بعض آیات قرآن پر سرسری ریمارکس

Criticism on Qur’anic Teaching

Published in Nur-i-Afshan September 27, 1895

سال گزشتہ یعنےسنہ۹۴ء کےدرمیانی چندہفتوں کے پرچے اخبار نور افشاں  میں ایک مضمون بہ عنوان ’’بعض خیالات محمدی پر سرسری  ریمارکس‘‘ درج ہوا۔جس میں محمدی صاحبان کے بعض  خیالاتدینیہ در واجیہ کا خلاصہ۔ جن کو وہ اپنے  تئیں اہل کتاب  سمجھ کر قرآن  و حدیث  کے موافق  اپنے مذہبی فرایض عمل مین لانے کے لئےضروری اور موجب ثواب خیال  کرتے ہیں مقابلہ کے طور پر تحریر  کیا گیا ۔ اور جس کا نتیجہ صرف  یہی حاصل ہوا۔ کہ اُن کے وہ مذکورہ  کل خیالات  اہل کتاب مسیحیوں کی تعلیم  کے محض خلاف۔ مگر ہاں بہت کچھ تعلیم  ہنود کے موافق ثابت و ظاہر ہوئے۔ جو از روئے قرآن مشرک قرار دئے جاتے ہیں۔ اور جو امر نہایت ٍغور طلب ہے اور جس کے لئے  ادباً مکر التماس بھی کیا گیا  تھا کہ اگر اُن  کی کوئی دوسری  حقیقت ہو تو کوئی صاحب برائے مہربانی اُس کو ظاہر کر کے راقم مضمون کو ممنون و مشکور فرمائیں ۔ مگر ہنوز جس کو قریب ایک سال کا عرصہ  گذرتا ہے کسی صاحب نے خاکساری  کو ممنون نہ کیا ۔  

پس اب دوسرا مضمون بالا سے درج اخباء ہذا کیاجاتا ہے۔ جس میں قرآن صاحب کے اُن الفاظ  پر غورکرنا  کمال ضروری ہے۔ جن کے زریعہ بعض محمدی صاحبان ہم مسیحیوں پر بعض  دفعہ ہٹ دہرمی یا بے منصفی  کا  الزام  لگایا کرتے ہیں کہ ’’ قرآن تو ابجیل اور دیگر کتب انبیا  کی تصدیق  کرتا ہے۔ مگر مسیحی قرآن اور محمد صاحب کوقبول و تسلیم نہیں کرتے‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔ چنانچہ اُن آیات قرآنی میں سے جن  میں وہ  کتب سابقہ یعنے توریت و انجیل وغیرہ  کے مصدق ہونے کا اقرار کرتا  ایک یہ ہے یعنے’’قرآن بناوٹ کی بات نہیں ہے۔ مگر وہ تصدیق ہے اگلی کتاب کی اور تفصیل  ہے ہر چیز کی اور ہدایت  و رحمت  ہے اُس قوم کے لئے جو ایمان  لاتے ہیں‘‘ سورہ یوسف آیت۱۱۱۔

البتہ اِن الفاظ قرآنی کے زریعہ  مسیحیوّں کومناسب ہی نہیں۔ بلکہ نہایت ضروری ہوتا۔ کہ وہ اگرچہ قرآن  کو منجانب اﷲ اور محمد صاحب کونبی برحق تو ہر گز  نہ مان سکتے تھے۔ کیونکہ نبی اور نبوّت  کی ضرورت ۔ ضرورت پر موقف  ہے۔ جن کا خاتمہ  کتاب مکاشفات  پر  ہو چکا۔  اور اب نہ کوئی اور کتاب کی ضرورت  اور نہ کسی دیگرنبی کے ظہور کی کچھ حاجت باقی رہی جس کی بحث بدلایل کتاب عدم ضرورت ؔقرآن  کےصفحہ  ۳ سے ۱۵ تک بغور مطالعہ کرنا چاہئے ۔ تاہم وہ اُن کی  عزت و تعظیم دیگر بزرگوں کے مانند ضروری کرتے۔ جس کے لئے اُنہیں  عام طور حکم  دیاگیا ہے کہ ’’ اگر تم فقط اپنے بھائیوں کو سلام  کرو تو کیا زیادہ کیا۔ کیا محصول  لینے والے بھی ایسے نہیں کرتے ۔ متی ۵: ۲۷۔ اور جن کی خاصیت  کا قرآن میں بھی  یوں مذکور ہے ’’اور دوستی کے بارہ میں مسلمانوں  کے تو اُن کو زیادہ قریب پائیگا جوکہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہین اس لئے کہ ان میں قسیس  اور رہبان ہیں اور یہ لوگ تکبر  نہیں کرتے‘‘ سورہ المائدہ۔ آیت ۸۵۔

مگر تعجب کا مقام  ہے کہ وہی قرآن اپنے اِن الفاظ کی آڑ میں  دیگر  کتب سابقہ اورخصوصاً انجیل مقدس کو رد کرنے کا ارادہ  کر کے صرف اپنی ہی  ضرورت کو پیش کرنے چاہتا ہے۔  جو کلام اﷲ بیئبل مقدس کےمحض خلاف اور ناممکن  امر ہے۔ تو بھلا  کیونکر ہو سکے۔ مگر ہاں کوئی بیجا یا نامناسب  لفظ اُن کے یا کسی کے خلاف اپنی  زبان یا قلم سے  مسیحیوں کا نکالنا اُن کے اُصول ایمانیہ کے بالکل  خلاف  ہے۔ لیکن راستی اور حق کو  ظاہر کرنا بھی اُن  کا خاص و ضروری  فرض ہے۔ جو بیشک  اکثروں کو بُرا معلوم  ہو سکتا امر مجبوری ہے۔ چنانچہ قرآن کی اُن بعض آیتوں میں سے جو تعلیم  بیبل کے خلاف ہیں۔ بعض کا مختصراً یہاں زکر کیا جاتا ہے۔ کہ جن کے زریعہ قرآن خصوصاً  انجیل  مقدس پر اپناحملہ ظاہر کر کے اُس کی خاص تعلیم کو رد کرنے کی بدرجہا کوشش کرتا ہے۔ جن میں سے اول  اُن آیتوں* پر غور کرے جن کا زکر انجیل مقدس میں مطلق پایا جاتا اور نہ ہو سکتا  ہے۔ مگر قرآن  اُن کے زریعہ اپنا دعویٰ  اُس پر ثابت کرتا ہے۔


