فصل شیر دہم

عورات کی حیثیت

اس بے باک مصنف نےاس بارے میں جو غلط بیانیاں اور منہ زور یا ں کیں ہیں اس سے ثابت ہوتاہے کہ اُس نے عورات کی حیثیت اسلام میں یہودیت اور عیسایت سےا فضل ظاہر کرنا چاہی ہے۔ کوئی کلام نہیں کہ اسلام کی حمایت نے ہمارےمخاطب کی آنکھوں پرپردہ ڈال دیا ہے اور اُس کی زبان کو بےلگام کر دیا۔ اب اس کو سفید کو سیاہ اور کھرے کو کھوٹا کہنے میں سرموتامل نہیں رہا۔ وائے بربے انصافی اور ہم کو وہ یہ سناتا ہےاور مہذب دنیا کو اپنے اوپر ہنساتا ہے ۔’’ دین مسیحی نے عورتوں کی شقاوتیں اور ان کی برائیاں اور اُن کی کینہ پروری اور کینہ جوئی پر بہت کچھ لکھا تھا‘‘ (صفحہ۲۱۹)۔ اگر اس قول میں ہم بجائے دین مسیحی کے اسلام اور بجائے قدماءعلماءمسیحی کے محمد اور صحابہ داخل کریں تو یہ لفظاً درست ہوتا ۔ دین مسیحی نے !ہم نکار کےاُس سے اور اُس کےہم خیالوں سے کہتےہیں ۔انجیل مقدس سے کوئی ایک کلمہ تو نکال دو جس میں عورتوں کو’’ ملعون اور مطعون‘‘ کیا گیا ہے یا تم ہم سے سن لو کہ قرآن و حدیث عورتوں کوکس طرح ذلیل کرتے ہیں۔ کثرت ازواجی سے اُن کےدلوں کو جلاتے ہیں۔ اُن کی غیر ت کو کھوتے، ان کی زندگی کو وبال کرتے ہیں طلاق وغیر ہ سے جیسا کہ حضرت امام حسن کا عمل تھا۔ عورتوں کومردوں کے لئے شہوت زنی کا ایک آلہ بنا کر اُن کو دکھاتے ہیں کہ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ۔ پس جاؤاپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو(سورہ بقرہ رکوع ۲۸آیت ۲۵۳)۔شارع اسلام نہ کوئی اور جس کی شر یعت پر آپ ناز کررہے ہیں عورت کو ’’صور ت شیطان ‘‘فرماتے ہیں ۔

صحیح مسلم ۔ جلد دوم ۔ نکاح کا بیان ۔ حدیث ۹۱۴

راوی: عمر بن علی , عبدالاعلی , ہشام بن ابی عبداللہ , ابی زبیر , جابر

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَی امْرَأَةً فَأَتَی امْرَأَتَهُ زَيْنَبَ وَهِيَ تَمْعَسُ مَنِيئَةً لَهَا فَقَضَی حَاجَتَهُ ثُمَّ خَرَجَ إِلَی أَصْحَابِهِ فَقَالَ إِنَّ الْمَرْأَةَ تُقْبِلُ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ وَتُدْبِرُ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ فَإِذَا أَبْصَرَ أَحَدُکُمْ امْرَأَةً فَلْيَأْتِ أَهْلَهُ فَإِنَّ ذَلِکَ يَرُدُّ مَا فِي نَفْسِهِ

عمر بن علی، عبدالاعلی، ہشام بن ابی عبد اللہ، ابی زبیر، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اور وہ اس وقت کھال کو رنگ دے رہی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حاجت پوری فرمائی پھر اپنے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرف تشریف لے گئے تو فرمایا کہ عورت شیطان کی شکل میں سامنے آتی ہے اور شیطانی صورت میں پیٹھ پھیرتی ہے پس جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو دیکھے تو اپنی بیوی کے پاس آئے۔

اور ’’انہیں چھوڑ اپنے اپنے بعد کوئی فتنہ جوزیادہ ضرر پہنچانےوالا ہو مردوں پر عورتوں سے‘‘ ۱۲ ۔پھرحضرت عورت کو ’’شوم ‘‘نجس فرماتے ہیں اور اس کی شومی کی گھوڑی کی شومی میں نظیر ڈھونڈتے ۱۳ ۔ پھر فرماتے ہیں’’ نماز کو قطع کرتے ہیں کتا اور عورت اور گدھا‘‘

سنن ابن ماجہ ۔ جلد اول ۔ اقامت نماز اور اس کا طریقہ ۔ حدیث ۹۵۰

جس چیز کے سامنے سے گز رنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے

راوی: زید بن احزم ابوطالب , معاذ بن ہشام , ہشام , قتادہ , زرارة بن اوفیٰ , سعد بن ہشام , ابوہریرہ

