عیسوی مذہب کا ثبوت

Evidence for the Christian Religion

Published in Nur-i-Afshan March 9th 1876
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

People in Swat Valley, Pakistan

دو ہزار برس کا  عرصہ گزرا ہے کہ اِنگلستان کے باشندے مورتوں کو پوجتے تھے۔ اور اُن کے وخوش کرنے کے لیے اپنے دشمنوں کی کھوُپریوں میں شراب پیتے تھے۔ مگر ان ہی دنوں میں ہندوستان کے باشندے بہت عقیل اور دانا تھے۔ اور روح جسم خدا اور اِنسان کی بابت بھی خوب چرچا کرتے تھے۔ لیکن اب تمام ملکوں میں لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ انگریز لوگ بہت ہی دانا ہوگئے ہیں۔اور ہندوستانی ویسا ہی اپنے آبا واجداد کے موافق ہیں بلکہ اُن سے بھی کم ۔ اِسکا کیا باعث ہے ۔ اِسکے بہت سبب ہیں مگر خاص کر کے یہہ ہے کہ انگریز لوگ عیسائی ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ ایک حبش کے بت پرست بادشاہ نے انگلستان کی بزرؔگی کامؔیابی حکؔمت دولؔت و حشؔمت کا سبب دریافت کرنے کے لیے ملکہ معظمہ کے پاس اپنے ایلچی بھیجے ۔ اِس کے جواب میں ملکہ نے ایک انجیل اٹھا کے کہا کہ یہہ ہی خاص ہمارے ملک کی بہبود کا باعث ہے۔ واضح  ہو کہ دنیا میں طرح طرح کے مذہب ہیں جن میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ اُن کے ماننے سے آدمی خوؔد غرض بےپرؔواہ اور کاہؔل ہو جاتا ہے۔ اور بعض ایسے ہیں کہ جن کے تسلیم کرنے سے بشر سنگدل خون ریز اور تُندمزاج ہو جاتا ہے۔ لیکن بعض ایسے ہیں کہ اُن کی پیروی کرنے سے رحمؔ دل  حلیؔم الطبع  خیرخواہ بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ جیسا معبود ویسا ہی عابد۔اب تمام قوموں کو دریافت کرنا واجب ہے کہ وہ مذہب جس کے سبب سے اِنگلستؔان جرؔمنی وغیرہ ملکوں میں ترقی ہوتی جاتی ہے سچّا ہے یا نہیں    بعضےلوگ کہتے ہیں کہ ہر ایک  ملک کا مذہب اُسنت واسطے سچّا ہے۔ اور اپنے باپ دادونکے مذہب کی تقلید کرنی واجب ہے۔ یہہ سراسر غلط ہے۔ کیا سب مذہب جو ایک دوسرے  سے اختلاف رکھتے  ہیں سچےّ ہو سکتے ہیں ۔ فرض  کرو کہ اگر دس(۱۰) گواہ کسی مقدمہ کی بات کچہریمیں  گواہی دیں اور وہ سب مخلتف  ارائے ہوں تو کس طرح کہ سکتے ہیں کی یہہ سب گواہ سچےّ ہیں  ہرگز نہیں۔ اسی طرح قرؔآن ویؔد شاؔستر  اور بیؔبل ایک دوسرے کے برخلاف ہیں۔ تو سب کے سب کسی طرح سے سچےّ نہیں ہو سکتے۔اور اُن میں سے جو جھوٹے ہیں راہ راست نہیں دکھلا سکتے  ۔ اور اْن کے ماننے والوں کو کچھ فایدہ نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ وے بعینہاُن لوگوں کی مانند ہیں جو سیدہا راہ چھوڑ کرآوارہ بٹھکتےپھرتے ہیں کیونکہ جب تک نوکر اپنے آقا کی مرضی سے واقف نہ ہو تب وہ اُسکو کسی طرح سے راضی نہیں  کر سکتا۔ مثلاً اگر آقا کسی سفر کے واسطے گھر کو چھوڑے اور اپنے خانگی  نوکرونکے لیے کام مقرر کرے اور وہ اُس کی مرضی کےموافق نہ بلکہ اپنی مرضی کے مطابق  کام کریں  تو وہ آقا  صرف ناراض نہ ہوگا  بلکہ اُن کو سزا بھی دیگا۔ اب ہم کو دریافت کرنا چاہیےکہ یہہ سب کتابیں  جو دنیا میں پائی جاتی ہیں اُن میں کون سی برحق ہے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں گناہوں کو ماننا چاہیے جن کو ہمارے باپ دادا  مانتے چلے آئے ہیں ۔ کسی نئے مذہب کی پیروی با  لکل نہیں کرنی چاہیے یہہ تو صرف اُن لوگوں  کا مذہب ہے وے دنیا وی باتوں میں کبھی ایسی دلیل پیش نہیں کرتے جب ہم اُن کو کہتے ہیں کہ اپنے لڑکوں کو انگریزی پڑھاؤ تاکہ خاطر خواہ نوکری ملے تب  وہ کبھی نہیں کہتے کہ ہم انگریزی نہ پڑھائینگے کیونکہ ہمارے باپ  دادوں انگریزی  نہیں پڑھی۔ پھر کسی کو پیدل چلتے ہوئے دیکھ کر کہینگے کہ ریل پر سوار ہوجاہیے تو وہ نہیں کہیگا  کہ میرا باپ دادا ریل پر سوار نہ ہوا  تھا میں نے بھی نہیں ہونا۔ لیکن جب ہم اُنکو کہتے ہیں کہ سچےّ مذہب کو اختیار کرو تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ ہم کو اپنے باپ دادوں کے مذہب کو ماننا چاہیے ۔ اِس سے صاف اُن کی بے پرواہی اور سسُتی پائی جاتی ہے۔ بھائیو ہمیں سچاّ دین درکار ہے۔ اِس کے حاصل کرنے کے لیے ہمیں نہایت سعی اور کوشش کرنی چاہیے۔کیونکہ ہم اِس کے زریعے سے بہشت کے وارث ہو سکتے ہیں یہہ بھی واضح ہو کہ اگر آدمی غریب کنگال پریشان اور مصیبت زدہ اس دنیا میں چاہے کیسا ہی ہو تو کچھ مضایقہ نہیں کیونکہ یہہ سختیاں اور مصبتیں چند روز ہ ہیں لیکن دوذخ  کا عذاب اور بہشت  کا سرور دائیمی ہے۔ دیکھو اگر تم قبرستان میں جاؤ اور کوئی شخص تمکو بتلائے کہ یہہ قبر دولتمند کی ہے اور وہ غریب کی یہہ جوان کی اور وہ بوڑھے کی تمھارا جواب یہی ہوگا کی کیا  مضایقہ کیونکہ سب مر کر یکساں ہوگئے ہین لیکن اگر تمکو یہہ بات معلوم ہو کہ یہہ آدمی دوذخ میں ہے اور بہشت میں  ہے تو اِس بات سے تم ضرور تعّجب کروگے کہ یہہ نہایت عجیب بات ہوگی بلحاظ اِن باتوں کے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دین ایک عمدہ وسیلہ ہے جس سے ہمیں واضح ہو جاتا ہے کہ خدا کونیسی باتوں پر راضی ہوتا ہے اور ہمیں خدا تعالیٰ کے راضی کرنے کے لیے کیا کیا کرنا چاہیے  چونکہ ہم سب گنہگار ہیں اِسواسطے ہم کو دریافت کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ ہمارے گناہونکو معاف کریگا یا نہیں اگر کر یگا تو   کس شرط پر  ۔ اِن سوالوں کا جواب خدا یا وہ کتاب جو اُس پر نازل ہوئی ہو دیسکتی ہے ۔ اگر کوئی ایسا شخص ہو جو مریضوں کی طرح طرح کی بیماریوں کو رفع دفع  کرے تو  تمام اِطراف کے لوگ کمال شوق سے اُسکے پاس آوینگے کہ شفایاب ہوویں مگر جب  روحانی بیماری ہو تو زیادہ تر جستجوکرنی چاہیے کہ اِسکا کیا علاج ہے اور وہ کہاں  سے دستیاب ہوگا۔ مذہب ضرور ایک ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے  نازل  ہوا اور جس کے ماننے سے ہم نجات  پا سکتے ہیں ۔ اب ہماری مراد یہہ کہ وہ دلیلیں جنسے یہہ مذہب برحق ہو سکتا  ہے۔ لکھیں پہربانی کر کے ہر طرح کا تعصؔب  بؔغض کینہؔاور دشمنؔی کو برکنار رکھ کر  اِن دلیلوں کو آزماؤ اور عقل کی ترازو میں  آزمائی کرو اگر ہلکی ہو تو مانو سب جانتے ہیں  کہ خدا   حاضر و ناظر ہے سچاّئی کو پیار کرتا ہے ہمارے دعاؤں کو بخوبی سنتا ہے اور زیادہ حق کی طرف  ہمیں رجوع کرتا ہے  لازم ہے کہ حق سے دعا مانگ کر اپنے مطلب کی طرف رجوع کریں۔ 

اگر کوئی عیسائی دین کی آزمایئش کرے  تو    اُس کی حقیقت کئی وجہ سے ثابت ہو تی  ۔ اوّل عیسیٰ مسیح کی اصل تعلیم جو ابتک موجود ہے اِس دین کی سچاّئی پر مشاہد کامل ہے۔  دوئم (۲) بسبب پاکیزگی کے اُسکا  خدا کی طرف سے ہونا ثابت ہوتا ہے۔ سیوم (۳) اُسکا خدا کی طرف سے ہونا نبیوں نی پیشگوئیوں سے بھی بدرجہ ثبوت پہنچتا ہے ۔ چہارم (۴) ثبوت کامل اُسکی حقیقت کا یہہ ہے کہ حواریونکی شہادت ور اُن کے  معتبرے اُسکے صدق پر گواہی دیتے ہیں ۔ پنجم (۵) اِس مذہب کا تمام دنیا میں میں پھیل جانا اُس کی حقیقت پر کامل شہادت ہے۔ اب ہم ہر ایک کو  مفصل بیان  کرینگے  خدا توفیق بخشے۔ 

عیسوی مذہب کا ثبوت

اصل انجیل عیسائیوں کے پاس موجود ہے۔

اِس فصل میں ہمیں یہہ دریافت کرنا چاہیے کہ آیا خدا وند مسیح کی اصلی تعلیم انجیل میں ہے کہ نہیں۔ اکثر خواندہ لوگ جانتے ہیں کہ اکثر محمدی دعویٰ کرتے ہیں کہ عیسائیوں کے پاس اصل انجیل نہیں ہے ۔پہلے اِسکو دریافت کرنا چاہیے ہمکو قوی اُمید  ہے کہ اکثر اہل اسلام اِس رسالہ کو پڑھینگے  ۔ تو ہم قرآن کی اُن آیتوں میں سے جن میں انجیل کا زکر پایا جاتا ہے ۔ چند ایک کو یہاں لکھتے ہیں تاکہ وے اِس بات پر قائل ہو ں کہ محمد صاحب کے وقت تک یعنے ساتویں (۷) صدی  عیسوی تک انجیل موجود تھی ۔ چنانچہ سورۃ یونس ۶۳ آیت     لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ یعنے  دُنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے اور سورۃ کہف   ۲۶ آیت    وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا یعنے اے نبیؐ! تمہارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے (جوں کا توں) سنا دو، کوئی اُس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے، (اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں رد و بدل کرو گے تو) اُس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے ۔ اور سورۃ مائیدہ  ۷۸ آیت     قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ حَتَّىٰ تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ صاف کہہ دو کہ "اے اہل کتاب! تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ توراۃ اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں"۔