نوٹ: جن کا  جواب محمدی صاحبان کے پاس سوا اس کے اور کچھ نہیں کہ ’’ قرآن میں ایسا ہی لکھا ہے‘‘ سچ ہے۔ مگر انجیل کے سامنے اس کا منجانب اﷲ ہونا نہ آج تک ثابت ہوا اور نہ آیندہ ہو سکتا ہے۔ البتہ قرآن کے ایسے  دعویٰ ثابت  کرنے کےلئے وہ یہ ضرور کہا کرتے ہیں۔ کہ یہ انجیل تحریف و تبدیل  ہوگئی۔ اور وہ اصلی  انجیل ہے ہی نہیں ‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔ مگر  اُن کے ایسے  بے بنیاد و بے دلیل خیال  کی قاطع تردید معہ کامل ثبوتوں کے اکثر  مسیحی علماء کی تصانیف  میں  بھری پڑی ہے ۔ جسکو کمال  غور و فکر سے مطالعہ  کرنا نہایت  ضروری  ہے۔ اور جس کا خلاصہ یہ ہے۔ کہ  بلاشک و شبہ یہ وہی اصلی کلام اﷲ انجیل مقدس ہے۔ جو بہ زمانہ  حواریان سے آجتک  بہ حفاظت  تمام مسیحیوں کے ہاتھ  میں صحیح سلامت موجود ہے۔ کہ جس میں کچھ بد لکر بڑھانا یا گھٹانا کسی انسان کا مقدور نہیں ہے چنانچہ قرآن بھی اس امر کی پوری۔ پوری تائید  کرتا ہے۔ کہ ’’اﷲ کی باتوں (کلام )  کو کوئی  بدلنے والا  نہیں ہے‘‘ دیکھو سورہ انعام آیت ۳۴۔  ۱۱۵ و سورہ یونس  آیت  ۶۵ کو ۔ کہ جس  نہایت خطرناک و مکروہ فعل بچنے کے لئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہایت خوفناک  فتویٰ اس کے پاک کلام میں بھی درج ہوئے۔ دیکھو۔

اول ۔ وہ آیات قرآنی جن کا زکر  انجیل میں مطلق پایا نہیں جاتا۔

۱۔ سورہ المائدہ آیت  ۱۱۶، ۱۱۷۔ ( ۱۱۶) ۔ ’’اور جب خدا نی کہا اے عیسیٰ مریم کے بیٹے کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھسے اور میری ماں کو اﷲ سے الگ دو خدا مانو۔ عیسیٰ بولا تو پاک ہے مجھ سے کیونکر ہو کہ وہ بات کہوں جومیرا  حق نہیں۔ اگر میں کہتا تو مجھے  معلوم ہوتا تو میرے دل کی جانتا ہے اور میں تیرے  دل کی نہیں جانتا تو تو چھپی باتیں  جانتا ہے۔ ( ۱۱۷) میں نے اُنہیں وہی بات کہی ہے جس کا تونےمجھےحکم دیا تھا کہ تم  اﷲ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ اور جب تک  میں اُن میں رہا اُن کا نگہبان رہا اور جب تونے مجھے وفات  دی تو اُن کا نگہبان ہو گیا اورتو ہر شے پر گواہ ہے۔

آیات قرآنی مذکور ہ بالا  سے دو باتیں تشرح ہیں۔  اول یہ۔ کہ خداوند  یسوع مسیح کے اقرار کی آڑ میں بزرگان دین یعنے رسولوں۔ حواریوں اور دیگر بزرگوں نے مریم کو ایک معبود ( خدا) سمجھا۔ سوائے اﷲ کے۔ دوم۔ یہ کہ خداوند  یسوع مسیح کی الوہیت کا اقرار کیا بر خلاف اُس کے انکار کے۔ جس نے مثلِ محمد صاحب  کے ایک نبی ہو کر لوگوں کو صرف  نصیحت دی۔ کہ بندگی  کرواﷲ کی وغیرہ وغیرہ  مگر ان باتوں کا زکر انجیل مقدس میں مطلق پایا نہیں جاتا ہے۔ اور نہ کسی دیندار مسیحی کی روایت  سے آجتک  اُن کی کوئی تصدیق ہوئی لیکن تعجب ہے کہ چھ (۶۰۰)سو برس  بعد محمدصاحب کو بزریعہ وحی یہ ہدایت پہنچی۔ اب ان باتوں پر غور کرئے۔


·بقیہ فٹ نوٹ کتاب کا مکاشفات ۲۳: ۱۸، ۱۹ کو ۔ کہ جسکی کاملیت کا کامل ثبوت صرف یہی کافی ہو سکتا ہے۔ کہ اسکی تعلیم دیگر  کل مذاہب  کی تعلیموں پر غولب  ہے۔ جس کی بہت کچھ حقیقت  مضمون ’’بعض خیالات ۔


اوّل ۔ مریم انسان تھی ۔ جس کو کبھی کسی عیسائی  نے آج  تک معبود  (خدا) قرار نہیں دیا۔ جس حال کہ کلام خدا انسان کو انسان  پر صرف  بھروسا  رکھنے  پر لعنت کا فتویٰ ظاہر کرتا ہے۔ ( یرمیاہ  ۱۷: ۱۵) تو اُسکو خدا سمجھنے  کا  کس  قدر ہولناک نتیجہ۔ جس کی وجہ صرف  یہ ہے  کہ محمد  صاحب نے رومن  کیتھولک عیسائیوں کو غلطی سے مریم کی زیادہ تعظیم کرتے ہوئے دیکھ کر اُس کو پاک تثلیث  کا اقنوم  ثالث خیال  کر لیا۔ اور عیسائیوں کے سر پر یہ الزام تھوپ دیا جس  کو وہ خود کفر سمجھتے ہیں۔

