محمد صاحب نے معجزے کئے ہیں یا نہیں

Did Muhammad Performed Miracles or Not?

Published in Nur-i-Afshan July 22, 1875
By. Rev. Elwood Morris Wherry
(1843–1927)

Monument in Islamabad

تمام اہل اسلام مقر ہیں کہ محمد صاحب نے بہت   سے معجزے دکھلائے ہیں اگر کوئی اُن کے معجزے پر شک کرے تو وہ اُنکی نظر میں کافر اور ملعون ہے۔ مگر جو کوئی  تعصب اور ضد  کو ترک  کر کے حق کا متلاشی ہو اُسے چاہیے کہ اِن باتوں سے ہرگز نہ ڈرے کیونکہ وہ لوگ جو اپنے مذہب کو بغیر سوچے اور دریافت کئے سچا ّ  اور دوسرونکےمذہب کو جھاٹا جانتے ہیں وہ اکثر اُس شخص  کو جو دین حق کی  تحقیقات کرنا چاہتا ہے طعن اور ملامت  کرتے ہیں اور اُسکو ملعون کافر اور طرح طرح کا مُجرم ٹھہراتے ہیں۔ مثلاً  اگر شایستہ آدمی عمدہ لباس پھنکر ننگے وحشی آدمیوں میں  جانکلے۔  تو  کیا  وہ لباس اُس کے ساتھ نیک سلوک سے پیش آوینگے ۔ ہرگز نہیں بلکہ پتھراؤ کرینگے اِسلئے ہمیں مناسب ہے کہ جسقدر وہ ہمارے ساتھ سختی اور تعدّی کریں اُسیقدر  ہم حق کے دریافت کرنے میں  سعی اور کوشش کریں ۔ ممدیوں کا دعویٰ  ہے کہ محمد صاحب  کے بہت سے معجزوں کا زکر حدیثوں  اور قرآن میں موجود ہے اور محمد صاحب کی وفات  کے بعد محمدیوں نے بھی بہت سے معجزے کئے ہیں ۔ اب ہم پر یہہ فرض ہے کہ حتیّ المقدور اِن چارا باتوں پر خوب غور کریں  سب لوگ جانتے اور اقرار کرتے ہیں کہ کراماتوں کو پختہ شہادتوں سے قبول کرنا چاہیے اور بغیر گواہی پختہ کے قبول کرنا مناسب نہیں ۔ اؤل اُنکے  ہم  اِس دعوے کو تحقیق کرتے ہیں   کہ حدیثوں میں کیسی کراماتوں کا زکر ہے۔  مثلاً      لکھا ہے کہ ایک روز جب محمدصاحب  کو حاجت ہوئی  تو درخت اکھٹے ہو کر اُس کے لیے جائے ضرور  بن گئے ۔  اب ہم  اِسبات پر کئی ایک سوال کرتے ہیں  سوال اوّل کیاسب محمدی لوگ حدیثوں کو مانتے ہیں ۔ نہیں ہر شخص کو معلوم ہے کہ شیعہ سب حدیثونکو نہیں مانتے۔  سوال دویمکیا سُنّی تمام حدیثوں کو قابل اعتبار سمجھتے ہیں ۔ کبھی نہیں ۔ یہہ بات صاف ظاہر ہے کہ سُنّی حدیثوں کو درجہ  بہ درجہ مانتے  ہیں ۔ اِس سے واضح ہوتا ہے کہ اِنکے نزدیک بھی حدیثیں اعتبار  کے لائیق  نہیں ہیں ۔ اب اِنکا نامعتبر ہونا چند دلیلوں  سے جو زیل میں  مندرج کی جاتی ہیں ثابت ہے ۔ محمد صاحب   کی حیات میں اُنکے پیرواُن کو بہت ہی عزیز جانتے تھے لیکن جب  وہ فوت ہوگئے تو اُنکے کہنے لگے کہ حضرت نے ہم سے یہہ باتیں فرمائی تھیں ۔ غرضکہ  ہر ایک اُن میں سے یہی کہتا  تھا  محمد صاحب  نے مجھے فلانی بات سُنائی۔  کچھ عرصہ بعد محمد  صاحب  کی  اُنہوں  نے  اُن تمام باتوں  کو جمع کرنے کا ارادہ کیا ۔ اور یہہ بھی واضح ہو کہ سب لوگ دانا  نہیں ہوتے  اور نہ سب لوگ سچےّ ہوتے ہیں ۔جاہل اپنی جہالت کے سبب  اُن باتوں کو جو قابل اعتبار نہیں   لوگوں کو سُناتے تھے۔ فی الجملہ اُنہوں نے جھوٹوں نے عزت  اور حرمت پانے کے لیے اِن باتوں  کا زکر لوگوں کے آگے کیا اور اِن تمام باتوں کو  جمع  کر لیا۔ جب عولمو ں نے اِن باتوں پر غور کی تب انہوں نے سوچا کہ یہہ باتیں  بالکل ماننے کے لائیق  نہیں  ہیں۔  مگر جو جو باتیں اُنکو زرہ  بھی اچھی معلوم ہوئیں اُنکو علٰحدہ  کر لیا۔ اب ہمکو کیونکر معلوم ہو کہ وہ باتیں جنکو عالموں نے تسلیم کیا  راست ہیں  اور جنکو اُنہوں  ردّ کیا خلاف ہیں کیونکہ عقلمند وں کے نزدیک تحقیق  کرنا  اِن آمورات کا  محال ہے ۔ ایسی باتیں  قابل تسلیم  کبھی نہیں ہو سکتیں۔ سب لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ جب کوئی پیشوا یا گرُو  مر جاتا ہے  اُسکے پیرو یا چیلے اُسکے حق میں عجیب عجیب باتیں لوگوں کو سناتے ہیں ۔  مگر کون جانتا ہے کہ وہ سب باتیں سچی ہیں۔  کوئی دانا شخص  ایسی باتوں پر بغیر ثبوت یقین نہیں کر سکتا۔

