مطبوعہ ۲۱ فروری ۱۸۹۶ء بروز جمعہ

فرمانِ مسیح

مندرجہ متی۳۸:۵۔۴۲۔پر

مِرزَاغُلام احَمدقادیانی صاحب کا محاکمہ
اور
پَادری ٹھاکرداس کا فیصلہ


Decree of Christ

Matthew Chapter 5 verses 38-42

A Reply to Objection of Mirza Gulam Ahmed Qadiani

By

G. L. Thakkur Dass

Published in Nur-i-Afshan Feb 21, 1896


 

وہ تحریر جو ازیں جانب بھائی خیرالدین صاحب کےاعتراض کے جواب میں نور افشاںمطبوعہ ۱۸۹۶ء میں شائع ہوئی تھی۔ اُس پر مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے ایک محاکمہ (انصاف طلبی،فیصلہ)چھاپا ہے اور اُس میں فرضی اور بےحقیقت باتیں سنائی ہیں۔ میں واجبی تفتیش کے ساتھ اُس پر فیصلہ دیتا ہوں۔

قولہ۔ (اس کا کہا ہوا)پادری ٹھاکر داس صاحب اِس بات پر زور دیتےہیں کہ اِنجیل میں جانی یا مالی ضرر کی حالت میں ترک مقابلہ کے یہ معنی ہیں کہ ظالم سے اِنتقامِ حکومت ہی لے آپ مقابلہ نہ کریں۔

اقول۔ (اعراب کی تبدیلی سے قا فیہ کا بدل جانا جو کہ علم قافیہ کا ایک عیب ہے)میری با ت کے یہ معنی ٹکسال(وہ جگہ جہاں سکے ڈھالے جائیں) قادیاں میں گھڑے گئے ہیں۔ آپ میرا بیان پھر سمجھئے۔ حکومت خود حفاطتی کی ایک صورت ہے۔ آپ تیسری صورت پیش کردہ پر غور کیجئے۔

قولہ۔ غورِطلب یہ ا مر ہے کہ ترک مقابلہ کے کیامعنی ہیں؟ کیا صرف یہی کہ اگر کوئی ظالم آنکھ پھوڑی یا دانت نکال دے تو بتوسط (اس بات کے مخفف میں )حکام اُس کو سزا دلانی چاہیے۔ خودبخود اُس کی آنکھ نہیں پھوڑنی چاہیے نہ دانت نکالنے چاہیے۔ اگر یہی معنی ہیں تو توریت پر زیادت کیا ہوئی۔ کیونکہ توریت بھی تو یہی ہدایت دیتی ہے کہ ظالموں کو قاضیوں کی معرفت سزا ملےخروج۲۱باب۔

مگر پادری ٹھاکر داس صاحب کہتے ہیں کی انجیل کی تعلیم میں توریت پر یہ زیادت ہے کہ ایک مظلوم حکام کی معرفت اِنتقام لے۔

