Göreme

 

جھوٹی کتابیں اور قرآن

متعلق خداوند یسوع مسیح

False Books and the Qur’an

جس طرح ہم ثابت کر چکے کہ محمد نے یہودی حدیثوں کو بہت کچھ نقل کیا اسی طرح ہم ناظیرین نور افشاں کے فائدہ کے واسطے قلم اُٹھاتے ہیں تاکہ بتلایں کہ محمد نے انجیل مقدس کو چھوڑ کر جھوٹی کتابوں کو کہاں تک نقل کیا۔ صاف ظاہر ہے کہ جب کس نے ان باتوں کا زکر کیا جو انجیل کے زمانہ میں واقعہ ہوئیں تو اکثر انجیل سے بیانات کو اخز کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بہت سی باتیں ملالیں کیونکہ قرآن اور انجیل میں بہت فرق نظر آتا ہے۔ اس فرق کا ایک سبب یہ بھی کہ وہ خود اَن پڑہ تھا۔ اور انجیل کی باتوں کو زبان سنُا تھا۔ یقین ہے کہ اس کے پاس انجیل نہ تھی اگر ہوتی تو وہ اتنا فرق نہ کرتا۔ اُس نے بار بار لکھا کہ انجیل کو ماننا چاہئے اور محمد لوگ تک انجیل کا ماننا فرض سمجھتے ہیں مگر ساتھ ہی ایسی ایسی باتیں کہیں جو انجیل کے محض برخلاف ہیں مثلاً اُس نے کفارہ کی تعلیم کو رد کیا حالانکہ اِنجیل کی خاص تعلیم یہی ہے۔ یہاں تک اگر اس تعلیم کو علیحدہ کر دیا جاوے تو انجیل کی جان جری رہتی ہے، ممکن ہے اگر آدمی کے ہاتھ پاؤں کاٹے جاویں تو زندہ رہ سکے لیکن اگر اُس کی جان نکال لی جاوے تو زندگی ناممکن ہے۔ اگر صرف چھوٹی باتوں یعنی بیرونی عضو ونمیں اختلاف ہوتا تو بفرض محال محمدیوں کے خیال کے موافق انجیل کی تحریف ہو سکتی لیکن جس حالت میں کہ قرآن انجیل کی جان کو رد کرتا ہے تو اُن کا دعویٰ کسی حالت میں بھی قابًل اعتبار نہیں ہو سکتا کیونکہ اُن کے پاس زرا بھی ثبوت نہیں ہے اور مسیحیوں میں اتنا زور کہاں تھا کہ اس مرُدہ نعش میں جسے محمدی اصلی انجیل ناحق تصور کرتے ہین کفارہ کی تعلیم بنا کر جان ڈالیں پس صاف ثابت ہے کہ محمد انجیل سے قطعی ناواقف تھا ورنہ وہ ایسی تعلیم نہ دیتا جو حقیقت میں اس کے لئے پھانسی کا حکم رکھتی تھی یعنی تعمیل اِنجیل اور تردید کفارہ کی تعلیم بالکل متضاد تعلیم تھی۔ خیر اب ہم وہ باتیں پیش کیا چاہتے ہیں جن کی اصلی اور کتابوں میں پائی جاتی ہے۔ ( ۱) سورہ مریم ۲۳ میں لکھا ہے کہ مریم کو انجیر کے درخت کے پاس درد زہ ہونے لگا۔ بیضاوی کہتا ہے وہ اس درخت کا سہارا لیتی تھی۔ یونانی قوم میں ایک دیوتا مسمّی اپالوؔ تھا۔ اس کی ماں کا نام لتوؔنا تھا۔ ہو مر شاعر کی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ اپاؔلو کے پیدا ہونے کے وقت جب درد زہ ہوا تو التوؔنا انجیر کے درخت کے پاس گئی اور سہارا لیا۔