دومؔ۔ خداوند یسوع مسیح کی الوہیت کے ثبوت پر انجیل مقدس میں بکثرت  شہادتیں و صداقتیں موجود ہیں جو کو  آنکھ کھولکر  دیکھنا چاہئے۔ مگر ان کا زکر بسبب طوالت قطع نظر کے یہاں پر صرف خداوند  یسوع مسیح کے چند اقول جو اس امر کہ ثبوت پر اُس میں  برملا دعوے  کے ساتھ  مذکو ر ہوئے  مندرج کئےجاتے ہیں۔ چنانچہ اُس  نے فرمایا  کہ ۔ میں باپ  کی گود  سے آیا  ہوں کہ میں  نے خدا کو  دیکھا  اور میں ہی اُس کو ظاہر کرتا ہے ( یوحنا ۱ : ۱۸)کہ ’’ میں اور باپ ایک ہوں ‘‘ ( ۱۰: ۳۰) کہ میں عدالت (قیامت) کے دِن مردون کا انصاف  کرونگا (۵: ۲۲) کہ ’’جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا‘‘ ( ۱۴: ۹) کہ ’’آسمان و زمین کا سارا اختیار مجھے دیا گیا ‘‘ ( متی ۲۸: ۱۸) کہ ’’میں  زمانہکے آخر تک ہر روز تمھارے ساتھ ہوں‘‘ ( ۲۸: ۲۰)  وغیرہ ۔ وغیرہ ۔ پس اِس قدرا قراروں اور دعووں کے سامنے قرآن کے اُس مصنوعی انکار کی  جو محض غرض


بقہ* فٹ نوٹ  محمدی پرسر سری ریمارکس‘‘ میں ظاہر ہو چکی یا آیندہ ظاہر  ہو جائیگی۔ جو امر نہایت غور ہے کہ بے تعصب  آزمایا  جاوے۔

مولوی رحمت اﷲ کے ترجمہ میں لکھا ہے ’’پس جب قبض  کیا تونے‘‘ معنے دونوں کے ایک ہی ہیں۔ مگر یہی قرآن  دوسرے مقام میں خداوند یسوع مسیح کی وفات  کا انکاری  ہے۔ دیکھو سورہ النساء  آیت  ۱۵۶، ۱۵۷۔ جس کا زکر آیندہ کیا جاویگا۔


سے کیا گیا ۔ جس کا زکر آیندہ بھی کیا جاویگا کیا  وقعت ہو سکتی ہے۔


۲۔ سورہ  النساءآیت ۱۶۹۔ ’’ اور اے اہل کتاب اپنے دین  میں مبالغہ  نہ کر  اورخداکی نسبت صرف  حق بات بولو۔ مسیح عیسیٰ ابن مریم اﷲ کا رسول  اور اُس کا کلمہ  ہے جسے  اُس نے مریم کی طرف  ڈالا تھا اور روح ہے اُ س میں ہے  (یعنے خدا میں سے) پس تم اﷲ پر اور اُس کر رسولوں پر ایمان لاؤ اور تین نہ کہو باز آؤ تمہارابھلا ہوگا‘‘ الخ۔

البتہ اس آیت قرآنی کے درمیانی الفاظ  جن پر خط کھینچا  گیا  عجیب  اور نہایت  راست اور انجیل کے موافق  الفاظ میں ( دیکھو یوحّنا ۱: ۱، ۵ ، لوقا  ۱: ۳۵)  جو اُس میں اتفاقیہ  درج ہو گئے۔ مگر تعجب کامقام  ہے کہ بہت سے محمدی  صاحبان ان پر بہت  کم خیال کرتے ہیں۔ کیا یہ عجیب خطاب  کسی دیگر  نبی کی طرف بھی قرآن  میں منصوب  ہوئے؟ ہر گز نہیں۔ مگر اُس کے آخری الفاظ  یعنے تین نہ کہو باز آؤ  تمہارا بھلا ہوگا۔ بیشک  غور طلب  ہیں۔ کیونکہ عیسائیوں کے عقیدے میں تین خدا کہنا یا ماننا محض کفر ہے۔ بلکہ وہ صرف ایک واحد  خدا کے قایٔل  میں  ( استثنا ۶: ۴، رومیوں ۱۶: ۲۷، ۱ تمطاؤس ۱: ۱۷و یہوداہ  ۱: ۲۵)  مگر ایک واحد خدا  میں اقانیم  ثلاثہ  جنے اب ۔ ابن اور روح القدس کے البتہ قایل ہیں۔ جنسے تین  خدا ہر گز لازم نہیں آتے۔ بلکہ تین اُصول  جو فی الحقیقت شخصیت میں الگ  الگ ۔ مگر زات  و صفات اور جلال  میں واھد  ( متی ۲۸: ۱۹، ۱۔قرنتیوں ۱۳: ۱۴) اُس الہیٰ ازلی و حقیقی وحدانیت میں جو  سر الہیٰ ہے کلام اﷲ کے موافق قبول کرنا منافی اُس وحدت  کے نہیں جو اﷲ کی وحدت  ہے۔ مگر وحدت  مجرویا اُس وحدت کے ضرور خلاف ہے۔ جو عقلی وحدت ہے کیونکہ اﷲ کی وحدت  میں عقلی


نوٹ* بیضاد میں بھی لکھا ہے کہ ’’ روح منہ زو روح صدر منہ‘‘ یعنے صاحب روح  ہے جو نکلی ہے اﷲ سےکا قایل  ہونا ہی کفر  ہے جس  کے صرف  ایمان اور اقرار  سے مطلق کوئی فائدہ نہیں ہے ( یعقوب۳: ۱۹) کیونکہ خدا کی وحدت  وہ وحدت ہے جو قیاس و گمان  انسانی سے بالاتر ہے ۔اس مین نہ وحدت  وجود ہے نہ وحدت عقلی اور نہ وحدت  عدوی  ہے ۔ بلکہ وہ غیر مدرک ہے جو  متشابہات  میں سے جس  کا مطلب  آج تک  نہ کوئی سمجھ سکا۔ اور نہ انسان  کی طاقت ہے کہ اُس کو سمجھ سکے س۔ ۳: سورہ التوبہ آیت ۱۱۲ ’’مسلمانوں کی جانیں اور مال اﷲ نے بعوض  بہشت خر ید کی ہیں کہ وہ اﷲ کی راہ میں لڑیں قتل کریں اور قتل ہوںٍ یہ لازمی وعدہ  ہے اﷲ پر۔ توریتؔ میں اور انجیل و قرآن  میں  اور اﷲ سے زیادہ وعدہ  وفا کون ہے سو اُس بیع پر جو تم نے اُس سے کی خوشی  کرو اور یہ بڑی مرُاد یانی ہے‘‘۔

