Alabaster Mosque in Cairo

مضمون دربارہ نبوّت آنحضرت از تورات مثیل موُسیٰ

There is no prophecy about Muhammad in the Torah

Published in Nur-i-Afshan July 16, 1897

یہ مضمون بعنون مذکورہ بالا ہم نے  ماہواری  رسالہ انجمن  حمایت اسلام لاہور بابت ماہ فروری و مارچ  و اپریل  ؁۱۸۹۷ء میں پڑھا  جس  میں  راقم مضمون  نے محمد صاحب  کو توریت و انجیل کا آخر الزماں بنی قرار دیا ہے۔  صاحب موصوف نے بائبلی کی چند آیتوں  کا مطالعہ  کر رکھا ہے مگر کتب مقدسہ  کے مدعا سے شریعت و نبوت سے بالکل بے  بہرہ  معلوم ہوتے ہیں۔ اگر وہ سلسلہء نبوت  کو علی الترتیب کتب  مقدسہ میں پایا جاتا  ہے غور سے تعصب کو  بالائے طاق رکھکر  دیکھتے تو خدشہ  و  دغدغہ  میں نہ پڑتے  کہ محمد  کی نبوت توریت و انجیل سے ثابت  کرتے۔ مگر  اگر محمدیوں  کے دستور کے موافق  آپ نے کوئی کوئی  آئت اِدھر اُدھر سے لیکر اپنے دعوے کے ثبوت  جتانیکے  لئے جرأت  سے پیش کر دی ہیں مگر یہ نہ دیکھا کہ اُن آیات  کا تعلق  دیکگر آیات سے یا کل کتب مقدسہ سے کیا ہے اور پھر زیادہ  اپنے ثبوت کی تصدیق کے لئے قرآنی آیات پیش کی ہیں لیکن چونکہ ہم تو قرآن  کے الہامی کتاب ہونے کے قائل ہی نہیں ہیں اور نہ وہ کسی زمانہ میں اُن الہامی کتابوں میں شامل کیا گیا جو آج تک موجود اہل کتاب کے ہاتھ میں ہیں اور جس کی تصدیق  محمد صاحب نے بھی اپنے  زمانے میں مصدقا المامعکم (ج)۔ البقرہ ع ۵  و مصدقاالمامعہم ( المسارع ۱۲)  فر کر کی ہے۔ توامر تنقیح یہ  ہو گا کہ قبل ازیں کہ کوئی  آیت مصدقہ پیش کی جاوے  قرآن  کا الہامی کتاب ہونا ثابت کر دیا جاوے۔  اِس امر کو مولوی صاحب نے  مدنظر  نہیں رکھا ہے چنانچہ  اپنے دعوے کے ثبوت  میں قرآنی  آیت  کو پیش کر کت اہل کتاب  کی نسبت  یہ اضافہ کرتے  ہیں کہ  محمد صاحب  کے اِس  دعوی کے مقابلہ میں کہ النبی الای  الزی الخ اُنہوں نے چوں تک نہ کی ۔  جس نے اظہر من الشمس ہے کہ اُنہوں نے اِس دعوے کو تسلیم کر لیا۔ یہ صاف اِس بات پر دال ہے کہ اُن کی سمجھ  پر تاریکی  طاری ہے کیونکہ اہک کتاب کا ایک فرقہ ایسا بھی نہیں ہےجس نے قرآن کوکلام الہی مانا۔  چہ جائے  کہ  کو ئی  آیت  قرآنی  جو اپنے  دعوے  کی تصدیق کے لئے پیش کرے اُسے اہل کتاب معتبر سمجھیں  لہذا اُسکے خلاف  چون  و چرا کرنایا  نہ کرنا  اُنکا اختیار ہے اِس سے یہ نتیجہ ہر گز نہیں  نکلتا کہ اُنہوں  نے دعوے کو تسلیم کر لیا۔ ہمارے خیال  میں امر تنقیح  صرف  یہی ہے کہ  آیا ازروے کتب  مقدسہ محمد  یا عیسیٰ  آخر الزمان  نبی ہے۔ مولوی صاحب  اپنے دعوے  کے ثبوت میں مماثلت موسیٰ  پر زور دیتے ہیں۔ اِس امر کی تصدیق کے لئےہم کو شریعت  و نبوت  کے کُل مدعا و سلسلہ کو دیکھنا ہے جسکا خاتمہ عیسیٰ یا محمد پر ہوتا ہے۔ اولاً موسیٰ  کی شریعت  میں کیا کیا  باتیں شامل  تھیں۔ ظاہر ہے کہ موسیٰ نہ صرف  دس احکام  کو لیکر  آیا  بلکہ رسم عبادت و دستور قربانی وغیرہا بھی۔ عہد عتیق  میں اِس  لحاظ سے تین مرتبے  پائے  جاتے ہیں اولاً  مرتبہ ٔ وعدہ۔ ثانیاً شریعت ۔ ثالثاً  نبوت۔ اب اگر ان مرتنونکا سلسلہ کتب مقدسہ میں پایا جاتا ہے اور اظہار ارادہ ٔآلہی  جو فعل نبوت ہے تعلق تواریخی  واقعات  علی الترتیب  پایا جاتا ہے حتی کہ اُسکا انجام آخر الزمان  نبی میں پورا ہوتا ہے تو آپ ہی فیصلہ  ہو جائیگا کہ نبی برحق کون  ہے۔  کتب مقّدسہ کے مطالعہ  سے نبوت کا آغاز بنی آدم کا باغ عدن سے خارج  ہونیکے بعد سے شروع  ہوتا ہے جس میں نبوت یہ یقین دلاتی  ہے کہ دنیا کی تواریخی حالات جس میں نیکی و بدی کے دو چشمے  جاری ہیں اُس  میں نیکی غالب ہو گی۔ یہ ابتدائی نبوت حضرت نوح کے زمانے تک ہے۔ پھر سلسلۂ  جسکا مقصد  یہ ہوتا ہے کہ سلطنت غیر فانیہ  باری  تعالیٰ کی قایم  ہو گی اُس میں عہد کی  برکتیں مذکور ہیں جو حضرت  ابراہیم  سے وعدہ فرمائی  گئیں اور یہ  کہ وہ کس نسل سے شروع ہو نگی  یعنے  ابراہیم و یعقوب  و اسحاق  سے۔  ابراہیم  کی زوجہ مسماة  سرہ عقیہ  تھی اور گو اُسکی لونڈی  ہاجرہ  نامی سے ابراہیم کاایک بیٹ  اسمعیٰل  پیدا  ہوا  لیکن تاہم خدا نے اپنی مشیت  ازلی  سے سرہ  کو بھی ایک فرزند  اسحٰق  جس کو فرزند  وعدہ  و فضل کہنا چاہئے عطا فرمایا اِن دونوں  سے نسلی سلسلے  جاری ہوتے  اِسمعیٰل  خارن کے بیان میں ایک بڑا  گول  انداز ہو گیا  اور ایک مصری عورت  سے بیاہ کیا اور وہ  بارہ بادشاہونکا حسب الاقوام  باپ ہوا اُنہیں میں عرب و شام کے قبیلات خانہ بدوش  شامل ہیں۔ وہ عہد  کے فرزندوں  میں شامل نہ کیا گیا۔ اُسکے نسب نامہ  کے لئے ۔ دیکھو پیدایش  ۲۵: ۱۳۔ ۱۵+ اسحٰق  نے بیتوئل  کی بیٹی مسماة  ربقہ سے شادی کی جسکی نسل ناصر سے تھی جو ابراہیم  کا بھائی تھا۔ یہ وعدہ کا فرزند  وں میں سے تھا۔ اُسکے ثبوت  میں دیکھو  پیدایش ۱۶ باب ۔ محمد  صاحب  تو اول نسب  نامہ  ہی کے رو سے جبکہ ہم سلسلہ نبوت کو یہود کی انسانی  تواریخ  میں دکھلاتے چلے آتے ہیں۔ دور پھینکے جاتے ہیں۔  پھر برکت کے وعدہ  میں جو ابراہیم  سے کئے اُس میں دو جملے ہیں۔ ایک تو ابراہیم  پر  خاص  مخصوص  ہے یعنے میں تجھے ایک  بھاری قوم بنا‍ؤنگا۔ یہ وعدہ موسیٰ کیوقت  سے لیکر انجام کو پہنچا جب ملک کنعان  اہل یہود کے زیر تصرف ہوا۔ ( مولوی صاحب نے ناحق  یہ گمان کر لہا ہے کہ ملک شام  جو اب اُنکے  ہاتھ میں وعدہ  مولود سے متعلق ہے۔) اور پھر داؤد  کے وقت سے شروع ہو کر  کُل سلاطین  کے زمانوں میں مروّج رہا۔ دوسرا جملہ  مسیح  کی آمد  پر اشارہ کرتا ہے اور اِس  ثنا میں  نبوت کا طرز و ڈھنگ بھی بد ل جاتا  ہے اور حضرت ناتن کا کلام داؤد بادشاہت  کی لازوالی  کا زکر کرتا ہے۔  غرضیکہ نبوت میں بنیادی سلسلہ پایا جاتا ہے جو پرُانے عہد نامے کی تواریخ پر منبی ہے۔  ج کچھ زمانہ سلف  میں گزرا  وہ آیندہ میں شامل  ہو گیا۔  یا یوں کہیں کہ ایندہ کے لئے عہد عتیق کی تواریخ تواریخی بنیاد ہو گئی۔ جب زمانہ سُلاطین  میں داؤدی مسکن  کو زوال آیا اور اہل  بیوانیل کی اسیری  میں گرفتار ہوئے اُسوقت اگرچہ زرہ ببل کی معرفت خدا نے داؤد دودمان کو پھر بحال کیا مگر وہ چندروزہ تھی اور اِس زوال کے بعد انبیائے آخر الزمان خصوصاً حجی و ملاکی آیندہ  امامت و کہانت پر زور دیتے ہیں اور زربابل  کے بجائے جو کہ شاہی خاندان سے تھا آخر الزمان نبی یشوع سردار کاہن کا  بطور پیشینگوئی زکر کرتے ہیں دیکھو ملاکی  باب ۲۔ نہ کہ پاد شاہی کا  کہ وہ خدا کی ہیکل کو بنائیگا اور  کس طرح سے اُس امامت کو جو اولاد یہودی نے خراب کی تھی پاک و مکمل کریگا یہ غور طلب بات ہے کہ آخر میں اشارہ  ٔ امامت مسیح پر عاید کرنا خداوند  کی حکمت فاضلہ  و  کاملہ تھی۔ چونکہ داؤدی بادشاہت  کو زوال  آچکا  تھا مگر اب یہ  ظاہر کرنا تھا  کہ مسیح کی  پہلی آمد امامت  کی ہو گی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ  اِس  لحاظ میں آخر الزمان نبی مسیح ہی میں نہ کہ محمد۔

جب  موسیٰ کا ظہور ہوا اُس نے اصول صداقت و فرایض  کو قلمبند کیا۔ اور خدا سے خاص ہدایت یاب اور بولمواجہ متکلم  اور بانی عہد عتیق ہوا یعنے اُس عہد کا جو خدا  اور اُس کی قوم کے مابین تھا۔ جیسا پہلے بیان ہوا موسیٰ کی شریعت میں کئی ایک باتیں شامل  تھیں اور اُس کا  منشا روحانی  تھا جب وہ سلسلہ  ٔ انبیاء  مرسلین  جو زمانہ  سلاطین سے مبعوث ہوا اور  جو از حلقۂ حضرت داؤد  تصور کیا جاتا ہے وہ اسی بات کے ساعی تھے کہ موسوی شریعت اور اُسکے کُل لوازمات  عبادت و قربانی میں روحانی  جان ڈالیں چنانچہ  کتاب مزامیر اِس  پر شاہد  ہے اُن میں  موسوی شریعت  روحانی طور پر ٹپکتی ہے۔ یہ زمانہ  بادشاہی زمانہ تھا تاکہ وہ راستی اور صداقت  کو قایم کریں  اور برُائی کی استیصال کریں اور ایک گروہ صالح  قایم کریں ۔ ہم ایسے زبور بحی اُس کتاب میں پاتے ہیں جو  اُس زمانے کے نا مکّمل  آرام  سے آنیوالی روحانی  بادشاہت  کے اعلے آرام کو تکتے ہیں۔ اور ایسے  کُل زبور  مسیح کیطرف ایما تھے جس میں کہ نسل داؤدکو ہر گز  زوال نہ آویگا ۔ باقی  انبیا ایندہ پر زیادہ  زور  دیتے  ہیں۔ اب غور  طلب  بات یہ ہے کہ نوشتوں کی نبوت انسانی تواریخ کے ساتھ ساتھ  پائی جاتی ہیں وہ علیحدہ نہیں  ہیں۔ اِسی طرح نیچر میں کُل  دنیا کا انتظام  چند  اصول پر قایم  ہے جس  ضابطہ دنیا میں پایا جاتا ہے۔ اِسی طرح نبوت اپنا کام تواریخ  میں کرتی ہے اور اُس  کا کام زیادہ  تر بالخصوص  حکومتِ فضل میں پایا جاتا ہے اور اُسکا سلسلہ شروع ہی سے چلا آیا  ہے۔ قرآن  کی تعلیم کا اِنحصار اعمال حسنہ پر ہے  اور وہ تعلیم حکومتِ  فضل  کی نسبت کچھ زکر نہیں کرتی۔ اول یہیں کتب مقدسہ اور قرآن  میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔ یہ حکومت فضل اُس راستبازی  اور نجات انسان  کو ظاہر کرتی ہے موجودہ بادشاہت سے افضل تر ہے اس  لئے زمانے کے انقلاب میں وہ دیدۂ امید وآرز  و آیندہ  کی طرف  تکتی ہے جو عمل میں آنے  والی  ہیں وہ دو طرح سے ہیں اوؔل زمانہ موجودہ کی  تواریخ  جو زمانۂ  مایوسی تھا جب تسلّی  کا باعث  نہ ہوا تو  نبوت  آیندہ  باتیں اُن پر منکشف  کرتی ہیں۔  دوؔم  جہاں کہیں بدی سر زد ہوتی تھی وہاں  پر نبوت آگاہی با سیاست  دیتی تھی۔ اِس حکومت فضل کی بنیاد انسانی تواریخ  کے سلسلے کے پہلے سے تھی  مگر وہ اُس وقت مصدق ہوئی جب خدا نے  ایک  قوم منتخب کر لیا اور جس کا وعدہ  ابراہیم سے شروع  ہوا۔ اگر محمد صاحب  آخر الزمان  نبی ہیںتو  اِس منتخب شدہ  قوم سے جو فضل کی حکومت میں شامل ہوئے اُنکا کیا تعلق  تھا ۔  عیسیٰ کا نسب نامہ برابر سلسلہ  دار اِس منتخبہ قوم میں سے دکھلایا گیا ہے کیونکہ وہ داؤد  کی نسل میں سے تھا۔  پھر نبّوت  کاپہلا وعدہ  منتخب قوم کے ساتھ ابراہیم سے جسمانی  طور پر ہوا یعنے عطیۂ  کنعان تاکہ اُن کا ایمان روحانی  کنعان کیطرف  بڑھے  اور وہ نبوت کے مدعا کو سمجھیں اِس لئے  تواریخ اور نبوت دونوں  کتب مقدسہ میں ایک دوسرے کے ہم پلہ  ہیں۔ نبوت سے تواریخ  ظہور  میں آتی ہے۔  اور تواریخ  جس قدر  امجا، کو پہنچتی  ہے نبوت کو پورا کرتی ہے تاوقتیکہ اُس کا سلسلہ جاری  رہ  کر مسیح پر ختم  ہوتا ہے  جو کہ خاتم  النبین اور مقبول شفیع  المزنبین ہے۔  ہم قرآن میں یہ سلسلۂ نبوّت  مطلقاً نہیں پاتے بلکہ قرآن ایک مجموعہ تعلیم ہے مگر بائبل فقط مجموعہ تعلیم نہیں ہے بلکہ اُس میں خدا خود اپنے ارادوں کو ابتدا سے انسانی تواریخ میں  میں  پورا  کرتا نظر آتا ہے۔ قرآنی تعلیم خدا کی وحدانیت کی نسبت یہ ہے  لاالہه الا اللہ۔ موسوی تعلیم  وحدانیت کی نسبت الہام کے طور  پر شروع  ہوتی ہے کہ وہ خدا جو تجھے مصر کی غلامی  سے نکال لایا میں ہوں  میرے سامنے تیرے  آگے  کوئی دوسرا  خدا نہ ہووے۔ پھر جیسا کہ نیچر میں انتظام مقّدم رکھا گیا ہے اُسی طرح حکومت ِفضل  میںنبوت بطور روشنی کے یہ ظاہر کرتی ہے کہ اُسکا انجام کیا ہوگا۔ نبوت کو تواریخ  نے ظاہر نہ  کیا بلکہ منجانب خدا نبوت نے ظہور  پکڑا اِس لئے نبوت کی تعمیل میں انجام کو مقدّم  رکھنا چاہئے  ہم پوچھتے میں کہ اگر  محمد آخر الزمان نبی کتب مقدسہ کا ہے تو سلسلہ نبوت کے تعلق جو کچھ بیان ہوا ہے کس بات کو محمد نے انجام تک پہنچا کر مکّمل  کیا ہے۔ اگر مسئلہ توحید کو تو محمد ساحب کے کئی صدی پہلے بائیین  اور اتھی نیین عقیدے  جنکی  بنیاد کتب مقدسہ پر تھی اُسی توحید  کی حقیقت  کو ثابت کر چُکے تھے۔ واضح رہے کہ خدا کی نظر میں  زمانہ ماضی و ھال و مستقبل ایک ہے لہذا جو کچھ ابتدائی نبوت کے تعلق یہودی تواریخ  میں ہوتا رہا اُسکو انجام تک پہنچا نیکے لئے وہ ابتدائی نبوت ایک بنیاد ہو جائیگی۔ اس لحاظ سے آخری  زمانیکی نبوت گزشتہ تواریخی واقعات  کو استعمال  کریگی چنانچہ  کتب مقدسہ  میں ہم ایسا ہی  دیکھتے ہیں مثلاً ایکسو دس زبور  پڑھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ  وہ کہانے کا  کام  جو پرُانے عہد نامے میں رائج تھا کس طرح ملک ِ صدق  کے طریق پر جو  ابراہیم  کو ظاہر  ہوا مسیح میں پورا ہوتا ہے اب ہر ایک صاحب  تمیز  اِس  بات کو دیکھتا ہے کہ موسوی شریعت میں کہانت  کا کام کیسا ایک  ضروری امر تھا۔  اگر محمد صاحب آخر الزمان نبی ہیں تو یہ کہانت  کا کام  اُن میں کیونکر  ہورا ہوتا ہے۔ اسیطرح ہر زمانیکی  تجربہ کاری  پیش  نمائیاں تھیں چنانچہ عہد جدید کے رسول یہودی قوم کی تواریخ کا اکثر  حوالہ دیتے  ہیں  اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہودیونکی  تواریخ  تیاری کا زمانہ تھا اور جس میں انجیل  شریف  کی صداقت  کے آثار و نشانات پائے  جاتے  ہیں۔ دیکھو رومیوں ۴ : ۱۷ؔ، مکاشفات ۴:1 ۔ ۶ؔ، ۱ قرنطس ۱۰: ۱۔۱۱ ۔ بلکہ مسیح  خداوند  خوُد پرانے عہد نامے کا حوالہ دیکر  اپنے تجربہ میں اُنہیں دکھاتا ہے دیکھو متی ۴: ۱۔ ۱۰۔ ، لوقا ۲۳ : ۴۶+