اِن آیتوں سے صاف صاف معلوم ہے کہ محمد کے وقت میں محمدی لوگ جانتے تھے بلکہ اِسبات پر متیقن تھے کہ اصلی انجیل موجود ہے اور یہہ بات بہت سی کتابوں سے ثابت بھی ہو سکتی ہے فن چھاپہ کے ایجاد ہونے تک پیشتر انجیل ہاتھ سے لکھی  جاتی تھی۔ بباعث  کم ہونے کے اتنی عام جلدیں نی تھیں مگر تو بھی بہت کتب خانوں اور عیسائی عابدوں اور پادریوں کے گھروں میں موجو د تھیں۔ چنانچہ اُنھیں سے اب بھی  پائی جاتی  ہیں۔ اُن میں سے ایک نسخہ انجیل جو لندن میں ہے جو محمد صاحب کے زمانہ میں موجود تھا اور روم شہر کے ایک کتب خانہ میں اور  ایک جلد جو اُس سے بھی دوسو برس پیشتر موجود تھی۔ چند برس کا عرصہ گزرا ہی کہ ڈاکٹر تشن ڈرف ساحب  کوہ طور پر ایک کتب خانہ سے ایک نسخہ انجیل جو کہ قریب چودہ سو برس کے لکھی ہوئی ہوگی پائی اگر کوئی پوچھے یہہ کتابیں کس طرح معلوم ہوسکیں کہ اتنی مدتّ کی ہیں تو اِسکا جواب یہہ ہے کہ علیٰحدہ علیٰحدہ  صدیوں میں علیٰحدہ علیٰحدہ  چیزوں پر لکھی جاتی ہیں۔ مثلاً بہت سی صدیوں سے کتابیں کاغذوں کا پر لکھی جاتی ہیں لیکن یہہ کاغز جسپر کتاب چھپی ہو ئی ہے صرف ایکسو برس سے ہے جاری ہے۔ اسیطرح اور کتابیں جو اِسی کاغز پر لکھی ہوئی ہیں۔ اُن کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایکسو برس سے زیادہ کی نہیں لکھی ہوئیں اور کاغذ بھی اسیطرح زمانہ برذمانہ بدلتا جاتا ہے۔ پہلے پہل جب کاغذ نہ تھا بھیڑ بکری کے میشہ یعنے وصلی پر کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ علی ہذا لقیاس سیاہی ور خط بھی تفاوت چلے آئے ہیں۔ چنانچہ بہت پرُانی کتابوں کو دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ زمانہ سلف میں لکھنے کا اور ہی دستور تھا اِن علامتوں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہہ کتاب کتنی مدّت کی ہے۔ جس طرح انجیل  پشت در پشت ہمارے وقت تک چلی آئی ہے اُسیطرح اور بہت سی کتابیں مثلاً افلاؔطون  ارسؔطو زؔینوفن  ورؔجل طیؔطس سسؔرو وغیرہ مصنفوں کی کتابیں چلی آئی ہیں۔ اِن کتابوں کے لکھے جانے کا زمانہ ہی سیاسی خط اُس چیز سے جسپر کہ وہ لکھی جاتی تھیں پچھانا  جاتا ہے۔ یوناؔنیوں فرانسؔیسوں اور  انگلسؔتانیوں میں سے وے لوگ جو اِسبات سے واقف ہیں پرُانی کتاب کو دیکھ کر فوراًٍ بتلا دیتے ہیں کہ یہہ کتنی مدّت کی لکھی ہوئی ہے۔ فرنگسؔتان اور انگلؔستان  کے عولموں  نے پرُانی قلمی انجیلوں کا حال کی انجیلوں سے خوب مقابلہ کیا ہے لیکن مضمون میں زرا بھی فرق نہیں پایا۔ قدیمی انجیل کے پرُانے نسخے ایشیا  افریقہ فرنگستان اور بہت سے ملکوں کے کتب خا نوں میں پائے جاتے ہیں اور اُنک حال کی انجیل سے مقابلہ کرنے سے یہی معلوم ہوا کہ وے سب متفق المعنے ہیں۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہہ انجیلیں آپسمیں بہت سا تفاوت رکھتی ہیں یہہ اُن کی سراسر غلطی ہے۔ بیشک اب عیسائی معلم بھی   اِس بات کے قایل ہیں کہ بعض بعض انجیل کی کوئی آیت مختلف اللغط ہے مگر مختلف المعنے با لکل نہیں ہے۔ اور یہہ فرق بھی چھ(۶) یا  سات (۷) سو یونانی انجیلوں کے پڑھنے سے ثابت ہوسکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی  شخص پانچ یا چھ سو آدمی کو ایک کتاب پڑ ھکر سُنائے اور وے اُس کو لکھیں تو بیشک  اُن  کی نوشتوں میں بعض بعض  فرق پڑینگے ۔ اگر ایک ایک نوشت میں صرف  دو یا تین سو ہو جاویں تو بیشک سب نوشتوں میں بہت سے فرق پڑجائینگے ۔ لیکن اگر سب صاحب ہوش اور عالم  شخص ہوں تو بیشک سب کتابوں کا ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے سے سب کے سب فرق نکال ڈالینگے ۔ اکثر ایسے ایسے فرق ایک کتاب کو دوسری کتاب سے نقل کرنے میں پڑ جاتے ہیں لیکن اُنکی اصلیت میں فرق نہیں آیا۔ دیکھو ٹشن ڈرف صاحب نے ایک انجیل انگریز ی میں چھپوائی ہے جس میں اُس نے  اُن فرقوں کو جو تین بڑی قدیمی انجیلوں میں پڑتے تھے صحیح کر کر لکھا ہے مگر اس کتاب کے ملاحظہ کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ بڑا فرق نہیں ہے۔ کیونکہ یہہ کتاب وہی تعلیم دیتی ہے جیسے کہ اور بہت انجیلیں بیشک ایسے ایسے فرق انجیلوں میں پڑتے ہیں۔ ایک(۱) میں لکھا ہوگا کہ عیسیٰ نے کہا ۔ دوسری (۲ )دوسری میں کہ خداوند نے کہا ۔ تیسری(۳) میں کہ مسیح نے کہا۔ پھر ایک میں ہوگا کہ عیسیٰ نے اپنے شاگردونکو کہا اور دوسری میں کہ اُسنے  اُن کو کہا۔ اور وغیرہ۔ اگر کوئی شخص اسبات کو خوب تحقیقات کرنا چاہے  تو میں اُسکو ضرور بتلاؤنگا تاکہ اُس کو معلوم ہو کہ سب انجیلیں ایک ہی ہیں۔ ایک اور طریقہ جس سے اصل نجیل کا ابتک موجود ہونا ثابت ہوتا ہے یہہ ہے کہ بہت سے عیسائی بزرگوں کے نام تمام عیسائی ملکوں میں مشہور ہیں۔ چنانچہ جسٹن شہید جو کہ پہلی صدی میں زندہ تھا ٹرٹیلؔن جو  کہ دوسری  صدی میں تھا۔ اَریجنؔ  تیسری  میں بسیوٹیس اور اگستین چوتھی صدی میں زندہ تھے۔ جن کی تصنیفین بھی آجتک موجود ہیں اور اکثر عیسائی عالم بھی اُن کو پڑھتے ہیں غرض کہ انجیل کے پورا لکھے جانے کے دوسو برس  بعد تیس(۳۰) مصنف جن کی کتابیں آجتک موجود اور لاہور کے پادری صاحبوں کے پاس ہیں گزرے ہیں۔ جن میں انجیل کا حال اور اِس قدر آئیتں مندرج  ہیں کہ اگر  انجیل کھوئی جاوے تو ہم اُن کتابوں کے زریعہ سے اور ایسی بنا سکتے ہیں۔  ایک اور دلیل ہے جس سے انجیل کی اصلیت پائی جاتی ہے۔ عیسیٰ کے وقت سے آج تک بہت لوگ ایسے گزرے ہیں جو کہ دین عیسوئی کے بڑے دشمن تھے اُن میں سے ایک پا رؔفری سنَلسَنؔس ہے جو کہ مسیح کے بعد دوسری  صدی میں ہوا اور جولنین جو چوتھی  صدی میں میں گزرا ہے۔ یہہ تمام بیبل کی تردید  کرتے چلے آئے ہیں۔ مسمیٰ سالس نے ایک کتاب جسکا نام کلمہ حق تھا لکھی اُس میں مسیح کی موؔت پیدؔایش  بپتمؔسا  معجزؔوں  جی اُٹؔھنے اور اُسکی منؔادی کرنے کا ذکر ہے۔ باوجود ایسا سخت دشمن کے انجیل  کو جھوٹا نہ کر سکا ۔ اِس سے انجیل کی سرا سر صداقت پائی جاتی ہے۔ آریجن نے ایک کتاب اُسکے جواب میں لکھی اور کئی ایک باتوں کو اُس سے نکالکر اپنی کتاب میں مندرج کیا جو کہ اکثر پادری صاحبان کے پاس موجود ہے جو شخص دیکھنا چاہے دیکھ لے ۔ مسیح کی موت کے بعد بہت ملکوں کے لوگ  عیسائی ہوگئے چونکہ وہ یونونی  زبان نہ جانتے تھے۔ اِس لیے اپنی اپنی خاص  زبان میں انجیل کا ترجمہ کر لیا ۔ مثلاً سُرؔیانی کپؔٹی لیٹؔنی انؔگلو بیکسؔنی ا رؔمنی  ابتؔہی اوؔپک  کاتؔہک  اور وغیرہ  زبانوں میں ترجمہ ہو گیا۔  مسیح کی وفات کے ایکسو برس بعد  سُؔریانی اور لیٹنی زبان میں ترجمہ ہوا اِسیطرح بعض بعض تین سو  برس کے بعد ۔ بعد ازاں یورپ کے ہر ایک ملک کی زبان میں ترجمہ ہوتا چلاگیا۔  اِن تمام  ترجموں سے ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ اصلی انجیل ابتک موجود ہے۔ واضح ہو کہ انجیل اِس وقت عنقریب دو سو زبانوں میں چھپی ہے اور دنیا کے تمام حصوّں ایشیؔا افؔریقہ  امرؔیکہ اور یورؔپ اور وغیرہ ملکوں میں اور جزائیر میں ایک ہی طرح کی پائی جاتی ہے ۔ دیکھو اگر ہند کے مسلمان متفق  ہو کر اپنے قرآن بدل ڈالیں تو اور ملکوں کے محمدی لوگ مثلاً روؔم شاؔم  ایؔران مصؔر زنجبؔار الؔجیرس ٹرؔپولی  تیؔونس  مرؔاکو اور وغیرہ ملکوں کے اپنے قرآن کو کبھی نہ  بگاڑینگے ۔ کیونکہ یہہ با لکل ناممکن ہے اور اگر وے مسلمان بند کے قرآن سے اپنے قرآن کا مقابلہ کرینگے تو وے فوراً یہی کہیں گے کہ ہند کے مسلمانوں کے کئی ایک فرقے ہیں مثلاً شیؔعہ  سنُیؔ وہاؔبی صوؔفی اور وغیرہ اُن میں سے اگر ایک فرقہ قرآن کو اپنی  مرضی کے موافق بدل ڈالے تو اور فرقے کبھی اِ س بات کو منظور نہ کرینگے اور اپنے  اپنے قرآن کو کبھی نہیں  بد ل ڈالیں گے۔ 

اِسیطرح عیسائیوں کے بھی بہت سے فرقے ہیں جو یونی ٹیرین یوناوراسٹنٹ  پرو ٹسنٹ ومنسٹنٹ اور وغیرہ کہلاتے ہیں یہہ سب ایک ہی انجیل رکھتے ہیں ۔ اِس سے صاف صاف ظاہر ہوتا   ہے کہ عیسائیوں نے انجیل کو نہیں بگاڑا   ۔ اِن سب کے پاس وہی انجیل ہے جو کہ زمانہ سلف میں موجود تھی۔ جب اہل اسلام اپنے قرآن کو بدل نہیں سکتے تو عیسائی لوگوں کو کس طرح سے انجیل بدلنے کی جُرات ہوئی۔ جس طرح اب عیسائی لوگ اُن لوگوں کے درمیان جو اُن کے مذہب کے دشمن ہیں  بلکہ سراسر حقیر ہی جانتے ہیں بودوباش رکھتے ہیں اِسیطرح وے ہر ایک زمانہ اور ہر ایک ملک میں دشمنوں کے بیچ رہتے آئے ہیں ۔ چنانچہ اب بھی انگلسؔتان جرؔمنی فرؔانس اور امرؔیکہ میں بہت سے لوگ ہیں جو عیسائی مذہب کے سخت دشمن ہیں تو کیا ممکن ہے کہ ہم اُن کے روبرو کتاب کو بدل سکیں۔ اور اُن کوگوں نے بھی کبھی ہمکو نہیں کہا کہ تمنے اپنی کتاب کو بدل دیا ہاں مگر یہہ بات ہے کہ جب کوئی پادری کسی غیر زبان میں جس سے وہ بخوبی واقف نہیں انجیل کا ترجمہ  کرتا ہے تب وہ اُسکو دوسری دفعہ اچھی صاف کرتا  ہے تو یہہ اختلاف با لکل نہیں ہو سکتا کیونکہ اصلی یونانی  انجیل وہی ہے جو پہلی اور دوسری صدی میں موجود تھی ۔ پھر تمام لوگوں میں عیسائی مذہب کی تعلیم مشہور ہے تو جب اور کوئی قوم اپنی اپنی کتاب کو کبھی نہیں بدلتے اور عیسائی انجیل کی بہت تعظیم کرتے ہیں یہہ سمجھ کر کہ یہہ خدا کا کلام ہے جو ہم کو دیا گیا نجات کا راستہ دکھانے کو وہ بڑی خوشی سے اِ س کو پڑھتے اور پڑھاتے ہیں اور اُسکی پاک تعلیم پر گفتگو کرتے ہیں تو کیا وہ جان بوجھ کر تحریف کرینگے یہہ بالکل ناممکن ہے۔ پھر ہم اپنی کتاب کو کس طرح سے بدل ڈالیں گے اور لاکھ ہا روپیہ اِسواسطے صرف کرتے ہیں کہ تمام ذبانوں میں  اِسکا ترجمہ ہوجاوے۔  پھر سب لوگ جانتے ہیں کہ کوئی  شخص جب تک کہ اُسکو کوئی دنیاوی فایدہ یا خوشی کی اُمید نہ ہو تب تک وہ قصور نہیں کرتا۔جب انجیل کو بدل ڈالنے سے عیسائی لوگوں کو کچھ فایدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہوتا ہے لوّوے انجیل کو کیونکر بدل سکتے ہیں ۔ یہہ بھی واضح ہو کہ یہودی لوگوں کے پاس توریت ذبور  اور نبیوں کے صحیفے ابتک موجود ہیں۔ اور محمدی عالم بھی جانتے ہیں کہ وہ تعلیم جو انجیل میں پائی جاتی ہے اِن تمام کتابوں میں بھی ملتی ہے۔  مثلاً  عیسیٰ کی الوہیت اُسکا کفارہ ہونا، اور وغیرہ۔ اگرچہ عیسائی لوگ اپنی کتاب بدل ڈالیں تو یہودیوں کی کتاب کو کس طرح خراب کرینگے۔ اب ہم اُمید قوی رکھتے ہیں کہ اگر لوگ تعصب کو چھوڑ کر اِن دلیلوں پر غور کریں تو وہ بھی اِقرار کرینگے کہ یہہ انجیل جواب موجود ہے وہی ہے جو عیسیٰ کے بعد پہلی اور دوسری صدی میں موجود تھی۔ ایک اور سوال اِسبات پر کہ آیا کہ انجیل خدا کا کلام ہے یا نہیں بیان کرتے ہیں اگرچہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہندو لوگونکے پاس اصلی وید اور شاشترموجود ہیں اور آتش پرستوں  کےپاس  ژؔند واشتؔااور سکھ لوگوں کے پاس گرؔنتہ توبھی ہم اِنمیں  سے کسی کو کلام الہیٰ ہر گز نہیں کہہ سکتے جب اِسیطرح ثابت ہوا کہ اصلی انجیل ہمارے پاس موجود ہے تو اِس دلیل سے ہرگز خدا کا کلام نہیں ہوسکتی اب ہمیں اُسکو خدا کا کلام ثابت کرنا چاہیے۔

