لیث نمبر

The Trinity

Published in Nur-i-Afshan April 14, 1881
By Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

Street Vendor at Bazaar

تثلیث نمبر ۱

اِس بڑی بات پر بہت سے نامناسب اِعتراض کئے جاتے ہیں بیشک بات تو مشکل ہے۔ ہم جو محدود ہیں غیر محدود خدا کو کیونکر سمجھ سکتے ہیں۔ ساری خلقت ایسے راز ونسے جن کی دریافت ہماری عقل سے باہر ہے معمور ہے۔ کوئی چیز نہیں ہے جسکو ہم کامل طور سے سمجھ سکیں۔ ہم نہیں سمجھ سکتے ہیں کہ گھاس کا ایک پتا کسطرح موجود ہوا یا اُسکی ماہبت کیا ہے۔تو ہم کسیطرح سمجھ سکتے ہیں کہ اُس یاد تیعانی کی ہستی اور ماہیت کا کیا طریقہ ہے جس نے کل عالم کو پیدا کیا اور جس عالم کے سامہنے ہماری یہہ عجیب دنیا ایسی ہے جیسے پانی کی ایک بوند سمندر میں۔ سب سے بڑھکے دانا اور عالم لوگ خدا کے نزدیک صرف رینگینے والے کیڑوں کے موافق ہیں۔ پس لازم ہے کہ ہم بہت ہی حلیم ہوویں جبکہ اُسکی بابت دریافت کرنے لگتے ہیں۔

خدا کی تثلیث کو ماننا ساری اخلاقی مخلوقوں کے لیے ضروری ہے۔ خدا کے سارے کام اُس کی تثلیث کو ظاہر کرتے ہیں اور وہی ضرور حقیقی اور زندہ خدا ہے جس میں اور خلقت میں کچھ نہ ہو اور جسپر ساری موجودات گواہی دیتی ہو چنانچہ موجودات کی گواہیونمیں سے چند یہہ ہیں ۔ ہر ایک گھاس پھول اور درخت میں تثلیث ظاہر ہوتی ہے اِنکے مادہ ظہور اور قوّت غایب (مثلاً زندہ رہنا بڑھنا وغیرہ) تین علیحدہ چیزیں ہیں تو بھی وہ اِسطور سے ملجاتی ہیں کہ شے واحد یعنے گھاس پھول یا درخت بنجاتی ہیں کیا کوئی عالم ہے جو گھاس کی تثلیث کا بھید سمجھ سکتا ہے ۔ کوئی نہیں ۔ تو گھاس کے خالق کی تثلیث کس طرح سمجھ میں آویگی۔

پھر ہر ایک شخص میں خدا کی تثلیث کا عکس معلوم ہوتا ہے ہر ایک میں جسم۔ جسم کی زندگی اور غیر فانی روح ہے یہہ تینوں بھی ایک نہیں بلکہ ایسی ملائی گئی ہیں کہ منہ اور دل سے لوگ خدا کی عظیم الشان تثلیث کا اِنکار کریں تو بھی وہ تثلیث جو خود اِن میں ہے اُسپر گواہی دیتی ہے۔