مثلا ً  صرف تین چار سو برس کا عرصہ  گزرا ہے کہ بابا نانک مر گیا۔ اُسکے پیرو اب تک بہت سی کرامتوں کا زکر کرتے ہیں ۔ اُن عجیب باتوں میں سے ایک تو یہ ہے کہ ایک روز بابا نانک مکّہ شریف گیا  اور کعبہ کی طرف  پانُوں پھیلا کر سو گیا۔ ایک مسلمان نے دیکھ کر اُسے گالیاں دیں اور کہا کہ کعبہ کی طرف  تمنے کیوں  پانوُں کیا ہے۔ یہہ سُنکر بابا نانک  نے اپنے پانوں دوسری طرف کر لیے اور  سو رہا۔ اِتنے میں کعبہ بھی  فی الفور اُسکے پاُنوں کی طرف ہو گیا۔ کیا کوئی محمدی اِس کرامت کو قابل اعتبار سمجھتا ہے کوئی نہیں۔

پوشیدہ نہ رہے کہ جب کوئی آدمی اپنے لیے بڑا محل  بنانا چاہتا ہے تو اُسکو بڑی پختہ بنیاد  درکار ہوتی ہے تاکہ اُسکا مکان دیر تک قایم رہے۔ اِسیطرح ہمارے ایمان کے لیے پختہ نیؤ درکار ہے صرف لوگوں کی بہیودہ  باتیں  بلکہ خدا تعالیٰ کا پاک کلام۔