بیابان  میں مسکن کا معہ لوازمات عبادت قایم  ہونا اور جسمانی  کنعان اور بنیادی بادشاہت  اور تعمیر ہیکل زیتون کے پہاڑ پر اور رسوم قربانی  یہ سب  عورتیں نبوت کی تھیں رسوم قربانی  یہ سب صورتیں نبوت کی تھیں اور حقیقی و اصلی  باتونکی جو آنے والی تھیں تمثیل  تھیں۔ پرُانے عہد نامے کی کاروائی  نامکملّ  فی نفسہِ

تھی اور آیندہ حقیقتوں کیطرف اشارہ کرتی  تھی۔ مسیح  کے آنے پر وہ علامات حقیقتوں سے بدل گئیں مگر ٹل نہیں گئیں بلکہ صورت  نو پکڑ کر کامل ہو گئیں تاکہ خدا کی وہ تدبیر و انتظام  جو اُسنے  شروع سے جاری رکھے  مسیح عیسیٰ میں پورے ہوں ۔ پرُانے عہدنامے میں ظہور تدبیر خدا انسانی تواریخ  میں تین صورتوں پر ہوا۔ نبوت و کہانت و پادشاہت تینونکا  یہودیوں نے علامتہً مزہ چکھا لیکن وہ تینوں  کام اُس زمانہ کی تواریخ میں ادھورے تھے جنکو مسیح نے پورا کیا۔  اب یہ تینوں  صورت نبوت محمد صاحب میں ہم نہیں پاتے تو کیونکر وہ آخر الزمان  نبی پھر تسلیم کیا جاوے  اور یہی وجہ ہے نہ کہ حسد و  بغص کی وجہ کہ اہل  کتاب کے کسی فرقہ نے بھی محمد کو رسول نہیں مانا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح ہی میں پرُانے  عہد نامے کی نبوتونکی تشریح و تفصیل  ہو  سکتی ہے اور اُنکا اصلی نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے۔ القصہ پرانے عہد نامے کے آلہی ظہور باغ عدنسے لیکر اُنزمانے تک جبکہ فرشتے نے بابل کے یہودی اسیرونکو تسلیّ  و صالاح  دی مسیح کیطرف مسیح  منسوب ہوتے ہیں جوکُل کا پشتی بان ہو ہنوت گویا پرُانے عہد نامے  میں الوہیت ع عبودیت  جو مسیح میں پاتے ہیں عملاً نمونہ ہے۔ گو تثلیث کی تعلیم۔ وصاحت لفظوں میں نہ پرُانے عہد نامے میں اور نہ نئے عہد نامے  میں پاتے ہیں لیکن تثلیث  کے تعلق کُل کام  ہم دونوں کتابوں میں دیکھتے ہیں ۔ تعلیم مزہب بالترتیب و بالتفصیل  مذہب  کا بیان  کرنا ہے۔ اور یہ کام علم آلہی کا ہے۔ چنانچہ  موسوی اصول توحید تعلیم کے طور پر بیان نہیں ہوا مگر خدا اپنے کارناموں سے ظاہر کرتا ہے کہ  الوحیمو یھوداہ میں ہوں  ۔ چنانچہ نبوت و کہانت  و پادشاہت  مسیح  ہی میں تکمیل  کو پہنچتی ہیں۔  عہد اعمال تو پہلے ہی سے  ٹوٹ چُکا تھا اور اُسی وقت سے خدا نے انسان سے فضل  کا عہد  باندھا اور اُسی دن سے مسیح خداوند  نے کلیسیا کی خبر گیرے شروع کی۔ فضل کی حکومت میں وہ اپنے سارے عہد ونپر پہلے ہی سے مصروف و مشغول رہا ہے چنانچہ پیشینگوئی  کے وسیلے  خدا نے موسیٰ کی معرفت  فرمایا کہ میں  تجھ سا ایک نبی برپا کرونگا۔ اب موسیٰ بنی اسرائیل کا ہر باب  میں  پیشوا تھا۔ اسی واسطے پرانے عہد نامہ کی بنیاد اُسی موسیٰ پر رکھی  گئی۔ اب اُسکے کام سے ظاہر  ہو سکتاہے کہ اسکی  مثل آیندہ  مرسل نبی کو ن کوگا۔ مسیح نے شریعت  کو پارا  کیا اگر چہ موسیٰ کو دیگئی۔  اور من و سلوٰٰی  کو اپنی طرف عائد دکھایا یہ کہکر کہ میں زندگی کی روٹی ہوں ۔  اور دوبارہ رسم عبادت یوں فرمایا کہ وقت آپہنچا  کہ خدا  کی پرستش روح  و راستی کے ساتھ ہو۔ اور کہانت کی نسبت مسیح  خود  قربان ہوا اور  دوبارہ نبوت  جو مسیح  سے ظاہر ہوا وہ موسیٰ سے نہین ہوا۔ بیشک موسیٰ سے بڑھکر  کسی نبی پر اظہار خدا  نہیں ہو ا کیونکہ  اُسی کی معرفت خداوند  تعالیٰ نے شروع  بادشاہت کو بنی ادم  کے درمیان قایم کیا اور موسیٰ کی تعلیم اصول صداقت  پرمبنی  ہے مگر  اُسکی  تعلیم الف بے تھی  جس کومسیح  نے  یہاں تک پہنچا کر مکمّل کیا۔ موسیٰ عہد عتیق  کا میانجی تصور کیا گیا ہے اور خداوند  کی بادشاہت  کی تمام  زمہ داری  اُسی  کو تفویض کی گئی تھی اِس لئے ضروری تھا کہ وہ زیادہ تر  بالمواجہ خدا سے ہمکلام  ہو تاکہ کسی امر میں  سہود مغالطہ نہ ہو۔  باقی انبیا جو کچھ کرتے  رہے وہ موسیٰ کے  مقله رہے یعنے اُنکا کام  صرف یہی تھا  کہ فرایض  شرعیہ و حکومت کو  عوام پر جتاتے  رہیں اگرچہ موسیٰ کو یہ خاص  حق عطا ہوا تھا کہ خدا سے روبرو متکلم ہو۔  تاکہ اسرار خفیہ کو لوگوں پرفاش کرے مسیح کو اُس سے کہیں بڑھکر مرتبہ کاملیت حاصل ہوا  کیونکہ موسیٰ میں خدا بزریعہ  کتابی الہام  انسان سے متکلم ہوا  مگر مسیح  میں کلمہ خود مجسم ہوا۔ اسیطرح  موسیٰ تو خداوند کے گھر کا خاص  خادم تھا جس گھر کی  مدعا اِس بات کو ظاہر کر نیکی تھی کہ وہ شہادت معتبر ہ اُن  چیزونکی ہو جو آیندہ ظہور پکڑ ینگی۔  چنانچہ موسیٰ  کو خاص  حکم  تھا  کہ وہ اُس نمونہکے مطابق جو ہوُر کے پہاڑ پر اُسکودکھایا گیا مسکن اور اُسکے لوازمات  متعلقہ  کو تیار  کرے مگر  مسیح کو تو خطاب  بیٹے کا ملاتا کہ خداوند  کے گھر میں  بااختیار  ہو اور چونکہ اُسکی بنیاد بادشاہت خاصہ عمومیت رکھتی  تھی اِس لئے  اُسکی تعلیم رسومات اور خصوصیت سے مبریٰ  اور روحانی  کی بنیاد ڈالی  جو کہ تمام شریعت  نبوت کی خاص  مدعا تھی اور اسلئے  عالم  الغیب  نے اُسکی نسبت  پیشینگوئی موسیٰ  کی معرفت  کی کہ میں تجھ سا ایک  نبی برپا کرونگا۔

