Religion of Islam

مناظرہ حافظ آباد

An Account of the Hafizabad Debate

مرتبہ

ایم۔ کے ۔ خان

علامہ حاجی پادری عبدالحق صاحب پروفیسر تھیالوجیکل کالج
سہارنپور
اور
علامہ حاجی پادری سلطان محمد خان پال صاحب پروفیسر عربی فورمین کالج لاہور
سے
توحید محضہ اوراسلامی نجات
مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری مدیر اہلحدیث
کے

انکاروفرار کی دلچسپ کیفیت

ایم ۔ کے ۔ خان ۔ مہاں سنگھ باغ ۔ لاہور

M. K. KHAN

MAHAN SINGH BAGH, LAHORE

۱۹۲۸

Religion of Islam

دیباچہ

مسلمانانِ پنجاب میں مولانا ثناء اللہ صاحب کے پایہ کا اور کوئی کہنہ مشق وتجربہ کارمناظر نہیں۔ بجا طورپرآپ کو " شیرپنجاب" کہا جاتاہے۔ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے مباہلہ اور موت نے آپ کی شہرت کو تمام ہندوستان میں عام کردیا اور اس سے مولانا مالا مال بھی ہوگئے۔ پھر مرزا جی کے مرُیدوں نے آپ سے بمقام لدھیانہ شکست  کھاکر آپ کے " فاتح قادیاں" ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ نیز آریوں اور شیعوں کے بالمقابل بھی آپ اکثر ظفریاب رہتے ہیں۔

اب پیرانہ سالی میں آپ کو مسیحیوں سے واسطہ پڑا۔ پادری عبدالحق سے اسلامی توحید پر آپ مناظرہ کرسے ہمیشہ کتراتے رہتے ہیں۔۱۹۲۶ میں پادری سلطان محمد خان صاحب نے اس موضوع پر آپ کو بمقام گوجرانوالہ خاموش کردایا تھا چنانچہ نور افشاں اوراہل حدیث اُس کے شاہد ہیں۔ اب مسلمانان حافظ آباد نے آپ کو بُلایا۔ مگر جب اسلامی معتقدات کو زیر بحث لانے کی نوبت آئی تو آپ نے بحث ہی بند کرادی اور ہزاروں آدمیوں کے ہجوم کو تحقیق مذہبی کے استفادہ سے محروم ومایوس کردیا۔ افغانِ " شیرافگن ۱ " (پادری پال صاحب) نے چیلنج پر چیلنج کیا کہ اسلامی نجات پر مباحثہ کرلو مگر آپ ایسے دہشت زدہ ہوئے کہ پھر کھڑے ہونے کی جرات ہی نہ ہوئی۔ جب آپ طرح بہ طرح کے حیلوں سے بحث سے گریز اور فرار کی تیاریاں کررہے تھے توپادری عبدالحق صاحب نے آپ کو شرائط سے آزاد چیلنج دیا جسے پہلے آپ نے منظور کرلیا مگر جب تاریخ مباحثہ کے  تعین کی نسبت دریافت کیا توآپ نے خاموشی میں پناہ لی۔ " اسلامی نجات" اور" اسامی توحید" حسرت بھی نگاہوں سے آپ کے چہرہ کودیکھتی رہ گئیں مگر آپ اُن کو بیکسی کی حالت میں چھوڑ کر امرتسر آگئے۔ یہاں آکر تحفظ شہرت کی خاطر حافظ آباد کی غلط رپورٹ اہل حدیث میں چھاپی۔ جب ہم  نے پادری صاحب کا جواب آپ کوبغرض اشاعت بھیجا توشائع کرنے سے انکار کردیا۔ اب ہماری کشادہ دلی دیکھئے کہ فریقین کے تمام مضامین اور خطوط وکتابت کو اس رسالہ میں مرتب کردیا ہے تاکہ آپ پبلک یک طرفہ بیان سُنا سُنا کر مغالطہ میں نہ ڈالتے رہیں۔

مولانا صاحب! یہ سب کچھ اس لئے ہواہے کہ آپ حق کی قوت کا اندازہ کریں اور عبرت پکڑیں۔

" سب کو آزمائیں اور بہتر کو اختیار کریں"۔

من از ہمدردیت گفتم ۔ توہم خود فکر کن بارے

خرواز بہرایں روز ست اے داناوہشیارے

(خان)

۸ دسمبر ۱۹۲۸

حافظ آباد پنجاب میں مناظرہ

مابین مسیحیاں واہلحدیثاں

"حافظ آباد کی جماعت اہلحدیث اوراُن کے امام مولوی حافظ عبدالمجید  صاحب بڑے مشتاق وخواہشمند تھے کہ اسلام اور مسیحیت کے متعلق تبادلہ خیالات مناظرہ کی صورت میں ہو۔ چنانچہ و ہ کئی بار پاسٹر کلیسیا حافظ آباد اورمسیحیوں کے پاس آئے اوراُنہیں چیلنج دیاکہ ہمارے ساتھ مناظرہ کی تاریخ مقرر کریں۔اورجہاں تک ممکن ہو جلدی کریں ہر چند کہ اُن کو سمجھایا گیا کہ مناظرہ سے باز رہیں۔ مگر وہ اپنی بات پر اڑے رہے ۔ اورکہا کہ ہم سے ضرور ہی مناظرہ کریں۔خیر ہم نے طوعاً وکرہاً ان کے چیلنج کو منظور کرلیا اور فریقین کی صلاح مشورہ سے ۲ اور ۳ دسمبر ۱۹۲۸ء کی تاریخیں برائے مناظرہ مقرر کی گئیں۔ اور مناظرین کے بلانے کا انتظام کیا گیا۔اور شرائط وغیرہ طے ہوگئیں۔ہم مسیحیوں نے اس بات پر زور دیا کہ دو منصف برائے فیصلہ آریاؤں یا سکھوں سے منتخب کئے جائیں۔ ایک کا نام ہماری جانب سے ہو اور دوسرے کا نام آپ کی جماعت اہلحدیث کی جانب سے پیش کیا جائے۔ پہلے تو وہ منظور کرتے رہے مگر آخر کار کہا کہ فیصلہ پبلک خود کرلیگی ہم کوئی منصف وغیرہ مقرر نہ کرینگے۔

فریقین کی جانب سے مندرجہ ذیل مضامین برائے مناظرہ منظور کئے گئے۔

منجانب مسیحیاں: ( ۱)کیا موجودہ بائبل تحریف وتنسیخ سے مبرا ہے؟ (۲) اثبات التوحید (۳) نبوتِ محمد صاحب۔ (۴) اسلامی نجات۔

بتاریخ یکم ستمبر ۱۹۲۸ء فریقین کے مناظرین بخیریت تمام حافظ آباد پہنچ گئے اور بتاریخ ۲ ستمبر ۱۹۲۸ء بوقت ۸بجے صبح ایم ۔ بی ۔ سکول حافظ آباد کے کمپونڈ میں جلسہ شروع ہوا ۔ سب سے ہمارے مقرر طرار۔ جناب ریورنڈ عبدالحق صاحب فاتح قادیاں پروفیسر تھیولاجیکل کالج سہارن پور مصنف رسالہ" اثبات التثلیث" نے تحریف بائبل کے مضمون پر ایک عالمانہ تقریر بڑی فصاحت وبلاغت سے فرمائی پُرانے نسخہ جات ۔تورایخ عالم ۔ کتبہ جات اور پُرزور دلائل وبراہین سے ثابت کردکھایا کہ موجودہ بائبل تحریف وتنسیخ سے مبُرا ہے۔

بعداز لکچرمولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری معترض ہوکر اٹھے اورسوال کیا کہ سب سے پہلی کتاب کس نے لکھی ہے؟ اوریہ کہہ کر بیٹھ گئے (ان کے لئے ۱۰ منٹ برائے تقریر مقرر تھے)۔

پادری عبدالحق صاحب نے کہاکہ لازم تویہ تھا کہ آپ میری دلائل کو رد کرتے کیونکہ بحث طلب بات یہ ہے کہ موجودہ بائبل محرف ہے؟ اورمیں نے ثابت کیا ہے کہ محرف نہیں ہے۔ لہذا آپ ثابت کریں کہ یہ تحریف شدہ ہے۔

مولوی صاحب۔ بہادر توآپ تب ہونگے اگر نام لینگے کہ پہلی کتاب کس نے لکھی ہے؟ سمجھ کے قدم رکھنا کہ سامنے کون کھڑا ہے۔ اہلحدیث کا زبردست جرنیل ہے۔ اسی طرح کئی دفعہ اٹھ اٹھ کر چند اشعار پڑھ کر اور چند تمسخر  آمیز الفاظ کہہ کر اپنی جماعت کوخوش کرتے رہےمگر مضمون کوچھوا تک نہیں اورنہ کسی آیت کو پیش کیا کہ فلاں فلاں آیت تم لوگوں نے نکال دی ہوئی ہے۔ جیسے کہ اکثر اوقات کہا کرتے ہیں۔ خیر آخرکارپادری صاحب موصوف نے جواب دیا کہ پہلی کتاب حضرت موسیٰ نے لکھی ہے۔ اور پھر مولوی صاحب استشنا ۳۴باب کی ۵تا ۸آیت کو پیش کرکے یوں گویا ہوئے کہ دیکھو بھائیو۔ موسیٰ اپنی موت وغیرہ کا حال خود لکھتا ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ آیات ثابت کرتی ہیں کہ یہ پیچھے بڑھائی گئی ہیں۔ اورحضرت موسیٰ کی تصنیف نہیں ہیں۔ پادری صاحب نے اُن کی تسلی کردی کہ یہ کتاب تتمہ ہے اور عزرا فقیہ نے اس کو الہام سے درج کیا ہے۔ پھر مولوی صاحب نے دوسرا پہلو اختیار کیا کہ رومن کیتھولک لوگوں کی کتابیں اپاکریفل کئی دفعہ بڑھتی گھٹتی رہی ہیں۔

پادری صاحب نے جواب دیا کہ ہم بائبل کی ۶۶ کتابوں کوا لہامی مانتے ہیں آپ اُن میں سے کسی کو تحریف شدہ ثابت کرکے دکھادیں۔

