دروازہ میں ہوں

اگر کو ئی شخص مجھ سے داخل ہو تو نجات پاویگا۔ ا ور اندر باہر آئے جائے گا۔
یوحنا ۱۰۔ ۹۔

I am the Door

John 10:9

Published in Nur-i-Afshan April 20, 1894

ایک عالم کا قول ہے کہ’’ بہشت کا دروازہ اتنا چوڑا  اور کشادہ ہے کہ اگرتمام دنیا کے آدمی ایک  دم سے اُس  میں داخل ہونا چاہیں۔ تو بلا تکلیف و کشمکش داخل ہو سکتے ہیں۔ لیکن وہ اِس قدر تنگ بھی ہے۔ کہ کو ئی شخص ایک رتی بھر گناہ اپنے ساتھ لے کر اُس میں داخل نہیں ہو سکتا۔  یہ سچ ہے کہ  خداوند مسیح جو آسمان میں داخل  ہونے کا دروازہ  ہے۔ گنہگاروں کا دوست ہے۔ مگر گناہ کا دوست  ہر گز نہیں ہے۔ وہ یسؔوع یعنے اپنے لوگوں کو اُن کے گناہوں سے بچانے والا ہے۔ نہ کہ اُن کو  گناہوں  میں  بچانے  والا ہے۔ اکثر لوگ نادانی سے ایسا  سمجھتے  اور کہتے ہیں ۔ کہ درحالیکہ مسیح نے تمام  جہاں کے آدمیوں کے لئے۔ خصوصاً مسیحّیوں کے لئے اپنی جان کو کفاّرہ میں دیدیا ہے۔ تو اب وہ جو  چاہیں کریں۔ کیونکہ اُن کے گناہوں کا کفارہ تو ہو ہی چُکا ہے۔ اُن سے کچھ باز پرس نہوگی۔  لیکن ایسا غلط خیال کرنے والے  لوگ خداوند مسیح کے اپس فرمان سے ناواقف  معلوم ہوتے ہیں۔ جو اُس نے اپنے پیروؤں کی نسبت فرمایا ہے۔ کہ’’جہاں کا نور میں ہوں۔ جو میری پیروی  کرتا ہے۔ تاریکی میں نہ چلے گا۔ بلکہ زندگی کا نور  پاوے گا۔‘‘  یوحنا ۸ ۔ ۱۲۔

سند کی آیت  مندرجۂ بالا سے یہ  بھی معلوم  ہوتا ہے کہ نجات پانے اور آسمان  میں داخل ہونے کا صرف  یہی ایک طریقہ ہے کہ گنہگار  انسان توبہ کرے۔ اور خداوند یسوع مسیح پر ایمان لاوے۔ اور اس طریقہ کے سوا أور  کو ئی  صورت نجات پانے اور آسمان میں داخل ہونے کی ہرگز نہیں ہے۔ ہاں ایک صورت اور بھی ہے اور وہ یہ  ہے کہ  انسان اپنی پیدایش سے موت  تک کو ئی  گناہ عمداً و سہواً نہ کرے۔  اور خدا کے سارے اوامرا و نواہی کی تمام  و کمال  متابعت کرے۔  مگر ایسا کو ئی  فرد بشر  بنی  آدم  میں  بجز مسیح کے نہوا ہے۔ اور نہوگا۔  ہم نے بعض اشخاص کو اِس خیال میں ُمبتلا پایا۔ کہ وہ لاگ جو خدا  کے طالب ہیں۔ خواہ کسی مذہب میں رہیں۔ اُس  کے حضور میں ضرور  پہنچیں گے۔  اور نجات  و مقبولیت  حاصل  کریں گے۔ اور اپنے اِس خیال کی تائید میں مثالاً کہتے ہیں  کہ فرض  کرو کہ ایک  محصور شہر کے چاروں سمت کو بڑے دروازے موجود ہیں۔ اور لوگ ہر دروازہ سے داخل ہو کر بازار کے  چوک  میں ۔ جو صدر مقام  ہے پہنچ جاتے ہیں۔ اُن کو یہ کہنا اور مجبور کرنا  کہ سب ایک ہی دروازہ  سے داخل ہوں۔ زبردستی کی بات معلوم ہوتی۔ یہ مثال بعض تیز طبع  اشخاص  نے  بوقت بازاری وعظ  کے ہمارے سامنے پیش بھی کی ہے۔ جس کا سادہ اور عام فہم یہ جواب اُن کو دیا گیا۔ کہ کسی شہر کے دروازہ اور آسمان کے دروازہ میں فرق عظیم یہ ہے کہ شہر کے ایک  دروازہ سے  چاروں سمت  کے دُنیوی  مسافروں  کا گزرنا  مشکل ہے۔ لیکن آسمانی مسافروں کے گزرنے کے لئے  بہشت  کا دروازہ دشوار  گزار اور تنگ  نہیں ہے۔ اور وہ سب کے سب بلا تکلیف  و کشمکش  اُس سے داخل  ہو سکتے ہیں۔ کسی زمینی شہر کے دروازہ کو آسمانی یروشلم  سے ہر گز  کچھ  مطابقت  و مناسبت  نہیں ہے۔ ہاں داخلہ کا ٹکٹ  ہر ایک آسمانی مسافر کے پاس ہونا ضرور  ہے۔ اور یہ ٹکٹ وہ صحیح  اور بے ریا ایمان  اُس  نجات دہندہ خداوند  پر رکھنا  ہے جس نے فرمایا کہ ’’دروازہ میں ہوں‘‘۔ اِس دروازہ  کو چھوڑ کر اگر کو ئی  شخص کسی دوسری راہ سے آسمان میں داخل حاصل  کرنا چاہے وہ یقیناً  چور اور بٹمار ہے۔ اور جو کچھ انجام ایسے شخص  کا ہوگا وہ معلوم۔