قران کی تعلیم پر اعتراض

Objections to Quranic Teaching

Published in Nur-i-Afshan July 1875
By Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

Qur'an with prayer beads

اول قرآن میں صاف صاف طریقہ نجات پانے کا نہیں ہے۔  سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ دین سے مقصود ہے کہا اُس سے نجات حاصل ہو  اور وہ کتاب جو  خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے نازل ہوئی   ضرور ہے کہ وہ ہمارے لیے چراغ ہو یعنی ہمیشہ یعنی ہمیشہ کی زندگی   پانے کی صاف ہدایت ہمکو کرے ۔ جو شخص انجیل  کو غور سے سے پڑھیگا اُسکو  بیشک و شبہ معلوم ہوجاویگا کہ یہ بار بار نجات پانے کی ہدایت کرتی  ہے جیسا یسعیاہ نبی نے پیشین گوئی کی راہ سے فرمایا  ہے کہ شاہ راہ ہوگا ۔ جس سے ایسے ایسے مسافر جو بالکل ناواقف ہونگے  باآرام منزل مقصود تک پہنچ جاوینگے ۔ لیکن قرآن  میں کئی ایک  طریقے نجات کے لکھے ہیں جو ایک دوسرے سے نہیں ملتا ۔  دیکھو  سورۃ   البقرا   کی اکسٹھ آیت ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ہے کہ جو لوگ مسلمان ہوئے اور جو لوگ یہودی  ہوئے  اور نصار یٰ  اور صائیین جو کوئی یقین لایا المد پر اور پچھلے دن پر اور کام  کیانیک تو اُنکو ہی اپنی مزدوری اپنے رب کے پاس  اور نہ اُنکو ڈر ہے اور نہ وہ غم کھاویں ۔  سورۃ الما ئیدہ کی تہترویں  آیت ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَىٰ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ یعنے البتہ جو  مسلمان ہیں اور جو یہود ہیں اورصائیین اور نصاریٰ جو کوئی ایمان لاؤے  المد  پر اور پچھلے  دن پر اور  عمل   کیا    نیک نہ اُن پر  ڈر  ہے نہ  وہ  غم  کھاؤیں ۔ اِن آیتوں سے دریافت  ہوتا ہے کہ نجات  کے لیے  تین امر  ضروری ہیں ۔ اول خدا  پر ایمان لانا ۔ دوم پچھلے  دن پر ایمان  لانا ۔  سیوم  نیکی  کرنا اور بس اِس سے زیادہ نہیں ہے۔ پھر جو  سورۃ عمران کی چوراسویں  آیت  میں لکھا ہے وہ اِن سب  کے برخلاف  ہے کہ وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ۔ یعنی  اور جو  کوئی  چائے  سوا  اسلام کے حکم  برداری اور دین کے سوا ُس سے ہرگز قبول نہ ہوگا  اور وہ آخرت  میں خراب ہے فقط  ۔ یعنے  جو کوئی دین اسلام   نہ مانے تو ہر چند خدا  اور  پچھلے  دن پر یقین اور نیک کام کرے  لیکن اُس کو نجات نہ ملے گی۔ پھر دیکھئے  سورۃ المائیدہ کی  تینتالیسو یں آیت میں لکھا ہے کہ فَمَن تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ یعنے پھر جس نے توبہ کی اپنی  تقصیر  کے پیچھے  اور سنوار پکری  تو اﷲاُسکو  معاف کرتا ہے ۔ اِن آیتوں میں نجات کے لیے تین امر ہیں  جو آپس میں  مختلف ہیں۔  پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی وغیرہ  بھی جو نیکی کریگا  نجات پاویگا اور  دوسری سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف محمدی   جو نیکی کرئینگے  بچینگے  اور تیسرے سے یہ کہ جنھوں نے نیکی نہیں کی وہ توبہ کرنے سے بچینگے اگر کوئی  شخص کسی محمدی سے پوچھے کہ حقیقی توبہ کیا ہے تو وہ ضرور  یہ  کہیگا کہ گناہ  کا پھر   نکرنا۔  میں کہتا ہوں کہ   اگر  توبہ کے معنے یہ ہیں  تو  کوئی اس   سے نجات  حاصل نہیں کریگا۔ کیونکہ ایسی توبہ کرنی محال ہے۔  اور اگر محمدیوں سے سوال کیا جاوئے  کہ نجات کے حا صل کرنے کے لیے  نیکی کس  قدر  چائیے تو جواب دیتے ہیں کہ پوری نیکی  یا جس قدر ہوسکے ۔  میں کہتا ہوں کہ پوری نیکی نہیں    کر سکتا ہے   پھر کس طرح   اِس  سے نجات حاصل ہو سکتا  ہے۔ محمد ی     اکثر  یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے گناہ کی سزا  تو  پائیگا  لیکن کچھ عرصہ  سزاپا کے پیچھے بہشت میں ضرور داخل ہوگا۔ پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک ایک گناہ کے لیے ہزار ہا  برس تکلیف اٹھانی پڑیگی لیکن جب ہمارے بیشمار گناہ  ہیں  تو بتاؤ کہ ہمکو کس قدر سزا  اُٹھانی پڑیگی  اور جب تم ایک لمحہ اپنی اُنگلی کو آگ میں    نہیں رکھ سکتے تو کس طرح ہزار ہا برس دوذخ  کا عذاب  برداشت کروگے۔ اور پھر یہ بھی یاد  کرنا چاہیے  کہ گناہ    خاص کر کے دل میں ہوتا ہے جیسے  بیصبرؔی  لالچؔ دشمنیؔ مغروریؔ  وغیرہ اور  ایسے گناہ دوذخ میں ہوسکتے ہیں تو اُنکے لیے بھی سزا چاہیے ۔ پس ثابت ہوا جو دوذخ میں جاوئے گا  ہمیشہ وہاں رہیگا۔

اکثر لوگ  سمجھتے ہیں جس طرح آگ سونے کو صاف کرتی ہے اُسطیرح سزا آدمی کو گناہ سے صاف کرتی ہے۔  مگر یہ بھاری غلطی ہے ۔ ہمنے کئی دفعہ دیکھا ہے کہ جس قدر سزا ہوتی ہے اُسقدر بیصبریؔ دشمنیؔ سختیؔ زیادہ ہوتی ہے اور جب ایک گناہ کے واسطے ہزار ہابرس  کی سزا مقرر ہے تو معلوم ہوا کہ گنہگاردوذخ سے کبھی نہ نکلیگا۔ اکثر محمدی یہ خیال کرتے ہیں کے محمد صاحب شفیح اور گناہوں  بخشوانےوالے ہونگے۔ یہ تعلیم قرآن سے نہیں پاتے ہیں کیونکہ قرآن میں نہیں لکھا ہے کہ محمد صاحب اپنی اُمت کے گناہوں کو بخشوائیگا اور مشہور ہے کہ اُس نے اپنی بیٹی سے کہا تو نہ کہہ کہ میں نبی کی بیٹی ہوں جو تو بچیگی  تو اپنے نیک اعمال سے بچے گئی۔  یہہ بات انصاف سے بعید ہے کہ حا کم دو بڑے بھاری مجرموں کو کو گرفتار کرے اور اُنمیں سےایک کو رشتہ دار یا  اہلکار کی سفارش سے چھوڑ  دیوے اور دوسرے مجرم کو  جس کی بابت کوئی سفارش نہ کرے  جیلخانہ میں ڈال دیوے بلکہ یہہ سراسر ظلم اور بے انصافی ہے۔ مگر یہ بھی قرآن کے برخلاف ہے  چنانچہ  سورۃ  اِنعام کی پچاسویں   آیت میں لکھا ہے کہ إِلَىٰ رَبِّهِمْ لَيْسَ لَهُمْ مَن الْخَيْرِیعنے جمع ہونگے اپنے رب کے پاس اِنکا کوئی نہیں حمایتی اُسکے سواء  اور نہ سفارش والا۔  اور سورۃ محمد کی اکیسویں آیت دیکھو کہ فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ یعنے سو تو جان رکھ کہ کسی کی بندگی نہیں سوااﷲ کے اور معافی مانگ اپنے گناہ کی ۔  پس جب محمد صاحب کے واسطے یہہ حکم آیا  کہ معافی مانگ اپنے گناہوں کی تو وہ ہمارے گناہوں کو کس طرح معاف کراویگا۔ اور قرآن کی اکثر ٍآیتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو شخص خداوند  تعالی ٰ  کے تمام  احکاموں کو مانیگا بہشت کا وارث ہوگا ورنہ ہلاکت میں پڑیگا۔

محمدیوں میں مشہور ہے کہ ایک بال جیسی باریک پُل  بہشت کی راہ میں ہے اور وہ تلوار کی دہار جیسی تیز ہے۔ بہشت میں داخل ہونے کے لیے اِس پُل پر ضرور ہونا ہوگا ۔ یہہ پُل خدا کی شرع کی طرف دلالت کرتا ہے  جس پر کوئی  شخص  چل نہیں سکتا کیونکہ ہم سب کمزوؔر گنہگاؔر  اور ناپاؔک ہیں ۔ ہمارے دل برُی برُی  خواہشوں سے معمور ہیں  اور لاؔلچ  تکؔبر  شہوتؔ خود غرضیؔ  بیصبریؔ  دشمنیؔ  غصہؔ اور اور برُی چیزوں سے بھرے  ہیں  ۔ جب ہمارا یہہ حال ہے تو ہم  کس طرح سے نیکی کر سکتے ہیں۔ جس قدر کوشش کرتے ہیں اُسیقدر ہم  اپنی کمزوری  واقف ہوتے ہیں ۔ نماز پڑھنا  خدا کا  نام لینا  زکٰوۃ دینا  حج کرنا کچھ مشکل بات نہیں   ہے لیکن حلیم الطبؔح صابرؔ  پاکؔدل   ملایم ؔمزاج  رحم دل ؔ ہونا خدا کو اپنے سارے دل سے پیار کرنا  اپنے پڑوسی  کو اپنے جیسا سمجھنا اور اُس کو پیار کرنا اور اُسکے لیے خدا سے دعا مانگنا بہت مشکل اور بڑا محا ل ہے۔  جب یہہ حال ہو تو  اب بولو ہم کیا کریں اور کس طرح  نجات پاویں ۔ اگر  ہم اپنی نیکی پر بھروسہ رکھیں  تو کچھ بن نہیں پڑتا کیونکہ ہم  میں کیا نیکی ہے۔ یسعیاہ نبی  نے کہا ہے کہ ہماری راستبازیاں   گندی  دہجی کی  مانند ہیں۔ پس ہم کو مناسب ہے کہ ہم   سب خدا کے آگے اپنی  مُنہہ کے بل   گریں اور اقرار کریں کہ  ہم سب گنہؔگار ناؔلائق   پلیؔد اور نکمے ہیں  اور دعا  مانگیں کہ اے خداوند ہمپر رحم  کر ۔ سب آدمی بخوبی جانتے ہیں کہ ہم سب تقصیروار ہیں اور اگر خدا ہمارے قصوروں کو معاف  نہ کرے تو ہم بیشک دوذخ  میں ڈالے جاوینگے ۔

