Did Jesus Die Voluntarily?

Did Christ Die Voluntarily?

Allama Abdullah Abdul Faadi

عبداللہ عبدالفادی

کیا مسیح جبراً مصلُوب ہوئے؟

Punjab Religious Book Society

Anarkali-Lahore 1950

Dec.29.2011

www.noor-ul-huda.com

کیا مسیح جبراً مصلُوب ہوئے؟

مصر میں مسٹرم ۔ع نے ایک چو ورقہ رسالہ شایع کیا ہے۔ جس کا نام محبت المسیح فی حفظ وصایا۔“ ہے جس میں آپ نے اس امر کے ثابت کر نے کی بے فائد ہ کوشش کی ہے۔ کہ مسیح اپنی رضا مندی سے نہےں۔ بلکہ جبراً صلیب دئے گئے اور جبراً جان دے دینا کفارہ کے منافی ہے“۔ آپ کی دلائل از قرار ذیل ہےں۔

جس رات مسیح گرفتار ہونے کو تھے اور جب آپ کو معلوم ہوا۔ کہ یہوداہ اکریوطی مجھے پکڑوائے گا۔ تو آپ نے یہ فرمایا۔ کہ ” اُس آدمی پر افسوس ہے جس کے وسیلے سے ابن آدم پکڑوایا جاتا ہے۔ اگر وہ آدمی پیدا نہ ہوتا۔ تو اُس کے لئے اچھا ہوتا۔۔۔۔۔ اور نہایت حیران و بے قرار ہونے لگا اور ان سے کہا میری جان نہایت غمگین ہے۔ یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے۔۔۔۔۔ اور تھوڑا آگے بڑھا اور مین پر گر کر دعا مانگنے لگا۔۔۔۔۔ اور کہا اے ابا ۔ اے باپ تجھ سے سب کچھ ہو سکتا ہے۔ اس پیالے کو میرے پاس سے ہٹا لے۔ تاہم جو میں چاہتا ہوں۔ وہ نہےں۔ بلکہ جو تو چاہتا ہے ۔۔۔۔ وہی ہو۔۔۔۔ پھر اُس نے کہا وقت آ پہنچا ہے۔۔۔ دےکھو ابن آدم کہنگاروں کے ہاتھ میں حوالہ کیا جاتا ہے۔ اُٹھو چلیں دےکھو میرا پکڑوانے والا نزدیک آ پہنچا ہے۔۔۔۔ اور وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ فی الفور یہوداہ جو اُن بارہ میں سے تھا۔ اور اُس کے ساتھ ایک بھیڑ تلوار اور لاٹھیاں لئے ہوئے سردار کاہنوں اور فقہیوں اور بزرگوں کی طرف سے آپہنچی۔ اور اُس کے پکڑوانے والے نے انہےں بتا دیا تھا۔ کہ جس کا میں بوسہ لوں وہی ہے اسے پکڑ کر حفاظت سے لے جانا وہ آ کر فی الفور اس کے پاس گیا اور کہا اے ربی اور اس کے بوسے لئے انہوں نے اس پر ہاتھ ڈال کر اسے پکڑ لیا۔۔۔۔ اور تیسرے پہر کے قریب یسوع نے بڑی آواز سے چلا کر کہا۔ ایلی ایلی لما سبقتنی یعنی اے مےرے خُدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا“ (متی ٢٨:٢٦)۔

مسٹر موصوف فرماتے ہےں کہ عبارات مافوق سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح صلیب اٹھانے پر راضی نہ تھے بلکہ بھاگنا چاہتے تھے۔

ہمیں اس فاضل کے انصاف اور دیانت پر تعجب ہوتا ہے۔ کہ مقدس متی کے دونوں بابوں کی عبارت کو کس قطع و بُید کیا ہے جتنے جملے آپ کے حسب منشاءتھے اُن کو تو لے لیا اور باقی عبارت کو چھوڑ دیا ہے۔ حالانکہ آداب مناظرہ اور شرائط مباحثہ اور طریق اعتراض یہ ہے کہ منقولی دلائل لفظ بہ لفظ نقل کئے جائےں۔ اس لئے ہم اول ان عبارتوں کو نقل کریں گے۔ جن کو ہمارے مخالف نے اس غرض سے کہ حق بات ظاہرہ ہو چھوڑ دیا ہے اور جن سے روز روشن کی طرح یہ ثابت ہوتا ہے کہ فی الحقیقت حضور مسیح نے اپنی رجامنڈی اور خوشی سے جان دی۔ اس کے بعد ہم آپ ہی کے استدلالات سے آپ کی تردید کریں گے۔

