Early Sunrise

 

مسیحی مذہب کی ترقی

 

 


The Growth of Christianity

 

 

Published in Nur-i-Afshan March 12, 1897


 

مسیحی مذہب کی عجیب و غریب کامیابی ایک ایسا امر ہے کہ ہر سمجھ دار اور تعلیم یافتہ شخص کی توجہ طلب کرتا ہے۔ ہماری دانست میں یہ کامیابی اُس کے منجانب اللہ ہونیکا ایک بھاری ثبوت ہے۔ ہم مانتےہیں کہ اُسکی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے اور دلائل بھی چائیں کیونکہدنیا میں اور بہت سے مذاہب مثل رومی بت پر ستی اور بدُھ مت اور اسلام کے پائے جاتے ہین جن کو ایک درجہ تک کامیابی حاصل ہوئی لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ اُن کی کامیابی کے اسباب و وسائل مسیحی مذہب کی کامیابی کے اسباب و وسائل سے دگرگوں تھے۔ جس طرح اور باتونمیں مسیح کا مذہب بے مثل اور بے نظیر دکھائی دیتا ہے اُسی طرح اِس امر میں بھی لاثانی نظر آتا ہے۔ جس شاہانہ رفتار سے وہ اپنا قدم اگے کی طرف اُٹھاتا چلا آیا ہے۔ جس قدرت سے اُس نے اُن دیواروں کو ڈھایا ہے جو اُس کے سامنے سدراہ تھیں۔ جس صبر اور برداشت سے اُس نے مخالفوں کے حملوں کو سہا اور اپنے روحانی اثر سے فتح پر فتح حاصل کی ہے اُس سے اگر کچھ ظاہر ہوتا ہے تو یہ ہوتا ہے۔ کہ اُس کی اصل خدا سے ہے۔ ہم اِس آرٹیکل میں چند باتیں اِس کامیابی کے متعلق تحریر کرتے ہیں۔ جو ہماری دانست میں مسیحی مذہب کی سچائی کو بخوبی ثابت کرتی ہیں۔

