مسیحی مذہب کی بابت  ایک عالم  کے خیالات

جمیل سنگھ

(۱۸۴۳–۱۹۲7)

A Scholar’s view of Christianity

Published in Nur-i-Afshan August 20, 1885
By Jameel Singh
(1843–1927)

بزرگ میتھو ہنری صاحب  فرماتے ہیں کہ بڑے بڑے  عُلما  متقد میں نے مثلاً  شنللنگ فلیٹ۔ ڈاکٹر  و شببے ۔ اور مسٹر وشتن  صاحبان  نے اپنی تصنیفات  میں مسیحی  مذہب کی صداقت کے بارے میں قوی دلیلیں  پیش کی ہیں۔  اور پھر فرماتے ہیں کہ اگر میرے خیالات کسی کو فائدہ  پہنچا سکیں  تو میں  تہہ دلی  سے کہتا ہو ں کہ میں نے اس مذہب  کے  باب مین اپنے خیالوں کو حتی المقدور  جہاں تک میری رسائی ہوئی دوڑایا ہے اور اسکا یہہ نتیجہ ہوا کہ جہاں تک میں نے اُسکو سوچا مجھے اس  إزہب کی پختہ  صداقت معلوم ہونے لگی۔  اور مندرجہ  زیل خیالات  میرے  دلمیں اپسکی بابت ہوئے۔

پہلا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ خدا جسنے اپنی قدرت کاملہ سے انسان  کو ایک  سوچ فکر اور عقل والا مخلوق بنایا ہے وہ اپنا حق  انسان پر رکھتا ہے کہ انسان اُسکے احکاموں  کو بجا لاوے۔ اور اپنی خواہشوں اور روشوں  اور کلام  و گفتار میں اپنی عقل اور تمیز کی عالی طاقت  کے تابع  رہے۔ اور جب میں اپنے دلکی  بابت خیال کرتا ہوں مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہہ عجیب بناوٹ  خاص خالق  کی سکونت گاہ بنائی گئی تھی۔  جسمیں سرف اُسی کی فرمانبرداری  ہونی چاہئے تھی۔

دوسرا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ خدا کی مہربانی پر میری خوشی اور شادمانی منحصر ہے اُسی اندازے  پر جسمین کہ میں اُسکے حکموں پر عمل کروں جو اُسکی طرف سے مجھپر  فرض ہیں۔ اور مین اپنکا جواب دہ ہوں نہ صرف اس دنیا میں بلکہ دنیا آیندہ میں بھی۔

تیسرا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ میری خاصیت  اُس آدم  سے بہت مختلف  ہے جو پہلے خالق  کے ہاتھ سے بنا تھا کیونکہ اِس سے اصلی صداقت اور پاکیزگی جاتی رہی مجھ میں ایک ایسی  خاصیت  ہے جو مجھکو میرے فرائیض  سے روگرداں  کرتی ہے اور روحانی  اور آسمانی  باتوں سے بر گشتہ  کرتی  ہے۔ اور بدی کا میلان دلاتی ہے۔ اور دنیا اور جسمانی باتوں  کی طرف ایسا رجوع کرتی ہے کہ بعض وقت قریب  ہوتا ہے کہ میں زندہ خدا سے پھر جاؤں ۔

چوتھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ اس  گناہ کی خاصیت کے سبب میں خدا کی مہر بانی سے گر گیا ہوں اور اگرچہ میں خیال کرتا ہوں کہ خدا رحیم  اور مہربان ہے پر یہہ خیال بھی میرے دل میں آتا ہے کہ  وہ منصف اور عادل بھی ہے اور گنہگار ہونیکے باعث  میں اُسکی پاک درگاہ میں جانیکے ناقابل ہو گیا ہوں  اور اُسکے  جلال کے بالکل  ناقابل بن گیا ہوں۔

پانچواں ۔ اور میں خیال کرتا ہوں  کہ  خدا کی مرضی کے خاص اظہار کے بغیر میں اُسکی مہربانی کو پھر حاصل نہیں کر سکتا اور  نہ میں پہلی حالت میں بحالی ہو کر خدا کے ساتھ ملاپ کر سکتا ہون اور نہ اپنے خالق  کی خدمت  کے لائق ٹھہر سکتا ہوں اور نہ میں اپنے پیدا ہونے کی غرض  کو پورا کر سکتا اور نہ آئندہ دنیا کے لائق ہو سکتا ہوں ۔