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ أَبُو طَالِبٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَی عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَقْطَعُ الصَّلَاةَ الْمَرْأَةُ وَالْکَلْبُ وَالْحِمَارُ

زید بن احزم ابوطالب، معاذ بن ہشام، ہشام، قتادہ، زرارة بن اوفیٰ، سعد بن ہشام، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا عورت کتا اور گدھا نماز کو توڑ دیتے ہیں ۔

دیکھئے عورت کو کتے اور گدھے کے بیچ میں بٹھا نے سے نہیں شرماتے۔ان کی پلیدی کو قاطع نماز فرماتے ہیں اور انتہا اُس کی یہ ہے کہ جب حضرت نےدوزخ اور بہشت کی سیر فرمائی تو دوزخیوں میں عورتوں کی کثرت دیکھی ۔

جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ جہنم کا بیان ۔ حدیث ۵۰۹

اس بارے میں کہ جہنم میں عورتوں کی اکثریت ہوگی

راوی: احمد بن منیع , اسماعیل بن ابراہیم , ایوب , ابورجاء عطاردی , ابن عباس ما

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي رَجَائٍ الْعُطَارِدِيِّ قَال سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اطَّلَعْتُ فِي الْجَنَّةِ فَرَأَيْتُ أَکْثَرَ أَهْلِهَا الْفُقَرَائَ وَاطَّلَعْتُ فِي النَّارِ فَرَأَيْتُ أَکْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَائَ

احمد بن منیع، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب، ابورجاء عطاردی، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے جنت میں جھانکا تو اس میں غریبوں کو زیادہ دیکھا اور جب دوزخ میں دیکھا تو عورتوں کی اکثریت تھی۔

ا ور فرمایا کہ’’ البتہ براکنین جنت میں عورتیں سب سے کم ہوں گی ‘‘ ۱۴ بلکہ حق یوں ہے کہ نہ صرف حضرت عورت کو’’ صورت شیطان سمجھتے تھے بلکہ مکاری اور فریب کے لحاظ سے وہ عورت کو شیطان سے بڑی بلکہ شیطان کی خالہ جانتے تھی ۔ چنانچہ سورہ نسا(رکوع ۱۰آیت ۷۶) میں آیا ہے کہ الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا ترجمہ: ’’جو مومن ہیں وہ تو خدا کے لئے لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ بتوں کے لئے لڑتے ہیں سو تم شیطان کے مددگاروں سے لڑو۔ (اور ڈرو مت) کیونکہ شیطان کا فریب ضعیف ہے‘‘۔ مگر سورہ یوسف(رکوع۳آیت ۲۸) میں وار د ہوا ہے فَلَمَّا رَأَىٰ قَمِيصَهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِن كَيْدِكُنَّ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ ترجمہ: ’’اور جب اس کا کرتا دیکھا (تو) پیچھے سے پھٹا تھا (تب اس نے زلیخا سے کہا) کہ یہ تمہارا ہی فریب ہے۔ اور کچھ شک نہیں کہ تم عورتوں کے فریب بڑے (بھاری) ہوتے ہیں‘‘ ۔

