خط  اور اُس کا جواب

Letter and Reply

Published in Nur-i-Afshan July 1873
By Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

Letter Writing

جناب مخدوم بندہ پادری ویری صاحب مہتم مطبح امریکن تسلیم عرض کرتا  ہوں ۔ قبول فرمائے ایک سوال  کے شافی جواب کی آپ سے  بوجہ آپکی نہایت ذعلمی  کے امید قوی ہے لہذاذیل میں عرض کرتا ہوں  معہ جواب کے اخبار نور افشاںمیں طبع  فرمائیگا۔تو بندہ مشکور عنایت ہوگا۔

۱۔سوال ۔ انبیاءسابق از مسیح علیہ السلام کے مبعوث ہونیکا عالم اسباب میں علے العموم کیا نتیجہ حضرت آدم  علیہ السلام سے حضرت مسیح تک کسی کو خدا کی وحدانیت یا تثلیث یعنے کثرت فی الوحدت بزریعہ وحی کے بتلائی گئی۔  اور اگر تثلیث بتلائی گئی۔ تو کتاب سے ثبوت اور جس نبی کی کتاب سے ثبوت دیا جائے۔ اُس نبی کی امت اورمقلدونکے اُس مسئلہ سے فائیدہ نہ اُٹھانے کی وجہ اور اگر سوائے حضرت مسیح علیہ السلام  کے کسی نبی نے بالتصریح اپنے شاگرد ونکو یہ مسئلہ تثلیث بتلایا تو وہ  صورت مان لینے اور یقین کرینکے اُنکے شاگرد ونکی نجات اور حیات ابدی پانیکے مفصل اسباب۔ اور اگر وہ لوگ اِس مسئلہ سے مطلق لاعلم رہے۔ تو آیا من جانب اﷲبے علم رہے۔ بابقصور عقل  ۔  اور اگر وہ لوگ منجانب اﷲلاعلم رہے۔  اور کسی کو اِسکا علم نہیں دیا گیا تو اِنکے واسطے اﷲ پاک کی عدالت و رحم کے قائم  رہنے کی اور نجات پانیکی صورت کہ دراصل وہ اِس خاص صورت میں  مستحق نجات ہیں تبصرہ بدلائیل قویہ ارشاد فرمائیے۔ اور کسی آدمی   سے شریعت کی تکمیل ممکن ہو یا نہیں اور بعد وقوع شہادت مسیح علیہ السلام کے جن لوگوں نے خون حضرت مسیح علیہالسلام کو اپنے گناہونکا  کفارہ  یقین کیا۔ اُنکے سوائے کسی اور نبی کے مطیع الامر اور ایماندار امت کے لیے کفارہ حضرت مسیح کچھ مفید ونافع ہے۔ یا نہیں ۔ زیادہ  نیاز ۔

راقم بندہ  احمد حسن محمد ی ازمین  پوری 

سوال اول۔ انبیا   و سابق از مسیح علیہ السلام کے پیدا ہونے  کا عالم اسباب میں کیا نتیجہ۔

جواب۔ واضح ہو کہ لفظ  نبی عبرانی ہے۔ اور اِسکے معنے ہیں آئیندہ کے اور مخفی باتیں دیکھنے اور بتلانیوالا۔ زمانہ سلف میں خدا نے وقًتا فوقًتا نبیوں کو بھیجا ۔ تاکہ وہ انسان پر خدا کی مرضی ظاہر  کریں ۔ اور اُنکو  روحانی  تعلیم دیویں ۔ یہ لوگ خصوصاً یہودیوں میں پیدا ہوئے  اور اکثر اُنکو راہ راست بتلاتے رہے۔  اور نبوت  کرتے رہے۔ اگرچہ اِنکی تعلیم کئی قسم کی تھی ۔ لیکن  اُنکا خاص اور ضروری کام (جسکے لیے مبعوث  ہوئی) یہ تھا کہ نجات  کی بابت خوشخبریں سُنائیں۔ اور لوگوں کو نجات کی خبریں بتلائیں  مثلاً  نجات دہندہ آویگا۔  وہ کون ہو گا۔  کس قوم سے پیدا ہو گا۔ کب پیدا ہو گا۔ کہاں ہو گا۔ کسطرح پیداہو گا۔ کیا کیا کام کریگا۔ اور انسان کے واسطے تکلیف اٹھا کر کسطرح جان دیگا۔ اور پھر جی اُٹھے گا اور آسمان پر عروج فرمائے گا۔ اسلیے مسیح نے یہودیوں سے کہا ۔ تم نوشتوں میں ڈھونڈھتے ہو ۔ کیونکہ تم گمان کرتے ہو کہ اُنمیں تمہارے لیے ہمیشہ کی زندگی ہو اور یہ وہی ہیں  جو مجھ پر گواہی دیتے ہیں دیکھو یوحناّ کی انجیل پانچواں باب ۳۹ آیت اور اِسی مضمون پر پطرس حواری کا کلام ہے۔  اُسکا پہلا باب ۱۰۔ ۱۱۔۱۲۔ آیت اِسی نجات کی بابت اول نبیوں نے تلاش  اور تحقیق  کی۔ جنھوں نے اِس نعمت کی پیشین گوئی کی۔ جو تم پر ظاہر ہونیکو تھی۔ وہ اُسکے  تحقیق میں تھے  کہ مسیح کی روح جو اُنمیں تھی۔ جب مسیح کے دکھونکے اور اُسکے بعد جلال کے آگے گواہی دیتی تھی کسوِقت اور کسطرح کے زمانہ کا بیان کرتے تھے۔ سواَنپر یہ ظاہر ہوا کہ دے نہ اپنے بلکہ ہماری خدمت کے لیے جا ؔمیں کہتے تھے جنکی خبر ہمکو اُنکی معرفت ملی۔