پھر خدا کی تثلیث سورج کی تثلیث کے موافق ہے سورج میں اوّل تو مادہ ہے جو گو یا باپ ہے۔ اس مادہ یعنی باپ سے روشنی نکلتی ہے اور اُسکا بیٹا ٹھہرتی ہے اور باوجود علیحدہ ہونے کے اپنے باپ سے جدا نہیں ہوتی۔ علاوہ بریں مادہ اور روشنی یعنے باپ اور بیٹے سے گرمی نکلتی ہے اور یہہ بھی باوجود علیحدہ ہونے کے جدا نہیں ہے یہہ تینوں متفرق ہو کر جُدا نہیں ہیں بلکہ آپس میں ملکر ایک ہی جلالی سورج ہیں خواہ روشنی کو خواہ گرمی کو جُدا کرو ضرور یہہ وجود اپنے جلال کی رونق یا اپنی زندگی بخش قدرت چھوڑ کر بیحلال یا بی زور وجود ہو جائیگا اور سورج نہ رہیگا اِن تینوں کی بعید الفہم وحدانیت سے ایک جلالی سورج بنتا ہے جسکا مادہ روشنی کو پیدا کرتا اور اُسے بغیر جدا کرنے کے باہر بھی بھیجتا ہے کہ اِس دنیا اور ستاروں کو روشن کرے یونہی مادہ اور روشنی گرمی کو پیدا کرتے اور اِسی بغیر جدا کرنے کے باہر بھی بھیجتے ہیں کہ خلقت کی زندگی اور بالیدگی کا باعث ہو در حالیکہ سورج میں آتی جلالی تثلیث ہے تو کیا سورج کے خالق میں بے نہایت زیادہ عالی عجیب پر رازاور جلالی تثلیث نہیں ہو سکتی ہے۔ بیشک ہے۔ اور یہہ وہی ہے جو بائبل میں پایا جاتا ہے ۔ بائیبل میں اور خلقت میں کچھ اختلاف نہیں ہے۔ جیسا خلقت یا قدرت سکھلاتی ہے ویسا ہی بائیبل سکھلاتی ہے۔ سو لکھا ہے ۔ خلقت کے حقیقی اور زندہ خدا میں ایسی ہی تثلیث ہے ۔ خدا باپ چشمہ ہے۔ خدا بیٹا اُس سے نکلا اور بغیر اِس سے جدا ہونے کے باہر جاتا ہے تاکہ باپ کے جلال کی رونق اور جہان کا نور ہو کر ساری روحانی موجودات کو روشن کرے اور گناہ آلودہ آدمیوں کو جو تاریکی میں گمراہ ہیں روشنی بخشے خدا روح القدس باپ اور بیٹے سے باہر نکلا اور اِنمیں قایم رہکر تعبیر جدا ہونے کے باہر بھی جاتا ہے تاکہ ہم کو جو گناہوں میں مردہ ہیں جلا کر بیٹے یسوع مسیح میں نئی مخلوق بناوے۔ یہہ تینوں اپنی منزلت اور پر راز وحدانیت میں ایک ہی واحد لاشریک اور کامل خدا ہیں۔ خواہ بیٹے کا خواہ روح القدس کا اِنکار کرنا ضرور خدا نامکمل ہو جائیگا پس ثابت ہوا کہ جو لوگ بیٹے اور روح القدس کو قبول نہیں کرتے ہیں الہیٰ روشنی اور زندگی کو رد کرتے ہیں اور روحانی طور پر گویا بے روشنی اور مردہ رہتے ہیں۔

مختصر یہ ہے کہ ہمکو آسمانی یا روحانی بولی نہیں دی گئی ہے۔ سو جب ہمکو خدا کی بابت بولنا پڑتا ہے دنیوی بولی کو اِستعمال کرنا ضرور ہوتا ہے ہم سرف تمثیل کے طور پر اسکی بابت بول یا سوچ سکتے ہیں اور جب ہم یسوع مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو یاد رکھنا چاہیے وہ اپنے باپ کا بیٹا نہیں ہے جیسے ہم اپنے والدین کے بیٹے ہیں بلکہ جیسا سورج کی ناقص تمثیل میں روشنی کو سورج کا بیٹا بیان کیا ۔

الغرض ساری خلقت اور بائیبل متفق ہو کر خدا کی پُر راز تثلیث پر پختہ گواہی دیتی ہیں۔ کاش کہ سب لوگ خدا کی ساری موجودات اور اُس کے پاک کلام کے مطابق اُسکی تثلیث کے تسلیم کرنے میں اُسکی عزت کریں اور روشن اور زندہ ہو جاویں۔

تثلیث نمبر ۲

ساری خلقت پر خدا کی تثلیث کا نقش ہونا ثبوت ہوا۔ علاوہ بریں تواریخ اور اِنسان کی عقل و ضمیر بھی خدا کی تثلیث پر گواہی دیتی ہیں۔ یہہ بنا نیوالے سنبھالنے والے اور بخشنیوالے خدا کی شہادت دیتی ہیں۔ یہہ شریعت دینے والی شریعت پوری کرنے والی ( یعنی بچانیوالی ) اور پاک کرنیوالے کی ضرورت ظاہر کرتی ہیں۔