( ۱)اوّل اُس کا قدیم زمانہ کی حالت کو بالکل بدل ڈالنا اور بڑی سرعت اور کامیابی کے ساتھ اُس زمانہ کی دنیا میں پھیل جانا اُس کے منجانب اللہ ہونی کی دلیل ہے۔ کئی باتیں اسکے متعلّق پیش کی جا سکتی ہیں۔ لیکن اِس جگہ ہم صرف اُس زمانہ کی بُت پرستی کا تھوڑا سا حال تحریر کریں گے۔ دریائے فراط کے کناروں سے ملک برطانیہ تک اور نیل سے جرمنی تک بت پرستی کا بازار گرم تھا۔ بحیرہ میڈیٹرینین کے گردنواح کی دنیا میں اِسی ملکہ کا راج تھا۔ لیکن مسیحی مذہب نے اپنے زور آور یعنی اپنی تسلی بخش تعلیمات کے اثر سے روم اور یونان اور اسور اور مصر اور شمالی افریقہ کی بُت پرستی کو ایسا گرایا کہ اب تا قیامت اُس کے پھر اُٹھنے کی اُمید نہیں۔ وہی ڈائناؔ دیوی جس کی غیرت اور ہوا حولکہ ہی سے کسی زمانہ میں شہروں کے شہر اگ بگولا ہو جاتے تھے اج ایسی معدوم پو گئی ہے کہ اگر تمام دنیا میں ڈھونڈو تو اُسکا ایک پجاری بھی ملیگا۔ اِسی طرح ڈروایڈیکلؔ اور ٹیوٹانکؔ بت پرستی کا نام و نشان تک جاتا رہا۔ بعضؔ اور رواجونؔ۔ ایسؔ اور سراپسؔ ۔ تھوؔر اور ووڈنؔ جیسے دیوتا جن کے سامنے پشتیں خم ہوتی تھیں اور سر تسلیم جُھکائے جاتے تھےخاک میں مِل گئے۔ اور اب اگر کسی جگہ اُن کی یاد باقی ہے تو کاغذی دنیا میں ہے۔ عاِلم محسوسات میں نہ اُن کا کوئی مندر ہے نہ کوئی خانقاہ نہ کوئی اُن کا پجاری ہے اور نہ کوئی معتکف ۔ یہی حال آپاؔلو اور وینس ؔ اورمنرواؔ اور ہر کلیزؔ کا بھی ہوا۔ جس طرح اج افریقہ اور ہند کے باشندے۔ اپنے بدئیت اور بے حس و حرکت دیوتاؤں کے سامنے گر کر سجدہ کرتے ہیں اُسی طرح کسی زمانہ میں لوگ اُن کے سامنے بھی سجدہ کرتے تھے۔ لیکن اب صدیاں گزر گئیں کوئی اُن کی پرواہ بھی نہیں کرتا۔ چنانچہ اب زمینداروں کو لائرؔ کے سامنے قربانیاں چڑھانےکی ضرورت نہیں۔ اور ملاحوں کو پنچوں سے شگون لینے اور سپاہیوں کو ماؔرس کے ہاں ہار چڑھانے کی حاجت نہیں۔ مسیحی مزہب کی روشنی نے زود اعتقادیوں کی تاریکی کو دور کردیا۔ اور ہندوستان کا پیارے ناظرین کیا حال ہے؟ اگرچہ ابھی ہند کی بُت پرستی کی بیخکنی پورے درجہ تک نہیں ہوئی۔ اگرچہ ابھی جگناتھ اور ہر دور میں جان باقی ہے۔ تاہم یہ سوال پوچھنے کے لائق ہے کہ بُت پرستی کی طرف جو نفرت آج ہندؤں میں پائی جاتی ہے اور روز بروز بڑھتی جاتی ہے اس کا کیا سبب ہے؟ کیا پچاس برس سے پہلے وہی وید نہ تھے جو آج ہیں۔ کیا سنسکرت زبان کی وہی تفسیریں اور ڈکشنریاں نہ تھی جواب موجود ہیں ۔ پھر کیا سبب ہے کہ اِ س صدی کے شروع میں یا اُس سے پیشتر کوئ دیانند سرُستی پیدا نہ ہوا اور نہ کوئی کیشب چندر سین اُٹھا۔ محمدی مذہب جو خدا کی وحدت کا ایسا غیر تمدن ہے کہ شرک کا نام ایا اور وہ تائرہ غضب سے سوزاں ہوا وہ بھی جب پراوی ڈنس (Providence) نے تلوار اُس کے ہاتھ سے چھین لی اس امر مین قاصر نکلا کہ ہندوؤں میں دو تین ایسے مصلح پیدا کر دے جو بت پرست کو جڑ سے دور کر دیں۔ مگر مسیحی مذہب کی منادی جو دنیا کی نظر میں ایک بیوقوفی سی ہے ہندوستان کی بُت پرستی کی بنیاد کو بلا رہی ہے اور کس دن اِس عمارت کو بالکل مسمار کر دیگی۔ مسیح کا مزہب ہمیشہ اور اپنی ہر منزل میں ایسا کرتا چلا آیا ہے۔ تلوار سے نہیں بلکہ مبشروں کی بشارت اور مصنّفوں کی تصنیفوں اور شہیدوں کے خون سے +