اِن آیات سے صاف ظاہر ہے کہ زمانہ سلف میں جو نبی ہوئے اُنکے پیدا ہونیکا یہ نتیجہ تھا۔ کہ وہ مسیح ہر گواہی دیں۔ اور اُسکا حال ظاہر کریں ۔ اور لوگوں کو اُسکے زریعہ سے نجات  حاصل ہونیکی خبر دیں ۔ سمجھنے کے لیے اِس بیان پر غور کرنا چاہیے کہ دے خداوند یسوع مسیح کےگویا  مورخ تھے۔ اُسکی تواریخ اُنہوں نے الہام سے معلوم کر کے لکھی۔ بعض نبیوں کی کتابوں میں مسیح کی نسبت اسقدر پیشین گوئی درج ہے کہ وہ  انجیل نبی کہلاتے ہیں ۔  اُنمیں اور حواریوں میں صرٖ ٖف اتنا ہی فرق ہے کہ اُنکا بیان نسبت واقعات آئیندہ کے ہے اور حواریون کا نسبت بہ واقعات گزشتہ لیکن مطلب برابر ہے۔

۲۔سوال۔ حضرت آدم سے حضرت مسیح تک کسی کو خداکی وحدانیت  تا تثلیث یعنے کثرت فی الوحدت بزریعہ وحی بتلا ئی گئی۔  یا نہیں ۔ اور اگر نہیں بتلائی گئی توخدا کی کیا کیفیت اور الوہیت بتلائی گئی۔ اور اگر تثلیث بتائی گئی تو کتاب سے ثبوت۔

جواب ۔ اِس سوال میں کسقدر غلط فہمی ہوئی ہے۔ کیونکہ اِسمیں خدا    کی وحدانیت اور تثلیث  کو ضد خیال کیا گیاہے یہ نا درست ہے ۔ عیسائی خدا کو واحد مانتے ہیں۔ اور یقین رکھتے ہیں کہ خدا ایک ہے۔ لیکن اُس واحد خدا  میں تین اقنوم ہیں ۔ یعنے باپ بیٹا روح القدس یہ تین اقنوم ملکے ایک خدا ہے۔ یعنے خدا کی زات جو واحد ہے اُسمیں کثرت ہے۔ اور ایسا ہی تورات اور دیگر انبیاء کی کتب میں مسطر ہے ۔ خدا کی وحدانیت کا بہت جگہ بیان ہے اِسجگہ صرف  دو آیتیں پیش کی جاتی ہیں ۔ دیکھو موسےٰ کی پانچویں کتاب کے چٹھے باب کی ۴ ۔آیت سُن لے اے اسرائیل خداوند ہمارا خدا  کیا  خداوند ہے ۔ اور یسعیاہ  نبی کی ۴۵ باب کی ۵ آیت کہ میں ہی خداوند ہوں اور کوئی نہیں ۔ میرے سوا کوئی خداوند نہیں۔اِن آیات  سےخدا کی وحدانیت ثابت ہے۔

اب اُسکی زات واحد میں کثرت کے موجود ہونیکا ثبوت دیا جاتا ہے دیکھو کتاب  پیدائش  پھلا باب ۲۶ ۔ آیت ۔ تب خدا نے کہا کہ ہم  انسان کو اپنی سیرت اور اپنی مانند بناویں۔ تیسرا باب ۲۲۔ آیت اور خداوند نے کہا کہ دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہوگیا۔ گیارہ باب ۷آیت  خداوند نے کہا آؤ ہم اُتریں اور اُنکی بولی میں اختلاف ڈالیں تاکہ دے ایک دوسرے کی بات سمجھیں یسعیاہ نبی کی کتاب ۶باب ۸ آیت جسمیں  نبی فرماتا ہے ۔ اِسوقت میں نے خداوند کی آواز سنُی۔جو بولا۔ کہ میں کسکو بھیجوں ۔ اور ہماری طرف سے کون جاویگا۔