مولوی صاحب نے اصلی مسئلہ زیربحث کو چھوا تک نہیں اور نہ پادری صاحب کی کسی دلیل کا ردکیا اور نہ کچھ بائبل میں سے جعلی اور تحریف شدہ ثابت کرسکے۔ خداوند کے داؤد کے سامنے بیچارہ بڈھا جرنیل مات کھا گیا اور بمشکل تمام اپنا پیچھا چھڑایا۔

بعد ازاں جناب مولانا ثناء اللہ صاحب نے تحریف قرآن پر فقط ۱۵ منٹ تقریر فرمائی (حالانکہ ) بیس برائے تقریر مقرر تھے) جس کا لُب لباب یہ تھا کہ موجودہ قرآن متواتر سینہ بسینہ قرآن کے حافظوں کے سینوں میں محفوظ چلا آتاہے۔ اورمحمد صاحب کے زمانہ سے اب تک بغیر کسی قسم کے ردوبدل کے موجود ہے۔

بعد از تقریر جناب پادری مولوی سلطان محمد پال صاحب افغان سلطان المناظرین علامہ دہر معترض  ہوئے کہ موجودہ قرآن حضرت عثمان کا ہے نہ کہ حضرت محمد صاحب کے زمانہ کا کیونکہ پہلے قرآن جو اکٹھے کئے گئے تھے وہ آپس میں متفرق تھے اور حضرت عثمان نے اُن کو جلادیا تھا اوراپنے قرآن کو قائم رکھا تھا۔میں بڑے دعوے اور بڑے زور سے کہتاہوں کہ موجودہ قرآن حضرت محمد صاحب کے زمانہ کا نہیں ہے حضرت محمد کے قرآن کا نام ونشان صفحہ ہستی پر موجود نہیں ہے بلکہ یہ حضرت عثمان کا جمع کردہ ہے دیگر یہ کہ اُس زمانہ کا رسم الخط علیٰحدہ علیٰحدہ حروف میں تھا جیسے کہ انگریزی حروف علیٰحدہ علیٰحدہ چھاپے جاتے ہیں۔ اور بعد ازاں کوفی رسم الخط جاری ہوا۔ اُس زمانہ کے رسم الخط کا کوئی قرآن صفحہ دنیا پر آج کل موجود نہیں ہے۔ بلکہ یہ حضرت عثمان کے زمانہ کا ہے جو کہ تحریف شدہ ہے۔

شیر پنجاب (مولانا ثناء اللہ صاحب) جواب کے لئے اٹھتے تو رہے مگر کابلی شیر (پادری سلطان محمد پال صاحب افغان) کے سامنے اُن کے اشعار کارگر نہ ہوئے۔ اور نہ وہ ثابت کرسکے کہ موجودہ قرآن محمد صاحب کے زمانہ کا قرآن ہے۔ نہ وہ کسی کتبہ ۔پرانے نسخہ یا تاریخِ دنیا کواپنی شہادت میں پیش کرسکے۔ مولانا صاحب کا سب دارومدار بیچارے حافظوں کے سینوں پر تھا کہ حافظوں کے سینوں میں محفوظ چلا آتاہے اوربس۔ دونوں لکچروں کے بعد ہندوپبلک نے فیصلہ دیا کہ " واقعی پادری صاحبان کے دعوے اور دلائل زبردست ہیں۔ اورمولوی صاحب اُن کے مقابلہ میں بالکل عاجز رہ گئے ہیں۔ اور سوائے تمسخر اور شعر گوئی کے اُن کے پلے کچھ بھی نہیں۔

۲ ستمبر شام کی کارروائی۔ ۲ ستمبر کی شام کو مولوی حافظ محمد صاحب گوندلانوالہ نے اثبات توحید پر لکچر دیا(اس نام کا ایک رسالہ مولوی صاحب نے تصنیف بھی کیا ہوا ہے) دورانِ لکچر میں وہ اسلامی توحید کو ثابت تونہ کرسکے فقط تثلیث ہی کارد کرتے ہوئے منطق اور فلسفہ کی اصطلاحیں تومولوی صاحب نے بہت پیش کیں مگر جناب پادری عبدالحق صاحب نے اٹھ کر اُن کی سب اصطلاحات پر پانی پھیر دیا۔ اور بجز نقیوں کے مولوی صاحب کے پلے کچھ نہ رہا۔ اور وہ بالکل ثابت نہ کرسکے کہ اسلامی توحید کیا ہے۔

پادری صاحب موصوف نے ثابت کرکے دکھادیا کہ خدا کی ذات ِ واحد میں کثرت ہے۔

بعد ازاں اثبات التثلیث پر جناب پادری سلطان محمد پال صاحب نے گوہر افشانی کی اور بڑی صفائی اور وضاحت سے اندرونی اور بیرونی دلائلِ قویہ سے تثلیث جیسے اوق مضمون کو روز روشن کی طرح ثابت کردیا اور" رسالہ اثبات التوحید فی ابطال اثبات التثلیث " مصنفہ مولوی حافظ محمد صاحب کی ایسی  دھجیاں اڑائیں کہ خدا کی پناہ۔ طرفہ ترماجرا یہ ہے کہ پادری صاحب موصوف نے مولوی صاحب کے رسالہ ہی سے تثلیث کو ثابت کرکے دکھادیا۔ بیچارے مولوی صاحب سن کر پانی پانی ہورہے تھے اور مناظرہ کے آخرتک سناٹے کے عالم میں رہے۔

بعد ازتقریر مولانا ثناء اللہ صاحب معترض ہوکر اٹھے (مقررہ وقت دس منٹ تھا) اورآنجناب نے یہ سوال کیاکہ کیا آپ مقدس اتھانسیس کے عقیدہ کو مانتے ہیں؟ اور بیٹھ گئے۔

پادری صاحب۔ جنا ب مولانا صاحب !آپ کو لازم تھا کہ میرے دلائل کو رد کرتے مگر خیر میں آپ کو آپ کے سوال کا جواب دئیے دیتاہوں کہ ہم اس عقیدے کوالہامی نہیں مانتے ۔ لیکن آپ اس میں سے جواعتراض پیش کرنا چاہتے ہیں سوکریں۔

مولوی ثناء اللہ صاحب۔ عقیدہ میں لکھا ہے کہ خدا باپ ازلی۔ خدا بیٹا ازلی اور خدا روح القدس ازلی۔ پھر بھی یہ تینوں ازلی نہیں بلکہ ایک ازلی ۔

پادری پال صاحب۔ میں اس کو مانتاہوں کہ مگریہ کہہ سکتاہوں کہ آنجناب کو اس کی سمجھ نہیں آئی ورنہ آپ اسکو تثلیث کے رد میں پیش نہ کرتے پہلے اس کوسمجھئے۔ مولانا صاحب ۔ اس میں تثلیث کا ثبوت ہے نہ کہ رد۔

لیکن مولوی صاحب اپنے وقت میں عقیدہ اتھاناسیس کی تفسیر ہی کو پیش کرتے اور دعویٰ کرتے رہے کہ میں پُرانا جرنیل ہوں ۔ میرے مقابلہ پر کون کھڑا ہوسکتاہے۔؟ مگر افسوس  ہے کہ پُرانے جرنیل صاحب نے میدان جنگ میں سیدنا مسیح کے بہادر سپاہی کے سامنے اپنا کوئی بھی جوہر نہ دکھایا۔ نہ تو پادری صاحب کے دلائل وبراہین کو رد کرسکے۔  اورنہ بائبل یا قرآن کی کسی آیت یا تعلیم کو اس مضمون کے رد میں پیش کرسکے۔مولوی صاحب نے یہی غنیمت سمجھا کہ مقدس اتھاناسیس کے عقیدہ ہی میں پناہ لینی چاہیے۔ اگرمیں اس سے باہر نکلا توخیر نہیں۔ اوریہ بات اُن کی تجربہ کاری اور عقلمندی پر دلالت کرتی تھی۔

اثبات التثلیث اور اثبات التوحید فی الحقیقت دونوں مشکل مضامین تھے۔عوام الناس بہت کم سمجھے مگرجوسمجھتے تھے اُن کا یہ فیصلہ تھاکہ مولوی صاحبان پادری صاحبان کے آگے عاجز رہ گئے۔

۳ ستمبر کی کارروائی۔۳ ستمبر کو مضمون کفارہ مسیح پر جناب پادری عبدالحق صاحب نے سلیس اُردو میں عالمانہ تقریر کی۔ اورنہایت خوبی اور واضح طور سے مضمون مذکور کو ادا کیا اور ثابت کیاکہ تمام بنی نوع انسان گناہ کےلاعلاج مرض میں مبتلا ہیں۔" کوئی نیک نہیں ۔ ایک بھی نہیں" اور کوئی بشر اپنے اعمال حسنہ اور توبہ سے بچ نہیں سکتا۔ فقط سیدنا مسیح کے فضل پر نجات منحصر ہے  کہ سیدنا مسیح کے فدا کار ہونے سے تیار ہوئی ۔ مثال کے طورپر انہوں نے حضرت ابراہیم کو پیش کیا کہ سیدنا مسیح نے اُن کے بیٹے حضرت اضحاق کے بدلے خود فدیہ دیا۔ حضرت ابراہیم نے اپنے مال یعنی بھیڑ بکری سے نہیں دیا۔ بلکہ سیدنا مسیح نے خود فدیہ دیا۔ اسی طرح خدا باپ نے گنہگاروں کے لئے تمام دنیا کا باپ ہوکر اپنے بیٹے سیدنا مسیح کو فدیہ میں دیا ہے تاکہ " جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔

نیز آنجناب نے لفظ کفارہ کی تشریح کی کہ کفارہ کے معنی ڈھانپنا ہے۔ اوراس مضمون کو ایسی خوبی سے پیش کیاکہ سامعین کے ذہن نشین ہوگیا۔ مگر افسوس ہے کہ جب مناظرے کا وقت آیا تو صاحب موصوف کے مقابلہ پرایک ایسے شخص کو کھڑا کردیا جوایک لاعلم شخص تھا اورپادری صاحب کے مقابلہ میں کچھ حقیقت نہ رکھتا تھا۔اُس نے اٹھ کرایک قدم سینکڑوں اعتراضات پیش کردئیے جو کہ مضمون سے بے تعلق تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اُس نے وہ تمام اعتراضات مرزائی صاحبان کی پاکٹ بُک میں سے رٹے ہوئے تھے۔ وہ بیچارہ نہ تو مضمون ہی کو سمجھا اورنہ ہی فن مباحثہ سے واقف تھا۔ وہ صرف اُٹھ کر شورمچانا اور جوکچھ منہ میں آجائے وہ کہہ چھوڑنا ہی جانتا تھا۔

