روح القدس کی الوہیت

اور
تاثیر اور عہدہ کا بیان

Divinity of the Holy Spirit

Effectiveness and Designation

Published in Nur-i-Afshan November 03, 1876
By
Kokab-e-Hind

اِنسان کی نجات کے کام حسب بیان پاک کتابوں کے باپ بیٹے روحِ قدس پر مشتمل ہیں یعنے خدا باپ نے نہایت دانائی سے یہہ بڑےقواعد نجات کے بوسیلہ کفارۂ مسیح کے جس میں عدل اور رحم اُسکا آشکار ہو تجویز کئے اور خدا بیٹے نے اپنی ہی ذات پر وہ سب بندوبست جس سے راستبازی اور سزائے گناہ کی پوری ہو اُٹھالیے اور خدا روح قدس اپنی قوّت سے اِنسانوں کے دلون میں اُن کاموں کی جو مسیح نے کئے تاثیر بخش کر ایمان اور توبہ اور توکلّ کرواتا۔ غرض واحد خدا اِنسان کی نجات کے کام میں اِسیطرح سے مذکور ہوا کہ یہہ تینوں ہی ملکر ایک خدا ہی اور کام اِن تینوں کا بھی یعنے نجات ایک ہی ہے۔ خدا کے سوا یہہ طاقت کس میں ہے کہ ایک  بےگناہ ضامن کا فدیہ قبول کر لیوے جس سے  شریعت  کا دعویٰ پورا ہو۔ اور بخبر خداوند مسیح کے کس شخص پر جرات اور رتبہ ہے کہ سارے جہان کت گناہوں  کا جو برخلاف مرضی خدا کے ہیں کفارہ کرے اور بغیر روح قدس کے کس میں یہہ تاثیر اور قدرت ہے کہ بگڑے ہوئے اِنسانوں کے دلوں میں اثر بخشکے اِن کو توبہ  اور پاکیزگی اور قبولیت مسیح کی طرف متوجہ کر سکے۔ یہہ مسئلہ  پاک کتابوں میں ہمیشہ سے چلا آیا ہے اور یسوعی لوگوں کے دلوں کو تسّلی بخشنیوالا ہے۔ روھ قدس ایسا ازلی اور ابدی خدا ہے جیسے باپ اور بیٹا خدا ہے۔ اُسی کا  کام ہے کہ آدمیونکے دلونمیں وہ توکل مسیح پر اور وہ عالم   نجات کا جو نہایت باریک اور عجیب بھید ہے پیدا کرے خدا کی خاصّیت ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں اور مسیح کی الوہیت کا تذکرہ اُسکے کفارہ کے باب  میں ہوُچکا  ہے جس الوہیت کے سبب وہ خدا اور ایمانداروں  کے مابین واسطے ملاپ کے میانجی ہوا اور اب روح ِ قدس کا زکر  کرتے ہیں ۔ آوّل جو ذاتی اوصاف اور کام  کہ خدا باپ کی نسبت لکھے گئے ہیں وہی روحِ قدس کی نسبت پاک کتابوں میں زکر ہوئے ہیں اور اِسی سبب سے اُن کو ایک ہی جاننا چاہیے اور پرستش بھی ویسی ہی کرنی چاہیے۔ چونکہ وہ اِنسان کو پاکیزگی بخشتا ہے اِس  واسطے پاک کتابوں میں اُسکا نام روح قدس رکھا گیا۔ اور خدواند یسوع مسیح کی پیدایش اور اُس کے خون کا بہانا بھی روحِقدس کے اثر مقّدم ہیں ویسے ہی نجات کی بابت بھی رو ح ِ قدس اوّلؔ ہے۔ غرض جو کام خدا نے کیا سو روحِ قدس نے کیا اور جو کام مسیح نے گنہگاروں کے واسطے کیا  وہ بھی  روح ِ قدس کے اثر سے کیا اس سے روحِ قدس کی الوہیت اچھی طرح ثابت ہے۔ حواریوں کو جو قوت ِ معجزے کی واسطے ڈالنے بنیاد یسوعی جماعت کے بخشی گئی روح قدس  کے اثر سے تھی اور ہزاروں گنہگار جو توبہ کر کے مسیح پر ایمان لائے وہ بھی روح قدس کا اثر ہے اور قیامت کے دن جو مٹی ہوئے بدن  ایمانداروں کے واسطے پہنانے لباس حیاتِ دواپ کے دوبارہ درست کئے جاویں گے وہ بھی روح ِقدس ہی کریگا اور جب مسیح پر کے جی اُٹھا  اُس کو بھی روح قدس  نے جلایا۔ غرض کہ ایمان ہمارا واسطے امید اور متابعت کے جیسا کہ خدا پر ہوویسا ہی خداوند مسیح پر اور ویسا ہی روح ِقدس پر ہونا چاہیے(کیونکہ ہم باپ بیٹے روحِ قدس کے نام پر بپتمسا پاتے ہیں) خدا کت فضل اور محبت نے نجاتکی بنیاد ڈالی اور خداوند مسیح نے  اُس  کو جاری  کیا اور روحِ قدس نے اِنسانوں کے دلوں میں اُسکو موثر کیا۔  عہدہ روحِ قدس  کا صاف تب معلوم ہوسکتا  ہے جب ایماندار لوگ اچھی طرح سمجھ لیویں کہ نجات کے مقدمہ میں  روحِ قدس کیا کام کرتا ہے۔ جب تک یہہ بات صاف سمجھ میں نہ آوے تو جو جلال اور بزرگی روحِ قدس کو چاہیئے ہرگز کسی سے ادا نہیں  ہو سکتی اور جب تک  خود وہ   خدا  جس نے ابتدا میں  اِنسان کو پیدا کیا اپنی قدرت سے روشنی ظاہر  نہ کرے تب تک اِنسانوں کے تاریک  دلوں کا روشن ہونا محال ہے۔ مثلاً جب خداوند یسوع  یا  اُس کے حواریوں نے یہودیوں اور غیر قوموں میں جاکر بیان کیا کہ مسیح  پر ایمان لاؤ اور اپنی نجات مسیح کی صلیبی موت پر موقوف  سمجھو تب فریسیوں اور صدوقیوں  کو جن کی سمجھ اور عادت اور مسیح اور اُس کی زات کے ساتھ  عداوت  سب کو معلوم ہے اور رومیوں کو جن  کی بت پرستی کی خصلت اور گناہ کی  طبیعت تمام لوگوں میں مشہور ہے گناہ سے توبہ اور غضب سے نفرت کی وعظ کرنی مشکل تھی اور  ایسے نجات دینیوالے پر جو نہایت شرمناک موت سے موا ایمان لاتا اُن کو نہایت شرم کا باعث تھا۔ اور ہر گز  منصوّر نہیں ہو سکتا تھا  کہ یہودی اپنی شریعت کے تعصب کو یک بیک ترک  کر کے مسیح پر ایمان لاویں اور مغرور رومی اور یونانی اپنے پیارے خیالوں کو ترک کر کے اور ایسے حقیر مسیح  پر نجات کے لیے توکلّ  کریں بلکہ اِسبات کے منادیوں کی انہوں نے نہایت حقارت کی اور قسمِ قسمِ کی ازیت اور تکلیف دی اور کلام ِ پاک کو نہ مانا۔ اور جو لو گ ایاّمِ خورد سالی سے کسی مذہب کے مقیدّ رہے تھے خواہ سچےّ خدا کی پرستش یا بتوں کی پوجا میں جس وقت اُنہوں نے سناُ کہ یسوع  ناصری وہی جلال رکھتا تھا جو خدا  ہی اور اُس کی موت میں گناونکا کفارہ  ہے تو اُن کے دلوں میں نفرت زیادہ ہوئی اور جہاں تک اِنسانی عقل تقاضا کرتی ہے اُنہوں  نے نہ مانا  سوائے اِسکے مسیح کا مذہب  ماننے میں دولت اور دوست اور نام اور یگانگت ترک کرنی پڑتی تھی اِن سب کو چھوڑ  کے مسیح پر ایمان لانا آسان نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی یہہ سب عداوت اور سارے دنیاوی خیال لوگوں نے ترک کئے اور مسیح پر ایمان لائے نہ صرف ایک یو دو باچا ر بلکہ اکھٹے ہزاروہزار اور نہ صرف ایک بستی یا مشہور لوگوں میں یہہ ایمان مشہور ہوا بلکہ  بڑے بڑے شہروں میں مثل  یروسلم اور روم  اور یونان  کے شہروں اتھینی اور کارنتھہ میں شہرت  پکڑی  اسکام کا ایسا ظہور ضرور روح قدس کی ٹاثیر تھی جس کو بہت بہتوں نے درّ کیا اُنہوں نے اُسی کو نجات بنیاد سمجھا حکیموں نے اُس کو نادانی اور بیوقوفی جانا اُنہوں نے خدا کی حکمت اور قدرت سمجھ کر مان لیا ۔ حواریوں کو بھی خدا وند مسیح نے کہا کہ وے یروسلم سے باہر نہٰ جاویں  جب تک کہ روح ِ قدس اُنپر  نازل نہ ہووے  اور عین  وقت معیّن پر ظاہری طرز سے وعدے کے موافق اُن پر روح قدس نازل ہوا اور  انہوں نے رنگا رنگ معجزات کی طاقت پائی اور لوگوں کے وہم اور بطالت کو دور کرنے کے واسطے ایک سنگین ہتھیار حاصل کیا اور ایمان کی بنیاد قوم میں قائیم کی ۔ اور جیسا خداوند مسیح نے  وعدہ کیا تھا کہ روح قدس آکے دنیا کو گناہ اور راستبازی  اور عدالت سے قایل کریگا   صحت اِس کلام کی انجیل یوحنّا کے ۱۶ باب ۸ آیت سے بخوبی ہوتی ہے جس میں لکھا ہے کہ خداوند مسیح نے فرمایا ہے کہ جب تسلیّ دینیوالا آویگا  وہ دنیا  کو گناہ اور صداقت اور عدالت سے ملزم  کریگا گناہ سے اِسلیے کہ وہ مجھ ایمان نہ لائے اور صداقت سے اِس لیے کہ میں اپنے آپ  باپ کے پاس جاتا ہوإں تم مجھے پھر نہ  دیکھو گے اور عدالت سے اِس لیے کہ اِس دنیا کے سردار کی عدالت کی گئی  فقط گناہ یہی ہے کہ خدا کے بیٹے پر توکل ّ نہ کرے اور راستبازی اور طاقت کو جو روح کے اثر  سے پیدا ہوتی ہے معلوم نہ کرے۔ اگرچہ مسیحی مذہب کی راستی  کو عقلاً معلوم کر لے مگر فریب اور حسد  اور بعض وغیرہ  خطاؤں  میں جو دنیا میں مشہور میں مبتلس رہکر  مسیح کو صرف نبی یا  معلمّ جانکر مان رکھےروح  قدس اِسی گناہ کا اِنسان کو قایل  کریگا۔ تب وہ اُس پاک خدا  کے حضور میں جو اپنی زات میں غیورّ ہے دعا کے وسیلے سے ڈرنا  ڈرتا  بطفیل مسیح قبولیّت کی نیّت پر آسکیگا۔ بے کام  خاص روح ِ  قدس کے ہیں اور کسی اِنسان سے نہیں ہو سکتے۔ اور جو فرمایا کہ وہ صداقت سے قایل کریگا کہ میں اپنے باپ کے پاس جاتا ہوں اُس کے یہہ معنے ہیں کہ مسیح کے کفارہ اور راستبازی کو جنکو لیکر وہ خدا کے حضور میں شفیع بنکر موجود ہے اور ساری برکاتِ دنیاوی اور روحانی کو جو اُسی سے حاصل ہوتی ہین اور اُس پر توکلّ  رکھنے کو کہ جس سے ہمیشہ کی زندگی اور خوشی ملتی ہے لوگوں کے مغرور دل  ہرگز نہیں قبول کرتے صرف روحِ قدس اُن کے دل میں اثر کر کے اِن باتوں کا قایل کرتا ہے ۔ تب اُنکے دل خود گواہی دیتے ہیں کہ ہم لاچار اور ناتواں بدون صداقت مسیح کے خدا  کے حضور میں ہرگز صادق نہیں ٹھہر سکتے اور پھر اِس اُمید پر کہ صادق ٹھہریں اور غضب سے بچیں مسیح پر توکلّ کرتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ وہ دنیا کو عدالت سے بھی قایل کریگا کیونکہ اِس دنیا کے سردار کی عدالت کی گئی اِس کے یہہ معنے ہیں کہ مسیح  نے گناہ اور شیطان اور دنیا پر فتح پائی اور جو لوگ اُسپر ایمان لاتے ہیں  گناہ اور دنیا  اور شیطان میس سے کسی کے قبضہ میں نہ رہینگے بلکہ اُنپر فتح پاوینگے لوگ انہیں بلا ؤں سے ڈرتے ہیں سو خداوند مسیح نے اُن کے دلوں کو تسّلی  دی کہ ہمنے اُن پر فتح  پائی ہے اور تمھیں بھی فتح بخشونگا۔ غرض کہ روحِ قدس اِس  نجات کے کام میں بڑا بھاری وسیلہ ہے کہ تمام غلطیوں سے رہائی بخشتا ہے اور تمام خوفوں سے نجات دیتا ہے مسیح پر توکلّ اور نجات کی اُمید پیدا کرتا ہے اور ہمیشہ یہی کام کرتا ہے اور ہمیشہ کریگا۔ بدون اِس اثر کے مسیحی مذہب کی بنیاد کچھ نہیں دل کی تبدیلی ہی خدا پرستی کی جڑ ہے اور اُس جڑ کا لگانیوالا روحِ قدس ہے۔ اِسی روحِ قدس کے وسیلے سے اُنہوں نے دنیا  کو قایل کیا اور بہت پرستوں کے مندروں کو خودبخود بند کر دیا اور اُن کی پر ستش  ہٹگئی اور لوگوں کو بتوں سے نفرت پیدا ہوئی اور ہزاروں آدمیوں نے جو شیطان کی زنجیر سے پابند تھے آزادگی حاصل کی۔ یہہ کام صرف اُن کے معجزوں سے نہیں ہوا کیونکہ ہزاروں لوگ باوجود معاوئینہ معجزات اُنکے ایمان لانے بلکہ جن کے دلوں میں روحِ قدس  نے اثر کیا وہی ایمان لائے اور جن کے دل معجزات کو دیکھکر زیادہ تر سخت ہوئے تھے اُنہوں نے  اندرونی اثر پا کر برملا ایمان کو قبول کیا۔ غرض یہہ دونوں قوّت روحِ قدس کی جدُی جدُی ہیں۔ ایک وہ جس سے حواریوں کو طاقت معجزہ کی بخشی دوسری وہ جس سے  ایمانداروں کے دلوں کو نجات قبول کرنیکی رغبت دی۔ سب  لوگ جانتے ہیں کہ اِن دِنوں اگرچہ معجزہ کی احتیاج کسی کو نہیں کیونکہ مسیحی مذہب نے جڑ  پکڑی اور جماعتیں بنگئیں اور عقاید مشہور ہوئے لیکن دلوں کو تیار کرنے کی حاجت جیسے اگلے دنوں میں تھی ویسے ہی اب بھی ہے۔ اگر میں اُن خاص آدمیوں کا تذکرہ کروں جنہوں  کو روحِ قدس  نے دل تبدیل کر کے مسیح پر ایمان لانیکی قدرت بخشی تو بیشمار مثالیں پاک کتابوں سے دے سکتا ہوں کہ جو آگے گناہ میں گرفتار  تھے  روح کے وسیلے سے سچےّ ایماندار بنیں پر کچھ حاجت نہیں پڑھنیوالے آپ ہی پاک کلام  میں پرھ لیویں  گے۔ غرض خداوند مسیح اپنا کفارہ ایک دفعہ کر چکا اور اب آسمان پر موجود ہے پر روحِ   قدس اُس کی جماعت میں دنیا کے انتہا تک ہمیشہ موجود رہیگا تاکہ اُسکی تاثیر سے لوگوں کے دلوں میں پاکیزگی پیدا ہووے جیسا زمین میں تخم ڈالکے اُس کو پانی دینا اور نکمے گھاس پات سے بچانا ضرور ہے  تاکہ اُگے اور برومند  ہووے  ویسا ہی کلیسیا کا تخم روح ِ قدس  کی  تاثیر سے بڑھتا ہے تب راستبازی اور پاکیزگی کا میوہ لاتا ہے دعا کو بھی وہی مستجاب کرواتا ہے اور کمزوریوں میں ہمکو مدد بھی وہی دیتا ہے اور اِمتحان سے چھُٹکارا بھی وہی  بخشتا ہے اور اُس کام ہمیشہ جاری ہیں۔

روح ِ قدس کی تاثیر ایمانداروں کے دلوں میں اُسکے پھلوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ جیسے کہ تخم سے روئیدگی کے وقت تمیز نہیں معلوم ہوتا بلکہ درخت کی تلخی ٰاور شیرینی صرف پھلوں سے شناخت ہوتی ہے ویسے ہی روح ِ قدس بروقت آنے کے نظر نہیں آتی لیکن دل کی تبدیلی اور پاکیزگی کے بڑھنے سے آشکار ہوتا ہے۔ اور یہہ ظہور اُسکا ایسا  صاف ہے کہ کوئی   غلطی نہیں کھا سکتا بلکہ اُس کے اثر سے لوگ خود اطلاع پاتے ہیں اور جس قدر اُس کا اثر زیادہ ہوتا ہے اُسیقدر محّبت اور اخلاقی خوبیوں میں ایماندار ترقی پاتے ہین اور خراب شہوتونپر غالب آتے ہیں اور فرضوں کا ادا کرنا اُن کو آسان معلوم ہوتا ہے اور نئی زندگی اُسی کی قو تّ سے ایمانداروں کو ملتی ہے اور نجات حاصل ہوتی ہے۔ روحِ قدس  کشھ نیا الہام ایمانداروں کے دلوں میں نہیں کرتا بلکہ جو الہام پاک کتابوں میں مندرج ہیں اُنہیں کے عمل کو توفیق دیتا ہے۔ اُس کا اثر سب سے  ایماندارونکے دلوں میں یکساں نہیں ہوتا بلکہ کسی کے دل میں بہت  ہے اور کسی کے دل میں کم نظر  آتا ہے۔ جو لوگ روح کی ہدایت نہ مانیں اُن سے روح کا اثر موقوف  ہوجاتا ہے اور جو لوگ اُس کی ہدایت کو مانتے ہیں اور استعمال  میں لاتے ہیں  اُن پر روز بروز زیادہ ہوتا ہے۔ اب میں روح کی الوہیت اور عہدہ اور اثر کا بیان ک چُکا۔ ایماندار آپ ہی اپنے دل میں بہ تجربہ اُس کی تاثیر کا اثر معلوم کرینگے اور سچ  اوت جھوٹھہ اُسکا اُنیر خود عیاں ہوگا۔