(١) اسی باب ٢٦ کی آیت ٦ سے ١٣ تک یوں لکھا ہے کہ۔

(٦)” اور جب یسوع بیت عنیاہ میں شمعون کوڑھی کے گھر میں تھا۔

(٧)تو ایک عورت سنگ مرمر کی عطر دانی میں قیمتی عطر لے کر اُس کے پاس آئی۔ اور جب وہ کھانا کھانے بیٹھا تھا۔ تو اس کے سر پر ڈالا۔(٨) شاگرد یہ دےکھ کر خفا ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ کس لئے ضائع کیا گیا؟(٩) یہ تو بڑے داموں کو بک کر غریبوں کو دیا جا سکتا تھا۔(١٠) یسوع نے یہ جان کر ان سے کہا۔ کہ اس عورت کو کیوں دق کرتے ہو؟ اس نے تو میرے ساتھ بھلائی کی ہے۔ (١١) کیونکہ غریب غرباءتو ہمیشہ تمہارے ساتھ ہےں۔ لےکن میں تمہارے پاس ہمیشہ رہوں گا۔(١٢) اور اس نے جو یہ عطر میرے بدن پر ڈالا۔ یہ میرے دفن کی تیاری کے واسطے کیا۔ (١٣) میں تم سے سچ کہتا ہوں۔ کہ تمام دنیا میں جہاں کہےں اس خوشخبری کی منادی کی جائے گی یہ بھی جو اسنے کیا اس کی یادگاری میں کہا جائے گا“۔

Did Christ Die Voluntarily?

عبارت خط کشیدہ سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے۔ کہ خُداوند کو اپنی موت کا پورا اور کامل عمل تھا۔ پس اگر موت پر راضی نہ ہوتے اور بھاگنا چاہتے تھے“۔ تو بھاگنے کا بہت اچھا موقعہ تھا۔ اور یہیں سے گرفتار ہونے سے قبل آپ بھاگ سکتے تھے۔ لےکن چونکہ خداوند صلیبی موت پر راضی تھے۔ اس لئے موت کی انتظاری میں ٹھہرے رہے اور اپنے کفارہ ہونے کو بدیں الفاظ ظاہر کیا۔ کہ” جہاں کہےں اس خوشخبری کی منادی کی جائے گی“۔ کیونکہ ” خوشخبری“ کے معنی ہمارے منجی کا کفارہ ہےں۔

(٢) پھر اسی باب ٢٦ کی آیت ١٨ میں خداوند کا یہ فرمانا کہ ” شہر میں فلاں شخص کے پاس جاکر اُس سے کہنا اُستاد فرماتا ہے۔ کہ میرا وقت نزدیک ہے“۔ یہ دوسری دلےل ہے کہ مسیح کو اپنی موت کا علم تھا۔ اور اگر وہ راضی نہ ہوتے ان کے بھاگنے کے لئے بہت اچھا موقعہ تھا۔

(٣) پھر اسی باب ٢٦ کی ٢١ آیت میں خداوند نے فرمایا۔ کہ” میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم میں سے ایک مجھے پکڑوائے گا“۔ ثابت کرتا ہے کہ خُداوند کو نہ صرف اپنی موت کا علم تھا بلکہ اپنے پکڑوانے والے کو بھی جانتے تھے۔ چنانچہ جب یہوداہ نے کہا کہ کیا میں ہوں؟“ تو خداوند نے فرمایا ” کہ تو نے خود کہہ دیا“۔ یہ تیسری دلےل ہے کہ اگر خداوند موت پر راضی نہ ہوتے اور بھاگنا چاہتے۔ تو ضرور بھاگ سکتے تھے۔

(٤) پھر اسی باب ٢٦ کی ٢٨,٢٦ آیتوں میں خداوند کا یہ قوم کہ” لو کھاﺅ یہ میرا بدن ہے“۔ اور تم سب اس میں سے پئےو۔ کیونکہ یہ عہد کا میرا وہ خون ہے۔ جو بہتیروں کے لئے گناہوں کی معافی کے واسطے بہایا جاتا ہے“۔اس بات کی چوتھی دلےل ہے ۔ کہ خداوند نے اپنی خوشی سے صلیبی موت کو ہمارے گناہوں کے لئے منظور فرمایا تھا۔

(٥) خداوند کا یہ قول کہ” میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ انگور کا یہ شیرہ پھر کبھی نہ پےوں گا۔ اس دن تک کہ تمہارے ساتھ اپنے باپ کی بادشاہت میں نیا نہ پئےوں۔“ (٢٦ باب ٢٩) اس امر کی تصریح کرتا ہے۔ کہ آپ کو اپنی موت کا خوب علم تھا۔ اور پھر بھی آپ نہےں بھاگے۔