اقول ۔ مرزا صاحب آپ کا یہ کہنادرست نہیں ہے کہ میں اس سے توریت پراِنجیل کی تعلیم کی زیادت بتلاتا ہوں میں نے ہرگز یہ بات نہیں لکھی اور نا ایسی کمی یا زیادت کو پیشِ نظر رکھا تھا۔ اور اس لئےآپ کی ساری تقریر جو صفہ۲۔۳ میں ہے رائیگاں ٹھہری۔ آپ نے خودہی میری طرف سےایک بات فرض کر کے اپنی طرف سے اُس پر محاکمہ بنایاہے۔ عقلمندوں کی یہ عادت نہیں ہونی چاہیئے۔ میں اِس بات کوخوب جانتا ہوں کہ توریت میں انتقام قاضیوں کے متوسط(درمیانی،رواج) سے لینے کا حکم ہےاور انجیل میں یہ کوئی نئی تعلیم نہیں۔ مگر اس بات سے تو میری کچھ غرض نہ تھی اور جو اصل غرض تھی اُس کو آپ نے نظر اندازکیا اور یا آپ کی سمجھ میں نہیں آیا اور اس لئے آٹھ صفحے محاکمہ میں کالے کر ڈالے۔ پھردیکھئے کہ میں نے احکام سپشین اور احکام انجیل کی بابت یہ لکھا تھا کہ جس حال کہ کسی انسان کا حق نہیں کہ دوسرےکی جان و مال کو خطرے میں ڈالے اور جس حال کہ مسیح خداوند کے احکام میں وہ اصول موضوع کئے گئے ہیں، جو چھ حکموں کے تجاوز (حد سے بڑھنا)کی رغبت کو دل میں سے اُکھاڑ کرجو کسی قسم کی رسمیات ادا کرنے سے دُور نہیں ہوسکتے اور یہ نہیں ۔ (یعنی مسیح نے یہ نہیں کیا۔)کہ ان حکموں کے زور کویا اُن کی تجاوز کی سزا کو موقوف کردیا ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ اُن کو قائم رکھا ہے۔ تو یہ صورت خودحفاظتی کے لئے سالم گُنجائش دیتی ہے۔ لہٰذا جو لوگ ظلم اور شرارت سے بازنہ آئیں اور ان سلیم ذریعوں کی قدر و پروانہ کریں جو خداوند نے باہمی راستی اور سلامتی کے لئے فرمائے ہیں ۔تو وہ لوگ واجبی بدلا پائیں ‘‘۔ پھرآپ اپنے خیال کے موافق انجیلِ مقدس کی تعلیم کو ناقص ٹھہرانے کے لئےطنزاًلکھتے ہیں کہ۔

قولہ ۔ کوئی انسان اپنی آنکھ ناحق ضیائع کرا کر پھرصبر نہ کر سکا اور اپنی قوت انتقام کو حکام کے ذریعہ سے ایسےوقت میں عمل میں لایا جو اُس کوکچھ نفع نہیں دے سکتا تھا۔ ایسے عیسائی سے تو یہودی ہی اچھا رہا جس نے خود حفاظتی کو کام میں لا کر اپنی آنکھ کو بچا لیا۔

اقول۔ میں کہتا ہوں کی اگر کوئی شخص اپنی آنکھ یا دانت ضیائع کروا کر دوسرے کی بھی خود ہی خود حفاظتی کی وجہ سے ضیائع کردے یا حکام سے چارہ جوئی کروائے تو بہر حال یہ انتقام اُس کو کیا نفع دے سکتا ہے۔ جب کہ اُس کا اپنا نقصان ہو ہی گیا ہے؟ اور اگر ظالم کا مقابلہ کرنے کی بجائے کوئی عیسائی مقابلہ سے پرہیزکر کےاپنی آنکھ یا دانت بچا لے تو آپ کو کیا تکلیف ہے۔ یہ حرکت نفسانی جذبات پر اثر کرنے والی ہوگی اور ایسا ہی انسان حقیقت میں نیک بخت ہے، جس نے اپنے آپ کو اوردوسرے کو بھی نقصان سے بچایااور مناسب نہیں کہ اپنی اپنی شرارتوں کو روا رکھنے کے لیے اس برداشت کو بُرا کہا جائے اور میں نے اپنی پہلی تحریر میں اس بات کا صاف بیان کیا تھا،کہ خداوند یسوع مسیح نے قصاص (انتقام،خون کے بدلہ خون)کی نوبت کو روکنے کے واسطےوہ ہدایتیں فرمائیں جو آیات ۳۹۔۴۲میں مندرج ہیں۔کہ’’ چھوٹی چھوٹی باتیں جیسے گال پر ٹھپڑ کھانا یا کپڑے چِھنوانا یا بیگا ر میں پکڑے جانا وغیرہ بدلالینے کے محل نا سمجھےجائیں ایسی حالتوں میں برداشت کرنا فرض ہے۔اور یاد رہے کہ خداوند اس حکم میں اُن حالتوں کو شامل نہیں کرتا ہے جن میں جان یا مال خطرے میں ڈالے جائیں جس سے ظاہر ہے کہ ایسی حالتوں میں خود حفاظتی کےدوسرے طریق عمل میں لائے جائیں۔ پس آپ کی طنز بالکل بے جا ہے۔

