Beach with Salt grass

کیا قرآن میں کتب مقدسہ بیبل کی تحریف کا دعویٰ ہے؟

ٹامس ہاول

Does Qur’an Claim Corruption in the Holy Bible?


Published in Nur-i-Afshan July 17, 1896
By
Thomas Howell, “Native,” by the Bishop of Lahore


اکثر جاہل محمدی مسیحیّوں کے روبرو بے سوچے  سمجھے کتب  مقدسہ بائبل  کی تحریف  کا دعویٰ کیا کرتے ہیں اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ کتب مقدسہ  بائبل کا تحریف  ہونا عقلاً و نقلاً  باطل ہے تو ہٹ دھرمی کر کے کوئی نہ کوئی آیت قرآنی  بے سمجھی  سے پیش کر دیا کرتے ہیں۔ لہذا ہمنے مناسب  جانا کہ ایسی سب آیات  کو قرآن  سے اخز کر کے ایسے لوگوں کی آگاہی کےلئے معہ اُن کےمعتبر مفسروں و محدتوُں ورادیوں کے بیان سے پیش کر کے ظاہر کر دیں کہ قرآن کتب مقدسہ بائبل کی تحریف  کا دعویٰ نہیں کرتا  اور جو لوگ قرآن کو اس باب میں مدعی سمجھتے ہیں یہ  محض اُن کی نادانی و جہالت ہے۔  وہو ہذا:۔

۱۔ سورہ انعامؔ ۱۱۔ رکوع ۹۳۔ وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ قُلِ اللَّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ۔

ترجمہ۔  اور انہوں نے الله کو صحیح طور پر نہیں پہچانا جب انہوں نے کہا الله نے کسی انسان پر کوئی چیز نہیں اتاری تھی جو لوگو ں کے واسطے روشنی اور ہدایت تھی جسے تم نے ورق ورق کر کےد کھلا یا اوربہت سی باتو ں کو چھپا رکھا اور تمہیں وہ چیزیں سکھائیں جنہیں تم اور تمہارے باپ دااد نہیں جانتے تھے تو کہہ دو الله ہی نے اتاری تھی پھرانہیں چھوڑ دو کہ اپنی بحث میں کھیلتے رہیں۔

جلال الدین اس آیت کی شرح میں لکھتا ہے۔

ما قد روای الیھود۔ اُنہوں نے نہ قدر کی یعنے یہود نے۔

ازقالوا النبی وقد خاصموہ فی القرآن۔ جب کہتے ہیں نبی کو جس وقت قرآن میں اُس کے ساتھ تکرار کرتے تھے ۔ تجعلونہ قراطیس ای تلتبونہ فی دفاتر مقطعة ۔ تم اُسے کاغذ کے تختوں پر بناتے ہو یعنے جدے جدے ٹکڑوں پر لکھتے۔ ( اور مراد اُن ٹکڑوں سے وہ چمڑے خواہ کاغذ کے علیٰحدہ علیحٰدہ بند ہیں کہ جن پر قدیم سے یہودیوں کے درمیان کتاب مقدس کے جدا جدا نوشتوں کی جدُا جدُا نقل کرنے کا دستور تھا) تبدونھا اے ماتحبون ابدائة منة ۔ دکھلاتے یعنے وہ کہ جو تم اُس میں سے دکھلانے چاہتے ہو۔ وتحفو کثیر امما فیھا کنعت محمدِ ۔ اور بہت چھپاتے ہو یعنے اُسے کہ جو اُس کے درمیان ہے مثلاً تعریف محمد صاحب۔

تفسیر  حسینی میں ہے۔

آوروہ اندکہ مالکؔ بن الفیف کہ حلقہ احبار یہود بود بخدمت سید عالم آمد آخحضرت بادے  گفت سو  گندمیدہم  ترا بدان خدائے کہ توریت را بر موسیٔ  نازل  گر دانید کہ تو در توریت دیدۂ کہ خدائے تعالیٰ دانشمند  فربہ رادشمن میدار دگفت آوے ایں خبر در توریت ہست۔ حضرت فرمود کہ آن خبر تن پر ور  خود پرست تولیٔ اودرغضب شدو گفت خدائے ہیچ کتاب برہیمکپس  نازل نہ ساختہ  است آیت آمد کہ ایں ہا خداے را چنانچہ مےباید وصف نہ کروند۔ الخ

تفسیر ؔ جلالین سے ظاہر ہے کہ یہودی اپنی مقّدس کتابوں  کے جدُے جدُے حصےّ کر کے نقل کرتے تھے اور اس صورت میں محمد صاحب  کے ساتھ مباحثہ کے وقت  اُنہیں اختیار تھا کہ جن حصوں کو اپنے مفید سمجھیں اُنہیں پیش کریں اور باقیوں کو پوشیدہ رکھیں۔پس اگرچہ اس کا کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے کہ اکثر اوقات یہودان مدینہ ایسا کرتے تھے۔  کیونکہ جب آیت  رجم کی بابت مباحثہ  ہوا تو آیت رجم توریت میں پائی گئی ہے۔ دیکھو مظاہر حق جلد ۳ صفحہ ۲۸۰ ۔ اور توریت صرف یہودیوں  ہی کے پاس نہ تھی بلکہ یہوؔدیوں  اور عیسائیوں کے پاس بھی تھی۔ اور ان دونوں فریق کے لوگ جوآپس میں مخالف تھے توریت کو پڑھا کرتے تھے۔ ،ظاہر حق جلد ۱ صفحہ ۱۱۸ ۔ اور پھر نہ صرف یہودی و عیسائی توریت کو پڑھتے  و رکھتے تھے بلکہ محمدی بھی توریت کو  پڑھتے تھے۔ مظاہر حق جلد ۱ صفحہ  ۲۷۱۔ اور عمر خلیفہ کے پاس بھی توریت تھی۔  اور وہ اُس کو پڑھتا تھا۔ مظاہر حق جلد ۱ صفحہ ۹۴۔ لہذا اگر کوئی شخص  یہود مدینہ میں سے کسی حصّہ کتاب اﷲ کو اپنے پاس چھپا بھی رکھتا تو یہ لوگ جو خاص  مدینہ ہی میں توریت پڑھنے والے تھے کب اُسے چھپانے دیتے تھے۔  بالفرض اگر مانا بھی جائے کہ چند یہود مدینہ یا مالک بن الضیف ؔ سکنہ مدینہ نے بسبب دشمنی و محمد صاحب  کے ساتھ مباحثہ کرنیکے لئے کوئی حصہ  توریت کا پیش نہ کیا ہو۔ تو یہ الزام  سب یہودیوں پروارد نہیں ہو سکتا۔ اور ایسے دعویٰ کی تحریف سے واسطہ  ہی کیا ہے۔  بلکہ برعکس اس کے ظاہر ہے کہ توریت اﷲ نے نازل کی ہےاور نور ہے اور یہودیوں کے پاس موجود تو ہے لیکن وہ اسکے سارے  حصّے  مباحثہ کیوقت پیش نہیں کرتے۔ اور پھر اس سے  یہ بھی طاہر ہوتا ہے کہ اگر حسودان محمد صاحب اپنے گھر کی کتب مقدسہ میں تحریف کر سکتے تو اُن کو بعض حصے کتب عماوی کے پوشیدہ ہے نہ کرنے پڑتے  بلکہ محرف کو لاأگے دہرتے۔ پس اس سے ظاہر ہے کہ قرآن میں کتب سماوی کی تحریف کا دعویٰ مذارد ہے۔

۲۔ بقر ۵ رکوع ۴۱۔ آیت  میں ہے

 وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ

ترجمہ۔ اور سچ میں جھوٹ نہ ملاؤ اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپاؤ سچ کوجان کر ۔

امام فخرالدین رازی ۔ تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں۔

وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقّ۔ بسبب الشبھات التی تورد ونھا  علی السامعین و زلک لان النصوص الوادة فی التوراة والا نجیل فی امر محمدصلیﷲ علیہ وسلم  کانت نصوصاً  خفیۃ تحتاج فی معرفتھا الاستدان ثمہ انھم  کانوایجاد لون فیھا و شوشون وجو کالدال ة  علی المتاملین فیھا بسبب القاء الشبھات وھزا ھوالمواد بقولہ ولا تلبسوا الحقّ۔

ترجمہ۔ اور مت ملاؤ صحیح میں غلط بسبب اُن شبہوں کے جو سنُنے والوں پر ڈالتے  ہو اور یہ بات اس سبب سے تھی  کہ توریت و انجیل  میں جو آیتیں محمدﷺ کے  باب میں  آئی ہیں وہ آیات  خفیہ  ہیں اُن کے جاننے میں اسدلال کی طرف حاجت  ہوتی ہے۔ پھر وہ لوگ اُن میں جھگڑا کرتے تھے اور مشوش کر دیتے تھے دلیلوں کو سوچنے والوں پر سبب دالنے  شبہوں کے۔ اور یہی مراد  اﷲتعالیٰ کے قول  کی ہے کہ مت ملاؤ صحیح  میں  غلط۔

پس امام فخر الدین ساحب  رازی کے بیان سے اشکارہ ہے کہ اس آیت میں جو یہودیوں کو صحیح میں غلط  ملانے کا الزام دیا گیا تھا۔ وہ  صرف غلط  تاویل بیان کرنے کا تھا کہ جس سے مشوش کر دیتے تھے دلیلوں کو سوچنے والون پر بسبب ڈالے شبہوں کے ۔ نہ یہ کہ وہ لکھی ہوئی کتب  آسمانی میں کچھ ملا دیتے تھے۔ کیونکہ کتب سماوی میں ملانا  تو یہود مدینہ کے اختیار  سے باہر تھا اس لئے کہ اُن کی پاک کتابیں  نہ اُنہیں کے پاس تھیں بلکہ محمدیوں کے پاس بھی تھیں اور وہ اُنہیںپڑہا  بھی کرتے تھے۔ مظاہر حق جلد ۱ صفحہ ۴۷۱۔ و صفحہ ۹۴۔ لہذا ظاہر ہے کہ قرآن  کتب مقدسہ کی تحریف کا دعویٰ نہیں کرتا مگر صرف  تاویلات  باطلہ  کا جیسا کہ آج کل خود محمدی بھی بوقت مباحثہ آیات قرآنی  کی کیا کرتے ہیں۔ 

۳۔ بقر ۹ رکوع ۷۴، ۷۵، ۷۶۔

  أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُم بِهِ عِندَ رَبِّكُمْ  أَفَلَا تَعْقِلُونَ أَوَلَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ۔

ترجمہ۔ کیا تمہیں امید ہے کہ یہود تمہارے کہنے پر ایمان لے آئیں گے حالانکہ ان میں ایک ایسا گروہ بھی گزرا ہے جو الله کا کلام سنتا تھا پھر اسے سمجھنے کے بعد جان بوجھ کر بدل ڈالتا تھا۔ اور جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لاچکے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی ایمان لے آئےہیں اور جب وہ ایک دوسرے کے پاس علیحدٰہ ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کیا تم انہیں وہ راز بتا دیتےہو جو الله نے تم پر کھولے ہیں تاکہ وہ اس سے تمہیں تمہارے رب کے روبرو الزام دیں کیا تم نہیں سمجھتے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ الله جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔

آیت ۷۴ میں جو ہے۔ ’’ کہ سنُنے تھے کلام اﷲ پھر اُس کو  بدل ڈالتے۔ ‘‘ اس سے طاہر ہے کہ یہ الزام یہود و مدینہ کو تحریف  زبانی کا ہے۔ نہ یہ کہ وہ کتاب کی لکھی ہوئی عبارت کو بدل ڈالتے تھے۔