اِن آیتیونکے الفاظ اور اُنکے ضمائیرکی طرف توجہ کر دی پہلی  آیت میں ہم  کا لفظ مستمعل ہوا ہے ۔ جو جمع کے لیے بولا جاتا ہے۔ اور دوسری آیت میں بھی ۔ لیکن دوسری آیت کے یہ الفاظ ۔ ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا   کسِ صفائی سے بیان کرتے ہیں خدا کی زات میں کثرت ہے اور کچھ شک و شبہ کی جگہ نہیں رہتی۔

اور تیسری آیت میں ہے۔ آؤ ہم اُتریں اِس آیت میں بھی جمع کا لفظ مستمعل ہوا ہے لیکن سواء اِسکے آؤ کے لفظ سے معلوم  ہوتا ہے کہ وہ کسی کو خطاب  کر رہا ہے۔ وہ اِس کی زات کا ضرور دوسرا اقنوم ہے۔

چوتھی آیت میں ہے کہ میں کسکو بھیجوں اور ہماری طرف سے کون جاوے گا اِس میں سواضمائیر کے طرزکلام سے  مفہوم ہوتا ہے کہ خدا کی زات میں کثرت فی  الوحدت آیات  صدر سے بخوبی ظاہر ہے کہ خدا کی زات میں کثرت ہے۔

اب اس امر کا بیان کیا جاتا ہے کہ اُسکی زات میں تثلیث ہی ہے۔ اور اُسکی زات میں تین ہی اقنوم ہیں ۔ یہ بیان یوں ہے پھر عہد عتیق کی کتابوں سے صاف  معلوم ہوتا ہے کہ مسیح  جو نجات دہندہ ہوکے دنیا میں پیدا ہوگیااس میں الوہیت ہے  دیکھو ۱۱۰زبور پہلی آیت میں دأود یوں کہتا ہے ۔ خداوند نے میرے خداوند  کو  فرمایا کہ تو میرےدہنیں ہاتھ بیٹھ۔ ۴۵ زبور ۶۔۷ آیت۔ تیرا تخت اے خدا  ابد الااباد  ہے تیری سلطنت کا عصا راستی کا عصا ہے۔ تو صداقت کا دوست اور شرارت کا دشمن ہے۔ اِس سبب خدا  تیرے خدا نے  تجھے   خوشی کے تیل سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ مسح کیا ہے۔ ان دو  آیتوں   میں مسیح کی نسبت یوں لکھا ہے ۔ اے خدا  تیرے  خدا نے تجھکو مسح کیا ۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح میں الوہیت تھی۔ اور واضح ہو کہ اِن آیات میں خدا لفظ یہوداہ کا تر جمہ ہے جو عبرانی لفظ ہے۔اور یہوداہ کا لفظ اُور کسی پرسوائے خدا  کے استعمال نہیں کیا جاتا۔

پھر دیکھو یسعیا نبی کی کتاب نبوت ۹ باب۶ آیت ہمارے لیے ایک لڑکا تولد ہوتا اور ہمکو ایک بیٹا بخشاگیا اور سلطنت اُسکے کا ندھے پر ہوگئ۔ اور وہ اِس  نام سے کہلاتا ہے۔ عجیب مشیر خدا  قادر اسی سے  صاف ظاہر ہے کہ نجات دہندہ (جسکی نسبت نبوت ہے) اُسمیں الوہیت ہوگی۔  یسعیا۷ باب۱۴ آیت دیکھو  ایک کنواری حاملہ ہوگی۔  اور بیٹ جنے گی۔  اور اُسکا نام  عمانوئیل ہوگا  یعنے  خدا ہمارے ساتھ ۔ اِس سے ظاہر  ہے کہ نجات دینے والا  جو پیدا     ہو گا۔ وہ  الوہیت رکہے گا۔ کیونکہ  وہ عمانوئیل کہلاویگا۔ جسکے  معنے ہیں انسان میں خدا  یرمیاہ نبی کی کتاب ۲۳ باب ۶ آیت دونوں  میں یہوداہ نجات پاویگا اور اسرائیل سلامتی  سے سکونت کریگا۔ اور اِسکا نام رکھاجاویگا  خداوند ہماری صداقت لفظ  خداوند (جو یہوداہ کا ترجمہ ہے ۔ اور صرف خدا پر اُسکا  اطلاق ہوتا ہے مسیح کی نسبت اِسجگہ آیا ۔ اور ظاہر کرتا ہے کہ اُسمیں الوہیت تھی۔ 

