Eastern View of Jerusalem

 

اِسلامَ اور عیسائی مذاہَب میں سے کون خدائی ہونیکا دعویٰ کر سکتا ہے

 

 


Which Religion Is From God: Christianity or Islam?

By

Amir Shah

Published in Nur-i-Afshan November 05, 1897


 

ہر ایک اِنسان مَتلاشی حق کو سب سے مقدم یہ بات ہے کہ وہ تعصب کی زنجیروں کو جس میں وہ سراسر جکڑا ہوا ہے۔ دور پھینک دے اور اپنے دل کو لوح سادہ کی طرح پاک صاف کر کے صداقت کے زریں حروف سے مضمون نگاری کرے وہ شخص راستی کے منزل مقصود پر ہر گز نہیں پہنچ سکتا۔ جو کہ اندہا دُھند شتر بے مہار کی طرح جدھر مُنہ ایا۔ چل پڑا بلکہ وہی اپنے اِس مدُعا میں کامیاب ہوتا ہے۔ جو بہت سی تحقیقات اور چھان بین کے بعد راہِ راست کو اختیار کرتا ہے مجھے تعجب آتا ہے۔ کہ بہت سے ایسے لوگ بھی موجود ہیں۔ جنکو ہم لکیر کے فقیر کے عالی خطاب سے ممتاز کر سکتے ہیں۔ یعنے جب کسی راہگیر کو کسی راستہ پر چلتا ہوا دیکھتے ہیں تو جھٹ پٹ بلا سوچے سمجھے کاٹون میں تیل ڈالکر اور آنکھوں پر پٹی باندہ کر اُس کے پیچھے ہو لیتے ہیں۔ اور جب اُن سے دریافت کیا جاتا ہے کہ ارے بھائی زرا سوچو سمجھو شاید یہ رستہ خطرنا ک ہو۔ اور تم کو منزل مقصود پر پہنچنا تو درکنار اُلٹا تکلیف اُٹھانی پڑے تو وہ صاحبان طیش و غضب میں آکریہی جواب دیتے ہیں۔کہ وہ راہگیر جس کے پیچھے ہم لگے ہوئے ہیں ۔ اگر وہ ٹھوکر کھا کر رستے میں گر پڑا تو ہم بھی اُس کے ہمر کاب ہیں۔ ان عقل کے اندھوں سے کوئی نہیں پوچھتا ۔ کہ خداوند تعالیٰ نے انسان کو تمام اعضاء اور فہم و فراست اِس لئے دئے ہیں۔ کہ اِن کو ٹھیک طور سے اِستعمال کرے ورنہ اُس کو حیوان سے کسی طرح کی فضیلت نہیں ہے۔ اگر خداوند یہ چاہتا کہ صرف چند کو زی ہوش بنا کر باقیوں کو حکم کیا جاوے کہ وہ اُن کے پیچھے پیچھے چلیں تو کیا ضرورت تھی۔ کہ ہر ایک اِنسان کو عقل فرمائے۔ اِس میں ہر گز کلام نہیں کہ چند اشخاص اِس دُنیا میں ائے اور اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی بھیڑوں ( نوع اِنسان) کی گلہّ بانی کے فن میں خوب ماہر ہیں۔ اب ہمیںجو اللہ تعالیٰکی بھیڑ میں ہیں۔ یہ سوچنا چاہئے کہ اُن مدُعیوں میں سے ہمارا کوں خیر خواہ ہے۔ اور کون ہم کو زیادہ عزیز رکھتا ہے ۔ جب ہمنے یہ دریافت کر لیا۔ اور ا،س امر کی حقیقت سے اگاہ ہو گئے۔ تو ہمکو تہہ دل سے قبول کر لینا چاہئے۔ کہ خداوند تعالیٰ کا فر ستا دہ گلہ بان دہی ہو سکتا ہے۔ جو کہ بھیڑوں کی بہتری کو اپنی عزیز زندگی سے بھی مقّدم خیال کرتا ہے۔ اور ہر طرح سے اُن کی پرورش میں مشغول رہتا ہے۔ نہ کہ اولٹا چُھری لیکر اُن کا گلہ کاٹنے کے واسطے تیار ہو جاتا ہے۔ 

چنانچہ قرآن میں لکھا ہے۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ۔ ترجمہ اے نبیؐ، کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے ۔ چنانچہ حضرت محمد کے پیرؤں نے اِس ایت پر عمل کر کے ہزار ہا بندگان خدا کے خون ناحق دریا کی طرح بہا دیئے اور اُن سنگدلوں کو زرا بھی ترس نہ آیا۔ کہ ہم کیوں اِن بیگناہوں کو تہ تیخ کر رہے ہیں۔ سچ پوچھئےتو ہم اُن کے زمہ کسی قسم کا قصور عائد نہیں کر سکتے کیونکہ وہ تو اپنے ہادی کے قدم بقدم چلےہواہ رے خوب اگر ایسے گلہ بان ہیں تو یہ تو چند ہی روز میں بھیڑوں کی بیخ ماردینگے۔