پادری صاحب نے کہا کہ یہ کوئی مناظرہ کا طریقہ نہیں ہے ۔ بلکہ اب میں یہ سمجھونگا کہ انجیل کی تبلیغ کررہا ہوں۔ سوجناب نے تمام اعتراضات کے بعد دیگرے تسلی بخش جواب دے دئیے۔

بعد ازاں مسئلہ نجات پر مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے تقریر فرمائی جس کا لب لباب یہ تھا کہ تمام دارومدار اعمال حسنہ اور توبہ پر ہے۔ آنجناب نے کہا کہ اسلامی نجات قدرتی طورپر علم طب سے موافق ہے کہ جس طرح گرم اشیاء مثلاً گڑ وغیرہ کے کھانے سے اگرگرمی ہوجائے اوراُس پر کوئی سرد چیز مثلاً لسی شربت نیلوفر وغیرہ پی لیں توکسی طرح کی گرمی نہیں رہتی۔ بلکہ خود بخود قدرتی طورپر علاج ہوجاتاہے اسی طرح سے جو بدی اور گناہ ہم سے سرزد ہوتے ہیں اُن کا ازالہ ہماری نیکیوں سے خود بخود ہوتا رہتاہے اور خدا اُن کا حساب نہیں لے گا یعنی ہماری نیکیوں سے ہمارے گناہ دور ہوجاتے ہیں۔

اوراگر کوئی گناہ کبیرہ ہوجائے توپھر توبہ کرلینے سے اُس کی معافی ہوجاتی ہے جیسے کہ اگر بہت ثقیل(سخت) غذاؤں سے پیٹ خراب ہوجائے توپھر جلاب لینے سے صفائی ہوجاتی ہے۔

بعد از الیکچر پادی سلطان محمد پال صاحب نے اسلامی نجات کا طبی اصول قرآن شریف اور حدیث کو پیش کرکے ایسا ردکردیا اور ثابت کردکھایا کہ اسلام میں کوئی نجات ہے ہی نہیں۔ اورکوئی انسان اپنے اعمال حسنہ اور توبہ سے نجات حاصل کرہی نہیں سکتا۔ اور نیز یہ کہا کہ میں بڑے دعوےٰ سے کہتاہوں کہ کوئی شخص دنیا میں ہے جوکہ اسلام میں نجات ثابت کرسکے۔ اگراسلام میں نجات ہوتی تو تومیں کیوں مسیحی ہوجاتا۔

پھر مولوی صاحب نے اٹھ کر کہا کہ میں اس پر مسلسل سارادن بحث کرنے کے لئے تیار ہوں ۔ افغانی شیر نے اپنا کوٹ اُتار کر جواب دیاکہ میں تیار ہوں۔ مولوی صاحب  کہنے لگے کہ کوئی منصف ہونا چاہیے ۔ جوکہ فیصلہ دے۔ پادری صاحب نے فرمایا کہ میں پنڈت رام چندر دہلوی کا نام منصف کے لئے پیش کرتاہوں اگر آپ کہیں تواُن کو آج ہی تار دیدوں اور کل اسی جگہ مناظرہ ہوجائے۔

مولوی صاحب ۔ میں چاہتاہوں کہ منصف برہمو سماج میں سے ہواور مباحثہ تحریری ہو۔

پادری پال صاحب۔ اگرآپ تحریری مباحثہ کرنا چاہتے ہیں تومیرے رسالہ " میں کیوں مسیحی ہوگیا" کا جواب لکھ دیں(یہ کہہ کر رسالہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی جانب پھینک دیا) یہ رسالہ سات سال سے لکھا ہواہے ۔ جب آپ اُس وقت تک جواب نہیں دے سکے تواب کیا لکھیں گے؟

میں چاہتاہوں کہ کہ مناظرہ دونو صورتوں میں ہو۔یعنی تحریری اور تقریری اور دونو کے منصف پنڈت رام چندر دہلوی ہوں اور تقریری مباحثہ اسی جگہ حافظ آباد میں ہو۔

اورمیں یہ بطور چیلنج مولوی ثناء اللہ صاحب کو تحریر کرتاہوں (چیلنج لکھ کر مولوی ثناء اللہ صاحب کو بھیج دیاگیا)۔ اور اگر میں اپنے ثبوت پیش نہ کرسکوں اور پنڈت صاحب موصوف فیصلہ دے دیں کہ میں جواب دینے سے قاصر رہ گیا ہوں تومیں محمدی ہوجاؤنگا۔

مولوی صاحب نے چیلنج منظور کرلیا اور تحریری جواب لکھ کر بھیجدیا کہ مناظرہ تحریری ہوگا ۔ اورآپ کے رسالہ کا جواب لکھ کر پنڈت صاحب موصوف کوبھیج دونگا اور جو فیصلہ وہ دیں گے مجھے منظور ہوگا۔ (مولوی صاحب نے بھی بعد ازاں پنڈت رام چندر دہلوی کا نام بطور منصف منظور کرلیا تھا)پادری صاحب نے تحریری جواب دیاکہ مجھے یہ منظور ہے کہ مناظرہ تحریری اور تقریری ہو۔ اور تقریری بمقام حافظ آباد ہو۔آپ  تقریری سے کیوں گریز کرتے ہیں؟ منصف پنڈت صاحب موصوف ہونگےاورجو وہ فیصلہ دیں گے مجھے منظور ہوگا۔ اوراگرمیں جواب الجواب دینے سے رہ گیا تومیں محمدی ہوجاؤنگا اوراس سے آپ کی بڑی شہرت ہوگی۔ مگر ساتھ ہی ایمانداری اس میں ہے کہ اگر آپ جواب نہ دے سکیں اور پنڈ ت صاحب موصوف کا فیصلہ میرے حق میں ہوتو آپ مسیحی ہوجائیں اور مناظرہ ۱۵ ستمبر ۱۹۲۸ء سے پیشتر ہو۔

اسی اثناء میں پادری عبدالحق صاحب نے بھی ایک چیلنج مولوی ثناء اللہ صاحب کے نام بھیج دیا کہ آپ میرے ساتھ ۵ ستمبر ۱۹۲۸ء سے پیشتر اسلامی توحید پر مناظرہ کرلیں۔

اب تو جناب مولوی صاحب اور جماعت اہل حدیث کے چھکے چھوٹ گئے۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کا معاملہ تھا ۔ جواب دیں توکیا دیں۔ سنگ آمد سخت آمد اب بصد مشکل یہ تدبیر سُوجھی کہ اپنے منبر پر ہی سے جواب دیا جائے اورکچھ نہ کچھ سنادیا جائے۔ لیکن جب اُن سے یہ طلب کیا گیا کہ براہ مہربانی آپ اپنا تحریری جواب بھیج دیں تومولوی صاحب نے یہ کیا نہیں۔ برعکس اس کے نعرہ تکبیر شروع کردیا اور اسلامی دنیا نے تالیاں بجانی اور شور کرنا شروع کردیا جیسے کہ اُن کی عادت ہے اوریوں مولوی صاحب  امرتسری نے اپنا پیچھا چھڑایا اور سب مسلمان میدان چھوڑ کرچلے گئے۔ اس جگہ میدانِ مناظرہ میں اہل حدیث حافظ آباد اوراُن کے بڑے مشہور ومعروف جرنیل مناظرہ جناب مولوی ثنا ء اللہ صاحب امرتسری کوشکستِ فاش ہوئی اورمیرا خیال ہے کہ اگر اُن کو یہ دن یاد رہا توپادری سلطان محمد پال صاحب افغان اور پادری  عبدالحق صاحب کے روبرو آئندہ میدانِ مناظرہ میں کبھی نہ آئینگے۔

شہر حافظ آباد میں اب تک اس مناظرہ کا بہت چرچا ہے اور ہندوپبلک اور غیر متعصب مسلمان یہ کہہ رہے ہیں کہ مولوی صاحبان پادری صاحبان سے شکست فاش کھاگئے اور جواب دینے سے عاجز رہ گئے ۔ یہ فتح ہمارے آقا ومولا سیدنا عیسیٰ مسیح کی ہے۔ اُن کا نام اب سے لے کر ابد تک مبارک ہو۔

خدا کا شکر ہے کہ اس جلسہ میں کسی قسم کا نقص امن نہیں ہوا بلکہ ساری کارروائی دوستانہ اور برادرانہ طور سے ہوتی رہے"۔ (مندرجہ نور افشاں)۔ راقم ۔ بی سیموئیل از حافظ آباد

پادری عبدالحق صاحب کے چیلنج کا اثر

جب جناب پادری عبدالحق صاحب  فاتح قادیاں نے دیکھا کہ مولوی صاحب اس موقعہ پر بحث سے گریز وفرار کی راہیں تلاش کرنے کی خاطر لیت ولعل اور عذروبہانہ کررہے ہیں توآپ نے تمام شرائط کی قیود کو دورکرکے مولوی صاحب کی اُسی وقت مباحثہ کا چیلنج دیا تاکہ اسلامی طریق نجات کی اصلیت اور توحید کی حقیقت اُس مجمع پر واضح ہوجائے۔ چیلنج کی نقل درج ہے۔ (خان)


" جناب مولوی ثناء اللہ صاحب۔ تسلیم۔ میں آپ کو اسلامی مسئلہ توحید کے متعلق چیلنج دیتاہوں کہ آپ اس مبحث پر میرے ساتھ تحریری اور تقریری مناظرہ کرلیں۔ منصف پنڈت رام چندر دہلوی ہونگے"۔

مورخہ ۳ ستمبر ۱۹۲۸ء حافظ آباد ۔

عبدالحق (پروفیسر ) نارتھ انڈیا یونائٹیڈ تھیولاجیکل کالج سہارن پور۔


مولوی صاحب موصوف نے اس کا جواب یہ دیاکہ:

چیلنج منظور


" پادری عبدالحق صاحب ۔ تسلیم۔ آپ نے جو چیلنج دیا ہے منظور مگر آپ نے یہ نہیں بتایا کہ فیصلہ میرے حق میں ہونے کی صورت میں آپ اسلام قبول کرینگے"۔

مورخہ ۳ ستمبر ۱۹۲۸ء حافظ آباد ۔

ابوالوفاء ثناء امرتسری ۔


پادری عبدالحق صاحب موصوف نے اس کا جواب یہ دیا کہ:


" جناب مولوی ثناء اللہ صاحب تسلیم۔ آپ مہربانی فرما کر تاریخ اورجگہ کی بابت فیصلہ کریں۔جگہ حافظ آباد ہوگی اور تاریخ ۱۵ ستمبر سے پیشتر جوآپ چاہیں بالتفصیل تحریر فرمائیں کہ کون سی تاریخ کو تقریری مناظرہ ہوگا اور کونسی تاریخ کو تحریری۔ آپ کے " مگر" کا جواب اُس وقت دونگا جب آپ یہ تحریر فرمائیں گے کہ اگر فیصلہ آپ کے برخلاف ہوگا توآپ مسیحی ہوجائیں گے۔ "۔

مورخہ ۳ ستمبر ۱۹۲۸ء حافظ آباد ۔

عبدالحق (پروفیسر ) نارتھ انڈیا یونائٹیڈ تھیولاجیکل کالج سہارن پور۔


جب مولوی صاحب کو یہ چیلنج پہنچا تو اس قدر گھبرائے اورتمام عذر حیلے بھول گئے کہ اُن کی طرف سے اِس کا جواب ہی نہ آیا۔ ہم مولوی صاحب سے مخلصانہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ نے پادری صاحب کے اس چیلنج کا کیوں جواب نہ دیا؟

اب ہم آپ کے ہی الفاظ میں یہ پوچھتے ہیں کہ آپ نے اور" اہل حدیث کمپنی" نے " صداقت اور دیانت کواُلٹی چُھری سے ذبح کیا یا نہیں؟ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ مباحثہ تو ہو مذہبی مگر اس کے اندر اور باہر جو کارروائی ہو وہ مذہب اور دیانت کے سراسر خلاف ہو"۔

(خان)


حافظ آباد میں مباحثہ عیسائیوں کے ساتھ

اب ہم اخبار اہل حدیث سے وہ روئداد نقل کرتے ہیں جو" اہل حدیث کمپنی" کی طرف سے اس مناظرہ کے متعلق شائع ہوئی تاکہ ناظرین طرفین کے بیانوں کو بغور مطالعہ کرکے خود فیصلہ کرسکیں کہ اہل حدیث کس قد دیانت کا خون کرتے ہیں۔  (خان)


" ضلع گوجرانوالہ پنجاب میں ایک مقام حافظ آباد اس کی تحصیل ہے وہاں متہروں کی ایک جماعت عیسائی ہوچکی ہے۔ اُن کے سمجھانے یا ترقی کرنے کو پادری لوگ آتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں سے بات چیت ہوتے ہوتے مباحثہ تک نوبت پہنچی ۔ مسلمانوں نے مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ صاحب ۔ مولانا حافظ محمد صاحب۔ مولوی احمد دین صاحب  وغیرہ علماء کو تکلیف دی ۔ عیسائیوں کی طرف سے پادری سلطان محمد پال صاحب اور پادری عبدالحق صاحب وغیرہ میدان مباحثہ میں آئے۔ مباحثہ ۲۔ ۳ ستمبر کوتھا۔ اورمضامین میں مباحثہ ۱ تحریف بائبل ۔۲ تحریف قرآن۔ ۳اسلامی توحید۔ ۴تثلیث ۔ ۵کفارہ مسیح۔۶اسلامی راہ نجات۔ ہرایک مضمون کے لئے ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ وقت مقرر تھا۔

پہلا۔ دوسرا۔ چوتھا اور چھٹا مضمون مولانا ابوالوفاء نے بیان کیا۔ تیسرا مضمون حافظ محمد صاحب اور پانچواں مولوی احمد دین صاحب گکھڑی نے بیان کیا۔

پادری صاحب نے پہلی تقریر متعلق بائبل پر کی۔ اوراپنی تقریر میں بڑا زور اس بات پر دیا کہ توریت وانجیل کے پُرانے نسخے مل گئے ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ وہ یہی ہیں جوہمارے پاس ہیں۔ نصف گھنٹہ تک پادری عبدالحق نے یہ تقریر ادا کی ۔ مولانا ابوالوفاء نے نہایت متانت سے کھڑے ہوکر صرف اتنا پوچھا کہ اس توریت کا لکھنے والایا لانے والا کون تھا؟ پہلے تواس کی تحقیق ہولے۔ ایک دومنٹوں میں سوال ختم کرکے بیٹھ گئے ۔ خدا جانے اس سوال میں کیا قوت تھی اور پُرانے مناظر نے اس میں کیا مخفی راز رکھا تھا کہ پادری صا حب نے اٹھ کر بہت لمبی تقریر کی مگر اس سوال کو نہ چھوا۔ پادری صاحب کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ میری پیش کردہ دلیلوں کو مولوی صاحب نے چھوا نہیں ۔ بس ایک سوال کردیا جس کا میں جواب نہ دونگا۔ مولانا ہنستے ہوئے کھڑے ہوئے حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایا بھائیو!میں نے جو سوال کیا وہ چینی زبان میں تھا یا کشمیری میں جس کو پادری نے سمجھا نہیں؟ لیجئے میں پھر دُہراتا ہوں کہ موجودہ توریت کولکھنے والے کون صاحب ہیں؟ پادری صاحب نے دوسری مرتبہ بھی وہی کہا جو پہلی مرتبہ کہا تھا۔ مولانا نے اپنے سوال کو دُہراکر یہ شعر پڑھا ۔

بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ توہے جس کی پردہ داری ہے

مجلس میں عجب سماں تھا۔ لوگ حیران تھے کہ مولانا نے اپنی عادت کے موافق ہنستے ہوئے ایک ایسی چٹکی لی ہے کہ پادری صاحب سخت پیچ وتاب کھارہے ہیں اورجواب نہیں دیتے۔ آخر تنگ آکر جواب دیا کہ تورات کے لکھنے والے حضرت موسیٰ تھے۔ یہ کہنا تھاکہ مولانا نے کھڑے ہوکر تورات ہی سے عبارت پڑھی جس میں مذکور تھا کہ موسیٰ کی مرنے کے وقت ایک سو بیس برس عمر تھی۔ اس کی قبر کا کسی کو پتہ نہیں وغیرہ۔فرمایا اگر حضرت موسیٰ نے یہ کتاب لکھی ہوتی تویہ الفاظ اس میں کیسے ہوسکتے ہیں؟ پادری صاحب نے جواب دیا کہ موسیٰ کی موت کا مضمون یشوع نبی نے پیچھے لگایا ہے۔ مولانا نے فرمایا پیچھے لکھے حصے کو علیحٰدہ کرکے دکھائیے یہاں توکلام برابر متصل جارہا ہے ۔ پھر ہم کیونکر باور کرلیں کہ اتنا حصہ کسی اور کا لکھا ہواہے اور وہ کون ہے۔ اسی پر وقت ختم ہوگیا۔

اس کے بعد قرآنی حفاظت کا مسئلہ تھا جس میں مولانا بحیثیت  مدعی تھی۔ آپ نےفرمایا مسلمانوں میں خدا کے فضل سے ایک جماعت حافظانِ قرآن کی ہے جو آنحضرت تک  برابر اپنا سلسلہ پہنچاتے ہیں۔ اور آنحضرت خود حافظ قرآن تھے۔ بس یہی قطعی دلیل ہے حفاظ قرآن کی۔ اس پر پادری پال صاحب نے بعض روائتیں بیان کیں جن میں ذکر تھا کہ فلاں آئت قرآن میں تھی وہ اب نہیں۔ مولانا نے اس روایت کومطابق کرکے دکھایا اور وقت پورا ہوگیا۔

تیسرا مضمون حافظ محمد صاحب نے بیان کیا ۔ آپ کے جواب دینے کو پادری عبدالحق کھڑے ہوئے دونوں صاحبوں کی تقریر منطقی اصول پر مبنی تھی۔

آپ کے بعد مسئلہ تثلیث پر تقریر کرنے کو پادری پال صاحب کھڑے ہوئے۔مگر سارا وقت آپ نے حافظ محمد کے رسالہ" اثبات التوحید" کی تردید میں خرچ کردیا۔ مسلم پریذیڈنٹ نے آپ کو ٹوکا کہ مضمون تثلیث پر تقریر کیجئے۔ مگر آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے  بزور یہی کہا کہ آپ مجھ کو روک نہیں سکتےمیں جو چاہوں بیان کروں۔جواب کے لئے مولانا ابوالوفاء کھڑے ہوئے آپ نے فرمایا ۔ رسالہ محمدی کا جواب تو یہ ہے کہ مصنف ممدوح اعلان کریں کہ جو چاہے مجھ سے پڑھے۔باقی اصل مضمون کے متعلق پھر ایک ہی سوال کیاکہ تثلیث کے تیسرے رکن مسیح کی حقیقت کیا ہے؟ عیسائیوں کا عقیدہ اتھاناسیس کہ جس طرح جسم اور روح کا مجموعہ انسان ہے اسی طرح خدا اور انسان کا مجموعہ مسیح ہے یہ ہے عیسائیوں کا مذہب کہ مسیح خدا اور انسان سے مرکب ہے۔ اس پر پادری صاحب بہت جھنجھلائے یہی کہتے رہے کہ اس تقریر کا تثلیث سے تعلق نہیں مگر حاضرین نے سارا تعلق سمجھ لیا۔

پانچواں مضمون کہ کفارہ مسیح ثابت کرنے کو پادری عبدالحق صاحب کھڑے ہوئے۔ جن کا جواب مولوی احمد دین صاحب نے اپنے خاص رنگ میں دیا ۔ جس کو دیہاتی حاضرین نے بہت پسند کیا۔