اور ایک فریب کے واقعہ پر جس سے ان کی عورتوں نے ایک عورت کو حضرت کے ہاتھ نہ لگے دیا حضرت نے اپنی ازواج مطہرات کو اُس کا مصدق بنایا تھا(دیکھو منہاج البنوۃجلد ۳، صفحہ ۸۷۹)۔ہمارا مخاطب اپنے گریبان میں سرنہیں ڈالتااور بغیر سنددین مسیح کو بدنام کرتاہے اور بقول شخصے کوہ کندن وکاہ بر آور دن قدمامین سے ٹرٹولین کےقول کو نقل کرتا ہے اور نہیں جانتا یا نہیں سمجھتا کہ دین مسیحی کی بنیاد انجیل مقدس ہےنہ کہ اقوال ٹر ٹولین وکریساسٹم جن کو متر جم غلطی سے ’’ ایمہ کلیسیا‘‘ کہتا ہے ۔آپ فرماتےہیں’’چنانچہ ٹرٹو لن نے ایک رسالہ قبائح نسواں میں تصنیف کیا تھا اور کریسٹم جسکو عیسائی لوگ ولی سمجھتے ہیں بقول لیکے صاحب مورخ کے متقدمین علمائے انصاری کی رائے عموماً بیان کر دی ہے کہ عورت ایک ایسی بلا ہے جس سے گریز ممکن نہیں ہے اور ایک قدرتی مغوی اور ایک مرغوب آفت اور ایک خانگی فتنہ اور ا یک جنگ صحرادریک رنگین بلا ہے ‘‘۔ پھر بھی یہ حضرت سے کم رہے جن کو مسلمان لوگ سید الانبیاخیر الانام اورکیا کچھ نہیں سمجھتے۔ یہ حضرت ہی کا حصہ تھا کہ عورت کو شوم ونجس، کُتے اور گدھے کی طرح پلید، سب سے مضرفتنہ، شیطان کی خالہ ،شیطان سے بڑھ کر مکار، شیطان کی صورت اور جہنمی اور گویا بجائے رنگین بلا کے کالی فرمائیں۔ آپ اپنے قول کو نقل فرماکر یوں رطب اللسان ہوتے ہیں’’ سبحان اللہ یہ کلمات عورت کی شان میں ایک عیسائی ولی نے اُس زمانہ میں فر مائے ہیں جبکہ ماور حضرت مسیح کی عبادت فرائض دینی میں داخل سمجھے جاتے تھے‘‘۔ ہم کہتے ہیں عیاذاًبااللہ ۔ وہ کلمات عورت کی شان میں مسلمانوں کے خاتم النبیین نے اس زمانہ میں فرمائے ہیں جبکہ بی بی فاطمہ کو خاتون جنت بنانے کی کوشش ہو رہی تھی۔ پھر بھی آپ کہتے ہیں ’’ شارع اسلام نے عورتوں کی عزت کرنے کا حکم قطعی فرمایا ہے‘‘۔ اے حضرت کہاں غالبا آپ سیل صاحب کی غلطی میں دیدہ و دانستہ مبتلا ہو نا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سورہ نساء کے پہلے رکوع میں ایک جملہ کا ترجمہ یہ کردیا ہے(Respect  women) ’’عورتوں کی عزت کرو‘‘۔ اصل مضمون یہ ہے واتقواللّٰہ الذی تسا دلون یہ والا رحام جس کا بہت درست ترجمہ نواب محمد حسین قلی خان صاحب نےاردو ترجمہ اہل تشیعہ میں کیا ہے۔ ’’ ڈرو اُس خدا سے کہ جس کےنام سے اُس میں مانگ جانچ لیتے ہو اور قطع رحم سے ‘‘۔ حسینی میں بھی یہی ہے’’ بپرہیز یداز قطع رحم‘‘ اور عبدالقادر کے ترجمہ میں ہے ’’ خبردار رہو نا تو ان سے‘‘ اور اس کے فائدہ میں ہے’’یعنی بد سلوکی مت کروآ پس میں ‘‘۔پس حضرت قرآن مجید میں سے عورتوں کی عزت تو ایسے اُڑگئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ اور شارع اسلام نے جو جو عورت کے فضائل احادیث میں بیان فرمائے ہیں ۔ اُس سے بےچارے ٹرٹو لین بھی تھراگئے ۔ اب ہم آپ کویہاں سنا ئیں کہ دین مسیحی نےیعنی انجیل مقدس نےعورت کی نسبت کیا بتایا ہے اور اُنکی منزلت کیا مقر ر کی۔

