اہل فکر پر بائبل کے استحقاق

The Claims of the Bible

Published in Nur-i-Afshan March 16, 1894

بائبل ایک یو نانی لفظ  ہے جس کئ معنے ہیں۔ ( دی ؔبک) الکتاؔب ۔ سکا ٹلنڈ  کے مشہور  ناولسٹ  اور شاعر سرواؔلٹر  سکاٹ  صاحب نے  جب حالت ِ نزع میں تھے اپنے رشتہ دار لاکؔ  ہرٹ سے کہا کہ میرے پاس ( دی بک)  الکتاب لے  آؤ۔ لاک ؔ ہر ٹ  حیران تھا کہ میں کونسی کتاب لیجاؤں ۔ اوراِدہر اُدہر جھانک رہا تھا کہ کیا کروں کہ سر ؔوالٹر  سکاٹ نے پھر کہا کیا دنیا بھر میں کو ئی اور کتاب بھی ہے۔ لاکؔ ہرٹ  اب سمجھ گیا کہ کس  کتاب  سے اُن کی مراد  اور  جھٹ بائبل (دی بک) اُن کے پاس لے گیا۔

واقعی  یہ کتاب  ( دی بک)  الکتاب  ہے۔ دنیا بھر میں سب سے قدیمی ۔ مختلف زمانوں میں مختلف  مزاج ۔ حیثیت ۔ عادات  معلومات کے آدمیوں کے زریعہ لکھی گئی مگر تو بھی ایک ایسی  نادر کتاب کہ باوجوداِن  تمام  تفاوتوں کے روح ِالہٰیکی ہدایت سے اُس میں اول سے آخر تک  ایک عجیب سلسلے ایک غریب رشتہ پایا جاتا ہے کہ جو ؔکچھ اول میں پہلے ہی پہل  ابتدائی  صورت میں لکھا گیا آخر  تک وہی ؔ کچھ ا،س انداز سے اِنتہا تک  پہنچایا گیا کہ صبح کی ابتدائی چمک اور آفتاب  نصف النہار کی دمک کا سما باندہ دکھلایا۔

ہر زمانہ  میں اس کتاب پر بڑی  چھان  بین  جی گئی  ہے اور آج کل اس ملک میں بھی اہل فکر  اس کو پڑھتے ہیں  اِسپر  گفتگو کرتے ۔ غور کرتے۔ کھوجتے ہیں۔

ماہران علم  ادب اِس  کتاب کی انگریزی  لٹر یچر کے مداح  میں اور طالبعلمان زبان انگریزی زبان دانی کے حصول کے لحاظ  سے اِس کتاب  کو عزیز رکھتے ہیں  مگر ہمارا منشا اِس وقت یہہ نہیں ہے کہ اس کتاب کی اس قسم کی خوبیاں  کا اظہار کریں۔ ہم ان سے قطع نظر کر کے ایک اور طرف آپ کی فکر کو متوجہ کرتے ہیں ۔ اور وہ یہہ ہے۔ 

منجملہ دیگر مسائل کے دو نہائت ہی ضروری  مسئلے اِس کتاب مین اول سے آخر تک پیدایش کی کتاب سے لیکر مکاشفات کی کتاب تک بڑی  صفائی  کے ساتھ  پائے جاتے ہیں۔  اور یہہ دونوں ایسے مسایل ہیں  جو کسی دوسری  کتاب میں  جو الہامی ہونے کا دعویٰ  کرتی ہیں اس طور  پر اور اس صفائی کے ساتھ  پا ئے  نہیں جاتے بلکہ یوں  کہیں  کہ بالمقابل  ہیں  ہی نہیں ۔ اور وہ یہہ ہیں۔

اوّل ۔ مسئلہ گناہ۔

دوم ۔نجات  کا طریق الہیٰ۔

یہ کتاب مثل  دیگر کتابوں کی اصلیت اور  کراہیت کو کم کر کے نہیں دکھلاتی  ہے بلکہ صاف صاف بتلاتی ہے کہ گناہ دید و دانستہ  فعل ہے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی صریح  نافرمانی  ہے اور اُس کے احکام کا توڑنا ۔  بائبل میں آدم زاد کے گناہ کانقشہ اس صفائی سے کھینچا گیا ہے ( دیکھو خصوصاً  اِنجیل  متی ۔ کوہی وعظ) کہ جواس کو  صدق دل سے پڑھتا  ہے  اپنے گناہگار دل کا عکس اُس میں پاتا ہے۔

کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک پادری صاحب  بائیبل  سے بڑہ کر گناہ کا زکر ایک افریقہ  کے سردار کے روبرو کر رہے تھے۔  سنتے سنتے طیش  میں  آکر وہ سردار بول اُٹھا ۔ تجھکو میری نسبت کس نے  خبر دی  ہے۔ تجھکو میرے حال سے کب  واقفی ہوئی۔ جب ڈاکٹر  ڈف صاحب  کلکتہ میں نوجوانوں  کی ایک جماعت کو بائبل  پڑ ہا  رہے  تھے اور گناہ کا حال بائبل  سے بتا رہے تھے ایک زی عقل سنسکرت  دان تعلیم یافتہ برہمن  نوجوان  حیران ہو کر کہنے لگا۔  اے  صاحب میرے دل کے حال کی نسبت آپ کو کہاں سے خبر لگی یہہ تو ٹھیک  میرے دل کا حال  ہے جو آپ بتا رہے  ہیں۔ غور کا مقام ہے کہ اُس کندانا تراش وحشی سردار  کا ریمارک اور اس مہذب  تعلیم یافتہ برہمن کا قول اس کتاب کی نسبت کیا سّچا ہے۔ سچ پوچھئے تو یہ کتاب  انسان کے دل کا شیشہ  ہے۔ یہ ہر فرد بشر  کو اُس  کی اصلی حالت  بتلا کر اُسے  گویا جا پکڑتی ہے۔  اور یہ امر یعنے اپنے آپ میں ایسا پرُ زور اندرونی  ثبوت  رکھنا اِس امر پر دال ہے کہ یہ کتاب منجانب اﷲ ہے اور  ہر صاحب فکر ( خواہ افریقائی سردار سا وحشی  ہو یا تعلیم  یافتہ  برہمن  کا سااِنلاٹینڈ ہو)  کے غور اور فکر کے لایق  ہے۔

دوسرے امر قابل غور جو ہر فرد  بشر  کے لئے اذحد ضروری ہے وہ  آدم ذاد کی نجات  کا الہیٰ  انتظام ہے۔ یہ مسئلہ بھی مثل  مسئلہ گناہ کے بڑی صفائی سے اِس کتاب میں بیا ن  کیا  گیا ہے  اور سادہ سادہ اور عام فہم الفاظ میں نجات کا الہیٰ  طریقہ  بتلایا گیا ہے۔ انجیل  یوحنا ۳: ۱۷  اور انجیل  متی ۱: ۲۱ وا عمال  ۴: ۱۲ میں یوں مرقوم ہے۔ کیونکہ خدا نے جہان کو ایسا پیار  کیا ہے کہ اُس نے اپنا  ہے کہ اُس نے اپنا  اکلوتا  بیٹا  بخشاتاکہ جو کو ئی اُسپر ایمان  لاوے۔ہلاک نہ ہوئے  بلکہ ہمیشہ کی زندگی پاوے۔ اور وہ بیٹا  جنیگی اور توُ اُس کا نام یسوع  رکھیگا  کیونکہ وہ اپنے لوگوں کو اُسنکے گناہوں سے بچائیگا۔ اور کسی  دوسرے سے نجات نہیں بخشا گیا جس سے ہم نجات پا سکیں۔