چھٹا مضمون اسلامی راہ نجات مولانا امرتسری نے نصف گھنٹہ بڑی خوبی سے بیان فرمایا آپ نے اپنی تقریر میں اسلامی راہ نجات کو ڈاکٹری اورطبی اصولوں سے عجیب طرز سے مطابق کرکے دکھایا۔ پادری پال صاحب نے جواب میں وہ روایات پڑھیں جن میں ذکر ہے کہ ہر شخص خدا کے رحم کے ساتھ نجات پائے گا عمل سے نہیں ۔ مولانا موصوف جواب کی تقریر کررہے تھے ابھی پانچ منٹ ہوئے اور پانچ باقی تھے کہ عیسائیوں کی طرف سے آواز آئی" وقت ختم ہوگیا" مسلم صدر نے کہا ابھی پانچ منٹ باقی ہیں۔ اس پر تکرار ہونے لگی۔ مولانا توکرسی پر بیٹھ گئے پادری سلطان محمد پال صاحب نے بڑے جوش میں اپنا رسالہ" میں کیوں مسیحی ہوا" مولانا کی طرف پھینک کر کہا کہ مولوی ثناء اللہ اس کا جواب دیں تومیں مسلمان ہوجاؤ نگا۔فیصلہ کے لئے پنڈت رام چندر صاحب آریہ دہلوی کا نام پیش کیا ۔ منصف کی بابت چند منٹ ردوبدل ہوتا رہا آخرکار مولانا نے بلند آواز سے اعلان کردیاکہ میں اس رسالہ کا جواب دونگا ۔ اس کے فیصلے کے لئے پنڈت رام چندر صاحب مجھےمنظور ہیں میں جواب لکھ کر مع رسالہ پنڈت صاحب موصوف کے پاس بھیج دونگا جو فیصلہ آئیگا وہ شائع کردیا جائے گا۔ مولانا کے اس اعلان کا جلسہ پر خاص اثر تھا حاضر ین حق کی قوت کا اندازہ کررہے تھے تاہم جن لوگوں کواسلامی فتح میں کچھ تردد تھا خدا نے اُن کا تردد رفع کرنے کوخاص صورت پیدا کردی پادری پال صاحب اپنے اس بیان سے پھر گئے اوراعلان کیا کہ مولوی صاحب کے جواب کا جواب پھر لکھونگا اور مباحثہ تقریری یہاں ہی ہوگا اور پنڈت جی یہاں مباحثہ میں بیٹھیں گے ۔ جب مسلمانوں نے پادری صاحب کا یہ جواب سنا تو خوشی میں نعرہ تکبیر بلند کیا۔سیکرٹری انجمن اہل حدیث حافظ آباد (اہل حدیث ۴ ستمبر)۔

مولوی ثناء اللہ صاحب نے جس نمبر میں سیکرٹری انجمن اہل حدیث حافظ آباد کی مندرجہ بالا کیفیت درج کی اسی اشاعت میں اپنی طرف سے پادری سلطان محمد خان صاحب کے نام ایک کھلا مکتوب شائع  کیا جسے ہم درج ذیل کرتے ہیں۔ (خان)


کھلا مکتوب

بخدمت پادری سلطان محمد پال صاحب

تسلیم ۔ آپ نے مباحثہ حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ (پنجاب) میں بتاریخ ۳ ستمبر ۱۹۲۸ء  اپنی مذہبی تحقیق کا اظہار کرتے ہوئے اپنا رسالہ " میں کیوں مسیحی ہوا" میری طرف پھینک کر کہا تھا اگرآپ اس کا جواب دیں تومیں مسلمان ہوجاؤنگا۔چنانچہ اُس وقت بہت سی قیل وقال کے بعد تقرر منصف بھی ہوا۔ پھر کیا ہوا؟ میں اس کا ذکر چھوڑتا ہوں تاکہ سلسلہ کلام اور طرف نہ ہوجائے۔ بلکہ درد بھرے دل سے آپ کو مخاطب کرتاہوں اور صرف ایک بات نہایت ہی مخلصانہ رنگ میں پوچھتاہوں کہ آپ اس رسالہ کا جواب پاکر منتہائے کلام قرار دیتے ہیں اور فیصلہ کی صورت کیا فرماتے ہیں؟

میں اُمید کرتاہوں کہ آپ میرے اس محبت نامہ کا جواب مودت کے رنگ میں معقول دینگے"۔

آپ کا باوفاء ابوالوفاء ثناء اللہ " (اہل حدیث ۱۴ستمبر ۱۹۲۸)۔


 


کھلا خط

مولوی ثناءصاحب کے خط کے جواب میں

مولوی ثناء اللہ صاحب نے یہ پرچہ ہمیں بھیج دیا۔ اورہم نے پادری صاحب موصوف کو دیکر درخواست کی کہ اس کا جواب لکھیں تاکہ ناظرین اہل حدیث آپ کے جواب کو بھی ملاحظہ فرمالیں۔پادری صاحب نے فوراً جواب لکھ کر ہمارے حوالہ کیا اورہم نے اس کی نقل ایبٹ آباد سے ۱۹ ستمبر ۱۹۲۸ء کو بذریعہ رسید طلب رجسٹری (نمبر ۶۳) مولوی صاحب کوبغرض  اشاعت بھیجدی۔ جسے ہم لفظ بلفظ ذیل میں درج کرتے ہیں۔ روئداد مندرجہ ذیل کی تصدیق  حافظ آباد کے معزز ہندوؤں نے بھی کی ہے جن کے دستخط ہمارے پاس اصل پر موجود ہیں۔ (خان)

من درگزر میدان وافراسیاب


بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب  امرتسری۔ تسلیم ۔ آپ کا کھلا مکتوب جس کو آنجناب نے اپنے اخبار اہل حدیث مورخہ ۱۴ ستمبر ۱۹۲۸ میں کمترین کے نام شائع کیا ہے نظر سے گزرا جس کو پڑھ کر مجھ کو اس امر کا یقین ہوگیا ہے کہ درحقیقت دنیا سے مسلمانی اٹھ چکی ہے۔ اور بجز چند کرم خوردہ کتابوں کے صفحات اور چند قبرستانوں کی بوسیدہ ہڈیوں میں کہیں بھی اس کا نام ونشان نہیں  ملتا کسی کہنہ مشق اُستاد نے خوب کہا ہے کہ مسلمان درگورو مسلمانی درکتاب  جس مذہب کی یہ حالت ہو کہ اس کے ممتاز وسربرآدروہ پیروؤں کو جھوٹ بولنے میں دریغ نہ ہو اس پر وہ سچائی کا دعویٰ کرنے والا مری ہذا عجیب ۔ آپ جیسے مولوی فاضل فاتح قادیاں مفسرِ قرآن ۔ سرآمد اہل حدیثاں کی جب یہ کیفیت ہے کہ صداقت اور دیانت کے نام سے اس قدر متنفر ہیں جس طرح ہندولحم البقر سے توباقی  عوام کا لانام مسلمانوں سے کیونکر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ  شعائر اسلام کے پابند اور اخلاق محمدی کے مجسم نمونے ہوکر جئیں۔ چنانچہ" اہل حدیث" کے اسی نمبر میں ایک اور" اہل حدیث" کا نمونہ ہمارے سامنے موجود ہے جس نے اس قدر دروغ بانی اور کذب بیانی سے کام لیا ہے کہ مسلم کذاب بھی پناہ مانگتا ہے۔ اور تعجب تویہ ہے کہ یہ شخص کوئی معمولی اہل حدیث بھی  نہیں بلکہ انجمن اہل حدیث حافظ آباد کے سیکرٹری ہیں۔ اس ننگ اسلام کو اس کا بھی خیال نہیں آیاکہ جب  حافظ آباد میں اس کا مضمون پہنچیگا جو سراسر دروغ مصلحت آمیز کا آئینہ ہے تواگرچہ مسلمانانِ حافظ آباد   اسلام کی عزت کے نام پر اس سے چشم پوشی کریں تو اُن ہندوؤں کو کیا منہ دکھائیں گے جو اُن جلسوں میں ازاول تا آخر موجود تھے اور اُن پر اس کھلے جھوٹ کا کیا اثر ہوگا! جناب مسیح نے کیا خوب کہا ہے کہ " درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے"۔ سچ سچ عرض کررہا ہوں کہ اگر اسلام کی بطالت کے لئے میرے پاس ایک بھی دلیل نہ ہوتو آپ دونو کا طرز عمل آپ کے اسلام کے برحق نہ ہونے کے لئے نہایت ہی شافی اورکافی دلیل ہے۔

مطالبہ بیان حلفیہ

اب میں اُن اصلی واقعات کی طرف متوجہ ہوتاہوں جن سے آپ نے دیدہ ودانستہ اغماض کیا ہے اوراپنی ذاتی مصلحت کی بناء پر اُن کی اشاعت سے گریز کیا ہے لیکن قبل اس کے کہ میں ان تمام واقعات کو پوست کندہ بیان کروں اور پبلک کو اس امر کا یقین دلادوں کہ جوکچھ میں لکھ رہا ہوں راست بلاکم وکاست ہے۔ میں آپ ہی کو اس معاملہ میں منصف مقرر کرتاہوں۔ جس کی صورت یہ ہوگی کہ جس جس امر کے متعلق میں نے ذیل کی سطور میں آپ کو بدیں الفاظ مخاطب کیا ہو کہ حلفیہ کہئے کہ یہ

واقع سچ ہے یا جھوٹ

اُس کی نسبت آپ جو فیصلہ دیں اپنے حلف نامہ کے ساتھ جومندرجہ ذیل الفاظ پر مشتمل ہوا اپنے اخبار میں شائع کردیں کہ:

" میں ابوالوفاء۔ مولوی ثناء اللہ مولوی فاضل ۔ شیر پنجاب ۔ فاتح قادیاں ۔ جمیع القاب خود

قرآن مجید کو ہاتھ میں لے کر خدا کو حاضر وناظر جان کر یہ فیصلہ دیتاہوں"۔

میں اس پر آپ ہی کے فیصلہ کو تسلیم کرلونگا۔ ہاں البتہ میں حافظ آباد کے اُن ہندوؤں کے جوجلسوں میں موجود تھے دستخط شائع کراکے دنیا کو یہ دکھادونگا کہ

