فصل ہشتم

عیاشی اور معجزہ نبوت

اب ہم بس کرتے ہیں گو حضرت کی عیاشی کا اعمال نامہ کوتاہ نہیں ۔ یہ سب ایسی شرم کی باتیں ہیں جن کو مسلمانوں نے بڑے ادب پر بڑےفخر کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مگر اُس زمانہ میں ہم اپنی قلم سے یہ نقل کفر بھی نہ کرتے اگر یہ واقعات اس پیشوادین کی زندگی کے جزواعظم نہ ہوتے۔ اگر ان واقعات سے اُس کےپیرومعزز اور حق گو مورخین و معترضین کو جھٹلانے اور اپنے نبی کی عیب پوشی کر کے اس کو ضرورت اور حقیقت سے زیادہ پاک باز ٹھہرانے کی غرض سے قطعا ًانکار نہ کرتے۔ ہم بھی اس ناگفتہ بہ بے شرمی کے کارخانہ کو نہ کھولتے بلکہ اُس پر مٹھی خاک ڈالنے کو راضی ہوتے ۔ پر ہم مجبور ہیں ،مخالف کو جو اب دینا فرض ہے۔ حضرت ﷺکی سیرت لکھنے والےایمانداروں نے حضرت کی جورؤوں کے حال مفصل تحریر کئے ہیں اور اسکے ساتھ حضرت کےوہ تعلقات بھی جن کو بجز زوجہ شوہر کے کسی کو نہ جا ننا چاہئے۔ خود زبانی اُن کی ازواج مطہرات کے بیان کئے ہیں۔ مسلمانوں نے حضرت کی عیاشی کو بھی بفقدان دیگر معجزات میں سے ایک معجزہ نبوت سمجھا ہواہے ۔اور وہ معذور ہیں کیونکہ خود حضرت نے اُنکو یہ دھوکا دیا بلکہ یہ سمجھا دیا کہ اُن کو آسمان سے قوت باہ وامساک کے نسخے ہاتھ لگے ہیں۔اور حضرت کے اس نمونہ نے اُن کی اُمت کے اخلاق کہاں تک برباد کر دیئے ہیں۔ میں بعض ثقہ دراز ریش مولویوں کو شاہدبناتا ہوں۔ چنانچہ ترجمہ مدارج النبوۃ جلد اول صفحہ ۷۲۷میں ہے:

’’ابن سعد نے طاؤس اور مجاہد سےروایت کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو چالیس آدمیوں کی قوت جماع میں دی گئی تھی۔۔۔ اور صفوان بن مسلم سے مروی ہے کہ جبرائیل میرے پاس ایک دیگ پکی ہوئی لائے پس میں نے اس دیگ میں سے کھایا پس چالیس مردوں کی قوت مجھ کو جماع میں دی گئی‘‘۔

حضرت جبرائیل کو بجز قوت باہ و امساک کی دیگ بنانے کےاور تو کوئی کام رہا نہیں۔ شاید یہی جبرائیل ہیں جن کو یہوداپنا دشمن کہتے تھے اور جو حضرت پر وحی لاتے تھے۔ یہیں سے طب نبوی میں معجون ہاشمی کی ایجاد ہوئی۔ اسلام پر اس کا اثر یہ ہوا کہ:

’’ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نکاح کروکیونکہ بہتر اس امت میں سے وہ شخص ہے جس کی بیبیاں بہت ہیں۔۔۔ اور بالاتفاق اہل عرب کی خوشی اور فخر اور فضیلت مردوں میں جماع کی قوت میں ایک امر مقرر ہے اور اس پر اس سے زیادہ اور دلیل کیا ہوگی کہ سید انبیا صلے اللہ علیہ والہ وسلم اس کا م کے کرنے والے تھے اور نکاح کا حکم کہ چار عورتوں کے ساتھ تک کرنے کا ہے آپ کو اس سے زیادہ مباح ہوا۔۔۔ اور آنحضرت نے فرمایا میں صبر کرتا ہوں کھانے اور پینے سے اور نہیں کرتا ہوں عورتوں سے۔۔۔ اور حضرت کو جو جماع کی قوت تھی وہ بھی معجزہ میں داخل ہے۔ کیونکہ ایک شب میں وہ سب بیبیوں سے مباشرت فرماتے تھے‘‘(صفحہ۷۲۷۔۲۲۹)۔