قولہ۔ شاید پادری ٹھاکر داس صاحب یہ کہیں کہ ترک مقابلہ اُس حالت میں ہے ۔جب کہ کوئی شخص تھوڑی تکلیف پہنچانا چاہے، لیکن اگر سچ مچ آنکھ پھوڑنے یا دانت نکالنے کا ارادہ کرے تو پھر خود حفاظتی کےلیے مقابلہ کرنا چاہیے۔ تو یہ خیال پادری صاحب کا انجیل کی تعلیم کے مخالف ہوگا اُس تعلیم سے تو یہی ثابت ہوا کہ اگرسچے عیسائی ہو تو دانت اور آنکھ نکالنے دو اور مقابلہ نہ کرو اور اپنی آنکھ اور دانت کو مت بچاؤ۔ سو وہی اعتراض انجیل پر ہوگاجو خیرالدین صاحب نے پیش کیا ہے۔

اقول ۔ مسیح یسوع کی تعلیم کا یہ نتیجہ ہرگز نہیں کہ چپ چاپ بیٹھ کر آنکھ اور دانت نکلوایا کرو اور مقابلہ نہ کرو۔کیونکہ اُس نے قصاص کا حکم پہلے جتا دیا ہے۔ اگر خداوند کی مراد ایسی حالتوں میں بھی ترک مقابلہ کی ہوتی جب جان کاخوف ہو تو وہ اُس کی بابت صاف صاف فرما دیتا ،لیکن جو حالتیں اُس نے بتائی ہیں وہ ایسی خطرناک حالتوں سے غیر ہیں اور آپ نے جو تمانچہ (تھپڑ)کی شدت کا شوخ بیان کیاہے، کہ اُس سے آنکھ اور دانت نکل سکتے ہیں۔ تو یہ نوبت پھر قصاص کے تحت میں آجاتی ہے۔ اور عیسائی مرد کا یہ کام ہے ،کہ اُن باتوں کی برداشت کرے جن کو بڑھانے سے قصاص کی نوبت پہنچ سکتی ہے۔ جیسےخون کرنے یا کروانے کی نوبت کو روکنے کےلیے غصّہ اور بدزبانی وغیرہ کی ممانت فرمائی ہے۔ (متی۲۱:۵۔۲۶)اگر لوگ خداوند کی ہدایتوں پر عمل کرنا اپنی روزمرہ کی عادت کریں تو قتل اورز ناکاری اور انتقام اور دُشمنی کی نوبت کبھی نہ پہنچے۔ مگرقرآن نے بھی تو اپنا گذارہ کرنا ہوا ۔ اور اودھر منوجی بھی بے اُمید نہیں ہونا چاہئے۔ عیسائیوں کو تو یہ صاف حکم ہے کہ اُن کی طرف سے کوئی چھیڑچھاڑ نہ ہو۔ بلکہ اوروں کی شرارتوں کی برداشت بھی کریں اور بعض حالتوں میں موت تک بھی برداشت کرنی پڑتی ہے(متی ۲۲:۱۰۔۳۹)

قولہ ۔ اوراگر اور کوئی عیسائی کسی ظالم کو حکام کے ذریعہ سے سزا دلائیں تو اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ توریت بھی توایسے موقعہ پر یہ اِجازت نہیں دیتی کہ ایسے مجرم کی شخص مظلوم آپ ہی آنکھ پھوڑ دے یا دانت نکال دے ۔بلکہ ہدایت کرتی ہے کہ ایسا شخص حکام کےذریعے سے چارہ جوئی کرے۔ پس اس صورت میں مسیح کے تعلیم میں کونسی زیادت ہوئی یہ تعلیم پہلے ہی توریت میں موجود تھی۔۔۔۔ مگر متی ۵ باب میں جس طرزِبیان کو آپ کے یسوع صاحب نے اختیار کیا ہو یعنی توریت احکام پیش کرکے جابجا کہا ہے کہ اگلوں سے یہ کہا گیا ہے مگر میں تمہیں یہ کہتا ہوں۔ اس طرزسے صاف طور پر ان کایہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ وہ توریت کی تعلیم سے کچھ علاوہ بیان کرنا چاہتے ہیں۔