(٦) خداوند کا اپنے شاگردوں اور پطرس سے یہ کہنا کہ تم اسی رات میری بابت ٹھوکر کھاو گے۔۔۔۔ میں تجھ سے سچ سچ کہتا ہوں کہ اسی رات مُرغ کے بانگ دینے سے پہلے تو تین بار میرا انکار کرے گا“۔(٣٥-٣١:٢٦) صاف ظاہر کرتا ہے۔ کہ ااپ کو اپنی گرفتاری کے وقت کا علم تھا اور پھر بھی آپ روپوش نہےں ہوئے۔ اور نہ موت سے بچتے رہے۔

(٧) اسی باب (٢٦) کی دوسری آیت سے جس کو مسٹر م۔ع نے قصداً چھوڑ دیا اور جس ہمارے خداوند کی رضامندی ظاہر ہوتی ہے۔ واضح ہوتا ہے کہ خداوند کو اپنی صلیبی موت کا بھی وقت بھی معلوم تھا۔ چنانچہ آپ فرماتے ہےں۔ کہ تم جانتے ہو کہ دو دن کے بعد فسح ہو گی اور ابن آدم مصلوب ہونے کو پکڑوایا جائے گا“۔

(٨) مسٹر م۔ع ہمارے خُداوند کے اس قول سے کہ” وہ نہایت حیران اور بے قرار ہونے لگا اور ان سے کہا میری جان نہایت غمگین ہے یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے۔۔۔۔ اور تھوڑا آ گے بڑھا اور زمین پر گر کر دُعا مانگنے لگا۔۔۔۔ اور کہا کہ اے ابا۔ اے باپ یہ پیالہ مجھ سے ہٹا لے“۔ یہ استدلال کرتے ہےں۔ کہ ہمارے منجی موت سے ڈرتے تھے۔ اگرآپ گزشتہ حوالہ جات پر پھر ایک بار نظر ڈال دیں تو آپ پر روشن ہو جائے گا۔ کہ ہمارے مخالف کا استدلال کس قدر دوراز انصاف ہے۔ جب کہ ہم ثابت کر چکے ہےں کہ مسیح نے اپنی رضا مندی اور اختیار سے صلیبی موت منظور فرمائی۔ ہم اپنے دوست کو بتلانا چاہتے ہےں کہ ہمارے منجی کا یہ خوف و ہراس محض اس لئے تھا کہ ان کے بشری قوی مضمحل ہو کر قبل از وقت جواب منہ دیں اور ایسا نہ ہو۔ کہ کمزور ہو گئے۔ چنانچہ آپ کا پسینہ خون کے قطروں کی طرح ٹپک رہا تھا(لوقا ٤٤:٢٢) چونکہ خداوند نہ نہےں چاہتے تھے کہ صلیبی موت کے بغیر فوت ہوں لہذا خُدا سے دعا کرتے ہےں اے خدا اس پیالہ کو یعنی اس موت کو جو بغیر صلیب کے قوی کے ضعف کی وجہ سے مجھ پرطاری ہونے والی ہے مجھ سے روک دے۔ چنانچہ آپ کی یہ دعا سنی گئی اور صلیبی موت آپ کو نصیب ہوئی۔

مقدس پولوس نے نہایت تفصیل کے ساتھ اس امر کو بیان کیا ہے کہ کس طرح خداوند اس موت سے پریشان تھے جو صلیب سے پہلے واقع ہونے والی تھی۔ چنانچہ عبرانیوں کے خط میں لکھتے ہےں۔ کہ ” اُس نے اپنی بشریت کے دنوں میں زور زور سے پکار کر اور آنسو بہا بہا کر اسی سے دعائےں اور التجائےں کیں جو اس کو موت سے بچا سکتا تھا۔ اور خُدا ترسی کے سبب اُس کی سنی گئی۔ اور باوجود بیٹا ہونے کے اُس نے دُکھ اُٹھا اُٹھا کر فرمانبرداری سیکھی اور کامل بن کر اپنے سب فرمانبراداروں کے لئے ابدی نجات کا باعث ہوا اور اسے خُدا کی طرف سے ملک صدق کے طور کے سردار کاہن کا خطاب ملا“۔(عبرانیوں ١٠-٧:٥)۔

غور کا مقام ہے کہ اگر مسیح کے تضرع اور آنسو بہانے کا مطلب صرف یہ تھا کہ صلیبی موت سے بچ جائےں تو اس جملہ کا کیا مطلب ہے۔ کہ خُدا ترسی کے سبب اُس کی سنی گئی؟ حالانکہ حضور مسیح صلیبی موت سے نہ بچ سکے۔ اور عین صلیب پر فوت ہوئے۔ پھر اگر حضور صلیب پر مرنا نہےں چاہتے تھے۔ تو اس جملہ کے کیا معنی ہو سکتے ہےں کہ ” باوجود بیٹا ہونے کے اس نے دکھ اٹھا اٹھا کر فرمانبرداری سےکھی؟“ کیا فرمانبرداری کے یہی معنی ہےں کہ خدا کی مرضی تو یہ ہو ۔ کہ اُس کا بیٹا صلیب پر مرے۔ لےکن بیٹا یہ چاہے کہ میں صلیبی موت نہ مروں ۔ اگر حضور کی صلیبی موت اجباری تھی تو اس جملہ کا کیا مطلب ہے۔ کہ اپنے سب فرمانبرداروں کے لئے نجات ابدی کا باعث ہوا جس کے معنی صاف قربانی اور کفارے کے ہےں۔

