Luxor, Egypt

 

تالمود اور قرآن

حضرت موسیٰ کے متعلق


Talmud and Qur’an

The Story of Moses

Published in Nur-i-Afshan May 29, 1896

محمد قرآن میں موسیٰ کا طول طویل حال لکھا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ کو اپنا نظیر جانتا تھا۔ گویا وہ یہ دعویٰ کرتا تھا کہ جسطرح موسیٰ کی معرفت بنی اِسرائیل کو شریعت دیگئی ویسے ہی اہل عرب کو شریعت دینے کے لئے میں بھیجا گیا ہوں۔ پس موسیٰ کا حال مفُصل طور پر بیان کیا تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ چنانچہ موسیٰ کی زندگی کے سارے بڑے بڑے واقعات مندرجہ توریت نیز یہودیوں کی حدیث سے بھی بہت کچھ نقل کر لیا۔ ہمارے دیگر مضامین کے براہیں قاطع و دلائل ِ ساطع سے یہ معاملہ بخوبی پایہ ثبوت کو پہنچ چُکا ہے کہ قرُآن فی الحقیقت کوئی اصل نہیںرکھتا ہے+ خیر گزشتہ مضامین تو درکنار رہے اگر ہم صرف مفصلہ زیل موسیٰ کے بیان کوہی نظر غور سے دیکھیں جیسا کہ قرآن میں پایا جاتا ہے توہمارے دعویٰ کے ثبوت کے لئے فقط یہی کافی ہو گا کہ فی الحقیقت پاک کلام کی باتوں کے علاوہ محض یہودیوں کی کہانیوں سے بھرا ہوا ہے ۔

(۱) قار ون یعنے کورا جس کو زمین نے نگل لیا اور ہامان فرعون کے مشیر بتلائے جاتے ہیں سورہ عنکوبت سورہ۳۸ مومن ۲۵ ۔ اس میں دو باتیں غور طلب ہیں اِ ول یہ کہ یہودی حدیث قاردن کو فرعون کا خزانچی ظاہرکرتی ہے مدراش متعلق کتاب گنتی پارہ ۱۴ یہاں مھمد کا نقل کرنا صاف ظاہر ہے۔ دوم ہامان ھقیقت میں فارس کے بادشاہ کا وزیر تھا جس کا زکر آستر ی کتاب میں پایا جاتا ہے اور وہ زمانہ موسیٰ کے آٹھ نو سو برس بعد ہو ا تھا ۔ یہ محمد صاحب کی تاریخ دانی کی لیاقت موٹے حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔

(۲) سورة القصص : ۵ معلوم ہوتا ہے کہ فرعون پہلے اسبات سے آگاہ کیا گیا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا شخص پیدا ہو گا جو مصر کی رونق کو برباد کریگا اور فرعون کے یہودیوں پر ظلم کرنیکا بھی یہی سبب تھا یہ بات بھی یہودیوں سے لی ہے۔ پھر کہ ۲۸: مصنفہ ربی علی ازل میں لکھا ہے کہ جادوگروں نے فرعون سے کہا کہ ایک لڑکا پیدا ہو گا جو کہ بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لے جائیگا ۔ تب اُسنے یہ تدبیر نکالی کہ بنی اسرائیل کی تمام نرینہ اولاد دریامیں ڈالو ا دیجاوے تاکہ وہ لڑکا مذکور لقمہ نہنگ اجل ہو جاوے۔ 

(۳) سورہ القصص :۱۱ خدا نے موسیِٰ کی ماں کو اُسکی بہن نے نہیں بُلایا۔ یہ معاملہ یہودیوں کی کتاب مسمی سوتا ۲۱: ۲ سے نقل کیا ہے۔ یہا ں مصنف کتاب خروج کی ۱۲: ۷ آیت کی تفسیر میں کہتا ہے کہ موسیٰ پہلے مصر کی عورتوں میں رکھا گیا لیکن دُدوھ پینے سے اِنکار کیا ۔