یہ تو آپ نے بھی بڑی خندہ پیشانی سے اپنی انگریزی کتاب میں تسلیم کیا ہے کہ ’’ مسیح نے عورات کے ساتھ انسانیت کا سلوک کیا تھا۔ اُس کے پیروؤں نے انکو انصاف سے خارج کردیا‘‘(صفحہ ۲۰۷)۔ خیر آپ اُن پیروؤں کو معاف فرمادیں اور پیروؤں کے مقتدا کی سنیں یعنی مسیح کی۔ جو سلوک اُنہوں نے عورتوں سے کیا وہی سلوک دین مسیحی کی شرع ہے۔ مگر پیروؤں میں اگر آپ ٹرٹولین سے لوگوں نے جو ہمارے یہاں کے کوئی امام حسن یا صحابہ کرام نہیں اور جن کو ہمارے یہاں کا ولی بتانا گویا ہم کو بد نام کر نا ہے سند پکڑ یں تو یہ بھی آ پ کی خامی ہے۔ حقیقی پیرو مسیح کے اس کےحواری تھے جن کے و سیلہ مسیح کی تعلیم ہم کو پہنچی، اُن پر بھی آپ حر ف نہیں لاسکتے۔ اب آپ عورتوں کی عزت کے بارے میں انجیل کا فرمان سُنیں ۔ ’’۔۔۔عورت کو نازک پیدائش سمجھ کر عزت دو‘‘(۱۔ پطرس ۷:۳)۔ اس سے زیادہ آپ کیاچاہتے ہیں۔’’۔۔۔ عورت مرد کا جلال ہے‘‘( ۱۔کرنتھیوں ۷:۱۱) ۔ آپ بالکل خلاف کہتے ہیں کہ ’’اسلام نے عورتوں کو مواجب و حقوق بخشے اور اُنکو مرد وں کا ہم پا یہ کر دیا‘‘۔ ان کے مواجب و حقوق تو ہم فصل سوم قرآن و تعد د ازواج اور عدل میں بیان کرچکے اور مردوں کے ساتھ مساوات کے بارے میں جو حکم انجیل کا ہے وہ ہم آپ کو سنائے دیتے ہیں۔ ’’۔۔۔خداوند میں نہ عورت مرد کے بغیر ہے نہ مرد عورت کے بغیر کیونکہ جیسےعورت مرد سے ہے ویسے ہی مرد بھی عورت کے وسیلہ سے ہے مگر سب چیزیں خدا کی طرف سے ہیں‘‘ (۱۔کرنتھیوں ۱۲،۱۱:۱۱) ۔شوہر جورو کا حق جیسا چاہئے ادا کرےاور ویسا ہی جورو شوہر کا جو رواپنے بدن کی مختار نہیں بلکہ شوہر مختار ہے۔ اس طرح شوہر بھی اپنے بدن کا مختار نہیں بلکہ جوروہے (۱۔کرنتھیوں ۴،۳:۷)۔’’ مواجب اور حقوق ‘‘ انہیں کہتے ہیں۔ آپ ہم کواب اس کے مقابل میں کوئی شریعت اسلامی بھی سنائیں آخر آپکو اسلام اور عیسویت کی تعلیم کے اثر کو جسے آپ دہم اپنی آنکھوں سے مشاہد ہ کررہے ہیں دیکھ کر یہ اتنا ہی پڑا کہ’’ جو حیثیت عیسائی عورات کی اس وقت ہے اسلامی عورات ایک صدی میں اس حیثیت کو حاصل کریں گی‘‘(انگریزی، صفحہ۳۶۲)۔ہنوز دلّی دور است پہلے اسلامی مرد اپنی ملی و دیگر حیثیتیں درست کر لیں تب یہ سبز باغ عورات کو دکھائیں۔ہاں اگر ۔۔۔ ایک صدی میں اسلام نہ ر ہے اور اس پر وہ اثر پڑ جائے جو آپ پر پڑا ہے تو بے شک ہے یہ سننے کو بھی تیار ہو جاتے۔اسلام اپنی اصلاح اسلام سے مخالفت کر کے سکتا ہے۔ برخلاف دین عیسوی کے کہ جہاں تک اس کی پیروی کی جائے،جہاں تک اس کے احکام کو مانا جائے اصلاح ہوتی جاتی ہے کیونکہ وہ دین اصلاح کا منبع ہے۔جو مسیح کی سنے گا وہ عورت کی عزت کرے گا،جو محمد کی سنے گا وہ عورت کو’’فتنہ ،پلیدگی‘‘اور’’ صورت شیطان‘‘ اور ’’مکار ‘‘مانے گا۔تو کیا ایک صدی کے بعد محمد صاحب کی کوئی نہ سنے گا۔ہاں اگر ایسی امید ہے تو ہم بھی تمہارے ساتھ امید کرتے ہیں۔ فا تنظر وا انیّ معکم من المنتظرین۔ 

تَمّتَ

اعلان

جناب ڈاکٹر احمد شاہ صاحب شائق ولایت تشریف لے گئے ہیں۔بوجوہ چند در چند کتاب کی تیاری میں برابر دیر ہوتی رہی حتیٰ کہ اس کی اشاعت ان کے سامنے نہ ہو سکی۔لہٰذا انہوں نے ہندوستان میں اس کتاب کی اشاعت کے واسطے مجھ کو اپنی طرف سے ایجنٹ مقرر کر دیا ہےجس خدمت کو میں نے خوشی سے قبول کیا۔آئندہ کو اس کتاب کے متعلق درخواستیں اور ہر قسم کے خطوط وغیرہ میرے نام اس پتہ پر آنےچاہیئں۔

پنڈت پرشو تم داس،دفتر کرسچن ایڈووکیٹ،گوجرانوالہ پنجاب۔ کتاب شہادت قرآنی بجواب رسالہ عصمت انبیا جس کا ذکر شروع کتاب میں آیا ہے عنقریب شائع ہونے والی ہے۔محمدی واعظین و مناظرین کو رسالہ امہات مومنین اخیر ماہ اپریل ۱۸۹۸ء تک بلا قیمت ملے گا۔

الراقم پنڈت پرشو تم داس

جنوری۱۸۹۸ء


۱۲. مسلم اور بخاری ایضاًنمبر۸۹۱۔

۱۳. مسلم اور بخاری ایضاً نمبر۱۲۹۵۔

۱۴. مسلم ایضاً نمبر۳۲۰۔