رومی بُت پرستی کے اُٹھ جانے کی نسبت ہم کہ نہیں سکتے ( جس طرح کہ بعض مخالفوں نے کہا ہے) کہ جب لوگوں نے اُس میں کچھ تسلّی نہ پائی تو آخر تھک کر اُسے خود بخود چھوڑ دیا۔ ہماری دانست میں یہ تفسیر درست نہیں۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ جو بُت پرست اقوام مذکورہ الصدر حدود کے اندر بستی ےتھیں۔ وہ تو اُس قدیم زمانہ میں بُت پرستی کو اِسلئے چھوڑ دیں کہ اُس میں کچھ تسلّی نہیں پائی جاتی مگر ہند اور جاپان اور چین کی قومیں اٹھارہ سو برس آگے نکل کر اور اِس طول طویل عرصہ کی تہذیب اور فلسفی کی روشنی رکھکر بھی بُت پرستی کے چھوڑنے کا خود بخود وہ فیصلہ نہ کر سکیں جو اُن قوموں نے اُس وقت کیا نہیں یہ کہنا کہ اُن لوگوں نے خودبخود بت پرستی کو چھوڑ دیا صحیح نہیں کیونکہ ما سوائے ملکی امور میں فتور پیدا ہونے اور شخصی فوائد اور منافعوں میں نقصان آنے کے کطرےکے اس تبدیلی کے راستے میں ایک بڑی بھاری روک یہ تھیکہ ہر کس و ناکس اور ہر کہہ یہ بُت پرستی کا عادی ہو گیا تھا۔تمام قوم کے رگ و ریشہ میں بت پرستی خون کی طرح جوش مارتی تھی۔ وہ اُن کے خمیر میں تھی۔ لوگوں کے فیصلہ سے وہ دور نہیں ہو سکتی تھی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ وہ آخری دم تک مسیحی مذہب کامقابلہ کرتی رہی۔ چنانچہ ہم چوتھی صدی میں دیکھتے ہیں کہ ایک طرف تو شہنشاہ جولین بُت پرستی کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں لگا ہے اور دوسری طرف سِرل اُس کی مخالفت میں دلائل پیش کر رہا ہے۔ بلکہ اگسٹین کے زمانہ میں بھی کہ جسے مسیحی مزہب کی فتح کا زمانہ سمجھنا چاہئے بُت پرستی اپنا آخری وار کرنے سے باز نہ رہی۔ چنانچہ ہم اُس زمانہ کے لوگوں کو یہ کہتے سنتے کہ اگر دیوی دیوتا کی پوجا پاٹ جیسی چاہئے تھی ویسی کیجاتی تو شاید قوم گاتھ روم کامحاصرہ نہ کر سکتی۔ نہیں بُت پرستی کے دور ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ لوگوں اُس کے چھوڑنے پر اتفاق کر لیا تھا۔ اصل وجہ یہ تھی کہ اب اُس کو ایک ایسے زبردست مخالف کا مقابلہ آپڑا تھا جس کے سامنے وہ مدت تک ٹھہرنے کی تاب و تواں نہ رکھی تھی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو فتح مسیحی مذہب ے اِس قدیم زمانہ کی بُت پرستی پر پانی اُس کے برابر وہ فتح بھی نہ ہوگی جو وہ ہند اور چین اور جاپان کی بُت پرستی پر پائیگا۔ کیونکہ یہ قومیں دنیا کی قوموں کی پشیر اور رہنما نہیں۔ مگر اہل روم اپنے زمانہ کی دنیا کے مالک تھے۔ قلمر وردم میں بُت پرستی کے سکے کو بے رواج کرنا ایک کاص قدرت کا کام تھا۔ اب یہ قدرت کس کی تھی۔ انسان کی یا خدا کی؟ دنیا کی تواریخ میں کوئی ایسی کامل اور دائمی فتح نظر اتی ہے؟ 

( ۲) دوسری بات ہم یہ پیش کرتے ہیں کہ باطنی ؔ انسان کے تبدیل کرنے میں جو کامیابی مسیحی مذہب کو حاصل ہوئی وہ بھی اس کی صداقت پر دال ہے۔ یہ تبدیلی بھی مسیحی مذہب ہمیشہ اور ہر جگہ پیدا کرتا آیا ہے۔ مگر اس بات کی رونق اور جلال زیادہ خوبصورتی سے اُس زمانہ پر نظر کرنے سے معلوم ہو گا جب کہ یہ ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور کامیابی کے اسباب زرا بھی میّسر نہ تھے۔ اُسوقت دشمن اُس کو ایک مکروہ عقیدہ سمجھ کر اُس کی بیخ و بُن کاٹنے کے درپے تھے مگر وہ اپنا اثر غائب ہاتھ سے انسانی دل پر جما رہا تھا جو انسانی زندگی اور خصلت میں نمودار ہونےلگا۔ ہم اِس کی نظریں نئے عہد نامہ میں سے پیش کر سکتے ہیں جہاں اعلیٰ درجہ کی تعلیم اعلیٰ درجہ کی تعمیل کے ساتھ پہلو بہ پہلو کھڑی نظر آتی ہے۔ مگر ہم اس موقعہ پر رسولی زمانہ کی بعد کی تصنیفات سے چند مقامات اقتباس کر کے دکھائینگے کہ شروع ہی سے مسیح اور مسیح کی تعلیم اِنسانی دل کے تبدیل کرنے میں اکسیر کا حکم رکھتے ہیں۔

