یونانی اور محمدی اور ہندو معجزوں وغیرہ اورمسیحی معجزوں کا فرق

Biblical Miracles
and Greek, Islamic and Hindu Mythology


Published in Nur-i-Afshan July 12, 1895
By Dina Nath Sahd


غیر اقوام کے معجزے صرف وہم اور فضول اور بلا مطلب  اور بے گواہ اور اکثر حدیثوں اور روایتوں اور فسانوں میں  جن کو وہ الہامی نہیں م،انتے۔ پائے جاتے ہیں۔ لیکن اُن کی الہامی کتابوں میں زرابھی زکر نہیں ہے۔ چنانچہ یونانیوں میں وسیشین بادشاہ کا ایک اندھے اور لنگڑے کو چنگا کرنا۔ اور محمدیوں میں صاحب پر ہمیشہ بادل کا سایۂ رہنا اور کھانا  اور پھل  اُن کے لئے آسمان  سے آنا۔ اور چاند کو دو ٹکڑے کر کے دونوں آستینوں میں لے لینا۔ہندوؤں میں اگست منی کا سمندر کو پی جانا ۔ اور پھر پیشاب کرنے سے پانی کا کھارا ہوجانا۔ شوکا  اپنے بیٹے  گنیش کا سر کاٹنا اور بجائے اس کے ہاتھی  کا سر لگانا۔ وغیرہ۔

اے ناظرین  نور افشان  آپ خواہ یونانی ہوں یا محمدی یا ہندو یا مسیحی۔ لیکن براہ نوازش اپنے بیدار مغز اور تحقق دل پر سے تعصب  اور طرفداری کا نقاب الٹکر چشم بنیا اور گوشن پیش سے برھ سنکر دل دانا سے گور اور فکر کو کام  میں لاکر مندرجہ   بالاعنوان کی نوشیروانی  داد دیں۔ کہ کیا  بیانشدہ معجزات مین کسی زی عقل فرد بشر کو تسکین  اور تشفی ہو سکتی ہے۔  کہ وہ صحیح ہیں۔ یا کسی مطلب  اور فواید  کے لئے ظہور  میں آئے۔ یا کوئی شخص شہادت دے سکتا ہے۔ کہ میرے سامنے واقع ہوئے یا کہیں اور قرآن  اور دیدوں میں ان  کا کوئی زکر پایا جاتا ہے۔  لیکن مسیح معجزوں اور بیان شدہ معجزوں میں۔ اگر میں یہ کہوں کہ دن اور رات کا فرق پایا جاتا ہے۔ تو میری دانست  کافی نہوگا۔ بلکہ میری رائے میں جتنا آسمان اور زمین  میں فرق ہے۔  اتنا ہی مسیحی اور بیان شدہ معجزوں میں کہنا پڑے گا ۔ کیونکہ مسیح کے معجزے  اول تو بہت صاف اور صریح اور با ضرورت  تھے۔ چنانچہ لکھا  ہے۔ کہ جب ہمارے خداوند یسوع مسیح نے اُس شخص کو کہ جس کا ہاتھ سوکھ گیا تھا۔ چنگا کیا۔ تو پہلے یہ جملہ  ( کہ تم میں کون ہے جس کی ایک بھیڑ ہو۔ اگر وہ سبت کے دن گڑھے میں گرے۔ وہ اُسے پکڑ کے نہ نکالے ) زبان مبارک پر لایا۔

دویم  دوستوں اور دشمنوں کے سامنے ظہور میں آئے۔ سویم۔ شاگردوں نے اُن معجزوں کو صحیح مانا۔ اور اُن کی سچائی کے اظہار مین اپنیجان تک بھی دیدی۔  

چنانچہ تمثیل زیل کے بیان سے ناظرین کو پورا پورا  اطمینان ہو جاویگا۔ کہ مسیحی معجزات درست اور صحیح ہیں۔ فرض کرو۔ کہ بارہ شخص  جن کو ہم معتبر اور ہوشیار مانتے ہیں۔ برے تحمل اور خاکساری اور عجز اور بردباری اور سنت سے ایسے عجیب کاموں کا۔ جو کہ اُن کےچشمدیدہ ہوں بیان کریں اور ملک کا حاکم اُن کو اپنے حضور طلب کر کے الگ الگ یہ فرمان سناوے۔ کہ یا تو تم اپنے فریبی اور دغا باز ہونے کے اقرار کرو۔ ورنہ تمکو پھانسی دیجاویگی۔ لیکن وہ سب ہم ہم آواز ہو کر اپنے راست باز ہونے کا اقرار کریں۔ اور وہ حاکم ان کو ایک ایک کر کے پھانسی دیتا جاوے۔  اور پھر بھی وہ سب کے سب اپنی سچائی  پر ثابت قدم رہیں اور پھانسی پانے اور شکنجے  میں کھینچے جانے سے کچھ خوف و خطر نہ رکھیں۔ تو اے ناظرین  باوقار  کیونکر انکے بیانات کو صحیح اور درست نہ سمجھا جاوے۔

چہارم۔ یہودی اور غیر قوم دونوں اُن معجزوں کے قایل ہیں۔  

پنجم ۔ اس کے دشمنوں  نے اُس کے حق  ہونے کا  اقرار کیا۔  اور مسیح کی وفات کے بعد بوقت اظہار کسی نے  تردید نہ کی۔  بلکہ یہودیوں کی کتاب تالمود  میں زکر ہے کہ عیسیٰ نے بہت عجیب کام دکھلائے۔ لیکن اُس کی قدرت جادو گری سے منسوب کرتے ہیں۔ اور بھی بہت عے عداوتی نوشتوں میں پایا جاتا ہے۔ کہ وہ کوڑہیوں کو چنگا کرنے اور مردوں کوزندہ کرنے کی اور مردوں کو زندہ کرنے کی قدرت اور طاقت رکھتا تھا۔

سلیس  اور بے دین مخالف بھی مسیح کے کامون سے حیران ہو کر جھٹلانے کی غرض سے اُن کو جادو گری سے  منسوب کرتے ہیں۔

جولئین۔ بھی اُن معجزوں کا مقر ہے۔ لیکن اس خیال سےکہ یہ کام الوہیت  کے ہیں۔ جٹھلانے کے غرض سے یوں  لکھتا ہے۔ کہ اندھوں کو لنگڑوں کو چنگا کرنا اور ناپاک روحوں کو نکالنا کچھ عجیب بات نہیں ہے۔

ششم۔ سب سے نادر معجزونکی  یاد گاری میں آئین دین اور رسوم مقرر ہونا۔ چنانچہ اتوار کا دن مسیح کے جی اُٹھنے  سے اور رسم بپتمسہ اور عشائے ربانی اس کی موت اور جی اُٹھنے کی یادگاری میں مقرر ہوئے۔

دینانا تھ  شاد