ضمیر بتلاتی ہے کہ ہم ایک ایسی شریعت ہے جو نہ ہم سے اور نہ ہماری تجربہکاری سے پیدا ہوئی یہہ حاکم با اختیار کیطرح ہمپر ھکم صادر کرتی ہے۔ یہہ ہمپر ہر ایک قول و فعل اور خیال میں اختیار رکھنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ یہہ نیکی اور بدی میں امتیاز کر کے نیکی کو قبول کرنے اور بدی کو رد کرنے کا حکم دیتی ہے۔ ضرور ہے کہ اِس شریعت کا مالک کو ئی ہووے جس کی رعیت ہونا ہمپر فرض ہے۔ غرض ضمیر ایک پاک شریعت دینے والے کی جسکا ہمپر سلطنت کرنا حق ہے گواہی دیتی ہے۔ پھر ضمیر اسپر یہہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ہم نے اِس پک شریعت سے عدول کیا اور یوں اُسکے ٹھہرانے والے کی نافرنبرداری کی اور سنوجب سزا ہم ٹھہرے۔ اس نافرمانبرداری کے واجب نتائج سے ہم کیونکر بچیں گے؟ اگر ہم بے گناہ ہوتے تو ہمیں بچانیوالے کی حاجت نہ ہوتی مگر اسواسطے کم ہم گنہگار ہیں نجات دہندہ کی ضرورت صریح ہے ضمیر ہمارا گناہ ہمکو بتلاتی ہے اور فرماتی ہے کہ چونکہ خدا عادل ہے وہ واجب سزا ضرور دیگا۔ ہماری ضمیر نجات دہندہ کی ضرورت کی قایل ہے۔ وہ کون ہو سکتا ہے با شرط یہہ ہے کہ وہ پاک شریعت کا کامل طور سے پورا کرنیوالا اور نہ صرف ایک آدمی بلکہ کل آدم زاد کی تمام سزا اُٹھانیوالا ہو ضمیر یہہ بھی کہتی ہے کہ لازم نہیں کہ کوئی مخلوق اپنی ہمجنس مخلوقوں کے بدلے اُنکی سزا اُٹھانے وے سوا اِسکے چونکہ مخلوق اپنی مالک نہین ہیں اِس لیے اور انکی عوض نہیں ہو سکتی ہیں۔ فرض کرو کہ ہو سکیں تو بھی ایسی عوضوں کے لیے بھی نجات دینیوالا ضرور ہو گا۔ در حالیکہ یہہ امر ناممکن و خلاف اِنصاف ٹھہرا کہ ہمجنس مخلوق ہمارا عوض ہو تو ہمارا لایق و قادر بچانیوالا کون ہو سکتا ہے۔ ضمیر سے ایسی عوض کی ضرورت ثابت ہے جو شریعت کے بانی کا ہممرتبہ ہو جو خود شریعت کو پارا کر کے کل عدول کر نیوالونکا لایق اور قادر عوض ہو۔ جو اُنکی تمام سزا اپنے اوپر اُٹھائے اور اُن کے بچانے کی غرض سے شریعت کی با عزاز تمام تکمیل کرے ضمیر ایسا بچانیوالا چاہتی ہے جو شریعت کی ساری راست دعوں کو پورا کرے اور خود اپنی قدرت رکھے کہ یہہ بھاری کام ختم کرنے کے بعد اپنے تئیں بچاوے اور جو شریعت کے ٹھہرانے والے کی غضب کی خود برداشت کرے اور اُسکے اِنصاف کو مکمل کر کے آپ رحم کا دروازہ کھولے تاکہ بانی شریعت ہر ایک سایل کو معاف کرے۔ ضمیر ظاہر کرتی ہے کہ ہماری نجات کے واسطے نہ صرف ایسے خدا کی ضرورت ہے جو عدل کے موافق سزا دیوے بلکہ ایسے خدا کی بھی جو عدل کے مطابق سزا ُٹھاوے۔

