم ہوا انہوں نے سچ سچ باتیں لکھ دیں۔یہ بہت ممکن ہے کہ ان مصلحین سابق اور محمد ﷺ کی تعلیمات میں بہت زیادہ مطابقت ہو مگر یہ تو یقینی بات ہے کہ ان کی تعلیم محمد ﷺ کی تعلیم سے ہر گز کم نہ ہوگی۔پس ہم پورے اعتماد کے ساتھ ابن ہشام کی تحریر کو قبول کرتے ہیں اور جو کچھ اس نے ان سابق مصلحین عرب کی تعلیمات کے بارے میں لکھا ہے اس کا قرآن سے مقابلہ کرتے ہیں۔اس خیال سے کہ ہمارے ناظرین نتیجہ کا خود فیصلہ کر لیں ہم ذیل میں ابن ہشام کی عبارت کا ترجمہ درج کرتے ہیں۔اور ابن ہشام کی یہ عبارت زیادہ تر ابن اسحٰق کے بیانات پر مبنی ہے۔

ابن اسحٰق بیان کرتا ہے کہ ’’قریش ایک روز ایک میلہ میں جمع ہوئے جو وہ اپنے ایک بُت کا کیا کرتے تھے۔و ہ اس بُت کی بہت ستائش کرتے تھے،اس پر قربانیاں چڑھاتے تھے،اس کے پاس رہتے تھے اور اس کے گرد طواف کیا کرتے تھے اور یہ میلہ سال بھر میں ایک دن ہو اکرتا تھا۔پس چار آدمی خفیہ طور سے ان سے علیٰحدہ رہے۔ اور انہوں نے ایک دوسرے سے کہا’’ ایک دوسرے کے سچے وفادار رہو اور آپس کا راز مخفی رکھو‘‘۔انہوں نے کہا’’بہت اچھا‘‘۔یہ لوگ ورقہ ابن اسد اور عبید اللہ ابن جحش۔۔۔ جس کی والدہ کا نام اُمیمہ بنت عبد المطلب تھا اور عثمان ابن الحوایرث۔۔۔اور زید ابن عمر تھے۔پس انہوں نے ایک دوسرے سے کہا’’خدا کی قسم تم جانتے ہو کہ تمہاری قوم کی بنیاد کسی چیز پر مبنی نہیں۔یقیناً ان لوگوں نے اپنے باپ ابراہیم کے دین سے گمراہی اختیار کی۔ایک پتھرمیں کیا دھرا ہے جو ہم اس کے گرد طواف کریں؟ نہ یہ سنتا ہے، نہ دیکھتا ہے ،نہ کسی کو کچھ نقصان پہنچاتا ہے ،نہ کسی کو کچھ فائدہ۔اے لوگو! تم اپنے لئے (دین) کی تلاش کرو کیونکہ تحقیق خدا کی قسم تمہاری بنیاد کسی چیز پر بھی نہیں‘‘۔پس وہ لوگ مختلف علاقوں میں گئے تاکہ وہ وہاں ’’دین حنیف‘‘ کی تلاش کریں ،جو ابراہیم کا مذہب تھا۔پس ورقہ ابن نوفل تو نصرانیت میں جذب ہو گیا۔ا ور اس نے عیسائیوں کی کتب میں’’دین حینف‘‘ کی تحقیق کرنا شروع کی حتّٰی کہ اسے اہل کتاب سے کچھ علم حاصل ہوا۔مگر عبید اللہ کی حالت مذبذب رہی ،حتّٰی کہ وہ آخرمیں اسلام لے آیا۔اس کے بعد وہ مسلمانوں کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کر گیا اور اس کے ساتھ اس کی بیوی ام حبیبہ بنت ابو سفیان بھی گئی جو مسلمان ہوگئی تھی۔مگر جب وہ حبشہ میں پہنچا تو مرتد ہو کر عیسائی ہو گیا اور وہیں بحالت نصرانیت ہلاک ہوا۔ ابن اسحٰق نے لکھا ہے کہ:

’’پس محمد ابن جعفر ابن زبیر نے مجھ سے یہ کہہ کر بیان کیا کہ’’عبید اللہ ابن جحش ،جب عیسائی ہو گیا تو رسول اللہ کے ان صحابیوں سے جھگڑا کیا کرتا تھا جو ا سوقت حبش میں تھے اور یہ کہا کرتا تھا کہ’’ ہم صاف دیکھتے ہیں اور تم چندھیا رہے ہو‘‘۔ یعنی ہم صاف بین ہیں مگر تم ہنوز دیکھنے کی کو شش کر رہے ہو اور ابھی تک نہیں دیکھ سکے‘‘۔اور یہ کہ جب شیر کا بچہ دیکھنے کے لئے اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ چندھیاتا ہے۔جو لفظ اس نے استعمال کیا تھا اس کے معنی ہیں’’ اپنی آنکھیں کھلی رکھنا‘‘۔ابن اسحٰق کہتا ہے عبیدا للہ کے مرنے کے بعد رسول اللہ نے اس کی بیوہ ام حبیبہ سے نکاح کیا جو بنت ابو سفیان بن حرب تھی۔ابن اسحٰق کہتا ہے کہ مجھے محمد ابن علی ابن حسین سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ نے ام حبیبہ کو لانے کے لئے حبش کے بادشاہ نجاشی کے پاس عمر ابن امیہ الضمری کو بھیجا۔پس نجاشی نے اسے بحیثیت زوجۂ محمد اس کے ساتھ کر دیا۔ پس اس نے اس کے ساتھ نکاح کر دیا اور اس نے رسول اللہ کی طرف سے اس کا مہر چار سو دینار مقرر کیا۔۔۔ ابن اسحٰق کہتا ہے کہ’’عثمان ابن حویرث قیصر شہنشاہ بائزنطیم کےپاس گیا۔جہاں وہ عیسائی ہو گیا اور وہ قیصر کے پاس رہ کر بہت کچھ پھولا پھلا۔۔۔ابن اسحٰق لکھتا ہے کہ زید ابن عمر ابن نفیل یوں ہی رہا ،نہ اس نے نصرانیت قبول کی نہ یہودیت۔مگر اس نے اپنی قوم کا مذہب چھوڑ دیا۔پس وہ بُتوں سے علیٰحدہ رہنے لگا۔مردار اور خون اور بُتوں پر چڑھائی ہوئی قربانیوں سے پرہیز کرتا تھا۔وہ لوگوں کو دختر کشی سے منع کرتا تھا اور وہ کہتا تھا’’میں خدائے ابراہیم کی عبادت کرتا ہوں اور جن غلطیوں میں پڑ کر اس کی قوم ہلاک ہو رہی تھی ،ان سے وہ ان کو سخت منع کرتا تھا۔ابن اسحٰق کہتا ہے کہ مجھ سے ہشام بن عروہ نے اپنے باپ کی سند سے اور اس کے باپ نے اپنی والدہ اسما بنت ابو بکر کی سند سے بیان کیا ہے کہ اسما نے کہا’’میں نے زید ابن عمر ابن نفیل کو بہت بڑی عمر میں کعبہ سے کمر لگائے جھکا بیٹھے دیکھا ،یہ کہتےہوئے’’اے قوم قریش ! قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں زید ابن عمر کی جان ہے کہ تم میں سے میرے سوائے کوئی فرد بشر بھی دین ابراہیم تک نہیں پہنچا‘‘۔اس کے بعد وہ کہا کرتا کہ’’یا اللہ اگر میں یہ جانتا ہوتا کہ تیرے نزدیک کون سا طریقہ پسندیدہ ہے تو میں تیری عبادت اسی طریقہ سے کیا کرتا ،مگر مجھے یہ بات معلوم نہیں‘‘۔پھر جس طرح اس کو سہولت ہوتی وہ اسی طرح عبادت کرتا۔ابن اسحٰق کہتا ہے کہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے بیٹے سعید ابن زید ابن عمر ابن نفیل اور عمر ابن الخطاب نے جو اس کا برادر عم زاد تھا،رسول خدا سے عرض کیاکہ ’’زید ابن عمر کے لئے دعا ئے نجات مانگئے‘‘۔رسول اللہ نے فرمایا’’ہاں ! کیونکہ تحقیق وہ اپنی ذات سے ایک مذہبی فرقہ بن کر اٹھے گا‘‘۔