اسی وجہ سے خُداوند نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ میری جان نہایت غمگین ہے۔ یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے“۔ اور یہ نہےں کہا۔ کہ میری جان موت کی وجہ سے غمگین ہے“۔ جو عقل مند ہےں ان دونوں جملوں میں زمین و آسمان کا فرق پائےں گے۔ چونکہ بے حد تکالیف اور مصیبتوں کی وجہ سے بچنے کے لئے دعائےں کیں تاکہ آپ صلیبی موت سے مرجائےں۔ جس کے لئے آپ تشریف لائے تھے۔ اور آُ کی یہ دُعا کہ طبعی موت سے بچ جاﺅں سنی گئی۔ ہمارا دعویٰ ذیل کے دلائل پر مبنی ہے۔

اول یہ کہ خداوند نے یہ نہےں کہا۔ کہ ”موت سے“ ۔ دوم یہ کہ اسی باب کی ٤١ آیت میں ایک جملہ ہے۔ جس کو مسٹر م۔ع نے قصداً چھوڑ دیا ہے وہ یہ کہ روح تو مستعد ہے لےکن جسم کمزور ہے۔“ یعنی ایسا نہ ہو کہ ضعف کی وجہ سے صلیبی موت سے پہلے مر جاﺅں۔ سوم یہ کہ مقدس لوقا لکھتے ہےں ۔ کہ آسمان سے ایک فرشتہ اُس کو دکھائی دیا وہ اُسے تقویت دیتا تھا“۔ (لوقا ٤٣:٢٣) فرشتہ کس کو تقویت دیتا تھا اس کی انسانیت کو تاکہ قبل از وقت مر نا جائے۔ چہارم یہ کہ بار بار اپنے شاگردوں کے پاس آنا اور اُن کو جگانا تاکہ اُن کی صحبت اور موانست سے آپ کو صلیبی موت تک تقویت مل جائے۔ یہ چار دلائل ان کے لئے جو عقلمند اور منصف مزاج ہےں۔ کافی سے زیادہ ہےں۔

(٩) مسٹر م۔ع نے خداوند کے اس قول سے کہ وقت آ پہنچا ہے۔”دےکھو ابن آدم گہنگاروں کے ہاتھ میں حوالے کیا جاتا ہے۔ اُٹھو چلیں دےکھو میرا پکڑاوانے والا قریب آ پہنچا ہے“۔ یہ استدلال کیا ہے۔ کہ مسیح بھاگنا چاہتے تھے۔ جو محض ایک بہتان اور افترا ہے کیونکہ جملہ بالا سے مسیح کی رضامندی ظاہر ہو تی ہے۔ نہ کہ رضا مندی جیسا کہ ہم نے کہےں مفصل بیان کیا ہے کہ خُداوند کو اپنے گرفتار ہونے سے مدتوں قبل اس کا علم تھا۔ کہ میں یہودیوں کے ہاتھوں میں گرفتار ہو جاﺅں گا۔ اور بالا خر نہایت تکالیف کے ساتھ مارا جاﺅں گا۔ پس اگرحضور کو بھاگنا منظور ہوتا۔ تو بہت پہلے بھاگ جاتے جہاں ان کو بھاگنے کا موقعہ حاصل تھا۔ اُس وقت تو نہےں بھاگے اور جب ان کو بھاگنے کا موقعہ نہےں بھاگنا چاہتے ہےں۔ بلکہ خُداوند کا اس قول سے کہ آ ﺅ چلیں دےکھو میرا پکڑاوانے والا قریب آ پہنچا ہے“۔ یہ مطلب تھا کہ ہم کو اپنے دشمنوں کے آ گے جانا چاہئے اور اپنے کو ان کے ہاتھ میں گرفتار کروانا چاہئے۔ تاکہ خدا کی مرضی جلد پوری ہو۔