پھر صرف اتنا ہی کہ ہم اپنے خطاؤں کی سزا سے بچ جاویں بلکہ ضرور ہے کہ ہمارے ہر ایک عیب کا داغ مٹایا جاوے اور ہماری روح کی کامل درستی کیجاوے غرض پاک کر نیوالا بھی چاہئے ہماری زات بالکل بگڑ گئی ہے۔ اب ایسے پاک کر نیوالے اور بحالت اصلی لانیوالے کی ضرورت ہے جو اُسکے بانی کے برابر ہو ضمیر اور عقل چاہتی ہیں کی ایک ایسا بھیجا جاوے جو ہماری زات کی درستی کر کے ہمارے اندر پاک دل پیدا کرے۔ اور سیدھی روح پھر ڈالے۔ سوا خدا کے یہہ نئی زندگی کون پیدا کر سکتا ہے؟ کوئی نہیں ۔ اِسلیئے پاک کرنیوالا اور بحالت اصلی لانیوالا ضرور خدا ہوگا۔ الحاصل یہہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شریعت ٹھہرانے والا شریعت پوری کرنیوالا اور شریعت کے موافق بحالت اصلی لانیوالا تینوں خدا ہونگے۔ ہماری حاجت ہماری تمیز ہماری روح کے ساخت اور خدا کے اِنصاف اور پاکیزگی کی لحاظ سے ضرور ہے کہ خدا بھی تینوں ہوویں۔ پس یہہ ثابت ہے کہ جو جو الہامی کتابیں ایسے خدا کو ظاہر نہیں کرتیں گنہگاروں کے لایق حال نہیں ہیں شاستر میں ایسے خدا کا زکر نہیں ملتا ہے اگرچہ وشنوں نے کئی بار اوتار لیا تو بھی گناہوں کی سزا اپنے اوپر اُٹھانا تو درکنار اپنے دشمنوں کو مار ڈالنے کو آیا۔ پھر وہ آپ مخلوق ہے اور مایہ کے قبضہ میں رہتا ہے شاستر میں پاک کرنیوالے اور بحالت اصلی لانیوالے کا زکر بھی نہیں ملتا ہے۔

یہی گرنتھ اور قرآن کا حال ہے۔ اِنمیں گنہگاروں کے قادر مطلق کے بھیجے ہوئے کا جو روح کو بحالت اصلی لاونے زکر نہیں کرتے ہیں پس نہ شاستر نہ گرنتھ نہ قرآن ایسی الہامی کتابیں ہیں جو گنہگاروں کی حاجت ضمیر اور عقل کی خواہش روح کی ساخت اور خدا کی اِنصاف اور پاکیزگی کے لحاظ سے نجات دے سکیں۔

صرف بائیبل ایک ایسی اِلہامی کتاب ہے۔ یہہ شریعت دینیوالے کا جو سبھوں کے اوپر خدا ئے مبارک ہے زکر کرتی ہے یہہ اُسکی بیحد اِنصاف اور پا کیزگی کو ظاہر کرتی اور یہہ بھی بتلاتی ہے کہ وہ رحیم اور کریم قادر صاحب فضل و وفا ہے۔ جو کسی کی ہلاکت سے خوش نہیں ہوتا ہے۔ یہہ بیان کرتی ہے کہ باپ نے اپنے اکلوتے اور پیارے بیٹے کو دنیا میں بھیجا تاکہ گنہگاروں کو بچاوے۔ بائیبل کا خلاصہ یہہ ہے کہ خدا کے ابدی بیٹے نے جو خدا ہے مجسم ہو کر ناراستوں کی عوض اپنی جان دی اور وہ اُنکی ساری سزا پوری کر کے تیسرے روز فتح مندی سے جی اُٹھا اور اُنچے پر چڑھ کر قید کو قید کیا اور آدمی کو اِنعام بخشے بائیبل میں یہہ بھی بیان ہے کہ باپ اور بیٹا دونوں روح القدس کو بھیجتے ہیں کہ وہ ایمان لانیوالونکے دلوں میں داخل ہو کر اُنہیں پاک کرے اور بحالت اصلی لاوے اِس غرض سے کہ وہ مرتے وقت پاک بہشت میں داخل ہونے کے لایق ٹھہریں۔

شکر خدا کا کہ یہہ خوشخبری ہمارے کانونتک پہونچی ہے۔ کاچ کہ بہتوں کی آنکھیں ُکھل جاویں کہ وہ معلوم کریں کہ حقیقی خدا تین ہیں ایک ہے اور کہ بائیبل نہ صرف قدرت اور حکمت کے معجزات کی مہر سے مستند ٹھہری بلکہ ہماری حاجت روح کی ساخت ضمیر اور عقل کی خواہش اور خدا کی اِنصاف اور پاکیزگی اور محبت کے مطابقات کے لحاظ سے سچّی الہامی کتاب ثابت ہوئی۔