اے  عزیز بھائیو  اپنی نیکی اور ثواب کا زکر  خدا کے  آگے مت کرو اسلیئے کوئی نیکی  اور ثواب تم میں نہیں  پایا جاتا ہے  بلکہ اپنے گناہوں کا جو آسمان کے ستاروں>سے بھی زیادہ ہیں  اقرار کرو لیکن قرآن سے مطلق  معلوم نہیں ہوتا کہ خدا کس طرح راست اور عادل ٹھہرے اور  گنھگاروں کو  بخشے اور بچاوے۔

یہہ بھی واضح ہے کہ جس طرح  قرآن  میں نجات کے پانیکا  طریقہ صاف صاف بیان نہیں کیا گیا  اُسیطرح اصلی بہشت کا بھی زکر اُس میں نہیں پایا جاتا  سورۃ یسٰ کی پچپن اور چھپن  آیتوں میں دیکھو  وہاں لکھا  ہے إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ فِي ظِلَالٍ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِئُونَ لَهُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ وَلَهُم مَّا يَدَّعُونَ یعنے تحقیق بہشت کے لوگ  آج ایک دہندے میں ہیں باتیں کرتے وہ اور اُن کی عورتیں سائیوں میں تختوں پر بیٹھی ہیں تکئے لگائے اُن کو وہاں اور اُن کے لیے ہے جو مانگ لیں ۔ سورۃ البقر پچیسویں آیت وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ یعنے اور خوشی سُنا اُن کو جو ایمان لائے اور کام نیک کئے کہ اُنکو ہیں باغ بہتی نیچے اُنکے ندیاں جب اُنکو وہاں کا کوئی میوہ کھانے کو کہیں یہہ وہی ہے جو ملا تھا  ہمکو آگے  اور اُن پاس وہ آوے گا ایک طرح اور  اُنکو ہیں وہاں عورتیں  سُتھریاور اُن کو وہاں ہمیشہ رہنا۔ سورۃ صافات کی۳۹ سے سینتالیسویں  آیت  تک ۔ إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ أُولَٰئِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَّعْلُومٌ فَوَاكِهُ وَهُم مُّكْرَمُونَ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ يُطَافُ عَلَيْهِم بِكَأْسٍ مِّن مَّعِينٍ بَيْضَاءَ لَذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ لَا فِيهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنزَفُونَ وَعِندَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِينٌ كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُونٌ یعنے مگر جو بندے اﷲ کے ہیں چنے ہوئے جو ہیں اُنکو  روزی ہے مقرر میوے اور اُنکی  عزت ہے باغوں  میں نعمت کے تختوں پر ایک دوسرے کے ساھمنے لوگ لیے پھرتے  ہیں اُن کے پاس  پیالے شراب ستُھری  کے سفید رنگ مزہ دیتی  پینے  والوں کو زاِن  میں سر پھرتا ہے اور نہ اُس  سے بھکتے ہیں اور اُن کے پاس ہیں  عورتیں نیچے نگاہ رکھتیاں بری آنکھیں والیاں گویا وہ  انڈے ہیں  چھپے دھرے ۔ سورۃ  ص کی ۴۹ ۔ آیت سے ۵۴ تک ۔ هَٰذَا ذِكْرٌ وَإِنَّ لِلْمُتَّقِينَ لَحُسْنَ مَآبٍ جَنَّاتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَةً لَّهُمُ الْأَبْوَابُ مُتَّكِئِينَ فِيهَا يَدْعُونَ فِيهَا بِفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ وَشَرَابٍ وَعِندَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌ هَٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِيَوْمِ الْحِسَابِ یعنے  یہہ ایک مذکور ہوچکا اور تحقیق ڈروولوں کو ہے اچھا ٹھکانا باغ ہیں بسنے کے کھول رکھے اُنکے واسطے دروازے تکیہ لگائے بیٹھے اُن میں منگواتے ہیں  اُن میں سویرے بہت اور شراب اور اُنکے پاس عورتیں ہیں نیچی نگاہ والیاں ایک عمر کی یہہ وہ  ہے جو تم کو  وعدہ  ملتا ہے دن حساب کے ۔ اور سورہ دخان  ۵۲سے  ۵۴ آیت تک إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ يَلْبَسُونَ مِن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَقَابِلِينَ كَذَٰلِكَ وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ يَدْعُونَ فِيهَا بِكُلِّ فَاكِهَةٍ آمِنِينَ ۔بیشک ڈر والے گھر  میں ہیں  چین کے باغوں  میں اور چشموں میں پہنے ہیں پوشاک ریشمی پتلی اور گاڑھی  ایک دوسرے کے ساھمنے اسی طرح  اور بیاہ  دیں ہم نے  اُنکو گوریاں بڑی  آنکھوں والیاں منگواتےہیں   وہاں ہر میوہ جمع  خاطر سے ۔ سب لوگ جانتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں  کہ جو کوئی  آدمی دل و جان سو خدا کی بندگی کرتا ہے اور اُسکی  محبت میں رہتا ہے اور اُسی کو  دل و جان سے چاہتا ہے فروتن اور رحیم ؔ اور پاک  دل ہے۔ وہ عمدہ عمدہ کھاؔنے شؔراب  میووؔں  اور حورؔوں  پر دل نہیں لگاتا  کیانکہ یہہ خوشیاں  سب شہوؔت پرستوں عیاؔشوں فاحشوؔں  کو پسند آتی ہے۔   یہہ تعجب کی بات ہے کہ خدا ایسا بہشت  بناوے  جو نیک لوگوں  جو نیک لوگوں کی خواہش کے برخلاف  ہو  اور  بڑے شریر آدمیوں  کی مرضی کے مطابق  ہو۔ انجیل میں تو  صاف صاف لکھا ہے کہ ہے کہ بہشت جی خوشیاں جسمانی  نہیں  بلکہ رو حانی ہیں ۔ شاید  مسلمان کہیں گے کہ انجیل کو بے ایمانوں نے  خراب کر دیا ہے ۔ مگر  بڑے تعجب کی بات ہے کہ  خدا تعالیٰ  ایک نئی کتاب  میں لکھوائے کہ بہشت کی   خوشی  میرے  میرے اور فرشتوں کے برخلاف ہے اور اور شریر آدمیوں کے مطابق ہے یعنے ریشمیؔ کپڑے پہننے  گوشت کھانے شراب پینی اور خوبصورت حوروں کی صحبت میں ہے۔

اگر کوئی پاک آدمی بہشت کے اُن زکروں کو انجیل میں پائے جاتے اور اُن زکروں میں  جو قرآن میں مندرج ہیں خوب طرح آپس  میں مقابلہ کرے تو  اُسکو بخوبی روشن ہوجاویگا   کہ کونسی روحانی ہے اور کونسی جسمانی  کون  آدمی  کے دل سے نکلے  اور کون خدا  کی طرف سے ہے ۔ وہ جو انجیل میں مذکور  ہے   یا وہ جو  قرآنمیں  مسطور ہے۔ سب لوگ اقرار کرتے ہیں  کہ ہمارا اِس دنیا میں خاص کام یہہ ہے کہ ہم  بہشت  کےلیے تیار ہوویں ۔  اگر بہشت کی خوشی صرف شراب پینے اور حوروں کے ساتھ صحبت کرنے سے ہے تو کیا تیاری کرنی چاہیے۔ پھر ایک اور ہے کہ اکثر عورتیں زیادہ دیندار اور راستباز ہوتی ہیں  اور خدا  بھی اُنکو دیندار اور نیک آدمیوں کی طرح پیار کرتا ہے ۔ خدا تعالی  ٰ  نے جو ہر ایک دیندار  مرد کےواسطے حوریں مقرر کی ہیں  تو دیندار عورت کے لیے جسکو وہ دیندار مرد کی مانند پیار کرتا ہے اِن خوشیوں  میں سے کچھ تیار نہ کریگا۔ 