(۴) توریت کے بیان کے مطابق فقط بیابان میں موسیٰ کا ہاتھ میروص کے ہاتھ کی مانند ہو گیا لیکن قرآن کہتاہے کہ یہ معجزہ فرعون کے آگے ہوا سورہ اعراف ۱۰۸ بادی النظر میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اختلاف کیونکر ہوا لیکن جب دیکحا جاتا ہے کہ پحر کے ۴۸ : ربی علی ازل میں اسیطرح لکھا ہے تو فوراً واضح ہو جاتا ہے کہ محمد نے حسب دستور یہ بات یہودیونکی حدیثوں سے نکالی ہے۔

(۵) سورہ یونس۲۳میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ پر صرف اُسی کے فرقہ یعنی فرقہ لاوی کے لوگ ہی ایمان لائے روشن ہے کہ یہ مضمون مڈراش ربا پارہ ۵ سے لیا ہے جہاں کہ لکھا ہوا ہے کہ فرقہ لاوی سخت محنت سے آزاد کیا گیا۔

(۶) قرآن فرعون کو جادوگرونکا پیشوا قرار دیتا ہے۔ سورہ شورے ۴۸ یہ بات بحی یہودیوں سے اُڑائی ہے کیونکہ مڈراش جلکوت ۱۸۲ میں لکھا ہے کہ فرعون جو موسیٰ کے زمانہ میں تھا بڑا جادو گر تھا۔

(۷) سورہ القصص ۳۵ سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا۔ یہ بھی یہودیوں ہی سے اُڑایا۔ ربا متعلق کتاب خروج پارہ میں لکھا ہے کہ فرعون کہا کرتا تھا کہ میں دُنیا کا خداوند ہوں اور میں نے ہی دریائے نیل کو بنایا اور اپنے آپ کو بھی۔

(۸) سورہ یونس ۹۰ آیت میں فرعون یہودیوں کے پیچھے پیچھے تعاقب کرتا جاتا تھا۔ لیکن جس وقت دریائےقلزم میں ڈوبنے کے قریب تھا وہ مسلم ہو گیا۔ یہاں فقط یہودی کہانی کودُہرایا ہے پھر کے ربی علی ازل ۴۸: اور مڈراش جلکوت ۲۳۸ دونوں میں اسطور پر درج ہے کہ توبہ کے بڑے نتیجہ پر وگر کرو۔ فرعون مصر کے بادشاہ نے کفر بکا کہ کون خدا ہے جس کی میں فرمانبرداری کروں تاہم جس وقت اُس یہ کہتے ہوئے توبہ کی کہ خداوں میں سے کون تیری مانند ہے تب خُدا نے اُسے موت سے بچایا۔

(۹) کتاب خروج ۱۵: ۲۷ میں لکحا ہے کہ ایلم میں بارہ کنوئے تھے۔ یہودی مفسرین کتاب راشے متعلق کتاب خروج کہتے ہیں کہ ہر ایک فرقہ کا ایک ایک کنواں تھا خروج میں یہ لکھا ہوا ہے کہ رفیع دین میں موسیٰ نے بزریعہ عصا کے چٹان سے پانی نکالا۔ محمدان دونوں باتوں کو ملا کر اپنے غلط طریقےسے بیان کرتا ہے کہ موسیٰ نے اپنا عصا لگا کر ہر ایک فرقہ کے واسطے الگ الگ ایک ایک معنی بارہ چشمہ نکالے دیکھو سورہ البقر ۵۹۔

یہ بھی قابل غور ہے کہ رسول تھوما کی کتاب نماز میں بھی یہ مضمون موجود ہے۔ ممکن ہے کہ محمد نےا س کو بھی وہاں سے لیا ہو کیونکہ محمد کے وقت سے پہلے یہ کتاب موجود تھی۔ 

(۱۰) ایک یہودی کہانی ہے دیکھو عبودسراہ ۲:۲ کہ خدا نے بنی اسرائیل کو کوہ سینا سے ڈھک لیا سورہ اِلنسا ۱۰۳ میں یہی بات لکھی ہو ئی ہے اور سورة الاعراف ۱۷۲ میں زیادہ بڑحا کر یوُں لکھدیا ہے وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّوا أَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ترجمہ۔ انہیں وہ وقت بھی کچھ یاد ہے جبکہ ہم نے پہاڑ کو ہلا کر ان پر اس طرح چھا دیا تھا کہ گویا وہ چھتری ہے اور یہ گمان کر رہے تھے کہ وہ ان پر آ پڑے گا اور اُس وقت ہم نے ان سے کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامو اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو، توقع ہے کہ تم غلط روی سے بچے رہو گےاِس میں کچھ شک نہیں کہ یہ وہی کہانی ہے۔