اقول۔ ایسا ہی خیال یہودیوں نے کیا تھا جن کےجواب میں خداوند نے فرمایاکہ’’یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کوآیا۔ میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں‘‘(متی۱۷:۵)۔مرزا صاحب آپ بھی اُنہیں لوگوں کے خیالوں میں غوطے کھاتے ہو۔ کیوں نہیں مسیح کی عبادت پر غور کرتے۔ اُس نے اس بات پر کلام نہ بڑھایا تھا، کہ توریت میں مظلوم کو حکام کے ذریعہ چارہ جوئی کرنے کی کوئی ہدایت نہیں اس لئےمیں یہ ہدایت کرتا ہو ں بلکہ اس نے وہی شرع توریت سے پیش کی جس کو حکام ہی عمل میں لانے کے مختار تھے۔مظلوم حق رسی کے لئے اُن سے فریاد کر سکتا تھا(دیکھو استثنا ۸:۱۷۔۱۳)اور اُس کے علاوہ یابر خلاف بیان کرنا نہیں چاہا ہے جیسا آپ نے گمان کیا ہے۔ آپ نے ساری تقریربے جاکی ہے۔اول یہ جانو کہ خداوند نے اس بیان میں اس شرع کی طرف رجوع کروایاہے۔ جو اگلوں سے کہی گئی تھی، مگربرعکس اس کے لوگ خود ہی انتقام لینا جائز کئے ہوئے تھے۔اور قاضیوں تک جانے کی پروا نہیں کرتے تھے اوریوں شریعت کے حکم کو ٹال لیتےتھے۔

پس مسیح خداوند نے ایسی نفسانی آزادگی کو روکا ہے۔دوسری بات یہ سمجھو کہ جس طرح کل تعزیرا ت کا منشایہ ہوتا ہے ظالم آیندہ ظلم کرنے سے روکا جائےاور ایسا ہی مظلوم بھی۔ اُسی طرح توریت کا یہ حکم کہ حکام کے ذریعہ انتقام لیا جائے ظلم کو روکنے اور فریقین کو سُدھارنے کی غرض رکھتا ہے۔ اس پر خداوند فرماتا ہےکہ میں تمہیں کہتا ہوں کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا ،بلکہ  ایسے نقصان کی برداشت کرنا، تو یہ اُسی قانونی منشا کو ایک اور طرح سے پوراکرنے کی ہدایت ہے ۔یعنی برداشت کے ساتھ ۔مرزا صاحب یہ معاملہ تو بالکل صاف تھا آپ نے اُس کو خوامخواہ بگاڑا۔ یہ برداشت اس قصاص کی نوبت کو روکنے والی ہو۔

میرے اس فیصلہ سے آپ کا سارا گندہ اور نا شائستہ اور غلط اظہار جو صفہ ۴ پر کرتے ہو غلط ٹھہرااور مسیح کی عبارت بے ربط نہیں  ہے  بلکہ ایک صاف حکم ہے۔ مکرّر(بار بار)آپ کو یاد رہے کہ ان ہدایتوں سے مسیح خداوند نےکسی اخلاقی قانون کو موقوف نہیں کر دیا اور قانون قصاص چھٹے حکم کے متعلق ہے اور اس مذکور سےاُس نے اس کا منشاء قائم رکھا ہے۔یہودیوں میں قصاص کی وہ خاص صورت تھی جو مسیح نے بلفظٰ پیش کی ہے  اور مسیحی قوموں میں بھی اُس ملکی قانون کامنشاء قائم رکھا جاتا ہے۔ یعنی خطاکے مناسب عوض دینا اور وہ بھی حکام کے ذریعہ سے۔