چنانچہ تفسیر بیضادی میں ہے۔

يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ یعنے التورة۔ سنتے ہیں کلام ﷲ کا یعنے توریت۔ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ کنعت محمد وایة الرحیم اوتا ویلم فیسفر ونة  بما یشتھون۔ ترجمہ۔ اور پھر اُسے بدل ڈالتے ہیں مثلاً بیان  محمد کا اورسنگ سار کرنے کی آیت  یا اُس  کی تاویل  پس جیسا اُن کا دل چاہتا ہے اُس کی تفسیر کر لیتے ہیں۔

یہاں بیضادی کے بیان سے بھی  ظاہر  ہے کہ جو کچھ یہود مدینہ محمد صاحب کی تعریف  یا سنگسار  کرنے کی آیت کی بابت سنُتے  تھے اُس کی تفسیر یا تاویل جیسا کہ اُن کا دل چاہتا تھا کر لیتے تھے۔  نہ یہ کہ وہ اپنی لکھی ہوئی کتابوں میں تحریف  کرتے  تھے کیونکہ ایسا کرنا تو یہود و مدینہ کی دست قدرت سے باہر و بالکل ناممکن  تھا۔

تفسیر حؔسینی میں ہے۔

أَفَتَطْمَعُونَ ۔ ایاطمع دربستہ ایدای مومنان ۔ أَن يُؤْمِنُوا ۔ آنکہ تصدیق کنند داستوار دارندجہودان ۔ لَكُمْ ۔ مرشمار اور انچہ سیگوئید از نعت پیغمبر و حقیقت دین اسلام ۔ وَقَدْ كَانَ ۔ واحلانکہ بوومز۔ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ ۔ می شنید مز كَلَامَ اللَّهِ ۔ سخن خدائے رابر کوہ طور ۔ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ ۔ پس بگردانیدمز آں سخن را ۔ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ ۔ پس ازانکہ دانستہ بووند داریافتہ وچوں بمیا قوم در آمدندگفتند ما سخن حق وامر و نہی اوشنیدیم و لیکن در آخر گفت کہ اینھا کہ فرمودیم اگر توانید بکنید و اگر قادرنہ باشید برادات آں مکنید و باک مدارید ۔ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ۔ وایشاں میدانند کہ افتراحی نمایند۔ دربنابیح آوردہ کہ روزے حضرت رسالت پناہ فزود کہ جہودان بعد ازیں در مدینہ نیایند کہ ازور آمدن ایشاں بمدینہ فتنہ ظاہر ہر مشیود بعضے ازمنا فقان جہوؔد اول روز بمدینہ درے آمدند کہ ما مسلمانیم ہمچوں شماو اخر روز باز گشتہ بیا ران خود مے پیو ستند کما قال اﷲ تعالیٰ ۔ وَإِذَا لَقُوا ۔ وچوں ملاقات کنند یہود الَّذِينَ آمَنُوا ۔ آنا نراکہ ایمان آوردہ انداز اصحاب رسولﷲ قَالُوا آمَنَّا ۔ گویند مانیز گرویدہ ایم ۔ وَإِذَا خَلَا ۔ وچوں خلوت کنند بَعْضُهُمْ ۔ برخے ازا صاغر ایشاں إِلَىٰ بَعْضٍ برخے ازا کا برالیشاں چوں۔ کعبؔ بن اشرف۔ وحی بن اخطبؔ ۔ قَالُوا قَالُوا ۔ گویندأں اکا برایشاں راکہ ۔ أَتُحَدِّثُونَهُم ۔ آیا شما حدیث میکفید و خبر میدہید اصحاب محمدرا ۔ بِمَا فَتَحَ اللَّهُ ۔ بدانچہ کشاوہ است خدائے ابواب دانش آئزا ۔ عَلَيْكُمْ ۔ بر شما درکتاب شما۔ قولے آنست کہ بعضے از یہود مدینہ در ادل نزول آخحضرت اصحاب را از نعت و صفت دے کہ در توریت مذکور بود خبردار ندورو سائے ایشاں ازاں آگاہی یا فتہ نجران را ازاں سر زنش نمود مزکر شما ایشاں را از صفت محمد خبر مید ہید ۔ لِيُحَاجُّوكُم بِهِ ۔ تامی صمت کنند و حجت گیر مزبانچہ دانستہ ناخند عِندَ رَبِّكُمْ ۔ نزوپروردگار شمادر روز قیامت و گو یند شما حق راد دانستید و متابعت نہ کروید ۔ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ۔ آیا چرانمی یا بیدایں مقدار کہ اسرار خودرا باخصم درمیان نباید نہاد ۔ أَوَلَا يَعْلَمُونَ ۔ آیا تمیدانند جہودان کہ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ۔ بتحقیق خدائے میداند ۔ مَا يُسِرُّونَ يُسِرُّونَ ۔ آنچہ پنہاں میدار نداز عداوند رسول واصحاب او او وَمَا يُعْلِنُونَ ۔ آنچہ آشکارہ می کنند ازدوستی پیغمبر و صحابہ بنفاق پس ہر کہ دامزکہ حق سبحانہ تعالیٰ دانائے آشکارا ونہانست باید کہ ظاہر خودرا بفرمانبرداری آراستہسازد و باطن خودرا ازلوث ناپاکی بپردازہ۔

پس مُلآں حُسینی کے بیان سے بھی ظاہر ہے کہ چند یہودیوں نے سخن خدا کو کوہ طور پر سنکے (کہ جس وقت موسیٰ اُن کا بڑا نبی اُن میں زندہ موجود تھا اور ہنوز توریت کو لکھ رہا تھا) زبانی یہ کہ سُنایا تھا۔ کہ اگر تعمیل  کر سکو تو کرو ورنہ نکرو۔ نہ یہ کہ اپنی کتاب میں سے جس کو ہنوز موسیٰ لکھ بھی نہ چکا تھا کچھ نکال ڈالا یا برہا دیا تھا۔

جیسا کہ اُن سطور مزکورہ بالاسے کہ جن پر خط کھینچا گیا ہے ظاہر ہے۔ خیراگرچہ بضد مشکل یہ بیان محمدی مفسرین کا صحیح  بھی مانا  جاوے تو بھی تحریف  لفظی  کتب  سماوی سے اسے کچھ تعلق  نہیں کیونکہ صاف  ظاہر ہے کہ اُس  وقت کوہ طور پر سے چند یہودی سنُتے کچھ تھے اور بیان مبالغہ کے ساتھ کچھ اور کر دیتے تھے۔ اور توریت جو موسیٰ کے ہاتھ میں تھی اور ہنوز وہ اُس کو لکھ رہا تھا محفوظ تھی۔ اُس کی تحریف کی نسبت قرآن  دعویدار نہیں ہے۔ اور پھر پوشیدہ  کرتا خبر محمد کا الزام ۔ کعب ؔبن  اشرف  وحی ؔبن اخطب ساکنان مدینہ کو دیا گیا ہے نہ کہ تمام  جہاں کے یہودیوں کو۔ اور اگر ان دو شخصوں پر ایسا الزام ثابت بھی ہو سکے کہ وہ دیگر یہود سکنہ مدینہ ک یہ کہتے  ہوں کہمحمد کی خبر کی بات اُس کے اصحابوں کو نہ کہا کرو تو بھی اس کو تحریف لفظی مقدسہ سے کچھ علاقہ نہین ہے جیسا کہ آیت رجم  کے پوشیدہ کرنے کے مقدمہ سے ظاہر ہے۔  وہوہذا۔

چنانچہ آیت رجم  کے پوشیدہ کر نے کے مقدمہ کی بابت مظاہر حق جلد ۳ صفحہ ۲۸۰ پر یوں لکھا ہے۔ 

ترجمہ۔ روایت ہے عبداﷲ بن عمر سے یہ کہ یہودی آئے  طرف رسول خدا ﷺ کے اور زکر کیا اُنہوں نے روبرو حضرت کے یہ کہ ایک مرد نے اُن میں سے اور ایک عورت نے زنا کیا۔ پس فرمایا اُن کو رسول خداﷺ  نے۔ کہ کیا پاتے ہو تم توریت میں بیچ  مقدسہ رجم کہ۔ کہا یہودی نے نصیحت کرتے ہین ہم زنا کرنیوالوں کو اور درے درے جاتے ہیں وہ۔ کہا عبداﷲ بن سلام نے جھوٹھ بولتے ہو تم تحقیق توریت مین بھی رؔجم ہے  پس لاؤ توریت پس کھولو اُس کو اور  رکھ دیا ایک نے اُن میں سے  ہاتھ اپنا رجم کی آیت پر۔ پس پڑھ گیا  اُس کے پہلے  سے اور اُس کے پیچھے سے۔ پس کہا عبداﷲ بن سلام نے اُٹھا ہاتھ اپنا۔ پھر اُٹھایا ہاتھ۔ پس ناگہاں اُس میں تھی آیت رجم کی۔ پس کہا یہودیوں نے۔ کہ سچ کہا عبدؔاﷲ نے اے محمد اس میں ہے آیت رجم کی۔ پھر حکم فرمایا اُن دونوں کے سنگسار کرنے کا نبیﷺ  نے۔ پس سنگسار کئے گئے دونوں اور ایک روایت  میں ہے۔ کہ کہا عبداﷲ نے اُٹھا ہاتھ اپنا۔  پس اُٹھا لیا ہاتھ اپنا۔ پس ناگہاں آیت  رجم  کی ظاہر تھی۔ پھر کہا ہاتھ رکھنے والے نے اے محمد تحقیق توریت میں ہے آیت رجم کی و لیکن ہم چھپاتے ہیں اُس کو آپس میں۔ پس حکم فرمایا حضرت نے اُن دونوں کے سنگسار کرنے کا۔ پس سنگسار کئے گئے۔ نقل کی یہ نجاری اور مسلم نے۔

پس اس سے ثابت  ہے کہ یہود مدینہ  پر الزام  تحریف کا لگایا جاتا تھا وہ الزام  صرف  زبانی جمع خرچ کا تھا نہ کہ توریت میں سے کسی حرف کے کم و بیش  کرنے کا۔ جیسا کہ آیت رجم کے مقدمہ سے ہویدا ہو چکا ہے۔ کیونکہ اب بھی توریت میں وہی آیت  رجم کی موجود ہے۔ استثنا ۲۲: ۲۳، ۲۴۔ لہذا قرآن  میں بجز ایسے ویسے  الزاموں کے کتب سماوی میں سے کسی لفظ کے  کم و بیش ہونے کا الزام کہیں بھی نہیں ہے۔ بلکہ برعکس  اس کے ایسی تعریف کتب  سماوی کی قرآن  میں موجود ہے کہ کوئی ہوشمند قرآن کو دعویٰ تحریف  کتب مقدسہ کا مدعی نہیں قرار دیسکتا۔ 

۴۔ بقر۶ رکوع ۵۷، ۵۸۔

وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَٰذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ  وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ۔

ترجمہ۔ اور جب ہم نے کہا اس شہر میں داخل ہو جاؤ پھر اس میں جہاں سے چاہو بے تکلفی سے کھاؤ اور دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو اور کہتے جاؤ بخش دے تو ہم تمہارے قصور معاف کر دیں گے اور نیکی کرنے والوں کو زیادہ بھی دیں گے۔ پھر ظالموں نے بدل ڈالا کلمہ سوائے اس کے جو انہیں کہا گیا تھا سو ہم نے ان ظالموں پر ان کی نافرمانی کی وجہ سے آسمان سے عذاب نازل کیا۔

۵۔ بقر ۱۲ رکوع ۱۰۱۔

  وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ۔

ترجمہ۔ اور جب ان کے پاس الله کی طرف سے وہ رسول آیا جو اس کی تصدیق کرتا ہے جو ان کے پا س ہے تو اہلِ کتاب کی ایک جماعت نے الله کی کتاب کو اپنی پیٹھ کے پیچھے ایسا پھینکا کہ گویا اسے جانتے ہی نہیں۔