خدا کے پاککلام توریت  و انجیل میں نہ کہیں کی راہ  میں لڑنے۔ مرنے کا حکم ہوا اور نہ  اُس کے لئے کوئی اجر ٹھہرایا گیا اور نہ ایسے  فعل پر  کوئی طرح کی بیع قرار پائی۔ بلکہ برعکس  اس کے قصداً  ایسا کرنے والے پر اﷲ کا عتاب ہے۔ البتہ بعض  مخالفین  بنی اسرائیل کی ان لڑائیوں کو جو کنعانیوں کے ساتھ ہوئیں۔ اﷲ کی راہ پر لڑنا۔ مرنا خیال کرتے ہیں۔ مگر یہ اُن کی غلط فہمی  ہے۔ اُن  لڑائیوں  کی نسبت بنی اسرائیل کو کہیں خدا کی طرف سے یہ وعدہ نہیں  ہوا کہ جو ان لڑائیوں میں قتل کریں گے یا قتل کئے جاویں گے وہ بہشت میں داخل ہوں گے۔ جن میں سے  بہتوں کو خود خدا نے اُنکی سر کشی و نافرمانی  کے سبب بعض دفعہ ہلاک کر دیا۔ دیکھو خروج ۳۲: ۲۸ و گنتی  ۱۱: ۲۳ و ۲۱: ۶ وغیرہ وغیرہ یہاں تک کہ سوائے  بچّوں وغیرہ  کے اُن  چھ لاکھ  جنگی مرد بنی اسرائیل میں سے جومصر  سے نکلے ( خروج ۱۲: ۳۷)  صرف دو یونے کالبؔ اور یشوعاؔ ہی اُس وعدہ کے ملک  کنعان ؔ میں بھی داخل  ہوسکے۔ اور باقی سب اُس جنگل بیابان میں مرمٹے (گنتی  ۲۶: ۶۵) اور نہ کہیں یہ حکم  صادر  ہوا کہ جو کنعانی اﷲ کی راہ پر ایمان لائیں اور اُس کو قبول کریں اُنہیں چھوڑ دو۔ کیونکہ وہ اُس  خدائے  عادل  و مصنف کی عالم الغیبی کے موافق انکی سخت برائیوں کے سبب اُن پر ایک قہر تھا۔ جیسا خدائے قدوس کا برتاؤ  اُس کے عین عدل کے موافق بئیبل  مقدس کے دوسرے مقاموں سے بھی بخوبی ظاہر ہے۔ چنانچہ  دُنیا  کی برائی  کے سبب اُس کو طوفان سے غارت کر دینا۔ سدؔوم  و عمورہؔ  کی شرارت اور ناپاکی  کے باعث  اُن کو گندہک  اور آگ سے بھسم  کر ڈالنا۔ فرعون کو اُس کی سخت دلی کے سبب معہ اُسکی فوج بحر قلزم میں ڈُبا مارنا۔ وغیرہ وغیرہ  مگر دیندار اور اپنے پرستاروں کو محفوظ رکھنا۔  

انجیل مقدس میں بھی خدا کی راہ میں لڑنے و مرنے کا کہیں مطلق زکر نہیں ہے۔ بلکہ اﷲ کی راہ ظاہر کرنے کی بابت  اُس میں یوں لکھا ہے قول خداوند یسوع مسیح  دیکھو میں تمہیں  بھیڑونکی  مانند بھیڑیوں کے بیچ میں بھیجتا ہوں۔  پس تم سانپوں کی طرح ہوشیار اور کبوتروں  کی مانند سادھے بنے رہو‘‘ متی ۱۰: ۱۶۔ اور اُن سے برتاؤ کی بابت جو  خدا کے کلام سے برگشتہ ہو جاتے ہیں یوں مرقوم ہے۔ ’’مناسب نہین کہ خداوند کا بندہ جھگڑا کرے بلکہ سب سےنرمی کرے۔ اور سکھلانے  پر متعد اور دکھون کا سہنے  والا ہووے۔ اور مخالفوں  کی فروتنی  سے تادیب کرے۔  کہ شاید  خدا اُنہیں تو بخشے تاکہ وہ سچائی  کو پہچانیں۔ اور وہ جنہیں شیطان نے جیتا شکار کیا ہے بیدار ہو  جا کر  اُس کے پھندے  سے چھوٹیں۔ تاکہ خدا کی مرضی  کو بجالاویں‘‘ ۲ تمطاؤس ۳: ۲۴ ۔ ۲۶۔

پس کلام خدا بئیبل  مقدس  کے موافق اﷲ کی راہ میں لڑنے مرنے یا اُس کے لئے کوئی طرح کی سختی کرنے کی قطعی ممانعت ہے۔ اور نہ عقل گوارا کر سکتی ہے کہ اس طرح کسی انسانکی دلی تبدیلی  ہو سکے مگر ہان نرمی ملائیمت  اور بردباری سے ممکن ہے جو مسیحیوں کی انجیل  مقدس کے زریعہ  دلی خاصیت  ہے اور جس کی تائیدقرآن بھی یوں ظاہر کرتا ہے کہ ’’جو لوگ عیسیٰ کے تابع ہوئے ہم نے اُن کے دلوں میں شفقت  اور مہربانی ڈالی‘‘ الخ۔ سورہ الحدید۔ آیت ۲۷۔

۴۔ سورہ صف ۔ آیت ۶۔ ’’اور جب عیسی ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیلمیں تمہاری طرف اﷲ کا رسول ہوں مجھسے  آگ جو توریت ہے میں اُس کا مصدق  ہوں اور ایک رسول کی بشارت  دیتا ہوں جومیرے  بعد آئیگا اُس کا نام احمد ہوگا‘‘الخ

مگر انجیل مقدس میں نہ کسی نبی کے ظہور کی اب کچھ ضرورت  اور نہ کسی کی آمد کا کچھاشارہ ہے۔ بلکہ برخلاف اس کے۔ خداوند یسوع مسیح نے ایسے لوگوں سے جو اُس کے بعد نبوت کا دعویٰ کریں  ہوشیار رہنے کی بابت تاکیداً یوں فرمایا  ہے۔ ’’تب اگر کوئی تم سے کہے کہ دیکھو مسیح یہاں یا وہاں  ہے تو اُسے نہ ماننا کیونکہ مسیح اور جھوٹھے نبی اُٹھینگے اور ایسے بڑے نشان اور کرامتیں دکھاویں گے کہ اگر ہو سکتا تو وہ برگزیدوں کو بھی  گمراہ کرتے۔ دیکھو میں تمھیں آگے ہی کہ چکا ۔ پس اگر وے تمہیں  کہ دیکھو وہ بیابان میں ہو تو باہر نہ جائیو یا کہ دیکھو وہ کوٹھری میں ہے تو نہ مانو‘‘ ( متی ۲۴:۲۳ سے ۲۶) کیونکہ احکامات توریت  مقدس میں جو کچھ تکمیل  طلب تھے اور جن کی تکمیل کے لئے ایک تکمیل  کنندہ ’’مسیح ‘‘کی بابت سب نبیوں نے ہمزبان ہو کر گواہی  دی۔ ( یوحنا ۵: ۳۹) وہ آچکا اور سب کچھ پورا کر چکا ( متی ۵: ۱۷، ۱۸) جس کے ثبوت کے لئے کل انجیل  کو جو تکمیل کا زخیرہ ہے بغور مطالعہ  کریں اور دیکھیں۔ تو اب کسی دوسرے  کی کیا ضرورت باقی رہی۔