عیسوی مذہب کا ثبوت

انجیل خدا کا کلام ہے۔ عمدہ تعلیم کی شہادت

اگر کوئی شخص ہم کو سکی کتاب کو دکھلا کر دعویٰ کرے کہ یہہ کلام اﷲ ہے تو ہم ضرور یہی کہیں گے کہ ہمیں ضرور اِسباتکی تحقیق کرنی چاہیے کہ وہ تعلیم جو اِس میں پائی جاتی ہے خدا کی مرضی کے مطابق ہے یا نہیں جب ہم انجیل کو کلام الہیٰ کہتے ہیں تو ہمیں یہہ بھی دریافت کرنا چاہیے کہ وہ تعلیم جو اُسمیں پائی جاتی ہے خدا کی مرضی کے موافق ہے یا نہیں ۔ اگر اُسکی تعلیم اُسکی مرضی کے مطابق ہو تو بیشک اِسکو تسلیم کرنا چاہیے ورنہ اُسکو رد کریں۔ یہہ بھی پوشیدہ نہ رہے کہ اگر انجیل کی باتو ں میں سے بعض بعض ہماری سمجھ نہ آویں تو اُس پر تعجب کر کہ اُسکو ردّ نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ جس طرح آسمان زمین پر فوقیت اور ترجیح رکھتا ہے اُسیطرح خدا کی سمجھ ہماری سمجھ پر لڑکا اپنے باپ کی تعلیم  کو ہر گز جھوٹا نہیں سمجھتا ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرا باپ مجھ سے زیادہ دانا ہے۔ بعینہ اِسیطرح انجیل کو اگرچہ اُسکی بعض بعض تعلیمیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں خدا کا کلام کہتے ہیں اور اُسے لوگوں کو سُناتے ہیں۔ اور ہم دعویٰ بھی کرتے ہیں انجیل کی تعلیم سراسر خدا کی مرضی کے موافق ہے۔ دیکھو اِن دنوں میں بہت لوگ ہیں جو انجیل سے واقف ہیں مگر اسکی تعلیم پر بڑے بڑے اعتراض کرتے ہیں ۔ کیونکہ وہ  اِن باتوں پر جو ہماری سمجھ سے بعید ہیں مثلاً مسیح کی الوہیت اُسکا   مجسّم اور کفارہ ہونا  اور ایسے ایسے مشکلات جنکو عقل اِنسانی دریافت نہیں کر سکتی سوال کرتے ہیں۔ ہمکو صرف اُن تعلیموں دریافت کرنا چاہیے جو ہماری سمجھ میں آسکتی ہیں ۔ سب لوگ اِس بات پر متفق ہیں کہ خدا خدا تعالیٰ قادر مؔطلق حاضؔر  و ناظؔر دؔانا عادؔل پاؔک اور مہربؔان ہے ۔ دیکھئے انجیل میں بھی یہی تعلیم ہے جو آدمی انجیل کی تعلیم سے واقف ہیں وہ اقرار کرتے ہیں کہ تمام  صفات الہیٰ انجیل میں مندرج ہیں۔ اِس میں لکھا ہے کہ اگرچہ خدا تعالےٰ تمام قسم کے گناہوں نفرت رکھتا ہے تو بھی گنہگاروں کو پیار کرنا اور اُنکی نجات دینی چاہتاہے۔ چنانچہ اُسنے دنیا کو ایسا پیار کیا کہ اپنے بیٹے یسوع مسیح کو دنیا میں بھیجا کہ وہ ہمارے لیے جان دیوے تاکہ ہم نجات پاویں ۔ جو شخص انجیل کو ازروئے انصاف کے پڑھے تو اُسکو بخوبی معلوم ہوگا کہ خدا تعالیٰ دانا پاک رحم محبت کا چشمہ اور حقیقی باپ ہے ۔ اگرچہ اور کتابوں میں بھی لکھا ہے کہ خداوند تعالیٰ رحیؔم عادؔل پاؔک ہے لیکن اُنکی تعلیموں سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا بالکل رحیم  نہیں ہے۔ کو کوئی اپنے آپ کو یتیم سمجھتا ہے وہ انجیل کے پڑھنے سے معلوم کر لیتا ہے کہ میرا باپ خداوند تعالیٰ ہے اور جو اپنے کو پلید اور گنہگار تصور کرتا ہے وہ دریافت کرتا ہے انجیل سے کہ خدا مجھے ضرور بچانے کے لیے تیار ہے وہ کسی گنہگار کی بربادی پر راضی  نہیں ہے بلکہ  وہ یہی چاہتا  ہے کہ سب کے سب سچےّ اور ایماندار ہو کر نجات ابدی حاصل  کریں۔ اے بھائیو ہم تمھاری منّت کرتے ہیں کہ اگر تم خدا کی محبت اور رحمت سے واقف ہو نا چاہتے ہو۔ تو انجیل کو پڑھو بیشک انجیل کی تعلیم کامل ہے اُس کے اوّل سے لیکر آخر تک یہی لکھا ہے کہ تم حلیم الطبع غریب دل پاک دل بنو۔ اپنے دشمنوں کے قصوروں کو بھی معاف کرو۔ اُنھیں پیار کرو اور اُنکے لیے  پروردگار سے دعا   مانگو ضابر اور رضامند  بنو خدا تعالیٰ کی دل و جان سے عبادت کرو۔ اپنے ہمسایونکو اپنے جیسا سمجھو خدا تعالیٰ کی مانند پاک ہو۔    نحن اقرب إِلَيْهِ من جل الورید یعنے خدا تعالیٰ ہماری شاہرگ سے بھی نزدیک ہے اگر حکموں کو ظاہری  طور پر مانیں اور دل حقیقی پاکیزگی اور محبت مبعّرا ہو تو صرف  قبرونکی مانند جو باہر سے سفید اور اندر سے طرح طرح کی کی الایش  اور اسُتخوانوں سے پُر  ہیں ہوگا۔  حال میں بہت سے ہند و بنگالی اِس ملک میں ہیں جو علم انگریزی سے واقفیت رکھتے ہیں۔ وہ بھی اِس بات کے مقتر ہیں کہ کسی نے آج تک ایسی تعلیم  نہیں دی جیسی کہ عیسیٰ مسیح نے دی ہے۔ صرف پچاس (۵۰) برس کا عرصہ گزرا ہے کہ راجہ رام موہن رائے نے جسکا نام ابتک تمام ہندوستان میں مشہور ہے اپنے لوگوں کو شائیستہ کرنے کے لیے بہت ہی سعی و کوشش اور انجیل سے  بہت باتوں کو نکالکر چھپوایا  تاکہ اُسکے ہم وطنوں کو معلوم ہوجاوے کہ خدا کو  کیا کام پسند آیا ہے کہ اُس نے باوجود عیسائی نہ ہونے کے عیسیٰ کی تعلیم کو پسند کیا ۔صرف یہی باعث ہے کہ وہ دانا تھا اور وہ جانتا تھا کہ یہہ تعلیم حقیقی اور درست ہے۔ علاوہ اِس کے مسیح کے ہم عصر لوگ اُس کی تعلیم کو سنکر بے اختیار یہی کہتے تھےکہ کسی نے آج تک ایسی تعلیم نہیں دی  جیسا کہ یہہ دیتا ہے۔  اِس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہہ تعلیم عین خدا کی مرضی کے موافق ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اور کتابوں میں بھی پاک تعلیم ہے تو میں یہہ جواب دیتا ہوں کہ بیشک لیکن انجیل کی تعلیم سراسر صحیح اور پاک ہے ہمکو اب لازم ہے کہ مسیح کے چال چلن پر بھی غور کریں۔ اگر تم ازروئے انصاف کے پڑھو تو تمکو معلوم ہوجاویگا کہ اُسکے افعال وا قوال بہت سی عمدہ تھے بلکہ تم بھی اقرار کرو گے کہ کوئی دنیا  میں اُسکے برابر نہ تھا وہ کہتا تھا کہ باپ  اور میں ایک ہوں جو کچھ اُس نے کہا   یا کیا اُس کے دعویٰ کے موافق تھا اکثر ایسا واقعہ ہوتا ہے کہ بڑے بڑے اُستادوں کی تعلیم اُن کے کردار کے موافق نہیں ہوتی یعنے اُنکا چال وچلن اُن کی تعلیم کے برخلاف ہوتا ہے۔ بعض بعض نے اپنی کمزوری سے واقف ہو کر کہا ہے اور اقرار بھی کر دیا ہے کہ بھائیو ایسا کو جیسا کہ ہم سکھلاتے ہیں نہ ایسا کہ جیسا ہم کرتے ہیں ۔ لیکن مسیح کا چال و چلن اُس کی تعلیم کے عین مطابق تھا وہ ہمیشہ حلیؔمی  پرہیؔزگاری  فروؔتنی مؔحبت ہی دکھلاتا تھا۔  ہر ایک کنگال اور گنہگار کی وہ ہمدردی کرتا تھا۔ جب اُس کے دشمن آزمائیش کے طور پر اُس سے سوال کرتے تو وہ اُنکو نہایت حلیمی اور دانائی سے جواب دیتا تھا۔ جب اُسکے دشمن اُسکو طرحطرحکی ایذا دیتے تو وہ صبر کرتا تھابلکہ خدا سے کہتا تھا کہ ای باپ  اِنکو معاف کر کیونکہ یہہ نہیں جانتے   کہ کیا کرتے ہیں ۔ جب اُسکے ایک شاگرد نے اُسے بوسہ سے پکڑوایا تو اُس نے صرف اُسے یہہ کہا کہ اے یہودا کیا تو ابن آدم کا بوسہ لیکر اُسے پکڑاتا  ہے۔ جب یروشلم کی عورتیں اِسلیے کہ گنہگار لوگ اُسے صلیب۔

