Jesus Carrying the Cross

 

Dr. Imad ul-din Lahiz

مسیح کا عالم ارواح میں جانا

عماد الدین لاہز


Rev. Mawlawi Dr.Imad ud-din Lahiz

1830−1900

Jesus Descend into Sheol


Published in Nur-i-Afshan January 15, 1897


یہ بات سب اہل بیبل با اتفاق مانتے ہیں اور واجب ہے کہ سب قبول کریں کہ کوئی ایسی جگہ  ہے جہاں سب آدمیوں  کی روحیں جاتی ہیں اور قیامت تک وہاںمحفوظ  ہیں۔ مسیحی کلیسیا کا شروع سے یہ خیال چلا آتا ہے کہ ہمارے خداوند مسیح کی روح بھی بعد موت اُس جہان میں گئی تھی جس کا   نام عالم  ارواح یا عالم غیب ہے مگر عرصہ چار سو برس سے بعض مسیحی لوگ یوں لکھنے لگے کہ مسیح کی روح وہاں نہیں گئی۔    لیکن ہم  جو چرچ انگلینڈ کے ممبر ہیں ہمارا اعتقاد(بااتفاق  کلیسیاء قدیم اور بعض آیات کلام  آیات  اور کے مطابق یوں ہے کہ ضرور مسیح کی روح وہاں گئی تھی۔ اور کلیسیا   کے پہلے خادم الدین پطرس  رسول کا بھی یہی اعتقاد تھا جو ہمارا اعتقاد ہے کیونکہ اُس نے پنتیکوست کےدن اپنے وعظ میں صاف صاف اسبات کا اظہار کر دیا تھا ( اعمال ۲۔ ۳۱) کہ اُس کی جان عالم ارواح میں چھوڑی نہ گئی نہ اُس کا بدن سڑنے پایا یعنے اُس کی جان جو عالم ارواح میں گئی تھی وہاں ہمیشہ رہنے کے لئے  چھوڑی نہ گئی بلکہ واپس بدن میں آگئی تھی۔ جس لفظ کا ترجمہ  زبور ۱۶۔ ۱۰ میں عالم ارواح یا عالم  ہوتا ہے وہ لفظ شئول ہے اور یونانی  ہے اور یونانی میں ہادیس ترجمہ ہوتا  ہے اور لفظ  شئوُل  جیسے زبور ۱۶۔ ۱۰ میں بھی عالم ارواح آیا ہے ویسے ہی ( ایوب ۲۶: ۶ ، یسعیاہ ۵: ۱۴، ۱۴: ۹)  میں بھی موجود ہے اور ہر کہیں اُس کا ترجمہ پاتال یا اسفل یا ہادیہ بمغے دوزخ کا غار ہوتا ہے اور زکر آتا ہے کہ بعد موت روحیں وہاں جاتی ہیں ظاہر ہے کہ قبروں  میں  صرف مرُدہ بدن جاتے ہیں نہ روحیں اور پطرس نے صاف کہدیا کہ مسیح کی جان شئوُل  میں چھوڑی نہ گئی یعنے وہاں ہو کے واپس آئی۔ اور پولوس رسول نے ( افسی ۴: ۹)  میں کہنا کہ مسیح زمین کے نیچے اُترا  تھا  یعنے اسفل میں جو پاتال ہے لفظ نیچے سے مراد شئُول ہے نہ قبر کیونکہ  قبر میں بدن  دفن ہوتا ہے نہ روح جو حال سب آدمیوں کا موت میں ہوتا ہے وہی مسیح کا بھی ہوا فرق اتنا ہے کہ وہ پاتال کے قبضہ میں نہ رہا۔ تیسرے دن نکل  ( ف) کیا سبب ہے کہ بعض بھائیوں  نے اِس  بچھلے زمانہ میں مسیح کے وہاں جانے کا انکار کرنا شروع کیا ہے جو محض  خلاف  عقل اور نقل کے ہے شاید اِس لئے کہ اِس خیا ل سے رومن کیتھولک نے پر گڑی کا خیال نکالا ہے اِس لئے کہ مسیح کو گویا و عزت  دینا چاہتا ہیں کہ وہ پاتال  میں نہیں گیا۔  عزت تو مسیح کی اِس میں زیادہ ہے کہ وہ گیا لیکن اِسبات پر گور  واجب ہے کہ کیا کوئی آیت کلام میں ایسی ہے جس پر اُن کے اِنکار کی بنا قایم ہوتی ہے یا نہیں۔ ہاں ایک مقام ہے کہ مسیح نے چور سے کہا آج تو میرے ساتھ بہشت میں  ہو گا ۔ پس مسیح بعدموت بہشت میں گہا ہو گا نہ عالم ارواح میں۔  لیکن چور والی  آیت سے یہ  خیال نہیں نکلتا اُس کی مرُاد یہی تھی کہ تو آج  ہی میرے لوگوں میں شمات ہو کے بہشت میں جائیگا کیونکہ چور کی درخواست   یو ں تھی کہ جب کھبی  تو اپنی بادشاہی میں  آوے مجھے یاد کیجیو، اِ س کے جواب میں کہا گیا کہ جب کبھی کا کیا زکر ہے بلکہ  آج  ہی تو بہشت میں ہوگا۔ اور لفظ میرے  ساتھ اُسی معنے سےہے جیسے ہم سے بھی کہا  گیا کہ میں زمانہ کے آخر  تک ہر روز تمھارے  ساتھ ہوں۔ ( متی ۲۸: ۲۹)  اور جیسے ہم بھی مسیح کے ساتھ جی اُٹھکے  آسممانی مکانوں میں بیٹھتے ہیں (۱ فسی۲: ۶ ) پس یہ روحانی  رفاقت  ہے  کہ مسیح  اپنی آلہیٰ شان سے حاضر ناظر  ہوکے اور اپنی  اور روح  میں اپنے  لوگوں کو شامل کر کے اُن کے ساتھ رہتا ہے۔  اِس سے یہ نہیں نکلتا  کہ وہ عالم ارواح  میں نہ گیا بلکہ   بلکہ چعر کت ساتھ میں جا بیٹھا  گویا اُس کی جان بہشت کی بھوکھی پیاسی تھی کہ جلد اُس کو لیا چاہتی ہے اُس نے اپنے لئے بہشت حاصل کرنے کو دُکھ نہیں اُٹھایا بلکہہمارے لئے بہشت کی راہ  کھولنے کو دُکھ اُٹھایا ہے۔ پھر دیکھو ( یوحنا ۲۰۔ ۱۷) کہ اُس نے قبر سے اُٹھ کے مریم مگدلینی سے فرمایا کہ میں ابتک اپنے باپ کے پاس نہیں گیا۔ کوئی پوچھے کہ اے خداومد تو ابتک  کہاں رہا تین دن تیرے گزرے تو کیوں اُسی دن جس دن دفن ہوا جی  نہ اُٹھا تو تو ابتک اپنے باپ کے پاس بھی  نہیں گیا پھر تین دن غایب رہنے کی کیا وجہ ہے کیا چور کے ساتھ بہشت میں بیٹھ  کے باتین کرتا رہا۔ اور کیا چور قیامت اور عدالت سے پہلے  بہشت میں جا پہنچا بلکہ تیری قیامت سے بھی پہلے اب فرمائے کہ مسیح اِن باتوں کا کیا  جواب دیگا۔ میرے گمان میں وہی جواب دیگا جو انجیل  کے کلام  حق سے مترشح ہوتے ہیں وہ کہیگا کہ میں عالم ارواح  میں گیا تھا چنانچہ روح القدس   نے پطرس کی زبان سے تمہیں سُنا  دیا ہے کہ اُس کی روح عالم  ارواح میں چھوڑی نہگئی اور مین نے کود جان چھوڑتے وقت اپنے آخری  لفظوں میں صلیب  پر یوں پکا را تھا ( لوقا ۲۳: ۴۶) کہ اے باپ میں اپنی روح کو تیرے ہاتھوں  میں سونپتا ہوں کیاتم نہ سمجھے کہ یہ درخواست بڑے خطرے میں جنے کے وقت ہوتی ہے نہ بہشت میں جانے کے وقت مجھے عالم ارواح کے ہیبتناک  غار میں اُترنا تھا تب میں نے اپنے باپ کی طاقت اپنی روُح کی حفاظت کے لئے نہ مانگی اور میں گہرے پاتال میں اُتر گیا اور باپ نے میری انسانی روح کو وہاں  بھی خوب ہے سنبہالا۔ پس ثابت ہو گیا کہ اُسے عالم ارواح میں تین دن کچھ  کام کرنا تھا جیسے تین برس اُس نے دنُیا میں کام کیا عہد آدم  سے صلیبی موت تک جو مومنین و غیرہ مر گئے اُن کا حصہ بھی مسیح میں تھا  ہم جسمانی شخصوں کے پاس وہ جسم میں ہو کے آیا مردہ روحوں کے پاس وہ مرُدہ ہو کے روُح میں گیا ہمارے پاس نہایت پست ھالی میں آیا اُن کے پاس بھی رُوح  میں پستہ تک کہ ہاویہ ہے وہ  چلا گیا وہ گنہگاروں کا عوضی تھا اس لئے اُس کو ضرور ہوا کہ گنہگاروں  کے مقام میں جو پاتال ہے جاوےاُس کی نسبت تین لفظ لکھے ہیں ( یسعیاہ ۵۳: ۵)  گھایل ہوا کُچلا گیا اُس پر سیاست ہوئی آدمیوں نے اُسے گھایل  کیا ابلیس نے اُس کو کچلا اور خدا باپ نے اُس پر سیاست کی کیونکہ وہ ہمارے گناہون کا حامل تھا۔ پھر ہم یہ بھی دیکھتے  ہیں کہ جب صلیب پر اُس کی جان بدن سے نکلی موت کی تاثیر دو طرفہ ظاہر ہوئی کہ اِدھر ہیکل کا پردہ پھٹ گیا تاکہ سب  ایماندار  خدا کے گھر میں جائیں اور اُسے دیکھیں۔ اُدھر قبریں  پھٹ گئیں کہ مرُدگان سلف قبروں سے نکلیں۔ تو بھی ایک لاش نہ اُٹھ سکی جبتک کہ وہ  تیسرے دن پہلے  آپ نہ جی اُٹھا تیسرے دن تک قبریں پھٹی پڑی رہیں اس لئے کہ جب مسیح اُٹھ چکے  تب وہ اُٹھیں گی کہ اُس کی موت سے لعنت ہٹ گئی اور اُس کی زندگی سے زندگی آتی ہے۔  ( متی ۲۷: ۵۰ سے ۵۳)  اب کہو کہ یہ وقفہ تین دن کا قبروں کے پھٹنے اور لاشوں کے اُٹھنے کے درمیان کیوں  واقع ہے کیا اس لئے کہ مسیح چور کے ساتھ  بہشت میں گیا ہے یا اس لئے کہ عالم ارواح کے درمیاں  کچھ ضروری کام کر رہا ہے جب ٹوٹے گا تب مومنین کی روحیں شادیانہ بجائیں گی۔