تاہم بعض محمدی صاحبان نے اِس آیت قرآنی  کے موافق انجیل میں نہایت  جدوجہد سے چھان بین کی۔ مگر جب کہیں اُس کا پتہ نہ پایا۔ تو لاچار بعض نے لفظ ’’ وہ نبی‘‘  کو محمد صاحب کی طرف خداوند یسوع مسیح کی طرف ہے۔ (یوحنا ۷: ۴۰۔ ۴۱) جسکی بحث کتاب  ’’عدم  ضرورت  قرآن ‘‘ مصنفہ بادری ٹھاکر داس صاحب۔ صفحہ ۱۱۵ سے ۱۲۳ میں بہ دلایل مندرج ہے مطالعہ  کریں۔ پھر بعض نے لفظ ’’تسلی دینے والا‘‘ کو اُنکی طرف خیال کر لیا۔ جس میں صرف روحالقدس مراد ہے (یوحنا ۱۴:۱۶، ۱۷) اور جس کو خداوند نے اپنے شاگردوں پر نازل کرنے کا وعدہ  فرمایا کہ جو’’ اُس کے لئے گواہی دیگا‘‘۔ ’’اُس کی بزرگی کریگا‘‘۔ اور اُس کی باتیں (تعلیم) ان کویاد دلائیگا۔ وغیرہ وغیرہ  (یوحنا ۱۴؛ ۲۶، ۱۵: ۲۶، ۱۶:۱۴) اور جس کا نزول  بھی اُس کے وعدہ  کے موافق ۔ اُس کے صعود  آسمان  کے دس دن بعد اُس کے شاگردوں پر برملا ظاہر ہو گیا( اعمال ۱: ۲،۳) مگر محمد صاحب  کی تعلیم  غور طلب ہے۔ پس جب  اُنہوں نے اس میں بھی کامیابی  نہ دیکھی  توآخر  کا بعض  نے لفظ ’’سردار جہان‘‘ کا حضرت  پرقایم کرنے کی کوشش کی۔ کہ جس کو ہم مسیحی بھی اُن کی یا کسی کی طرف ہرگز  منصوب نہیں کر سکتے۔ کیونکیہ اپس کی مراد صرف شیطان سے ہے۔  اور جس کی نسبت یہ بھی لکھا ہے کہ  ’’اس جہان کے سردار  پر حکم  کیا گیا‘‘ کہ ’’اب اِس دُنیا کا سردار نکال دیا جائیگا ‘‘وغیرہ وغیرہ ( یوحنا ۱۲: ۳۱ ، ۱۶: ۱۱) پس اِن آخری دو ثبوتوں کی حقیقت معلوم کرنےکے لئےرسالہ’’مقال‘‘ مصنفہپادری امام مسیح صاحب ۔ صفحہ ۱۳ سے ۳۴ تک بغور مطالعہ کریں اور تسلی پائیں۔

دوم۔  بعض آیات تعلیمی قرآن و انجیل  کا مقابلہ

(۱ ) انکا ر الوہیت  خداوند یسوع مسیح۔ ۱۔ سورہ المائدہ ۱۹ ’’وہ کافر ہیں جو مسیح ابن مریم کو اﷲ کہتے ہیں۔ تو کہ کہ اگر اﷲ مسیح بن مریم کواور اُس کی ماں کو اور سب کو جو زمین میں ہیں ہلاک کرنا چاہئے تو کون اُس کے ارادہ  کو روک سکیگا۔

۲۔ سورہ ایضاً آیت ۷۹۔ ’’مسیح اور کچھ نہیں مگر ایک رسول ہے ۔ اُس سےپہلے بہت رُسول گزرچکے۔ اور اُس کی ماں اور کچھ نہیں مگر صدیقہ۔ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔ دیکھو ہم اُن کے لئے کیسی  نشانیاں بیان کرتے ہیں پھر دیکھ وہ کہاں اُلٹے  جاتے ہیں۔ تو کہ  کیا تم خدا کے سوا  اُسے پوجتے  ہو کہ تمہیں نفع نقصان  نہیں پہنچا  سکتا‘‘۔

۳۔ سورہ التوبہ  آیت ۳۰ ’’یہود نے کہا عزیز  (یعنے عزا کاہن) خدا کا بیٹا ہے۔ اور نصاریٰ  نے کہا کہ مسیح  خدا کا بیٹا  ہے۔ یہ اُن  کے مُنہ کی باتیں ہیں اگلے کافروں کی بات کے مشابہ اُنہیں خدا کی مار کہاں اُلٹے جاتے ہیں۔‘‘

۴۔ سورہ النسا آیت  ۱۶۹ کا آخری حصہ ۔ ’’اﷲ ایک ہے اس بات سے پاک  ہے کہ اس کے کوئی بیٹا ہو‘‘ الخ۔ اور دیکھو سورہ مریم آیت ۳۶ بھی۔

پس قرآن میں یہی  چار خاص آیتیں ہیں۔ جو الوہیت خداوند مسیح کے خلاف  زور شور سے بیان ہوئیں۔ جن میں سے اول میں یہ بتلایا گیا ہے کہ وہ صرف مخلوق ہے اور دوسرے کی مانند ہلاک  ہو سکتا ہے۔ دوم  میں اُس  کی انسانیت  کا ثبوت  اور کہ وہ انسان  کو نہ کچھ  نفع  یا نقصان  پہنچا  سکتا ہے۔ سوم یہ کہ خدا پاک  ہے  اُس سے جو مسیحی  اُس کی طرف نسبت کرتے ہیں۔ چہارم میں بڑی صفائی  سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ خدا کا بیٹا  نہیں ہو سکتا۔  