عیسوی مذہب کا ثبوت

انجیل خدا کا کلام ہے پیشین گوئیوں سے ثبوت

اہل اسلام اور عیسائی اسبات پر متفق  ہیں کہ خدا تعالیٰ نے نبیونکی معرفت اپنی مرضی ظاہر کی اور دونوں مانتے ہیں کہ موسیٰ و داؤد  و دانیال وغیرہ سب انہیں نبیونمیں سے تھے علاوہ اِسکے قرآنمیں بھی اِنکا  زکر پایا جاتا ہے۔ نورائجےس ثابت ہوتا ہے کہ یہودی اپنی کتاب کی نہایت حفاظت کرتے چلے آئے ہیں۔ جب عیسیٰ اِس دنیا میں تھا تو اُن کو اکثر ملامت کرتا تھا۔ کیونکہ وہ اپنی کتابوں پر عمل نہیں کرتے تھے۔ لیکن اُس نے اُنکو کبھی نہیں کہا تھا کہ تمنےاُن کو خراب کر دیا ہے بلکہ اُنہیں کتابوں کو لیکر اُنکو سناتا تھا اور فرماتا تھا کہ اُن پر عمل کر و۔ یہہ کتابیں عبرانی زبان میں ککھی گئی تھیں۔ اور آج تک یہودی اور عیسائی لوگ اُن کو اُسی زبان میں پا سکتے ہیں مسیح سے تین سو  برس  کے قریب پیشتر  سکندریہ کے ستر عالموں سے یہہ کتابیں عبرانی سے یونانی زبان میں ترجمہ کی گئیں۔ یہی ترجمہ جو تمام روئے زمین پر مشہور ہے سعہ اصلی کتابوں کے ملتا ہے ۔ جو لوگ اِس بات پر یقین کرینگے کہ یہودیوں پاس توریت وغیرہ صحائف انبیا موجود ہیں۔ تو اُن کو یہہ بھی کہنا ضرور پڑیگا کہ یہودیوں نے عیسائیو کو اتنی فر صت ہرگز نہیں دی کہ وہ اُنکی کتاب کو اپنے مطلب کے موافق بدل ڈالیں تاکہ وہ عیسیٰ پر گواہی دیویں ردوّبدل کر سکیں۔ خدا کی مرضی سے ایسا ہوا کہ یہودی لوگ تمام دنیا میں پراگندہ  ہو گئے اور اپنی کتابیں بھی اپنے ساتھ رکھتے ہیں پس ہم یہہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جو پیشنگوئیاں اِن کتابوں میں مسیح کی بابت مندرج ہیں عیسائی دین کو ثابت کرتی ہیں۔ اگر کوئی شخص پیشنگوئی کرئے کہ عیؔسیٰ  یا  محؔمد یا مدؔاس آویگا۔ اگرچہ پوری بھی ہو تو اِس سے کچھ  ثابت نہیں ہو سکتا کیونکہ ہزار ہا آدمیوں کے ایسے نام ہوتے ہیں ۔ یا اگر کوئی شخص کہے کہ اٹلی یا عرب کے ملک کی زبان سے آگ نکلیگی اور وہ نکل بھی پڑی تو اِس سے کچھ ثابت نہیں ہوتا ۔ کیونکہ آگ کئی ایک ملکوں کی زبان سے نکلتی ہے۔ اگر کوئی زخص کہے کہ انگریز اِس صدی میں قندہار تک فتح کر لیوینگے یا اہل روس کابل تک آوینگے اگر یہہ ہو بھی جاوے تو اس سے بھی اُسکی بنوت نہیں  پائی  جاتی  اکثر لوگ ایسی ایسی باتوں سے فریب کھاتے ہمارے نزدیک چند دلایل میں جن سے سچیّ پیشن گوئی ثابت ہو سکتی ہے ۔ اؔوّل پیشینگوئی پوری ہونیکے پیشتر ہی لکھا جاوے۔ دؔویم  کہ کسی فایدہ کے واسطے ہو ۔ سیؔوم کہ وہ با لکل آدمی پیش بینی سے باہر ہو۔ چہارم کہ وہ پوری بھی ہو جاوے۔ اور پنجم یہ کہ پیشین گوئی  اپنے پورا  ہونے کے سبب نہ ہووے۔ اگریہہ پانچ  علامتیں پائی جاویں  تو بیشک پیشین گوئی سچی ہوگی۔ دیکھو نبیوں کی کتابوں میں بیشمار پیشین گویاں ہیں خدا نے نبیوں کی معرفت مصر  کوہ طور  بابل سور یہودیہ  وغیرہ کی بابت زکر کیا کہ کیا حال آیندہ کو اِنکا   ہوگا۔ 

اِن باتوں کے پارا ہونے سے یقیناً معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی جن کی معرفت یہہ سب باتیں لکھی گئی تھیں خدا سے الہام پائی تھیں۔

اب ہم اُن پیشین گوئیوں کا بیان کرتے ہیں جو مسیح اور اُسکی بادشاہت کے بابت  زکر کی گئی ہیں۔ پیدایش کے تیسرے باب کی پندرہویں آیت میں ایک بچانے والے کا زکر ہے۔ جسکا خطاب عورت کی نسل ہے انجیل سے بھی ثابت ہے کہ عیسیٰ مریم کنواری سے پیدا ہوا۔ خدا نے اشارہ دیا کہ یہہ بچانے والا ابراہیم کی نسل سے ہوگا ۔ دیکھو پیدایش کا ۲۲باب ۳ آیت ۔ اور پھر اصحاق سے ہوگا۔ پیدایش ۲۶ باب ۴ آیت ۔ اِسکے ۴۹ باب ۱۰ آیت سے صاف صاف ظاہر ہے کہ یہی بچانے والا بادشاہ یہودہ کے فرقہ سے آنے والا تھا۔ اور یسعیاہ نبی کے ۱۱ باب ۱۰ آیت میں یوں لکھا ہے کہ وہ یسیّ کی نسل سے ہوگا۔ پھر یسعیاہ نبی کی معرفت خدا تعالیٰ  نے فرمایا   کہ کنواری پیٹ ہوگی اور بیٹا جنیگی اور اُسکا نام عمانوئیل یعنے خدا ہمارے ساتھ رکھینگے  ۔ ہر ایک  شخص جانتا ہے کہ عیسیٰ مریم کنواری سے پیدا ہوا۔ اور انجیل سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ خدا مسیح میں مجسم ہوا ۔ اور مسیح  کے نسب نامے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم سے اصحاق پیدا ہوا  اور اصحاق سے یعقوب اور یعقوب سے یہوداہ اور یہوداہ کے خاندان میں یسّی پیدا ہوا اور یسیّ سے داؤد  بادشاہ اور مسیح داؤد کے خاندا ن میں پیدا ہوا۔ سو مسیح میں یہہ سب پیشین گوئی پوری ہوئی۔ پھر اُسی نبی نے کہا کہ ہمارے واسطے ایک لڑکا تولد ہو تاہے  اور ہمکو ایک بیٹا بخشا جاتا ہے جسکے کاندے پر سلطنت ہو گی اور اُسکا نام عجؔیب مؔشیر خدا قاؔدر مطلؔق ابدیؔت کا باپ اور سلامتی کا شہزادہ ہوگا۔ یہہ سب باتیں یسعیاہ نبی کے ساتویں باب ۱۴ آیت میں بیان ہوئیں تو وہ ضرور عمانوئیل ہی تھا۔ اور جو لوگ انجیل سے واقف ہیں وہ سب جانتے ہیں کہ وہ سب مسیح میں پوری ہوئیں۔ پھر میکاہ ۵ باب کی ۲ آیت میں لکھا ہے کہ بیت الحم میں پیدا ہوگا۔ اور متی کے ۲ باب سے ظاہر ہوتا ہ ے کہ اگرچہ مریم بیت لحم میں نہیں رہتی تھی تو بھی خدا کی قدرت اور حکمت ایسی ہوئی کہ وہ وہاں چلی گئی اور مسیح وہاں پیدا ہوا تاکہ یہہ پیشین گوئی پوری ہو۔ علاوہ اِسکے جبرائیل نے دانیال نبی کو خبردی کہ وہ فلانے زمانہ میں پیدا ہوگا اور اُسکا نام  یہہ نام ہوگا اور کفارہ ہونے کیواسطے آ ئیگا۔ دیکھو باب ۹ ، ۲۵ آیت ۲۷ تکپس تُو معلُوم کر اور سمجھ لے کہ یروشلِیم کی بحالی اور تعمِیر کا حُکم صادِر ہونے سے ممسُوح فرمانروا تک سات ہفتے اور باسٹھ ہفتے ہوں گے ۔ تب پِھر بازار تعمِیر کِئے جائیں گے اور فصِیل بنائی جائے گی مگر مُصِیبت کے ایّام میں۔ اور باسٹھ ہفتوں کے بعد وہ ممسُوح قتل کِیا جائے گا اور اُس کا کُچھ نہ رہے گا اور ایک بادشاہ آئے گا جِس کے لوگ شہر اور مَقدِس کو مِسمار کریں گے اور اُس کا انجام گویا طُوفان کے ساتھ ہو گا اور آخِر تک لڑائی رہے گی ۔ بربادی مُقرّر ہو چُکی ہے۔ اور وہ ایک ہفتہ کے لِئے بُہتوں سے عہد قائِم کرے گا اور نِصف ہفتہ میں ذبِیحہ اور ہدیہ مَوقُوف کرے گا اور فصِیلوں پر اُجاڑنے والی مکرُوہات رکھّی جائیں گی یہاں تک کہ بربادی کمال کو پُہنچ جائے گی اور وہ بلا جو مُقرّر کی گئی ہے اُس اُجاڑنے والے پر واقِع ہو گی۔ واضح رہے کہ  ایک ہفتہ سات برس کی مراد رکھتا ہے۔ جب یہہ بات دانیال پر ظاہر ہوئی تب بنی اسرائیل بابل میں اسیر تھے لیکن تھوڑے دن بعد بادشاہ نے اُن حکم کیا کہ وہ اپنے ملک کو جاکر یروسلم اور ہیکل کو پھر بناویں اگرچہ اُسکے بنانے میں کچھ روک ٹوک ہوئی تو بھی وہ کامیاب ہوگئے اور اُس حکم کے صادر ہونے سے مسیح کی موت  تک ۴۹۰ بر س سے  تین  چار بر س کم تھے۔ جیسا کہ لکھا گیا تھا کہ وہ غیروں کے واسطے پچھلے ہفتہ کے درمیان میں مارا جاویگا۔ جسطرح کہ یسعیاہ نبی کے ۶۱باب کی ۱آیت سے ۳ تک لکھا ہے اُسیطرح عیسیٰ نے لوگوں کی تسّلی کی اور اُنکو خوشخبری سنائی۔اُن میں لکھا ہے کہ خُداوند خُدا کی رُوحمُجھ پر ہےکیونکہ اُس نے مُجھے مَسح کِیا تاکہ حلِیموں کو خُو ش خبری سُناؤُں اُس نے مُجھے بھیجا ہے کہ شِکستہ دِلوں کو تسلّی دُوں ۔ قَیدیوں کے لِئے رہائی اور اسِیروں کے لِئے آزادی کا اِعلان کرُوں۔ تاکہ خُداوند کے سالِ مقبُول کا اور اپنے خُدا کے اِنتقام کے روز کا اِشتہار دُوں اور سب غمگِینوں کو دِلاسا دُوں۔ صِیُّون کے غمزدوں کے لِئے یہ مُقرّر کر دُوں کہاُن کو راکھ کے بدلے سِہرااور ماتم کی جگہ خُوشی کا رَوغن اور اُداسی کے بدلے سِتایش کا خِلعت بخشُوں  تاکہ وہ صداقت کے درخت اور خُداوند کے لگائے ہُوئے کہلائیں کہ اُس کا جلال ظاہِر ہو۔ یسعیاہ نبی کی ۵۳ باب کی پہلی آیت میں لکھا ہے کہ لوگ اُسپر ایمان نہیں لاوینگے سو ایسا ہی ہوا۔ پھر اُسی کی دوسری اور تیسری آیت ہے کہ وے اُسکو حقیر جائنیگے۔  اور چوتھی آیت سے ساتویں تک کہ تَو بھی اُس نے ہماری مشقّتیں اُٹھا لِیں اور ہمارے غموں کو برداشت کِیا ۔پر ہم نے اُسے خُدا کا مارا کُوٹااور ستایا ہُؤا سمجھا۔حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کِیا گیااور ہماری بدکرداری کے باعِث کُچلا گیا ۔ہماری ہی سلامتی کے لِئے اُس پر سیاست ہُوئیتاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم شِفا پائیں۔ہم سب بھیڑوں کی مانِند بھٹک گئے ۔ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پِھراپر خُداوند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لادی۔وہ ستایا گیا تَو بھی اُس نے برداشت کی اور مُنہ نہ کھولا ۔ جِس طرح برّہ جِسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اورجِس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے بے زُبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا۔یہہ بھی حرف حرف پورا ہوا۔ پھر پچاسواں باب ۶آیت میں لکھا ہے کہ مَیں نے اپنی پِیٹھ پِیٹنے والوں کے اور اپنی داڑھی نوچنے والوں کے حوالہ کی ۔ مَیں نے اپنا مُنہ رُسوائی اور تُھوک سے نہیں چُھپایا۔اور مسیح کی موت کے بابت ۲۲ زبور کی ۱۳ آیت سے ۱۸ تک اِسطور پر لکھا ہے کہ   وہ پھاڑنے اور گرجنے والے بَبر کی طرح  مُجھ پر اپنا مُنہ پسارے ہُوئے ہیں۔ مَیں پانی کی طرح بہہ گیا۔ میری سب ہڈّیاں اُکھڑ گئیِں۔میرا دِل موم کی مانِند ہو گیا۔ وہ میرے سِینہ میں پِگھل گیا۔ میری قُوّت ٹِھیکرے کی مانِند خُشک ہو گئی اور میری زُبان میرے تالُو سے چِپک گئی اور تُو نے مُجھے مَوت کی خاک میں مِلا دِیا۔ کیونکہ کُتّوں نے مُجھے گھیر لِیا ہے ۔ بدکاروں کی گروہ مُجھے گھیرے ہُوئے ہے۔ وہ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں چھیدتے ہیں ۔ مَیں اپنی سب ہڈِّیاں گِن سکتا ہُوں ۔ وہ مُجھے تاکتے اور گُھورتے ہیں۔ وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں۔ اور میری پوشاک پر قُرعہ ڈالتے ہیں۔پھر ۱۶ زبور کی ۹ اور ۱۰ آیت میں لکھا ہے کہ  اِسی سبب سے میرا دِل خُوش اور میری رُوح شادمان ہے۔ میرا جِسم بھی امن و امان میں رہے گا۔ کیونکہ تُو نہ میری جان کو پاتال میں رہنے دے گا۔ نہ اپنے مُقدّس کو سڑنے دے گا۔