اب ایک اورمقام ہے ( ا پطرس ۳: ۱۸ سے ۲۱)  روح میں  ہو کے اُس نے اُن روحوں کے پاس جو قید تھیں جا کے منادی کی جو آگے  نافرماں بردار تھیں جس وقت کہ خدا کا صبر نوح کے دنوں جب کشتی تیار ہوتی تھی اِنتظار  کرتا رہا۔ کسی نے کہا کہ یہ مقام سمجھنا مشکل  ہے میرے گمان اِس کا سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ اُس کے ظاہری  معنے یہ ہیں کہ اُس  کا بدن تو قبر میں مرُدہ پڑا رہا اور اُس نے اپنی روح میں ہو کے اُن کو منادی کی جو قید تھیں ( یعنے ہادیسی میں تھیں) اور یہ وہ نافرماں بردار روحیں تھیں جنہوں نے نوح کے زمانہ میں نافرمانی کی جب کشتی تیار ہو رہی تھی اور خدا کا صبر منتظر تھا کہ وہ کشتی میں آویں مگر وہ نہ آئیں تھیں صرف آٹھ شخص آئے تھے اور روہی بچے تھے اسی طرح اب ہم بھی مسیحی بپتمسہ سے  جو نیک نیتی سے خدا کو جواب دینا ہے بشے جاتے ہیں مسیح کے جی  اُٹھنے کے سبب سے۔ نوح کی کشتی مسیحی بپتمسہ کی علامت تھی پس رسول کی نصیحت  صرف یہ ہے کہ مسیح پر ایمان لاؤ اور بپتمسہ پاکے  مسیحی کشتی میں سوار ہو جاؤ کہ تم ضرور بچ جاؤ  گے کیونکہ مسیح نے اولین و آخرین کے لئے ایک بار دُکھ اُٹھایا ہے۔ اگر ہم یہ معنے قبول  نہ کریں  اور یوں کہیں کہ مسیھ نے روح القدس میں ہو کے  بعد نوح منادی کی تھی تو ظاہر عبارت پر ظلم ہو گا اور ہم تحریف  معنوں کرنے والے ٹھہرینگے۔ کیونکہ ہمیں لفظ ( جسوقت) کو بلفظ ( منادی)  متعلق کرنا پڑیگا حال آنکہ اُس کا علاقہ  عبارت میں لفظ ( آگے) کے سااتھ ہے اور یہی اُس کا متعلق قریب  ہے متعلق قریب کے چھوڑ کے متعلقِ بعید کی طرف ہم کیوں جائیں۔ پھر لفظ روح سے رعح القدس  مراد کیوں لیں جبکہ اُس کی مرُاد جسم کا زکر موجود ہے تو اُسے مرُدہ جسم کی روح کا بھی زکر ہے روح  القدس کا بیان کچھ بھی زکر نہیں ہے۔  اور یہ جو لکھا ہے کہ روح  میں زندہ  کیا گیا اِس کے معنے یہ ہیں کہ بدن مر گیا اور روح جو زندہ تھی اُس میں ہو کے اُس نے روحوں کو  منُادی کی کیونکہ موت میں صرف بدن مرتا ہے روح  تو کبھی کسی کی نہیں مرتی کہ زندہ کی جائے۔ اور لفظ قید سے مرُاد  شئوُلی قید ہے نہ شیطانی قید جو بعض گنہگار فرشتوں کی نسبت  مرقوم ہے اور اُس سے رہائی ناممکن ہے پس وہ روحیں شئو کی میں تھیں جہاں سب گنہگار رہتے ہیں اور یہ جو لکھا ہے کہ منادی کی معلوم نہیں کہ کیا منادی تھی۔  اور اُس کا نتیجہ کیا نکلا  مگر یہ ہم جانتےہیں کہ مسیح قیدیوں کو چھوڑانے  کے لئے آیا تھا۔ (یسعیاہ ۴۲: ۷، ۶۱: ۱) اور یہ روحانی قیدی  قسم قسم کے ہیں بعض لوگ نجوشی  شیطان کی اطاعت  کرکے اُس کے قیدی ہیں بعض  حیراً قید میں ہیں بعض پھُسلائے ہوئے ہیں اور پولوس نے کہا کہ خدا نے سب کو بے ایمانی کی قید میں چھوڑا ہے تاکہ سب پر رحم  فرماوے( رومی ۱۱: ۳۳) پس ہم خدا کا عام بندوبست سب کو  سنُاتے  ہیں کہ جو کوئی ایمان لاکے اِس دنیا سے جاتا ہے وہی نجات پائیگا۔ تو بھی ہم نہیں جانتے کہ  خدا  جو سب کے دلوں کی جانتا ہے وہ بعض  روحوں کے ساتھ اُن کی باطنی کیفیت کے مناسب  کیا کچھ نہ کریگا ممکن  ہے کہ بعض  روحیں  دوسرے جہان میں کچھ فضل حاصل کریں کیونکہ صاف لکھا ہے کہ اُس نے روحوں میں  جاکے منُادی کی اور یہ کہ مغفرت  کی کسیقدر اُمید آنے والے جہان میں بھی دیکھو ( متی ۱۲: ۳۲، افسی ۱: ۳۱)  اور اِن باتوں کو سنُکے کوئی نہیں کہ سکتا کہ اب میں مسیح پر ایمان  نہیں لاتا  عالم  ارواح  میں جاکے دیکھا جائے گائے کیونکہ  جس نے اِس زندگی میں اپنی زندگی کورّد کیا وہ عالم ارواح میں ضرور محروم رہے گا پطرس کے بیان میں اُن روحوں کا زکر ہے جنہوں  کشتی بنتے ہوئے دیکھی اور نافرمان رہے کیونکہ وہ کشتی کا بھید نہ سمجھے تھے پس مسیح کو نہ پہچاننے والوں کا انساف اور طرح سے ہے اور سن و سمجھ کے نہ ماننے  والوں کا ھال اور ہے ( لوقا ۱۲: ۴۷، ۴۸)  کو پڑہو۔