قولہ ۔ پھر پادری ٹھاکر داس صاحب نے جب دیکھاکہ انجیل کی یک طرفہ تعلیم پر درحقیقت فعل اور قانون قدرت کا سخت اعتراض ہے تو ناچا ر ایک غرق ہونے والے کی طرح قرآن شریف کو ہاتھ مارا ہے تاکہ کوئی سہارا ملےچنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ قرآن جیسی کتاب میں بھی اُس کی یعنی انجیل کے حکم کی تعریف کی گئی ہے۔

اقول ۔ مرزا صاحب یوں کہا ہوتا ایک غرق ہونے والے کی طرح ایک تنکے کو ہاتھ مارا ہے۔ آپ کا میری نسبت یہ خیال کرنادرست نہیں ہے۔ کیونکہ میں نے انصاف کی نظر سے قرآن کی اچھی بات کو اچھا کہاہے ایسا ہی دیگر مذہب والوں  کی  اچھی باتوں کو اچھا کہا ہے ۔اور اس سےمیرا مطلب یہ تھاکہ اگرچہ گناہ نے قدرتی انسان کے ہوش بگاڑ دیئے ہیں۔ اس پر بھی انجیل کی نیک تعلیم کے لوگ قائل رہے ہیں۔ اس میں قرآن کا سہارا ڈھونڈنے کی کوئی حاجت نہ تھی۔غرض صرف یہ تھی کی وہ کتاب جو انتقام اور خون ریزی سے بھری ہے  ۔ اس میں بھی یہ نیک تعلیم مانی  گئی ہے اور جیسا کہ میں نے غیر قوموں میں اس کی تعلیم کا پایاجانابتایا جاتا تھا۔ اُس کی چند مثالیں دیتا ہوں تاکہ سہارا یک طرفہ نہ رہے بلکہ دو طرفہ ہو جائے۔

کانفوسش کا قول۔

’’جو کچھ تم نہیں چاہتے کہ تمھارے ساتھ کیا جائےوہ تم بھی دوسروں کے ساتھ نہ کرو‘‘

ارسطوؔسے پوچھا گیاکہ ہم اپنے دوستوں کے ساتھ کِس طرح پیش آئیں۔ جواب دیا گیا کہ

’’ جیسا تم چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ پیش آئیں‘‘۔

سقّراط ؔ کا قول۔

’’  کیا ہم یقین جانیں کہ جو کوئی بے اِنصافی کے کام کرتا ہے  اُس کے لیے بے انصافی ایک بُری اور بےعزتی کی بات ہے۔‘‘    ’’ہاں‘‘۔ پس کیانہ چاہیے کہ ہم نقصان کریں۔‘‘ ’’بے شک نہ چاہیے‘‘۔ ’’ جب ہمارا نقصان کیا جاتا ہے اُس کے عوض میں نقصان نہ کریں جیسا بتھیرے گمان کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں نہیں چاہیے کی ہم کسی کا نقصان کریں۔اس لیے ہمیں چاہئے کہ  ہم نہ بدلالیں یا کسی سےبدی کے عوض بدی کریں  گو اُس نے ہم سے کیسی ہی بدی کی ہو۔‘‘

اس سے یہ نہ سمجھا جائے کی قدیم اقوام میں عدوات رکھنا اور بدلا لینا موقوف تھا۔ نہیں۔ بدلہ لینا عام رواج تھا  اورفرض سمجھا جاتا تھا  ۔اور انتقام لینے کی تاریکی میں صبرکرناصرف روشنی کی چھوٹی چھوٹی کِرن کا روز رکھتا تھا اور یہی حال قُرآن کا ہے۔ پس میر ایہ مُدعا ظاہر ہے کہ باوجود نفسیانی تقاضوں کے جن کو لوگ فطرتی سمجھتے رہیں وہ اصلی اور سچّا فطرتی قانون مرقومہ متی۱۲:۷ میں آدم سے داد پاتا رہا ہے۔ مگر روح القدس کی تاثیر  کے بغیر عموماً زور مندنہ ہوا۔