یہہ سب باتیں مسیح میں ہی پوری ہوئیں ۔ یہہ تمام پیشین گویاں جو عیسیٰ کے بابت لکھی گئیں ہیں ایکدوسرے سے اِسقدر تفاوت اور ضد رکھتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ایک آدمی میں پوری ہونگی۔ مثلاً ایک جگہ میں لکھا ہے کہ وہ  بڑا فتحمند بادشاہ  ہوگا۔ دوسری زبور کی ۷ آیت سے ۱۳ تک دیکھو پھر یسعیاہ نبی کے ۵۳ کی ۷ آیت میں لکھا ہے کہ وہ ایک مصیبت زدہ اور مغلوب ہوگا۔ اِسی کتاب کے ۹باب کی ۶ آیت میں لکھا ہے کہ وہ قادر مطلق ابدیت کا باپ  اور اسی آیت میں لکھا ہے کہ وہ لڑکا ہوگا۔ پھر دانیال کے ۲ باب کی ۴۴ آیت میں لکھا ہے کہ اُس کی بادشاہت  ابد الاباد ہوگئی۔ اور کئی ایک جگہوں میں لکھا ہے کہ وہ مارا جاویگا۔ ایک جگہ لکھا  کہ وہ مردود ہو گا۔ لیکن ۷۲ زبور کی ۴،۸،۹،۱۱،۱۲،۱۳،۱۷آیت میں اِسکی لکھا ہے یہہ سب کی سب باتیں مسیح میں پائی جاتی ہیں بیشک خدا نے اِن پیشین گوئیوں کو ہماری ہدایت اور تسلّیکیواسطے لکھوایا۔ یہودیوں کی تواریخ سے پایا جاتا ہے کہ وہ لوگ قوموں کو کتےّ کی مانند جانتے ہیں۔  جسطرح برہمن لوگ اور قوم کے آدمیوں کو ناپاک اور حقیر جانتے ہیں۔ اِسطرح وہ بھی تصور کرتے ہیں۔ ایک روز ایسا واقع ہوا کہ جب پولوس رسول نے اُن کے سامنھے کہا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے غیر قوموں کے پاس بھیجا ہے انہوں نے اُسکو مار ڈالنا چاہا اِس کے علاوہ کئی ایک نبیوں نے یہی کہا کہ جب یسوع آویگا خدا یہودیوں کو ردّ کر کے اور قوموں کو قبول کرے گا۔ اِسکی تصدیق کے لیے کئی ایک آیت نبیونکی  کتابوں سے نکا لکر ہم لکھتے ہیں۔ چنانچہ یسعیاہ کے گیا رھویں باب کی ۱۰ آیت میں لکھا  ہے کہاور اُس وقت یُوں ہو گا کہ لوگ یسّی کی اُس جڑ کے طالِب ہوں گے جو لوگوں کے لِئے ایک نِشان ہے اور اُس کی آرام گاہ جلالی ہو گی۔ پھر ۴۲باب کی پہلی آیت میں لکھا ہے  کہ دیکھو میرا خادِم جِس کو مَیں سنبھالتا ہُوں ۔ میرابرگُزِیدہ جِس سے میرا دِل خُوش ہے ۔ مَیں نے اپنی رُوح اُس پر ڈالی ۔ وہ قَوموں میں عدالت جاری کرے گا۔اُسی کی چھ ّیت میں خداوند نے تجھے صداقت کے لیے بلایا میں ہی تیرا ہاتھ پکڑوں گا۔ اور تیری حفاظت کرونگا اور لوگوں کے عہد اور قومونکے نور کے لیے تجھے دونگا۔ اور ۴۹ باب کی ۲۲آیت خُداوند خُدا یُوں فرماتا ہے کہ دیکھ مَیں قَوموں پر ہاتھ اُٹھاؤُں گا اور اُمّتوں پر اپنا جھنڈا کھڑا کرُوں گا  اور وہ تیرے بیٹوں کو اپنی گود میں لِئے آئیں گے اور تیری بیٹِیوں کو اپنے کندھوں پر بِٹھا کر پُہنچائیں گے۔ اور ۶۰ باب کی ۳،۵، ۱۱ آیتوں میں اور قَومیں تیری رَوشنی کی طرف آئیں گی اور سلاطِین تیرے طلُوع کی تجلّی میں چلیں گے۔  اور سلاطِین تیرے طلُوع کی تجلّی میں چلیں گے۔ہاں تیرا دِل اُچھلے گااور کُشادہ ہو گا۔ کیونکہ سمُندر کی فراوانی تیری طرف پِھرے گی۔ اور قَوموں کی دَولت تیرے پاس فراہم ہو گی۔ اور تیرے پھاٹک ہمیشہ کُھلے رہیں گے ۔ وہ دِن رات کبھی بند نہ ہوں گے۔ تاکہ قَوموں کی دَولت اور اُن کے بادشاہوں کوتیرے پاس لائیں۔ اور ۶۲ باب کی دوسری آیت   تب قَوموں پر تیری صداق اور سب بادشاہوں پر تیری شَوکت ظاہِر ہو گی  اور تُو ایک نئے نام سے کہلائے گی جو خُداوند کے مُنہ سے نِکلے گا۔ اور ۶۶ باب کی ۱۲، ۱۹ آیت   کیونکہ خُداوند یُوں فرماتا ہے کہ دیکھ مَیں سلامتی نہر کی مانِند اور قَوموں کی دَولت سَیلاب کی طرح اُس کے پاس رواں کرُوں گا تب تُم دُودھ پِیو گے اور بغل میں اُٹھائے جاؤ گے اور گُھٹنوں پر کُدائے جاؤ گے۔ ۴۹ باب کی ۱۶ آیت اُنکی جالی کی پوشاک بن نہیںسکتی وے اپنی بناوٹ سے آپکو ڈھانپ نہیں سکتے۔ یہہ سب پیشین گوئیاں پوری ہوئیں اور ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ جب عیسیٰ مسیح اس دنیا میں تھا اُس نے بھی بہت سی پیشینگوئیاں کہیں اور وہ حرف بہ حرف پوری ہوئیں ۔ اُسنے اپنی موت کی پیشین گوئی کی کہ میں کس وقت مارا جاؤں گا۔ متی کی  ۱۲، ۱۸ آیت کو ملاحظہ کیجئے۔ اُسنے یہہ بھی کہا کہ میرا ایک شاگرد مجھے پکڑوائیگا۔ مرقس کے ۱۴ باب ۱۰ آیت کو دیکھو کہ کس طرح مارا جاوے ۔ متی ۲۰ باب  ۱۹ آیت اور مرقس ۱۰ باب ۳۳ آیت اُس نے کہا کہ میرا شاگرد لوگوں سے حقارت کئے جاوینگے  پھر  اُسنے یر وسلم  برباد ہونے کے بابت بھی کہا ۔ متی کے ۲۴ باب  ۲، ۱۰، ۱۶، ۲۱، ۲۲، ۳۴ آیتوں پر ملاحظہ فرمائیے ۔ یہہ سب باتیں  مسیح کی موت کے چالیس برس بعد حرف بہ حرف پوری ہوئیں۔

عیسوی مذہب کا ثبوت

انجیل خدا کا کلام ہے۔ حواریوں کی گواہی سے ثبوت

انجیل کے تصدیق کرنے کی تیسری  دلیل حواریوں کی گواہی ہے جب تم سے کوئی پوچھے کہ تم کس طرح سے  جانتے ہو کہ اکبر بادشاہ دہلی کا تھا تو تم جواب دہوگےکہ لوگون کی زبان اور کتب تواریخ سے ثابت ہے کہ وہ دہلی کا بادشاہ تھا۔ ایسا یہ سب جانتے ہیں کہ ارسطو ایک یونانی حکیم تھا اور فرعون مصر کا بادشاہ علیٰ ہذا القیاس اور بہت سی باتیں ہیں جو صرف گواہی سے ثابت ہوتی ہیں اور ہم اِن میں ذرا بھی شک نہیں کر سکتے ۔ لیکن بعض بعض گواہیاں بھی  قابل  اعتبار نہیں ہو سکتیں۔ اِس لیے ہمکو ایک ایسا قانون بنانا چاہیے کہ جس سے سچیّ اور جھوٹھی گواہیاں ثابت ہو سکیں۔ چار وجہ ہیں جنسے سچیّ جھوٹھی گواہی معلوم ہوسکےی ہے۔ پہؔلے یہہ کہ وہ بات جسکی بابت گواہی  دی جاوے اغلب ہو۔ مثلاً اگر کوئی آدمی کہے کہ اورنگ زیب نے اپنے بھائیوں کے ساتھ بڑی سختی کی۔ تو یہہ بات ہو سکتی ہے۔ لیکن یہہ اغلب نہیں کہ کرشن نے  گو پیونکو بارش  سے محفوظ رکھنے کے لیے پہاڑ کو اپنی  انگلی پر اُٹھا کر اُن کے سر پر سایہ کر دیا۔ دوسرے یہہ کہ گواہ بہت ہوں اور معتبربھی۔ فرض کرو کہ اگر کسی مقدمہ کی تصدیق کرنے کے لیے صرف ایک گواہ ہو تو کچہری میں کوئی شخص اُسکی بات پر اعتبار نہیں کر سکتا ۔ یہہ بھی واضح ہو کہ شریر اور بد معاش لوگوں کی گواہی قابل سماعت نہیں ہو سکتی۔ تیسرے یہہ کہ گواہ نے شہادت سے کچھ نفع  نہ اُٹھایا ہو اور اگر اپنی مطلب برآری پر گواہی دیوے تو یہہ بھی مانی نہیں جا سکتی ۔ چوؔتھے یہہ کہ گواہ جس بات پر وہ گواہی دیتا ہے اُس سے آگاہ  ہو۔ وہ گواہی جس میں یہہ چار باتیں پائی جاویں قابل اعتبار ہیں بگر نہ ہر گز نہیں۔ اب ہر ایک کا علیحدہ علیحدہ بیان کیا جاتا ہے ۔ پہلا یہہ کہ جو بات جس کی بابت گواہی دیجاوی ممکن ہو۔ دیکھو اﷲ تعالیٰ نے اِنسان اور حیوان کیواسطے کیسے کیسے عمدہ بندوبست کئے ہیں مثلاً دیکھنے کے لیے آنکھ سونگھنے کو ناک اور سنُنے کو کان اور وغیرہ  سب چیزیں عطا کی ہیں ۔ اِن سب کے سوا ایک اور بات ہے جو ہر ایک انسان کے لیے بہت ہی ضروری ہے یعنے نجات اور یہہ بات اغلب ہے کے اُس نے ضرور اِس کے واسطے بھی بندوبست  کیا ہوگا کیونکہ وہ ہماری بہتری چاہتا ہے نجات یہہ ہے کہ ہم گناہ کی طاقت اور اُسکی پلیدگی اور سزا سے چُھٹکارا  پاویں۔ اِس چھٹکارے کے لیئے بندوبست چاہیے۔مثلاً اگر کسی کا باپ اپنے بیٹے کو اُسکی تندرستی کی حالت میں اُسکو پیار کرے اور ضروری چیزیں دیوے تو جب وہ بیمار ہوگا تو بھی وہ اپنے لڑکے کا اچھی طرح حفاظت کریگا اور کوشش کرے گا تاکہ وہ صحت پاوے تو کیا وہ مہربان جس نے ہمکو تمام دنیاوی چیزیں دیں کیا یہہ بندوبست  نہ کریگا کہ ہم گناہ سے بچیں اور ہمیشہ کی زندگی پاویں۔