کہو ہمارے مخاطب کا کلام کیسا صادق آیا’’ فعل کا اثر ہمیشہ قول سے زیادہ ہوتا ہے ( اور یہاں قول سے زیادہ فعل دراصل بھی تھا)۔ لہٰذا جب بادشاہوں کے متعدد محلات ہوئے تب رعایا اُن کی تقلید سے کب چوکتی تھی‘‘(صفحہ۳۰۲) اور یہاں تقلید نہیں بلکہ سنت نبوی ہے۔ اس پر اس سے زیادہ دلیل کیا ہوگی کہ ’’سید انبیا ﷺ اس کا م کے کرنے والے تھے‘‘۔پس اب قرآن مجید و حدیث و سنت نبوی اور کلام اصحاب و تفاسیر معتبر ہ کو چھوڑ کر ہم اس انگریزی خواں نیم مغربی حامی اسلام کا قول کیسے مانیں جو کہتا ہےکہ بہر کیف حکم تعداد ازواج کو ازقسم نواہی سمجھنا چاہئے۔ مولوی محمد حسین صاحب بھی اس کثرت جماع کے معجزہ کی طرف اشارہ تو کرتے ہیں ،مگر اس کے بیان سے شرماتے ہیں۔آپ داؤداورسلیمان کی کثرت ازواجی کےمذکور کے بعد رقمطرازہیں کہ:

’’ ایسا ہی آنحضرت ﷺ کو سمجھنا چاہئے۔ انبیا میں یہ قوت بطور خرق عادت پائی گئی ہے جس کا عقلی مرہم اس خوف سے بیان نہیں کرتے کہ مخاطبین کےمقول اس کے فہم سے اپنی قاصر ہیں‘‘(صفحہ ۱۹۵)۔

داؤداور سلیمان کی کثرت ازواجی ان کی آہنی شریعت کے خلاف نہ تھی جس کا مذکور آگے آئے گا ۔ حضرت کی کثرت ازواجی شرع اسلام کے خلاف تھی ۔پھر بادشاہوں کا بہت سی عورتوں کو فراہم کرنا یہ قدیم رواج کے موافق تھا۔ لوگ اس کو شان بادشاہی سمجھتے تھے اور اسلامی سلاطین اب تک سمجھتے ہیں۔ ہم اس کو معیوب جانتے ہیں اور داؤد اور سلیمان کی حمایت اس بارے میں کرتے شرماتے ہیں اور ہم کو جرات نہیں کہ ہم اس عیاشی کومعجزہ یا خرق عادت کہیں۔ آگے جو آپ نے یہ کفر بکا ہے کہ آنحضرت نے عالم شباب سے لے پچاس سال تک صرف حضرت خدیجہؓ پر قناعت اختیار کی اور حضرت مسیح سے فی الجملہ مشابہت ثابت کی اور ان کی وفات کے بعد مردانہ قوت طرف توجہ فرمائی اور حضرت داؤد سے مشابہت ظاہر کی اور کہ آنحضرت اوصاف انبیا کے جامع تھے(صفحہ۱۹۶،۱۹۵)۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آنحضرتﷺ ابتدائی عمر سے ہی عشق بازی کرنے لگے تھے اور آپ نے گھر میں شکار کھیلنا شروع کردیاتھا۔ ام ہانی کا قصہ ہم آپ کو سنا چکے ہیں اور اسکے بعد آپ خدیجہؓ کی چاکری کرنےلگے اور بچے جنانا شروع کردئیے۔ ان ایام میں آپ کو شبہ ہو اکہ آپ کاہن ہوگئے ۔انہی ایام میں آپ خود کشی کے درپے ہوئے اور پھر آپ حضرت مسیح کی مشابہت کا دعویٰ کرتے ہیں ۔رہی داؤد کی مشابہت ،کیسی شرم کی بات ہے کہ کوئی خدا کی نافرمانی کرے اور آدم کا مثل نبی قتل کرےاو ر موسیٰ کی نظیربنےجھوٹ بولے اور ا براہیم کا مقلد بنے۔ اس معنی میں حضرت اوصاف انبیا سابقین کے جامع تھے۔تو یہ حق ہے آپ بھول گئے کہ قرآن مجید میں حضرت یحییٰ کے محامد بیان ہوئے ہیں کہ وہ حصور یعنی عورتوں سے پر ہیز کرنے والے ہوں گے( ال عمران رکوع۴)۔ حضرت ان کے او صاف کے جامع کیوں نہ بن سکے ۔ محمداور مشابہت مسیح’’ چہ نسبت خاک رابا عالم پاک ‘‘(چھوٹے کا بڑے سے مقابلہ کیا جانا)۔