تثلیث نمبر ۳

بعض صاحبوں کے نزدیک مضمون تثلیث کی طرز ثبوت و دلیل میں جو مضمون نمبر ۱ میں مرقوم تھا مشکلات پیش آئیں۔ اِسلیے زیادہ صراحت و وسعت کے ساتھ بیان کرنا انسب ہے کسی تمثیل میں کبھی بھی مُمثّل کی کل خاصی شامل نہیں ہوتی۔ مگر صرف ایک ہی خاصہ ظاہرہوتا ہے مثلاً جب آسمان کی بادشاہت کو رائی کے دانے سے تشبیہ دی تو صریحاً و جہ شیہ یہی ایک ہے کہ کیونکہ چھوٹا بتدریج بڑا ہوا جاتا ہے۔ اگر معترض اِس مسئلہ کو کہ خدا ایک مین تین ہے نا ممکن اور خلاف عقل کہے تو ہمارا جواب یہہ ہوگا اگر یہہ امر واقعی خلقت میں چابت ہو تو کا ہیکو خلقت کے خالق میں ناممکن اور خلاف عقل ہو؟ جدھر نظر پھیرتے ہیں واحد میں جمع پاتے ہیں پھر یہی امر واقعی خدا میں کیوں خلاف عقل ہو؟ خلقت میں سادہ عناصر کی تعداد تھوڑی ہے اور یہہ فرداً فرداً الگ کبھی نہیں پائی جاتی اور اکثر وں کی رائے کے موافق یہہ سادہ عناصر بھی بے تعلق و بسیط نہیں ہیں۔ پس واحد میں جمع ہونے کی خاصیت کہاں سے آئی جواب لازم آتا ہے۔ خدائے خالق سے ۔ اگر سراسر خلقت کے درمیان واحد میں جمع ہونے کی عجیب اور اکثر اوقات پر راز خاصیّت نقیض اور خلاف عقل نہیں ہے تو خالق میں واحد میں جمع ہونیکی بے حد زیادہ پرُ جلال و پّرراز خاصّیت کیوں موجودنہ ہو؟ درحالیکہ خلقت خالق کا عکس ہے تو نتیجہ صریح ہے کہ واحد خالق میں جمع ہے۔

پھر واحد میں جمع ہونے کی خاصیّت عالمگیر ہے بلکہ سب منتخب خاصی عموماً تثلیث کا پر تو نمایاں کرتے ہیں۔ کیا اِسی صریح امر واقعی کے سبب نہیں ہے کہ ہر اقلیم کے حکیموں کے نزدیک جنہوں نے خلقت پر غور کیا عدوتین ایک پُر راز معنی دار عدد ٹھہرا ہے۔ ہاں خلقت میں اور بھی پُر راز اعداد اُور دوسرے مرکبات میں مگر یہہ حدوتین سب کا سرتاج ہے۔ اِسمیں بھی شک نہیں کہ یہہ منتخب خاصی اور بھی تثلیثوں اور دوسری مرکبّات میں مفصل ہو سکتی ہیں۔ مثلاً درخت کے ظہور میں رنگ شکل اور مقدار کی ایک اور تثلیث ظاہر ہے۔ یونہی اِنسان کے جسم میں سر دھڑ اور جواڑہ یا گوشت خون اور ہڈیوں کی تثلیث نمودار ہے اور روح میں علم ۔ شہوت اور ارادہ کی تثلیث نمایاں ہے اور اگر ہم جان کی راز سے واقف ہوتے تو اغلب ہے کہ اِسمیں بھی تثلیث آشکارا پاتے مگر یہہ تثلیث در تثلیث کا ہونا تین ایک خالق کی نقش کی شوخی کو کم کرنے کے بجائے اور زیادہ کرتا ہے خلقت میں ایک تین تین کے نطائیر کا کچھ انتہا نہیں خود جوئی (روشنی) میں جو ہندوؤں کے خیال میں خدا کا نمونہ ہے تثلیث ظاہر ہے ہر ایک شعاع آفتاب میں رنگ روشنی اور حرارت شامل ہے بلکہ رنگ میں بھی ازروئے علم طبعی تین ہے اصلی رنگ یعنی سرخ زرد اور نیلا نمایاں ہیں۔