دوسرا  تورات اور کتب انبیا سے صاف ظاہر ہے۔ کہ روح القدس میں بھی الوہیت ہے۔ موسیٰ کی پہلی  کتاب پہلا باب  ۲ آیت اور ابتدا میں  خدا کی روح  پانیوں پر جنبش کرتی تھی ۔ یہاں ازلیت ( جو خدا کی صفت ہے ) روح القدس کی نسبت بیان ہو یٰ ۱۳۹زبور ۷ آیت تیری  روح سے میں کدھر جاؤں اور تیری حضوری سے میں کہاں بھاگوں ۔  اگر میں آسمان کے اوپر چڑھ  جاؤں  تو تو وہاں۔ اگر میں پتال میں اپنا  بستر بچھاؤں تو دیکھ تو وہاں بھی ہے۔ اِن آیات میں روح القدس کا ہر جگہ موجود ہونا  (جو صرف خدا کی صفت ہے)بیان ہوا  ایوب کی کتاب ۲۶باب ۱۳ آیت اُسنے اپنی  روح سے آسمانوں کو آرائیش دی ہے۔ اسجگہ روح القدس کا خالق  ہونا بیان کیا گیا ہے۔ یسعیانبی ۴۸باب ۱۶آیت ۔ تم میرے نزدیک آؤ۔ اور سنو مینے شروع ہی سے پوشیدگی میں کچھ نہیں کہا۔ جسوقت سے کہ وہ تھا۔ میں وہیں تھا۔ اور اب خداوند یہوداہ نے اور اُسکی روح نے مجھے بھیجا  ہے۔  خداوند  تیرا نجات دینے والا اسرائیل   کا قدوس یوں فرماتا ہے۔ اِس آیت میں نبی کا بھیجنا خدا اوراُس کی روح  سے ثابت ہے۔  سوا اِس کے اور آیات بھی بکثرت ہیں ۔ جن میں میں تثلیث کا اشارہ اور بیان ہے۔ پر ہم اِسی پر  اکتفا کرتے ہیں۔ کیونکہ ثبوت کے طور پر یہی کافی ہیں۔ 

یاد رکھنا  چاہیے کہ تثلیث کا پورا  اور صاٖٖف بیان مسیح کے آنے سے لوگوں پر ظاہر ہوا۔  اور اُسکا ثبوت بکثرت انجیل سے دیا جاسکتا  ہے۔ الہام  نجات کی نسبت سورج کی روشنی کی مانند ہے۔ جسکی تاپش اور جلوہ صبح   کیوقت   تھوڑا اور دھیماہوتا ہے  پھر اُس سے زیادہ  جوں جوں دِن بڑھتا جاتا ہے سورج کی روشنی بھی تیز ہوتی جاتی ہے اور دوپہر تک   کمالیت کو پہنچ جاتی ہے۔ اِسی طرح الہام کا حال ہے۔ خدا کی زات اور صٖفات  اور نجات دینے والے کا احوال تو رات میں نہایت تھوڑا ہے۔ رفتہ رفتہ کتب انبیاء میں اُس سے زیادہ ہے۔ اورسب سے بڑھکر اِنجیل میں راستبازی کا  سورج کہلاتا  ہے۔

۳۔ سوال۔ جس نبی کی کتاب میں تثلیث کا زکر ہے اُسکی اُمت اور مقلدونکےاُس مسئلہ سے فایدہ نہ اُٹھانے کی وجہ۔

جواب۔ پیشتر لکھا گیا کہ عہد عتیق کی کتابوں میں تثلیث  بیان ہے۔اور کثرت   فی الوحدت کا زکر اُنمیں پایا جاتا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی اُمت کو ضرور اِس مسئلہ کی خبر ہو گی۔کیونکہ جس کتاب پر وہ  اعتقاد رکھتے ہیں  اُس میں یہ امر مندرج تھا۔ اور اُنکی تعلیم میں تھا۔

اور نیز بعض بعض یہودی عالمو ں کی کتابوں میں جو موجود ہیں جگہ جگہ اِس کا اشارہ ہے۔ گو اسقدر صفائی  سے نہیں جیسا کہ انجیل میں ہے۔ اور اِس کا سبب یہ تھا کہ اُن کو پوری صفائی  سے خبر نہیں تھی۔

۴۔سوال۔ کسی نبی نے  بالتضریح   اپنے شاگرد وں کو یہ مسئلہ تثلیث بتلا یا تو درصورت مان لینےاور یقین   کرنے کے اُن کے شاگردوں  کی نجات اور حیات ابدی پانے مفصل اسباب۔