پوشیدہ نہ رئے کہ عیسیٰ کے کام  اور کلام کے بہت سے گواہ ہیں۔ چنانچہ وہ شاگرد جوعیسیٰ کے ساتھ رہے  اور اُسکے کلام کو سنُتے رہے جن کی گواہی آج تک موجود ہے اکثر اہل اسلام نہیں جانتے کہ مسیح جے حواریوں کا زکر قرآ ن میں  ہے لیکن اگر دریافت کرنا ہو تو سورۃ مائدہ کی  ۱۱۱،۱۱۲،۱۱۳ آیت کو دیکھیے  ۔     وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ ۔ یعنے اور جب میں نے حواریوں کو اشارہ کیا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تب اُنہوں نے کہا کہ "ہم ایمان لائے اور گواہ رہو کہ ہم مسلم ہیں"۔    إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَن يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۔ یعنے جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ مریم کے بیٹے کیا تیرا رب کر سکتا ہے کہ ہم پر خوان بھرا ہوا آسمان سے اتارے کہا الله سے ڈرو اگر تم ایمان دار ہو ۔     قَالُوا نُرِيدُ أَن نَّأْكُلَ مِنْهَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ أَن قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَكُونَ عَلَيْهَا مِنَ الشَّاهِدِينَ ۔ یعنے انہوں نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہو جائیں اور ہم جان لیں کہ تو نے ہم سے سچ کہا ہے اور ہم اس پر گواہ ر ہیں ۔ عیسیٰ نے اپنے شاگردوں میں سے بارہ کو چُن لیا تاکہ وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہیں اور اُس کے ساتھ اور اُسکے پیچھے انجیل کی منادی کریں اُن میں سے مؔتی یوحّؔنا یعقؔوب  پطؔرس نے مسیح کا احوال کم وبیش لکھا ۔ اِن کے سوائے  مؔرقس لوؔقا اور پوؔلوس نے اِس کام  و کلام پر گواہی  دی جب  یہہ تمام شاگرد اور   اَور   عیسائی لوگوں کے درمیان منادی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمنے اِن بوتونکو بچشم خود دیکھا ہے اور کانوں سے سناُ ہے تو بیشک وہ  لوگ جنمیں سے سنِکڑے لوگوں نے مسیح کو دیکھا اور اُسکی کلام کو سُنا  ہے اِن باتوں  کو مانتے ہیں۔ اب اِن لوگوں کے چال وچلن کو دریافت کرنا چاہیے جو آدمی اُن کتابوں کو پڑھیگا  اُسکو بخوبی  واضح ہوگا کہ وے راست گو اور نیک تھے  کیونکہ اُن کی تعلیم میں فرؔوتنی حلیمؔی بردبارؔی ایک دوسرے کی خطاؤں کی معافی اور محبت پائی جاتی ہے اور خود غرضی کا نشان بھی نہیں  پایا جاتا۔  برہموں کی کتاب میں لکھا ہے کہ برہموں کی عزّت کرو  اور جو شخص کسی برہمن کو گائے دیگا سئرگ میں داخل ہوگا اور جو برہمن کو کسی گناہ کیواسطے ماریگا وہ نرگ میں جائیگا۔  قرآن سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اِسکا مصّنف محمد صاحب دنیاوی اور جسمانی خوشیونکی بہت خواہش کرتا تھا کیونکہ اُس نے کہا کہ مجھے بہ نسبت  اور مسلمانوں کے زیادہ عورتیں چاہیئں۔ جب اُسکی قسم نے اُسے روکا اُسے حکم دیا گیا کہ قسم کو مت مانو ۔  سورۃ تحریم کی پہلی اور دوسری آیت کو دیکھ لیجئے ۔ يَاأَيُّهَاالنَّبِيُّ    لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ۔ یعنے اے نبی آپ کیوں حرام کرتے ہیں جو الله نے آپ کے لیے حلال کیا ہے آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔    قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ وَاللَّهُ مَوْلَاكُمْ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ یعنے  الله نے تمہارے لیے اپنی قسموں کا توڑ دینا فرض کر دیا ہے اور الله ہی تمہارا مالک ہے اوروہی سب کا جاننے والا حکمت والا ہے۔    يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ ۔یعنے  اے نبی ہم نے آپ کے لیے آپ کی بیویاں حلال کر دیں جن کے آپ مہر ادا کر چکے ہیں اور وہ عورتیں جو تمہاری مملومکہ ہیں جو الله نے آپ کو غنیمت میں دلوادی ہیں۔ برعکس اِسکے خداوند عیسیٰ مسیح کے شاگرد ہر طرح کی خیر خواہی اور خاکساری ظاہر کرتے تھے اور عزت کے خواہاں  کبھی نہ ہوئے تھے کبھی غرور نہ کرتے تھے اور اپنی رسالت پر کبھی فخر نہ کرتے تھے۔ وہ کبھی نہیں کہتے تھے کہ ہم اعمالوں سے بچیں گے صرف خدا کا فضل ہمکو بچا سکتا ہے کیونکہ ہم بھی اور آدمیوں کی مانند گنہگار اور  لاچار ہیں ۔ سورۃ الانفال  کی پہلی آیت میں لکھا ہے۔    يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ ۔ یعنے تجھ سے غنیمت کا حکم پوچھتے ہیں کہہ دے غنیمت کا مال الله اور رسول کا ہے۔اگر حواری یہہ کہتے کہ غنیمت  کا مال ہمارا اور خدا  کا ہے تو وہ بالکل خود غرض  ہوتے لیکن یہہ عادت تو اُن میں پائی بھی نہیں جاتی  بلاشک وہ لوگوں کی نجات کا فکر کرتے تھے نہ لوٹ کا ۔ کاش  کہ خدا   لوگوں کی آنکھیں کھول دیوے اور وے مسیح کے حواریونکی پاکیزگی اور خود انکاری سے واقف ہوں۔

اب تیسرا نشان سچیّ گواہی کا یہہ ہے کہ  گواہ کو کچھ لالچ نہ ہو جب  سن ۱۸۵۶ ء  میں ہندوستا ن میں غدر مچا تو   جس طرح بہت مفسدوں نے انگریز اور عیسائی  خاص کر کے اُن لوگوں جو واعظ   تھے مارنا چاہا  بلکہ کئی ایک کو مار بھی ڈالا۔ ۔ اسیطرح اُن دنوں میں جب عیسائی مذہب کا آغاز ہو ا خدا وند یسوع مسیح کے کہنے کہ مطابق کہ میں تمکو بھیڑوں کی مانند بھڑیوں میں بھیجتا ہوں اور جو کوئی تمکو مار ڈالیگا یہی گمان کریگا کہ میں خدا کی خدمت بجا لاتا ہوں اسیطرح یہودیوں اور غیر قوموں نے مسیح  کے شاگردوں سے  و پیروں سے دشمنی  حقارت اور طرح طرح کی تعدّی کی بلکہ کتنے پیروں کو قتل بھی کیا  ۔  باوجود اِس ظلم و ستم کے وے لوگ اپنی جان کو ناچیز سمجھ کر ملک بہ ملک شہر بہ شہر گا تو بہ  گانو  پھر تے تھے اور انجیل کی منادی کرتے تھے۔  تواریخ سے منکشف ہوتا ہے  کہ حواری بالکل غریب اور کنگال تھے اور اُن میں بہت سے لوگ مارے بھی گئے ۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ وے  دنیاوی فائیدہ کے ہر گز خواہاں  نہ تھے وہ راست گو تھے اور  دنیاوی فائیدہ کے واسطے جھوٹ نہ بولتے تھے۔ اگرچہ وہ دنیا سے مردود ہوئے اور اُنکا جینا کسی کو  گوارا نہ تھا اور ہر شخص اُن کے قتل  کے درپے تھا تاہم وے اپنے خدا اور اپنے بچانے والے  کے حضور میں روحانی شان و شوکت سے رہتے تھے خدا تعالی اپنے فضل سے ہم کو بھی اُن کی مانند کرے یہہ بھی واضح ہو کہ جب یوّحنا نے رویا  میں آسمان کو کُھلے ہوئے دیکھا اور بہت لوگ سفید پوشاک پھنے ہوئے  اُسے نظر آئے تب اُسنے فرشتے سے پوچھا کہ یہہ کون ہیں ۔ تو اُس نے اُسے جواب دیا  کہ یہہ وہ لوگ  جنہوں نے بسبب قبول کرنے دین عیسوی کے نہایت تکلیف پائی  تھی۔ پولوس رسول کی تحریر سے واضح ہوتا ہے کہ ہے کہ اُس  نے تین بار چھڑیوں سے مار کھائی ۔  ایک دفعہ سنگسار کیا گیا ۔ پانچ  بار ایک کم چالیس کوڑے  کھائے اور  وغیرہ تواریخ  سے ثابت ہوتا  ہے کہ آخر کا ر قتل ہوا بیشک عیسایونکو پہلے پہلے  ایسے فائیدے ملتے تھے۔

چھوتھا سچاّ نشان سچیّ گواہی کا یہہ ہے کہ گواہ اُس بات کی گواہی دیوے جس سے وہ اچھی طرح سے واقف ہو۔عیسیٰ نے جو کچھ سناُیا  یا سکھایا  جہان کے سامنے کیا یا اپنے شاگردوں کے سامنے وے گانؤ گانؤ ملک بہ ملک  اُسکے ساتھ رہتے اور پھرتے تھے اُسی کے ساتھ کھاتے پیتے تھے۔ اور وہ معجزے جو اُس نے لوگوں کو دیکھائے سب اُن کے سامنے ہی ہوئے  اُن کی گواہی عین درست ہے کیونکہ اُنھوں نے جو دیکھا اور سنُا وہی لوگوں کے سامنے بیان کیا۔ جب اِس بات میں کچھ شک نہیں  کہ جو باتیں حواریوں نے کہیں  سچیّ تھی اور ممکن بھی تھیں  تو بیشک وہ قابل اعتبار تھیں دنیا میں گواہی دینے کے باعث اُن کو ہر طرح کی تکلیف ملی اور کسی طرح کا فایٔدہ نہ تھا۔  اور وہ باتیں جن پر وہ گواہی دیتے تھے اُن کے سامنے ہوئیں اور انھوں نے بچشم خود دیکھا تو ضرور اُن کی گواہی ماننے کے لایق ہے جس قدر دلایل عیسیٰ کی بات حواریوں اور اور لوگوں نے دی ہیں میں دعویٰ کرتا ہوں کہ اِس قدر دلیلیں سکندر اعظم کی فتوحات کی بھی نہ ہونگی۔ اگرچہ اِس کی فتوحات میں کوئی آدمی شک نہیں تو بھی اُن کی گواہی  ایسی پختہ نہیں جیسا کہ انجیل کی یعنے جس طرح مسیح کا احوال گواہیوں  سے ثابت ہوتا ہے سکندر کی فتوحات نہیں ہو سکتیں جب باوجود اِن سستُ گواہیوں کے ہمیں ماننا  پڑتا ہے کہ سکندر ایک عظم بڑا   جنگی بادشاہ تھا تو ہم کیوں نہ اُسکو مانیں کہ خداوند عیسیٰ مسیح جس کے بابت بیشمار پختہ گوا ہیا ں ہیں ایک معجزہ کرنے والا اور بچانے  والا۔

عیسوی مذہب کا ثبوت

انجیل خدا کا کلام ہے ۔ معجزوں سے ثابت

گزشتہ فصلوں میں یہہ بات ثابت کی گئی ہے کہ جو جو ماجرے انجیل میں  لکھے گئے ہیں ماننے کے لایق ہیں اور اگر ہم اُن کو نہ مانیں تو تمام تواریخ کو ردّ کرنا پڑیگا۔ اور یہہ بالکل نہ مانناچاہیے کیونکہ یہہ اسیطرح بنائی گئی جیسی اور تواریخ کہ سلطان محمود غزنوی  ہندوستان میں آبا اور اکبر دہلی کا بادشاہ  ہوا ۔ جو کوئی آدمی انجیل کو پڑھے اُسکو بخوبی معلوم ہو جاویگا کہ جو کچھ اسمیں لکھا ہے عین درست ہے ور پختہ دلائیل کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے۔ دیکھو انجیل میں کیا لکھا ہے کہ عیسیٰ نے بہت سے معجزات کئے ہیں چنانچہ بیماروں کو صحت دی جنم کے اندھوں کو بینا کیا ۔ بہروں کے کان کھولے ۔ کوہڑیوں کو پاک و صاف کیا۔ پانچ روٹی سے پانچ ہزار آدمیوں کو سیر کیا ۔ مرُدوں کو ذندہ کیا۔ اور وغیرہ۔ یہہ سب عجیب کام فقط اُس کے کام سے ہوئے ایسے معجزوں سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ خدا کا فرمان ہے۔ اور وے لوگ جو ایسے ایسے معجزے کرتے ہیں بیشک اپنی باتوں پر خدا تعالیٰ کی مہر رکھتے ہیں۔ مثلاً جب کوئی فرمان حکام ّ کیطرف سے صادر ہونا ہے تو جب تک وہ اُنک مہر  و دستخط سے مثبت نہ ہو تو لوگ اُسکو اصلی فرمان تصّور نہیں کرتے اور شک میں پڑے رہتے ہیں کہ آیا ہم کو اسپر عملدار آمد کرنا چاہیے یا نہ واضح ہو کہ اِس دنیا  میں بہت ایسے ایسے لوگ آئے ہیں جو پیغمبری کا دعویٰ کرتے ہیں اور حقیقت میں وہ جھوٹھے ہیں اسواسطے اُن سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ ہندؤں کے شاستروں میں بیشمار معجزونکا  زکا زکر جن کے سنُنے  سے ہنسی آتی ہے اور تعلیم  ہندؤنکی اُن کو جھواٹا جانتی ہے۔ بیشک ایسی ایسی بیہودہ کراماتوں  کو ردّ کرنا  چاہیے۔ کیونکہ وہ ماننے کے لایق نہیں ہے۔ لیکن ایسا نہ کرنا چاہیے کہ سب کے سب معجزوں کو ردّ کریں ۔ کیونکہ خدا کے نزدیک نبیوں سے معجزے کرانا کچھ مشکل بات نہیں ہے اکثر ایسا واقع ہوتا ہے کہ بہت سے روپیوں میں چند روپیہ کھوٹے بھی ہوتے ہیں۔سب روپیوں کو کھوٹے نہیں بنا سکتے بلکہ اُن کو اچھی طرح پرکھتے ہیں کہ کھراکون ہے اور کھوٹا کون۔ اسواسطے اب بفضل خدا اُن نشانونکو  جن سے سچیّ کرامامتیں  پہچانی  جاسکتی ہیں بیان کرتے ہیں ۔ 