پس یہہ سوال لازم آتا ہے۔ اِ س قسم کی تثلیث کا سلسلہ علامات کل خلقت میں کہاں سے پیدا ہوا؟ کیا یہہ کسیقدر خالق کا عکس نہیں؟ اگر ہے تو کیا یہہ قرین قیاس نہیں کہ خدا کی واحد میں جمع ہونے کی خاصیت جو ظاہر ہے ایک میں تین ہی کی ہے جسطرح خلقت میں تثلیث اور تثلیث موجود ہے ویسی تثلیث باپ بیٹے اور روح القدس میں الگ الگ ہے جسطرح خلقت کے درمیان واحد میں جمع ہونے کی اور بھی مرکباّت ہیں ویسی ہی ہم خدا میں واحد میں جمع کا یعنی ہستی دانائی قدرت پاکیزگی اِنصاف نیکی اور سچاّئی کاس مرکب بھی پاتے ہیں تو بھی چونکہ خلقت میں واحد میں جمع کی بڑی منتخب خاصیّت ایک میں تین کی ہے اسلیے بے دھڑک یہہ خیال گزریگا کہ جسقدر ہم خدا کو اِن ظہور سے جو خلقت میں نمایاں ہیں دریافت کر سکتے ہیں ضرور ایک میں تیں کی خاصیّت اِسمیں موجود ہوگی۔

اِس موقعہ پر یہہ سوال مناسب ہے کیا خدا کا عکس جو خلقت پر ہے ویسا ہی عکس ہے جو اُسکا بائیبل پر ہے ؟ اگر واقعی ایسا ہی ہے تو بائیبل اسقدر تو صریح خدا کا حقیقی عکس ہے اگر برعکس اِسکے اس عکس میں جو خدا کا مرات خلقت سے ظاہر ہے اور اُس عکس میں جو خدا کا بائیبل سے ظاہر ہے اختلاف ہی تو بائیبل غلط ہے اور قابل تسلیم نہیں واضح ہو کہ یہہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ وہ تثلیث جسکا عکس خلقت میں نمایاں ہے خدا کی تثلیث کی ماہیت اور کیفیت کا مکمل ظہور ہے۔ نرم مٹی پر جو نقش پاہو اسمیں پاکے حصوں کے نشانات ظاہر ہوتے ہیں صرف اِسی نقش سے اگر پہلے سے اس فن کا علم نہ ہو ہر گز پاکی تشریح یا طریق ترکیب کا کچھ بھی علم نہ دریافت ہو سکیگا۔ علی ہذا کیا ہم خدا کے گویا نقش پار سے جو خلقت پر نمودار ہے اس سے زیادہ آگاہی کی اُمید رکھ سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں ۔ خلقت خالق کا اظہار ہے۔ خالق کا اظہار خلقت کامل طور سے نہیں کر سکتی ہے ورنہ خالق اور خلقت ہمپایۂ ہو جاوینگے۔ ہر چند کہ خلقت کی تثلیث کی انواع و اقسام کے ظہور سے خدا کی تثلیث کے بعید الفہم راز کی ماہیت اور کیفیت کے سمجھنے کے لیے کامل رونہیں ملتی ہے تو بھی یہہ بے بہا اور مفید مطلب ہے۔ اِسلئے کہ خالق کی تثلیث کے عظیم امر واقعی کے آشکار ا کرنے اور بائیبل کے دفتر مستند ٹھہرانے اور خدا کی تثلیث کے امر واقعی سے منکروں کت تکبر کو خاک میں ملانے کے لیے کافی ودانی ہے۔

اہل ہنود کی تر یمورتی اور اِس تثلیث میں جو خلقت اور بائیبل سے ظاہر ہوتی ہے کسی نوع کی مناسبت نہیں۔ اُنکا بیان ہے کہ پر مبشربا پرم پرم تریمورتی نہیں ہے مگر اِس سے برہم ۔ وشنو اور شو نکلی پس یہہ تریمورتی برہم واحد سے متخرج اور علیحدہ ہے اور اسمیں توحید نہیں ہے۔ اِسمیں علیحدہ اور بے تعلق آٹھ شامل ہیں جو باہم متنازع رہتی ہیں چونکہ اِس قسم کی تثلیث کا عکس خلقت میں نمایاں نہیں ہے اِس لیے یہہ خلقت کے خالق کا حقیقی عکس تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