(١٠) چنانچہ مقدس ےوحنا نے اس کی تصریح کی ہے۔ کہ مسیح گرفتار ہونے کے لئے آگے جانا چاہتے تھے۔ مقدس ےوحنا لکھتے ہےں کہ ” یہ اس لئے ہوتا ہے کہ دنیا جانے کہ میں باپ سے محبت رکھتا ہوں۔ اور جس طرح باپ نے مجھے حکم دیا میںویسا ہی کرتا ہوں۔ اُٹھو یہاں سے چلیں“۔ (٣١:١٤) پس اگر خداوند کا مقصد بھاگ جانا ہوتا تو مسیح ہرگز یہ نہ فرماتے کہ” میں باپ سے محبت رکھتا ہوں“۔ کیونکہ محبت کے معنی فرمانبرداری ہے۔ حالانکہ بقول مخالف مسیح خُدا کی نافرنبرداری کرتے ہےں۔ اور موت سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہےں۔ اور پھر مسیح کا یہ فرمانا کہ جس طرح باپ نے مجھے حکم دیا ہے میں ویسا ہی کرتا ہوں“۔ صاف ظاہر کرتا ہے۔ کہ مسیح موت کا مقابلہ کرنے کے لئے جانا چاہتے تھے ۔ نہ کہ بھاگ جانا۔

(١١) مسٹر م۔ع نے خداوند کے ایک قول کو قصداً چھوڑ دیا ہے۔ جس سے صاف واضح ہوتا ہے۔ کہ خُداوند موت پر راضٰ تھے وہ قول یہ ہے۔ کہ یسوع نے اُس سے کہا۔ اپنی تلوار کو میان میں کر لے۔۔۔۔۔ کیا تو نہےں سمجھتا کہ میں اپنے باپ سے منت کر سکتا ہوں۔ اور وہ فرشتوں کے بارہ تمن سے زیادہ میرے پاس ابھی موجود کر دے گا۔ مگر وہ نوشتے کہ یونہی ہونا ضرور ہے کیونکر پورے ہوں گے“۔ پھر اپنے گرفتار کرنے والوں سے فرمایا کہ ” مجھے ڈاکو کی طرح پکڑنے نکلے ہو؟ میں ہر روز ہےکل میں بیٹھ کر تعلیم دیتا تھا۔ اور تم نے مجھے نہےں پکڑا۔ مگر یہ سب کچھ اس لئے ہوا ہے کہ نبیوں کے نوشتے پورے ہوں۔(متی ٥٦-٥١:٢٦)

ہماری سمجھ میں نہےں آتا کہ مسٹر م۔ع نے اُوپر والی عبارت کو کیوں چھوڑ دیا۔ آیا اس لئے کہ آپ ایک متعصب شخص ہےں۔ اس لئے کہ آپ کو حق کے ساتھ دشمنی ہے۔ لےکن ہم حسن ظن سے کام لے کر یہ کہےں گے۔ کہ آپ کا مطالعہ عمیق نہےں سطحی ہے۔ اور انجیل مقدس سے آُ واقف نہےں ہےں حالانکہ محقیقن پر یہ فرض ہے۔ کہ وہ فریق مخالف کی کتب پر حاوہ ہوں اور ان کے تمام دعاوی کو لفظ بہ لفظ نقل کریں۔ اگر مسٹر م۔ع اس قانوں پر عمل کرتا تو یقینا وہ خود اپنی غلطیوں کا پردہ چاک کرتا۔

آیات مافوق سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے۔ کہ خداوند صلیبی موت پر بالکل راضٰ تھے۔ اگر وہ روضی نہ ہوتے ۔ تو فرشتوں سے مدد لے کر اپنے مخالفین کی جڑ دیتے۔ اور اس صورت میں آپ کو بھا گنے کی بھی ضرورت نہ رہتی۔ لیکن چونکہ آپ ہمہ تن راضی بہ قضاتھے۔

اس لئے نہ تو بھاگنے کو شش کی۔ اور نہ ہی فرشتوں سے مدد چاہی۔

(١٢) ان مواضع میں سے جس سے مسٹرم۔ع نے چشم پوشی اختیار کی ہے۔ اور حق سمجھ کو چھوڑ دیا ہے۔ متی کے ٢٦ باب کی ٥٩ تا ٦٣ آیات ہےں۔ جن میں مذکور ہے۔ کہ سردار کاہن اور سارے صدر عدالت مسیح کے بر خلاف جھوٹی گواہی کو ڈھونڈنے لگے اور آخر کار دو گواہوں نے آ کر کہا۔ کہ” اُس نے کہا کہ میں خُدا کے مقدس کو ڈھا سکتا ہوں۔ اور تین دن میں اسے بنا سکتا ہوں“۔ اس پر سردار کاہن نے کہا۔ کہ تو کیوں ان کا جواب نہےں دیتا۔ ”مگر یسوع چپکا ہی رہا“۔ حالانکہ خُداوند نے دو ڈھائی سال پیشتر فرمایا تھا۔ کہ تم اس ہےکل کوڈھا دو۔ تو میں تین دن میں کھڑا کر دوں گا۔ مگر اس نے اپنے بدن کے مقدس کی بابت کہاتھا“۔ (ےوحنا ١٩:٢)۔ سردار کاہن کے خداوند کو باصرار کہنے۔ کہ تو ان کا جواب دے۔ اور خداوند کا ان کی جھوٹی گواہی کو سن کر خاموش رہنے سے صاف واضح ہوتا ہے کہ خداوند نوت سے بچنا نہےں چاہتے تھے۔ ورنہ خداوند اپنی صفائی پیش کرتے اور ان کی تردید کر کے آسانی کے ساتھ چھوٹ جاتے۔