قرآن  سے یہہ بھی واضع ہوتا ہے  کہ اِسکی ایک بات دوسری  بات سے اچھی طرح مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ بار ہا اِسمیں لکھا  ہے کہ بت پرستی نہ کرو تو بھی  سورۃ  بقر کی ۳۴ ۔ اور  ایکسو  اُنسٹھویں  آیت میں لکھا   ہے کہ وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ یعنی  اور جب ہم نے کہا فرشتوں  کو سجدہ کرو آدم کو تو سب سجدے میں  گر پڑے   مگر ابلیس نے  قبول نہ کیا  اور تکبرّ کیا اور  وہ تھا منکروں میں ۔ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ یعنی صفا اور مروہ جو ہیں نشان   ہیں   اﷲکے پھر  جو کوئی حج کرے اُس گھر کا باز یارت   تو گناہ نہیں اُسکو  کہ طواف ان دونوں میں  اور  جو  کوئی شوق سے کرے کچھ نیکی تو اﷲ قدردان ہے  سب جانتا ۔  پھر سورۃ البقر ۱۱۵ آیت   میں وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ یعنی  اور اﷲ ہی کی ہے مشرق اور مغرب سو جس طرف تم منہ کرو  وہاں ہی متوجہ ہے اﷲ اور برحق اﷲ گنجایش والا ہے سب خبر رکھتا ۔ پھر سورۃ  بقرکی ۱۴۲ ۔آیت  میں لکھا  ہے کہ سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا یعنی اب کہینگے بے وقوف  لوگ کا ہے پر پھر کے مسلمان اپنے  قبلے سے جس پر تھے ۔ مفسریں  لکھتے ہیں کہ محمد صاحب جب مکےّ  سے مدینہ میں آئے ایک سال سے کچھ زیادہ تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے رے لیکن پھر حکم آیا کہ کعبے کی طرف پڑھو۔  بعد  اِسکے اِسی سورۃ کی ۱۴۵ ۔ آیت میں لکھا ہے فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ یعنی  اب پھیر منہ اپنا طرف مسجد الحرام کے اور جس جگہ تم ہوا کرو  پھیرو منہ اُسی کی طرف  ۔ ان  آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ  محمد صاحب نہ جانتا تھا کہ قبلے کے لیے  کیا حکم دینا چاہیے  اِس لیے گھبراہٹ سے کبھی کچھ حکم  دیتا تھا  اور کبھی کچھ ۔ پھر کس طرح کہتے ہیں کے خدا کی طرف  سے حکم ہوا کہ مکہّ قبلہ ہے  جس کی طرف آج تک منہ پھیر کر نماز پڑھتے ہیں۔

محمدی یہ بھی کہتے ہیں کہ عیسیٰ  جیتے جی آسمان پر چڑھ گیا  وہ ہرگز نہیں موا ۔  لیکن سورۃ مریم کی ۳۴ کی آیت میں  لکھا ہے وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ذَٰلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ یعنی اور  سلام ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں جس دن کھڑا  ہوں  جی  کر یہہ ہے عیسیٰ بیٹا  مریم   کا  سحیّ بات جس پر لوگ جھگڑتے ہیں ۔ اور اگر محمدی اِس دلیل  پر اعتراض کریں  اور کہیں کہ نہیں عیسیٰ  پھر  دنیا میں آکر وفات پاویگا تو میں سوال کرتا  ہوں کہ اول آسمان پر جاوے اور پھر آکر دنیا میں پرجاوے تو اِس سے کیا مبارک بادی ہے۔

پھر سب لوگ سب جانتے ہیں کہ عیسیٰ   بڑا نبی ہوا ہےاور  وہ ابتک بہشت میں موجود ہے ۔ لیکن سورۃ  الصافات میں لکھا ہے کہ  احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَاهْدُوهُمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْجَحِيمِ یعنی جمع کرو گنہگاروں کو اور  اُنکی جو  رووں اور جو کچھ لو جنے تمے اﷲ کے سوا پھر چلاؤ اُنکو راہ پر دوذخ کے ۔ بیشک سب عیسائی عیسیٰ کو  پوجتے ہیں اور اُن میں سے ایک فرقہ ہے جو مریم کو بھی پوجنا  ہے تو اِس آیت سے معلوم ہوا کہ یہہ دونوں  دوذخ میں جاوینگے پھر محمد صاحب نے بہت سی چیزوں کو حرام کیا مگر سورۃ انعام کی ۱۴۵ ۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف  چار چیزیں حرام ہیں اور سب چیزیں حلال ہیں ۔ قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ یعنی تو کہہ میں نہیں پاتا جس حکم میں کہ مجھ کو پہچناکوئی چیز حرام کھانے والا کو جو اُسکو کھاوے مگر یہہ کہ مردہ ہو یا  لہو پھینک دینے کا یا گوشت سور کا کہ وہ ناپاک  ہو باگناہ کی چیز جبرکا را اﷲ کے سوا کسی کانام  پھر جو کوئی عاجز ہو نہ زور کرتا نہ زیادتی  تو تیرا رب معاف کرتا ہے۔ مہر بان ۔ پھر محمد صاحب نے شراب کو بہت دفعہ حرام اور ناپاک  ٹھہرایا لیکن سورۃ  نساکی ۴۱۔  آیت  میں شراب کا اِسطرح  زکر ہے کہ ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ یعنی اے ایمان والو نہ  نزدیک  ہو نماز کے جب  تمکو نشا ہو جب تک کہ سمجھنے لگو جو کہتے ہو ۔جب  لکھا ہو کہ نماز  نہ پڑھنا ۔جب تک تمکو  ایسا  نشا ہو کہ تم نہ سمجھو کہ کیا کہتے ہو ۔ اِس سے معلوم  ہوتا  ہے کہ شراب حرام نہیں کیونکہ جب نشا تھوڑا ہے اور ہوش باقی ہے تو  نماز پڑھ  لینا جایز ہوگا۔ پھر قاآن میں بہت ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جو راستبازی کے برخلاف ہیں۔ اگر دریافت کرنا ہوتو سورۃ الفجر کی ۱ سے ۴۔ آیت تک دیکھو ۔ وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ وَاللَّيْلِ إِذَا يَسْرِ ۔ یعنی قسم ہے  فجر کی اور دس روتوں کی اور جفت اور طااق کی  اور اُس رات کی  جب رات کو چلے ۔ سورۃ شمس کی پہلی آیت   وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاهَا وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّاهَا ۔ یعنی قسم ہو  سورج کی اور اُسکی دھوپ چڑھنے کی اور چاند کی جب تک آوے اُسکے پیچھے اور دن کی  جب اُسکو روشن کرے۔ سورۃ البلد کی پہلی آیت    لَا أُقْسِمُ بِهَٰذَا الْبَلَدِ وَأَنتَ حِلٌّ بِهَٰذَا الْبَلَدِ وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ یعنی قسم کھاتا ہوں اِس شہر کی اور تجھ کو قید نہ رہیگی اِس شہر میں جنے اور جوجنا۔ سورۃ  الضحیٰ کی پہلی آیت وَالضُّحَىٰ والیل ازاسجیٰ یعنی قسم ہے دھوپ چڑھنے وقت کی اور رات کی جب چھاوے ۔  سورۃ التین کی پہلی آیت۔ وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ یعنی قسم  انجیر اور زیتون کی۔ سورۃ العدٰیات  کی پہلی آیت وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا۔یعنی قسم ہے دوڑنے گھوڑوں کی ہاپننے۔ اور سورۃ العصر کی پہلی آیت   وَالْعَصْرِ یعنی قسم اُترنے دن کی ۔ اے بھائیو ایسی ایسی بیہودہ قسموں کیا فائدہ ہونا ہے ۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ بہت قسمیں کھانے والے آدمی کی بات پر زرا بھی یقین نہیں ہوتا۔ پھر قسم ایک طرح کی عبادت ہے ۔ جب ہم خدا کی قسم کھاتے ہیں تو اِس سے مراد یہ ہےکہ  اگر ہماری بات راست نہو تو خدا سے ہم کو  برکت نہ ملے بلکہ سزا ۔ مگر خدا کو گھوڑوں  اور سورج  انجیر وغیرہ کی قسم کھانے سے کیا نفع نقصان ہے جو اُنکی قسم  کھاوے۔ یہہ تو ہندؤں کی مانند ہوا جو گنگا کی قسم کھاتے ہیں  ۔ مگر خدا کی زات سے یہہ بات بعید ہے کہ موافق ہندؤں کے ایسی قسمیں کھاوے ۔ جب ہم محمدیوں سے پوچھتے ہیں کہ خدا تعالی ٰ کو ان چیزوں کی قسم کھانے سے کیا فائدہ ہے تب وہ جواب دیتے ہیں کہ خدا تعالی ٰ کو یہہ چیزیں عزیز ہیں مگر یہہ بات تو قابل اعتبار نہیں  کیا انجیر کا درخت تمام درختوں سے خدا  کوزیادہ پسند ہے اور گھوڑا آدمی سے زیادہ عزیز  ہے ۔ پھر سورۃ التحریم کی ۱۱ور۴آیتوں  پر ملاحظہ فرمائیے ۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ وَاللَّهُ مَوْلَاكُمْ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ یعنی  اے نبی تو کیوں حرام کرے جو حلال کیا اﷲ نے تجھ پر چاہتاہے رضامندی اپنی   عورتوں کی اور اﷲبخشنے والا ہے مہربان ٹھہرادیا ہے اﷲ نے تمکو کھول ڈالنا اپنی قسموں کا اور اﷲ صاحب ہے تمھارا اور وہی ہے  سب جانتا  حکمت جانتا۔ اِن آیتوں سے ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ  چیز جس کو خدا تعالیٰ نے حلال کیا ہے محمد صاحب نے اپنی عورتوں کے واسطے اُسکو حرام کیا۔اور یہ بھی ظاہر ہوتا ہے ہے کہ خدا تعالیٰ ہی محمد صاحب کو جھوٹی قسمیں کھانے کی اجازت دیتا ہے۔ یقین ہے کہ محمدی اہل دانش اِس بات پر خوب غور کرینگے ۔ پھر سورۃ البقر کی ۱۹۱ آیت پر ملاحظہ فرمائیے وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ یعنی اور مار اُنکو جس جگہ پاؤاور نکا لدواُنکو جہانسے  اُنہوں نے تمکو نکالا۔ قرآن میں لکھا ہے کہ جو کوئی تم پر زیادتی کرئے  تم اُس پر زیادتی کرؤ جسقدر اُس نے تم پر زیادتی کی۔ انجیل میں لکھا ہے کہ اگر تم  اپنے بھائیونکا  قصور معاف نہ کروگے تو  خدا بھی تمھارے قصوروں کو معاف نہ کریگا۔  پھر سورۃ النساء کی ۳۳ آیت کو دیکھے ۔ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ یعنے اور جنکی بدخوئی کا ڈر ہو تمکو   تو اُنکو سمجھاؤ  اور جدا کروسوتے میں اور مارو اُنکو ۔ یہہ نہیں لکھا ہے کہ جو بدخوہوویں اُنکو مارو بلکہ یہہ بدخوئی کے ڈر سے اُنکو مارو ۔  غور کا مقام ہے کہ جب تک  کسی کا قصور ثابت نہ ہو اُسکو سزا دینا کیا ضرورت ہے اور اگر نیبر ثابت ہونے قصور کے سزا مقرر کیجاوے تو اِس صورت میں کئی ایک بیگنا ہونکو سزا  دیجاتی ہے۔ اور پھر جس صورت میں خدا نے عورت کو مرد  کا  رفیقبنایا اور کہا کہ یہ دونوں ایک تن ہونگے تو کیا اپنے رفیق کو غلام کی طرح مارنا مناسب ہے۔ سورۃ النور کی ۴ آیت پر بھی غور کیجئے۔ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ یعنے اور لوگ جو عیب لگاتے ہیں قید والیوں کو پھر نہ لائے  چار مرد شاہد تو مارو اُسے اُسنی چوٹ نچیّ کی اور نہ مانو اُنکی کو ئی گواہی کبھی اور  وہی لوگ بیحکم ۔ اِس  سے معلوم ہوتا ہوے کہ اگر کوئی خون کرے اور اُسکا گناہ دع تین گواہوں سو ثابت ہو وے تو اُسے بیشک مارڈالو اور اگر کوئی معززیا عزت دار عورت عین زنا میں بھی پکڑی جاوے اور اسبات کے دو تین معتبر گواہ  بھی ہوں تو کچھ مضایقہ نہیں ہے۔  اگر ایسے قانون  پینل کوڈ میں پائی جاویں تو تمام عالم انگریزوں کی بیوقو فی پر ہنسے اور اُنکی مجبو کریں۔ اکثر محمدی اِس قانون کو اچھا  جانتے ہیں کیونکہ وہ قرآن میں ہے۔ سب عاقل اور تعلیم یافتہ محمدی جانتے ہیں کہ جب محمد صاحب ایک دفعہ لڑائی کو گئے تب عائیشہ اپنی عورت کو بھی  اپنے ہمراہ  لیگئے  وہ کسی سبب سے پیچھے رہ گئی تب ایک جوان جو لشکر کے پیچے پیچے آرہا تھا  عائیشہ کو اپنے اُونٹ پر سوار کر کے ڈیرے میں لے آیا  تو پھر لوگوں نے اُن پر شک کیا اور اُنکی عصمت میں داغ لگانا چاہا۔  جب محمد صاحب کو معلوم ہوا کہ لوگ عائیشہ پر شک کرتے ہیں تب اُس نے اُن تمام لوگوں کو روکنے کے لیے اِسی صورت کی چھوتھی آیت کو جاری کیا ۔ جب حکم ہوا کہ چار گواہ ہوں لیکن چار مرد ہوں اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد عورتوں کی بات پر کچھ بھروسا نہیں کرتا تھا اور نہ چاہا کہ اُسکی اُمتّ عورتوں  پر بھروسا کرے۔ ہاں بیشک اگر وہ اپنی عورتوں سے نیک سلوک کریں اور اُنکو خوب تعلیم دیں   اُنکی عزت کریں اور ایک ہی بیاہ کریں اور اُنکو اپنا رفیق سمجھیں تو بیشک وہ قابل اعتبار ٹھہریں ۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عورتیں مردونسے زیادہ دیندؔار نیکؔ حلیم ؔالطبع رحمؔدل اور ملائمؔ مزاج ہوتی ہیں اور  یہہ خوبیاں خدا  کے آگے جسکا نام  غفور اور غیور ہے نہایت عمدہ اور پسندیدہ  ہیں اگر کوئی شخص قرآن کو  خوب غور سے پڑھے تو اُسکو بخوبی معلوم ہوگا کہ خدا تعالیٰ مردوں کو  عورتوں سے زیادہ پیار کرتا ہے کیونکہ لکھا ہے کہ اگر کسی عورت  کی بدخوئی  کا نہیں ڈر ہو تو اُسے جدا کرو اور اُس سے سخت سلوک بھی کرو۔ یہہ نہیں لکھا ہے کہ اگر عورت کو اپنے خاوند کی بدخوئی کا ڈر ہو تو وہ بھی اُس سے جدا  ہو جاوے یا کچھ کرے۔ کیا یہ انصاف کی بات ہے۔ 