(۱۱) سورہ البقر ۵۴، ۵۵ میں لکھا ہے کہ بنی اِسرائیل نے کہا کہ اے موسیٰ ! ہم تجھے نہیں مانینگے جبتک کہ ہم خدا کو ظاہرا نہ دیکھیں تب خدا نے اُنکو مارا اور پھر زندہ کیا یہ بھی عیودؔاسراہ ۲:۲ سے لیا گیا ہے جہاں کہ لکھا ہے کہ جب بنی اِسرائیل نے زبردستی سے خُدا سے مانگا کہ وہ خداتعالیٰ اور اُسکے جلال کو دیکھیں اور اُسکی آواز کو سُنیں تو دونوں درخواستیں مقبول ہوئیں لیکن وہ اِن ہزوعطیات کے اور کھڑے رہنے کے ناقابل ثابت ہوئے یعنی جب خُدا اُنسے بولنے لگا تو اُنکی جان جسم سے نکل گئی لیکن تہوراؔ نے اُنکے واسطے سفارش کی اور پھر اُنکی جان واپس مل گئی۔

(۱۲) سنہرے بچھڑے کے بیان میں قرآن یہودیونکے بیانات کو ہی نقل کرتا ہے۔سن ہیڈن ۵ ۔ اؤل بیان کرتا ہے کہ ہارون نے صرف لوگونکی زبردستی کے سبب سے سنُہرے بچھڑے کو بنایا اُسکی آنکھوں کے سامنے چھوروؔ لوگوں کو منع کرتا تھا قتل کیا گیا اور ہارون نے خیال کیا کہ اگر میں اُنکے کہنے کو نہ مانوں تو میں بھی چھوڑؔ کی طرح مارا جاؤنگا۔ سورہ اعراف ۱۵۰ میں ہارون موسیٰ کے روبرو یہ عذر پیش کرتا ہے کہ لوگ میرے مارنے کو تیار تھے اور اسلئے میں نے بچھڑا بنایا۔ دوم قرآن سورہ اعراف ۱۴۷ میں لکھا ہے کہ جسوقت بچھڑا بنایا گیا وہ توریت میں مطلق اسکا زکر نہیں ہے لیکن پھر کے بی علی ازل ۱۵۹ میں یہی بات لکھی ہے۔ بچھڑیکی بابت چند اور باتیں یہودی کہانیوں میں جو قرآن میں نقل کی گئی ہیں لیکر ہم اِس بات کو اسیقدر کافی سمجھتے ہیں ۔

(۱۳) سورہ القصص میں قارون کی بڑی اور عجیب و غریب دولت کا زکر پایا جاتا ہے لکھا ہے کہ اُسکی چابیاں چند آدمیوں کا بوجھ تھیں توریت میں اِسکا زکر نہیں لیکن پھر کے علی ازل ۴۵ میں لکھا ہےکہ اُسکی کنجیاں تین سو خچرونکا بوجھ تھیں اِسمیں محمد کی تعریف یہانتک ہو سکتی ہے کہ اُسنے پرلے درجے کی جھوٹی کہانی کو زرا کم کر دیا۔

(۱۴) سورہ احزاب ۶۹ میں بیان ہے کہ خدا نے موسیٰ کو ایک الزام سے بری کر دیا اسکا زکر توریت میں معلوم نہیں ہوتا کہ کونسا الزام ہے لیکن یہودیونکی حدیث میں اسکا چند طرحکا زکر ہے بعض کہتے ہیں کہ فارون نے الزام لگایا کہ موسیٰ نے اُسے دوسرے آدمی کی جو روکو لیلیا کے پھر رباعلی ازل ۱۴۵  ابو علی بھی قرآنکی اِس تفسیر میں قریب قریب یہی بیان کرتا ہے۔ اور یہودیونکی دوسری روایت یہ ہے کہ موسیٰ نے ہارون کو قتل کیا تفسیر کتاب گنتی ۲۰: ۲۹ ا ور ۷۵ خیر یہ ہر طرح ثابت ہے کہ جس الزام کا تزکرہ قرآن میں آیا ہے یہ یہودیوں سے کیا ہے۔