یہاں مفسرین کے بیان کے بموجب  رسول سے مراد محمد صاحب ہیں۔ اور کتاب اﷲ سے مراد توریت ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ جب محمد صاحب یہودیوں کے پاس آیا اور اُن کے پاک نوشتوں کی تصدیق کی اور جس رسول کے آنے کے وہ منتظر تھے وہی اپنے تئیں قرار دیا تو بھی یہودیوں نے اُسے نہ مانا۔ اور اس ڈھب  سے اﷲ  کی کتاب یعنے توریت کو اپنی پیٹھ کے پیچھے  ایک جماعت مدینہ نے پھینکدیا یعنے وعدہ توریت  پر عمل  نہ کیا۔ نہ یہ کہ توریت کو تحریف  کر ڈالا۔ 

پس طاہر ہے کہ محمد ساھب کے آنے تک تو یہود مدینہ توریت کے وعدہ پر عمل کرتے رہے لیکن جئب محمد صاحب  آگئے تو یہودی مدینہ میں کیس ایک  فریق نے کتاب اﷲ توریت عمل نہ کیا۔پس جس حال میں موسیٰکے زمانہ سے تا زمانۂ محمد صاحب  توریت یہودیوں میں اور خداوند مسیح کے زمانہ سے توریت عیسائیوں کے تمام فریق  میں تقریباً اکیس ۲۱ سو برس  تک ملک بملک جاری و مشتہر رہی تو اب  یہود مدینہ کے کسی ایک  جموعت کے اُسپر عمل نہ کرنیسے وہ تحریف نہیں ہو سکتی تھی۔ لہذا قرآن میں تحریف کتب سماوی کا دعوی نہیں ہے۔

۶۔ بقر ۱۶ رکوع ۱۴۰۔

  أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ  قُلْ أَأَنتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ  وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللَّهِ  وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ۔

ترجمہ۔ یا تم کہتے ہو کہ ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے کہہ دو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا الله اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو گواہی چھپائے جو اس کے پاس الله کی طرف سے ہےاور الله بے خبر نہیں اس سے جو تم کرتے ہو۔

اس سے اوپر کی آیت پر گور کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ اہل کتاب  محمدیوں کو کہتے تھے۔ 

وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا  قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا  وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ۔

ترجمہ۔ اور کہتے ہیں کہ یہودی یا نصرانی ہو جاؤ تاکہ ہدایت پاؤ کہہ دو بلکہ ہم تو ملت ابراھیمی پر رہیں گے جو موحد تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا۔      

غرض اہل کتاب محمدیوں کو کہتے تھے۔ کہ تم یہودی یا عیسائی ہو جاؤ تو راہ پر آؤ گے اور محمد صاحب نے اُنہیں جواب دیا کہ ہم نے ابراہیمؔ حنیف کی راہ پکڑی۔ چونکہ یہودیوں کی لغت میں لفظ (سر یہاں یونانی الفاظ تھے) خنفؔ کہ جس سے حنیفؔ مشؔقق ہے ۔ کفرؔ کرنا۔ و ناپاک ؔکرنا۔  و ناپاک ہونے کے معنے دیتا ہے۔ اور اُن کی مقدس کتابوں میں بھی یہ لفظ انہیں معنوں سے آیا ہے۔ دیکھو یسعیاہ ۔ ۲۴: ۵۔ یرمیاہ۔ ۱۳: ۱۱، ۳: ۹، ۲ مزمور ؔ ۱۰۶: ۳۸۔ میکاہ ۴: ۱۱ گنتی۔ ۳۵: ۳۳۔ دانیل ۱۱: ۳۲۔ میں اسی لفظ کے اشتقاق ہیں جن کے معنے ناپاک ہوئے ہیں۔ پھر یہودی لعنت میں لفظ ( سر یہاں یونانی \عبرانی  الفاظ ہیں) خفیف کےمعنے ۔ کافؔر۔ ریاکؔار۔ شرؔیر۔  خطاؔکار کے ہیں۔ جیسا کہ ایوب ۸: ۱۳،  ۱۳: ۱۶، ۱۵: ۳۴، ۱۷: ۸، ۲۷: ۸، امثال ۱۱: ۹، ایوب ۲۰: ۵، ۳۴: ۳۰، یسعیاہ ۔ ۹: ۱۶، ۱۰: ۶۔ اور پھر اسی لفظ کے اشتقاق۔ بیدؔین و کمینہؔ کے معنے بھی دیتے ہیں۔ جیسا کہ ایوؔب  ۳۶: ۱۳ ، یسعؔیاہ۔ ۳۳: ۱۴، ۳۲: ۶ ، یرمیاہؔ  ۔ ۲۳: ۱۵ مزمورؔ ۳۵: ۱۶۔

پس طاہر ہے کہ اسی سبب سے یہودی اس لفظ کا اطلاق اپنے جد بزرگ ابراہیم پر ناپسند  کرتے اور انکار کر کے محمد صاحب کو کہتے تھے کہ ابراہیم حنیؔف نہ تھا کیونکہ حنیف کے معنے کافر وغیرہ بہت برُے ہیں۔ لیکن محمد  صاحب اُن  کو کہتے تھے کہ تم نہیں جانتے اور خدا تم سے بہتر  جانتا ہے کہ ابراہیم حنیؔف  تھا اور مشرک نہ تھا اور تم توریت کی شہادت جو تمہارے پاس ہے  چھپاتے ہو۔ جیسا کہ جلال الدین اُس کی تفسیر میں لکھتا ہے۔

ومن اظلم ممن۔الخ۔ ای لا احد اظلم منۃ و ھم الیھود کتھوا شھادۃ فی التوراۃ ل وابرا ھیم بالحنیفۃ۔

ترجمہ۔ اور اُس سے زیادہ ظالم کون ہے یعنے ُس سے زیادہ اور کوئی ظالم نہیں ہے اور وہ  یہود تھے جنہوں نے توریت کی شہادت کو کہ اِبراہیم حؔنیف تھا چھپایا۔

پس ظاہر ہے کہ لفظ ( یونانی\عبرانی الفاظ) حؔنیف اب بھی کتب مقدسہ میں موجود ہے اور جس سبب سے یہود مدینہ  اس لفظ  کے اطلاق کرنے کے ابراہیم پر انکاری تھے وہ بھی ظاہر ہے پھر اُنہوں نے چھپایا ہے کیا تھا۔ نہ تو کبھی پاک کلام میں اس لفظ  کا اطلاق  ابراہیم  پر ہوا  اور نہ کوئی عقلمند ایسے لفظ کا ابراہیم جیسے بذرگ و برگزیدہ شخص پر اطلاق کرنا جایز سمجھ سکتا تو پھریہود مدینہ کا کیا خطا تھا۔ اور پھر جس حال میں قرآن  خود کہتا ہے کہ ’’شہادت اﷲ کی اُن کے پاس ہے‘‘۔ تو اس سے چھپانے کا یہ مطلب  ہر گز نہیں کہ وہ کتاب مقدسہ میں تحریف کرتے تھے بلکہ صاف یہ ہے کہ کتاب میں تو اُن کے پاس بقول قرآن شہادت موجود ہے مگر محمد صاحب  کے قول کی تصدیق کے لئے وہ نہیں دکھاتے اس سے صاف ثابت ہے کہ قرآن میں تحریف کتب  سماوی کا دعویٰ نہیں ہے۔ 

۷۔ بقر ۱۷۔ رکوع ۱۴۷۔

 الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ  وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ  فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ۔

ترجمہ۔ وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی تھی وہ اسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور بےشک کچھ لوگ ان میں سے حق کوچھپاتے ہیں اور وہ جانتے ہیں آپ کے رب کی طرف سے حق وہی ہے پس شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔

اس سے قبل  آیت  اور اس آیت کے شان  نزول سے ظاہر  ہے کہ محمد صاحب پہلے یہودیوں کی بیت المقدس  کی طرف منُہ کر کے نماز  پڑھتے رہے اور اب جو مکہ والے گھر کی طرف نماز پڑھنا شروع کیا۔ تو اُس وقت یہود مدینہ نے فریب سے آکر محمد صاحب سے کہا کہ اگر تم بیت المقدس کو اپنا قبلہ مانتے رہتے تو ہم ضرور جانتے کہ تم نبی ہو۔ مگر اب معلوم کہ تم نہیں ہو۔ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئے۔ کہ یہودی پہچانتے ہیں یہ بات جیسے پہچانتے ہیں اپنے بیٹوں کو اور ایک فرقہ اُن میں چھپاتے  ہیں حق کو جان کر۔  پھر  تو نہ ہے شک لانے والوں سے۔

پس یہاں سے ظاہر  ہے کہ حق  چھپانے کا الزام  یہودیوں مدینہ  کے کسی  ایک فرقہ باشندہ مدینہ کو  دیا گیا ہے نہ کہ کل یہود سکنہ مدینہ کو اور حق کو چھپانے سے یہ مطلب  ہے کہ وہ محمد صاحب کو جان بوجھ کر نبی  نہیں مانتے۔ اور ایسی دلیل محمد صاحب  کے نبی نہ ہونے کی بیان کرتے جیسا کہ شان  نزول میں ہے۔ ’’ کہ اگر تم بیت المقدس کو اپنا قبلہ مانتے رہتے تو ہم ضرور جانتے کہ تم نبی ہو مگر اب معلوم ہو اکہ تم نبی نہیں ہو‘‘۔ کہ جس سے خدُا  کو بھی محمد صاحب کے  شک میں پڑ جانے کا اندیشہ گذرا اور اُس کے شک کو رفع کرنے کے لئے کہنا  پڑا۔ کہ اے محمد ﷺ حق وہ ہے جو تیرا رب کہے ( نہ کہ وہ یہود مدینہ  کہتے ہیں)  پھر تو نہ شک  لانے والوں  سے‘‘ پس محمد صاحب  کو اپنی باتوں سے اُن کے نبی ہونے کی بابت شک میں ڈال  دینا ہی حق کا پوشیدہ کرنا تھا۔ نہ یہ کہ وہ کتاب  سماوی میں سے کوئی لفظ  کم و بیش کر کے تحریف کر ڈالتے تھے۔ لہذا طاہر ہے کہ قرآن  میں کتب سماوی کی تحریف کا دعویٰ نہیں ہے۔ 

۸بقر۱۹ رکوع ۱۶۰۔

 إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ  أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ۔

ترجمہ۔  بے شک جو لوگ ان کھلی کھلی باتوں اور ہدایت کو جسے ہم نے نازل کر دیا ہے اس کے بعد بھی چھپاتے ہیں کہ ہم نے ان کو لوگوں کے لیے کتاب میں بیان کر دیا یہی لوگ ہیں کہ ان پر الله لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔

اس آیت کے شان نزول کی بابت ابن اسحاق کی روایت سے سیرت ھشامی میں یوں لکھا ہے۔

کتما نھم ما فی التوراۃ  من الحق سال معازبن  جبل  خرنبی سلمہ وسعد ابن معاز اخرنبی عبدا لا مثل و خارجۃ بن زید بفز امن احبار  یھود عن بعض  مافی التورئۃ فکتموہ ایاھم ابوا ان یخبروھم  عنہ فانزلﷲ عزوجل  ان الزین یکتمون ما انزلنا من البینا والھدیٰ لایة۔

ترجمہ۔ توریت کا حق چھپانا۔ معاز ابن جبل۔ اور سعد ابن معاز۔ اور خاجہ ابن زید۔ نے بعض یہودی عالموں سے توریت کی کسی بات کا استفسار کیا لیکن یہود  اُس کو اُن سے چھپا  گئے  اور بتلانے سے انکار کیا۔ پس اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی۔ بالتحقیق جو لوگ چھپاتے اُن صاف باتوں اور ہدایتوں کو۔ الخ امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں۔

قال ابن عباس ان جماعتہ من الا نصار سلوا انفراً من الیھود عمافی التوراة من صفتۃ  صلی ﷲ علیہ وسلم ومن الاحکام فلتموا فنزلت الایتہ۔

