Jerusalem

 

طالمود اور قرآن

یوسف کے متعلق


Talmud and Qur’an

The Story of Joseph

Published in Nur-i-Afshan May 29, 1896


قرآن اور توریت کے بیانات میں یوسف کے متعلق اکثرفرق اِس سبب سے نظر آتے ہیں محمد نے یہودیوں کی کہانیوں سےبہت کچھ نقل کیا ہے ذیل میں ہم اُن خاص باتوں کو درج کرتے ہیں۔ جو کہ محمد نے بعینہ یہودیوں کی احادیث سے نقل کی ہیں ہمکو یقین ہے کہ اُن کو دیکھنے سے ناظرین بخوبی پہچان لینگے کہ محمد کہاں نقل کرتا تھا (۱ ) سورہ یوسف میں لکھا ہے کہ اگر یوسف اپنے خاندان کا خاص نشان نہ دیکھتا تو گناہ کرتا ولَقَد ھَمّتَ بہ وَھَمّهِ بھاَ لولا اَنَّ ابرُ ھان رَبهّ الخ ذیل کی کہانی سے ثابتہوتا ہے کہ یہ نقل کی ہوئی بات ہے۔ کہانی یوں ہے منقول از ربّی جو چانہ دونوں نے گناہ کرنے کا ارادہ کیا۔ زلیخا نے یوسف کے کپڑے کو پکڑ کر کہا میرے ساتھ ہمبستر ہو۔ یوسف کوکھٹرکی کے قریب باپ یہ کہتے دکھائی دیا کہ یوسف یوسف !!! تیرے بھائیوں کے نام افود کے پتھروں پر کندہ کئے جائینگے نیز تیرا نام بھی کیا تو چاہتا ہے کہ وہ مٹ جاوے۔ دیکھو سوتا۳۶: ۲۔

ایک محمدی مفسر اسی آیت کی تفسیر میں اِسی کہانی کا زکر کرتا ہے۔ ( ۲) سورہ یوسف ۳۰۔ ۳۲ مشہور بیان ہے کہ زلیخا نے مصر کی عورتوں کو ضیافت میں بُلایا اور سب کو ایک ایک چھری دی پھر یوسف کو بُلایا اور جب اُنہوں نے یوسف کو دیکھا متحیرحسن ہو کر اپنے ہاتھ کو کاٹنے لگیں۔ یہ کہانی ایک بہت پرانی کتاب بنا، جلکوت مڈراش ۱۴۰ سے بعینہ کی گئی ہے۔ (۳) سورہ یوسف ۲۶۔ ۲۹ لکھا ہے کہ یوسف کا کپڑا پھاڑا گیا۔ چونکہ پیچھے کی طرف سے چھٹا مجرم نہ گروانا گیا۔ یہ کہانی حرف بحرف اسی کتاب یعنی جلکوت مڈراش سے نقل کی ہے۔ دیگر بیانات ہم اسوقت نہیں لکھتے ہیں لیکن اِتنے ہی سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کہاں تک پرُانی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ ہم اِس مضمون سے ایک دو نتیجے استخراج کرتے ہیں۔ 

اوّل۔ ہمارے حق و باطل کے مضمون پر جو اِس ہفتہ درج ہوا ہے ۔ ناظرین کی توجہ اسبات پر دلاتے ہیں کہ خود قرآن ہی میں آیتونکا با ہم اختلاف موجود ہے یعنے ایک دفعہ زلیخا یوسف کو مجرم ٹھہراتی ہے اور دوسری دفعہ یوسف کو عورتوں میں بلا کر زبان ِ حال سے اپنا جرم عشق ظاہر کرتی ہے۔ 

دوم۔ قرآن سورہ یوسف میں یوسف پر ناحق الزام لگانا ہے۔ جبکہ کہتا ہے کہ اُسپر شوق غالب ہوا مگر نشان دیکھکر بازآیا ۔ سچ تویہ ہے کہ خود محمد اور محمدیوں کے لئے جو کہ نہ صرف دنیا میں بلکہ بہشت میں بھی کثرت شہوت رانی کو جائز سمجھتے ہیں۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ بغیر خاص معجزہ کے یوسف کسطرح قایم رہ سکتا تھا۔ ہم بھی اسبات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بغیر خدا کے فضل کے انسان ایسے مؤقعہ پر ضابطہ نہیں رہ سکتا تو بھی ہماری یہ شکایت ہے کہ یوسف کی اخلاقی کمزوری کو مبالغہ کے ساتھ بیان کیا ہے۔ البتہ اِس مبالغہ کا یہ تو برخستہ عذر ہو سکتاہے کہ یہ تمام باتیں بے کم دست کا یہودیونکی ۔