پہلا یہہ کہ وہ خدا کے لایق ہو  نہ ہنسی کا باعث۔ مثلاً  اگر کوئی شخص مجھے کہے کہ فلانے شخص  نے اپنے بیٹے کا سر کاٹ کر ہاتھی کا سر لگا دیا۔ یا  کسی  آدمی نے پہاڑ کو نگل لیا یا اُسنے چاند کو اپنی تلوار سے دو ٹکڑے  کر دیا ۔ جب میں سے ایک  ٹکڑا  اُسکی استین سے ہو کر نکل گیا۔ تو میں اِن باتوں کو باوجود پختہ دلایٔل کے کبھی نہ مانونگا۔ لیکن بیماروں چنگا اندھوں کو بینا کرنا مرُدونکو زندہ کرنا کو یڑوں کو پاک و صاف کرنا خدا ہی پر موقوف ہے اور اُسی کے لایق ہے ۔ ایسے ایسے معجزے خداوند عیسیٰ مسیح نے کئے اور اُس کے معجزات سے ہیں چند نصیحتیں بیش  قیمت حاصل ہوئیں ۔ اور اُسکے کاموں سے سراسر روحانی تعلیم ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاً جب اُسنے کویڑیوں کو پاک و صاف کیا تو اُس سے ثابت ہوا کہ وہ گناہ سے بھی صاف کر سکتا ہے۔ انجیر کے درخت کو سُکھانے سے یہہ ثابت ہوا کہ جو آدمی نیکی کا پھل نہیں لاتا سکھایا جاتا ہے۔ بیماروں سے تندرست کرنے سے واضع ہوا کہ وہ روحانی حکیم ہے اور دل کی بیماری کو بھی زایٔل کرنا ہے۔ بیشک عیسیٰ کے معجزے خدا کی مرضی کے مطابق تھے۔  دوسرا نشان یہہ ہے کہ طرح طرح کے معجزے و قوع میں آویں ۔ مسیح نے بیشمار معجزے مختلف قسموں کے کئے۔ اگر کوئی شخص ایک قسم کے چند معجزے دکھا وے  تو دے ۔ ماننے کے لایق   نہیں ہو سکتے  کیونکہ اُنمیں فریب پایا جاتا ہے۔ مسیح نے برخلاف اسبات کے گانؤ بہ گانؤ دہ بدہ  پھر کر بہت سے لوگوں کو قسم قسم کی بیماریوں سے چنگا کیا۔ مرُدونکو قبروں سے نکالکر زندہ کیا۔ لنگڑے اُسکے حکم سے  ہر نونکی مانند کوونےلگے۔ ناپاک روحوں کو دیو انوں سے نکالا۔ اور بعض بعض وقت ایسا واقع ہو کہ آندھی اور سمندروں نے اُسکا  حکم مانا۔ ایسی ایسی باتو ں میں کبھی فریب نہیں پایا جاتا۔ تؔیسرا یہہ کہ معجزا برملا کیا جا وے بیشک عیسیٰ نے اپنے معجزے عام  لوگوں کے سامنے دکھائے۔ ایسے کہ ہر ایک آدمی ا ُسکو  سمجھ سکتا تھا اور معجزے فی الفور وقوع میں آجاتے ہیں۔ چنانچہ جسوقت ُاسنے آندھے کو کہا کہ بینا ہو تو  وہ فوراً بینا ہو سکے ۔ یہی نشان ہیں  کہ  جنسے  سچےّ معجزے ثابت ہوں گے۔ چوؔتھا یہہ کہ دشمن بھی  معجزے کے قایل ہوں۔ اگرچہ اُسکے دشمن بسبب عداوت معجزوں کے مقر تھے۔ ور اُن کو درست جانتے۔ آج تک محمدی لوگوں میں مشہور ہے  اُسکے دم میں صحت تھی۔ اگرچہ یہودی لوگ کہتے ہیں اور اُن کی کتاب میں بھی لکھا ہے کہ اُسنے عجیب عجیب کام دکھلائے مگر بہت تعصب سے کہتے ہیں کہ وہ ساحر تھا۔ پانچواں یہہ کہ گواہی پختہ ہو یہہ بات مشہور ہے کہ اُسکے شاگرد   جان سے مار دالے گئے۔ مگر اُسکے معجزون  کی گواہی سے ہر گز  باز  نہ آئے  اِس لیے کہ وہ  ہمیشہ   عیسیٰ کے ساتھ رہتے تھے اور اُسکے کاموں کو اچھی طرح سے  دیکھتے تھے تو کس طرح  ہو سکتا ہے کہ وہ دھوکھا کھاتے دیکھو وہ کیا کہتے ہیں کہ ہم نے اُسکے قسم قسم کے معجزوں کو دیکھا ہمارے سامنے وہ صلیب پر کھینچا گیا جب پھر وہ زندہ ہوا  ہمکو کئی بار ملا ہمارے سامنے وہ آسمان پر چڑھ گیا۔ جب لوگ اُنکو کہنے  سے مانع آئے  تو اُنہوں نے جواب دیا کہ خدا  کا حکم انسان کے حکم سے افضل ہے اور بیشک ماننے کے لایق ہے۔ جیسا اُنکو کہا کہ ایسی ایسی باتیں مت کرو ورنہ تم قتل کئے جاؤ گے تاہم وہ باز نہ آئے۔ دیکھو جان بہت عزیز ہے اور جان کو بچانے کے واسطے انسان ہر ایک دنیاوی چیز کو قربان کرتا ہے اگر وہ فریب کھاتے تو کیونکر اپنی جان دیتے۔ جب انہوں نے فریب نہیں کھایا  اور دیا بھی نہیں تو اُنکی بات قابل تسلیم ہے۔ عیسیٰ اپنی اپنی قول کی تصدیق کے لیے معجزے کئے جو جو اُسنے سکھلایا وہ سچ برحق اور ماننے کے لایق ہے۔

عیسوی مذہب کا ثبوت

انجیل خدا کا کلام ہے ۔ انتشارِانجیل سے ثبوت

انتشار ِ انجیل اُسکی صداقت کا بھاری نشان ہے۔ جانتے ہیں کہ مسیح سے تھوڑی مدّت کے بعد  دین عیسوی تمام ملکوں میں پھیل گیا اور کئی ایک قوموں سے تسلیم کیا گیا۔ اور بعض لوگ اعتراض کرینگے کہ دین محمدی بھی اسیطرح سے پھیل گیا تھا ۔  درحقیقت سچ ہے یہہ بھی جاننا چاہیے کہ صرف مذہب کے پھیلنےسے اُسکی سچاّئی ظاہر نہیں ہے مگر کئی ایک شرطوں سے  لوگ اپنے قدیمی مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کو کئی ایک وجہ سے اختیار کرتے ہیں۔ دڑ سے لالچ یا نجات کیواسطے۔ تمام علماءمحمدی جانتے ہیں کہ جس وقت  محمدصاحب نے ایک فریق کو  کو جمع کیا اُس نے اپنے مذہب کو تلوار کت زور سے پھیلا دیا۔ مثلاً  کوئی شخص وحشیوں کے بیچ بڑا بہادر ہو اور چاروں طرف چھوٹے چھوٹے فرقے ہوں جو آپس میں میل نہیں رکھتے تب وہ بہادر ایک نئے مذہب کو جاری کر کے بتلادے کہ یہہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اور یہہ بھی کہے کہ جو شخص اُسکے واسطے لڑائی کرئے اُسکو اِس دنیا میں لوٹ اور خوبٖ صورت عورتیں ملینگی۔ اور اُس دنیا میں ویسی خوشی اُسکو عنایت ہوگی تو بیشک بہت لوگ اُسکو قبول کرینگے اور جس قدر زیادہ شریر لوگ ہوں گے اُسقدر اُسے زیادہ مانیں گے کیونکہ لڑائی زر زمین اور زن کے لیے ایسے ایسے لوگوں کو بہت عزیز ہوتی ہے۔ لیکن عیسائی دین انسان کی ساری بدخواہشوں کے برخلاف ہے۔ دیکھو جب عیسیٰ کے شاگرد اُس کی عزت اور پچاؤ کیواسطے اُسکے دشمنوں کے ساتھ لڑنا چاہتے تھے۔ تو وپ اُنکو منع کرتا تھا کہ تم نہیں جانتے کہ تم کس طرح کی روح رکھتے ہو۔ علاول اُسکے اُس نے انہیں فرمایا کہ میں تمکو بھیڑونکی مانند بھیڑیونکے درمیان بھیجتا ہوں ۔ اور وہ اُن کو یہہ ہی سکھلاتا تھا کہ رحم دل اور فروتن مزاج ہو جو دشمن تم پر سختی کرے تو خفا مت ہو اپنے دشمنونکو کو پیار کرو اُن کے قصوروں کو معاف کرو اُن کے لیے دعا مانگو اس لیے کہ مغرؔور لالؔچی دغاؔباز کؔینہ وار اور سنگدؔل بادشاہت الہیٰ میں کبھی داخل نہیں ہو سکتا۔ میں تم سے پوچھتا ہوں کہ بیشمار لوگوں نے اپنے قدیمی مذہب کو کس واسطے چھوڑ کر اِس مذہب کو اختیار کیا ہے ۔ اگر کوئی شخص کہے کہ اُن لوگوں نے دنیاوی مطلب کیواسطے اختیار کیا ہوگا تو یہہ سراسر غلطی ہے کیونکہ دین عیسوی دنیاوی خواہشوں کے بالکل برخلاف ہے۔ اِسکا سبب یہہ کہ جب انہوں نے پہچان اور غور کی کہ یہہ لوگ جو کہ کراماتیں کرتے ہیں اور نئے مذہب کی تلقین کرتے ہیں سچےّ ہیں تو اُنکی بات کو ماننا چاہیے ۔ پھر ہم سب جانتے ہیں کہ اکثر لوگ اپنے پُن اور ثواب کو اپنا فخر سمجھتے ہیں جیسا کہ نمازی اپنی محراب کو حاجی حج کو پنڈت ودیاّ کو جاتری تیرتھ کو جوگی یا سنیاسی بڑے دُکھ  کو خداوند عیسیٰ مسیح نے صاف فرمایا ہے کہ پُن اور ثواب خداوند تعالیٰ کے آگے کچھ قدر نہیں رکھتے ہیں آپ سے پھر پوچھتا ہوں کہ انہوں نے اِس مذہب کو جس کے سبب کہ وہ جانتے تھے کہ ہمارے رشتہ دار ہم کو چھوڑ دیوینگے اور حکم ہم پر سب سے پچھلی دلیل جس سے دین عیسوی سچاّ ٹھہرایا جاتا یہہ ہے کہ وہ آدمی کی دلی بیماریوں کو اچھی طرح سے انکا علاج کرتا ہے فرض کرو کہ ایک آدمی بیمار ہوا ہو اور دس حکیم اُس کے علاج کیواسطے مقرر ہوں۔ جو بتا دیں کہ ہم میں سے ہر ایک اس بیماری کا علاج کر سکتا ہے۔ ازا نجملہ معلوم ہو کہ نو حکیم اُس بیماری کا علاج نہیں کر سکتے اور دسواں بیماری کو خوب تشخیص کرے۔ اور ظاہر کرے کہ مریض کے سر پیٹ اور خون میں خلل ہو اور بیماری کی قباحت کو بیان کرے اور کہے کہ میں بخوبی  اِسکا علاج کر سکتا ہوں۔ تب سب دانا لوگ کہینگے کہ بیشک یہہ دسواں حکیم اِس بیماری کا علاج کر سکتا ہے ۔ میں مدّعی ہو ں کہ بیبل ہی انسان کی ایسی ایسی دلی بیماریوں کو رفع دفع کر سکتی ہے۔ وہ کسی کی چاپلوسی نہیں کرتی وہ ہمکو بار بار یہہ سکھلاتی ہے کہ تم خود بخود تندرست نہیں ہوسکتے اور صرف خدا کا نام لینے یعنے حّج کرنے روزہ رکھنے نماز پڑھنے یا زکوۃدینے  سے خلاصی نہیں پا سکتی۔ لیکن برعکس اِسکے وہ ہمیں یہی سکھلاتی ہے کہ ایسے کاموں سے آدمی مغرور اور متکبر ہو جاتے ہیں اور خدا کی نظر میں اِن کاموں کے کرنے سے آدمی گنہگار ٹہرایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ لوگ جو ایسے ایسے کام کرتے ہیں ریاکار ہیں اور لوگوں سے عزت پانیکے واسطے انہیں بجا لاتے ہیں اور یہہ نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ اِس سے ناراض ہے۔ انجیل ہمیں نہ صرف یہہ سکھلاتی ہے کہ ہم کبھی کبھی گناہ کرتے ہیں بلکہ ہمیں بار بار کہتی ہے کہ ہم بزاتہ گنہگار ہیں اور ہم میں کوئی خوبی نہیں ہے اسبات کی تصدیق کے لیے چند آیتیں لکھی جاتی ہیں ۔ پولوس کے رومیوں کے خط کے پہلے باب کی اکیسویں (۲۱) بتیسویں (۳۲) آیت تک کیونکہ اُنہوں نے اگرچہ خدا کو پہچانا تو بھی خدا کے لایق اُسکی بزرگی اور شکرگزاری نہ کی بلکہ باطل خیالوں میں پڑگئے اور اُن کے نافہم دل تاریک ہوگئے وہ آپ کو دانا ٹھہرا کے نادان ہوگئے اور غیر فانی خدا کے جلال کو فانی آدمی اور پرندوں اور چارپایوں ور کیڑے مکوڑوں کی موت سے بدل ڈالا ۔ اِس واسطے خدا نے بھی اُن کے دلونکی خواہش پرانہیں ناپاکی میں چھوڑ دیا کہ اپنے بدنوں کو آپس میں بحیرمت کریں۔ اور مخلوق کی پرستش اور بندگی کر کے خالق کو چھوڑ دیا جو ہمیشہ ستایش کے لایق ہے۔ اِس سبب سے خدا نے اُن کو گندی شہتوں میں چھوڑ دیا ۔ تیسرے باب کی دسویں آیت سے اٹھارھویں آیت تکچُنانچہ لِکھا ہے کہ کوئی راست باز نہیں ۔ ایک بھی نہیں۔