قولہـ  پھر ایک آیت کا غلط ترجمہ پیش کرتے ہیں کہ اگر بدلہ دو تو اس قدر بدلہ دو جس قدر تمہیں تکلیف پہنچی اور اگرصبر کرو تویہ صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہےاور اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ گویا یہ انجیلی تعلیم کے موافق ہی ہے مگر یہ کچھ تو ان کی غلطی اور شرارت بھی ہے۔ غلطی اس وجہ سے کہ یہ لوگ علم عربیت سےمحض ناواقف ہیں اور شرارت یہ کہ آیت صریح بتا رہی ہے کہ اس میں انجیل کی طرح صرف ایک ہی پہلو درگذر اور عفو پر زور نہیں دیا گیا ،بلکہ انتقام کو تو حکم کےطور پر بیان کیا گیا اور عفو کی جگہ صبر کا لفظ ہے۔۔۔۔ ناظرین سوچ لیں کہ اس آیت کا صرف یہ مطلب ہے کہ ہر ایک مومن پر یہ بات فرض کی گئی ہے کہ وہ اس قدر انتقام لے جس قدر اُس کو دکھ دیا گیا ہے۔ لیکن اگر وہ صبر کرے یعنی سزا دینے میں جلد بازی نہ کرے۔۔۔ یعنی سزا دینے کی طرف جلدی نہ دوڑیں ۔اول خوب تحقیق اور تفتیش کریں اور خوب سوچ لیں کہ سزا دینے کا محل اور موقعہ بھی ہے یا نہیں۔ پھر اگر موقعہ ہو تو دیں ورنہ رُک جائیں۔

اقولـ مرزا صاحب میری کوئی غلطی نہیں ہے میں نے اپنا ترجمہ پیش نہیں کیا تھا لیکن شاہ عبدالقادر صاحب کا ترجمہ اور سیل صاحب کا انگریزی ترجمہ اس کے مطابق ہے اور مجھے تو آپ نے جو جی میں آیا کہہ دیا مگر آپ  نے کوئی اپنا ترجمہ پیش نہ کیا اور صرف اپنی تفسیر سے اُس آیت کی پیش کر دی ہے ۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ کی تفسیر سے قرآن میں سے رہا سہا صبربھی خارج ہوا ۔اور صبر کے معنی آپ نے سزا دینے کے کیے ہیں۔ مگر ذرا ٹھہر کر ، تاکہ سزا دینے کا محل اور موقعہ سمجھ لیں۔ جائے غور ہے کہ  اگر سزا دینے کا محل  قائم نہ ہو تو سزا ناجائز ہے اور صبر مجبوری ہوا اور کسی نقصان پانے کےسبب نہ ہوا۔ اس حال میں صبر کے معنی جو آپ نے کیے ہیں غلط ہیں ۔ کیونکہ جب نقصان ثابت نہیں تو صبر اورعفوکا فخر بیجا ہے۔ لیکن   بموجب آپ کی تفسیر کے اگر محل اور موقعہ ثابت کرلیں تو سزا دینی چاہیے اور رُکنا نہ چاہیے۔ یہ فرض ہے،اسی کا نام آپ نے صبر رکھا ہے۔ معلوم نہیں آپ سچ کہتے ہیں یا قرآن۔ اور یہ صبر وہ صبرنہ ہوا جو اِنجیل میں فرمایا گیا ہے۔ کیونکہ اُس کی رو سے نقصان اُٹھا کر دوسرے کا نقصان نہ کرنا صبر ہے۔ پس مرزا صاحب قرآن میں اِنتقام ہی اِنتقام  رہ گیا اور عفو کا محل اور موقع کوئی نہ رہا۔