پہلے ہم جسٹن شہید کی کتاب۔ اپالوجی ؔاوّل سے کچھ بیان نقل کرتے ہیں۔ جسٹن قوم کا یونانی مگر رہنےوالا ملک فلسطین کا تھا۔ یونانی علوم و فلاسفی میں کامل مہارت اور دستگاہ رکھتا تھا۔ مسیحی ہونے کے بعد سن۱۳۹ء میں اُس نے کتاب مذکورہ بالا اِس غرض سے تصنیف کی کہ اُس کے وسیلے سے شہنشاہ انٹونیؔ مائپس اور اُسکے بیٹوں کو مسیحی مذہب کی طرف رجوع کرے۔ ایک جگہ وہ اِس کتاب میں مسیحی مزہب کے اخلاق اور روحانی پھلوں کا اِس طرح بیاں کرتے ہیں۔

قبل جسٹن شہید کا بیان کرنے کے ہم ایک مشکل کو رفع کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ شاید کوئی اِن قدیم عیسائیونکی شہادتوں کو بڑھکر یہ کہے کہ یہ تو اپنے منہ میاں مٹھو بنتا ہے۔ شاہد تو تمہارے عیسائی ہیں وہ بھلا کب اپنے مذہب کو بُرا کہنے لگے تھے۔ ہم اِس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ جسٹن و غیرہ مسیحوؐ کی کتابیں شہنشاہوں کے لئے لکھی گئی تھیں اور ایسے زمانہ میں جبکہ ایزارسانی کا بازار گرم تھا اور مسیحیوں پر پیغمبری وقت آپڑا تھا۔ اگر وہ دعاوی جواِن کتابوں میں درج ہیں بال برابر بھی سچائی کے اِدھر اُدھر ہوتے تو قیامت بپا ہوجاتی۔ بھلا یہ مظلوم کس طرح چھوٹ منہ رکھ کر بڑی بات بول سکتے تھے۔کچھ تو تریاق اِن کے پاس ہو گا جو خوانخواہ اژدہے کہ منہ میں انگلی ڈالتے ہیں۔ آگ سے بھرے ہوئے شہنشاہوں کو چھیڑ کر آتش غضب کے شعلہ کو اور بھی دوبالا کرتے ہیں ۔ نہین جو کچھ وہ کہتے ہیں سو واقعی صحیح اور درست ہے۔ کیونکہ جب تلوار گردن پر رکھی جاتی ہے تب قوت واہمہ بچّے جننا چھوڑ دیتی ہے۔ اور جھوٹے اور من گھڑت خیالات بند ہو جاتے ہیں۔ اب ہم جسٹن صاحب کی گواہی پیش کرتے ہیں۔وہوہذا۔

جب کلام کے اثر نے ہمکو مؤثر کیا۔ تو ہمنے تاریکی کی قوتوں ( شیطانی تاثیرات) کو سلام کیا اور اب ہم ازلی اور ابدی خدا کی بوسیلہ اُسکے بیٹے کے پیروی کرتے ہیں۔ ہم جو پہلے بدکاری سے خطا اٹھاتے تھے اب پر ہیزگاری کے لطف اُٹھاتے ہیں۔ ہم جو پہلے جادو گری کے فعلوں میں مصروف تھے اب خدائے حیی القیوم کی خدمت میں اپنے آپ کو وقف و مخصوص کرتے ہیں۔ ہم جو پیشتر تجارت اور مکانوں اور زمینوں کی امدنی اور سود پر جان دیتے تھے اب جو کچھہمارے پاس ہے اُسکو ایک جگے جمع کر کے محتاجوں کو اُس میں سے دیتے ہیں۔ ہم جو ایک دوسرے سے نفرت رکھتے تھے اور آپس کے جھگڑے اور فساد سے خون بہاتے تھے۔ اور پابندی دستورات کی وجہ سے ایک جگہ باہم بیٹھ کر آگ تانپنے تک کو عار سمجھتے تھے۔ اب مسیح کے نام میں ایک دستر خوان پر بیٹھ کر ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہوتے ہیں ۔ ہم اپنے دشمنوں کے لئے دعا مانگتے ہیں۔ اُن کو جو ہم سے نفرت رکھتے ہیں مسیح کی طرف رجوع کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ بھی مسیح کے جلالی احکام کے مطابق زندگی بسر کریں اور رب العالمین سے جزائے خیر کی اُمید میں ہمارے ساتھ شرکت پیدا کریں۔“