یہ سوال ۔ ہل ہی اچھی طرح مافی الّضمیرسائیل سمجھا نہیں گیا  لیکن تاہم  جسقدر سمجھا گیا  اُسکا جواب لکھا جاتا ہے۔  پیشتر بیان کر دیا گیا نبیوں نے جگہ جگہ تثلیث کا بیان کیا۔ اور اُس سے یہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ اُنکے شاگردوں کہ خبر تھی ۔ اور واضح ہو کہ صرف تثلیث پر اعتقادکرنے سے نجات ممکن  نہیں۔ بلکہ تثلیث  تو صرف خدا کی زات کا بیان ہے  مسیح پر ایمان  لانے سے ہماری  نجات ممکن ہے اوراُسکے کفارہ پر یقین کرنے سے ہماری نجات ہے مائیبل کی تعلیم ہے کہ سوائے مسیح کے نام کے اور کسی دوسرے سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں  کو کوئی دوسرا نام بخشا نہیں گیا۔ جس سے ہم نجات پا سکیں ۔ یہ اصول   نجات کا نہ صرف انجیل میں ہے بلکہ عہد عتیق میں بھی یہی تھا۔ فرق صرف اسقدر ہے کہ عہد عتیق میں  جو لوگ ہوئے وہ آنیوالے مسیح پر ایمان رکھتے تھے۔ اور عہد جدید کے اُس مسیح پر جو آچکا  ہے ۔ لیکن دو نو عہد کے لوگونکے نجات کا طریق صرف ایک ہی ہے ۔ یعنے ایمان خداوند یسوع  مسیح  اور اُسکے کفارہ ۔

۵۔سوال۔  اگر وہ لوگ اِس مسئلہ سے لاعلم رہے۔  تو ایامن جانب اﷲ سے یا بقصور عقل ۔ اگر من جانب اﷲرہے تو اُنکی نجات کی صورت۔