منصفی دنیا سے ساری اٹھ گئی      اے بُتو ایمان داری اٹھ گئی

جس واقعہ پر آپ نے اپنے خط میں بدیں الفاظ پردہ ڈالنا چاہا ہے کہ" چنانچہ اُس وقت بہت سی قیل وقال کے بعد تقرر منصف بھی ہوا۔ پھر کیا ہوا؟ میں اس کا ذکر چھوڑتاہوں تاکہ سلسلہ کلام اور طرف نہ ہوجائے"۔ اُسی واقعہ کو میں جُو ں کا تُوں  ہدیہ ناظرین کرتاہوں اگرچہ میں بذات خود ہرگز اس کا روادارنہ تھا کہ میں ایک ایسے واقعہ کا ذکر کروں جس سے اس پیرانہ سالی میں آپ کو خفت ہو اورآپ کی شہرت پر بٹہ لگے۔ لیکن آ پ  کے اس طرز عمل نے مجھ کو مجبور کیاکہ اُس غلط فہمی کا ازالہ کیا جائے جس کی آڑ میں آپ اپنی شہرت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

کل کا بدلہ

امر واقعہ یہ ہے کہ حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ میں مباحثہ کے آخری مضامین یہ تھے۔ (۱) مسیحیت میں طریق نجات جس کے مقرر پادری عبدالحق صاحب تھے اور معترض منجانب مسلماناں ایک شخص مسمٰی احمد دین جس کے لب ولہجہ سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ایک دیہاتی اور تہذیب سے فرسخوں دور تھا۔ جب یہ شخص پادری عبدالحق صاحب کی تقریر پر اعتراض کرنے کو کھڑا ہوا توایسا بے سروپا ہانکنے اور مغلظات بکنے لگا جس سے مجھے بہت رنج ہوا اور پادری عبدالحق صاحب سے میں نے کہا کہ اس شخص سے آپ کا مباحثہ کرنا آپ کی ہتک ہے اور پریزیڈنٹ کی اجازت سے میں نے آپ کو مخاطب کرکے کہا کہ مولوی صاحب یہ مباحثہ نہیں ہے بلکہ آپ کل کا بدلہ پادری عبدالحق  صاحب سے لینا چاہتے ہیں اس لئے ایک ایسے شخص کو جو پادری صاحب کے ایک جملہ کو سمجھنے کی بھی قابلیت نہیں رکھتا اُن کے بالمقابل لا کھڑا کردیا۔ اس کی غرض بجز اس کے اورکیا ہوسکتی ہے کہ پادری صاحب کی بے عزتی ہو؟ آپ نے اس کا کچھ بھی جواب نہ دیا اورخاموش بیٹھے رہے۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

ناظرین سطور بالا کوپڑھ کر ضرور معلوم کرنا چاہتے ہونگے کہ" کل کا بدلہ" کیا مطلب رکھتا ہے ۔ بجائے اس کے کہ عین اپنا قلم گندہ کروں ۔ بہتر ہے کہ ناظرین مولوی صاحب کو مجبور کریں کہ وہ خود اس کا مطلب بیان کریں لیکن میں ناظرین کو یقین دلاتاہوں کہ خواہ مولوی صاحب کی جان پر بھی آن پڑے وہ ہر گز ہرگز " کل کا بدلہ" کا ذکر نہیں کرینگے۔

پادری عبدالحق صاحب کی تقریر اور مباحثہ کے بعد خود بدولت" اسلام میں طریق نجات" پر تقریر کرنے کھڑے ہوئے۔ اور بازاری دوا فروشوں کی طرح چلانے لگے کہ" جس طرح ہر مرض کے لئے ایک دوا ہوتی ہے۔ مثلاً بخار کے لئے کونین قبض کے لئے جلاب۔ اسی طرح اسلام میں بھی ہرگناہ کی ایک دوا ہے"۔ جس کی تارپود کو میں نے قرآن مجید واحادیث کے شواہد سے اس طرح بکھیر کر رکھ دیا کہ تمام مسلمانوں کا چہرہ فق اور خود جناب پرایک سکتہ کا عالم طاری تھا۔ جس کی دو دلیلیں ہیں۔ اول یہ کہ جب میں دوسری بار کھڑا ہوا تو تین منٹ تقریر کرنے کے بعد آپ کے پریذیڈنٹ صاحب نے مجھ کو اعتراض کرنے سے روکا اور کہاکہ" وقت ہوچکا ہے اب مباحثہ بند ہے"۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

اہل حدیث کا افترا

اب آپ اپنے مفتری  اور دردغ گو سیکرٹری کا مضمون بھی دیکھ لیں جو اسی نمبر میں شائع ہوچکا ہے کہ کس طرح اس واقعہ کو بالکل برعکس اور سراسر جھوٹ کی صورت میں اس طرح بیان کیا ہے کہ " مولانا موصوف جواب کی تقریر کررہے تھے۔ ابھی پانچ  ہی منٹ ہوئے اور پانچ منٹ باقی تھے کہ عیسائیوں کی طرف سے آواز آئی۔ وقت ختم ہوگیا۔ مسلم صدر جلسہ نے کہا ابھی وقت باقی ہے"۔ مولوی ثناء اللہ صاحب!کیا مسلمانی کے یہی معنی ہیں؟ کیا ایمانداری اسی کو کہتے ہیں ؟ اگرآپ میں ذرہ بھر بھی اسلام کی بُو ہوتی تواس مضمون کو ہرگز ہرگز اپنے اخبار میں شائع نہ کرتے کیونکہ یہ کھلا ہوا جھوٹ ہے اورجب شائع کیا توایمانداری یہ تھی کہ اس کی کذب بیانیوں کی تردید بھی کرتے۔لیکن آپ سے کیا توقع ہوسکتی تھی ! ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔

آپ کی شکست اورحواس باختگی کی دوسری دلیل یہ ہے جس کو آپ کے مفتری سیکرٹری صاحب کے قلم سے حق تعالیٰ نے اس طرح نکلوایا ہے جس طرح نمرود کی آگ سے ابراہیم علیہ السلام کو۔لکھتے ہیں کہ " تاہم جن لوگوں کو اسلامی فتح میں کچھ تردد تھا خدا نے اُن کا تردد رفع کرنے کو خاص صورت پیدا کردی"۔ (اہل حدیث ۱۴ ستمبر ۱۹۲۸ء)۔

مولوی صاحب کیا میں آپ سے پوچھ سکتاہوں کہ اگرآپ شکست یافتہ اورحواس باختہ نہ ہوگئے تھے تواس تردد کے کیا معنی ہیں کیا فتح مندوں کوبھی کچھ دردد ہوا کرتا ہے؟

تین منٹ میں گیارہ بج گئے

اب میں اُس صورت کو پیش کرنا چاہتاہوں جو" خدا نے پیدا کردی تھی"۔ جب مسلمانوں کے صدر نے مجھ کو روکنا چاہا توہمارے صدر صاحب نے اُن کو مخاطب کرکے فرمایا کہ" جناب آپ کیا فرماتے ہیں ابھی توپادری صاحب نے تین ہی منٹ تقریر کی ہے"۔ اس پر مسلمانوں کے صدر نے کہا کہ " مباحثہ کا وقت گیارہ بجے تک تھا۔ اب گیارہ بج چکے ہیں"۔ اس پر میں نے کہا کہ پریذیڈنٹ صاحب!اس حیلے اوربہانے سے کیا ہوتا ہے؟ ابھی تومیں نے صرف ایک ہی حدیث پڑھ کر سنائی ہے۔ آپ صاف طور پر کیوں نہیں کہتے کہ مولوی ثناء صاحب میرے اعتراضات کا جواب نہیں دے سکتے "۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

اختیار راہ فرار

اس پر آپ کے صدر صاحب نے چیں بجیں ہوکر کہا کہ" کیوں مولوی صاحب جواب نہیں دے سکتے؟ اگرآپ کا یہی خیال ہے توچلو آج دن بھر اسی مسئلہ پر مباحثہ سہی"۔جس کو سن کر عیسائی مارے خوشی کے اچھل پڑے اور میں نے کہا کہ مجھے بسروچشم منظور ہے۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

میری منظورمی کو سن کر آپ کا چہرہ زرد ہوگیا اوراپنے پریذیڈنٹ صاحب سے کچھ پھسپھسانے لگے جس کے بعد پریزیڈنٹ صاحب نے کہا کہ دن بھر تومباحثہ نہیں ہوسکتا کچھ وقت مقرر ہونا چاہیے جس  کے جواب میں میں نے کہا کہ پریزیڈنٹ صاحب آپ  کوکم از کم ہندوؤں کو خیال کرنا چاہیے کہ وہ آپ کے اس عمل کو دیکھ کر کیا سوچتے ہونگے۔ کبھی تو آپ مجھ کو روکتے ہیں کہ وقت ہوچکا اورکبھی پورا دن مباحثہ کرنے کو کہتے ہیں اوراب آپ تھوڑا وقت چاہتے ہیں اچھا یہ بھی منظور ہے کہ کم از کم تین گھنٹے اسی مضمون پر مباحثہ ہو۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

کوئی منصف بھی ہو

اس پر آپ نے کھڑے ہوکر فرمایا کہ ایک منصف ہوتاکہ فیصلہ کرے میں نے کہا کہ میں تو خدا سے یہی چاہتا تھا چلو یہ بھی منظور ہے۔ پھر آپ نے کہا کہ اس منصف کا نام لو میں نے کہا پنڈت رامچندر دہلوی منصف ہوں۔ کیونکہ نہ تو وہ عیسائی ہیں اورنہ مسلمان اور نیز عربی دان ہیں اور طرفین کے مذہب سے واقف ۔ اُن کے اخراجات طرفین کے ذمہ ہونگے اگرآپ کو منظور ہے تومیں ابھی ان کو تار دونگا۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

اس پر آپ نے کہا کہ رام چندر ہمیں منظور نہیں بلکہ دیال سنگھ کالج کا کوئی پروفیسر یا کوئی برھمو ہو۔ میں نے کہا کہ مجھ کو یہ بھی منظور ہے بشرطیکہ وہ عربی دان ہو۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