برعکس اِس کےہم انجیل مقدس میں پڑہتے ہیں۔ کہ جب حضرت عیسیٰ مصلوب ہونے لگے ۔ تو اُنہوں نے صلیب پر چڑھ کر اپنے دُشمنوں کیواسطے بھی دعا مانگی۔ اور فرمایا ۔ ( اے قادرِ مطلق باپ اُن کو معاف کر۔ کیونکہ یہ جو کچھ کرتے ہیں نہیں جانتے) بھلا اب غور کا مقام ہے کہ ایک طرف تو تلوار چمک رہی ہے۔ اور خون کے دریا بہہ رہے ہیں اور دوسری طرف اُن بدخواہوں کے واسطے بھی جو کہ گلہ بان کو مصلوب کرنے کے واسطے تیار ہین دل سے خداوند تعالیٰ کی زات والا صفات میں دعائیں ہو رہی ہیں اور گلہ بان جان دینے کے واسطے تیار ہے۔ لیکن بھیڑوں کی جان کو معرض خطرہ میں نہیں ڈالتا۔ اور چاہتا ہے۔ کہ خواہ مجھ پر مصیبتوں کا سمندر لوٹ پڑے لیکن میری بھیڑوں کے جان کے لالے پڑیں۔

(سبحان اللہ اگر گلہ بان ہوں تو ایسے ہوں اگر رہبر ہوں تو ایسے ہوں) قرآن میں ایک اور جگہ لکھا ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ۔ ترجمہ۔ اے نبی شوق دِلامسلمانوں کو قتل کرنے کا۔

مسلمانوں کا خدا بھی تو عجب سنگدل خدا ہے۔ کہ قرآن میں محمد صاحب کو حکم دیتا ہے۔ ( قتل کا شوق دِلا) ہمارے خیال میں بہتر ہوتا کہ اگر خداوند تعالیٰ محمد صاحب کو قر آن میں ارشاد فرماتے۔ لوگوں سے پیار کر۔ اور اُن کو دلائیل سے سمجھا۔ اور اُن پر ظلم ست کر کیونکہ میں ظلم کو پسند نہیں کرتا مگر اُنہوں نے تو فرمایا۔ کہ اے نبی مسلمانوں کو شوق دلا۔ تاکہ وہ ماریں کوٹیں۔بَھلا خداوند تعالیٰ بھی جو ہم کو بہت پیار کرتا ہے۔ اور ہم خواہ کتِنے ہی بد اعمال کیوں نہ رکھتے ہوں۔ تو وہ بت بھی ہمیں کھانے پینے کو دیتا ہے۔ ایسے بیجا حکم صادر کر دے؟ نہیں ہر گز نہیں۔

برعکس اس کے ہمیں انجیل صاف طور سے بتلاتی ہے۔ کہ اگر کوئی شخص تمہارے رُخسارے پر تھپڑ مارے۔ تو تو دوسرا بھی پھیر دے۔

یعنے اگر کوئی شخص تجھے بلا وجہ مارے۔ تو تب بھی تو اُس کی خواہش کو پورا کر اور اُس کے دل کو راضی رکھ۔

بھلا اب ہم اِنصاف کی نگاہ سے دیکھیں اور سوچیں بچاریں کہ آیا خداوند تعالیٰ حلیمی سکھاتا ہے۔ یا سنگدلی تو قتل کرنے کے حکم سے صاف ظاہر ہے۔

غرضیکہ ہم قرآن شریف اور انجیل مقدس میں ایسی ایسی بہت آئتیں پاتے ہیں۔ جن میں سیکڑوں کا نہیں بلکہ ہزار ہا کوس کا فرق ہے۔ نمونہ کے طور پر آپ صرف بہشت کے بیان کو لے لیں۔ قرآن تو کہتا ہے تمکو بہشت ملیگا جس میں خوبصورت غُلمان ہونگے۔ شراب اور شہد کی نہریں چلتی ہونگی اور ہر ایک بہشتی کو حوریں ملیں گی۔ جن کا رنگ سفید اور زلفیں سَیاہ ہونگی۔ یعنے خداوند تعالیٰ نفسانی بہشت کا وعدہ کرتاہے۔ اور برخلاف اِس کے ہم اِنجیل مقدّس میں دیکھتے ہیں ۔ کہ وہاں روحانی بہشت کا زکر ہے۔ جس سے روح کو آرام ملتا ہے۔ نہ کہ جسم کو یعنے وہاں کوئی شادی نہیں کرے گا وغیرہ۔

عجب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ چیزوں کو اس قدر پسند کرتا ہے۔ اور روحانی ارام کا زرا بھی خیال نہیں کرتا ۔ اگر بہشت واقعی ایسا ہے جیسا کہ قران میں بیان کیا گیا ہے۔ تو ایسے عیش و عشرت کے اسباب تو ہمیں اِس دُنیا میں بھی مِل سکتے ہیں۔ پھر بہشت کی اِس دُنیا سے کیا فضیلت؟ اب میں قرآن اور اِنجیل مقدس کی آیتوں کو چھوڑ کر محمد صاحب اور حضرت عیسیٰ کی زندگی کا مقابلہ کرتا ہوں۔