(١٣) مسٹر م۔ع نے محض حق پوشی کی غرض سے نہ صرف مافوق کی آیتوں کو چھوڑ دیا ہے۔ بلکہ مقدس متی ٦٥-٦٣:٢٦ کو بھی قصداً چھوڑ دیا ہے۔ جن سے حضور کی صلیبی موت پر رضا مندی ظاہر ہوتی ہے۔ وہ آیتیں یہ ہےں۔

”سردار کاہن نے اُس سے کہا۔ میں تجھے زندہ خُدا کی قسم دیتا ہوں۔ کہ اگر تو خدا کا بیٹا مسیح ہے۔ تو ہم سے کہہ دے۔ یسوع نے اُس سے کہا۔ تو نے خود کہہ دیا۔ بلکہ میں تم سے کہتا ہوں۔ کہ اس کے بعد تم ابن آدم کو قادر مطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دےکھو گے اس پر سردار کاہن نے یہ کہہ کر اپنے کپڑے پھاڑے۔ کہ اس نے کفر بکا ہے۔ اب ہمیں گواہوں کی کیا حاجت رہی! دےکھو تم نے یہ کفر سنا ہے ۔ تمہاری کیا رائے ہے؟

سردار کاہن نے جب دےکھا۔ کہ گواہوں میں اختلاف ہے۔ اور اس اختلاف کے ہوتے ہوئے۔ وہ مسیح کو قتل نہےں کروا سکتا ہے۔ لہذا اس نے نہایت چالاکی سے یہ چاہا۔ کہ خود مسیح کی زبان سے ایسے الفاظ نکلوائے۔ جن سے اس پر قتل کا فتوی ثابت کر سکے۔ چنانچہ اس نے جو کچھ کہلوانا چاہا تھا۔ کہلوا دیا ۔ اور خداوند نے صاف صاف اپنے ابن اللہ ہونے کا اقرار کیا۔ اور اسی اقرار کی وجہ سے سردار کاہن نے آپ پر یہ کفر کا فتوی لگا دیا۔

قابل غور امر یہ ہے۔ کہ اگر حضور مسیح موت سے بچنا چاہتے۔ تو وہ نہایت آسانی کے ساتھ اپنے ابن اللہ ہونے کا ذکر نہ کر کے چھوٹ جاتے۔ لےکن چونکہ آپ کو صلیب ہی پر مرنا منظور تھا۔ اس لئے آپ نے وہی کہا۔ جس کے باعث سے آپ کو صلیب دی جائے۔

(١٤) افسوس ہے کہ مسٹر م۔ع نے انجیل جلیل کو بے تعصب ہو کر نہےں پڑھا۔ ورنہ اسی انجیل متی کے ١٧ باب میں ان کو دو ایسی باتیں مل جاتیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ کہ خداوند صلیبی موت مرنا چاہتے تھے۔

پہلی بات یہ ہے ۔ کہ جب حضور پیلاطس کے سامنے پیش ہوئے تو پیلاطس نے آپ سے کہا کہ کیو تو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟ حضور نے جواب دیا۔ کہ ” توخود کہتا ہے“۔ یعنی ہاں جیسا تو کہتا ہے۔ میں وہی ہوں اگر اس موقعہ پر خداوند انکا ر کرتے۔ تو آپ یقینا رہا ہوتے۔ لےکن از بس کہ آپ کو رہائی منظور نہ تھی۔ اس لئے آپ نے اس کا جواب دیا جس سے پیلاطس سمجھے کہ آپ یہودیوں کے بادشاہ ہےں۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب یہودیوں کے بزرگ اور کاہن پیلاطس کے آگے حضور پر طرح طرح کے الزام لگا رہے تھے۔ اُس وقت پیلاطس نے حضور سے کہا۔ کہ تو ان کا جواب کیوں نہےں دیتا؟ خداوند نے ان کے ایک الزام کا بھی جواب نہےں دیا۔ جس سے پیلاطس کو تعجب ہوا۔ اگر خداوند موت سے بچنا چاہتے۔ تو ان کا جواب دے کر چھوٹ سکتے تھے۔