اور پوشیدہ نہ رہے کہ سیل صاحب انگریزی ترجمہ قرآن کے حاشیہ پر آیت کی تفسیر میں متقدمین کی روایت لکھتے ہیں کہ’’ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی تھی اور موقعہ اُس کا جنگِ اُحد میں حمزہ (چچا محمد صاحب) کا مارا جانا تھا۔ کافروں نے اُس کی انتڑیاں نکال ڈالنے اور کان اور ناک کاٹ لینے سے اُس کی بے حرمتی کی تھی اور جب محمد نے دیکھا اُس نے قسم کھائی کہ اگر خدا نے مجھے فتح بخشی تو قریش کے ستر(۷۰) یا تیس(۳۰) آدمیوں پر ان بے رحمیوں کا بدلہ نکالوں گا۔ لیکن اُن الفا ظ کے ذریعہ سے وہ اپنی قسم کو پورا کرنے سے منع کیا گیا تھا اور اُس کے مطابق اُس نے اپنی قسم توڑ دی‘‘ مرزا صاحب کی تفسیر کے مطابق محمدصاحب پر فرض تھا کہ اپنے خون کی پیاس ضروربُجھاتے اور اِس سے یہ بھی ظاہر ہےکہ ہدایت صبر کرنے کی صرف محمد صاحب کو ایک خاص حالت میں کی گئی تھی نہ کہ ہر مومن کو۔ اور سیل صاحب بیضاؔدی سے یہ بھی حوالہ دیتے ہیں

’’ اس جگہ قرآن خاص کر محمد کی طرف اشارہ کرتا ہے‘‘۔

قولہـ  خدا کے کلام اور خدا کے کلام کا کامل معانقہ (گلے لگنا)قرآن نےہی کروایا ہے۔ تو ریت سزاؤں پر زور دیا تھا۔۔۔۔ اور انجیل میں عفو اور درگذر کی تعلیم ہوئی مگر یہ تعلیم نفس الامر (در حقیقت)میں عمدہ نہ تھی بلکہ نظام الہیٰ کی دشمن تھی۔۔۔۔ اگرچہ انجیل کی تعلیم بالکل نکمی اورسراسر ہیچ ہے، لیکن حضرت مسیح اس وجہ سے معذور ہیں کہ انجیل کی تعلیم ایک قانونی  ودائمی اور مستمر (ہمیشہ رہنے والا)کی طرح نہیں تھی بلکہ اُس محدود ایکٹ کی طرح تھی جو مختص المقام اور مختص الزمان اور مختص القوم ہوتا ہے۔ (صفحہ ۶ اور ۷ میں اسی کے متعلق مکّر روہی باتیں  واضح طور پر لکھی ہیں)۔

اقول۔ یہ بات غلط ہے کہ توریت نے صرف سزاؤں پر زور دیا تھا۔ سزا دینا اُن کے اختیار میں رکھا گیا تھا اور توریت میں اُن کی ہدایت کے لئے قوانین فرمائے گئے تھے۔ مگر لوگوں میں باہمی برتاؤ کا اصلی قانون اور ہدایت یہ تھی (احبار ۱۸:۱۹ )۔ ’’اپنی قوم کے فرزندوں سے بدلہ مت لے اور نہ اُن کی طرف سے کینہ رکھ۔ بلکہ تو اپنے بھائی کو اپن مانندپیار کر میں خداوند ہوں ‘‘پھر (امثال۲۲:۲۰)’’ تو مت کہہ کہ میں بدی کا بدلہ لوں گا پر خداوند کا انتظار کر کہ وہ تجھے بچاوے گا‘‘۔ پھر غیروں کے ساتھ  برتاو ٔکی یہ ہدایت ہے۔ خروج  ۴:۲۳ ۔۵؛۹:۲۳’’ اگر تو اپنے دشمن کے بیل یا  گد ھے کو بے راہ جاتے دیکھے تو ضرو اسے اُس کنے (گھر پر)پہنچائیو‘‘ وغیرہ ’’ اور مسافر کو بھی تصدیع (دکھ)مت دو‘‘ وغیرہ (  اور دیکھو استثنا ۱۴:۲۴۔۲۲)

پھر امثال ۲۱:۲۵:۲۳۔ ’’ اگر تیرا دُشمن بھوکا ہو اُسے روٹی کھانے کو دے اور اگر وہ پیاسا ہو اُسے پانی پینے کو دے‘‘وغیرہ۔

 راقم

جی ۔ایل ۔ ٹھاکر داس

از گوجرانوالہ