پس اس سے زیادہ  الوہیت مسیح کا اور کیا نکار ہو سکتا تھا۔ جو قرآن کا خاص  مدعاہے۔ اور بیشک اگر مسیحی خواہ مخواہ  بلا دلایل  ثبوتی  اُس کو (مسیح کو ) اﷲ کہکر اُس کی الوہیت کے قایٔل  ہیں تو اُن سے بڑھکر کون کافر ہو سکتا ہے۔ مگر یہاں معاملہ دگر گوں  نظر آتا ہے ۔ کیونکہ جیسے مسیحیوں  پاس اُس کی انسانیت کے دلایل  ہیں کہ وہ انسان  بن کر  ابن آدم  اور مسیح کہلایا۔ اور اس لئے خصایص انسانی یعنے کھانا۔ پینا ۔ تھکنا اور سونا وغیرہ  بھی اُ س کو لازمی  ہوئےاور جن  باتوں پر محمد  صاحب  نے زیادہ بلکہ بہت  زیادہ زور دیا۔ تاکہ اُس کی الوہیت  اور خصوصیت  کو زائل کر کے  صرف قرآن  کی ضرورت کو پیش  کریں۔ مگر چونکہ وہ  کا مل انسان تھا اس لئے  وہ گناہ کی خاصیت  سے بھی مطلق  پاک  دستبرار ہے۔ اور جس امر کی قرآن بھی پوری شہادت ظاہر کرتا ہے۔ پس یہ ہے خصوصیت  اُس کی ہم گناہ آلودہ انسانوں  کا شفیع  ہونے کی ہے مگراُس کی انسانیت  سے کہیں  بڑھکر قوی دلایل اُس کی الوہیت  کے بھی  اُنکے پاس موجود ہیں۔ جو سر الہیٰ  ہے کہ وہ ( مسیح خوبصورت  انسان دنیا میں ظاہر  ہوا۔ (فلپیوں ۹: ۵۔ ۱۱)  کہ جس قوی شہادتیں و صداقتیں کلام رباّنی  میں موجود ہیں۔ اور جب  کام عمل بیان اِس جگہ نجوف طوالت دشوار ہے۔ مگر خلاصہ کے طور پر بعض یہ ہیں۔  

اوّل۔ دلایل الوہیت مسیح (۱) نبیوں کی گواہی یسعیاہ ۹: ۶ و یرمیاہ  ۲۳: ۶ و میکاہ ۵: ۲ ( ۲) روح القدس  کی گواہی بمواجب قول مسیح یوحنا  ۱۶: ۱۳و ۱۴ و قول  رسول ۔ ۱ قرنتیون  ۲: ۳۔ ( ۳) یوحنا بپتمسہ دینے والے کی گواہی۔ یوحنا  ۱: ۱۵ سے ۲۷(۴ ) رسولونکی گواہی۔ یوحنا ۱: ۱۴ اور رومیوں  ۱: ۳ سے ۴۔  ( ۵ )  خود مسیح کے اقوال جن کا زکر پیچھے  ہو چکا ( ۶ ) اور اُس  کے زندہ ہونے کاثبوت۔ متی ۲۸: ۵۔ ۸۔

دوم۔ لفظ بیٹے کا ثبوت (۱ ) نبی کا کلام۔ زبور ۲: ۱۴ (۲ ) جبرئیل فرشتہ کی گواہی ۔ کہ ’’وہ خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائیگا‘‘  لوقا۱:۳۵ (۳ ) خدا باپ کی گواہی۔ کہ ’’ یہ میرا پیارا  بیٹا ہے‘‘ کہ ’’ تم اُس کی سُنو‘‘ متی ۳: ۱۷ و ۱۷:۵ ( ۴) خود مسیح  کا اقرار ’’میں وہی ہوں‘‘ مرقس ۶۱:۶۴۔ علاوہ بریںاور یہی  چند باتیں خلاصہ  کے طور پر کتاب ہدایت المسلمین۔ مصنفہ  پادری عماوالدین صاحب ۔ ڈی ۔ ڈی کے صفحہ ۳۸۳ و ۳۸۴ سے نقل کرنا ضروری معلوم ہوتی ہیں یعنے

پس اُس کی(مسیح کی ) الوہیت کے یہ دلایل ہیں۔ کہ اّول  بعض فقرات عہد عتیق بیان کرتے ہیں۔  کہ خدا آپ مجسم  ہو کے دنیا میں آویگا اور ایسے ایسے  کام کریگا اور یہ باتیں مسیح میں صاٖٖف  صاف پوری ہوئی نظر آتی ہیں۔

دوم۔ آنکہ ضرور مسیح نے خود الوہیت کادعویٰ کیا اور اُس کا ثبوت  بھی دیا اور یہودی اُس کے اس لئے بھی دشمن ہوئے کہ اُس نے آپ کو خدا بتلایا۔

سوم۔ اُس  سے جو قدرت ظاہر ہوئی وہ صاف  اﷲ  کی قدرت تھی اور اُس نے اُسے اپنی قدرت بتلایا۔

چہارم۔  اُس نے جو پاکیزگی اور خوبیاں  دکھلائیں وہ سب اﷲ کی زات کئ خاصے تھے اور کوئی بشر کبھی ایسا پاک ظاہر نہیں ہوا ہے۔

پنجم۔ اُس کی ساری تعلیم کا انحصار  اسی بات پر  ہے کہ اﷲ ہے۔

ششم۔ وہ اپنی خدائی کا ثبوت  اپنے تصرفات سے ہمارے زہنوں میں ابتک کرتا ہے ایسا کہ ناممکن ہے کہ اُس کی الوہیت  کا ہم اُنکار کریں۔

پس اب ناظرین خود  انصافاً فیصلہ کر لیں۔ کہ اُلوہیت  خداند مسیح کے اِن کثرت  دلایٔل کے نزدیک جو کلام ربانی میں مندرج ہیں قرآن صاحب کی وہ چار آیتیں جو اُس کی محض  انسانیت پر دلالت  کرتی۔ کس طرح کامیاب ہو سکتی ہیں۔