اب ہمیں  یہہ بھی دریافت کرنا چاہیے کہ آیا  قرآن سے محمد صاحب  کی کرامتیں ثابت ہوتی ہیں کہ نہیں ۔ سورۂ قمر کی پہلی آیت میں لکھا ہے کہ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ یعنے پاس   آلگی وہ گھڑی اور پھٹ گیا  چاند ۔ لیکن اکثر محمدی کہتے ہیں کہ اِس آیت میں روز حشر کا زکر ہے اور ہمکو عبارت سے صاف معلوم  نہیں ہوتا  کہ اِسمیں  محمد صاحب  کا زکر ہے۔ کیونکہ کسی کا نام  آِیت میں مندرج نہیں کیا گیا۔ پھر سورۂ بنی اسرائیل کہ پہلی آیت میں لکھا ہے ۔ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَاجسکے یہ معنے ہیں کہ وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجدالحرام یعنی (خانہٴ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔ بےشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے (۱۷: ۱)لیکن اِس آیت میں بھی  محمد صاحب کا زکر  نہیں ہے  اور مسیح  کی وفات کے چالیس برس بعد  ٹائیٹس  نے  جو رومی سپہ سالار تھا اُس مسجد کو گرا دیا تھا اور محمد صاحب  کے وقت  تک کسی نے اِس  جگہ  مسجد نہ  بنائی  تھی اور محمد  کے وقت  پر لی مسجد موجود نہ تھی ۔ پھر وہ کس طرح اِس مسجد  میں گیا۔ اور کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ فلانے  نے اِس معجزے کو دیکھا یعنے محمد صاحب کا بیت الحرام سے بیت المقّدس  تک جانا۔ یہہ بھی واضح ہو کہ تواریخ کی باتیں صرف گواہیوں سے ثابت ہو سکتی ہیں ۔ جب اِس بات کا کوئی پختہ گواہ  نہیں ہے تو یہہ کس طرح قابل اعتبار ہو سکتا ہے ۔ یہ بھی پوشیدہ نہ رہے کہ اگر کوئی شخص کہے کہ محمد صاحب  نے معجزے کئے ہیں ۔ تو وہ سراسر قرآن کے برخلاف  کہتا ہے کیونکہ اِسمیں بار بار لکھا  ہے  کہ محمد صاحب نے معجزے  ہر گز نہیں کئے۔ اگر دریافت کرنا ہو تو سورۂ انعام  کی اِن آیتوں میں ملاحظہ کرو ۔  ۳۶ ۔ آیتوَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ قُلْ إِنَّ اللَّهَ قَادِرٌ عَلَىٰ أَن يُنَزِّلَ آيَةً وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَاور کہتے ہیں کہ ان پر ان کے پروردگارکے پاس کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوئی۔ کہہ دو کہ خدا نشانی اتارنے پر قادر ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (۶: ۳۷)اور پھر اِسی سورۂ کی  ایک سو  نویں آیت ۔وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِن جَاءَتْهُمْ آيَةٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِهَا قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَاور قسمیں کھاتے ہیں   اﷲ کی کہ اگر انکو ایک نشانی پہنچے  البتہ اُسکو مانیں تو کہہ نشانیاں تو اﷲ کہ پاس ہیں اور تم مسلمان کیا خبر رکھتے ہو کہ جب  وہ آوینگےتو یہ مانینگے۔ ایکسو گیارھویں  ۔وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ۔اور اگر ہم اُن پر اُتاریں  فرشتے اور اُن سے بولیں مرُدے  اور جلادیں ہم ہر چیز کو  اُن کے سامنے ہر گز ماننے والے نہیں مگر جو چاہے اﷲ پر یہہ اکثر نادان  ہیں۔ اور ایک سو چوبیسویں ۔ وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّهِ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ۔ اور جب پہنچے اُن کو ایک  آیت کہیں ہم ہر گز نہ مانینگے جب تک ہمکو نہ ملے جیسا کچھ پاتے ہیں اﷲ کے رسول اﷲ بہتر جانتا ہے جہاں بھیجے اپنے پیام ۔

پھر سورۂ اعراف کی ایکسو اٹھائیسویں  آیت۔ قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ۔تو کہہ میں مالک  نہیں جان کے بھلے اور برُے کا مگر جو اﷲ چاہے اور اگر میں جانا کرتا غیب کی باتوں کو بہت خوبیاں لیتا اور مُجھ کو برُائی کبھی نہ پہنچتی میں تابہہ ہوں ڈر اور خوشی سُنا نیوالا ماننے والے لوگوں کو۔ 