اِن آیات کے پڑھنے سے ہم کو اؔول یہ معلوم ہوتا ہے کہ نجات کا الہیٰ طریقہ کیسا سادہ اور عام فہم ہے۔ دوؔم یہ  کہ  کو ئی شخص خودبخود اپنے لئے نجات حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ سومؔ یہ کہ ہماری نجات صرف  خدا  سے ہے اور چہاؔرم  یہ کہ  نجات کا الہیٰ طریقہ یہ ہے کہ ہم ایمان لائیں۔ خدا تعالےٰ کہتا ہے آزماؤ۔  پرکھو۔ جس طرح کو ئی  بیمار  چنگا نہیں ہو سکتا  ہے جب تک وہ دوا کو کھا کر  نہ آزمانہ  لیویں ہم نجات نہیں پا سکتے ہیں اگر کوئی بیامر کسی  دوا کو دیکھکر ناحق  کی  حجت  کرے کہ یہ دوا کڑوی  ہے یا اُس  کی رنگت  خراب ہے تو کیا اُس کوحکیم  نہ کہے  گا کہ  اُس کو  کھا کر دیکھ۔ اِس  کا فائدہ کھانے بغیر حاصل  نہ ہوگا۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کہتا ہے پرکھو۔ آزماؤ اور مستفید ہو۔

(۳ ) اب ہم زرہ  بائیبل کی عجیب فتوحات پر غور کریں۔ تقریباً  دس برس  گزرے  ہین کہ ہندوستان  کے دارالخلافہ میں ایک بڑی  عظیم الشان  نمایش  گاہ ہوئی تھی۔  ہزارہا وزیٹر تمام دنیا۔ ایشیا ۔ یورپ۔ افریقہ اور امریکہ  سے اُس کی سیر کرنے کو آئے۔ مختلف ملکوں کی عجیب و غریب  چیزیں۔ اِس نمایش گاہ میں دور دور سے بھیجی گئیں ۔ لیکن ایک چیز ایک کمرہ کے ایک کونہ میں تھی جس کو لوگ بڑی  حیرانی  سے دیکھتے تھے۔ یہ ایک گول میز تھی جسکا  ڈایمٹر  ۷ فٹ  کا تھا یہ میز  ایک ہی تختہ سے بنائی ھئی تھی ۔ کہیں اس کے جوڑ نہ تھا۔ کاریگر  خوردبین لگا کر اس کو بڑے غور سے دیکھتے  تھے مگر کہیں کو ئی  جوڑ نہ  پاتے  اور حیران ہوتے تھے۔  مگر طرفہ ہجر ا یہ تھا  کہ اُس  پر اُس  وقت کی  تمام معلومہ  زبانوں  کی ایک ایک جلد بائبل کی دھری تھی۔  یہ ایک نہایت ہی عجیب بات  ہے کہ  جہاں جہاں بائبل گئی نہ صرف وہاں کی لغت اور زبان کو اُس  نے بڑی  ترقی  دی۔ بلکہ لغتیں وجود میں آئیں۔ جہاں لوگ اس قدر وحشی  تھے کہ نہ اُن کی کوئی لغت تھی نہ صرف  تہجی وہاں  پادری  صاحبان نے جا کر اُس وحشیوں کو  اُن  کی زبانوں  میں بائبل دینے کی خاطر لغت کی بنیاد ڈالی۔ حروف تہجی بنائے  اصپ زبان کو تحریر  میں لائے اور اُس  کو رونق دیکر بائبل کا ترجمہ اُس  زبان میں کیا ۔ اب بتائے  کہ دنیا کے صفحہ  پر کیا کو ئی اور کتاب  ہے  کہ جس سے اِس  قدر  فائدے  پہنچے ہیں۔ کیا یہ بائبل کی فتوحات  کا ایک کرشمہ نہیں۔

دنیا میں آج کل  جس قدر تہذیب  نے ترقی کی ہے جس قدر  نئے معلومات  ہوئے ہیں اورہر طرح کی آسایش و  ترقی ہو رہی ہے کیا یہ بائبل کی فتوھات کی ایک نظر نہیں۔

اور آخر کار  وہ  اثر جو یہ کتاب  انسانی  کے دلون پر کرتی ہے۔ شریروں  کو خدا پرست وحشیوں کو تہذیب  یافتہ گنہگاروں کو نجات یافتہ۔ کیا یہ سب اس کی اعلیٰ فتوحات کی نظریں نہیں ہیں۔

(۴ ) پس جس حال کہ اس کتاب کی فتوحات  کا یہ حال  ہے تو کیا مناسب  نہیں کہ اہل فکر  اس کتاب پر غور کریں۔