جواب۔ اِسکے جواب کی ضرورت نہیں کیونکہ پیشتر لکھاجاچکا۔ کہ وہ لاعلم نہیں رہے۔

۶۔سوال۔ کسی  آدمی سے شریعت الہٰی کی تکمیل ممکن ہے یا نہیں۔

جواب۔ عیسائی مذہب کی تعلیم یہ ہے کہ شریعت کی پوری تعمیل کسی آدمی سے نہیں ہوسکتی جابجا انجیل میں بیان ہے کہ کل انسان خدا کے  حضور گنھگار ہیں۔ اِس کلام سے کوئی شخص مستثنےٰ نہیں ۔ جامۂ انسانیت میں آکر صرف مسیح گناہ سے خالی رہا ۔ دیکھو رومیوں کا خط ۳ باب ۱۰ آیت کوئی راستباز  نہیں ۔ ایک بھی نہیں ۔ کوئی سمجھنے والا نہیں۔  کوئی خدا کا طالب نہیں۔ سب گمراہ ہیں۔ سب کے سب نکمے ہیں ۔ کوئی نیکوکار نہیں۔ ایک بھی نہیں۔ اِسی  مضمون پر ۱۴زبور اور ۵۳ زبورکی گواہی ہے۔ اور ایسا تجربہ سےپایا جاتا  ہے  چنانچہ ہر ایک زمانہ کے بڑے بڑے دیندار اور خدا پرست لوگ  (جنکی تمام زندگی پاکیزگی اور راستبازی میں بسر ہوئی) اقراری ہیں کہ ہم گنہگار ہیں۔ دیکھو ۵۱زبور جسمیں دأود پیغمبر یوں فرماتا  ہے۔ اے خدا اپنی رحم دلی کے مطابق مجھ پرشفقت دی۔ اپنی رحمتونکی کثرت کے مطابق میرے گناہ مٹا دے۔ میری برُائی سے مجھے خوب دھو اور میری خطا سے مجھے پاک کر۔ میں اپنے گناہوں کو مان لیتا ہوں۔ اور میرے خطا ہمیشہ میرے سامنےہیں۔ میں نے تیرا ہی گناہ کیا ہے۔اور تیر ے ہی سزا ابدی کی ہے۔  دیکھ میں نے برائی میں صورت پکڑی اور گناہ کے ساتھ میری ماں نے پیٹ میں لیا۔ دیکھ تو اندر کی سچائی چاہتا ہے سو باطن میں مجھکو دانائی سکھلا۔ زوفہ سے مجھے پاک  کر۔ کہ میں صاف ہوجاؤں ۔ مجھکو دھو۔ کہ میں برف سے زیادہ سفید ہوجاؤں ۔ میرے گناہ سے چشم پوشی کر۔ اور میری ساری برُائی مٹا ڈال۔ اے خدا میرے اندر ایک پاک دل پیدا کر۔ اور ایک مستقیم روح میرے باطن میں نئے سر سی ڈال وغیرہ۔ پھر ۱۹۔ زبور میں وہ یوں کہتا ہے کہ اپنی بھول  چوکوں کو کون جان سکتا ہے ۔ اے خدا تو مجھ کو کناہ پنہانی سے پاک کر۔ اور دانیال  نبی ۹ باب میں اپنی کتاب کے یوں کہتا ہے کہ ہمنے خطا کی۔  کہ ہمنے بدکاری کی۔ ہمنے شرارت کی۔ ہمنے بغاوت کی۔ کہ ہمنے تیرے حکموں اور تیری سنتوں  سے عدول کیا۔ اے خداوند زردوری ہمارے لیے ہے ہم ہر گز خداوند اپنے خدا کی آواز سے شنوا نہوئے۔ کہ اُسکی شریعتوں پر جنھیں اُسنے اپنے خدمتگزار نبیوں کی معرفت ظاہر کیا ۔ چلین وغیرہ ۔ پولوس رسول جو راستباز ی اور نیکی میں مشہور تھااپنی نسبت یوں کہتا ہے ۔ کہ  یہ دیانت کی بات با لکل پسند کے لائق ہے کہ مسیح دنیا  میں گنہگارونکے بچانے کو آیا اور میں اُن سب میں زیادہ گنہگار ہوں۔ جبکہ دنیا کے ایسے پاکباز  اور نیک آدمی اپنی نسبت یوں کہتے ہیں تو عام لوگونکا (جو کہ علانیہ گناہوں میں گرفتار ہیں)کیا ٹھکانہ۔ اِس بات کے فیصلے کرنیکے واسطے ہمکو یاد رکھناچاہیے ۔ (۱)کہ انسان اپنی زاتی حالت میں نہیں ہےیعنے  جس حالت میں اُسے خدا  نے پیدا کیا تھا اُسمیں نہیں رہا  خدا کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان خدا کی شکل پر بنایا گیا تھا۔ یعنے جیسا خدا پاک اور راستباز پاکیزگی اور راستی سے معمور اور گنہ مترہ ہے ۔ ویسا ہی پہلا انسان تھا لیکن تھوڑے عرصے بعد شیطان کے دام فریب میں آکر گناہ کے پھندے میں پھنس گیا اور اپنی اصلی حالت سےجوراستی اور خوشی کی حالت تھی دور جا پڑا۔ تب سے کل انسانکےدلوں میں گناہ کی گڑہ قائم ہوگئی۔