ترجمہ۔ ابن عباس نے روایت کی ہے کہ ایک گروہ نے انصاریوں میں سے پوچھا ایک یہودی سے کیا ہے توریت میں نشانی محمد  ﷺ کی اور بعضے  احکام بھی پوچھے۔  پھر اُنہوں نے چھپایا تب  وتری یہ آیت۔

پس ظاہر ہے کہ چھپانے کے الزام میں یہ ہر گز داخل  نہیں کہ یہودیوں سکنہ مدینہ نے اپنی کتاب میں کچھ کم و بیش کر کے اُسے تحریف  کر ڈالا تھا۔ البتہ محمد ی جو کچھ اپنے چند حزیفوں  سکنہ مدینہ سے کچھ دریافت  کرتے تھے۔ اور وہ ان کے منشا کے بموجب  نہ بیان کرتے۔ یا کسی جہالت کے سوال کا جواب نہ دیتے  تو یہ اُس کو چھپانا قرار دیکر محمد صاحب تک خبر پہنچاتے (خواہ بسبب خوشاہ  اِصحابونکا بیان غلط ہی کیوں نہ ہو)[1]

۹۔ بقر ۲۱ رکوع ۱۷۵۔

  إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا  أُولَٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ۔ بے شک جو لوگ الله کی نازل کی ہوئی کتاب کو چھپاتے اور اس کے بدلے میں تھوڑا سا مول لیتے ہیں یہ لوگ اپنے پیٹوں میں نہیں کھاتے مگر آگ اور الله ان سے قیامت کے دن کلام نہیں کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

(اور ایسا ہی الزام سورہ عمران ۱۹۔ رکوع  ۱۸۸۔ آیت میں بھی یہود مدینہ  کو دیا گیا ہے۔ 

امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں۔

اعلم ان وله تعالیٰ انالزین یکتمون مسائیل  المسئلته الا ولیٰ قال ابن عباس نزلت الایته فی روساء  الیھود کعب ابن الاشرف۔ وکعب ابن الاشد ومالک بن الا صیف ۔ وحی ابن اخطب ۔ وابی یاسرابن اخطب ۔ کانوا یا خزون من اتباعھم  الھدایا فلما  بعُث  محمد ﷺ خافوا انقطاع  تلک المنافع فکتموا امر محمد ﷺ وامر شرایعه فنزلت  ھزہ الایته المسئله الثانیته اختلفوفی انھم ای شی کانوا  یکتمو فقیل  کانوا یکتمون صفة  محمدﷺ  وایته  البشارۃ به وھو قول ابن عباس و قتادہ والسدی  ولاصمہ وابی مسلمہ وقال الحسن  کتموا احکام وھو لقوله  تعالی ان کثیرا من الاحبار والرھبان لیا کلون اموال الناس بالبا طل و یصدون عن سبیل ﷲ۔

ترجمہ۔  جاننا چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ کے اس قول میں کہ جو لوگ چھپاتے ہیں کئی ایک  مسئلے ہیں۔ اوؔل یہ کہ عبدؔاﷲ ابنؔعباس نے روایت  کی کہ یہ آیت روساء یہود کے حق میں اوتری ہے اور وہ یہ لوگ تھے۔ (۱) کعب بیٹا اشرف کا۔ اور (۲)کعب بیٹا اشد کا۔ اور (۳)مالک بیٹا صیف  کا۔ اور (۴)  حی بیٹا  اخطب کا۔  اور (۵) ابی یاسر بیٹا  اخطب کا۔ یہ لوگ لیتے تھے اپنے تابعداروں سے نزریں ۔ پس جب محمد  ﷺ  نبی بنے ہوئے تو وہ لوگ ڈرے  کہ یہ فائدے جاتے رہیں گے اس لئے چھپایا محمدﷺ کی بشارتوں کو اور آں حضرت کی شریعت کے نشانوں کو پس  اوتری یہ آیت۔ دوسرؔا مسئلہ  یہ ہے کہ عالموں نے اختلاف  کیا اس باب میں کہ وہ  کیا چیز چھپاتے تھے۔ بعض نے کہا کہ وہ چھپاتے تھے تعریف محمد ﷺ کی اور آں حضرت کی نشانی اور آں حضرت کی بشارت۔ اور یہ قول ابن عباس کا ہے۔ اور قتادہؔ اور سدیؔ اور اممؔ اور ابی مسلم اور حسنؔ کا یہ قول ہے کہ وہ احکام  کو چھپاتے تھے جیسے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’کہ بہت عالم اور درویش اہل کتاب کے کھاتے ہیں مال لوگوں کا ناحق اور روکتےہیں اﷲ کی راہ سے‘‘

امام فخر الدین صاحب رازی کے بیان سے طاہر ہے کہ محمد صاحب  کے وقت  یہودیوں  کے یہ پانچ رئیس یعنے (۱) کعب بن افرف (۲) کعب بن اشد۔ (۳) مالک بن صیف۔ (۴) حی ابن اخطب۔ (۵) وابی یاسر بن اخطب  مدینہ میں رہتے تھے یا چند راحب بھی تھے جوآج کل  کے قاضی ملانوں و پیروں کی مانند لوگوں سے نزرانے لے کر اُنکے روبرو احکام  کچھ بیان کرتے اور حق پرپر وپ ڈالتے تھے کہ جس سے لوگوں کی تلفی  ہوتی تھی۔ اور یہ حق کا پوشیدہ کرنا تھا اس لئے محمد  صاحب نے آّیت  اوتار کر یہ  سنُایا کہ جو لوگ ایسا کرتے ہین وہ سزا پاویں گے۔ لہذا اس سے یہ ہر گز  ثابت نہیں ہو سکتا کہ محمد  صاحب نے تحریف کتب سماوی کا دعویٰ کیا ہے۔ کیونکہ ایسے ناممکن  امر کا  دعویٰ تو بعید از عقل ہے۔ جیساکہ۔

امام فخر الدین  صاحب رازی  تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں۔ 

اختلفوا فی یٔفیة الکتما فا لمر وی عن ابن عباس انھم  کانوا یحرفون  ظاھر التوراة  والا نجیل وعند المتکلمین  ھزا  ممتنع لانھملکانا کتابین بلغانی الشھرة والتوا ترالی حیث یتعز  ر زلک  فیھا بل کانوا یکتمون التاویل لانه قد کان فیھم  من یعرف  الایات الدالة علی  نبوۃ  محمدﷺ  فکا نوایز کرون لھاتا ویلات  باطلة  ویصرفونھا عن محاملھا الصحیحة  الدالة  علی نبوة محمدﷺ  فھل اھوالمراد عن الکتمان فیضیر یعنے ان الزین یکتمون معانی  ما انزل اﷲ من الکتاب۔

ترجمہ۔ علما میں اختلاف ہے طریقہ چھپانے میں یعنے کس طر ح  چھپاتے  تھے عبداﷲ ابن عباس کا قول  یوں نقل کیا ہے۔ کہ وہ اہل  کتاب بدل دیتے تھے عبارت توریت  اور انجیل کی۔ مگر متکلمین کے نزدیک یہ بات یعنے توریت اور انجیل میں عبارتوں کا بدل  دینا متنع ہے کہ کیونکہ وہ دونوں کتابیں نہایت  مشہور ہو گئی ہین اور تو اتر کو پہنچ گئی ہیں یہاں تک کہ ان کی عبارتوں کا بدلنا متعذر ہو گیا ہے بلکہ وہ لوگ ( یعنے وہ پانچ  رئیس  مدینہ  یا بعض درویش)  چھپاتے  تھے تاویلات کو کیونکہ اُن میں تھے جو جانتے تھے اُن آیتوں کو جو دلالت  کرتی ہیں نبوت محمدﷺ  کرتے تھے اُن کی غلط دلیلیں  اور پھیرتے تھے اُن کو صحیح مطلبوں سے جو دلالت  کرتے تھے اوپر نبوت محمد ﷺ کے۔  پس یہ مراد ہے چھپانے کی ۔  اب اس آیت کے یہ معنے ہوئے۔ کہ جو لوگ چھپاتے ہیں معافی یا مطلب اُس چیز کے جو اوتار اﷲ نے کتاب سے۔

پس اظہر من الشمس ہے کہ ابن عباس کی روایت کے بموجب  یہ آیت قرآنی روساء یہود سکنہ مدینہ کے پانچ اشخاص  مزکورہ  صدر کے حق میں  ہے اور ابن عباس کے نزدیک چھپانے  سے یہ مراد ہے کہ وہ یہود مدینہ توریت کی عبارت  کو بدل دیتے تھے۔ مگر یہ ان کا وہم بعید از عقل ہے۔ اور بموجب روایت  (۱) قتادہ و (۲) سدی و (۳)  اھم  و ( ۴)ابی مسلم  و (۵)حسن کے وہ یہود مدینہ توریت کے احکام کو چھپاتے تھے جیسا کہ آیت قرآنی سے بھی ظاہر ہے۔  کہ وہ تھوڑے نذرانہ کی خاطر آجکل کے قاضی و ملانوں کی طرح لوگون کو کچھ کا کچھ بتاتے تھے نہ کہ کتاب سماوی کی عبارتوں کو بدل ڈالتے تھے۔ کیونکہ کتاب اﷲ کی عبارتوں کا بدلنا تو ناممکن تھا جیسا کہ امام فخر الدین صاحب رازی کے پیش کردہ اقوال سے ظاہر ہے۔ ’’ مگر متکلمین کے نزدیک یہ بات یعنے توریت اور انجیل میں عبارتوں  کا بدل  دینا  ممتنع ہے کیونکہ وہ دونوں کتابیں نہایت مشہور ہو گئی ہیں اور تواتر کو پہنچ گئی ہیں یہاں تک کہ اُن کی عبارت کا بدلنا متعذر ہو گیا ہے‘‘ ( کیونکہ پہلی صدی  سے سن ۳۱۳ ء تک زیل کے ممالک میں کتب سماوی مشتہر ہو کر کلیسائیں قایم ہو چکی تھیں۔

۱۔ ملک فلسطین یا کنعان میں۔ یروشلم۔ لدُہ۔ سارون۔ یافہؔ قیصریہ و ہیبرون میں۔ 

۲۔ملک فونیکی میں صور و دفلمائے میں۔

۳۔ ملک کللیہ میں۔

۴۔ ملک کپرس میں۔

۵۔ ملک آسیہ کوچک  میں۔ پسدیہ۔ تماونیہ۔ انطاقیہ۔ اکونیم۔ دوبے۔لسترا۔ گلاتیہ۔ افسس۔ پرگمس ۔ سمرنا۔ تھوا تیرا۔ ساروس۔ فلادلفیہ۔ ترداس ۔ لاؤدوقیہ۔ فروگیہ۔ قلوس ۔ پنتس۔کپہ دوکیہ۔ دبتونیہ۔ مین۔

۶۔ ملک مقدونیہ میں۔ فلپی۔ تسلونیقیہ۔ بریہ میں

۷۔ ملک آرام میں۔ اتالیہ و دمشق میں۔

۸۔ ملک یونان میں۔ قرنت واتھینی میں۔

۹۔ کریت میں۔ 

۱۰۔ الراقیم میں۔

۱۱۔ روم میں۔

۱۲۔ بابل میں۔

۱۳۔ پارتھا میں۔ میدیا۔ ایلان، مسوپوتامیہ۔  مصر۔ لبیہ۔ قریتی و عرب میں۔ 

۱۴۔ ملک کوش یعنےحبش میں۔

۱۵۔ ملک اسفانیہ میں۔

۱۶۔ انگلینڈ۔ فارس۔ اٹلی ۔ چینی تاتار۔ ہندوستان میں۔

پس جبکہ تواریخ سے ثابت ہے پہلے صدی سے چوتھی صدی  کے اخیر تک محمد سے دو برس پیشتر بہت ملکوں  میں کلیسائیں قایم ہو چکی تھیں جو مختلف زبانیں بولنے والے  تھے اور آپس میں دین و ایمان کے لئے  غیرت مند ہو کر بڑے بڑے مباحثے کرتے  اور پاک کلام کو پڑھتے پھیلاتے اور نقل کرتے اور ترجمے کیا کرتے تھے تو پھر کیونکر ممکن تھا کہ یہ پانچ رئیس یہودیوں کے جو صرف مدینہ میںرہتے تھے تمام ممالک کی کتب سماوی میں تحریف کر دیتے یا کرا دیتے۔ کوئی ہو شمند یہ ہرگز نہیں مان سکتا۔