ابن ہشام نے نہایت احتیاط کے ساتھ وہی باتیں لکھی ہیں جو اس کے پیشرو ابن اسحٰق نے لکھی تھیں اور تقریباً تمام الفاظ بھی ابن اسحٰق ہی کے استعمال کئے ہیں۔پس ان سابق مصلحین عرب خصوصاً زید کی تاریخ اور عقائد پر غور کرنےکے لئے ایک واضح اور مستقل مسالہ (سامان) موجود ہے۔زید کے پر اثرقصّہ اور اس کی نظم کی رفیع الخیالی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے محمدﷺ پر کس قدر اچھا اثر ڈالا ہو گا۔

ابن ہشام بہ سند ابن اسحٰق بیان کرتا ہے کہ الخطاب نے جوزید کا چچا تھا، زید کو اس بات پر برا بھلا کہا کہ اس نے اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا تھا اور اسے اس قدر ستایا کہ وہ بےچارہ مکہ میں نہ رہ سکا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ عرب کے دیگر علاقوں میں بھی پھرتا رہا، مگر بالآخر کوہ حرا کے ایک غار میں آکر مقیم ہو گیا۔وہاں وہ بہت بڑی عمر تک زند رہا اور جب وہ فوت ہوا تو وہیں پہاڑ کی تلی (پیندا) میں دفن کر دیا گیا۔کہا جاتا ہےکہ جب محمدﷺ نے ۶۱۲ء میں نبوت کا دعویٰ کیا تو اس سے صرف پانچ سال قبل زید کی وفات ہوئی تھی۔ ابن اسحٰق بیان کرتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں قریش کی رسم تھی کہ وہ شہر سے نکل کر ایک مہینہ تک کوہ حرا پر رہتے تھے (یعنی ماہ رمضان میں) اور وہ اس طرح ہر سال وہاں توبہ استغفار و عبادت و ریاضت کیا کرتے تھے۔اسے ’’تحنث‘‘ کہتے تھے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قریش کی اسی رسم کی وجہ سے محمدﷺ نےبعد میں تمام ماہ رمضان کو مسلمانوں کے لئے خاص طور پر بغرض زہد و عبادت منتخب کیا۔اور چونکہ محمدﷺ کے زمانہ میں ماہ رمضان موسم گرما میں واقع ہوا تھا، اس لئے متمول لوگوں نے شہر کی تنگ اور گھٹی ہوئی گرم گلیوں سے نکل کر کھلے علاقہ کی تازہ اور صاف ہوا میں جا کر رہنا زیادہ پسند کیا ہو گا۔یہ سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں کہ ان ایام میں ان لوگوں کی زندگی بہت زیادہ متقیانہ اور پرہیز گارانہ ہوتی تھی۔بہر حال جیسا کہ صاف طور سے بیان کیا جاتا ہے محمدﷺ ہر سال ماہ رمضان کے دن رسم کے موافق کوہ حرا پر جا کر بسر کیا کرتے تھے اور وہ درحقیقت اسی غار میں مقیم تھے جس میں زید رہا کرتا تھا، جبکہ ان پر پہلی وحی بذریعہ جبرئیل فرشتہ نازل ہوئی۔ محمدﷺ کا اس طرح کوہ حرا پر جا کر غار میں رہنے کا مطلب’’ترک دنیا‘‘سمجھنا غلطی ہے کیونکہ قریش کی رسم کے بموجب محمدﷺ کی بیوی خدیجہ بھی اس وقت ان کے پاس اسی غار میں موجود رہتی تھیں۔