قرآن میں یہ لکھا  ہے کہ اگر عورت صریح بیحیائی کرے تو  اُسکا خاوند اگر چاہے تو اُسے طلاق نامہ دیدے۔ یہ درست ہے ۔ لیکن سورۃ اخراب میں لکھا ہے فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ یعنے جب زید تمام کرچکا اُس عورت سےاپنی  غرض ہمنے وہ تیرے نکاح   میں دی تا نہ رہے سب مسلمانونپر گناہ نکاح کر لینا  جو روؤں سے اپنے لیے پالکوں کی جب وہ تمام کریں اُن سے اپنی غرض ۔ اِس آیت سے یہہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب مرد  اپنی عورت سے سیر ہوجاوے تو اُسے نکالدیوے۔ افسوس ضد افسوس کہ لوگ سوچتے نہیں ہیں کہ طلاق نامہ دینے سے عورت کو کیسا دٔکھ اور رنج ہوتا ہے۔

پھر سورۃ النساء کی تیسری آیت کو دیکھو ۔ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ یعنے تو نکاح کرو جو تمکو خوش آویں عورتیں  دو  دو تین تین چار چار  پھر اگر ڈرو کہ برابر نہ رکھوگے تو ایک ہی یا جو اپنے  ہاتھ کا مال ہے۔ پھر سورۃ مومنون ۵ اور ۶ آیت  وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ یعنے اور جو اپنی شہوتکی جگہ تھامتے ہیں مگر اپنی عورتوں پر یا اپنے ہاتھ کے مال پر سو اُنپر نہیں اُلاہنا۔ اِن آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دین محمدی میں لونڈیاں رکھنی درست ہیں ۔ فرض کرو اگر ایک گھر میں ایک مرد اُس کی عورت بیٹے بیٹیاں اور چار پانچ بیٹیاں ہوں اور اِس شرع کے مطابق اپنی حاجت کو پورا کرے تو کیسی بیحیائیکی بات ہو۔ علاوہ اِسکے گھر کا بندوبست بھی بالکل خراب اور ابتر ہوگا۔ کون کہیگاکہ یہ خدا کی مرضی ہے ملاکی نبی نے کیا خوب کہا کہ خدا نے ایک آدمی کو ایک عورت دی تاکہ پاک نسل ہووے۔ اگر کوئی شخص بطرزجواب کہے کہ کیا ابرہامؔ یعقوبؔ داؤدؔ  سلیمانؔ وغیرہ  نبیوں  کے پاس بہت سی عورتیں نہ تھیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہاں بیشک تھیں۔ لیکن ہم اُن نبیوں کے چال و چلن کے پیرو نہیں ہیں۔ خدا کے کلام میں صاف لکھا ہے پیدایش ۲ باب ۲۴ آیت  مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑیگا اور جورو سے ملا رہیگا اور وہ ایک تن ہونگے۔ ملاکی کا ۲ باب ۱۵ آیت اور کیا اُسنے ایک کو نہ بتایا  باوجودیکہ  روح کا بقایا اُسکا اُسیکارہا اور کاہیکو ایک تاکہ دیندار نسل پاوے اِس لیے تم اپنی طبیعت سے خبردار رہواور کوئی اپنی جوانی کی جورو  سے بیوفائی نہ کرے۔ انجیل متی ۱۴ باب ۴ اور ۵ آیت  اُسنے جواب میں  اُسنے کہا کیا  تم نے نہیں پڑھا کہ خالق نے شروع میں اُسنے  ایک ہی مرد ا ور ایک ہی عورت  اور فرمایا کہ اِس لیے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑیگا اور اپنی جورو سے ملارہیگا۔  اوّل قرنتیوں کا ۷ باب ۲ آیت  ہر مرد اپنی جورواور ہر عورت  اپنا  شوہر  رکھے ۔ اور  ظاہر ہے کہ آدم و حوّا بھی ہر زمانہ کے لوگوں کے لیے اسبات کے نمونہ تھے۔ چونکہ اس باب میں حضرت مسیح کے حکم دینے کے پہلے خدا نے  اِسکی ممانعت نہیں فرمائی تھی اِس لیے ہم اُن نبیوں پر نکاحوں کا الزام نہیں لگا سکتے لیکن کثیر الازواجی شادی تذ کرہ بالا کے برخلاف ہے  اور ملک میں فتور کا باعث گھر میں بے بندوبستی کا خایف ۔

لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَی عنے  خدا تمہاری بےارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن پختہ قسموں پر (جن کے خلاف کرو گے) مواخذہ کرے گا تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل وعیال کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا اور جس کو میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو (اور اسے توڑ دو) اور (تم کو) چاہئے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو اس طرح خدا تمہارے (سمجھانے کے) لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو۔(سورہ المائدہ آیت 89)۔

اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کی رائے یہ ہے کہ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں  میں نافرمانی ہو تو کچھ ڈر نہیں مگر سوچنا چاہیے کہ نافرمانی گناہ کی جڑھ ہے۔ اس سے بالکل پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ خدا کی مرضی کے بالکل برخلاف ہے۔ کیا خدا  کے حکموں کی عدولی کرنا چھوٹی بات ہے۔ خداوند عیسیٰ مسیح لوگونکو فرماتا ہے کہ جو کوئی  شخص بیگانہ عورت پر شہوت  سے نظر کرتا ہے وہ دلمیں زانی  ہے یعنے  وہ زنا کرچکا اور جو آدمی  اپنے بھائی پر بے سبب خفا ہوتا ہے وہ خونی  ہے۔ پھر بار بار قرآن میں لکھا  ہے کہ جو آدمی مذہب  کے واسطے لڑتا ہے اُسکو بڑا  ثواب ہوتا ہے۔ اگر تم دیکھنا چاہو تو سورۃ  النساء کی ۷۲ آیت دیکھو  فَلْيُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ وَمَن يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًایعنے سو چاہیے لڑیں اﷲ کے راہ  میں  جو لوگ  بیچتے ہیں  دنیا کی زندگی آخرت پر  اور جو کوئی لڑے  راہ میں پھر مارا جاوے  یا غالب  ہووے ہم دینگے اُسکو بڑا  ثواب۔ جب ہم یہ دلیل محمد یونکے آگے  پیش کرتے ہیں اور اُن سے پوچھتے ہیں کہ کیا جہاد کرنا واجب ہے تو یہ محبت  پیش کرتے ہیں کہ کیا خدا تعالیٰ نے حضرت ہوسیٰ کو کنعانیونکے مارڈالینکا حکم نہیں دیا۔ اِسکا جواب یہ ہے کہ گنہگاروں کا سزا دینا  خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے  جسطرح چاہے وہ سزا دیوے  خواہ  آگ سے جیسا کہ حضرت  ابراہیم کے زمانہ  میں ہوا خواہ طوفان سے جیسے کہ نوح کے زمانہ میں تمام دنیا کو پانی سے برباد کیا خواہ بزریعہ شمشیر غاز یان جیسا  کہ حضرت موسیٰ کے زمانہ  میں ہوا مگر اِسکا مطلب اور ہے اور یہ حکم دینا کہ جہان کے آخر  تک دین کےلیے لڑو اور کافرونکو قتل کرو یہ اور بات ہے۔ اور خدا تعالیٰ  نے حضرت موسیٰ کو یہ حکم  نہیں دیا  تھا کہ لوگوں کو  مار مار کر یہودی کرو بلکہ اُس نے کہا کہ اِس قوم  کی شرارت کی سزا اُنھیں دو۔  موسیٰ  نے جہاد ہر گز نہیں کیا  اور نہ خدا   نے اُسے  جہا د کرنے کا حکم دیاہے۔ اور محمدی جانتے ہیں کہ انجیل  توریت کے بعد آئی  اور قرآن انجیل کے بعد لکھا گیا اور وہ  یہ بھی  جانتے ہیں کہ پچھلی  کتاب پہلی کتاب سے اچھی ہوتی ہے  نہیں تو کیا فائدہ ۔ اور ہم بخوبی  جانتے ہیں  کہ انجیل  توریت سے  کئی ایک باتو میں بہتر ہے۔  قرآن کو انجیل  سے بہتر ہونا  چاہیے تھا کیونکہ یہ  انجیل کے بعد لکھا گیا ورنہ  اِسکا  کیا فائدہ۔ اس لیے اِسکا انجیل سے مقابلہ کرنا ضروری ہے نہ کہ توریت   سے۔ پھر عیسیٰ نے حکم دیا کہ تمام دنیا میں جاکر انجیل کی منادی کرو سب لوگوں سے میل کرو   اور اُنکے خیرخواہ   ہو۔ محمد صاحب کہتے ہیں کہ دین کے واسطے اور لوگوں سے لڑو ۔ کیا خدا کے مذہب کو بزریعہ تلوار کے پھیلانا کبھی اچھا ہوتا ہے۔  سچا دین تلوار کت زور سے ہرگز نہیں پھیل سکتا۔ مگر محبت  اور مہربانی سے۔ اگر محمدی اور لوگوں کو دین کے لیے مارنا بہتر سمجھتے ہیں  تب اور لوگ اپنے دین کے واسطے محمدیونکے کو مارنا  بہتر کیوں نہ سمجھینگے۔ پھر اگر دو قومیں آپس میں لڑائی کریں تو ایک کے فتح پانیسے یہ معلوم  ہوگا کہ وہ  قوم زور آور ہے نہ یہ کہ  اُساک دین سچاّ ہے۔ اور پھر اگر ایک قوم  دوسری قوم پر ظلم اور تعدی کرنا واجب جانے تو دنیا کا کیا حال ہوگا سب نیست و نابود  ہوجاویگی۔ خداوند مسیح فرماتا  ہے کہ جیسا  تم چاہتے ہو  کہ اور لوگ  تم سے کریں تم بھی اُن سے ایسا ہی کرو۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کے واسطے ہرگز لڑنا  نہ چاہیے۔ انجیل میں خدا کیسا رحیم اور مہربان پایا جاتا ہے۔ باپ باپ کہکر پکارا جاتا ہے محبت کا چشمہ ہی ظاہر ہوتا ہے بلکہ اُس کا نام ہی محبت ہے ۔ لیکن قرآن سے اسقدر محبت ظاہر نہیں ہوتی جسقدر انجیل میں پائی جاتی ہے۔ اگرچہ خدا تعالیٰ کا نام  اکثر مقام میں رحمان اور رحیم لکھا گیا ہے  تو بھی قرآن کے پڑھنے   سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا   بے ایمانونکے مارڈالینکے لیے بار بار حکم دیتا ہے اور اُنکی تکلیف سے خوش معلوم  ہو تا ہے۔ کیا  کوئی شخص ایسا نہیں جسکا بیٹا اپنے گھر کو چھوڑکر کسی دوسرے گھر میں چلاجاوے اور وہ اپنے  دوسرے بیٹے کو جو اُسکے پاس ہو کہے تو جا اور اُس کو مار ڈال مگر یہ اپنے بھائی کو محبت اور پیار  سے لے آ ۔ اسیطرح خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص بے راہ ہو تو  اُسکو محبت اور الفت سے راہ پر لاؤ۔

اور خدا نے  حزقیئل نبی کی معرفت  فرمایا  کہ مجھے اپنی حیات کی قسم ہے کہ شریر کے مرنے میں مجھے کچھ خوشی نہیں بلکہ اُسمیں ہے کہ شریر اپنے راہ سے بازآوے اور جئے۔پھر قرآن میں بہت سی جگہ دوذخ کا زکر ایسی طرح سے کیا گیا ہے کہ جس سے معلوم  ہوتا ہے کہ قرآن کا مصنف  کافروں  کے دوذخ  میں جانے سے نہایت خوش ہوتا ہے۔ اور زرا بھی افسوس نہیں کرتا۔ انجیل میں لکھا ہے کہ جب عیسیٰ کولوگوں نے صلیب کھینچا اور ہر طرحکی بے عذتی تو  اُس نے خدا تعالیٰ  دعا مانگی کہ اے باپ اِنکو معاف کیونکہ اِنکو معلوم نہیں کہ کیا کرتے ہیں  تمام  صحایف انبیا اور اناجیل سے  ظاہر ہکہ خدا لوگونکی  برائی نہیں چاہتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمام لوگ توبہ  کر کے نجات پاویں۔

کاش کے محمدی قرآن کا انجیل سے مقابلہ کر کے دریافت کریں کہ اِن دونوں  میں سے کسی میں خدا کی محبت پائی جاتی ہے۔

قرآن سے یہ بھی معلوم  ہوتا ہے کہ اِسکا مصنف  علم سے بھی واقف نہ تھا اگر دریافت   کرنا ہو تو سورۃ  کہف کی ۸۲ آیت سے ۸۴ ملاحظہ فرماہیے۔  وَيَسْأَلُونَكَ عَن ذِي الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِن كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا فَأَتْبَعَ سَبَبًا حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِندَهَا قَوْمًا یعنے اور تجھ سے پوچھتے ہیں زوالقرنین کہہ پڑھتا ہوں تمھارے آگے اُسکا کچھ مزکورہمنے اُسکو پڑھ کرسنایا تھا ملک میں اور دیا تھا ہر چیز کا اسباب پھر پیچھے  پڑا ایک اسباب کے یہانتک کہ پہنچا جب سورج  ڈوبنے کی جگہہ پایا کہ وہ ڈوبتا ہے ایک دلدل کی ندیمیں اور پائی اُسکے پاس   ایک قوم۔ وہ لوگ جو تواریخ سے واقف ہیں جانتے ہیں کہ  ذوالقرنین یعنے سکندراعظم کے ملک کی مغرب طرف رومیوں کا ملک واقع ہے اور سکندر اعظم رومیوں کے ملک  کے طرف کبھی نہیں گیا  ۔ جوانی کے وقت مشرق کیطرف اگر پنجاب تک پہنچا  اور یہاں سے پھر پیچھے لوٹ کر بابل  تک جو دریائے  فرات پر ہے جا کر کے ۳۳ سال کی عمر میں شراب پی کر مرگیا۔  یہ سب باتیں یونانی تواریخوں  سے جو آج تک موجود ہیں اور یورپ  کے تمام کالجوں میں پڑھائی جاتی ہیں  ثابت ہو سکتی ہیں۔