( ۲ ) سورہ مریم ۲۸۔ ۳۴ میں پایا جاتا ہے کہ جب مریم کے رشتہ دار اس پر لعنت کرنے لگے کہ تو نے نادرست و بیجاکام کیا تو یسوع نے جھولے سے بولکر کہا کہ نہیں میں خدا کا بندہ ہوں وغیرہ وغیرہ۔ یہکہانی ایک چھوٹی انجیل مسمیّ یسوع کی طفولیت میں پائی جاتی ہے جس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ یسوع جھولے میں پڑا ہوا بول اُٹھا اور مان سے کہنے لگا کہ فی الحقیقت میں یسوع خدا کا بیٹا ہوں یعنی وہ کلام جو تونے جنا جیسا کہ جبرائیل فرشتہ نے تجھکو بتلایا۔ میرے باپ نے دُنیا کے بچانے کے لئے مجھکو بھیجا۔ صاف ظاہر ہے کہ اگرچہ محمد نے یسوع کی باتیں کو بدل دیا۔ پھر جی جھولے میں بالنے کی کہانی اُسی سے نقل کے علاوہ اس کے ہومر شاعر کی کتاب میں اپاؔلو کی بابت لکھا ہے کہ ابھی ماں کے پیٹ میں تھا اور باتیں کیں۔ کون کہ سکتا ہے کہ کچھ اس کا بھی اثر نہ ہوا ہو۔

( ۳ )سورہ عمران ۴۸ میں لکھا ہے کہ مسیح نے مٹی سے چڑیا بنا کر اُن کو زندہ کیا اور وہ اُڑنے لگیں۔ یہ کہانی لفظ بلفظ کتاب مذکور یعنی مسیح کی طفولیت اور نیز ایک اور جھوٹی انجیل میں جسے تھوما کی انجیل کہتے ہیں پائی جاتی ہے۔ ہمکو پہلی کتاب دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا مگر دوسری کتاب ہماری نظر سے گزری ہے۔

(۴) سورة النسا ۱۵۶ میں لکھا ہے کہ یہودیوں نے یسوع کو صلیب نہیں دی لیکن ایک اور شخص کو۔ یہ بدعتی فرقہ مسیحیوں مسمی دو کتیا ؔ کا ایک عقیدہ تھا اور چند کتابوں میں درج ہے مثلاً کتاب مسمے رسولوں کا سفر میں۔س٫۱۸۹۰میں ایک اور جھوٹی کتاب کا نسخہ پایا گیا مسمی پطرس کی انجیل جس میں یہی بات پائی جاتی ہے۔

پس ظاہر ہے کہ انہیں کتابوں سے نقل ہوا ہے۔ ہم ایک اختلاف پر توجہ دلاتے ہیں کہ بیان مذکورہ بالاا سے نتیجہ نکلتا ہے کہ خدا نے زندہ مسیح کو اُٹھایا لیکن قرآن کی دوسری آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح فوت ہوا مثلاً سورہ المریم ۳۴ میں لکھا ہے کہ عیسیٰ نے جھولے سے کہا کہ میں مرجاوں گا اور جس روز زندہ کیا جا‍‍‍ؤنگا سلامتی مچھر ہو گی دیکھو سورة النسا ۵۴۔

( ۵) سورة المائدہ ۱۱۶ سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد کی سمجھ میں مسیحی لوگ مریم کی تثلیث کا ایک اقنوم سمجھتے تھے۔ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ انجیل سے کہا ں تک ناواقف تھاجس کا دعویٰ یہ ہے کہ باپ بیٹا اور روح القدس تثلیث کے تین اقنوم ہیں۔ ہم سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ اُس نے یہ خیال کہانسے لیا۔ عرب میں مسیحیوں کا ایک فرقہ مسمی کلا روی انز تھا جو مریم کو ایک اقنوم سمجھتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد نے انہیں سے یہ بات لیلی۔ آخر مین ہم ناظرین کو توجہ دلاتے ہیں کہ ہر چند قرآن سے خداوند یسوع مسیح کی الوہیت کے رد کرنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی پھر نور تاریکی پر ظفر یاب ہوا۔ اور قرآن ہی سے خداوند کی اُلوہیت ثابت ہو جاتی ہے۔ ہم اُس کا مفصل حال بیان نہین کرتے لیکن اشارتاً یہ بتلاتے ہیں کہ روح اللہ اور قول الحق نیز اور ناموں سے جن سے خداوند یسوع مسیح نامزد کیا گیا ہے بخوبی ثابت بقیہ مضمون ہذا صفحہ ۱۴ میں دیکھو۔