الثالوث الاقدس

راقم

ابناش چندر گھوس از دہلی

The Holy Trinity


Published in Nur-i-Afshan July 12, 1895
By Chandar Ghus


مسیحیوں کو اکثر  یہ الزام دیا جاتا ہے کہ اُنہوں نے مسئلہ ثالوث ماننے سے  خدا کے تین ٹکڑے کر دئے ہیں۔  اسی الزام کے باعث کلیسیا چاہتی ہے کہ  پرانا تثلیث کا لفظ  ترک کر دیا جاوے۔ ہم اس مضمون میں ثابت کریں گے کہ اگر یہ الزام ثالوث  کے ماننے والوں پر عاید ہو سکتا ہے تو توحید کے ماننے والے  یعنے اہل اسلام بھی اس سے بھاگ نہیں سکتے۔ انسانکی عقل ایسی کمزور اور تھوڑی سی ہے  کہ محض خدا کی ہستی کے ماننے ہی سے اس کو بڑی  بڑی  دقتّیں پیش آتی ہیں۔اور جو دقتّیں ثالوچ کے مسئلہ میں ہیں  بعینہ  وہی دقتیں محض توحید ماننے میں بھی ہیں۔ ہم اس وقت ایک بڑی دقّت جس کا ہم نے اوپر بیان کیا چن لیتے ہیں اور دکھاویں گے کہ یہی وقت موحّدوِں  کے زمرنے  سے باہر  نہین کرتے فرق اتنا ہے کہ ہماری توحید اور طرحکی ہے۔

الزام  یہ ہے کہ ثالوث کے قائیل خدا کے تین ٹکڑے کرتے ہیں۔ فرض کرو کہ یہ الزام  صحیح  ہے اور اس لئے ہم  نے ثالوث سے انکار کیا اور اہل اسلام  کی سی توحید کو منظور کیا۔ دیکھئے یہ توحید کس طرح زایل ہوتی ہے اور اس سے خدا کے کتنے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ یہاں محض عقل سے کام لیا جاویگا۔

عقل کا ایک  بڑا  عظیم  الشان دعویٰ یہ ہےکہ نیستی سے ہستی بر آمد نہیں ہو سکتی۔ دوسرا بڑا دعویٰ عقل کا یہ ہے کہ ہستی نیستی سے مبدل نہیں ہو سکتی یعنے جو چیز ہے وہ ہر گز نیست نہیں ہو سکتی فقط  اتنا ممکن ہے کہ اس کی صورت  بدل جائے  یا وہ ہماری نظر  سے غایب ہو جاوے۔ ان دو دعوؤں  کا نتیجہ یہ ہوا کہ  دنیا میں نہ کوئی چیز بڑھ سکتی ہے اور نہ گھٹ  سکتی  ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ دنیا میں نہ تو کوئی چیز  بڑھ سکتی ہے اور نہ گھٹ سکتی ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ  کہ دنیا میں نہ تو کوئی چیز کبھی بڑھی اور نہ گھٹی۔ ہمیشہ سے دنیا اتنی ہی چلی آئی اور تا ابداِتنی ہی چلی جائیگی۔ یہ عقلی دعوے ہیں اور کوئی اُن کو غلط ثابت نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی کرے تو بندہ  اس کا شکر  یہ ادا کرے گا۔ لیکن کرے تو محض  عقل سے کرے۔ ایمان کو کام میں نہ لاوے۔

پس خلاصہ  یہ ہوا اگر خدا ہی تو وہ ازلی ہے اور اگر دنیا ہے تو وہ بھی ازلی ہے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ نہیں دوازلی نہیں بلکہ ایک ہی ازلی ہے یعنے خدا اور دنیا اُس کی مخلوقات ہے۔ لیکن یہ عقل میں نہیں سماتا۔ خلق تو کوئی شے ہو نہیں سکتی۔ نیستی سے ہستی مستخرج نہیں  ہوسکتی۔  پس اگر  یہ ماننا چاہیں  کہ خدا نے دنیا کوبنایا  ہے۔ تو یہ بھی  ماننا پڑیگا کہ نیست سے ہست نہیں کیا بلکہ  اپنی ہی  پاک زات کے ایک  حصہّ کو دنیا کی صورت میں کر دیا ہے۔ پس خدا کے ٹکڑے ہو گئے یعنے ایک حصہ  خدا کہلاتا ہے اور ایک حصہ  دنیا۔ اور اگر یہ نہیں تو خلاف عقل یہ ماننا پڑیگا کہ نیستی میں ہستی برآمد ہو سکتی ہے۔ یا تو یہ مانو کہ کل موجودات  کے مجموعے کا نام خدا ہے اور انسان آفتاب  ماہتاب زمین وغیرہ خدا کے ٹکڑے ہیں۔ اور یا یہ مانو کہ خدا میں نیستی میں سے ہستی بر آمد کر نیکی طاقت ہے۔ یہ دونوں باتیں عقل کے خلاف ہیں اور تیسری صورت کوئی نظر نہیں آتی۔ اگر کوئی ہے تو  کوئی مسلمان ہمیں اس سے آگاہ کرے۔ اور خدا کے ٹکڑے کو ( ۱ ) یا دنیا کو خدا مانو ( ۲) یا خدا میں عقل کے خلاف  ایک طاقت قایم کرو۔

یاد رہے کہ ہم نے یہاں ثالوث کا کوئی ثبوت نہیں دیا۔ ہم نئ فقط اتنا ظاہر کیا ہے کہ ایک وقت  جو خاص مسئلہ ثالوث کے ساتھ مخصوص سمجھی  جاتی ہے حقیقت  میں اس کو اس مسئلہ کے ساتھ کوئی خاص لگاؤ  نہیں بلکہ وہ وقت  تو خدا کی ہستی کے ماننے ہی سے پیدا ہو جاتی ہے۔ بلکہ اس سے بڑھکر ہم آیندہ ثابت کریں  گے کہ جتنے عقلی  اعتراض  مسیحی مذہب کے خلاف ایجاد کئے جاتے ہیں اُن کا مسیحی مذہب کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہین بلکہ وہ  اعتراض تمام مذاہب پر یکساں عاید ہو سکتے ہیں۔ اتنا تو ظاہر ہوا کہ ایک برا اعتراض جو  مسیحی مذہب کے خلاف پیش کیا جاتا ہے اسلام پر بھی عاید ہوتا ہے۔

راقم۔۔۔ ابناش چندر گھوس از دہلی