پھر اِن آیتوں سے سورج کا دلدل کی ندی   میں ڈوب  جانا ثابت ہے۔ اور واضح ہو کہ یونان کے مغرب کی طرف اٹؔلی، ہسپؔانیہ ، پرتگالؔ وغیرہ ملک واقع ہیں اور اِن ملکوں  کے پچھم کی طرف ایٹلینٹک یعنے بحر اوقیانوس  ہے اوراس سمندر کے مغرب کی طرف امریکہ جسکو نئی دنیا بھی کہتے ہیں  واقع ہے اس ملک کو کلمبس نے جہاز پر سوار ہو کر ۳۸۳ برس ہوئے ہیں ظاہر کیا۔ میں اِسی ملک کا باشندہ ہوں اور جب میں وہاں تھا سورج کو آسمان پر دیکھتا تھا  جیسا کہ اب دیکھتا ہوں کبھی دلدلمیں ڈوبتے ہوئے  نہیں  اُسکو نہیں دیکھا۔ اگر قرآن  کا مصنف علم جغرافیہ سے واقف ہوتا  تو کبھی نہ کہتا  سورج دلدل میں ڈوب جاتا ہے۔ اگر کوئی جواب دیوئےکہ یہ عوم محاورہ  ہے کہ سمندر  میں سورج ڈوب جاتا ہے  جیسا معلوم  ہوتا ہے اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ وہ ہمیشہ آسمان پر قائم رہتا ہے۔ اور اس آیت کے بھی  یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ حقیقتاً دلدل میں  ڈوب جاتا ہے  ۔ مگر یہ نوجیہہ یہاں درست نہیں ہوتی کیونکہ اس آیت میں لکھا  ہے کہ زوالقرنین نے پایا کہ سورج  دلدلمیں ڈوبتا ہے ۔ اس سے معلوم  ہوتا ہے کہ مصنف نے بیان کیا کہ سورج رات کے وقت کہاں  چلا جاتا ہے  جیسا کہ ہندو کہتے ہیں  سورج  میر پربت کے پیچھے چلا جاتا ہے مگر یہ دونوں کی تقریر صاف غلط ہے۔ پھر سورۃ نباءکی  ۶ آیت أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا یعنے ہمنے نہیں بنائی زمین بچھونا۔ اور سورۃ لقمان کی ۹ آیت    خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ یعنے بنائے آسمان بن ٹیکے اُسے دیکھتے ہو اور ڈالے زمین پر بوجھ کہ تمکو لیکر جُھک نہ پڑے۔ اِن آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پانی پرواقع ہے۔ اگر زمین پانی پر کھڑی ہے تو پانی کس پر کھڑا ہے اور اگر پانی کے نیچے کوئی ہے تو اُس چیز  کے اُٹھانے والی کون شے ہوئی۔ اگر کوئی ہندوستان کا باشندہ دوسرے ملکونکی کی سیر کرنی چایئے اور دریافت  کرنا چاہیے  کہ آیا  زمین گول ہے کہ نہیں اور اُسکے نیچے کی طرف  یا  اُوپر کی طرف کیا چیز ہے جسنے اُسکو اُٹھایا ہے تو ہے تو وہ پہلے بمٔبی کو جاوے وہاں اُسکو ایسے جہازملینگے جو اُسکو  انگستان سے اُسکو   ایسے جہاز دستیاب ہونگے جو اُسکو امریکہ میں لیجاوینگے اور ریل اُس ملک کے مشرق سے مغرب تک پہنچاویگی۔ پھر وہاں سے جہاز پر چڑھ کے چین  میں آجائیگا اور چین سے پھر جہاز میں  سوار  ہو کر کلکتہ میں پہنچ جاویگا۔پھر ریل اُسکو کلکتہ سے دہلی یا لاہور یاکسی اور شہر میں کہ جہاں سے وہ  پہلے چلا تھا  پہنچاویگی۔ پھر بخوبی اُسکو معلوم ہوجاویگا کہ دنیا کے نیچے اور اوپر کیطرف  کیا ہے  ہموار  یا بالکل  گول ہے اور جیسا سورج  خدا کی قدرت سے بغیر  کسی سہاریکےقایم ہے ویسے ہی زمین قایم ہے۔ یورپ اور امریکہ کےجہاز سب سمندرونمیں ہمیشہ پھرتے  رہتے ہیں  اور اکثر مسافر بھی سوار ہو کر  تمام دنیا کے چاروں  طرف  آتے جاتے ہیں مگر آج تک کوئی شخص دم نہ مار سکا کہ زمین کے اوپر کی طرف یا نیچے کیطرف کوئی چیز ہے ۔ جس نے اُسکو اُٹھا رکھا ہے ۔ محمدی اکثر یہ بھی کہتے ہیں کہ زمین پہاڑوں  کے زریعہ سے جو میخوں کا کام دیتے ہیں  ایک جگہ ٹیکی ہوئی ہے۔ یعنے ایک جگہ قایم  کی گئی۔ اور سورۃ نبا کی ۶اور ۷ آیت میں لکھا ہے أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا یعنے ہمنے نہیں بنائی زمین بچھونا اور پہاڑ میخیں ۔ اگر وہ پہاڑوں کو خوب غور کر کہ دیکھیں تو انکو واضح ہو کہ پہاڑ میخیں  نہیں ہیں مگر زمین کا حصہ ہیں جو زمین کی اندرونی گرمی کے سبب اوپر ہوگئے ہیں کیونکہ وہ پتھر جو زمین کے نیچے پائے جاتے ہیں اُسی قسم کے پتھر پہاڑوں پر پائے جاتے ہیں ۔ یہ بھی واضح ہو کہ دنیا میں آج تک کئی ایسے پہاڑ ہیں کہ جنسے بہت جوش پر کر آگ نکلتی ہے مثلاً  اٹناؔ،  دسووئیؔس،   ہکلاؔ، شرمولےؔ، یورپ میں اور کو ٹونیکلسےؔ، جنوبی امریکہ میں۔  اِس سے بخوبی معلومہوتا ہے کہ پہاڑ میخیں کبھی نہیں ہو سکتےصرف زمین کی اپنی اندرونی گرمی  سے اوپر ہو گئے۔ پر قرآن میں لکھا ہے کہ سات  آسمان ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص  جو پہاڑ سے تیس چالیس کوس کے فاصلہ پر رہتا ہو پانی  برسنے کے بعد فجر کے وقت جب آسمان صاف ہو  پہاڑ  کی جانب نظر کرے تو پہاڑ اُسکو خوب نظر آویگا اور معلوم ہوگا کہ آسمان پہاڑ کے پچھلی طرف واقع ہو لیکن اگر دو تین گھنٹے کے بعد پھر دیکھیں تو آسمان پہاڑ سے اِس طرف  ہے اور پہاڑ بالکل معلوم نہیں ہوگا۔ اِس سے ظاہر ہے کہ آسمان کچھ نہیں صرف حد نظر ہے اور اگر کوئی شخص سفر کرے تو اُسکو آسمان چند کوسونکے فاصلہ پر زمین کے ساتھ ملاہوا نظر آویگا لیکن جب اُس جگہ پر پہنچے اُسی طرح   اُسکو آگے دیکھائی دیگا جسطرح کہ پہلے دکھائی دیتا تھا ۔اِس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آسمان صرف حد  نظر ہے اور کچھ نہیں  جب یہ حال ہو تو ہم کیونکر مانیں کہ آسمان سات ہیں ۔ محمدی  یہ بھی کہتے ہیں سات زمینیں ہیں یہ بھی غلط ہے کیونکہ زمین حقیقتاً ایک ہی ہے اور نارنگی کی مانند گول ہے۔ سب جانتے ہیں کہ عیسیٰ بالکل پاک اورپرہیزگار تھا اور کسی طرحکے گناہ میں مبتلا نہ تھا۔ کوئی آدمی  ایسا نہیں کہ سکتا کہ وہ دنیاوی چیزوں سے خوش تھا  یا کسی طرحکی عیش وعشرت اُسکو بھائی تھی بلکہ وہ بھی کہتاتھاکہ میرا کھانا اور پینا  یہی ہے کہ اپنے باپ کی مرضی بجا لاؤں۔  اور اپنے شاگردونکو بھی یہی کہتا تھا کہ تمہیں دنیا میں بہت ہی تکلیف ہوگی  پر وہ جو میرے ہونگے اپنے نفس کو مارڈالینگے اور دنیاوی خوشیوں اور نفسانی مزاج  سے پرہیزکرینگے ۔ مگر قرآن کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِسکا مصنف نفسانی خواہشوں کو زیادہ چاہتا کو زیادہ چاہتا تھا اور روحانی خوشیونکو کم ۔ چنانچہ  سورۃ احزاب کی ۳۷ اور ۳۸  آیت میں لکھا ہے فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا مَّا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ یعنے پھر جب زید تمام کرچکا اُس عورت سے اپنی غرض ہمنے وہ تیرے گناہ  میں دی۔ تازھے سب مسلمانونکو گناہ نکاح کرلینا جو روؤں سے اپنے لے پالکونکی جب وہ تمام کریں اُن سے اپنی غرض  اور ہے اﷲ حکم کرتا ہے نبی پر کچھ مضایقہ نہیں اُس  بات  میں جو ٹھہرادی اﷲنے  اُسکے واسطے ۔ اور سورۃ التحریم کی پہلی اور دوسری آیت يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ وَاللَّهُ مَوْلَاكُمْ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ یعنے اے نبی تو کیوں حرام کرتا ہے جو حلال کیا اﷲ نے تجھے پر چاہتا ہے رضامندی اپنی عورتونکی اور اﷲ بخشنے والا ہے مہربان ٹھہرادیا  ہے اﷲ نے تمکو اُتار ڈالنااپنی قسمونکا اور اﷲ دوست ہے تمھارا اور وہی سب جانتا حکمت والا ۔ پھر سورۃ  احزاب کی ۴۹ آیت میں لکھا ہے کہ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ یعنے اے نبی ہمنے حلال رکھیں تجھ کو تیری عورتیں جنکے مہر تو دے چکا اور  جو مال ہو  تیسرے ہاتھ  کا جو ہاتھ لگاوے  تجھ کو اﷲ اور تیرے چچا کی بیٹیاںاور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے مامونکی بیٹیاں اور خالاؤنکی بیٹیاں جنہوں نے وطن چھوڑا تیرے ساتھ اور رجو کوئی عورت  ہو مسلمان اگر بخشے اپنی جان نبی کااگر نبی چائے اُسکو اپنے نکاح  میں لے تیرے تجھی کوسوا سب مسلمانونکے ان آیتوںپر اوّل یہہ گفتگوہے کہ اگر خدا حکم دیتا  کہاپنے لے پالکونکی عورتوں سے شادی کرو تو کچھ گناہ     نہ تھا  پھر تچھ ضرورت نہ تھی کہ محمد صاحب اس بات کے نمونے نہیں ۔ شاید انہوں نے جانا کہ جب تک میں اِس کام کو خود نہ کروں  کوئی آدمی نہ کریگا کیونکہ اُنکو بیجا معلوم  ہوگا۔ اور پھر یہہ کہ کسواسطے خدا نے صرف محمد صاحب پر اُس عورت کو جسنے اپنا تن بخشا حلال کیا اور دوسروں پر حرام کیا باعث ہے کہ اور لوگونکو تین تین چار چار عورتوں کا حکم ہوا   اور محمد صاحب جتنی چاہیں کر لیں ۔ سب لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی اپنی اُمت  میں ینکیونکا نمونہ ہوتا ہے لیکن محمد صاحب پاکیزگی کا مسلمانوں کے لیے خوبی کا نمونہ نہ تھے  اور پھر باوجوداِسکے دعویٰ بھی کیا کہ جو میں کرتا ہوں  خدا کے حکم  سے کرتا ہوں۔ اگرچہ قرآن میں پاکیزگی کا زکر بھی بہت سی جگہ آیا ہے لیکن اکثر تو صرف بیرونی پاکیزگی یعنے ہاتھ منہ دھونے وضو کرنے اور حرام کھانے سے پرہیز  کرنیکا  زکر ہے۔