اس سے صاف ظاہر ہے کہ اپنی قوم کی رسم کے مطابق محمدﷺ ہر سال جاکر ایک ماہ کے لئے کوہ حرا پر رہتے تھے تو انہیں وہاں زید سے گفتگو کرنے کا بہت کافی موقعہ ملتا ہوگا اور روایت سے صاف ظاہر ہے کہ محمدﷺ اس زید کی کس قدر عزت و تکریم کرتے تھے۔اور یہ ہم ظاہر کر چکے ہیں کہ محمدﷺ نے زید کے لئے دعا کرنا منظور کرلیا تھا۔اور یہ واقعہ بہت زیادہ قابل غور ہے کیونکہ بیضاوی نے سورۂ توبہ کی آیت ۱۱۴ کی تفسیر کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ محمدﷺ کو اپنی ماں آمنہ کے لئے دعا مانگنے سے منع کردیا گیا تھا۔ حالانکہ وہ اپنی والدہ سے جو اس کے بچپن ہی میں وفات پا چکی تھیں بہت محبت کیا کرتے تھے۔علاوہ ازیں الواقدی نے بیان کیا ہے کہ محمدﷺ نے زید کو سلام کیا ،حالانکہ یہ اعزاز صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص ہے۔محمدﷺ نے زید کے لئے خدا سے دعائے آمرزش کی اور بیان کیا کہ’’میں نے اسے جنت میں دیکھا ہے ،اس کےپیچھے لوگوں کی قطار ہے‘‘۔بقول اسپرنیجر’’ محمدﷺ نے کھلم کھلا زید کو اپنا پیشرو تسلیم کر لیا تھااور زید کا ہر لفظ جس کا ہم کو علم حاصل ہے وہ قرآن میں موجود ہے‘‘۔مثلاً سور ۂ آل عمران میں محمدﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ عوام سے کہے’’کیا تم مسلمان ہو گئے ہو؟‘‘ ابن اسحٰق نے بیان کیا ہے کہ یہی الفاظ زید نے لوگوں سے قبل از محمد کہے تھے۔خاص خاص اصول جو زید نے قائم کیے تھے وہ سب قرآن میں موجود ہیں،مثلاً

(۱) دختر کشی سے ممانعت (اس زمانہ میں یہ ظالمانہ رسم رائج تھی کہ وہ اپنی شیر خواربیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے)۔

(۲) توحید باری تعالیٰ کا تسلیم کرنا۔

(۳) بُت پرستی ،لات وعزیٰ اور دیگر بُتوں کی پرستش سے منع کرنا۔

(۴) جنت یافردوس میں آئندہ عیش و مسرت کا وعدہ۔

(۵) گنہگاروں کے لئے جو عذاب دوزخ میں مخصوص ہے اس سےانتباہ۔

(۶) کافروں کو خدا کے قہر و غضب سے ڈرانا۔

(۷) خدا کے لئے الرحمٰن ،الرب اور الغفور کے خطابات استعمال کرنا۔

علاوہ ازیں زید اور جملہ دیگر مصلحین عرب ،دین ابراہیم کے لئے قرآن میں بھی ’’حنیف‘‘ کالفظ استعمال کیا گیا ہے اور یہ خطاب زید اور اس کے دوستوں نے پسند کیا تھا۔جس لفظ سے’’حنیف‘‘ مشتق ہے اس کے معنی عبرانی زبان میں’’ چھپانا ،دھوکا دینا،جھوٹ بولنا ،مکر کرنا‘‘ ہیں اور ایسے ہی معنی اس لفظ کے سریانی زبان میں ہیں۔ عربی میں پہلے اس کےمعنی ’’لنگڑا کر چلنا‘‘ یا ناہمواری کے ساتھ چلنا‘‘ تھے،مگر چونکہ حنیف لوگوں نے عوام کے بُتوں کی پرستش چھوڑ دی تھی اس لئے بعد میں اس کے معنی’’الحادو کفر ‘‘ ہو گئے۔اس معنی میں سابق مصلحین عرب کے لئے یہ لفظ طنزاً استعمال کیا جاتا تھا۔مگر چونکہ ابن ہشام نے لکھا ہے کہ قریش کے لب و لہجہ میں وہ لفظ جس کے معنی ’’توبہ استغفار‘‘ اور ’’تقویٰ‘‘ کے ہیں اسے ’’حینیف‘‘ سے خلط ملط کر دیا گیا۔اس لئے اپنی بُت پرستی سے تائب ہونے کے باعث حنیف لوگ اس خطاب کو بخوشی قبول کرتے ہوں گے۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ محمدﷺ نے لفظ حنیف ابراہیم کے لئے استعمال کیا اور لوگوں کو دعوت دی کہ وہ ’’دین ابراہیم‘‘یعنی اسلام قبول کر کے حینف بن جائیں۔بہر حال محمدﷺ نے لفظ’’حنیف‘‘ استعمال کر کے یہ بات صاف طور پر ظاہر کر دی کہ وہ سابق مصلحین عرب کے اصول پر چل رہے تھے اور جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انہوں نے حنیف لوگوں کی تعلیمات قبول کر کے ان کوقرآن میں بھی داخل کر لیا تو ہم بلا پس و پیش کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کے ماخذ میں حنیف لوگوں کے اصول بھی شامل ہیں۔