چھٹا۔ مین خیال کرتا ہوں کہ گناہ اور اُسکی سزا سے  بچنے اور نجات پانے کا عمدہ طریقہ یسوع مسیح سے ظاہر ہوا جو اُسکے خدا اور آدمیونکے درمیان  درمیانی ہونیکے سبب سے نئے  و سیقے مین مندرج ہے۔ اور میرا یقین ہے کہ یہہ طریقہ میری تمام بُرائیاں اور کمتیاں پوری کرنیکے قابل ہے کہ مجکو خدا کی مہر بانی میں پھر بحال  کرے اور ابدی خوشی کا مستحق بنادوے  کیونکہ مجھکو اسمیں گناہ کے دور کرنیکا عمدہ وسیلہ معلوم ہوتا ہے کہ میں شروع کے فتویٰ سے موت میں نہ  پڑوں،جو خدا کے بیٹے کی بڑے اور کمال درجے کی راستبازی سے مقرر ہو اور یہہ گناہ کی طاقت  کو توڑنیکا عمدہ وسیلہ  ہے (کہ میں گناہ  کی بیماری  میں ہلاک نہ ہوں) جو روح القدس کے زور موثر سے جاری ہوا۔ اسمیں ہر ایک گناہ کاچارہ ہو گیا ہر ایک رنج وغم خوشی سے مبدّل  ہو گیا اور اِس صورت سے ہوا جسمیں خالق کی بڑی دانائی اور تجّلی ظاہر ہوئی اور جو انسان جیسے مخلوق  کے لئے زیبا ہے۔

ساتواں۔ میں خیال کرتا  ہوں  کہ مسیحی مذہب (نیجرل  رلیجس) مذہب  طبعی کے خلاف نہیں  ہے بلکہ  پچھلا پہلےکی پختگی ظاہر کرتا ہے۔ کیونکہ تمام صداقتیں  جو نیچر  میں مجھکو ملتی ہیں  انجیل سے زیادہ واضح  طور پر ظاہر ہوتی ہیں۔  اور اِس چیز کا جسکا  نیچر  مجھکو  دھندھلا سا پتا دیتی ہے انجیل مقدس  اُسکا  پورا پتا لگاتی ہے تمام نیک کام جو فرض ہیں اور لازآف  نیچر سے مجھے  ملتے ہیں انجیل  میں عمدہ طور پر زیادہ سریح  کر کے موجود  اور انکا ماننا مجھے نہایت ضرور  معلوم ہوتا ہے۔ یہہ مجھکو  میرے فرضوں  میں مشغول ہونیکا  عمدہ  طریقہ  بناتی ہے اور  اُنمیں  مجھے زیادہ دلیری اور مدد دیتی ہے۔ اور  اول امور میں  جنمیں نیچر مجھکو بلکل ادھر میں چھوڑ دیتی ہے اور ساقط ہو جاتی ہے انجیل مجھکو آگے پوری منزل تک پہنچا کے میری  پوری تسلیّ کرتی ہے۔ خاص کر خدا  کا گناہ کے بارے مین انصاف سے راضی ہونا اور انصاف کا پورا  ہونا۔ میرا ضمیر مجھ سے سوال کرتا ہے کہ میں کسطرح خدا کے حضور  پہنچوں اور کسطرح اُس عالی شان خدا کو خوش  کروں۔ کیا وہ ہزارہا  مینڈھوں کی قربان سے خوش  ہو گا۔ لیکن میرے ضمیر  کو اُسکا  پورا جواب نہین ملتا۔ پر اس موقعہ پر انجیل مقّدس  نے مجھے پوری تسلیّ  دی کہ یسوع  مسیح  نے اپنے آپ کو قربان ہونیکے لئے گزران دیا ہے اور خدا نے بھی  اظہار کیا ہے کہ میں خوش ہوں۔