(١٥)مسٹرم۔ع نے اس جملہ سے۔ کہ” پھر یسوع بڑی آواز سے چلایا۔ اور جان دی“۔ (متی ٤٦:٢٧) یہ بھدا استدلال کیا ہے۔ کہ حضور کے چلانے سے یہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ آپ موت پر رضامند نہ تھے۔ اگر یہ صاحب اناجیل کو دیانت داری کے ساتھ پڑھتے۔ تو ان کو معلوم ہو جاتا۔ کہ آپ کا چلانا موت کے ڈر سے نہ تھا۔ بلکہ آپ نے چلا کر ایک پیشن گوئی کے پورے ہونے کی اطلاع دی۔ وہ یہ کہ ” پورا ہوا“ (ےوحنا ٣٠:١٩) یعنی ذبح عظیم۔ خُدا کا ازلی ارادہ۔ شریعت کا مقصد اور انبیا ءعہد قدیم کی پیشن گوئےاں آ ج پوری ہوئےں۔

(١٦) اس جملہ سے بھی کہ ” جان دی“ حضور کی رضا مندی ظاہر ہوتی ہے۔

(١٧) خُداوند کے اس قول سے بھی صاف ظاہر ہے۔ کہ آپ صلیبی موت پر راضی تھے کہ ” ابن آدم اس لئے نہےں آیا کہ خدمت لے بلکہ خدمت کرے۔ اوراپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے“۔(متی ٢٨:٢٠، مرقس ٤٥:١٠)۔

(١٨) خُداوند اپنی قربانی کو بدیں الفاظ پیش کرتے ہےں کہ اس سے زیادہ محبت کوئی شخص نہےں کرتا۔ کہ اپنی جان اپنے دوستوں کے لئے دے دے“۔ (ےوحنا ١٣:١٥)

(١٩) پھر خُداوند فرماتے ہےں۔ کہ باپ مجھ سے اس لئے محبت رکھتا ہے۔ کہ میں اپنی جان دیتا ہوں۔ تاکہ اسے پھر لے لوں ۔ کوئی اسے مجھ سے چھینتا نہےں۔ بلکہ میں اسے آپ ہی دیتا ہوں“۔ (ےوحنا ١٨-١٧:١٠)۔

(٢٠) پھر آپ فرماتے ہےں۔ کہ اچھا چرواہا میں ہوں۔ اچھا چرواہا بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہے۔“(ےوحنا ١١:١٠)۔

(٢١) خُداوند کو پوری طرح سے علم تھا۔ کہ آپ کس موت سے اور کس طرح مارے جائےں گے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہےں۔ کہ

اور یروشلیم جاتے ہوئے یسوع بارہ شاگردوں کا الگ لے گیا۔ اور راہ میںان سے کہا۔” دےکھو ہم یروشلیم کو جاتے ہےں۔

اور ابن آدم سردار کاہنوں اور فقہیوں کے حوالے کیا جائے گا۔ اور وہ اس کے قتل کا حکم دیں گے۔ اور اسے غیر قوموں کے حوالے کریں گے۔ تاکہ وہ اُسے ٹھٹھوں میںاُڑائےں۔ اور کوڑے ماریں اور صلیب پر چڑھائےں اور وہ تیسرے دن زندہ کیا جائے گا“ (متی ١٩-١٧:٢٠، لوقا ٣٣-٣١:١٨)۔

(٢٤-٢٣-٢٢) خداوند اپنی موت کے متعلق فرماتے ہےں ۔ کہ ”اور جس طرح موسی نے سانپ کو بیابان میں اونچے چڑھایا۔ اسی طرح ضرور ہے کہ ابن آدم بھی اونچے پر چڑھایا جائے تاکہ جو کوئی ایمان لائے۔ اس میں ہمیشہ کی زندگی پائے“ (ےوحنا ١٦-١٤:٣)۔

یسوع نے پطرس سے کہا۔” تلوار کو میان میں رکھ۔ جو پیالہ باپ نے مجھ کو دیا ۔ کیا میں اسے نہ پئےوں“۔(ےوحنا١١:١٨) اور جس طرح باپ نے مجھے حکم دیا ہے ۔ میں ویسا ہی کرتا ہوں۔ اُٹھو یہاں سے چلیں۔“ (ےوحنا ٣١:١٤)۔

(٢٥) خُداوند فرماتے ہےں کہ۔ ” جو روٹی میں جہان کی زندگی کے لئے دوں گا۔ وہ میرا گوشت ہے“۔(ےوحنا ٥١:٦

(٢٦) پھر فرماتے ہےں کہ۔” یہ عہد کا میرا وہ خون ہے۔ جو بہتیروں کے لئے گناہوں کی معافی کے واسطے بہایا جاتا ہے“(متی ٢٦:٢٦،لوقا ١٩:٢٢، مرقس ٢٢:١٤)۔