حنیف لوگوں کا ابتدائی اسلام پر اس قدر اثر پڑنا بعض خاندانی امور کی بنا پر بھی قدرتی امر تھا۔کیونکہ مکہ کے جو مصلحین تھے وہ سب محمدﷺ کے رشتہ دار تھے کیونکہ وہ سب ایک ہی مورث اعلیٰ یعنی لِوا کی ا ولاد میں سے تھے۔علاوہ ازیں عبیداللہ محمدﷺ کا رشتہ دار ماں کی طرف سے تھا۔پھر محمدﷺ نے عبید اللہ کی بیوہ سے نکاح بھی کر لیا تھا۔دو دیگر مصلحین یعنی ورقہ اور نوفل محمدﷺ کی بیوی خدیجہ کے برادرعم زاد (چچا کا بیٹا) تھے۔


۴. ردّ عثمان الصّحف إلى حفصة وارسل إلى كل أفق بمصحف مما نسخوا وأمر بما سواه من القرآن فى كل صحيفة ومصحف أن يُحرق‭.‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬‬

۶. فاعلم أن القرآن نزل بلغة العرب وعلى أساليب بلاغتهم وكانوا كلهم يفهمونه ويعلمون معانيه فى مفرداته وتراكيبه وكان ينزل جملاً. جملاً وآيات آيات لبيان التوحيد والفروض الدينية بحسب الوقائع ومنها ما هو فى العقائد الأيمانية ومنها ما هو فى أحكام الجوارح (ابن خلدون جلد نمبر ۲ صفحہ ۳۹۱)

۷. ويدلك هذا كله على أن القرآن من بين الكتب الإلهية إنما تلقاه نبينا صلوات الله وسلامه عليه متلواً كما هو بكلماته وتراكيبه بخلاف التوراة والإنجيل وغيرهما من الكتب السماوية فإن الأنبياء يتلقونها فى حال الوحى معانى ويعبرون عنها بعد رجوعهم إلى الحالة البشرية بكلامهم المعتاد لهم ولذلك لم يكن فيها إعجاز (ابن خلدون جلد نمبر ۱ صفحات ۱۷۱-۱۷۲

۸. يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ (۱۳۔سورہ رعد آیت ۳۹)

۹. بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ (۸۵۔سورہ بروج آیت ۲۱-۲۲)

۱۰. قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً قُلِ اللَّهُ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ (سورۂ انعام آیت۱۹)

۱۱. إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ

۱۲. ملاحظہ ہو سورہ حدید آیت ۲۶ ومابعد

۱۸. Σέβονται δὲ Ἀράβιοι πίστις ἀνθρώπων ὁμοῖα τοῖσι μάλιστα. ποιεῦνται δὲ αὐτὰς τρόπῳ τοιῷδε· τῶν βουλομένων τὰ πιστὰ ποιέεσθαι, ἄλλος ἀνὴρ ἀμφοτέρων ἀυτῶν ἐν μέσῳ ἑστεὼς λίθῳ ὀξέϊ τὸ ἔσω τῶν χειρῶν παρὰ τοὺς δακτύλους τοὺς μεγάλους ἐπιτάμνει τῶν ποιευμένων τὰς πίστις· καὶ ἔπειτα λαβὰν ἐκ τοῦ ἱματίου ἑκατέρου κροκύδα ἀλείφει τῷ αἵματι ἐν μέσῳ κειμένους λίθους ἑπτά· τοῦτο δὲ ποιέων ἐπικαλέει τόν τε Διόνυσον καὶ τὴν Οὐρανίην. ἐπιτελέσαντος δὲ τούτου ταῦτα, ὁ τὰς πίστις ποιησάμενος τοῖσι φίλοισι παρεγγυᾷ τὸν ξεῖνον, ἢ καὶ τὸν ἀστόν, ἢν πρὸς ἀστὸν ποιέηται· οἱ δὲ φίλοι καὶ αὐτοὶ τὰς πίστις δικαιεῦσι σέβεσθαι. Διόνυσον δὲ θεὸν μοῦνον καὶ τὴν Οὐρανίην ἡγεῦνται εἶναι· καὶ τῶν τριχῶν τὴν κουρὴν κείρεσθαί φασι, καθάπερ ἀυτὸν τὸν Διόνυσον κεκάρθαι· κείρονται δὲ περιτρόχαλα, περιξυροῦντες τοὺς κροτάφους. Οὐνομάζουσι δὲ τὸν μὲν Διόνυσον, Ὀροτάλ· τὴν δὲ Οὐρανίην, Ἀλιλάτ (Herod. Lib. III., 8).