اورپھر آیت قرآنی  کا یہ بیان۔ ’’کہ تھوڑے نفع پر لیتے ہیں مول تھوڑا۔‘‘ یہ الزام  بھی تمام  اہل کتاب پروارو نہیں ہو سکتا۔ دیکھو سورہ عمران ۲۰ رکوع ۱۹۹۔ آیت۔

پس یہود کے پانچ رئیسوں مذکورہ و بعض درویشوں کو چھپانے احکام و ناروانفع حاصل کرنے کا الزام دینے سے محمد صاحب  تمام جہان کی مشتہرہ کتب سماوی کی تحریف  کے دعوے  کے مدعی ہر گز قرار نہین دئے جا سکتے ۔ کیونکہ ایسے ناممکن امر کا دعویٰ کرنا محض حماقت ہے۔ اور روساء یہود مدینہ کی دست قدرت سے بالکل باہر تھا۔

۱۰۔ آل عمرآن ۷ رکوع ۷۰۔

  يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ۔

ترجمہ۔ اے اہلِ کتاب! سچ میں جھوٹ کیوں ملاتے ہو اور سچی بات کو چھپاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو۔

امام فخر الدین صاحب رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں۔

اماقوله و تکتموں الحق فالمرادان الایات الموجوبة فی التوراة الدالة نبوۃ  محمدﷺ کان الاستدلال بھا مفتقرا الی التفکر  و التامل  وا لقوم  کانوا یجتھدون فی اخفاء تلک الا لفاظ  التی بمجھوعھا یتمہ ھزا الاستدلال مثل ما ان اھل البدعته فی زماننا  یسعون فی ان لایصل  الی عوام ھم دلائیلالمحقیقیں۔

ترجمہ۔ یہ جو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ چھپاتے ہو سچ کو ۔ اس سے یہ مراد ہے کہ توریت  میں آیتیں موجود ہیں جو محمدﷺ کی نبوت پر دلالت کرتی ہیں۔ اُن آیتوں سے استدلال کرنے میں غور اور فکر درکار ہے۔ اور وہ لوگ اُن الفاظ کے چھپانے  میں جب کے مجموعے سے یہ دلیل پوری ہوتی ہے کوشش کرتے تھے۔ جیسے ہمارے زمانہ میں بدعتی اس میں کوشش کرتے ہین کہ محققین کی دلیلیں عوام تک نہ پہنچیں۔ 

پھر تفسیر کبیر میں بھی لکھا ہے۔ 

اعلم ان الساعی فی الاخفاءلاسبیل له فی زلک الا من احد الو جھین اما بالقاء الشبھة التی تدل علی لباطل  ادبا خفاء الدلیل الزی یدل علی الحق  فقوله  لم تلبسوا الحق بالباطل  اشارة الی للمقام الاول و قوله  تکتمو الحق اشارة الی المقام الثانی امالبس الحق بالباطل  فانه یحتمل  ھنا وجوھا احدھا  تحریف التوراة فیخلطون المنزل بالمحرف  عن الحسن ابن زید وثانیھا انھم کانوا یشوا ضعوں علیٰ اطھازالاسلام فی اول النھارثم الرجوع عنھا اخر النھار تتکیکا للناس عب ابن عباس و قتازہ و چالثھا ان یکون فی التوراة ما یدل علیٰ نبوة ﷺ من البشارة والنعت والصفته ویکون فی التوراة الیضامایوھم خلاف زلک فیکون  کالمحکم وا لمتشابه فیلبسون علیٰ الضعفاء احدلامرین بالا خر کمایفعله کثیر من المشتبھة  وھزا قول القاضی واجھا انھم کانو ایقولوزان محمدﷺ معترف  بان موسیٰ لا یسنخ و کل زلک القاء الشبھات۔

ترجمہ۔ جو شخص حق بات چھپانےمیں سعی کرتا ہے۔ اُس کو اس بات میں دو رستوں کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یا توشبہ ڈالے  جو ناحق  پر راہ بتاوے۔ یا سچا رستہ بتانےوالی دلیل کو چھپاوے۔ پس اﷲ تعالیٰ کایہ قول کہ ’’کیوں ملاتے ہو صحیح میں غلط ‘‘ اشارہ ہے پہلی بات کی طرف ۔ اور یہ قول اﷲ تعالیٰ کا‘‘  اور چھپاتے ہو سچی بات کو ‘‘ اشارہ ہے دوسری بات کی طرف۔ مگر  صحیح میں غلط ملانا اُس کی کئی صورتیں ہیں۔ اوؔل تحریف توریت کی کہ ملاویں کلام آلہی کو کلام محرفّ سے۔ یہ روایت حسن اوابن زید  کی ہے۔  (واضح رہے کہ امام فخر الدین نے جابجا بیان کیا ہے کہ ایسی تحریف توریت میں نہیں ہو سکتی تھی چنانچہ اُن کے اقوال کچھ تو مزکور ہو چکے ہیں اور باقی ہم آگے چل کر لکھیں گے لہذا یہ رائے حسن و ابن زید کی درست نہیں) دومؔ وہ لوگ( یعنے چند اشخاص یہود مدینہ میں سے) صبح کو اپنا مسلمان ہونا طاہر کرتے تھے اور شام  کو پھر جاتے تھے لوگوں کو شک میں ڈالنے کے لئے ۔  اور یہ روایت ابنؔعباس اور قتادہ کی ہے۔ سوم ؔ یہ کہ توریت میں وہ آیتیں بھی ہین جو دلالت  کرتی ہیں اوپر نبوت محمدﷺ کے بطور پیشینگوئی  کے اورحضرت کی نشانیوں پر اور تعریف  بتانے  پر۔ اور توریت میں ایسی بھی آیتیں ہیں جن سے اُن کے برخلاف شبہ پیدا ہوتا ہے تو ان آیتوں کی مثال محکم اور متشابہ کی ہوئی۔ پھر وہ لوگ (یعنے یہود مدینہ) ان دونوں باتوں کو ملا کر لوگوں پر شبہ ڈال دیتے تھے۔  جیسے کہ اکثر شبہ ڈالنے والے ایسا کرتے ہیں۔ اور یہ قول قاضی  کا ہے۔ چہاؔرم یہ کہ وہ لوگ کہتے تھے کہ محمدﷺ  اقرار کرتے ہیں کہ موسیٰ برحق ہیں۔ پھر توریت دلالت کرتی ہے اس بات پر کہ شریعت  موسیٰ کی منسوخ نہین ہونے کی اور یہ سب باتیں شبہ ڈالنے کی ہیں۔

اور عبدالقادر صاحب دوسرے فائدہ میں یوں لکھتے ہیں۔ توریت کے بعضے  حکم تو موقوف  ہی کر ڈالتے تھے غرض کیواسطے اور بعض آیتوں کے معنے  پھیر ڈالتے تھے اور بعضے  چیز چھپا رکھتے تھے ہر کسی کو خبر نہ کرتے تھے جیسے بیان پیغمبر  آخر الزمان کا ۔

پس ظاہر ہے کہ غلط  ملانے سے یہ مراد ہے کہ اہل کتاب سکنہ مدینہ سے غالباً یہودیوں کے وہ پانچ رئیس کہ جن کا  بیان بموجب  روایت ابن عباس کے اوپر  کیا گیا ہے کہ جو اپنے نزرانہ کی کمی کے اندیشہ سےمحمد صاحب کے دشمن بتائے گئے ہیں لوگوں کو شبھات میں مبتلا کرتے تھے۔ یا جیسا کہ سوریؔ اس آیت متنازعہ کی نیچے کی آیت کے شان نزول میں لکھتے  ہیں کہ ’’بار ہ یہودیوں نے اتفاق کر لیا تھا کہ صبح کو وہ اپنا محمدی ہونا  ظاہر کرتے تھے اور شام کو لوگوں میں شک ڈالنے کے لئے  محمد صاحبسے برگشتہ ہو جاتے تھے۔ اور کہتے تھے  کہ ہم نے  اپنی کتاب میں گور کی اور ہم نے علما سے بہت مباحثہ کیا نشانی  تمہارے نبی موعود کی نہ پائی۔ الخ‘‘ الغرض کہ وہ محمد صاحب کے دعویٰ کے برعکس ایسی آیات بھی توریت سے پیش کیا  کرتےہوں گے کہ جن سے محمد صاحب کے نبی ہونے کے دعویٰ کی تصدیق کے بجائے اُسکے دعویٰ کے باطل ہونیکا شبہ پڑجاتا تھا جیسا کہ قاضیؔ  کے قول سے اوپر ظاہر ہو چکا ہے۔ اور حق کا چھپانا  بھی امام فخر الدین کے نزدیک ایسا تھا کہ جیسا اس زمانہ کے بدعتی قرآن  کے مسایل  کے باب میں کرتے ہیں تاکہ محققین کے دلائیل عوام تک نہ پہنچیں۔  لہذا آیت قرآنی کا یہ مطلب ہر گز نہیںہے کہ وہ چند اشخاض یہود مدینہ کتب مقدسہ کو گھٹاتے یا بڑھاتے تھے بلکہ یہ ہے کہ وہ محمدصاحب کے دعویٰ نبوت کو باطل کرنے کے لئے آیات  کتب مقدّسہ  کے ایسےمعنے بیان کرتے اور سندمیں ایسی دیگر آیات کو پیش کر کے آیات متنازعہ کا اُن سے مقابلہ کرتے ( جیسے کہ علما آج کل بھی کیا کرتے ہیں) کہ جن سےمحمد صاحب کے حق میں کوئی پیشین گوئی تو ثابت  نہیں ہوتی بلکہ شبہ باطل  ہونے کا پڑجاتا تھا۔ اس لئے محمد صاحب اُن کو صحیح میں غلط ملانے اور ھق کوچھپانے کا الزام مقصد کے بر نہ آنے کے سبب  لگاتے تھے۔  سو یہ الزام بھی اپنے چند حریفوں سکنہ مدینہ کو نہ کہ تمام جہان کےاہل کتاب کو لگاتے تھے۔  لہذا چابت ہے کہ کتب سماوی مشتہر جہان کی تحریف  جو ایک ناممکن امر تھا اُس کو دعویٰ قرآن  میں نہیں ہے ۔

۱۱۔ عمران ۸۔ رکوع ۷۷۔

  وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُم بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ۔

ترجمہ۔ اوربے شک ان میں سے ایک جماعت ہے کہ کتاب کو زبان مروڑ کر پڑھتے ہیں تاکہ تم یہ خیال کرو کہ وہ کتاب میں سے ہے حالانکہ وہ کتاب میں سے نہیں ہے اوروہ کہتے ہیں کہ الله کے ہاں سے ہے حالانکہ وہ الله کے ہاں سے نہیں ہے اور الله پر جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں۔