(۲ ) قتل مسیح کے یہودی اقراری۔ مگر محمد صاحب انکاری  سورہ النساء آیت  ۱۵۶۔ ’’اور اس قول کے سبب کہ ہم نے عیسیٰ  ابن مریم رسول اﷲ کو قتل کیا ہے۔ حالانکہ نہ اُسے قتل کیا نہ اُسے صلیب دی لیکن وہ اُن کے لئے شبیہ میں ڈالا گیا۔ اور وہ جو اُس کے بارہ میں اختلاف رکھتے ہیں اُس کی نسبت متشکی ہیں اُنہین علم حاصل نہیں لیکن وہ گمان  کی پیروی  کرتے ہیں اور بہ یقین  اُس کو قتل نہیں کیا بلکہ اُسے خدا نے اپنی طرف  اُٹھالیا اور اﷲ غالب پختہ کار ہے‘‘۔

جبکہ قرآن خداوند یسوع مسیح کی اُلوہیت کا انکاری ہے جس کے کھلے ثبوت  اُوپر مذکور ہوچکے تو ضروری  ہے کہ وہ اُس  کے فدیہ کا بھی انکاری ہے۔ جو اُس کی کامل قربانی میں اُس کے مارے جانے  کےزریعہ کامل ہوا۔ اور جس کا زکر اُس کے واقعہ ہونے سے پہلے خداوند مسیح نے اپنے شاگردوں پر برملا ظاہر  کر دیا تھا کہ ’’ سب نبیوں کی معرفت ابن آدم کے حق میں لکھا ہے پورا  ہوگا۔ کیونکہ وہ غیر قوم والوں  کے حوالہ کیا جاویگا اور وے اُسکو ٹھٹھے  میں اُڑاویں  گے اور بے عزت کریں گے اور اُس پر تھوکیں گے اور اُس کو کوڑے مار کے قتل کریں گے اور وہ تیسرے دن جی اُٹھیگا‘‘ لوقا ۱۸: ۳۲، ۳۳۔

چنانچہ اُس کے دُکھ و تکلیف سہنے اور مارے جانے کی بابت  پیشینگوئیاں  بعض نبیوں  کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ خصوصاً یسعیاہ  نبی کی کتاب ۵۳ باب میں جو قریباً سات سو برس پہلے اس واقعہ  سے کمال صفائی کے ساتھ بیان ہوئیں۔ کہ وہ یعنے مسیح ہمارے گناہوں اور بدکاریوں کے لئے گھایل کیا اور مارا جاویگا۔ اور کہ اُس کے مار کھانے سے ہم چنگے ہوئے۔ وغیرہ وغیرہ۔ کہ جن کے وقوع کی واقعی  تکمیل خود چشم دید گواہوں خصوصاً  خداوند کے حواریاں سے انجیل مقّدس میں قلمبند کی گئی۔ جنکا خلاصہ  درج زیل ہے۔

پیشینگوئیاں معہ تکمیل انجیل

۱۔  وہ بیچا اور پکڑوایا جاویگا۔ زبور ۴۱: ۹۔ زکریا ۱۱: ۱۲۔

تکمیل  متی ۲۶: ۱۴ و ۲۳ و ۲۷:  ۳۔۵۔

۲۔ وہ تنہا  اکیلا چھوڑا جاویگا۔ زکریاہ ۱۳: ۷۔

تکمیل  متی  ۲۶: ۵۶ و مرقس ۱۴: ۵۰، ۵۲۔

۳۔ وہ حقیر و زلیل  کیا جاویگا۔ یسعیاہ ۵۳: ۳  و زبور ۲۲: ۷۔۹۔

تکمیل۔ لوقا ۹: ۵۸ و یوحنا ۱۹۔۱۵ و متی  ۲۷: ۳۹۔۴۲۔

۴۔ اُس کے دُکھ و تکلیف سہنے  کی بابت ۔ زبور ۲۳: ۱۴ ۔۱۷ و زکریاہ ۱۲: ۱۰ و یسعیاہ ۵۳: ۲،۵، ۶۔

تکمیل یوحنا ۱۹: ۱۔ ۳  و متی ۲۷:  ۳۵۔ ۳۱۔

۵۔ اُس کے کپڑوں کی تقسیم  کی بابت  زبور ۳۳: ۱۸۔

تکمیل متی ۲۷: ۳۵۔

۶۔ اُس کی موت کی جانکنی کی بابت۔ زبور ۳۳: ۱ یسعیاہ ۵۳: ۴۔ ۵۔

تکمیل ۔ متی ۲۷: ۴۶ و لوقا ۳۳: ۴۴۔

۷۔ اُس کی قبر یادفن ہونے کی بابت  یسعیاہ ۵۳: ۹

۸۔ اُس کے تین دن قبر میں رہنے کی بابت (قول مسیح) متی ۱۲: ۴۰۔


تکمیل ۔ متی ۲۸: ۱۔ ۶ و ۱ قرنتیوں ۵: ۴۔

نوٹ۔ جن میں سے بعض کا مضمون بالکل صاف ہے۔ مگر بعض  شارہ یا کنایہ کے طور پر مذکور ہوئیں۔ مگر اُ ن کا مطلب بھی تکمیل انجیل کے مقابلہ  سے بخوبی کھل جاتا ہے۔ جنکا زکر آیندہ  بیان مسیح کے جی اُٹھنے میں کیا جائیگا۔

پس اب مقام  غور ہے۔ کہ نبیوں کی اس قدر شہادتیں اُس کے دُکھ تکلیف اُٹھانے اور مارے جانے پر کلام ربّانی  میں موجود۔ اور جن کی پوری تکمیل چشم  دید گواہوں سے انجیل میں ثابت۔ یہودی  اپنے جرم کے خود اقراری ۔ نیز رومی حاکم  اور اُس وقت کے بت پرست مورّخ اس واقعہ کے گواہ۔ مگر نہایت تعجب ہے کہ محمد صاحب  جو اس واقعہ کے چھ سو برس بعد  پیدا ہوئے۔ اِن سب شہادتوں  اور صداقتوں کو رد کرنے پر مستعد۔ بھلا اِس انوکھے خیال  کا بھی کوئی ٹھکانا ہے۔ جو صرف  اس طرح  کا خیال ہے۔ کہ اگر کوئی اس وقت اپنی تصنیف میں سکندر  اعظم مقدوؔنیہ کے بادشاہ کو ہندوستان  میں آنے کا اِنکار کر کے یہ کہ۔ کہ وہ سب جھوٹے ہیں جو اُس کا پنجاب تک  آنا تسلیم کرتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ تو بھلا  ایسے شخص کو تواریخ دان کیا کہینگے۔