کیونکہ اُس  انسان کی اولاد  میں سے ہیں جسنےابتدا میں گناہ کیا۔اور اُسی کی سی طبیعت اور اُسی کی سی  زات  رکھتے  ہیں ۔ اسی لیے دأود پیغمبر ۵۸ زبور میں یوں فرماتا ہے ۔ اہل شرارت رحم سے بیگانہ ہوتے ہیں ۔ وے پیدا ہوتے ہی بھٹک جاتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں ۔اُنکا زہر سانپ کا سازہر ہے۔ وے اُس بہر ہ ناگ کی مانند ہیں جو اپنے کان کو بند کر رکھتے ہیں اگر انسان اپنی ابتدا ئی حالت میں رہتا تو بے شک شریعت کی تکمیل کر سکتا۔ چونکہ اُس حالت میں نہیں رہا بلکہ زاتی اور طبعی برائی میں پھنس گیا۔ اور اُس کی خلقت میں ہی گناہ اثر کر گیا تو اُسکے لیے شریعت کی تکمیل کرنا ناممکن ہے اور اِسی لیے مسیح خداوند کہتا ہے کہ میں سچ کہتا ہوں اگر کوئی سرنوپیدا نہوتو وہ خدا کی بادشاہت کو دیکھ نہیں سکتا۔ اگر آدمی پانی  اور روح سے پیدا نہووےتو خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ (۲)بات جس پر غور کرنا مناسب ہے یہ ہے کہ شریعت کے دو حصے ہیں ایک لفظی دوسرے معنوی لفظی معنونکے مطابق شریعت  کی تعمیل کرناانسان کے لیے محال نہیں ہے بلکہ ایسے بہت انسان ہیں جو کر سکتے ہیں ۔ مثلاً  ایسے بہت اشخاص ہیں جو چوری نہیں کرتے  زنا کی طرف مائل نہیں ہوتے  قتل کا ارتکاب نہیں کرتے ۔ اور احکام شریعت پر ظاہر اکاربندہوتے ہیں لیکن اگر اِنکے اُن روحانی معنے کیطرف خیال کیا جاوے تو کوئی شخص اِن سے یعنے الزام چوری وغیرہ  سے  بری  نہیں رہ سکتا مسیح خداوند فرماتا ہے کہ تم سُن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیاتو خون مت کر۔ اور جو کوئی خون کرئے وہ عدالت میں سزا کے لائق ہوگا۔ پر میں تمہیں کہتاہوں کہ جو کوئی اپنے بھائی پر بےسبب غّصہ ہو عدالت میں سزا کے قابل ہوگا۔ تم سن چکے ہو اگلوں سے کہاگیا۔زنا مت  کر۔ پر میں تمہیں کہتا ہوں  کہ جو کوئی  شہوت سےکسی عورت پر نگاہ کرے۔ وہ اپنے دل میں اُسکے ساتھ زناکر چکا۔ اِس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کے احکام نہ صرف ہمارے ظاہری کاموں پر اثر کرتے ہیں بلکہ ہمارے دل کی حالت سے بھی تعلق رکھتے ہیں واضح ہوکہ خدا دل اور گردوں کا جانچنے والا۔ اور عالم الغیب ہے اگر کوئی ظاہر اخلقت کے سامھنے گناہ کا مرتکب نہووے تو وہ دنیا کی نظر میں گناہ اور شرمندگی ظاہری سے بری خیال کیا جاویگالیکن دلی خیالات اور باطنی ارادونکے سبب وہ خدا کے حضور گناہ سے مستثنےٰنہیں رہ سکتا ۔ مثلاً اگر کوئی بظاہر خون نہ کرئے تو وہ خلقت کے نزدیک خونی تصور ہوویگا۔ لیکن اگر خونی کی سی طبیعت رکھے تو خدا کے حضور خونی ہوچکا۔ اورایسا ہی اگر بظاہر زنا کاارتکاب نکرےلیکن دلمیں خیالات فاسد ہ شہوت انگیز پیدا ہوں تو گو خلقت کے نزدیک وہ زانی نہیں شمار کیا جاویگا لیکن خدا کے حضور وہ گناہ گار ہے ۔اور ایسا  ہی چور اگر اِن معنونکے ترازومیں ہم اپنے آپکو تولیں تو ہمکو آپ ہی معلوم ہوجاویگاکہ شریعت کی پوری تعمیل نہایت ناممکن ہے۔ اور کوئی ایسا انسان نہیں ۔ جو اِس سے عہدہ برارہوسکے مسیح خداوند نے ساری شریعت کا  مجموعہ دو کلام میں ختم کیا۔ یعنے (۱)تو خداوند کو جو تیرا خدا ہے اپنے سارے دل سے اور اپنی  ساری جان سے اور اپنے ساری عقل سے اور اپنے سارے زور سے پیار کر۔اول حکم یہ ہی ہے۔ (۲)تو اپنے پڑوسی کہ اپنے برابر پیار کر۔ اِن سے بڑا  اور کوئی حکم نہیں ۔مرقس ۱۲باب ۳۰۔۳۱۔ آیت اب کون انسان کہ سکتا ہے کہ میں سارے دل وغیرہ سے خدا کو پیار کرتا ہوں۔ اور پڑوسی کو اپنے برابر عزیز جانتاہوں  اگر کوئی ایسا دعوے کرے تو یہ کہاجاویگا کہ وہ اپنی دلی حالت سے خبردار نہیں ۔ یہ تجربہ کی بات ہے کہ آدمی جسقدر پاکیزگی میں ترقی کرتا ہے ۔ اُسی قدر وہ اپنی  نالیاقتی اور گناہ سے واقف ہو کر اپنے گناہونکااقرار کرتا ہے صرف بیوقوف لوگ کہتے ہیں کہ ہم گناہ گار  نہیں ۔ جسکے دل کی آنکھیں بند ہیں وہی اپنے   کی برائی سے ناواقف ہے۔

۷سوال۔ سوائے اُن لوگونکے جو مسیح کے کفارہ پر ایمان لائے اور پیغمبروں کی اُمتوں اور اَور لوگونکے لیے بھی مسیح کا کچھ مفید ہے یا نہیں۔