امامٖ فخر الدین صاحب رازی تفسیر کبیر میں یوں لکھتےہیں۔

کیف یمکن ادخال التحریف فی التوراة مع شھرته العظیمة بین الناس و الجواب  لعلھ صدر ھزا العمل  من نفرقلیل یجور علیھم  التوا ھو علی التحریف ثم انھم عرضوازاک المحرف علی البعض العوام و علی ھزا التقد یریکون ھزا لتحریف  ممکنا ولا سوب عندی فی تفسیر الایته وجه اخرو ھوان الایات الدالته علی نبوة صلیﷲ علیہ وسلم کایحتاج فیھا الی تدفین النظرو تامل القلب والقوم کانوا یور دون علیھا الاسولتہ المشوشته والا عتراضات المظلمةفکانت تصیر تلک الدلایل مشتبھات علی السامعین والیھود کانوا یقولون مرادﷲ تعالی من ھز الایته ماَزکرناہ لامازکرتم فکان ھزہ ھو المراد بالحتریف وبلی الاسنته وھزامثل ان المحقق فی زماننا ادا استدل بایته  من کتابﷲ فالمبطل یورد علیه  الاسولة والشبھات ویقول لیس مراد ﷲ مازکرت فکزلک فی ھزا الصورة وﷲ

اعلم  بمرادہ۔

ترجمہ۔ کیونکہ ممکن ہے داخل کرناتحریف  کا توریت میں باوجود اُس کی نہایت شہرت کے لوگوں میں؟ جواب شاید یہ کام تھوڑے سے آدمیوں نے کہ جن کا تحریف پر اکھٹا ہو جانا ممکن ہو کیا ہو۔  تو اس صورت میں ایسی تحریف ہونی ممکن ہے۔ مگر میرے نزدیک  اس آیت کی بہتر تفسیر یہ ہے کہ جو آیتیں توریت کی نبوت محمدﷺ پر دلالت  کرتی ہیں اُن میں غور و فکر کی احتیاج تھی۔ اور وہ لوگ اُس پر سوالات  مشوش اور بیجا اعتراضات  کرتے تھے۔  پھر وہ دلیلیں سنُنے والوں پر مشتبہہو جاتی  تھیں اور یہودی  کہتے تھے کہ ان آیتوں سے اﷲ تعالیٰ کی مراد وہ ہے جو ہم کہتے ہیں۔ نہ وہ جو تم کہتے ہو۔ پس یہی مرادہے تحریف سے۔ اور زبان بدلنے یا پھیرنے سے اُس کی ایسی مثال ہے۔ جیسے کہ ہمارے زمانہ مین جب کوئی محقق کسی اُمت کلام ا ﷲ سے استدلال کرتا ہے۔تو گمراہ لوگ اُس پر سوالات اور شبھات کرتے ہیں۔ اورکہتےکہ اﷲ کی مراد یہ نہیں ہے جو تم کہتے ہو۔ اسی طرح پر اس تحریف کی صورت ہے۔

امام فکر الدین صاحب رازی تفسیر کبیرمیں یہ بھی تحریر فرماتے ہیں۔

قوله ویلون السنتھم  معناہ یعمدون  الیٰ اللفظ فیحر فونھا فی حرکات الاعراب تحریفا یتغیربه المعنی۔ 

ترجمہ۔اﷲ تعالیٰ نےجو یہ فرمایا’’کہ کتاب پڑہنے میں زبان مروڑ کر پڑہتے ہیں‘‘ اس کے یہ معنے ہیںکہ وہ لوگ (یعنے یہود مدینہ) خراب کرتے ہیں لفظ کو اور بدل دیتے ہیں ( پڑھنےمیں) اُس کے اعراب  کو کہ اس تبدیل سے اُس لفظ کے معنے بگڑ جاتے ہیں۔

تفسیر حسینی میں یوں لکھا ہے۔

وَاِنّ منھم لفریقاً۔ دیددستیکہ از جہودان ہر آئینہ گروہےہستند چون۔ کعبؔ وا بویاؔ سروحیؔ کہ ازرو ئے ناراستی۔ یلون السنتھم۔ پریچا تدزبان ہائے خودرا۔ باللتب۔ بخواندن کتابی کہ نوشتہ و بربافتہ احبار ایشانست وآن مضتریات بلغت عبری مے خوانندلتحسبوة تاشماپندارید کہ آنچہ ایشان میخوانند۔ من الکتب۔ از توریت است۔ وماھو من الکتب۔ وحالتکہ نیست ازتوریت۔ و بقولون۔ ومیگویند ھومن عند ﷲ۔آنمحرف و مفتری از نزو خدا ست۔ وماھو منعندﷲ۔ ونیست آن از نزدخداے۔ ویقولون علی ﷲالکزف۔ ومیگویند بر خدائے دروغ جہ غیر سُخن اومیدانند۔ وھم یعلمون۔ و ایشان میدانند کہ دروغ میگویند۔ یہاں سے آشکارا ہے کہ اس آیت قرآنیمیں بھی کتب سماوی کے تحریف ہو جانے کا دعویٰ نہین ہے بلکہ امام فخر الدین صاحب رازی کے قول سے ثابت ہے۔ کہ تحریف ہوجانا کتب سماوی کا جو جہان میں مشتہر ہو چکی تھیں بالکل غیرممکن تھا۔ اور جو الزام یہان پر زبان مروڑ کرپڑہنے میں اعراب کو تبدیل کر کے پرہنے کا دیا گیا ۔ وہبھی بموجب تفسیر حسینی کے صرف اُنہیں پانچ رئیسوں یہود سکنہ مدینہ میںسے تین اشخاص یعنے کعبؔ وابویاؔ سروؔحی کو کہ جن کا بیان پہلے ہو چکا ہے دیا گیا ہے نہ کہ تمام قوم یہود کو۔ اور تفسیر حسینی سے یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ تینوں اشخاص کچھ زبان عبرانی میں اپنے یاروں سے لکھوا کر لاتے تھے اور محمد صاحب و اُن کے پیرؤن کو دھوکا دینے کے لئے اُسے اُن کے روبرو زبان مروڑ کر پڑہتے اور کہتے تھے کہ یہ توریت سے ہے۔ حالانکہ وہ توریت سے نہ ہوتا تھا۔ الغرض کہ وہ توریت کو تو زبان مروڑ کر یا پڑہنےمیں الفاظ توریت کے اعراب تبدیل کر کے نہین پڑہتے تھے۔ بلکہ سرف اپنے یاروں ہی کی نوشت کو زبان مروڑ کر پڑہتے تھے۔ لہذا اُن تین شخصوں سکنہ مدینہ کے ایسا کرنے سے توریت کے تحریف الفاظ یا تحریف اعراب کا دعویٰ تصور نہیں کیا جا سکتاپس اظہر من الشمش ہو کہ کتب سماوی مشتہر جہان کی تحریف کا دعویٰ قرآن میں نہیں ہے۔

۱۲۔ نساء۔ ۷ رکوع ۴۴۔ 

مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ  وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَٰكِن لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا۔

ترجمہ۔ یہودیوں میں بعض ایسے ہیں جو الفاظ کو ان کے محل سے پھیر دیتے ہیں او ر کہتے ہیں ہم نے سنا اور نہ مانا او رکہتے ہیں کہ سن نہ سنایا جائے تو اور کہتے ہیں راعِنا اپنی زبان کو مروڑ کر اور دین میں طعن کرنے کے خیال سےاور اگر وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور ہمنے مانا اور سن تو اور ہم پر نظر کو تو ان کے حق میں بہتر اور درست ہوتا لیکن ان کے کفر کے سبب سے الله نے ا ن پر لعنت کی سو ان میں سے بہت کم لوگ ایمان لائیں گے۔

تفسیر درِمنشور ابن ابیؔ حاتم نے ابن زید دے یوں روایت کی ہے۔

واخبح ابن ابی حاتم عن ابن زید فی  قواہ یحرفوا لکلم عن مراعظه قال لا یضعونه علیٰ ما انزلﷲ۔

ترجمہ۔ یہ جو فرمایا اﷲ تعالیٰ نے ۔ ’’کہ تحریف کرتے ہیں کلموں کو اُن کی جگہ سے۔ ‘‘ اس کے یہ معنی ہیں کہجس طرح پر اﷲ نے ان کو اوتار ا ہے اُس طرح پر اُن کو نہیں رکھتے۔

امام فخر الدین صاحب رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں۔

فان قیل کیف یمکن  ھزا فی لکتب  الزی بلغت احاد حروفه و کلماته  مبلغ التوانزا المشہور فی الشرق والغرب  قلنا لعله یقال القوم کانوا قلیلین والعلماء  بالکتاب  کانوا فی غایته  القله فقد رواعلیٰ ھزا التجریف  الثانی ان المراد بالتحریف القاء  الشبھته  الباطلته والتاویلاالفاسدة و حبراللفظ من معناہ الحق الیٰ الباطل بوجوہ الحیلالافظیة کما یفعله اھل البدعته فی زماننا ھزا بالایات المخالفته لمزھبہم ھزا وھو الاصح۔

ترجمہ۔ پس کس طرح ممکن ہے تحریف ایسی کتاب میں جس کے ہر حرف اور کلمے تواتر کو پہنچ گئے ہین اور مشرق سے غرب تک مشہور ہو گئے ہیں۔ ( پہلا جواب) شاید یوں کہا جا سکے کہ وہ لوگ تھوڑے تھے۔ اور عالم کتاب آلہی کے بہت کم تھے۔  پس ایسی تحریف  کر سکے۔ ( دوسرا جواب)  تحریف سے مراد ہے جھوٹے شبہوں کا دالنا  اور غلط  تاویلوں کا کرنا۔ اور لفظ کو صحیح معنوں سے جھوٹے  معنوں کیطرف کھینچنا  لقطی حیلوں سے۔ جیسے کہ اس زمانہ کے بدعتی اپنے مذہب  کی مخالف  آیتوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اسکو سمجھو اور یہی مراد تحریف کی بہت صحیح ہے۔

تفسیر حسینی میں یوں لکھا ہے۔

من الزین ھادو۔ بعضے ازاں کسانیکہ بدین یہودیہ  لتدین  شدہ اند۔ یحرفون الکم۔ میگردانند کلمہاو تغیر میدہند۔ عن مواعظعه ۔ ازاماکن  آن مراد تحریف نعت  پیغمبر ست یا تاویل  کلمات  توریت رابر دفق  رائے وطبع خود۔ یا  تغیر کلام پیغمبر یاکتمان آیت  رجم۔ آوردہ اند کزمرہ از یہودکلازمت حضرت رسالت پناہ  مے آمد  ندو جواب آخحضرت رااز امریکہ سوال کردہ  بورند بقبول نلقی  میضمود مزواز مجلس ابشان منصرف شدہ ہماں کلمات متبر کہ ایشان رامحرف مے ساختند لاجرم پردہ ازرو ئے  کارایشان  برداشتہ فرمود کہ دشمنان شما  یہودی  سخنان تراکہ حبیب منے ازمواضع آن تحریف میکنند۔ یقولون۔ ومیگویند سمعنا۔ شنیدیم قول ترا۔ وعصینا ونا فرمان کردیم  امر ترا۔ ولفظ و عصینا  آشکارا میگفتند ازرو ئے عناد۔ دور تبسیرؔ گوید اظہار اطعناؔ واضمار عصیناؔ میکروند۔ وحقیقت آنست کہ زبان مقال۔ الیشان سمعناؔ میگفتہ ولسان حال ایشان بعصیناؔنا طق بودہ۔ و دیگر میگقنند۔ واسمع غیر مسمع۔ بشنودر حالیکہ غیر شنومزہ شدہ باشی۔ ایں کلمہ زود جہین است رو ئے در مدح دارد۔ و رو ئے درزم۔ وجہ مدح آنست کہ اسما ع شنوانیدن بودمیگونید کہ بشنو غیر شنوایندہ شدہ یعنے اصم  وایں  دعا علیہ باشد یہود وجہ مدح راپررہ تفاق  میساختہ  اندو مظمع نظر ایشاں وجہ مزمت بودہ۔ و دیگر  میکفتند ۔ وراعنا۔ وایں کلمہ نیز محتمل ولوجہین ست۔ وجہ مدحش آنکہ ازمر اعات باشد یعنے نگاہ دارمارا  و درمانگر۔ ودجہ زمش آنکہ ازرعونت و حمق بود و مراد یہود نسبت رعونت بودہ براں حضرت۔ و گفتہ اند  یہود اشباع میکروند کسرۂ عیں را ورا میگفتند یعنے اے شبان القریض میگروند آن  حضرت رابرعی غنم و بر ہر تقدیرے ایں کلمہ میگفتند۔