اگر کسی شخص نے اُس پاکیزگی کا زکر جو خدا کو پسند آتی ہے دیکھنا ہو تو  مرقس کی انجیل کا ساتواں باب خاص کر کے اُسبابکی پانچویںؔ اور چھٹویں اور چودھویں ؔ  آیات سے ۲۳تک دیکھے۔ تب فرِیسیوں اور فقِیہوں نے اُس سے پُوچھا کیا سبب ہے کہ تیرے شاگِرد بزُرگوں کی روایت پر نہیں چلتے بلکہ ناپاک ہاتھوں سے کھانا کھاتے ہیں؟ اُس نے اُن سے کہا یسعیا ہ نے تُم رِیاکاروں کے حق میں کیا خُوب نبُو ّت کی جَیسا کہ لِکھا ہے یہ لوگ ہونٹوں سے تو میری تعظِیم کرتے ہیں لیکن اِن کے دِل مُجھ سے دُورہیں اور وہ لوگوں کو پِھر پاس بُلا کر اُن سے کہنے لگا تُم سب میری سُنو اور سمجھو۔ کوئی چِیز باہر سے آدمی میں داخِل ہو کر اُسے ناپاک نہیں کر سکتی مگر جو چِیزیں آدمی میں سے نِکلتی ہیں وُہی اُس کو ناپاک کرتی ہیں اگر کِسی کے سُننے کے کان ہوں تو سُن لے اور جب وہ بِھیڑ کے پاس سے گھر میں گیا تو اُس کے شاگِردوں نے اُس سے اِس تمثِیل کے معنی پُوچھے۔ اُس نے اُن سے کہا کیا تُم بھی اَیسے بے سمجھ ہو؟ کیا تُم نہیں سمجھتے کہ کوئی چِیز جو باہر سے آدمی کے اندر جاتی ہے اُسے ناپاک نہیں کر سکتی اِس لِئے کہ وہ اُس کے دِل میں نہیں بلکہ پیٹ میں جاتی ہے اور مزبلہ میں نِکل جاتی ہے؟ اس لیے کوئی کھانا ناپاک نہیں۔ پِھر اُس نے کہا جو کُچھ آدمی میں سے نِکلتا ہے وُہی اُس کو ناپاک کرتا ہے کیونکہ اندر سے یعنی آدمی کے دِل سے بُرے خیال نِکلتے ہیں ۔ حرام کارِیاں چورِیاں ۔ خُون ریزِیاں ۔ زِناکارِیاں ۔ لالچ ۔ بدیاں ۔ مکّر ۔ شہوَت پرستی ۔ بدنظری ۔ بدگوئی ۔ شیخی ۔ بیوُقُوفی۔ یہ سب بُری باتیں اندر سے نِکل کر آدمی کو ناپاک کرتی ہیں ۔ متی کی انجیل کے پانچویں بابکی  ۳ آیت سے ۹ تک لکھا ہے کہ مُبارک ہیں وہ جو دِل کے غرِیب ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُن ہی کی ہے مُبارک ہیں وہ جو غمگین ہیں کیونکہ وہ تسلّی پائیں گے مُبارک ہیں وہ جو حلِیم ہیں کیونکہ وہ زمِین کے وارِث ہوں گے مُبارک ہیں وہ جو راستبازی کے بُھوکے اور پِیاسے ہیں کیونکہ وہ آسُودہ ہوں گے مُبارک ہیں وہ جو رحمدِل ہیں کیونکہ اُن پر رحم کِیاجائے گا مُبارک ہیں وہ جو پاک دِل ہیں کیونکہ وہ خُدا کو دیکھیں گے مُبارک ہیں وہ جو صُلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خُدا کے بیٹے کہلائیں گے ۔ یہ بھی واضح ہو کہ عیسیٰ فریسی کاتبوں اور یہودی ہولویوں کو بار بار ملامت کر کے کہتا تھا کہ تمپر افسوس  کیونکہ تم اُن سفید قبروں کی مانند ہو جو باہر سے  سفید اور اندر سے مرُدونکی ہڈیوں اور ہر طرح کی آلودگی اور میل سے معمور ہیں کیونکہ تم رکابیوں کو باہر سے صاف کرتے ہو لیکن اندر سے نہیں ۔ پھر بیواؤں کے گھروں کو لوٹتے ہو۔ اور لوگوں کو فریب دینے کے لیے لمبی لمبی نمازیں پڑھتے ہو پھر پھر قرآن میں حج کا زکر بھی اکثر آیا ہے اور محمدی بھی حج کرنیکو بڑا ثواب سمجھتے ہیں ۔ میری دانست میں حج کرنا بیفایدہ ہے۔ حضرت عیسیٰ نے اُس سامری کو کیا عمدہ جواب دیا جب اُسنے اُسے پوچھا کہ ہم کس جگہ خدا کی بندگی کریں ۔ اُسنے فرمایا کہ دیکھ وہ وقت آتا  ہے کہ نہ تو اس  پہاڑ پر جس پر سامری  لوگ پرستش کرتے ہیں اور نہ بیت المقدس میں جہاں یہودی لوگ عبادت کرتے ہیں سچےّ پرستار پرستش کرینگے تم نہیں جانتے کہ تم کس کی بندگی کرتے ہو خدا روح ہے جو شخص روح  اور سچائی سے بندگی کرتا ہے وہ خدا کی بندگی کرتا ہے۔

اور قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا چھوٹے چھوٹے گناہوں سے چشم پوشی کرتا ہے مگر جو شخص لڑائی میں دشمن  کو پیٹھ  دکھلاوے یعنے بھاگ جاوے  وہ دوذخ میں ڈالاجاویگا۔اگر اِس بات کو دریافت کرنا ہو تو سورۃ انفال ۱۵ اور ۱۶ آیت کو دیکھیئے کہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ یعنےاے ایمانوالو جب بھڑو تم کافروں سے میدان جنگ میں تومت دو اُنکو پیتھ اور جو کوئی  اُنکو پیٹھ دے اُسدن مگر یہہ کہ ہنر کرتا ہولڑائی کا یا  جاملتا ہو فوج میں  سودہ لے پھرا غضب اﷲ کا اور ٹھکانا دوزخ ہے اور کیا برُی جگہ ٹھہرا۔ دیکھو جب عیسیٰ کے شاگردوں نے عیسیٰ سے پوچھا کہ خدا کی بادشاہت میں کون بڑا ہوگا اُسنے کیا عمدہ جواب دیا ۔ متی کی انجیل ۱۸ باب ۱ تا ۴ آیت میں لکھا ہے کہ یسوع نے ایک بچّے کو پاس بُلا کر اُسے اُن کے بِیچ میں کھڑا کِیا۔ اور کہا مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ اگر تُم توبہ نہ کرو اور بچّوں کی مانِند نہ بنو تو آسمان کی بادشاہی میں ہرگِز داخِل نہ ہو گے پس جو کوئی اپنے آپ کو اِس بچّے کی مانِند چھوٹا بنائے گاوُہی آسمان کی بادشاہی میں بڑا ہو گا۔  دیکھو قرآن میں کہا گیا ہے کہ بہشت میں بڑا  بدلا  کون پاویگا۔ دیکھو سورۃ نسا کی ۷۴ آیت وَمَن يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا یعنے اور جو کوئی لڑے اﷲ کے راہ میں پھر ماراجاوے یا غالب ہووے ہم دیوینگے اُسکو بڑا ثواب اور سب لوگ جانتے ہیں کہ جو لوگ سپاہ گری کرتے ہیں  وہ اکثر مغرور اور خونریز اور سنگدل ہوتے ہیں ۔ کب ہوسکتا ہے کہ ایسے لوگ بہشت میں سب سے افضل ہوں یہہ تو کبھی نہیں ہوسکتا بلکہ جسکے دل میں دینداری اور خدا ترسی خدا اور انسان کی محبت موجود ہے وہ کبھی ایسی بات پر یقین نہیں کریگا۔ پھر سورۃ مایدہ کی ۹۶ آیت يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ وَمَنْ عَادَ فَيَنتَقِمُ اللَّهُ مِنْهُ وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ یعنے اے ایمانوالو نہ مارو شکار جس وقت تم ہواحرام ہیں اور جو کوئی تم میں اُسکو مارے جانکر تو بدلہ ہی اُس مارینکے برابر مواشی ہیں سے وہ ٹھہراویں دو معتبر کہ تمھاری نیاز پہنچاویں کعبہ تک یا گناہ کا اُتاراہے کئی محتاج کا کھانا یا  اُسکے برابر روزے کہ چکھے سزا اپنے کام کی اﷲ نے معاف کیا جو ہوچکا اور جو کوئی پھر کریگا   بیر لیگا اﷲ اور اﷲ زبردست ہے بیر لینے والا۔ بھائیو جو شخص گناہ کی پلیدگی اور اور برائی کو جانتا ہے وہ کبھی نہیں  کہیگا کہ گناہ  غریبوں کے کھلانے پلانے سے معاف ہوجائیگا ۔ گناہ ایسی برُی چیز ہے کہ انسان کو دوزخ ہیں ڈالتی ہے ۔ دیکھو خدا  تعالیٰ نے یہودیوں گناہ کے حق میں کیا کہا یعنے وہ کام مت کرو جس سے میری  جان نفرت پکڑتی ہے۔ عزیزو گناہ ایسی برُی چیز  ہے جسکے سبب تمام دنیا بگڑ گئی اور ہر ایک بشر  موت کے سایہٰ کے نیچے آگیا اِسی کے سبب دوزخ تیار کئے گئے۔ پھر کب ہوسکتا ہے کہ محتاجوں اور غریبونکو کھلانے پیلانے سے کوئی بشر گناہ سے پاک و صاف ہوجاوے اگر اِسبات سے گناہ دور ہوجاوئے تو دولتمند لوگ جس قدر  چاہیں گناہ کریں کیونکہ وہ غریبونکو  بآسانی سیر کر سکتے ہیں اور پھر بہشت میں خدا کے ساتھ رہ سکتے ہیں اگر ایسی حا لت ہے تو  ہر ایک شخص خواہ کیسا ہی گنہگار  بہشت کی خوشی حاصل کر سکتا ہے پھر اِس سے خدا  کا انصاف  کہاں رہیگا کیونکہ دولتمند کیساہی گنہگار ہو غریبونکو  سیر کرنے سے بہشت میں جائے اور غریب  گنہگار  جو محتاجوں اور عاجزوں کے سیر کرنیکی قدرت نہیں رکھتا بہشت میں داخل نہ ہوئے  خدا تو کبھی ایسا حکم نہیں دیتا ۔ مگر اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس نے اِس آیت کو لکھا بیشک نہ تو وہ گناہ کی بُرائی   جانتا تھااور نہ خدا کی پاکیزگی ۔ گناہ سے پرہیز کرنا ہمپر بڑا فرض ہے اور غریبوں اور عاجزوں کی خبر لینی بھی واجب ہے مگر قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہم غریبوں کی خبر لیویں اور گناہ سے پرہیز نہ کریں تو کچھ مضایقہ نہیں ہے۔  قرآن میں بہت سی اُن رسومات کا زکر آتا  ہے جو توریت سے نکالی گئی ہیں جیسے وضوؔ کرنا قربانیؔ کرنا  ختنہؔ کرنا وغیرہ  مگر جب کبھی محمدیونسے پوچھا  جاتا ہے کہ ان رسموں سے کیا مراد ہے تب وہ کچھ بتلا سکتے جن لوگوں نے انجیل کو پڑھا ہے  اُنکو بخوبی معلوم ہے کہ یہ رسمیں خوب  عمدہ  معنی اور مطلب رکھتی ہیں  اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ محمد صاحب نے  اِن رسومات  کو مقرر کیا لیکن اِن کے روحانی مطلب کو نہ پایا کہ وہ  کونسی بات جس پر خدا تعالیٰ راضی ہے ۔ قرآن میں لکھا  ہے کہ رمضان کا سارا مھینادن کو روزے رکھو۔ اور رات کہ افطار کرو۔  اگر دریافت کرنا ہو تو  سورۃ  بقر کی ۸۵آیت مین دیکھو شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِفَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ یعنے  مہینہ رمضان  کا جس میں نازل ہوا قرآن  ہدایت واسطے لوگوں کے اور کھُلی نشانیاں راہ کی تیاری  اور فیصلہ پھر جو کوئی پاوے یہہ مہینا تو  روزے رکھے اس سے معلوم ہواکہ مصنف قرآن نہ جانتا تھا کہ روزے کے کیا معنے ہیں ۔ روزہ غم کا ایک نشانی ہے  نہ خوشی کا لیکن محمدیوں کی سمجھ میں قرآن کا آنا خوشی کی بات تھی نہ غم کی۔  محمدی یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ محمد صاحب خاتم المرسلیں اور قرآن روز  حشر تک رہیگا۔ اگر یہ حال ہوتا  تو قرآن میں ایسی عمدہ اور فایدہ مند تعلیمیں پائیجاتیں جو کسی دوسری کتاب میں نہوتیں ۔ وہ لوگ جو قرآن اور انجیل دونوں سے واقف ہیں بخوبی جانتے ہیں کہ قرآن  کی وہ باتیں جو ضروری ہیں سب کی سب بیبل میں پائیجاتی ہیں علیحدہ رکھ کر پھر قرآن کا بیبل  سے مقابلہ کرے تو قرآن ایسا نظر آوےجیسا گیہوں کے آگے بھوسہ ہوتا ہے۔ مصنف قرآن نے بہت سی باتیں انجیل سے نکالکر بہ سبب نہ سمجھنے کے بگاڑویں ہیں  مثلاً قربانیاں چڑھانیکا زکر ۔ روزہ رکھنا۔عیسیٰ کا روح اﷲ ہونا ۔ عیسیٰ کا مرنا اور آسمان پر چڑھ جانا  وغیرہ۔ پھر یہ بھی جاننا چاہیے کہ قرآن کے ماننے سے ہمارا کیسا مزاج ہوتا ہے ۔ عیسیٰ  نے فرمایا ہے کہ درخت  اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے ۔ یہبات سچ ہے ۔ وہ کتاب جس سے نیک مزاج پیدا نہیں ہوتی کلام اﷲ ثابت نہیں ہو سکتا اور وہ لوگ جو  انجیل کو خوب دل لگا کر پڑھتے ہیں وہ فوراً معلوم کر لیتے ہیں کہ انجیل کے ماننے سے ملایماور نیک مزاج پیدا ہوتا ہے۔