سوم۔ بعض آیات  قرآن  غور طلب

سورہ المائدہ ۵۰، ۵۱ ’’ یعنے  اور پیچھے ہنمے اُن (رسولوں) کے قدموں پر مریم  کے بیٹے عیسی کو بھیجا  جو اگلی ( کتاب ) تورات کی تصدیق کرتا اور اُس کو ہم نے انجیل دی جس میں نورا ہدایات  ہے اور اگلی (کتاب)  تو راۃ  کی تصدیق ہے اور جو ہدایت اور نصیحت  ہے پرہیزگار وں  کے لئے۔ اور چاہئے  کہ جنہوں نے انجیل پائی ہے  حکم کریں اور اُس کا جو اﷲ نے اُس میں نازل کیا ہے اور جو کوئی ھکم نہ کرے اُس کو جو خدا نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ بدکار  ہیں‘‘۔

آیات مذکورہ بالا سے چار باتیں ثابت ہیں جن کا قرآن اقراری ہے۔ اول یہ۔ کہ انجیل تورات کی تصدیق کے واسطے نازل ہوئی جو  موسیٰ پر اُتری تھی۔ دوم یہ ۔ کہ انجیل خدا کی طرف سے ہدایت نور اور نصیحت  ہے۔ سوم یہ ۔ کہ خدا نے اُس میں جو کچھ ارشاد کیا ہے چاہئے کہ لوگ اُس پر عمل کریں۔ چہارم  یہ ۔ کہ جو لوگ  عمل نہ  کریں گے اُس پر جو کچھ خدا نے اُس میں ارشاد کیا ہے تو وہ لوگ گنہگار ہیں۔

مگر اب نہایت تعجب کا مقام ہے ہ وہی قرآن اپنے ان اقراروں کے خلاف  انجیلکی خاس تعلیم یعنے الوہیت خداوند یسوع مسیح اور اُس کی موت کے زریعہ  کفارہ آمیز کام سے جس کی شہادت و صداقت نبیوں کے کلام کے موافق انجیل مقدّس سے بخوبی ثابت و ظاہر ہوئی۔ اور جو انسان کی حصول  نجات  کےلئے ازل سے ٹھہرایا گیا تھا ( افسیوں ۳: ۱۱) جس کا زکر پیچھے  مزکور ہو چکا۔ بالکل انکاری ہے۔ بلکہ اور بھی چند باتیں نہایت گور طلب ہیں۔ کہ جن کا مطلب و منشا تعلیم انجیل کے محض  خلاف ظاہر  ہے جو زیل میں درج کی جاتی ہیں۔ تو اب مجبوری ہے کہ قرآن کے کلام کو کتب سابقہ  یعنے توریت و انجیل کامصدق کیونکر سمجھا جاوے۔ چنانچہ

( ۵) یہ قرآن جہان کے پروردگار  کا کلام اور اُس کا نازل کیا ہوا ہے۔ سورہ الحاقہ آیت ۳۸ سے ۴۳ تک ’’میں قسم کھاتا ہوں اُن چیزوں کوجو دیکھتے ہو اور اُن کی جو نہیںدیکھتے کہ تحقیق یہ (قرآن) عزت والے رسول کا قول ہے۔ وہ کسی شاعر کا کہا ہوانہین تم تھوڑا یقین کرتے ہو۔ اور نہکسی کاہن کا قول ہے تم  تھوڑا  دھیان کرتے ۔یہ جہانکے پروردگار کا نازل کیا ہوا ہے۔

پیچھے مذکور ہو چکا ہے کہنبی اور نبوت کی ضرورت، ضرورت  پر موقوف ہے۔ جس کا خاتمہ کتاب مکاشفات  پر ہو چکا اور جس کے آخر اُس شخص پر جو کلام رباّنی  میں کچھ زیادہ کرے۔ یا اُس میں سے کچھ کم کرے خدا تعالیٰ کی طرف سے نہایت خوفناک فتوئے درج ہوئے۔ یعنے ’’ میں ہر ایک شخص  کے لئے جو اُس کتاب کی نبوت کی باتیں سنُتا  ہے یہ گواہی دیتا ہوں کہ اگر کوئی اِن باتون میں کچھ بڑھاوے تو خدا اُن آفتوں  کو جو اس کتاب میں لکھی ہیں اُس پر بڑھاویگا۔ اور اگر کوئی اس نبوت کی کتاب کی باتون میں سے کچھ نکال  ڈالے تو خدا اُس کا حصہ کتاب حیات سے اور مہر ِمقدس سے اور اِن باتو ں سے جو اِس کتاب میں لکھی ہیں نکال ڈالے گا۔‘‘ مکاشفات ۲۲: ۱۸، ۱۹۔ پس اِس الہیٰ خیال کرنا کس طرح ممکن ہو۔ علاوہ بریں قرآن  کی عدم ضرورت ۔ معلوم کرنے کے لئے کتاب عدم ضرورت قرآن  مصنفہ پادری ٹھاکر داس صاحب بغور مطالعہ۔ کرنا چاہئے تسلی ہو جائیگی۔  

(۶) قرآن کے موافق راہ نجات۔ سورہ العمران آیت ۲۹۔ ’’اھ محمد تو کہدے  کہ اگر تم خدا کی محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو کہ خدا تم سے محبت کرے اور تمھارے گناہ بخشدے اور خدا مخشنے  والا اور مہربان  ہے ۔ تو کہدے کہ تم اﷲ اور اُس کے رسول کی تابعداری  کرو پھر اگر وے برگشتہ ہوں تو بیشک خدا کافروں کو دوست نہیں رکھتا‘‘۔

انجیل مقّدس میں لکھا ہے کہ گنہگاروں کے راست باز ٹھہرائے جانے اور پاک کئے جانے کے لئے صرف ایک ہی عسیلہ ہے یعنے خداوند یسوع مسیح کا کامل کفارہ ٹھہرایا گیا۔  جو صدق دل سے اُس پر ایمان لاتے ہیں وہی اپنے گناہوں کی معافی حاصل کریں گے۔ چنانچہ یوحنا ۳: ۲۶ میں لکھا ہے۔ کہ ’’ وہ بیٹے پر ایمان لاتا ہے سو ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے  اور وہ جو بیٹے پر ایمان نہیں لاتا سو زندگی کو نہ دیکھے گابلکہ خدا کا غصب اُس پر رہتا ہے ‘‘۔اور  مرقس ۱۶: ۱۵ میں۔