اور سورۂ بنی اسرائیل کی بانویں آیت سے پچانویں آیت تکوَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنبُوعًا أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلَالَهَا تَفْجِيرًا أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ قَبِيلًا أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَىٰ فِي السَّمَاءِ وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّىٰ تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَّقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا۔اور بولے ہم نے مانینگے تیرا کہا جبتک تو نہ بہا  نکلے ہمارے واسطےزمین سے ایک چشمہ یا ہو جاوے  تیرے واسطے ایک باغ کھجور اور انگور کا پھر بنالے  تو اُسکے بیچ نہریں چلا کر یا  گرادیوے آسمان ہم پر جیسا کہا کرتا ہے ٹکرے ٹکرے یا لے آؤ فرشتوں کو اور اﷲ کو ضامن یا ہو جاوے  تجھ کو ایک  گھر سنُہری یا چڑھ جاوے  تو آسمان میں اور ہم یقین نہ کرینگےتیرا  چڑھنا    جب تک    نہ اوتار لاوے ہمپر ایک لکھا جو ہم  پر لیں تو کہہ سبحان اﷲ میں کون ہوں مگر ایک آدمی ہوں بھیجا ہوا فقط ۔   بنی اسرائیل  اکسٹھویں  آیت ۔ وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ۔ اور ہم نے اس سے  موقوف کیں نشانیاں بھیجنی کہ اگلوں نے اِن کو جھٹلایا  اور ہم  نے دی ثمود کو اونٹنی سمجھانے کو پھر اُسکا  حق  نہ مانا اور نشانیاں جو ہم بھیجتے ہیں  سوڈرانے کو فقط ۔ اور سورۃ انبیا  کی پانچویں آیت بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ بَلِ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَیہ چھوڑ کر کہتے ہیں اُڑتی خواب میں نہیں  جھوٹ باندھو  یا ہے نہیں شعر کہتا ہے پھر چاہیے لے آوے ہم پاس کوئی نشانی جیسے پیغام لائے ہیں پہلے ۔ اب ان آیتوں پر غور کرواور دیکھو اِن میں  صاف پایا جاتا ہے کہ محمد صاحب نے معجزے نہیں کیے۔

ایک دفعہ میں جوالأ کمھی کو گیا اور ان لوگوں سے ملاقات کی جو معجزے کرنیکا کا دعوے کرتے تھے اور حقیقت میں لوگوں کو فریب دیتے تھے میں نے کہا کہ مہربانی کر کے مجھے بھی کوئی معجزہ دکھلائے۔ تب انہوں نے انکار کیا کیونکہ انہوں نے جانا  کہ یہہ اچھی طرح تحقیق کرے گا ۔ ایسا ہی جب محمد صاحب جب اس دنیا میں تھے تو بہت لوگ اُن کو بھی کہتے تھے کہ ہمیں بھی  مہربانی کر کہ ایسی چند علامتیں جن سے نبوت ثابت ہوتی ہے دکھلائیے تو انہوں نے بھی انکار کیا اور یہہ کہا کہ خدا تعالیٰ نے ایسی علامتوں کا دکھلانا بند کر دیا ہے کیونکہ اگلوں نے جٹھلایا۔ جب یہہ آیتیں ہم قرآن سے  محمدیوں  کو سُناتے ہیں۔ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ عیسیٰ نے بھی کہا کہ برُے لوگ نشان ڈہوندتے ہیں  لیکن ان کو کبھی دکھلایا نہ جاویگا۔  بیشک جب لوگوں نے مسیح کو آزمانے چاہا  اُس نے معجزہ دکھلانے سے انکار کیا۔  لیکن اُس نے یہہ کبھی نہیں کہا کہ خدا تعالیٰ نے ایسی علامتونکا  دکھلانا بند کر دیا ہے اور نہ یہہ کہا کہ سبحان اﷲ میں کون ہوں مگر راہ دکھلانیوالا۔

اب ہم اِس سے یہہ معلوم  کرتے ہیں کہ محمد صاحب نے کوئی معجزہ  نہیں کیا مگر عیسیٰ کو معجزہ کرنے کا  کل اختیار تھا اور اگر وہ چاہتا تو اُن لوگوں کو بھی  جو اُسے آزمایا چاہتے تھے معجزہ دکھلاتا۔