بحث سے گریز

پھر آپ نے اخراجات کی ذمہ داری سے انکار کیا۔ جب ہم نے بہت مجبور کیا توایک مسلمان نے جلسہ میں سے کہا کہ میں مسلمانوں کی طرف سے اخراجات کا ذمہ وار ہوں۔ جب آپ نے دیکھا کہ آپ کی شیخی کرکری ہوئی جاتی ہے۔ تب آپ نے کہاکہ مباحثہ تحریری ہو جس کے جواب میں  میں نے کہا کہ مجھ کو تو تقریری اور تحریری دونوں منظور ہیں لیکن اس وقت تو تقریری مباحثہ پر گفتگو ہے لہذا اول تو تقریری ہو۔ یہ سُن کر آپ کُرسی پر سے اٹھ کر کہیں پیچھے جا بیٹھے۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

مولانا غائب

جب عیسائیوں نے آپ کو پلیٹ فارم سے غائب دیکھا توانہوں نے شور مچایا کہ مولوی ثناء اللہ بھاگ گئے۔ ہم کسی اور سے بات چیت نہیں کرینگے ۔ اُنہی کو بلاؤ۔ اس پر مسلمانوں نے آپ کوسمجھابجھا کر پھر کرسی پر لابٹھایا۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

جب میں نے آپ کو پھر کرسی پر بیٹھا ہوا دیکھا توللکار کر کہا کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ تقریری مباحثہ سے آپ کیوں بھاگتے ہیں ؟ اورآپ یہی کہتے رہے کہ مباحثہ تحریری ہو۔ اس پر میں نے اپنےرسالہ " میں کیوں مسیحی ہوگیا" کوآپ کی طرف پھینک کر کہاکہ اگر آپ کو تحریری مباحثہ کا اس قدر شوق ہے تویہ میرا رسالہ ہے جس میں نجات ہی پر بحث ہے۔ اورسات سال سے آپ کی چھاتی پر مونگ دل رہا ہے۔ آپ  اس کا جواب لکھد یں پبلک خود ہی فیصلہ کریگی۔اگرآپ کا جواب ایسا معقول ہو کہ میرا قلم پھر اس پر نہ اٹھ سکے تومیں مسلمان ہوجاؤنگا۔ لیکن آپ کیا اگردنیا بھر کے مسلمان مل جائیں تب بھی اس کا جواب نہ دے سکیں گے۔ اگرآپ میں کچھ بھی دم ہوتا تو اس سات سال کے عرصہ میں اس کا جواب ضرور شائع کرتے اور آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ آپ اس رسالہ سے بے خبر ہیں کیونکہ آپ کے اخبار میں اس کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ اورمیں نے یہاں سنگھ کے قلعہ میں بھی جوگوجرانوالہ کے متصل ہے آپ کو انہی  الفاظ میں بھری مجلس میں چیلنج دیا تھا جس کے جواب میں آپ آج تک خاموش ہیں ۔ اوریہ بھی کہا تھا کہ دیکھئے مولوی صاحب اس موقعہ کو ہاتھ سے نہ جانے دیں کیونکہ میرے مسلمان بنانے میں آپ کی بے حد شہرت ہوگی اور آمدنی میں اضافہ ۔ اس پر مسلمانوں کی طرف سے ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوا یہ دیکھ کر پادری عبدالحق صاحب نے کھڑے ہوکر یہ کہا کہ ہم ہر کس وناکس سے گفتگو کرنا نہیں چاہتے ہیں اور مولوی ثناء اللہ صاحب سے جب تک کہ اب جو گفتگو ہو وہ قید تحریر میں نہ لائی جائے اورہم بھی جوکچھ کہیں گے لکھ کر دینگے۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

جب ہم نے تحریری گفتگو پر آپ کو بے حد مجبور کیا تب یہ ہزار لیت ولعل اسی جلسہ میں ذیل کا خط آپ کی طرف سے میرے نام موصول ہوا۔

"بخدمت  جناب پادری سلطان محمد پال خان صاحب ۔ تسلیم۔ آپ نے جو رسالہ " میں کیوں مسیحی ہوگیا" کے متعلق تحدی کی ہے کہ مولوی ثناء اللہ اس کا جواب دینگے تومیں مسلمان ہوجاؤنگا اورجواب کی صحت کے لئے پنڈت رام چندر جی دہلوی کو منصف پیش کیا ہے مجھے منظور ہے۔ اس کا جواب لکھ کر پنڈت جی کے پاس بغرض فیصلہ بھیج دونگا۔ اور فیصلہ فریقین کے خرچ سے شائع ہوگا۔ پس آپ بھی اس خط پر دستخط کرکے بھیج دیں۔(ابوالوفاء ثناء امرتسری ۳ ستمبر ۱۹۲۸ء)۔

اس خط کا جواب اسی وقت میں نے لکھ کر آپ کے حوالے کیا جو ذیل  میں درج ہے۔

"بخدمت مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ۔ تسلیم آپ کا یہ لکھنا کہ آپ نے رسالہ " میں کیوں مسیحی ہوگیا" کے متعلق تحدی کی سراسر غلط ہے اور تعجب ہے کہ اس قدر جم غفیر کے سامنے اس خلاف واقعہ امر کے لکھنے کی جرات ہوئی درحقیقت میرا اپنے رسالہ" میں کیوں مسیحی ہوا" کا دنیا آپ کے چیلنج کا جواب تھا کہ جب آپ نے تقریری مباحثہ سے گریز کیا اور تحریری مباحثہ پر اصرار کیا تب میں نے اس رسالہ کوپھینک کر اس کے ساتھ یہ کہا کہ اگر آپ کو تحریری مباحثہ پر اصرار ہے توآپ اس  رسالہ کا جواب لکھیں پبلک خود فیصلہ کرلیگی۔ اگرآپ کا جواب معقول ہوگا اورمیں جواب نہ دے سکوں تومیں مسلمان ہوجاؤنگا۔ جس پر اب تک قائم ہوں اور تحدی کے ساتھ کہتاہوں کہ جب سات سال سے آپ اس کا جواب نہ دے سکے تو اب کیا دینگے؟ تاہم اگر پنڈت رام چندر دہلوی مجھ کو یہ لکھ دیں کہ وہ میرے جواب الجواب کے بغیر فیصلہ دینگے تو ان کا فیصلہ بھی مجھے منظور ہوگا۔ اب میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ آپ تقریری مباحثہ سے کیوں گریز کرتے ہیں۔میرا چیلنج توآپ کے ساتھ تقریری مباحثہ پر ہے اورپھر میں آپ کو چیلنج دیتاہوں کہ تقریری مباحثہ میں اگر آپ یہ ثابت کرسکیں کہ اسلام میں نجات مکمل طورپر موجود ہے اور پنڈت رام چندر بھی فیصلہ دیں کہ مولوی ثناء اللہ نے اسلام میں نجات ثابت کردی تومیں خوشی کے ساتھ مسلمان ہوجاؤنگا اورمیرے مسلمان بنانے میں آپ کی بڑی شہرت ہوگی اور اگر رام چندر جی فیصلہ دیں کہ ثناء اللہ اسلام میں نجات ثابت کرنے سے قاصر رہے توایمانداری یہ ہے کہ آپ دینِ برحق مسیحیت اختیار کریں اور اسلام کو ترک کریں ۔ پنڈت رام چندر جی کے اخراجات طرفین کے ذمہ ہونگے اور یہ تقریری مباحثہ ۱۵ ستمبر سے پیشتر حافظ آباد میں ہوگا۔

فقط سلطان محمد افغان حافظ آباد ۳ ستمبر ۱۹۲۸ ء

مولانا لاجواب ہوگئے

آپ اس خط کو لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور ہر چند ہم نے اصرار کیا کہ اس کا جواب ہمیں لکھ کر دے جائیے۔ پر آپ نے زبانی یہ کہا کہ ہماری کونسل جواب کی اجازت نہیں دیتی۔ اور چلے گئے۔

مولوی ثناء اللہ صاحب حلفیہ کہہ دیں کہ یہ واقع سچ ہے یا جھوٹ

جس کے بعد مسیحی بھی " یسوع مسیح کی جے" کے فلک شگاف نعروں کے ساتھ اٹھ کر چلے گئے۔ یہ ہیں وہ واقعات جن کا ذکر آپ چھوڑتے ہیں تاکہ سلسلہ کلام اور طرف نہ ہوجائے" آپ کے سیکرٹری  کا یہ لکھنا کہ " مسلمانوں نے خوشی میں نعرہ تکبر بلند کیا" سراسر جھوٹ ہے بلکہ جب مسیحی " یسوع مسیح کی جے" کے نعرے لگانے لگے تب چند مسلمان جو اِدھر اُدھر کھڑے تھے ہمارے جواب میں چلانے لگے۔

اب انصاف ناظرین اہل حدیث پر ہے کہ وہ واقعات مندرجہ صدر پر غور کرکے فیصلہ دیں۔ والسلام

سلطان محمد افغان لاہور ۱۷ ستمبر ۱۹۲۸ء

تصدیق

اس مضمون میں مبالغہ سے بالکل کام نہیں لیا گیا اور حرف بحرف درست ہے۔ (دستخط)

بیلی رام۔ ہری کشن۔ گوکل چند۔ جیون داس ۔ گیان سنگھ۔ ساکنان حافظ آباد"۔

ہماری درخواست

پادری صاحب کے جواب مذکورہ بالا کے ہمراہ ہی ہم نے مولانا صاحب سے یہ درخواست بھی کردی تھی کہ