لیا بانسنتہم۔درحاکیتکہ گردانیدن و پیچا نیدن سُخن بزبان ہائے خود یعنے فعلیکہ از مرات ست ملبغت عرب آزا برعونت ردمیکنند بزبان کود ۔ یالسان عرب رانز فصاھت اولے پیچا نند و بطریق لحسن راعینا میگویندو وبآن زم آن  حضرت میخوا ہند۔ وطعناً فی الزین۔وقد و طعن دردین اسلام یعنے دینے کہ پیغمبر ادبشبانی منسوب بود آیا چہ دین خواہد بودوحال آنکہ الیشاں بشبانی موسیٰ معترف بودند۔  ولو انہم قالق۔ واگر الیشان گفتندے سمعنا۔ شنیدیم سخن ترا۔ واطعناً و فرمان برویم امر ترا۔ واسمع۔ بشبو سخن مارا۔ والنظرنا۔ ودرما نگاہ کن  اکان خیراً لھم۔ ہر آئینہ ایں گفتار بودے بہتر مراشیاں رااز استہراے سیدانام  وطعن دردین اسلام۔ واقوم دراست تربودے سخن ایشاں۔ ولکن لعنھم ﷲ۔ ولیکن برامزہ است خدائے ایشان راواز رحمت خوددور کردہ۔ بکفر ھم۔ بسبب کفرا یشاں و مجارات  برآں۔ فلایومنون۔ پسنمے گروندایشاں الا قلیلاً۔ مگرگردیدنی اندک یعنےضعیفی۔  الخ۔

عبدالقادر دوسرے فائدہ میں یوں لکھتے ہیں۔

راعناؔ لفظ بولتے تھے اس کا بیان سورہ بقر [2]میں ہوا۔ اسی طرح حضرت بات فرماتے تو جواب میں کہتے سنُا ہم نے۔  اُسکے معنے یہ ہیں کہ قبول کیا۔  لیکن آہستہ کہتے کہ نہ مانا یعنے فقط کان سے سُنا اور دل سے نہ سنُا۔ اور حضرت کو خطاب  کرتے تو کہتے۔ سُن نہ سنایا جایو۔ ظاہر میں یہ دعا نیک ہے کہ تو ہمیشہ غالب رہے کو ئی تجھ کو برُی بات نہ سنُا سکے۔ اور دل میں نیت رکھنے کہ تو بہرا ہو جائے۔ ایسی شرارت کرتے پھر دین میں عیب دیتے۔ کہ اگر یہ شخص نبی ہوتا تو ہمارا فریب معلوم کرتا وہی اﷲ نے واضح کر دیا۔

پس ظاہر ہے کہ قرآن میں کتب سماوی کی تحریف  کی طرف  اشارہ تک بھی نہیں ہے۔ بلکہ جیسا کہ آیات قرآنی  مذکورہ  کے بیان و تفسیر حسینی ع عبدالقادر جت دوسرے فائدہ سےاظہر من الشمس ہے۔ کہ چند کس یہودمدینہ  غلباً  اُن پانچ رئیس یہود مدینہ میں سے کئی ایک محمد صاحب کی مجلس  میں  جا کر بیٹھتے تھے۔ اور پکار کر تو کہتے۔ سمعنؔا یعنے سن لیا ہم نے اور آہستہ سے ہونٹھوں میں کہ دیتے۔ وعصیؔنا یعنے اور نہ  مانا ہمنے۔ یا اطعناؔ ہم نے مانا۔ کہ جگہ عصیناؔ ہم نے نہ مانا۔ یاعدول حکمیکی۔ اور اسیطرح وہ یہ بھی کہتے تھے۔ اسمع غیر مسمعؔ یعنے سنُ یعنے بغیر سنُنے کے۔ اور کہتے اعؔنا مگاہ کر ہم پر۔ اور جب اس کو زبان مروڑ کر کہتے تو راعیناؔ یعنے ہمارا چرواہا یا احمق کے  معنے  دینا چنانچہ اسی بابت قرآن میں ۔   

لماً بالسنتہم یعنے موڑ دیکر زبان سے بولنا لکھا گیا ہے۔

اور جلال الدین نے بھی تحریف کی یہ تفسیر کی ہے ولیا تحریف بالسنتہم۔  لپیٹ یعنے تحریف  ( یا منقلب کرنا) ساتھ اپنی زبانوں کے ۔

الغرض نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چند یہود مدینہ کو جو الزام  دیا گیا وہ مزکورہ بالا الفاظ کی تحریف  کا الزام تھا یا یہ تھا کہ جو کچھ وہ محمد  صاحب  سے سنُکر  جاتے تو باہر کے لوگوں کو محمد صاحب  کے الفاظ اُلٹ پلٹ کر سناُتے  اور اُس کے بیان کے برعکس بیان کرتے۔ (دیکھو تفسیر حسینی  کی اُس عبارت کو جس پر خط کھینچا گیا ہے)  لہذا اس سے یہ ہر گز  ثابت نہیں ہوتا کہ یہود مدینہ ( چہ جائیکہ تمام جہان کے اہل کتاب) نے کتُب سماوی مشتہرہ جہان کو تحریف کر ڈالا تھا۔ اور جو کچھ امام فخر الدین صاحب رازی فرماتے ہیں وہ نہایت ہی غور کے لایق ہے یعنے ’’ کس طرح ممکن ہے تحریف ایسی کتاب کی جس کے ہر حرف اور کلمے تو اتر کو پہنچ گئے ہیں اور مشرق سے غرب  تکمشہور ہو گئےہیں‘‘۔

پس اس آیت قرآنی متنازعہ کی دو باتوں پر غور کرنی چاہئے  ایک یہ کہ  کہتے ہؔیں۔ دوم یہ کہؔ۔ اپنی زبان مروڑ کرؔ۔  سو ا دونوں الفاظ سے چابت ہے کہ یہاں۔ اطعناؔ کی جگہ عصؔینا۔ اور راعؔنا  ی جگہ راعیناؔ وغیرہ کے تغیر و تبدل زبانی کا بیان ہے۔  نہ کہ کتب عماوی کا دعویٰ۔  پس  محمد صاحب کو ایسے ناممکن امر کے دعویٰ کا مدعی  قرار دینا گویا اُن کو عقل  و ہوش سے بے بہرہ قرار دینا ہے۔

۱۳۔ مائدہ۔ ۳ رکوع  ۱۴۔

 فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً  يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ  وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ  وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ  فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ  إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ۔

ترجمہ۔ پھر ان کی عہد شکنی کے باعث ہم نے ان پر لعنت کی اوران کے دلوں کوسخت کر دیا وہ لوگ کلام کو ا سکے ٹھکانے سے بدلتے ہیں اور اس نصیحت سے نفع اٹھانا بھول گئے جو انہوں کی گئی تھی اور تو ہمشیہ ان کی کسی نہ کسی خیانت پر اطلاع پاتا رہے گا مگر تھوڑے ان میں سے سو انہیں معاف کر اور درگزر کر بے شک الله نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

تفسیر درِمنشور میں ابن جزیر نے ابن عباس سے روایت کی ہے۔ 

واخرج  ابن جزیر عن ابن عباس  فہ قوله یحرفون الکلم عن مواضعه یعنے حدود الته فی التوراة۔

ترجمہ۔ یہ جو فرمایا اﷲ تعالیٰ نے کہ ’’بدلتے ہین کلام کواپنے ٹھکانے سے‘‘ اس کے یہ معنے  ہیں کہ جو حدیں  ( یعنے گناہ گار کو سزا دینے) احکام کی اﷲ تعالیٰ نے توریت میں مقرر کی ہیں تغیرو تبدیل کرتے ہیں۔

امام فخرؔ الدین صاحب  رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں۔

التحریف  یحتمل  التاویل الباطل  ویحتمل  تغیر اللفظ وقد بینا  فیھا تقدم  ان الاول اولیٰ لان الکتاب المنقول باالتوانز لا یتانی فیه تغیر اللفظ۔

ترجمہ۔ تحریف  سے یا تو  غلط تاویل  مراد یا لفظ کا بدلنا  مراد ہے۔ اور ہم نے اوپر بیان کیاہے کہ پہلی مراد بہتر ہو کیونکہ جو کتاب بتواتر منقول ہواُس میں تغیر لفظ کی نہیں ہو سکتی۔

تفسیر حسینی میں ہے۔

فبما نقضہم  پس بشکستن الیشاں میثاقھم پیمان خودرا العنھم براندیم الیشان ازرحمت خود۔ یامسخ گروانیدیم ۔ باخواری  خبریہ برایشاں راقسیة  ً سخت بمشابہ کہ متاثر نشونداز مشاہدہ آیات واستماع تخویفات  یحرفون الکلم عن مواعظه  میگر وانند سخنان توریت  را۔ یا نعت حضرت رسالت  پناہ را ازجائیگا ہ آں یعنے صفت دیگر یرا بجائے  صفت پیغمبر  وضع میکتد ۔ یا کلمات توریت  راماول مسیازند بتاویلات فاسدہ۔ ونسوُاحظاّ و ترک  کروند بہسرہ تمام  راممِّاز لرقبه ۔ ازا نچہ پندوا دہ شدہ بوُند بداں در توریت  ازمتا بعت پیغمبر  اخرالزمان ولا تنرال تطلع وُ ہمیشہ  ہستی تو کہ مطلع شوی علی خائنة  منھم برخیا نتے از جہودان الا قلیلاً منھم مگر امز کے از  ایشان کہ خیانت نمیکتد  چوں ابن سلام و اصحاب او فاعف  عنہم پس عفوکن ودر گزرازیشاں اگر توبہ کنند وایمان آرندواصفح  و روئے  بگرداں ازا ایذاایشان اگر التزام جزیہ نمایند و گفتہ  اند  مطلق عفو وصفح بایتہ السیف منسوخ است اِ ن اﷲ یحب المھنین بدرسنیکہ خدائے دوست میدار ونیکو کاراں را۔ 