پھر محمدی اقرار کرتے ہیں کہ قرآن خود ایک معجزہ ہے ۔ کیونکہ اُسکی عبادت عمدہ ہے کہ  کوئی آدمی اُس کے موافق بنا نہیں سکتا۔ مینے مانا  کہ یہہ سچ ہے مگر سنسکرت کی عبارت بھی   بہت اچھی ہے ۔ بیشک کوئی شخص  بید کی سنسکرت عبارت کی مانند نہیں بنا سکتا اور بڑے بڑے پنڈت بھی کہتے ہیں کہ بید کی  سنسکرت عبارت کی مانند کوئی بشر نہیں بنا سکتا ۔  پھر محمدی کس طرح اُسکو معجزہ  کہتے ہیں ۔ اگر کوئی آدمی  ایسا بڑا درخت دیکھے جس کے برابر اور کوئی بڑا  درخت نہ ہو تو وہ معجزہ تصور نہیں کیا جاتا۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ داؤد کے وقت  ایک پہلوان مسمیّ گولایاؔ تھا جسے اُسنے مار ڈالا تھا اُس کے قد کے موافق کوئی  دوسرا شخص نہ تھا۔  مگر کوئی شخص اتنے بڑے قد کو معجزہ نہیں کہتا تھا۔ کوئی محمدی حوؔمر کی مانند یونانی عبارت  اور  گؔل کی مانند لطینی عبارت اور کالید اس کی مانند سنسکرت عبارت  ہر گز نہیں بنا سکتا ہے۔ پھر کیا یہہ بھی معجزہ  ہوگا ۔ پھر اکثر محمدی کہتے ہیں  کہ  محمد صاحب کے وقت بھی کوئی شخص ایسا نہ تھا کہ ایسی عبارت بنانے کی لیاقت  رکھتا  بلکہ تمام  لوگ  یہی اقرار کرتے   تھے کہ  قرآن کی عبارت کے موافق  کوئی  بشر عبارت نہیں بنا سکتا  کون جانتا  ہے کہ محمد صاحب کے وقت سب لوگ ایسا ہی کہتے تھے سب دانا آدمی  جانتے  ہیں کہ آجکل فرانس ؔ جرمنیؔ انگلستانؔ  آسٹریاؔ امریکہؔ وغیرہ ملکوں میں بہت لوگ  عبرانی یونانؔی  سنسکرت اور عربی ؔ زبان کو بخوبی  پڑھتے ہیں اور ان زبانوں کی عبادت سے فوقیت رکھتی ہے۔ اگر محمدی عبراؔنی  یونانیؔ  سنسکرت  لطنییؔ زبان کو تحصیل کریں تو بڑا فایدہ اُٹھاویں کیونکہ ان زبانوں میں نہایت عمدہ اور قدیمی کتابیں لکھی گئی ہیں مثلاً  وہ لوگ جو دہلی میں رہتے ہیں اُنہوں نے اور کوئی بڑا عالیشان شہر نہیں دیکھا ۔ وہ تو ضرور یہی کہینگے کہ دہلی کی مانند اور کوئی شہر دنیا کے سطح پر نہیں ہے۔ اگر وہ اور اور ملکوں کی بھی سیر کریں  اور سینٹ ؔ پیٹرزبرگ وائیناؔ ماسکو پیرس  نیوؔیارک  لیوؔرپول  لنڈنؔ اور وغیرہ شہروں کو دیکھ کر پھر دہلی میں آئیں تو دہلی کی تعریف جیسی پہلے کرتے تھے ہرگز نہ کرینگے اور اور شہروں پر اُسے فوقیت نہ دیونیگے ۔ اِسی طرح اگر محمدی سیسرؔ دیماؔ ستہردرجل ؔ ہارسؔ  حومرؔ  ملٹنؔ  وغیرہ  مصنفوں  کی کتابیں   پڑھیں اور قرآن سے اُنکا مقابلہ کریں تو وہ بھی ضرور کہینگے کہ ان کتابوں  کی عبارت  بیشک قرآن کی عبارت سے عمدہ ہے۔

یہہ بھی واضح ہو کہ عبارت مضمون  سے ایسی نسبت رکھتی ہے جیسی پوشاک آدمی سے ۔ اِسکا مطلب یہہ ہے کہ بڑے لوگ بھی اچھی  پوشاک پہن سکتے ہیں ۔ اب بہتر یہہ ہے کہ ہم عبارت کی فکر ہر گز نہ کریں۔ لیکن مطلب پر خوب غور کریں اگر قرآن کی تعلیم سب مذہبی کتابوں کی  تعلیم سے اچھی ہو تو میں اُسکو  ضرور خدا  کا کلام سمجھونگا  اور مانونگا لیکن اِس کا ذکر آگے  کیا جاویگا۔ پھر محمدی کہتے ہیں  محمد صاحب کے پیروں نے بیشمار معجزے کئے ہیں اِس بات  کا ذکر کرنا لا حاصل ہے کیونکہ جب  محمد صاحب کے معجزے ثابت نہ ہوئے تو  اُن کے پیرؤں کے معجزے کس طرح ثابت ہوسکتے ہیں ۔