جواب۔ واضح ہو کہ جتنے نبی اور پیغمبر دنیا میں آئے سب کے سب مسیح پر ایمان رکھتے تھے۔ اور مسیح کے وسیلے سے نجات کے امیدوار تھےاور اپنی امت کو بھی یہی تعلیم دیتے رہے ۔ اس لیے مسیح خداوند کہتا ہے یوّحنا کی انجیل پانچواں باب۳۹ آیت ۔ تم نوشتو میں ڈھونڈھتےہو ۔ کیونکہ تم گمان کرتے ہو کہ اُن میں تمھارے لیے ہمیشہ کی زندگی ہے۔ اور یہ وہ ہی ہیں جو مجھپر گواہی دیتے ہیں ۔ اور پطرس رسول پہلے خط پہلے باب کی دسویں آیت میں یوں کہتا ہے ۔ اسے نجات کی بابت نبیوں نے تلاش اور تحقیق کی جنھوں نے اُس نعمت کی پیشین گوئی کی ۔ جو تم پر ظاہر ہونے کو تھی غرض جتنے نبی مسیح سے پیشتر عرصہ وجود میں آئے۔ اُنھوں نے مسیح کی بابت شہادت دی اور اپنی امتونکا دل اُسکی طرف رجوع کیا ۔ اسواسطے جسقدر سچی امت انبیا سابق کی تھی وہ مسیح پر ایمان اور بھروسہ رکھکے  اُسکے وسیلے سے نجات کے امیدوار رہےیہ تو ہم کہتے ہیں کہ خداوند یسوع مسیح کل دنیا کے گناہونکا کفارہ ہوا لیکن اِسکے ساتھ ہمارایہ بھی قول ہے کہ اُس کفارہ سے متمتع ہونے اور فایدہ اُٹھانیکے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اسپر ایمان لاوے یعنے نجات حاصل کرنیکے کے لیے مسیح پر ایمان لانا شرط ہے دیکھو یوّحنا ۳ باب ۱۶۔ ۱۸۔ ۳۶۔ آیت کے خداوند جہان کو ایسا پیار کیا کہ اُسنے اپنا اکلوتا بیٹا  بخشاتاکہ جو کوئی  اُسپر ایمان لاوے ہلاک نہووے بلکہ ہمیشہ کی زندگی پاوے۔ جو اُسپر ایمان لاتا  ہے اُسکے واسطے سزاکا حکم ہوچکا  کیونکہ وہ خدا کے اکلوتے بیٹے  کے نام  پر ایمان نہ لائے۔ جو کہ بیٹے پر ایمان لاتا ہے ۔ ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے  اور جو بیٹے پر ایمان  نہیں لاتاہے۔ حیات کو نہ دیکھگا بلکہ خدا کا قہر اُسپر رہتا ہے اور اِسی مضموں  پر انجیل میں سیکڑوں آیتیں موجود ہیں اور اُن سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کے آدمی  ایمان سے راستباز ٹھرتا ہے۔ اور اعمال  نجات کے لیے کافی نہیں ۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ مسیح دنیا کے لیے کفارہ ہوا تو اُسکا  یہی مطلب ہے کہ خداوند یسوع مسیح کا کفارہ   بجہ ہے۔ اور ساری دنیا  کے سارے لوگ اُسمیں شامل ہو سکتے ہیں ۔ وہ سب کی نجات کے لیے موجود ہے اور سب کو دعوت دیتا ہے۔ کہ اگر اُسمیں شریک ہوویں ۔ اور مسیح کا کفارہ ایک بڑی ضیافت کی مانند ہے کہ سارے  بھوکھوں اور پیاسونکےکے لیے تیار کی گئی ہے کہ آکر اُسمیں سے تمتع پاویں۔ اِس ضیافت کا صرف نام سنناکافی نہیں بلکہ یہ ضرور ہے کہ ہر ایک انسان اس میں شریک ہووے مسیحی نجات  میں انسان جیسے ہی شامل ہوسکتا ہے جبکہ ایمان سے اُسے قبول کرے۔ مسیحی نجات کے لیے سمجھنے کے لیے میں ایک مثال دیتا ہوں۔ مثلاً ایک کشتی جسمیں صدہا آدمی سوار تھے غرق آب ہوگئی اور آدمی ڈوب گئے کوئی رحیم الطبع اور رحمدل جو اُنکی حالت کو دیکھ رہا تھا  دوسری کشتی پر سوار ہو کر آیا ۔  اور اُس نے رسئے چاروں طرف ڈال دئیے اور آواز دی  کہ جسنے بچنا ہو وہ رسؤں کو پکڑ لیوے ۔ جسنے پکڑا   وہ بچ گیا۔ ایسے ہی وہ شخص یسوع مسیح کا خیال کر لو ۔ جو غرق شدگان دریے عصیان کو بجانے کے لیے آیا۔  اور وہ رسئے ایمان ہیں جسنے اُسے پکڑا اُسنے نجات پائی۔ نجات کی کشتی تو موجود ہی اور نجات دہندہ بھی اُسمیں ہے۔ اور رحم دلی غرق شدگان دریائے عصیان کو اُسپر سوار ہونے کے لیے آواز دے دی ہے  لیکن وہی  نجات کو حا صل کر سکتا ہے کہ رسۂ پکڑ کے کشتی پر سوار ہووے۔