ہم نے نہایت اختصار سے کام لے کر یہ ٢٦ دلائل خود اپنے منجی کے کلام سے پیش کئے ہےں۔ جن سے صاف صاف معلوم ہوتا ہے۔ کہ ہمارے ،منجی کی صلیبی موت اجباری نہےں۔ بلکہ اختیار تھی۔ اب ہم عہد قدیم میں سے بعض ایسی پیشین گوئےاں بدیہ ناظرین کریں گے۔ جن سے کھلے طور پر ثابت ہوتا ہے۔ کہ ہمارے منجی کی صلیبی موت اختیاری تھی۔

(١) یسعیاہ نبی حضور کے ساتھ ان کے دشمنوں کا سلوک اور استہزا کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہےں کہ

” میں نے اپنی پیٹھ پیٹنے والوں کے اور اپنی ڈاڑھی نوچنے والوں کے حوالہ کی۔ میں نے اپنا منسہ رسوائی اور تھوک سے نہےں چھپایا“)یسعیاہ ٦:٥٠)۔

تمام آیت میں لفظ ” میں“ موجود ہے۔ جو اختیار پر دلالت کرتا ہے۔

(٢) پھر یسعیاہ نبی پیشین گوئی کے طور پر فرماتے ہےں۔ کہ

” یقینا اس نے ہماری مشتقتیں اٹھا لیں۔اور ہمارے غموں کا بوجھ اپنے اوپر چڑھایا پر ہم نے اس کا یہ حال سمجھا۔ کہ وہ خدا کا مارا کوڑا اور ستایا ہوا ہے۔ پر وہ ہمارے گناہوں کے سبب گھائل کیا گیا۔ اور ہماری بدکاریوں کے باعث کچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لئے اُس پر سیاست ہوئی۔ تاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم چنگے ہوں۔ ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے ہم میں سے ہر ایک پانی راہ کو پھرا۔ پر خداوند نے ہم سبھوں کی بدکاری اس پر لادی۔ وہ تو نہایت ستایا گیا۔ اورغمزدہ ہوا۔ تو بھی اس نے اپنا منہ نہ کھولا۔ وہ جیسے برہ جسے ذبح کرنے لے جاتے۔ اور جیسے بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے آ گے بے زبان ہے۔ اسی طرح اس نے اپنا منہ نہ کھولا۔ ایذادے کر اور اس پر حکم کر کے وہ اسے لے گئے۔ پر کون اس کے زمانے کا بیان کرےگا؟ کہ وہ زندوں کی زمین سے کاٹ ڈالا گیا۔ میری گروہ کے گناہوں کے سبب اس پر مار پڑی۔ اس کی قبر بھی شریروں کے درمیان ٹھہرائی گئی تھی۔ پر وہ اپنے مرنے کے بعد دولت مندوں کے ساتھ ہوا۔ کیونکہ اس نے کسی طرح کا ظلم نہ کیا۔ اور اُس کے منہ میں ہرگز چھل نہ تھا۔

لےکن خداوند کو پسند آیا۔ کہ اُسے کچلے۔ اُس نے اُسے غمگین کیا۔جب اُس کی جان گناہ کے لئے گزرانی جائے۔ تو اپنی نسل کو دےکھے گا۔ اور اس کی عمر دراز ہو گی اور خدا کی مرضی اس کے ہاتھ کے وسیلے بر آئے گی۔ اپنی جان ہی کا دکھ اٹھا کے وہ اسے دےکھے گا۔ اور سیر ہوگا اپنی ہی پہچان سے میراصادق بندہ بہتوں کو راستباز ٹھہرائے گا۔کیونکہ وہ ان کی بدکاریاں اپنے اوپر اٹھا لے گا۔ اس لئے میں اُسے بزرگوں کے ساتھ ایک حصہ دوں گا۔ اور وہ لوٹ کامال زور آوروں کے ساتھ بانٹ لے گا۔ کہ اُس نے اپنی جان موت کے لئے انڈیل دی اور وہ گنہ گاروں کے درمیان شمار کیا گیا۔ اور اس نے بہتوں کے گناہ اُٹھا لئے۔ اور گہنگاروں کی شفاعت کی۔ (١٢-٤:٥٣)پرانا ترجمہ۔

غرض کہ ان تمام پیشین گوئےوں سے بہ صراحت معلوم ہوتا ہے کہ حضور نہایت رضا مندی اور خوشنودی کے ساتھ اپنے گہنگار بندوں کی خاطر اپنی جان دیں گے۔ اگر ہم ان تمام پیشین گوئےوں کو جو عہد قدیم میں ہےں یہاں نقل کریں۔ تو یقینا یہ ایک ضحیم کتاب بن جائے گی۔ لہذا منصف مزاجوں اور اُن کے لئے جن کا دل تعصب سے خالی ہے۔ اتنا ہی کافی سے زیادہ ہے۔