"مکرم بندہ جناب مولوی ثناء اللہ صاحب بالقابہ۔ السلام علیکم۔

جناب نے میری معرفت پادری سلطان محمد خان صاحب افغان ۔ مصنف ہمارا قرآن کواپنے اخبار اہل حدیث  مورخہ ۱۴ ستمبر ۱۹۲۸ء کا جوایک پرچہ ارسال بذریعہ ڈاک کیا وہ مل گیا ہے۔ باوجود کثرت مشاغل پادری صاحب موصوف نے آپ کے کھلے مکتوب  اور سیکرٹری صاحب انجمن اہل حدیث حافظ آباد کے بیان مندرجہ اہل حدیث ۱۴ ستمبر کا جواب لکھ کر مجھے بدیں غرض دیا ہےکہ میں اس کی نقل لے کر آپ کو بھیج دوں اور درخواست کروں کہ اسے من وعن اورپہلے ہی ہفتہ میں اپنے اخبار اہل حدیث میں درج کرکے شائع کردیں تاکہ پبلک واقعات سے آگاہ ہوجائے۔ اوراس مضمون کو رجسٹری اس وجہ سے کررہاہوں کہ آپ پر حجت  تمام ہوجائے اور اب ڈاکخانہ کی رسید اور مضمون مندرجہ صدر کی نقل کو اپنی تحویل میں رکھتا ہوا آپ پر نہایت  ہی واضح طورپر جتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر آج کی تاریخ سے پندرہ دن کے اندر اندر آپ کے اخبار میں اسے شائع ہوتے نہ دیکھا تومیں جیسا کہ پادری صاحب موصوف کا ارشاد ہے دوسرے اخباروں میں اس کی نقل شائع کراؤنگا اوراگر مناسب سمجھا تو مستقل رسالہ کی صورت میں شائع کردونگا تاکہ آپ کے کھلے مکتوب کی حقیقت اور سیکرٹری صاحب انجمن اہل حدیث حافظ آباد کے خلافِ واقعہ بیان کی اصلیت دنیا پر ظاہر ہوجائے۔ مہربانی سے فوراً اطلاع دیں کہ مضمون مل گیا اور اشاعت کے لئے آپ کا ارادہ کیا ہے۔ شکر گزار ہونگا۔ فقط ۱۹ جولائی ۱۹۲۸ء

نیاز مند۔ ایم ۔کے۔ خان ۔ مہاں سنگھ باغ لاہور۔

رسید وجواب

ہمارا یہ خط مولوی صاحب کو ۲۱ستمبر  ۱۹۲۸ء کو مل گیا جس کے ثبوت میں ڈاکخانہ کی رسیدیں اور مولوی صاحب کا خط مورخہ ۳ اکتوبر ۱۹۲۸ء موجود ہیں۔ مگر مولوی صاحب نے پادری صاحب کے جواب شائع کرنے کی بجائے اس کی نقل ہمیں واپس کردی۔ ہم نے  اتمام حجت واطلاع کی خاطر نور افشاں مورخہ ۵ اکتوبر میں مندرجہ ذیل "کھلا خط" شائع کرایا۔(خان)

کھلا خط بجواب کھلا مکتوب

بنام
مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری

جناب مولوی صاحب ۔ السلام علیکم۔ آپ کا مرسلہ اہل حدیث مجریہ ۱۴ ستمبر ۱۹۲۸ء مل گیا ۔ جس میں آپ کا ایک "کھلا مکتوب" بنام پادری مولوی سلطان محمد خان صاحب درج تھا۔ پادری صاحب  نے اس کا جواب لکھ کر مجھے دیا۔ اورمیں نے اُن کے ایما سے اس کی نقل جناب کی خدمت میں ۱۹ ستمبر ۱۹۲۸ء کوبذریعہ رسید طلب رجسٹری روانہ کردی۔ ڈاک خانہ کی رسید بھی مل چکی ہے جواس بات کا ثبوت ہے کہ میرا وہ مراسلہ جناب کو وصول ہوگیا ہے۔ میں نے مطالبہ کیا تھا کہ یہ آپ کے "کھلے مکتوب " کا" کھلا جواب" ہے۔ آپ اسے اپنے اخبار میں فوراً شائع کردیں تاکہ ناظرین اہل حدیث جواب سے آگاہ ہوجائیں۔ اوراگرآپ پہلی ہی دواشاعتوں میں اسے درج نہ کرینگے تومیں اسے دوسرے یعنی قادیانی اور آریہ اخباروں میں شائع کرادونگا۔ اور اگر ضرورت ہوئی تو مستقل رسالہ کی صورت میں چھپوا کر تقسیم کراؤ نگا۔

آج اُس کے بعد پہلا پرچہ اہل حدیث ۲۸ ستمبر ۱۹۲۸ء  دیکھا مگر اس میں وہ مراسلہ درج نہیں ہے۔ دوسرا پرچہ ۳ اکتوبر۱۹۲۸ء کو شائع ہوگا۔ اگر اس میں بھی وہ درج نہ ہوگا تومیں سمجھ لونگا کہ آپ اسے چھاپنا نہیں چاہتے چونکہ وقت تنگ ہے ۔ بذریعہ اخبار ہذا جناب کی خدمت میں عرض گزار ہوں کہ اگر چاہیں توایک ہفتہ کی اور مہلت لے لیں اور ۱۰ اکتوبر ۱۹۲۸ء کے اہل حدیث میں اسے شائع کردیں۔ لیکن اگر ۳ اکتوبر ۱۹۲۸ء تک نہ آپ کا جواب آئیگا اورنہ وہ مضمون ہی اہل حدیث میں چھپے گا توجان لیجئے کہ ۱۴ اکتوبر کو میں دوسرے اخباروں میں اسے درج کرانے پر مجبور ہونگا۔اورآپ کو شکایت کی گنجائش نہ ہوگی اورپبلک جان لیگی کہ" شیر پنجاب" میدانِ قرطاس اہل حدیث میں ہی " کھلے مکتوب" کے ہوائی تیر چلاسکتے ہیں۔ مگر " افغان شیر" کے مقابل آنے کی جرات نہیں کرسکتے۔اتمام حجت کی غرض سے یہ اعلان شائع کردایا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ لیکن میں خوب جانتاہوں کہ آپ کُنج خاموشی میں پناہ گزیں ہونے کو ہی ذریعہ عافیت سمجھیں گے اور نہ مضمون کو اخبار میں درج کریں گے اورنہ جواب ہی دینگے اجی حضرت!

نہ خنجر اٹھیگا نہ تلوار اُن سے      یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

(نور افشاں ۵ اکتوبر ۱۹۲۸ء)

(آپ کا خادم ۔ ایم۔ کے ۔ خان)

جب ہم نے دیکھ لیا کہ مولانا صاحب" اسلامی توحید اوراسلامی نجات" کومسیحیوں کی ناقدانہ وعالمانہ ضربِ تحقیق سے بچانے کے لئے ہر ممکن حیلہ وعذر کررہے ہیں توہم نے مندرجہ ذیل چیلنج دے کر اس قضیہ کو ختم کرنے کی تجویز کی۔ چنانچہ ہمارے گمان کے مطابق مولوی صاحب نے اس کا آج تک کوئی جواب نہ دیا اورنہ اُمید ہے کہ دیں گے ۔چلو قصہ ختم۔ (خان)

مکتوب مفتوح

بنام مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری

جناب مولوی صاحب بالقابہ ۔ تسلیم ۔ کمال ادب واحترام کے ساتھ گذارش یہ ہے کہ اوائل ماہ گذشتہ میں آپ حافظ آباد (پنجاب) میں اس غرض سے تشریف فرما ہوئے کہ مسیحیوں سے مباحثہ کریں۔ آپ نے وہاں اسلامی طریق نجات کو پیش کیا اور پادری سلطان محمد خان صاحب پروفیسر عربی نے بھرے جلسہ میں تحدی کی کہ اگر آپ یہ ثابت کردیں کہ اسلام میں نجات ہے تومیں مسلمان ہوجاؤ نگا اورآپ کی تمام ہندوستان میں بہت شہرت ہوجائیگی۔ اس پر آپ نے دور اندیشی اورمصلحت کی راہ سے یہی مناب جانا کہ اسلامی طریقِ نجات پر بحث نہ ہواور طرح طرح کے حیلوں اور بہانوں سے گریز کیا۔ اس پر جناب پادری عبدالحق صاحب نے جن کی تعریف میں آپ کا اخبار کئی سالوں سے لبریز رہتا ہے آپ کو کھلا چیلنج کیا تاکہ کسی طرح سے بھی آپ کو راہ فرار روئے گریز نہ مل سکے۔ مگر دور اندیشی نے آپ کا دامن پکڑا اور مصلحت نے کچھ کان میں کہا اور آپ نے پھر بھی انکار ہی کیا۔ پادریوں کے چیلنج پر چیلنج اورآپ کے گریز وفرار کا مسیحیوں  ہندوؤ ں اور بالخصوص مسلمانوں پر خاص اثرپڑا جس کے ثبوت میں آپ کا اپنا اخبار موجود ہے۔

وہ جب آئینہ دیکھیں گے توہم اُن کو بتادینگے۔ اس پر پادری صاحبان نے آپ سے کہا کہ اسی مقام پر ۱۵ ستمبر ۱۹۲۸ء تک اسی مسئلہ پر آپ مباحثہ کرلیں اورآپ وعدہ کرکے وہا ں سے روانہ ہوئے۔

امرتسر جاکر آپ نے اپنے اخبار اہل حدیث  میں پادری سلطان محمد خان صاحب کے نام ایک" کھلا مکتوب" لکھا جس کا جواب میں نے آپ کی خدمت میں ارسال کرکے درخواست کی کہ اسے اہل حدیث میں چھاپ دیں تاکہ ناظرین اہل حدیث آپ کے "کھلے مکتوب" کا جواب بھی ملاحظہ کرلیں۔مگر آپ نے ابتک اسے شائع نہیں کیا اور لکھ دیا کہ میں اسے شائع نہیں کرسکتا۔ اب میں پبلک کے تقاضا سے تنگ آکر اسکو مستقل ٹریکٹ کی صورت میں شائع کررہا ہوں تاکہ پبلک آگاہ ہوجائے۔ کھُلے گا راز سارا ضبط الفت کے نہ ہونے سے چونکہ نجات کا مسئلہ بنیاد ی مسئلہ ہے۔ اس لئے اس پر فیصلہ کن مباحثہ کرنے سے کروڑوں مسلمانوں اور مسیحیوں کو روحانی فائدہ حاصل ہوسکتاہے۔ پس پادری صاحب کے ایماء اور مشورہ سے جناب سے مطالبہ کرتاہوں کہ آپ اُن سے پنجاب کے کسی بڑے شہر میں اسی موضوع پر تقریری مناظرہ کرلیں اور پنڈت رام چندر دہلوی ثالث ہوں۔ جنہیں آپ منظور کرچکے ہیں۔ چونکہ پادری موصوف  ایف سی کالج میں پروفیسر ہیں ۔ اس لئے اُن تاریخوں میں مناظرہ ہو جن میں کالج مذکورہ بند ہو۔ آپ مدعی  ہونگے کہ اسلام میں نجات ہے۔ مہربانی سے جواب بذریعہ  اخبار ڈاک بھیج کر متشکر فرمائیں۔

(ایم۔کے خان)