کوئی سمجھ دار نہیں۔ کوئی خُدا کا طالِب نہیں۔ سب گُمراہ ہیں سب کے سب نِکمّے بن گئے ۔ کوئی بھلائی کرنے والا نہیں ۔ ایک بھی نہیں۔ اُن کا گلا کُھلی ہُوئی قبر ہے ۔ اُنہوں نے اپنی زُبانوں سے فریب دِیا۔ اُن کے ہونٹوں میں سانپوں کا زہر ہے وغیرہ۔ زبور کے ۵۱ باب کی تیسری آیت سے پانچویں آیت تک کیونکہ مَیں اپنی خطاؤں کو مانتا ہُوں ۔اور میرا گُناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے۔مَیں نے فقط تیرا ہی گُناہ کِیا ہے۔ اور وہ کام کِیا ہے جو تیری نظر میں بُرا ہے۔ تاکہ تُو اپنی باتوں میں راست ٹھہرے۔ اور اپنی عدالت میں بے عَیب رہے۔ دیکھ! مَیں نے بدی میں صُورت پکڑی۔ اور مَیں گُناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑا ۔ایسا ہی بیبل سکھلاتی ہے وہ کہتی ہے کہ ہم سب چھوٹے بڑے گنہگار پلید پریشان نالایق اور کمبخت ہیں۔ وہ ہمیں کہتی ہے کہ ہم نیکی نہیں کر سکتے جسطرح حبشی اپنے رنگکو بدل نہیں سکتا۔ چیتا اپنے داغوں کو اِسیطرح گنہگار نیکی نہیں کر سکتا ۔ خدا تعالیٰ ہونٹوں کی بندگی نہیں چاہتا دلی بندگی چاہتا ہے ۔ اُسکا پہلا حکم یہہ ہے کہ ہم اُسکو سارے دل اور ساری جان سے پیار کریں۔ جبکہ ہمارے دل میں دؔشمنی تکبؔرّ  ضؔد اور خود ؔغرضی بھری ہو  خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ ہم دان اور پُن کریں لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمام لوگوں کو اپنا جیسا سمجھیں تو یہہ ہم سے نہیں ہو سکتا۔ دیکھو بیبل کیا فرماتی ہے وہ کہتی ہے کہ سب لوگ کمزؔور ناچار اور نّکمےہیں۔ اِسواسطے وہ شخص اپنے چال و چلن اور دل کو جانچیگا وہ ضرور اقرار کریگا کہ بیبل ہی میرے تمام حالات کو  جانتی ہے۔ واضح رہے کہ انجیل جیسا کہ مذکور ہوا نہ صرف بیماری کو بتلاتی ہے۔  بلکہ علاج بھی کرتی ہے یہہ بات صاف صاف ظاہر ہے کہ ہندو اور محمدی مذہب گناہ سے پاک نہیں کر سکتے۔ کیونکہ وہ شخض جو پوجا کرتا  اشنان  کرتا دیوتوں کا نام لیتا ہے جنکے کرنے کی اجازت ہندؤں کے مذہب میں پائی جاتی  وہ  ویسا ہی لالچی اور خود غرض رہتا ہے جیسا کے آگے تھا بلکہ آگے سے بھی بدتر ہو جاتا ہے ویسا ہی جو حجّ کرتا نماز پڑھتا اور روزہ رکھتا ہے وہ بکوبی جانتا ہے کہ میں  ان کے کرنے سے فروتن مزاج رحم دل خیر خواہ کبھی نہیں ہو سکتا بلکہ تؔکبرّ  خوؔد غرضی غرؔور اور سنگدؔلی سے معمور ہوں۔ برخلاف اِن سب کے انجیل یہہ دعویٰ کرتی ہے کہ جو شخص مجھے مانیگا بیشک راستباز ہو جاویگا۔ اور جو کوئی شخص عیسیٰ پر ایمان لائے گا وہ حلیؔم الطبع فروؔتن مزاج خیؔرخواہ رحم ؔدل ہو گا اور خدا کو پیار کریگا۔ اگرچہ پہلے وہ خدا تعالیٰ سے ڈرتا تھا مگر اب اُسکی صحبت میں مگن رہیگا اور خدا کو ابا کہہ کر پُکارے گا۔ اگر چہ اُسکو خدا کی عبادت کرنا اُسکےواسطے بڑا مشکل کام تھا اب نہایت خوشی اور خواہش سے کریگا۔ گناہ سے نفرت رکھیگا۔ اور حتیالمقدور کوشش کریگا۔ کہ میں گناہ  خودؔغرضی تکؔبرّ اور بُری برُی خواہشوں سے پرہیز کروں۔ قطع نظر  اِس بات کے انجیل ہمیں  فرماتی ہے ہے کہ وہ  شخص جو عیسیٰ پر ایمان لاتا ہے اُسکو روح القدس ملتی ہے جس سے اُس آدمی کا مزاج نیک ہو جاتا ہے اور وہ از سر نو پیدا ہوتا ہے ۔ دیکھو جب نیقو دیموس عیسیٰ کے پاس  رات کو آیا  اور اُسکو کہا اے ربی میں جانتا ہوں کہ تو خدا کی طرف سے اُستاد ہو کے آیا  ہے۔ تب عیسیٰ نے اُسکو جواب میں یہی کہا  کہ تم کو از سر نو پیدا ہونا چاہیے اگر نہین تو تو خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا ۔ ضرور ہم گنہگاروں کو از سر نو پیدا ہونا چاہیے۔ انجیل میں بار بار لکھا ہے کہ جو آدمی مسیح پر ایمان لائے گا از سر نو پیدا ہوگا ۔ دیکھو مسیح کے زمانے سے لیکر آج تک بہت سے لوگ گزرے ہیں جنھوں نے اقرار کیا ہے کہ ہم آگے مرُدے تھے اب عیسیٰ پر ایمان  لانےسے زندہ ہوئے ہیں۔ آ خدا کو پیار نہیں کرتے تھےابھی اُسکو پیار کرنے لگے آ گے اپنے دشمنوں کی  بربادی چاہتے تھے ابھی اُن کی بہتری چاہتے ہیں۔ آگے گناہ کرتے تھے اب اُس سے پر ہیز کرتے ہیں۔ آگے انسانی عزت کے خواہان تھے اب خدا کی طرف سے عزّت چاہتے ہیں۔  اِسبات میں کوئی شک نہیں کہ وے لوگ جو مسیح پر ایمان لاتے ہیں یہہ برکت یعنے نیا جنم پاتے ہیں مگر سبھونکو نہیں ملتا ہاں سچےّ عیسائیوں کو۔ میں بھی یہہ کہتا ہوں کہ بیشمار لوگ برائے نام عیسائی ہیں لیکن  بتُ پرستوں  سے بدتر ہیں۔ اور ایسے عیسائیونکو بھی دیکھا جنھوں نے یہہ نیا جنم پایا ۔اگر کوئی شخص پوچھے کہ تم نے کس طرح سے سچےّ اور جھوٹے عیسائی پہچانا۔ تو اِسکا جواب یہہ ہے کہ جس طرح درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اسیطرح عیسائی بھی معلوم ہو جاتا ہے۔ فرض کرو کہ اگر کوئی درخت  کھٹا اور خراب پھل لاوے اور پھر سال بہ سال عمدہاور شیریں پھل لانے لگے تو ہر ایک آدمی کہیگا کہ آگے یہہ درخت خراب تھا اب اچھا ہو گیا ہے۔ آگے خراب پھل لاتا تھا اب شیریں لانے لگا ہے۔ پس یہی فرق  عیسائیوں میں ہے کہ جب وہ دل و جان سے عیسیٰ پر ایمان لاتے ہیں تب ہر شخص کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اُنکو نیا جنم حاصل ہو گیا  ہے۔  اور وے اچھے ہو گئے ہیں۔ شاید کو ئی آدمی کہے کہ اِسبات کو ثابت کرو تب میں دین عیسوی کو سچاّ جانونگا  تو اِسکا جواب یہہ ہے کہ امریکہ انگلستان اور اور ملکوں میں بہت  لوگ  ہیں جنھوں نے یہہ برکت پائی۔  چنانچہ اِس ملک میں بھی بہت سے انگریز ہیں جنھوں نے نیا جنم پا لیا ہے جو بڑے خاندان کے ہیں اور اپنا ملک رشتہ دار ور بھائی بندوں کو چھوڑ  کر طرح طرح کی بے غر تئیں بازاروں میں کمینہ آدمیوں سے اُٹھاتے  ہیں اور بالکل بے غرض ہیں کچھ تنخواہ نہیں لیتے اگر وے چاہیں تو اور پادریوں کی مانند گزارہ کے موافق اُن کو تنخواہ  ملسکتی ہے مگر وہ نہیں لیتے۔ کیونکہ وہ دولت مند ہیں وہ مفت کام کرتے ہیں۔ دیکھو جب کوئی شخص اُن سے پوچھتا ہے کہ تم نے اپنی ولایت گھر رشتہ دار اور بھاری عہدوں کو کیوں۔   چھوڑا اور اِس ملک میں کیوں آئے ۔ تو وہ یہی جواب دیتے ہیں  کہ ہم اِس ملک میں اِسواسطے آئے ہیں اور طرح طرح کی سختی تکلیف برعّزتی اور وشنام اِسواسطے اُٹھائی ہیں کہ اس ُملک کے لوگ  کلام  الہیٰ سے واقف ہو کر نجات پاویں  ۔ ہم روپیہ  کے واسطے اور عہدے  کے واسطے نہیں آئے اگر روپیہ اور عہدہ چاہتے ہو  تو اپنی ولایت میں اِس میں اِس سے دوگنا حاصل کر سکتے ہیں  تھے۔یہہ مت کہو کہ وہ ثواب کی امید پر یہہ کرتے ہیں  کسواسطے کہ انجیل میں لکھا  ہے کہ ثواب کوئی آدمی  نہیں کر سکتا بلکہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے جو عیسیٰ مسیح سے ملتا ہے نجات دیگا  اور کہتے ہیں کہ جب خدا وند عیسیٰ مسیح نے اتنا  ذالجلال ہے  بہشت اور اپنے  باپ کو چھوڑ دیا اور اِس خراب دنیا میں آکر بے نہایت  تکلیف اور دُکھ اور بےعّزتی اُٹھائی اور  سولی پر اپنی بیش قیمت جان دی تاکہ ہمکو حقیقی دولت عّزت اور  ہمیشہ کی زندگی ملے۔ تو کیا یہہ بڑی بھاری بات ہے کہ ہم اپنے بھائیوں جھوٹی  دولت دنیاوی عزّت اور چند روزہ خوشی کو چھوڑ دیں۔  بیشک ایسی خیر خواہی اور محبت حقیقی  ایمان  سے حاصل ہوتی ہے۔ بھائیو  وہ درخت جس سے ایسا  پھل حاصل ہوتا  ہے  بیشک جنتّی ہے۔   قطع نظر اسکے یہہ بھی واضح ہو کہ ہزارہا آدمی عیسائی ملکوں  میں ہیں  جو سال  بہ سال  پادری لوگوں کو روپیہ دیتے ہیں تاکہ وے تمام دنیا میں جاکر اسکول بناویں ہسپتال مقرر کریں۔ اور اَور کام لوگوں کے فایٔدے کے لیے کریں۔ اگر کوئی شخص  دنیا کی سیر کرےاور ہر طرح کے مزہبوں کے لوگوں کو دیکھے اور اکثر جگہ غریبوں بیواؤ ں اور یتیموں کے پالنے کے واسطےخوب بندوبست پاوے۔ اور اندؔھوں  بہؔروں   غرؔیب اور لاچاروں کے سکھلانے کے واسطے مدرسے دیکھے تو اُسکو معلوم   ہوگا کہ یہہ دین عیسوی  کے نتیجے ہیں اور وہ یہہ بھی کہیگا کہ اِن ُملکوں کے بندوبست کے موافق جب میں انجیل مروّج ہے اور خوب پائی جاتی ہے کسی ملک کا بندوبست نہ  ہوگا۔  اے عزیز و اب اِنصاف سے اسبات پر غور کرو کہ وہ دین جس سے ایسے عمدے فایدٔے حاصل  ہوتے ہیں سچاّ ہے کہ نہیں اگر یہہ بات سچ ہے ۔ کہ درخت اپنے پھل سے پحچانا جاتا ہے تو بیشک یہہ دین برحق ہے۔  اب ہماری یہہ التجاہے کہ جو آدمی اس مضمون کو پڑھے تو تحقیق کرے  انجیل کو پڑھو۔ اُسکو خوب غور سے ملاحظہ کرو اور خدا  سے دعا مانگو کہ تمہاری  ہدایت  کرے۔ اور خداوند عیسیٰ مسیح کے طفیل معافی حقیقی راستبازی اور پاکیزگی ڈھونڈھو  تاکہ تمکو نجات ملے  فقط۔