انجیل میں لکھا ہے کہ  اگر کوئی آدمی تمھاری بائیں گال پر طپانچہ  مارے تو دائیں بھی اُسکی طرف پھیر دے۔ خود محمدی اور ہندو  بھی اسکے گواہ ہیں کہ جب کبھی کوئی عیسائی وعظ کرتے ہوئے لوگوں کے ساتے اور وشنام دینے سے زرا خفا ہوجاتا ہے  تو سب لوگ اُس عیسائی کو کہتے  ہیں  بھائی خفا کیوں ہوتا ہے۔ دیکھ انجیل میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص تمپر غصے ہو تو اُسپر خفا مت  ہو اور اگر کوئی تمھاری ایک گال  پر طپانچہ مارے دوسری بھی اُسکی طرف پھیر دے ۔ اِن باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ انجیل بیشک خدا کا کلام  ہے مگرجو کوئی قرآن پڑھتا ہے اور عمل کرتا ہے  وہ بیشک سخت مزاج اور نفسانی ہو جاتا ہے کیونکہ قرآن سکھاتا ہئ کہ لوگوں کو حقیر جانو ۔ دشمنوں کو مار ڈالو۔ بردہ فروشی کرو۔ لونڈیوں کو رکھو۔ تین چار عورتوں کے ساتھ شادی ۔ بہشت میں نفسانی خوشیاں بھی تمھاری لیے ہونگی۔ بدلہ لو اور گناہ خیرات کرنے سے معاف  ہوسکتا ہے۔ پس وہ لوگ جس کے دل ایسی ایسی باتوں  معمور ہیں کبھی رحمؔ دل فروتؔن رحیمؔ مزاج ؔ خیر خواہ ؔ پرہیز گار اور غریب دل نہیں ہوتے۔ اگر کوئی اِس بات کو دریافت کرنا چاہے کہ محمدی دین سے ایسے مزاج جسکا زکر ہو چکا ہے پیدا ہوتی ہے یا نہیں تو    تواریخ کے پڑھنے سے معلوم کر لیوے۔ دیکھوابوبکرؔ ؔ عؔمر عثمانؔ  علیؔ  حسن اور حسین سب کے سب محمدیوں کے ہاتھ سے مارے گئےسب عالم جانتے کہ دین محمدی  کس طرح ابتدا  میں بزور شمشیرپھیلایا  گیا اور خاص کر کے محمود غزنوی اور نادر شاہ اوررنگ زیب نے ہندؤں کو کس عزاب سے مارا ۔ اگر کوئی شخص کہے کہ عیسائی برخلاف اپنی کتاب کے بطمح ملک گیری لڑتے ہیں لیکن محمدی خاص کر بموجب احکام   قرآنی مزہب کے واسطے لڑائی کرتے ہیں کیونکہ مسیح نے بالکل لڑنیکا  حکم نہیں دیا اور محمد صاحب تو خود جہاد کرنے کو جاتے تھے اگر کوئی محمدی اِس مضمون کو دیکھے اور  اُسکو قرآن کے کلام الہیٰ نہ ہونے کا کامل یقین ہوجاوے تو چاہیے کہ انجیل کو بھی دیکھے اور کلام الہی ٰ کو معلوم کرے۔ اگر کوئی شخص ہم سے یہ سوال کرے کہ جب قرآن میں بہت سی قباحتیں اور  بُرائییں پائی جاتی ہیں تو یہہ کس طرح اتنی مدت تک  بےشمار معزز قوموں پر غالب رہا۔ تو اِسکا جواب یہہ بہت  سی باتیں  کتاب  مقدس  یعنے کلام الہیٰ  میں سے نکالکر  اس میں مندرج کی گئی  ہیں چنانچہ اکثر باتیں نبیوں کی بابت خدا  کی ہستیؔ  صفاتؔ  خصلت  اور رازق کی بابت نیکی  اور بدی۔ اجر اور سزا کی بابت اسکے غالب آنے کا بھی باعث ہے کیونکہ یہہ  تمام مذکورہ باتیں  صرف کتاب مقدس یعنے بیبل سے لی گئیں ہیں ۔

پھر قرآن کے اکثر مضامین انسان کی نفسانی خصلت کو خوش کرتے ہیں چنانچہ بہشت کی چار خوشیونکا بیان ہے یعنے شراب  باغیحیے ابریشمی پوشاکیں اور عورتیں ۔ بیشک تمام عیاش اور  بدکرداروں کو ایسی خوشیا ں بہت ہی پسند آتی ہیں ۔ قطع نظر اس کے جب محمدی اور دلیلوں سے لاچار ہوئے  تو انہوں نے  تیخ  وتلوار کو اپنے مذہب کے پھیلانے کا خاص ذریعہ  ٹھہرایا  اور اسی کے خوف سے اکثروں  نے اِس دین  کو اختیار کیا ہے  البتہ اس قسم کی دلیل کا مقابلہ کرنا نہایت مشکل ہے  پھر جب اکثر   ناواقف محمدی یہہ دعوے کیا کرتے ہیں کہ ہمارا  مذہب دنیا کےکل مذہبوں کی نسبت  افضل و قوی ہے  یہہ اُنکی صریح غلطی ہے ۔ دیکھو عیسائی لوگ تیس کروڑ ہیں ۔ بدہ کے پچیس  کروڑ  ۔ ہنود  بیس کروڑ۔ محمدی بارہ کروڑ اور پچاس  لاکھ  اور اِن ملکوں میں جہاں  محمدی مذہب غالب ہے ۔ آزادی ۔  شائیستگی اور حکمت  کی بو بھی نہیں پائی جاتی۔  تمام شد