۲۰. Ιερον αγιωτατον ιδρυται τιμωμενον υπο παντων 'Αραβων περιτ-τοτερον (Diod. Sic., Lib. III.)

۲۲. Siratu'r Rasul, pp. 27 sqq ‎ 

۲۳. ‎Ibid. ‎ 

۲۴. ‎Herodotus III. 8, quoted above, p. 32. ‎ 

۲۵. Hist. Ante-Islamica, ed. Fleischer, p. 180. ‎ 

۲۷. Περιτέμνεται ... πᾶς Σῦρος καὶ Ἄραψ καὶ πάντες οἱ ἱερεῖς τῶν εἰδώλων.

۲۸. Siratu'r Rasul, part I., p. 27:— ‎ 

وفيهم على ذلك بقايا من عهد ابرهيم يتمسّكون بها من تعظيم البيت والطّوّاف به والحجّ والعمرة والوقوف على عرفة والمزدلفة وهدى البدن والاهلال بالحجّ والعمرة مع ادخالهم فيه ما ليس مِنْهُ.

۲۹. ابوالفداء ۔ التواریخ القدیمہ صفحہ ۱۴۸

۳۰. ‎ Vide also p. 269. ‎ 

۳۱. ‎ (Rodwell, Koran, Pref., p. xviii) ‎ 

۴۲. ‎ Midrash Yalkut ‎ 

۴۳. ‎ Translated from the original, which is printed and incorrectly translated in Trans. Soc. Bibl. Archaeology, vol. II., pt. 1., pp. 104, 105, 115. ‎ 

۴۴. Sundopasundopákhyânam ‎ 

۴۷. یہی مضمون سورہ بقرہ کی آیت ۶۳ اور ۹۳ میں آیا ہے۔

۵۰. ‎ Sir W. Muir, Life of Mahomet, 3rd ed., p. lxxxiv. ‎ 

۵۱. Ancient Christianity. vol. i. p. 266. ‎ 

۵۲. Ποικίλως καὶ πολυτρόπως τὴν ἁμαρτίαν χειρογραφήσαντες καὶ οἵμασιν μὲν ἀνθρωπίνοις τὴν γῆν φοινίξαντες, πορνείαις δὲ καὶ μοιχείαις καὶ ταῖς ἄλλαις ἀναριθμήτοις πονηρίαις ... τὴν ὀργὴν τοῦ Θεοῦ καθ' ἑαυτῶν ἐκκαῦσαντες, κτλ. Acta Martyrii S. Athanasii Persae, p.2.

۵۳. ‎ Cent. VII, pt. 11, cap iii. § 1, ed. Reid. ‎ 

۵۵. ‎Vide Bar Hebraeus, Chron. Ecc., I. 142 sqq.; Assemani, Bibl. Orient. I. 335, sqq. ‎ 

۵۶. De Gloria Martyrum, cap. 95. ‎ 

۵۷. Coptic Apocryphal Gospels, p. 15: Frag. ii. A: lines 10-12 ‎ 

۵۸. ‎ Vide The Noble Eightfold Path, pp. 69, 70. ‎ 

۵۹. ‎ Book I. § 34, ed. Cowell. ‎ 

۶۰. ‎ Beal, Rom. Legend, p. 44. ‎ 

۶۱. ‎ "Testament of Abraham", Recensions A, cap. xii, p. 91: cf. pp. 92, 93, 113, 114, capp. xiii, xiv, and Recension B, cap. vii. ‎ 

۶۲. The Book of the dead, vol. iii, p. xlvii. ‎ 

۶۳. ‎ "Testament of Abraham", Recension A, cap xi. ‎