حاصل کلام آنکہ رسولوں کے عقیدے میں جو لکھا  ہے کہ مسیح عالم ارواح میں جا اُترا  اُس  کا ثبوت ( اعمال ۲: ۳۱،  افس ۴: ۹، اپطرس ۳: ۱۸ سے ۲۱) ہے اور اس کی تائید ( لوقا ۲۳: ۴۶) سے ہے۔  اور رسولوں کے عقیدے کی نسبت یہ کہنا کہ وہ پچھلے  زمانہ کا ہے  رسولوں نے نہیں لکھا ہمارا بیان یوں ہے کہ البتہ بعض لوگ ایسا کہتے ہیں۔  لیکن بشپ بیویرج کی کتاب میں مرقوم ہے کہ بشپ امبر نور ساحب اس عقیدہ کو بہت سراہتے ہین اور اُس کو مفتاح الانوار، وا لظلمات لقب دیتے ہیں۔  اور روفینس ہر سٹ ایک حدیث  سے کہتے ہیں کہ روح القدس کے آنے کے بعد رسولوں نے یہ عقیدہ تالیف کیا تھا تاکہ ایمان  کا پورا بیان لیکے ہر رسول کہیں جائے اور یہ روفینس صاحب  جیروم ساحب کے بڑے دوستوں میں سے ہین ۔ پھر اگسطین  صاحب  کہتے ہیں کہ اس عقیدہ کا ایک ایک فقرہ ایک ایک رسول نے  بولدیا تھا  یوں یہ مرُتب ہوا ہے۔ ان کے سوا اور بہت بزرگ ہیں جو ایسی باتیں اِس عقیدے کی نسبت کہتے ہیں لیکن بعض ہیں جو کہتے ہیں کہ اِس  کی عبارت کا ثبوت رسوُلوں کی طرف سے نہیں ملتا۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اس کی عبارت رسولوں سے ہے تو بہت خوب بات ہے اور جو عبارت اُن سے نہیں تو مضامین اِس کی ضرور اُن سے ہیں  کیونکہ عہد جدید میں یہ سب مضمون موجود ہیں۔ اور یاد رہے کہ سورِ اختلافیہ  میں مناسب نہیں ہےکہ ہم کلیسیا قدیم کی رفاقت  کا ہاتھ ڈھیلا چھوڑیں کیونکہ دین کی کونسی بات ہے جس میں لوگوں  کا اختلاف  نہیں ہے اگر ہم اختلافوں  کے درپے ہو کے  دینی باتوں مین سسُت ہوتے جائیں تو شاید کوئی کوئی بات ہمارے ہاتھ میں رہیگی  سارا دین اُڑ جائیگا  یا اور ہی کچھ بن جائیگا جو قدیم عیسائیوں  کا نہ تھا اور یوں ہمسے گّلہ کے نقش قدم چھوٹ جائیںگے واجب ہو کہ دینی معاملات  میں ہم مسیحی گّلہ کے نقشِ قدم پر جائیں دیکھو  کیا لکھا  ہے ( غزل الغزلات ۱: ۸)