اس آیت سے ظاہر ہے کہ جو الفاظ سورہ نساء۔ کی آیت ۴۴ میں تھے وہی الفاظ اس ّ آیت میں بھی ہیں۔ پس  جو معنی ان الفاظ کے سورہ نساء  کی ۴۴۔ آیت مین لئے گئےہیں وہی ہمنے اس آیت میں بھی لئے  جاویں گے۔ یعنے جیسے وہاں یہود مدینہ  کو زبانی تحریف کا الزام دیا گیا ویسا یہاں  پر بھی دیا گیا ہے۔ اور علاوہ اس کے خود  اسی  آیت میں جویہ الفاظ ہیں ’’ کہ اُس نصیحت سے فائدہ لینا  بھول گئے‘‘ اس سے پایا جاتا ہے کہ  جو مطلب و مقصود  تھا اُس کو چند یہود مدینہ نے فراموش کر کے بدل دیا تھا۔ نہ یہ کہ  اُنہوں نے کتب سماوی  کی کسی عبادت کو جو اُن کی دست اندازی  سے باہر و نا ممکن تھا بدل  دیا تھا۔  اور پھر یہ جو اس آیت می ہے ۔ ’’ کہ تو ہمیشہ خبر پاتا ہے اُن کے ایک  دغا کی مگر تھوڑے  لوگ اُن میں سو معاف کر اور در گزر اُن سے اﷲ چاہتا ہے نیکی والوں کو ‘‘۔ اس سے طاہر ہے کہ تمام یہود مدینہ  بھی دغا باز نہ تھے اور اُن میں تھوڑے لوگ ایسے بھی تھے جو محمد صاحب سے دغابازی نہ کرتے تھے۔ اور نہ اُن پر الزام۔ ’’یحرفون الکلم عن مواضعه‘‘ کا دیا جا سکتا تھا۔  اور ملاں حسینی کے فرمانے کے بموجب  اُن تھوڑے  لوگوں سے ابن اسلام  وغیرہ محمدی  مراد نہیں لئے جا سکتے۔ کیونکہ جس حال میں وہ محمدی  ہو چکے تھے تو اُن سے در گزر کرنے کی تاوقتیکہ وہ توبہ کریں کوئی وجہ  نہیں پائی جاتی۔ پس اس آیت سے یہ ہر گز ثابت نہیں ہو سکتا  کہ تمام یہود مدینہ  کی نسبت یہ الزام دیا گیا ہے۔ چہ جائیگہ تماماہل کتاب کی نسبت  ( کہ جنہوں نےمحمد صاحب  سے دغا کرنا تو درکنار رہا اغلباً اُس وقت محمد صاحب  کا نام بھی نہ سنُا ہو گا) ایسا الزام  عاید  و تصور ہو سکے۔اور پھر تفسیر  درِمنشور میں ابن  خبریر نے ابن عباس سے روایت کر کے  اس قول کے’’بدلتے ہیں کلام کو اپنے ٹھکانے سے‘‘۔ کہ یہ معنے بتائے ہیں کہ جو حدیں  یعنے گناہ گار  کو سزا دینے کی اﷲ تعالیٰ نے اپنے احکام کے  ساتھ توریت میں مقرر  کی ہیں یہودی مدینہ میں سے بعضے اُن  سزاؤں کو تغیر تبدل کرتے۔ جیسا کہ زانی کے لئےسزا توریت  میں سنگسار کرنے کی مقرر تھی اور بعض یہود مدینہ  رعایت و لحاظ سے اس کے بجائے سزا تازیانہ بتاتے تھے۔ اور  ایسے احکام  کی سزاؤں کی تغیر و تبدیل  وہ پاک کتاب میں ہر گز نہ کر سکتے تھے مگر اپنی زبانی تاویلات میں ایسا کرتے تھے جیسا کہ آیت رجم کے مقدمہ سے ظاہر ہے۔ کیونکہ جیسا امام  فخر الدین صاحب  رازی فرماتے ہیں کہ جو کتاب بتواتر منقول ہو اُس میں تغیر لفظ کی نہیں ہو سکتی۔ لہذا قرآن میں دعویٰ تحریف کتب مقدسہ کا ہر گز نہیں ہے۔ 

۱۴۔ مائدہ۔ ۶ رکوع ۴۵ سے ۴۸۔ 

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا  سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ  يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ  يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا  وَمَن يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَن تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا  أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَن يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ  لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ  وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ۔

ترجمہ۔ اے رسول انکا غم نہ کر جو دوڑ کر کفر میں گرتے ہیں وہ لوگ جو اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں حالانکہ ان کے دل مومن نہیں ہیں اور وہ جو یہودی ہیں جھوٹ بولنے کے لیے جاسوسی کرتے ہیں وہ دوسری جماعت کے جاسوس ہیں جو تجھ تک نہیں آئی بات کو اس کےٹھکانے سے بدل دیتے ہیں کہتے ہیں کہ تمہیں یہ حکم ملے تو قبول کر لینا اور اگر یہ نہ ملے تو بچتے رہنا اور جسے الله گمراہ کرنا چاہے سو تو الله کے ہاں ا سکے لیے کچھ نہیں کر سکتا یہ وہی لوگ ہیں جن کے دل پاک کرنے کا الله نے ارادہ نہیں کیا ان کے لیے دنیا میں ذلت ہے اور آخرت میں بڑا عذا ب ہے ۔  الخ

تفسیر حسینی میں ہے۔

یایھا الرسول ۔ اے فرستادہ۔ خطاب  آخحضرت سست کہ آخحضرت رابلقب  یا کر دوا نبیائے دیگر رابنام مخاطب  ساختہ۔ چنانچہ یا  أدم انبہم۔ یا نوح اھبط۔ یا ابراھیم اعرض۔ یامر سطوانی اصطفیتک۔ یا عیسیٰ ابن مریم انت قلت۔ چوں نوبت خطاب بحضرت رسالنا پناہ  وعلی جمیع الا نبیاء رسید اور البسفہ میں ئے کمال  خطاب  کرو۔ چنانچہ یاا یھا النبی۔ یا یھا الرسول۔ لا یخذنک الزین۔ ترا اندو ہناک نگردا  مزکردازاں کسانے کہ ازروئے عناد۔  یُسارعون فی الکفر۔ میشتا بند و خودرامی افگتد ورکفر۔ من الزین قالوا۔ ازآنانکہ گفتند۔امناّ۔ ایمان آوردیم۔ ماوآن  گفتن ہمین ست بافواھہم۔ برزبان  ہائے ایشاں۔ ولم تؤمن قلوبھم ۔ وایمان نیا وردہ است دلہائے ایشان۔ مراد منافقان اندو کر دار ہائے ایشان آن بود کہ باکافران دوستی میکروند۔ ومنا الز ین ھادوا۔ بعضے ازاں کسانیکہ دین یہود یہ دارند۔  سمعون۔ شنومزگان قول ترا۔ للکزاب ۔ برائے آنکہ دروغ گویند برتو جہوداں بعد ازا ستماع کلام آخحضرت پروں می رقنند و میگفتنداز  محمدؑ  چنیں شنیدیم ونہ شنیدہ بودند وآں ہا یہود مدینہ بووند۔ سمعون لقوم اخربن۔ شنومزگان برائے گروہے دیگر کہ لم یاتو کہ۔ نیامدند بمجلس تو۔ مراد یہود خیبر یہ امزکہ یہود مدینہ  جاسوسی میکروند واخبار بخیر بیفرستاوند۔ نزول  آیت راسبب آں بود کہ زنےؔ و مروےؔ  ازا اشرف اھل خیبر رابز نابگر فتند وہر دد محض بودند وحدایشا بحکم توریت رجم بود یہود ملاحظہ بزگی ایشاں کردہ نخواستند کہ آں حد برایشاں اجرا کنند بایکدیگر گفتند کہ در کتاب ایں مرد کہ بہ شیرب نزول کردہ رجم ؔ نیست و نبی قرنیطہ ہمسایہ و حلیف او یندکسی بدیشاں فرستندتا حدزانی محصن ازو بپر سند اگر گوید تازیانہ  زنندقول  اور اقبول  کنید وا گر رجم امر فرمانید سخن اور اشنوید پس جمعی ازایشاں بازانین ممدینہ آمد ندو صورت حال بایہو (مدینہ درمیان آورونمد اشرف یہود و چوں کعب ؔ ۔ و کنانؔہ۔ و مالک  پمجلس حضرت فرمود کہ بحکم  من سید گفتند آرے فی الحال جبرائیل  بحکم  رجم نازل شدو حضرت فرمود کہ رجمؔ میباید کرد ایشاں ابا کروند و گفتند خدائے در توریت فرمودہ کہ ایشاں را چہل تازیانہ طلا کردہ بقیر بزنید تا پشت ایشان سیاہ گرددوروئے سیاہ گرد دباز گونہ بردراز گوش نشامزہ گرہ منازل بگر وانند جبرؔائیل آں حضرت را کبرداد کہ دروغ ے گویند وابن صورؔیا  کہ عالم ایشان ست سیدامزکر حکم تورؔیت  رجمؔ است نہ جلد حضرت فرمود کہ درمیان مردم  شمادرفدک جوانے ہست سادہ روئے و سفید پوست یکم چشم کہ اورا ابنؔ صوریا گویند گفتند آرے  دانا ترسہاہل زمین ست بتوریت حضرت فرمود کہ درمیان  ماوشمادر حکم توریت او حکم باشند گفتند آرے بحکم  اور ضی سیباشم حضرت بحضور ادامر  فرمود نعد از چند  روز اورا حاضر  کروند حضرت فرمود کہ انت ابنؔ صوریا گفت نعم حضرت رسالت پناہ گفت میان من وامینہا تو حکم باش کہ دانا تر یہودی ابن صوریا ؔ  قبول  کردو حضرت سو گندواد اور ابداں خدائے  کہ توریت  بموسیٰؔ  نازل گروانید ودریا برائے  شما بشگا قت و شما راآل فرعون نجات  وادہ من و سلویٰ برائے شما فرستاد  کہ درکتاب  شما حد زابی محض رجم است یانے۔ صوریاؔ گفت کہ نہ  تریں آن وارم محض رجم  است یانے۔ صوریاؔ گفت کہ نہ ترس آن  وار، کہ توریت مرابسوز داگر دروغ گویم  یا تغیر وہم  اعتراف  نہ کرومے  تو بگوئی کہ خدائے توچہ حکم کرد۔ حضرت رسالت پناہ فرمود  کہ خدائے من حکم چناں کردہ کہ چوں چہارم  گواہ بزنائے محصن و محصہ گواہی دہندرجم  برایشاں واجب شود۔ ابن صوریاؔ گفت بخدائے موسیٰ کہ در توریت  نیز ہمیں حکم فرمودہ اما علمائے ملاحظہ جانب  اشراف بنی اسرائیل نمودہ برجلدو تحمیم قرار دادہ اند۔  پس حضرت  بفر مودتا ہردو رارجم کروند و نزدیک در مسجد  حق سجانہ ازحال ایشاں خبر داد۔ یحرفون الکم۔ تغیر میدہند کلما را یعنے آیت رجم راْ ن بفدمواضعه۔ بعدازانکہ خدا وضع کرد آنرا۔درہوضع آن و بعوض آن جلد و تحمیم  منیویند۔  یقولون ۔ میگویند یہود خیبر۔ ان اُوتیتم ھذا۔ 


۱. حاشیہ کیونکہ محمد صاحب ایسے لوگ بہت اعتبار  کے لایق نہ تھے  اسی سبب سے بہت جھوٹی حدیثیں اُن  سے جاری ہوئی ہیں۔ چنانچہ مسلمہ میں ہے ۔ حدثنی عفان عن محمد بن یحیٰ بن سعید  القطان عن ابیہ۔ قال لم ترا الصالحین فی شی اکزب منھمہ فی الحدیث قال مسلمہ مجیری الکزب علی لسانھمہ  ولا یستعدون۔

ترجمہ۔ ہمنے  نہیں دیکھا صلحا کو کسی امر میں زیادہ جھوٹھا اُن سے جو حدیث  میں ہیں ۔ اور جاری ہو جاتا ہے جھوٹھہ اُن کی زبان (خودبخود) اور قصداً نہیں کہتے۔ تو حضرت پر اس طرح کے الزام بے بنیادی آیت  اُتر پڑتی تھی۔ لہذا ظاہر ہے کہ قرآن میں کتب سماوی کی تحریف کا دعویٰ نہیں ہے۔

۲. حاشیہ۔ بقر  رکوع ۱۰۴۔ ترجمہ۔ اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور انظرنا کہو اور سنا کرو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔اس آیت کا دوسرا فائدہ عبدالقادر لکھتے ہیں۔یہود پیغمبر  کی مجلس میں بیٹھتے اور حضرت کلام فرماتے بعضے بات جو سنُی  ہوتی چاہتے کہ پھر تحقیق کریں تو کہتے راعناؔ یعنے ہماری طرف  بھی متوجہ ہو۔ ان سے مسلمان  بھی سیکھ کت کسی وقت یہ لفظ نہ کہو اگر کہنا ہو تو نظرناؔ کہو اُس کے بھی معنی یہی ہیں اور آگے  سے سنُتے رہو کہ پوچھنا ہی نہ پڑے۔ یہود کو اس لفظ کہنے میں دغا تھی وہ اُسکو زبان دبا کر کہتے تو راعینؔا ہو جاتا یعنے ہمارا چرواہا۔ اور اُن کی زبان میں۔ راعیاؔ احمق کو بھی کہتے تھے۔