موسیٰ کی حکومت بنیادی تھی جو مسیح میں مکّمل  ہوئی۔ موسیٰ کی معرفت خدا  لوگوں  سے متکلم  ہوا مگر مسیح  کی معرفت  کلمہ خد ہمارے ساتھ ہوا۔ شروع میں خدا نبیونکی  معرفت  ( عبرانی ۱:۱، ۲) انسان سے متکلم  ہوتا رہا زمانیکی  بھر پوری  میں کلمہ خدا نے انسانی جامہ پہنا ۔ دونونکا  ظہور  روح  پاک کے زریعہ  سے ہوا۔ ایک کا تو مریم کے رحم  اطہر سے اور دوسرا سریکا انبیائے سلف سے۔ کلمہ خدا آسمان  سے ترول فرماکر ہمارے درمیان انسانی صورت  میں رہا۔ اُسیطرح موسوی الہام جو کتب مقدسہ  میں درج ہے آسمان  سے خدا کے مخصوص بندگان پر نازل ہوا۔ دونونکی سمجھ ہم تک بزریعہ  روحانی معرفت  و عرفان  پہنچی۔  دونوں میں فی الواقع  انسانیت والواہیت کا  توصل و سیل  ہوا۔  مسیح میں تو الوہیت مخصوص  و زاتی اور کتب مقدسہ میں متکلم ۔ کتب مقدسہ کے کلام میں تو اُسنے ہماری  رہنمائی کی اور نگاہ امید آیندہ چیزوں پر  لگا دی پر مسیح میں وہ عمانوئیل یعنے خدا ہمارے ساتھ ہوا اور نجات  کے کام کو پورا کیا۔ موسیٰ کی معرفت  لوگ خدا کی شاکنہ ( روشنی)  اور حضوری خیمہ میں پائے جاتے تھے اور  وہیں  پر اُسکی پر ستش ہو سکتی تھی مگر  اب ہر جگہ مومنین راستی و روح سے اُسکی  پر ستش کر سکتے  ہیں۔ ابتداءاً فرقہ کاہن و انبیاعلیحدہ تھے جو میان  عیدو معبود وسیلہ تھا مگر اب ہم مسیح عہدہ نبی و کاہن کا رکھتے ہیں اُسنے دیوار جدانی کو بالکل منہدم کر دیا اور خدا سے ہمار میل کرایا اب ہم  خود اپنی  نزریں  و قربانیاں خدا کے حضور میں پیش کر سکتے ہیں۔ مولوی محمد فیروزالدین  صاحب نے تعلق بیان کیا  ہے اُس میں نبوت کا انجام مقدّم ہے اور ایسا انجام  جو ابتدائی ارادۂ الہی کو مکمل کرتا ہے محمد مچیل موسیٰ ہیں تو نہ صرف  مماثلت  شریعت  میں ہی دکھلانی ہے بلکہ تمام ارکان  مماثلت ثابت کرنی ہے جس  سےیہ ثابت ہو جاوے کہ اُنہوں  نے شریعت موسیٰ کو مکمل کیا ہے اور نبوت و کہانت و پادشاہت کے درجونکو جو پرُانے  عہد نامے کی تدابیر الہی ہیں اپنی  زات  سے پورا کیا  ہے۔ یہ بات نہ مولوی  صاحب  دکھائی ہے اور نہ دکھا سکیں گے۔