ایک اور جگہ جسٹن صاحب مسیح کے الفاظ ” تمہاری روشنی ۔۔۔۔۔۔ ایسی چمکے وغیرہ“ کی نسبت یوں فرماتے ہیں۔ ” مقابلہ ہمیں زیب نہیں دیتا ۔ کیونکہ اُس نے ( یسوع نے) اپنی مرضی ہم پر اِس طرح کی ہے کہ تم شریروں کی تقلید نہ کرو۔ بلکہ صبر و حلم سے اُن سب کو جو برُی خواہشوں میں مبتلا ہیں چھڑانے کی کوشش کرو۔ اور ہم اِس بات کی کئی نظریں اُن اشخاص میں سے جو پہلے تمہارےدرمیان رہتے ہیں پیش کر سکتے ہیں اور ثابت کر سکتے کہ کس طرح اُن کی سخت دلی اور بد مزاجی مسیحیوں کے نمونہ کو دیکھ کر بدل گئی ۔ ہاں جب اُنہوں نے دیکھا کہ مسیحی اپنے مزاج پر ایسا قابو رکھتے ہیں کہ لوگ اُنکو دھوکا دیتے۔ اور لینے دینے میں معاملہ داری کے قواعد سے تجاوز کر جاتے ہیں تاہم مسیحی برُد باری اور برداشت سے کام لیتے ہیں تو ان کے مزاج اور طبیعت اِس نمونہ سے بالکل بدل گئے“۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ” جو لوگ مسیح کے حکم کے مطابق زندگی نہیں بسر کرتے اُن کو مسیحی مت سمجھو۔ خواہ زبان سے وہ ہزار اقرار کریں۔ ہم اُن لوگوں کو جن کے لب مسیحی ہونے کا اقرار کرتے ہیں اور اُن کی زندگی اِس اقرار کے مطابق نہیں تمہارے حوالہ کرتے ہیں جیسا چاہو ویسا اُن کے ساتھ سلوک کرو۔“

اِسی طرح کی شہادت ایک خط سے ملتی ہے جس کا نام ڈایوکتِس کا خط ہے۔یہخط دوسری صدی کے شروع میں تصنیف ہوا۔ مسیحی زندگی کی جو تصویر اس خط میں پائی جاتی ہے وہ ایسی نئی تازہ معلوم ہوتی ہے کہ گویا کل ہی مصورکے ہاتھ سے نکلی ہے۔ مصُنّف اِس کا بیان کرتا ہے۔ غیر ملک اُن کے ( مسیحیوں کے) نزدیک اپنے گھر کی طرح ہے اور اپنا گھر مثل پردیس کے۔ وہ جسم میں ہیں مگر جسم کی خواہشوں کے غلام نہیں۔ وہ دُنیا میں رہتے ہیں مگر مملکت اُنکی آسمان پر ہے۔ وہ سرکاری قوانین کے پابند ہیں۔ مگر اپنے چال چلن میں اُن سے کہیں سبقت لیجاتے ہیں وہ سب کو پیار کرتے ہیں مگرسبھی ان کو ستاتے ہیں۔ لوگ اُن کو مارتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ جی اٹھتے ہیں۔ وہ مفنس ہیں پربہتونکو دولتمند بناتے ہیں۔ سب چیزوں کے محتاج ہین اور سبھی چیزیں بہتات سے رکھتے ہیں۔ اُنکی بیحرمتی کیجاتی ہے پر وہ اپنی بیحرمتی میں جلال پاتے ہیں۔ لوگ اُنکو بُرا بھلاکہتے لیکن وہ راست باز ٹھہرتے ہیں ۔ لوگ انکو گالیاں دیتے اور وہ اُنکے لئے برکت کے مستدعی ہیں۔ لوگ اُنکو حقیر جانتے ہیں مگر وہ اُنکی عزت کرتے ہیں۔ وہ نیکی کرتے ہیں اور لوگ اُنکو بدکار سمجھ کر سزا دیتے ہیں پر وہ سزا پا کر بھی خوش ہوتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگی اِسی تکلیف میں ہے۔ یہودی اُن کو اپنا دشمن سمجھ کر اُن کے برخلاف لڑائی برپا کرتے ہیں اور یونانی بے انصافی سے اُن کو دُکھ دیتے ہیں اور اگر اِس ساری مخالفت کا سبب پوچھا جائے تو مخالفوں کے منہ بند ہیں اور کوئی سبب نہیں بتلا سکتے۔“