اگر اِنسان ایک لمحہ کے واسطے ہی حضرت عیسیٰ کی عجیب و غریب پیدایش کا خیال کرے۔ تو اُس کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ کہ حضرت عیسیٰ پیغمبر برحق اور فی الحقیقت ہی خداوند تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ یہانتک تو مسلمان بھی مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا روح کنواری مریم میں ڈالا۔ چنانچہ قرآن میں ہے۔ وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ۔ ۔ ترجمہ اور عمران کی بیٹی مریمؑ کی مثال دیتا ہے جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی، پھر ہم نے اس کے اندر اپنی طرف سے روح پھونک دی، اور اس نے اپنے رب کے ارشادات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت گزار لوگوں میں سے تھی ۔ روح سے مرُاد وہی رُوح القدس ہے۔ اب وہ کہتے ہیں۔ کہ بیٹا کِسطرح ہوا۔ میں اُن کو ایک آسمان مثال سے سمجھاتا ہوں جیسا کہ ہم سُورج کی روشنی کے سامنے ایک شیشہ رکھتے ہیں تو سورج کا عکس ایک اور جگہ پر پڑتا ہے۔ تو اُسوقت ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ عکس اور روشنی اور سورج تین مختلف چیزیں ہیں۔ بلکہ تینوں ایک ہی چیز ہیں۔ اِسیطرح یُسوع مسیح خداوند کا بیٹا اور روح القدس اور خداوند تعالیٰ ایک ہی ہیں۔ اُن میں زرا بھی فرق نہیں۔ شاید مسلمان بھائی یہ اعتراض کرینگے کہ خداوند تعالیٰ تو ہر ایک میں رُوح دالتا ہے اور بچہ پیدا ہوتا ہے۔ تو اِس کا جواب بالکل آسان ہے۔ جیسا کہ سورج کی روشنی کا عکس داغدار شیشہ میں سے نہیں پڑ سکتا اگر پڑتا بھی ہے۔ تو ایسی درستی سے نہیں جیسا کہ ایک پاک صاف شفاف شیشے میں سے پڑتا ہے۔ میرا اِس نظیر سے یہ مطلب ہے۔ کہ بی بی مریم جو کہ بالکل پاک دامن اور عصمت پناہ تھی۔ اور شادی شدہ نہیں تھی۔ بطور ایک شیشہ کے تھی اور اُس میں سے روح القدس کی روشنی ٹھیک طور سے کام کر سکتی تھی۔ حالانکہ اُن شیشوں سے جو کہ صاف شفاف نہیں ہین عکس نہیں پڑ سکتا۔ میرا مطلب یہ ہے۔ کہ ہر ایک شادی سدہ عورت جہان کی آلودگیوں میں لتھڑِی ہوئی ہے۔ اِس لئے اِن تاریک شیشوں میں سے روح القدس کی روشنی کا منعکس ہونا بالکل محال ہے۔

پہلے تو ہم یہ سیکھتے ہیں۔ کہ حضرت عیسیٰ کنواری اور پاک دامن مریم کے پیٹ سے پیدا ہوا۔ اور خداوند تعالیٰ نے اپنا روح اُس میں ڈالا۔ مگر محمد صاحب کی پیدایس سے تو صاف طاہر ہے کہ اُس کی ماں اور باپ نے نفسانی خواہش مٹائی اور محمد صاحب پیدا ہوا۔ 

دونوں کی پیدایش کا حال تو اظہر من الشمس ہو گیا۔ آگے چل کر دیکھئے۔ محمد ساحب کو تقریباً چالیس برس تک تو اِس بات کا خواب و خیال بھی نہیں تھا کہ وہ پیغمبر ہیں بعدازاں پیغمبری کا طرّہ حاصل کیا + اور شاید اِس عرصہ میں گناہ بھی کئے ہونگے۔ جیسا سورة فتح کے رکوع کی نسبت تفسیر رؤفی میں لکھا ہے۔

سورة إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا۔ ترجمہ اے نبیؐ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کر دی تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دے اور تمہیں سیدھا راستہ دکھائے ۔ تفسیر رؤفی میں لکھا ہے۔ کہ یہاں اُن گناہوں سے مراد ہے۔ جرکہ وحی کے نازل ہونے سے پیشتر سر زد ہوئے ازروئے گناہ جو بعد ختم ہونے وحی کے تابہ موت تک وقوع میں آئے۔ اِس تفسیر سے صاف ظاہر ہے۔ کہ سوائے حالت وحی کے محمد صاحب گناہوں میں مبُتلا رہے۔

برعکس اِس کے حضرت عیسیٰ لڑکپن سے لیکر آسمان پر اپنے باپ قادر مطلق کے پاس جانے تک بالکل عصمت میں رہے۔ محمد صاحب نے نفسانی خواہش مٹانے کیواسطے نویا دس تک شادیاں کیں مگر حضرت عیسیٰ دُنیاوی آلودگیوں سے بالکل پاک صارف ہے۔ راقم ایک حق کا طالب۔ امیر شاہ۔ متعلم ۔ بورڈ سکول۔ ملتان۔