آٹھواں۔  میں خیال کرتا ہوں  کہ وہ ثبوت  جو خدا  نے انجیل کی سچائی  کے ثابت  کرنے کے لئے رکھے ہیں بہت ٹھیک ہیں  جو اسکا ثبوت بدرجہ  ادلیٰ  کرتے ہیں۔ مثلاً کہ شفیع  کی طاقت  اور آفت فضل کی بادشاہت  میں دنیا میں  اسطرح  ظاہر ہوئی کہ نیچر کی حکومت کے موافق اُسکی حکومت ہوئی نہ کہ دنیا کے عالیشان اور بڑے بڑے بادشاہوں کے  دبدبے اور شان شوکت  کے ساتھ  ہے جیسا  کہ یہودیوں نے خیال کیا تھا اور  یسوع مسیح سے ٹھوکر کھائی۔ لیکن  اُسکی بادشاہت آسمانی  اور راحانی تھی۔ اور اسطرحپر اُسکے معجزے جو آدمیوں پر ظاہر ہوئے  جب یسوع مسیح  دنیا پر نہ صرف  لوگوں کے جسمانی مرضوں کے رفع کرنے میں تھے بلکہ اُنکے دلسے تعلق تھے جیسے اُنکے دلوں پر اثر ہوتا تھا جو روح القدس کی تاثیر سے ہوا۔ آگ کی زبانوں کے بخشے  جانے اور اَور روحانی نعمتوں کے بخشنے مین یہہ انجیل کے لئے بڑے ثبوت ہیں  جنسے  بڑی غرض انسان پاک اور صاف بنانا مدنظر تھا۔

نوواں ۔ میں اُس طریقہ کو خیال کرتا ہون جسمیں انجیل عجیب طور پر پھیل  گئی اور اُس عجیب کامیابی کا خیال  کرتا  ہون جو بالکل روحانی  اور آسمانی ہے۔ اور دنیاوی فائدے اور مدد سے بالکل  بے پہرہ ہے۔  اس سے صرف  ظاہر ہوتا ہے کہ یہہ خدا کی طرف سے ہے۔ اور خدا اور حقیقت  اسکے ساتھ ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو اتنی مخالفت  میں کسطرح ہو سکتا تھا کہ یہہ مذہب اسطرح  پر پھیل  جاتا۔ اور آج تک اسکا دنیا میں بے جنمبش  چلا آتا باوجودے اتنی بڑی روکاوٹوں کے میرے خیال میں ایک  ظاہر ا اور کافی  ثبوت ہے۔ اور آخر کار میرا یہہ  خیال  ہے کہ  مسیح  کی انجیل کی میرے دلپر ایسی تاثیر ہوئی ہے اور مجھ  پر ایسا غلبہ ہوا اور مجھکو اس  سے ایسی تسلّی ہوئی ہے کہ یہہ میرے لئے ایک پوری دلیل  ہے کہ یہہ سچا  طریقہ  ہے چاہے کسی دوسرے کے واسطے نہ ہو۔ میں نے اسمیں اسباتکا ثبوت  پایا ہے کہ خدا رحیم ہے۔ اور جسطرح کو ئی  بڑا ہوشیار فریب دہندہ  اُس شخص کو جس نے ایک دفعہ  شہد چکھا ہو یقین نہین دلا سکتا کہ چہد میٹھا نہیں  اسیطرح مجھے جس نے مسیحی  مذہب کا مزہ چکھا ہے کسیطرح یقین نہیں کروا سکتا  کہ مسیحی مذہب  سچا  نہیں۔

مندرجہ  بالا بیان سے جو بڑے زور کے ساتھ ایک عالم سے تحریر ہو اہم صرف  دو باتیں  نکال  سکتے ہیں۔ اول کہ اُس نے مسیحی  مذہب کی تحقیق  صدق دلی سے کر کے اُسکو راست پایا اور قبول کیا۔

دویم کہ اُسکی تاثیر اُسکے  دلپر ہوئی جسکا جوش  اُسکے  دلمیں پایا جاتا ہے۔

کاش کہ مخالف  مذہب عیسوی زرہ غور سے پڑھکر  ان باتونپر سوچیں  اور اپنے مذہب کو اس سچے  مذہب  کے ساتھ  مقابلہ کریں تب امید  ہے کہ اگر صدق دلسے یہہ کام انجام پاوے گا تو یہہ نتیجہ ہو گا کہ معترض اس حق مذہب کو اختیار کریگا۔ اور نجات پاویگا۔

راقم ۔ بندہ جمیل سنگھ